#کیا بلوچ عسکریت
Explore tagged Tumblr posts
Text
کیا بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی گنجائش موجود ہے؟
پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان نسلی بلوچ عسکریت پسندوں کی دہائیوں سے جاری علیحدگی پسند شورش اور ملک دشمن دہشتگردوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ریاستی ادارےسیاسی و عسکری حکمت عملی کے تحت صوبے سے شرپسندی کے خاتمے کیلئے مربوط کارروائیوں میں مصروف ہیں اور جوان اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں وہیں دوسری جانب ایک بار پھر بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات اور مفاہمت کے مطالبے میں شدت آرہی ہے۔ تاہم جہاں حکومت…
0 notes
Text
پاکستان، ایران کشیدگی، آگے کیا ہوگا؟
پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی اس خطے میں نئی بات نہیں،پاکستان، ایران اور افغانستان کے سنگم پر موجود علاقے میں بلوچ عسکریت پسند گروپ ایک عرصے سے تینوں ملکوں کے لیے سکیورٹی مسائل بنے ہوئے ہیں، لی��ن اس بار یہ تنازع زیادہ بڑا محسوس ہوا کیونکہ یہ مشرق وسطیٰ میں پہلے سے جاری اسرائیل حماس جنگ اور اس کے بعد ایران کی پراکسیز کے حملوں کے دوران ہوا، مشرق وسطیٰ میں تنازع پھیلنے اور مکمل جنگ کے خدشات…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا ایران پاکستان تعلقات میں بہتری آئے گی؟
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان دو روزہ دورے پر ایران میں ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اور ایران باہمی تعلقات میں خوشگواری چاہتے ہیں تو انہیں بات چیت کے ذریعے تمام مسائل حل کرنے کی کوشش کرنا پڑے گی۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے، جو دو روزہ دورے پر ایران پہنچے تھے، تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اسلام آباد کی طرف سے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتے جب تک بد اعتمادی کی فضاء مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی۔ عمران خان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی ہے۔ وزیرِ اعظم کے دورہء ایران سے کچھ دن پہلے بلوچ عسکریت پسندوں نے بلوچستان کے علاقے اورماڑا میں چودہ افراد کو قتل کیا تھا جن میں سے گیارہ سکیورٹی اہلکار تھے۔ پاکستان نے اس واقعے پر تہران سے بھر پور احتجاج کیا تھا۔
چند ہفتے قبل جب ایران میں ایک فوجی پریڈ پر حملہ ہوا تھا تو ایرانی رہنماؤں نے بھی پاکستان کے خلاف سخت بیانات دیے تھے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کئی معاملات میں مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ پاکستان کی سعودی عرب سے قربت کو تہران میں تشویش کی نظر دیکھا جاتا ہے جب کہ ایران کی نئی دہلی سے بڑھتی ہوئی قربت کو پاکستان میں شک کی نظر سے دیکھا ہے۔ اسلام آباد کا اس پر بھی شکوہ ہے کہ ایران نے اپنی چابہار کی بندرگاہ پاکستان کے سخت دشمن بھارت کو دے دی ہے جب کہ ایران پاکستان کے اس فیصلے پر پریشان نظر آتا ہے جس کے تحت سعودی عرب کو گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کی اجازت د�� جارہی ہے۔ ایرانی سرحد کے قریب سعودی موجودگی کو ایران میں قدامت پسند حلقے سخت نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان میں کئی حلقے کسی فوری خوشگوار تبدیلی کی توقع نہیں کرتے۔ معروف مصنف اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر محمد اکرم کے خیال میں پاکستان اور ایران کے تعلقات کو پاک سعودی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے: ’’ہمارے ملک میں جیسے جیسے سعودی سرمایہ کاری بڑھے گی ہم ایران سے دور ہوتے جائیں گے کیونکہ سعودی عرب کو یہ پسند نہیں ہے کہ تہران اور اسلام آباد میں قربت ہو۔ اسی وجہ سے ہم ان کے عسکریت پسندوں کی مدد کر رہے ہیں اور وہ ہمارے علیحدگی پسندوں کی مد د کر رہے ہیں۔ تو ایسی صورت میں بھلے دونوں ممالک کے رہنما مثبت بیانات دیں۔ تعلقات میں فوری بہتری اور خوشگواری کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔‘‘ بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ نگار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تہران بی آر پی اور بی ایل ایف (علیحدگی پسند بلوچ مسلح تنظیموں) کی حمایت کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیا ن تعلقات میں تلخی رہے گی۔‘‘
تاہم کچھ حلقے پاکستان ایران کے تعلقات کو سی پیک اور پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایران کے سرحدی علاقوں میں پاکستان مخالف عناصر کو عسکری تربیت دی جا رہی ہے۔ دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے مطابق، ’’ان علاقوں میں بھارت بلوچ عسکریت پسندوں کو تربیت دے رہا ہے اورایرانی حکام نے اس سے صرف نظر کیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سی پیک کے مسئلے پر بھی ایران، بھارت ، امریکا اور مغرب ایک ہی پیج پر ہیں۔ پاکستان نے سی پیک کے ذریعے چین کو ایک نیا راستہ دے دیا ہے جو وہ آبنائے ملاکا بند ہونے کی صورت میں استعمال کر سکتا ہے۔ جس پر سی پیک مخالف عناصر چراغ پا ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود پاکستان کو ایران سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرنا چاہیے: ’’اگر ہم ایران سے معاشی تعاون بڑھائیں تو پھر تہران ہم سے دور نہیں ہو گا کیونکہ اس وقت اس کو پابندیوں کا سامنا ہے۔ ہمیں بھارت کی طرح امریکا سے استثنیٰ کی بات کرنی چاہیے تاکہ ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت بڑھے۔‘‘ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس تلخی کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کو بات چیت کا راستہ اپنانا چاہیے کیونکہ الزام در الزام سے معاملات خراب ہوں گے۔ پاکستان کی سابق سفیر برائے ایران فوزیہ نسرین کا کہنا ہے کہ کلبھوشن کے معاملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کچھ غلط فہمیاں ہیں: ’’لیکن یہ غلط فہمیاں بات چیت سے ہی حل ہوں گی۔ پاکستان کا یہ شکوہ ہے کہ ایران میں کچھ عناصر پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں، اسی طرح ایران کی بھی کچھ شکایات ہیں، جن کو ہمیں دیکھنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے سراغ رساں اداروں کے درمیان تعاون کو گہرا کر کے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘‘
اورماڑہ حملے کے بعد پاکستانی دفترِ خارجہ نے اس پر اپنا ردِ عمل علی الاعلان دیا۔ کئی سیاست دانوں کے خیال میں اس طرح کے مسائل پر خاموش انداز میں سفارت کاری ہونی چاہیے کیونکہ اعلانیہ الزامات سے تلخی بڑھتی ہے۔ سینیٹر طاہر بزنجو کا خیال ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی پورے خطے کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے: ’’اس خطے میں 15 سے 20 پراکسی گروپس ہیں، جو مختلف انداز میں استعمال کیے جارہے ہیں۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی سر زمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ عمران خان کا دورہ تلخی کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔‘‘ لیکن مبصرین کے خیال میں تہران اور اسلام آباد کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ موجود ہے۔ یمن سے لے کر مسئلہ شام تک دونوں مختلف سمتوں میں جارہے ہیں۔
تاہم سابق پاکستانی سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کے خیال میں ان تمام اختلافات کے باوجود مشترکہ نکات تلاش کیے جا سکتے ہیں: ’’سفارت کاری میں ممالک کے مختلف مفادات ہوتے ہیں۔ ماضی میں افغان جنگ اور دہشت گردی کے مسئلے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تلخی رہی ہے لیکن اب موقع ہے کہ ہم مشترکہ نکات تلاش کریں۔‘‘ ان کے خیال میں دونوں ممالک کی سر زمین کو دوسری قوتیں استعمال کر رہی ہیں: ’’یہ ناقابلِ یقین بات ہے کہ پاکستان کی زمین ایران کے خلاف استعمال کی جائے اور ایران کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال کی جائے۔ میرے خیال میں کچھ بیرونی قوتیں ایسا کر رہی ہیں اور اس دورے سے اس طرح کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی اور دونوں ممالک کے درمیان آئی پی اور تجارت سمیت کئی مسائل پر پیش رفت ہو گی۔‘‘
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
2 notes
·
View notes
Text
بھارت‘ اسلحے کی دوڑمیں سب سے آگے
جنوبی ایشیا میں بھارت اسلحے کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ اس نے پچھلے سال دفاعی بجٹ میں 13 ہزار کروڑ روپے کا اضافہ کیا تھا۔ سٹاک ہوم بین الاقوامی امن تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ نے 2012 تا 2016‘ بھارت کو دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والا ملک قرار دیا تھا۔ اسی ادارے نے حال ہی میں رپورٹ دی ہے کہ دنیا بھر میں بھارت اس وقت سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کر رہا ہے۔ بھارت زیادہ تر اسلحہ اسرائیل اور روس سے خریدتا ہے؛ تاہم حال ہی میں امریکہ اور فرانس سے بھی جدید فضائی اور دفاعی نظام خریدا گیا ہے۔ 36 جدید رافیل طیارے 2022 تک بھارت پہنچ جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھارت آرٹلری بندوقیں، طیارہ بردار جہاز اور جدید آبدوزیں بھی خرید رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کورونا وبا کے دوران جب باقی دنیا ماسک اور ادویات خرید رہی تھی‘ اس وبا سے بچائو کی تدابیر کر رہی تھی‘ بھارت اس وقت بھی اسلحہ خریدنے میں مصروف نظر آتا رہا۔
اب سوال یہ ہے کہ بھارت اتنا اسلحہ کیوں خرید رہا ہے؟ اس کے پس پردہ حقائق کیا ہیں؟ کون سے ممالک اس اسلحے کی دوڑ سے متاثر ہو سکتے ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ کو اس خطے میں چین کے خلاف ایک اتحادی کی ضرورت ہے۔ چین اپنا کاروبار جنوبی ایشیا میں پھیلا رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ افغانستان سے ناکام لوٹ رہا ہے۔ اس تناظر میں امریکہ کو بھارت میں وہ اتحادی دکھائی دیتا ہے جو چین کو آنکھیں دکھا سکتا ہے اور جنوبی ایشیا کے خطے میں امریکی مفادات کی نگہبانی کر سکتا ہے۔ چین اور بھارت کے مابین گزشتہ کچھ عرصے سے ایل اے سی (The Line of Actual Control) پر شدید کشیدگی ہے۔ چین اور بھارت کے مابین ��رحدی تنازع بہت پرانا ہے۔ 1962 کی جنگ میں یہ مزید پیچیدہ ہو گیا تھا۔ مئی 2020 میں چین اور بھارت کے مابین پہلی جھڑپ ہوئی جس میں کئی بھارتی فوجیوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ جون 2020 میں دونوں ممالک کے مابین ہونے والی دوسری جھڑپ لداخ کی وادی گلوان میں ہوئی۔ اس جھڑپ میں انڈیا کے 20 فوجی ہلاک اور 75 شدید زخمی ہو گئے تھے۔ تیسری جھڑپ انتیس‘ تیس اگست کو ہوئی۔ یہ جھڑپ چینگوینگ سو جھیل کے کنارے ہوئی تھی۔
چین اور انڈیا کی یہ سرحد 488 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ سرحد جموں و کشمیر، اترا کھنڈ، سکم، ہماچل پردیش، اروناچل پردیش میں انڈیا سے ملتی ہے۔ کئی تجزیہ کار حالیہ چین بھارت کشیدگی میں امریکہ کا کردار بھی دیکھ رہے ہیں‘ یعنی ان کا خیال ہے کہ بھارت اور چین کے مابین حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں امریکہ کی کوئی چال بھی کارفرما ہو سکتی ہے۔ بھارت کی جارحیت کے نشانے پر دوسرا ملک پاکستان ہے۔ کسی زمانے بھارت ڈھکے چھپے انداز میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں ٹانگ اڑاتا تھا لیکن کچھ عرصے سے‘ خصوصاً کلبھوشن کے پکڑے جانے کے بعد کافی چیزیں سامنے آ چکی ہیں۔ بھارت پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ میں بھی ملوث ہے۔ بلوچستان کے معاملے میں بھارت کا منفی کردار ہر طرح سے واضح اور نمایاں ہے۔ نہ صرف وہ بلوچستان میں بد امنی میں ملوث ہے بلکہ وہ افغانستان میں بلوچ عسکریت پسندوں کو ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے۔
اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ کئی علیحدگی پسند بھارت جا کر علاج بھی کرا کے آئے ہیں۔ اگر بھارت دہشت گردی کے خلاف ہے اور اگر وہ دہشت گردوں کو پسند نہیں کرتا تو اس کی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے علاج کا کیا مطلب مقصد؟ پچھلے کچھ عرصے میں بھارت میں بڑے عہدوں پر براجمان لوگوں نے بلوچستان کو اپنا موضوع بحث بنایا ہوا ہے حتیٰ کہ اجیت ڈوول اور نریندر مودی خود بھی بلوچستان میں بد امنی پھیلانے اور ریاست مخالف مہم کا حصہ بننے کا اشارہ دے چکے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی برادری خصوصی طور پر اس خطے کے ممالک کے لئے تشویش کا باعث ہونی چاہئے کہ بھارت دہشت گردی کو پھیلانے میں مصروف ہے۔ کچھ سال پہلے ایک کالعدم بلوچ جماعت کے سربراہ اور اکبر بگٹی کے نواسے براہمداغ بگٹی نے بھارت کا دورہ کیا تو وہاں پر ان کو بھارت میں پناہ دینے کی آفر کی گئی تھی۔
اب یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح اور نمایاں ہو چکی ہے کہ بھارت چاہتا ہے‘ کسی بھی طرح پاکستان کو کمزور کیا جائے اور پاکستان میں جہاں کہیں بھی تھوڑے سے مسائل ہوں ان کو ہوا دی جائے‘ بڑھایا جائے‘ اور کسی بھی طرح ملک میں مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کا کوئی حربہ استعمال کیا جائے۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے بھارتی صحافی کرن تھاپر کو ایک خصوصی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی 'را‘ کے افسران کی نگرانی میں افغانستان میں کئی دہشت گرد تنظیموں کو ضم کیا گیا‘ اور اس کام کے لیے 10 لاکھ ڈالر کی ��قم ادا کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ بھارت پاکستان میں تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ بھارت نے نہ صرف آرمی پبلک سکول حملے کو سپانسر کیا بلکہ وہ گزشتہ دو برسوں میں گوادر میں پی سی ہوٹل، سٹاک ایکس چینج سینٹر کراچی اور کراچی ہی میں موجود چینی کونسل خانے پر حملے میں بھی ملوث تھا۔
پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں موجود ہے۔ بھارت اپنے سازشی حربوں اور دیگر طریقوں سے پوری کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلا جائے۔ حال ہی میں ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے جاری کردہ ایک باہمی جائزہ رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تجویز کردہ کل 40 سفارشات میں سے، دو سفارشات پر مؤثر عمل درآمد کیا ہے‘ 26 پر جزوی طور پر کام کیا ہے جبکہ 9 پر بڑی حد تک عمل کیا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا جانا ہے کہ آیا پاکستان کو تنطیم کی گرے لسٹ میں برقرار رکھا جائے یا نہیں؟ اس اجلاس کا فیصلہ جو بھی آئے لیکن ایک بات ظاہر ہے کہ بھارت ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کو اب اس دشمنی، دوغلا پن والی ذہنیت سے باہر نکلنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر خطے میں پائیدار امن کے قیام ممکن نہ ہو سکے گا۔
عالمی برادری کو نہ صرف دہشت گردی کے فروغ میں بھارتی کردار پر نظر رکھی چاہئے بلکہ اس کی جانب سے خطے میں اسلحے کی جو ایک نئی دوڑ شروع ہو رہی ہے‘ اس کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں جنوبی ایشیا کا خطہ طاقت کے عدم توازن کا شکار ہو جائے گا جبکہ یہ عدم توازن امن کو تباہ کرنے کا باعث بھی بنے گا۔ بھارت ابھی تک اپنے حربوں میں ناکام رہا ہے لیکن وہ اپنی عادات سے باز نہیں آئے گا۔ اس کو معلوم ہے کہ پاکستان معاشی لحاظ سے مسائل کا شکار ہے اور اسلحے کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر پائے گا‘ لیکن شاید وہ یہ بھول رہا ہے کہ پاکستان اب ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور دفاع کے لحاظ سے مضبوط ہے۔ جس طرح وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ شروع تو ہو جائے گی لیکن اس جنگ کو ختم کرنا پھر کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ اب بھی وقت ہے کہ بھارت اس اسلحے کی دوڑ سے نکلے اور خطے میں مثبت تبدیلیوں کا حصہ بنے جبکہ اقوام عالم کو چاہئے کہ وہ بھارتی جارحیت پر توجہ دے ورنہ اس اسلحے کی دوڑ اور مقابلے سے پورا خطہ غیر محفوظ ہو جائے گا۔
امتیاز گل
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Text
اے غدارو گھبرانا نہیں ہے
حالانکہ پاکستان میں ہر جن بچہ سمجھتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے کیا مراد ہے مگر اکثر غیر پاکستانی دوست اس اصطلاح کے بکثرت پاکستانی استعمال کے سبب کنفیوز ہو جاتے ہیں۔ تب ہمیں وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دراصل اس جرنیلی و نوکر شاہ خانوادے کو کہتے ہیں جس کے بچے اکثریت پسند کے بجائے عسکریت پسند سیاسی کیرئیر اپناتے ہیں۔ اس خاندان کے دیگر بزرگ طبعاً حساس ہیں لہذا لوگ باگ بتقاضائے تہذیب ان کا نام پورا نام لینے کے بجائے پیار سے بس خلائی مخلوق، فرشتے، محکمہ زراعت، سافٹ وئیر انجینیر، شمالی علاقہ جات کے ٹورسٹ گائیڈ اور ڈبل ڈور ویگو ڈرائیور وغیرہ کہتے ہیں۔ اتنے سب پیار کے القابات ٹھوس ثبوت ہیں کہ اسٹیبلشمنٹی خانوادے کے بزرگ لوگوں سے اور لوگ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ان بزرگوں کا ایک کام یہ بھی ہے کہ محبِ وطن عناصر اور غداروں پر کڑی نظر رکھیں مبادا کہیں ادل بدل نہ ہو جائے۔
ہمارے کئی بیرونی دوست پاکستانی تاریخ، سیاست و نفسیات سے کماحقہہ ناواقفی�� کے سبب اس غلط فہمی میں بھی رہتے ہیں کہ مقامی اسٹیبلشمنٹ حریفوں کے معاملے میں سخت گیر اور دوستوں کے معاملے میں نہایت فیاض ہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ گھوڑا گھاس سے یاری لگائے گا تو کھائے گا کیا؟ اسٹیبلشمنٹ کے نہ تو مستقل حریف اور نہ ہی مستقل حلیف ہوتے ہیں۔ دوستی یا دشمنی کا معیار بس یہ ہے کہ جب آپ کو ایک طے شدہ نظریہ پاکستان دے دیا گیا ہے تو پھر اپنا نظریہِ پاکستان الگ سے گھڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ میری اس بات کو ہرگز یہ معنی نہ پہنائے جائیں کہ غداروں کے لیے اس ملکِ خداداد میں کوئی جگہ نہیں بلکہ دیگر ریاستوں کے برعکس پاکستان میں غداری کو ایک ایسا غیر مستقل ذاتی عیب تصور کیا جاتا ہے جس کا دیگر امورِ مملکت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ بالکل ایسے جیسے سفید لباس پر اگر گندگی کے چھینٹے پڑ جائیں تو آپ اسے پھینکتے تھوڑی ہیں بلکہ دھو دھلا کر پھر سے پہن سکتے ہیں۔
اس بابت اسٹیبلشمنٹیانہ فراغ دلی کی اس سے زیادہ روشن مثالیں کیا ہوں گی کہ حسین شہید سہروردی نے مشرقی بنگال کو متحدہ پاکستان کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا، پھر وہ پاکستان کے وزیرِاعظم بنے اور پھر غدار قرار پائے اور مرے تو ایک عظیم پاکستانی کے کفن میں دفنائے گئے۔ بانیِ پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح، ایوب خان کی صدارتی حریف بننے کے سبب انڈین ایجنٹ بھی قرار پائیں اور مرتے وقت مادرِ ملت کا خطاب بھی قبر کے کتبے پر لکھا گیا اور صدر ایوب کی جانب سے پھول بھی چڑھائے گئے۔ جی ایم سید کئی بار محبِ وطن اور اس سے کہیں زیادہ مرتبہ غدار قرار دیے گئے۔ بھلا ایسا غدار کہاں ملے گا جسے ملک کا جرنیلی صدر اس کی خدمات کے عوض گلدستہ بھی پیش کرے۔ خان عبدالغفار خان پختونوں کی نظر میں عظیم قوم پرست اور اسٹیبلشمٹنٹ کی ڈائریکٹری میں غدار رہے۔ جب انتقال ہوا تو نظریہ پاکستان کے علم بردار روزنامہ نوائے وقت نے اس غدار کی خدمات پر خراجِ تحسین بھی پیش کیا اور پشاور ائیرپورٹ کا نام باچا خان ائیرپورٹ رکھا گیا۔
شیخ مجیب الرحمان تو بہت ہی عجیب غدار تھا۔ پہلے اسے انڈین ایجنٹ ثابت کیا گیا، پھر اس انڈین ایجنٹ کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ جب فیصلہ کن اکثریت کی بنیاد پر اس نے ’انتقالِ اقتدار ورنہ علیحدگی‘ کا نعرہ لگایا تو پھر سے انڈین ایجنٹ ہو گیا اور پھر اس انڈین ایجنٹ کا ایک آزاد ملک کے وزیرِاعظم کی حیثیت سے لاہور میں شاندار استقبال ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سنہ ستر اور اکہتر کے دور میں اسٹیبلشمنٹ اپنا بچہ سمجھتی رہی اور جماعتِ اسلامی و دیگر مذہبی جماعتیں اسے انڈین مفادات کا نگہبان کہتی رہیں مگر جب بھٹو وزیرِاعظم بن گئے تو پھر ولی خان اور بلوچ قیادت غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار پائے۔ جب جنرل ضیا الحق نے تختہ الٹا تو بھٹو قاتل اور ولی خان و بلوچ قیادت محبِ وطن شمار ہونے لگے اور پندرہ برس بعد بلوچ پھر غدار اور انڈین ایجنٹ ہو گئے۔ ایم کیو ایم کے بانی ا��طاف حسین کی حب الوطنی و غداریت بھی اسی راستے سے گزری اور آج وہ سند یافتہ غدار ہیں۔
اور اب باری ہے نواز شریف کی جنھوں نے اپنی پہلی وزارتِ عظمی کے دوران بےنظیر بھٹو کو سکھوں کی علیحدگی پسند تحریک کا دشمن اور قومی ایٹمی پروگرام کے لیے سکیورٹی رسک قرار دیا۔ وہی نواز شریف دوسری وزارتِ عظمیٰ کے دوران لاہور میں واجپائی کا استقبال کرنے کے سبب نرم گیر قرار پائے مگر کرگل کے کمبل سے پاکستان کی گلو خلاصی بھی اسی نرم گیر انڈیا نواز نے کروائی۔اور تیسری وزارتِ عظمی کے بعد تو اب وہ سیاست میں فوج کی مسلسل مبینہ مداخلت کا سوال اٹھا کر سیدھے سیدھے پاکستان دشمن اور غدار ہو چکے ہیں (کل کلاں یہی خاندان دوبارہ اقتدار میں آ گیا تو میں ذمہ دار نہ ہوں گا)۔ بعینہہ اگر آج کے عظیم محبِ وطن عمران خان بھی کل کلاں کسی بھی سبب سرکاری غدار قرار پائیں تو ہرگز ہرگز دل چھوٹا مت کریں۔ عوام کا دل غداروں کے لیے بہت بڑا ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Photo
بلوچستان: 14 اگست کے موقع پر پرچم وغیرہ فروخت کرنے والے نشانے پر، حالیہ تشدد کی وجوہات کیا ہیں؟ محمد کاظم بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ14 اگست 2020، 19:26 PKTاپ ڈیٹ کی گئی 2 گھنٹے قبل،AFPبلوچستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ چار پانچ روز کے دوران بم حملوں کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ان حملوں میں پاکستان کے یومِ آزادی کی مناسبت سے پرچم وغیرہ فروخت کرنے والے سٹالز اور دکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ، اس سے متصل ضلع مستونگ، کراچی سے متصل ضلع لسبیلہ کے صنعتی علاقے حب اور تربت وغیرہ میں ایسے حملے کیے گئے۔ان واقعات میں ایک بچی ہلاک اور 20 کے قریب لوگ زخمی ہوئے جبکہ ان واقعات کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔ان حملوں کے پیچھے کیا سوچ اور عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں؟ سکیورٹی امور کے ماہر اور طویل عرصے تک بلوچستان میں پولیس کے انسپیکٹر جنرل رہنے والے ڈاکٹر شعیب سڈل کا کہنا ہے کچھ ماہ سے بلوچستان میں بدامنی بڑھنے کے پیچھے اندرونی اور بیرونی دونوں عوامل کارفرما ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک 14 اگست سے منسلک سرگرمیوں پر حملوں کی بات ہے تو اس کا مقصد خوف و ہراس پیدا کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو عناصر یہ حملے کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ لوگ 14 اگست کی مناسبت سے تقریبات میں شرکت نہ کریں اور اپنے گھروں پر جھنڈے نہ لگائ��ں۔بلوچستان میں ماضی میں بھی شورشیں ہوتی رہی ہیں لیکن 70 کی دہائی میں ہونے والی بغاوت کے بعد یہ سلسلہ سنہ 2000 سے شروع ہوا۔دیگر حملوں کے ساتھ ساتھ 14 اگست کی تقریبات اور ان کی تیاریوں سے متعلق سرگرمیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔2008 سے قبل تک یہ اتنے بڑھ گئے تھے کہ بلوچستان میں لوگوں کی 14 اگست کی مناسبت سے تقریبات میں شرکت میں کمی آئی تھی لیکن بعد میں ان تقریبات کو منانے اور ان میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت، بالخصوص سکیورٹی اداروں کی جانب سے خصوصی اقدامات کیے جاتے رہے۔ان تقریبات میں لوگوں کی شرکت کو بڑھانے کے لیے ملک بھر سے معروف گلوکاروں کو بھی مدعو کیا جاتا رہا۔ سکیورٹی کے بڑے پیمانے پر انتظامات کے ساتھ یہ تقریبات بلوچستان بھر میں اب ماضی کے مقابلے بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ منعقد کی جا رہی ہیں۔رواں سال اگرچہ شہری علاقوں میں بم دھماکوں کے واقعات کم پیش آئے لیکن سکیورٹی فورسز پر کئی علاقوں میں حملوں کے متعدد واقعات پیش آتے رہے ہیں۔،Government of Balochistan کیچ، واشک، بولان اور ہرنائی میں جانی نقصان کے حوالے سے بعض بڑے واقعات بھی پیش آئے جن کی ذمہ داریاں مختلف عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔سنہ 2000ء سے قبل بلوچستان قدرے پرامن تھا اور یہاں عام جرائم کی شرح دوسرے صوبوں کے مقابلے میں انتہائی کم تھی، لیکن 2000 کے بعد بم دھماکوں، سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں، اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔اُس دور کی حکومت کی جانب سے بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ سمیت بعض دیگر میگا پراجیکٹس اور معدنیات کے منصوبوں پر اعلانات کے ساتھ ساتھ ان پر کام کا آغاز بھی کیا گیا۔اس حکومت نے ابتدا میں شورش کا ذمہ دار سخت گیر مؤقف کے حامل چند سرداروں کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’چونکہ یہ ترقی مخالف ہیں اس لیے وہ بدامنی پھیلا کر ترقی کے عمل کو روکنا چاہتے ہیں کیونکہ ترقی آنے سے ان کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔‘تاہم بلوچستان کے قوم پرست حلقوں کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا اور وہ اُس دور کی حکومت اور اس کی پالیسیوں کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ ان کا یہ مؤقف ہے کہ حکومت، بلوچستان کے وسائل کو یہاں کے لوگوں کی مرضی کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے بے چینی ہے۔بلوچستان میں بدامنی کے جو واقعات رونما ہوتے رہے ان کی ذمہ داری مختلف کالعدم عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کی ان کارروائیوں کا مقصد بلوچستان کو علیحدہ کرنا ہے۔شورش میں اضافے کے بعد حکومت کی جانب سے بیرونی مداخلت کا الزام بھی عائد کیا گیا اور یہ کہا جانے لگا کہ ان عناصر کو بیرونی بالخصوص انڈیا کی حمایت حاصل ہے جو مبینہ طور پر افغان انٹیلیجنس ادارے این ڈی ایس کو استعمال کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ افغان حکام کی جانب سے ایسے الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔علیحدگی پسند تنظیمیں اور سخت گیر مؤقف کی حامل قوم پرست جماعتیں بھی ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ ’یہ تحریک بلوچستان کے لوگوں کی اپنی تحریک ہے۔‘بلوچستان میں امن و امان کے مسائل کی بڑی وجوہات کیا؟سابق انسپیکٹر جنرل پولیس بلوچستان ڈاکٹر شعیب سڈل کے مطابق بلوچستان ایک وسیع و عریض صوبہ ہے اور اس کا بڑا حصہ بی (B) ایریا پر مشتمل ہے۔،AFPواضح رہے کہ بلوچستان انتظامی لحاظ سے دو حصوں اے ایریا اور بی ایریا میں تقسیم ہے۔اے ایریا زیادہ تر شہری علاقوں پر مشتمل ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ آباد ہے۔ ان علاقوں کا انتظامی کنٹرول پولیس کے پاس ہے اور یہ علاقہ رقبے کے لحاظ سے اندازاً بلوچستان کے مجموعی رقبے کا 10 فیصد علاقہ بنتا ہے۔بلوچستان کا بی ایریا دیہی علاقوں پر مشتمل ہے جو کہ رقبے کے لحاظ سے 90 فیصد علاقہ بنتا ہے۔ ان علاقوں میں اے ایریا کے مقابلے میں آبادی کم اور منتشر ہے، اور یہ علاقے لیویز فورس (قبائلی پولیس) کے کنٹرول میں ہیں۔ ڈاکٹر شعیب سڈل کہتے ہیں کہ جب تک اتنا بڑا بی ایریا رکھا جائے گا تو اس وقت تک ریاست کی رٹ کمزور رہے گی۔شعیب سڈل کہتے ہیں کہ انڈیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات روز بروز خراب ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہاں سے یہاں کے حالات کو خراب کرنے کے لیے فنڈنگ ہوتی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو جنگجو گروہ تقسیم اور منتشر ہوئے تھے ان کو نئے سرے سے اکٹھا کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب انسدادِ دراندازی مہم کی ضرورت ہے جو پولیس کی قیادت میں ہونی چاہیے۔ لیکن ان کے بقول جب پولیس ایک بڑے علاقے میں سرے سے ہے ہی نہیں تو وہاں ایسی کوئی مہم کیسے چلے گی۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بہتری کے لیے طویل المدتی اور قلیل مدتی مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر شعیب سڈل کا کہنا ہے کہ کچھ وقت سے بد امنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، اس تناظر میں یہ دیکھنا چاہیے کہ کہاں کوئی ایسا خلا پیدا ہوا جس کی وجہ سے ان میں اضافہ ہوا اور اس خلا کو پر کرنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہییں۔اگرچہ ڈاکٹر شعیب سڈل بی ایریا کو ریاستی رٹ کی کمزوری قرار دیتے ہیں لیکن بلوچستان کے اے ایریا کے مقابلے میں بی ایریا میں عام جرائم کی شرح کم ہے، جبکہ پولیس کے مقابلے میں لیویز فورس کی نفری اور وسائل بھی انتہائی کم ہیں۔سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں جب بلوچستان میں جام محمد یوسف کی حکومت تھی تو لیویز فورس کو ختم کر کے پولیس میں ضم کیا گیا، مگر 2008 میں نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں بننے والی مخلوط حکومت نے لیویز فورس کو دوبارہ بحال کر دیا۔لیکن وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی قیادت میں موجودہ حکومت نے ایک مرتبہ پھر پولیس کے علاقوں میں اضافہ کرتے ہوئے کوئٹہ، گوادر اور لسبیلہ کے اضلاع کو مکمل اے ایریا قرار دیا۔تاہم 2008 میں بحالی کے بعد نہ صرف لیویز فورس کے وسائل میں اضافہ کیا گیا بلکہ اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔جدید بنانے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ لیویز فورس کی ایک بڑی نفری کو فوج نے بھی تربیت دی جس کے باعث ماضی کے مقابلے میں لیویز فورس کئی گنا زیادہ تربیت یافتہ ہے۔ کیا حالات صرف سکیورٹی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے خراب ہیں؟ سیاسی مبصرین کے مطابق اگرچہ مسلح تنظیموں کی وجہ سے سکیورٹی کے مسائل ہیں لیکن بلوچستان میں بے چینی کی وجوہات سیاسی بھی ہیں، اس لیے بلوچستان کے سیاسی حلقوں کی جانب سے بلوچستان کے سیاسی مسائل کو سیاسی اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے۔ڈاکٹر شعیب سڈل بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انسدادِ دراندازی کے ساتھ ساتھ سیاسی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جو تنظیمیں اور گروہ مسائل کا باعث بن رہے ہیں، ان میں نوجوان طبقہ شامل ہو رہا ہے۔ ،PAcific Pressانھوں نے کہا کہ ان سے معاملات اسی طرح طے ہوسکتے ہیں کہ ان کے جو جائز حقوق ہیں وہ ان کو دینے ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ فورس کے استعمال سے مذاکرات کی راہ ہموار تو کی جاسکتی ہے لیکن مسائل کو حل صرف مذاکرات کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔مذاکرات کا نکتہ نیشنل ایکشن پلان میں بھی شامل بلوچستان میں چند س��ل قبل تک سرکاری حکام جن لوگوں کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار سمجھتے تھے ان کے لیے وہ ناراض بلوچ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نواز شریف کے سابق دور میں حالات کی بہتری کے لیے جو نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، اس میں بلوچستان میں حالات کی بہتری کے لیے ’ناراض بلوچوں‘ سے مذاکرات کا نکتہ بھی شامل تھا۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان میں مذاکرات کا جو نکتہ ہے اس پر بھی عمل کی ضرورت ہے۔ اگرچہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان سے پہلے کی حکومت میں بیرون ملک مقیم بعض بلوچ رہنماﺅں سے رابطے ہوئے لیکن تاحال مذاکرات کے حوالے سے کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ عامر رانا کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں بد امنی کی کارروائیاں بڑھی ہیں اور اس میں بہت سارے ایسے رجحانات سامنے آرہے ہیں جو 'باہر' کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ’جو مذہبی عسکریت پسند ہیں، ان کا ایک خاص طریقہ ہوتا ہے۔ وہ کس کو ہدف بناتے ہیں، اس کا صاف پتہ چل جاتا ہے‘، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب کچھ عرصے سے آئی ای ڈی حملوں کا جو رجحان سامنے آیا ہے وہ مختلف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو کارروائیاں بڑھی ہیں، وہ قوم پرست عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے بڑھی ہیں جس سے نمٹنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں لیکن اس کو سنجیدگی کے ساتھ سیاسی حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔عامر رانا نے بتایا کہ پرامن بلوچستان کے پروگرام کو مؤثر اور کامیاب بنانے کے لیے حکومت کے حامی سرداروں اور قبائلی شخصیات کے اثر و رسوخ سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ان کے بقول حکومت کے حامی سرداروں اور قبائلی شخصیات نے ’جعلی سرینڈر کروائے جس کے باعث سیاسی حوالے سے جو پیش رفت ہونی تھی وہ رک گئی‘۔عامر رانا کہتے ہیں کہ سیاسی حل کی طرف جانا ہی ہوگا کیونکہ اگر اس کا سیاسی حل نہیں نکالا گیا تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم پرست عسکریت پسندی کا جو مسئلہ ہے وہ آپریشنل کارروائیوں سے کچھ وقت کے لیے تھم جائے گا لیکن کچھ وقت کے بعد پھر اس میں شدت آئے گی اور اس طرح یہ مسئلہ جاری رہے گا۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
Text
کیا واقعی بلوچستان میں ریاستی رٹ ختم ہوچکی ہے؟
بلوچستان میں قومی پرست عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی میں خوفناک حد تک اضافے کے بعد اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ریاست کی رٹ واقعی ختم ہو چکی ہے۔ اس سوال میں شدت تب آئی جب جنرل مشرف کے حکم پر ایک فوجی دستے کے ہاتھوں شہید ہونے والے بلوچ قومی پرست نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی پر بلوچستان کے 11 اضلاع میں ایک ہی دن دہشت گردی کے درجنوں بھر سے ذیادہ واقعات…
0 notes
Text
بلوچ عسکریت پسندوں کا سیستان میں پولیس سٹیشن پر حملہ، 11 اہلکار مارے گئے
ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے بتایا کہ بلوچ عسکریت پسندوں نے جمعہ کی صبح جنوب مشرقی ایران میں ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا، جس میں 11 سیکورٹی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ سرکاری میڈیا نے مزید کہا کہ عسکریت پسند جیش العدل گروپ کے کئی ارکان بھی پسماندہ صوبے سیستان-بلوچستان کے قصبے راسک میں ہونے والی جھڑپوں میں مارے گئے۔ افغانستان اور پاکستان کی سرحد سے متصل اس صوبے میں زیادہ تر ایرانیوں کے…
View On WordPress
0 notes
Text
آواران سے گرفتار چار بلوچ خواتین رہا
آواران سے گرفتار چار بلوچ خواتین رہا
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع آواران سے عسکریت پسند تنظیم سے تعلق کے الزام میں گرفتار کی گئیں چار خواتین کو رہا کردیا گیا ہے۔
گذشتہ ہفتے گرفتار کی گئیں خواتین سے دستی بم اور دیگر اسلحہ برآمد کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ خواتین کی گرفتاری پر بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔ بی این پی مینگل نے قومی اسمبلی میں دھرنا دیا تھا جبکہ پارٹی کے سربراہ اختر…
View On WordPress
0 notes
Text
بلوچستان لبریشن فرنٹ کا انتخابات 2018 کے بائیکاٹ کا اعلان
Urdu News on https://is.gd/oFtDTP
بلوچستان لبریشن فرنٹ کا انتخابات 2018 کے بائیکاٹ کا اعلان
اللہ نذر بلوچ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کے سب سے متحرک دھڑے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں
پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں سب سے متحرک عسکریت پسند گروپ بلوچستان لبریشن فرنٹ نے 2018 کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر نے ایک ویڈیو پیغام میں لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ انتخابات کا حصہ نہ بنیں تاکہ ٹرن آؤٹ کم سے کم رہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ سمیت تمام ہی علیحدگی پسند تنظیموں نے 2013 کے انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا تھا، جس کی وجہ سے بلوچ علاقوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح انتہائی کم رہی تھی۔
اس کے نتیجے میں حال میں اپنی مدت پوری کرنے والے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو سمیت کئی امیدوار چند سو ووٹ لے کر ہی کامیاب ہوئے تھے۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ 2013 میں بلوچ قوم نے ایک ریفرنڈم کیا اور جس کے بعد ٹھپے لگائے گئے اور وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ آئندہ بھی اسی طرح کسی کو منتخب کیا جائے گا۔
اپنے پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’کچھ لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک کمزور ہو کر پسپائی کی جانب بڑھ رہی ہے جبکہ درحقیقت بلوچ تاریخ میں یہ دو دہائی یعنی بیس سالوں پر مشتمل بلوچ آزادی کی تحریک آگے جا رہی ہے اور دن بدن بلوچ قوم اس میں شامل ہو رہی ہے۔ بلوچ نسل کشی ہو رہی ہے، لیکن بلوچ قوم پیچھے نہیں ہٹ رہی ہے، سوائے سرداروں کے۔ وہ سودے بازی کے لیے کبھی آگے تو کبھی پیچھے مڑتے ہیں تاہم عام بلوچ قومی جدو جہد کے لیے کمر بستہ ہے اور ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا۔‘
میر عبدالقدوس بزنجو کو گذشتہ عام انتخابات میں صرف پانچ سو ووٹ ملے تھے
ڈاکٹر اللہ نذر نے بلوچستان کے سابق وزیرِداخلہ سرفراز بگٹی اور نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو پر بھی سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ بلوچ قوم کو یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بیرونی ممالک سپورٹ کر رہے ہیں، لیکن اگر بیرونی ممالک ہماری فنڈنگ کرتے، ساز و سامان دیتے تو آج جنگ کی شکل یہ نہیں ہوتی، یہ بلوچوں کی اپنی ذاتی جنگ ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر حکومت چین سے کہا ہے کہ وہ بلوچستان میں سرمایہ کاری نہ کرے وہ خود ایک انقلابی عہد سے گزر چکے ہیں۔” بلوچ ایک زندہ قوم ہے، اس کی اپنی زبان اور زمین ہے۔ بلوچ قوم میں قومی وجود کی تمام روایات اور قانون موجود ہیں،ایسی قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ آپ (چین) ایک غلط راستے کا انتخاب کر چکے ہیں۔
قالب وردپرس
0 notes
Text
کیا امن کیلئے پاکستان کو ایران سے امید رکھنا چاہیئے؟
اسلام آباد(جی سی این رپورٹ)جنرل قمر باجوہ نے ایرانی میجر جنرل محمد حسین بغیری سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے، جس میں پاکستانی فوجیوں پر ایک حالیہ حملہ کا موضوع بھی زیر گفتگو آیا اور دونوں فوجی سربراہوں نے باڈر سکیورٹی کو موثر بنانے پر بھی بات چیت کی۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے ایرانی فوج کے کمانڈر میجر جنرل محمد حسین بغیری کے رابطے کے بعد ملک کے کئی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی کے حوالے سے تعاون ہو پائے گا یا نہیں۔یہ رابطہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب پاکستان میں تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ فوج پر حملہ کرنے والے بلوچ علیحدگی پسند ایرانی سرحدی حدود میں جا کر پناہ لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں تہران کو پاکستان سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ جند اللہ اور جیش العدل جیسی ایران مخالف تنظیموں کے خلاف اقدامات نہیں کرتا جس کے جنگجو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں مبینہ طور پر چھپے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں کئی دفاعی تجزیہ کاروں کا شکوہ یہ ہے کہ ایران نے چاہ بہار میں بھارت کو رسائی دے کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل(ر) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ ایران کو باڈر سکیورٹی کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں ایران میں پاکستان مخالف کیمپ ہیں، جہاں بلوچ عسکریت پسند چھپے ہوئے ہیں۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ ایران ان کیمپوں کو چلا رہا ہے یا عسکریت پسندوں کی مدد کر رہا ہے لیکن ان عسکریت پسندوں کے خلاف اتنی سرگرمی سے کارروائی نہیں کی جا رہی، جتنی سرگرمی سے کارروائی جند اللہ یا جیش العدل کے خلاف کی گئی۔ تو پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف بھر پور کارروائی کی جائے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ چاہ بہار سے بھارت پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ اس کے علاوہ پاک ایران سرحد پر بھی موثر نگرانی کی ��رورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بہتری آئے۔ Read the full article
0 notes
Text
سید صلاح الدین کے لئے اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے؟
عیدالفطر کی رات امریکی حکومت نے ایک خصوصی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ انہیں عالمی دہشت گرد قرار دے ڈالا۔ اس ایگزیکٹو آرڈر کو غور سے پڑھیں۔ سید صلاح الدین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اپریل 2014 میں حزب المجاہدین نے بھارت کے’’زیر انتظام‘‘ جموں و کشمیر میں ایک دھماکے کی ذمہ داری قبول کی جس میں17 افراد زخمی ہوئے۔17 افراد کو زخمی کرنے کے الزام میں سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا گیا جس پر بھارتی حکومت خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے جبکہ بھارتی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم نہ کر کے ٹرمپ نے بڑی زیادتی کی ہے۔
امریکی حکومت کے اس اعلان کے بعد صدر ٹرمپ کی بھارتی وزیر اعظم مودی سے ملاقات ہوئی جس میں مودی نے امریکہ سے فوجی اسلحہ خریدنے کے کچھ معاہدوں پر دستخط کئے۔ دوسرے الفاظ میں ٹرمپ نے اپنے ایک گاہک کو خوش کرنے کے لئے اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ پکڑا دیا جسے دیکھ دیکھ کر گاہک خوش ہوتا رہے گا لیکن سید صلاح الدین کو اس کاغذ کا کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہو گا۔ امریکی حکومت کے اس ایگزیکٹو آرڈر کے بعد سید صلاح الدین امریکہ کا کوئی سفر نہیں کر سکتے اور امریکہ میں کوئی جائیداد یا اثاثے نہیں رکھ سکتے۔ سید صلاح الدین نے امریکہ جانا ہے نہ وہاں کوئی جائیداد خریدنی ہے پھر انہیں کیا نقصان ہو گا ؟ بھارت کے خیال میں یہ اس کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے لیکن غور کریں تو امریکہ کے اس عمل کا زیادہ فائدہ سید صلاح الدین اور کشمیر کی تحریک آزادی کو ہو گا۔ 8 جولائی کوحزب المجاہدین کے شہید کمانڈر برہان مظفر وانی کی پہلی برسی آنے والی ہے۔
سید صلاح الدین 8 جولائی کو پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جلسے جلوسوں اور مظاہروں کی تیاری کر رہے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے انہیں عالمی دہشت گرد قرار دینے کا اعلان ان کے لئے غیبی امداد ثابت ہو گا اور 8 جولائی سے پہلے ہی پورے جموں و کشمیر میں بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ کے خلاف مظاہروں میں شدت آئے گی۔ سید صلاح الدین ایک پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ انہوں نے 1987 میں سرینگر سے ریاستی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا لیکن الیکشن میں دھاندلی ہو گئی۔ یاسین ملک ان کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔ دھاندلی کا الزام لگانے پر دونوں کو گرفتار کر لیا گیا اور رہائی کے بعد دونوں نے عسکریت کا راستہ اختیار کر لیا۔ سید صلاح الدین کا اصل نام سید یوسف شاہ ہے اور ساتھی انہیں پیار سے پیر صاحب کہتے ہیں۔ پیر صاحب نے کبھی امریکہ پر حملے کی دھمکی نہیں ��ی نہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے لیکن مودی کی فرمائش پر ٹرمپ صاحب نے سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دے کر خود ہی امریکی مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اب مقبوضہ جموں و کشمیر کے طول و عرض میں بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ کے جھنڈے بھی نذر آتش ہوں گے اور اس کی ذمہ داری پیر صاحب پر نہیں بلکہ ٹرمپ پر عائد ہو گی۔ 28 جون کو بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس میں میرا ایک کالم شائع ہوا جس میں اس ناچیز نے لکھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت سید صلاح الدین کو دہشت گرد نہیں بلکہ حریت پسند سمجھتی ہے اور پیر صاحب کا کہنا ہے کہ وہ بھگت سنگھ کے راستے پر چل رہے ہیں، اگر بھگت سنگھ حریت پسند تھا تو میں بھی حریت پسند ہوں اور اگر بھگت سنگھ دہشت گرد تھا تو میں بھی دہشت گرد ہوں۔ یہ کالم پڑھنے کے بعد بھارت کی ایک معروف خاتون صحافی نے پیغام بھیجا کہ اگر آپ کشمیر میں مسلح مزاحمت کرنے والوں کو حریت پسند کہتے ہیں تو کیا ہم بلوچستان میں مسلح مزاحمت کرنے والوں کو بھی حریت پسند سمجھیں؟
میں نے اس صحافی کو جواب دیا کہ کشمیر اور بلوچستان میں بڑا فرق ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قرار دادوں کے ذریعہ کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا ہے جبکہ بلوچستان پاکستان کا ایک صوبہ ہے۔ بلوچستان میں ظلم و جبر کے خلاف تو ہم بھی آواز بلند کرتے ہیں لیکن کیا آپ کو کشمیر کی تحریک آزادی میں بلوچستان والوں کے کردار کا پتا ہے؟ خاتون صحافی کچھ حیران ہو گئیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ بلوچ قوم پرستوں کیلئے انتہائی قابل احترام بزرگ دانشور اور ادیب پروفیسر عبداللہ جان جمال دینی کی آپ بیتی ’’لٹ خانہ‘‘ پڑھو۔ ’’لٹ خانہ‘‘ میں جمال دینی صاحب نے اپنے ایک ترقی پسند شاعر دوست کمال ا لدین شیرانی کا ذکر کیا ہے جنہوں نے 1947 کے جہاد کشمیر میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیا تھا۔ شیرانی صاحب کا تعلق ژوب سے تھا اور جمال دینی صاحب انہیں ’’غازی‘‘ کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ ایک اور ترقی پسند انقلابی شاعر احمد فراز نے بھی جہاد کشمیر میں خود حصہ لیا تھا اور وہ زندگی کے آخری لمحات تک اپنے عالم شباب کے اس ایڈونچر پر فخر کا اظہار کیا کرتے تھے۔ امریکہ کس کس کو دہشت گرد قرار دے گا؟
آج کے کچھ نام نہاد ترقی پسند اور لبرل دانشور بھگت سنگھ سے لے کر چے گویرا کو حریت و انقلاب کی علامت قرار دیتے ہیں لیکن سید صلاح الدین کو حریت پسند تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ وہ مسلمان ہے۔ سید صلاح الدین سے گفتگو کریں تو وہ آپ کو کشمیر کے بارے میں علامہ اقبال کے اشعار سنانا شروع کر دیں گے۔ میں پہلے بھی اپنے قارئین کو بتا چکا ہوں، دوبارہ دہراتا ہوں کہ کشمیر کی حالیہ تحریک آزادی کی بنیادیں کھڑ ی کرنے میں علامہ اقبال کا اہم کردار ہے۔ پیام مشرق میں ان کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ شامل ہے جو انہوں نے جون 1921 میں سرینگر کے باغ نشاط میں بیٹھ کر لکھی تھی اور کشمیریوں کے بےقرار دلوں میں آزادی کی آگ بھڑکنے کی پیش گوئی کی تھی۔ پھر اسی علامہ اقبال نے13 جولائی 1931 کو سرینگر میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کی اور 14 اگست 1931 کو لاہور میں یوم کشمیر منایا۔
روزنامہ انقلاب لاہور کی فائلوں میں 14 اگست 1931 کو لاہور میں علامہ اقبال کی زیر صدارت یوم کشمیر کے جلسے کی روداد پڑھی جا ��کتی ہے جس میں شاعر مشرق نے مسلمانوں سے کہا کہ اٹھو اور کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہو جائو۔ کیا امریکہ شاعر مشرق کو بھی دہشت گرد قرار دے گا ؟ اپنے فیض احمد فیض کا کیا کریں گے؟ انہوں نے 3جنوری 1948 کو پاکستان ٹائمز میں شائع ہونے والے اس بیان پر دستخط کئے جس میں جموں و کشمیر میں بھارتی جارحیت کی کھل کر مذمت کی گئی۔ کیا فیض بھی دہشت گرد تھے؟ حبیب جالب کو کیا کہیں گے جنہوں نے کہا تھا؎
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم ہر ظالم و جابر کا کرتے ہی چلو سرخم
سید صلاح الدین نے وہی کیا جس کا درس انہیں اقبالؔ، فیضؔ، فرازؔ اور جالبؔ نے دیا، اگر سید صلاح الدین دہشت گرد ہے تو پھر یہ سارے شاعر بھی دہشت گرد ہیں، پھر ہر غیرت مند کشمیری، ہر محب وطن پاکستانی اور ہر آزادی پسند مسلمان دہشت گرد ہے۔ امریکہ کس کس کو دہشت گرد قرار دے گا؟
حامد میر
0 notes
Photo
کوئٹہ میں عید پر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ: ’بیٹے کی واپسی چاہتے ہو تو بیٹی سے کہو مظاہروں سے دور رہے‘ محمد کاظم بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ45 منٹ قبلجہانزیب قمبرانی کی والدہ ہر عید پر اپنے بیٹے کے لیے نئے کپڑے سلوانے کے علاوہ جوتے بھی بنواتی ہیں۔وہ ایسا اس لیے کرتی ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جہانزیب عید کے روز اچانک گھر آئیں تو انھیں نئے کپڑوں اور جوتوں کے بغیر یہ تہوار منانا پڑے۔ جہانزیب قمبرانی کا تعلق کوئٹہ کے علاقے سریاب سے ہے اور وہ گذشتہ چار سال سے لاپتہ ہیں۔ جہانزیب کی والدہ کے مطابق ان کے بیٹے کو جبری طور پر لے جایا گیا ہے۔بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت میں اب ہر عید پر لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی کے مطالبے کے ساتھ مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ رواں عید الفطر کے موقع پر بھی مظاہرین پریس کلب کے باہر جمع ہوئے تھے اور اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے ہڑتالی کیمپ میں شرکت کی تھی۔پاکستان میں گمشدہ افراد کے حوالے سے مزید پڑھیےجہانزیب قمبرانی کی مبینہ گمشدگی اور والدہ کا مطالبہعید کے پہلے روز جب لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے کوئٹہ شہر میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کیا تو جہانزیب کی والدہ بھی بیٹے کے عید کے کپڑوں اور جوتوں کے ساتھ اس مظاہرے میں شریک ہوئیں۔’جہانزیب کے لاپتہ ہونے کے بعد ہر عید پر نئے جوتے اور کپڑے اس امید کے ساتھ بنواتی ہوں کہ وہ آئے گا تو عید کے لیے ان کے نئے کپڑے اور جوتے تیار ہوں۔‘انھوں نے بتایا کہ جب عید کے دن گزر جاتے ہیں اور بیٹا نہیں آتا تو وہ ان کے نئے کپڑے اور جوتے کسی مستحق شخص کو دے دیتی ہیں تاکہ وہ ان کی بازیابی کے لیے دعا کرے۔،تصویر کا کیپشنجہانزیب قمبرانی کی والدہ’بیٹے کی بازیابی چاہتے ہو تو بیٹی سے کہو وہ احتجاجی مظاہروں سے دور رہے‘بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز گذشتہ کئی سال سے ہر عید پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرتی ہے۔اس احتجاج میں زیادہ تر ��وگوں کا تعلق کوئٹہ شہر سے ہوتا ہے لیکن اس عید الاضحیٰ پرکوئٹہ شہر سے بہت دور آواران سے سیما بلوچ بھی اپنے چھوٹے بچے اور بھابی کے ساتھ اس مظاہرے میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔وہ طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی بہن ہیں جنھیں چار سال قبل بلوچستان کے ضلع کیچ سے سیما بلوچ کے مطابق جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔سنہ 2019 کے آخر میں وہ پہلی مرتبہ اپنی بھابی کے ہمراہ 600 کلو میٹر دور آواران سے اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے علامتی بھوک ہڑتال کے لیے کوئٹہ آئی تھیں۔ان کی بھوک ہڑتال کے بعد کوئٹہ شہر میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں خواتین کی شرکت میں اضافہ ہونے لگا۔سیما بلوچ بتاتی ہیں ’سرکاری حکام نے میری والدہ کو فون کر کے بتایا تھا کہ اگر اپنے بیٹے کی بازیابی چاہتے ہو تو اپنی بیٹی کو کہو وہ احتجاجی مظاہروں اور پروگراموں سے دور رہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس فون کے بعد میں نے ڈیڑھ سال تک کسی احتجاجی پروگرام میں شرکت نہیں کی لیکن بھائی پھر بھی بازیاب نہیں ہوئے۔سیما بلوچ نے بتایا کہ جب کسی گھر کا کوئی شخص لاپتہ ہو تو اس کی خوشیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ اس لیے وہ گھر پر عید منانے کی بجائے کوئٹہ آئی تاکہ یہاں میڈیا کی ذریعے اپنی اور اپنے خاندان کے دکھ سے دنیا کو آگاہ کر سکیں۔لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے والوں میں کوئٹہ کے سریاب روڈ کے علاقے سے لاپتہ ہونے والے ایک اور نوجوان حسان بلوچ کی بہن بھی شریک تھیں۔مظاہرے کے شرکا سے خطاب کے دوران حسان بلوچ کی بہن کی آنکھوں سے آنسو رواں رہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے ایک بھائی کو پہلے لاپتہ کرنے کے بعد ان کی لاش پھینکی گئی اب دوسرے کو لاپتہ کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ ’اگر لاپتہ کرنے والوں کو ان عدالتوں پر اعتماد نہیں ہے تو وہ اپنی عدالت بنا کر انھیں اس میں پیش کریں۔‘مظاہرے میں ایک معذور نوجوان بیبرگ بلوچ بھی اپنے ویل چیئر پر شرکت کے لیے آئے تھے۔انھوں نے بتایا کہ اگرچہ ان کا کو کوئی رشتہ دار لاپتہ نہیں ہوا ہے لیکن وہ دوسرے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی دکھ میں شرکت کے لیے ایسے مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں۔وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اب ہر عید پر احتجاج ان کا معمول بن گیا ہے کیونکہ نہ صرف لوگ لاپتہ کیے جا رہے ہیں بلکہ ان کو مبینہ طور پر حراست میں ہلاک کرکے ان کی لاشیں بھی پھینکی جاتی ہیں۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ کہ عید سے پہلے سے لاپتہ کیے جانے والے بگٹی قبیلے کے پانچ افراد کو ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاشیں پنجاب کے علاقے راجن پور میں پھینک دی گئیں۔تاہم ان پانچ افراد کی ہلاکت کے بارے میں انسداد دہشت گردی کے ادارے سی ٹی ڈی کا یہ موقف ہے کہ یہ پانچوں افراد عسکریت پسند تھے جو کہ ان کے ساتھ مسلح مقابلے میں مارے گئے۔بلوچستان سے لوگوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ 2000 کے بعد شروع ہوا تھا۔لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم اور قوم پرست جماعتیں لوگوں کو ’جبری گمشدگی‘ کا نشانہ بنانے کا الزام ریاستی اداروں پر عائد کررہی ہیں لیکن سرکاری حکام اور محکمہ داخلہ کے حکام ایسے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے رہے ہیں۔سرکاری حکام کا یہ موقف ہے کہ بعض عناصر لاپتہ افراد کے نام پر ملک اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
Text
کراچی میں چینی انجینئرز پرحملہ،را نے شرپسندی کیلئے کتنی فنڈنگ کی؟
کراچی میں بلوچ لبریشن آرمی کے خودکش حملے میں دو چائینیز انجینئرز کی ہلاکت کہ بعد سے جاری تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ حملہ بی اہل اے کی حال ہی میں تشکیل شدہ انٹیلی جینس ونگ “زراب” نے کیا۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایک منظم کارروائی تھی جس میں بلوچ عسکریت پسند تنظیم کو بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کی جانب سے خطیر سرمایہ صرف کیا گیا۔ حملے میں استعمال ہونے والی ڈبل کیبن ویگو خریدنے کے لیے…
0 notes
Text
چین سے مذاکرات نہ ہوئے ہیں نہ ہوں گے: ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
چین سے مذاکرات نہ ہوئے ہیں نہ ہوں گے: ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
بلوچ عسکریت پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا ہے کہ انھوں نے چین سے کوئی مذاکرات نہیں کیے اور نہ ہی مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں ایسے کوئی مذاکرات ہوں گے۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ نے واضح کیا کہ انھیں ایسے مذاکرات کرنے ہی نہیں اور نہ ان کے لیے انھیں کسی ‘ضامن’ کی ضرورت ہے۔
بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک تحریری انٹرویو میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ چین کے ساتھ کسی بھی صورت میں…
View On WordPress
0 notes
Photo
آئی ایس آئی زندہ باد اظہر سید پاک فوج کے حکمت ساز جنرلوں نے شاندار چھکا مارا ہے پہلے چین روس اور پاکستان افغانستان میں امریکیوں کی پراکسی داعش ک�� خلاف مشترکہ حکمت عملی پر کام کر رہے تھے۔ اب اس میں ایران کو بھی شامل کر لیا ہے جو زبردست کارنامہ ہے ،اس کے دو فائدے ہوں گے ۔ ایران بھارت سے دور ہو جائے گا اور ایرانی سرزمین کو ماضی کی طرح پاکستان کے خلاف استعمال کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا ۔ ایران کے ساتھ منسلک بلوچستان کی سرحدوں پر پاک فوج کے دستوں کو وہاں سے دیگر ضروری علاقوں یعنی افغان سرحد کے ساتھ تعینات کیا جاسکے گا ۔ بلوچ نوجوانوں کی ماضی کی طرح افغان سرزمین میں تربیتی سہولتیں فراہم کرنا ممکن نہیں رہے گا ۔ پہلے عوامی جمہوریہ چین پاکستان کی مدد کر رہا تھا اب اس میں ایران کی مدد بھی شامل ہو جائے گی ۔مستقبل قریب میں سی پیک کے کھلے دشمنوں چین اور بھارت کیلئے بلوچ عسکریت پسندوں کو اس اہم ترین دفاعی اور معاشی منصوبے کے خلاف استمال کرنا بھی ناممکن ہو جائے گا ۔ ہمیں ہمیشہ اس بات پر اعتراض رہا ہے کیوں ایرانی صدر کی عین پاکستان آمد کے دن ایرانی سرزمین س�� اپریٹ ہونے والے کلبھوشن یادو کا معاملہ اچھالا گیا ۔ ایرانی صدر کے دورہ کے خاتمہ کا انتطار کیوں نہیں کیا گیا اور کیوں دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کا موقع فراہم کیا گیا تاہم نئی پیش رفت سے لگتا ہے پاک ایران غلط فہمیاں دور ہو چکی ہیں اس میں شائد ایران کے نیوکلر معاہدے سے امریکی فرار اور ایران پر پابندیاں بھی شامل ہیں لیکن جو بھی ہے داعش کے خلاف چار ملکی اتحاد افغانستان میں امریکہ بھارت اتحاد کیلئے ایک خوفناک خواب ثابت ہو نے جا رہا ہے اور یہ پیش رفت بہت خوش آئند ہے ، اس کارنامے پر آئی ایس آئی کے کردار کو خراج تحسین پیش کرنا کافی نہیں بلکہ سلوٹ مارنا بھی بنتا ہے ۔ آئی ایس آئی نے بلوچستان پاکستان کے قبائلی علاقہ جات اور ملک بھر میں دنیا بھر کی خفیہ ایجنسوں کے خلاف اکیلئے چومکھی لڑائی لڑی ہے اور کامیابی حاصل کی ہے ۔ نہ جانے کتنے جوان رعنا خاموشی سے مٹی کا قرض اتارتے ہوئے تاریک راہوں میں گم ہو گئے ۔ بلوچستان میں کوئی وقت تھا دنیا کی درجنوں خفیہ ایجنساں پاکستان کے خلاف سرگرام عمل تھیں آئی ایس آئی اکیلی ان سے نبرد آزما تھی ، اس وقت جب ائی ایس آئی کے پاس دس ہزار بامشکل ہوتے تھے کہ کسی کو پاکستان کے مفاد میں دے سی ائی اے والے دس ہزار ڈالر سے شروع ہوتے تھے لیکن یہ تمام ایجنساں شکست کھا چکی ہے ۔ اب تو چینی بھی مدد کو آچکے ہیں پھر روسی آگئے اور اب ایرانی بھی ساتھ مل گئے ہیں ہمیں نہیں لگتا کہ امریکی بھارتی اتحاد کا افغانستان میں قیام اب زیادہ طویل ہو گا انہیں جانا ہو گا جس طرح ترکی کے الگ ہونے سے شام اور عراق سے امریکی رجوع کر رہے ہیں اسی طرح چار ملکی اتحاد کی وجہ سے افغانستان سے بھی امریکی جائیں گے اور یہ تمام کارنامہ آئی ایس آئی کا ہے ۔ اخبار نویس غدار نہیں ہوتے بلکہ جو صحافی حکومتی اور اداروں کی پالیسوں پر تنقید کرتے ہیں وہ معاشرے کے ماتھے کا جھومر اور بہت قیمتی ہوتے ہیں انہیں افغانستان میں موجود کوئی دہشت گرد تنظیم دھمکی دے تو آئی ایس آئی کو انکی حفاظت کا بھر پور بندوبست کرنا ہوگا ۔ایک نیا الڑٹ جاری ہوا ہے جس میں مطیع اللہ جان ،عمر چیمہ ،وحید مراد اور اعزاز سید شامل ہیں جبکہ تبرک کے طور پر حامد میر کا نام بھی شامل کر دیا گیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں آئی ایس آئی اس سازش کا پردہ چاک کرے جن صحافیوں پر دہشت گردوں کے حملے کا خطرہ ظاہر کیا گیا ہے وہ چاروں بعض پالیسوں کے ناقد ہیں اور سچے پاکستانی کے طور پر ان پالیسوں کو ملک و قوم کیلئے خطرہ اور نقصان دہ سمجھتے ہیں، انہیں کچھ ہوا تو الزام اداروں پر لگا دیا جائے گا ۔ہم نہیں سمجھتے کوئی دہشت گرد تنظیم محض انہیں خوف زدہ کرنے کیلئے اس طرح کی کوئی اطلاع کسی زریعے سے لیک کرائے گی ،فوجی کا خون مقدس ہے لیکن اس کے پاس جواب دینے کیلئے بندوق موجود ہے ۔ صحافی کا خون زیادہ مقدس ہے کیونکہ اس کے پاس جواب دینے کیلئے بندوق نہیں صرف قلم ہے ۔ قلم کی عزت کی قسم اللہ تعالی نے کھائی ہے، اس قلم کی حفاظت کیلئے آئی ایس آئی کو ضرور ہی اپنا کردار کرنا ہو گا ۔ آئی ایس ائی میں آج جو لوگ موجود ہیں کل وہ ریٹائر ہو جائیں گے لیکن صحافی ریٹائر نہیں ہوتا ۔ جتنا محب وطن کوئی فوجی ہے اتنا ہی محب وطن کوئی صحافی بھی ہے نکتہ نظر کا فرق ہو سکتا ہے نیت پاکستان کی ترقی اور حفاظت ہوتی ہے۔
0 notes