#Farooq Leghari
Explore tagged Tumblr posts
famousdeaths · 2 months ago
Link
Farooq Ahmad Khan Leghari, was a Pakistani politician who served as the eighth president of Pakistan from 14 November 1993 until resigning on 2 December 1997. H...
Link: Farooq Leghari
0 notes
jobsinfoandnewsupdate · 1 year ago
Text
History of Dera Ghazi Khan Part 2
Earlier, history has been written here under the title of Dera Ghazi Khan, but some things were wanting in it, and a lot of things remained to be written regarding the history. All these things have been covered in this article. Brief Introduction of Dera Ghazi Khan: Dera Ghazi Khan district is the focal point of Pakistan’s unity due to its location, Sindhi, Punjabi, Balochi and Pathani languages…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
brookstonalmanac · 2 months ago
Text
Events 11.5 (after 1940)
1940 – World War II: The British armed merchant cruiser HMS Jervis Bay is sunk by the German pocket battleship Admiral Scheer. 1940 – Franklin D. Roosevelt is the first and only President of the United States to be elected to a third term. 1943 – World War II: Bombing of the Vatican. 1945 – The three-day anti-Jewish riots in Tripolitania commence. 1950 – Korean War: British and Australian forces from the 27th British Commonwealth Brigade successfully halted the advancing Chinese 117th Division during the Battle of Pakchon. 1955 – After being destroyed in World War II, the rebuilt Vienna State Opera reopens with a performance of Beethoven's Fidelio. 1956 – Suez Crisis: British and French paratroopers land in Egypt after a week-long bombing campaign. 1968 – Richard Nixon is elected as 37th President of the United States. 1970 – The Military Assistance Command, Vietnam reports the lowest weekly American soldier death toll in five years (24). 1983 – The Byford Dolphin diving bell accident kills five and leaves one severely injured. 1986 – USS Rentz, USS Reeves and USS Oldendorf visit Qingdao, China; the first US naval visit to China since 1949. 1990 – Rabbi Meir Kahane, founder of the far-right Kach movement, is shot dead after a speech at a New York City hotel. 1991 – Tropical Storm Thelma causes flash floods in the Philippine city of Ormoc, killing more than 4,900 people. 1995 – André Dallaire attempts to assassinate Prime Minister Jean Chrétien of Canada. He is thwarted when the Prime Minister's wife locks the door. 1996 – Pakistani President Farooq Leghari dismisses the government of Prime Minister Benazir Bhutto and dissolves the National Assembly. 1996 – Bill Clinton is reelected President of the United States. 2006 – Saddam Hussein, the former president of Iraq, and his co-defendants Barzan Ibrahim al-Tikriti and Awad Hamed al-Bandar, are sentenced to death in the al-Dujail trial for their roles in the 1982 massacre of 148 Shia Muslims. 2007 – China's first lunar satellite, Chang'e 1, goes into orbit around the Moon. 2007 – The Android mobile operating system is unveiled by Google. 2009 – U.S. Army Major Nidal Hasan murders 13 and wounds 32 at Fort Hood, Texas in the deadliest mass shooting at a U.S. military installation. 2013 – India launches the Mars Orbiter Mission, its first interplanetary probe. 2015 – An iron ore tailings dam bursts in the Brazilian state of Minas Gerais, flooding a valley, causing mudslides in the nearby village of Bento Rodrigues and causing at least 17 deaths and two missing. 2015 – Rona Ambrose takes over after Stephen Harper as the Leader of the Conservative Party of Canada. 2017 – Devin Patrick Kelley kills 26 and injures 22 in a church in Sutherland Springs, Texas. 2021 – The Astroworld Festival crowd crush results in 10 deaths and 25 people being hospitalized
1 note · View note
mypakistan · 10 years ago
Text
پاکستانی ایمل کانسی کو امریکہ میں سزائے موت کا واقعہ...
وطن عزیز میں آج کل دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی سزائوں پر عمل کرنے کا موسم ہے۔ نیوز میڈیا، پاکستانی عوام، سویلین حکومت و اپوزیشن اور فوج سبھی اس مسئلے پر اپنے اپنے زاویہ نگاہ اور موقف کے ساتھ بحث و مباحثہ میں مصروف اور ایکشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ منظر کچھ یوں ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر اپنے اپنے چونکہ چنانچہ کا عذر اختیار کرنے کے باوجود متفقہ طور پر فوجی عدالتوں کے قیام اور ان فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت اور فیصلہ کرنے کے اختیارات کی حمایت کر رہے ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی اجلاس میں موجودگی کے دوران سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم اور پارلیمنٹ سے منظوری کا وعدہ بھی کیا ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ سے منظوری کا مرحلہ بھی بآسانی طے ہو جائے گا۔
ملک میں داخلی سطح پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف سوچ اور عمل کی اس یکجہتی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی سزائے موت کے مخالف امریکہ نے یورپی ممالک کے تعاون سے افغانستان میں افواج اتاردی تھیں۔ یہ درست ہے کہ معاشرے اور مملکت کی بقاء کیلئے جرم ثابت ہونے پر بعض انسانوں کو سزائے موت دینی پڑتی ہے لیکن ان فوجی عدالتوں اور نظام چلانے والوں کو یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ کسی بے گناہ انسان کو انصاف کے نام پر قتل کرنے سے زیادہ سنگین جرم بھی کوئی نہیں۔ 
کیونکہ یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ متعدد ایسے افراد کو بھی دہشت گرد اور طالبان قرار دے کر امریکہ کے حوالے کردیا گیا جن پر امریکی سی آئی اے کی قید میں تفتیش اور ٹارچر کے باوجود بھی کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا اور بالآخر وہ بے گناہ افراد قید اور ٹارچر کی اذیتوں سے بھی گزرنے کے بعد بے گناہ قرار پا کر رہا ہوئے اور واپس لوٹے۔ امریکی سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات یہ حقیقت بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض ایسے افراد بھی امریکیوں کے حوالے کردیئے گئے جو امریکہ کو مطلوب بھی نہیں تھے اور امریکی سی آئی اے کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ یہ لوگ ان کے حوالے کیوں کئے گئے؟
 ظاہر ہے کہ یہ ��ظام کے رکھوالوں اور بااختیار افراد میں سے ک��ی کی مخالفت، انتقام یا اختیارات کے زعم کا نتیجہ ہوگا۔ اس لئے عرض ہے کہ صرف دہشت گردی کا جرم کرنے والوں کو سزائے موت یوں ہونی چاہئے کہ وہ بے گناہ انسانوں کو دہشت گردی کے ذریعے زندگی سے محروم کرتے ہیں۔ لہٰذا تمام تر احتیاط اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مجھے امریکی نظام انصاف سے سزائے موت دینے میں احتیاط اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ایک عملی مثال پیش کرنے کی اجازت دیں۔ یہ میرا اپنا ذاتی مشاہدہ تھا۔ قارئین اس بارے میں اپنی رائے خود قائم فرمائیں۔ واضح رہے کہ اس مقدمہ قتل کا ملزم ایک پاکستانی شہری تھا جسے چار سال کی سخت جدوجہد اور نگرانی کے بعد امریکی حکام پاکستان سے گرفتار کر کے امریکہ لائے تھے اور پھر مقدمہ چلا کر ریاست ورجینیا کی عدالت نے اسے سزائے موت سنائی۔ 
جب اس پاکستانی شہری کی ریاست ورجینیا کے چھوٹے شہر گرینزول کی جیل میں سزائے موت پر عمل کیا گیا تو امریکی اور عالمی میڈیا کے ساتھ میں خود بھی وہاں موجود تھا اور ’’جیو‘‘ کے ذریعے پاکستانی عوام کو لمحہ بہ لمحہ آگاہی کیلئے یہ صحافتی ذمہ داری 14 نومبر 2002ء کو سخت سرد موسم میں کھلے آسمان تلے کھڑے رہ کر میں نے ادا کی تھی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ صوبہ بلوچستان کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان 28 سالہ ایمل کانسی پر امریکی سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹرز واقع ریاست ورجینیا کے باہر کار پر فائرنگ کر کے سی آئی اے کے دو اہلکاروں کو قتل اور تین افراد کو زخمی کرنے کے بعد پاکستان فرار ہو جانے کا الزام تھا۔ 25 جنوری 1993ء کو سی آئی اے ہیڈکوارٹرز کے باہر شوٹنگ اور قتل کے اس واقعہ کے بعد ایمل کانسی امریکہ سے فرار ہو کر پاکستان آ کر روپوش ہوگیا جبکہ امریکی حکام نے اسے مفرور قرار دے کر اس کی تلاش شروع کردی اور چار سال تک پاک۔
 افغان سرحدی علاقوں وغیرہ میں روپوشی کے بعد امریکی ایف بی آئی نے ڈیرہ غازی خان کے آس پاس کسی ہوٹل سے 15جون 1992ء کو گرفتار کر لیا۔ ایمل کانسی وہ پاکستانی شہری تھا کہ جسے پاکستانی سرزمین پر امریکی حکام نے گرفتار کیا لیکن حکومت وقت نے اسے امریکہ کے حوالے کرنے سے قبل پاکستانی قانون کے کوئی تقاضے پورے نہیں کئے نہ کسی پاکستانی عدالت میں پیش کیا اور نہ ہی اپنے شہری کے حقوق اور ضابطے کی رسمی کارروائی بھی کی۔ ایمل کانسی کو خصوصی انتظامات کے تحت پاکستان سے امریکہ لایا گیا تو ریاست ورجینیا کے ایک سرکاری وکیل نے ایمل کانسی کی گرفتاری کی تفصیلات اور تناظر کے حوالے سے یہ ہتک آمیز جملہ کہا کہ پاکستانی پیسے کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں تو امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی نے خوب احتجاج کیا مگر پاکستانی حکام تو خاموشی اور خوف کا شکار رہے۔
یہ ایمل کانسی کی ہی گرفتاری تھی جس کے حوالے سے بعض حلقوں نے فاروق لغاری مرحوم اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کے اختلافات میں بے نظیر کی طرف داری کرتے ہوئے یہ افواہ اڑائی کہ ایمل کانسی کی ڈیرہ غازی خاں سے گرفتاری میں فاروق لغاری کا ہاتھ تھا۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ اس کی حقیقت محترم سابق سفیر قاضی جہانگیر اشرف سے بھی معلوم کی جاسکتی ہے جو ایمل کانسی کی سزائے موت کے وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور وہ بلوچ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے رخصت لے کر پاکستان گئے اور ایمل کانسی کی نماز جنازہ اور تدفین میں شریک ہوئے تھے۔
 یہ بات قاضی اشرف جہانگیر نے مجھے خود بتائی جبکہ ریاست ورجینیا میں خوف کا یہ عالم تھا کہ ریاست ورجینیا کی متعدد مساجد کے اماموں نے ایمل کا نسی کی نمازہ جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا صرف اسلامک سینٹر آف نارتھ ورجینیا کی مسجد میں نماز جنازہ ہوئی امام ڈاکٹر میاں محمد سعید ایمل کانسی کیلئے بڑے محترم اور روحانی سکون کا باعث تھے۔ ان سے ایمل کانسی کا رابطہ بھی تھا وہ سزائے موت کے روز بھی جیل میں جا کر ایمل کانسیسے ملے تھے کیونکہ قیدیوں کو اپنے مذہب کے مبلّغوں، پادریوں، امام سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں پر فائرنگ کر کے قتل کرنے والے غیر ملکی ایمل کانسی کے سلسلے میں بھی تمام تر امریکی نفرت کے باوجود قانون کے تمام تقاضے پورے کئے گئے۔ ایمل کانسی نے قتل کے جرم کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔
ملاحظہ کیجئے 25 جنوری 1993ء کو قتل ہوئے جون 1997ء میں ایمل کانسی گرفتار ہوا 4 فروری 1998ء کو عدالت نے سزا سنائی اور پھر اپیلوں کا سلسلہ مکمل کرنے کی مہلت دی گئی اور 14 نومبر 2002ء کی شام مقامی وقت کے مطابق 9 بج کر سات منٹ پر سزائے موت پر عمل کرتے ہوئے اسے جرم کی سزا دے دی گئی۔ ایمل کانسی اپنے جرم کا اعتراف عدالت میں کرچکا تھا وہ اپنی موت کیلئے تیار تھا۔ اس کی میت لینے کیلئے پاکستان سے اس کے دو عزیز آئے ہوئے تھے جو اس چھوٹے قصبے کے ایک ہی ہوٹل میں میرے برابر والے کمرے میں تھے مگر وہ قطعاً کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ جیل حکام کے ترجمان لیری ٹیلر نے جب جیل سے باہر آ کر ایمل کانسی کی سزائے موت کا اعلان کیا تو سخت سردی کے باوجود ’’جیو‘‘ کے ذریعے پاکستانی شہری ایمل کانسی کی سزائے موت کی خبر پاکستانی عوام تک تفصیل سے پہنچانے کی صحافتی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے سردی کا احساس اس وقت ہوا جب ہاتھ اور ناک دونوں ہی ’’فریز‘‘ محسوس ہوئے۔ ایمل کانسی کی گرفتاری اور حوالگی کے لئے ہم نے پاکستانی قوانین اور شہری کے حقوق کو پامال کیا۔ امریکہ نے تمام تر حقائق کے باوجود پاکستانی ایمل کانسی کو انصاف کے تقاضے پورے کر کے سزائے موت دینے میں 9 سال کا عرصہ لگایا۔ احتیاط اور انصاف لازم ہے۔
عظیم ایم میاں
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ
0 notes
risingpakistan · 10 years ago
Text
پاکستانی ایمل کانسی کو امریکہ میں سزائے موت کا واقعہ...
وطن عزیز میں آج کل دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی سزائوں پر عمل کرنے کا موسم ہے۔ نیوز میڈیا، پاکستانی عوام، سویلین حکومت و اپوزیشن اور فوج سبھی اس مسئلے پر اپنے اپنے زاویہ نگاہ اور موقف کے ساتھ بحث و مباحثہ میں مصروف اور ایکشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ منظر کچھ یوں ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر اپنے اپنے چونکہ چنانچہ کا عذر اختیار کرنے کے باوجود متفقہ طور پر فوجی عدالتوں کے قیام اور ان فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت اور فیصلہ کرنے کے اختیارات کی حمایت کر رہے ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی اجلاس میں موجودگی کے دوران سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم اور پارلیمنٹ سے منظوری کا وعدہ بھی کیا ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ سے منظوری کا مرحلہ بھی بآسانی طے ہو جائے گا۔
ملک میں داخلی سطح پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف سوچ اور عمل کی اس یکجہتی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی سزائے موت کے مخالف امریکہ نے یورپی ممالک کے تعاون سے افغانستان میں افواج اتاردی تھیں۔ یہ درست ہے کہ معاشرے اور مملکت کی بقاء کیلئے جرم ثابت ہونے پر بعض انسانوں کو سزائے موت دینی پڑتی ہے لیکن ان فوجی عدالتوں اور نظام چلانے والوں کو یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ کسی بے گناہ انسان کو انصاف کے نام پر قتل کرنے سے زیادہ سنگین جرم بھی کوئی نہیں۔ 
کیونکہ یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ متعدد ایسے افراد کو بھی دہشت گرد اور طالبان قرار دے کر امریکہ کے حوالے کردیا گیا جن پر امریکی سی آئی اے کی قید میں تفتیش اور ٹارچر کے باوجود بھی کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا اور بالآخر وہ بے گناہ افراد قید اور ٹارچر کی اذیتوں سے بھی گزرنے کے بعد بے گناہ قرار پا کر رہا ہوئے اور واپس لوٹے۔ امریکی سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات یہ حقیقت بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض ایسے افراد بھی امریکیوں کے حوالے کردیئے گئے جو امریکہ کو مطلوب بھی نہیں تھے اور امریکی سی آئی اے کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ یہ لوگ ان کے حوالے کیوں کئے گئے؟
 ظاہر ہے کہ یہ نظام کے رکھوالوں اور بااختیار افراد میں سے کسی کی مخالفت، انتقام یا اختیارات کے زعم کا نتیجہ ہوگا۔ اس لئے عرض ہے کہ صرف دہشت گردی کا جرم کرنے والوں کو سزائے موت یوں ہونی چاہئے کہ وہ بے گناہ انسانوں کو دہشت گردی کے ذریعے زندگی سے محروم کرتے ہیں۔ لہٰذا تمام تر احتیاط اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مجھے امریکی نظام انصاف سے سزائے موت دینے میں احتیاط اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ایک عملی مثال پیش کرنے کی اجازت دیں۔ یہ میرا اپنا ذاتی مشاہدہ تھا۔ قارئین اس بارے میں اپنی رائے خود قائم فرمائیں۔ واضح رہے کہ اس مقدمہ قتل کا ملزم ایک پاکستانی شہری تھا جسے چار سال کی سخت جدوجہد اور نگرانی کے بعد امریکی حکام پاکستان سے گرفتار کر کے امریکہ لائے تھے اور پھر مقدمہ چلا کر ریاست ورجینیا کی عدالت نے اسے سزائے موت سنائی۔ 
جب اس پاکستانی شہری کی ریاست ورجینیا کے چھوٹے شہر گرینزول کی جیل میں سزائے موت پر عمل کیا گیا تو امریکی اور عالمی میڈیا کے ساتھ میں خود بھی وہاں موجود تھا اور ’’جیو‘‘ کے ذریعے پاکستانی عوام کو لمحہ بہ لمحہ آگاہی کیلئے یہ صحافتی ذمہ داری 14 نومبر 2002ء کو سخت سرد موسم میں کھلے آسمان تلے کھڑے رہ کر میں نے ادا کی تھی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ صوبہ بلوچستان کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان 28 سالہ ایمل کانسی پر امریکی سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹرز واقع ریاست ورجینیا کے باہر کار پر فائرنگ کر کے سی آئی اے کے دو اہلکاروں کو قتل اور تین افراد کو زخمی کرنے کے بعد پاکستان فرار ہو جانے کا الزام تھا۔ 25 جنوری 1993ء کو سی آئی اے ہیڈکوارٹرز کے باہر شوٹنگ اور قتل کے اس واقعہ کے بعد ایمل کانسی امریکہ سے فرار ہو کر پاکستان آ کر روپوش ہوگیا جبکہ امریکی حکام نے اسے مفرور قرار دے کر اس کی تلاش شروع کردی اور چار سال تک پاک۔
 افغان سرحدی علاقوں وغیرہ میں روپوشی کے بعد امریکی ایف بی آئی نے ڈیرہ غازی خان کے آس پاس کسی ہوٹل سے 15جون 1992ء کو گرفتار کر لیا۔ ایمل کانسی وہ پاکستانی شہری تھا کہ جسے پاکستانی سرزمین پر امریکی حکام نے گرفتار کیا لیکن حکومت وقت نے اسے امریکہ کے حوالے کرنے سے قبل پاکستانی قانون کے کوئی تقاضے پورے نہیں کئے نہ کسی پاکستانی عدالت میں پیش کیا اور نہ ہی اپنے شہری کے حقوق اور ضابطے کی رسمی کارروائی بھی کی۔ ایمل کانسی کو خصوصی انتظامات کے تحت پاکستان سے امریکہ لایا گیا تو ریاست ورجینیا کے ایک سرکاری وکیل نے ایمل کانسی کی گرفتاری کی تفصیلات اور تناظر کے حوالے سے یہ ہتک آمیز جملہ کہا کہ پاکستانی پیسے کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں تو امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی نے خوب احتجاج کیا مگر پاکستانی حکام تو خاموشی اور خوف کا شکار رہے۔
یہ ایمل کانسی کی ہی گرفتاری تھی جس کے حوالے سے بعض حلقوں نے فاروق لغاری مرحوم اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کے اختلافات میں بے نظیر کی طرف داری کرتے ہوئے یہ افواہ اڑائی کہ ایمل کانسی کی ڈیرہ غازی خاں سے گرفتاری میں فاروق لغاری کا ہاتھ تھا۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ اس کی حقیقت محترم سابق سفیر قاضی جہانگیر اشرف سے بھی معلوم کی جاسکتی ہے جو ایمل کانسی کی سزائے موت کے وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور وہ بلوچ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے رخصت لے کر پاکستان گئے اور ایمل کانسی کی نماز جنازہ اور تدفین میں شریک ہوئے تھے۔
 یہ بات قاضی اشرف جہانگیر نے مجھے خود بتائی جبکہ ریاست ورجینیا میں خوف کا یہ عالم تھا کہ ریاست ورجینیا کی متعدد مساجد کے اماموں نے ایمل کا نسی کی نمازہ جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا صرف اسلامک سینٹر آف نارتھ ورجینیا کی مسجد میں نماز جنازہ ہوئی امام ڈاکٹر میاں محمد سعید ایمل کانسی کیلئے بڑے محترم اور روحانی سکون کا باعث تھے۔ ان سے ایمل کانسی کا رابطہ بھی تھا وہ سزائے موت کے روز بھی جیل میں جا کر ایمل کانسیسے ملے تھے کیونکہ قیدیوں کو اپنے مذہب کے مبلّغوں، پادریوں، امام سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں پر فائرنگ کر کے قتل کرنے والے غیر ملکی ایمل کانسی کے سلسلے میں بھی تمام تر امریکی نفرت کے باوجود قانون کے تمام تقاضے پورے کئے گئے۔ ایمل کانسی نے قتل کے جرم کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔
ملاحظہ کیجئے 25 جنوری 1993ء کو قتل ہوئے جون 1997ء میں ایمل کانسی گرفتار ہوا 4 فروری 1998ء کو عدالت نے سزا سنائی اور پھر اپیلوں کا سلسلہ مکمل کرنے کی مہلت دی گئی اور 14 نومبر 2002ء کی شام مقامی وقت کے مطابق 9 بج کر سات منٹ پر سزائے موت پر عمل کرتے ہوئے اسے جرم کی سزا دے دی گئی۔ ایمل کانسی اپنے جرم کا اعتراف عدالت میں کرچکا تھا وہ اپنی موت کیلئے تیار تھا۔ اس کی میت لینے کیلئے پاکستان سے اس کے دو عزیز آئے ہوئے تھے جو اس چھوٹے قصبے کے ایک ہی ہوٹل میں میرے برابر والے کمرے میں تھے مگر وہ قطعاً کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ جیل حکام کے ترجمان لیری ٹیلر نے جب جیل سے باہر آ کر ایمل کانسی کی سزائے موت کا اعلان کیا تو سخت سردی کے باوجود ’’جیو‘‘ کے ذریعے پاکستانی شہری ایمل کانسی کی سزائے موت کی خبر پاکستانی عوام تک تفصیل سے پہنچانے کی صحافتی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے سردی کا احساس اس وقت ہوا جب ہاتھ اور ناک دونوں ہی ’’فریز‘‘ محسوس ہوئے۔ ایمل کانسی کی گرفتاری اور حوالگی کے لئے ہم نے پاکستانی قوانین اور شہری کے حقوق کو پامال کیا۔ امریکہ نے تمام تر حقائق کے باوجود پاکستانی ایمل کانسی کو انصاف کے تقاضے پورے کر کے سزائے موت دینے میں 9 سال کا عرصہ لگایا۔ احتیاط اور انصاف لازم ہے۔
عظیم ایم میاں
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ
0 notes
dpr-lahore-division · 4 years ago
Text
PARLIAMENTARIANS CALL ON USMAN BUZDAR IN ISLAMABAD
With the compliments of, The Directorate General Public Relations,
Government of the Punjab, Lahore Ph 99201390
No.324/QU/ZA
HANDOUT (A)
LAHORE, March 02:
A separate development plan for every district will be devised in consultation with concerned MNAs and MPAs to complete public welfare schemes on a priority basis.
This was stated by Chief Minister Punjab Sardar Usman Buzdar while talking to a host of MNAs including Muhammad Amjad Farooq Khan Khosa, Sardar Jaffar Khan Leghari, Sardar Muhammad Khan Leghari, Sardar Riaz Khan Mazari, Niaz Ahmad Jhakhar, Malik Muhammad Ahsanullah Tiwana, Muhammad Shabbir Ali, Makhdoom Samiul Hasan Gillani, Malik Abdul Ghafoor Watto, Javed Iqbal Warraich, Syed Mubin Ahmad, Ghulam Bibi Bharwana, Sanaullah Mastikhel, Tahir Iqbal and others in Islamabad.
The MNAs apprised the CM about their constituencies related problems. The CM issued directions for the solution of various issues and reiterated that the government is working round the clock to resolve the public problems. I am in constant contact with the parliamentarians and consultation with Punjab based MNAs will be continued, he added.
The nation has unwavering trust in the leadership of Prime Minister Imran Khan and we are also united under him, the CM stated and regretted that critics are trying to disrupt the development process.
The critics have remained unsuccessful on every occasion; he added and asserted that the development process will not stop. Meanwhile, the CM deplored the opposition is engaged in the politics of non-issues because of lack of a solid agenda and reminded it that the era of befooling the masses with hollow slogans is all but over. He mentioned that the journey of development has been extended to backward areas, as well as to the cities, that remained neglected in the past. Unlike the past practices, funds are not given to some specific cities as a policy of composite development has been evolved, concluded the CM.
The MNAs maintained that contacts help in the resolution of problems adding that respect given to them was unimaginable in the past.
****
No.325/QU/ZA
HANDOUT (A)
SHARIFS HAVE HAD ATTACKED JUDICIARY-SACM
LAHORE, March 02:
Special Assistant to CM on Information Dr Firdous Ashiq Awan has said the PTI has always honoured the court verdicts and pointed out the Sharif brothers had a history of attacking the higher judiciary.
In a statement, the SACM regretted that the PML (N) is infamous for making the institutions controversial as the party has indulged in cheap propaganda against every State institution. Those relishing today will mourn on March 3 as their short-lived joy will turn into a permanent pang of guilt, she declared. These are the elements that had introduced horse-trading but this negative practice cannot be repeated anymore as the SCP has asked the election commission to hold the Senate election transparently, reminded the SACM.
It is an irony that PML (N) and PPP are used to drum-beating without going through the decisions and it seems that the pygmies’ party would attain nothing after the election. PTI is the only party that approached the higher judiciary for overcoming the menace of horse-trading, added SACM. The government is fully committed to introducing necessary reforms for ensuring transparency not only in the Senate but also in local bodies and general elections, concluded the SACM.
****
No.328/QU/ZA
HANDOUT (A)
PTI WILL EMERGE AS A MAJORITY PARTY IN THE SENATE --- USMAN BUZDAR
LAHORE, March 02:
Chief Minister Punjab Sardar Usman Buzdar has said strengthening of democratic norms lies in transparent elections and the PTI is also striving for ensuring transparency in the electoral process.
In a statement, the CM condemned horse-trading and termed it an undemocratic act. The PTI’s honest leadership is facing corrupt elements while the opposition has always promoted monetary politics for fulfilling the agenda. Negative politics is worthless in comparison with the agenda for public service, he added. Meanwhile, corrupt practices have been exposed and horse-trading will not succeed. The PTI will emerge as a majority party and opposition will be defeated because its narrative has been rejected, concluded the CM.
****
No.329/QU/ZA
HANDOUT (A)
CM CONDOLES DEATH OF MUHAMMAD ANISUR REHMAN
LAHORE, March 02:
Chief Minister Punjab Sardar Usman Buzdar has condoled the death of LPC life member Muhammad Anisur Rehman and extended sympathies to the bereaved family. The CM has also prayed to Almighty Allah to rest the departed soul in eternal peace.
0 notes
azharniaz · 4 years ago
Video
youtube
AAJ Today in History November - 5
Today in History 1-1996 – Pakistani President Farooq Leghari dismisses the government of Prime Minister Benazir Bhutto and dissolves the National Assembly of Pakistan. 2-Birthday Mahmood Ghazan Khan 3-Birthday Hasan Askari Critic Voice and written by Azhar Niaz Producer  Azhar Niaz #azharniaz
0 notes
trekkinginpakistan · 4 years ago
Text
New Post has been published on Trekking in Pakistan
New Post has been published on https://trek.pk/dera-ghazi-khan/
Dera Ghazi Khan
Tumblr media
Dera Ghazi Khan (Urdu: ڈيره غازي خان‎), abbreviated as D. G. Khan, is a city in the Punjab province of Pakistan. It is the 19th largest city of Pakistan by population.[5] It is the headquarters of the Dera Ghazi Khan District and Dera Ghazi Khan Division.
History
Foundation
Dera Ghazi Khan was founded in the end of 15th century and was named after Ghazi Khan Mirrani, son of Haji Khan Mirrani who was a powerful Baloch chieftain. 15 generations of Mirranis ruled the area.
Post Independence
After the success of the Pakistan Movement, which lead to the independence of Pakistan in 1947, the minority Hindus and Sikhs migrated to India while many Muslims refugees from India settled down in the Dera Ghazi Khan District. Many Hindus and Sikhs from Dera Ghazi Khan settled in Delhi found Derawal Nagar along with the migrants from Dera Ismail Khan.
Geography and Climate
Dera Ghazi Khan is located at 30’03” N and 70’38” E. The overall climate of the city is dry with little rainfall. The winter is mild, but it is very hot in summer. The average high temperature during summer is about 107 °F (42 °C), while during winter the average low is 40 °F (4 °C). The prevailing wind direction is North-South. Due to the barren mountains of Koh-Suleman (Sulaiman Mountains) and the sandy soil of the area, windstorms are common in the summer. During summer, the temperatures are generally amongst the highest in Pakistan. Fort Munro, located on the edge of Punjab Province, has relatively cooler weather. In winter, scattered snowfall has been reported.
Demographics
The majority of the population is poor but they have been ruled by the rich landlords and chiefs of Baloch tribes which played a significant role in the national and provincial politics. Some of these feudals use the title Sardar for themselves, including former President of Pakistan Farooq Leghari, Governors of Punjab Zulfiqar Ali Khosa, Sardar Akram Khan Malghani Sardar of the Malghani Balouch tribe and Latif Khosa, Chief Minister of Punjab Dost Muhammad Khosa, present Chief Secretary of Punjab, Nasir Mehmood Khosa, Former Inspector General Police of Punjab, Tariq Khosa, and present Supreme Court Judge Asif Khosa. The city is one of the oldest districts in South Asia. Dera Ghazi Khan did not develop like other cities in Punjab. Based on the surveys of 2004–2005, Dera Ghazi Khan district is considered as one of the twenty poorest districts of Pakistan with about 51% of its population living below the poverty line.
Transport
Air
Dera Ghazi Khan International Airport is 15 km (9.3 mi) from the city centre of Dera Ghazi Khan. It caters mainly to the population of Dera Ghazi Khan.
Culture
Fairs and festivals
Sangh Mela, is a Vaisakhi fair during March and April, and has been celebrated in Sakhi Sarwar by people coming from Jhang and Faisalabad for centuries. This festival is celebrated by Hindus and Muslims, especially at the time of wheat harvesting. In some places it is known as Basant. Throughout history, a large number of followers coming from different religions became the followers of Sakhi Sarwar. Max Arthur Macauliffe, a colonial office appointed in Punjab, observed in 1875 that not only Muslims but Hindus also visited the shrines during the [urs]. In the 1911 census of India, 79,085 Sikhs reported to be followers of Sakhi Sarwar.
Cuisine
Sohan Halwa is a traditional sweet made by boiling a mixture of water, sugar, milk and wheatflour (coarse pieces)/cornflour until it becomes solid.
Sources: Wikipedia
0 notes
seekergkfan · 5 years ago
Text
Benazir Bhutto’s Government for the second time was dismissed by whom?
Benazir Bhutto’s Government for the second time was dismissed by whom?
Benazir Bhutto’s Government for the second time was dismissed by whom? A. Farooq Leghari
B. Shaukat Aziz
C. Yahya Khan
D. Rafiq Tarar (more…)
View On WordPress
0 notes
emergingkarachi · 11 years ago
Text
Mian Raza Rabbani
 Mian Raza Rabbani (Urdu: رضا ربانى; b. 23 July 1953), is a senior senator from the Sindh Province of Pakistan, and the incumbent chairman of the Senate standing committee on National Security and Constitutional reforms, since 2008.
After earning degree in Law from the Karachi University, he started his political activism through the PPP platform in 1988; he rose to become a high-ranking member of the central committee of the PPP. After successfully contesting in general elections in 2008, he has been tenuring as the chairman of the parliamentary committee on national security and constitutional reforms; his major constitutional contributions includes his work on the 18th amendment, of which he strongly lobbied for the amendment to be part of the constitution, and later helped reformed and re-evaluate the foreign-domestic policies of the government.
Prior to his work in constitutional politics, he is also a leading nationalist–left-wing figure and has extensively written on topics in socialism and left-wing ideas. His credential led to his nomination to the presidency by the Pakistan Peoples Party (PPP)
Early life and education
Born in Lahore, Punjab Province of Pakistan on 23 July 1960, his family moved to Karachi where Rabbani attended the Habib Public School in Karachi, Sindh Province of Pakistan. After graduating from Habib Public School, Rabbani admitted at the Karachi University to study law and liberal arts in 1976.[2] During his collegiate years, Rabbani was politically active, first playing pioneering role in establishing the National Organization of the Progressive Students and later held the chairmanship of Peoples Students Federation (PSF).[3] The PSF is a student union body directly linking to Pakistan Peoples Party (PPP) founded in 1970s to promote student politics in the country.[3]
In 1988, Rabbani earned BA (Hons) in Economics and a LLB degree in civil law from the Karachi University.[3]
His father, Group Captain (Rtd) Ata Rabbani served as the first ADC (aide de camp) to Pakistan's founder Muhammad Ali Jinnah.
Political activism in national politics
Rabbani was expelled from the Karachi University by the behest of military government of President General Zia-ul-Haq in 1981.[2] He was imprisoned by the military government for raising the voice for the human rights and for his avid democratic activism. In 1988, he started his career as a law professional along with sustaining his political activism from the platform of Pakistan Peoples' Party.[2]
Through the PSF activism, Rabbani became a member of the PPP in 1988 and elected on a PPP platform after contesting in general elections in 1988. Ultimately, he served as adviser on cooperative society affairs to Chief Minister of Sindh until 1990.[4]
Law ministry and parliamentary services
In 1993, he again contested for the general elections held in 1993, and later proceeded his career in the Senate.[5] He served as the chairman of the Senate Standing Committee on Sports and Culture until 1994 when he was appointed Minister of Law and Justice by Prime Minister Benazir Bhutto.[6] As Law minister, he played a crucial role in drafting the fifteenth amendment to the Constitution, which was aimed to reserved seats for women in the National and the provincial assemblies.[6] Due to political pressure exerted by the conservative circles, the bill was withdrawn from the parliament.[6] His tenure was abruptly ended when PPP's own elected President Farooq Leghari dismissed Prime Minister Benazir Bhutto in 1996 and called for new elections in 1997.[6]
After the general elections in 1997, Rabbani joined the parliamentary opposition session led by Benazir Bhutto; ultimately becoming the deputy leader of the opposition.[5] From 1996–99, he served as an important member of Senate Committee on Information and Mass–media Broadcasting and the Senate Committee on Foreign and Geostrategic Affairs. During this time, he campaigned and lobbied against the passing of the fourteenth and fifteenth amendment to the Constitution; eventually writing to President Rafiq Tarar to vetoed the bill.[7]
In 2005–08, he led the opposition session as the leader of opposition in the Senate, and was earned public notice for his fierce opposition against President Pervez Musharraf.[5] Often speaking at the country's news channels, Rabbani harshly criticized the LFO, 2002, noting that "Musharraf's insistence that the LFO is a part of the Constitution was unconstitutional in itself.[8] From 2008 until 2009, he led the PPP session as the leader of house in the Senate. For a shortly brief time in 2010, he has also served as Advisor to the Prime Minister on Inter-Provincial Coordination until resigning in 2011.[9]
Views on National security
Despite his disagreements with PPP's leadership, Senator Rabbani was named by the President to be the Chairperson of the Parliamentary Committee on National Security and the Chairperson of the Parliamentary Committee on Constitutional Reform in 2008.[10]
His services and credentials led to his simultaneous appointment to the chairmanship of the Beginning of the Rights of Balochistan where he worked on presenting a package to redress the problems of the Balochistan Province to the joint sessions of the Parliament.[11] Despite his recommendations, none of the provisions in the packages would be carried out by Prime Minister Yousaf Raza Gillani who would later entangled with the Supreme Court over the missing persons scandal.[12] In 2003, Rabbani demonstrated his opposition against the Iraq war in 2003, over the issue of its nuclear program.[8]
 About the atomic proliferation issues, Rabbani criticized President Pervez Musharraf in the news channels and publicly supported the case of dr. AQ Khan against President Musharraf.[8] While calling for moral responsbility of nuclear weapons and security, he reportedly marked his words over this issue as the "propaganda against Pakistan" in the Western media about terrorism and nuclear weapons, raises legitimate apprehensions in the minds of Pakistanis."[8]
During the heights of the United States-Pakistan border confrontations, Rabbani declared to the media about the shift-changing policy of Pakistan as United States' ally and quoted: "We need to prioritize our own national-security interests. As far as the U.S. is concerned, the message that has gone with this resolution will definitely ring alarm bells, vis-à-vis their policy of bulldozing Pakistan."[13]
In April 2011, Rabbani also heavily criticized U.S. over their drone operation in North-Western Pakistan in the Parliament, commenting that United States is following a major violations of international law and human rights.[14]
Writings and political philosophy  
Rabbani extensively writes in support of socialism, communism, constitutional justice, and left-wing ideas. In 2003, he authored a book, "LFO: A Fraud on the Constitution", in a direct opposition to President Pervez Musharraf and a scheme of legitimizing his rule.[15][16]
In response to insurgency situation in the country, Rabbani reputedly declared that "Politico-religious parties and right-wing political groups are conniving with the establishment to damage and weaken left-wing parties."[17] His statement came during the 2013 general elections, in which, left-wing parties were under immense pressure from the right-wing insurgent groups to limit their political campaigns.[17] Rabbani later accused the international community for supporting the conservative parties in an opposition against the leftist parties.[17] While accusing former president Prevez Musharraf for supporting the ultra-conservative alliance to curbed the left-wing parties, Rabbani, with another Marxist Taj Haider, accused the West and the United States of supporting the right wing parties for their bid in the elections.[18]
He is also the author of political philosophy books:
Rabbani, Mian Raza. A biography of Pakistani federalism : unity in diversity. Islamabad: Leo Books. ISBN 9693705505. 
Husain], [compilation, Fouzia Saeed & Maliha. Raza Rabbani : a national hero. Islamabad: Mehergarh Research and Publications. ISBN 9699659084. 
Rabbani,, Mian Raza (2003). LFO : a fraud on the Constitutio. Q.A. Publishers. p. 241..[1]
0 notes
urduclassic · 11 years ago
Text
Ashfaq Hussain Zaidi
Ashfaq Hussain Zaidi, PP, (born January 1, 1951) is a leading modern Urdu poet[1] and an author of more than 10 books of poetry and literary criticism. He is considered by many as the foremost expert on the life and works of great Urdu poets Faiz Ahmed Faiz,[2] Ahmad Faraz and also on Progressive Writers Movement. For his contributions to Urdu literature, Hussain was awarded the Presidential Pride of Performance from the government of Pakistan.
Early life
Ashfaq Hussain was born in a lower middle class family in Karachi, Pakistan on January 1, 1951. The eldest son of eight siblings, he lost his mother at the age of 13. He struggled throughout his academic years by working various part-time jobs. He earned his Master's Degree in Urdu Literature from the University of Karachi in 1974. Hussain was elected Vice President of the Students Union of Urdu Department in 1973. He then spent one year as lecturer at Government Degree Science College, Karachi. Before migrating to Canada, Hussain was working as a Programme Officer at the Arts Council of Pakistan Karachi.
Early years in Canada
Ashfaq Hussain migrated to Canada in March 1980 and currently resides in Brampton, a suburb of Toronto. He initially started his business in Travel and Tourism industry. Hussain founded the Writers Forum of Pakistani Canadians in 1982 and was subsequently elected President of the organization. He then established U.I. Publishers, through which he edited and published the quarterly Urdu journal, "Urdu International Canada" until 1988. Hussain was also seen on Asian Horizons, the precursor to Asian Television Network, dating back to 1980.
Career
Ashfaq Hussain started hosting an Urdu program on Asian Horizons in 1980. After initially working part-time, Hussain joined Asian Television Network full-time when ATN beame a 24 channel in 1997. He currently serves as an Associated Producer at Asian Television Network, Newmarket.[3] He is regularly hosting the following TV shows: Urdu Rang, Asian Horizon and Asian Digest. Amongst the thousands of celeberities whom Hussain has interviewed since the 1980s, notable includes:
Dilip Kumar
Lata Mangeshkar
Javed Akhtar
Kader Khan
Ghulam Ali
Zia Mohyeddin
Tahira Syed
Talat Aziz
M. F. Husain
Sudhir Narain
Faiz Ahmed Faiz
Ahmad Nadeem Qasmi
Jamiluddin Aali
Munir Niazi
Ahmad Faraz
Professor Gopi Chand Narang
Ali Sardar Jafri
Farooq Leghari
Iftekhar Arif
Dr. Ludmila Vaseleva.
For his outstanding contributions, Hussain received a Lifetime Achievement Award from ATN in 2007.
2010 Vancouver Olympics
In February 2010, ATN provided coverage of various events of the 2010 Vancouver Olympics. Hussain provided sports broadcasting of many events, such as freestyle skiing and long track speed skating. On February 13, Hussain and special Olympic guest analyst Salman Bazmi provided play-by-play analysis of Canada's first olympic medal at the games; a silver medal by Jennifer Heil in Freestyle skiing, women's moguls. The following day, Hussain and Bazmi provided play-by-play analysis of Canada's first ever gold medal at an Olympic games held in Canada. Alexandre Bilodeau won the gold medal in Freestyle skiing, men's moguls.
2012 London Olympics
In July–August 2012, ATN provided coverage of various events of the 2012 London Olympics. Hussain, again accompanied by special Olympic guest analyst Salman Bazmi, provided full coverage of archery (men's and women's, team and individual) and rhythmic gymnastics (team and individual). On July 28, Hussain provided play-by-play analysis of United States upset victory over three time defending men's team gold medalist South Korea.
0 notes
political-affairs · 12 years ago
Text
Nawaz Sharif Biography and History
Mian Muhammad Nawaz Sharif (Urdu: نواز شریف‎, pronounced [nəˈʋaːz ʃəˈriːf]; born 25 December 1949[1]) is a Pakistani politician and industrialist who served as the 12th Prime Minister of Pakistan for two non-consecutive terms from November 1990 to July 1993 and from February 1997 to October 1999, and won re-election as Prime Minister in May, 2013. He is currently President of Pakistan Muslim League-N, one of Pakistan's largest political parties and major opposition party. As the owner of Ittefaq Group, a leading business conglomerate, he is also one of the country's wealthiest men.[2]
 Sharif rose to prominence as part of General Zia-ul-Haq's military regime in the 1980s under the wing of Governor of Punjab Ghulam Jilani Khan. He was appointed Chief Minister of Punjab by Zia in 1985. After Zia's death and Benazir Bhutto's being elected Prime Minister in 1988, Sharif emerged as opposition leader from the conservative Pakistan Muslim League. When Benazir was dismissed by President Ghulam Ishaq Khan in 1990 on corruption charges, Sharif was elected Prime Minister the same year. But relations between Sharif and Ghulam Ishaq too deteriorated, with Ghulam Ishaq attempting to dismiss Sharif on similar charges. Sharif successfully challenged the President's decision in the Supreme Court,[3] but both men were ultimately persuaded to step down in 1993 by army chief Abdul Waheed Kakar.[3]
 Serving as the Leader of the Opposition during Benazir's second tenure, Sharif was re-elected Prime Minister with a historic two-thirds majority in parliament,[4] after Benazir was again dismissed for corruption by new President Farooq Leghari.[4] Sharif replaced Leghari with Rafiq Tarar as President, then stripped the Presidency of its powers by passing the Thirteenth Amendment. He also controversially ordered Pakistan's first nuclear tests in response to neighbouring India's second nuclear tests.[5][6] When Western countries suspended foreign aid, Sharif froze the country's foreign currency reserves to prevent further capital flight, but this only worsened economic conditions.
 With rising unemployment and record foreign debt,[7] Sharif's second term also saw tussles with the judiciary and army. After Sharif was summoned for contempt by the Supreme Court in 1997, party workers attacked the court and Chief Justice Syed Sajjad Ali Shah. Sharif also fell out with army chief Jehangir Karamat and replaced him with Pervez Musharraf in 1998,[7] but after Pakistan's haphazard performance in the Kargil War, relations between the two also deteriorated. When he attempted to relieve Musharraf from his command on 12 October 1999, the army instead ousted Sharif's government, exiling him to Saudi Arabia.[7]
Sharif returned in 2007, and his party contested elections in 2008, forming the provincial government in Punjab under Sharif's brother Shahbaz until 2013. He successfully called for Musharraf's impeachment and the reinstatement of Chief Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry.
 Early life and education 
Nawaz Sharif was born in the upper-middle class Sharif family in Ratta, Azad Kashmir administered area of Pakistan[8] on 25 December 1949.[1] His father, Muhammad Sharif, was an upper middle-class businessman and industrialist who had migrated from Amritsar district to Pakistan during the 1947 Indian partition.[8] His family is of Kashmiri-Punjabi origin.[8] His father followed the teachings of the Ahl al-Hadith.[9] His family owns Ittefaq Group, a multimillion dollar steel conglomerate.[10] His brother Shahbaz Sharif is the incumbent Chief Minister of Punjab province while his nephew Hamza Shahbaz Sharif is a member of the National Assembly. And his daughter Maryam Nawaz is also in politics and a leader of his party.
 He went to Saint Anthony High School. He graduated from the Government College University, Lahore with an art and business degree and then received a law degree from the University of Punjab.[11] He is married to Kalsoom Nawaz Sharif.[12]
Nawaz Sharif started his political career during the time of nationalisation policy of former Prime minister Zulfikar Ali Bhutto.[8] The Sharif family was financially devastated after discovering that the family steel business was lost into the hands of the government, and Sharif jumped into national politics soon after.[8] In 1976, Sharif politically motivated himself and joined the Pakistan Muslim League, a conservative front rooted from Punjab Province, initially focused to regain the control of his steel industry from the hands of Bhutto's government.[8] In May 1980 Ghulam Jilani Khan, the recently-appointed Governor of the Punjab Province and a former Director-General of the Inter-Services Intelligence (ISI), initiated a search for new urban leaders, and Sharif was one of the men he found and promoted, quickly making him Finance Minister of the Punjab.[13] In 1981, Sharif joined the Punjab Advisory Board under General Zia-ul-Haq and principally rose to public and political prominence as a staunch proponent of the military government of General Muhammad Zia-ul-Haq during the 1980s.[8]
 He maintained close relations with the Zia-ul-Haq, who soon agreed to return to him his private steel mill which had been lost during the wave of nationalisation by Zulfikar Ali Bhutto.[8] Sharif maintained an alliance with General Rahimuddin Khan, who was Chairman of the Joint Chiefs of Staff Committee. During his political career, Sharif also had close ties with the Director-General of ISI, Lieutenant-General (retired) Hamid Gul, who played a substantial role in the formation of the Islami Jamhoori Ittehad – a conservative political alliance that supported Sharif.[8]
 Sharif also invested a large capital in the Saudi Arabia and the rich oil Arab and Middle east countries to restart his steel empire.[14] According to the personal accounts and his time spent with Sharif, American historian Stephen Philips Cohen maintained in the "Idea of Pakistan", that: " Nawaz Sharif never forgive Bhutto after his steel empire was lost into the hands of Bhutto; and even after his terrible end, Sharif publicly refused to forgive the soul of Bhutto and the Pakistan Peoples Party."[14] After coming into the national power in 1990, Sharif took out the revenge on Zulfikar Bhutto after launching the Privatization programme and economic liberalisation in a direct response to Zulfikar Bhutto and the Pakistan Peoples Party.[14] Sharif finally paid the revenge back on Zulfikar Bhutto after daughter Benazir Bhutto, after she became Prime minister in 1993.[14]
Punjab Advisory Council 
In 1981, he initially joined as a member of the Punjab Advisory Council[11] under General Ghulam Jilani Khan, the Governor of the Province.[13] Since his early career, Sharif has been a strong vocal of capitalism and strongly opposed its inverse, the nationalisation.[8] In 1980s, Sharif gained influence on General Zia-ul-Haq who had previously agreed to return his steel industry to him, convincing the General to denationalise and deregulate the industries in order to improve the economy.[8] Under the Military government of Lieutenant-General Ghulam Jilani Khan, Sharif was appointed as the provisional finance minister and successfully attempted to denationalise all of the government-owned industries to private sector.[11]
 As provincial finance minister, he presented development-oriented budgets to the military government.[11] As Finance minister, Sharif gained prominence and fame in Punjab Province which also extended the rule of General Ghulam Jillani, as he improved the law and order situation in Punjab Province.[8] Financial policies drafted and approved by Sharif, who was backed by General Zia, Punjab Province benefited with the better financial capital and purchasing power of Punjab Province's locals were greatly and exponentially improved. Punjab Province having Sharif as Finance minister, received many funds by the federal government than any other provinces of Pakistan, which also contributed in economical inequality between Punjab Province and other provinces.[8] Due to its huge financial capital in 1980s, Punjab Province was Pakistan's richest province and Punjab Province's better standard of living comparing to other provinces.[8]
Chief Minister of Punjab 
In 1985 General Ghulam Jilani Khan nominated Sharif as Chief Minister of the Punjab, against the wishes of the new prime minister, Muhammad Khan Junejo, who wanted a rural candidate, Malik Allahyar.[13] Sharif secured the landslide victory during the non-political parties 1985 elections and became Chief Minister of Punjab with the support of the army.[8] He served for two consecutive terms as Chief Minister of Punjab Province, the most populous province of Pakistan.[15] Because of his vast popularity, he received the nickname "Lion of the Punjab".[16] As chief minister, he stressed welfare and development activities and the maintenance of law and order.[11]
 The provincial martial law Administrator of Punjab Province, Lieutenant-General Ghulam Jilani Khan sponsored the government of Nawaz Sharif, and Sharif built his ties with the senior army generals who would remain supportive and sponsored Sharif's ministerial ship.[11] General Jilani Khan made much headway in beautifying Lahore, extending military infrastructure, and muting political opposition, while Sharif maintained the law and order in the province, expanded the economical infrastructure that not only benefited and also the people of Punjab province.[11] In 1985, General Zia dismissed the government of hand-picked Prime minister Muhammad Khan Junejo, and called for new elections.[11] However, with all the provisional and the national assemblies were dissolved, General Zia-ul-Haq retained Sharif as the Chief Minister of Punjab Province, and continued Sharif's support until his death and the elections were held in 1988.[11]
Atomic policy 
On 7 November 1990, the newly elected prime minister announced his nuclear policy and in public television, Sharif responded that: "The peaceful [atomic] programme of which... it would be accelerated to accommodate growing [nuclear] [e]nergy needs and to make up for rising [oil] prices. And, of course, (Pakistan) will to construct new nuclear power plants.[28] On 26 November, Sharif authorised talks with the U.S. to solve the nuclear crises after the U.S. had tightened its embargo on Pakistan, prompting Sharif to send his government's Treasure Minister Sartaj Aziz to held talks on Washington.[28] It was widely reported in Pakistan that the U.S. Assistant Secretary of State Teresita Schaffer had told the Foreign Minister Shahabzada Yaqub Khan to halt the uranium enrichment programme.[28]
 In December, France's Commissariat à l'énergie atomique agreed to provide a commercial 900MW power plant, but plans did not materialise as France wanted Pakistan to provide entire financial funds for the plant.[28] On December, the financial embargo was placed and the country's economy felt a distress that prompted Sharif to replace his Treasure minister.[28] Sharif then used Munir Ahmad Khan to have convinced IAEA to allow Pakistan for a nuclear plant in Chashman where Khan intensively lobbied in IAEA for the nuclear power plant.[28] In December 1990, IAEA allowed Pakistan to established CHASNUPP-I, signed with China; the IAEA also gave approval of upgrading of the KANUPP-I in 1990.[28] During his first term, Sharif intensified his non-nuclear weapon policy and strictly followed the policy of deliberate nuclear ambiguity which was also continued by Benazir as well.[28] Responding to U.S. embargo, Sharif publicly announced that: "Pakistan possessed no [atomic] bomb... Pakistan would be happy to sign the Nuclear Nonproliferation Treaty (NPT) but it must be provided "first" to India to do the same.[28]
 Sharif intensified his move to enhance the Pakistan's integrated nuclear development and authorised projects that seemed to be important in his point of views.[27] Sharif also promoted the peaceful nuclear energy programme, and signed the CHASNUPP-I reactor with People's Republic of China for the commercial electricity use.[27] Sharif also responded to use the nuclear development in more of economical usage, benefited for the country's economy and its extension to the civil society.[27] His policies to make the nuclear program for economical use was also continued by Benazir Bhutto and Pervez Musharraf.[27]
Co-operatives societies scandal 
Sharif also lost from support the Punjab Province and Kashmir Province as well when the co-operatives societies scandal became public.[19] Co-operatives societies accept deposits from members and can legally make loans only to members for purposes that are to the benefit of the society and its members.[19] However, mismanagement of these societies led to a collapse in which millions of Pakistanis lost money in 1992.[19] In Sharif’s native Punjab Province and the Kashmir Province, around 700,000 people mostly poor people lost all their savings when the states cooperatives societies went bankrupt. It was soon discovered that the society had granted billions of rupees to the Ittefaq Group of Industries— Sharif's owned Steel mill. Though Ittefaq Group's management hurriedly repaid the loans to the affectees, but the Prime minister's reputation was severely damaged.[19]
1993 Constitutional Crises 
In 1993, Sharif survived a serious constitutional crises when it was reported that Sharif developed serious issues over the authority with another national conservative president Ghulam Ishaq Khan.[29] Before 1993 Parliamentary election, President Ghulam Ishaq Khan on 18 April 1993, with the support of the Pakistan Army, used his reserve powers (58-2b) (See 8th Amendment) to dissolve the National Assembly, the lower house. Khan appointed Mir Balakh Scher as the interim prime minister. When the news reached to Sharif, he forcefully rejected to accept this act and moved to Supreme Court of Pakistan, an apex court in Pakistan. In 26 May 1993, Sharif returned to power after the Supreme Court ruled that the Presidential Order as unconstitutional and reconstituted the National Assembly on its immediate effect. The Court ruled, 10–1, that the president could dissolve the assembly only if a constitutional breakdown had occurred and that the government's incompetence or corruption was irrelevant.[29]
End of First Term 
However, issues with the president over the authority circled and a subsequent political stand off was instigated between president and Prime minister. Finally, on July 1993, Sharif resigned under pressure from the Pakistan Armed Forces but negotiated a settlement that resulted in the removal of president Ghulam Ishaq Khan as well. In July 1993, Chief of Army Staff General Abdul Vahied Kakar and the Chairman of the Joint Chiefs of Staff Committee General Shamim Allam forced president Ishaq Khan to resign from the presidency and subsequently ended the political standoff. Under the close scrutiny of the Pakistan Armed Forces, the new interim and transitional government was formed and new parliamentary election were held after three months.[29]
Parliamentary opposition (1993–96) 
See also: Pakistani general election, 1993
New elections were held in the year of 1993 and the Pakistan Peoples Party (PPP), under Benazir Bhutto, returned to power for the third time. Sharif conceded defeat and offered his full co-operation as Leader of the Opposition but soon the PPP and PML-N again came at loggerheads in the Parliament. Benazir's government found it difficult to act effectively in the face of opposition from Sharif. Benazir Bhutto also faced problems with her younger brother, Murtaza Bhutto, in her stronghold, Sindh Province.[29]
 Sharif joined with Benazir's younger brother Murtaza Bhutto and formed a political axis that worked tirelessly to undermine Benazir Bhutto's government and tapped an anti-corruption wave in entire Pakistan. The Nawaz-Bhutto axis targeted the Benazir Bhutto's government corruption in major state corporations and blamed Benazir's government for slowing down the economic progress. In 1994 to 1995, Sharif with Murtaza Bhutto began a "Train March", a phenomenon founded by Zulfikar Ali Bhutto,taking them from Karachi to Peshawar during which huge crowds listened to their critical speeches. Sharif played a major part in organising labour and industrial strikes throughout Pakistan in September and October 1994. following the controversial death of Murtaza Bhutto in 1996, amid protests and spontaneous demonstrations in Sindh Province had led the Benazir's government losing control of the province. By 1996, Benazir Bhutto had become widely unpopular, in entire Pakistan, because of her high levels of government corruption and alleged involvement of her spouse role in her younger brother's death which led to their ouster in October 1996.[29]
 Wealth and conglomerates 
The industrialisation of the country was bestowed under the watchful eyes of the president Ayub Khan during the most of the 1960s.[107] The industrial sector was destroyed by the nationalisation program of prime minister Zulfiqar Ali Bhutto, in an attempt to secure the capital flight of country's investment to Eastern Europe.[107] This program included the encroachment of Itefaq Group and many other large industries by Bhutto government[108] Although the steel mill was returned in 1980 to Sharif family, but a havoc was already done by the nationalisation policy of the prime minister Bhutto.[107]
In 2005, Daily Pakistan reported that Sharif family is the fourth wealthiest family and second wealthiest political leaders in Pakistan with an estimated net worth of US$ 1.4 billion.[109] The Sharif family is intensively playing their role in the industrial growth of the country and expanding the steel business empire by employing state-of-the-art technology in their steel business in Pakistan, Saudi Arabia and Middle east.[110][111]
0 notes
brookstonalmanac · 1 year ago
Text
Events 11.5 (after 1920)
1925 – Secret agent Sidney Reilly, the first "super-spy" of the 20th century, is executed by the OGPU, the secret police of the Soviet Union. 1940 – World War II: The British armed merchant cruiser HMS Jervis Bay is sunk by the German pocket battleship Admiral Scheer. 1940 – Franklin D. Roosevelt is the first and only President of the United States to be elected to a third term. 1943 – World War II: Bombing of the Vatican. 1950 – Korean War: British and Australian forces from the 27th British Commonwealth Brigade successfully halted the advancing Chinese 117th Division during the Battle of Pakchon. 1955 – After being destroyed in World War II, the rebuilt Vienna State Opera reopens with a performance of Beethoven's Fidelio. 1956 – Suez Crisis: British and French paratroopers land in Egypt after a week-long bombing campaign. 1968 – Richard Nixon is elected as 37th President of the United States. 1970 – The Military Assistance Command, Vietnam reports the lowest weekly American soldier death toll in five years (24). 1983 – The Byford Dolphin diving bell accident kills five and leaves one severely injured. 1986 – USS Rentz, USS Reeves and USS Oldendorf visit Qingdao, China; the first US naval visit to China since 1949. 1990 – Rabbi Meir Kahane, founder of the far-right Kach movement, is shot dead after a speech at a New York City hotel. 1991 – Tropical Storm Thelma causes flash floods in the Philippine city of Ormoc, killing more than 4,900 people. 1995 – André Dallaire attempts to assassinate Prime Minister Jean Chrétien of Canada. He is thwarted when the Prime Minister's wife locks the door. 1996 – Pakistani President Farooq Leghari dismisses the government of Prime Minister Benazir Bhutto and dissolves the National Assembly. 1996 – Bill Clinton is reelected President of the United States. 2006 – Saddam Hussein, the former president of Iraq, and his co-defendants Barzan Ibrahim al-Tikriti and Awad Hamed al-Bandar, are sentenced to death in the al-Dujail trial for their roles in the 1982 massacre of 148 Shia Muslims. 2007 – China's first lunar satellite, Chang'e 1, goes into orbit around the Moon. 2007 – The Android mobile operating system is unveiled by Google. 2009 – U.S. Army Major Nidal Hasan murders 13 and wounds 32 at Fort Hood, Texas in the deadliest mass shooting at a U.S. military installation. 2013 – India launches the Mars Orbiter Mission, its first interplanetary probe. 2015 – An iron ore tailings dam bursts in the Brazilian state of Minas Gerais, flooding a valley, causing mudslides in the nearby village of Bento Rodrigues and causing at least 17 deaths and two missing. 2015 – Rona Ambrose takes over after Stephen Harper as the Leader of the Conservative Party of Canada. 2017 – Devin Patrick Kelley kills 26 and injures 22 in a church in Sutherland Springs, Texas. 2021 – The Astroworld Festival crowd crush results in 10 deaths and 25 people being hospitalized
0 notes
mypakistan · 11 years ago
Text
وزیر اعظم کے حوالے سے ایک چونکا دینے والی خبر!
روزنامہ جنگ میں پرویز بشیر کی بائی لائن خبر جنگ ایسے کثیر الاشاعت اخبار میں چھپنے کے ناتےاتنی دور تک جائے گی اس کا کچھ اندازہ تو تھا لیکن اس حد تک اندازہ نہیں تھا کہ اندرون ملک اور بیرون ملک تک اس کی اتنی گونج سنائی دے گی۔ دراصل خبر تھی بھی بہت چونکا دینے اور حیران کرنے والی کہ ملک کے وزیر اعظم کا بغیر کسی سکیورٹی اور بغیر کسی کروّفر کے خاموشی کے ساتھ ایک معمولی سے شخص سے ملنے اس کے دفتر میں چلے آنا اور خود مین ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھ کر اس شخص کو مین چیئر پر بیٹھے رہنے پر اصرار کرنا، یہ باتیں حیران کرنے والی تو ہیں۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم رستے میں ہر ٹریفک سنگل پر رکتے بھی رہے اور جب وہ مذکورہ دفتر پہنچ کر کار سے اترے تو وہاں کھڑے لوگ حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ پاکستان کا وزیر اعظم ان کے سامنے کھڑا ہے۔
اس خبر کی اشاعت کے بعد جہاں لوگ وزیر اعظم کے اس اقدام کو سخت حیرت کے عالم میں سراہا رہے تھے وہاں ان کی اکثریت کا یہ بھی خیال تھا کہ وزیر اعظم کو دہشت گردی کے موجودہ ماحول میں اتنا بڑا رسک لینا نہیں چاہئے تھا۔ میں ان سے متفق ہوں لیکن میں جو تھوڑا بہت میاں نواز شریف کو جانتا ہوں اس کے پس منظر میں میری حیرت دوسروں سے کم ہے۔ میاں صاحب سے اختلاف رکھنے والے ممکن ہے اس حقیقت سے بھی انکار کریں کہ میاں صاحب کا آئیڈیل پاکستان مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں کی مثبت روایات والا پاکستان ہے، ان ملکوں میں وزیر اعظم اور تھوڑے بہت حفاظتی اقدامات کے ��اتھ گھر سے نکلتے ہیں، میاں صاحب کے دل میں بھی یہ خواہش بہت شدت سے موجود ہے چنانچہ پاکستان کی موجودہ دہشت گرد فضا میں بھی انہیں جب موقع ملتا ہے، وہ اپنی یہ خواہش پوری کرتے ہیں۔ اس طرح کے دو تین واقعات کا میں عینی شاہد ہوں، ایک بار انہوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا تھا اور اس دوسری جگہ کا صرف ایک شخص کو پتہ تھا تاہم اس نے مناسب سمجھا کہ حاجی شکیل کو یہ بتادیا جائے ،حاجی صاحب یہ سن کر پریشان ہوگئے اور ان سے زیادہ پریشانی سکیورٹی آفیسر کو تھی۔ اس نے کہا کہ وزیر اعظم سے پوچھا جائے کہ ان کے رستے میں’’روٹ‘‘لگادیا جائے۔ واضح رہے یہ ’’روٹ‘‘ وہ بلا ہے جس کے لگتے ہی سارے رستے بند کردئیے جاتے ہیں، جس پر عوام روٹ کھلنے کے بعد بھی کئی کئی گھنٹے ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں اور حکمرانوں کو بددعائیں دیتے ہیں۔ اس شخص نے میاں صاحب کو ان کا پیغام پہنچایا۔میاں صاحب نے پہلے تو روٹ نہ لگانے اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا’’انہیں کہیں کہ وہ صرف دو منٹ پہلے روٹ لگائیں تاکہ عوام کو تکلیف نہ ہو‘‘چنانچہ ایسا ہی ہوا صرف دو منٹ کے لئے ٹریفک رکا اور اس کے بعد میاں صاحب اپنے اس دوست کے ساتھ جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو وہ لوگ بھی حیران رہ گئے کیونکہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا بڑا لیڈر ایک عوامی جگہ پر اتنی سادگی سے ان کے درمیان موجود ہو سکتا ہے۔
میں نے میاں صاحب کے ذہن میں موجود آئیڈیل پاکستان کی بات کی تھی جس کا تعلق پاکستان کے عوام کو بھی ترقی یافتہ ملکوں کے عوام ایسی سہولتیں دینے سے ہے تو اسی وژن کے تحت انہوں نے موٹر وے بنائی، جسے اب پورے پاکستان تک پھیلائے جانے کا منصوبہ ہے۔ بیرون ملک سے پاکستان آنے والے پاکستانیوں اور غیر پاکستانیوں کے ساتھ ائیر پورٹ پر مہذب رویہ اپنائے جانے کے لئے گرین چینل کا آغاز کیا۔ ملک کی معاشی ترقی کے لئے ماڈرن ائیر پورٹس بنائے، گواردر کی بندر گاہ تعمیر کی ،جس کا پاکستانی عوام کی معاشی فلاح و بہبود کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ کراچی سے پاکستان تک بائی روڈ سفر کرنے والے عوام کو قدم قدم پر محصول چنگی کے نام پر بھتہ مافیا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ میاں نواز شریف نے عوام کو ریلیف دینے کے لئے محصول چنگی کا سلسلہ ختم کردیا۔ سرائیکی علاقوں میں ایک عرصے سے سائیکل رکشہ چلتا تھا جن کے ڈرائیور بالآخر ٹی بی ایسے موذی مرض کا شکار ہوجاتے تھے۔ یہ بات شرف انسانیت کے منافی تھی کہ دو چار لوگ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوں اور ایک نحیف و نزار انسان شہر بھر میں انہیں جانوروں کی طرح کھینچتا پھرے۔ میاں نوازشریف نے اپنی گزشتہ وزارت عظمیٰ کے دوران یہ لعنت بھی ختم کردی اور سائیکل رکشے کے جگہ انہیں موٹر سائیکل رکشہ دے دئیے۔ اسی طرح انہوں نے عوام کو مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کی طرح ان ٹیکسیوں میں سفر کی سہولت دینے کا نظام بنایا جو ائیر کنڈیشنڈ تھیں اور جن میں میٹر لگے ہوئے تھے، مگر یہ منصوبہ خود ان لوگوں نے ناکام بنادیا جن کے لئے سہولت مہیا کی گئی تھی، کچھ تو ٹیکسی ڈرائیوروں نے جو خود بھی عوام ہی میں شمار ہوتے ہیں ان کے میٹر اتاردئیے، پیلا رنگ ختم کرکے دوسرا پینٹ کروالیا، اور اس کے علاوہ کچھ بدنیت اور بے ایمان لوگوں نے خود کو ٹیکسی ڈرائیور ظاہر کرکے یہ گاڑیاں حاصل کرلیں اور انہیں ذاتی استعمال میں لے آئے۔ سارا قصور حکمرانوں کا نہیں ہوتا، ہمارا بھی ہوتا ہے۔ بہرحال نواز شریف نے سندھ کے ہاریوں میں زمینیں تقسیم کیں، پاکستان کے کئی شہروں میں بے گھر لوگوں کے لئے بہترین فلیٹ بنائے، جو ان کی حکومت ختم ہوتے ہی مشرف حکومت نے ایک کمپنی کو بیچ دئیے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسے کام ان کے کریڈٹ پر ہیں جو پاکستانیوں کو عزت و وقار سے زندہ رہنے کے حوالے سے ان کی خواہش کا مظہر ہیں۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ میاں شہباز شریف ایسی انقلابی سوچ کا حامل اور انتہائی متحرک شخصیت ان کا دست و بازو ہے، چنانچہ پنجاب میں تاریخی نوعیت کے منصوبوں پر عمل ہوچکا ہے اور ابھی بہت سے پائپ لائن میں ہیں۔ دوسری طرف جیسا کہ میں ابھی عرض کررہا تھا، وفاقی حکومت میاں نواز شریف کی قیادت میں توانائی کے مسئلے کے حل کے لئے شب و روز کوشاں ہے اور یہاں بھی شہباز شریف اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، میں نے موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی جو بات کی تھی وہ میں ایک بار پھر پورے یقین سے دہراتا ہوں کہ اگر دہشت گردی پر قابو پالیا گیا تو پانچ سال کی مدت پوری ہونے تک موجودہ حکومت پاکستانی عوام کے لئے وہ کچھ کر گزرے گی جس کی توفیق ان سے پہلے کے حکمرانوں کو حاصل نہیں ہوئی تھی۔
ایک بات اور میاں نواز شریف ذاتی طور پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں جو میری بھی خواہش ہے مگر افسوس میرے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں تاہم میاں صاحب سرکاری سطح پر چادر کے مطابق پائوں پھیلانے لگے ہیں، مگر ان کے سامنے چار آنسو بہا کر کوئی بھی ان کی ذاتی جیب خالی کرسکتا ہے۔ وہ عجز و انکسار کا پیکر ہیں، جنرل ضیاء الحق مرحوم بھی عجز و انکساری کا مظاہرہ کرتے تھے مگر وہ ظالم انسان تھے۔
میاں نواز شریف ایک درد دل رکھنے والے شخص ہیں اور ان کا عجز و انکسار ظاہری نہیں ان کے اندر سے پھوٹتا ہے، اپنی سابقہ وزارت عظمیٰ کے دوران ایک بار انہوں نے چند دوستوں کو اپنے محل نما گھر (ایسے گھر اور بھی بہت سے صنعتکاروں کے ہیں) میں ناشتے پر مدعو کیا اور بے شمار ملازموں کی موجودگی کے باوجود مسلسل کھڑے ہو کر انہیں خود’’سرو‘‘ کرتے رہے۔
میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بہت سے کاموں کا مداح ہونے کے باوجود ہر دور میں انہیں ٹوکتا بھی رہا ہوں، اس بار یہ ’’ٹوکا ٹاکی‘‘ پہلے سے زیادہ ہوگی کیونکہ میں اپنے طور پر ان کا’’ضمانتی‘‘ بن چکا ہوں ،اگر وہ خدانخواستہ عوام کی توقعات پر پورے نہیں اترتے تو ان کے علاوہ میرا گلا بھی پکڑا جائے گا اور یوں اب میرا بھی بہت کچھ’’اسٹیک‘‘ پر ہے اس حوالے سے آخر میں تین مشورے بہت ضروری ہیں،ایک یہ کہ آپ اگر ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بھی بہا دیں لیکن اگر آپ کا جینوئن کارکن خوش نہیں ہے(دہاڑی دار کارکن بہت خوش ہیں، انہیں کام نکلوانے کا ہنر آتا ہے) تو آپ آئندہ انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
حالیہ انتخابات کے نتائج بھی بھنگڑے ڈالنے والے نہیں بلکہ ایک لمحہ فکریہ ہیں، دوسرے میڈیا میں جو لوگ پلانٹڈ نہیں ہیں بلکہ وہ خلوص دل سے بعض معاملات پر آپ سے اختلاف رکھتے ہیں، ان کی قدر کریں اور ان سے رابطے میں رہیں، تیسرے تمام وزارتیں اپنی کارکردگی کی سہ ماہی رپورٹ جاری کریں ،چوتھے بیوروکریسی میں آپ کے پاس کبھی انور زاہد، مہر جیون خان، اے کے زیڈ شیر دل، ناصر کھوسہ،جاوید محمود اور پرویز مسعود ایسے لوگ ہوتے تھے، اب آپ کے پاس اس سطح کے لوگ نہیں ہیں لیکن وہ آپ کو مل سکتے ہیں آپ آٹھ دس افراد کے علاوہ بھی ادھر ادھر نظر دوڑائیں تو آپ مایوس نہیں ہوں گے اور بیوروکریسی میں موجود بے چینی بھی ختم ہوجائے گی، چوتھے یہ کہ آپ جو آرڈرز جاری کریں تو ان کی تعمیل کو یقینی بنائیں اور اگر تعمیل نہیں ہوتی تو رکاوٹ ڈالنے والوں کا سراغ ضرور لگائیں اور ا ٓخری بات یہ کہ چغل خوروں سے بچیں، ان کی ہر بات پر یقین نہ کریں، یہ آپ کو اپنے اصل دوستوں سے محروم کردیں گے۔موجودہ حکومت کو یہ مشورے دینے کی ضرورت نہیں تھی، اگر آج مرحوم و مغفور میاں محمد شریف اور مرحوم و مغفور حسن پیرزادہ زندہ ہوتے ......۔
کالم کے اختتام سے پہلے ایک بار پھر برادرم پرویز بشیر کی خبر کی طرف اور اس سلسلے میں صرف ایک بات اور وہ یہ کہ میاں صاحب آپ کی جان بہت قیمتی ہے آپ اس وقت تک پورے حفاظتی انتظامات کے ساتھ گھر سے باہر نہ نکلیں جب تک دہشت گردی کی موجودہ فضا ختم نہیں ہوجاتی۔ آپ اپنے کاموں سے لوگوں کے دل جیتیں ،عوام کی اکثریت آپ سے محبت کرتی ہے، بس اس محبت ہی کو اپنا قیمتی سرمایہ سمجھیں۔ موجودہ دہشت گردی کی فضا میں آپ انہیں اپنے گھر پر گروپس کی صورت میں مدعو کریں تاکہ آپ تک صحیح صورتحال پہنچ سکے، یہی بات مجھے شہباز شریف صاحب سے بھی کہنی ہے۔
عطاء الحق قاسمی
بشکریہ روزنامہ "جنگ
Prime Minister Nawaz Sharif "
0 notes
risingpakistan · 11 years ago
Text
وزیر اعظم کے حوالے سے ایک چونکا دینے والی خبر!
روزنامہ جنگ میں پرویز بشیر کی بائی لائن خبر جنگ ایسے کثیر الاشاعت اخبار میں چھپنے کے ناتےاتنی دور تک جائے گی اس کا کچھ اندازہ تو تھا لیکن اس حد تک اندازہ نہیں تھا کہ اندرون ملک اور بیرون ملک تک اس کی اتنی گونج سنائی دے گی۔ دراصل خبر تھی بھی بہت چونکا دینے اور حیران کرنے والی کہ ملک کے وزیر اعظم کا بغیر کسی سکیورٹی اور بغیر کسی کروّفر کے خاموشی کے ساتھ ایک معمولی سے شخص سے ملنے اس کے دفتر میں چلے آنا اور خود مین ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھ کر اس شخص کو مین چیئر پر بیٹھے رہنے پر اصرار کرنا، یہ باتیں حیران کرنے والی تو ہیں۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم رستے میں ہر ٹریفک سنگل پر رکتے بھی رہے اور جب وہ مذکورہ دفتر پہنچ کر کار سے اترے تو وہاں کھڑے لوگ حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ پاکستان کا وزیر اعظم ان کے سامنے کھڑا ہے۔
اس خبر کی اشاعت کے بعد جہاں لوگ وزیر اعظم کے اس اقدام کو سخت حیرت کے عالم میں سراہا رہے تھے وہاں ان کی اکثریت کا یہ بھی خیال تھا کہ وزیر اعظم کو دہشت گردی کے موجودہ ماحول میں اتنا بڑا رسک لینا نہیں چاہئے تھا۔ میں ان سے متفق ہوں لیکن میں جو تھوڑا بہت میاں نواز شریف کو جانتا ہوں اس کے پس منظر میں میری حیرت دوسروں سے کم ہے۔ میاں صاحب سے اختلاف رکھنے والے ممکن ہے اس حقیقت سے بھی انکار کریں کہ میاں صاحب کا آئیڈیل پاکستان مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں کی مثبت روایات والا پاکستان ہے، ان ملکوں میں وزیر اعظم اور تھوڑے بہت حفاظتی اقدامات کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں، میاں صاحب کے دل میں بھی یہ خواہش بہت شدت سے موجود ہے چنانچہ پاکستان کی موجودہ دہشت گرد فضا میں بھی انہیں جب موقع ملتا ہے، وہ اپنی یہ خواہش پوری کرتے ہیں۔ اس طرح کے دو تین واقعات کا میں عینی شاہد ہوں، ایک بار انہوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا تھا اور اس دوسری جگہ کا صرف ایک شخص کو پتہ تھا تاہم اس نے مناسب سمجھا کہ حاجی شکیل کو یہ بتادیا جائے ،حاجی صاحب یہ سن کر پریشان ہوگئے اور ان سے زیادہ پریشانی سکیورٹی آفیسر کو تھی۔ اس نے کہا کہ وزیر اعظم سے پوچھا جائے کہ ان کے رستے میں’’روٹ‘‘لگادیا جائے۔ واضح رہے یہ ’’روٹ‘‘ وہ بلا ہے جس کے لگتے ہی سارے رستے بند کردئیے جاتے ہیں، جس پر عوام روٹ کھلنے کے بعد بھی کئی کئی گھنٹے ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں اور حکمرانوں کو بددعائیں دیتے ہیں۔ اس شخص نے میاں صاحب کو ان کا پیغام پہنچایا۔میاں صاحب نے پہلے تو روٹ نہ لگانے اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا’’انہیں کہیں کہ وہ صرف دو منٹ پہلے روٹ لگائیں تاکہ عوام کو تکلیف نہ ہو‘‘چنانچہ ایسا ہی ہوا صرف دو منٹ کے لئے ٹریفک رکا اور اس کے بعد میاں صاحب اپنے اس دوست کے ساتھ جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو وہ لوگ بھی حیران رہ گئے کیونکہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا بڑا لیڈر ایک عوامی جگہ پر اتنی سادگی سے ان کے درمیان موجود ہو سکتا ہے۔
میں نے میاں صاحب کے ذہن میں موجود آئیڈیل پاکستان کی بات کی تھی جس کا تعلق پاکستان کے عوام کو بھی ترقی یافتہ ملکوں کے عوام ایسی سہولتیں دینے سے ہے تو اسی وژن کے تحت انہوں نے موٹر وے بنائی، جسے اب پورے پاکستان تک پھیلائے جانے کا منصوبہ ہے۔ بیرون ملک سے پاکستان آنے والے پاکستانیوں اور غیر پاکستانیوں کے ساتھ ائیر پورٹ پر مہذب رویہ اپنائے جانے کے لئے گرین چینل کا آغاز کیا۔ ملک کی معاشی ترقی کے لئے ماڈرن ائیر پورٹس بنائے، گواردر کی بندر گاہ تعمیر کی ،جس کا پاکستانی عوام کی معاشی فلاح و بہبود کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ کراچی سے پاکستان تک بائی روڈ سفر کرنے والے عوام کو قدم قدم پر محصول چنگی کے نام پر بھتہ مافیا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ میاں نواز شریف نے عوام کو ریلیف دینے کے لئے محصول چنگی کا سلسلہ ختم کردیا۔ سرائیکی علاقوں میں ایک عرصے سے سائیکل رکشہ چلتا تھا جن کے ڈرائیور بالآخر ٹی بی ایسے موذی مرض کا شکار ہوجاتے تھے۔ یہ بات شرف انسانیت کے منافی تھی کہ دو چار لوگ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوں اور ایک نحیف و نزار انسان شہر بھر میں انہیں جانوروں کی طرح کھینچتا پھرے۔ میاں نوازشریف نے اپنی گزشتہ وزارت عظمیٰ کے دوران یہ لعنت بھی ختم کردی اور سائیکل رکشے کے جگہ انہیں موٹر سائیکل رکشہ دے دئیے۔ اسی طرح انہوں نے عوام کو مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کی طرح ان ٹیکسیوں میں سفر کی سہولت دینے کا نظام بنایا جو ائیر کنڈیشنڈ تھیں اور جن میں میٹر لگے ہوئے تھے، مگر یہ منصوبہ خود ان لوگوں نے ناکام بنادیا جن کے لئے سہولت مہیا کی گئی تھی، کچھ تو ٹیکسی ڈرائیوروں نے جو خود بھی عوام ہی میں شمار ہوتے ہیں ان کے میٹر اتاردئیے، پیلا رنگ ختم کرکے دوسرا پینٹ کروالیا، اور اس کے علاوہ کچھ بدنیت اور بے ایمان لوگوں نے خود کو ٹیکسی ڈرائیور ظاہر کرکے یہ گاڑیاں حاصل کرلیں اور انہیں ذاتی استعمال میں لے آئے۔ سارا قصور حکمرانوں کا نہیں ہوتا، ہمارا بھی ہوتا ہے۔ بہرحال نواز شریف نے سندھ کے ہاریوں میں زمینیں تقسیم کیں، پاکستان کے کئی شہروں میں بے گھر لوگوں کے لئے بہترین فلیٹ بنائے، جو ان کی حکومت ختم ہوتے ہی مشرف حکومت نے ایک کمپنی کو بیچ دئیے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسے کام ان کے کریڈٹ پر ہیں جو پاکستانیوں کو عزت و وقار سے زندہ رہنے کے حوالے سے ان کی خواہش کا مظہر ہیں۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ میاں شہباز شریف ایسی انقلابی سوچ کا حامل اور انتہائی متحرک شخصیت ان کا دست و بازو ہے، چنانچہ پنجاب میں تاریخی نوعیت کے منصوبوں پر عمل ہوچکا ہے اور ابھی بہت سے پائپ لائن میں ہیں۔ دوسری طرف جیسا کہ میں ابھی عرض کررہا تھا، وفاقی حکومت میاں نواز شریف کی قیادت میں توانائی کے مسئلے کے حل کے لئے شب و روز کوشاں ہے اور یہاں بھی شہباز شریف اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، میں نے موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی جو بات کی تھی وہ میں ایک بار پھر پورے یقین سے دہراتا ہوں کہ اگر دہشت گردی پر قابو پالیا گیا تو پانچ سال کی مدت پوری ہونے تک موجودہ حکومت پاکستانی عوام کے لئے وہ کچھ کر گزرے گی جس کی توفیق ان سے پہلے کے حکمرانوں کو حاصل نہیں ہوئی تھی۔
ایک بات اور میاں نواز شریف ذاتی طور پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں جو میری بھی خواہش ہے مگر افسوس میرے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں تاہم میاں صاحب سرکاری سطح پر چادر کے مطابق پائوں پھیلانے لگے ہیں، مگر ان کے سامنے چار آنسو بہا کر کوئی بھی ان کی ذاتی جیب خالی کرسکتا ہے۔ وہ عجز و انکسار کا پیکر ہیں، جنرل ضیاء الحق مرحوم بھی عجز و انکساری کا مظاہرہ کرتے تھے مگر وہ ظالم انسان تھے۔
میاں نواز شریف ایک درد دل رکھنے والے شخص ہیں اور ان کا عجز و انکسار ظاہری نہیں ان کے اندر سے پھوٹتا ہے، اپنی سابقہ وزارت عظمیٰ کے دوران ایک بار انہوں نے چند دوستوں کو اپنے محل نما گھر (ایسے گھر اور بھی بہت سے صنعتکاروں کے ہیں) میں ناشتے پر مدعو کیا اور بے شمار ملازموں کی موجودگی کے باوجود مسلسل کھڑے ہو کر انہیں خود’’سرو‘‘ کرتے رہے۔
میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بہت سے کاموں کا مداح ہونے کے باوجود ہر ��ور میں انہیں ٹوکتا بھی رہا ہوں، اس بار یہ ’’ٹوکا ٹاکی‘‘ پہلے سے زیادہ ہوگی کیونکہ میں اپنے طور پر ان کا’’ضمانتی‘‘ بن چکا ہوں ،اگر وہ خدانخواستہ عوام کی توقعات پر پورے نہیں اترتے تو ان کے علاوہ میرا گلا بھی پکڑا جائے گا اور یوں اب میرا بھی بہت کچھ’’اسٹیک‘‘ پر ہے اس حوالے سے آخر میں تین مشورے بہت ضروری ہیں،ایک یہ کہ آپ اگر ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بھی بہا دیں لیکن اگر آپ کا جینوئن کارکن خوش نہیں ہے(دہاڑی دار کارکن بہت خوش ہیں، انہیں کام نکلوانے کا ہنر آتا ہے) تو آپ آئندہ انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
حالیہ انتخابات کے نتائج بھی بھنگڑے ڈالنے والے نہیں بلکہ ایک لمحہ فکریہ ہیں، دوسرے میڈیا میں جو لوگ پلانٹڈ نہیں ہیں بلکہ وہ خلوص دل سے بعض معاملات پر آپ سے اختلاف رکھتے ہیں، ان کی قدر کریں اور ان سے رابطے میں رہیں، تیسرے تمام وزارتیں اپنی کارکردگی کی سہ ماہی رپورٹ جاری کریں ،چوتھے بیوروکریسی میں آپ کے پاس کبھی انور زاہد، مہر جیون خان، اے کے زیڈ شیر دل، ناصر کھوسہ،جاوید محمود اور پرویز مسعود ایسے لوگ ہوتے تھے، اب آپ کے پاس اس سطح کے لوگ نہیں ہیں لیکن وہ آپ کو مل سکتے ہیں آپ آٹھ دس افراد کے علاوہ بھی ادھر ادھر نظر دوڑائیں تو آپ مایوس نہیں ہوں گے اور بیوروکریسی میں موجود بے چینی بھی ختم ہوجائے گی، چوتھے یہ کہ آپ جو آرڈرز جاری کریں تو ان کی تعمیل کو یقینی بنائیں اور اگر تعمیل نہیں ہوتی تو رکاوٹ ڈالنے والوں کا سراغ ضرور لگائیں اور ا ٓخری بات یہ کہ چغل خوروں سے بچیں، ان کی ہر بات پر یقین نہ کریں، یہ آپ کو اپنے اصل دوستوں سے محروم کردیں گے۔موجودہ حکومت کو یہ مشورے دینے کی ضرورت نہیں تھی، اگر آج مرحوم و مغفور میاں محمد شریف اور مرحوم و مغفور حسن پیرزادہ زندہ ہوتے ......۔
کالم کے اختتام سے پہلے ایک بار پھر برادرم پرویز بشیر کی خبر کی طرف اور اس سلسلے میں صرف ایک بات اور وہ یہ کہ میاں صاحب آپ کی جان بہت قیمتی ہے آپ اس وقت تک پورے حفاظتی انتظامات کے ساتھ گھر سے باہر نہ نکلیں جب تک دہشت گردی کی موجودہ فضا ختم نہیں ہوجاتی۔ آپ اپنے کاموں سے لوگوں کے دل جیتیں ،عوام کی اکثریت آپ سے محبت کرتی ہے، بس اس محبت ہی کو اپنا قیمتی سرمایہ سمجھیں۔ موجودہ دہشت گردی کی فضا میں آپ انہیں اپنے گھر پر گروپس کی صورت میں مدعو کریں تاکہ آپ تک صحیح صورتحال پہنچ سکے، یہی بات مجھے شہباز شریف صاحب سے بھی کہنی ہے۔
عطاء الحق قاسمی
بشکریہ روزنامہ "جنگ
Prime Minister Nawaz Sharif "
0 notes
dpr-lahore-division · 4 years ago
Text
PARLIAMENTARIANS CALL ON CM PUNJAB
With the compliments of, The Directorate General Public Relations,
Government of the Punjab, Lahore Ph: 99201390
No.247/QU/Zahid
HANDOUT (A)
LAHORE, February 16:
National Assembly Members Sanaullah Mastikhel, Zahoor Hussain Qureshi, Livestock Minister Husnain Bahadur Dreshak, Deputy Speaker Punjab Assembly Sardar Dost Muhammad Mazari, provincial assembly members Tahir Randhawa, Sardar Raza Dreshak and other parliamentarians called on Chief Minister Punjab Sardar Usman Buzdar at his office to discuss upcoming Senate election and their constituency related problems.
The CM assured to resolve the problems being faced by the parliamentarians and divulged that a strategy has been devised to resolve constituency related problems in consultation with the parliamentarians. The people have no interest in politics of chaos as they need development and solution of their problems, he added and maintained that PDM has become a thing of the past along with its politics of resignations and threats of 'do or die.' The opposition will be surprised in the Senate election as its duality has been fully exposed, the CM continued. The chief minister vowed that opponents of open ballet will face defeat in the Senate election as these elements have remained engrossed in 'opposition for the sake of opposition.'
The CM emphasised that two and a half years of the incumbent government are witness to the policy of transparency, honesty and trustworthiness. People are siding with the PTI as it is working for national development and resources are diverted to fulfil the needs of the common man, he said. The PTI-led government has also introduced fundamental reforms to bring necessary changes as human resource development is a priority agenda, concluded the CM.
Chief Whip in Punjab Assembly Syed Abbas Ali Shah was also present.
*****
No.252/QU/Umer
HANDOUT (A)
KHURAM LEGHARI MPA REPOSES TRUST OVER USMAN BUZDAR
LAHORE, February 16:
Member Provincial Assembly Khurram Leghari called on Chief Minister Punjab Sardar Usman Buzdar at the civil secretariat on Tuesday and expressed complete confidence in the leadership of Chief Minister Usman Buzdar adding that he is with PTI. The CM has assured to solve the problems of the constituency and he will soon visit Muzaffargarh, he said. The CM on the occasion stated that we all are united and the party is united under the leadership of PM Imran Khan. The parliamentarians will be given their due rights but the motives of the opposition will not be fulfilled, he maintained.
*****
No.253/QU/Umer
HANDOUT (A)
CM PAYS SURPRISE VISIT TO DIFFERENT DEPARTMENTS IN CIVIL SECRETARIAT
LAHORE, February 16:
Chief Minister Punjab Sardar Usman Buzdar paid a surprise visit to Anarkali Tomb and the offices of law, archives and Pakistan Citizen's Portal in the Civil Secretariat on Tuesday and met with the staff. He was briefed about the historic documents stored in the building of Anarkali Tomb. The CM directed that more facilities be provided to the researchers and reviewed the processing of applications filed through PCP. He also met with employees and assured them of resolving their problems. Different employees took selfies with him.
Syed Abbas Ali Shah MPA, ACS and secretary archives were also present.
*****
No.254 /QU/Umer
HANDOUT (A)
EU AMBASSADOR CALLS ON CM PUNJAB
LAHORE, February 16:
Ambassador of European Union to Pakistan Mrs Androulla Kaminara called on Chief Minister Punjab Sardar Usman Buzdar on Wednesday and discussed matters of mutual interest. Both agreed to constitute a working group for expanding bilateral cooperation.
Talking on the occasion, the CM appreciated the cooperation extended by the European Union for social sector reforms and expressed the satisfaction that economic cooperation and best friendly relations exist between Pakistan and EU countries. The EU is a major trade partner and the government wants to further strengthen bilateral relations to benefit the people, he added.
While discussing the steps relating to the GPS plus status, the chief minister pointed out that a number of important initiatives have been taken. The government is fully committed to overcoming the menace of child labour and every citizen enjoys equal rights in the country, he emphasized. The government has focused to develop backward areas as there is a lot of scope of value addition in agriculture and livestock sectors, he added and announced to welcome the provision of technology in both the sectors by the EU countries.
Meanwhile, the CM pointed out that important steps have been taken to defeat the philosophy of fanaticism at every level. Pakistan is moving towards the direction envisioned by the founding fathers as a society based on the golden principles of tolerance, brotherhood and harmony is the cherished destination, concluded the CM.
The EU ambassador expressed the satisfaction that positive headway has been made by Pakistan with regard to GPS plus status and assured cooperation in water waste management and other sectors.
Chairman P&D and CEO PBIT were also present.  
*****
No.255/QU/Umer
HANDOUT (A)
ASSEMBLY MEMBERS CALL ON CM PUNJAB
LAHORE, February 16:
Minister of State for Housing and Works Muhammad Shabir Ali, Provincial Minister Mian Khalid Mahmood, Special Assistant Umer Farooq, Khan Sher Akbar Khan, Khurram Ijaz, Umer Aftab, Shakeel Shahid, Muhammad Latif Nazar called on Chief Minister Punjab Sardar Usman Buzdar at the civil secretariat to apprise him about the problems in their constituencies. The upcoming senate election also came under discussion.
Talking on the occasion, the CM said the politics of those, who raised minarets of corruption, has ended now and emphasized that politics of transparency will prevail only as the people have also opened their eyes. The PTI government has given full attention to public service and credit goes to it that not a single corruption scandal has surfaced, he maintained. The accountability of those, who mercilessly looted the country, will be held and opposition will face defeat in the Senate election, he added. The PTI candidates will succeed in the Senate election, he added and repeated that parliamentarians will be given full respect and honour. Chief Whip Syed Abbas Ali Shah MPA and secretary good governance committee Col. (R) Ijaz Hussain Manhais were also present.
*****
0 notes