#چین میں کرونا
Explore tagged Tumblr posts
shiningpakistan · 2 years ago
Text
چین روس تعلقات میں کمان کس کے ہاتھ میں ہے؟
Tumblr media
ٹونی بلیئر کے دور سے تعلق رکھنے والے برطانوی خارجہ پالیسی کے آرکائیوز کی ریلیز اس وقت کی یاد دہانی کرواتی ہے جب دنیا کو امید تھی کہ روس کے اس وقت کے نوجوان نئے رہنما ولادی میر پوتن اپنی قوم کو پورے دل سے جمہوریت پسند بین الاقوامی برادری کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ سال 2001 میں ٹونی بلیئر نے دوسرے یورپی رہنماؤں اور واشنگٹن میں جارج ڈبلیو بش کی طرح روس کے ساتھ سفارتی طور پر بہت زیادہ توانائی خرچ کی۔ جارج بش نے اس وقت عوامی طور پر پوتن کے بارے میں کہا تھا کہ ’میں نے اس شخص کی آنکھوں میں دیکھا۔ میں نے انہیں بہت کھرا اور قابل بھروسہ پایا۔ میں نے ان کے اندر کے احساس کو جان لیا تھا۔‘ ادھر ٹونی بلیئر نے صدر پوتن کو چاندی کے کفلنک کا ایک سیٹ سالگرہ کے تحفے کے طور پر بھیجا تھا۔ لیکن اب ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ مغرب کے صلاح کار اس وقت بھی زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جب (یورپ اور امریکہ) ان سے پرامید تھے، اس وقت بھی روس مغربی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے انٹیلی جنس ایجنٹس تعینات کر رہا تھا۔
اب ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ پوتن کی اصلاح پسندانہ جبلت اسی وقت سے حاوی تھی، جب انہیں مشرقی جرمنی کے سویت انٹیلی جنس ’کے جی بی‘ کے سٹیشن سے واپس بلایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ 20 سال پہلے انہوں نے سوویت یونین کے زوال اور مشرقی یورپ میں اس پر انحصار کرنے والی ریاستوں کے بلاک کو تاریخی تناسب کے سانحے کے طور پر دیکھا اور اس وقت بھی انہیں یوکرین ایک دکھاوے کا ملک ہی لگتا تھا۔ ایسٹونیا کی طرح کے نقصان سے کہیں زیادہ 1990 میں یوکرین کی آزادی یو ایس ایس آر کے خاتمے کی علامت ہے۔ اگر یوکرین روس کے ساتھ اپنی شراکت داری برقرار رکھتا تو شاید یو ایس ایس آر ٹوٹنے سے بچ جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور پوتن تب سے ہی اس حقیقت سے نالاں تھے اور جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، انہوں نے اسے پلٹنے کی کوشش کی۔ اس وقت ٹونی بلیئر اور جارج بش پوتن کی حقیقی فطرت کے بارے میں بے وقوف بنے رہے کیوں کہ بعد میں انہیں حقیقت سمجھ میں آئی۔
Tumblr media
لیکن پوتن کے نئے دوست اور حلیف شی جن پنگ کے ساتھ ایسا نہیں ہے، جنہوں نے ایک ویڈیو کانفرنس میں ان کے ساتھ بات چیت کی۔ جب صدر شی نے گذشتہ سال فروری میں یوکرین پر روسی حملے سے ��بل اعلان کیا تھا کہ ماسکو کے ساتھ بیجنگ کی دوستی کی ’کوئی حد‘ نہیں ہے، تو شاید ان کے ذہن میں مغرب کے ساتھ تھرمونیوکلیئر جنگ کا خطرہ نہیں تھا، جو کرہ ارض کو تباہ کر دے گی۔ یہ چین اور صدر شی کو فراموشی میں لے جائے گی۔ اور نہ ہی حقیقت میں صدر شی نے اس بات کا تصور کیا کہ اب یوکرین میں ایک طویل جنگ جاری ہے، جس کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آرہا ہے، جو عالمی تجارت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے اور اس وجہ سے ہی چین کی صنعتی برآمدات متاثر ہو رہی ہی۔) اور نہ ہی مسٹر پوتن نے اس کا تصور کیا تھا، جنہوں نے اپنی فتح کے بارے میں اسی اعتماد کا ظاہر کیا، جو انہوں نے میدان جنگ میں اپنی افواج کی تذلیل سے پہلے باقی دنیا کے سامنے کیا تھا۔)
اس رشتے میں یہ بہت واضح ہے کہ اب کمان کس کے ہاتھ میں ہے۔ چین دنیا میں روس کا واحد اہم اتحادی ہے اور سخت مغربی پابندیوں کے دور میں اپنی معاشی بقا کے لیے اس پر اور بھی زیادہ انحصار کر چکا ہے۔ چین جو اس وقت کرونا بحران کی گرفت میں ہے، کی معیشت مغرب کی جانب سے سرمایہ کاری ختم کرنے اور اس کی برآمدات پر پابندیاں لگانے سے پہلے بھی، روس کی نسبت کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ درحقیقت تنازع کے دوران روس کے ساتھ چین کی دوستی کی حدیں واضح تھیں اور کچھ کو عوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ چین مغربی پابندیوں کے خوف سے روس کو اس ناامیدی والی جنگ میں کوئی اہم فوجی سازوسامان فروخت نہیں کرے گا، جس میں تبدیلی کا بھی امکان نہیں ہے۔ بیجنگ کو شاید یوکرین کے مستقبل کی زیادہ پرواہ نہ ہو لیکن وہ بلاوجہ امریکہ کو اکسانا نہیں چاہے گا کیوں کہ یوکرین کا تنازع پہلے ہی چین کے لیے غیر مددگار ثابت ہوا ہے۔ مثال کے طور پر تائیوان پر تیزی سے حملہ کرنے کے لیے یوکرین کی نظیر اور خلفشار دونوں کو استعمال کرنے کا اس کا خواب اس وقت تیزی سے دھندلا گیا جب روسی فوج ڈونیتسک کے مشرقی محاذ سے شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئی۔
جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا جیسی علاقائی طاقتوں سمیت مغرب کے اتحاد اور لچک کے مظاہرے نے روس اور چین کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور خطے میں چینی توسیع پسندی کے متوازی خطرات اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو (بی آر آئی) کے ذریعے طاقت کے حصول کے لیے اس کی عالمی رسائی کو اجاگر کیا ہے۔ جرمنی نے اپنی سابقہ نیم امن پسندی کی پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے اور جاپان اپنے دفاعی پروگراموں کو تیز کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی پیش رفت چینی مفادات کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ یہاں تک کہ چین کی اقتصادی مدد، جس کا دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے بعد جاری کیے گئے بیان میں پیش رفت کے ایک اہم شعبے کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے، کریملن کے لیے دو دھاری تلوار ہے۔ مغربی توانائی کی منڈیوں کے نقصان کے ساتھ چین اب روس کی اہم برآمدی منڈی بن گیا ہے اور صدر شی نے درحقیقت اپنا جوتا روسی معیشت کی ونڈ پائپ پر رکھ دیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ روس آسانی سے چینی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کر سکتا اور بی آر آئی نیو۔ کالونیل کی طرح کا قبضہ ہے۔ 
یہاں تک کہ ماؤ کے زمانے میں اور ایک مشترکہ مارکسسٹ لیننسٹ نظریے کے تحت، جب چین اور روس عالمی کمیونسٹ انقلاب کی قیادت کے لیے لڑ رہے تھے اور ان کی دشمنی کبھی کبھار سرحدی تشدد میں بدل سکتی تھی، امریکہ سے ان کی باہمی دوری نے انہیں قریب لانے کا سامان پیدا کیا لیکن واضح طور پر دیوار ابھی بھی موجود ہے اور تعلقات یک طرفہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چین کو روس سے زیادہ مغرب کی ضرورت ہے اور روس کو چین کی ضرورت ہے، چین کو روس کی نہیں۔ ان رہنماؤں کی اگلی ملاقات کے وقت تک جب صدر شی ماسکو کا سرکاری دورہ کریں گے، چین ممکنہ طور پر یوکرین میں جنگ کے خاتمے اور اس کے نتیجے میں عالمی معیشت میں استحکام دیکھنے کو ترجیح دے گا۔ اس دوران یوکرین میں جنگ کے خاتمے کا مطلب ولادی میر پوتن کی معزولی اور روسی دارالحکومت میں تقریب کے لیے ایک نئے میزبان کو دیکھنا ہو سکتا ہے۔ اگر یہ چین کے مفاد میں ہوتا تو صدر شی اسے یکسوئی کے ساتھ قبول کر لیتے کیوں کہ بہترین دوستی کی بھی اپنی حدود ہوتی ہیں۔
بشکریہ دی انڈپینڈنٹ  
0 notes
gamekai · 2 years ago
Text
3 سال بعد ووہان کی رونقیں بحال -
سنہ 2020 میں کرونا وائرس کی وبا جس چینی شہر ووہان سے شروع ہوئی تھی، وہ ووہان اب ایک بار پھر سے تفریحی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا، ووہان میں لاکھوں افراد نے سڑکوں پر نئے چینی سال کے آغاز کا جشن منایا اور بالآخر شہر کھلنے پر شکر ادا کیا۔ اردو نیوز کے مطابق چین میں صفر کرونا پالیسی کے خاتمے کے بعد جہاں دیگر شہروں میں معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہو گئے ہیں وہیں ووہان شہر کو بھی ہر قسم کی سرگرمیوں کے…
View On WordPress
0 notes
waqtnews-blog · 2 years ago
Text
چین میں کورونا کے پھیلاؤ میں تیزی، لاکھوں افراد لاک ڈاؤن میں رہنے پر مجبور
چین میں کورونا کے پھیلاؤ میں تیزی، لاکھوں افراد لاک ڈاؤن میں رہنے پر مجبور
ہفتے کے روز چین میں مئی کے بعد سب سے زیادہ کورونا وائرس کے مثبت کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ حکام کی جانب سے مہلک وائرس کے خلاف انتہائی سخت پالیسی کے تحت لاکھوں لوگ لاک ڈاؤن میں رہنے پر مجبور ہیں۔ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق چین دنیا کی آخری بڑی معیشت ہے جو اب تک سخت لاک ڈاؤن، طویل قرنطینہ اور بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے وبا کو ختم کرنے کے ہدف کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
45newshd · 5 years ago
Photo
Tumblr media
چین پاکستان میں کرونا وائرس کیخلاف جنگ میں پیش پیش ، پی آئی اے کا طیارہ طبی سامان لے کر پاکستان پہنچ گیا  بیجنگ (این این آئی)چین سے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) کا طیارہ کورونا وائرس سے بچاؤ کا سامان لے کر پاکستان پہنچ گیا۔پی آئی اے کی خصوصی پرواز چین کے دارالحکومت بیجنگ سے ماسک، تھرمامیٹرز، حفاظتی لباس اور کِٹس لے
0 notes
dashtyus · 5 years ago
Photo
Tumblr media
چین میں 7 پاکستانی طلبہ کو کرونا وائرس، ڈاکٹر ظفر مرزا نے حقیقت کھول کر رکھ دی، اہم انکشاف اسلام آباد(آن لائن)معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے انکشاف کیا ہے کہ چین میں کرونا وائرس کی وجہ سے 7 پاکستانی طلبہ متاثر ہوئے تھے جن میں سے 6 صحتیاب ہوچکے ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل یہ خبریں آرہی تھیں کہ چین میں 4 پاکستانی طلبہ کرونا وائرس میں مبتلا ہوئے ہیں۔نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ چین میں موجود 7 پاکستانی طلبہ میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی جن میں سے 6 طلبہ
0 notes
sangeenalizada · 3 years ago
Text
موجودہ مہنگائی کی وجہ، کب ختم ہو گی؟ کیسے ختم ہو گی؟
پیپلز پارٹی کے پانچ سالوں میں لیا گیا قرض. پندرہ ارب ڈالر.
یعنی تین ارب ڈالر فی سال.
ن لیگی حکومت میں پانچ سالوں میں لیا گیا کل قرض:
چونتیس ارب ڈالر.
یعنی چھ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر فی سال.
عمران خان کی حکومت کے صرف پہلے تین سالوں میں لیا گیا قرض.
ستائیس ارب ڈالر.
یعنی اوسط نو ارب ڈالر قرضہ ہر سال پی ٹی آئی لیتی رہی. اور پاکستان کی پوری تاریخ میں ایسا موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے نہیں ہوا. اسی رفتار سے غیر ملکی قرضہ حکومت نے آئندہ مزید دو سال لیا تو یہ کل پینتالیس ارب ڈالر بنتا ہے.
واپسی کی شرح دیکھیں تو سالانہ تیرہ اعشاریہ انیس ارب ڈالر کی ریشو سے اب تک انتالیس ارب انسٹھ کروڑ ڈالر واپس کیے ہیں حکومت نے. اس حکومت کے پانچ سال پورے اگر اسی شرح سے قرضہ واپس ہوا تو پینسٹھ ارب پچانوے کروڑ ڈالر بنتے ہیں.
ملک پہ کل قرض اس وقت ایک سو بائیس ارب ڈالر ہے.
یعنی جس رفتار سے مہنگائی ہے اگر اسی حد پہ مہنگائی اگلے آٹھ سال مزید رہے. اور حکومت آئی ایم ایف سے مزید قرضہ بھی نا لے. تو ہم اگلے آٹھ سالوں میں ایک آزاد معیشت ہوں گے.
لیکن اگر حکومت مزید قرضہ لیتی ہے. یعنی پینتالیس ارب ڈالر پورے لیتی ہے پانچ سالوں میں. اور اگلی حکومت بھی قرض اتارنے کےلیے مزید قرض لیتی ہے. تو پھر مہنگائی اگلے آٹھ سالوں تک مسلسل اوپر جاتی رہے گی.
اس میں کچھ معجزے ہیں جو ہو جائیں تو عوام اور پاکستان بچ سکتے ہیں. اور وہ یہ ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان معاشی جنگ کی وجہ سے کسی طرح ڈالر کولیپس کر جائے. جتنی ڈالر کی اب ویلیو ہے وہ اگر گھٹ کے آدھی رہ جائے. یعنی ڈالر ایک سو ستر سے واپس ساٹھ روپے پہ آ جائے تو پاکستان کا قرضہ آنے والے سوا تین سال میں اتر سکتا ہے. مگر بات وہی ہے کہ یہ ایک معجزہ ہو گا.
معجزہ نمبر دو.
آئی ایم ایف کے شراکت دار ممالک خود دیو��لیہ ہو جائیں جیسے ماضی میں روس دیوالیہ ہوا. اور ملٹری طور پر اتنے کمزور ہو جائیں کہ دنیا کے معاشی امور میں اپنی رِٹ قائم نہ رکھ سکیں. اس طرح پاکستان سمیت جتنے ممالک ہیں وہ قرض دینے سے انکاری ہو کے قرض کھا جائیں. ایسا کسی عالمی جنگ میں کمزور معیشت والے ملکوں کی فتح ہونے کے زریعے ممکن ہے. لہٰذا یہ بھی معجزہ ہی ہے اگر ہو جائے.
معجزہ نمبر تین.
آیی ایم ایف میں ملکوں کی معاشی پالیسی بنانے والے تمام کنٹری ڈائریکٹرز اور ریجنل ہیڈز کسی کرونا جیسی وبا کے زریعے مر جائیں. اور اس طرح دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنے والی آئی ایم ایف کی عالمی باڈی ختم ہو جائے. اس کے بعد وہ ��ینکرز اور ماہرین معاشیات بھی دنیا بھر میں مر جائیں جو اس باڈی کی جگہ لے سکتے ہیں. تو دوسری اور تیسری دنیا کے تمام مقروض ممالک میں سکون آ جائے گا. کیونکہ اس کے بعد آئی ایم ایف میں کوئی ایک بھی دماغ ایسا نہیں رہے گا جو غریب عوام کا خون نچوڑ لینے والی پالیسیاں بنا سکے.
یہ بھی ایک معجزہ ہے اگر ہوا تو. اور آپ جانتے ہیں کہ معجزات آجکل نہیں ہوتے. لہٰذا اگلے آٹھ سال قربانی دینے کےلیے دماغی طور پہ تیار رہیں.
سنگین علی زادہ
Tumblr media
#مہنگائی #آئی_ایم_ایف #معیشت #حکومت
12 notes · View notes
pakistantime · 4 years ago
Text
ایشیائی ممالک ویکسین کے لیے چین سے رابطے کرنے لگے
بنگلا دیش اور سری لنکا جیسے جنوبی ایشیائی ممالک کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کے لیے چین سے رجوع کر رہے ہیں کیونکہ بھارت نے اپنے ملک میں وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ اور ویکسین کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث اس کی برآمد معطل کر دی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے بیجنگ کو اسٹریٹجک اہمیت کے حامل بحرہند کے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد ملے گی۔ چین نے اپنی سائنو فارم ویکسین کی 11 لاکھ خوراکیں سری لنکا کو دی ہیں جب کہ بنگلہ دیش کو اس مہینے چین سے پہلے عطیے میں پانچ لاکھ خوراکیں وصول ہوئی ہیں۔ چین نے نیپال کو بھی ویکسین کی مزید 10 لاکھ خوراکیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ چین کی سپلائی سے ان ملکوں کو اپنے ہاں ویکسین لگانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں مدد ملے گی جو بھارت کی جانب سے فراہمی کی معطلی کے بعد رک گیا تھا۔ 
عالمی وبا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث یہ خوف سر اٹھا رہا تھا کہ کہیں کرونا وائرس کی دوسری لہر، جس سے بھارت نبرد آزما ہے، ہمسایہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے لیے پروگرام ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے ویکسین کی برآمد میں معطلی بیجنگ کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کے موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب بیجنگ کو اپنی ساکھ کے سلسلے میں مشکل وقت کا سامنا ہے، ویکسین ڈپلومیسی اس کام میں چین کی مدد کر سکتی ہے۔  سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے کئی ممالک کو، جنہیں چین کی تیار کردہ ویکسینز کے بارے میں ہچکچاہٹ کا سامنا تھا، پچھلے مہینے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے چین کی ویکسین سائنوفارم کے ہنگامی استعمال کے لیے منظوری مل گئی تھی جس کے بعد ان کے لیے چین سے ویکسین لینے کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اس سے قبل یہ ملک بھارت پر انحصار کر رہے تھے جس نے اس سال کے شروع میں سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال سمیت کئی ملکوں کو ایسٹرازینیکا اور دوسری ویکسینز فراہم کی تھیں۔ 
ان ملکوں نے بھارت میں قائم ویکسین بنانے والے دنیا کے سب سے بڑے مرکز سیرم لیبارٹریز کو کمرشل آرڈرز بھی دے دیے تھے لیکن بھارت میں وبا کے تیز پھیلاؤ کے باعث ان کی فراہمی رک گئی۔ پچھلے مہینے کئی ایشیائی ملکوں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے خطے کے لیے ویکسین کا ایمرجنسی سٹاک رکھنے کی پیش کش کی تھی۔  تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب جب کہ چین، بھارت کے چھوڑے ہوئے خلا کو بھرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے، ویکسین ڈپلومیسی اس خطے میں بیجنگ کی مدد کر سکتی ہے جو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کے تحت کئی ملکوں میں انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل کرنا چاہتا ہے۔ دہلی میں قائم اورسیز ریسرچ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہرش پنت کہتے ہیں کہ اس چیز کے پیش نظر کہ یہ بحران مستقبل میں جاری رہ سکتا ہے، اگر بھارت صورت حال مستحکم ہونے کے چند ماہ بعد تک ویکسین میں اپنا حصہ نہ ڈال سکا تو ان ملکوں میں چین کو ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔
سری لنکا میں چین پہلے ہی بندرگاہ، سڑکوں اور ریلوے سمیت انفراسٹرکچر کے کئی اہم منصوبے مکمل کر چکا ہے اور اب وہ کولمبو کے قریب ایک اہم بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے۔ کولمبو کے ایک سیاسی تجزیہ کار اسانگا ابے یاگونا سیکیرا کہتے ہیں کہ چین کو ویکسین کی مدد سے ملک میں اپنی بڑھتی ہوئی موجودگی میں مزید اضافے کے لیے ایک اور جہت مل گئی ہے۔  وبا کی دوسری لہر شروع ہونے سے پہلے بھارت نے ویکسین کی ساڑھے چھ کروڑ خوراکیں بیرونی ملکوں کو بھیجی تھیں، جس کے بعد برآمد کو روکنا پڑا۔ نئی دہلی کو توقع ہے کہ وہ وبا پر قابو پانے کے بعد ویکسین کی سپلائی بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا موجودہ سال کے آخر تک ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری جانب چین دنیا بھر میں سب سے زیادہ ویکسین برآمد کرنے والے ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ وہ اس وقت ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کو ویکسین فراہم کر کے عالمی وبا پر قابو پانے میں وہاں کے ملکوں کی مدد کر رہا ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
1 note · View note
emergingpakistan · 4 years ago
Text
پاکستان میں کرونا ویکسی نیشن کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے؟
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وبا سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے۔ تاہم ملک میں بہت سے لوگ ویکسین کی افادیت اور اس کے اثرات کے حوالے سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔ کرونا ویکسین سے متعلق عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ویکسین آپ کو وبا سے 100 فی صد محفوظ رکھتی ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ وائرس سے بچاؤ کے لیے پاکستان میں متعارف کرائی گئی ویکسین کتنی مؤثر ہے، کیا واقعی اس کے منفی اثرات ہیں؟ اور کیا ویکسین لگوانے کے بعد کرونا نہیں ہوتا؟ ان سوالات اور کرونا ویکسین کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کے جواب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے پنجاب میں کرونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کی رُکن ڈاکٹر صومیہ اقتدار سے گفتگو کی ہے۔
کیا ویکسین کرونا کے خلاف مکمل تحفظ دیتی ہے؟ ڈاکٹر صومیہ اقتدار کا کہنا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ دوبارہ انفیکشن نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق ہر ویکسین کی ایک شرح افادیت ہوتی ہے اور پاکستان میں لگائی جانے والی چین کی 'سائنو فارم' ویکسین کمپنی کے مطابق ان کی ویکسین 72 فی صد مؤثر ہے۔ یعنی ان کے بقول ویکسین لگوانے کے باوجود 28 فی صد افراد میں یہ امکان رہتا ہے کہ انہیں دوبارہ کرونا ہو سکتا ہے۔
کون سی کرونا ویکسین زیادہ مؤثر ہے؟ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق 'سائنو فارم' کے علاوہ چین کی ہی 'کین سائنو' ویکسین 75 فی صد تک مؤثر ہے جس کی ایک خوراک لگائی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں نجی طور پر لگائی جانے والی روسی ویکسین 'اسپوتنک فائیو' کی شرح افادیت 90 فی صد ہے۔
پھر ویکسین لگوانے کا فائدہ؟ ڈاکٹر صومیہ کا ویکسین لگوانے کے فوائد بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ جو لوگ کرونا سے متاثر ہوتے ہیں اور انہوں نے ویکسین لگوائی ہوتی ہے تو وہ اس وبا سے معمولی متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے بقول گو کہ ویکسین بیماری کے خلاف 100 فی صد تحفظ فراہم نہیں کرتی، تاہم یہ مریض کو شدید بیمار ہونے اور اس کی جان جانے سے بچاتی ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی شخص وائرس کا شکار ہو بھی جاتا ہے تو معمولی علامات کے بعد وہ جلد صحت یاب ہو جاتا ہے۔
ویکسین کی دو خوراکیں کیوں ضروری ہیں؟ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق کرونا ویکسین کی پہلی خوراک لگانے کے پانچ سے چھ دنوں بعد اینٹی باڈیز بننے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ تاہم ان کے بقول یہ ریسپانس اتنا کافی نہیں ہوتا کہ یہ آپ کو بیماری سے مکمل محفوظ رکھ سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کرونا ویکسین کی دوسری خوراک لگنے کے 15 سے 20 دنوں بعد ریسپانس اتنا اچھا ہوتا ہے کہ آپ کو بیماری سے بچایا جا سکے۔
کیا ویکسین کی دونوں خوراکوں کے دوران کرونا ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق ویکسین کی پہلی اور دوسری خوراک لگوانے کے درمیانی عرصے میں بھی انفیکشن ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اُن کے بقول اس وقت جسم میں قوتِ مدافعت ناکافی ہوتی ہے۔
کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کے لیے بھی ویکسین ضروری ہے؟ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ چوں کہ کرونا سے صحت یاب ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز بن چکی ہوتی ہیں۔ لہذا انہیں ویکسین کی ضرورت یا ویکسین کی دونوں خوراکوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سے متعلق ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ چوں کہ یہ ایک نیا وائرس ہے۔ اس لیے اس پر ابھی اتنی تحقیق نہیں کی گئی کہ پتا ہو کہ اس کے خلاف قوت مدافعت کتنی دیر تک موجود رہتی ہے۔ لہذا ان کے بقول یہ ضروری ہے کہ قوت مدافعت جتنی بہتر ہو گی اتنا اچھا ہے۔
ویکسین لگوانے کے بعد ری ایکشن کے امکانات برطانیہ اور یورپی ممالک میں 'آکسفورڈ یونیورسٹی' کی تیار کردہ 'ایسٹرا زینیکا' ویکسین لگوانے سے ہونے والی اموات اور بلڈ کلوٹس (خون کے لوتھڑے) بننے کی شکایات سے متعلق ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لگائے جانے والی سائنو فارم، 'کین سائنو' اور 'اسپوتنک فائیو' ویکسین بہت محفوظ ہیں اور ان کے تاحال منفی اثرات سامنے نہیں آئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ویکسینز لگوانے کے بعد معمولی بخار، جسم درد یا انجکشن والی جگہ پر درد ہو سکتا ہے جو کوئی بھی اور ویکسین لگوانے سے بھی ہو سکتا ہے۔
کیا ویکسین بچوں کو بھی لگائی جا سکتی ہے؟ ڈاکٹر صومیہ کے مطابق پاکستان میں سائنو فارم ویکسین کو صرف 18 سال سے زائد عمر کے افراد کو ہی لگانے کی اجازت دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آزمائش بچوں میں نہیں کی گئی۔
ویکسین لگوانے کے بعد تدابیر؟ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر صومیہ کا کہنا تھا کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی وہی احتیاطی تدابیر اپنائی جانی چاہئیں جو ویکسین لگوانے سے پہلے اپناتے ہیں۔ ان کے بقول یہ سب اس لیے ضروری ہے کیوں کہ کرونا ویکسین آپ کو 100 فی صد بیماری سے نہیں بچاتی تاہم یہ شدید بیمار ہونے اور موت سے بچاتی ہے۔
نوید نسیم
بشکریہ وائس آف امریکہ
1 note · View note
risingpakistan · 4 years ago
Text
روس نے اتنی جلدی کرونا وائرس ویکسین کیسے تیار کر لی ؟
گذشتہ روز روسی صدر ولادی میر پوتن نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ روس ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ کر کرونا وائرس کے خلاف منظور شدہ ویکسین تیار کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ حیرت کی ایک وجہ تو سائنسی ہے کہ ویکسین کی تیاری کوئی آسان کام نہیں اور دوسری یہ تھی کہ صدر پوتن اس طرح سے اعلان کر رہے تھے جیسے ملکوں کے درمیان کوئی باقاعدہ دوڑ ہو رہی تھی جو روس نے جیت لی۔ اس بات کو مزید تقویت اس ویکسین کے نام یعنیٰ سپتنک 5 سے ملتی ہے جس سے روس اور امریکہ کے درمیان 50 اور 60 کی دہائیوں میں خلائی دوڑ اپنے عروج پر تھی اور امریکہ اپ��لو کے نام سے اور روس سپتنک کے نام سے راکٹ بنا کر خلا میں بھیج رہا تھا۔
کیا واقعی اتنی جلد ویکسین بنانا ممکن ہے؟ روس نے ابھی تک سپتنک 5 کا مکمل سائنسی ڈیٹا دنیا کے سامنے نہیں رکھا جس سے پتہ چلتا ہو کہ یہ ویکسین کتنی موثر اور محفوظ ہے۔ یہ ویکسین گمائلا انسٹی ٹیوٹ تیار کر رہا ہے۔ اس نے ویکسین کی تیاری کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے شرکا کے بارے میں دعویٰ کیا کہ ان میں کوئی مضر اثرات دیکھنے میں نہیں ملے۔ تاہم انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ ویکسین صرف دو سے تین ہزار لوگوں پر آزمائی گئی ہے، جس سے اس کے وسیع تر اور دیرپا اثرات کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ امریکہ میں وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر اینتھنی فاؤچی کو بھی اس ویکسین پر شکوک و شبہات ہیں۔ انہوں نے اے بی سی ٹی وی کو بتایا: مجھے امید ہے کہ روسیوں نے حتمی طور پر ثابت کر دیا ہو گا کہ ویکسین محفوظ اور موثر ہے، تاہم مجھے اس بارے میں سخت شکوک و شبہات ہیں۔‘
تیسرا مرحلہ کہاں گیا؟ عام طور پر ویکسین کی تیاری تین مراحل یا فیزز میں ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے (فیز 1) میں سو سے کم صحت مند لوگوں کو ویکسین دی جاتی ہے تاکہ جسم پر اس کے مضر اثرات جانچے جا سکیں۔
دوسرے مرحلے (فیز 2) میں چند سو لوگوں کو ویکسین استعمال کروائی جاتی ہے جس دوران اس کے مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کی مناسب ڈوز یا خوراک کا تعین کیا جاتا ہے۔
تیسرا مرحلہ (فیز 3) وہ ہوتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف عمروں اور جسمانی حالت والے مردوں اور عورتوں پر ویکسین کی آزمائش ہوتی ہے تاکہ مختلف لوگوں میں اس کے اثرات اور خاص طور پر شاذ و نادر ہونے والے اثرات کا پتہ چل سکے۔
اگر ان تینوں مراحل سے گزرنے کے بعد ثابت ہو کہ ویکسین موثر بھی ہے اور اس کے مضر اثرات اس سے پہنچنے والے فائدے سے کم ہیں تو اسے منظور کر کے بازار تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس کام میں جلدی نہیں کی جا سکتی، کیوں کہ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ بعض اوقات کوئی دوا بظاہر فوری طور پر فائدہ مند معلوم ہوتی ہے لیکن کچھ ماہ گزرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کا جسم کے اعضا پر کوئی خطرناک ذیلی اثر مرتب ہو گیا ہے۔  چونکہ کرونا وائرس کی ویکسین ممکنہ طور پر اربوں لوگوں کو دی جانی ہے، اس لیے اس میں زبردست احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ انتہائی شاذ و نادر مضر اثر بھی لاکھوں لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ 
یہ تینوں مراحل سائنس دانوں نے کئی عشروں کی تجربات کے بعد وضع کیے ہیں اور دنیا میں استعمال ہونے والی تمام ادویات اسی طریقۂ کار کے تحت تجربہ گاہ سے میڈیکل سٹور کے شیلف تک پہنچتی ہیں۔ ماضی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ یہ طریقہ بےحد کارآمد ہے۔ تاہم روس نے اپریل میں ایک قانون منظور کر کے دوا کو منظور کرنے کے لیے تیسرے مرحلے کی شرط ہی ختم کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی ویکسین اتنی جلدی منظوری کے لیے تیار ہو گئی۔ اس کے مقابلے پر امریکہ، یورپ اور چین میں کئی ویکسینیں ایسی ہیں جو تیسرے مرحلے سے گزر رہی ہیں اور ان کے نتائج آنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ امریکہ کی جانز ہا��کنز یونیورسٹی میں ویکسین سیفٹی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر ڈینیئل سامن نے کہا، ’فیز 3 انتہائی ضروری ہے۔ کیا فیز 3 کے بغیر میں (ویکسین کے) موثر یا محفوظ ہونے کے بارے میں پراعتماد ہو سکتا ہوں؟ ہرگز نہیں۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 5 years ago
Text
اِن دِنوں پوری دنیا کرونا وائرس سے دہشت زدہ نظرآتی ہے۔ بیس ہزار سے زاید افراد اب تک اس سے متاثر ہوچکے ہیں،سواچارسو سے زاید افراد کی جانیں جاچکی ہیں اور یہ بائیس ممالک تک پہنچ چکاہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس کا پھیلاو اس سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس خطرے کے باوجود تادمِ تحریر اسے عالمی سطح کی وبا قرار نہیں دیا گیا ہے۔تاہم عالمی سطح پر معاملات کو دیکھنے والے اس امکان کے لیے تیاری کر رہے ہیں کہ دنیا کے سامنے آنے والی عالمی سطح کی بڑی وبا کرونا وائرس ہوسکتا ہے۔
کیا یہ کوئی سازش ہے؟ایسے حالات میں بعض حلقے اس وائرس کو حیاتیاتی جنگ کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ وہ اس ضمن میں طرح طرح کے دلائل دیتے ہیں، عالم گیریت اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے ممکن ہوجانے والے کاموں کی بابت بات کرتے ہیں، خرد حیاتیات (مائیکرو بیالوجی) کی دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر روشنی ڈالتے ہیں اور مختلف واقعات اور مثالوں کے تانے بانے جوڑ کر ’’سازشی نظریہ‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ایسے میں جب سابق وفاقی وزیرِ داخلہ ،رحمن ملک یہ کہتے ہیں کہ کرونا وائرس انسانی تخلیق ہے اور اسے چین کو مفلوج کرنے کے لیے پھیلایا گیاہےتو بہت سے سنجیدہ مزاج افراد بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر راہ نما اور سابق وفاقی وزیر ِداخلہ سینیٹر عبدالرحمن ملک نے دوتین روز قبل کہاتھا کہ میرا اندازہ ہے کہ کرونا وائرس انسان کا تخلیق کردہ ہے اور اسے مختلف جگہوں پر داخل کیا گیا۔یہ وہاں بہت تیزی سے پھیلا اوراس نے پورے چین کو مفلوج کر دیا ہے۔ سوچی سمجھی سازش کے تحت چین کو کرونا وائرس کا آئیکون بنایا جارہا ہے تاکہ کوئی چینی باہر نظر آئے تو لوگ اس سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کریں۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا میں ایک اور بڑا خطرناک وائرس دست یاب ہے جسے’’وار پوائزن‘‘کہتے ہیں۔ اسرائیل تقریباً دو کلو وار پوائزن پیدا کرتاہے یا یہ امریکا کے پاس ہے۔
اگر اسے کوئی شخص کیپسول کی صورت میں نگل لے تو اسے دل کا دورہ پڑجاتاہے اور اس کا بچنا محال ہوتا ہے۔دوسری صورت میں اگر اس کیپسول کو توڑ کر کسی کمرے میں ڈال دیا جائے تو اس میں جتنے لوگ سانس لیں گے وہ سب دل کا دورہ پڑنے سے مرجائیں گے اور یہی لگے گا کہ یہ دل کا دورہ پڑنے سے مرے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس وائرس کی شناخت اس وقت کی تھی جب شاہ نواز بھٹو کو قتل کیا گیا تھا۔انہیں وار پوائزن سے مارا گیا تھا۔ میرے سامنے فرانسیسی پولیس نے یہ بلی کو کھلایا تھا اور جس طرح بلی کی موت واقع ہوئی وہی صورت حال انتقال سے قبل شاہ نواز بھٹو کی تھی۔رحمن ملک کا کہنا تھاکہ مجھے یہ نہیں پتا کہ یہ وائرس کس نے بنایا ہے، تاہم یہ اس پوزیشن میں ہے کہ اس میں دنیا کو جزوی طور پر مفلوج کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ کرونا وائرس قدرتی طور پر چین میں پیدا ہوا تواب اسے بایولوجیکل وار فیئر بنادیا گیا ہے اور اسے اس شکل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ میری پیش گوئی ہے کہ اس سے سب سے زیادہ نقصان چین،اس کے عوام، برآمدات،کاروبار اور معیشت کو پہنچے گا۔رحمن ملک کا کہنا تھاکہ چین اور پاکستان کے ماہرین کو مل کر اس وائرس پر تحقیق کرنی چاہیے کہ یہ کہاں سے آیا، اس وقت یہ کہاں ، کہاں موجود ہے اور اس کا خاتمہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق اگر بایولوجیکل وارفیئر شروع ہو گئی تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ففتھ جنریشن سے نکل کر سکستھ جنریشن میں چلی جائے گی، یعنی اب بم استعمال نہیں ہوں گے بلکہ اپنی جیب یا بریف کیس میں 5 یا 7 سرنجیں لے جانی پڑیںگی۔ دنیا میں بایولوجیکل اور کیمیکل وار فیئر اور پھر اس کی جدید صورت سامنے آگئی ہے۔ اسے روکنے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں ہونی چاہییں ۔حقائق جاننے کا سفربعض حلقے یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر چین ہی پے درپے ایسی وباوں کا نشانہ کیوں بن رہا ہے۔ پہلے برڈ فلو،پھر سوائن فلو،پھر سارس اور اب کرونا وائرس۔کیا چین مخالف طاقتیں کسی بھی طرح اس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا چاہتی ہیں؟ ان حالات میں حقائق جاننے کے لیے ہم نے تاریخ کے اوراق پلٹے اور بعض سوالات کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کی۔تاہم یہ تمام کوشش مذکورہ ’’سازشی نظریات‘‘ کی حقیقت جاننے کے لیے ہے اور قارئین تک حقائق پہنچانا ہمارا مقصود ہے۔ کسی نظریے یا حلقۂ فکر کی مخالفت یا موافقت اس کی بنیاد نہیں۔ ’’سازشی نظریات‘‘ کے مخالف بھی طرح طرح کے دلائل اور مثالیں دیتے ہیں۔ ان کی بھی بہت سی باتوں میں وزن ہے، لیکن ان دونوں حلقوں میں سے کون صحیح ہے اور کون غلط، یہ فیصلہ کرنا ماہرین کا کام ہے ہمارا نہیں۔
اس وائرس کے بارے میں ایک ماہر طبیب کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نےنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ موقف پیش کیا کہ ہمیں بیماریوں کے بارے میں تحقیق کرنے اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں سوائن فلو سے متاثرہ شخص کا کیس سامنے آیا تو اس بارے میں تحقیق کی گئی تھی، کیوں کہ یہ بیماری ان ملکوں میں پھیلتی ہے جہاں خنزیر کے فارم ہوتے ہیں، مثلاً برازیل، جنوبی امریکا، میکسیکو وغیرہ۔ دراصل تیس برس قبل امریکا میں ایک ادارے نے سوائن فلو کے وائرس، ایچ ون این ون، سے تحفظ کے لیے ایک ویکسین تیار کی تھی۔یہ ویکسین جب انسانوں کو دی گئی اور اس سے اموات ہوئیں تو وہاں شور مچ گیا۔ اس بارے میں تحقیق کرنے کے بعد امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اس پر پابندی عائد کردی تھی۔ یہ ویکسین تیار کرنے والے ادارے کا تعلق ڈک چینی سے ہے، جو بش جونیئر کے دور میں امریکا کے نائب صدر بنے۔ ڈک چینی کے نائب صدر بننے کے بعد اسی ادارے نے مذکورہ ویکسین کو یہ کہہ کر پھر بازار میں پیش کیا کہ اب اسے بہتر بنا دیا گیا ہے۔ لیکن فن لینڈ کی چیف میڈیکل ڈائریکٹر نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ اس ویکسین میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور انہوں نے اس بارے میں فن لینڈ میں کی جانے والی تحقیق کی تفصیلات دنیا بھر میں عام کردیں۔
اس کے بعد برطانیہ کے ڈاکٹرز نے بھی یہ ویکسین استعمال کرنے سے منع کردیا تھا۔ سوائن فلو سے متاثر ہونے والے پاکستانی وہ تھے جو بیرون ملک کا سفر کرکے آئے تھے اور بیرون ملک وہ کسی طرح اس بیماری کا شکار ہوگئے تھے۔ ڈک چینی کے اقتدار میں آنے کے بعد سوائن فلو کے کیسز دنیا بھر میں سامنے آئے تو حج اور عمرے کے لیے جانے والوں کو یہ ویکسین لگانے کی بات کی گئی تھی۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین بڑی تعداد میں فروخت کرنے کا معاملہ تھا اور اس طرح یہ ویکسین دنیا بھر میں بڑی تعداد میں فروخت ہوئی۔بعض حلقے بہت سے دلائل کے ساتھ یہ موقف پیش کرتے ہیں کہ سوڈان کی سیاسی تقسیم کیمیائی یا جراثیمی جنگ کے ذریعے ممکن بنائی گئی۔ وہاں دارفر سمیت کئی علاقوں میں کئی اقسام کی بیماریاں پھوٹ پڑی تھیں۔ اس طرح سوڈان کو کم زور کرکے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ سائنس کی ترقی کی وجہ سے کئی دہائیاں قبل حیاتیاتی اور کیمیائی جنگیں اور حملے ممکن ہوگئے تھے اور کئی مواقع پر مختلف ممالک میں حیاتیاتی اورکیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی باتیں سامنے آئیں، مگر اس طرح کے معاملات میں ٹھوس سائنسی ثبوت اور حتمی نتائج پیش نہیں کیے جاتے۔
دوسری جانب ایک بیکٹریالوجسٹ کا موقف تھا کہ مختلف بیماریاں فطری طریقوں سے وقت کے ساتھ آتی جاتی رہتی ہیں۔ آج بیماریاں اس لیے تیزی سے ایک سے دوسری جگہ پھیلنے لگی ہیں کہ ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یا دنیا بھر میں ملیریا کس نے پھیلایا تھا، جو آج بھی دنیا بھر میں بڑی تعداد میں لوگوں کی اموات کا سبب بنا ہوا ہے؟ وہ بھی فطری طریقے سے پھیلا تھا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ مختلف بیماریاں پھیلانے والے جرثومے دوائوں کے خلاف زیادہ مزاحمت کرنے لگے ہیں، کیوںکہ وہ پہلے والی دوائوں کے عادی ہوچکے ہیں۔سازش کی بات کرنے والوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انفلوئنزا کا پہلا کیس 1917ء میں مشرقِ بعید میں سامنے آیا تھا اور اس کے بعد یہ بیماری دنیا بھر میں پھیلی۔ اس طرح ڈینگی بخار کا کراچی میں پہلا کیس 1994ء میں سامنے آیا تھا۔یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر میں پیتھوجنز (بیماریاں پھیلانے والے جرثوموں) پر بہت کام ہوچکا ہے اور مزید ہورہا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ان پر زیادہ تر تحقیق اور تجربات ترقی یافتہ مغربی ممالک ہی میں ہوئے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ساری تحقیق اور تجربات منفی مقاصد کے لیے کیے گئے تھے یا کیے جا رہے ہیں۔
یہ کام ہم بھی کرسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے جس قدر سائنسی ترقی اور سرمائے کی ضرورت ہے، وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ماضی میں ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دانوں اور محققین نے انسانوں پر ادویات کے تجربات کیے، جن میں سے بعض بہت متنازع بنے۔ ایسے زیادہ تر تجربات جنگی قیدیوں پر کیے جاتے تھے۔ لیکن آج دنیا بھر میں طبی اخلاقیات کے سخت اصولوں کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔سازش ممکن ہے؟یہ جون2009کی بات ہے۔سوائن فلو کے جراثیم کا چھڑکائو کرنے والے امریکی طیارے کو چین نے مار گرایا تھا۔ایسے ہی مشکوک اڑان بھرتے امریکی آپریٹیڈ طیارے کو بھارت اور نائیجیریا کی فضائیہ نے جبراً اتار تو لیا تھا، لیکن اس طیارے کو مار گرانے کی ان میں جرأت نہیں تھی۔ چین کا کہنا تھا اور بھارتی خفیہ ماہرین کا شک تھاکہ امریکی آپریٹیڈ یوکرینین طیارےسے بایولوجیکل ایجنٹس کا چھڑکائو کیا جا رہا تھا۔زمبابوے کے طیارے ایم ڈی-11سے زہریلے وائرس کا چھڑکائو کرنے والے امریکی آپریٹیڈ طیارہ کو چین کے شنگھائی میں واقع پوڈانہ ایئر پورٹ پر مار گرایا گیا تھا۔
چین نے سرکاری طور پر بتایا تھا کہ وہ طیارہ سی آئی اے سے منسلک ایواینٹ ایوی ایشن کمپنی کا تھا۔ برطانوی فوج کے سابق افسر اینڈ ریو اس کمپنی کے مالک تھے اور طیارے کا رجسٹریشن انگلینڈ کا تھا۔ اس میں سی آئی اے کے تین ایجنٹ مارے گئے تھے اور چار زخمی ہوئے تھےجو امریکا،بیلجیم، انڈو نیشیا اور زمبابوے کے شہری تھے۔ علاج کے دوران انڈو نیشیائی شہری نے چین کی خفیہ پولس کے سامنے یہ قبول کیا تھا کہ وہ امریکی فوج کے انڈو نیشیامیں واقع اڈےپر نیو ل میڈیکل ریسرچ یونٹ نمبر 2میں کام کرتاہے۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ انڈو نیشیا کے اس امریکی فوجی اڈے کو و ہا ں سے ہٹانے کے بارے میں انڈنیشیا کے وزیر دفاع ز بونو سدرشنوں کئی مرتبہ مطالبہ کر چکے تھے۔یاد رہے کہ انڈو نیشیا میں واقع امریکی فوج کا بایو ویپن بیس، راک فیلر انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا۔ راک فیلر انسٹی ٹیوٹ وائرل بیماریوں پر ریسرچ اور تراکیب پر کام کرنے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔اس حادثے کے کچھ ہی دنوں بعد 26جون 2009کو اے این-124کو ممبئی میں فورسڈ لینڈنگ کرنی پڑی تھی۔ بھارتی فضائیہ نے امریکی آپریٹیڈ طیارے کو ممبئی میں ا تر نے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایسے ہی دوسرے طیارے کو نا ئیجیریاکی فضائیہ نے اترنے پر مجبور کر دیا تھا۔
نائیجیریا کی فضائیہ نے تو اس طیارے کے پائلٹ کو گرفتار بھی کر لیاتھا۔ لیکن بھارت یہ ہمت نہیں دکھا پایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ چینی فضائیہ نے بھارتی اور نائیجیریا کی فضائیہ کو ا س بارے میں پہلے ہی خبر کر دی تھی اور یہ بتا دیا تھا کہ ا مر یکی طیاروں سے سوائن فلو(ایچ -1،این -1)کے جراثیم کا چھڑکائو کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں تقریباً45ہزار کلو گرام خطرناک کچرا بھی دھویں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بکھیرا جا رہا تھا۔اس بارے میں امریکا کا کہنا تھاکہ آپریشن اینڈ یو رنگ فریڈم کے تحت امریکی طیارہ افغانستان جا رہا تھا ، لیکن امریکی فضائیہ کو یو کرین کے طیارے کی ضرورت کیوں پڑی تھی، اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ممبئی ایئر پورٹ پر طیارے کو 24گھنٹے تک روکے رکھا گیا، لیکن بھارتی حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی اور آخر کار طیارے کو جانے کی اجازت دے دی گئی تھی ۔چوکس چین، مستعد قیادت اور ہمچین کے لیے یہ وائرس صرف انسانی صحت کا معاملہ نہیں ،بلکہ یہ اس کی قومی سلامتی،اقتصادی ترقّی اور عالمی معاملات میں اس کی تیزی سے ابھرتی ہوئی شبیہ کے تحفظ اور استحکام کا بھی ہے۔وہ اس معاملے کوبہت سنجیدگی اور احتیاط کے ساتھ سنبھال رہے ہیں اوربہت گہرائی و گیرائی کے ساتھ اس کے مختلف پہلووں کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔اس بحران میں اب تک چینیوںکا جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ بتاتا ہے کہ اس قوم کی اتنی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے کی وجوہات کیا ہیں اور آگے بڑھنے کی لگن رکھنے والی قومیں مشکل حالات میں کس طرح رد عمل ظاہر کرتی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس کا علاج کرنے کے لیے صرف چند دنوں میں ایک اسپتال تعمیر کر لیا گیا۔پچیس ہزار مربع میٹرزپر پھیلے ہوئےشیشان اسپتال میں تین فروری سے باقاعدہ کام شروع کر دیا گیا ہے۔یہ کرونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے لیے بنائے جانے والے دواسپتالوں میں سے ایک ہے۔جس جگہ یہ اسپتال بنایا گیا ہے وہاں جنوری کی 24 تاریخ کو زمین ہم وار کر کے بنیادیں کھودنے کی تیاری کی جا رہی تھی۔دوسرا اسپتال بھی تادمِ تحریر موصولہ اطلاعات کے مطابق تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے۔اس کے علاوہ چینی قیادت ہر طرح کے حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔وہ اسے کسی جنگی مہم کی طرح برت رہی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی حالات، سفارتی معا ملات اورتمام ضروری اشیا کی بلا رکاوٹ ترسیل پر نظر رکھنے،ملکی ساکھ اور معیشت کو مستحکم رکھنے،حریفوں کی ریشہ دوانیوں اور اس وائرس کی آڑ میںچین کے خلاف ہونے والےپرو پیگنڈ ے کا توڑ کرنے کے لیے چین کا ہر شعبہ دن رات چوکس رہتا ہے۔وہ چین کے خلاف مغرب کے ہرمعاندانہ عمل کا جواب بھی دے رہےاور دنیا کو بین السطور یہ بتابھی رہے ہیں کہ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ کر دم لیں گے۔یہ ہوتا ہے ردعمل،جو پوری دنیا کو نظر بھی آئے۔اور ایک ہم ہیں کہ کسی سے تشخیصی کِٹ حاصل کرکے بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ اب ہمیں اس وائرس کی تشخیص کی صلاحیت حاصل ہوگئی ہے۔کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔
حیاتیاتی اور کیمیائی جنگ… تاریخ سے مثالیں
حیاتیاتی اور کیمیائی جنگ کی تاریخ کافی پرانی ہے، تاہم اب اس کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ ایسی جنگ کا معلوم تاریخ میں پہلا ثبوت 1200-1500میں ملتا ہے جب طاعون کے مریضوں کو دشمن ملک میں بھیج دیا جاتا تھا اور دشمنوں کے کنوئوں میں زہر ملا دیا جاتا تھا۔ یونان کا مشہور شاعر، ہومر ٹروجن وار کے حوالے سے لکھی گئی اپنی مشہورزمانہ نظم میں کہتا ہے کہ تیر اور بھالے زہر میں بجھے ہوئے تھے۔یونان کی پہلی مقدس جنگ اندازاً 590 عیسوی میں ہوئی تھی، جس میں محاصرے میں لیے گئے شہر Kirrha کو پانی فراہم کرنے والے نظام کو زہر سے آلودہ کردیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے Hellebore نالی زہریلا پودا استعمال کیا گیا تھا۔ اسی طرح رومیوں کے کمانڈر مینیس ایکولِس نے 130ء میں محاصرے میں لیے گئے شہروں کے کنوئوں کو زہر آلود کردیا تھا۔ چوتھی صدی عیسوی میں بعض جنگوں میں تیروں پر سانپ کے زہر، انسانی خون اور جانوروں کا فضلہ لگا دیا جاتا تھا، تاکہ ان سے لگنے والے زخم عفونت زدہ (انفیکٹڈ) ہوجائیں۔اس کے علاوہ کئی مواقع پر پودوں اور سانپوں کے زہر اور دیگر اقسام کے زہر بھی استعمال کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ 184ء میں زہریلے سانپوں اور بچھوئوں سے بھرے برتن دورانِ جنگ دشمنوں پر پھینکنے کے واقعات ملتے ہیں۔ وسطی زمانے میں کالے طاعون کے مریض حیاتیاتی حملوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ 1346 میں یوکرین میں کافا کے محاصرے کے دوران تاتاری حملہ آوروں نے طاعون کی وجہ سے ہلاک ہوجانے والے منگول فوجیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی تھی اور دفاع پر مامور افواج کو پسپا ہونا پڑا تھا۔شمالی امریکا میں 1763ء میں ایک ملک کی جانب سے دوسرے ملک کو چیچک کے جراثیم سے آلودہ کمبل اور رومال بھیجنے کا واقعہ تاریخ میں موجود ہے۔ اس ضمن میں برطانوی کمانڈرز کے درمیان 29 جون تا 26 جولائی، ہونے والی خط و کتابت میں سے چار خطوط کا پتا چلتا ہے۔ آسٹریلیا کے حقیقی باشندے (ایب اوریجن) ہمیشہ سے یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ برطانویوں نے آسٹریلیا پر قبضے کے لیے جان بوجھ کر 1789ء میں خسرہ کا مرض پھیلایا تھا۔امریکا کی خانہ جنگی کے دوران جنرل شرمن نے یہ شکایت کی تھی کہ کنفیڈریشن کے حامی فارم کے جانوروں کو ان تالابوں میں لے جاکر ہلاک کردیتے ہیں، جہاں سے ��فاق کی حامی افواج کے سپاہی پانی پیتے ہیں، جس سے وہ پانی پینے کے قابل نہیں رہتا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یورپی مہم جوئوں نے جنوبی پیسیفک کے ایک جزیرے میں جان بوجھ کر خسرہ کی بیماری پھیلائی تھی۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران جرمنی نے حیاتیاتی جنگ کے پروگرام کو کافی ترقی دی تھی۔فن لینڈ میں جرمنوں نے 1916ء میں سوویت یونین کی افواج کے گھوڑوں میں اینتھریکس کے جراثیم داخل کیے تھے۔ یہ جرثومے بخارسٹ (بلغاریہ) بھی بھیجے گئے تھے۔ یہ بھی ملتا ہے کہ جرمن انٹیلی جینس آفیسر اور امریکا کے ایک شہری ڈاکٹر اینٹون کیزمیر ڈِگلر نے میری لینڈ کی ریاست میں واقع اپنی بہن کے مکان میں ایک خفیہ تجربہ گاہ بنائی تھی، جہاں مال مویشیوں میں عفونت منتقل کرنے کے لیے گلینڈرز تیار کیے جاتے تھے، جنہیں جرمن دشمنوں کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ اس کے بعد بھی حیاتیاتی اور کیمیائی حملوں اور منصوبوں کے بہت سے سراغ ملتے ہیں اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ دراز ہوتا جارہا ہے۔
مستقبل کی جنگیں اور ہتھیار ہلاکت خیز نہیں ہوں گے
امریکا میں 1999ء میں ’’فیوچر وار: نان لیتھل ویپن ان ٹوئنٹی فرسٹ سینچری‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب شایع ہوئی تھی، اس کتاب کے مصنف امریکا کی فوج میں کرنل کی حیثیت سے خدمات انجام دے کر ریٹائر ہونے والے جان الیگزینڈر ہیں۔ اس کتاب میں بہ دیسی نظام (Exotic System) مثلاً برقی مقناطیسی ہتھیار، حیاتیاتی اور کیمیائی وارفیئر، طبیعی رکاوٹ پیدا کرنے ذرایع، مثلاً گڈگنز، صوتی ہتھیار، اطلاعاتی جنگوں کی ٹیکنالوجیز وغیرہ کے عنوان سے ابواب شامل ہیں۔اس کتاب میں کیے گئے انکشافات کی صحت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1999ء میں مصنف نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کمپیوٹرز کے نظام کو ہیکرز کے حملوں سے بچانے والے سافٹ ویئرز کی سالانہ فروخت جو 1995 میں ایک اعشاریہ ایک ارب امریکی ڈالرز مالیت کے مساوی تھی، بڑھ کر 2000ء میں16ارب امریکی ڈالرز کے مساوی ہوجائے گی۔ مصنف نے خود اس کتاب میں اپنے آپ کو نفسیاتی آپریشنز کا ماہر (Psyops) قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ جسمانی جنگوں اور دماغ کو کنٹرول میں بھی ماہر ہے۔ مصنف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مبینہ طور پر اس نے Thana To Logy یعنی موت کی سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ خفیہ آپریشنز کرنے والے ایک ایسے فوجی گروہ کا فعال رکن تھا، جس کا کام غلط اطلاعات پھیلانا تھا اور اس نے ویت نام میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔ وہ لکھتا ہے کہ امریکا کے اعلیٰ دماغ، فوجی حکام، سی آئی اے کے کرتا دھرتا اور دیگر متعلقہ ادارے مستقبل کی جنگوں کی حکمت عملی ترتیب دینے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، جس میں تمام حیاتیاتی اور کیمیائی آپشنز پر بھی نظر رکھی جاتی ہے اور اس بارے میں منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں۔ تاہم اس موضوع پر یہ واحد کتاب نہیں ہے، بلکہ اس ضمن میں امریکا اور برطانیہ میں کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔مثلاً 1997ء میں ورچوئل گورنمنٹ کے عنوان سے ایلکس کانسٹینٹائن کی کتاب، ڈیوڈ مور ہائوس کی کتاب بہ عنوان فزک واریئر، جو 1996ء میں شایع ہوئی تھی۔ تاہم جان الیگزینڈر کی کتاب اس ضمن میں اس لیے اہم ہے کہ وہ ریٹائر ہونے سے قبل ایڈوانس ہیومن ٹیکنالوجی آفس اینڈ سیکیورٹی کمانڈ کا سربراہ رہ چکا ہے اور لاس ایلموس میں واقع نان لیتھل ویپنز لیب کا انتظام چلاتا رہا تھا۔
4 notes · View notes
hindiurdunews · 2 years ago
Text
چینی کرونا پابندیوں سے عاجز آ چکے ہیں
چینی کرونا پابندیوں سے عاجز آ چکے ہیں
چین میں کچھ عرصے سے ملک بھر میں رائج زیرو کرونا پالیسی کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ چینی ان پابندیوں سے تھک چکے ہیں، اپنے لیے نارمل زندگی چاہتے ہیں۔ ان کے احتجاج میں تیزی چینی صوبے سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی کی ایک عمارت میں لگنے والی آگے کے نتیجے میں ہونے والی دس اموات کے بعد آئی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کرونا کے روک تھام کے لیے اتنی سخت پابندیاں نہ لگی ہوتیں تو لوگ اس عمارت سے بر وقت باہر…
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years ago
Text
#Coronavirus چین میں کورونا کی تباہی، 6 دنوں میں 13 ہزار ہلاکتیں
بیجنگ: عالمی وبا کرونا نے ایک بار پھر چین میں تباہی مچادی، جس کے باعث نئے چینی قمری سال کی خوشیاں ماند پڑ گئیں۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق کرونا کے نئے ویرئینٹ نے چین میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا رکھی ہے، محتاط اندازے کے مطابق اسی فیصد چینی شہری اس وبا میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ چینی وزارتِ صحت کے مطابق تیرہ سے انیس جنوری کے دوران کورونا سے تیرہ ہزار افراد ہلاک ہو ئے۔ حکام کے مطابق کورونا کے نئے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
moazdijkot · 2 years ago
Text
چینی کرونا پابندیوں سے عاجز آ چکے ہیں
چینی کرونا پابندیوں سے عاجز آ چکے ہیں
چین میں کچھ عرصے سے ملک بھر میں رائج زیرو کرونا پالیسی کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ چینی ان پابندیوں سے تھک چکے ہیں، اپنے لیے نارمل زندگی چاہتے ہیں۔ ان کے احتجاج میں تیزی چینی صوبے سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی کی ایک عمارت میں لگنے والی آگے کے نتیجے میں ہونے والی دس اموات کے بعد آئی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کرونا کے روک تھام کے لیے اتنی سخت پابندیاں نہ لگی ہوتیں تو لوگ اس عمارت سے بر وقت باہر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
45newshd · 5 years ago
Photo
Tumblr media
کرونا وائرس ، چین میں رضا کاروں کی طرح پاکستان میں بھی مجاہد رضا کار فورس بنانے کا اعلان کردیا گیا لاہور (آن لائن) وزیرصحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے وزیراعلیٰ مجاہدرضاکار فورس پروگرام شروع کرنے کااعلان کر دیا ہے۔ وزیرصحت ڈاکٹریاسمین راشدنے وزیراعلیٰ مجاہدرضاکار فورس پروگرام کے تحت رضاکاربھرتی کرنے کے احکامات محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیراینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جاری کئے۔
0 notes
dashtyus · 5 years ago
Photo
Tumblr media
چین میں کرونا وائرس کے اثرات کم ہونے لگے ،ایک ماہ کے دوران گزشتہ روز سب سے کم ہلاکتیں ریکارڈ بیجنگ (این این آئی ) چین میں کرونا وائرس کے اثرات کم ہونے لگے، ایک ماہ کے دوران گزشتہ روز سب سے کم 29 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ 433 نئے کیس سامنے آئے ہیں۔ چین میں کرونا سے اب تک 2 ہزار 744 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب نے بیرون ملک سے عمرہ زائرین کا داخلہ عارضی طور پر روک دیا، غیرملکی سیاحوں کے ویزے بھی معطل کر دیئے گئے۔
0 notes
maqsoodyamani · 3 years ago
Text
کرونا اور روس-یوکرین جنگ نہ ہوتی تو ہماری معیشت 4.3 ٹریلین ڈالر ہوتی: راجناتھ سنگھ
کرونا اور روس-یوکرین جنگ نہ ہوتی تو ہماری معیشت 4.3 ٹریلین ڈالر ہوتی: راجناتھ سنگھ
کرونا اور روس-یوکرین جنگ نہ ہوتی تو ہماری معیشت 4.3 ٹریلین ڈالر ہوتی: راجناتھ سنگھ لکھنؤ ،14مئی ( آئی این ایس انڈیا ) مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ اگر کورونا اور یوکرین روس جنگ نہ ہوتی تو ہماری معیشت کا حجم 4.3 ٹریلین ڈالر ہوتا۔ بھارت کی طرح امریکہ اور چین میں بھی مہنگائی کا بحران ہے۔ معیشت کرونا سے متاثر ہوئی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے ہماری کورونا مینجمنٹ کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes