#ابوجعفر
Explore tagged Tumblr posts
b558445356 · 1 year ago
Link
للبيع ار ض رأس بلك تجاري بحي اليرموك شرق الرياض مساحة / 4225 متر الا طول 65 × 65 شارع 60 م غربي النجاح 36 م شمالي ابوجعفر 20 م جنوبي
0 notes
emergingpakistan · 5 years ago
Text
سقوط بغداد : جب عباسی خلیفہ کو ہلاکو خان کے سامنے لایا گیا
آج سے 762 سال قبل ٹھیک آج ہی کے دن، کئی روز سے بند شاہی فصیل کا دروازہ اندر سے کیا کھلا کہ مسلمانوں پر کچھ اور دروازے کھلے بھی اور بند بھی ہوئے۔ جن میں سے ��یک قلوپطرہ کے اس صندوق کی مانند تھا جس میں بلائیں قید تھیں اور بند ہونے والوں میں سرفہرست علوم و فنون کا تھا۔ صندل سے بنا یہ شاہی محل کا وہی دیوہیکل دروازہ تھا جسے جب آگ لگائی گئی تو اس کی مہک نے لاشوں سے اٹھتے تعفن کو وقتی طور پر خوشبو میں بدل دیا تھا۔ ذکر ہو رہا ہے خلیفہ ہارون الرشید اور شہرزاد کے الف لیلوی شہر بغداد کا، سال ہے 1258، عباسی خلافت قائم ہے اور اس کے آخری خلیفہ مستعصم کا دور ہے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک شاندار شہر ہے۔ انجنیئرنگ سے لے کر علم و فضل، سائنس، زراعت اور خوشحالی تک سب کچھ موجود ہے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے لیکن ہزاروں میل دور اسے تاراج کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
اس دور کا بغداد اس کی بنیاد مستعصم بااللہ کے بزرگ ابوجعفر بن المنصور نے سال 762 میں رکھی تھی جو چند ہی عشروں میں دنیا کے عظیم ترین شہروں میں شمار کیا جانے لگا۔ دنیا بھر سے فلسفی، علما، سائنس دان اور ادبا یہاں پہنچنے لگے۔ علم کیمیا کے بانی جابر بن حیان، بابائے الجبرا الخوارزمی، مشہور فلفسی الرازی، الکندی، مشہور مفکر الغزالی سمیت کئی اہم علمی شخصیات یہیں رہائش پذیر رہیں۔ اس دور کے ایک شاعر نے اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا تھا، ’دجلہ کا کنارہ حسینوں سے پُر تھا اور شہر کا چوک مہ رخوں سے دمکتا تھا‘ ہر طرف شادابی تھی۔ تاہم دوسری طرف کچھ منفی چیزیں بھی تھیں، دولت کی فراوانی نے تن آسانی کو جنم دیا تھا۔ فرقہ واریت عروج پر تھی۔ کوے کے حلال یا حرم ہونے پر مباحث ہوتے تھے۔
مستعصم اور ابن علقمی مستعصم کا پورا نام ابو احمد المستعصم بااللہ عبداللہ بن منصور المستنصر تھا۔ وہ 37 ویں اور آخری عباسی خلیفہ تھے، سنہ 1213 میں پیدا ہوئے اور 1244 میں خلیفہ بنے۔ ابن علقمی ان کا وزیر خاص تھا تاہم خلیفہ کے بیٹے کے ساتھ رنجش کی وجہ سے وہ اندر سے اس خلافت کے خلاف تھا جب اسے چین اور روس کے وسطی علاقے منگولیا سے اٹھنے والے اس نوجوان کے بارے میں معلوم ہوا جو آئے روز ملکوں پر ملک فتح کیے جا رہا تھا تو اسے پیغام بھجوایا کہ اگر وہ بغداد پر حملہ کرے تو مدد کی جائے گی اور قبضہ کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی۔
ہلاکو خان کون تھا؟ ہلاکو خان منگول حکمران چنگیز خان کا پوتا تھا، وہ بھی اپنے دادا اور باپ کی طرح ساری زندگی قتل و غارت میں جتا رہا۔ 1256 میں اس کو اس وقت ایران کا حکمران بنا کر بھیجا گیا جب وہاں ایک ��اغی گروہ سر اٹھا چکا تھا تاہم ہلاکو خان نے اس کو کچل دیا اور اس کے بعد بھی کئی ممالک پر حملہ آور ہوتا رہا۔ جب اسے ابن علقمی کا پیغام ملا تو اسے بغداد میں دلچسپی پیدا ہوئی اور دو لاکھ کی فوج کے ساتھ نکل پڑا، جو منجنیقوں اور بارودی مواد سے لیس تھی۔ ابن علقمی کو علم ہوا تو اس نے خلیفہ سے کہا کہ ہمیں اتنی بڑی فوج ایسے ہی بے کار بیٹھی تنخواہیں لے رہی ہے۔ ان کو دوسرے علاقوں کے سرداروں کے پاس بھیج کر کسی پیداواری کام پر لگائیں جس پر زیادہ تر فوج دوسرے علاقوں میں بھیج دی گئی۔
بغداد کا محاصرہ ہلاکو خان لشکر سمیت 29 جنوری 1258 کو بغداد پہنچا دریائے دجلہ کے کنارے پڑاؤ ڈالا اور خلیفہ کو خط لکھا : ’لوہے کے سُوئے کو گھونسہ مت مارو، سورج کو بجھی ہوئی شمع سمجھنے کی غلطی مت کرو۔ دروازے کھولو، خندقیں بھر دو، حکومت چھوڑ کر ہمارے پاس آ جاؤ۔ اگر ہم نے حملہ کیا تو پاتال میں پناہ ملے گی نہ آسمانوں میں۔‘ چونکہ اس وقت تک خلیفہ کو امید تھی کہ مراکش اور دوسرے ممالک اس کی مدد کر آئیں گے اس لیے ہلاکو کو جوابی خط لکھا ’چند روز کی خوش قسمتی سے تم نے خود کو کائنات کا مالک سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ مشرق سے مغرب تک اہل ایمان میرے ساتھ ہیں، اس لیے بخیریت لوٹ جاؤ۔‘
دن پر دن گزرتے رہے اس دوران دریائے فرات کے کنارے آبادی کو ہلاکو خان کے سپاہی نشانہ بناتے رہے جس پر خلیفہ نے فوج کو مقابلے کے لیے بھیجی جو تاتاریوں کے لشکر کے سامنے نہ ٹک سکی اور چند دن کے اندر زیادہ تر فوجی مارے گئے۔ شاہی محل کی اونچی دیواروں اور دیوہیکل دروازے کے پیچھے بیٹھے خلیفہ مستعصم متفکر تھے کہ کیا کیا جائے۔ ایسے میں ابن علقمی نے مشورہ دیا کہ اگر وہ خود ہلاکو خان کا استقبال کرنے چلے جائیں (جیسا کہ اس نے خط میں لکھا ہے) تو شاید بات بن جائے کیونکہ اسے مال ودولت سے غرض ہے جو خلیفہ کے پاس بے تحاشا ہے، وہ لے کر چلا جائے گا۔ خلیفہ نے اس تجویز پر غور شروع کر دیا۔
جب شاہی درواز کُھلا 10 فروری 1258 کو خلیفہ چند فوجی افسران اور درباریوں کے ساتھ نکل کر ہلاکو خان کے خیمے کی طرف بڑھے تو ان کے ساتھ آنے والے تمام لوگوں کو خیمے کے باہر ہی روک لیا گیا اور خلیفہ کے اندر جاتے ہی سب کو قتل کر دیا گیا۔ خلیفہ کو وہیں سے پکڑ کر قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ انہیں کئی روز تک بھوکا پیاسا رکھا گیا جب وہ بھوک سے نڈھال ہو گئے تو نکال کر ہلاکو کے سامنے پیش کیا گیا۔
خلیفہ و ہلاکو کے تاریخی مکالمے جب کئی روز سے بھوکے عباسی خلیفہ نے پیش کیے جانے والے خوان کا ڈھکن اٹھایا تو اس میں ہیرے جواہرات تھے۔ ہلاکو نے کہا ’کھاؤ‘ خلیفہ بولے ’میں یہ کیسے کھا سکتا ہوں۔‘ جس پر ہلاکو بولا ’تو پھر یہ چیزیں جمع کیوں کیں، اگر تم اس دولت سے جنگ کا سامان خریدتے، سپاہی بھرتی کرتے تو شاید آج میں دریا عبور نہ کر پاتا۔‘ جس پر عباسی خلیفہ نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ’خدا کی یہی مرضی تھی‘ ہلاکو خان نے جواب دیا ’اب میں جو تمہارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں وہ بھی خدا کی مرضی ہے۔‘
مستعصم کی موت منگولوں کی روایات کے مطابق کسی بادشاہ کا زمین پر خون بہانا بدشگونی سمجھا جاتا ہے اس لیے اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس طرح سے مارو کہ خون زمین پر نہ گرے۔ خلیفہ کو قالین میں لپیٹ کر پہلے فوجیوں نے لاتھوں گھونسوں کا نشانہ بنایا اور پھر اس پر اس وقت تک گھوڑے دوڑائے جب تک موت واقع نہ ہو گئی۔ ہلاکو کی فوجوں نے بغداد میں اس حد تک قتل و غارت کی کہ دریائے دجلہ کا پانی کئی روز تک سرخ رہا، کتب خانوں کو جلا دیا گیا، گلیوں میں پڑی لاشوں کے ڈھیر سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو کو رہائشی خیمہ شہر سے باہر لے جانا پڑا۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ سے دس لاکھ افراد کو قتل کیا گیا۔
جاوید مصباح 
بشکریہ اردو نیوز، اسلام آباد
1 note · View note
aliashkanani · 5 years ago
Video
#التوجيهات_الدينية من العتبتين المقدسيين بصوت الحاج #ابوجعفر .. الله يتقبل صيامكم وقيامكم ولا تنسونا بالدعاء. . لتعجيل الفرج وقضاء الحوائج وشفاء المرضى صلوا على محمد وآل محمد . اَللّـهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَآلِ مُحَمَّد وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ وفرجنا بهم وَأَهْلِكْ عَدُوَّهُمْ مِنَ الاِنْسِ والجِنِّ مِنَ الأوَّلينَ وَالاخِرينَ. وعجل لوليك الفرج والعافية والنصر.. . لن أنساكم بالدعاء .. ولا تنسونا بالدعاء #شهر_الخير #insta_ashkanani #شهر_رمضان #الامام_الرؤوف #الامام_الرضا #امام_حسين #امام_حسين_عليه_السلام #صاحب_الزمان #امام_زمان #بقية_الله #حضرت_مهدي #الامام_المهدي #امام_مهدى #العتبة_الرضویة_المقدسة #مبارك_عليكم_الشهر #كل_عام_وانتم_بخير #شهر_رمضان_المبارك #امام_رضا #مشهد #مشهد_المقدسة #العتبة_الحسينية_المقدسة (at حرم الامام الحسين ع) https://www.instagram.com/p/ByOSBuzBdAq/?igshid=i4ov1e1d2y6v
0 notes
bualhasan · 8 years ago
Photo
Tumblr media
مُباركٌ عليكم ذكرى حلول شهر رجب الأصب والذكرى السعيدة لميلاد الإمام محمد الباقر صلوات الله وسلامه عليه. #ابوجعفر #محمد_الباقر #الامام_الباقر #الباقر #باقر_العلوم #أهل_البيت #آل_محمد #اهل_البيت #البقيع #البقيع_الغرقد #المدينة_المنورة #المدينة_المنوره #رجب #شهر_رجب #متباركين #الله_يعودكم
0 notes
parsdown-blog · 8 years ago
Text
ابوجعفر محمدبن جریر طبری
ابوجعفر محمدبن جریر طبری
[ad_1] تیم فرهنگ و هنر پارس دان ابوجعفر محمدبن جریر طبری آفتاب آنلاین: ابوجعفر محمد بن جریر طبری مورخ شهیر در سنه ۲۲۴ هجری در زمان خلافت الواثق بالله نهمین خلیفه عباسی در شهر آمل از بلاد طبرستان ( مازندران) متولد شد. دوران تحصیل و جهانگردی: طبری در سن ۱۵ سالگی جهت تحصیل بدارالعلم بغداد رفته و در آنجا مدتی جهت گذراندن دوره های تحصیلی مانده و از افاضات و افادات ( بهره بردن) استادان و علمای زمان…
View On WordPress
0 notes
forgottengenius · 5 years ago
Text
باکمال مسلم سول انجینئرز
عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کو عمارات سے دلچسپی تھی۔ اس نے بغداد کو ایک نئے پلان کے مطابق نئے سرے سے تعمیر کرانا چاہا۔ انجینئروں کی ایک جماعت اس سلسلے میں مقرر کی گئی۔ نوبخت اور فضل بن نوبخت، یہ باپ اور بیٹے اس کام کے نگران تھے۔ یہ دونوں باکمال سول انجینئر تھے اور ان میں انتظامی صلاحیت اور قابلیت بھی تھی۔ شاہی دربار کی خاص عمارت کا گنبد زمین سے بہت بلند تھا اور اوپر ایک سوار کا مجسمہ نصب تھا۔ فضل بن نوبخت نے اس فن کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی اور اپنی صلاحیتوں سے بہت سے کام کیے۔ اس دور میں کتب خانہ بھی قائم ہوا۔ فضل بن نو بخت نے کتابیں جمع کر کے ان کی فہرست تیار کی۔ غالباً دنیا کا یہ پہلا باقاعدہ شاہی کتب خانہ تھا جو حکومتِ وقت نے تعمیر کرایا اور اخراجات برداشت کیے۔ 
ہارون رشید کے عہد میں بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا۔ نوبخت بغداد کا معمار ہے۔ اسی سمجھ دار انجینئر نے عمارتوں کا پلان بنایا اور تعمیرات میں نمایاں حصہ لیا۔ عراق میں بنو عباس کی حکومت مستحکم ہو چکی تھی۔ اس اہم اور بڑے کام کے لیے تجربہ کار اور سمجھ دار انجینئروں کی ضرورت تھی، نوبخت نے اس کام کو نہایت عمدگی سے انجام دیا۔ نوبخت نہایت ذہین، باصلاحیت اور محنتی نوجوان تھا۔وہ ابتدائی تعلیم و تربیت معمولی مدارس میں حاصل کر کے پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ اس نے علم ہیئت اور دیگر علوم میں مہارت پیدا کی۔ نوبخت کو انجینئرنگ سے دلچسپی تھی، اس نے عمارتوں کے پلان بنانے اور تعمیر کے فن میں کمال پیدا کیا۔ خلیفہ منصور کو متعدد انجینئروں کی ضرورت تھی۔ ان میں نوبخت بھی منتخب کیا گیا۔ 
نوبخت بہت ہوشیار سول انجینئر اور پیمائش کرنے والا (سرویئر) تھا۔ مکمل شہری آبادی کی پلاننگ میں اسے بڑی مہارت حاصل تھی۔ غوروفکر کے بعد بادشاہ کی خواہش کے مطابق شہر بغداد کا دائرے کی شکل میں پورا نقشہ تیار کیا۔ کہتے ہیں کہ شاہی دربار کی گنبد نما عمارت زمین سے کوئی 240 فٹ بلند تھی اور وسیع و عریض اس عمارت کے اونچے اور شاندار گنبد پر ایک شہسوار کا مجسمہ نصب تھا۔یہ مجسمہ دھات کا تھا اور شاہی محلات، باغات اور دیگر عمارتیں ایک گل دستے کی طرح باہم مناسبت سے بنی ہوئی تھیں۔ نوبخت اور اس کے معاون انجینئروں نے بغداد کی پلاننگ میں اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ اس وقت کی دنیا میں یہ انوکھا تخیل تھا اور یہی بغداد آئندہ الف لیلہ کی کہانیوں کا مرکز بنا۔
فضل قابل باپ کا ہونہار بیٹا تھا۔ اس نے تعلیم اپنے باپ سے حاصل کی اور مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ وہ جلد ہی علم ہیئت میں یکتائے روزگار بن گیا اور شہر کی تعمیر میں ��پنے والد کے ساتھ کام کرنے لگا۔ وہ علم ہیئت میں بھی اپنے والد کی مدد کرتا اور مشاہدۂ افلاک میں ساتھ رہتا۔ فضل نے کئی علمی اور فنی کتابوں کے ترجمے بھی کیے۔ اسے کتابوں سے خاص انس تھا۔ اکثر کتابوں کو تلاش کر کے لاتا اور ان کو اپنے کتب خانے میں بڑے ڈھنگ سے ترتیب کے ساتھ رکھتا تھا۔ اس دور میں بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا تھا۔ ہارون رشید کا عہد تھا، اسے کتابوں سے خاص دلچسپی تھی، شاہی کت�� خانے کی ابتدا ہو چکی تھی، بادشاہ نے فضل کو شاہی کتب خانے کا مہتمم اور نگران مقرر کیا۔ فضل نے شاہی کتب خانے میں کتابوں کو ترتیب میں رکھا، رجسٹر بنایا اور کتابوں کی فن وار فہرست بنائی۔ یہ اس دور کا عظیم کتب خانہ بن گیا۔
ابراہیم عمادی
1 note · View note
redemption-gamer-t-o · 2 years ago
Photo
Tumblr media
Happy date of birth Abu Jafar Muhammad bin Musa Khwarzmi, Iranian mathematician and philosopher and National Information Technology Day 🇮🇷🤗 زادروز ابوجعفر محمد بن موسی خوارزمی، ریاضیدان و فیلسوف ایرانی و روز ملی فناوری اطلاعات را تبریک میگویم 🇮🇷🤗 More Info In Fa: https://tinyurl.com/36etkxwn More Info In En: https://tinyurl.com/36etkxwn https://www.instagram.com/p/Cf8_E80rRhQ3NKMXiTIZ28qhMBE72905R-z2f00/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
muzicnews · 6 years ago
Text
ملانصرالدین الاغ سوار در اصل همان خواجه نصیرالدین، وزیر و مراد هلاکوخان مغول است
ملانصرالدین الاغ سوار در اصل همان خواجه نصیرالدین، وزیر و مراد هلاکوخان مغول است
  ملانصرالدین یا خواجه نصرالدین تاریخی کیست؟ و در چه زمانی می زیسته و چگونه شخصیتی بوده و اساساً چنین شخصی وجود حقیقی داشته یا ساخته و پرداختۀ ذهن ملت هاست. این ها سؤالاتی است که محققان تا حال نتوانسته اند با دلیل و برهان قانع کننده و کافی به آن ها پاسخ قاطع بدهند؛ گروهی هم که به درستی نام خواجه نصرالدین را خواجه نصیرالدین طوسی مقابله نموده اند به دنبال اقامه سند و آوردن دلایل مشخص، جز همان موضوع مشابهت و مطابقت بارز این دو نام نرفته اند. این جانب نتایج دید متقدمین در باب خواجه نصرالدین اساطیری است که در اینجا نکته پایانی بر ابقاء عهد راکد یا نیمه راکد ماندن آن میگذاریم چه بررسی اساطیر و مفهوم اسامی اساطیری مربوطه جواب قانع نماینده و تعیین کننده در باب خواجه نصرالدین تاریخی را در وجود همان خواجه نصیرالدین طوسی به دست می دهند. در روایت های عامیانۀ ترکی، زمانی او را هم عصر تیمور لنگ ترک- مغول تبار دانسته اند و حتی بنا بر همین روایات ملاقاتی هم بین ملانصرالدین و آن حاکم سفاک صورت پذیرفته بوده است. در این گفته هسته ای از حقیقت وجود دارد و آن این است که در اساس باید در روایات شفاهی مردم فلات ایران و آناتولی خاطره مقام وزارت و مرجعیت فکری خواجه نصیرالدین نزد هلاکوخان مغول اسبق بر تیمور لنگ به یادها مانده بوده است.
در منابع تاریخی خواجه نصیرالدین و مخدوم وی هولاکو (هولاگو به لفظ مغولی یعنی اسب جنگنده خوش اندام؛ به هیئت مغولی قرینش آلاغو یعنی مرکب خاکستری خال خال) افرادی شناخته شده اند؛ ولی آثار و نام نشان ایشان در افواه مردم خاورمیانه به صورت نقش مثبت نکته سنج و طنز گویش خواجه نصرالدین الاغ سوار و نقش ویرانگر و کشتارگرش در واقعه قتل عام مردم بغداد و همچنین قتل آخرین خلیفه عباسی بغداد المستعصم بالله به صور اساطیری به عمد ملفوفش دّجال (دغل و فریبکار) و دابه الارض (خر ملّون دجال) و سفیانی (دارای استر تیز رو) باقی مانده است که مورد توجه و ریشه یابی درست و جّدی قرار نگرفته اند. جالب است که خود نام مغول را هم به ظاهر در زبان عرب می توان به معنی چهارپایی که با علف خاک خورد، گرفت. مسلم به نظر میرسد در اساس نقش مثبت وی توسط شیعیان و نقش منفی وی و مخدومش توسط سنی مذهبان به اساطیر موعودها راه یافته است. از قرار معلوم افسانه وعده بازگشت خواجه نصیر به بغداد با شاخهای گاویش که وزیر خلیفه بغداد شرط طوسی بودن خواجه نصیر را بدان منوط ساخته بود و در روایات اسلامی عهد مغول باقیمانده است؛ در کنه خود مفهومی در نام اسطوره ای هولاکو (هولاگو به مغولی یعنی اسب جنگنده خوش اندام یا آلاغو، به مغولی یعنی اسب خاکستری خال خال) داشته است . چنانکه می دانیم خواجه نصیرالدین طوسی برای ویرانی بغداد و ریشه کن نمودن خلفای بغداد اسب سرکش خود (نیروهای هولاکوخان) برای براندازی بغداد بدان سوی هدایت نموده است. جالب است که از لفظ هلاخو در زبان کردی همان معنی الاغ اراده میشود. خود بن مایهً انسانی که سوار دیو (انسان وحشی خیالی با شاخ گاو) می شود، در یکی از قصه های خواجه نصرالدین، موسوم به ترک ساده لوح، ذکر شده است. در آن مردی یهود سوار بر دیو است و وی را می آزارد و دیو به تصور اینکه مرد یهود سحری به کار می برد از برای پی بردن بدان، تن بدین آزار و اذیت و خفت و خواری می دهد. چنانکه اشاره شد، به سبب همان موضوع اساطیری شدن نام هلاکو در افواه عامه و ناشناس ماندن نام تاریخی هولاکوخان مغول است که ملانصرالدین اساطیری را نه معاصر او بلکه هم عهد تیمور لنگ نیمه ترک-نیمه مغول معروف قرن بعد از وی قید نموده اند. عنوان دّجال (دروغگو) و خرش در آغاز در عهد دورتر از دوره خواجه نصیرالدین و هلاکوخان به ایزد مصری شِث (سِث، محرک اغتشاش) دارای سمبل الاغ اطلاق میشده است که بعداً به جهت نفرت از ویرانی بغداد و برانداختن خلفای عباسی توسط هلاکوخان مغول و خواجه نصیرالدین طوسی بدینان اطلاق شده است: در احادیث مسلمین از دو دجّال صحبت شده و با چاه یهودیه اصفهان (جی، به لغت ایرانی علی القاعده یعنی کشتارگر) مربوط گردیده اند و بر این اساس دّجال، خداوند بخش شهرجی اصفهان معنی می دهد. جالب است که دیار زادبومی خواجه نصیرالدین طوسی هم با لفظ چاه مربوط بوده است چه ‌اصل‌ خواجه‌ از جهرود [ظاهراً چاه‌ رود] قم‌ یعنی سرزمین منجی موعود شیعیان بوده‌ و چون‌ نیاکانش‌ به‌ طوس‌ رفته‌ و در آنجا توطن‌ اختیار کرده‌ بودند، خواجه‌ هم‌ آنجا از مادر بزاد و از این‌ رو «طوسی» مشهور گشت. به هر حال دجّال ایزد یعنی خداوند شرارت دارای سمبل الاغ مصریها یعنی سِت (شِت) مطابقت پیدا می کند.
    خواجه نصیرالدین طوسی، عالم،‌ فیلسوف و دعوتگر (از وبلاگ اسلامی بینات در قم):
ابوجعفر محمد بن محمد بن حسن معروف به نصیرالدین طوسی. او در ۱۱ جمادی الاول سال۵۹۷ ه‍ در قریه طوس در نزدیکی نیشابور دیده به جهان گشود.
تحصیل
اولین بخش تحصیلات خود را نزد پدرش محمد بن حسن گذراند. پس از فراگیری قرآن به آموختن صرف و نحو پرداخت. با راهنمایی پدرش، ریاضیات را نزد کمال‌الدین محمد معروف به حاسب خواند. سپس به فراگیری حدیث و اخبار پرداخت و حدیث و فقه را به شکل وسیع‌تری نزد پدرش تلمذ کرد، منطق و حکمت را نزد دائی‌اش و حکیم فاضل بابا افضل کاشی فرا گرفت.
پس از تحصیل در نزد دائی، خواجه نصیرالدین طوسی که جوانی بیش نبود در علوم ریاضیات چون حساب و هندسه و جبر تبحّر یافت. خود در این باره می‌گوید: «پس از وفات پدرم به وصیت او عمل کردم، او مرا وصیت کرده بود که برای استفاده از اساتید به هر جائی که لازم باشد سفر کنم. در آن زمان نیشابور مرکز علما و دانش‌جویان بود. پس به نیشابور سفر کردم و در حلقه درس سراج الدین ضری و قطب‌الدین داماد و ابوسعادات اصفهانی و دیگران حاضر شدم. در آنجا با فرید الدین عطار ملاقات نمودم. همین طور نزد معین الدین سالم بن بدران مازنی مصری امامی تملذ نمودم. در سال ۶۱۹ ه‍ معین الدین به من اجازه داد. «
خواجه نصیرالدین نزد کمال‌الدین بن یونس موصلی هم درس خوانده است. گفته شده است «او نزد کمال‌الدین هیثم بحرانی و علامه حلّی نیز فقه آموخته است. همین‌طور آن دو فلسفه و کلام را نیز به او آموخته‌اند. سپس به حکمت و فلسفه پرداخت و نزد حکیم شمس‌الدین عبدالحمید بن عیسی خسروشاهی شاگرد فریدالدین داماد که او نیز شاگرد فخرالدین رازی بوده است، حکمت آموخت و به آموختن بسیاری علوم اسلامی مشغول گشت و از شیخ برهان‌الدین همدانی حدیث شنید«.
در قلعه‌های اسماعیلیه
با هجوم مغولان به رهبری چنگیزخان به خراسان، سلطان محمد خوارزم‌شاه، پس از اندکی مقاومت شکست خورد. شهرها یکی پس از دیگری به دست مغولان سقوط می‌کردند. در این هنگامه قتل و غارت و آتش و خون، قلعه‌های اسماعیلیان توانستند برای مدتها در برابر مغولان ایستادگی کنند و تسلیم نشدند.
مغولان به ویرانی شهرها بسنده نکردند، بلکه عده بسیاری از مردم را نیز از دم تیغ گذراندند. خواجه نصیرالدین از معدود کسانی بودند که نجات یافت. از این رو دنبال سرپناهی مطمئن می‌گشت. او که بیست و هشت سال داشت، جایی غیر از طوس را نیافت. بنابراین برای نجات خود عازم طوس شد. خواجه نصیرالدین شش سال را با حالت خوف و هراس نسبت به آینده در طوس گذراند.
خواجه ، انزوای عجیبی را در طوس برگزید و به غور و ت��قیق در فلسفه پرداخت و تألیفات گرانسنگی را در متافیزیک، ‌طبیعت، اخلاق، سیاست و کلام تألیف کرد و آوازه او شهره هر دیار گردید. لذا ناصرالدین عبدالرحیم الأشتر ملقب به محتشم او را مجبور کرد که به نزدش بیاید و نزد او اقامت نماید. خواجه این دعوت را پذیرفت. اگر چه بعضی دیگر از مورخان معتقدند که اجباری در کار نبوده و خواجه گرایشهای اسماعیلیه داشته و به میل خود به نزد محتشم رفته است و دلیل آن را موقعیت ممتاز خواجه نصیرالدین طوسی می‌دانند که به وزیر مطلق الید اسماعیلیان تبدیل گردید. اما بعضی دیگر اعتقاد دارند درست است این کار او جنبه اختیاری داشته است ولی ارتباط او با اسماعیلیان جدید بوده است نه اسماعیلیان قدیمی. از این رو بی‌انصافی است که به صرف این ارتباط خواجه را متهم به غلو در دین کنیم.
بعضی دیگر اعتقاد دارند که وارد شدن خواجه به قهستان کاملاً حالت اجباری داشته است. فدائیان اسماعیلی در باغهای اطراف نیشابور – که شاید طوس باشد – به خواجه دست یافتند و از او خواستند که همراه او به قلعه بیایند. ولی خواجه از پذیرش دستور آنان امتناع ورزید. لذا فدائیان او را به کشتن تهدید کردند و او را مجبور کردند که همراهشان به قلعه برود. خواجه سالها مثل زندانی یا اسیر در این قلعه زندگی کرد. در حالی که دیگرانی اعتقاد دارند که خواجه به میل خود نزد ناصرالدین رفت. ولی در خلال اقامت، رابطه آن دو بهم خورد. ناصرالدین بر او خشم گرفت و چون زندانی با او برخورد نمود.
خواجه در اسارت بود تا اینکه قدرت به دست مغولها افتاد. در کتاب تأسیس الشیعه لعلوم الاسلامیه آمده است که خواجه از زندانی رهایی یافت و به واسطه برخورداری از علم نجوم مورد احترام قرار گرفت و جزو وزرای آنان قرار گرفت. خواجه در پایان کتاب شرح اشارات خود که آن را در قلعه اسماعیلیان تألیف کرده است می‌گوید: «بیشتر مطالب آن را در چنان وضع سختی نوشته‌ام که سخت‌تر از آن ممکن نیست و بیشتر آن را در روزگار پریشانی نوشتم که هر جزئی از آن، ظرفی برای غصّه و عذاب دردناک بود و پشیمانی و حسرت بزرگی به همراه داشت.» تا جایی که خواجه با خداوند خود چنین مناجات می‌کند: «پروردگارا! از هجوم امواج بلا و مصیبت مرا نجات ده! به حق رسول برگزیده و وصی او مرتضی. خداوندا! بر آن دو و خاندانشان درود فرست و مرا از حالتی که در آن هستم گشایش عنایت فرما که خدایی جز تو نیست و تو مهربان‌ترین مهربانانی. «
ولی نویسنده دیگری می‌گوید، اندوهی که در پایان شرح اشارات دیده می‌شود از وضعیت دشوار او در قلعه حکایت نمی‌کند بلکه برای این بود که سلطه اسماعیلی‌ها از سوی مغولان تهدید می‌گردید. از این رو برای نجات از ویرانی و تباهی مغولان، بغداد را امن یافت. از این رو نامه‌ای به مستعصم خلیفه عباسی نوشت و طی قصیده‌ای او را ستود. وزیر را واسطه کرد که او را به عنوان پناهنده سیاسی در بغداد بپذیرند.
از واکنش خلیفه نیز با تعابیری گوناگون و مخالف یاد شده است. بعضی می‌گویند وزیر درباره کمک به خواجه سکوت پیشه کرد و او را نزد خلیفه خواست و بعضی دیگر می‌گویند که او راز خواجه را فاش کرد و به ناصرالدین محتشم قهستانی نامه‌ای نوشت و از او خواست که در مورد خواجه غفلت نورزد. توضیح داد که خواجه نامه¬هایی به خلیفه نوشته و او را ستوده است « و قصد فرار از پیش تو را دارد، پس در این مورد از او غفلت نکن. «
خواجه نصیرالدین طوسی و هلاکو
خواجه رابطه محکمی با هلاکو برقرار ساخت. بعضی گفته‌اند که این رابطه حاصل نامه نگاری‌های بین خواجه و هلاکو بوده است و دیگران معتقدند که شهرت فلسفی طوسی منجر به این رابطه گردید. ولی حقیقت چیز دیگری است. زیرا هلاکو فلسفه‌دان نبود. بلکه درست‌تر این است که شهرت طوسی در فلک و نجوم باعث این رابطه گردیده است. خواجه نصیرالدین تنها دانشمند حاضر در کنار هلاکو نبود بلکه موفق الدوله و رئیس الدوله که پزشک بودند نیز در کنار هلاکو قرار داشتند.
مورخان می‌گویند که هلاکو در حمله سال ۶۶۵ ه‍ / ۱۲۵۷م به بغداد خواجه نصیرالدین طوسی را نیز همراه خود برد. از این نظر او مورد انتقاد بسیاری از مورخان قرار گرفته است. تا جایی که بعضی‌ها حتی در اسلام او نیز تردید نمودند. کار به جایی رسید که بعضی‌ها او را به شرک و بت‌پرستی متهم کردند. علاوه بر اینکه او را به آسان کردن قتل المستعصم بالله خلیفه عباسی متهم می‌کنند، مسؤولیت خونریزی‌هایی که در بغداد صورت گرفت، حرمت‌هایی که هتک گردید و اسلام و مسلمین مصیبت زده شدند را متوجه او می‌کنند.
در حالی که بعضی دیگر این همراهی را به دید مثبت می‌نگرند. می‌گویند حضور طوسی در بغداد باعث گردید که تعداد بیشتری از مسلمانان – خصوصاَ فلاسفه و علما و منجمین – از کشتن رهایی یابند. او توانست دستوری از هلاکو بگیرد مبنی بر اینکه بر دروازه میدان بایستد و مردمی را که این در خارج می‌شوند امان دهد. بدین ترتیب بسیاری از مردم توانستند بیرون بروند. علاوه بر این خواجه توانست تعداد بسیاری از کتابهای نفیس و آثار علمی گرانسنگ را نجات دهد و کتابخانه‌ای با بیش از چهارصدهزار جلد کتاب را گرد آورد.
بعضی مورخان اشاره دارند علت این که باعث گردید خواجه نصیرالدین به خدمت هلاکو در آید این بود که می‌دید با توجه به وضعیت اسفبار جهان اسلام، پیروزی نظامی بر مغولان محال است. خواجه می‌دید که اگر مغولان از نظر فکری، بر مسلمانان سلطه پیدا کنند اسلام از میان خواهد رفت. از این رو از نیاز هلاکو به تخصص او در علوم نجوم بهره جست و تا می‌توانست میراث اسلامی را از خطر زوال و نابودی رهایی بخشید.
رصدخانه جامع مراغه و مرکز علم
یکی از کارهای مهم خواجه نصیرالدین این بود که در سال ۶۵۷ه / ۱۲۵۷ م رصدخانه مراغه را به یک مرکز بزرگ علمی تبدیل کرد و مجموعه‌ای از کتب گرانسنگ را در آن گرد آورد. بدین ترتیب اولین دانشگاه حقیقی را ایجاد نمود. این مرکز علمی محلّی برای زندگی طلاب جوان، مدرسه فقها و محل حکمت فلاسفه و مجلس پزشکان گردید و از کتابخانه‌ای بزرگ برخوردار شد. این عملکرد چشمگیر هلاکو را قانع ساخت که نظارت بر اوقاف اسلامی و چگونگی مصرف آن را به خواجه نصیرالدین بسپارد.
بدین ترتیب رصدخانه مراغه هاله‌ای از فوائد علمی یافت. خواجه توانست هلاکو را قانع کند که او به تنهایی نمی‌تواند این بنای شامخ را اداره کند و نیازمند کمک سایر افراد شایسته است. هلاکو با این امر موافقت کرد. خواجه نصیرالدین طوسی نیز فخرالدین لقمان بن عبدالله مراغی را مأمور این کار کرد. او در سراسر ممالک اسلامی گردش کرد و از علما و مهاجران خواست که به سرزمین‌های خود باز گردند. از کسانی که مهاجرت نکرده بودند، افراد شایسته را به این مرکز علمی دعوت نمود. مردم دعوت او را اجابت کردند. بدین ترتیب «مجموعه‌ای ارزشمند شکل گرفت. مجموعه‌ای از علمای هیئت و نجوم گرد آمدند که در مباحث نجومی و ریاضی مشارکت می‌کردند«.
پس از آنکه اباقاخان جانشین پدرش هلاکوخان گردید، خواجه منصب وزارت را حفظ کرد و از طریق راهنمایی‌ها و سفارش‌های خود توانست اوضاع عمومی مردم را بهبود ببخشد. لذا مردم تا اندازه‌ای توانستند روی جان و مال خود اطمینان بیابند.
پس از اباقاخان نوبت به حکمرانی فرزند دیگر هلاکو به نام تکودار رسید. او اسلام آورد و به پیروی از او، دولت مغول نیز اسلام را پذیرفتند. هرچند که بعضی معتقدند خود هلاکو نیز اسلام آورده بود. دیگران نیز معتقدند که أباقاخان نیز مسلمان شده بود. مهم این است که خواجه نصیرالدین در اسلامی کردن دولت مغولی و تبدیل نمودن آن به نگهبان اسلام و ارزشهای آن نقش مهمی ایفا کرد. این عمل در شکل‌گیری سرنوشت امت اسلامی نقش به سزایی داشته است.
علی‌رغم اختلافاتی که در مورد مذهب خواجه نصیرالدین طوسی وجود دارد ولی او شیعه دوازده امامی بوده است. شرایط سیاسی، خروج مخالفان از سرزمین خراسان و عراق، مشهور شدن به داشتن مذهب تشیع و گسترش فضل و کمالات او باعث گردید که نتواند مذهب تشیع را ترویج کند. از این رو کنج عزلت برگزید و راه تقیه را در پیش گرفت. بحرانی گوید: «بیشتر ساکنان قلعه را ملحدان تشکیل می‌دادند و خواجه بنا به ضرورت مدتی را با آنان سر کرد.«
  تألیفات
خواجه نصیرالدین طوسی تألیفاتی در تمام ابواب دانش‌های زمان خود دارد. در هندسه و جبر و مثلثات و فیزیک نیز کتابهایی را تألیف کرده است. همین‌طور در منطق و اخلاق و تربیت و نجوم نیز کتابهایی دارد. به مسائل فلسفی نیز علاقه داشته است. اینها علاوه بر تألیفاتی است که از آن بزرگوار در سیاست و کلام از او به جا مانده است. کتابهایی در تاریخ و جغرافیا و طب نیز دارد. در شعر و هنر نیز دستی داشت و در مورد تصوف فلسفی نیز اسرار مهمی در سینه خود داشت.
یکی از تألیفات او «تحریر الکلام» است که در آن می‌گوید: «در زمینه کلام سؤالهایی از من مطرح گردید و من به آنها پاسخ دادم و به بهترین شیوه آنها را تنظیم نمودم. به مهمترین مسائل اعتقادی اشاره کردم. به مسائل اجتهادی که دلیل داشتند و اعتقاد من بدان قوی بود. پرداختم. «
در ریاضیات ابداع مهمی داشت. در مثلثات کتاب یگانه‌ای به نام «کتاب الشکل القطاع» نوشت که در نوع خود یگانه است و به بیشتر زبانهای زنده دنیا ترجمه شده است که برای مدتهای طولانی در تدریس مثلثات از آن استفاده می‌شد. به اعتراف همگان، او اولین کسی است که از حالات‌ شش‌گانه مثلث قائم الزاویه در کتاب «براهین مبتکره» استفاده کرد.
در علم هیئت کتب و موفقیت‌های بسیاری دارد. مهمترین آنها عبارت زنج ایلخانی که خواجه نصیرالدین طوسی توانست شتاب اعتدالین را ایجاد کند. در دوره احیای علوم در اروپا، زیج ایلخانی یکی از منابع مورد اعتماد دانشمندان آنجا بوده است.
او کتاب دیگری به نام تذکره دارد که حاوی نظریات فلکی و نجومی است که فهم آن برای بسیاری دشوار است. بسیاری از دانشمندان مجبور شده‌اند به شرح و توضیح آن بپردازند. در همین کتاب «مجسطی» نقد شده و برای هستی نظامی ساده‌تر از نظام بطلمیوس پیشنهاد گردیده است. در این کتاب اندازه و ابعاد بعضی از ستارگان مورد بررسی قرار گرفته است.
سارتون اعتراف می‌کند نقد خواجه بر مجسطی حاکی از نبوغ و ید طولای او در علوم فلک است. او اعتقاد دارد نقد خواجه زمینه ساز اصطلاحات کوپرنیک گردیده است. علاوه بر این‌ها، خواجه نصیرالدین طوسی تألیفات و رسائل بسیاری دارد که تعداد آن به ۲۷۴ تألیف و رساله در علوم و نجوم و فنون گوناگون می‌رسد.
سرانجام خواجه نصیرالدین طوسی در ۱۸ ذی الحجه ۶۷۲ه‍ / ۱۲۷۴م در بغداد وفات یافت. او در هنگام مرگ هفتاد و پنج سال داشت. (علماء و أعلامwww.bayynat.ir) .
خواجه‌ نصیرالدین‌ طوسی‌ که بود؟ چه کرد؟
وهابیون او را ملحد و القاعده ای ها او را “خواجه مضل الدین” می خوانند! اینان معتقدند که خواجه را در سقوط بغداد و مرگ خلیفه مسلمین، دستی بوده است. آنان نمی توانند بپذیرند که فساد خلافت بغداد و عیاشی هی عباسیان باصطلاح اسلام پناه، سده ها پیش، پایه های حکومت بغداد را پوسانده و دستگاه آنرا گندانده بود. بهر روی مدرکی تاریخی دال بر دست داشتن خواجه نصیر در سقوط بغداد، وجود ندارد، و باید دشمنی وهابیون و القاعده ای را بیش از هر چیز به رشک و خصومتی که نیای فکری ایشان ابن تیمیه و ابن قیم جوزی نسبت به خواجه و هم مباحثه اش علامه حلی (دیگر متکلم شهیر تشیع) روا می داشتند، مربوط دانست. و این حقیقت در رساله ها و مکاتبه های ایشان، در تاریخ مضبوط است. بهر روی، خواجه نصیر الدین طوسی فیلسوف و متکلم بزرگ، جایگاهی رفیع در تاریخ سده های میانه این سرزمین دارد و حق آن است که هر ایرانی فرهیخته، زندگی و آرای فلسفی و سیاسی او را نیک بشناسد.
جرجی‌ زیدان‌ درباره‌ خواجه‌ نصیر می‌گوید: «علم‌ و حکمت‌ به‌ دست‌ این‌ ایرانی‌ در دورترین‌ نقطه‌های‌ بلاد مغول‌ رفت، تو گویی‌ نور تابان‌ بود در تیره‌ شامی. «
گروهی‌ از عالمانِ‌ اهل‌ سنت‌ و برخی‌ مورخان‌ بر این‌ رفته‌اند که‌ چون‌ خواجه‌ شیعی‌ متعصب‌ بوده‌ و خلفای‌ عباسی‌ را غاصب‌ خلافت‌ آل‌علی‌ می‌دانسته‌ از این‌ رو، ایلخان‌ مغول‌ را بگرفتن‌ بغداد و کشتن‌ خلیفه‌ برانگیخته‌ است‌ و برخی‌ از علمأ سنی، به‌ ویژه‌ حنبلیان، در بدگویی‌ از خواجه‌ کار را به‌ وقاحت‌ و بی‌ادبی‌ رسانده‌اند. ابن‌تیمیه‌ حنبلی‌ (در گذشته‌ ۷۲۸ ه’.ق) رساله‌ای‌ در رد نصیریه‌ که‌ – فرقه‌ای‌ از غلاه‌ شیعه‌ و از پیروان‌ «محمدبن‌ نصیر نُمَیری» هستند- نوشته، می‌گوید: « قوم‌ مغول‌ وارد بلاد اسلام‌ شدند و خلیفه‌ را کشتند و این‌ کار جز به‌ یاری‌ و معاونت‌ این‌ گروه‌ صورت‌ نگرفت، زیرا مرجع‌ و مقتدای‌ آنها نصیرالدین‌ طوسی‌ بود که‌ در الموت‌ وزارت‌ ملاحده‌ را داشت‌ و همو بود که‌ هولاکو را به‌ کشتن‌ خلیفه‌ اسلام‌ واداشت. ظاهر مذهب‌ این‌ گروه‌ رفض‌ و باطنش‌ کفر صریح‌ است«.
خواجه‌ نصیر؛ ملحد ملاحده !
ابن‌ قیم‌ (در گذشته‌ ۷۵۱ ه’.ق) که‌ شاگرد ابن‌تیمیه‌ بود، دشمنی‌ و عناد با خواجه‌ را به‌ مرز وقاحت‌ رسانیده‌ و درباره‌ آن‌ بزرگوار از هیچ‌ افترایی‌ پروا نکرده‌ است. می‌گوید: «… چون‌ نوبت‌ به‌ یاور شرک‌ و کفر و وزیر ملحد ملاحده‌ نصیر طوسی‌ رسید که‌ وزارت‌ هولاکو یافته‌ بود، خویش‌ را از پیروی‌ رسول‌ و اهل‌ دین‌ او بر کنار داشت‌ و آنان‌ را عرضه‌ تیغ‌ گردانید تا از ملحدان‌ اسماعیلی‌ خلاص‌ گشت‌ و همو بود که‌ خلیفه‌ و قضاه‌ و فقیهان‌ و محدثان‌ را به‌ قتل‌ رسانید و فیلسوفان‌ را زنده‌ نگاه‌ داشت‌ که‌ برادران‌ او بودند و منجمان‌ و طبیعت‌شناسان‌ و جاودان‌ را گرامی‌ داشت‌ و اوقاف‌ و مدارس‌ و مساجد و اسلام‌ و مواجب‌ آنها را فسخ‌ کرد و مخصوص‌ خود و یارانش‌ کرد. او در کتابهای‌ خود قدم‌ عالم‌ و بطلان‌ معاد و انکار صفات‌ پروردگار جهانیان‌ را، از علم‌ و قدرت‌ و حیات‌ و سمع‌ و بصر… نصرت‌ کرد و گفت: خدا نه‌ در داخل‌ عالم‌ است‌ و نه‌ در خارج‌ آن‌ و بالای‌ عرش‌ پروردگاری‌ نیست‌ که‌ پرستیده‌ شود… برای‌ ملاحده‌ مدارس‌ ساخت‌ و خواست‌ تا «اشارات» امام‌ ملحدان‌ ابن‌سینا را جای‌ قرآن‌ قرار دهد! ولیکن‌ نتوانست‌ و گفت: این‌ قرآن‌ خواص‌ است‌ و آن‌ قرآن‌ عوام‌ است‌ و همو خواست‌ تا نماز را تغییر دهد و به‌ دو نماز بازگرداند. ولیکن‌ این‌ کار را هم‌ نتوانست؛ در آخر کار جادویی‌ بیاموخت‌ و خود ساحر شد و بتان‌ را عبادت‌ می‌کرد…!. شهرستانی‌ در کتاب‌ المصارعه‌ با ابن‌سینا گلاویز شد و قول‌ او را راجع‌ به‌ قدم‌ عالم‌ و انکار معاد جسمانی‌ و نفی‌ علم‌ پروردگار و قدرت‌ او و برخی‌ مسائل‌ دیگر ابطال‌ کرد، این‌ نصیرالحاد به‌ یاری‌ ابن‌سینا برخاست‌ و کتاب‌ شهرستانی‌ را نقض‌ کرد و کتابی‌ پرداخت‌ به‌ نام‌ مصارعه‌المصارعه‌ ما هر دو کتاب‌ را دیدیم، نصیر طوسی‌ در آنجا این‌ اصل‌ را تأیید می‌کرد که‌ خدا آسمانها و زمین‌ را در شش‌ روز نیافرید و او چیزی‌ نمی‌داند و به‌ قدرت‌ و اختیار خویش‌ کاری‌ نمی‌دهد و مردگان‌ از گور برنمی‌خیزند« ….
‌سبکی‌ در یک‌ جا همین‌ نظر را در مورد خواجه‌ ابراز داشته‌ و سپس‌ می‌گوید:
»به‌ هولاکو گفته‌ شد که‌ اگر خون‌ این‌ خلیفه‌ ریخته‌ شود جهان‌ به‌ شیون‌ و زاری‌ برخیزند و سبب‌ خراب‌ دیار تو می‌شود، چه‌ پسر عموی‌ رسول‌ و خلیفه‌ خدا در زمین‌ است. پس‌ شیطان‌ مبین‌ نصیرالدین‌ طوسی‌ حکیم‌ برخاست‌ و گفت: کشته‌ می‌شود به‌ نحوی‌ که‌ خونش‌ بر زمین‌ ریخته‌ نشود! و این‌ نصیرالدین‌ سخت‌ترین‌ مردم‌ بر مسلمانان‌ بود! پس‌ خلیفه‌ را در نمد پیچیدند و لگدمالش‌ کردند تا جان‌ داد«.
اخلاق‌ و متانت‌ خواجه‌ نصیر؛ تجلیل‌ علامه‌ حلی‌ :
خواجه‌ مردی‌ حکیم‌ و سیاستمدار بوده‌ و از خواص‌ این‌ دو حالت‌ بیشتر آن‌ است‌ که‌ شخص‌ انسانی‌ شکیبا و بردبار می‌شود و به‌ هر بادی‌ از جای‌ نمی‌جنبد. ‌علامه‌ حلی‌ در حق‌ او می‌گوید که‌ خواجه‌ «در اخلاق‌ شریف‌ترین‌ کسی‌ است‌ که‌ ما تا حال‌ دیده‌ایم…» و ابن‌شاکر درباره‌ او گوید «خواجه‌ سخت‌ نیک‌ منظر و خوش‌رو و کریم‌ و سخی‌ و حلیم‌ و خوش‌ معاشرت‌ و زیرک‌ و هشیار بود و یکی‌ از داهیان‌ زمان‌ به‌ شمار می‌رفت‌ و آ��رده‌اند که‌ شخصی‌ به‌ خدمت‌ خواجه‌ آمد و نوشته‌ای‌ از آن‌ دیگری‌ به‌ خواجه‌ داد که‌ در آن‌ به‌ خواجه‌ بسیار ناسزا گفته‌ و دشنام‌ داده‌ بود و او را کلب‌بن‌کلب‌ خطاب‌ کرده‌ بود. خواجه‌ به‌ زبانی‌ نرم‌ و لطف‌آمیز در جواب‌ او نوشت: و اما اینها که‌ نوشته‌ای‌ درست‌ نیست‌ چه‌ سگ‌ در زمره‌ چهارپایان‌ است‌ و عوعو می‌کند و پوست‌ او پوشیده‌ از پشم‌ است‌ و ناخنی‌ دراز دارد و این‌ صفتها در من‌ نیست‌ و به‌ خلاف‌ او قامت‌ من‌ راست‌ و تنم‌ بی‌موی‌ و ناخنم‌ پهن‌ است. من‌ گویا و خندانم‌ و فصول‌ و خواصی‌ که‌ مراست‌ غیر آن‌ فصول‌ و خواصی‌ است‌ که‌ سگ‌ دارد و آنچه‌ در من‌ است‌ در او نیست‌ و تمام‌ عیوبی‌ را که‌ صاحب‌ نامه‌ ذکر کرده‌ بود، بدین‌ سان‌ جواب‌ گفت‌ بدون‌ آنکه‌ کلمه‌ای‌ درشت‌ و زشت‌ بنویسد و یا بگوید «…
‌و همو گوید «خواجه‌ با تقرب‌ و مکانتی‌ که‌ پیش‌ هولاکو داشت، از منافع‌ مسلمانان‌ به‌ ویژه‌ شیعیان‌ و علویان‌ و حکمت‌دانان‌ و غیر ایشان‌ نگاهبانی‌ می‌کرد و به‌ آنها احسان‌ و نیکی‌ می‌کرد و در ابقأ آنها در شغلشان‌ کوشا بود و می‌کوشید که‌ وجوه‌ اوقاف‌ را در محل‌ اصلی‌ صرف‌ کنند و با وجود همه‌ اینها، شخصی‌ متواضع‌ و فروتن‌ و گشاده‌رو و نیکو معاشرت‌ بود.» اغلب‌ مورخان‌ و اصحاب‌ رجال‌ در حق‌ او و اخلاق‌ او به‌ همین‌ سان‌ سخن‌ گفته‌اند.
‌خواجه‌ و دشمنان‌ او
دانشمندان‌ و اصحاب‌ تاریخ‌ شک‌ ندارند در اینکه‌ خواجه‌ شیعی‌ مذهب‌ بوده‌ است‌ و بیشتر براین‌اند که‌ دوازده‌ امامی‌ بوده‌ است‌ و در اغلب‌ کتابهای‌ کلامی‌ خود به‌ دوازده‌ امام‌ و وجوب‌ عصمت‌ آنها اشارت‌ داد.
‌و همو رسالات‌ ویژه‌ای‌ در این‌ باره‌ پرداخته‌ که‌ از آن‌ جمله‌ رساله‌ الفرقه‌ الناجیه‌ و رساله‌ فی‌ حصر الحق‌ بمقاله‌ الامامیه‌ که‌ به‌ فارسی‌ نگاشته‌ است‌ و نیز کتاب‌ الاثنی‌ عشریه‌ و رساله‌ فی‌الامامه‌ را می‌توان‌ نام‌ برد. ‌در شرح‌ حال‌ او دیدیم‌ که‌ او فقه‌ را نزد چند تن‌ از فقیهان‌ شیعه‌ خواند که‌ معین‌ الدین‌ مصری‌ (در گذشته‌ ۶۲۹ ه�� ق) و کمال‌الدین‌ میثم‌ بحرانی‌ (در گذشته‌ ۶۴۸ ه’.ق) از آن‌ جمله‌اند. نیز چون‌ به‌ بغداد می‌خواست‌ رفتن، در مجلس‌ رئیس‌ فقهای‌ شیعه‌ یعنی، نجم‌الدین‌ معروف‌ به‌ محقق‌ حلی‌ (در گذشته‌ ۶۷۶ ه’.ق) صاحب‌ کتاب‌ شرایع‌الاسلام‌ حاضر شد و او را گرامی‌ داشت‌ و در مبحث‌ تیاسر که‌ در بیان‌ قبله‌ اهل‌ عراق‌ است‌ با او بحث‌ کرد و پرسشهایی‌ انجام‌ داد.
‌خواجه‌ تنها از نظر اعتقاد شیعی‌ نبود، بلکه‌ در عمل‌ هم‌ به‌ روح‌ تشیع‌ پای‌بند بود و در ضمن‌ اشعاری‌ که‌ از او نقل‌ شده، شعری‌ به‌ چشم‌ می‌خورد که‌ مضمونش‌ این‌ است:
»اگر کسی‌ تمام‌ صالحات‌ را انجام‌ دهد و همه‌ پیامبران‌ مرسل‌ و اولیأ را دوست‌ بدارد، همواره‌ بدون‌ ملامت‌ روزه‌ بگیرد و شبها را به‌ قصد عبادت‌ نخوابد و به‌ هیچکس‌ آسیبی‌ نرساند و تمام‌ یتیمان‌ را لباس‌ دیبا بپوشاند و آنان‌ را نان‌ و عسل‌ بدهد و در میان‌ مردم‌ به‌ نیکی‌ به‌ سر برد و از گناه‌ و لغزش‌ برکنار بماند، روز حشر به‌ هیچ‌ روی‌ سودی‌ نبرد، اگر دوستدار علی‌ نباشد«.
‌روی‌ این‌ اصل، گروهی‌ از عالمانِ‌ اهل‌ سنت‌ و برخی‌ مورخان‌ بر این‌ رفته‌اند که‌ چون‌ خواجه‌ شیعی‌ متعصب‌ بوده‌ و خلفای‌ عباسی‌ را غاصب‌ خلافت‌ آل‌علی‌ می‌دانسته‌ از این‌ رو، ایلخان‌ مغول‌ را بگرفتن‌ بغداد و کشتن‌ خلیفه‌ برانگیخته‌ است‌ و برخی‌ از علماء سنی، به‌ ویژه‌ حنبلیان، در بدگویی‌ از خواجه‌ کار را به‌ وقاحت‌ و بی‌ادبی‌ رسانده‌اند. ابن‌تیمیه‌ حنبلی‌ (در گذشته‌ ۷۲۸ ه’.ق) رساله‌ای‌ در رد نصیریه‌ که‌ – فرقه‌ای‌ از غلاه‌ شیعه‌ و از پیروان‌» محمدبن‌ نصیر نُمَیری» هستند- نوشته، می‌گوید: «… قوم‌ مغول‌ وارد بلاد اسلام‌ شدند و خلیفه‌ را کشتند و این‌ کار جز به‌ یاری‌ و معاونت‌ این‌ گروه‌ صورت‌ نگرفت، زیرا مرجع‌ و مقتدای‌ آنها نصیرالدین‌ طوسی‌ بود که‌ در الموت‌ وزارت‌ ملاحده‌ را داشت‌ و همو بود که‌ هولاکو را به‌ کشتن‌ خلیفه‌ اسلام‌ واداشت… ظاهر مذهب‌ این‌ گروه‌ رفض‌ و باطنش‌ کفر صریح‌ است. «
تسامح‌ و سعه‌ صدر خواجه‌ نصیر:
خواجه‌ شخصی‌ با تسامح‌ و با وسعت‌ مشرب‌ بود و دانشمندان‌ و عالمان‌ را از هر طبقه‌ و هر مذهبی‌ که‌ بودند بزرگ‌ می‌داشت‌ و در این‌ میان‌ به‌ تصوف‌ و صوفیان‌ راستین‌ توجه‌ مخصوص‌ داشت‌ و با توجه‌ به‌ کتابهایی‌ که‌ نوشته‌ معلوم‌ می‌شود که‌ خود او نیز در این‌ ره‌ قدمی‌ راسخ‌ داشته‌ است. در نمط‌ نهم‌ «شرح‌ اشارات»، یعنی‌ «مقامات ‌العارفین» و رساله‌ نفیس‌ «اوصاف ‌الاشراف» چنان‌ سخنان‌ صوفیان‌ را بیان‌ می‌کند که‌ گویی‌ خود او سالک‌ راه‌ طریقت‌ بوده‌ است. او در این‌ کتاب‌ دوم‌ برخی‌ اتهامات‌ ناروا و جاهلانه‌ را که‌ بر صوفیان‌ بسته‌اند کشف‌ می‌کند و در باب‌ توحید و اتحاد سخنان‌ لطیف‌ می‌گوید و دعاوی‌ منصور حلاج‌ و برخی‌ دیگر از صوفیان‌ را به‌ روشی‌ درست‌ تفسیر می‌کند. ولیکن‌ به‌ صوفی‌ نمایان‌ و قلندران‌ بیکاره‌ اعتقادی‌ نداشته‌ و آنان‌ را سربار جامعه‌ می‌دانسته‌ است. «گویند وقتی‌ در برابر سلطان‌ [هولاکو] گروهی‌ از فقیران‌ قلندریه‌ پیدا شدند. سلطان‌ از خواجه‌ پرسید: اینها چه‌ کسانند؟ خواجه‌ جواب‌ گفت: گروهی‌ زاید و بیهوده‌اند، بر فور سلطان‌ دستور داد که‌ همه‌ را نابود کردند. کسی‌ را خواجه‌ پرسید مقصود تو از این‌ بیان‌ چه‌ بود؟ گفت: مردم‌ چهار طبقه‌ بیش‌ نیستند: جمعی‌ امیر و وزیر و کسان‌ سلطانند از لشکری‌ و کشوری، دو دیگر بازرگانان‌ و تجارند، سه‌ دیگر پیشه‌وران‌ و صنعتگران‌اند و آخرین‌ گروه‌ برزگران‌ و دهقانانند و آن‌ کس‌ که‌ از زمره‌ این‌ چهار گروه‌ نباشد سربار مردم‌ و در ��هان‌ زیاده‌ است». (به تلخیص از کانون پژوهشگران فلسفه و حکمت، دکتر علی‌ اصغر حلبی)
source https://myth.tarikhema.org/article-2417/%d9%85%d9%84%d8%a7%d9%86%d8%b5%d8%b1%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86-%d8%a7%d9%84%d8%a7%d8%ba-%d8%b3%d9%88%d8%a7%d8%b1-%d8%af%d8%b1-%d8%a7%d8%b5%d9%84-%d9%87%d9%85%d8%a7%d9%86-%d8%ae%d9%88%d8%a7%d8%ac
1 note · View note
twelfthimam314 · 3 years ago
Link
0 notes
sahbaykherad · 3 years ago
Photo
Tumblr media
‏‎🌷﷽🌷 کتاب #التوحید کتابی روایی در باره #عقائد_شیعه است که به قلم ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویه قمی مشهور به #شیخ_صدوق نوشته شده است. وی از محدثان  فقیهان و #متکلمان بزرگ شیعه است. مورخان سال وفات وی را ۳۸۱ق ذکر کرده اند و گفته اند هنگام وفات هفتاد سال داشته است. کتاب التوحید در بردارنده #احادیث ارزشمندی از پیامبر گرامی اسلام و اهل بیت ایشان است که شیخ صدوق آنها را در ۶۷ باب تنظیم کرده كه در ذيل هر باب تعداد متفاوتی حديث نقل شده و در مجموع به۵۸۳ حديث می رسد که همه دارای سند است. شیخ صدوق در این کتاب با تکیه بر اخبار، در مقام تبیین مفاهیم و اثبات دعاوی کلامی است. شاید بتوان گفت که کتاب التوحید نظام کلامی مدون مبتنی بر متون احادیث با کمترین تصرف است. توجه به این نکته لازم است که موضوع این کتاب، #توحید به معنای عام آن است. بنابراین وحدانیت ذات الهی، #صفات_ثبوتی و سلبی، ذاتی و فعلی و نسبت آنها با ذات الهی، حدوث و قدوم، #قضا و #قدر و جبر و #تفویض و مسائلی از این قبیل را نیز در بر دارد. علاوه بر این کتاب التوحید منبع ارزشمندی برای آگاهی از اختلافات اعتقادی مسلمانان و به ویژه جامعه شیعه در سده های نخست اسلام است و با مطالعه روایات آن می¬توان به جریانات مخالف تشیع و فرقه های انحرافی موجود در عصر ائمه علیهم السلام به خوبی واقف شد و چنانکه شیخ صدوق به صراحت نوشته است این کتاب به منظور پاسخ به مخالفان شیعه مبنی بر اعتقاد به جبر و تشبیه به نگارش در آمده و او کوشیده است با بهره گیری از احادیث معصومان و تنظیم آنها اثبات کند که شیعه نه تنها به جبر و تشبیه باور ندارد بلکه به توحید محض معتقد است. به دلیل اهمیت این کتاب برخی از دانشمندان اسلامی بر آن شرح نوشته و برخی به فارسی آن را ترجمه کرده اند و همچنان مد نظر دانشمندان اسلامی و از منابع پر مراجعه در حوزه علوم اسلامی است. 🔘با توجه به اینکه احساس می شود لازم است مطالب این صفحه( مدرسه کلام اسلامی) از ��نسجام برخوردار باشد و خوانندگان گرامی با مطالبی آشنا شوند که تکراری نباشد، تصمیم بر این شد که حتی الامکان، از این پس مطالب این صفحه بر اساس این کتاب و در قالب شرح بر روایات آن پیگیری شود. انشاء الله که برای شما گرامیان، جذاب و خواندنی باشد. #صهبای_خرد‎‏ https://www.instagram.com/p/CE_Elyjnl4h/?utm_medium=tumblr
0 notes
b558445356 · 1 year ago
Link
للبيع ار ض رأس بلك تجاري بحي اليرموك شرق الرياض مساحة / 4225 متر الا طول 65 × 65 شارع 60 م غربي النجاح 36 م شمالي ابوجعفر 20 م جنوبي
0 notes
amir1428 · 4 years ago
Photo
Tumblr media
۵ اسفند زادروز #خواجه #نصیرالدین #طوسی ابو جعفر محمد بن محمد بن حسن توسی مشهور به خواجه نصیرالدین (زادهٔ شنبه ۵ اسفند ۵۷۹ در توس - درگذشتهٔ دوشنبه ۱۱ تیر ۶۵۳ در بغداد) شاعر، همه‌چیزدان، فیلسوف، متکلم، فقیه، ستاره‌شناس، اندیشمند، ریاضیدان، منجم، پزشک و معمار ایرانی سده هفتم است. کنیه‌اش «ابوجعفر» و به القابی چون «نصیرالدین»، «محقق طوسی»، «استاد البشر» و «خواجه» شهرت دارد. وی سنت فلسفه مشایی را که پس از ابن سینا در ایران رو به افول گذاشته بود، بار دیگر احیا کرد. وی مجموعه آرا و دیدگاه‌های کلامی شیعه را در کتاب تجرید الاعتقاد گرد آورد. او رصدخانه مراغه را ساخت و در کنار آن کتابخانه‌ای بوجود آورد که نزدیک به چهل هزار جلد کتاب در آن بوده‌است. او با پرورش شاگردانی (همچون قطب الدین شیرازی) و گردآوری دانشمندان ایرانی عامل انتقال تمدن و دانش‌های ایران پیش از مغول به آیندگان شد. وی یکی از گسترش دهندگان علم مثلثات است که در سده ۱۶ میلادی کتاب‌های مثلثات او به زبان فرانسه ترجمه گردید. https://www.instagram.com/p/CLn18gwHDoE/?igshid=1kstt3j275wzg
0 notes
kasradoc · 4 years ago
Photo
Tumblr media
‏‎. امام جواد (ع) از نگاه دیگران : محمد بن علی بن موسی مشهور به امام جواد و امام محمدِ تقی (۱۹۵ ـ ۲۲۰ق) امام نهم شیعیان اثناعشری است. کنیه او ابوجعفر ثانی است. او ۱۷ سال امامت کرد و در ۲۵ سالگی به شهادت رسید. در میان امامان شیعه، وی جوان‌ترین امام در هنگام شهادت بوده است. سنّ کمِ او در هنگام شهادت پدر، سبب شد تا شماری از اصحاب امام رضا (ع)، در امامت او تردید کنند؛ برخی عبدالله بن موسی را امام خواندند و برخی دیگر به واقفیه پیوستند، اما بیشتر آنان امامت محمد بن علی (ع) را پذیرفتند. ارتباط امام جواد (ع) با شیعیان، بیشتر از طریق وکیلانش و به شکل نامه‌نگاری انجام می‌گرفت. در دوره امامت امام نهم شیعیان، فرقه‌های اهل حدیث، زیدیه، واقفیه و غلات فعالیت داشتند. وی شیعیان را از عقاید آنان آگاه می‌کرد و از نماز خواندن پشت سر آنها نهی و غالیان را لعن می‌نمود. مناظرات علمی امام جواد (ع) با عالمان فرقه‌های اسلامی در مسائل کلامی، همچون جایگاه شیخین و مسئله‌های فقهی مانند حکم قطع کردن دست دزد و احکام حج، از مناظرات معروف امامان معصوم دانسته شده است. دانلود نمایید: https://www.kasradoc.com/product/imam-javad-from-the-point-of-view-of-others/ #powerpoint #Document #Kasradoc #ppt #پاورپوینت #مقاله #پروژه #کسری_داک #امام_جواد #جوادالائمه #اسلام #شیعه #��شیع #امامت #ولایت #امام_محمد_تقی #کاظمین #عراق #امام_موسی #شهادت #مدینه #رمضان #مامون #عباسیان #اهل_بیت #نماز #صدقه #تشییع #ولایت #امامت‎‏ https://www.instagram.com/p/CHa2VK9L68o/?igshid=1n1f3xru91kvv
0 notes
hani8news · 4 years ago
Photo
Tumblr media
‏‎(إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) انتقل إلی رحمة الله / محمد علي السيحان من الفضول اخ كل من / عثمان - بكر - جواد - صالح وتم تشييع الفقيد اليوم الأربعاء الساعة 5 عصرا في مقبرة الفضول وهنا صورة الفقيد https://www.up4.cc/2020-08/159724594220181.jpg للتعازي عن طريق الانضمام الى القروب وارسال التعزية والاسم والخروج من القروب لإتاحة الفرصة للآخرين بالتعزية https://chat.whatsapp.com/DRpOFEQXghlBJ77lExVs3s للتعازي عن طريق الارقام التالية عثمان ( ابوجعفر) 0503929227 بكر ( ابو علي ) 0548569994 جواد ( ابو علي ) 0533324177 صالح 0552826284 هدية الميت الصدقة وصلاة الوحشة http://cutt.us/et00J مجموعة اخبار الوفيات في الأحساء للإشتراك للرجال فقط 0507093660 تم الإعلان الأربعاء 22 ذو الحجة 1441هــ للمتابعة في الانستغرام instagram.com/hani8news للمتابعة في سناب شات snapchat.com/add/alahsa45 قناة أخبار الوفيات بـ (التليجرام) ⓣ.me/hani8news ♦️♦️♦️♦️♦️‎‏ https://www.instagram.com/p/CDy1OgMFpsn/?igshid=1o461sfyp0x6r
0 notes
khoonevadeh · 5 years ago
Photo
Tumblr media
دستاورد‌های علمی ۹ دانشمند بزرگ ایرانیhttps://khoonevadeh.ir/?p=43490
روزنامه خراسان: اگر کمی اهل مطالعه تاریخ و علاقه‌مند به مباحث علمی باشید، باید در پاسخ به این سوال که بزرگ‌ترین دانشمندان ایرانی چه کسانی هستند و اختراعات‌شان چیست؟ اسم‌های زیادی به ذهن‌تان خطور کند چراکه دانشمندان بزرگی در ایران چشم به جهان گشوده‌اند و اسم و رسمی جهانی به دلیل نبوغ خود به دست آورده‌اند.
شکی نیست که دانشمندان به پیشرفت مستمر جامعه امروز کمک بسیار زیادی کردند. در جمع دانشمندانی که با اکتشافات خود جهان را تغییر دادند، نام‌های بسیار زیادی از دانشمندان بزرگ ایرانی به چشم می‌خورد. دانشمندانی که نام‌شان در دنیا ماندگار شده و افتخاری برای ایران و ایرانی‌ها محسوب می‌شوند.
سیزدهم شهریورماه، روز بزرگداشت ابوریحان بیرونی است که از دانشمندان بزرگ ایران در علوم حکمت، اخترشناسی، ریاضیات، تاریخ، جغرافیا و ... است.
اگر به دنیای نوابغ و دانشمندان ایرانی علاقه دارید و اطلاعات دقیقی درباره‌شان ندارید، در این پرونده علاوه بر آشنایی با ۹ نفر از بزرگ‌ترین دانشمندان ایرانی از اختراعات‌شان هم خواهیم گفت.
همه‌چیز‌دانی به نام بیرونی!
نام: ابوریحان محمدبن‌��حمد بیرونی
در چه دوره‌ای زیست؟ درسال‌های ۳۵۲ تا ۴۲۷ هجری شمسی
که بود؟ ابوریحان دانشمند و ریاضی‌دان، ستاره‌شناس، تقویم‌شناس، انسان‌شناس و تاریخ‌نگار برجسته ایرانی در سده چهارم هجری بوده است. پدر ابوریحان، اخترشناس دربار خوارزمشاه و مادرش نیز ماما بوده است.
پدر ابوریحان را به دلیل حسادت و بدگویی از دربار اخراج کردند و پس از آن در یک روستا در اطراف خوارزم ساکن شدند. گفته می‌شود دلیل شهرت او به بیرونی نیز همین موضوع است، چون آن‌ها برای مردم روستا بیگانه بودند. بیرونی را از بزرگ‌ترین دانشمندان مسلمان و یکی از بزرگ‌ترین دانشمندان فارسی‌زبان در همه اعصار می‌دانند.
دستاورد‌های علمی‌اش چه بود؟ ابوریحان از اولین کسانی است که به پیدا کردن وزن مخصوص بسیاری از اجسام مبادرت کرد و آن‌چنان این کار را دقیق انجام داد که اختلاف وزن‌های محاسبه‌شده‌اش با وزن‌هایی که دانشمندان در قرن‌های اخیر با توجه به تمام وسایل و فناوری‌های جدید خود تهیه کرده‌اند، بسیار ناچیز است.
همچنین ابوریحان در طول عمر خود به شهر‌های مختلفی سفر می‌کرد و به اندازه‌گیری طول و عرض جغرافیایی آن شهر‌ها می‌پرداخت و سپس موقعیت هر شهر را روی یک کره مشخص می‌کرد و پس از سال‌ها توانست آن نقاط را روی یک نقشه مسطح پیاده کند.
او در ۱۷ سالگی ارتفاع خورشیدی نصف‌النهار را رصد کرد و یکی از مهم‌ترین فعالیت‌ها و دستاورد‌های او، محاسبه شعاع کره زمین است که تا قبل از او، حتی تخمینی هم در این باره وجود نداشت! گفته می‌شود که ابوریحان مؤلف حدود ۱۴۵ کتاب بوده که در مجموع شامل ۱۳ هزار صفحه است. بیش از ۹۰ مورد آن‌ها مربوط به ستاره‌شناسی، ریاضی و ریاضیات زمین‌شناسی بوده، اما متاسفانه با گذشت سال‌ها، تنها ۳۵ اثر از ابوریحان بیرونی به جا مانده است.
در ضمن معروف است که در واپسین ساعات عمر ابوریحان شخصی به دیدنش آمد و او در بستر بیماری پاسخ مسئله‌ای علمی را از وی پرسید. اطرافیان که از کار او متعجب شده بودند، از بحث علمی برحذرش داشتند؛ ابوریحان در پاسخ چنین گفت: «آیا پاسخ این سوال را بدانم و بمیرم بهتر است یا ندانسته بمیرم؟». ابوریحان بیرونی در سن ۷۸ سالگی از دنیا رفت.
منجمی کارکشته و فیلسوف شیعه
نام: ابوجعفر محمد بن محمد بن حسن توسی مشهور به خواجه نصیرالدین
در چه دوره‌ای زیست؟ در سال‌های ۵۷۹ تا ۶۵۳ هجری شمسی
که بود؟ شاعر، فیلسوف، متکلم، فقیه، ستاره‌شناس، اندیشمند، ریاضی دان، منجم، پزشک و معمار ایرانی که به القابی، چون «نصیرالدین»، «محقق توسی»، «استاد البشر» و «خواجه» شهرت دارد.
دستاورد‌های علمی‌اش چه بود؟ توسی سنت فلسفه مشایی را که پس از ابن‌سینا در ایران رو به افول گذاشته بود، بار دیگر احیا کرد. وی با استفاده از آرای فلسفی ابن‌سینا کلام شیعه را بر برهان‌های عقلی مبتنی کرد و مجموعه آرا و دیدگاه‌های کلامی شیعه را در کتاب «تجرید الاعتقاد» گرد آورد. او در زمینه نجوم، رصدخانه مراغه را ساخت و در کنار آن کتابخانه‌ای به وجود آورد که نزدیک به ۴۰ هزار جلد کتاب در آن بوده است.
توسی با پرورش شاگردانی همچون قطب الدین شیرازی و گردآوری دانشمندان ایرانی عامل انتقال تمدن و دانش‌های ایران پیش از مغول به آیندگان شد. این دانشمند شیعه، در نحوه استفاده از ساعت آفتابی ابتکار جدیدی برای ��صد کردن به خرج داده است که این ابتکار در علم ستاره‌شناسی بسیار ارزشمند و ماندگار بوده است. خواجه نصیرالدین همچنین یکی از گسترش‌دهندگان علم مثلثات بوده که در سده ۱۶ میلادی کتاب‌های مثلثات او به زبان فرانسه ترجمه شده است.
پدر علم شیمی
نام: ابوموسی جابر بن حیان
در چه دوره‌ای زیست؟ در سال‌های ۷۲۱ تا ۸۱۵ هجری شمسی
که بود؟ این فیلسوف بزرگ ایرانی را «پدر علم شیمی» نامیده‌اند و در این زمینه تاثیر فراوانی بر کیمیاگران و شیمی دان‌های جهان گذاشته است.
دستاورد‌های علمی‌اش چه بود؟ جابربن حیان در زمان حیات خود در زمینه‌های کیمیاگری، نجوم، پزشکی، فلسفه و فیزیک به دستاورد‌های بزرگی رسید. از این قبیل می‌توان به برخی از وسایل آزمایشگاهی که وی اختراع کرده است، مانند «انبیق» و «قرع» اشاره کرد. کشف مواد شیمیایی بسیاری مانند نیتریک اسید، سیتریک اسید (جوهر لیمو)، تیزاب (از جمله اندک موادی است که طلا را در خود حل می‌کند)، استیک اسید (جوهر سرکه) و معرفی کردن فرایند‌های تقطیر و تبلور که هر دوی آن‌ها به عنوان پایه‌های اصلی شیمی امروزی به شمار می‌آیند، از دستاورد‌های علمی جابربن‌حیان است.
داروساز و شیمی‌دان کاشف الکل
نام: ابوبکر محمد بن زکریای رازی
در چه دوره‌ای زیست؟ در سال‌های ۲۴۳ تا ۳۰۴ هجری شمسی؛ که بود؟ پزشک، فیلسوف و شیمی‌دان ایرانی که در آخر عمرش نابینا شد.
دستاورد‌های علمی‌اش چه بود؟ او بیش از هر چیز به کشف الکل شناخته می‌شود. رازی توانست این ماده را از مواد نشاسته‌ای و قندی تخمیر شده به دست آورد. او البته نخستین کسی بود که ماده شیمیایی جوهر گوگرد H۲So۴ که امروزه آن را «اسیدسولفوریک» می‌نامند کشف کرد. از دیگر اکتشافات او در شیمی می‌توان به اسید کلریدریک اشاره کرد که از تأثیر آب آهک بر نشادر به دست آورد. رازی همچنین با اثر دادن سرکه با مس، استات مس یا زنگار تهیه کرد که با آن‌ها زخم را شست وشو می‌دادند.
وی همچنین آثار ماندگاری در زمینه پزشکی، شیمی و فلسفه نوشته است. زکریا درباره کیهان‌شناسی، منطق و ریاضیات نیز آثاری دارد. این دانشمند ۵۶ کتاب در زمینه طب، ۳۳ کتاب در طبیعیات، ۱۰ کتاب در زمینه ریاضیات، نجوم و ... دارد. به گفته «جرج سارتن» پدر تاریخ علم، رازی بزرگ‌ترین پزشک ایران و جهان اسلام در زمان قرون وسطی بوده است.
مبتکر در مثلثات و سینوس‌ها
نام: ابوالوفاء محمد بوزجانی
در چه دوره‌ای زیست؟ درسال‌های ۳۱۹ تا ۳۷۶ هجری شمسی
که بود؟ وی ریاضی دان و منجم بزرگ ایرانی در دوران طلایی اسلام بوده است.
دستاورد‌های علمی‌اش چه بود؟ بوزجانی، روش‌های محاسبه‌ای را که بازرگانان به کار می‌بردند ارتقا بخشید و بعضی از روش‌های ناصحیح را نیز مورد انتقاد قرار داد. او روش‌های ساختن اشکال دوبعدی و سه‌بعدی را عرضه کرد که اقتباس از اقلیدس و ارشمیدس بوده و ابتکارات خوبی در همین زمینه به آن اضافه کرده است. قبل از بوزجانی، در مثلثات کروی، تنها وسیله حل مثلث‌ها قضیه منلائوس راجع به چهارضلعی کامل بود که در کتاب‌های اسلامی به قاعده مقادیر ششگانه م��سوم بود.
بوزجانی با غنی‌تر ساختن ابزار مثلثات کروی، حل مسائل آن‌ها را راحت‌تر کرد. در ضمن یکی از اولین اثبات‌های قضیه کلی سینوس‌ها برای حل مثلث‌های غیر قائم الزاویه، توسط بوزجانی ابداع شد. وی مسائل لاینحل هندسه کلاسیک را حل و تحقیقاتی در اصول ترسیمات هندسی کرد که تا امروز هنوز کسی موفق به ارائه راه‌حل دیگری برای حل آن مسائل نشده است. در ضمن، او اولین کسی است که مطالعات دقیقی درباره کره ماه انجام داده است و به نتایجی جالب درباره آن دست یافت که این روزها، صحت‌شان اثبات شده است.
خالق ۴ عمل اصلی ریاضی
نام: غیاث‌الدین جمشید کاشانی
در چه دوره‌ای زیست؟ در سال‌های ۷۵۸ تا ۸۰۸ هجری شمسی
که بود؟ وی فرزند پزشکی کاشانی به نام مسعود بود. او زبردست‌ترین حساب‌دان و آخرین ریاضی‌دان برجسته دوره اسلامی و از بزرگ‌ترین مفاخر تاریخ ایران به شمار می‌آید. دستاورد‌های علمی‌اش چه بود؟ او در یکی از فعالیت‌های متعدد علمی خود به تکمیل و تصحیح روش‌های قدیمی انجام چهار عمل اصلی حساب پرداخت و روش‌های جدید و ساده‌تری برای آن‌ها اختراع کرد.
در واقع، کاشانی را باید مخترع روش‌های کنونی انجام چهار عمل اصلی حساب (به ویژه ضرب و تقسیم) دانست. کتاب ارزشمند وی با نام مفتاح الحساب کتابی درسی، درباره ریاضیات مقدماتی است و آن را از نظر فراوانی و تنوع مواد و مطالب و روانی بیان سرآمد همه آثار ریاضی سده‌های میانه می‌دانند.
نوآور در جبر و نجوم
نام: محمد بن موسی خوارزمی
در چه دوره‌ای زیست؟ درسال‌های ۱۵۹ تا ۲۲۹ هجری شمسی
که بود؟ این ریاضی دان، ستاره‌شناس، فیلسوف، جغرافی دان و مورخ شهیر ایرانی در دوره عباسیان زندگی می‌کرده است.
دستاورد‌های علمی‌اش چه بود؟ شهرت علمی خوارزمی مربوط به کار‌هایی است که در ریاضیات به ویژه در رشته جبر، انجام داده به طوری که او را «پدر جبر» نامیده‌اند. جرج سارتن، مورخ مشهور در مقدمه کتاب خود، سده نهم میلادی را «عصر خوارزمی» می‌نامد. بیشترین چیره‌دستی وی در حل معادله‌های خطی و درجه دوم بوده است. یکی از کتاب‌های او باعث شد که دستگاه عددی در اروپا ازعددنویسی رومی به عددنویسی هندی-عربی تغییر پیدا کند، چیزی که هنوز نیز در اروپا و دیگر نقاط جهان فراگیر است.
او در زمان مامون عباسی مسئول تهیه اطلسی از نقشه‌های آسمان و زمین بود. جشنواره خوارزمی نام یک جشنواره علمی در ایران است که به منظور ارج نهادن به مقام دانش پژوهان و فناوران نوآور به نام این دانشمند بزرگ، نام‌گذاری شده است.
شیخ الرئیس، فخر پزشکی ایران
نام: ابوعلی حسین‌بن‌عبدا... بن‌حسن‌بن‌علی‌بن‌سینا مشهور به ابوعلی سینا
در چه دوره‌ای زیست؟ در سال‌های ۳۵۹ تا ۴۱۶ هجری شمسی
که بود؟ ابوعلی سینا اول شهریور ۳۵۹ در شهر بخارا و در دوران سامانیان به‌دنیا آمد. وی حافظه و هوشی خارق‌العاده داشت به طوری‌که در ۱۴ سالگی از آموزگار خود پیشی گرفت. ابوعلی‌سینا پزشک نامدار ایرانی است که آرامگاهش در شهر همدان قرار دارد و روز اول شهریور را به افتخار وی «روز پزشک» نام گذاری کرده‌اند.
دستاورد‌های علمی‌اش چه بود؟ وی ۴۵۰ کتاب در زمینه‌های گوناگون نوشته است که شمار زیادی از آن‌ها درباره پزشکی و فلسفه است. وی نویسنده کتاب شفا که یک دانشنامه علمی و فلسفی جامع است و القانون فی الطب یکی از معروف‌ترین آثار تاریخ پزشکی است. آثاری که وی را در تمام دنیا مشهور و متمایز کرده و پایه‌گذار بسیاری از علوم پزشکی است و اختراعات و اکتشافات بسیاری را از خود به جا گذاشته یا مراحل کشف‌شان را پایه‌ریزی کرده است.
خالق تقویم خورشیدی
نام: غیاث‌الدین ابوالفتح عمر بن ابراهیم خیام نیشابوری معروف به خیام
در چه دوره‌ای زیست؟ در سال‌های ۴۲۷ تا ۵۱۰ هجری شمسی
که بود؟ خیام، فیلسوف، ریاضی دان، ستاره‌شناس و ربا��ی‌سرای ایرانی در دوره سلجوقی است. گرچه پایگاه علمی خیام برتر از جایگاه ادبی اوست، ولی آوازه وی بیشتر به خاطر رباعیاتش است که شهرت جهانی دارد.
دستاورد‌های علمی‌اش چه بود؟ یکی از برجسته‌ترین کار‌های وی را می‌توان سر و سامان دادن و سرپرستی محاسبات گاه‌شماری ایران در زمان وزارت خواجه نظام‌الملک که در دوره پادشاهی ملک‌شاه سلجوقی بود، دانست؛ محاسبات منسوب به خیام در این زمینه، هنوز معتبر است و دقتی به مراتب بالاتر از گاه‌شماری میلادی دارد. وی در ریاضیات، نجوم، علوم ادبی، دینی و تاریخی استاد بود. نقش خیام در حل معادلات درجه سوم و مطالعاتش درباره اصل پنجم اقلیدس نام او را به عنوان ریاضی‌دانی برجسته در تاریخ علم ثبت کرده‌است. ارائه نظریه‌ای درباره نسبت‌های هم‌ارز با نظریه اقلیدس نیز از مهم‌ترین کار‌های اوست که باعث شگفتی دانشمندان آن زمان شد.
منبع : برترینها
0 notes
badrion313 · 5 years ago
Photo
Tumblr media
#مناسبتی #پروفايل 📌 به چشمانمان باید شک کنیم... ▪️ «ابوبصیر» می‏گوید: با امام باقر به مسجد مدینه وارد شدیم. مردم در رفت و آمد بودند. امام به من فرمود: «از مردم بپرس آیا مرا می‏ بینند؟» از هر که پرسیدم آیا ابوجعفر را دیده‏ ای؟ پاسخ منفی شنیدم، در حالیکه امام در کنار من ایستاده بود. ▫️ در این هنگام یکی از دوستان حقیقی آن حضرت‏ «ابوهارون‏» که نابینا بود به مسجد آمد. امام فرمود: «از او نیز بپرس.» از ابوهارون پرسیدم: آیا ابوجعفر را دیدی؟ فورا پاسخ داد: مگر کنار تو نایستاده است؟ گفتم: از کجا دریافتی؟ گفت: چگونه ندانم در حالیکه او نور درخشنده‏ ای است. 📚 بحار الانوار، ج ۴۶، ص ۲۴۳؛ به نقل از خرائج راوندی 🔺 و اما... چرا چشمان ما نمیبیند اماممان را؟ چرا گوشهای ما نمیشنوند صدای (هل من ناصر) او را؟ فقط بگذریم و گذر کنیم از سالهای عمرمان و او را نبینیم جز این انتظاری نمیرود... ◾️ شهادت #امام_باقر علیه السلام را به محضر امام زمان عجل الله فرجه و شما عزیزان تسلیت میگوییم 👇🏼 🌐 @badrion313 https://www.instagram.com/p/B06B392Awpc/?igshid=5qv636quahux
0 notes