#چالیس
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 1 year ago
Text
عشق اور عقل (5)
  چالیس چراغ عشق میں آگے چل کر مولانا روم فرماتے ہیں بلند و برتر اور ہر طرح کے نقص سے پاک ذاتِ خدا، سے محبت کرنا تو بظاہر آسان سی بات ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ مشکل انسان کا اپنے ابنائے جنس سے محبت کرنا ہے، جس میں ہر طرح کی کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں، یاد رکھو، انسان اسی کو جان سکتا ہے جس سے وہ محبت کرنے پر قادر ہو۔محبت کے بغیر کوئی معرفت، معرفت نہیں ہوتی۔ جب تک ہم اللہ کی تخلیق سے محبت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 1 year ago
Text
Tumblr media
میں نے خواتین کی نفسیات کا مطالعہ کرتے ہوئے چالیس سال گزارے ہیں، اور مجھے ابھی تک اِس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ خواتین اصل میں چاہتی کیا ہیں...!؟
I have spent forty years studying women's psychology, and I still can't find the answer to the question what women really want...?
Sigmund Fried
Source: "The Wife at the Bath's Tale” in the Canterbury Tales
15 notes · View notes
emergingkarachi · 20 days ago
Text
کراچی میں نئی بسوں کی آمد؟
Tumblr media
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ۔ میں نے اپنی صحافت کا آغاز ��ی بلدیاتی رپورٹنگ سے کیا تھا۔ اُس زمانے میں شام کے اخبارات شہری مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے چاہے وہ پانی کا مسئلہ ہو، ٹرانسپورٹ کے مسائل ہوں یا شہر کا ���’ماسٹر پلان‘‘۔ کرائمز کی خبریں اس وقت بھی سُرخیاں بنتی تھیں مگر اُن کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی تھی۔ مجھے میرے پہلے ایڈیٹر نے ’’ٹرانسپورٹ‘‘ کی خبریں لانے کی ذمہ داری سونپی، ساتھ میں کرائمز اور کورٹ رپورٹنگ۔ اب چونکہ خود بھی بسوں اور منی بسوں میں سفر کرتے تھے تو مسائل سے بھی آگاہ تھے۔ یہ غالباً 1984ء کی بات ہے۔ جاپان کی ایک ٹیم شہر میں ان مسائل کا جائزہ لینے آئی اور اُس نے ایک مفصل رپورٹ حکومت سندھ کو دی جس میں شہر میں سرکلر ریلوے کی بہتری کیساتھ کوئی پانچ ہزار بڑے سائز کی بسیں بشمول ڈبل ڈیکر لانے کا مشورہ دیا اور پرانی بسوں اور منی بسوں کو بند کرنے کا کیونکہ ان کی فٹنس نہ ہونے کی وجہ سے شدید آلودگی پھیل رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غالباً ٹرام یا تو ختم ہو گئی تھی یا اُسے بند کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ اُس وقت کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے سربراہ چوہدری اسماعیل ہوتے تھے جن کے ماتحت کئی پرائیویٹ بسیں چلتی تھیں اور اُن کی گہری نظر تھی۔ اِن مسائل پر وہ اکثر کہتے تھے ’’ شہر جس تیزی سے پھیل رہا ہے ہم نے اس لحاظ سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہ کیا تو بات ہاتھوں سے نکل جائے گی‘‘۔
کوئی چالیس سال بعد مجھے یہ نوید سُنائی جا رہی ہے کہ اب انشا ءالله کئی سو نئی بسیں اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی آرہی ہیں۔ مگر مجھے خدشہ ہے کے اِن ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر یہ بسیں کیسے چلیں گی مگر خیر اب یہ بسیں آ رہی ہیں لہٰذا ان کا ’’خیر مقدم‘‘ کرنا چاہئے۔ میں نے حیدر آباد اور کراچی میں ڈبل ڈیکر بسوں میں سفر کیا ہے پھر نجانے یہ کیوں بند کر دی گئیں۔ ایک مضبوط کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے تحت بڑی بڑی بسیں چلا کرتی تھیں جن کے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹرمینل ہوتے تھے۔ اس کے اندر جس طرح لوٹ مار کی گئی اُس کی کئی خبریں میں نے ہیڈ لائن میں دی ہیں اور اچانک یہ بند ہو گئیں کیوں اور کیسے؟ پھر وہ بسیں کہاں گئیں ٹرمینلز کی زمینوں کا کیا بنا۔ ایسا ہی کچھ حال سرکلر ریلوے کا ہوا ورنہ تو یہ ایک بہترین سروس تھی، اب کوئی دو دہائیوں سے اس کی بحالی کی فائلوں پر ہی نجانے کتنے کروڑ خرچ ہو گئے۔ اس سارے نظام کو بہتر اور مربوط کیا جاتا تو نہ آج کراچی کی سڑکوں پر آئے دن ٹریفک جام ہوتا نہ ہی شہر دنیا میں آلودگی کے حوالے سے پہلے پانچ شہروں میں ہوتا۔
Tumblr media
قیام پاکستان کے بعد بننے والا ’’کراچی ماسٹر پلان‘‘ اُٹھا لیں اور دیکھیں شہر کو کیسے بنانا تھا اور کیسا بنا دیا۔ ماسٹر پلان بار بار نہیں بنتے مگر یہاں تو کیونکہ صرف لوٹ مار کرنا تھی تو نئے پلان تیار کئے گئے۔ میں نے دنیا کے کسی شہر میں اتنے بے ڈھنگے فلائی اوور اور انڈر پاس نہیں دیکھے جتنے اس معاشی حب میں ہیں۔ عروس البلاد کراچی کی ایک دکھ بھری کہانی ہے اور یہ شہر ہر لحاظ سے اتنا تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اسکی دوبارہ بحالی ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ تاہم خوشی ہے کہ وزیر اطلاعات نے رنگ برنگی اے سی بسیں لانے کا وعدہ کیا ہے جن کا کرایہ بھی مناسب اور بکنگ آن لائن۔ یہ سب کراچی ماس ٹرانسزٹ کا حصہ تھا جو کوئی 30 سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اُمید ہے یہ کام تیزی سے ہو گا کیونکہ جو حال پچھلے پانچ سال سے کراچی یونیورسٹی روڈ کا ہے اور وہ بھی ایم اے جناح روڈ تک، اللہ کی پناہ۔ شہر کی صرف دو سڑکیں ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل، چلتی رہیں تو شہر چلتا رہتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ چند سال پہلے ہی جیل روڈ سے لے کر صفورہ گوٹھ تک جہاں جامعہ کراچی بھی واقع ہے ایک شاندار سڑک کوئی ایک سال میں مکمل کی گئی، بہترین اسٹریٹ لائٹس لگائی گئیں جس پر ایک ڈیڑھ ارب روپے لاگت آئی اور پھر... یوں ہوا کہ اس سڑک کو توڑ دیا گیا۔ اب اس کا حساب کون دے گا۔ 
اگر ایک بہتر سڑک بن ہی گئی تھی تو چند سال تو چلنے دیتے۔ ہمیں تو بڑے پروجیکٹ بنانے اور چلانے بھی نہیں آتے صرف ’’تختیاں‘‘ لگوا لو باقی خیر ہے۔ دوسرا بسوں کا جال ہو یا پلوں کی تعمیر یہ کام دہائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں اس شہر کا کھیل ہی نرالا ہے یہاں پلان تین سال کا ہوتا ہے مکمل 13 سال میں ہوتا ہے۔ میں نے کئی بار شرجیل میمن صاحب کو بھی اور خود وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صاحب کو بھی کہا کہ سڑکوں کا کوئی بڑا پروجیکٹ ہو، کوئی فلائی اوور یا انڈر پاس تو سب سے پہلے سائیڈ کی سڑکوں کو اور متبادل راستوں کو بہتر کیا جاتا ہے اور سڑکوں کی تعمیر یا مرمت سے پہلے متعلقہ اداروں سے پوچھا جاتا ہے کہ کوئی لائن و غیرہ تو نہیں ڈالنی؟ یہاں 80 فیصد واقعات میں واٹر بورڈ، سوئی گیس اور کے الیکٹرک والے انتظار کرتے ہیں کہ کب سڑک بنے اور کب ہم توڑ پھوڑ شروع کریں۔ اب دیکھتے ہیں ان نئی بسو ں کا مستقبل کیا ہوتا ہے کیونکہ 70 فیصد سڑکوں کا جو حال ہے ان بسوں میں جلد فٹنس کے مسائل پیدا ہونگے۔ مگر محکمہ ٹرانسپورٹ ذرا اس کی وضاحت تو کرے کہ چند سال پہلے جو نئی سی این جی بسیں آئی تھیں وہ کہاں ہیں کیوں نہیں چل رہیں اور ان پر لاگت کتنی آئی تھی۔ 
اگر یہ اچھا منصوبہ تھا تو جاری کیوں نہ رکھا گیا اور ناقص تھا تو ذمہ داروں کو سزا کیوں نہ ملی۔’’خدارا‘‘، اس شہر کو سنجیدگی سے لیں۔ ریڈ لائن، اورنج لائن، گرین لائن اور بلیو لائن شروع کرنی ہے تو اس کام میں غیر معمولی تاخیر نہیں ہونی چاہئے مگر اس سب کیلئے ٹریک بنانے ہیں تو پہلے سائیڈ ٹریک بہتر کریں ورنہ ایک عذاب ہو گا، یہاں کے شہریوں کیلئے بدترین ٹریفک جام کی صورت میں۔ سرکلر ریلولے بحال نہیں ہو سکتی اس پر پیسہ ضائع نہ کریں۔ اس کی وجہ سرکار بہتر جانتی ہے۔ جب بھی میں یا کوئی شہر کے مسائل کے حل کے اصل مسئلے پر آتا ہے تو اُسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈیفنس والے بھی خوش نہیں ہوتے ایک ’’میٹرو پولیٹن سٹی‘‘، ایک میئر کے انڈر ہوتی ہے۔ اُس کی اپنی لوکل پولیس اور اتھارٹی ہوتی ہے۔ کیا وقت تھا جب ہم زمانہ طالب علمی میں نارتھ ناظم آباد کے حسین ڈسلوا ٹائون کی پہاڑیوں پر جایا کرتے تھے، ہاکس بے ہو یا سی ویو پانی اتنا آلودہ نہ تھا، بو نہیں مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ جرم و سیاست کا ایسا ملاپ نہ تھا۔ اس شہر نے ہم کو عبدالستار ایدھی بھی دیئے ہیں اور ادیب رضوی بھی۔ اس شہر نے سب کے پیٹ بھرے ہیں اور کچھ نہیں تو اس کو پانی، سڑکیں اور اچھی بسیں ہی دے دو۔ دُعا ہے نئی بسیں آئیں تو پھر غائب نہ ہو جائیں، نا معلوم افراد کے ہاتھوں۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pinoytvlivenews · 1 month ago
Text
پنجاب میں گندم کی فی من قیمت میں بڑی کمی
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) پنجاب میں گندم کی فی من قیمت میں 300 روپے کی کمی ہوگئی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں دیسی گندم کی قیمتیں بڑھنے کی بجائے 15 جولائی کو کم ہو گئیں، پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کی ملک گیر ہڑتال سے پہلے فلور ملز مالکان کو 3400 روپے فی 40 کلو گرام کے ریٹ پر بھی دیسی گندم شمالی اور وسطی پنجاب میں دستیاب نہ تھی۔15جولائی کو اوپن مارکیٹ میں گندم کے ریٹ 31سو روپے فی چالیس کلو گرام تک…
0 notes
asliahlesunnet · 2 months ago
Photo
Tumblr media
سونے ،چاندی کا نصاب اورصاع کی مقدار سوال ۳۶۳: سونے اور چاندی کا نصاب کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع کی کلو کے حساب سے کتنی مقدار بنتی ہے؟ جواب :سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جو پچاسی گرام کے مساوی ہے اور چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے جو سعودیہ کے چاندی کے دراہم کے حساب سے چھپن ریال کے برابر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع کی مقدار کلو کے حساب سے دو کلو اور چا��یس گرام بہترین گندم بنتی ہے۔ سوال ۳۶۴: ایک شخص کی بیٹیاں ہیں، اس نے انہیں زیور دیا، سب کا مجموعی زیور تو نصاب کو پہنچتا ہے لیکن ہر ایک کا الگ الگ زیور نصاب کو نہیں پہنچتا تو کیا وہ سب کے مجموعی زیور کے مطابق زکوٰۃ ادا کرے گا؟ جواب :اگر اس نے ان کو یہ زیور عاریتاً دیا ہو تو یہ اس کی ملکیت ہے اور اس کے لیے واجب ہے کہ وہ سارے زیور کو جمع کرے اگر وہ نصاب کو پہونچ جائے تو وہ شخص اس کی زکوۃ ادا کرے گا اور اگراس نے اپنی لڑکیوں کو یہ زیور بطور ملک دے دیا ہو تو ان میں سے ہر لڑکی کا زیور ان کا ذاتی ملک شمارہوگا اب ان لڑکیوں میں سے ہر ایک کے زیور کو ایک جگہ جمع نہیں کیا جائے گا کیونکہ ان میں سے ہر ایک انفرادی طور پر اپنے اپنے زیور کی مالک ہے اور اگر ہر ایک کا زیور نصاب کے مطابق ہو تو اس میں زکوٰۃ ہوگی ورنہ نہیں۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۵۱ ) #FAI00290 ID: FAI00290 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
risingpakistan · 2 months ago
Text
غزہ تین سو پینسٹھ دن بعد
Tumblr media
غزہ ایک برس بعد محض اکتالیس کلومیٹر طویل، چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی جغرافیائی پٹی سے اوپر اٹھ کے پورے عالم کی آنکھوں پر بندھی خونی پٹی میں بدل چکا ہے۔ یوں سمجھئے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے آدھے رقبے پر سال بھر میں اتنا بارود فضا سے گرا دیا جائے جس کی طاقت ہیروشیما پر برسائے جانے والے چار ایٹم بموں کے برابر ہو تو سوچئے وہاں کیا کیا اور کون کون بچے گا ؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے لے کے ویتنام ، عراق اور افغانستان تک اتنے چھوٹے سے علاقے پر اتنی کم مدت میں اتنا بارود آج تک نہیں برسا۔ گزرے ایک برس میں غزہ کی دو فیصد آبادی مر چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ جتنے مر چکے لگ بھگ اتنے ہی لاپتہ ہیں۔ گمان ہے کہ وہ ملبے تلے دبے دبے انجر پنجر میں بدل چکے ہیں یا ان میں سے بہت سے بھوکے جانوروں کا رزق ہو چکے ہیں۔ بے شمار بچے بس چند گھنٹے پہلے پیدا ہوئے اور بم ، گولے ، گولی یا دھمک سے مر گئے۔ جانے پیدا ہی کیوں ہوئے ؟ یہ سب کے سب اسرائیل کے عسکری ریکارڈ میں دھشت گرد ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں اور جو ماؤں کے پیٹ میں ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں۔
اس ایک برس میں غزہ کے لیے نہ پانی ہے ، نہ بجلی، نہ ایندھن۔ نہ کوئی اسپتال یا کلینک، اسکولی عمارت، لائبریری ، سرکاری دفتر ، میوزیم سلامت ہے۔ نہ دوکان ، درخت اور کھیت نظر آتا ہے۔ نہ کہیں بھاگنے کا رستہ ہے اور نہ ہی پیٹ بھر خوراک ہے۔ نہ ہی کوئی ایک سائبان ہے جسے محفوظ قرار دیا جا سکے۔ اسی فیصد مساجد ، گرجے اور چالیس فیصد قبرستان آسودہِ خاک ہو چکے ہیں۔ منطقی ا��تبار سے ان حالات میں اب تک غزہ کی پوری آبادی کو مر جانا چاہیے تھا۔ مگر تئیس میں سے بائیس لاکھ انسانوں کا اب تک سانس لینا زندہ معجزہ ہے۔ اے ثابت قدمی تیرا دوسرا نام فلسطین ہے۔ ان حالات میں حماس سمیت کسی بھی مسلح تنظیم کے پرخچے اڑ جانے چاہیے تھے یا جو بچ گئے انھیں غیرمشروط ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے۔پوری آبادی گیارہ مرتبہ تین سو پینسٹھ مربع کلومیٹر کے پنجرے کے اندر ہی اندر اب تک سترہ بار نقل مکانی کر چکی ہے۔ غزہ شہر ، خان یونس ، رفاہ اور ناصریہ ریفیوجی کیمپ چار چار بار کھنڈر کیے جا چکے ہیں۔ مگر آج بھی وہاں سے راکٹ اڑ کے اسرائیل تک پہنچ رہے ہیں۔
Tumblr media
مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی نہتے فلسطینیوں کے خلاف جون انیس سو سڑسٹھ کے بعد پہلی بار جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کل ملا کے بیس ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ موت ہو کہ قید ، بچے ، جوان ، بوڑھے ، عورت ، مرد سب برابر ہیں۔ مگر غزہ مرا نہیں بلکہ ایک آہ بن گیا ہے۔ اس آہ نے نہر سویز کی بحری ٹریفک خشک کر دی ہے۔ یمن سے گزر کے بحرہند سے ملنے والا بحیرہ قلزم تجارتی جہازوں کے لیے پھندہ بن گیا ہے۔ یمن پر پہلے برادر عرب بھائیوں نے پانچ برس تک مسلسل بمباری کی اور اب امریکا ، برطانیہ اور اسرائیل بمباری کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہاں سے ڈرون اور میزائل اڑ اڑ کے اسرائیلی بندرگاہ ایلات اور تل ابیب تک پہنچ رہے ہیں۔ شمالی اسرائیل کے سرحدی علاقے حزب اللہ کی راکٹ باری کے سبب سنسان ہیں اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کے زمینی دستے گھسنے کے باوجود کسی ایک گاؤں پر بھی قبضہ نہیں کر سکے ہیں۔ غزہ اور بیروت میں جو بھی تباہی پھیل رہی ہے وہ امریکی بموں سے لیس منڈلاتے اسرائیلی طیاروں کے ذریعے پھیل رہی ہے۔
اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کی بالائی قیادت کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ پھر بھی مغرب کی لامحدود پشت پناہی ہوتے ہوئے وہ غزہ یا لبنان میں اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ عالمی عدالتِ انصاف ہو کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی یا انسانی حقوق سے متعلق کوئی بھی مقا��ی یا بین الاقوامی تنظیم۔ سب کے سب اسرائیل کو الٹی چپل دکھا رہے ہیں۔ مغربی میڈیا کی بھرپور یکطرفہ کوریج کے باوجود دنیا بھر کی سڑکوں اور یونیورسٹی کیمپسوں میں اسرائیل اپنی مظلومیت کا مزید منجن بیچنے سے قاصر ہے۔ جھنجھلاہٹ سے باؤلا ہونے کے سبب کبھی وہ عالمی عدالتِ انصاف کو دیکھ کے مٹھیاں بھینچتا ہے اور کبھی پوری اقوامِ متحدہ کو یہود دشمنی کا گڑھ قرار دیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی اسرائیلی بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آئرن ڈوم کے سبب اسرائیل فضا سے آنے والے راکٹوں اور میزائلوں سے بہت حد تک بچ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسے امریکا ، برطانیہ اور فرانس سمیت سلامتی کونسل کے پانچ میں سے تین ارکان کی اندھی حمائیت میسر ہے۔
یہ بھی تسلیم کہ کل کا یہود کش جرمنی آج اسرائیل کا اندھ بھگت بن کے اپنے تاریخی احساِسِ جرم کا قرض مرکب سود سمیت چکا رہا ہے۔ مگر انسانیت سوز جرائم کے انسداد کی عالمی عدالت کے نزدیک اسرائیلی قیادت جنگی مجرم ہے اور وہ اس وقت سوائے چار پانچ ممالک کے کہیں بھی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ جنگی ملزموں کی گرفتاری میں تعاون ہر اس ملک کا قانونی فرض ہے جو عالمی عدالت برائے انسانی جرائم کے وجود کو باضابطہ تسلیم کر چکا ہے۔ وہ بوڑھے بھی اب باقی نہیں رہے جنھیں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم یاد تھے۔ آج کا لڑکا اور لڑکی تو ہٹلر کے روپ میں صرف نیتن یاہو کو جانتا ہے۔ آخر یہودیوں کی اسی برس پرانی نسل کشی کی ہمدردی تاقیامت ہر نسل کو پرانی تصاویر دکھا دکھا کے تو نہیں سمیٹی جا سکتی۔وہ بھی تب جب خود کو مظلوم کہہ کر ہمدردیاں سمیٹنے کا عادی اسرائیل عملاً نازی جرمنی کا دوسرا جنم ثابت ہو رہا ہو۔ اس ایک برس میں غزہ نے نہ صرف مغرب اور مغربی میڈیا کو ننگا کر دیا بلکہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدہ ِ ابراہیمی کے ٹائروں سے بھی ہوا نکال دی۔ اخلاقی دباؤ اس قدر ہے کہ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا ارادہ فی الحال طاق پر دھر دیا ہے۔
اگرچہ ایران کے سیکڑوں میزائلوں نے مادی اعتبار سے اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑا۔مگر اتنا ضرور ہوا کہ ایران کے مدِ مقابل عرب حکومتوں نے اسرائیل ایران دنگل میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر دو چار میزائل ’’ غلطی ‘‘ سے سمندر کے پرلی طرف نظر آنے والی آئل ریفائنریوں یا تیل کے کنوؤں یا کسی ڈیوٹی فری بندرگاہ پر گر گئے اور غلطی سے دنیا کے بیس فیصد تیل کی گزرگاہ آبنائے ہرمز میں دوچار آئل ٹینکر ڈوب گئے تو پھر کئی ریاستوں اور خانوادوں کے بوریے بستر گول ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو کے بقول یہی سنہری موقع ہے خطے کا نقشہ بدلنے کا۔ نیتن یاہو کا یہ خواب بس پورا ہی ہوا چاہتا ہے۔ یہ خطہ عنقریب ایسا بدلنے والا ہے کہ خود اسرائیل چھوڑ امریکا سے بھی نہ پہچانا جاوے گا۔ پچھتر برس پہلے جس جن کو بوتل میں بند کیا گیا۔ بند کرنے والوں کے ہاتھوں سے وہ بوتل اچانک چھوٹ چکی ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
alkamunia · 3 months ago
Text
Tumblr media
آسان نماز اور چالیس مسنون دُعائیں http://dlvr.it/TCd5c7
0 notes
ahlulbaytnetworks · 4 months ago
Text
Tumblr media
On That Day Martyrdom Anniversary of Imam al-Sajjad (as).
Imam Sajjad (a) whenever he remembered his father, and whenever he saw food or water, he reflected upon the thirst and hunger of Imam Hussain (a) and wept excessively.
Having been asked if there would be an end to sorrow at all, he replied: "Jacob had twelve sons; the separation of only one of them (Joseph) shocked him so much that he lost his eyesight through weeping. I have seen eighteen members of my family being slain, to whom there was no equal on earth. How can I possibly restrain my tears?"
The sickness that ailed him during Karbala as history recalls, was not a lasting one. Hence, it was the state of him post-Karbala that is more befitting toward his recognition as The Ailing One.
If it was not for the efforts of Imam Sajjad, the martyrdom of Imam Hussein (a) would have been annihilated, and its effects would no longer remain.
The calm and peaceful life of Imam could not be tolerated by the cruel Umayyad regime. The Syrian monarch Walid ibn abd Malik had him poisoned, and the Imam died inside the Medina jail on the 25th of Muharram, 95 A.H.
چالیس سال رویا جو پردے کی آس میں
زینب (س) کے قافلے کا وہ سالار چل بسا💔
Let us give pursa to the Holy Ahlebait (a).
Inna lillahe wa inna ilaihi wa rajaoon.
#25Muharram
1 note · View note
googlynewstv · 4 months ago
Text
پی ایچ ایف نے تربیتی کیمپ میں 40کھلاڑیوں کو طلب کرلیا
ایشیئن چیمپیئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ کی تیاری کیلئے پی ایچ ایف نے تربیتی کیمپ کےلئے چالیس کھلاڑیوں کو طلب کرلیا۔ تربیتی کیمپ 31 جولائی سے نصیر بندہ ہاکی سٹیڈیم اسلام آباد میں شروع ہوگا۔ تمام کھلاڑیوں کو 31 جولائی دوپہر دو بجے کیمپ کمانڈنٹ اولمپیئن شیخ عثمان کو رپورٹ کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی۔یمپ کیلئے منتخب کھلاڑیوں میں گول کیپرز عبداللہ اشتیاق خان۔ منیب الرحمن، علی رضا شامل ہیں۔ محمد عبداللہ،…
0 notes
emergingpakistan · 7 months ago
Text
صحافی ہونا اتنا آسان بھی نہیں
Tumblr media
کل (تین مئی) عالمی یوم صحافت تھا۔ اگر گزشتہ اور موجودہ سال کو ملا لیا جائے تو دو ہزار تئیس اور چوبیس صحافؤں کے لیے خونی ترین سال قرار پائیں گے۔ سب سے بڑی وجہ غزہ کا انسانی المیہ ہے۔ وہاں سات اکتوبر سے اب تک میڈیا سے وابستہ ایک سو چھبیس شہادتیں ہو چکی ہیں اور ان میں ایک سو پانچ عامل فلسطینی صحافی اور بلاگرز ہیں۔ جو زخمی ہوئے یا جنھیں علاقہ چھوڑنا پڑا ان کی تعداد الگ ہے۔ یونیسکو کے مطابق سات اکتوبر کے بعد کے صرف دس ہفتے کے اندر غزہ کی چالیس کلومیٹر طویل اور چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی پٹی میں اسرائیل نے میڈیا سے وابستہ جتنے لوگوں کو قتل کیا ان کی تعداد کسی بھی ملک میں کسی بھی ایک سال میں قتل ہونے والے میڈیائؤں سے زیادہ ہے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک غزہ میں نسل کشی جاری رہے گی۔ اس اعتبار سے خدشہ ہے کہ سال دو ہزار چوبیس صحافیوں کی سلامتی کے اعتبار سے تاریخ کا سب سے خونی برس ثابت ہو سکتا ہے۔ رپورٹرز وڈآؤٹ بارڈرز ( ایم ایس ایف ) نے گزشتہ برس غزہ کے بحران سے پانچ ماہ پہلے ہی یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ دنیا کے ایک سو اسی میں سے صرف باون ممالک ایسے ہیں جہاں اظہارِ رائے کا حق اور صحافی محفوظ ہیں۔بالفاظِ دیگر ہر دس میں سے سات ملکوں میں آزادیِ اظہار اور صحافت کی حالت بری سے ابتر کی کیٹگریز میں شامل ہے اور اس کیٹگری میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بات کریں تو بھارت ایم ایس ایف کی انڈیکس ( دو ہزار تئیس) میں سات پوائنٹ نیچے چلا گیا ہے اور اب میڈیا کی ابتری کی عالمی رینکنگ میں ایک سو چون سے بھی نیچے ایک سو اکسٹھویں نمبر پر گر چکا ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش میں ریاستی بیانیے کے متبادل اظہار کے لیے عدم برداشت کی فضا جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ تیزی سے سکڑ رہی ہے اور وہ عالمی رینکنگ میں بھارت سے بھی نیچے یعنی ایک سو سڑسٹھویں نمبر پر آ گیا ہے۔ بالخصوص گزشتہ برس نافذ ہونے والے سائبر سیکؤرٹی ایکٹ کے تحت مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنے کے لیے حکومتی اداروں اور ایجنسؤں کو بھاری اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ سری لنکا میں بھی صحافتی حالات مثالی نہیں۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو بلاشبہ اس کی رینکنگ بہتر ہوئی ہے اور دو ہزار بائیس کے مقابلے میں سات پوائنٹس حاصل کر کے وہ آزادیِ صحافت کے اعتبار سے انڈیا اور بنگلہ دیش سے کہیں اوپر یعنی ایک سو پچاس ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ البتہ عارضی اطمینان یہ خبر سن کے ہرن ہو جاتا ہے کہ صحافؤں کے تحفظ کو درپیش خطرات کی رینکنگ میں پاکستان چوٹی کے بارہ ممالک کی فہرست میں گیارہویں پائدان پر ہے۔
Tumblr media
ایک اور سرکردہ عالمی ادارے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ( سی پی جے ) کی صحافؤں کے قتل کے مجرموں کو کھلی چھوٹ کی فہرست میں پاکستان گیارہویں نمبر پر ہے۔ ہؤمن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق انیس سو ترانوے سے دو ہزار تئیس تک تین دہائؤں میں ستانوے پاکستانی صحافی اور کارکن مارے جا چکے ہیں۔ جب کہ دو ہزار گیارہ سے تئیس تک کے بارہ برس میں میڈیا اور سوشل میڈیا سے وابستہ ساڑھے تین ہزار سے زائد ارکان جبری گمشدگی یا اغوا کی و��ائی لپیٹ میں آئے ہیں۔ ایک پاکستانی این جی او فریڈم نیٹ ورک کی تازہ رپورٹ کے مطابق مئی دو ہزار تئیس سے اپریل دو ہزار چوبیس کے دورانیے میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے دباؤ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھا ہے۔ اس عرصے میں چار صحافؤں کی شہادت ہوئی۔ لگ بھگ دو سو صحافؤں اور بلاگرز کو قانونی نوٹس جاری کر کے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان میں سے بیسؤں کو اغوا اور قتل کی دھمکیاں موصول ہوئیں یا وہ تشدد کا شکار ہوئے۔ بہت سوں کو جے آئی ٹی میں طلب کیا گیا۔ مگر اکثر صحافؤں کو عدالتوں نے ضمانت دے دی یا ان کے خلاف داخل ہونے والی فردِ جرم مسترد کر دی۔
اس عرصے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو متعدد بار معطل کیا گیا۔ ٹویٹر ایکس پلیٹ فارم اٹھارہ فروری سے آج تک معطل ہے۔ رپورٹ میں دو مجوزہ قوانین ’’ ای سیفٹی بل ‘‘ اور ’’پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل ‘‘ پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ان دونوں قانونی مسودوں کی شہباز شریف کی سابق حکومت نے جاتے جاتے منظوری دی تھی۔ اگر یہ بل قانونی شکل اختیار کرتے ہیں تو پھر سوشل میڈیا کی جکڑ بندی کے لیے علیحدہ اتھارٹیز قائم ہو گی۔ یہ اتھارٹیز ریاستی بیانیے کے متبادل آرا اور آوازوں کو خاموش کروانے کے لیے تادیبی کارروائی بھی کر سکیں گی۔ حالانکہ اس مقصد کے لیے پیکا ایکٹ پہلے سے نافذ ہے جو کسی غیر منتخب حکومت نے نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کی تیسری جمہوری حکومت کے دور میں نافذ کیا گیا۔ اور پھر اس قانون کی زد میں خود مسلم لیگی بھی آئے۔ حالیہ برسوں میں ایک اور عنصر بھی پابندیوں کے ہتھیار کے طور پر متعارف ہوا ہے۔ یعنی فون پر چینلز اور اخبارات کے سینئر ایڈیٹوریل اسٹاف کو زبانی ہدایات دی جاتی ہیں کہ کس سیاستداں کا نام نہیں لیا جائے گا۔ کون سا جلسہ میڈیا کوریج کے لیے حلال ہے اور کون سی ریلی کی رپورٹنگ حرام ہے۔ حتیٰ کہ عدالتی کارروائی کی بھی من و عن اشاعت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
باقاعدہ سنسر کا تحریری حکم جاری کرنے کے بجائے زبانی ہدایات دینے کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کا مقصد یہ ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور ایسے کسی زبانی حکم کو کسی عدالت یا فورم پر چیلنج کرنے کے لیے کوئی ثبوت بھی نہ چھوڑا جائے۔ مگر میڈیا کے لیے یہ حالات نئے نہیں ہیں۔ ایک مستقل جدوجہد ہے جس کی شکلیں وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہیں۔ آزادیِ اظہار کی لڑائی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ لہٰذا جہاں ہے اور جیسا ہے کی بنیاد پر عالمی یوم صحافت کی میڈیا کارکنوں کو مبارک باد۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکپسریس نیوز
0 notes
minhajbooks · 10 months ago
Text
Tumblr media
🔰 توبہ و استغفار
🛒 کتاب گھر بیٹھے حاصل کریں، صرف ایک کلک کی دوری پر! https://www.minhaj.biz/item/tawba-wa-istighfar-bh-0024
توبہ کیا ہے؟ یہ دراصل گناہوں بھری زندگی پر ندامت کا مخلصانہ اظہار ہے۔ توبہ گناہوں سے طبعاً نفرت ہو جانے کا نام ہے۔ توبہ بخششِ عام کا وہ دروازہ ہے جو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ توبہ گناہوں سے لت پت بندے کا رب العزت کے حضور اخلاص کے ساتھ رجوع کرتے ہوئے دستِ سوال دراز کرنے کا نام ہے جس کا منتظر خود رب ذوالجلال والاکرام ہے۔ توبہ بے نیاز مالک کے حضور ایک گنہگار بندے کا اپنے سابقہ گناہوں پر شرم سار ہو کر نیاز مند ہو جانے کا نام ہے۔
توبہ و استغفار کے زیرعنوان یہ کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اُن چالیس خطابات کی ایک کتابی شکل ہے، جو آپ نے مختلف روحانی اور تربیتی اجتماعات میں اصلاحِ احوالِ امت کے حوالے سے ارشاد فرمائے۔
اس کتاب کے درج ذیل ابواب ہیں: 🔹 باب 1 : توبہ کا معنی و مفہوم 🔹 باب 2 : توبہ کی شرائط اور فضیلت 🔹 باب 3 : توبہ کے آداب 🔹 باب 4 : اقسامِ توبہ اور متعلقات 🔹 باب 5 : توبہ اور خشیتِ الٰہی 🔹 باب 6 : طلب مغفرت کے مخصوص اوقات اور ایام 🔹 باب 7 : بعض تائبین کے ایمان افروز واقعات 🔹 باب 8 : باطنی آلودگی اور ہمارے شب و روز 🔹 باب 9 : غفلت سے بیداری کی شرائط اور تقاضے 🔹 باب 10 : توبہ اور دعا کا باہمی تعلق 🔹 باب 11 : منتخب اور معروف دعائیں
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 566 قیمت : 780 روپے
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 🧾 زبان : اردو 📖 صفحات : 566 🔖 قیمت : 780 روپے 🚚 ہوم ڈیلیوری
💬 وٹس ایپ لنک / نمبر 👇 https://wa.me/923224384066
0 notes
urduchronicle · 10 months ago
Text
کراچی میں بارش کا سلسلہ دوبارہ شروع، شہر ڈوب گیا، سڑکیں دھنس گئیں، ندی نالوں میں طغیانی
کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا، نارتھ کراچی، سرجانی ٹائون ، سپر ہائی وے سمیت ملحقہ علاقوں میں تیز بارش شروع ہوئی۔ محکمہ موسمیات کے مطابق بارش کا سلسلہ آج بھی وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ہے۔ محض چالیس منٹ کی بارش میں کراچی ڈوب گیا، مرکزی شاہراہوں ، گلیوں اور نشیبی علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی جمع ہوگیا، متعدد علاقوں میں بجلی غائب ہے، سیکڑوں گاڑیاں سڑکوں پر بند…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 11 months ago
Text
اگر اسرائیل کا نام سوڈان اور امریکا کمپوچیا ہوتا
Tumblr media
جو بائیڈن میں کم از کم ایک خوبی ضرور ہے، وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہیں۔ مثلاً سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس چھاپہ ماروں کی مسلح کارروائی کے دوران لگ بھگ بارہ سو اسرائیلی سویلینز بشمول تین سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے اور ڈھائی سو کے لگ افراد کو حماس کے چھاپہ مار یرغمال بنا کے اپنے علاقے میں لے گئے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ مگر پھر کردار کش مشنیری حرکت میں آ گئی اور یہ خبر اڑا دی گئی کہ حماس کے چھاپہ ماروں نے اپنی مسلح کارروائی کے دوران کئی خواتین کو ریپ کیا اور لگ بھگ چالیس اسرائیلی بچوں کے گلے کاٹ دیے۔ جو بائیڈن نے اس افواہ کی تصدیق کیے بغیر سچ مان لیا اور بچوں کے گلے کاٹنے کی خبر کو حماس کی سفاکی سے تعبیر کیا۔ حالانکہ امریکی محکمہ خارجہ اور خود وائٹ ہاؤس کی وائٹ واش مشینری بارہا صدرِ ذی وقار کو سمجھانے کی کوشش کر چکی ہے کہ انکل جن چالیس بچوں کے گلے کٹے تھے وہ ماشااللہ آج بھی زندہ ہیں اور جن خواتین کا مبینہ ریپ ہوا تھا ان میں سے ایک بھی اسرائیلی حکومت کی جانب سے انھیں بدنام کرنے کے باوجود سامنے نہیں آئی۔ لہٰذا اگر کچھ ایسا ہوا تو ہم سب سے پہلے آپ کو ہی بتائیں گے۔ شانت رہیے اور ہماری بریفنگز کے مطابق چلتے رہیے۔
معلوم نہیں کسی نے جو بائیڈن کو یہ جتانے کی بھی کوشش کی ہو کہ چالیس افسانوی بچوں کے گلے کاٹنے اور بارہ سو اسرائیلیوں کی حقیقی موت کے بدلے اسرائیل اب تک انیس ہزار فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے اور ان میں ساڑھے سات ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ جب کہ اتنے ہی ملبے کے نیچے دبے دبے مر چکے ہیں اور اب ان کی لاشیں تدفین کے قابل بھی نہیں رہیں اور یہ سلسلہ اس لمحے تک جاری و ساری ہے۔ مگر آپ تو جانتے ہیں کہ ایک اسی سالہ بوڑھے کو اپنے ہی مفروضوں کے جال سے نکالنا ایک آٹھ سالہ بچے کو قائل کرنے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ بچے کے تو آپ کان مروڑ کے بھی سمجھا سکتے ہیں مگر بوڑھوں کا کیا کریں۔ رہی سہی کسر بائیڈن کے وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے پوری کر دی جب انھوں نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد پہلی بار تل ابیب پہنچ کر اسرائیلی ہلاکتوں پر نیتن یاہو سے تعزیت کی تو یہ بھی کہا کہ وہ آج امریکی وزیر خارجہ ہونے کے ساتھ ساتھ بطور یہودی بھی افسردہ ہیں۔ 
Tumblr media
غزہ کے جاری قتلِ عام کے ساتویں ہفتے میں وائٹ ہاؤس میں یہودی تہوار ہنوکا کے موقعے پر منعقد روایتی تقریب میں بائیڈن نے نکسن کے بعد سے آنے والے ہر صدر کی طرح یہودی مہمانوں کے اجتماع کو یاد دلایا کہ امریکا مشرقِ وسطی میں اسرائیل کے طاقتور وجود کا ضامن رہے گا۔ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو آج دنیا میں ہر یہودی خود کو غیر محفوظ سمجھتا رہتا۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ میں نے پینتیس برس قبل سینیٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل کو ہم تین ارب ڈالر سالانہ کی جو امداد دے رہے ہیں وہ امریکا کی سب سے بہتر سرمایہ کاری ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا شرط نہیں۔ میں صیہونی ہوں۔ دو ہفتے قبل وائٹ ہاؤس کی ہنوکا تقریب میں ان خیالات کے واشگاف اظہار اور اعادے کے بعد اب بھی اگر کسی کو بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل پالیسی سمجھ میں نہ آئے تو اسے کوئی بھی مثال یہ پالیسی نہیں سمجھا سکتی۔ امریکا نے انیس سو اڑتالیس کے نسل کشی مخالف بین الاقوامی کنونشن پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ 
اس کنونشن میں نسل کشی کی جو تعریف کی گئی ہے اس کے مطابق انسانوں کے کسی ن��لی، مذہبی یا قومی گروہ کو جزوی و کلی طور پر مٹانے کے لیے پانچ اقدامات میں سے کوئی بھی قدم نسل کشی کہلائے گا۔ اول۔ کسی مخصوص انسانی گروہ کو جان بوجھ کے قتل کیا جانا، دوم۔ اس گروہ کو اجتماعی طور پر شدید جسمانی و ذہنی نقصان پہنچانا ، سوم۔ ایسی تادیبی پابندیاں لگانا جس سے ان کی اجتماعی بقا خطرے میں پڑ جائے ، چہارم۔ ان سے حقِ پیدائش چھیننا ، پنجم۔ ان کے بچوں کو ان سے الگ کر کے جبراً کہیں اور منتقل کرنا۔ اسرائیل ان پانچ میں سے پہلی تین شرائط پوری کر رہا ہے۔ وہ ایک مخصوص علاقے ( غزہ کی پٹی) میں آباد فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر مٹانے کے لیے اندھا دھند بمباری اور گولہ باری کر رہا ہے۔ اس نے سات اکتوبر سے اب تک جتنا بارود برسایا ہے۔ اس کی اجتماعی قوت ہیروشیما پر پھینکے گئے جوہری بم سے ڈھائی گنا زائد ہے۔ خود امریکی سی آئی اے نے اعتراف کیا ہے کہ اب تک غزہ پر جتنے بم گرائے گئے۔ ان میں سے پچاس فیصد اندھے یا ان گائیڈڈ بم ہیں۔ اندھے بم محضوص ہدف کا تعین کیے بغیر کسی بھی انسان یا عمارت کو ختم کر سکتے ہیں۔ اور یہ اجتماعی جسمانی و نفسیاتی نقصان کا سبب ہیں۔ 
اسرائیل نے سات اکتوبر کے بعد سے غزہ کے لیے پانی ، خوراک ، بجلی ، ادویات کی ترسیل بند کر رکھی ہے اور اسپتالوں ، اسکولوں اور پناہ گاہوں کو جان بوجھ کے تباہ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے نسل کشی۔ نیز ان اقدامات سے ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ غزہ کی تئیس لاکھ آبادی یہ علاقہ جبراً خالی کر کے جلاوطن ہو جائے۔ بائیڈن انتظامیہ اس نسل کشی میں سب سے بڑی مددگار ہے۔ اس نے جنگ بندی کی ہر قرار داد کو ویٹو کر کے اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کی پابندیوں سے بچا کے رکھا ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ نہ صرف غزہ میں استعمال ہونے والا اسلحہ اسرائیل کو مسلسل فراہم کر رہی ہے بلکہ کانگریس کو بائی پاس کر کے ہنگامی اختیارات کی آڑ میں اس نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کو توپوں اور ٹینکوں میں استعمال ہونے والے چودہ ہزار گولوں کی تازہ کھیپ بھی پہنچائی ہے۔ اس سب کے باوجود امریکی ذرایع ابلاغ میں ایک بار بھی یہ لفظ آج تک کسی خبر، مضمون یا اداریے میں شایع یا نشر نہیں ہو پایا کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ میڈیا میں اگر کوئی جملہ تواتر سے استعمال ہو رہا ہے تو وہ ہے کہ اسرائیل حقِ دفاع استعمال کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے آئین کے مطابق یہ نسل کشی کا سیدھا سیدھا کیس ہے۔مگر معاملہ اگر امریکا اور اسرائیل کا ہو تو سیدھا سیدھا کیس بھی ہکلانے لگتا ہے۔دونوں ممالک انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے دائرہ کار سے منکر ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ پھر بھی اگر اسرائیل اور امریکا کا نام سوڈان، لائبیریا، کمپوچیا یا سربیا ہوتا تو آج جو بائیڈن اور نیتن یاہو دی ہیگ میں کرمنل کورٹ کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے۔ البتہ یوکرین کے ساتھ اس سے نصف نسل کش سلوک کرنے پر پوتن کے بین الاقوامی وارنٹ نکلے ہوئے ہیں۔ اسی لیے ولادی میر پوتن گرفتاری کے ڈر سے کسی ایسے ملک میں نہیں جا سکتے جو انھیں گرفتار کر کے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں پیش کرنے کا پابند ہو۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
raysofhope2020-2049 · 1 year ago
Video
youtube
40 Astaghfar | 40 Astaghfar Duain | Epi 0001 | Istighfar | چالیس استغفار...
1 note · View note
kiddiechills · 1 year ago
Text
Alibaba and 40 Thieves in Urdu | علی بابا اور چالیس چور | Urdu Kahaniya | Hindi Kids Stories
In the kaleidoscope of childhood, children's stories emerge as vibrant hues, painting the landscape of young minds with tales of wonder, wisdom, and whimsy. From the timeless classics to contemporary adventures, the world of kids' stories is a treasure trove of enchantment that goes far beyond entertainment. In this exploration, we unravel the wonders of children's stories, delving into their profound impact on the development of imagination, empathy, and lifelong learning.
1. The Magic of Imagination:
Children's stories are portals to worlds where the ordinary becomes extraordinary, and the impossible is just a turn of the page away. From the whimsical worlds of Dr. Seuss to the captivating realms of J.K. Rowling's Hogwarts, these tales ignite the spark of imagination in young minds. Imagination, a powerful tool for cognitive development, is nurtured as children embark on adventures with characters who defy the laws of reality. The ability to envision beyond the visible shapes a child's creativity, problem-solving skills, and capacity to think outside the box.
2. Lessons in Every Line:
Embedded within the fabric of kids' stories are valuable life lessons, often disguised as adventures or encounters with quirky characters. A stroll through the pages of Aesop's fables reveals moral gems, teaching children about the consequences of actions and the importance of virtues such as honesty, hard work, and compassion. These stories become not just a source of entertainment but a moral compass, guiding young readers through the intricacies of growing up.
3. Emotional Intelligence Blooms:
Children's stories are emotional landscapes, offering a safe space for children to navigate and understand the complex tapestry of feelings. As characters triumph over challenges or grapple with adversity, young readers vicariously experience a spectrum of emotions. This emotional immersion nurtures empathy, allowing children to relate to the characters and, by extension, to the emotions of those around them. Emotional intelligence, a crucial skill in building meaningful relationships, is fostered through the emotional resonance of these tales.
4. The Language Tapestry:
Within the pages of children's stories, language is not just a means of communication but a vibrant tapestry of expression. The rhythmic prose, playful rhymes, and vivid descriptions found in these tales contribute significantly to language development. Whether it's the tongue-twisting verses of Shel Silverstein or the eloquent storytelling of Beatrix Potter, young readers absorb the richness of language, enhancing their vocabulary, comprehension, and communication skills.
5. Shared Moments, Lasting Bonds:
The ritual of sharing a story is more than a bedtime routine; it's a shared journey that forms bonds between storytellers and listeners. Whether it's a parent reading a bedtime story or a teacher captivating a classroom with literary adventures, these shared moments create lasting connections. Through the shared joy of storytelling, adults become guides and companions on a literary adventure, fostering not only a love for stories but also deepening the bonds of trust and understanding.
Conclusion:
In the treasure trove of children's stories, each tale is a key that unlocks the door to a world of possibilities. Beyond the surface of enchanting narratives, these stories shape the very essence of childhood, nurturing creativity, empathy, and a love for lifelong learning. As we celebrate the wonders of children's stories, let us recognize their transformative power, guiding the dreams and aspirations of generations yet to unfold. In the dance of words and imagination, children's stories continue to weave the fabric of tomorrow's thinkers, dreamers, and compassionate leaders.
youtube
1 note · View note
asliahlesunnet · 2 months ago
Photo
Tumblr media
چا رماہ بعد ساقط ہونے والے بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی سوال ۳۴۵: ایک عورت نے چھٹے مہینے اپنے حمل کو گرا دیا۔ یہ عورت بہت محنت اور مشقت والے کام کرتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ رمضان کے روزے بھی رکھتی تھی، اس لیے وہ محسوس کرتی ہے کہ یہ حمل شایدان محنت اور مشقت والے کاموں کی وجہ سے ساقط ہوا ہے، بہرحال اس (بچے کو) دفن توکیا گیا لیکن اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی سوال یہ ہے کہ اس کی نماز جنازہ کے ترک کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ حمل کے ساقط ہونے کی وجہ سے عورت اپنے دل میں پیدا ہونے والے ان شکوک وشبہات کے ازالے کے لیے کیا کرے؟ راہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب سے نوازے۔ جواب :گرنے والا حمل اگر چار ماہ کا ہو تو واجب ہے کہ اسے غسل دیا جائے، کفن پہنایا جائے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے کیونکہ وہ جب حمل چار ماہ کا ہو جاتا ہے تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور بلا شبہ آپ کی ذات گرامی صادق ومصدوق ہے: ((اِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہُ فِی بَطْنِ أُمِّہِ أَرْبَعِینَ یَوْمًا نطفۃ ثُمَّ یَکُونُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ یَکُونُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ الیہُ الملک ، َ فیُنْفَخُ فِیہِ الرُّوحُ))( صحیح البخاری، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ح: ۳۲۰۸ وصحیح مسلم، القدر، باب کیفیۃ خلق الآدمی… ح: ۲۶۴۳۔) ’’تم میں سے ہر ایک کے تخلیقی اجزاء اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی صورت میں جمع رہتے ہیں، پھر وہ چالیس دن تک لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے اور پھر اسی طرح چالیس دن تک ب��ٹی کی صورت میں ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے، جوآکر اس میں روح پھونکتا ہے۔‘‘ یہ کل ایک سو بیس دن یعنی چار ماہ بنتے ہیں، لہٰذا جب حمل اس مدت کے بعد گرے تو اسے غسل دیا جائے گا، کفن پہنایا جائے گا، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور روز قیامت اسے بھی لوگوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اگر حمل چار ماہ کی مدت سے پہلے ساقط ہو جائے تو پھر اسے نہ غسل دیا جائے گا، نہ کفن پہنایا جائے گا، نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے کسی بھی جگہ دفن کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، انسان نہیں ہے۔ سوال میں مذکور حمل چھ ماہ کا تھا، لہٰذا اس کے لیے غسل، کفن اور جنازہ واجب تھا مگر سوال میں مذکور ہے کہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی، لہٰذا اگر اس کی قبر معلوم ہو تو قبر ہی پر نماز جنازہ پڑھ لی جائے، ورنہ اس کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھ لی جائے اور اس کے لیے صرف ایک آدمی کا نماز جنازہ پڑھنا بھی کافی ہوگا۔ اس کی ماں کے دل میں جو یہ شکوک وشبہات پیدا ہو رہے ہیں کہ حمل اس کی وجہ سے ساقط ہوا ہے، تو ان کا کوئی اعتبار نہیں، اس قسم کے شکوک وشبہات کو دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے کیونکہ بہت سے جنین اپنی ماؤں کے پیٹوں میں مر جاتے ہیں، اس کی وجہ سے ماں پر کچھ عائد نہیں ہوتا، لہٰذا اسے ان شکوک اور وساوس کو ترک کر دینا چاہیے جنہوں نے اس کی زندگی کو مکدر کر رکھا ہے۔ واللّٰہ اعلم فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۳۳، ۳۳۴ ) #FAI00272 ID: FAI00272 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes