#آصف زرداری
Explore tagged Tumblr posts
Text
صدر مملکت آصف علی زرداری نجی دورے پر دبئی روانہ
(ویب ڈیسک) صدر مملکت آصف علی زرداری نجی دورے پر دبئی روانہ ہوگئے۔ آصف علی زرداری 2 روز دبئی میں قیام کریں گے، صدر مملکت کی عدم موجودگی میں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف بھی اپنے چیک اپ کیلئے لندن روانگی سے قبل دبئی پہنچے تھے جس کے بعد وہ امریکا روانہ ہوگئے۔ یہ بھی پڑھیں: لبنان میں فوج کے بڑے…
0 notes
Text
زرداری آج مسلم لیگ ن سے ملاقاتوں پر پارٹی قیادت کو اعتماد میں لیں گے
پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس آج شام 7 ب��ے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ہو گا، آصف زرداری اور بلاول بھٹو پارٹی رہنماؤں کو، ن لیگ کی قیادت کےساتھ ملاقاتوں پر اعتماد میں لیں گے۔حکومت سازی کیلئے آئندہ کی حکمت عملی پر مشاورت کی جائے گی۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں عام انتخابات کے بعد کی صورتحال پر غور کیا جائے گا، عام انتخابات کے نتائج سمیت دیگر امور بھی زیر غور آئینگے،اجلاس…
View On WordPress
0 notes
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تح��یک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
آصف علی زرداری سازش قتل کیس کا بڑا فیصلہ
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آبادنے صدر آصف علی زرداری کے خلاف قتل کی سازش کرنےکے کیس میں سابق وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کو بری کر دیا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ یاسرمحمود نےشیخ رشیدکی درخواست بریت پر محفوظ فیصلہ سنایا۔ یاد رہےکہ شیخ رشید کے خلاف تھانہ آبپارہ میں 2023 میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، شیخ رشید کے خلاف سازش، عوام کو اکسانے کی دفعات مقدمہ میں لگائی گئی تھیں۔ گزشتہ روز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ…
0 notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1103
وزیراعلی مریم نواز کا چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری پر وزیراعظم شہباز شریف، تمام قائدین، جمہوری اتحادی قوتوں، اتحادی جماعتوں اور عوام کو مبارکباد
صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان سمیت تمام قائدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں: مریم نوازشریف
سیاست نہیں ریاست اور عوام کے مفاد کو ترجیح دی، پارلیمنٹ کو بالادستی اور خودمختاری کا حق دلایا، ترمیم جمہوریت اور آئین دوستوں کے اتحاد کی تاریخی نشانی ہے
یہ ترمیم نہیں، حفاظتی دیوار ہے تاکہ کوئی ’ڈیم فول‘ آئین، پارلیمنٹ، منتخب حکومتوں اور اداروں کے وقار سے من مانی نہ کرے
آئینی ترمیم کے نتیجے میں صرف وہ جج آئیں گے جو آئین اور عوام کے حقوق کے پاسدار ہوں گے، مٹھی بھر شرارتی کرداروں سے نجات قوم کی حیات ہے
عدلیہ نظریہ سہولت اور نظریہ ضرورت کی تلوار سے منتخب وزرائے اعظم کے مینڈیٹ اور منصب کا قتل کرنے والے کرداروں سے پاک ہوگی
عوام کی خوش حالی، بلاتاخیر انصاف کی فراہمی کے حقیقی مقاصد حاصل ہوں گے، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور محمد نوازشریف کے سیاسی وژن کو سلام پیش کرتے ہیں
لاہور-21 اکتوبر:……وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری پر وزیراعظم شہباز شریف، تمام قائدین، جمہوری اتحادی قوتوں، اتحادی جماعتوں اور عوام کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان سمیت تمام قائدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، سیاست نہیں ریاست اور عوام کے مفاد کو ترجیح دی، پارلیمنٹ کو بالادستی اور خودمختاری کا حق دلایا۔ یہ ترمیم نہیں، حفاظتی دیوار ہے تاکہ کوئی ’ڈیم فول‘ آئین، پارلیمنٹ، منتخب حکومتوں اور اداروں کے وقار سے من مانی نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ چھبیسویں ترمیم جمہوریت اور آئین دوستوں کے اتحاد کی تاریخی نشانی ہے۔ 1973 کے آئین کی خالق جماعتوں نے ایک بار پھر دستور پاکستان کو مزید موثر، بہتر اور مظبوط بنانے کا تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ اپوزیشن سے مل کر ہونے والی ترمیم میں عوامی رائے بھی شامل ہے جس سے عدلیہ کا وقار، ساکھ اور کردار بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت کی روشنی میں People Specific ترمیم ہوئی، ریلیف پاکستان اور عوام کو ملے گا۔ آئینی ترمیم کے نتیجے میں صرف وہ جج آئیں گے جو آئین اور عوام کے حقوق کے پاسدار ہوں گے۔ مٹھی بھر شرارتی کرداروں سے نجات قوم کی حیات ہے۔ عدلیہ نظریہ سہولت اور نظریہ ضرورت کی تلوار سے منتخب وزرائے اعظم کے مینڈیٹ اور منصب کا قتل کرنے والے کرداروں سے پاک ہوگی۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ رات کے اندھیرے میں جمہوریت اور منتخب حکومتوں پر شب خون مارنے والوں کے خلاف پہلی بار خود عدلیہ بطور ادارہ مضبوط ہوگی جس سے عدلیہ کی ساکھ بہتر اور تاریخ میں لگے داغ دھل سکیں گے۔ میرٹ پر قابل ججوں کی شفاف تعیناتی عدلیہ کی آزادی اور آئین کی حفاظت کی ضمانت بنے گی۔ عوام کی خوش حالی اور بلاتاخیر انصاف کی فراہمی کے حقیقی مقاصد حاصل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور محمد نوازشریف کے سیاسی وژن کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اسحاق ڈار، سید خورشید شاہ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، شیری رحمان، نوید قمر، کامران مرتضیٰ سمیت آئینی ترمیم کرنے والی تمام ٹیم کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔
٭٭٭٭
0 notes
Text
آئینی ترمیم کامعاملہ:قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علیحدہ علیحدہ اجلاس طلب
(اویس کیانی)قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علیحدہ علیحدہ اجلاس کل طلب کرلیے گئے،قومی اسمبلی کا اجلاس کل 4بجے اورسینیٹ کا 3بجے طلب کیاگیاہے۔ صدرمملکت آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علیحدہ علیحدہ اجلاس طلب کئے ہیں،یہ اجلاس مجوزہ آئینی ترمیم کے تناظرمیں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسری طرف پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس آج ہو گا جس میں تحریک انصاف نے شرکت سے انکارکردیاہے،آئینی ترمیم کے معاملے…
0 notes
Text
قومی امور میں سیاسی جماعتوں کا اتفاقِ رائے ناگزیر :صدر زرداری
سلام آباد(سٹاف رپورٹر)صدرمملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ اہم قومی امور پر تمام سیاسی جماعتوں کیساتھ مشاورت اور اتفاقِ رائے ناگزیر ہے ۔ ان خیا لات کا اظہار انہوں نے سابق وزیر ریلوے اور اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور سے ملاقات میں کیا ۔ ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی، سکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ، صدر نے کہا کہ کہمسائل کے حل، سیاسی و معاشی استحکام کیلئے تمام سیاسی…
0 notes
Link
0 notes
Text
صدر آصف علی زرداری کو ایوان صدر میں مسلح افواج کے دستوں کی جانب سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا_
تفصیلات کے مطابق صدر مملکت آصف زرداری کو ایوان صدر میں گارڈ آف آنر پیش کرنے کی تقریب ہوئی، آصف زرداری گارڈ آف آنر کے لئے بگھی میں تشریف لائے_
مسلح افواج کے دستوں کی جانب سے صدر مملکت کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، جس کے بعد صدرمملکت آصف زرداری نے گارڈ آف آنرکا معائنہ کیا_
گارڈ آف آنرکی تقریب میں بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاوربھٹو بھی شریک ہوئے_
1 note
·
View note
Text
جب آئے گا عمران، کب آئے گا عمران
اسلام آباد میں طاقت کے ایوانوں کی دیواروں سے کان لگا کر ہمیں گیان بانٹنے والے بتاتے ہیں کہ دو سے تین سال لگیں گے۔ جس عجلت کے ساتھ عمران خان کو سزائیں سُنائی جا رہی ہیں تو عدالتی فیصلوں میں بہت سے قانونی سُقم ہیں جس کی وجہ سے یہ فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں معطل ہوں گے۔ تجزیہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہمارے اصلی حکمران جس کو بھی چُن کر اسلام آباد میں اقتدار دیتے ہیں اُس سے اُن کا جی بھرنے میں دو تین سال کا وقت ہی لگتا ہے۔ اُن کی سچی محبت بھی دو تین سال کے بعد بیزاری میں بدل جاتی ہے، پر یہ بیزاری دشمن داری میں تبدیل ہوتی ہے۔ فائلیں ہر وقت تیار رہتی ہیں، گواہ ڈھونڈنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، جج رات گئے تک عدالتیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور سزائیں اس طرح سُناتے ہیں جیسے آج ہی فیصلہ نہ سُنایا تو شاید رات کو نیند نہ آئے۔ عمران خان تین سال کی سزا پہلے ہی کاٹ رہے تھے، پھر ایک دن دس سال کی سزا، اُس سے اگلے دن 14 سال کی سزا۔ مبصرین ان سزاؤں کے محاسن اور نقائص بتا رہے تھے میرا دماغ کیلکولیٹر بنا ہوا تھا کہ جتنے عمران خان پر مقدمات ہیں اور جس تیزی سے فیصلے آ رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ الیکشن کے دن تک عمران خان کو کم از کم ڈیڑھ ہزار سال کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق عمران خان پر درجنوں مقدمات ہیں، ان پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں تو وہ دہشت گرد بھی ہیں، کرپٹ بھی ہیں، چور بھی ہیں، ملکی سلامتی کے لیے شدید خطرہ بھی ثابت ہوئے ہیں (جس کا مطلب ہے کہ انھوں نے ملک سے غداری کی ہے) ایک کیس ایسا بھی چل رہا ہے جس میں اُن کے آخری نکاح کو مبینہ طور پر ’عدت کے دوران‘ ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ عمران خان نے جب اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا تو اُن پر دو الزام لگتے تھے کہ وہ ذرا طبعیت کے عیاش ہیں اور سیاسی طور پر بے وقوف ہیں۔ پاکستان میں کسی مرد سیاستدان کی چھوٹی موٹی عیاشیاں اُن کے حق میں ہی جاتی ہیں اور اس سیاسی بے وقوفی نے سب پرانے سیانوں کی دوڑیں لگوا دیں۔ جو لوگ پاکستان کی سیاست میں عمران خان کو ایک ہلکا پھلکا لطیفہ یا آئٹم نمبر سمجھتے تھے انھیں بھی اُن کے قہر کی تپش محسوس ہوئی۔ لیکن آخر میں اُن سے وہی غلطی ہوئی جو پاکستان میں منتخب ہونے والے ہر وزیر اعظم کے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھی ہوتی ہے یعنی وہ اپنے آپ کو وزیر اعظم سمجھنے لگتے ہیں۔
اور وہ اپنی اس پہلی بھول پر اپنے لیے اڈیالہ میں یا سہالا میں یا اٹک قلعے والی جیل میں ایک سیل بُک کروا لیتے ہیں۔ ان جیلوں کے سب سے بڑے عادی رہائشی اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ جیل سیاستدانوں کی یونیورسٹی ہوتی ہے۔ انھیں اب کچھ سیکھنا چاہیے۔ ایک اور سیانے نے سمجھایا کہ ہوسکتا ہے جیل میں سوشل میڈیا سے دور رہے گا تو کچھ عقل آجائے گی۔ سوشل میڈیا کے شور پر ملک میں حکمرانی کرنے کے خواب دیکھنے والے دیوانے بہت ہیں۔ ان سے ان کی پارٹی چھین لی گئی ہے، جنھوں نے انھیں انقلاب کا ہراول دستہ بنایا تھا وہی ان کو غدارِ وطن کہتے ہیں۔ ان کے خوابوں میں اب بھی یہ آس باقی ہے کہ وہ الیکشن کے دن اپنی ایپس اور واٹس ایپس کے ذریعے، اپنا خواب زندہ رکھنے کے لیے، اپنے خان کے لیے، اتنے ووٹ ڈالیں گے کہ اڈیالہ جیل کی دیواریں ہل جائیں گی۔ قیدی نمبر 804 کو قید نہ رکھ پائیں گی۔ اور وہ پھر ہمارے درمیان میں ہو گا۔
پاکستان میں الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی پر بہت پابندیاں ہیں لیکن خواب دیکھنے کی پابندی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے جیل میں ڈالنے والوں اور ان کے سابقہ قیدیوں نے کچھ ایسا معاہدہ کیا ہو کہ اس دفعہ ہم آپس میں نہیں لڑیں گے اور عمران خان کو نہ صرف جیل میں رکھیں گے بلکہ نہ اس کی آواز، نہ اس کی تصویر کبھی باہر آنے دیں گے۔ جیل کے سیل سے نکال کر جیل میں لگی عدالت میں پیش کریں گے اور دس، بیس، تیس ہزار سال کی سزا دلوائیں گے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ ہزار سال کی قید پوری کر کے اڈیالہ جیل سے نکلیں، باہر پھر الیکشن ہو رہا ہو، ملک میں کرکٹ کا خاتمہ ہو چکا ہو اور وادی میں بیٹھا کوئی سیانا ہمیں یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ایوب خان کے دور میں سب اچھا تھا، ہم آپ کو وہیں لے جا رہے ہیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
0 notes
Text
صدر مملکت آصف علی زرداری کی ترکیہ کے 101 ویں یومِ جمہوریہ پر مبارکباد
(اویس کیانی) صدر مملکت آصف علی زرداری نے ترکیہ کے 101 ویں یومِ جمہوریہ پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت اور عوام کی طرف سے ترکیہ کے یوم ِجمہوریہ پر ترک حکومت اور عوام کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اپنے پیغام میں صدر مملکت کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک صدی میں ترکیہ نے مختلف شعبوں میں مثالی ترقی کی ،امید ہے کہ ترکیہ صدر رجب طیب اردگان کی قیادت میں ترقی کی مزید منازل طے کرے گا،ترکیہ…
0 notes
Text
پیپلز پارٹی کے مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی تجویز دے دی، کل نواز، زرداری ملاقات، MQM کا وفد بھی لاہور آگیا
مسلم لیگ ن حکومت سازی کے لئے سرگرم ہے، پارٹی کے مرکزی صدر شہباز شریف کی رہائش گاہ پراہم ملاقاتیں طے ہیں۔ ایم کیوایم کا وفد شہباز شریف سے ملاقات کیلئے لاہور روانہ ہوگیا ہے، تاہم، آصف علی زرداری سے آج لیگی قائدین کی ملاقات کا امکان نہیں۔ لاہور آنے والے ایم کیوایم کے وفد میں خالد مقبول صدیقی، مصطفیٰ کمال، فاروق ستار اور گورنر سندھ کامران ٹیسوری شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم اور ن لیگ کی ملاقات…
View On WordPress
0 notes
Text
بنگلہ دیش اور پاکستان کا سیاسی بحران : ایک تقابل
بنگلہ دیش میں انتخابات ہو چکے ہیں اور پاکستان میں ہونے ہی والے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے سیاسی منظر نامے میں کہاں کہاں اور کتنی مماثلت ہے؟ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک میں حزب اختلاف کے لیے سازگار ماحول نہیں ہے۔ اپوزیشن دونوں جگہ بےبسی کے عالم میں ہے، بادی النظر میں دونوں میں بہت سی مماثلت ہے لیکن اس مماثلت کی مبادیات وہ نہیں جو نظر آ رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی اصل خرابی وہاں کے انتخابی عمل میں نہیں ہے۔ یہ خرابی وہاں حسینہ واجد کے یک جماعتی اقتدار کے تصور میں ہے۔ یہ جمہوری رویہ نہیں ہے۔ یہ جمہوری فاشزم ہے۔ وہ کسی سیاسی حریف کے وجود کو برداشت کرنے کی قائل نہیں۔ ان کے خیال میں خیر کا منبع ان کی ذات اور ان کی جماعت ہے اور حریفوں کو ہر سطح پر کچل دینا ہی ملک کی حقیقی خدمت ہے۔ پاکستان کی اصل خرابی بھی انتخابی عمل کے نشیب و فراز میں نہیں، یہ عمران خان کے یک جماعتی اقتدار کے تصور میں ہے۔ وہ بھی کسی سیاسی حریف کے وجود کو کسی بھی سطح پر برداشت کرنے کے روادار نہیں تھے۔ ان کے ہاں بھی خیر اور شر کو جانچنے کا معیار ان کی ذات ہے۔ جو ان کے ساتھ ہیں وہ خیر کے ساتھ ہیں، جو ان کے ساتھ نہیں ہیں وہ بدی کی قوت ہیں۔
کبھی خیال آتا ہے کہ یہ فاشزم شاید اس خطے کے مزاج میں ہے۔ کیونکہ مودی کا اقتدار بھی اسی رویے کا عکاس ہے۔ پھر یہ کہ خود پاکستان میں صرف عمران خان کا دامن اس آزار سے آلودہ نہیں، بلکہ نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر قائدین بھی درجہ بدرجہ اسی جمہوری فاشزم ہی کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ملک میں سیاسی جماعتیں ایک ادارہ نہیں بن سکیں اور پی ڈی ایم بھی عملاً پاکستان ڈیموکریٹک مونارکس کا منظر پیش کرتی ہے۔ بر صغیر کے اس آزار کا سماجی مطالعہ ہونا چاہیے۔ جمہوریت میں کسی گروہ کو مقبولیت حاصل ہو جائے مگر وہ کسی دوسرے کے وجود کا قائل نہ ہو تو یہ رویہ پاپولر جمہوری فاشزم کہلاتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں معاشرے اسی بحران سے اور اسی چیلنج سے دوچار ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک ملک میں یہ طرز عمل حصول اقتدار کے جتن کر رہا ہے اور دوسرے ملک میں یہ رویہ بقائے اقتدار کی کوششوں میں مصروف ہے۔ افتاد طبع اور ترجیحات یکساں ہیں۔ حسینہ واجد اقتدار کی چوتھی مدت کی شروعات کر رہی ہیں اور ان کے حریفوں پرعرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ عمران خان کے اقتدار کا پہلا دور دیکھ کر تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اوپر تلے دو تین ادوار اقتدار میں گزارتے تو مخالفین پر کیا بیتتی اور سماج کو کیسے امتحان سے گزرنا پڑتا۔
اقتدار سے الگ ہونا حسینہ واجد کے لیے کوئی آپشن نہیں ہے، طویل دورانیے کا یک جماعتی اقتدار ہی ان کا مقصود ہے جس میں اختیارات کا گھنٹہ گھر ان کی ذات ہو اور وہ اس کے لیے کسی بھی حد سے گزر جانے کو تیار ہیں۔ عمران خان کے ہاں بھی سیاست کا ایسا کوئی تصور نہیں پایا جاتا جس میں اقتدار کے منصب پر ان کے علاوہ کوئی اور ہو۔ چنانچہ جب وہ اقتدار میں آئے تو ان کے مداح عجیب سے بےنیازی اوڑھ کر اعلان کیا کرتے تھے کہ آئین اور قانون اپنے پاس رکھیے، خان پانچ سالوں کے لے نہیں، دس پندرہ سال کے لیے آیا ہے اور پھر اقتدار سے الگ ہوئے تو ان کا رد عمل سب کے سامنے ہے۔ بنگلہ دیش کے جمہوری بحران کی جوہری طور وجہ یہ ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اقتدار حسینہ واجد کے پاس رہے اور پاکستان کے حالیہ بحران کی جوہری وجہ یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے کیوں نکالا گیا۔ عدم اعتماد ہوا تو یہ امریکی سازش قرار پایا اور اقتدار نہ رہا تو جس صاحب منصب کو قوم کا باپ قرار دیا جاتا تھا، اسی باپ کو حریف قرار دے دیا۔ کسی دن حسینہ واجد اقتدار سے الگ ہوئیں تو ان کے رد عمل میں ایسی ہی تندی کا پایا جانا باعث حیرت نہیں ہو گا۔
دونوں کرداروں کا عمومی رویہ بھی ایک جیسا ہے۔ ایک کے لیے چیلنج اس کے سیاسی حریف ہیں اور اس نے ان کا ناطقہ بند کر دیا ہے دووسرے کا غم و غصہ یہ ہے کہ اس کے یک جماعتی شخصی اقتدار کے دوام میں ادارے اس کے سہولت کار کیوں نہیں بنے۔ فاشزم اور جمہوریت کا فرق ہر دو جگہوں پر نمایاں ہے۔ چنانچہ بنگلہ دیش کی اپوزیشن نے بنگلہ دیش کی ریاست کو سینگوں پر نہیں لیا۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ ہمارا رہنما ہماری ریڈ لائن ہے، کسی نے یہ نہیں کہا اسے اقتدار نہیں ملتا تو بنگلہ دیش کے باقی رہنے کا فائدہ ہی کوئی نہیں، کسی نے او��رسیز بنگالیوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ بنگلہ دیش پیسے بھیجنے بند کر دو۔ کسی نے یہ اعلان نہیں کیا کہ ہم اقتدار میں نہیں تو ہماری بلا سے، بھلے بنگلہ دیش پر ایٹم بم مار دو۔دونوں ملکوں کے انتخابی عمل سے جڑی مماثلت اصل میں مماثلت معکوس ہے۔ بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی لاشیں ہتھ کڑیوں اور بیڑیوں میں برآمد ہوتی ہیں، پاکستن میں اپوزیشن دیسی مرغی کھا رہی ہے اور ٹریڈ مل پر دوڑ رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن کا ہدف ریاست نہیں ہے، پاکستان کی اپوزیشن سے کسی کو امان نہیں۔
البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنگلہ دیش کی اپوزیشن دودھ کی دھلی ہے یا پاکستان کی پی ڈی ایم دودھ کی دھلی ہے۔ سیاست کی قباحتیں دونوں طرف موجود ہیں۔ تاہم بحران کی حقیقی وجہ یہ قباحتیں نہی ہیں۔ بحران کی اصل وجہ یک جماعتی جمہوری فاشزم ہے جو کسی بھی حال میں ہو، اسے کسی دوسرے کا وجود برداشت نہیں۔ یہی اصل مماثلت ہے۔ دونوں ممالک کے لیے جمہوریت یا انتخابی عمل چیلنج نہیں، اصل چیلنج یک جماعتی جمہوری فاشزم ہے۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
روسی صدر کی کوئٹہ دھماکے کی مذمت،مکمل تعاون کی پیشکش بھی کردی
روس کے صدرولادی میر پیوٹن نےکوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعے پر پاکستان سے تعزیت ی اورساتھ ہی دہشت گردی کے خاتمےکیلئے تعاون کی پیشکش بھی کردی۔ تفصیلات کےمطابق روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے پاکستانی ہم منصب آصف علی زرداری اوروزیر اعظم شہباز شریف سے کوئٹہ ریلوےاسٹیشن پر ہونےوالےدہشت گردی کے واقعے پرتعزیت کا اظہار کیا۔ روسی صدرکاتعزیتی پیغام روسی صدرکا تعزیتی پیغام کریملن کی ویب…
0 notes
Text
ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی درخواست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔ آخر یہ ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے، یہ کیس کیوں اور کس آرٹیکل کے تحت دائر کیا گیا اور اس کیس میں پوچھے گئے 5 اہم سوالات کیا ہیں؟ یہ تمام تفصیلات درج ذیل ہے۔
آرٹیکل 186 ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس یا ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے، یہ جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ قومی آئین کا آرٹیکل 186 کیا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق صدرِ مملکت کسی بھی وقت اگر یہ سمجھیں کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل سوال پر سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو وہ اس سوال کو رائے لینے کے لیے عدالت عظمیٰ کو بھجوا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس سوال پر غور کرنے کے بعد اپنی رائے صدرِ مملکت کو بھجوا دے گی۔
��والفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس 12 برس قبل 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 186 کے تحت بھٹو کی عدالتی حکم سے پھانسی کے فیصلے پر ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔ اس کیس کی پہلی سماعت 2 جنوری 2012ء کو جبکہ آخری 12 نومبر 2012ء کو ہوئی۔ پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔ آخری سماعت کے 8 چیف جسٹس اپنی ملازمت پوری کر چکے مگر کسی نے بھی اس صدارتی ریفرنس کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا۔ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے بیان کو بنیاد بنایا گیا جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے دباؤ تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں ہونے کی بجائے لاہور ہائی کورٹ میں کرنا غیر آئینی تھا۔
صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے 5 اہم سوال مذکورہ کیس میں سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے پوچھے گئے سوالات یہ ہیں۔ 1۔ ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟ 2- سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہو گا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ 3- سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟ 4- سزائے موت قرآنی احکامات کے مطابق درست ہے؟ 5- فراہم کردہ ثبوت اور شہادتیں سزا سنانے کے لیے کافی تھیں؟
واضح رہے کہ سابق صدر زرداری کے اس صدارتی ریفرنس کے سوالوں کے جوابات کی تلاش کے لیے قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کا 9 رکنی لارجر بینچ ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی یہ کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes