#abdul qadeer khan
Explore tagged Tumblr posts
librophile · 3 months ago
Text
0 notes
sloeserwij · 5 months ago
Text
Chinese infiltration
Chinese inbraak bij Defensie blijkt topje van ijsberg. Dit klinkt schokkend maar verbaast mij totaal niet. Sterker nog, ik denk dat het nog veel erger is. Lees https://sloeserwij.wordpress.com/2024/06/28/chinese-infiltration/
“Chinese inbraak bij Defensie blijkt topje van ijsberg: tienduizenden netwerken geïnfecteerd” zo was op 10 juni 2024 in de Telegraaf te lezen. Dit klinkt schokkend maar verbaast mij totaal niet. Sterker nog, ik denk dat het nog veel erger is. Kwetsbaarheden FortiGate Kort daarvoor publiceerde het Ministerie van Defensie een rapport (COAT HANGER) waaruit bleek dat de Chinese Inlichtingendienst…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingkarachi · 1 year ago
Text
محسن پاکستان ۔ نہ بھولنے والی شخصیت
Tumblr media
جو قومیں اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہیں ان کی ناقدری کرتی ہیں ایسی قوموں کا مستقبل روشن ہر گز نہیں ہو سکتا۔ قوموں کی زندگی میں خوش قسمتی سے ایسے ہیروز پیدا ہوتے ہیں جو ان میں زندگی کی نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے ہیرو گزرے ہیں جنھوں نے اپنے وطن کے دفاع اور ترقی کے لیے ہر وہ قربانی پیش کی جس کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا شمار بھی ایسے ہی ہیروز میں ہوتا ہے۔ وہ یورپ کی پُر آسائش زندگی کو خدا حافظ کہہ کر پاکستان آئے تاکہ ملک کے لیے ایٹمی طاقت بنانے کی جدوجہد میں مصروف سائنسدانوں کی ٹیم کا حصہ بن جائیں۔ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر جب ماضی کو یاد کرتے تھے تو ان کا لب و لہجہ دیدنی ہوتا تھا۔ وہ ماضی کی یادوں کو ایسے بیان کرتے کہ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا کہ وہ کیسے کٹھن حالات تھے جن میں انھوں نے اور ان کے رفقاء کار نے ایٹم بم بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر ان کی زندگی میں وہ دن بھی آگیا کہ جب پاکستان ایٹمی دھماکے کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ 
وہ بتاتے تھے کہ یہ ان کی زندگی کا وہ تاریخی دن تھا جس کا وہ ایک مدت سے انتظار کر رہے تھے اور اس کامیابی کے لیے شبانہ روز محنت کی جارہی تھی۔ اس خوشی کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں ہے، یہ ان کی ذات کی کامیابی تو تھی ہی لیکن اس کامیابی نے ان کے ملک اور امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ یہ الف لیلوی داستان ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں نے جس مشن کو ناکام بنانے کی بھر پور کوشش کی وہ مشن نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ اس سے اگلے مشن کی بھی تیاری شروع کر دی گئی۔ دفاع وطن کے اس اہم ترین مشن میں ہر حکومت نے اپنے اپنے حصے کا کام کیا، ڈاکٹر قدیر اور ان کو ہر وہ مدد فراہم کی گئی جس کی ان کو ضرورت تھی۔ وہ اس بات کا برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ کسی بھی حکومت نے ایٹم بنانے کے عمل کے دوران کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کیا تھا بلکہ وہ خاص طور پر ذکر کرتے تھے کہ ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے مختلف ذرایع استعمال کیے گئے اور کہیں نہ کہیں سے اس کے حصول کو ممکن بنایا گیا۔
Tumblr media
ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا ضیاء الحق یا ان کے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان سب نے اس میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔ پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو صاحب نے ایٹم بم بنانے کی بنیاد رکھی۔ بھٹو صاحب نے دفاع وطن کے لیے کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی پاداش میں بیرونی طاقتوں نے انھیں عبرت کی مثال بنا دیا۔ بعد ازاں جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی ریاست بن جانے کا اعلان کیا تو اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف پر امریکا اور اس کے حواریوں کی جانب سے شدید دباؤ تھا کہ وہ ہندوستان کے مقابلے میں جوابی دھماکے نہ کریں، اس کے بدلے ان کو کئی ارب ڈالر کی پیشکش بھی کی گئی لیکن میاں نواز شریف کی استقامت اور جرات کو داد دینی پڑے گی۔ جنھوں نے بے پناہ بیرونی دباؤ کے باوجود ایک محب وطن حکمران کے ذمے داری نبھائی اور جوابی ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اور یوں پاکستان کو پہلی اسلامی ایٹمی ریاست کا درجہ بھی مل گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنھیں پاکستانی محسن پاکستان کے نام سے یاد کر تے ہیں لیکن مجھے انتہائی افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ قوم کے اس محسن کی دوسری برسی بھی خاموشی سے گزر گئی، سرکاری سطح پر کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی اور نہ کسی اہم عہدیدار نے انھیں یاد کیا۔ پیپلز پارٹی جو ایٹم بم کی خالق جماعت ہونے اور مسلم لیگ نواز جو ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینے سے کبھی نہیں چوکتی اور 28 مئی کو یوم تکبیر منایا جاتا ہے، ان دونوں جماعتوں نے بھی انھیں یاد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ افسوس ہوتا ہے ان پاکستانی رہنماؤں پر جو دفاع وطن کے اس اہم ترین منصوبے پر سیاست تو کرتے ہیں لیکن اس کے خالق کو بھول گئے ہیں۔ محسن پاکستان اس دنیا میں پہنچ چکے ہیں جہاں انھیں دنیاوی چیزوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے رب کے ہاں اعلیٰ و ارفع درجہ پائیں گے لیکن افسوس یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کا حافظہ اتنا کمزور ��و گیا ہے کہ ہم نے اپنے محسن کو دو برس میں ہی بھلا دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنی ناقدری کا شدید احساس ہو گیا تھا، شاید اسی لیے وہ اس کو محسوس کر کے یہ لازوال شعر بھی کہہ گئے۔
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
محسن پاکستان کو عالم برزخ میں پاکستانی قوم یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس کے حکمران اپنی بشری کمزوریوں کے باعث انھیں یاد کریں یا نہ کریں مگر پاکستانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ہمیشہ احسان مند رہیں گی اور انھیں یاد کرتے رہیں گے۔
اطہر قادر حسن  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
raufmalik2327 · 1 year ago
Text
0 notes
forgottengenius · 1 year ago
Text
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
Tumblr media
ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے آخری چند برس بظاہر ایک خاموشی، بدگمانی، فرسٹریشن، مایوسی اور ناقدری کے احساس کے آئینہ دار ہیں اور یہ احساس کچھ ایساغلط، بے جا یا فرضی بھی نہیں لیکن جو لوگ اُن کے قریب یا اُن سے رابطے میں رہے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ کبھی ربِ کریم کی رحمت سے مایوس اور اُس کے بندوں کی محبت سے محروم نہیں ہوئے۔ دراصل اُن کا کام ہی اتنا بڑا، غیر معمولی اور شاندار تھا کہ اُس نے دنیا بھر کے حاکم سیاسی طبقوں اور اپنے تکبر میں ڈوبے ہوئے ہمسایہ ملک کے جارحانہ عزائم کو ایک ایسا شدید اور غیر متوقع جھٹکا دیا کہ تب سے اب تک ہر دو قوتیں غصے اور انتقام کی آگ میں جل تو رہی ہیں لیکن پاکستان کو حربی قوت کے زور پر اپنے قابو یا رعب میں رکھنا اب اُن کے لیے ممکن نہیں رہا، سو اَب سرمایہ بنیاد معیشتیں جہاں ہمیں معاشی طور پر کمزور اور اپنا تابعدار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں وہاں بھارت یہ کام سازش، بد امنی اور تخریبی کارروائیوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ڈاکٹر قدیر خان بھی شائد بہت سے دیگر ہنرمند اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل پاکستانی تارکینِ وطن کی طرح ایک بظاہر کامیاب آسودہ اورمتمول زندگی گزار کر وہیں کہیں کسی مغربی سرزمین میں آسودہ خاک ہو جاتے مگر دو باتوں (و یقینا تقدیر کا مدعا بھی تھیں) نے ایسا نہیں ہونے دیا، ایک تو اُن کی وہ طبیعت، افتاد و طبع اور اپنے اختیار کردہ ملک پاکستان اس کی حفاظت اور ترقی سے محبت تھی اور دوسری 1974 میں بھارت کی طرف سے کیے گئے وہ ایٹمی دھماکے جن کے متوقع اثرات کی سنگینی نے ہالینڈ کی کسی سائنس لیبارٹری میں کام کرتی ہوئی ایک خوبصورت اور محبِ وطن رُوح کو بے چین کر دیا جسے دنیا ایک عام سے سائنس کے طالب علم کے طور پر جانتی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے بنیادی طور پر ایک نیوکلیئر سائنس دان نہ ہونے کے باوجود بھی اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے خود رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ ہم جوابی طور پر اور اپنی مدافعت اور حفاظت کے لیے کس طرح سے ایسی جوہری قابلیت حاصل کرسکتے ہیں۔ 
Tumblr media
اب یہاں داد بھٹو مرحوم کے لیے بھی بنتی ہے کہ انھوں نے نہ صرف اس معاملے کی سنگینی، جواب کی ضرورت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صلاحیت اور خلوص کو سمجھا بلکہ عملی طور پر اس مشن کے آغاز کے لیے نہ صرف ڈاکٹر صاحب کو وہاں سے بلوایا بلکہ انھیں اور ان کی ٹیم کو ایسے وسائل بھی مستقل طور پر مہیا کیے جن کی فراہمی اُن حالات میں ناممکن حد تک مشکل تھی اور پھر ڈاکٹر صاحب ہی کے بیان کے مطابق جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحق خان نے بھی نہ صرف اس پالیسی کو جاری رکھا بلکہ ہر طرح کے دباؤ کو سہتے ہوئے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور ڈاکٹر اے کیو خان لیبارٹری کے کام کو اوّلین ترجیح دی۔ اب 28 مئی 1998 کے جوابی دھماکوں کے فیصلے اور عمل کے درمیان کیا کچھ ہُوا اس کی تفصیل میں جائے بغیر اور بھارت کے فطری ردعمل کی کیفیات اور تفصیلات میں اُلجھے بغیر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کے فوراً بعد ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے دھماکے کے کریڈٹ کے ضمن میں سیاستدانوں کے رویے پر ناراضی کا اظہار سامنے آیا اور دوسری طرف بڑی عالمی قوتوں کی طرف سے حیرت اور بے یقینی کے فوری تاثر کے بعد اس کی مخالفت میں بیانات آنے شروع ہو گئے۔
9/11 کے پس منظر اور ڈاکٹر صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان دونوں باتوں نے ایک نیا اور بے حد تکلیف دہ رُخ اختیار کر لیا جس کے نتیجے میں جنرل مشرف کے زمانے میں ڈاکٹر صاحب کو امریکا کے بے حد اصرار کے باوجود اس کے حوالے تو نہیں کیا گیا مگر طرح طرح کے الزامات، معافی ناموں اور نقل و حرکت پر پابندیوں کی وجہ سے انھیں کئی برس ایک طرح کی نظر بندی میں رہنا پڑا جو یقیناً ایک ایسے شخص کے لیے جو محسنِ پاکستان بھی کہلاتا ہو اور جس نے اپنی ساری زندگی اپنی قوم کو محفوظ اور باوقار رکھنے میں صَر ف کر دی ہو ایک بہت تکلیف دہ صورتِ حال تھی۔ ذاتی طور پر مجھے اُن سے ملنے اور اُن سے بات چیت کرنے کے مواقعے دونوں طرح کے حالات میں حاصل رہے ہیں کہ میری اُن سے پہلی بالمشافہ ملاقات ایٹمی دھماکے سے کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی اور پھر یہ سلسلہ وقفوں سے ہی سہی مگر کبھی منقطع نہیں ہوا کہ وہ سائنس دان تو بڑے تھے ہی شعر و ادب سے بھی اُن کی واقفیت نہ صرف بہت گہری اور عمدہ تھی بلکہ عام میل جول میں وہ بے حد دلچسپ، خوش دل، خوش مذاق اور Down to Earth انسان تھے اور پھر آخر ی عمر میں انھوں نے کالم نگاری کے ذریعے اپنے مطالعے ، مشاہدے ، تجزیے ، ادبی ذوق اور اپنی فہم کا جو مرقعّ ہمارے سامنے پیش کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے وہ بہت سادہ، سچے، مخلص اور قدرے جذباتی مزاج کے حامل تھے۔
اب جہاں تک اُن کی سادگی، سچائی اور خلوص کا تعلق ہے وہ تو بیشتر سائنس دانوں کی مشترکہ خوبی رہی ہے مگر زندگی، فنونِ لطیفہ سے محبت اور جذباتیت وہ اوصاف ہیں جو یقیناً اپنی برادری سے انھیں ممیز اور ممتاز کرتے ہیں بلاشبہ وہ کچھ عمائدینِ سلطنت اور اُن کے حواریوں سے نالاں تھے مگر اُن میں سے بھی کسی کی نیکی توجہ یا اچھے کام کی تحسین میں وہ بخل سے کام نہیں لیتے تھے انھیں احسان فراموشی سے چِڑ تھی چنانچہ اس حوالے سے وہ بعض اوقات بہت سخت باتیں بھی کر جاتے تھے لیکن جہاں تک پاکستانی عوام اور عام انسانی ضمیر کا تعلق ہے۔ اُس کے لیے میں نے کبھی اُن کے منہ سے کوئی شکایتی لفظ نہیں سُنا۔ چند برس قبل ایک محفل میں اُن کے کچھ احباب نے بتایا کہ وہ آج کل ایک عوامی اسپتال کے قیام کے لیے بھی بہت محنت اور سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں کہ خیر کے کاموں کے لیے وہ ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک ملاقات کے دوران انھوں نے مجھ سے اپنے اس اسپتال کے لیے اُسی طرح کا ایک ترانہ نما گیت لکھنے کی فرمائش کی جسے میں اس سے قبل ’’الخدمت ‘‘ اور ’’اخوت‘‘ کے لیے لکھ چکا تھا مجھے خوشی ہے کہ مجھے اس کی تعمیل کا موقع ملا اور مزید خوشی اس بات کی ہے کہ انھوں نے اسے پسند بھی کیا۔
اُن کی نماز جنازہ اور تدفین کے مناظر اور خبریں دیکھنے اور حکومتِ وقت کی طرف سے اُنہیں قومی اعزاز اور احترام کے ساتھ دفنانے کے اعلانات سننے اور ان پر عمل کی مختلف صورتیں دیکھنے اور عوام کا جوش و خروش اور ہر طرح کے میڈیا پر اُن کے لیے دعاؤں اور کلماتِ خیر کا ہجوم دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ اُن کی رُوح پر سے اُس ناقدری اور احسان فراموشی کے گِلوں کا بوجھ اُتر گیا ہو گا جسے انھیں اپنی عمر کے آخری برسوں میں اُٹھانا پڑا اور بلاشبہ عوام کی یہ محبت اُن تمام سرکاری اعزازت پر بھاری ہے جو انھیں بار بار ملے کہ یہ محبت مستقل اور پائیدار ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد گہری اور مضبوط بھی ہے اور مجھ سمیت وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جنھیں اُن سے ملنے، باتیں کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
امجد اسلام امجد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 6 months ago
Text
اٹھائیس مئی : ڈاکٹر عبدالقدیر کا ذکر کیوں نہیں؟
Tumblr media
28 مئی کو مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہت یاد آتے ہیں۔ یہ 28 مئی ہی کی شام تھی، وہ میرے ٹاک شو میں فون پر شریک ہوئے، میں نے انہی کا ایک شعر پڑھا : گزر تو خیر گئی ہے مری حیات قدیر ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے اور پوچھا کہ ’قوم تو آپ سے محبت کرتی ہے، وہ تو اہل کوفہ میں شامل نہیں؟‘ ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور کہا کہ ’قوم کو تو پتہ ہے وفا والے کون ہیں اور کوفہ والے کون ہیں ۔ پھر کہنے لگے کہ ایک اور شعر بھی ہے: اس شہرلازوال میں اک مجھ کو چھوڑ کر ہر شخص بےمثال ہے اور باکمال ہے‘ لیکن پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر اے کیو خان کو جو گھاؤ لگے ان کے داغ اس قوم کے شعورِ اجتماعی سے کبھی مٹ نہیں پائیں گے۔ اس واقعے کے 20 سال گزر گئے ہیں مگر لوگوں کو آج بھی ڈاکٹر صاحب کے اچان�� ٹیلی ویژن پر نمودار ہو کر اعتراف کرنا یاد ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کی سپلائی کا رنگ چلا رہے تھے۔ ڈاکٹر اے کیو خان ہماری مجموعی ناقدری کا شکار ہوئے۔ 28 مئی کا دن منانا ہے تو ڈاکٹر خان سے پس مرگ ایک معذرت بھی واجب ہے۔ یہ فرض کون ادا کرے گا؟
28 مئی 1998 کو ہم نے ایٹمی دھماکے کیے اور 28 مئی 2024 کو ہم نے عام تعطیل کی۔ یعنی یہ بات سمجھتے سمجھتے ہمیں پورے 26 سال لگ گئے کہ 28 مئی ایک ایسا دن ہے جس پر ہمیں تعطیل کا اعلان کرنا چاہیے۔ 28 مئی یقینا ایک قابل فخر دن ہے۔ تاہم ہمیں اپنی فیصلہ سازی کے اس معیار پر فکر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا محترم احسن اقبال نے یوم اقبال پر تعطیل کی سمری پر اقبال کا ہی ایک غلط شعر لکھ کر اس سمری کو رد کر دیا کہ نہیں ہے بندہ حُر کے لیے جہاں میں فراغ ۔ سوال یہ ہے کہ اب بندہ حُر کو فراغت کیسے نصیب ہو گئی کہ اس نے 26 سال پرانی قضائیں لوٹانے کا فیصلہ کر لیا؟ یہ ایک قومی دن ہے۔ اسے سیاسی ضرورت کی نظر نہیں ہونا چاہیے ۔ سیاسی چیلنج کا جواب لمحۂ موجود ک�� کارکردگی سے دیا جاتا تو اچھا تھا۔ 26 سال پرانے واقعے پر اچانک رجز پڑھ لینے سے کام نہیں بنے گا۔ 28 مئی مسلم لیگ ن کی زندگی میں پہلی بار نہیں آیا کہ ماحول میں وارفتگی سی گندھ گئی ہے۔ اقتدار کے کتنے ہی موسم ن لیگ پر ایسے گزرے کہ 28 مئی آیا اور اہل دربار میں سے کسی کو توفیق نہ ہو سکی کہ ای سیون کے قید خانے میں ڈاکٹر اے کیو خان کو اس دن کی مناسسبت سے چند پھول ہی بھجوا دیے جاتے۔
Tumblr media
اہل دربار اشتہار چھپواتے تو اے کیو خان کا نام تک نہ ہوتا، قوم کا شعور اجتماعی جسے ہیرو سمجھتا ہے، ایک رسمی سا تذکرہ بھی اس شخص کا نہ ہوتا۔ محسن کشی کی یہ رسم اب بھی جاری ہو گی۔ کسی سائنس دان کا کہیں تذکرہ نہیں ہو گا۔ دربار میں قصیدے کی بزم سجے گی تو سارے سہرے نواز شریف صاحب کے کہے جائیں گے۔ ماضی کو چھوڑ دیجیے، آج بھی کیا صدر، وزیر اعظم یا کسی وزیر محترم کو یہ توفیق ہو پائے گی کہ اے کیو خان کی قبر پر چند پھول ہی رکھ آئے کہ ہم جو دن منا رہے ہیں اس کوہ کنی میں سر فہرست لکھے ناموں میں ایک نام آپ کا بھی ہے؟ ایٹمی قوت ڈیٹرنس کا کردار ادا کرتی ہے لیکن فیصلہ سازی کا بحران درپیش ہو تو ایٹمی قوت کے ہوتے ہوئے بھی بحران قومی وجود سے لپٹ جاتے ہیں۔ نواز شریف وزیر اعظم تھے اور ان سے ان کے حصے کا کریڈٹ چھینا نہیں جا سکتا، لیکن کیا دوسروں سے ان کے حصے کا کریڈٹ چھینا جا سکتا ہے؟ بھٹو سے، ضیا الحق سے، ڈاکٹر اے کیو خان اور ان کے رفقا سے؟ کئی ہیرو تو وہ ہوں گے جو گم نام ہوں گے اور کیا عجب کہ حقیقی ہیرو وہی ہوں؟
بنانے والے جاں پر کھیل کر ملک کو ایٹمی قوت بنا گئے۔ سوال اب کے فیصلہ سازوں کا ہے۔ فیصلہ سازی میں اگر تسلسل اوربصیرت نہ ہو تو سارا سفر دائروں کی مسافت بن جاتا ہے۔ ایٹمی قوت ڈیٹرنس کا کردار ادا کرتی ہے لیکن فیصلہ سازی کا بحران درپیش ہو تو ایٹمی قوت کے ہوتے ہوئے بھی بحران قومی وجود سے لپٹ جاتے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت ہیں لیکن کشمیر کو انڈیا نے ناجائز اور غیر قانونی طور پر اپنا حصہ قرار دے لیا ہے۔ یہ جرات وہ ان دنوں میں بھی نہیں کر سکا تھا جب ہم ایٹمی قوت نہیں تھے۔ اسی طرح ہم ایک ایٹمی قوت ہیں لیکن ایک خوف ناک معاشی بحران دامن گیر ہو چکا ہے۔ ایک ایک ارب ڈالر کے لیے کہاں کہاں ہمیں ناک رگڑنا پڑ رہی ہے اور کون جانے پس پردہ کہاں کہاں کمپرومائز کرنے پڑ رہے ہوں۔ ہمیں معیشت اور بصیرت کی دنیا میں بھی ایک 28 مئی کی ضرورت ہے۔ کیا وطن عزیز میں کوئی فرہاد ہے جو یہ کوہ کنی کر سکے؟ یا ہم 26 سال پرانی کامیابی پر ہی رجز پڑھتے رہیں گے تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note · View note
kjtips · 1 year ago
Text
History of Dr. Abdul Qadeer Khan
Tumblr media
1 note · View note
xtruss · 1 year ago
Text
On This Day: Pakistan Becomes a Nuclear Power
On May 28, 1998, Pakistan announced that it had successfully conducted five nuclear tests
— Social Desk | The Express Tribune
Tumblr media
The Pakistan Atomic Energy Commission (PAEC) reported that the tests conducted on May 28 generated a seismic signal of 5.0 on the Richter scale, with a total yield of up to 40 KT.
Pakistan's nuclear weapons programme architect Dr Abdul Qadeer Khan claimed that one device was a boosted fission device and that the other four were sub-kiloton nuclear devices. Following this, on 30 May 1998, Pakistan tested yet another nuclear warhead with a reported yield of 12 kilotons.
Tumblr media
Test Site: Ras Koh Hills in the Chagai district of Balochistan, Pakistan
Chagai-I:
The nuclear tests were performed at Ras Koh Hills in the Chagai district of Balochistan. Chagai-I was Pakistan's first public test of nuclear weapons. Its timing was a strategic response to India's second nuclear tests, on 11 and 13 May 1998.
The total number of claimed tests was six, with another device reportedly being left undetonated.
Socio-Political Climate:
As Pakistan became one of the nine states to possess nuclear weapons, it is pertinent to note that it came on the heels of India conducting its own nuclear tests.
Since the timing of Chagai-I was a strategic, yet direct response to India's second nuclear tests, it is argued that 28th May marks the day that prevented war between India and Pakistan
Operation Brasstacks:
Planned and executed by the Indian Army, Operation Brasstacks was a major combined arms military exercise of the Indian Armed Forces in the Rajasthan state of India, adjacent to the border with Pakistan. It took place in 1986.
While India claims that the operation was merely to test the new concepts in Indian warfare, over 600,000 Indian troops had been amassed near the border of Pakistan - which is precisely why many claims revolve around Operation Brasstacks not being a military exercise, but a scheme to build up the situation for a fourth war with Pakistan.
Tumblr media
The PAEC weapon testing team at Koh Kambaran, with team leader Samar Mubarakmand (right of the man in the blue beret), Tariq Salija, Irfan Burney, and Tasneem Shah. The better known A. Q. Khan of Kahuta Research Laboratories (KRL) is left of the man in the blue beret (who may be General Zulfikar Ali).
Timeline:
In December 1989, armed resistance to Indian rule in occupied Kashmir began with support from Pakistan. Then in April 1990, a crisis in the valley broke out as Indian military mobilisation threatened to incite war between India and Pakistan. Following this, in May 1998, India detonated five nuclear devices - and in response, Pakistan claimed six detonations, averting a full-scale India-Pakistan war.
Brief History of Pakistan's Nuclear Programme:
Pakistan's nuclear weapons programme was established in 1972 by Zulfiqar Ali Bhutto, who founded the programme while he was minister for fuel, power and natural resources, and later became president and prime minister. Shortly after the loss of East Pakistan in the 1971 war with India, Bhutto initiated the programme with a meeting of physicists and engineers at Multan in January 1972.
According to Pakistan's Nuclear Weapons Program archives, India's test created an untenable situation for then Prime Minister Mohammad Nawaz Sharif. In the wake of India's tests, Pakistan felt an urgent need to demonstrate its own prowess in a similar manner for many reasons - to deny India the unilateral technical advantage it might have gained from conducting tests and to revise the power dynamics between the two countries.
Pressure for test spanned the political spectrum from liberals like opposition leader Benazir Bhutto to the religious right. Bhutto reportedly went so far as to declare that "if there is the military capability to eliminate India's nuclear capacity, it should be used."
0 notes
kharisubas40972 · 2 years ago
Text
MISSION MAJNU is a gripping saga with a tight script, intelligent scenes, taut execution, and a memorable performance.
Mission Majnu Review {3.5/5} & Review Rating MISSION MAJNU is the story of an Indian spy in Pakistan. In 1974, India successfully conducted nuclear tests, shocking the world. Pakistan’s Prime Minister Zulfikar Ali Bhutto (Rajit Kapur) is upset. At the advice of ISI Chief Maqsood Alam (Shishir Sharma), Pakistan decides to invite Abdul Qadeer Khan (Mir Sarwar), a nuclear scientist based in the…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
themovieblogonline · 2 years ago
Text
Mission Majnu (2023): The “Romeo” Spy
Tumblr media
“Romeo” is out on a mission! This time not for his Juliet, but for the sake of his motherland; India! Bollywood brings you an epic fictional spy story that is supposed to have occurred during the 1971 Indo-Pakistani War. Titled “Mission Majnu”, this fictional spy-thriller was released on Netflix on January 20, 2023, after facing multiple delays. Co-written by Parveez Shaikh, Aseem Arora, and Sumit Batheja; co-produced by Ronnie Screwvala, Amar Butala, and Garima Mehta; and directed by Shantanu Bagchi, the film stars Sidharth Malhotra in the lead role. Mission Majnu (2023) Official Teaser: Mission Majnu (2023) Synopsis: The story dates back to the early 1970s. India and Pakistan are at war. India’s intelligence agency RAW suspects that Pakistan is making a nuclear bomb. RAW plans to track down Pakistan’s nuclear facility and neutralize it. So, it sends its undercover officer Amandeep Singh (Sidharth Malhotra) to Pakistan to investigate the secret nuclear facility where the bomb is being made. In Pakistan, Amandeep Singh disguises themself as a tailor named Tariq Ali to give light to his secret mission. However, during his mission in Pakistan, he gets attracted to a blind woman named Nasreen (Rashmika Mandanna). They eventually marry. Now, Amandeep a.k.a Tariq will have to balance his undercover mission with his personal life. Will he be successful in this covert mission to Pakistan? Watch till the end to know! Mission Majnu (2023) Official Trailer: https://youtu.be/Gw77Nx4eBMc The Good: Great Lead Coupled With Outstanding Support Sidharth Malhotra has carried out his role of the daredevil spy Amandeep Singh a.k.a Tariq Ali quite competently. Bollywood reports reveal that Sidharth had to go through some intense action stunt training to step into the shoes of this fictitious Indian spy. Rashmika Mandanna as Tariq’s blind love-interest turned wife Nasreen, did well too. However, she had brief appearances in the movie, and her short sequences didn’t give her much space to showcase her talent better. https://youtu.be/Sb8sasFaRTM Kumud Mishra played the role of RAW's senior field agent Raman Singh who was disguised as a Pakistani named Maulvi, and was helping Amandeep carry out his secret mission. Sharib Hashmi played the character of Amandeep’s other ally in Pakistan named Aslam Usmaniya. I must say, these two actors carried out their supporting characters excellently. Zakir Hussain as Amandeep's in-charge, Sharma was hilarious. His character was always dismissive of Amandeep. The way he humiliated Amandeep with his comical dialogues was indeed funny as well as interesting to watch. Other actors included Parmeet Sethi as a RAW officer and Amandeep’s boss, R.N. Kao, Rajit Kapur as the former Prime Minister of Pakistan Zulfikar Ali Bhutto, Mir Sarwar as Pakistani nuclear scientist Abdul Qadeer Khan, Avantika Akerkar as the former Indian Prime Minister Indira Gandhi and Avijit Dutt as former Indian politician Morarji Desai. These actors had brief roles in the movie. Still, they lent excellent support. It was indeed a pleasure to watch famous personalities like Indira Gandhi, Morarji Desai, and Zulfikar Ali Bhutto come alive with the makeup and performances of these actors. Although Indian spy Amandeep Singh a.k.a Tariq Ali is a fictitious character, personalities like Indira Gandhi, Morarji Desai, and Bhutto are world famous and really exist. Awesome Dialogues The dialogues in Mission Majnu have been written by Sumit Batheja. In some instances, the dialogues are great and add to the patriotic essence of the movie. The way Sidharth Malhotra has delivered them is appealing as well. Some of the dialogues are indeed worth applause! https://youtu.be/Dm70ALp_NpA Visually Convincing With Sharp Editing I would say, the only aspect which added a bit of thrill in Mission Majnu is the convincing cinematography by Bijitesh De. The filming was done in Lucknow city located in the Indian state of Uttar Pradesh. The sets and backgrounds were made as per the “Pakistani atmosphere”. Being an Indian, I have never been to Pakistan because I am not allowed to. However, upon watching this film, I truly felt that the cinematic atmosphere was created to resemble that of Pakistan; the backgrounds, localities, dressing style of the actors, everything! The editors, Nitin Baid and Sidharth Pande, have kept the film’s duration, 2 hours and 10 minutes with their precise editing. This film does not fluctuate very often and has little space for confusion. Yes, there are some loose moments as apart from being a spy-thriller, this happens to be a love story too. However, the editors have done their best in placing all sequences systematically, thus making the story easy for the audiences to understand. Rabba Janda: A Pleasing Song The tracks in Mission Majnu have been choreographed by Tushar Kalia. The romantic track “Rabba Janda” is melodious. And why not! After all, it has been sung by Jubin Nautiyal who has achieved stardom in the musical world owing to his magical voice. However, there is another patriotic track “Maati Ko Maa Kehte Hain”, sung by the iconic singer Sonu Nigam, which not only lacks melody but lacks rhythm as well. I am highly disappointed that such an iconic singer like Sonu Nigam, who has been regarded as the “King of Melody” and was one of my favorites during the 1990s, has performed so horribly in this track. The background music in Mission Majnu is not so appealing as well. https://youtu.be/KfFbnOXWt4A The Bad: Not A New Story The story of Mission Majnu has been written by Parveez Shaikh and Aseem Arora. There’s nothing new to the story. Bollywood, in the past few decades, has come out with numerous spy-thrillers involving secret service agents on their mission to Pakistan. So, the predictability in the plot makes the story lose its sense of thrill. You will always know what the outcome will be. The Indian spy will complete his mission successfully, whether he lives or dies at the end. More On “The Missing Thrill” The thrill in Mission Majnu diminishes even further because of the manner in which Aseem Arora, Parveez Shaikh, and Sumit Batheja co-wrote its screenplay. A scene goes where Tariq Ali and Aslam Usmaniya stealthily sneak inside a nuclear facility in Pakistan and end up getting caught. The scene has been portrayed in a way that the audience does not experience the level of excitement or thrill that they should have. Also, as the screenplay unfolds, the viewers start feeling that nothing really is impossible for Amandeep a.k.a. Tariq. He seems invincible, ready to take on any obstacle and achieve anything he wishes for. This adds a sense of easiness to the screenplay which in fact makes it even less engrossing. Besides, if you ask me personally, then I would say that such a concept of an “invincible spy” is direly absurd. The action scenes in Mission Majnu, choreographed by Ravi Verma, could have been more exciting. When you watch an action-oriented spy-thriller that involves an Indian secret mission to Pakistan, you have a lot of expectations. One of the action scenes involved Sidharth Malhotra hanging from a train. This scene was intense and entertaining, but it resembled the action scene from the 1970s iconic blockbuster “Sholay” which starred Amitabh Bachchan and Dharmendra. So here, familiarity breeds contempt! The climax of Mission Majnu does add a bit of thrill, but that is just not enough for spy-thriller lovers like me! Apart from “thrill”, the story also lacks patriotism. After all, the fictitious spy Amandeep Singh a.k.a Tariq Ali is on a mission for India. Upon watching Mission Majnu, I found the patriotic essence lacking. You too will probably agree with me, if you watch this movie. I feel the main reason why the patriotic essence faded away is that here Amandeep Singh, in spite of being a spy in Pakistan, married and settled with a blind Pakistani woman. This was actually not expected on his behalf. The fictitious character of Amandeep Singh who disguised as Tariq Ali truly lacked moral sense. I agree with the fact that love knows no boundaries. But when you are a spy in a different country, you got to set your own boundaries! https://youtu.be/_otYHRxJ7JA The Verdict: Shantanu Bagchi has directed this film and his direction is just average. No doubt, he has extracted great performances from the actors. However, he has failed to establish the thrill as well as the feeling of patriotism towards the Indian Motherland in this anti-Pakistani spy-thriller. Indian Cinema has the habit of poking Pakistan every now and then. For decades, Bollywood has produced uncountable anti-Pakistani action-thrillers, spy-thrillers, and whatnot! Bollywood has mainly placed its focus on the 1971 Indo-Pakistani War with movies like Border (1997) and the Kargil War of 1999 with movies like LOC: Kargil (2003). Bollywood also showcases plane-hijacking movies involving Pakistani terrorists and also movies on terrorism events like the 26/11 attacks. However, these are true events and if Bollywood has showcased these events against Pakistan, that cannot be addressed as "Anti-Pakistani” because Pakistan is the nuisance creator here. However, when you make something like Mission Majnu, which is entirely fictional, then this is something that is uncalled for. This film is said to have been “inspired by true events”. However, no such nuclear spying incidents have ever been recorded to have occurred in history. If you ask me, being an Indian I am telling you, this act of deliberately poking another country, that too our arch-rival, is not cool at all! This may only lead to further agitation between the two countries. It is becoming a trend in Bollywood; make an anti-Pakistani movie, and tag it as being “inspired by true events”. I was not born during the early 1970s. Even if such a secret mission did take place at that time, it has been highly dramatized in this movie which makes it absolutely fictional. Also, if such a daring spy like Amandeep ever existed, then where is he now? If he is alive, why has he not been recognized by the Indian media? This is what I am saying from the viewpoint of a film critic. However, if you ask me from the viewpoint of an Indian, I would say that Bollywood has done the right thing by coming out with another taunting movie aimed at Pakistan. When Pakistan creates a nuisance by sending terrorists to our country, then it does deserve to be pinched a bit with movies like this. It is another thing that this movie will be banned in Pakistan. Who can tolerate his or her own degradation? Nobody can! To conclude, I am relieved that Mission Majnu has been released on Netflix. Had it been released in theaters, then it would have been very difficult for this film to keep its audiences engrossed throughout its runtime. Read the full article
0 notes
yearningforit · 3 years ago
Text
Tumblr media
اناللہ وانا الیہ راجعون
اللہ قوم کے اس ہیرو کو اپنی جوار رحمت اور فردوس کے بالا خانوں میں جگہ دے۔ آمین
12 notes · View notes
emergingpakistan · 3 years ago
Text
میرا رب کبھی مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا آخری کالم
دیکھئے اللہ تعالیٰ نے جو بے شمار نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں وہ ہم کبھی دنیا بھر کے درختوں کے قلموں اور سمندروں کی سیاہی یا روشنائی سے بھی مکمل طور پر نہیں لکھ سکتے۔ آپ سے چند چیزوں کا ذکر کرتا ہوں مثلاً ہدایت، رزق، صحت، مال و دولت، قوّت و طاقت، عزت وغیرہ۔ سب سے زیادہ اہم نعمت ہدایت ہے۔ سورۃ کہف، آیت 17 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جس کو اللہ ہدایت دے وہ ہدایت یاب ہے اور جس کو وہ گمراہ کرے تو تم اس کے لئے کوئی دوست ہدایت دینے والا، راہ دکھانے والا نہ پائو گے‘‘۔ کلام مجید میں بار بار ان چیزوں کا ذکر ہے جن کا میں نے ابھی اوپر ذکر کیا ہے۔ آج آپ کی خدمت میں غورو خوض کے لئے ان ہی چند باتوں کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندو ایک نہایت تعلیم یافتہ قوم ہے ان کی تاریخ و تہذیب بہت پرانی ہے۔ یہ دنیا میں اپنی عقل و فہم کے بارے میں مشہور ہیں۔ اتنی پرانی تہذیب، اعلیٰ تعلیم، عقل و فہم کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے محروم ہیں۔ گائے کا پیشاب پیتے ہیں۔ گوبر کھا لیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ��ود مٹی اور لکڑی کی مورتیاں بناتے ہیں اور ان کو نعوذ باللہ خدا مان کر پوجتے ہیں جو چیز آپ خود بنائیں خود اس کے خالق ہوں وہ آپ کا خالق کیسے ہو سکتا ہے؟
ٍیہی حال مسیحیوں کا ہے۔ ایک صلیب، کراس بناتے ہیں اس پر حضرت عیسیٰ ؑ کی مورتی بناتے ہیں اور اس کو پوجتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ عیسائی دیوار پر ایسی ہی لگی مورتی کو پوجتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں تو اس کراس اور مورتی کو لپٹ کر پکڑتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ پیتل کا ٹکڑا نا ان کی فریاد سن سکتا ہے اور نا ہی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ مسلمان بھی ایسی باتوں سے مبرّا نہیں ہیں لاتعداد رسم و رواج بنا رکھے ہیں جو اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ مثلاً رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد ہی مسیلمہ بن کذّاب نے نبوّت کا دعویٰ کر دیا، حالانکہ ابھی اسلام کی تعلیم، اللہ کے فرمان، احادیث تازہ تھیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فوراً اس فتنے کا سر کچلنے کا حکم دیا، ہزاروں مسلمان جن میں تقریباً 1200 جیّد صحابی تھے شہید ہو گئے مگر اس فتنہ کا سر کچل دیا گیا۔ آپ سوچئے کلام مجید یعنی فرمان اِلٰہی کی موجودگی میں بھی کیا یہ ممکن تھا! جی تھا، جب ہی تو ہوا اور سورۃ کہف کی آیت کی سچائی ثابت ہوئی۔ کلام مجید میں بار بار آیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (محمدؐ) کی اطاعت کرو ان کے فرمان کی نافرمانی کرو گے تو سخت عذاب اور عتاب نازل ہو گا۔ اس پر مزید روشنی ڈالنے اور اہمیت بتانے کے لئے اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ اللہ کے رسول اور اللہ کے احکامات کی تعمیل کرو۔ پھر کلام مجید میں صاف صاف فرمایا کہ محمدؐ اللہ کے آخری رسول ہیں اور مہر لگا دی گئی ہے کہ اب کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔ 
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں صاف صاف فرمایا کہ لوگو سنو! اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نا ہی کوئی نئی اُمت آئے گی۔ پھر انسان اپنی فطرت (جھگڑالو، جلدباز اور احسان فراموشی وغیرہ) کی وجہ سے ایسی باتیں کرتا ہے جو اللہ اور اس کے فرمان کے سخت خلاف ہیں۔ دیکھئے ایسے رویے ایسے کردار کے لئے اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں کئی جگہ فرمایا ہے۔ ’’بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آسکتے، بہرے گونگے اندھے ہیں پس یہ دیکھتے نہیں، بہرے گونگے اندھے ہیں پس یہ سمجھتے نہیں ہیں۔ ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے یعنی سوچنے اور سمجھنے کی قوّت کو سلب کر لیا ہے اور ان کو اب کوئی صحیح راہ نہیں دکھا سکتا۔ دیکھئے آج بھی وہی المیہ ہے جو 1400 سال سے کچھ پہلے موجود تھا۔ یعنی ہم تو وہی کرینگے جو ہمارے آبائو اجداد کرتے آئے ہیں۔ آج کی نئی جوان قوم کے دماغ اور دل میں بھی یہی چیز سما گئی ہے۔ اگر والدین غلط راہ، یعنی دین اسلام اور احکامات اِلٰہی کے منافی کاموں میں مصروف ہیں تو اس کو صحیح اور جائز سمجھ کر اس کی پیروی کرتے ہیں۔ نماز نہ پڑھنا، شراب پینا اور دوسرے غلط کاموں کی نقل عام ہے۔ 
میں نے اپنے پچھلے کالم میں ایک مفید مشورہ دیا تھا کہ ریڈیو پاکستان صبح 7 بجے سے رات تک صوت القرآن کے نام سے تلاوت قرآن مع اردو ترجمہ پیش کرتا ہے یہ بہت ہی اعلیٰ پروگرام ہے آپ دکان میں، بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز میں نرم آواز یعنی ہلکی آواز میں اس کو لگائیں۔ آواز اُونچی، لوگوں کو ہراساں کرنے والی نہ ہو۔ آپ اللہ کے احکامات سن سن کر ان پر عمل کرنے لگیں گے۔ اور عوام بھی۔ (نوٹ) پچھلے کالم میں سورہ یوسف کی جگہ سورہ کہف لکھ دیا گیا تھا اور سورہ قمر کی جگہ سورہ حجرات شائع ہو گیا تھا۔ صحیح کر لیں، معذرت خواہ ہوں۔ اب تک مجھے روز ہزاروں ہمدردوں کی نیک خواہشات اور دُعائیں بذریعہ ای میل، ایس ایم ایس، واٹس ایپ موصول ہو رہی ہیں اللہ پاک قبول فرمائے۔ آپ سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ الحمداللہ اب پہلے سے صحت بہت بہتر اور خطرے سے باہر ہے صرف تھوڑی کمزوری ہے ان شااللہ وہ بھی جلد دور ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب کبھی مجھے تنہا نہ چھوڑے گا۔
روزنامہ جنگ کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کالم ہفتہ وار شائع کرنے کا اعزاز حاصل تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا آخری کالم ملاحظہ فرمائیں۔ (ادارہ)
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
urduclassic · 4 years ago
Text
چند اعلیٰ معلوماتی کتب : ڈاکٹر عبدالقدیر خان
لوگوں کی لاپروائی اور حکومت کی نااہلی سے کورونا وائرس خوب پ��یل گیا ہے اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور عوام مرتے (شہید ہوتے) جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں حکومت کی بہترین پالیسی یہ ہونا چاہئے کہ تمام ٹی وی چینلز سے احتیاطی تدابیر نشر کرتی رہے، جو ماسک نہ پہنے اس کو بند کر دیں لیکن کاروبار مکمل کھول دیا جائے۔ دکاندار بھی ماسک لگائیں اور دستانے پہن کر کام کریں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی رحلت فرماتا ہے تو پھر یہ قدرت کا اپنے کام کی تکمیل ہے اور اللہ رب العزّت کے احکامات کی تعمیل ہے۔ ملک میں لاتعداد خود ساختہ ماہرین موجود ہیں جو ہدایات، احکامات دے رہے ہیں۔ جب افسران اور وزیراعظم ماسک نہ لگائیں تو عوام کیوں لگائیں گے۔ چلئے یہ باتیں چھوڑ کر چند اعلیٰ، معلوماتی کتب پر تبصرہ کرتے ہیں۔
1۔ پہلی کتاب ہے The Art of Craft of Management (انتظامیہ کیلئے ہنرمندی اور تدبیر)۔ اس کتاب کے مصنف مشہور بینکر جناب سراج الدین عزیز ہیں۔ یہ نہایت اعلیٰ بینکر اور منتظم رہے ہیں۔ بینکنگ کی دنیا میں آپ کا اعلیٰ مقام ہے۔ آپ دراز قد، چُست، خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ آپ یورپین ہیں۔ آپ اعلیٰ مقرر ہیں اور حاضرین کو مسحور کر دیتے ہیں۔ ایک اعلیٰ بینکر کی حیثیت سے آپ نے افریقہ، یورپ، امارات، چین میں اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں۔ آپ کی بہترین صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر ایک یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی ہے۔ خوش قسمتی سے میں اس کانوکیشن میں مہمانِ خصوصی تھا۔ یہ کتاب سراج بھائی کے جواہر پاروں سے پُر ہے۔ یہ ایک خوبصورت، خوشبودار پھولوں کے گلدستے کی طرح ہے، ایک خزینہ معلومات و ہدایات ہے۔ 
اس میں سراج بھائی نے اپنے تجربوں اور عقل و فہم کے موتی بکھیر دیے ہیں۔ کتاب میں 55 مضامین ہیں اور سب کے سب نہایت اعلیٰ اور ہدایت آمیز ہیں۔ جب تک آپ اس کتاب کا مطالعہ نہیں کریں گے آپ اس کی بہتری اور خوبصورتی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ آپ خاموشی سے بیٹھ کر اس کا مطالعہ کریں اور ہر نصیحت و ہدایت کو یاد رکھیں۔ چند دن پیشتر 8 جون 2020ء کے روزنامہ دی نیوز میں سراج بھائی نے ایک نہایت اعلیٰ مضمون بعنوان ’کیوں ریٹائر ہو‘ لکھا تھا‘ ��یں نے اس کو نہایت شوق و دلچسپی سے پڑھا۔ یہ آرٹیکل ایک ہدایت نامہ ہے۔ سراج بھائی نے مثالوں سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تجربہ کار سمجھدار لوگوں کو انسٹھ، ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر نہیں کرنا چاہئے، اب مغربی ممالک میں بھی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جا رہی ہے۔ 
میں بھی یہ عرض کروں گا کہ آپ ریکارڈ دیکھ لیں کہ نوبیل انعام یافتہ لوگوں کی عمر ساٹھ، ستر سال سے بھی اوپر رہی ہے۔ یعنی 60 سال اور اس کے بعد ہی انسان صحیح معنوں میں عقل و فہم کا ستارہ بنتا ہے۔ میں نے کہوٹہ میں اپنے رفقائے کار کو ستر، ستر برس تک روکے رکھا۔ مجھے اس معاملے میں حکومت کی جانب سے اختیار دیا گیا تھا۔ میں دوسرے اداروں سے ریٹائر ہونے والے اچھے، تجربہ کار لوگوں کو اپنے پاس بلا لیتا تھا، یہ افراد ہیرا تھے۔ یہ آرٹیکل حکومتی سربراہوں کے لئے نہایت مفید مشوروں سے پُر ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ سیاست دان، حکمران طبقہ اس وہم میں مبتلا رہتا ہے کہ تمام عقل و فہم اس کرسی میں ہے جس پر وہ بیٹھ جاتے ہیں اور وہ فوراً ان میں منتقل ہو جاتی ہے۔
2۔ دوسری کتاب انتہائی اہم اسلامی معلومات اور حیات رسولﷺ پر ہے جو پروفیسر ڈاکٹر طارق رمضان نے تحریر کی ہے۔ پروفیسر طارق رمضان ایک اعلیٰ دینی اسکالر ہیں، عربی، انگریزی پر عبور حاصل ہے۔ آپ نے جنیوا سے عربی اور اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ بعد میں آپ نے جامعۃ الازہر میں خاصا وقت گزارا اور اسلام کی موشگافیوں سے شناسائی حاصل کی۔ بعد میں سوئٹزر لینڈ کی فرائی برگ یونیورسٹی میں درس دیا۔ بعد میں آپ کیمبرج یونیورسٹی کے سینٹ انٹونی کالج میں سینئر ریسرچ فیلو تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر طارق رمضان نے حیات رسولﷺ کے مختلف پہلوئوں پر بہت اچھے مضامین لکھے ہیں، یہ کتاب، مختصر سہی مگر بہت مفید ہے اور سیرت طیبہ پر ایک قیمتی اضافہ ہے۔ پروفیسر طارق رمضان ایک اعلیٰ تحریر داں ہیں اور آپ نے اسلام، سیرت طیبہ پر بہت سے مضامین لکھ کر اسلام کی اعلیٰ خدمت کی ہے۔ آپ کو ان کی تحریروں سے فوراً یہ یقین ہو جاتا ہے کہ آپ ہمارے پیارے رسولﷺ سے کس قدر محبت رکھتے ہیں۔ انہیں ایک امریکی یونیورسٹی سے پروفیسر شپ کا دعوت نامہ آیا تھا مگر آزادیٔ تقریر و تحریر کے علم برداروں نے ان کو ویزا نہیں دیا۔
3۔ تیسری کتاب ’’A bridged Biography of Prophet Muhammad‘‘ (ایک مختصر سوانح حیات رسولﷺ) ہے اس کو امام محمد ابن عبدالوہاب ال تمیمی نے تحریر کیا ہے اور یہ لاہور سے شائع کی گئی ہے۔ یہ نہایت اعلیٰ، مکمل مگر مختصر رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ پر کتاب ہے اور آپﷺ کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتی ہے۔ چونکہ یہ کتاب آسان انگریزی میں نہایت آسان و موثر طریقے سے حیات طیبہ پر لکھی گئی ہے اس لئے یہ غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لئے بہت اہم ہے وہاں وہ خود بھی پڑھ سکتے ہیں اور خاص طور پر بچوں کو بھی پڑھا سکتے ہیں۔ میرا مشورہ تو یہی ہے کہ ہر تارک وطن فیملی کے گھر میں یہ کتاب ہونی چاہئے اور بچوں کو پڑھانی چاہئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
raufmalik2327 · 1 year ago
Text
0 notes
aliakbarboohar · 3 years ago
Text
Nuclear Pakistan: Prominent Archetect of Nuclear Pakistan
Nuclear Pakistan: Prominent Archetect of Nuclear Pakistan
Dr. Abdul Qadeer Khan a Prominent Archetect of Nuclear Pakistan who made Pakistan a strongest country in world. Nuclear Pakistan: Prominent Archetect of Nuclear Pakistan In Nuclear Pakistan Hakim-ul-Ummah Dr. Muhammad Iqbal, the painter of Pakistan, Hazrat Quaid-e-Azam, the founder of the world’s largest Islamic state and the proud scientist Dr. Abdul Qadeer Khan as the architect of the nuclear…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 3 years ago
Text
محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رخصتی
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بعد وطنِ عزیز پاکستان کی جن اہم ترین شخصیات کو عوامی محبت و اکرام ملا، ذو الفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان میں ممتاز ترین اور سر فہرست حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض مقامی اور بین الاقوامی قوتوں نے دونوں شخصیات کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ عوام مگر دونوں کا دل و جاں سے احترام و اکرام کرتے رہے۔ دونوں کا ’’قصور‘‘ یہ تھا کہ ایک نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی اساس رکھی اور دوسرے نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان دونوں عظیم پاکستانی شخصیات کی موت اس حال میں ہُوئی کہ ایک پھانسی کے تختے پر اُس وقت جھول گیا جب ملک آمریت کے سائے تلے کراہ رہا تھا اور دوسرے نے ایسے حالوں میں موت کو لبیک کہا کہ اسپتال میں کوئی اہم ترین سرکاری شخصیت اُن کی تیمار داری اور پرسش کے لیے حاضر نہ ہو سکی۔ جی ہاں ، پاکستان کی یہ اہم ترین اور محترم ترین شخصیت اب ہمارے درمیان میں نہیں رہی۔ 
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے خالق کے پاس حاضر ہو گئے ہیں۔ اُن سے پوری پاکستانی قوم کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کروڑوں عوام نے اُن کی بے مثل خدمات کے صلے میں انھیں ’’محسنِ پاکستان‘‘ کے لقب سے نوازا۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پچھلے چند ہفتوں سے خاصے بیمار تھے۔ کووِڈ 19کے اِس جاں سوز اورمہلک موسم سے وہ بھی متاثر ہُوئے تھے؛ چنانچہ اسپتال میں داخل کر دیے گئے تھے۔ پہلے اسلام آباد میں اور پھر راولپنڈی میں۔ درمیان میں کچھ دنوں کے لیے اُن کی صحت سنبھل بھی گئی تھی لیکن مکمل صحت کی جانب وہ لَوٹ نہ سکے۔ بسترِ علالت پر انھیں اس بات کا شدید رنج اور قلق تھا کہ کوئی ایک بھی اہم سرکاری اور غیر سرکاری شخصیت اُن کی عیادت کے لیے نہ آ سکی تھی؛ چنانچہ ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر سے انھوں نے اس بات کا بر ملا گلہ اور افسوس بھی کیا تھا۔ کسی حکمران نے فون کے ذریعے بھی اُن کا حال تک نہ پوچھا۔ ہماری سیاسی اور مقتدر شخصیات اس قدر بے حس ہو چکی ہیں کہ کسی اَن دیکھی طاقت سے خوف کھاتے ہُوئے بسترِ مرگ پر پڑے اُس شخص کا حال احوال پوچھنے سے بھی گریزاں رہیں جس نے پاکستان کو ہر قسم کے دشمنوں کی یلغار سے ہمیشہ کے لیے محفوظ و مامون بنا ڈالا۔ 
ڈاکٹر قدیر خان کی عیادت کے لیے نہ تو ہمارے صدر صاحب جا سکے، نہ وزیر اعظم صاحب اور نہ ہی کوئی اپوزیشن لیڈر۔ ڈاکٹر خان سے بے پناہ محبت کرنے والے عوام کو بھی اُن ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔ سخت پابندیاں تھیں۔ وہ شدید تنہائی اور قید کے ماحول میں اپنے اللہ کے پاس پہنچے ہیں۔ اتنے بڑے احسانوں کی ایسی سزا؟ یہ تو کبھی انھوں نے اُس وقت سوچا بھی نہ ہو گا جب وہ ہالینڈ میں ایک شاندار ملازمت اور پُر آسائش زندگی کو تیاگ کر محض اپنے وطن کی کامل خدمت کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان آئے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی دشمنی اور مخالفت میں امریکی اور مغربی ممالک اور وہاں کے میڈیا نے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف بھرپور مہمات چلائیں لیکن وہ سب مل کر بھی پاکستانی عوام کے دلوں سے ڈاکٹر خان کی محبت ختم نہ کروا سکے ۔ ہمارے ملک کے نامور اخبار نویس اور ’’ایکسپریس‘‘ کے معروف کالم نگار جناب عبدالقادر حسن مرحوم جب تک حیات رہے، ہمیشہ ڈاکٹر خان کا ذکر اعلیٰ ترین الفاظ میں اور محبت سے کرتے رہے۔
عبدالقادر حسن صاحب مرحوم ہر اُس مقامی اور عالمی شخصیت اور ادارے کی بھی گوشمالی کرتے تھے جوتعصب سے مغلوب ہو کر ڈاکٹر خان کو ہدف بناتے تھے۔ اسلام آباد میں فروکش ممتاز صحافی جناب زاہد ملک مرحوم بھی ڈاکٹر خان کے سب سے بڑے حامی تھے۔ زاہد ملک صاحب نے تو ڈاکٹر خان کی شخصیت اور خدمات پر مبنی ایک ضخیم کتاب ( محسنِ پاکستان کی ڈی بریفنگ) بھی لکھی۔ اس تصنیف میں ڈاکٹر خان پر عائد کیے جانے والے متنوع الزامات کا شافی جواب بھی دیا گیا۔ اور یہ جناب مجیب الرحمن شامی کا جریدہ (قومی ڈائجسٹ) تھا جس نے پاکستان میں سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مفصل انٹرویو شایع کیا تھا۔ ویسے تو عالمی سطح پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام اور پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کے حوالے سے اُن کی شخصیت کی باز گشت عالمی میڈیا میں مسلسل سنائی دیتی رہتی تھی لیکن اس بازگشت میں اُس وقت بے پناہ اضافہ ہُوا جب ممتاز بھارتی صحافی، آنجہانی کلدیپ نئیر، نے بھارت سے اسلام آباد آ کر ڈاکٹر خان کا مفصل انٹرویو کیا۔ اسی تاریخی انٹرویو میں پہلی بار اعتراف اور اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔
یہ انٹرویو پاکستان کے ایک اہم صحافی ، جو اب مشہور سیاستدان بھی ہیں، کے توسط سے کیا گیا تھا۔ یہ انٹرویو بذاتِ خود ایٹم بم بن کر بھارت کے حواس پر گرا تھا۔ ساتھ ہی ساری دُنیا بھی ششدر رہ گئی تھی۔ کلدیپ نئیر نے اس انٹرویو اور ڈاکٹر خان سے ملاقات کا تفصیلی احوال اپنی سوانح حیات (Beyond The Lines) میں بھی کیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ زیڈ اے بھٹو کے بعد ڈاکٹر خان پاکستان کی دوسری شخصیت تھے جن پر کئی غیر ممالک میں کئی کتابیں لکھی گئیں۔ مغربی ممالک میں انھیں ایک پُر اسرار اور اساطیری کردار کی حیثیت میں بھی یاد کیا جاتا تھا۔ یہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی وطن سے شدید محبت اور محنت کا نتیجہ تھا کہ بالآخر اسلامی جمہوریہ پاکستان 28 مئی 1998 کو عالمِ اسلام کی پہلی جوہری طاقت بن گیا۔ برملا ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو دُنیا کی جوہری طاقتوں میں شامل کرنے کا یہ اعزاز جناب میاں محمد نواز شریف کا مقدر بنا۔ پوری پاکستانی قوم وہ دُکھی لمحہ نہیں بھول سکتی جب ڈاکٹر خان صاحب کو، پاکستان کے ایک آمر کے جبریہ دَور میں، پی ٹی وی پر اپنے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ایسا اقدام کر کے شاید ہمارے حکمرانوں نے اپنی جان عالمی قوتوں سے چھڑا لی ہو لیکن ذلت کا یہ لمحہ پوری پاکستانی قوم آج تک فراموش نہیں کر سکی۔ 
اور وہ لمحہ بھی ہمارے لیے شرمناک ہی تھا جب ڈاکٹر خان اسلام آباد کی ایک سڑک کے فٹ پاتھ پر بیٹھے، پاؤں میں معمولی سی چپل پہنے، ایک ٹی وی اینکر سے گفتگو کر رہے تھے۔ جبر کا یہ عالم تھا کہ محسنِ پاکستان کا چہرہ پاکستان کے کسی ٹی وی پر دکھایا جا سکتا تھا نہ اُن کی گفتگو سنائی جا سکتی تھی۔ اپنے محسنوں سے کوئی ایسا بھی کرتا ہے؟ لیکن ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں نے یہ انہونی بھی کر کے دکھا دی۔ اس جبریہ اور قہریہ ماحول میں محض سانسیں لیتے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو احساس ہو گیا تھا کہ اب وہ شاید زیادہ دنوں تک زندہ نہ بچ سکیں؛ چنانچہ انھوں نے ایک معاصر میں خود ہی اپنے بارے میں یہ الفاظ شایع کروا دیے تھے :’’میری وفات کے بعد پورے پاکستان کے ہر شہر، ہر گاؤں، ہر گلی کوچے میں آپ لوگوں نے میرے لیے جنازہ پڑھنا ہے اور دعائے مغفرت کرنا ہے‘‘۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اللہ کریم اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ ( آمین )۔
تنویر قیصر شاہد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note