#کروڑوں روپے
Explore tagged Tumblr posts
googlynewstv · 3 months ago
Text
4 دہائی پرانا کمپیوٹر کروڑوں روپے میں فروخت
 ایپل کے شریک بانی اسٹیو جابز کی ملکیت میں رہنے والا ایک کمپیوٹر 3 لاکھ ڈالرز  سے زائد مالیت میں فروخت ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایپل 1 نامی یہ کمپیوٹر اس کمپنی نے 1976 میں متعارف کرایا تھا اور کافی عرصے سے یہ ایپل کی پہلی ایپلیکشن انجینئر ڈانا ریڈنگٹن کی ملکیت میں تھا۔اب وہی ایپل 1 کمپیوٹر 3 لاکھ 15 ہزار 914 ڈالرز میں نیلام ہوا ۔آر آر آکشن نامی کمپنی نے اسے نیلام کیا اور اس کی جانب سے جاری بیان کے…
0 notes
topurdunews · 20 days ago
Text
وزیر اعلیٰ کے حکم پرکے پی ہاؤس اسلام آبادایک ماہ سے بند صوبے کو کروڑوں روپے نقصان
(طیب سیف) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور  نے نادر شاہی حکم جاری  کر کے ایک ماہ سے کے پی ہاؤس اسلام آبادکو  بند رکھا ہوا ہے،کے پی ہاؤس بند ہونے سے سرکاری ملازمین ہوٹلوں میں ٹھہرنے پر مجبور ہیں، کے پی ہاؤس میں کسی سرکاری اور حکومتی نمائندےکو کمرے الاٹ نہیں کیے جا رہے ۔ ذرائع کے مطابق  وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپورنے خصوصی کمیٹی کی سفارشات تک کے پی ہاؤس کو بند رکھنے کا حکم…
0 notes
urdu-poetry-lover · 9 months ago
Text
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی
مارک ذکربرگ اور ایلون مسک کی شرکت اور قدرت کی ادھوری ادھوری تصویر۔۔
سعدیہ قریشی کے قلم سے۔
،،تصویر ادھوری رہتی ہے !
سعدیہ قریشی
رب کائنات نے زندگی کو ایسا ڈیزائن کیا ہے کہ تمام تر کامرانیوں اور کامیابیوں کے باوجود زندگی کی تصویر ادھوری رہتی ہے
کہیں نہ کہیں اس میں موجود کمی اور کجی کی ٹیڑھ ہمیں چھبتی ضرور ہے ۔
مارچ کے آغاز میں بھارت میں دنیا کی مہنگی ترین پری ویڈنگ تقریبات نے پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر بھی اس کا کافی چرچا رہا۔
بہت سی پوسٹیں ایسی نظر سے گزریں کہ ہمارے نوجوان آہیں بھرتے دکھائی دیے کہیں لکھا تھا بندہ اتنا امیر تو ہو کہ مارک زکر برگ اور ایلون مسک کو شادی پر بلاسکے ۔
یہ پری ویڈنگ تقریبات مکیش امبانی کے چھوٹے بیٹے اننت امبانی کی تھیں۔
مکیش امبانی ایشیا کے امیر ترین کاروباری اور دنیا کے امیر ترین لوگوں میں گیارویں نمبر پر ہیں وہ ریلائنس گروپ کے بانی اور چیئرمین ہیں.
پری ویڈنگ تقریبات کے لیے امبانی خاندان نے گجرات کے شہر جام نگر کو اربوں روپے لگا کر مہمانوں کے لیے سجایا۔
اس تقریب میں مہمانوں کو ڈھائی ہزار ڈشز ناشتے ،ظہرانے ۔شام۔کی چائے عشائیے اور مڈںائٹ ڈنر کے طور پر پیش کی گئیں
بھارت کے درجنوں اعلی درجے کے باورچی اور شیف جام نگر میں مہمانوں کے لیے کھانا بلانے کے لیے بنانے کے لیے بلائے گئےتین دنوں میں ایک ڈش کو دوسری دفعہ دہرایا نہیں گیا۔
تقریب میں تقریبا 50 ہزار لوگوں کے کھانے کا بندوبست کیا گیا۔
فلم انڈسٹری کے تمام سپر سٹار تقریب میں ناچتے دکھائی دئیے۔
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور ٹوئٹر خرید کر ایکس کی بنیاد رکھنے ایلون مسک اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ شریک ہوئے ٹرمپ کی بیٹی ایونکا ٹرمپ نے بھی خصوصی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی ۔
مہمانوں کو لانے اور لے جانے کے لیے چارٹر طیارے، مرسیڈیز کاریں اور لگزری گاڑیاں استعمال کی گئیں۔
2018 میں بھی مکیش امبانی نے اپنی بیٹی ایشا کی شادی پر اربوں ڈالرز خرچ کر کے پوری دنیا میں مہنگی شادی کا ایک ریکارڈ قائم کیا تھا ۔
اس شادی میں مہمانوں کو دعوت ناموں کے ساتھ سونے کی مالائیں بھی پیش کی گئی تھیں اور تمام مہمانوں کو شرکت کے لیے ان کو بھاری معاوضے دیے گئے تھے۔
ا خیال یہی ہے کہ اس تقریب میں بھی خاص مہمانوں شرکت کے لیے ریلائنس گروپ کی طرف سے ادائیگی کی گئی ہے ۔
دنیا بھر سے نامور گلیمرس شخصیات کی موجودگی کی چکاچوند کے باوجود اس تقریب کا ��رکز نگاہ دولہا اننت امبانی اور دولہن رادھیکا مرچنٹ تھے ۔تقریب کے تین دن باقاعدہ طور پر ایک تھیم کے تحت منائے گئے ۔دولہا دلہن سے لے کر تمام لوگوں کے کپڑے اسی تھیم کے مطابق تھے تھیم کے مطابق تقریب کا کروڑوں روپے کا ڈیکور کیا گیا۔
تقریب کے دولہا اننت مبانی اس وجہ سے بھی خبروں کا موضوع رہے کہ وہ ایک خطرناک بیماری کا شکار ہیں۔ جس میں وزن بے تحاشہ بڑھ جاتا ہے۔ان کے ساتھ ان کی دھان پان سی خوبصورت دلہن دیکھنے والوں کو حیران کرتی
اننت امبانی کو شدید قسم کا دمے کا مرض لاحق ہے جس کا علاج عام دوائیوں سے ممکن نہیں ۔سو علاج کے لیے اسے سٹیرائیڈز دئیے جاتے رہے ہیں ۔ان میں سٹیرائیڈز کی ایک قسم کارٹیکو سٹیرائیڈز تھی سٹرائیڈز کی یہ قسم وزن بڑھنے کا سبب بنتی ہے ۔
اس سے انسان کی بھوک بے تحاشہ بڑھ جاتی ہے اتنی کہ وہ ہاتھی کی طرح کئی افراد کا کھانا اپنے پیٹ میں انڈیلنے لگتا ہے ۔
ایک طرف بھوک بڑھتی ہے تو دوسری طرف مریض کا میٹابولزم کچھوے کی طرح سست رفتار یوجاتا ۔میٹابلزم انسانی جسم کا وہ نظام ہے جس سے خوراک ہضم ہوتی ہے اور توانائی جسم کا حصہ بنتی ہے۔میٹابولزم اچھا ہو تو چربی توانائی میں تبدیل ہوتی ہے ۔
کارٹیکو سٹیرائڈز جسم کے نظام انہضام کو درہم برہم کردیتا ہے جسم کے اندر چربی جمع ہونے لگتی ہے اور جسم کئی طرح کی دوسری بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
مسلز پروٹین نہیں بنتی جس کے نتیجے میں جسم بے تحاشہ موٹا ہونے لگتا ہے
کورٹیکو سٹیرائڈز کے مزید برے اثرات یہ ہیں کہ جسم میں پانی جمع ہونے لگتا ہے جسے ڈاکٹری اصطلاح میں واٹر ریٹینشن کہتے ہیں اس واٹر اٹینشن کی وجہ سے بھی جسم موٹا ہونے لگتا ہے ۔
اسے قدرت کی ستم ظریفی کہیے کہ کھربوں ڈالر کے اثاثوں کے مالک مکیش امبانی کا لاڈلا اور چھوٹا بیٹا ایک ایسی بیماری کا شکار ہے جس کے علاج کے لیے سٹیرائڈز کی تباہی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا
۔اننت امبانی اپنی زندگی کے اوائل برسوں سے ہی اس بیماری کا شکار ہے اس کا اربوں کھربوں پتی باپ اپنے بیٹے کے بہلاوے کے لیے اپنے دولت پانی کی طرح بہاتا ہے۔
اس کے بیٹے کو ہاتھیوں سے لگاؤ ہوا تو مکیش امبانی نے ایکڑوں پر پھیلا ہوا ہاتھیوں کا ایک سفاری پارک بنادیا ۔اس سفاری پارک میں بیمار ہاتھیوں کے اسپتال ،تفریح گاہوں ،سپا اور مالش کا انتظام ہے ۔خشک میوہ جات سے بھرے ہوئے سینکڑوں لڈو روزانہ ہاتھیوں کو کھلا دیے جاتے ہیں۔
یہ صرف مکیش امبانی کے اپنے بیمار بیٹے کے ساتھ لاڈ کی ایک جھلک ہے۔
مگر وہ اپنی تمام تر دولت کے باوجود اپنے بیٹے کے لیے مکمل صحت سے بھرا ایک دن نہیں خرید سکا۔
اننت امبانی نے تقریب میں ہزاروں مہمانوں کے سامنے اپنے دل کی بات کرتے ہوئے کہا کہ میری زندگی پھولوں کی سیج نہیں رہی بلکہ میں نے کانٹوں کے راستوں پر چل کر زندگی گزاری ہے
اس کا اشارہ اپنی خوفناک بیماری کی طرف تھا اس نے کہا کہ میں بچپن ہی سے ایک ایسی بیماری کا شکار تھا جس میں میری والدین نے میرا بہت ساتھ دیا۔
جب اننت امبانی یہ باتیں کر رہا تھا تو کیمرے نے ایشیا کے سب سے امیر ترین شخص مکیش امبانی کے چہرے کو زوم کیا اس کے گہرے سانولے رنگ میں ڈوبے
خدو خال تکلیف سے پگھل رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے
تکلیف اور بے بسی کے آنسو کہ وہ کھربوں ڈالر کے اثاثوں کے باوجود اپنے بیٹے کے لیے مکمل صحت سے بھرا ہوا ایک دن نہیں خرید سکا۔
رب نے دنیا ایسی ہی بنائی ہے کہ تصویر ادھوری رہتی ہے ۔اسی ادھورے پن میں ہمیں اس ذات کا عکس دکھائی دیتا ہے جو مکمل ہے!
سو آئیں مکیش امبانی کی دولت پر رشک کرنے کی بجائے اپنی زندگی کی ادھوری تصویر پر اپنے رب کا شکر ادا کریں کیونکہ تصویر تو اس کی زندگی کی بھی مکمل نہیں!
(بشکریہ کالم 92 نیوز سعدیہ قریشی)
منقول
4 notes · View notes
dpr-lahore-division · 2 months ago
Text
باتسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس قصور
محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب
تاریخ 02 اکتوبر2024 ء ہینڈ آؤٹ نمبر (574)
٭٭٭٭٭٭
ٹیکرز برائے الیکٹرانک میڈیا
قصور۔ ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر پتوکی رانا امجد محمود کی قبضہ مافیاکے خلاف بڑی کاروائی۔
قصور۔پتوکی شوگر مل کے قبضہ سے 50کروڑ مالیت کی 301کنال سرکاری زمین واگزار۔
قصور۔اسسٹنٹ کمشنر کی ریونیو اور متعلقہ پولیس افسران کے ہمراہ چک 68پتوکی میں کاروائی۔
قصور۔ واگزا کروائی گئی زمین پر پتوکی شوگر مل کا گزشتہ 30سال سے قبضہ تھا۔اسسٹنٹ کمشنر پتوکی
قصور۔ واگزار کروائی گئی زمین پر لگائی گئی فصل بحق سرکار ضبط کر کے تقریباً 1کروڑ روپے تاوان عائد۔رانا امجد محمود
قصور۔واگزار کروائی گئی زمین کی مالیت کروڑوں روپے بنتی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر پتوکی
قصور۔ڈپٹی کمشنر کی زیر نگرانی سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنیوالوں کے خلاف بھرپور کاروائیاں جاری ہیں۔رانا امجد محمود
قصور۔قبضہ مافیا کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتی جائیگی۔اسسٹنٹ کمشنر پتوکی
٭٭٭٭٭
0 notes
emergingpakistan · 11 months ago
Text
انتخابی سیاست اور ٹکٹوں کی تقسیم کا کھیل
Tumblr media
ہمارا سیاسی اورانتخابی نظام بنیادی طور پر آج بھی ارتقائی عمل سے گزررہا ہے۔ اصولی طور پر یہ ارتقائی عمل تسلسل کے ساتھ ایک مضبوط شکل میں آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہم سیاسی نظام یا سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت اور اس سے جڑے فیصلوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی ��رف جارہے ہیں۔ یہ ہی ہمارے سیاسی اور جمہوری نظام کی ناکامی ہے اور اس ناکامی کے نتیجہ میں ہمارے جمہوری اور سیاسی نظام کو مختلف محاذوں پر سیاسی پسپائی کا سامنا ہے۔ ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا اور خارجی یا پس پردہ طاقتوں کی مداخلت کے باعث سیاسی جماعتیں ایک مضبوط شکل اختیار نہیں کر سکیں۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے، مگر مکمل سچ نہیں۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں کو خود بھی جتنا موقع ملا وہ بھی کوئی اچھی سیاسی روایات کو قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ حالیہ 2024 کے انتخابات کے سیاسی مناظر کو دیکھیں اور اسی تناظر میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم سمیت عورتوں کی مخصوص نشستوں پر ان کی ترجیحاتی فہرستوں کو دیکھیں تو ہمیں خاندان، رشتہ داری، ذات برادری یا دوست پروی کی بے شمار جھلکیاں کو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔
ہم بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کی سطح پر ٹکٹوں کی تقسیم میں پانچ بڑے مسائل دیکھ رہے ہیں۔ اول، مضبوط سیاسی خاندان کو ہی بنیاد بنا کر ٹکٹوں کی تقسیم کی جاتی ہے۔ دوئم، یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان میں پیسے والے افراد کتنے ہیں جو نہ صرف انتخابی مہم میں بڑے پیمانے پر پیسے خرچ کر سکتے ہیں بلکہ پارٹی فنڈ کے نام پر بھی کروڑوں روپے دے سکتے ہیں۔ سوئم، سیاسی پیرا شوٹرز اور بار بار پارٹیاں بدل کر اپنی وفاداریوں کو تبدیل کرنے والوں کو کئی سیاسی مجبوریوں کے باعث قبول کیا جاتا ہے۔ چہارم، عورتوں کی مخصوص نشستوں پر بڑے سیاسی خاندانوں کی بیگمات، بیٹیاں ، بہو، بہنوں یا بھانجیوں، بھتیجیوں کو پارٹی کی سطح پر ترجیحی فہرستوں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ پنجم ایسے سرکاری کار مختاروں کی پشت پناہی کی بنیاد پر بڑی سیاسی جماعتیں ٹکٹ دیتی ہیں تاکہ ان کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔ قومی اور صوبائی جنرل نشستوں پر اور بعد میں عورتوں کی مخصوص نشستوں پر ایک ہی گھرانوں کی اجارہ داری ہوتی ہے۔ ایک ہی گھر کے افراد کو قومی، صوبائی اور مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔
Tumblr media
اسی طرح جب مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو یہاں بھی چیرمین اور وائس چیرمین پر بھی ان ہی بڑے گھروں کی اجارہ داری دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ سیاسی خاندان اس عمل کو اپنا حق سمجھتی ہیں یہ رویہ ان تمام سیاسی کارکنوں کی تذلیل کرتا ہے جو سیاسی جماعتوں میں لمبے عرصہ تک جدوجہد کرتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں، قید ہوتے ہیں۔ ان سیاسی کارکنوں کے پاس واحد آپشن سیاسی جماعتوں میں ان ہی بڑے خاندانوں کی عملی سیاست کے ساتھ کھڑے رہنا یا ان کے ساتھ مستقل بنیادوں پر وفاداری سے جڑا ہوتا ہے۔ جو سیاسی کارکن ان بڑے خاندانوں کی سیاست کو چیلنج کرتا ہے تو اسے سیاسی جماعتوں سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو سیاسی کارکن ٹکٹ کے حصول میں کامیاب بھی ہوتا ہے تو اس کی وجہ چاپلوسی ہوتی ہے۔ عورتوں کی نمایندگی کا موجودہ جو طریقہ کار مخصوص نشستوں کا ہے، اسے تبدیل ہونا چاہیے۔ عورتوں کی مخصوص نشستیں ضرور ہوں لیکن ان کا انتخابات براہ راست ہونا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں کمزور ہی اسی وجہ سے ہیں ان کے اپنے اندر داخلی جمہوریت یا میرٹ کا کوئی نظام نہیں اور جب سیاسی جماعتوں کا نظام ہی اقرباپروری کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو جمہوری کھیل اور زیادہ خراب ہو گا۔
اب تو ہمیں سیاسی جماعتوں کے اندر باقاعدہ ٹکٹوں کی خریدوفروخت کا نظام بھی دیکھنے کو مل رہا ہے اور جو امیدواروں سے پارٹی فنڈزکے نام پر لیا جاتا ہے، وہ بھی پارٹی کے اکاؤنٹس میں نہیں بلکہ کسی خاص فرد کے ذاتی اکاونٹ میں ڈالے جاتے ہیں۔ ہماری سیاست میں یہ جو روپے پیسے کا کھیل یا اسے کارپوریٹ سیاسی کلچر کہا جائے تو اس نے نے سیاسی نظام میں بے شمار خرابیاں پیدا کر دی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی فرد بھاری رقم دے کر ٹکٹ کے حصول کو یقینی بناتا ہے تو وہ منتخب ہونے کے بعد کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست سے کیسے خود کو علیحدہ رکھ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا سیاسی روائتی، خاندانی اور بڑے سیاسی گھرانوں کی سیاست سے باہر نکل سکے گا اور کیا ہم واقعی سیاسی جماعتوں میں ان کے داخلی سیاسی نظام میں مضبوط جمہوری عمل دیکھ سکیں گے ۔ کیونکہ اگر ہم نے اسی انداز میں سیاست اور اس سے جڑے فیصلے کرنے ہیں توہم کیسے اس نظام کی درستگی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ یہ کام محض سیاسی جماعتوں نے نہیں کرنا بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر سیاسی اصلاحات اور ان میں شفافیت کا نظام پورے ریاستی اور معاشرتی نظام کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔
جو لوگ بھی انفرادی یا اجتماعی طور پر یا اداروں کی شکل میں اس نظام میں اصلاح چاہتے ہیں ان کو ہر محاذ پر اور تواتر کے ساتھ ان سیاسی مسائل پر آواز بھی اٹھانی چاہیے ا ور ایک متبادل بہتر سیاسی نظام کی تشکیل کی طرف پیش رفت آگے بڑھانی ہو گی۔ اس میں ایک ضرب ہماری نئی نسل ہی لگاسکتی ہے کہ وہ اس روائتی سیاست کو چیلنج کرے۔ اس میں ایک بڑا کام سول سوسائٹی اور میڈیا سمیت علمای وفکری اداروں کی سطح پر منظم انداز میں ہونا چاہیے۔ اس نقطہ پر زور دینا ہو گا کہ سیاسی جماعتیں اسی انداز میں کام کریں یا فیصلے کریں جیسے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سے توقع رکھی جاتی ہے۔ کیونکہ میڈیا کا بھی ایک مجموعی مزاج یہ بن گیا ہے کہ وہ طاقت ور سیاسی گھرانوں کی سیاست کے درمیان خود کہیں پھنس کر رہ گیا ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں میں یہ گھرانے طاقت ور ہوتے ہیں تو میڈیا میں بھی ان کی مجموعی عکاسی کا غلبہ نظر آتا ہے۔ 
حالانکہ میڈیا کا ایک بڑا کام سیاست میں موجود خرابیوں کی حقیقی طور پر نشاندہی کرنا اور ایک متبادل آواز یا سوچ کو سامنے لاکر لوگوں کو شعور دینا ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں سول سوسائٹی اور رسمی یا غیر رسمی تعلیم میں ووٹرز کے شعور کو بنیادی فوقیت دینی ہو گی۔ کیونکہ یہ جو ہمارے سیاسی مسائل ہیں ان کا محض انتظامی یا قانونی بنیاد پر حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ہمیں شہریوں یا ووٹرز اور بالخصوص نئی نسل کے سیاسی اور سماجی شعور کو بھی اجاگر کرنا ہو گا۔ نئی نسل کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ وہ یرغمال نہیں بلکہ آزاد ووٹرز ہیں۔ ہم مضبوط سیاسی گھرانو ں کی ہم مخالفت نہیں کر رہے بلکہ ��س عمل کو بھی عملی طور پر سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کے تابع ہونا چاہیے۔ یہ سوچ اور فکر کے سیاسی نظام یا سیاسی جماعتیں کمزور اور خاندان زیادہ مضبوط ہونگے اس کی نفی کرنا اور ایک متبادل سیاسی و جمہوری نظام کی طرف پیش رفت ہی ہمیں بہترمنزل کی طرف لے جاسکتا ہے۔
سلمان عابد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduchronicle · 11 months ago
Text
پلے بوائے کے لیے آج بھی صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ برقرار رکھا جا رہا ہے، جاوید لطیف
مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ پلے بوائے کے لیے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ برقرار رکھا جا رہا ہے۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ ملک میں معاشی، سیاسی اور خارجہ سطح پر غیر یقینی کی صورتحال ہے، پالیسیاں بنانے والے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بیانیہ بنانے والوں پر کروڑوں روپے خرچ کردیے گئے، کوئی تحقیق کرتا تو پتہ چل جاتا 9…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 11 months ago
Text
ٹیکس چوری میں ملوث برانڈز کی کروڑوں کی مصنوعات ضبط - ایکسپریس اردو
ایف بی آر نے ٹریڈ مارک ضبط کرکے نیلامی شروع کر دی، یوٹیلٹی اسٹورز کو بھی مراسلہ (فوٹو: فائل) اسلام آباد: پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے)نے ایف بی آر کی طرف سے کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث برانڈز کی مصنوعات کی مارکیٹ میں فروخت ممنوعہ قرار دے دی ہے۔ پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی ڈی جی عصمت گل خٹک کی ہدایت پر خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئیں جن کمپنیوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year ago
Text
قابل اعتماد اور عوام دوست رہنما ہے کون؟
Tumblr media
رواں برس پنجاب اور خیبرپختون خوا میں دو نئی پارٹیوں کے قیام کے بعد ایک نئی قومی سطح کی پارٹی کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تو یہ خواہش ہے کہ نئی پارٹی ایسی ہو جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدارکی خواہاں اور اپنے طور پر اقتدار کے حصول کے قابل ہو، جس پر عوام بھی اعتماد کر سکیں۔ نئی پارٹی کے قیام کے لیے سب سے اہم بات وہ شخصیت ہو جس کی سربراہی میں پارٹی وجود میں آئے۔ اب تک ملک میں اہم شخصیات نے پارٹیاں بنائیں نہ برسر اقتدار بالاتروں کی خواہش پر پارٹیاں بنائی گئیں اور تین آمر سربراہوں، ایوب خان دور میں مسلم لیگ کنونشن، جنرل ضیا دور میں پاکستان مسلم لیگ اور جنرل پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ قائد اعظم بنائی گئی تھیں۔ تینوں کے نام مسلم لیگ پر تھے۔ مسلم لیگ کنونشن جنرل ایوب دور ہی میں ختم ہو گئی تھی جس کے بعد مسلم لیگ کے تین بڑے گروپ جونیجو، نواز اور چٹھہ میں تقسیم ہوئے اور صرف مسلم لیگ (ن) ہی کی شناخت باقی ہے۔ مسلم لیگ (ق) چند علاقوں تک محدود ہے جس کے سربراہ چوہدری شجاعت طویل عرصے سے بیمار ہیں جس سے پرویز الٰہی گروپ الگ ہو کر پی ٹی آئی میں جا چکا ہے جو 9 مئی کے بعد تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔
پیپلز پارٹی بغیر گروپنگ آصف زرداری اور بلاول بھٹوکی سربراہی میں ��ائم ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے (ش) نکالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے اور یہ تینوں پارٹیاں وفاقی اقتدار میں رہ چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور کچھ قیادت قید ہے اور اس کے برطرف کیے گئے وزیر اعظم کو ابھی بے شمار مقدمات کا سامنا ہے اور خوش فہمی کے شکار اس کے رہنماؤں کو امید ہے کہ قید چیئرمین کے باوجود پی ٹی آئی بھی 2018 کے قید نواز شریف کی طرح اپنی مقبولیت کے باعث پی ٹی آئی کو کامیابی دلا دیں گے مگر وہ یہ بھول گئے کہ نواز شریف پر بنائے گئے مقدمات کمزور تھے اور بالاتروں کی حمایت بھی انھیں حاصل نہیں تھی جب کہ قید چیئرمین پی ٹی آئی پر بعض مقدمات درست بھی ہیں اور بعض سنگین بھی اور انھیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر سزا نہیں ہوئی بلکہ بعض مقدمات انھیں سالوں قید میں رکھیں گے۔ قید چیئرمین کی پارٹی جس طرح بنوائی گئی تھی ویسے ہی وہ بکھر چکی۔ آیندہ انتخابات 1970 جیسے نہیں ہوں گے کہ بھٹو صاحب کے ٹکٹ پر کھمبا بھی جیت سکتا ہے مگر اس وقت بھٹو صاحب آزاد تھے اور صرف مغربی پاکستان کے دو صوبوں میں اکثریت لے سکے تھے۔
Tumblr media
چیئرمین پی ٹی آئی نہ صرف قید بلکہ سیاسی طور پر تنہا ہیں۔ ان کی پارٹی پر مال لگانے والے اپنی پارٹی بنا چکے۔ چیئرمین پی ٹی آئی دوسروں کے مال پر سیاست کے عادی رہے ہیں اور جو مال ان کے پاس ہے وہ اب ان کے مقدمات پر خرچ ہو رہا ہے اور انھیں مہنگے مہنگے وکیلوں کی خدمات معاوضے پر حاصل کرنا پڑ رہی ہیں اور اب صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی کروڑوں روپے خرچ کرنے پر ہی جیتا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی باریوں کے بعد پونے چار سال پی ٹی آئی کی حکومت بھی آزمائی جا چکی اور مختلف پارٹیوں میں موجود جو نمایاں چہرے ہیں وہ سب ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور ماضی سے حکمران رہنے والوں نے الیکشن میں جو وعدے کیے، پارٹی منشور دیے ان میں چیئرمین پی ٹی آئی واحد وزیر اعظم تھے جنھوں نے عوام سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ پی پی کہہ سکتی ہے کہ اس نے لوگوں کو روزگار دیا، (ن) لیگ کہہ سکتی ہے کہ اس نے 2018 تک ملک کو اندھیروں سے نکال کر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ پورا کیا تھا مگر پی ٹی آئی کے پاس صرف مظلومیت کی دہائی کے سوا کچھ نہیں ہو گا اور نواز شریف بھی کہیں گے کہ ان کی تینوں حکومتیں اچھی کارکردگی کے باوجود ختم کی گئیں اور انھیں ناحق قید رکھا گیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے اس موقف میں کسی حد تک وزن بھی موجود ہے کیونکہ عوام نے دیکھا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ تقریباً ختم ہو گئی تھی‘ اس کے علاوہ ملک کی کاروباری صورتحال بھی خاصی بہتر تھی‘ مڈل کلاس طبقے کے لیے اتنی مشکلات پیدا نہیں ہوئی تھیں جتنی کہ آج یہ طبقہ برداشت کر رہا ہے۔ تعمیراتی کام بھی زیادہ ہو رہے تھے جس کا اثر بھی معاشی سرگرمیوں میں تیزی آنے کا سبب بنا۔ عوام مہنگائی کے جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کی ذمے دار تینوں سابق حکمران جماعتیں ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں اور تینوں کی قیادت نے جیلیں بھی بھگتی ہیں اور خود کو بھی مالی طور پر مستحکم کیا ہے۔ عوام مہنگائی، کرپشن اور سابق حکمرانوں کی کارکردگی سے مایوس ہو کر کسی نئی پارٹی کے منتظر نہیں بلکہ اسی جان لیوا مہنگائی سے چھٹکارا چاہتے اور تینوں بڑی پارٹیوں کو آزما چکے اور پرانے حکمرانوں سمیت اب کسی نئی پارٹی کے نئے دعوؤں میں آنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان کا مسئلہ کسی پارٹی کا اقتدار نہیں بلکہ انھیں درپیش مالی مسائل ہیں۔
ملک میں اب کوئی ایسی قومی شخصیت موجود نہیں جس کی قیادت میں نئی پارٹی بن سکے۔ نئی پارٹی کے خواہش مندوں میں کوئی بھی قومی اہمیت کا حامل نہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے اپنی وزارت میں عوام کو نظر انداز کیا۔ ہنس ہنس کر پٹرول بڑھاتے اور عوام پر ٹیکس نہ دینے کا الزام لگاتے رہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کبھی صوبائی الیکشن تک نہیں لڑا۔ ملک میں چینی کی مہنگائی کا ذمے دار بعض سیاستدانوں کو سمجھا جاتا ہے اور ان کی پارٹی میں وہ ��مام لوگ ہیں جو پی ٹی آئی میں تھے اور پنجاب تک محدود ہیں۔ پرویز خٹک کی سیاست کے پی کے چند اضلاع تک محدود ہے اور یہ سب چیئرمین پی ٹی آئی کے وفادار اور ان کے اشاروں پر چلا کرتے تھے انھیں اب عوام کا خیال آیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا جہاں تک معاملہ ہے تو یاد رکھیں کہ نئی پارٹی کثیر سرمائے کے بغیر بن نہیں سکتی اور اب الیکشن کروڑوں کا کھیل بن چکے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں میں کوئی ایک بھی عوام دوست ثابت نہیں ہوا سب کے دعوے جھوٹے تھے۔ ہر پارٹی نے عوام کو مایوس کیا کوئی ایک رہنما قومی لیڈر ہے، نہ عوام میں مقبول تو نئی پارٹی کون بنائے گا؟
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
احتسابی ڈرامے آخر کب تک؟
Tumblr media
استحکام پاکستان پارٹی کے ایک رہنما نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ کل تک‘‘ میں کہا ہے کہ ملک پر احسان کیا جائے اور الیکشن سے قبل ایک کڑا احتساب کیا جائے۔ الیکشن اور نیب کے کیسز سائیڈ بائی سائیڈ نہیں چل سکتے، اگر احتساب شروع ہوا ہے تو اچھی بات ہے اور اس کے چانسز بھی نظر آ رہے ہیں ایسا ہوا تو یہ ملک پر احسان ہو گا اور کڑے احتساب کی اشد ضرورت ہے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے ایک سینیٹرکا کہنا تھا کہ الیکشن اور احتساب سائیڈ بائی سائیڈ بھی چل سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری احتساب کی تاریخ بڑی منتخب اور متعصب ہے۔ ملک میں عام انتخابات کے موقع پر جہاں آئین کے مطابق مقررہ مدت میں جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ ہوتا ہے وہاں الیکشن سے قبل پہلے احتساب کرنے کے مطالبات بھی ہوتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا موقف ہے کہ انتخابات دراصل احتساب ہی ہوتا ہے اور اپنے نمایندوں کا احتساب کر کے ہی انھیں ووٹ دینے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ احتساب کے ڈرامے ملک میں تین عشروں سے چل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں 1999 تک کرپشن کے سنگین الزامات پر برطرف بھی ہوئیں مگر عوام نے 2008 اور 2013 میں تیسری بار اقتدار کے لیے منتخب کیا۔
نواز شریف حکومت میں وزیر اعظم نے اپنے خاص شخص کو پی پی رہنماؤں کے احتساب کے لیے مقرر کیا تھا جس کے احتساب کمیشن کو سیف الرحمن کمیشن کہا گیا جس کا سربراہ جنرل مشرف دور میں ملک سے فرار ہو گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور میں پی پی رہنماؤں کا احتساب یک طرفہ طور پر کرایا تو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آ کر نواز شریف، آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو سمیت دونوں پارٹیوں کے احتساب کے لیے نیب بنایا تھا جسے دونوں ہی پارٹیوں نے جنرل پرویز مشرف کا سیاسی انتقام قرار دیا تھا اور نیب کے احتساب کو یک طرفہ اور مکمل جانبدارانہ قرار دیا تھا اور اقتدار میں آ کر نیب کو ختم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ 2008 کے ا��تخابات کے بعد جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوانے کے لیے نیب کو کھل کر استعمال کیا اور پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان قومی اسمبلی کی پیٹریاٹ بنا کر پی پی رہنماؤں کو اہم وزارتیں دی تھیں پرویز مشرف اور پی ٹی آئی دونوں فوجی و سویلین حکومت میں نیب کو دوسری پارٹیوں کو توڑنے اور صرف سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا۔
Tumblr media
جنرل پرویز مشرف کے 2008 میں اقتدار سے ہٹنے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دس سال تک حکومتیں رہیں مگر ان کے چاروں وزرائے اعظم کے دور میں نیب کو پی ٹی آئی کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا۔ حالانکہ پی ٹی آئی میں دونوں پارٹیوں کی حکومتوں میں رہنے والے وہ لوگ شامل تھے جن پر کرپشن کے الزامات تھے مگر نیب نے ان کے خلاف کارروائی کی ہی نہیں یا برائے نام کی۔ نیب کے سابق چیئرمین جاوید اقبال کا تقرر مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پی پی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی مشاورت سے کیا تھا جس کے کچھ عرصے بعد ہی پی ٹی آئی کی حکومت آگئی جس کے سربراہ انتقام پر یقین رکھتے تھے اور انھوں نے چیئرمین نیب کو اپنے ساتھ ملا کر ملک میں پی پی اور (ن) لیگ ہی نہیں بلکہ اپنے کسی غیر سیاسی مخالف کو بھی نہیں بخشا اور نیب کے ذریعے اپنے تمام مخالفین کو گرفتار کرایا اور سالوں قید رکھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت پر بعض ججزکی خصوصی عنایات رہیں اور انھوں نے بھی ملک میں ہونے والے یکطرفہ انتقامی احتساب پر توجہ دی نہ پی ٹی آئی حکومت نے سیاسی مخالفین کو ناحق طویل قید کے باوجود فوری ضمانتیں دیں مگر طویل قید کاٹنے کے باوجود نیب ان کے خلاف مقدمات میں کچھ کرپشن یا بے قاعدگی ثابت کر سکا، نہ کسی ایک کو سزا دلائی جا سکی اور وہ تمام ضمانتوں پر رہا ہوئے اور ان پر مقدمات اب بھی چل رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم خود ہی نیب اور منصف بھی بنے ہوئے تھے اور اپنے مخالفین کو گرفتار کرانے کے بیانات دیتے تھے جن پر نیب اور ایف آئی اے عمل کرتے تھے۔ سابق وزیر اعظم کی خواہش چیئرمین نیب پوری کرتے رہے جس پر اپوزیشن ان پر باہمی گٹھ جوڑکے الزامات لگاتی تھی مگر نیب مقدمات عدالتوں میں ثابت نہ کرسکی۔ سابق وزیر اعظم اپنے تمام سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو قرار دیتے رہے اور اپنے حامی کرپٹ لوگوں کی سرپرستی بھی کرتے رہے۔ ان کے دور میں نیب کو مخالفین کے خلاف بھرپور طور پر استعمال کیا اور مکمل من مانیاں کیں۔ توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کر کے کروڑوں روپے کمائے۔ اپنوں کو دل کھول کر نوازا جس کی سزا وہ اب خود بھی بھگت رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ملک میں کبھی منصفانہ احتساب نہیں ہوا بلکہ احتساب کے نام پر مخالفین کو رگڑا گیا۔ انھیں بدنام کیا گیا اور اپنے انتقامی احتساب سے ذاتی تسکین سے ملک کو نقصان پہنچایا گیا اور احتساب کے نام پر ڈرامے بازی کی گئی اور جھوٹ بولا گیا۔ ملک میں ہر دور میں ہر ادارے میں کرپشن ہوئی، سرکاری اختیارات کے ذریعے ملک کو لوٹا گیا، اقربا پروری اور بدعنوانوں کی سرپرستی کی گئی جب کہ ملک کو واقعی ایک بے رحمانہ اور منصفانہ احتساب کی ضرورت اور عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے جو اب تک پورا ہوا نہ ہو گا اور ماضی کی طرح احتساب کے نام پر ڈرامے ہوتے رہیں گے۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urdunewsfunplannetblog · 1 year ago
Text
ججز کی رہائش گاہوں کیلیے کروڑوں روپے کی منظوری
 اسلام آباد: کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی(آی سی سی) نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت اور ججز کی رہائش گاہوں کے لیے 69.500 ملین روپے کے فنڈز جاری کرنے کی منظوری دے دی۔ تفصیلات کے مطابق کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہوا، جس میں وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق مسعود ملک، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ طارق باجوہ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 6 days ago
Text
بشریٰ بی بی نے کپتان کے کھلاڑیوں کی چیخیں کیسے نکلوائیں؟
تحریک انصاف کی فائنل احتجاج کی کال پر ہر رکن صوبائی و قومی اسمبلی کو 5 سے 10ہزار اراکین کو اپنے خرچے پر اسلام آباد پہنچانے کے احکامات نے یوتھیوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں مڈل کلاس عمرانڈو اراکین پریشان ہیں کہ وہ ہزاروں کارکنان کو اسلام آباد لانے پر ہونے والے کروڑوں روپے کے اخراجات کیسے برداشت کرینگے کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جہاں ان کے کاروبار بند ہیں وہیں وہ بھی خیبرپختونخوا کے علاوہ…
0 notes
topurdunews · 1 month ago
Text
افسر شاہی کی غفلت‘ کروڑوں روپے کی گندم ضائع ہونے کا خدشہ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ)افسر شاہی کی غفلت کے باعث   کروڑوں روپے کی گندم ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ خوراک پنجاب کی انسپکشن ٹیم نے راولپنڈی اسلام آباد کے سرکاری گندم گوداموں کا 18مارچ کو پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے ساتھ جو معائنہ کیا اسکے مطابق محکمہ فوڈ پنجاب کی پالیسی سے پہلوتہی کی گئی۔ “جنگ ” نےذرائع کے حوالے سے بتایا کہ محکمہ خوراک حکومت…
0 notes
cryptosecrets · 2 years ago
Text
دہلی فسادات کو تین برس بیت گئے
نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت میں فروری 2020 کو ہوئے والے فسادات کو تین برس بیت گئے جس میں ہندو انتہا پسندوں نے 60 مسلمانوں کوشہید کیا تھا، تین سال گزرنے کے بعد بھی بھارتی مسلمانوں کے دلوں پر لگنے والے وہ زخم آج بھی تازہ ہیں۔ دہلی فسادات میں راشٹر سویم سیوک سنگھ( آر ایس ایس ) اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند ہندوؤں نے 60 سے زائد مسلمانوں کو شہید اور کروڑوں روپے کی املاک تباہ کر دی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dpr-lahore-division · 2 months ago
Text
با تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس قصور
محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب
٭٭٭٭٭
ڈپٹی کمشنر کی ہدایات‘اسسٹنٹ کمشنر عطیہ عنایت مدنی کی سموگ کی روک تھام کیلئے بھرپور کاروائیاں جاری
فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے پر 14افراد کیخلاف مقدمات درج‘خلاف ورزی پر 3پٹرول پمپس کو ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ عائد
قصور(02 اکتوبر 2024ء)ڈپٹی کمشنر قصور کیپٹن ریٹائرڈ اورنگزیب حیدر خان کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر قصور عطیہ عنایت مدنی کی سموگ کی روک تھام کیلئے بھرپور کاروائیاں جاری‘فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے پر 14افراد کیخلاف مقدمات درج‘پٹرول پمپس کے پیمانوں میں ہیرا پھیری پر ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ عائد۔ تفصیلات کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر قصور عطیہ عنایت مدنی کا سموگ کی روک تھام کیلئے مختلف علاقوں کا دورہ۔نور پور، تارا گڑھ اورجگیاں گاؤں میں فضلوں کی باقیات کو آگ لگانے پر 14افراد واجد علی ولد حاجی اکبر علی ڈوگر‘سردار محمد منور ولد حاکم علی ڈوگر، محمود حسین ولد محمد انور ڈوگر، سردار رشید احمد ولد محمد دین ڈوگر، عمیر ولد یوسف، شفیق ولد قدیر احمد، محمد عباس ولد ظہیر علی، شکور ولد ہستا ڈوگر، نعیم علی ولد نذیر احمد اور دیگر کیخلاف متعلقہ تھانو ں میں مقدمات درج کروا دیئے گئے۔ اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ سموگ سے بچاؤ کے لئے عوام الناس کو ضلعی انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کر کے اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔سموگ کے پیش نظرحکومتی احکامات پر سوفیصد مکمل عملدرآمد کروایا جائے گا۔فصلوں کی باقیات کو جلانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا تا ہم ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والوں کے خلاف بھرپور کاروئیاں عمل میں لائی جائینگی اور اس سلسلے میں زیر و ٹالرنس پالیسی پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں اسسٹنٹ کمشنر قصور عطیہ عنایت مدنی نے مختلف علاقوں میں پٹرول پمپس کے پیمانوں کی چیکنگ کی۔ خلاف ورزی کرنیوالے 3پٹرول پمپس کو 1لاکھ 20ہزار روپے جرمانہ عائد کیا۔
٭٭٭٭٭
ڈپٹی کمشنر کی ہدایت‘ اسسٹنٹ کمشنر پتوکی رانا امجد محمود کی قبضہ مافیاکے خلاف بڑی کاروائی‘
پتوکی شوگر مل کے قبضہ سے 50کروڑ مالیت کی 301کنال سرکاری زمین واگزار
قصور(02 اکتوبر 2024ء)ڈپٹی کمشنر قصور کیپٹن ریٹائرڈ اورنگزیب حیدر خان کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر تحصیل پتوکی رانا امجد محمود کی قبضہ مافیاکے خلاف بڑی کاروائی‘پتوکی شوگر مل کے قبضہ سے 50کروڑ روپے مالیت کی 301کنال سرکاری زمین واگزار۔ تفصیلات کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر تحصیل پتوکی رانا امجد محمود نے ریونیو اور متعلقہ پولیس افسران کے ہمراہ چک 68پتوکی سے شوگر مل پتوکی کے قبضہ سے 301کنال سرکاری زمین واگزار کروا لی ہے۔ واگزا کروائی ��ئی زمین پر پتوکی شوگر مل کا گزشتہ 30سال سے قبضہ تھا۔ واگزار کروائی گئی زمین پر لگائی گئی فصل بحق سرکار ضبط کر کے تقریباً 1کروڑ روپے تاوان عائد کر دیا ہے۔ اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ واگزار کروائی گئی زمین کی مالیت کروڑوں روپے بنتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر کی زیر نگرانی سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنیوالوں کے خلاف بھرپور کاروائیاں جاری ہیں اور قبضہ مافیا کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتی جائیگی
٭٭٭٭٭
اسسٹنٹ کمشنر عطیہ عنایت مدنی کا بے نظیر انکم سپورٹ سینٹرکا دورہ‘خواتین میں رقوم کی تقسیم سمیت دیگر سہولیات کا جائزہ لیا
قصور(02 اکتوبر 2024ء)ڈپٹی کمشنر قصور کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنر زقصور عطیہ عنایت مدنی کا بے نظیر انکم سپورٹ سینٹرکا دورہ‘مستحقین خواتین میں رقوم کی تقسیم سمیت دیگر سہولیات کا جائزہ لیا۔ اسسٹنٹ کمشنر قصور عطیہ عنایت مدنی نے شہبازشریف سپورٹس کمپلیکس میں قائم بی آئی ایس پی سینٹر کادورہ کر کے وہاں پر مستحق خواتین میں رقوم کی تقسیم سمیت دیگر سہولیات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے سینٹر انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ سینٹر پر مستحقین میں منظم و شفاف انداز میں رقوم کی تقسیم کا عمل جاری رکھیں اور سینٹر پر پینے کے ٹھنڈے پانی، سائے اور بیٹھنے کیلئے مناسب انتظامات کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔
٭٭٭٭٭
ڈپٹی کمشنر کی ہدایت‘اسسٹنٹ کمشنرز کے عام مارکیٹوں اور ہسپتالوں کے دورے
عام مارکیٹ میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور ہسپتالوں میں طبی سہولیات کو چیک کیا
قصور(02 اکتوبر 2024ء) وزیر اعلی پنجاب مریم نوازشریف کے احکامات اور ڈپٹی کمشنر قصور کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنرز کے عام مارکیٹوں اور ہسپتالوں کے دورے‘اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور ہسپتالوں میں طبی سہولیات کو چیک کیا۔ تفصیلات کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر ز قصور عطیہ عنایت، پتوکی رانا امجد محمود، چونیاں طلحہ انور اور کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید نے اپنی اپنی تحصیلوں میں عام مارکیٹوں کا دورہ کر کے پھلوں، سبزیوں، روٹی و نان، بریڈ اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور ریٹ لسٹوں کی نمایاں جگہوں پر موجودگی کو چیک کیا تا ہم ناجائز منافع خوری پر بھاری جرمانے عائد کئے۔ اسسٹنٹ کمشنر قصور عطیہ عنایت مدنی نے بنیادی مرکزصحت تارا گڑھ اور اسسٹنٹ کمشنر پتوکی رانا امجد محمود نے ٹی ایچ کیو ہسپتال کا دورہ کر کے وہاں پر ڈاکٹرز و پیرا میڈیکل سٹاف کی حاضری، صفائی ستھرائی، میڈیسن کی دستیابی سمیت دیگر طبی سہولیات کو چیک کیا۔ اسسٹنٹ کمشنر نے گورنمنٹ بوائز سکول پتوکی کا بھی دورہ کر کے وہاں پر صفائی ستھرائی، اساتذہ کی حاضری اور تدریس کے عمل کو چیک کیا۔
٭٭٭٭٭
اسسٹنٹ کمشنر تحصیل کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید کے زیر صدارت انسداد ڈینگی کے حوالے سے اجلاس
قصور(02 اکتوبر 2024ء)ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر تحصیل کوٹ رادھاکشن ڈاکٹر محمد انس سعید کے زیر صدارت تحصیل ایمرجنسی رسپانس کمیٹی برائے انسداد ڈینگی کا اجلاس انکے آفس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں تمام متعلقہ محکموں کے تحصیل افسران نے شرکت کی۔ اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر محمد انس سعید نے تمام محکموں کی کارکردگی کا تفصیلاً جائزہ لیا۔ انہو ں نے ہدایت کی کہ موجودہ موسم میں ڈینگی لاروا کی افزائش گاہوں کا صفایا ناگزیر ہے۔ڈینگی ٹیمیں فیلڈ میں نکلیں اور سازگار مقامات کو باربار چیک کرکے کیمیکل ٹریٹمنٹ کریں۔انہوں نے ہدایت کی کہ اینٹی ڈینگی ٹیمیں ہاٹ سپارٹس کی چیکنگ کے عمل کو سو فیصد یقینی بنائیں اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی سستی و غفلت کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔
٭٭٭٭٭
0 notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ
Tumblr media
حضرت عمر ابنِ خطاب کا دورِ خلافت ہے۔ وہ مدینے میں اپنے گھر کے باہر ایک مجمع سے خطاب کر رہے ہیں، ''اے لوگو میری بات دھیان سے سنو اور اطاعت کرو‘‘۔ مجمع میں سے ایک آواز آئی کہ ہم نہ تمہاری بات سنیں گے نہ اطاعت کریں گے۔ یہ آواز حضرت سلمان فارسی کی تھی۔ ایک سناٹا چھا گیا۔ خلیفہ عمر نے پوچھا، ''اے سلمان مجھ سے ایسی کیا خطا ہو گئی��‘‘ سلمان فارسی نے کہا یمن سے چادروں کا جو تحفہ آیا وہ سب میں برابر تقسیم ہوا۔ تمہارے تن پر دو چادریں کیسی؟ خلیفہ عمر نےسبب بتایا کہ میں نے اپنے کپڑے دھو کے ڈالے ہوئے تھے اور ایک چادر تن کے لیے ناکافی تھی۔ لہذا میں نے یہاں آنے کے لیے اپنے بیٹے کے حصے میں آنے والی چادر اس سے مانگ لی۔ خلیفہ عمر کو اس کا بھی پورا ادراک تھا کہ وہ جس منصب پر ہیں، اس کے سبب لوگ ان کے اہلِ خانہ کے طرزِ زندگی پر بھی کوئی بھی سوال اٹھا سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ رعیت کو جب کسی فعل سے منع کرتے تو پھر گھر والوں کو جمع کر کے تاکید کرتے کہ لوگوں کی تمہارے افعال پر ایسے نگاہ ہے جیسے پرندہ گوشت کو دیکھتا ہے۔ لہذا تم میں سے کسی نے کوئی ایسی حرکت کی جس سے میں نے عام آدمی کو روکا ہے تو پھر تمہیں مجھ سے تعلق کی بنا پر دوگنی سزا ملے گی۔
مجھے یہ قصہ یوں بیان کرنا پڑا ہے کہ اس ملک کا آئینی نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہاں کا ہر حکمران خلفائے راشدین کا دور واپس لانے کا خواب دکھاتا ہے اور اس دور کے قصے سن کے ہر جنرل، جج ، بیوروکریٹ اور نیتا کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ مجھے یہ قصہ یوں بھی یاد آیا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ پر سرکاری توشہ خانے سے تحائف اونے پونے خرید کے بازار میں بیچنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے ان کے ناقابلِ ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کرنا پڑے۔ ان وارنٹس کی تعمیل کی کوشش کے دوران جو سرپھٹول ہوئی وہ آپ کے سامنے ہے۔ اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر حکومت نے گذشتہ بیس برس کے دوران توشہ خانے میں آنے جانے والی اشیا کی فہرست عام کر دی۔ فہرست کو دیکھ کے اندازہ ہوا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہر حکمران اور ان کے اہلِ خانہ نے دل کھول کے ”توشہ نوشی‘‘ کی۔ صدور اور وزرائے اعظم تو رہے ایک طرف۔ ان کے اہلِ خانہ اور ان سے نتھی افسروں نے بھی دو سو ساٹھ ملین روپے کے تحائف صرف ستاون ملین روپے کے عوض خرید لیے۔ یعنی اصل قیمت کا محض پندرہ سے بیس فیصد دے کر گھڑیاں، زیورات، نوادرات وغیرہ اڑس لیے گئے۔
Tumblr media
پرویز مشرف سے عارف علوی تک اور شوکت عزیز سے شاہد خاقان عباسی تک کسی صدر یا وزیرِ اعظم یا ان کے کنبے نے نہیں سوچا کہ ہم اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ توشہ خانے سے استفادے کی کیا ضرورت ہے۔ اس عرصے میں چار سابق حکمران توشہ خانے سے کروڑوں روپے مالیت کی اشیا اونے پونے خریدنے کے سلسلے میں بدعنوانی کے الزامات میں ماخوذ ہو چکے ہیں۔ ان میں آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں۔ کسی حکمران یا افسر کے ذہن میں ایک لمحے کو یہ خیال نہیں آیا کہ توشہ خانہ سے مفت کے داموں اشیا خرید کے انہیں مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر کے اپنی جیب میں ڈالنے کے بجائے کسی فلاحی تنظیم یا ادارے کو یہ پیسے دان کر دے۔ پاکستان میں کم ازکم تنخواہ پچیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ اس ملک میں ستر فیصد کارکنوں کی اوسط ماہانہ آمدنی پینتیس ہزار روپے ہے۔ دو بچوں اور میاں بیوی پر مشتمل چار رکنی خاندان کا گھر اگر ذاتی نہیں ہے تو کھانے پینے، کپڑے لتے، بیماری، خوشی غمی اور تعلیمی فیس کے لیے ہی اس وقت کم از کم پچاس ہزار روپے ماہانہ درکار ہیں اور اتنے پیسوں میں بھی دو وقت کی روٹی، بجلی، پانی، گیس اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات ہی پورے ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔
لاکھوں پنشنرز اس وقت آٹھ ہزار سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ پر گذارہ کر رہے ہیں اور ہزاروں تو پنشن کا منہ دیکھے بغیر ہی چل بسے۔ لیکن اسی پاکستان میں ایسے مقتتدر لوگ بھی ہیں جن کی ماہانہ پنشن دس لاکھ روپے یا زائد بتائی جاتی ہے۔ انہیں سرکار کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی گھر کا کرایہ، گاڑی، پٹرول، یوٹیلٹی بلز کی مد میں ایک مخصوص رقم اور سیکورٹی گارڈز فراہم ہوتے ہیں۔ اگر یہ جلیل القدر ہستیاں ان میں سے ایک بھی رعائیت نہ لیں تب بھی وہ اپنے طور پر یہ سب افورڈ کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے یہ سوچ درکار ہے کہ یہ سب الللے تلللے ملک کی ننانوے فیصد آبادی پر بلاواسطہ ٹیکسوں، اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی اور بیرونی قرضوں سے پورے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں شہباز شریف حکومت نے وزراء اور سرکاری اہلکاروں کی مراعات میں کٹوتی کی تفصیلات کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان اقدامات سے دو سو ارب روپے سالانہ کی بچت ہو گی۔ آج ایک ماہ گذرنے کے بعد بھی حکومت اپنے وزراء اور بابووں سے محض نصف اضافی گاڑیاں ہی واپس لے سکی ہے۔
یہ حضرات سب کے سب اس ملک میں مساوات اور ہر شہری کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ریاستِ مدینہ کا نظام لانے کے خواب فروش ہیں۔ گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے توشہ خانہ کا آڈٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو جو اہلِ اقتدار، جج، جنرل اور بااثر افراد توشہ خانہ سے فیضیاب ہوئے ان سب کی فہرست مرتب کر کے ان سے ان تحائف کی پوری قیمت ��صول کی جائے۔  میں یہ حکم پڑھنے کے بعد سے سوچ رہا ہوں کہ ایک وزیرِ اعظم تھے محمد خان جونیجو جنہوں نے جنرلوں کو سوزوکیوں میں بٹھانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ایک وزیرِ اعظم تھے نواز شریف جنہوں نے جنرل مشرف پر آرٹیکل چھ لاگو کر کے دیکھ لیا۔ اور ایک وزیرِ اعظم تھے عمران خان جنہوں نے ریاستِ مدینہ قائم کرتے کرتے توشہ خانہ کی گھڑیاں بازار میں بیچ دیں۔ اور ایک وزیرِ اعظم ہیں شہباز شریف جنہوں نے سادگی اپنانے کا نعرہ لگا کے توشہ خانہ کی جو فہرست جاری کی، اس میں کوئی جج اور جرنیل شامل نہیں۔ اور ایک تھے ہمارے محمد علی جناح۔ جنہوں نے گورنر جنرل ہاؤس کے عقب میں واقع کیفے گرینڈ والوں کو آرڈر دیا کہ وہ بڑی ڈبل روٹی نہ بھیجا کریں۔ کیونکہ ناشتہ کرنے والا صرف میں یا میری بہن فاطمہ ہے۔ چھوٹی ڈبل روٹی بھیجا کریں تاکہ ریاست کا پیسہ ضائع نہ ہو۔ چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ آج بھی کیفے گرینڈ والوں نے سنبھال کے رکھا ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
urduchronicle · 11 months ago
Text
کراچی : صدر کے علاقے میں موبائل فون مارکیٹ میں آتشزدگی سے کروڑوں کا نقصان
کراچی کے علاقے صدر میں قائم موبائل مارکیٹ میں آتشزدگی سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوگیا۔ آگ پر قابو پاتے ہوئے مزید پھیلنے سے روک دیا گیا ہے۔ آگ سے متعدد دکانوں کو نقصان پہنچا، فائربریگیڈ کی8 گاڑیوں نے ریسکیو عمل میں حصہ لیا، واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم آگ لگنے کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ۔ فائربریگیڈ حکام کے مطابق آگ ڈک سے پہلی منزل تک پہنچی تھی جس سے متعدد دکانوں کو نقصان پہنچا۔ آگ شاہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes