#گرا
Explore tagged Tumblr posts
Text
عوام کو پیٹرول سستا ہونے کا انتظار حکومت گیس بم گرا دیا
(اویس کیانی)مہنگائی کی چکی میں پسی اعوام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی آس لگائے بیٹھے ہیں ایسے میں حکومت نے گیس بم گرا دیا ۔ تفصیلات کے مطابق خبریں زیر گردش ہیں کہ آج حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا جائیگا جس کااعوام بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں لیکن حکومت نے اس سے قبل ہی ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ،گھریلو سلنڈر کی قیمت میں 34 روپے 9 پیسے کا…
0 notes
Text
آئی سی سی ورلڈ کپ: چار بہترین ٹیمیں کون سی ہیں؟ میک گرا نے بتادیا
ون ڈے ورلڈ کپ کے آغاز میں تقریباً دو ماہ باقی رہ گئے ہیں، آسٹریلیا کے عظیم فاسٹ بولر گلین میک گرا نے “بہترین چار” ٹیموں کا انتخاب کیا ہے، جو سیمی فائنل میں جگہ بنانے کے لیے تیار ہیں۔ میک گرا تین بار ورلڈ کپ جیتنے اور ٹورنامنٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر ہیں۔ میک گرا کے خیال میں بھارت میں ہونے والا ورلڈ کپ ٹورنامنٹ بہت سنسنی خیز ہوگا، میک گرا نے ورلڈ کپ میں چار بہترین ٹیموں کے…
View On WordPress
0 notes
Text
وہ تَہی دَست بھی کیا خوب کہانی گَر تھا
باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا تھا
ہنساتا تھا مجھ کو تو پھر وہ رُلا بھی دیتا تھا
کر کے وہ مجھ سے اکثر وعدے بُھلا بھی دیتا تھا
بے وفا تھا بہت مگر دل کو اچھا لگتا تھا
کبھی کبھار باتیں محبت کی سُنا بھی دیتا تھا
کبھی بے وقت چلا آتا تھا ملنے کو
کبھی قیمتی وقت محبت کے گنوا بھی دیتا تھا
تھام لیتا تھا میرا ہاتھ کبھی یوں ہی خود
کبھی ہاتھ اپنا میرے ہاتھ سے چھڑا بھی لیتا تھا
عجیب دھوپ چھاؤں سا مزاج تھا اُس کا
معتبر بھی رکھتا تھا نظروں سے گرا بھی دیتا تھا...!
- پروین شاکر
7 notes
·
View notes
Text
مجھے اللہ سے پیار ہو گیا جب میں نے محسوس کیا کہ جب میں گرا تو اس نے مجھے پکڑا، جب میں مصیبت میں تھا تو مجھے بچایا اور جب میں ہر رات سوتا تھا تو میری نگرانی کرتا تھا۔
I fell in love with Allāh when i realized he was the only one who caught me when i fell, rescued me when i was in distress, and watched over me as i slept every night.🌿🤍
60 notes
·
View notes
Text
پلکوں کی حد کو توڑ کے دامن پہ آ گرا
اِک اشک میرے صبر کی توہین کر گیا
Palkon ki Hadd ko tor kar Daaman pe aa Gira
Ek Ashk Mery Sabr ki Toheen kar gaya ..
55 notes
·
View notes
Text
سب کی آواز میں آواز ملا رکھی ہے
اپنی پہچان مگر سب سے جدا رکھی ہے
جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا
میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی ہے
ایسا ہوتا ہے کہ پتھر بھی پگھل جاتا ہے
تو نے سینے میں مگر چیز یہ کیا رکھی ہے
2 notes
·
View notes
Text
"جو ہاتھ اللہ کی طرف اٹھایا جائے وہ کبھی گرا نہیں جاتا"
"a hand that is lifted to Allah is never let down"
35 notes
·
View notes
Text
اگر یہ کاغذ کا ٹکڑا ہوتا تو میں اسے پھاڑ دیتا۔ اگر یہ بوتل ہوتی تو میں اسے توڑ دیتا۔ اگر یہ دیوار ہوتی تو میں اسے گرا دیتا لیکن یہ میرا دل ہے۔
If it was a piece of paper I'd tear it. If it was a bottle I'd break it. If it were a wall I'd knock it down But it's my heart.
16 notes
·
View notes
Text
The real goodbye is the one that happens slowly, over time, wordlessly. There is no "see you again". There are no future plans. You stop catching up on each other and eventually you go back to being strangers.
🥀اشکِ نادان سے کہو بعد میں پچھتائیں گےاپ گر کر میری آنکھوں سے کدھر جائیں گے؟ اپنے لفظوں کو تكلم سے گرا کر جاناں اپنے لہجے کی تھکاوٹ میں بکھر جائیں گےاس سے پہلے کے جدائی کی خبر تم سے ملے ہم نے سوچا ہے کہ ہم تم سے بچھڑ جائیں گے. (خلیل الرحمان قمر)
3 notes
·
View notes
Text
مجھے نہیں پتہ، یہ تحریر سچی ہے یا فسانہ؛ بس شرط ہے کہ آنکھیں نم نہ ہونے پائیں۔ آپ دوستوں کے ذوق کی نظر:
۔۔۔
میں ان دنوں جوہر شادی ہال کے اندر کو یوٹرن مارتی ہوئی سڑک کے اُس طرف اک فلی�� میِں رہتا تھا. اس پوش کالونی کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک کے کنارے کنارے ہوٹل، جوس کارنر، فروٹ کارنر بھی چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس چوک کے دائیں طرف اک نکڑ تھی جس پر اک ریڑھی کھڑی ہوتی تھی، رمضان کے دن تھے، شام کو فروٹ خریدنے نکل کھڑا ہوتا تھا. مجھے وہ دور سے ہی اس ریڑھی پہ رکھے تروتازہ پھلوں کی طرف جیسے کسی ندیدہ قوت نے گریبان سے پکڑ کر کھینچا ہو. میں آس پاس کی تمام ریڑھیوں کو نظر انداز کرتا ہوا اس آخری اور نکڑ پہ ذرہ ہٹ کے لگی ریڑھی کو جا پہنچا. اک نگاہ پھلوں پہ ڈالی اور ماتھے پہ شکن نے آ لیا کہ یہ فروٹ والا چاچا کدھر ہے؟ ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیِں تھا. رمضان کی اس نقاہت و سستی کی کیفیت میں ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے، اس شش و پنج میں اک گیارہ بارہ سال کا بچہ گزرا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا، فروٹ لینا؟ میں نے سر اوپر نیچے مارا، ہاں، وہ چہکا، تو لے لو، چاچا ریڑھی پہ نہیں آتا، یہ دیکھو بورڈ لکھا ہوا ہے. میں نے گھوم کے آگے آکر دیکھا، تو واقعی اک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پہ اک موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا:
''گھر میں کوئی نہیں، میری اسی سال کی ماں فالج زدہ ہے، مجھے ہر آدھے گھنٹے میں تین مرتبہ خوراک اور اتنے ہی مرتبہ اسے حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی نہیں ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول کر اس ریگزین گتے کے نیچے پیسے رکھ دیجیے، اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، میری طرف سے اٹھا لینا اجازت ہے. وللہ خیرالرازقین!"
بچہ جا چکا تھا، اور میں بھونچکا کھڑا ریڑھی اور اس نوٹ کو تک رہا تھا. ادھر اُدھر دیکھا، پیسے نکالے، دو کلو سیب تولے، درجن کیلے الگ کیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس کی نقدی پڑی تھی، اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. واپس پہنچتے ہی اتاولے بچے کی طرح بھائی سے سارا ماجرا کہہ مارا، بھائی کہنے لگے وہ ریڑھی واپس لینے تو آتا ہوگا، میں نے کہا ہاں آتا تو ہوگا، افطار کے بعد ہم نے کک لگائی اور بھائی کے ساتھ وہیں جا پہنچے. دیکھا اک باریش بندہ، آدھی داڑھی سفید ہے، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا ہے، کہ ہم اس کے سر پر تھے. اس نے سر اٹھا کر دیکھا، مسکرا کر بولا صاحب ''پھل ختم ہوگیا ہے، باقی پیسے بچے ہیں، وہ چاہیں تو لے لو. یہ اس کی ظرافت تھی یا شرافت، پھر بڑے التفات سے لگا مسکرانے اور اس کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے ابھی ہم کہیں گے، ہاں! اک کلو پیسے دے دو اور وہ جھٹ سے نکال کر پکڑا دے گا.
بھائی مجھے دیکھیں میں بھائی کو اور کبھی ہم دونوں مل کر اس درویش کو. نام پوچھا تو کہنے لگا، خادم حسین نام ہے، اس نوٹ کی طرف اشارہ کیا تو، وہ مسکرانے لگا. لگتا ہے آپ میرے ساتھ گپ شپ کے موڈ میں ہیں، پھر وہ ہنسا، پوچھا چائے پیئں گے؟ لیکن میرے پاس وقت کم ہے، اور پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
چائے آئی، کہنے لگا تین سال سے اماں بستر پہ ہے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو مفلوج بھی ہوگئی ہے، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں، بال بچہ بھی نہیں ہے، بیوی مر گئی ہے، کُل بچا کے اماں اور اماں کے پاس میں ہوں. میں نے اک دن اماں سے کہا، اماں تیری تیمار داری کا تو بڑا جی کرتا ہے. میں نے کان کی لو پکڑ کر قسم لی، پر ہاتھ جیب دسترس میں بھی کچھ نہ ہے کہ تری شایان ترے طعام اور رہن سہن کا بندوبست بھی کروں، ہے کہ نہیں؟ تو مجھے کمرے سے بھی ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی کہہ کیا کروں؟ اب کیا غیب سے اترے گا بھاجی روٹی؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو کچھ موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں؟ چل بتا، میں نے پاؤں دابتے ہوئے نرمی اور اس لجاجت سے کہا جیسے ایسا کہنے سے واقعی وہ ان پڑھ ضعیف کچھ جاودانی سی بکھیر دے گی. ہانپتی کانپتی ہوئی اٹھی، میں نے جھٹ سے تکیہ اونچا کر کے اس کی ٹیک لگوائی، اور وہ ریشے دار گردن سے چچرتی آواز میں دونوں ہاتھوں کا پیالا بنا کر، اس نے خدا جانے کائنات کے رب سے کیا بات کری، ہاتھ گرا کر کہنے لگی، تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا، میں نے کہا کیا بات کرتی ہے اماں؟ وہاں چھوڑ آؤں تو اچکا سو چوری کے دور دورے ہیں، کون لحاظ کرے گا؟ بنا مالک کے کون آئے گا؟ کہنے لگی تو فجر کو چھوڑ کر آیا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، تیرا روپیہ جو گیا تو اللہ سے پائی پائی میں خالدہ ثریا وصول دوں گی.
ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی، صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتا، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کوئی پڑھی لکھی بچی پرسوں پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھ گئی "اماں کے لیے". اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل اماں کی ط��یعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل جو ہے نا، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، وہ بیچ باچ جاتا ہے، بھائی اک تو رازق، اوپر سے ریٹلر بھی، اللہ اللہ!
اس نے کان لو کی چٍٹی پکڑی، چائے ختم ہوئی تو کہنے لگا اجازت اب، اماں خفا ہوگی، بھنیچ کے گلو گیر ہوئے. میں تو کچھ اندر سے تربتر ہونے لگا. بمشکل ضبط کیا، ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ریڑھی کھینچ کر چلتا بنا. میرا بہت جی تھا کہ میں اس چہیتے ''خادم'' کی ماں کو جا ملوں اور کچھ دعا کرواؤں، پر میری ہمت نیئں پڑی جیسے زبان لقوہ مار گئی ہو۔۔
---
ذریعہ : فیسبک
8 notes
·
View notes
Text
When parveen shakir said
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر، ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
When mohsin naqvi said
وہ اک دعا میری ، جو نامراد لوٹ آئی، زباں سے روٹھ گیا پھر سوال کا موسم
When amir usmani said
باقی ہی کیا رہا ہے تجھے مانگنے کے بعد، بس اک دعا میں چھوٹ گئے ہر دعا سے ہم
When ejaz kamravi said
اک تیری تمنا نے کچھ ایسا نوازا ہے، مانگی ہی نہیں جاتی اب کوئی دعا ہم سے
and that's how I stopped praying for some things to happen and all of a sudden I stopped praying for anything at all. Going to go with the flow now!
#urdu#urdu poetry#urdublr#urdushayari#urdu posts#shayari#urdu stuff#urdu ghazal#parveen shakir#mohsin naqvi#urdublog#desiblr#desi tumblr#urdu shayri#urdu shayari#urdu adab#urdu aesthetic#urdu ashaar#urdupoetry
12 notes
·
View notes
Text
اک تم تھے کہ معیار کے پیانے سے ماپتے رہے
اور ایک میں تھا کہ اپنا آپ گرا کر پیش کر تا رہا 🥀
6 notes
·
View notes
Text
ہیں یوں مست آنکھوں میں ڈورے گلابی
شرابی کے پہلو میں جیسے شرابی
وہ آنکھیں گلابی اور ایسی گلابی
کہ جس رت کو دیکھیں بنا دیں شرابی
بدلتا ہے ہر دور کے ساتھ ساقی
یہ دنیا ہے کتنی بڑی انقلابی
جوانی میں اس طرح ملتی ہیں نظریں
شرابی سے ملتا ہے جیسے شرابی
نچوڑو کوئی بڑھ کے دامن شفق کا
فلک پر یہ کس نے گرا دی گلابی
گھنی مست پلکوں کے سائے میں نظریں
بہکتے ہوئے مے کدوں میں شرابی
ذرا مجھ سے بچتے رہو پارساؤ
کہیں تم کو چھو لے نہ میری خرابی
نذیرؔ اپنی دنیا تو اب تک یہی ہے
شراب آفتابی فضا ماہتابی
- نذیر بنارسی
2 notes
·
View notes
Text
إذا كانت قطعة من الورق ، فسأمزقها. إذا كانت زجاجة ، فسأكسرها.إذا كان هذا جدارًا،لكنت سأهدمه، لكن هذا قلبي.
اگر یہ کاغذ کا ٹکڑا ہوتا تو میں اسے پھاڑ دیتا۔ اگر یہ بوتل ہوتی تو میں اسے توڑ دیتا۔ اگر یہ دیوار ہوتی تو میں اسے گرا دیتا لیکن یہ میرا دل ہے۔
If it was a piece of paper I'd tear it. If it was a bottle I'd break it. If it were a wall I'd knock it down But it's my heart.
Mahmood Darwish
38 notes
·
View notes
Text
ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
آپ اِس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر
(عرفان صدیقی)
10 notes
·
View notes
Text
ایسی آواز سے دل ٹوٹ کے سینے میں گرا
جیسے منجد ھار میں بھونچال سے کہسار گرے
جیسے نوبت ہی معالج کی نہیں آئےکوئی
جیسے رستے میں ہی دم توڑ کے بیمار گرے
10 notes
·
View notes