#احمد علی راغب
Explore tagged Tumblr posts
Text
نت سنتور آهنگ آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو
نت سنتور آهنگ آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو
نت دونی , نت سنتور , نت متوسط سنتور , نت سنتور احمد علی راغب , notdoni , نت های سنتور احمد علی راغب , نت های سنتور , سنتور , احمد علی راغب , نت احمد علی راغب , نت های احمد علی راغب , نت های گروه نت دونی , نت های متوسط سنتور , نت سنتور متوسط
پیش نمایش نت سنتور آهنگ آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو
نت سنتور آهنگ آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو
دانلود نت سنتور آهنگ آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو
خرید نت سنتور آهنگ آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو
جهت خرید نت سنتور آهنگ آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو روی لینک زیر کلیک کنید
نت سنتور آهنگ آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو
نت سنتور آهنگ آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو
قطعه ای مناسب اجرا در مراسمات دهه فجر و 22 بهمن مناسب سنتور
آهنگساز : احمد علی راغب
تنظیم کننده نت سنتور : گروه نت دونی
نکته : جهت سادگی هرچه بیشتر در اجرای نت های سنتور متن آهنگ زیر نت های سنتور نوشته شده است که نوازندگان تازه کار سنتور بتوانند به سادگی این نت را اجرا کنند.
نسخه های دیگر نت سنتور آمریکا آمریکا برای ساز های دیگر را می توانید از طریق لینک های زیر دریافت کنید.
نت پیانو آمریکا آمریکا
نت کیبورد آمریکا آمریکا
نت ویولن آمریکا آمریکا
نت گیتار آمریکا آمریکا
نت ترومپت آمریکا آمریکا
نت ترمبون آمریکا آمریکا
نت سنتور آمریکا آمریکا
نت کلارینت آمریکا آمریکا
نت هارمونیکا آمریکا آمریکا
نت ملودیکا آمریکا آمریکا
نت فلوت ریکوردر آمریکا آمریکا
نت سه تار آمریکا آمریکا
نت ساکسیفون آمریکا آمریکا
نت کالیمبا آمریکا آمریکا
متن سرود آمریکا آمریکا آمريكا آمريكا ننگ به نيرنگ تو خون جوانان ما مي چكد از چنگ تو اي ز شراره ستم شعله به عالم زده امن و امان جهان يكسره بر هم زده بر سر هر خرمني در د ل هر گلشني آتش بيداد تو صاعقه غم زده ثروت انبوه تو خون دل توده هاست كين تو بر سينه ها دشنه ماتم زده دزد جهان خواره اي ديو ستم پاره اي عقرب جراه اي روبه مكاره اي جور و جفا در تو هست مهر و وفا در تو نيست زهر بلا در تو هست شهد صفا در تو نيست در همه دور زمان چون تو ستم كاره نيست عامل هر فتنه اي صلح و صفا در تو نيست آمريكا آمريكا ننگ به نيرنگ تو خون جوانان ما مي چكد از چنگ تو در همه گيتي به پاست نائره جنگ تو گوش جهان خسته طبل بد آهنگ تو مظهر شيطان تو يي دشمن انسان تويي ��ي همه اهريمني سرحد فرهنگ تو رسم تو عصيانگري كار تو ويرانگري تيره شده عالم از حيله و نيرنگ تو دشمن هر ملتي موجب هر ذلتي سايه هر وحشتي فتنه هر امتي جور و جفا در تو هست مهر و وفا در تو نيست زهر بلا در تو هست شهد صفا در تو نيست در همه دور زمان چون تو ستم كاره نيست عامل هر فتنه اي صلح و صفا در تو نيست آمريكا آمريكا ننگ به نيرنگ تو خون جوانان ما مي چكد از چنگ تو
----
سنتور بر پایهٔ بررسیها و پژوهشها یکی از کهنترین سازهای گستره ایران بهشمار میرود؛ کهنترین نشانهای که از این ساز برجامانده، از سنگتراشیهای آشور و بابلیان (۵۵۹پیش از میلاد) است. در این سنگتراشیها، صف تشریفاتی که به بزرگداشت آشور بانیپال بر پا شده، سازی که همانندی زیادی به سنتور دستورزی دارد، در میان آن صف دیده میشود.
کلمات کلیدی : نت سنتور آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو , نت آهنگ آمریکا آمریکا برای سنتور , سایت خرید نت انقلابی آمریکا آمریکا , خرید نت آهنگ آمریکا آمریکا , سایت نت های انقلابی , سایت خرید نت آهنگ های انقلابی برای سنتور , نت اهنگ های انقلابی بریای ساز سنتور
کلمات کلیدی : نت دونی , نت سنتور , نت متوسط سنتور , نت سنتور احمد علی راغب , notdoni , نت های سنتور احمد علی راغب , نت های سنتور , سنتور , احمد علی راغب , نت احمد علی راغب , نت های احمد علی راغب , نت های گروه نت دونی , نت های متوسط سنتور , نت سنتور متوسط
#نت دونی#نت سنتور#نت متوسط سنتور#نت سنتور احمد علی راغب#notdoni#نت های سنتور احمد علی راغب#نت های سنتور#سنتور#احمد علی راغب#نت احمد علی راغب#نت های احمد علی راغب#نت های گروه نت دونی#نت های متوسط سنتور#نت سنتور متوسط
0 notes
Text
آج سر سید احمد خان کا یوم پیدائش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرسید احمد خاں برصغیرمیں مسلم نشاط ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے اور انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا.
سر سید احمد خان انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انہیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی. آپ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔
" سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اسوقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے ۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ ..... وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان " سائیس ،خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ ... سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِدوجُہد کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔
سرسید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آباؤ اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل كی. ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاك كا مطالعہ كیا اور عربی اور فارسی ادب كا مطالعہ بھی كیا۔ اس كے علاوہ آپ نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل كی.جریدے Sayyad القرآن اکبر کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان کے بڑے بھائی نے شہر کے سب سے پہلے پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی.
سر سید نے کئی سال کے لئے ادویات کا مطالعہ کی پیروی کی لیکن اس نے کورس مکمل نہیں ہے.
ابتدائی تعلیم حاصل كرنے كے بعد آپ نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی كام سیكھا۔ 1837ء میں آگرہ میں كمیشنر كے دفتر میں بطور نائب منشی فرائض سنبھالے۔ 1841ئ اور 1842ئ میں مین پوری اور 1842ء اور1846ء تك فتح پور سیكری میں سركاری خدمات سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی كرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام كے دوران آپ نے اپنی مشہور كتاب " آثار الصنادید" 1847ء میں لكھی۔ 1857ئ میں آپ كا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام كے دوران آپ نے اپنی " كتاب سركشی ضلع بجنور" لكھی۔ جنگ آزادی كے دوران آپ بجنور میں قیام پذیر تھے۔ اس كٹھن وقت میں آپ نے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں اوربچوں كی جانیں بچائیں۔آپ نے یہ كام انسانی ہمدردی كیلئے ادا كیا۔ جنگ آزادی كے بعد آپ كو آپ كی خدمات كے عوض انعام دینے كیلئے ایك جاگیر كی پیشكش ہوئی جسے آپ نے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔
1857ء میں آپ كو ترقی دے كر صدر الصدور بنا دیا گیا اور آپ كی تعیناتی مراد آباد كر دی گئی۔ 1862ء میں آپ كا تبادلہ غازی پور ہو گیا اور 1867ء میں آپ بنارس میں تعینات ہوئے۔
1877ء میں آپ كو امپیریل كونسل كا ركن نامزد كیا گیا۔ 1888ء میں آپ كو سر كا خطاب دیا گیا اور 1889ء میں انگلستان كی یونیورسٹی اڈنبرا نے آپ كو ایل ایل ڈی كی اعزازی ڈگری دی۔ 1864ء میں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ علی گڑھ گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا۔ انگلستان سے واپسی پر 1870ء میں رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس میں مضامین سرسید نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔ اورادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے۔ 1887ء میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اوراپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کریا۔
۔ 1859 ء میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گیے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں Tatler اور Spectator کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ آپ نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ (علیگڑھ تحریک)۔۔۔۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی۔
آپ نے 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں وفات پائی اور اپنے محبوب کالج کی مسجد میں دفن ہوئے۔ سرسید کی تمام زندگی قوم و ادب کی خدمت میں گزری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سید کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخیر میں ۔ ۔ ۔ انہوں نے دربار کو جانا کم کردیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو ، باوجودیکہ ان کی عمر کم تھی ، دلوانا شروع کردیا تھا۔ سرسید کہتے تھے کہ:
" ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اُٹھ کر قلعہ چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اُٹھا ۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہوگئی ۔ جب لال پردہ کے قریب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول دربار میں جا کر آداب بجا لانے کا وقت نہیں رہا تھا ۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اُٹھ کر ہوادار پر سوار ہوچکے تھے۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد سے ، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہی تھے ، پوچھا کہ " تمہارا بیٹا ہے؟" انہوں نے کہا، "حضور کا خانہ زاد! " بادشاہ چپکے ہو رہے۔ لوگوں نے جانا بس اب محل میں چلے جائیں گے ، مگر جب تسبیح خانہ میں پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ تسبیح خانہ میں بھی ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی دربار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترہ پر بیٹھ گئے اور جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتئ جواہر حاضر کرنے کا حکم ہوا۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ بادشاہ نے مجھے اہنے سامنے بلایا اور کمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ " دیر کیوں کی؟" حاضرین نے کہا ، " عرض کرو کہ تقصیر ہوئی " مگر میں چپکا کھڑا رہا۔ جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ " سو گیا تھا! " بادشاہ مسکرائے اور فرمایا، " بہت سویرے اُٹھا کرو! " اور ہاتھ چھوڑ دئیے ۔ لوگوں نے کہا، " آداب بجا لاؤ! " میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے پہنائیں۔ میں نے نذر دی اور بادشاہ اُٹھ کر خاصی ڈیوڑھی سے محل میں چلے گئے۔ تمام درباری میرے والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانہ میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہوگی
۔۔۔
1855 ء میں سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف "آئین اکبری" کی تصحیح کرکے اسے دوبارہ شائع کیا۔ مر��ا غالب نے اس پر فارسی میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھا ۔ اس میں انہو ں نے سر سید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخرکرکے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی ، جو اگر مسلمان اختیار کرلیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا ،مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کردیا۔
دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے ۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سرسید نے اس کو قصدا ً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔
سر سید کہتے تھے کہ :
" جب میں مرادآباد میں تھا ، اس وقت مرزا صاحب، نواب یوسف علی خاں مرحوم سے ملنے کو رام پور گئے تھے۔ ان کے جانے کی تو مجھے خبر نہیں ہوئی مگر جب دلی کو واپس جاتے تھے ، میں نے سنا کہ وہ مرادآباد میں سرائے میں آکر ٹھہرے ہیں ۔ میں فورا سرائے میں پہنچا اور مرزا صاحب کو مع اسباب اور تمام ہم راہیوں کے اپنے مکان پر لے آیا۔"
ظاہراً جب سے کہ سر سید نے تقریظ کے چھاپنے سے انکار کیا تھا وہ مرزا سے اور مرزا ان سے نہیں ملے تھے اور دونوں کو حجاب دامن گیر ہو گیا تھا اور اسی لئے مرزا نے مرادآباد میں آنے کی ان کو اطلاع نہیں دی تھی۔ الغرض جب مرزا سرائے سے سرسید کے مکان پر پہنچے اور پالکی سے اُترے تو ایک بوتل ان کے ہاتھ میں تھی انہوں نے اس کو مکان میں لا کر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں ہر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی ۔ سر سید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اُٹھا کر اسباب کی کوٹھڑی میں رکھ دیا ۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا توبہت گھبرائے ، سرسید نے کہا:
" آپ خاطر جمع رکھئے ، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے۔"
مرزا صاحب نے کہا، " بھئی مجھے دکھا دو ، تم نے کہاں رکھی ہے؟" انہوں نے کوٹھڑی میں لے جا کر بوتل دکھا دی ۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے بوتل اُٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہنے لگے کہ، " بھئی ! اس میں تو کچھ خیانت ہوئی ہے۔ سچ بتاؤ، کس نے پی ہے ، شاید اسی لئے تم نے کوٹھڑی میں لا کر رکھی تھی، حافظ نے سچ کہا ہے:
واعظاں کایں جلوہ در محراب و منبر میکنند چوں بخلوت میروند آں کارِ دیگر میکنند
سرسید ہنس کے چُپ ہورہے اور اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی ، رفع ہوگئی ، میرزا دو ایک دن وہاں ٹھہر کر دلی چلے آئے
۔۔۔۔
تصانیف
۔۔۔۔۔
آثار الصنادید
خطبات احمدیہ
الکلام
سفرنامہ لندن
تاریخ بجنور
۔۔۔۔۔۔
سرسید كا نقطہ نظر تھا كہ مسلم قوم كی ترقی كی راہ تعلیم كی مدد سے ہی ہموار كی جا سكتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ وہ جدید تعلیم حاصل كریں اوار دوسری اقوام كے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلكہ مسلمانوں كے لیے جدید علوم كے حصول كی سہولتیں بھی فراہم كرنے كی پوری كوشش كی۔ انہوںنے سائنس٬ جدید ادب اور معاشرتی علوم كی طرف مسلمانوں كو راغب كیا۔ انہوںنے انگریزی كی تعلیم كو مسلمانوں كی كامیابی كے لیے زینہ قرار دیا تاكہ وہ ہندوئوں كے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل كر سكیں۔
1859 میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ئ میں غازی پور میں مدرسے قائم كیے۔ ان مدرسو ں میں فارسی كے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے كا بندوبست بھی كیا گیا۔
1875ء میں انہوں نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی سكول كی بنیاد ركھی جو بعد ازاں ایم ۔اے۔ او كالج اور آپ كی وفات كے بعد 1920ء میں یونیورسٹی كا درجہ اختیار كر گیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ كی خدمات حاصل كیں۔
1863ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفك سوسائٹی كے نام سے ایك ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے كے قیام كا مقصد مغربی زبانوں میں لكھی گئیں كتب كے اردو تراجم كرانا تھا۔ بعد ازاں 1876ء میں سوسائٹی كے دفاتر علی گڑھ میں منتقل كر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل كو انگریزی زبان سیكھنے كی ترغیب دی تاكہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سكے۔ یوں دیھکتے ہی دیكھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم كا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی كی خدمات كی بدولت اردو زبان كو بہت ترقی نصیب ہوئ ۔
1886ئ میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے نام سے ایك ادارے كی گنیاد ركھی گئی۔ مسلم قوم كی تعلیمی ضرورتون كے لیے قوم كی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور كانفرنس كی كاركردگی سے متاثر ہو كر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں كا آغاز كیا۔ لاہور میں اسلامیہ كالج كراچی میں سندھ مسلم مدرسہ٬ پشاور میں اسلامیہ كالج اور كانپور میں حلیم كالج كی بنیاد ركھی۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس مسلمانوں كے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق كے تحفظ كے لیے بھی كوشاں رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید نے زیادہ زور جدید تعلیم پر دیا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ جدید تعلیم کے بغیر مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہے۔ سر سید کی دوربیں نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی نے جو رخ اختیار کر لیا ہے اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس میں رکاوٹ پیدا کر کے اس کی رفتار کو بھی روکا نہیں جا سکتا بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے تمام تر توجہ جدید تعلیم کے فروغ پر مرکوز کر دی۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد ہی اپنے ہم وطنوں کو جدید علوم سے روشناس کرانا تھا۔[4] اس سوسائٹی کے جلسوں میں جس میں نئے نئے سائنسی مضامین پر لیکچر ہوتے اور آلات کے ذریعہ تجربے بھی کیے جاتے، کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں کو بتایا جا سکے کہ بنا جدید علوم خاص طور پرسائنس کے میدان میں ترقی نہیں کی جا سکتی اور اسی لیے سائنٹفک سوسائٹی نے جن دو درجن کتابوں کا ترجمہ کرایا ان میں چند کو چھوڑ کر زیادہ تر ریاضی اورسائنس سے متعلق تھیں۔ سر سید احمد خاں کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ یورپ جس راستے پر جا رہا ہے اور جو تعلیم حاصل کر رہا ہے وہی راستا اور تعلیم مستقبل کی ترقی کی گارنٹی ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ درسگاہیں کیسی ہیں اور ان کا نظام تعلیم کیا ہے؟ اس لیے وہ خود انگلستان گئے، وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھا، تعلیمی اداروں میں رہے، اساتذہ سے ملاقاتیں کیں اور اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ انگلستان کی ہر چیز نے ان کو متاثر کیا۔[4] انہوں نے کہا:[5] ” میں نے صرف اس خیال سے کہ کیا راہ ہے جس سے قوم کی حالت درست ہو، دور دراز سفر اختیار کیا اور بہت کچھ دیکھا جو دیکھنے کے لائق تھا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب میں نے کوئی عمدہ چیز دیکھی، جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جب کبھی علمی مجلسیں دیکھیں، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے، جب کبھی کھیل کود، عیش و آرام کے جلسے دیکھے، یہاں تک کہ جب کبھی کسی خوب صورت شخص کو دیکھا مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں، جہاں تک ہو سکا ہر موقع پر میں نے قومی ترقی کی تدبیروں پر غور کیا سب سے اول یہی تدبیر سوجھی کہ قوم کے لیے قوم ہی کے ہاتھ سے ایک مدرسہ العلوم قائم کیا جائے جس کی بنا آ پ کے شہر میں اور آپ کے زیر سایہ پڑی۔ “
۔۔۔
سرسید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلا راجہ رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ لیکن سب سے بڑا واقعہ سکوت دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یار دعمل تو مایوسی ، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پارہا تھا ۔ اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ ابتداءمیں سرسیداحمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لئے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندو��وں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہوگئے۔ اس مقصد کے لئے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔ 1869 ءمیں سرسید احمد خان کوانگلستان جانے کا موقع ملا اس یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر ، اور گارڈین سے متاثر ہو کر ۔ سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لئے اسی قسم کااخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجراءاس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں. علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی.
سر سید احمد خاں نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی داغ بیل ڈالی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا:
” میں ہندوستانیوں کی ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل ہونے کی قدرت ہو جائے، اگرگورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔ “
ا س تحریك كے دیگر قائدین میں سے محسن الملك٬ وقار الملك٬ مولانا شبلی نعمانی٬ مولانا الطاف حسین حالی٬ اور مولانا چراغ علی خاص طور پر قابل ذكر ہیں۔ ان لوگوں نے وہ كارہائے نمایاں انجام دیے كہ آنے والی مسلم نسلیں ان كی جتین بھی قدر كریں كم ہے۔ سرسید اور ان كے ساتھیوں نے علی گڑھ تحریك كو ایك ہمہ گیر اور جامع تحریك بنا دیا۔ یوں مسلمانوں كی نشاۃ الثانیہ كا آغازہوا۔
۔۔۔۔۔۔
1857ءكی جنگ آزادی كی تمام تر ذمہ داری انگریزوں نے مسلمانوں پر ڈال دی تھی اور انہیں سزا دینے كے لئے ان كے خلاف نہایت ظالمانہ اقدامات كئے گئے ہندو جو كہ جنگ آزادی میں برابر كے شریك تھے۔ انہیں بالكل كچھ نہ كہا گیا۔ انگریز كی اس پالیسی كی وجہ سے مسلمان معاشرتی طور پر تباہ ہو گئے اور ان معاشی حالت ابتر ہو گئی انگریزوں نے فارسی كی بجائے جو كہ مسلمانوں كی زبان تھی۔ انگریزی كو سركاری زبان كا درجہ دے دیا تھا۔ مسلمان كسی صورت بھی انگریزی زبان سیكھنے پر رضا مند نہ تھے، دوسری طرف ہندووٕں نے فوری طور پر انگریزی زبان كو اپنا لیا تھا اور اس طرح تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نكل گئے۔
ان اقدامات نے مسلمانوں كی معاشی اور معاشرتی حالت كو بہت متاثر كیا تھا مسلمان جو كبھی ہندوستان كے حكمران تھے، ادب ادنیٰ درجے كے شہری تھے۔ جنہیں ان كے تمام حقوق سے محروم كر دیا گیا تھا۔
سرسید احمد خان مسلمانوں كی ابتر حالت اور معاشی بدحالی كو دیكھ كر بہت كڑھتے تھے آپ مسلمانوں كو زندگی كے باعزت مقام پر دیكھنا چاہتے تھے اور انہیں ان كا جائز مقام دلانے كے خواہاں تھے۔ آپ نے مسلمانوں كی راہنمائی كا ارادہ كیا اور انہیں زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل كرنے كے لئے جدوجہد كی تلقین كی۔
سرسید احمد خان نے یہ محسوس كر لیا تھا كہ ہندوستان كے مسلمانوں كی موجودہ حالت كی زیادہ ذمہ داری خود مسلمانوں كے انتہا پسند رویے كی وجہ سے ہے۔ ہندوستان كے مسلمان انگریز كو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور انگریزی تعلیم سیكھنا اپنے مذہب كے خلاف تصور كرتے تھے۔ مسلمانوں كے اس رویے كی وجہ سے انگریزوں اور مسلمانوں كے درمیان ایك خلیج حائل رہی، سرسید احمد خان نے یہ محسوس كر لیا تھا كہ جب تك مسلمان انگریزی تعلیم اور انگریزوں كے متعلق اپنا رویہ تبدیل نہ كریں گے ان كی حالت بہتر نہ ہو سكے گی اور وہ تعلیمی میدان میں ہمیشہ ہندووٕں سے پیچھے رہیں گے۔ آپ نے مسلمانوں كو یہ تلقین كی كہ وہ انگریزوں كے متعلق اپنا رویہ بدلیں كیونكہ انگریز ملك كے حكمران ہیں۔ آپ نے اپنی تحریك كا آغاز مسلمانوں اور انگریزوں كے درمیان غلط فہمی كی فضا كو ختم كرنے سے كیا۔
۔۔۔۔۔۔
سرسید احمد خان یہ سمجھتے تھے كہ مسلمانوں كی موجودہ بدحالی كا سب سے بڑا سبب مسلمانوں كا انگریزی علوم سے بے بہرہ ہونا ہے۔ آپ یہ سمجھتے تھے كہ مسلمانوں كو انگریزی زبان اور تہذیب سے نفرت كا رویہ ترك كر كے مفاہمت كا راستہ اختیار كرنا چاہئے۔ دوسری طرف ہندو جدید تعلیم حاصل كر كے تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نكل گئے تھے اور اعلیٰ ملازمتیں حاصل كر لی تھیں۔ آپ نے مسلمانوں كو اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے كی تلقین كی اور انہیں یہ باور كرایا كہ جب تك وہ اپنا انتہا پسند رویہ ترك كر كے انگریزی علوم نہیں سیكھیں گے وہ كسی طرح بھی اپنی موجودہ بدحالی پر قابو نہ پا سكیں گے۔ آپ نے قرآن پاك كے حوالے دے كر مسلمانوں كو یہ سمجھایا كہ انگریزی علوم سیكھنا اسلام كے خلاف نہیں ہے آپ نے انتہا پسند عناصر سے مسلمانوں كو خبردار كیا۔ مسلمانوں كی تعلیمی بہتری كے لئے آپ نے متعدد اقدامات كئے۔
1859ء میں مراد آباد كے مقام پر ایك مدرسہ قائم كیا گیا جہاں فارسی كی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس مدرسے میں انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ 1863ئ میں غازی پور میں سائنٹیفك سوسائٹی قائم كی گئی جس كا مقصد انگریزی علوم كو اردو اور فارسی میں ترجمہ كرنا تھا تاكہ ہندوستانی عوام جدید علوم سے استفادہ كرسكیں۔ 1866ئ میں سائنٹیفك سوسائٹی كے زیر اہتمام ایك اخبارجاری كیا گیا جسے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ كہا جاتا ہے یہ اخبار اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع كیا جاتا تھا۔ اس اخبار كے ذریعے انگریزوں كو مسلمانوں كے جذبات سے آگاہ كیا جاتا تھا۔
1869ء میں آپ كے بیٹے سید محمود كو حكومت كی طرف سے اعلیٰ تعلیم كے لئے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے كے ہمراہ انگلستان چلے گئے۔ وہاں جا كر آپ نے آكسفورڈ اور كیمبرج یونیورسٹیوں كے نظام تعلیم كا مشاہدہ كیا۔ آپ ان یونیورسٹیوں كے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے اور یہ ارادہ كیا كہ ہندوستان جا كر ان یونیورسٹیوں كی طرز كا ایك كالج قائم كریں گے۔
آپ انگلستان سے 1870ء میں واپس آئے اور [[ہندوستان] میں انجمن ترقی مسلمانان ہند كے نام سے ایك ادارہ قائم كیا جس كا مقصد مسلمانوں كو جدید تعلیم سے روشناس كرانا تھا۔ 1870ءمیں آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق لكھا جس میں آپ نے مسلمانوں كے ان معاشرتی پہلووٕں كی نشاندہی كی جن كی اصلاح كرنا مقصود تھی اور مسلمانوں كو تلقین كی كہ وہ اپنے ان پہلووٕں كی فوری اصلاح كریں۔
۔۔۔۔۔۔
انگلستان سے واپسی پر آپ نے مسلمانوں كی تعلیمی ترقی كے لئے ایك كمیٹی قائم كر دی جس نے اعلیٰ تعلیم كے لئے ایك كالج كے قیام كے لئے كام شروع كیا۔ اس كمیٹی كو محمڈن كالج كمیٹی كہا جاتا ہے۔ كمیٹی نے ایك فنڈ كمیٹی قائم كی جس نے ملك كے طول و عرض سے كالج كے لئے چندہ اكٹھا كیا۔ حكومت سے بھی امداد كی درخواست كی گئی۔
1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی سكول قائم كیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم ��ڑھانے كا بندوبست كیا گیا۔ 1877ء میں اس اسكول كو كالج كا ��رجہ دے دیا گیا جس كا افتتاح لارڈ لٹن نے كیا۔ یہ كالج رہائشی كالج تھا اور یہاں پر تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ سرسید كی یہ دلی خواہش تھی كہ اس كالج كو یونیورسٹی كا درجہ دلا دیں۔ یہ كالج سرسید كی وفات كے بعد 1920ء میں یونیورسٹی بن گیا یہاں سے فارغ التحصیل طلباءنے آگے چل كر تحریك پاكستان میں نمایاں كردار ادا كیا۔
۔۔۔۔
سرسید احمد خان نے 27دسمبر 1886ء كو محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كی بنیاد ركھی اس كانفرنس كا بنیادی مقصد مسلمانوں كی تعلیمی ترقی كے لئے اقدامات كرنا تھا۔ اس كا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ كانفرنس نے تعلیم كی اشاعت كے لئے مختلف مقامات پر جلسے كئے۔ہر شہر اور قصبے میں اس كی ذیلی كمیٹیاں قائم كی گئیں۔ اس كانفرنس كی كوششوں سے مسلمانوں كے اندر تعلیمی جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔ اس كانفرنس نے ملك كے ہر حصے میں اجلاس منعقد كئے اور مسلمانوں كو جدید تعلیم كی اہمیت سے روشناس كرایا۔ اس كانفرنس كے سربراہوں میں نواب محسن الملك، نواب وقار الملك، مولانا شبلی اور مولانا حالی جیسی ہستیاں شامل تھیں۔
محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كا سالانہ جلسہ مختلف شہروں میں ہوتا تھا۔ جہاں مقامی مسلمانوں سے مل كر تعلیمی ترقی كے اقدامات پر غور كیا جاتا تھا اور مسلمانوں كے تجارتی، تعلیمی، صنعتی اور زراعتی مسائل پر غور كیا جاتا تھا۔[7]
آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام بھی 1906ء میں محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے موقع پر ڈھاكہ كے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے موقع پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خاں كی دعوت پر ایك خصوصی اجلاس میں شركت كی۔ اجلاس میں فیصلہ كیا گیا كہ مسلمانوں كی سیاسی راہنمائی كے لیے ایك سیاسی جماعت تشكیل دی جائے۔ یاد رہے كہ سرسید نے مسلمانوں كو سیاست سے دور رہنے كا مشورہ دیا تھا۔ لیكن بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقار الملك نے كی۔ ننواب محسن الملك، مولانامحمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، حكیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہلا صدر سر آغا خان كو چنا گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن برانچ كا صدر سید امیر علی كو بنایا گیا۔
۔۔۔
1857 ءکی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محسوس کرنا شروع کردیا تھا کہ سیاسی بیداری اور عام ہوتے ہوئے شعور کے نتیجہ میں دونوں قوموں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ مولانا حالی نے حیات جاوید میں سرسید کے حوالے سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے ان کے خیال میں سرسید احمد نے 1867 ء میں ہی اردو ہندی تنازعہ کے پیش نظر مسلمانوں اور ہندوؤں کے علیحدہ ہوجانے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ انہوں نے اس کا ذکر ایک برطانوی افسر سے کیا تھا کہ دونوں قوموں میں لسانی خلیج وسیع ترہوتی جارہی ہے۔ اور ایک متحدہ قومیت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ اور آگے چل کر مسلمانوں ار ہندوؤں کی راہیں جدا ہوجائیں گی۔[8]
اردو زبان كی ترقی و ترویج كا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور بہ زبان جلد ہی ترقی كی منزلیں طے كرتی ہوئی ہندوستان كے مسلمانوں كی زبان بن گئی۔ اردو كئی زبانوں كے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لئے اسے لشكری زبان بھی كہا جاتا ہے۔ اس كی ترقی میں مسلمانوں كے ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت كام كیا ہے سرسید احمد خان نے بھی اردو كی ترویج و ترقی میں نمایاں كام كیا لیكن چونكہ ہندو فطری طور پر اس چیز سے نفرت كرتا تھا جس سے مسلمانوں كی تہذیب و تمدن اور ثقافت وابستہ ہو لہٰذا ہندووٕں نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی۔
1867ء میں بنارس كے چیدہ چیدہ ہندو رہنماوٕں نے مطالبہ كیا كہ سركاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی كو یكسر ختم كر دیا جائے اور اس كی جگہ ہندی كو سركاری زبان كے طور پر رائج كیا جائے۔ ہندووٕں كے اس مطالبے سے سرسید احمد خان پر ہندووٕں كا تعصب عیاں ہو گیا اور انہیں ہندو مسلم اتحاد كے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے اس موقع پر آپ نے فرمایا كہ :
٫٫ مجھے یقین ہو گیا ہے كہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایك قوم كے كبھی نہیں ایك دوسرے كے ساتھ مل كر نہیں رہ سكتے۔٬٬
سرسید احمد خان نے ہندووٕں كی اردو زبان كی مخالفت كے پیش نظر اردو كے تحفظ كے لئے اقدامات كرنیكا ارادہ كیا1867ء میں آپ نے حكومت سے مطالبہ كیا كہ ایك ٫٫ دار الترجمہ٬٬ قائم كیا جائے تاكہ یونیورسٹی كے طلبائ كیلئے كتابوں كا اردو ترجمہ كیا جا سكے ہندووٕں نے سرسید احمد خان كے اس مطالبے كی شدت سے مخالفت كی لیكن آپ نے تحفظ اردو كے لئے ہندووٕں كا خوب مقابلہ كیا۔ آپ نے الٰہ آباد میں ایك تنظیم سنٹرل ایسوسی ایشن قائم كی اورسائنٹیفك سوسائٹی كے ذریعے اردو كی حفاظت كا بخوبی بندوبست كیا۔
ہندووٕں نےاردو كی مخالفت میں اپنی تحریك كو جاری ركھا۔1817ء میں بنگال كے لیفٹیننٹ گورنر كیمبل نے اردو كو نصابی كتب سے خارج كرنے كا حكم دیا۔ ہندووٕں كی تحریك كی وجہ سے 1900ء میں یو پی كے بدنام زمانہ گورنر انٹونی میكڈانلڈ نے احكامات جاری كئے كہ دفاتر میں اردو كی بجائے ہندی كو بطور سركاری زبان استعمال كیا جائے۔
اس حكم كے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہوا۔ 13مئی 1900 ء كو علی گڑھ میں نواب محسن الملك نے ایك جلسے سے خطاب كرتے ہوئے حكومت كے اقدام پر سخت نكتہ چینی كی۔ نواب محسن الملك نے اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم كی جس كے تحت ملك میں مختلف مقامات پر اردو كی حمایت میں جلسے كئے گئے اور حكومت كے خلاف سخت غصے كا اظہار كیا گیا۔ اردو كی حفاظت كے لئے علی گڑھ كے طلبائ نے پرجوش مظاہرے كئے جس كی بنائ پر گونر میكڈانلڈ كی جانب سے نواب محسن الملك كو یہ دھمكی دی گئی كہ كالج كی سركاری گرانٹ بند كر دی جائے گی۔
اردو كے خلاف تحریك میں كانگریس اپنی پوری قوت كے ساتھ شامل كار رہی اور اسے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔ اردو زبان كی مخالفت كے نتیجے میں مسلمانوں پر ہندو ذہنیت پوری طرح آشكار ہو گئی۔ اس تحریك كے بعد مسلمانوں كو اپنے ثقافتی ورثے كا پوری طرح احساس ہوا اور قوم اپنی تہذیب و ثقافت كے تحفظ كے لئے متحد ہوئی۔
سرسیّد احمد خان نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔
۔۔۔۔
آپ نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم كے حصول اورمعاشی و معاشرتی طورپر بحای پر دین تاكہ وہ ہندوئوں كے برابر مقام حاصل كر سكیں۔ سرسید ہندو مسلم اختلافات كو ختم كر كے تعاون اور اتحاد كی راہ رپ گامزن كرنے كے حق میں بھی تھے۔ انہوںنے دونوں قوموں كو ایك دوسرے كے قریب لانے كی مسلسل كوششیں كیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ بھرتی كیے اور ہندو طلباء كو داخلے دیے ہندووں نے اردو كے مقابل ہندی كو سركاری دفاتر كی زبان كا درجہ دلوانے كے لیے كوششیں شروع كر دیں۔ 1857ء میں اردو ہندی تنازعے نے سرسید كو بددل كر دیا اور اانہوںنے صرف اور صرف مسلمانوں كے حقوق كے تحفظ كے لیے اپنی تحریك كے ذریعے كام شروع كر دیا۔ زبان كا تنازعہ سرسید كی سوچ اور عمل كو بدل گیا۔ انہوںنے دو قومی نظریہ كی بنیادپر برصغیر كے سیاسی اور دیگر مسائل كے حل تلاش كرنے كا فیصلہ كیا۔
سرسید كی سیاسی حكمت عملی كی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں كو ایك علیحدہ قوم ثابت كیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ كے افكار كو آگے بڑھایا۔ دو قومی نظریہ كی اصطلاح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال كی۔ انہوںنے كہا كہ مسلمان جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب كے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایك مكمل قوم وك درجہ ركھتے ہیں۔ مسلمانوں كی علیحدہ قومی حیثیت كے حوالے سے سرسید احمد نے ان كے یلے لوكل كونسلوں میں نشستوں كی تخصیص چاہی اعلیٰ سركاری ملازمتوں كے لیے كھلے مقابلے كے امتحان كے خلاف مہم چلائی٬ اكثریت كی مرضی كے تحت قائم ہونے والی حكومت والے نظام كو ناپسند كیا۔ ا نہو ں نے مسلمانوں كی علیحدہ پہچان كروائی اور دو قومی نظریہ كی بنیاد پر ان كے لیے تحفظات مانگے۔ سر سید مسلمانوں كوسیاست سے دور ركھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوںنے مسلمانوں كو 1885ء میں ایك انگریز اے او ہیوم كی كوششوں سے قائم ہونے والی آل انڈیا کانگریس سے دورركھا۔ بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید كی پالیسی كی افادیت كو ثابت كر دیا ان كو بجا طور پر پاكستان كے بانیوں میں شمار كیا جاتاہے۔
مولوی عبدالحق نے سرسید كی قومی و سیاسی خدمات كے حوالے سے لكھا ہے:
٫٫قصر پاكستان كی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مرد پیر نے ركھی تھی٬٬
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود
1 note
·
View note
Text
بچوں کو ٹیکے لگوانے کی طرف راغب کرنے میں مدد کے لیے شگی بھیڑیں اور خاندانی تفریحی دن #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%a8%da%86%d9%88%da%ba-%da%a9%d9%88-%d9%b9%db%8c%da%a9%db%92-%d9%84%da%af%d9%88%d8%a7%d9%86%db%92-%da%a9%db%8c-%d8%b7%d8%b1%d9%81-%d8%b1%d8%a7%d8%ba%d8%a8-%da%a9%d8%b1%d9%86%db%92-%d9%85%db%8c%da%ba/
بچوں کو ٹیکے لگوانے کی طرف راغب کرنے میں مدد کے لیے شگی بھیڑیں اور خاندانی تفریحی دن
شگی بھیڑیں اور خاندانی تفریحی دن ان بچوں کی مدد کے لیے ��ستعمال کیے جا رہے ہیں جنہیں ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔
ایک سکیٹ پارک بھی لائن میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ این ایچ ایس انگلینڈ نصف مدت کے وقفے کے دوران 12 سے 15 سال کے بچوں کو مارنے کی کوشش میں۔
شیٹ لینڈ بھیڑ – جسے کوڑے کہتے ہیں، جیرا، دھنیا لونگ اور الائچی – ایپسم کے نارتھ ایسٹ میں اپنے CoVID-19 ویکسینیشن کے لیے جانے والے نوجوانوں کے لیے پالتو جانوروں کے چڑیا گھر میں موجود تھے۔ سرے کالج آف ٹیکنالوجی (نیسکوٹ) ہفتہ کو۔
ویرونیکا بروسنن، 12، اور سما علی، 14، نارتھ ایسٹ سرے کالج آف ٹیکنالوجی میں (اسٹیو پارسنز/PA)
(PA وائر)
ٹیڈ ورتھ، سرے کی 14 سالہ سما علی – جو سوئیوں سے خوفزدہ ہے، نے کہا کہ اسے کوویڈ 19 جاب ہے کیونکہ اس سے اس کی 75 سالہ دادی سمیت اس کے خاندان کی حفاظت میں مدد ملے گی۔
نوجوان نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ محفوظ طریقے سے وقت گزار سکتی ہے۔
اس نے بھیڑوں کے ارد گرد رہنے کو “پرسکون” قرار دیا، اور مزید کہا کہ “جانوروں کو مارنا مزہ تھا کیونکہ آپ کو عام طور پر اس طرح کا کام نہیں کرنا پڑتا”۔
اس کی والدہ فارینہ احمد نے کہا: “مجھے اس پر بہت فخر ہے۔ بھیڑ ایک اچھا تعجب تھا، خاص طور پر جب وہ گھبراتی تھی۔
سوٹن کی 12 سالہ ویرونیکا بروسنن نے کہا کہ وہ “انجیکشن کے بارے میں کچھ گھبراہٹ محسوس کرتی تھیں، لیکن اب میں اسے لگنے کے بعد بہتر محسوس کر رہی ہوں”۔
بعد میں بھیڑوں سے ملنے کے بعد، اس نے کہا: “بھیڑوں کو کھانا کھلانا اور انہیں مارنا بہت مزہ تھا کیونکہ جب میں بڑی ہو جاتی ہوں تو میں جانوروں کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہوں۔”
ویرونیکا اور سما نے ایک بھیڑ کو مارا (اسٹیو پارسنز/PA)
(PA وائر)
GP ہیلتھ پارٹنرز کی طرف سے قائم کی گئی پاپ اپ ویکسی نیشن مہم میں شرکت کرنے والے تمام نوجوان ایک بالغ کے ساتھ تھے۔
GP ہیلتھ پارٹنرز کی کیتھرین فرو براؤن نے کہا: “ہم چاہتے ہیں کہ بچے اس تجربے کی تعریف کریں اور وہ بے چینی اور خوفزدہ ہوئے بغیر دوبارہ واپس آ سکتے ہیں۔
“یہ بہت ضروری ہے کہ اس عمر کے گروپ کو ٹیکہ لگایا جائے کیونکہ وہ اس وقت اپنی آدھی مدت کی چھٹی پر ہیں۔ وہ اسکول میں واپس جا رہے ہیں اور آپس میں مل جائیں ��ے۔
“ہم چاہتے ہیں کہ انہیں ویکسین لگائی جائے تاکہ وہ محفوظ اور محفوظ رہیں جب وہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ ہوں، جن میں سے کچھ کو ابھی تک ویکسین نہیں لگائی گئی ہے۔”
بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کے لیے اس خوشگوار مہم کے دوران 770,000 سے زیادہ اپوائنٹمنٹس دستیاب کرائی گئی ہیں جس کا آغاز اس وقت ہوا جب NHS نے 10 لاکھ 12 سے 15 سال کی عمر کے والدین کو دعوت نامے بھیجے۔
چونکہ پچھلے سال کے آخر میں بچوں کو شامل کرنے کے لیے ویکسینیشن رول آؤٹ کو بڑھایا گیا تھا، NHS نے 12-15 سال کی عمر کے لوگوں کو 2.1 ملین سے زیادہ ویکسین فراہم کی ہیں، جن میں 1.5 ملین سے زیادہ پہلی خوراکیں شامل ہیں۔
ویرونیکا نے اپنی ویکسینیشن حاصل کی (سٹیو پارسنز/PA)
(PA وائر)
نصف مدت کے دوران پرکشش مقامات کی ایک لائن اپ رکھی گئی ہے کیونکہ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 12 سے 15 سال کی عمر کے پانچ میں سے دو سے زیادہ کو ابھی تک ویکسین نہیں لگائی گئی ہے۔
جنوب مشرقی لندن کے کمیونٹی سینٹر میں بچوں کے لیے غبارے، چہرے کی پینٹنگ اور رکھی گئی سرگرمیاں پیش کی جائیں گی۔
ایک واک اِن کلینک، جو بچوں کی پہلی یا دوسری خوراک کے حصول کے لیے دستیاب ہوگا، منگل سے اتوار تک کوربی کے ایڈرینالین ایلی اسکیٹ پارک میں کھلنا ہے۔
NHS ویکسینیشن پروگرام کی نائب سربراہ ڈاکٹر نکی کنانی نے کہا: “اگرچہ یہ بہت اچھی خبر ہے کہ 12 سے 15 سال کی عمر کے 1.5 ملین سے زیادہ بچوں کو ان کی پہلی خوراک ملی ہے، ایک اندازے کے مطابق اس عمر کے پانچ میں سے دو سے زیادہ بچے گروپ ابھی تک اپنی ویکسین کے لیے آگے نہیں آیا ہے۔
“یہ نصف مدت آپ کے بچے کو تحفظ حاصل کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے، آن لائن اپائنٹمنٹ بک کر کے یا ملک بھر میں سیکڑوں واک ان سائٹس میں سے ایک کا استعمال کرتے ہوئے، اس ہفتے نارتھ ایسٹ سرے کالج آف ٹیکنالوجی جیسی جگہوں پر پاپ اپ کے ساتھ۔ .
“میرے 13 سالہ بیٹے کو اب دو ٹیکے لگ چکے ہیں اور اس نے یقینی طور پر ہم دونوں کو یقین دہانی کی اضافی خوراک دی ہے۔”
Source link
0 notes
Text
ملک بھر میں رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا، کل پہلا روزہ
ملک بھر میں رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا، کل پہلا روزہ
ملک بھر میں رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا ہے ، پہلا روزہ بدھ کو ہو گا۔ تفصیلات کے مطابق مولانا عبدالخبیر آزاد کی سربراہی میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، علامہ محمد حسین اکبر، مولانا فضل الرحیم، ڈاکٹر یسین ظفر، مفتی محمد اقبال چشتی، مفتی فیصل احمد، سید علی کاکڑ نقوی، مفتی یوسف کشمیری، حافظ عبدالغفور، مفتی فضل جمیل رضوی، مفتی قاری میراللہ، صاحبزادہ سید حبیب اللہ…
View On WordPress
0 notes
Text
منٹو کے ابتدائی حالاتِ زندگی
سعادت حسن منٹو کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اُن کا نام ذہن میں آتے ہی اردو ادب کے بہت توانا افسانہ نگار کا تصور ابھرتا ہے جو بے رحم حقیقت نگاری میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ نئے لب و لہجے کے ایسے توانا افسانہ نگار تھے کہ ان کے مخالفین کو بھی ان کی حیثیت کو ماننا پڑا۔ اور اس کی واضح مثال ان پر مقدمہ کرنے والے اُن ’مصلحین‘ کی ہے جو معاشرہ کو منٹو کی جنسی تخریب کاری سے بچانا چاہتے تھے۔ پروفیسرعلمدار بخاری اپنے ایم اے کے تحقیقی مقالہ میں کہتے ہیں کہ:۔ ’’منٹو یقینا ایک بڑی شخصیت تھا۔ ایسی شخصیت جو نرگس کے ہزاروں سال رونے پر گلشن میں ’’دیدہ ور‘‘ بن کر آتی ہے۔ اس ’بڑی شخصیت‘ کی اپنی زندگی ’واقعتاً‘ ایک ایسی ’’بڑی کہانی‘‘ بن کر سامنے آتی ہے جیسی کہ افسانہ نگار منٹو خود لکھنا چاہتا تھا۔‘‘
منٹو ضلع لدھیانہ کے ایک گائوں سمبرالہ میں ۱۱؍ مئی ۱۹۱۲ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میاں غلام حسن تھا۔ جو منصف کے عہدے پر فائز تھے۔ منٹو کی والدہ ان کی دوسری بیوی تھیں۔ منٹو کی والدہ سے انہوں نے شادی تب کی جب ان کی پہلی بیوی حیات تھیں اور اولاد جوان لیکن اس عورت کی بدنصیبی یہ تھی کہ وہ اپنے شوہر کی بے اعتنائی کا شکار رہی اور اس بے اعتنائی کی اذیت ناک زد میں کمسن سعادت بھی آیا۔ سعادت حسن منٹو کے بچپن کے دوست ابو سید قریشی ’’منٹو‘‘ میں کہتے ہیں:۔ ’’اُن کے والد منصف تھے۔ انہوں نے دو شادیاں کیں۔ سعادت کی والدہ، ان کی دوسری بیوی تھیں۔ منصف صاحب نے اپنی پہلی اہلیہ کی اولادوں کی تعلیم، تربیت پر اتنی توجہ کی کہ ان کی وفات کے بعد چھوٹی بیگم اور ان کی دو اولادوں۔۔۔۔۔ سعادت اور اس کی بڑی بہن ناصرہ اقبال کے لیے کچھ باقی نہ بچا۔ تلخ یادوں کے سوا۔‘‘
ان کی بے اعتنائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ منٹو ان کی قید میں زیادہ شرارتی اور ضدی بچہ بن گئے اور انہوں نے منفی راستوں کی ترغیب حاصل کی۔ والد کی خواہش تھی کہ وہ تعلیم حاصل کرے لیکن انہیں تو والد کی ضد میں ہر کام اُلٹ کرنا تھا۔ اس لیے اپنی ضد اور لاپروائی کے باعث وہ میٹرک میں تین بار فیل ہوئے۔ حالانکہ وہ اپنے والد سے ڈرتے بھی بہت زیادہ تھے۔ ان کے ڈرنے کا بیان منٹو کی بہن سے روایت کرتے ہوئے ابوسعید قریشی کہتے ہیں:۔ ’’۔۔۔۔۔ سعادت کی بہن بتا رہی تھیں۔ جان خطا ہوتی تھی اس کی میاں جی کے ڈر سے۔ پتنگ اُڑا رہا تھا ایک روز کوٹھے پر میاں جی آگئے۔ اتنے میں باہر سے ہی چھت پر کود پڑا برابر کے کوٹھے پر۔ لیکن کیا مجال ہے جو ’سی‘ تک کی ہو۔‘‘ باپ جیسا بھی ہو اس کی زندگی اولاد کے لیے جذباتی سہارا ہوتی ہے لیکن بچپن میں ہی ان کے والد کی وفات ہو گئی۔ خاندان والوں کا رویہ پہلے بھی ان کی والدہ کے ساتھ درست نہیں تھا۔ رہی سہی کسر اس سانحے نے پوری کر دی اور سعادت حسن منٹو بھی اس رویہ کا ہدف بنا۔
منٹو جو اس وقت تک سعادت حسن تھا اپنے خاندان والوں کے رویے سے تنگ آکر گھر سے باہر اپنے لیے پیار اور توجہ تلاش کرنے لگا۔ اسی تلاش میں منٹو نے سکون کے حصول کے لیے شراب کی لَت لگا لی لیکن یہ تلاش انہیں ’’باری علیگ‘‘ تک لے گئی۔ یہ مارچ ۱۹۳۳ء کی بات ہے۔ ’’منٹو کا پیر و مرشد باری علیگ مارچ ۱۹۳۳ء میں امرتسر وارد ہوتا ہے اور اسی سال ستمبر میں واپس اپنے گھر لائل پور چلا جاتا ہے لیکن یہ چند مہینے اپنی ہنگامہ خیزی کے اعتبار سے سالوں پر محیط نظر آتے ہیں۔ باری میں بچوں کے ساتھ بچہ بن جانے کی بھرپور صلاحیت موجود تھی۔ اس لیے وہ اپنی تمام تر علمیت اور بزرگی کے باوجود سعادت اور اس کے حلقہ کے دوستوں سے گھل مل گیا۔ حتیٰ کہ ’’فری تھنکر‘‘ جیسی اوٹ پٹانگ تنظیمیں وجود میں آنے لگیں۔‘‘ سکول اور کالج میں سعادت حسین کو ’’ٹامی‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تعلیم سے دور بھاگنے والا اور اردو کے مضمون میں بار بار فیل ہونے والا یہ ضدی بچی وہ ہیرا تھا جس کی پہچان باری علیگ نامی جوہری نے کی اور سعادت کو عالمی ادب کے مطالعے کی طرف راغب کیا۔ اور ان کے کہنے پر ہی منٹو نے اپنی محدود علمی قابلیت کے باوجود دن رات محنت کر کے وکٹر ہیوگو کے ایک ناول (The Last days of condemned) کا ترجمہ ’’سرگزشتِ امیر‘‘ کے نام سے کر ڈالا۔
پھر روسی اور فرنسیسی ادب نمبر مرتب کر ڈالے۔ آسکروائلڈ کے ڈرامے ’’ویرا‘‘ کا ترجمہ کیا۔ اسی دور میں منٹو نے باری علیگ کی ادارت میں نکلنے والے اخبار ’’خلق‘‘ میں فرضی نام ’’آدم‘‘ سے اپنا پہلا طبع زاد افسانہ ’’تماشہ‘‘ لکھا جو جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کے متعلق تھا۔ یہ ۱۹۳۴ء میں چھپا اور ۱۹۳۵ء میں منٹو کو ایک بار پھر تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہوا اور انہوں نے ایف۔اے کئے بغیر علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا لیکن ان کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا اور انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ انوار احمد اپنی کتاب ’’اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ‘‘ میں اس کی وجہ منٹو کے انقلابی نظریات کو بتاتے ہیں۔ جبکہ ابو سعید قریشی منٹو کی سوانح میں اس طرح بیان کرتے ہیں:۔ ’’سعادت کی صحت آئے دن بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ یونیورسٹی کے ڈاکٹروں نے کہا ایکس رے کرنا ہو گا۔ اس کے لیے اسے دلی لے جانا پڑا۔ ایکس رے میں انہیں پھیپھڑوں پر دھبے دکھائی دئیے۔ یونیورسٹی کے ڈاکٹروں نے کہا دق ہے۔ سعادت کو یونیورسٹی چھوڑنا پڑی۔‘‘
شمائلہ حسین
1 note
·
View note
Text
دانلود سرود آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو اسفندیار قرهباغی
دانلود سرود آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو اسفندیار قرهباغی Download Sorod Amrica Amrica Nang B Neyrang To شاعر: حمید سبزواری | خواننده: اسفندیار قرهباغی | آهنگساز: احمد علی راغب دانلود سرود آمریکا آمریکا مرگ به نیرنگ تو دانلود آهنگ امریکا امریکا ننگ به نیرنگ تو دانلود فایل صوتی سرود آمریکا آمریکا دانلود اهنگ حماسی ۲۲ بهمن امریکا امریکا مرگ به نیرنگ تو برای دانلود آهنگ به ادامه مطلب مراجعه کنید …
تکست و متن سرود آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو
آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو ، خون جوانان ما میچکد از چنگ تو امریکا امریکا ننگ به نیرنگ تو ، خون جوانان ما می چکد از چنگ تو ای ز شرار ستم شعله به عالم زده ، امن و امان جهان یکسره بر هم زده بر سر هر خرمنی، در دل هر گلشنی ، آتش بیداد تو صاعقه ی غم زده ثروت انبوه تو خون دل تودههاست ، کین تو بر سینه ها دشنه ماتم زده دزد جهانخوارهای دیو ستم پارهای ، عقرب جرّارهای روبه مکاره ای جور و جفا در تو هست ، مهر و وفا در تو نیست زهر بلا در تو هست ، شهد صفا در تو نیست در همه دور زمان چون تو ستم کاره نیست عامل هر فتنه ای، صلح و صفا در تو نیست امریکا امریکا ننگ به نیرنگ تو ، خون جوانان ما میچکد از چنگ تو آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو ، خون جوانان ما میچکد از چنگ تو دانلود سرود انقلابی آمریکا ننگ به نیرنگ تو آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو ، خون جوانان ما میچکد از چنگ تو آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو ، خون جوانان ما میچکد از چنگ تو در همه گیتی به پاست نائره جنگ تو ، گوش جهان خسته از طبل بدآهنگ تو مظهر شیطان تویی ، دشمن انسان تویی ای همه اهریمنی ، سرحد فرهنگ تو رسم تو عصیانگری ، کار تو ویرانگری تیره شده عالم از ، حیله و نیرنگ تو دشمن هر ملتی ، موجب هر ذلتی سایه ی هر و��شتی ، فتنه هر امتی جور و جفا در تو هست، مهر و وفا در تو نیست زهر بلا در تو هست شهد صفا در تو نیست در همه دور زمان چون تو ستمکاره نیست عامل هر فتنهای صلح و صفا در تو نیست آمریکا آمریکا ننگ به نیرنگ تو خون جوانان ما میچکد از چنگ تو Read the full article
#esfandiargharebaghi#sorodAmrikaamrikanangbneyrangto#آمریکاآمریکا#آمریکاآمریکادانلود#آمریکاآمریکامتن#آمریکاآمریکاننگبهنیرنگتو#آمریکاآمریکاننگبهنیرنگتوmp3#آمریکاآمریکاننگبهنیرنگتو+دانلود#آمریکاننگبهنیرنگتو#آهنگبرای13آبان#آهنگبرای22بهمن#آهنگبیکلامآمریکاننگبهنیرنگتو#آهنگهایانقلابیحامدزمانی#اسفندیارقرهباغی#امریکاامریکامرگبهنیرنگتوخون#امریکاامریکاننگبهنیرنگتوخون#اهنگامریکاامریکامرگبه#ترانهآمریکاآمریکاننگبهنیرنگتو#خونجوانانمامیچکدازچنگتو#خونجوانانمامیچکدازچنگتو#دانلودآهنگ#دانلودآهنگبیکلامآمریکاآمریکامرگبهنیرنگتو#دانلودآهنگبیکلامآمریکاننگبهنیرنگتو#دانلودآهنگبیکلامسرودهایانقلابی#دانلودسرودآمریکاآمریکامرگبهنیرنگتو#دانلودسرودآمریکاآمریکاننگبهنیرنگتو#دانلودسرودامریکاامریکاننگبه#دانلودسرودانقلابی#دانلودسرودانقلابیآمریکاآمریکا#دانلودسرودمرگبرتوایآمریکا
0 notes
Photo
ساہیوال: ڈویژنل پریس کلب کے زیر انتظام یکجہتی کشمیر وپاک فوج ریلی. ساہیوال (خصوصی رپورٹ) ساہیوال ڈویژنل پریس کلب ساہیوال کے زیراہتمام افواج پاکستان سے اظہاریکجہتی اورکشمیری مسلمانوں پر بھارتی جارحیت وغاصبانہ قبضے کیخلاف ایک عظیم الشان موٹرسائیکل وکارریلی کاانعقاد کیا گیا جو ساہیوال پریس کلب رجسٹرڈ نزد یادگار سے شروع ہوکربراستہ ریلوے روڈ، جوگی چوک، ہائی سٹریٹ، صدرچوک، چرچ روڈ، فائیوچوک، ضلع کچہری، ضلع کونسل، ڈی سی چوک اورفرید ٹاؤن روڈ سے ہوتی ہوئی ��پٹی کمشنرآفس کے سامنے پہنچ کر اختتام پذیرہوئی۔ ڈی سی آفس پہنچنے پر ریلی کے شرکاء کو ڈپٹی کمشنرمحمد زمان وٹونے خوش آمدید کہا۔ انہوں نے صحافیوں کی افواج پاکستان سے محبت اورکشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے جذبہ کوسراہا۔ریلی کی قیادت صدرڈویژنل پریس کلب پیرسید طمطراق محاسن شاہی، صدر راہ حق ویلفیئر فاؤنڈیشن میاں بابرصغیر، چیئرمین ساہیوال پریس کلب رجسٹرڈ محمد عزیزالحق گورائیہ، چیئرمین پرنٹ میڈیا ایسوسی ایشن الطاف الرحمن، صدر رانا وحید اورجنرل سیکرٹری چوہدری عثمان علی ایڈووکیٹ، سرپرست اعلیٰ الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن رانا جاوید نثار، چیئرمین نوید غنی چوہدری اورصدر شیخ نعیم، کنوینئر ریڈیو ایسوسی ایشن ملک دلاور سلطان ڈھکو، جنرل سیکرٹری پی ایف یوجے ڈویژن ساہیوال عمر منظور چوہدری، ممبران ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ساہیوال رانا عبدالحکیم خان ایڈووکیٹ اور امجد آرائیں ایڈووکیٹ اورتاجر رہنماء علی حسن نقوی کررہے تھے۔ اس موقع پر صحافی حافظ راشد حسین کمبوہ، مصطفی بھٹی، مہر حسن عبداللہ ناز، حاجی لیاقت علی، امتیاز احمدبٹ، جاوید ہنجرا، میاں شبیر احمد چٹھہ، ملک رمضان، رانابابرعلی، کاشف پاسبان، حیدر بھٹی، شکیل شاہ، محمدکاشف، احمدوٹو، سید فیضان، سیدزین شاہ، آصف وصلی، سید حارث راغب، اسلم کھوکھر، سید عثمان محاسن، عمیربھٹی، ریاض احمد پرنس کے علاوہ تمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے شہریوں کی کثیرتعدادنے شرکت کی۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنرمحمدزمان وٹو نے کہا کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی استحکام پاکستان کی تحریک ہے جب کوئی قوم آزادی حاصل کرنے پر تل جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کو آزادی کے حصول سے روک نہیں سکتی۔ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیریوں کی مرضی کے مطابق ہی حل کیاجا سکتا ہے۔ دشمن سے مقابلہ کرنے کیے لیے افواجِ پاکستان ہر دَم تیار ہے اور پاک فوج کے جانباز سپاہی سرحدوں پرپہرہ دے رہے ہیں۔ شہداء ہمارے اصل ہیرو ہیں جنہوں نے ہمارے کل کی خاطر اپنا آج قربان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ضلعی افسران کو ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ وہ شہداء کے لواحقین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں، ان کے معاملات فوری وترجیحی بنیادوں پر خوش اسلوبی سے حل کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کریں۔ اس موقع پر پیرسید طمطراق محاسن شاہی نے ڈویژن کے تمام پریس کلبوں، صحافتی تنظیموں کی جانب سے افواج پاکستان وکشمیری بھائیوں سے اظہاریکجہتی کیلئے متفقہ طور پر ایک قرارداد پڑھ کر سنائی اورڈپٹی کمشنر محمد زمان وٹوکو پیش کی۔ اس موقع پر افواج پاکستان زندہ باد، کشمیربنے گا پاکستان، مودی مردہ باد سمیت بھارت کےخلاف شدید نعرہ بازی کی گئی۔
0 notes
Text
نت آهنگ این پیروزی خجسته باد برای پیانو
نت آهنگ این پیروزی خجسته باد برای پیانو
نت دونی , نت پیانو , نت متوسط پیانو , نت پیانو احمد علی راغب , notdoni , نت های پیانو احمد علی راغب , نت های پیانو , پیانو , احمد علی راغب , نت احمد علی راغب , نت های احمد علی راغب , نت های گروه نت دونی , نت های متوسط پیانو , نت پیانو متوسط
پیش نمایش نت آهنگ این پیروزی خجسته باد برای پیانو
نت آهنگ این پیروزی خجسته باد برای پیانو
دانلود نت آهنگ این پیروزی خجسته باد برای پیانو
خرید نت آهنگ این پیروزی خجسته باد برای پیانو
جهت خرید نت آهنگ این پیروزی خجسته باد برای پیانو روی لینک زیر کلیک کنید
نت آهنگ این پیروزی خجسته باد برای پیانو
نت آهنگ این پیروزی خجسته باد برای پیانو
آهنگساز : احمد علی راغب
شاعر : حمید سبزواری
نت نویسی برای پیانو : گروه نت دونی
کمی درباره شکلگیری سرود «این پیروزی خجسته باد» توضیح دهید. به خاطر دارم 18 یا 19 اردیبهشت 1361 شهید مجید حدادعادل، برادر آقای غلامعلی حدادعادل رئیس وقت رادیو بود. یک روز من و آقای سبزواری را به دفترش دعوت کرد و گفت پیامی برایمان دارد. به ما گفت باید سرودی برای یک پیروزی حساس و ارزشمند ساخته شود؛ سرودی که سهم مردم، بسیج، سپاه، ارتش و خلاصه همه کسانی که در جنگ حضور دارند، لحاظ شود. ما گفتیم موضوع قدری برایمان گنگ است و توضیح بیشتری خواستیم. ایشان با زندهیاد حاجاحمدآقا خمینی تماس گرفت و ایشان هیچ اطلاعات دیگری در اختیار ما نگذاشتند، فقط گفتند شبیه ریتم اذان مرحوم موذنزادهاردبیلی باشد. با این اطلاعات کم واقعا میشد سرود را ساخت؟ من و آقای سبزواری واقعا گیج شده بودیم و نمیدانستیم چه کنیم. فقط من به ایشان گفتم بر وزن مفاعلن شعر بگویند تا من هم آهنگسازی را طبق همین وزن آغاز کنم. ایشان گفتند مثلا با چه شروع کنم؟ من هم گفتم با «این پیروزی خجسته باد». اصلا نمیدانستیم کدام پیروزی؟ کجا قرار است حمله شود و پیروزی قرار است کجا رخ دهد. کارمان را شروع کردیم. سبزواری بند به بند شعر میگفت و برایم میخواند. من از او ایراد میگرفتم و او از من تا بالاخره کار را آماده کردیم. من هم نتنویسی کردم و همه را تحویل شهید حدادعادل دادیم. کار کجا ضبط شد؟ در رادیو. خدا رحمت کند آقای مجتبی میرزاده را که در تنظیم موسیقی بینظیر بودند. ایشان کار را تنظیم و در ارکستر بزرگ اجرا کردند. خواننده را چه کسی انتخاب کرد؟ خواننده را هم من انتخاب کردم. این کار با توجه به شعر و موسیقیاش به صدایی نوحهگونه نیاز داشت و به نظرم بهترین گزینه محمد گلریز بود. ایشان نزدیکی ما در میدان شهدا زندگی میکرد. مدام میرفت و میآمد و کار را با هم تمرین میکردیم. مرحله بعد هم انتظار برای پخش کار بود. بله. ما خیلی منتظر این اتفاق بودیم. هر قدر از اقای حداد میپرسیدیم ایشان میگفت من هم بیخبرم. فقط میدانم کار را قبل از پخش به جماران نزد حضرت امام بردهاند و ایشان هم آن را پسندیده بودند. وقتی برای اولین بار سرود پخش شد چه احساسی داشتید؟ ساعت 6 صبح بود که آقای سرشار، گوینده خبر رادیو اعلام کرد، «شنوندگان عزیز توجه کنید! خونین شهر، آزاد شد» و بعد سرود پخش شد. تازه آن موقع فهمیدم کاری که ما ساختیم برای پیروزی خرمشهر بوده، اما تا وقتی که این اتفاق رخ میداده به دلایل امنیتی نباید جایی عنوان میشده است، اما اینکه چه حسی داشتم؟ باید بگویم حسی که هنوز هم دارم. حس یک پیروزی بزرگ را که هر چند برایش بسیار شهید دادیم، اما هنوز هم یکی از افتخارات بزرگ کشور است و اینکه بسیار خوشحالم سرودی که ما نمیدانستیم برای چه میسازیم، تبدیل به کاری جاودانه شد. فقط در این کار یک چیزی به نظرم کم است که به دلیل شرایط موجود امکانش فراهم نبود.
♫
متن آهنگ این پیروزی خجسته باد این پیروزی
از صلابت ملت و ارتش و سپاه ما جاودانه شد از فروغ سحر پگاه ما صبح آرزو دمیده از کرانه ها شاخه های زندگی زده جوانه ها این پیروزی خجسته باد این پیروزی خجسته باد این مبارک بهار به باغبان خجسته باد خجسته باد این گل افشان دیار به بلبلان خجسته باد همیشه بادا وطن بر فراز این پیروزی خجسته باد این پیروزی نوبهار ما از کران زمین پر شکوفه شد شاخه امید خون هر شهید می دهد نوید نوبت ظفر این زمان رسید به کوری دیده دشمنان شکسته شد سر اهریمنان صبح پیروزی مبارک باد این ستم سوزی مبارک باد حافظ وطن تا خدای ماست لطف ایزدی رهگشای ماست در خط سیاه میوه امامدر شب خطر رهنمای ماست به رغم آن دشمن خیره سر وطن رها شد ز بیم و خطر صبح پیروزی مبارک باد این ستم سوزی مبارک باد
♫
کلمات کلیدی : نت دونی , نت پیانو , نت متوسط پیانو , نت پیانو احمد علی راغب , notdoni , نت های پیانو احمد علی راغب , نت های پیانو , پیانو , احمد علی راغب , نت احمد علی راغب , نت های احمد علی راغب , نت های گروه نت دونی , نت های متوسط پیانو , نت پیانو متوسط
#نت دونی#نت پیانو#نت متوسط پیانو#نت پیانو احمد علی راغب#notdoni#نت های پیانو احمد علی راغب#نت های پیانو#پیانو#احمد علی راغب#نت احمد علی راغب#نت های احمد علی راغب#نت های گروه نت دونی#نت های متوسط پیانو#نت پیانو متوسط
0 notes
Text
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
پاکستان کے معروف صحافی ، تجزیہ کار و کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم میں ل��ھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے الیکشن کے نتائج مسترد کرنے والوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آجائے کہ 1992ء کا ورلڈ کپ دوبارہ کروایا جائے۔ ہم تمام میچوں کو مسترد کرتے ہیں۔ اس مطالبے پر افغان صدر اشرف غنی نے یہ کہہ کر پانی پھیر دیا ہے کہ
’’عمران خان افغانستان میں بہت مقبول ہیںبلکہ عمران خان کو دیکھ کر افغانستان میں کرکٹ کی طرف نوجوان راغب ہوئے‘‘��عمران خان کس قدر مقبول کرکٹر تھا اس کا اندازہ بی بی سی کے اس پروگرام سے کیا جاسکتا ہے جس میں انگلستان کے نامور کھلاڑی بتا رہے ہیں کہ ’’جب ہم نیویارک ائیرپورٹ پر سامان لے رہے تھے تو ہمارے پاس ایک
بوڑھی امریکی خاتون آئی اس نے بلے کی طرف اشارہ کیااور کہا، اچھا یہ اس کھیل کا سامان ہے جو عمران خان کھیلتا ہے‘‘۔ عمران خان صنف مخالف کے ہاں کس قدر مقبول رہا، یہ جاننے کیلئے سابق بھارتی کپتان کپل دیو کا انٹرویو کافی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ
’’ہم اپنے لباس او ربالوں کے بڑے اسٹائل بناتے تھے مگر بھارتی لڑکیوں کی زبان پر پھر عمران خان ہی کا نام ہوتا تھا‘‘۔ شاید اسی لئے عمران خان کی حالیہ سیاسی جیت پر انڈین فلم انڈسٹری کے لوگ بہت خوش ہیں، انڈین کرکٹر بھی بہت خوش ہیں، مجھے زینت امان اور ریکھا کی تو خبر نہیں مگر دلیر مہدی سمیت کئی دوسرے اداکاروں کے بیانات سامنے آگئے ہیں، برطانیہ کے امیر ترین لوگ عمران خان کے چاہنے والوں میں شامل رہے ہیں جن دنوں میں جمائما خان سے نیا نیا تعارف ہوا تھا انہی دنوں میں ملکہ نور بھی عمران خان پر فریفتہ تھیں گویا یہ مقبول ترین کرکٹر اسلامی دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں بھی مقبول تھا۔
ابھی چند برس پہلے سعودی ولی عہد نے عمران خان کو پیش کش کی تھی کہ ’’آپ سعودی عرب میں کرکٹ ٹیم کے لئے کام کریں، ہم آپ کو بیس ارب ڈالرز دیں گے‘‘ عمران خان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور کہا کہ ’’میں اپنے ملک کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس پیش کش کے ٹھکرانے پر ایک دوست نے پوچھا تو عمران خان بتانے لگے’’ایسی ہی پیش کش مجھے سلطان آف برونائی کر چکا ہے، اس کی پیش کش بھی میں نے اس لئے ٹھکرا دی تھی کہ میں پاکستان کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ پاکستان میں حالیہ انتخابات میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے تمام سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ کر رکھ دیاہے، بڑے بڑے سیاسی برج الٹنے کے بعد جب عمران خان نے اپنی پہلی تقریر کی تو دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے بلکہ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ عمران خان کی 40منٹ کی تقریر کئی لوگوں کی 40 سالہ سیاست پر حاوی ہے،
وہ 40برسوں میںایسا کچھ نہیں کرسکے جو عمران خان نے اپنی پہلی تقریر ہی میں کر دکھایا ہے۔دنیا عمران خان کو بے مثال جیت پر مبارکبادیں دے رہی ہے مگر ہارنے والوں کو اپنی ہار ہضم نہیں ہورہی۔ اس بدہضمی پر سوشل میڈیا پر یہ لطیفہ گردش کررہا ہے کہ ’’جب تک مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، محمود خان اچکزائی اور اسفند یار ولی جیت نہیں جاتے اس وقتتک بار بار الیکشن کروائے جائیں، آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ‘‘ ویسے اس بات پر حیرت ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد مولانا صاحب فرما رہے تھے ’’دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ انتخابات کو دھاندلی کی وجہ سے قبول نہ کیا جائے‘‘ اب یہی مولانا صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’انتخابات میں دھاندلی ہوئی، ہم اسے مسترد کرتے ہیں،
دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیںاور ہم یہ حکومت نہیں چلنے دیں گے‘‘ ہمیں تو خیر اس دھاندلی کی سمجھ نہیں آرہی قومی اسمبلی کے حلقہ 263 سے ایم ایم اے کے صلاح ال��ین نے محمود خان اچکزئی کو شکست دی، دھاندلی پتہ نہیںکس نے کی؟اگر سیالکوٹ، گوجرانوالہ، سرگودھا، نارووال، شیخوپورہ، اوکاڑہ، پاکپتن، قصور، ساہیوال،بہاولنگر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نتائج دیکھے جائیں تو ن لیگ کبھی نہیں کہے گی کہ دھاندلی ہوئی ہے، شاید اسی لئے حمزہ شہباز پری پول دھاندلی کا نام تو لے رہے ہیں مگر پولنگ میں دھاندلی کا تذکرہ نہیں کررہے کیونکہ دھاندلی ہوئی ہی نہیں، بعض لوگ اسٹیبلشمنٹ کا نام بہت لیتے ہیں۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پی ایس پی، ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک ناکام ہوگئی ہیں،
جیب بھی خراب ہوگئی ہے، جی ڈی اے کو بھی خاطرہ خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف جیت گئے ہیں۔اس حساب سے تو اسٹیبلشمنٹ بری طرح ناکام ہوئی ہے، مزید تصدیق کیلئے رانا نذیر، بلال ورک اور رضا حیات ہراج سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں چوہدری نثار علی خان کے حوالے سے یاد رکھئے کہ چوہدری نثار علی خان کو حلقے کے عوام نے مسترد کرنے کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔1۔ پہلی وجہ بتانے کا ابھی وقت نہیں آیا۔2۔دوسری وجہ بتانے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔3۔ تیسری وجہ بتا دی تو بڑی خرابی پیدا ہوگی۔اس سے لگتا ہے کہ حلقے کے عوام چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کو بڑے غور سے سنتے ہیں۔ تمام صورتحال میں بفلوکی عظمیٰ احمد کا ایک شعر بہت یاد آرہا ہے کہ؎رکھ تو دیا ہے جام، محبت میں ڈال کر۔۔اس نے کبھی پیا بھی ہے بادہ، خبر نہیں
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Uj7DBJ via India Pakistan News
0 notes
Text
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
پاکستان کے معروف صحافی ، تجزیہ کار و کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے الیکشن کے نتائج مسترد کرنے والوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آجائے کہ 1992ء کا ورلڈ کپ دوبارہ کروایا جائے۔ ہم تمام میچوں کو مسترد کرتے ہیں۔ اس مطالبے پر افغان صدر اشرف غنی نے یہ کہہ کر پانی پھیر دیا ہے کہ
’’عمران خان افغانستان میں بہت مقبول ہیںبلکہ عمران خان کو دیکھ کر افغانستان میں کرکٹ کی طرف نوجوان راغب ہوئے‘‘۔عمران خان کس قدر مقبول کرکٹر تھا اس کا اندازہ بی بی سی کے اس پروگرام سے کیا جاسکتا ہے جس میں انگلستان کے نامور کھلاڑی بتا رہے ہیں کہ ’’جب ہم نیویارک ائیرپورٹ پر سامان لے رہے تھے تو ہمارے پاس ایک
بوڑھی امریکی خاتون آئی اس نے بلے کی طرف اشارہ کیااور کہا، اچھا یہ اس کھیل کا سامان ہے جو عمران خان کھیلتا ہے‘‘۔ عمران خان صنف مخالف کے ہاں کس قدر مقبول رہا، یہ جاننے کیلئے سابق بھارتی کپتان کپل دیو کا انٹرویو کافی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ
’’ہم اپنے لباس او ربالوں کے بڑے اسٹائل بناتے تھے مگر بھارتی لڑکیوں کی زبان پر پھر عمران خان ہی کا نام ہوتا تھا‘‘۔ شاید اسی لئے عمران خان کی حالیہ سیاسی جیت پر انڈین فلم انڈسٹری کے لوگ بہت خوش ہیں، انڈین کرکٹر بھی بہت خوش ہیں، مجھے زینت امان اور ریکھا کی تو خبر نہیں مگر دلیر مہدی سمیت کئی دوسرے اداکاروں کے بیانات سامنے آگئے ہیں، برطانیہ کے امیر ترین لوگ عمران خان کے چاہنے والوں میں شامل رہے ہیں جن دنوں میں جمائما خان سے نیا نیا تعارف ہوا تھا انہی دنوں میں ملکہ نور بھی عمران خان پر فریفتہ تھیں گویا یہ مقبول ترین کرکٹر اسلامی دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں بھی مقبول تھا۔
ابھی چند برس پہلے سعودی ولی عہد نے عمران خان کو پیش کش کی تھی کہ ’’آپ سعودی عرب میں کرکٹ ٹیم کے لئے کام کریں، ہم آپ کو بیس ارب ڈالرز دیں گے‘‘ عمران خان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور کہا کہ ’’میں اپنے ملک کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس پیش کش کے ٹھکرانے پر ایک دوست نے پوچھا تو عمران خان بتانے لگے’’ایسی ہی پیش کش مجھے سلطان آف برونائی کر چکا ہے، اس کی پیش کش بھی میں نے اس لئے ٹھکرا دی تھی کہ میں پاکستان کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ پاکستان میں حالیہ انتخابات میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے تمام سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ کر رکھ دیاہے، بڑے بڑے سیاسی برج الٹنے کے بعد جب عمران خان نے اپنی پہلی تقریر کی تو دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے بلکہ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ عمران خان کی 40منٹ کی تقریر کئی لوگوں کی 40 سالہ سیاست پر حاوی ہے،
وہ 40برسوں میںایسا کچھ نہیں کرسکے جو عمران خان نے اپنی پہلی تقریر ہی میں کر دکھایا ہے۔دنیا عمران خان کو بے مثال جیت پر مبارکبادیں دے رہی ہے مگر ہارنے والوں کو اپنی ہار ہضم نہیں ہورہی۔ اس بدہضمی پر سوشل میڈیا پر یہ لطیفہ گردش کررہا ہے کہ ’’جب تک مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، محمود خان اچکزائی اور اسفند یار ولی جیت نہیں جاتے اس وقتتک بار بار الیکشن کروائے جائیں، آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ‘‘ ویسے اس بات پر حیرت ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد مولانا صاحب فرما رہے تھے ’’دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ انتخابات کو دھاندلی کی وجہ سے قبول نہ کیا جائے‘‘ اب یہی مولانا صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’انتخابات میں دھاندلی ہوئی، ہم اسے مسترد کرتے ہیں،
دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیںاور ہم یہ حکومت نہیں چلنے دیں گے‘‘ ہمیں تو خیر اس دھاندلی کی سمجھ نہیں آرہی قومی اسمبلی کے حلقہ 263 سے ایم ایم اے کے صلاح الدین نے محمود خان اچکزئی کو شکست دی، دھاندلی پتہ نہیںکس نے کی؟اگر سیالکوٹ، گوجرانوالہ، سرگودھا، نارووال، شیخوپورہ، اوکاڑہ، پاکپتن، قصور، ساہیوال،بہاولنگر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نتائج دیکھے جائیں تو ن لیگ کبھی نہیں کہے گی کہ دھاندلی ہوئی ہے، شاید اسی لئے حمزہ شہباز پری پول دھاندلی کا نام تو لے رہے ہیں مگر پولنگ میں دھاندلی کا تذکرہ نہیں کررہے کیونکہ دھاندلی ہوئی ہی نہیں، بعض لوگ اسٹیبلشمنٹ کا نام بہت لیتے ہیں۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پی ایس پی، ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک ناکام ہوگئی ہیں،
جیب بھی خراب ہوگئی ہے، جی ڈی اے کو بھی خاطرہ خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف جیت گئے ہیں۔اس حساب سے تو اسٹیبلشمنٹ بری طرح ناکام ہوئی ہے، مزید تصدیق کیلئے رانا نذیر، بلال ورک اور رضا حیات ہراج سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں چوہدری نثار علی خان کے حوالے سے یاد رکھئے کہ چوہدری نثار علی خان کو حلقے کے عوام نے مسترد کرنے کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔1۔ پہلی وجہ بتانے کا ابھی وقت نہیں آیا۔2۔دوسری وجہ بتانے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔3۔ تیسری وجہ بتا دی تو بڑی خرابی پیدا ہوگی۔اس سے لگتا ہے کہ حلقے کے عوام چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کو بڑے غور سے سنتے ہیں۔ تمام صورتحال میں بفلوکی عظمیٰ احمد کا ایک شعر بہت یاد آرہا ہے کہ؎رکھ تو دیا ہے جام، محبت میں ڈال کر۔۔اس نے کبھی پیا بھی ہے بادہ، خبر نہیں
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Uj7DBJ via Urdu News
#Urdu News#Daily Pakistan#Today Pakistan#Pakistan Newspaper#World Urdu News#Entertainment Urdu News#N
0 notes
Text
آئی سی ٹی سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے ادارہ جاتی فریم ورک کے لیے صدر۔
آئی سی ٹی سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے ادارہ جاتی فریم ورک کے لیے صدر۔
اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جمعرات کو ایک ادارہ جاتی فریم ورک قائم کرنے پر زور دیا ہے تاکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور پاکستانی شہریوں کو پاکستان میں اپنے کاروباری اداروں کو خاص طور پر انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کے شعبے میں توسیع دینے کی ترغیب دی جائے۔
سیلیکن ویلی ، امریکہ سے پاکستانی ڈائی سپورا کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے کمپنیوں کی رجسٹریشن اور سرمایہ کی نقل و حرکت کو آسان بناتے ہوئے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
صدر نے کہا کہ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی ٹی سیکٹر ملک کو تیز رفتار ترقی کی طرف لے جانے کی بڑی صلاحیت کی وجہ سے مضبوط ہو رہا ہے۔
انہوں نے شہریوں اور کاروباری اداروں کے لیے سائبر اسپیس کی حفاظت کو یقینی بنا کر سائبر خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ صدر نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان ہر سال 30 ہزار آئی ٹی گریجویٹس تیار کرتا ہے جن میں سے صرف 5 ہزار کو روزگار ملا جبکہ باقیوں کو مارکیٹنگ کی مہارت کی کمی کی وجہ سے نوکریوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے آئی ٹی ماہرین اور گریجویٹس کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق تربیت دے کر ان کی مہارت کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ صدر نے پاکستانی باشندوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے تحفظات کو کاروباری دوستانہ ماحول فراہم کر کے ان کے تحفظات کو دور کرنے میں مدد کریں گے۔
اجلاس میں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور پاکستانیوں کو پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری کے دوران درپیش مسائل پر غور کیا گیا۔ سلیکن ویلی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کے معروف آئی ٹی ماہرین نے انہیں درپیش مسائل پر روشنی ڈالی جیسے کہ کمپنیوں کی رجسٹریشن کا پیچیدہ طریقہ کار ، بینک اکاؤنٹس کھولنے کا طویل عمل اور ون ونڈو آپریشن کا فقدان ، جو غیر ملکی کاروبار اور سرمایہ کاروں کے آنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ملک کو.
ماہرین نے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات تجویز کیے تاکہ پاکستان کو آئی ٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے پرکشش مقام بنایا جا سکے۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے اجلاس کو بتایا کہ کمپنیوں کے رجسٹریشن کے عمل کو آسان بنا دیا گیا ہے ، اور ایس ای سی پی میں کسی کمپنی کو رجسٹر کرنے میں صرف چار گھنٹے لگے۔
سیکرٹری سرمایہ کاری بورڈ (بی او آئی) نے بتایا کہ تجارتی اور تجارتی تنازعات کے حل کے لیے ملک کے 23 اضلاع میں تجارتی عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) ڈاکٹر رضا باقر نے اجلاس کو بتایا کہ اسٹیٹ بینک کاروباری اداروں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔
اجلاس نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سہولت دینے کے لیے موجودہ نوٹریائزیشن کے طریقہ کار میں ترمیم اور آسان بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن سید امین الحق ، سیکریٹری آئی ٹی اینڈ ٹی سہیل راجپوت ، سیکرٹری خزانہ یوسف خان ، سیکرٹری تجارت محمد صالح احمد فاروقی ، سیکرٹری بی او آئی فارینہ مظہر ، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت داخلہ مومن آغا ، رجسٹرار ایس ای سی پی مبشر صدوزئی ، اور ممبر ان لینڈ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ریونیو قیصر اقبال نے اجلاس میں شرکت کی۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر ، امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان کے ساتھ معظم چودھری ، سلیم احمد ، ضیا چشتی ، نجی�� غوری ، نوید شیروانی ، علی فہد ، راغب حسین ، ادریس کوٹھاری ، صفوان شاہ ، ریاض صدیقی ، احسن سہیل ، وحید قریشی ، عامر خان ، احمد ایوب ، مامون حامد اور فیصل سہیل نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔
Source link
0 notes
Text
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
پاکستان کے معروف صحافی ، تجزیہ کار و کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے الیکشن کے نتائج مسترد کرنے والوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آجائے کہ 1992ء کا ورلڈ کپ دوبارہ کروایا جائے۔ ہم تمام میچوں کو مسترد کرتے ہیں۔ اس مطالبے پر افغان صدر اشرف غنی نے یہ کہہ کر پانی پھیر دیا ہے کہ
’’عمران خان افغانستان میں بہت مقبول ہیںبلکہ عمران خان کو دیکھ کر افغانستان میں کرکٹ کی طرف نوجوان راغب ہوئے‘‘۔عمران خان کس قدر مقبول کرکٹر تھا اس کا اندازہ بی بی سی کے اس پروگرام سے کیا جاسکتا ہے جس میں انگلستان کے نامور کھلاڑی بتا رہے ہیں کہ ’’جب ہم نیویارک ائیرپورٹ پر سامان لے رہے تھے تو ہمارے پاس ایک
بوڑھی امریکی خاتون آئی اس نے بلے کی طرف اشارہ کیااور کہا، اچھا یہ اس کھیل کا سامان ہے جو عمران خان کھیلتا ہے‘‘۔ عمران خان صنف مخالف کے ہاں کس قدر مقبول رہا، یہ جاننے کیلئے سابق بھارتی کپتان کپل دیو کا انٹرویو کافی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ
’’ہم اپنے لباس او ربالوں کے بڑے اسٹائل بناتے تھے مگر بھارتی لڑکیوں کی زبان پر پھر عمران خان ہی کا نام ہوتا تھا‘‘۔ شاید اسی لئے عمران خان کی حالیہ سیاسی جیت پر انڈین فلم انڈسٹری کے لوگ بہت خوش ہیں، انڈین کرکٹر بھی بہت خوش ہیں، مجھے زینت امان اور ریکھا کی تو خبر نہیں مگر دلیر مہدی سمیت کئی دوسرے اداکاروں کے بیانات سامنے آگئے ہیں، برطانیہ کے امیر ترین لوگ عمران خان کے چاہنے والوں میں شامل رہے ہیں جن دنوں میں جمائما خان سے نیا نیا تعارف ہوا تھا انہی دنوں میں ملکہ نور بھی عمران خان پر فریفتہ تھیں گویا یہ مقبول ترین کرکٹر اسلامی دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں بھی مقبول تھا۔
ابھی چند برس پہلے سعودی ولی عہد نے عمران خان کو پیش کش کی تھی کہ ’’آپ سعودی عرب میں کرکٹ ٹیم کے لئے کام کریں، ہم آپ کو بیس ارب ڈالرز دیں گے‘‘ عمران خان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور کہا کہ ’’میں اپنے ملک کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس پیش کش کے ٹھکرانے پر ایک دوست نے پوچھا تو عمران خان بتانے لگے’’ایسی ہی پیش کش مجھے سلطان آف برونائی کر چکا ہے، اس کی پیش کش بھی میں نے اس لئے ٹھکرا دی تھی کہ میں پاکستان کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ پاکستان میں حالیہ انتخابات میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے تمام سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ کر رکھ دیاہے، بڑے بڑے سیاسی برج الٹنے کے بعد جب عمران خان نے اپنی پہلی تقریر کی تو دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے بلکہ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ عمران خان کی 40منٹ کی تقریر کئی لوگوں کی 40 سالہ سیاست پر حاوی ہے،
وہ 40برسوں میںایسا کچھ نہیں کرسکے جو عمران خان نے اپنی پہلی تقریر ہی میں کر دکھایا ہے۔دنیا عمران خان کو بے مثال جیت پر مبارکبادیں دے رہی ہے مگر ہارنے والوں کو اپنی ہار ہضم نہیں ہورہی۔ اس بدہضمی پر سوشل میڈیا پر یہ لطیفہ گردش کررہا ہے کہ ’’جب تک مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، محمود خان اچکزائی اور اسفند یار ولی جیت نہیں جاتے اس وقتتک بار بار الیکشن کروائے جائیں، آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ‘‘ ویسے اس بات پر حیرت ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد مولانا صاحب فرما رہے تھے ’’دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ انتخابات کو دھاندلی کی وجہ سے قبول نہ کیا جائے‘‘ اب یہی مولانا صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’انتخابات میں دھاندلی ہوئی، ہم اسے مسترد کرتے ہیں،
دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیںاور ہم یہ حکومت نہیں چلنے دیں گے‘‘ ہمیں تو خیر اس دھاندلی کی سمجھ نہیں آرہی قومی اسمبلی کے حلقہ 263 سے ایم ایم اے کے صلاح الدین نے محمود خان اچکزئی کو شکست دی، دھاندلی پتہ نہیںکس نے کی؟اگر سیالکوٹ، گوجرانوالہ، سرگودھا، نارووال، شیخوپورہ، اوکاڑہ، پاکپتن، قصور، ساہیوال،بہاولنگر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نتائج دیکھے جائیں تو ن لیگ کبھی نہیں کہے گی کہ دھاندلی ہوئی ہے، شاید اسی لئے حمزہ شہباز پری پول دھاندلی کا نام تو لے رہے ہیں مگر پولنگ میں دھاندلی کا تذکرہ نہیں کررہے کیونکہ دھاندلی ہوئی ہی نہیں، بعض لوگ اسٹیبلشمنٹ کا نام بہت لیتے ہیں۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پی ایس پی، ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک ناکام ہوگئی ہیں،
جیب بھی خراب ہوگئی ہے، جی ڈی اے کو بھی خاطرہ خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف جیت گئے ہیں۔اس حساب سے تو اسٹیبلشمنٹ بری طرح ناکام ہوئی ہے، مزید تصدیق کیلئے رانا نذیر، بلال ورک اور رضا حیات ہراج سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں چوہدری نثار علی خان کے حوالے سے یاد رکھئے کہ چوہدری نثار علی خان کو حلقے کے عوام نے مسترد کرنے کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔1۔ پہلی وجہ بتانے کا ابھی وقت نہیں آیا۔2۔دوسری وجہ بتانے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔3۔ تیسری وجہ بتا دی تو بڑی خرابی پیدا ہوگی۔اس سے لگتا ہے کہ حلقے کے عوام چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کو بڑے غور سے سنتے ہیں۔ تمام صورتحال میں بفلوکی عظمیٰ احمد کا ایک شعر بہت یاد آرہا ہے کہ؎رکھ تو دیا ہے جام، محبت میں ڈال کر۔۔اس نے کبھی پیا بھی ہے بادہ، خبر نہیں
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Uj7DBJ via Urdu News
0 notes
Text
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
پاکستان کے معروف صحافی ، تجزیہ کار و کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے الیکشن کے نتائج مسترد کرنے والوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آجائے کہ 1992ء کا ورلڈ کپ دوبارہ کروایا جائے۔ ہم تمام میچوں کو مسترد کرتے ہیں۔ اس مطالبے پر افغان صدر اشرف غنی نے یہ کہہ کر پانی پھیر دیا ہے کہ
’’عمران خان افغانستان میں بہت مقبول ہیںبلکہ عمران خان کو دیکھ کر افغانستان میں کرکٹ کی طرف نوجوان راغب ہوئے‘‘۔عمران خان کس قدر مقبول کرکٹر تھا اس کا اندازہ بی بی سی کے اس پروگرام سے کیا جاسکتا ہے جس میں انگلستان کے نامور کھلاڑی بتا رہے ہیں کہ ’’جب ہم نیویارک ائیرپورٹ پر سامان لے رہے تھے تو ہمارے پاس ایک
بوڑھی امریکی خاتون آئی اس نے بلے کی طرف اشارہ کیااور کہا، اچھا یہ اس کھیل کا سامان ہے جو عمران خان کھیلتا ہے‘‘۔ عمران خان صنف مخالف کے ہاں کس قدر مقبول رہا، یہ جاننے کیلئے سابق بھارتی کپتان کپل دیو کا انٹرویو کافی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ
’’ہم اپنے لباس او ربالوں کے بڑے اسٹائل بناتے تھے مگر بھارتی لڑکیوں کی زبان پر پھر عمران خان ہی کا نام ہوتا تھا‘‘۔ شاید اسی لئے عمران خان کی حالیہ سیاسی جیت پر انڈین فلم انڈسٹری کے لوگ بہت خوش ہیں، انڈین کرکٹر بھی بہت خوش ہیں، مجھے زینت امان اور ریکھا کی تو خبر نہیں مگر دلیر مہدی سمیت کئی دوسرے اداکاروں کے بیانات سامنے آگئے ہیں، برطانیہ کے امیر ترین لوگ عمران خان کے چاہنے والوں میں شامل رہے ہیں جن دنوں میں جمائما خان سے نیا نیا تعارف ہوا تھا انہی دنوں میں ملکہ نور بھی عمران خان پر فریفتہ تھیں گویا یہ مقبول ترین کرکٹر اسلامی دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں بھی مقبول تھا۔
ابھی چند برس پہلے سعودی ولی عہد نے عمران خان کو پیش کش کی تھی کہ ’’آپ سعودی عرب میں کرکٹ ٹیم کے لئے کام کریں، ہم آپ کو بیس ارب ڈالرز دیں گے‘‘ عمران خان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور کہا کہ ’’میں اپنے ملک کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس پیش کش کے ٹھکرانے پر ایک دوست نے پوچھا تو عمران خان بتانے لگے’’ایسی ہی پیش کش مجھے سلطان آف برونائی کر چکا ہے، اس کی پیش کش بھی میں نے اس لئے ٹھکرا دی تھی کہ میں پاکستان کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ پاکستان میں حالیہ انتخابات میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے تمام سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ کر رکھ دیاہے، بڑے بڑے سیاسی برج الٹنے کے بعد جب عمران خان نے اپنی پہلی تقریر کی تو دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے بلکہ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ عمران خان کی 40منٹ کی تقریر کئی لوگوں کی 40 سالہ سیاست پر حاوی ہے،
وہ 40برسوں میںایسا کچھ نہیں کرسکے جو عمران خان نے اپنی پہلی تقریر ہی میں کر دکھایا ہے۔دنیا عمران خان کو بے مثال جیت پر مبارکبادیں دے رہی ہے مگر ہارنے والوں کو اپنی ہار ہضم نہیں ہورہی۔ اس بدہضمی پر سوشل میڈیا پر یہ لطیفہ گردش کررہا ہے کہ ’’جب تک مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، محمود خان اچکزائی اور اسفند یار ولی جیت نہیں جاتے اس وقتتک بار بار الیکشن کروائے جائیں، آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ‘‘ ویسے اس بات پر حیرت ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد مولانا صاحب فرما رہے تھے ’’دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ انتخابات کو دھاندلی کی وجہ سے قبول نہ کیا جائے‘‘ اب یہی مولانا صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’انتخابات میں دھاندلی ہوئی، ہم اسے مسترد کرتے ہیں،
دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیںاور ہم یہ حکومت نہیں چلنے دیں گے‘‘ ہمیں تو خیر اس دھاندلی کی سمجھ نہیں آرہی قومی اسمبلی کے حلقہ 263 سے ایم ایم اے کے صلاح الدین نے محمود خان اچکزئی کو شکست دی، دھاندلی پتہ نہیںکس نے کی؟اگر سیالکوٹ، گوجرانوالہ، سرگودھا، نارووال، شیخوپورہ، اوکاڑہ، پاکپتن، قصور، ساہیوال،بہاولنگر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نتائج دیکھے جائیں تو ن لیگ کبھی نہیں کہے گی کہ دھاندلی ہوئی ہے، شاید اسی لئے حمزہ شہباز پری پول دھاندلی کا نام تو لے رہے ہیں مگر پولنگ میں دھاندلی کا تذکرہ نہیں کررہے کیونکہ دھاندلی ہوئی ہی نہیں، بعض لوگ اسٹیبلشمنٹ کا نام بہت لیتے ہیں۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پی ایس پی، ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک ناکام ہوگئی ہیں،
جیب بھی خراب ہوگئی ہے، جی ڈی اے کو بھی خاطرہ خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف جیت گئے ہیں۔اس حساب سے تو اسٹیبلشمنٹ بری طرح ناکام ہوئی ہے، مزید تصدیق کیلئے رانا نذیر، بلال ورک اور رضا حیات ہراج سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں چوہدری نثار علی خان کے حوالے سے یاد رکھئے کہ چوہدری نثار علی خان کو حلقے کے عوام نے مسترد کرنے کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔1۔ پہلی وجہ بتانے کا ابھی وقت نہیں آیا۔2۔دوسری وجہ بتانے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔3۔ تیسری وجہ بتا دی تو بڑی خرابی پیدا ہوگی۔اس سے لگتا ہے کہ حلقے کے عوام چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کو بڑے غور سے سنتے ہیں۔ تمام صورتحال میں بفلوکی عظمیٰ احمد کا ایک شعر بہت یاد آرہا ہے کہ؎رکھ تو دیا ہے جام، محبت میں ڈال کر۔۔اس نے کبھی پیا بھی ہے بادہ، خبر نہیں
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Uj7DBJ via Daily Khabrain
0 notes
Text
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
پاکستان کے معروف صحافی ، تجزیہ کار و کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے الیکشن کے نتائج مسترد کرنے والوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آجائے کہ 1992ء کا ورلڈ کپ دوبارہ کروایا جائے۔ ہم تمام میچوں کو مسترد کرتے ہیں۔ اس مطالبے پر افغان صدر اشرف غنی نے یہ کہہ کر پانی پھیر دیا ہے کہ
’’عمران خان افغانستان میں بہت مقبول ہیںبلکہ عمران خان کو دیکھ کر افغانستان میں کرکٹ کی طرف نوجوان راغب ہوئے‘‘۔عمران خان کس قدر مقبول کرکٹر تھا اس کا اندازہ بی بی سی کے اس پروگرام سے کیا جاسکتا ہے جس میں انگلستان کے نامور کھلاڑی بتا رہے ہیں کہ ’’جب ہم نیویارک ائیرپورٹ پر سامان لے رہے تھے تو ہمارے پاس ایک
بوڑھی امریکی خاتون آئی اس نے بلے کی طرف اشارہ کیااور کہا، اچھا یہ اس کھیل کا سامان ہے جو عمران خان کھیلتا ہے‘‘۔ عمران خان صنف مخالف کے ہاں کس قدر مقبول رہا، یہ جاننے کیلئے سابق بھارتی کپتان کپل دیو کا انٹرویو کافی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ
’’ہم اپنے لباس او ربالوں کے بڑے اسٹائل بناتے تھے مگر بھارتی لڑکیوں کی زبان پر پھر عمران خان ہی کا نام ہوتا تھا‘‘۔ شاید اسی لئے عمران خان کی حالیہ سیاسی جیت پر انڈین فلم انڈسٹری کے لوگ بہت خوش ہیں، انڈین کرکٹر بھی بہت خوش ہیں، مجھے زینت امان اور ریکھا کی تو خبر نہیں مگر دلیر مہدی سمیت کئی دوسرے اداکاروں کے بیانات سامنے آگئے ہیں، برطانیہ کے امیر ترین لوگ عمران خان کے چاہنے والوں میں شامل رہے ہیں جن دنوں میں جمائما خان سے نیا نیا تعارف ہوا تھا انہی دنوں میں ملکہ نور بھی عمران خان پر فریفتہ تھیں گویا یہ مقبول ترین کرکٹر اسلامی دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں بھی مقبول تھا۔
ابھی چند برس پہلے سعودی ولی عہد نے عمران خان کو پیش کش کی تھی کہ ’’آپ سعودی عرب میں کرکٹ ٹیم کے لئے کام کریں، ہم آپ کو بیس ارب ڈالرز دیں گے‘‘ عمران خان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور کہا کہ ’’میں اپنے ملک کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس پیش کش کے ٹھکرانے پر ایک دوست نے پوچھا تو عمران خان بتانے لگے’’ایسی ہی پیش کش مجھے سلطان آف برونائی کر چکا ہے، اس کی پیش کش بھی میں نے اس لئے ٹھکرا دی تھی کہ میں پاکستان کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ پاکستان میں حالیہ انتخابات میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے تمام سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ کر رکھ دیاہے، بڑے بڑے سیاسی برج الٹنے کے بعد جب عمران خان نے اپنی پہلی تقریر کی تو دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے بلکہ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ عمران خان کی 40منٹ کی تقریر کئی لوگوں کی 40 سالہ سیاست پر حاوی ہے،
وہ 40برسوں میںایسا کچھ نہیں کرسکے جو عمران خان نے اپنی پہلی تقریر ہی میں کر دکھایا ہے۔دنیا عمران خان کو بے مثال جیت پر مبارکبادیں دے رہی ہے مگر ہارنے والوں کو اپنی ہار ہضم نہیں ہورہی۔ اس بدہضمی پر سوشل میڈیا پر یہ لطیفہ گردش کررہا ہے کہ ’’جب تک مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، محمود خان اچکزائی اور اسفند یار ولی جیت نہیں جاتے اس وقتتک بار بار الیکشن کروائے جائیں، آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ‘‘ ویسے اس بات پر حیرت ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد مولانا صاحب فرما رہے تھے ’’دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ انتخابات کو دھاندلی کی وجہ سے قبول نہ کیا جائے‘‘ اب یہی مولانا صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’انتخابات میں دھاندلی ہوئی، ہم اسے مسترد کرتے ہیں،
دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیںاور ہم یہ حکومت نہیں چلنے دیں گے‘‘ ہمیں تو خیر اس دھاندلی کی سمجھ نہیں آرہی قومی اسمبلی کے حلقہ 263 سے ایم ایم اے کے صلاح الدین نے محمود خان اچکزئی کو شکست دی، دھاندلی پتہ نہیںکس نے کی؟اگر سیالکوٹ، گوجرانوالہ، سرگودھا، نارووال، شیخوپورہ، اوکاڑہ، پاکپتن، قصور، ساہیوال،بہاولنگر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نتائج دیکھے جائیں تو ن لیگ کبھی نہیں کہے گی کہ دھاندلی ہوئی ہے، شاید اسی لئے حمزہ شہباز پری پول دھاندلی کا نام تو لے رہے ہیں مگر پولنگ میں دھاندلی کا تذکرہ نہیں کررہے کیونکہ دھاندلی ہوئی ہی نہیں، بعض لوگ اسٹیبلشمنٹ کا نام بہت لیتے ہیں۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پی ایس پی، ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک ناکام ہوگئی ہیں،
جیب بھی خراب ہوگئی ہے، جی ڈی اے کو بھی خاطرہ خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف جیت گئے ہیں۔اس حساب سے تو اسٹیبلشمنٹ بری طرح ناکام ہوئی ہے، مزید تصدیق کیلئے رانا نذیر، بلال ورک اور رضا حیات ہراج سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں چوہدری نثار علی خان کے حوالے سے یاد رکھئے کہ چوہدری نثار علی خان کو حلقے کے عوام نے مسترد کرنے کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔1۔ پہلی وجہ بتانے کا ابھی وقت نہیں آیا۔2۔دوسری وجہ بتانے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔3۔ تیسری وجہ بتا دی تو بڑی خرابی پیدا ہوگی۔اس سے لگتا ہے کہ حلقے کے عوام چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کو بڑے غور سے سنتے ہیں۔ تمام صورتحال میں بفلوکی عظمیٰ احمد کا ایک شعر بہت یاد آرہا ہے کہ؎رکھ تو دیا ہے جام، محبت میں ڈال کر۔۔اس نے کبھی پیا بھی ہے بادہ، خبر نہیں
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Uj7DBJ via Today Urdu News
0 notes
Text
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
زینت امان، ریکھا،جمائماتو کچھ نہیں کپتان پر کونسے اسلامی ملک کی ملکہ مرتی تھی
پاکستان کے معروف صحافی ، تجزیہ کار و کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے الیکشن کے نتائج مسترد کرنے والوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آجائے کہ 1992ء کا ورلڈ کپ دوبارہ کروایا جائے۔ ہم تمام میچوں کو مسترد کرتے ہیں۔ اس مطالبے پر افغان صدر اشرف غنی نے یہ کہہ کر پانی پھیر دیا ہے کہ
’’عمران خان افغانستان میں بہت مقبول ہیںبلکہ عمران خان کو دیکھ کر افغانستان میں کرکٹ کی طرف نوجوان راغب ہوئے‘‘۔عمران خان کس قدر مقبول کرکٹر تھا اس کا اندازہ بی بی سی کے اس پروگرام سے کیا جاسکتا ہے جس میں انگلستان کے نامور کھلاڑی بتا رہے ہیں کہ ’’جب ہم نیویارک ائیرپورٹ پر سامان لے رہے تھے تو ہمارے پاس ایک
بوڑھی امریکی خاتون آئی اس نے بلے کی طرف اشارہ کیااور کہا، اچھا یہ اس کھیل کا سامان ہے جو عمران خان کھیلتا ہے‘‘۔ عمران خان صنف مخالف کے ہاں کس قدر مقبول رہا، یہ جاننے کیلئے سابق بھارتی کپتان کپل دیو کا انٹرویو کافی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ
’’ہم اپنے لباس او ربالوں کے بڑے اسٹائل بناتے تھے مگر بھارتی لڑکیوں کی زبان پر پھر عمران خان ہی کا نام ہوتا تھا‘‘۔ شاید اسی لئے عمران خان کی حالیہ سیاسی جیت پر انڈین فلم انڈسٹری کے لوگ بہت خوش ہیں، انڈین کرکٹر بھی بہت خوش ہیں، مجھے زینت امان اور ریکھا کی تو خبر نہیں مگر دلیر مہدی سمیت کئی دوسرے اداکاروں کے بیانات سامنے آگئے ہیں، برطانیہ کے امیر ترین لوگ عمران خان کے چاہنے والوں میں شامل رہے ہیں جن دنوں میں جمائما خان سے نیا نیا تعارف ہوا تھا انہی دنوں میں ملکہ نور بھی عمران خان پر فریفتہ تھیں گویا یہ مقبول ترین کرکٹر اسلامی دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں بھی مقبول تھا۔
ابھی چند برس پہلے سعودی ولی عہد نے عمران خان کو پیش کش کی تھی کہ ’’آپ سعودی عرب میں کرکٹ ٹیم کے لئے کام کریں، ہم آپ کو بیس ارب ڈالرز دیں گے‘‘ عمران خان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور کہا کہ ’’میں اپنے ملک کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس پیش کش کے ٹھکرانے پر ایک دوست نے پوچھا تو عمران خان بتانے لگے’’ایسی ہی پیش کش مجھے سلطان آف برونائی کر چکا ہے، اس کی پیش کش بھی میں نے اس لئے ٹھکرا دی تھی کہ میں پاکستان کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ پاکستان میں حالیہ انتخابات میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے تمام سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ کر رکھ دیاہے، بڑے بڑے سیاسی برج الٹنے کے بعد جب عمران خان نے اپنی پہلی تقریر کی تو دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے بلکہ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ عمران خان کی 40منٹ کی تقریر کئی لوگوں کی 40 سالہ سیاست پر حاوی ہے،
وہ 40برسوں میںایسا کچھ نہیں کرسکے جو عمران خان نے اپنی پہلی تقریر ہی میں کر دکھایا ہے۔دنیا عمران خان کو بے مثال جیت پر مبارکبادیں دے رہی ہے مگر ہارنے والوں کو اپنی ہار ہضم نہیں ہورہی۔ اس بدہضمی پر سوشل میڈیا پر یہ لطیفہ گردش کررہا ہے کہ ’’جب تک مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، محمود خان اچکزائی اور اسفند یار ولی جیت نہیں جاتے اس وقتتک بار بار الیکشن کروائے جائیں، آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ‘‘ ویسے اس بات پر حیرت ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد مولانا صاحب فرما رہے تھے ’’دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ انتخابات کو دھاندلی کی وجہ سے قبول نہ کیا جائے‘‘ اب یہی مولانا صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’انتخابات میں دھاندلی ہوئی، ہم اسے مسترد کرتے ہیں،
دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیںاور ہم یہ حکومت نہیں چلنے دیں گے‘‘ ہمیں تو خیر اس دھاندلی کی سمجھ نہیں آرہی قومی اسمبلی کے حلقہ 263 سے ایم ایم اے کے صلاح الدین نے محمود خان اچکزئی کو شکست دی، دھاندلی پتہ نہیںکس نے کی؟اگر سیالکوٹ، گوجرانوالہ، سرگودھا، نارووال، شیخوپورہ، اوکاڑہ، پاکپتن، قصور، ساہیوال،بہاولنگر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نتائج دیکھے جائیں تو ن لیگ کبھی نہیں کہے گی کہ دھاندلی ہوئی ہے، شاید اسی لئے حمزہ شہباز پری پول دھاندلی کا نام تو لے رہے ہیں مگر پولنگ میں دھاندلی کا تذکرہ نہیں کررہے کیونکہ دھاندلی ہوئی ہی نہیں، بعض لوگ اسٹیبلشمنٹ کا نام بہت لیتے ہیں۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پی ایس پی، ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک ناکام ہوگئی ہیں،
جیب بھی خراب ہوگئی ہے، جی ڈی اے کو بھی خاطرہ خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف جیت گئے ہیں۔اس حساب سے تو اسٹیبلشمنٹ بری طرح ناکام ہوئی ہے، مزید تصدیق کیلئے رانا نذیر، بلال ورک اور رضا حیات ہراج سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں چوہدری نثار علی خان کے حوالے سے یاد رکھئے کہ چوہدری نثار علی خان کو حلقے کے عوام نے مسترد کرنے کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔1۔ پہلی وجہ بتانے کا ابھی وقت نہیں آیا۔2۔دوسری وجہ بتانے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔3۔ تیسری وجہ بتا دی تو بڑی خرابی پیدا ہوگی۔اس سے لگتا ہے کہ حلقے کے عوام چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کو بڑے غور سے سنتے ہیں۔ تمام صورتحال میں بفلوکی عظمیٰ احمد کا ایک شعر بہت یاد آرہا ہے کہ؎رکھ تو دیا ہے جام، محبت میں ڈال کر۔۔اس نے کبھی پیا بھی ہے بادہ، خبر نہیں
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2Uj7DBJ via Urdu News
0 notes
Text
ابن مسکویہ : ادیب، مؤرخ اور فلسفی
ابو علی احمد بن محمد ابن مسکویہ بہت بڑے ادیب، مؤرخ اور فلسفی گزرے ہیں۔مسلم فلسفہ پر ان کا زیادہ اثر اخلاقیات کے موضوع پر پڑا۔ اسلامی تاریخ میں اخلاقیات کے فلسفے پر انہوں نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے عنوان سے پہلی جامع کتاب لکھی۔ ان کی پیدائش غالباً 932ء کی ہے، مقام پیدائش رے ہے جو ان دنوں زیاریان سلطنت کے زیراثر تھا۔ وفات 1030ء میں اصفہان میں ہوئی۔ جوانی میں وہ وزیر الملہبی کے ملازم ہوئے۔ اس کی وفات کے بعد آل بویہ کے ایک وزیر کی ملازمت کی اور سات سال تک وزیر کے کتب خانہ کے خازن رہے۔ رومیوں نے جب رے پر حملہ کیا اور اسے تباہ و برباد کر دیا تو ابن مسکویہ نے کتب خانے کو بچائے رکھا۔
وزیر کی وفات کے بعد اس کے بیٹے اور پھر عضدالدولہ کے ہاں ملازمت کی۔ اس کے بعد آل بویہ کے دوسرے حکمرانوں کے ہاں بھی ملازم رہے۔ فلسفہ میں ابن مسکویہ فارابی اور اس کے ذریعہ ارسطو سے متاثر ہیں اور عام طور پر الکندی کے قریب ہیں۔ ان کی تصانیف ’’آداب العرب و الفرس‘‘ اور ’’تجارب الامم‘‘ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نظر کافی گہر�� تھی اور وہ ایک آزاد خیال مفکر تھے۔ وہ تاریخ کا مطالعہ ایک فلسفی اور سائنس دان کی حیثیت سے کرتے تھے اور اس لیے انہیں واقعات سے زیادہ ان کے اسباب و علل سے دلچسپی تھی۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے تھے کہ جو افراد قوموں کی زندگی اورعروج و زوال میں حصہ لیتے ہیں، ان کے اعمال اور افعال کے محرکات کیا ہیں؟
کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو کیوں؟ ان کے نزدیک تاریخ کا تعلق اگرچہ ماضی سے ہے لیکن اس میں مستقبل کے لیے بھی ایک سبق ہے جس سے افراد ان غلطیوں سے بچ سکتے ہیں جن سے ماضی میں لوگ ناکامی اور زوال کا شکار بنے۔ ان کے نزدیک تاریخ عبارت ہے، اس مسلسل حرکت سے جس میں اس کے جملہ حوادث ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں۔ تاریخ ذاتِ انسانی کی ترجمان اور اس کے ارادوں اور آرزوؤں کا مظہر ہے۔ لہٰذا نفس انسانی ہی اس حرکت کا اصل سرچشمہ ہے جس کا مطالعہ ایک طرح سے نفسِ انسانی کا مطالعہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی بنیاد حقائق پر ہے، معجزوں اور افسانوں پر نہیں۔ وہ حقائق کے ادراک کا ایک ذریعہ ہے۔
ابن مسکویہ نے تاریخ کے عمل کا ایک جدلی تصور قائم کیا ہے لیکن یہ جدلی عمل مادی قوتوں کے بجائے انسانوں کی رائے، خیالات و نظریات، ارادوں اور مقاصد سے متعلق ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ کے کوئی مقررہ اور معینہ ادوار نہیں ہیں۔ ہر دور کی اپنی ایک روح ہے جس کے ماتحت اخلاق، سیاست یا معاشرت ایک مخصوص رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ تاریخ پر ان کی کتابوں میں تجارب الامم بہت مشہور ہے۔ یہ ایک عمومی تاریخ ہے جسے طوفانِ نوح سے شروع کر کے 319ھ (931ئ) پر ختم کیا گیا ہے۔ تاریخ کے علاوہ ابن مسکویہ نے اخلاق پر بھی کئی کتابیں لکھیں۔ ان میں تہذیب الاخلاق و تطہیر الاعراق، ’’کتاب آداب العرب والفرس و دیگر مشہور ہیں۔
ان کے نزدیک نفس ایک ایسا جوہر ہے جسے نہ جسم کہا جا سکتا ہے اورنہ جسم کا کوئی حصہ اور جس کا ادراک حواس کے ذریعہ ناممکن ہے۔ اسے ایسی معرفتیں حاصل ہیں جو حواس کو حاصل نہیں۔ نفس ایک وحدت ہے لہٰذا اس میں عقل اور معقول ایک ہو جاتے ہیں۔ انسان، عقل ہی کی بدولت حیوانات سے ممتاز ہے اوراعمال حسنہ کی طرف راغب ہے۔ ان کے نزدیک ہر ہستی کے اندر ایک شوق پوشیدہ ہے جو اسے مجبور کرتا ہے کہ اپنے کمال کی طرف حرکت کرے۔ یہی حرکت خیر و فضیلت ہے۔ انسان کا کمال انسانیت میں ہے اور اس لیے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ اسے حاصل کرے لیکن اس مرتبہ پر پہنچنے کی استعداد سب میں یکساں نہیں ہوتی۔ چند ہستیاں برگزیدہ ہوتی ہیں جو فطرتاً خیر کی طرف جاتی ہیں اور چند اشرار کی جو فطرتاً شر کی طرف جاتی ہیں۔ لیکن بڑی اکثریت ان کے بین بین ہوتی ہے جو تربیت کے ذریعہ خیر یا شر کی طرف جاتی ہے۔
محمد اقبال
0 notes