#کورونا ٹیسٹنگ
Explore tagged Tumblr posts
Text
ٹیسٹ سیریز: ویسٹ انڈیز میں موجود قومی سکواڈ کی کورونا ٹیسٹنگ مکمل
ٹیسٹ سیریز: ویسٹ انڈیز میں موجود قومی سکواڈ کی کورونا ٹیسٹنگ مکمل
جمیکا : ٹیسٹ سیریز کے لئے ویسٹ انڈیز میں موجود قومی کرکٹ سکواڈ کی کورونا ٹیسٹنگ مکمل ہوگئی جس کی رپورٹ آج موصول ہوگی۔ قومی کرکٹرز اور سپورٹ سٹاف نے اپنے اپنے کورونا ٹیسٹ دیئے ہیں ،نتائج منفی آنے کی صورت میں کھلاڑیوں کو ٹریننگ کی اجازت ہوگی۔ پی سی بیور فرنچائزز میں نیا اختلاف سامنے آ گیا واضح رہے کہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز میں پہلا ٹیسٹ میچ 12 اگست سے جمیکا میں شروع ہوگا۔
View On WordPress
0 notes
Photo
24 گھنٹوں کے دوران مزید83 کورونا مریض جاں بحق ،2980 نئے کیس رپورٹ یومیہ ٹیسٹنگ صلاحیت کتنی ہوگئی ؟جانئے اسلام آباد( آن لائن) پاکستان میں کورونا وائرس کے سبب 4ہزار 922 افراد جاں بحق اور 2 لاکھ 37 ہزار 489 متاثر ہو چکے ہیں۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق گزشتہ24 گھنٹوں کے دوران ملک بھرمیں کورونا کے 2ہزار980 نئے کیسزرپورٹ ہوئے اور 83افرادجاں کی بازی ہار گئے۔
0 notes
Text
چومسکی اور بعد از کورونا زندگی
نوم چومسکی کا شمار بیسویں اور اکیسویں صدی کے ان گنے چنے روشن خیال دانشوروں میں ہوتا ہے جن کے سیاسی ، سماجی و اقتصادی تجزیات و خطابات کو عالمی سطح پر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اگر جدید سرمایہ دارانہ نظام کے کھلائے گئے شگوفوں، سپر پاورز بالخصوص امریکا کے فیصلہ سازی کے ظاہری و باطنی نظام اور اس نظام کی ڈوریاں ہ��انے والوں کو سمجھنا ہو۔ یا پھر یہ سمجھنا ہو کہ کلاسیکی اور جدید نوآبادیاتی دور نے تیسری دنیا کو کس طرح قیادتی و اقتصادی طور پر بانجھ کیا اور عالمگیریت ( گلوبلائزیشن) کے نام پر کیسے کیسے فطرت کی دودھیل گائے کا آخری قطرہ نچوڑ کر اسے اندھا دھند لالچ کے بینک اکاؤنٹس میں بھرنے اور پھر اس دولت سے مزید استحصال کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے شکنجہ سازی ہو رہی ہے اور کس طرح عالمگیریت کے تابوت میں انسانی و قدرتی وسائل کو لٹا کر اس تابوت کو طفیلی کہاروں کے کندھے پر رکھ کے آخری جنازہ گاہ کی جانب لے جایا جا رہا ہے ؟ یہ سب سمجھنے کے لیے نوم چومسکی ان گنے چنے دانشوروں میں بچ گئے ہیں جن کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔ فی الحال پیشِ خدمت ہے کورونا اور بعد از کورونا زندگی سے متعلق چومسکی کے خیالات کی تلخیص ۔ ’’ اس وائرس کوپھیلنے سے روکا جا سکتا تھا۔ وبا پھیلنے سے لگ بھگ دو ماہ پہلے گذشتہ برس اکتوبر میں امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سینٹر فار ہیلتھ سیکیورٹی میں عالمی اقتصادی فورم اور بل اینڈ ملنڈا فاؤنڈیشن کے تعاون سے ایک ممکنہ عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے ایونٹ دو سو ایک کے نام سے کمپیوٹرائزڈ مشق کی گئی۔ اس مشق سے جو نتائج اخذ کیے گئے ان کو کسی سیاسی فیصلہ ساز نے نہ دھیان سے پڑھا نہ کوئی حکمتِ عملی بنانے کا تکلف کیا۔ مگر فیصلہ ساز اب یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ انھیں پیشگی خبردار نہیں کیا گیا تھا اور مصیبت ان پر اچانک ٹوٹی۔
اکتیس دسمبر کو چین نے عالمی ادارہِ صحت کو ایک نامعلوم وائرس سے پھیلنے والے نمونیہ جیسے مرض کے بارے میں خبردار کیا۔ ایک ہفتے بعد کچھ چینی سائنسدانوں نے اسے کورونا وائرس کے طور پر شناخت کیا اور اس بارے میں انھیں جتنا بھی معلوم تھا متعلقہ ماہرین کو آگاہ کر دیا۔ لیکن جب چین سے باہر وائرولوجی کے ماہرین تک یہ تفصیل پہنچی تو کیا انھوں نے یا ان کی حکومتوں نے کوئی تدبیر سوچی ؟ چین کے علاوہ جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور نے کم از کم وائرس کے پہلے ہلے کو روکنے کے لیے احتیاطی اقدامات شروع کر دیے۔یورپ کو پہلے تو حالات کی سنگینی کا احساس نہ ہوا اور جب ہوا تو ہر کسی نے انفرادی طور پر جو مناسب سمجھا کرنا شروع کر دیا۔ جرمنی کو تیزی سے ادراک ہوا اور اس نے ہنگامی طور پر عمومی ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھانا شروع کر دی۔مگر جرمنی نے ہمسائیہ ممالک سے تعاون اور معلومات کے تبادلے کے بجائے ان اقدامات کو خود تک محدود رکھا اور وائرس کو محصور کرنے میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا۔ باقی ممالک اسے نظرانداز کرتے رہے اور قیمتی وقت ضایع ہوتا رہا۔ اس معاملے میں یورپ کی حد تک سب سے ناقص پالیسی برطانیہ کی اور اس سے بھی بدتر پالیسی امریکا کی رہی۔ ایک دن ٹرمپ نے کہا یہ تو معمولی سا فلو ہے۔ اس سے کوئی بڑا بحران پیدا نہیں ہو گا اور اگلے دن اسی ٹرمپ نے کہا یہ ایک بدترین بحران ہے اور میں تو پہلے دن سے جانتا تھا اور پھر چند روز بعد یہی ٹرمپ کہہ رہا تھا ہمیں پھر سے معمولات بحال کرنے ہوں گے کیونکہ مجھے الیکشن لڑنا ہے۔ ٹرمپ کو سن سن کر میرے لیے کورونا سے بھی زیادہ خوفناک یہ تصور ہے کہ یہ دنیا اس وقت کن مسخروں کے ہاتھوں میں ہے اور ان کے سبب ہم سب عالمی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کی کگار سے جھول رہے ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ امریکا اس وقت کورونا سے متاثر سب سے بڑا ملک ہے اور ایک سو نوے سے زائد ریاستوں میں یہ وائرس پنجے گاڑ چکا ہے۔
ٹرمپ اور اس کے چیلوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون سب سے پہلے خاتمے کے دہانے تک پہنچتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دو نہائیت سنگین خطرے ہمارے سروں پر پہلے ہی سے تلوار جیسے لٹک رہے ہیں۔ جوہری تصادم اور عالمی درجہِ حرارت میں اضافہ۔ کورونا تباہی کے نشانات چھوڑ کے ایک دن رخصت ہو جائے گا مگر اس تباہی کی آگے چل کر بھرپائی ممکن بھی ہے۔ البتہ باقی دو خطرے ایسے ہیں جن سے واپسی ممکن نہ ہو گی۔ سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ اس وقت بھی ٹرمپ ایران پر سے اقتصادی شکنجہ ڈھیلا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بدقسمتی سے آج بھی امریکا کے ہاتھ میں اتنی طاقت ہے کہ جو نہ مانے اسے عالمی مالیاتی نظام سے باہر کیا جا سکتا ہے۔ مگر امید کی کرن بھی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بلا ٹلنے کے بعد عالمی سطح پر ایسی سوچ پروان چڑھے کہ آخر ہم کیسی دنیا میں محفوظ رھ سکتے ہیں۔ پندرہ برس پہلے جب سارس نامی وائرس نے سر اٹھایا تھا، اس وقت طبی لیبارٹریوں میں اسی خاندان کے اگلے وائرس سے نمٹنے کے لیے ویکسین کی تیاری کا کام شروع ہو سکتا تھا۔
مگر بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں چونکہ منافع کی دوڑ میں شامل نجی ہاتھوں میں ہیں لہذا ان کور چشموں کو ویکسین کی تیاری پر پیسہ لگانے سے زیادہ فوری دمڑی بنانے کے لیے نئی باڈی کریم کی مارکیٹنگ میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ ذرا سوْچئے اگر سن پچاس کی دہائی میں پولیو ویکسین کسی سرکاری امریکی لیبارٹری میں بننے کے بجائے کسی نجی کمپنی کی لیبارٹری میں بنتی اور اس کے جملہِ حقوق پوری دنیا کے نام ہونے کے بجائے کسی ایک شخص کے نام ہوتے تو آج دنیا میں پولیو کی کیا صورت ہوتی ؟ آج بھی ضرورت ہے کہ کورونا کے لیے جو بھی ویکسین تیار ہو اس کے حقوق کرہِ ارض کے تمام باسیوں کے نام ہوں۔ورنہ کورونا کروڑوں زندگیوں کی قیمت پر چند لوگوں کے لیے ایک اور سونے کی کان بن جائے گا۔ اس وبا کے ٹلنے کے بعد دنیا میں دو تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ یا تو لوگوں کے تحفظ کے نام پر آمریت کا شکنجہ اور کس ��ائے گا یا پھر عالمی سماج کو اندھے منافع ک�� وائرس سے آزاد کرکے ایک زیادہ انسان دوست سماج کی تعمیر کی تحریک زور پکڑ جائے گی۔ فی الحال امکانات ففٹی ففٹی ہیں‘‘۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
کرونا وائرس : پاکستانی ڈاکٹر کن حالات میں ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں؟
رات کے دو بجے ہیں، گھڑی کی ٹک ٹک ماحول کے شور میں کہیں کھو سی گئی ہے۔ بعض اوقات شدید مصروفیت میں وقت رک سا جاتا ہے۔ میں الائیڈ ہسپتال کے ہڈی و جوڑ وارڈ میں موجود اپنی خدمات پہ معمور ہوں، نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے، سونے کے لیے جب بھی آنکھیں موندوں، کسی مریض کا لواحق ڈاکٹرز روم کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے کہ ہمارا مریض چیک کریں ہے اور میرے سن ہوتے وجود میں ایک بار پھر خون دوڑنے لگتا ہے۔ میں اس کے بیڈ پر جاتا ہوں، دوا لکھتا ہوں۔ اور واپس ڈاکٹرز روم میں آ جاتا ہوں۔ یہ سلسلہ صبح آٹھ بجے سے جاری و ساری ہے، 24 گھنٹے کی کال ختم ہونے میں ابھی بھی چھ گھنٹے باقی ہیں۔ میرے تمام سینیئر ڈاکٹر میری مدد کے لیے آن کال موجود ہیں اور کسی بھی پریشانی پر میرے لیے دوڑے چلے آنے پہ آمادہ ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے، مجھے میرے دوست ڈاکٹر فرحان کی کال آئی تھی، وہ کہہ رہا تھا کہ سحری اکٹھے کریں گے اور یوں میرے خشک ہوتے ہونٹوں پہ مسکراہٹ در آئی۔
یہ صرف میری جانفشانی کی کہانی نہیں، یہ ہر اس ڈاکٹر کی کہانی ہے، جو ہر سرکاری و نجی ہسپتال میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ اپنا سکون و آرام برباد کر کے انسانیت کی بےلوث خدمت کر رہے ہیں۔ اپنے اس حلف کا مان رکھے ہوئے ہے کہ فیلڈ میں جا کے ملک و قوم کی خدمت میں جان لگا دینی ہے اور کسی خوف اور پریشانی کو ڈیوٹی پہ حاوی نہیں ہونے دینا۔ کرونا (کورونا) وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ڈاکٹر ہو رہے ہیں، میرے اپنے وارڈ کے 13 ڈاکٹر قرنطینہ میں ہیں اور ٹیسٹنگ کے عمل سے گزر رہے ہیں، اسی وجہ سے باقی ڈاکٹروں پر کام کا بوجھ زیادہ ہے، یہ سرجیکل وارڈ کی صورت حال ہے، میڈیسن وارڈ کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ ہر ڈاکٹر اپنی ہمت سے زیادہ کام کر رہا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے ان سب خدمات کے باوجود بھی ہم ڈاکٹروں کو گالیاں دیتے ہیں، ان سے بدتمیزی کرتے ہیں، لواحقین ڈاکٹروں پر ہاتھ تک اٹھا دیتے ہیں، سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہمیں چلاتے ہیں اور حکام بالا تک بات بھی پہنچاتے ہیں جو ان کی سن کر ڈاکٹروں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہیں۔
میری ذاتی زندگی اور روزمرہ کی روٹین اسی ہسپتال کی فضا میں گم ہو گئی ہے۔ مجھے اپنے دوستوں سے بات کیے بھی عرصہ دراز ہو گیا ہے، کوئی کسی وارڈ میں مصروف ہے تو کوئی کسی اور میں، جس دن میری چھٹی ہوتی ہے، وہ ڈیوٹی پر ہوتے ہیں اور چل سو چل، اگر قسمت اچ��ی ہو تو افطاری یا سحری پر ملاقات ہوتی ہے۔ یہ ملاقات بھی روایتی ملاقات نہیں ہوتی، ہم اپنے اپنے وارڈ کے مریض ہی ایک دوسرے سے ڈسکس کرتے ہیں۔ اب چونکہ پروفیشن میں آ گئے ہیں تو پوری طرح اس میں ڈھل گئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی ��ھی ڈاکٹر بغیر حفاظتی سامان کے کام کر رہے ہیں، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف بھی اسی صورت حال سے دوچار ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کرونا سے متاثرہ مریض آ رہے ہیں اور جو بھی ڈاکٹر ان کو چیک کرتا ہے، اس میں انفیکشن کا خطرہ بھی باقیوں کی نسبت زیادہ بڑھ جاتا ہے، لیکن یہ پھر بھی ان کو اتنی ہی لگن سے چیک کرتے ہیں۔
حفاظتی سامان کے لیے احتجاج کرتے ضرور ہیں، لیکن اگر سامان نہ بھی ملے، مریض کا معائنہ نہیں چھوڑتے۔ میرے اپنے ہی بہت پیارے سینئیر، ڈاکٹر مبشر ابرار بھی کرونا کا شکار ہو گئے تھے، ان کا علاج ابھی بھی جاری ہے، یہی صورت حال ہر دوسرے ڈاکٹر کی ہے۔ لیکن ان سب مشکل حالات کے باوجود جب ہماری دوا سے مریض کو سکون ملتا ہے، اس کے ساتھ آئے لوگ، جب دعائیں دیتے ہیں، شکریہ ادا کرتے ہیں تو ساری مشکلیں بھول جاتی ہیں، دل مطمئن ہو جاتا ہے، جو لوگ سوشل میڈیا پر گالیاں دیتے ہیں وہ پھر کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ شاید انہی خوبیوں کی وجہ سے ڈاکٹر اس قوم کا فخر ہیں، جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں، دوسروں کو سکون دینے کے لیے، اپنے سکون کی قربانی دیتے ہیں۔ حالات چاہے کتنے ہی ناساز کیوں نہ ہوں، یہ آپ کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
شفا تو خدا کی ذات دیتی ہے مگر اس کے وسیلے یہاں دنیا میں مخصوص لوگوں کی جانب سے ہی پہنچتے ہیں، سو خدا اور خدا کے وسیلوں کی قدر اور شکر گزاری انسان کے بڑے پن کی علامت ہے۔ فائنل ائیر میں سینیئر ہمیں سمجھایا کرتے تھے کہ آپ جس شعبے میں آ چکے ہیں، اس کا ایک ہی اصول ہے وہ ہے بے لوث خدمت، آپ کے لیے سب سے زیادہ اہم آپ کا مریض ہے، اب یہ بات سمجھ آ چکی ہے، اب ڈاکٹروں کو دن رات یوں کام کرتے دیکھتا ہوں، تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے مجھے اس شعبے کے لیے چنا۔ اب سحری کا وقت ہے، ڈاکٹر فرحان میرا انتظار کر رہے ہیں، باقی باتیں پھر سہی۔ دعا کیجیے کہ قوم کے سپوت اپنا کام اسی جانفشانی اور محنت سے کرتے رہیں اور ان کی زندگیاں محفوظ رہیں۔
ڈاکٹر محمد شافع صابر
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note
·
View note
Text
چین میں کورونا کے پھیلاؤ میں تیزی، لاکھوں افراد لاک ڈاؤن میں رہنے پر مجبور
چین میں کورونا کے پھیلاؤ میں تیزی، لاکھوں افراد لاک ڈاؤن میں رہنے پر مجبور
ہفتے کے روز چین میں مئی کے بعد سب سے زیادہ کورونا وائرس کے مثبت کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ حکام کی جانب سے مہلک وائرس کے خلاف انتہائی سخت پالیسی کے تحت لاکھوں لوگ لاک ڈاؤن میں رہنے پر مجبور ہیں۔ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق چین دنیا کی آخری بڑی معیشت ہے جو اب تک سخت لاک ڈاؤن، طویل قرنطینہ اور بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے وبا کو ختم کرنے کے ہدف کا…
View On WordPress
0 notes
Text
لاک ڈاؤن کے خدشات بڑھتے ہی بیجنگ نے بڑے پیمانے پر جانچ کو بڑھایا
لاک ڈاؤن کے خدشات بڑھتے ہی بیجنگ نے بڑے پیمانے پر جانچ کو بڑھایا
لوگ اپنے COVID ٹیسٹ کروانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ — اے ایف پی/فائل بیجنگ: بیجنگ نے منگل کو اپنے تقریباً 21 ملین باشندوں کے لیے بڑے پیمانے پر کورونا وائرس کی جانچ شروع کی، کیونکہ یہ ��دشہ بڑھ گیا کہ چینی دارالحکومت کو شنگھائی کی طرح سخت لاک ڈاؤن میں رکھا جا سکتا ہے۔ اپنی صفر-COVID پالیسی کے تحت، چین نے انفیکشن کو ختم کرنے کے لیے لاک ڈاؤن، بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور سفری پابندیوں کا استعمال کیا…
View On WordPress
0 notes
Text
چین میں کورونا ! ہزاروں طبی عملہ مدد کے لیے شنگھائی پہنچا
چین میں کورونا ! ہزاروں طبی عملہ مدد کے لیے شنگھائی پہنچا
چین میں کورونا ! ہزاروں طبی عملہ مدد کے لیے شنگھائی پہنچا چین،5اپریل( ایجنسیاں،الہلال میڈیا) چین نے ملک کے سب سے بڑے شہر میں COVID-19 پھیلنے سے نمٹنے میں مدد کے لیے 2000 فوجی طبی عملے کے ساتھ 10,000 سے زیادہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو تعینات کیا ہے۔ حکام نے شنگھائی کے تمام 26 ملین باشندوں کے لیے COVID-19 ٹیسٹ کیے، اور حکام نے بتایا کہ شہر بھر میں ٹیسٹنگ مہم پیر کی شام تک مکمل ہو…
View On WordPress
#26millionresidents#China_deploys#China_sends_military#Covid#doctors#masstestingdrive#Shanghai#Thousands
0 notes
Text
عوام کو کورونا ٹیسٹ خود کرنے کی اجازت، کٹ میڈیکل اسٹورز میں دستیاب ہوگی
عوام کو کورونا ٹیسٹ خود کرنے کی اجازت، کٹ میڈیکل اسٹورز میں دستیاب ہوگی
ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے کورونا ٹیسٹ کو مزید آسان بنانے کے لیے میڈیکل اسٹورز کو ٹیسٹنگ کٹ فروخت کرنے کی اجازت دے دی، جس کے تحت عوام خود ٹیسٹ کر سکیں گے۔ وفاقی وزارت صحت اور ڈریپ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ میڈیکل ڈیوائس بورڈ (ایم ڈی بی) کے 44ویں اجلاس میں اس معاملے پر تبادلہ خیال ہوا اور کورونا ٹیسٹ کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا۔ نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ…
View On WordPress
0 notes
Photo
ضلع سوات میں فضائی آلودگی کم کرنے کے لئے خصوصی آگاہی مہم کے تحت واک کا اہتمام سوات(سپاٹ سٹوری): محکمہ ٹرانسپورٹ خیبرپختونخوا کی جانب سے ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لئے خصوصی مہم جاری ہے۔ سیکرٹری ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا منظور خان اور ڈائریکٹر ٹرانسپورٹ خیبر پختونخوا فہد اکرام کی ہدایت پر ڈویژن کے سطح پر آلودگی کے خلاف آگاہی مہم کا آغاز 31 جنوری سے کیا گیا ہے جو کہ چار فروری 2022 تک جاری رہے گی۔ ضلع سوات میں مہم کا آغاز سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی عبیداللہ خان اور وھیکل ایمیشن ٹیسٹنگ سٹیشن ضلع سوات کے انچارج امتیاز احمد کے زیرنگرانی کیا گیا تھا جبکہ گزشتہ روز اس سلسلے میں خصوصی آگاہی واک کا اہتمام کیا گیا۔ واک سیدو شریف میں میڈیکل کالج چوک سے شروع ہو کر میوزیم اور گراسی گروانڈ سے گزر کر مکانباغ میں پریس کلب پر اختتام پذیر ہوا۔ واک میں مختلف محکموں، سول ڈیفنس، پولیس و سکولوں کے طلباء اور عوام نے شرکت کی۔ واک کے دوران کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کیا گیا اور ماسک تقسیم کئے گئے۔ واک کے شرکاء نے بینرز اٹھائے ہوئے تھے اور اس دوران آگاہی پمفلیٹ بھی لوگوں میں تقسیم کئے گئے۔ سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی عبیداللہ خان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ مینگورہ میں بے بڑھتی ٹریفک کی وجہ سے آلودگی بڑھ رہی ہے اور اس سلسلے میں ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی متعدد اقدامات کے ساتھ ساتھ آگاہی پر بھی توجہ دے رہی ہے۔ ضلع سوات میں وھیکل ایمیشن ٹیسٹنگ سٹیشن کے انچارج امتیاز احمد کا کہنا تھا کہ گاڑیوں سے اخراج ہونے والے دھوئے کی ٹیسٹنگ جدید طریقوں سے کی جارہی ہے اور یہ عمل سال بھر جاری رہتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لئے خصوصی مہم بھی چلائی جارہی ہے۔ انہوں نے گاڑی مالکان پر زور دیا کہ گاڑیوں کی ٹیسٹنگ ہر چھہ ماہ بعد یقینی بنائیں۔ (at Swat KPK Pakistan) https://www.instagram.com/p/CZeZJ3PhNDO/?utm_medium=tumblr
0 notes
Text
چینی طبی ماہرین کا دورہِ پاکستان
چین سامان تو بھیج ہی رہا ہے۔ ساتھ ساتھ پاکستانی فیصلہ سازوں کی تیاری اور ذہن کا جائزہ لینے کے لیے حال ہی میں اس نے طبی ماہرین کی نو رکنی ٹیم بھی بھیجی۔ یہ ٹیم انتظام و صحت کے وفاقی و صوبائی عمل داروں سے ملی اور چند مفید مشورے بھی دیے نیز وہ مجربات بھی بتائے جن کی مدد سے چین اس وائرس کو فی الحال پسپا کرنے میں کامیاب ہوا۔ یعنی جزوی کے بجائے مکمل لاک ڈاؤن۔اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ سماجی دوری ( سوشل ڈسیٹینسنگ ) بھی خود بخود ہو جائے گی۔ لاک ڈاؤن توڑنے والوں کے خلاف فوری کارروائی تاکہ دوسرے محتاط رہیں۔ لاک ڈاؤن صرف کورونا کے پھیلاؤ کو سست کرے گا۔ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ ��ے زیادہ ٹیسٹنگ کی جائے اور پازیٹو افراد کو نیگیٹو افراد سے علیحدہ کر کے ایسے قرنطینہ مراکز میں منتقل کیا جائے جہاں ان کی تسلی بخش دیکھ بھال ہو سکے۔ جب کہ لاک ڈاؤن آبادی کو دہلیز پر بنیادی اشیا پہنچائی جائیں اور ایمرجنسی کی صورت میں ان شہریوں کی مدد کے لیے تمام ادارے ہمہ وقت مستعد رہیں۔ یہی ایک طریقہ ہے اس موذی سے لڑنے کا جب تک کوئی ویکسین نہیں بن جاتی۔
چینیوں نے تو اپنے بھول پن میں یہ مخلصانہ مشورے دے دیے کیونکہ ان کے پاس نہ صرف طے شدہ پالیسی پر من و عن عمل کروانے کا اوپر سے نیچے تک منظم ڈھانچہ موجود ہے بلکہ اس پالیسی کے نفاذ کے لیے مطلوبہ وسائل اور کام کو صرف کام سمجھنے والی تربیت یافتہ افرادی قوت اور ہدف کو وقت سے پہلے پورا کر کے سبقت لے جانے والا جذبہ بھی وافر ہے۔ مگر ہم ان مشوروں پر کیسے عمل کریں۔ ہم تو ان کا اچار بھی نہیں ڈال سکتے۔ چین میں طاقت اور اختیار کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ مگر یہاں وبا ہو نہ ہو یہی پتہ نہیں چلتا کہ اصل اختیارات کتنے اداروں یا لوگوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ چین میں تو حکمرانوں کی شائد دو ہی آنکھیں ہوں۔ مگر ہمارے ہاں تو جس کے پاس بھی ذرا سا اختیار ہے اسے کم ازکم چار آنکھوں کی ضرورت ہے۔ ان چار میں دو تو وہ ہیں جو ہر ایک کو قدرت نے ودیعت کی ہیں۔ ایک آنکھ پشت پر ہو تاکہ پیٹھ پیچھے مہربانوں پر نظر رکھی جا سکے اور ایک آنکھ ماتھے پر جو بوقت ضرورت استعمال ہو سکے۔
چین میں اگر کوئی افلاطون یا سقراط ہے بھی تو ایک یا زیادہ سے زیادہ دو۔ مگر ہمارے ہاں تو صدر سے نائب قاصد تک ہر کوئی سقراط کا باپ ہے۔ چین میں اگر بنیادی راگ سات ہیں تو ہمارے ہاں سات ہزار اور ان سات ہزار راگوں کو اپنے اپنے ڈھنگ سے ال��پنے والوں کی تعداد کا آپ خود اندازہ لگا لیں۔ مثلاً عالمی ادارہِ صحت اور چین سمیت کورونا سے نبردآزما متعدد ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شدید متاثرین کو فوراً گھروں سے نکال کر کسی ایسی جگہ پر آئسولیشن میں رکھا جائے جہاں طبی عملہ ان پر نظر رکھے۔ انھیں صرف گھروں کے قرنطینہ میں رہنے کے وعدے پر نہ چھوڑا جائے۔ چنانچہ ارجنٹینا سے لے کر جنوبی کوریا تک اس مقصد کے لیے بڑے بڑی اسٹیڈیمز کو بھی قرنطینہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہمارے ہاں بھی حکومتِ سندھ نے کورونا متاثرین کے لیے کراچی کے ایکسپو سینٹر میں کئی ہفتے پہلے دس ہزار بستروں پر مشتمل عارضی طبی مرکز بنانے کا اعلان کیا۔اس کا تصویری افتتاح بھی ہو گیا۔ لاہور میں حکومتِ پنجاب نے ایک ہزار بستروں پر مشتمل عارضی علاج گاہ تیار کرنے کی نوید سنائی۔ وزیرِ ریلوے نے اعلان کیا کہ چونکہ ٹرین سروس بند ہے لہذا خالی بوگیوں کو قرنطینہ مرکز کے طور پر تیار کر لیا گیا ہے۔
مگر آج کی تاریخ تک ان میں سے کسی ایک سہولت کو ��ملاً پازیٹو مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکا۔ صوبائی حکومتیں ان سہولتوں کا استعمال چاہتی ہیں مگر وفاقی سطح پر جو پالیسی گائیڈ لائنز جاری کی گئی ہیں ان میں متاثرہ افراد پر بھروسہ کیا گیا ہے کہ وہ گھروں میں رہتے ہوئے اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے تحفظ کے لیے رضاکارانہ طور پر قرنطینہ کے اصولوں پر عمل کریں اور صرف مرض کی شدت کی صورت میں ہی اسپتالوں میں داخل کیے جائیں کیونکہ اسپتالوں پر پہلے ہی بوجھ ہے اور وسائل ناکافی ہیں۔ اس کا نتیجہ اب یہ نکل رہا ہے کہ کراچی کی ایک کچی آبادی میں ایک ہی خاندان کے سات کے سات افراد کورونا پازیٹو نکلے۔ یہ وہ ٹائم بم ہے جو کچی آبادیوں کی گنجان گلیوں میں بس پھٹا ہی چاہتا ہے۔
سب سے زیادہ ابتدائی کیسز ایران سے آنے والے زائرین اور تبلیغی جماعت کے ارکان میں آئے مگر انھیں نسبتاً زیادہ سہولت اور مناسب دیکھ بھال کے لیے تیار شدہ مراکز میں منتقل کرنے کے بجائے ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے انھی کے مراکز یا افراتفری میں قرار دیے گئے قرنطینہ میں ڈال دیا گیا۔ یعنی تفتان کی بدانتظامی کے نتائج سے کچھ سیکھنے کے بجائے ان نتائج کو بیسیوں نئے مراکز پر لاگو کر دیا گیا۔ پڑھے لکھے متمول لوگوں کے بارے میں فرض کر لیا گیا کہ یہ باشعور لوگ نہ صرف خود کو بلکہ اردگرد کے لوگوں کو بچانے کے لیے بھی احتیاط کریں گے چنانچہ ان میں سے جس جس نے بھی کہا کہ فکر نہ کیجیے میں اپنے آٹھ بیڈ رومز کے بنگلے میں جاتے ہی خود کو آئسولیٹ کر لوں گا۔ اس کی بات پر یقین کر لیا گیا۔ صوبائی ڈّزآسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اہلکاروں سے بات چیت کے بعد بی بی سی اردو پر شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق متمولین سے اس نرمی اور مروت کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور میں اس وقت تک جتنے کورونا پازیٹو سامنے آئے ہیں ان میں سے لگ بھگ آدھے بحریہ ، ڈیفنس ، ماڈل ٹاؤن ، گلبرگ یا آس پاس کے علاقوں میں پائے گئے ہیں۔
پولیس باہر لاک ڈاؤن پر عمل کروا رہی ہے اور اندر پارٹیاں اور اجتماعی کھانے چل رہے ہیں۔ کس مائی کے لال پولیس والے میں جرات ہے کہ کسی بنگلے کی بیل بجا کر کہہ سکے کہ صاحب سے کہو کہ وہ پورے علاقے کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ مارکیٹنگ سروے کرنے والی ایک بین الاقوامی کمپنی ایبسوس نے پاکستان میں کورونا وائرس کی آگہی ناپنے کے لیے فروری اور مارچ کے دوران چاروں صوبوں میں جو عوامی سروے کیا اس میں شہری اور دیہی علاقوں میں ایک ہزار افراد سے انٹرویوز کیے گئے اور جو نتائج اخذ کیے گئے ان کے مطابق ستاسی فیصد لوگ کورونا کے خطرے سے آگاہ ہیں۔ لگ بھگ نوے فیصد لوگ گھر سے جاتے اور آتے وقت ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اٹھاسی فیصد ماسک کی افادیت سے آگاہ ہیں ، چھیاسٹھ فیصد سمجھتے ہیں کہ فی الحال مصافحہ اور معانقہ مناسب نہیں ، سینتالیس فیصد قائل ہیں کہ پرہجوم جگہوں سے پرہیز بہترہے۔
تینتالیس فیصد کا خیال ہے کہ نئی ٹائیگر فورس بنانے کے بجائے پہلے سے موجود تنظیموں اور بلدیاتی ڈھانچے سے لوگوں کی مدد کا کام لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے اور چھپن ��یصد کا خیال ہے کہ چونکہ ہر محلے میں مساجد کا نیٹ ورک ہے لہذا ان مساجد کو آگہی اور فلاحی و ریلیف کے مراکز کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام اتنے بے خبر نہیں جتنا ہم ڈرائنگ رومیے دانشور سمجھتے ہیں مگر بھلا ہو ہمارے کچھ اینکرز ، سوشل میڈیائی پنڈت اور تھڑے سے شایع ہونے والا سینہ گزٹ کا جس نے کورونا سے متعلق عوام کی درست تعلیم کے بجائے اپنی افلاطونیوں سے اذہان الجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مثلاً اسی سروے کے مطابق سڑسٹھ فیصد کا خیال ہے کہ باجماعت نماز سے وائرس نہیں پھیل سکتا۔ اڑتالیس فیصد سمجھتے ہیں کہ مصافحے سے کورونا نہیں پھیلتا۔ انتالیس فیصد سمجھتے ہیں صرف ہاتھ دھونا کافی ہے ، اٹھاون فیصد کا خیال ہے موسمی درجہِ حرارت میں اضافے سے کورونا ختم ہو جاتا ہے۔
پچاس فیصد سمجھتے ہیں کہ ہمارا جسمانی دفاعی نظام باقی قوموں سے زیادہ مضبوط ہے لہذا ہمیں کورونا سے اتنا زیادہ خطرہ نہیں۔ پینتالیس فیصد کا خیال ہے کہ کورونا صرف پچپن برس سے اوپر کے لوگوں کے لیے خطرناک ہے۔ انتالیس فیصد کا خیال ہے کہ بچے کورونا سے متاثر نہیں ہوتے۔ سینتیس فیصد سمجھتے ہیں کہ جسے کورونا ہو جائے وہ زندہ نہیں بچتا۔ تینتالیس فیصد کا خیال ہے کہ پیاز ، لہسن ، کلونجی اور تل وغیرہ استعمال کر کے کورونا سے بچا جا سکتا ہے۔ تیس فیصد کا خیال ہے کہ کورونا سے گھریلو ملازم اور صفائی کرنے والا عملہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ تینتالیس فیصد کا خیال ہے کہ کورونا ایک خاص فرقے اور عقیدے والوں میں زیادہ پھیل رہا ہے اور تینتالیس فیصد سمجھتے ہیں کہ کورونا کا پھیلاؤ امریکا اور اسرائیل کی سازش ہے۔
خون تھوکے، کبھی روئے کبھی تقریر کرے ایسے پاگل کے لیے کیا کوئی تدبیر کرے ( احمد نوید )
چینی کی طبی ماہرین کی ٹیم اب واپس جا چکی ہے۔ جانے وہ کیا رپورٹ دے گی؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
تعلیمی شعبے کیلئے کورونا پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ
تعلیمی شعبے کیلئے کورونا پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ
نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر نے تعلیمی شعبے کیلئے کورونا پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ کر لیا. این سی او سی کی جانب سے یکم فروری سے 12 سال سے زائد عمر کے طلباء کی ویکسی نیشن لازمی قرار دیدی گئی ہے ، ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں کورونا ٹیسٹنگ کا عمل جاری رہے گا ، ٹیسٹنگ کے نتائج کی بنیاد پر تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق این سی او سی نے تعلیمی شعبے کیلئے…
View On WordPress
0 notes
Text
کورونا کی زیادہ شرح والے تعلیمی ادارے ایک ہفتے کیلیے بند - اردو نیوز پیڈیا
کورونا کی زیادہ شرح والے تعلیمی ادارے ایک ہفتے کیلیے بند – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین اسلام آباد: نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے کورونا کی زیادہ شرح والے تعلیمی اداروں کو ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق این سی او سی نے ملک میں کورونا کی نئی لہر کے پیش نظر تعلیمی اداروں میں آئندہ 2ہفتوں کیلئے بڑے پیمانے پر کورونا ٹیسٹنگ کرنے جبکہ زیادہ شرح والے تعلیمی اداروں کو ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ این سی او سی کے…
View On WordPress
0 notes
Text
چین میں ایک سال سے زیادہ عرصے میں پہلی COVID اموات کی اطلاع ہے۔
چین میں ایک سال سے زیادہ عرصے میں پہلی COVID اموات کی اطلاع ہے۔
بیجنگ، چین میں 18 مارچ 2022 کو کورونا وائرس کی بیماری (COVID-19) کے پھیلنے کے بعد موبائل نیوکلیک ایسڈ ٹیسٹنگ سائٹ پر برفباری کے درمیان لوگ قطار میں کھڑے ہیں۔ – رائٹرز جیلن کے شمال مشرقی علاقے میں COVID کی وجہ سے دو افراد کی موت ہو گئی۔ چین نے 2021 میں صرف دو کوویڈ اموات کی اطلاع دی۔ تازہ ترین اموات سے چین کی مجموعی تعداد 4,638 ہوگئی۔ شنگھائی / بیجنگ: مینلینڈ ��ین نے ہفتے کے روز ایک سال سے زیادہ…
View On WordPress
0 notes
Text
کورونا کے ساتھ جینا برطانیہ پابندیاں ختم کرنے کے لیے تیار
کورونا کے ساتھ جینا برطانیہ پابندیاں ختم کرنے کے لیے تیار
کورونا کے ساتھ جینا برطانیہ پابندیاں ختم کرنے کے لیے تیار لندن ، 21فروری ( آ ئی این ایس انڈیا ) برطانیہ میں اگلے ہفتے سے کورونا میں مبتلا افراد کو قانونی طور پر آئی سولیشن اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی، حکومت کی جانب سے ’کورونا کے ساتھ جینا‘ نامی منصوبے کا آغاز کیا جا رہا ہے، جس کے بعد ٹیسٹنگ کی شرح کم ہونے کا بھی امکان ہے۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم بورس جانسن نے…
View On WordPress
0 notes
Text
اب آپ کا ماسک کورونا وائرس کی خبر خود دے گا، مگر کیسے
اب آپ کا ماسک کورونا وائرس کی خبر خود دے گا، مگر کیسے
عالمی وبا کورونا وائرس کے آنے بعد سے اب تک دنیا بھر کے سائنسدان اس کے علاج، سدباب اور وباء کے پھیلاؤ پر قابو پانے کی کوشش میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ سائنسدانوں کی جانب سے مسلسل ایسے نئے ذرائع پر کام کیا جارہا ہے جن کے ذریعے کورونا وائرس یا تشخیص اور علاج میں مدد مل سکے۔اس حوالے سے پی سی آر اور اینٹی جن ٹیسٹنگ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ماہرین کی جانب سے علامات کی نشاندہی کرنے والی ایپس،…
View On WordPress
0 notes
Text
کورونا وائرس کی موجودگی پر جگمگانے والے فیس ماسک کی تیاری
کورونا وائرس کی موجودگی پر جگمگانے والے فیس ماسک کی تیاری
سائنسدانوں کی جانب سے مسلسل ایسے نئے ذرائع پر کام کیا جارہا ہے جن کے ذریعے کورونا وائرس یا تشخیص میں مدد مل سکے۔ پی سی آر اور اینٹی جن ٹیسٹنگ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ماہرین کی جانب سے علامات کی نشاندہی کرنے والی ایپس، تھرموگرافک کیمرے، جانوروں اور بائیو سنسرز وغیرہ پر کام کیا جارہا ہے۔ مگر جاپانی سائنسدانوں نے لوگوں کے ارگرد کورونا وائرس کی موجودگی کو جاننے کے لیے ایک نئے اور منفرد طریقہ کار پر…
View On WordPress
0 notes