#پٹرول قیمت
Explore tagged Tumblr posts
Text
پٹرول کی قیمت میں 14 روپے فی لیٹر کمی، نوٹیفکیشن جاری
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی گئی۔ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی منظوری دے دی۔ وزارت خزانہ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 14 روپے کی کمی کی گئی ہے،پیٹرول کی نئی قیمت 267 روپے 21 پیسے ہوگی۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل 13 روپے 50 فی لیٹر سستا کیا گیا ہے جس کے بعد ہائی اسپیڈ کی نئی قیمت 276 روپے 21…
View On WordPress
0 notes
Text
حکومت کا عوام کیلئے ریلیف، پٹرول کی قیمت میں 10 روپے کمی کا اعلان
اسلام آباد: وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا ہے۔ ایک لٹر پٹرول کی قیمت میں 10 روپے کمی کی گئی ہے۔ اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے کی کمی گئی ہے جس کے بعد فی لیٹر پیٹرول 214 روپے 80 میں دستیاب ہوگا۔اسحاق ڈار نے بتایا کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت ساڑھے 7 روپے کمی کے بعد 227 روپے 80…
View On WordPress
0 notes
Text
حکومت نے عوام کو بڑا جھٹکا دیدیا پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ
(24نیوز)عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا،جس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں1 روپے 35 پیسے،ڈیزل کی قیمت میں3 روپے 85 پیسے کاا ضافہ کیا گیا،جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں ایک روپے 48 پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں2 روپے 61 پیسے کمی کی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی نئی قیمت 248 روپے 38…
0 notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس ، محکمہ تعلقات عامہ ، حکومت پنجاب ، شیخوپورہ
ہینڈ آٶٹ نمبر : 10398
26 اکتوبر :- ڈپٹی کمشنر شیخوپوره شاہد عمران مارتھ نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف ، چیف سیکرٹری پنجاب اور کمشنر لاہور کی خصوصی ہدایت پر تمام اسسٹنٹ کمشنرز اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس ہر علاقے کی شاپس ، سپر اسٹورز ، گوشت کی دوکانوں، پٹرول پمپس ، سبزی و پھل منڈیوں ، ہوٹلز اور تندوروں پر اشیاء خورونوش اور نان و روٹی کی مقرر کردہ قیمتوں پر عملدرآمد کے لیے فیلڈ میں متحرک ہیں ، روٹی اور نان کی سرکاری قیمت کی خلاف ورزی پر ضلع بھر میں ابتک 36 ہزار 730دکانوں اور تندوروں کی انسپکشن کی گئی جس کے دوران 3 ہزار 873 دوکانداروں کو1 کڑور 2لاکھ 55 ہزار700 روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے جبکہ نان و روٹی کی زائد قیت وصول کرنے والے 45 دوکانداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی اور 31 کو حراست میں لیا گیا ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار گراں فروشوں ، ذخیرہ اندوزوں اور ملاوٹ مافیا ��ے خلاف ضلع شیخوپورہ میں جاری کریک ڈاؤن کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوۓ کیا ۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ نے بتایا کہ رواں ماہ اکتوبر میں 10ہزار 478 دوکانوں کی انسپکشن کے دوران مجموعی طور پر 88 لاکھ 89 ہزار500 روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ 18 دوکاندار کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا۔ ناجائز منافق خور ذخیرہ اندوز کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 notes
Text
اداکار سلمان خان نےبلٹ پروف گاڑی خریدلی
بشنوئی گینگ کی جانب سےدھمکیوں کی وجہ سے بالی ووڈ سپر اسٹار سلمان خان نےتقریباً6کروڑ ساٹھلاکھ روپے مالیت کی بلٹ پروف گاڑی خریدی ہے۔ رپورٹس کےمطابق اداکارسلمان خان نے بلٹ پروف نسان پٹرول ایس یو وی خریدی ہے۔ اور چونکہ یہ کارہندوستانی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ اس لیے مبینہ طور پر اداکار اسے دبئی سےدرآمد کررہے ہیں۔کار کی قیمت 6 کروڑساٹھ لاکھ پاکستانی روپے(2 کروڑ بھارتی روپے)کے لگ بھگ ہےاور اندازہ…
0 notes
Text
آٹا مہنگا ہو گیا
(ویب ڈیسک)پنجاب فلور ملز نے آٹے کی قیمت میں اضافہ کر دیا۔پنجاب کی فلار ملز نے مبینہ طورپر گندم کی قیمت میں اضافے کو جواز بنا کر آٹے کی قیمت فی کلو ایک روپیہ بڑھا دی،20کلو آٹے کے تھیلے کاسرکاری نرخ 1730 روپے ہے تاہم اوپن مارکیٹ میں20 کلو آٹے کی قیمت میں 40 روپے اضافہ کے بعد 20کلو آٹے کا تھیلا 1770 روپے کا ہوگیا۔ یہ بھی پڑھیں: 16 اکتوبر سے پٹرول اور ڈیزل فی لٹر کتنا مہنگا ہو گا؟،حیران کن خبر…
0 notes
Text
شفاف الیکشن اور حقیقی تبدیلی؟
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اور ملک و جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف و غیرجانبدار انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابر مواقع دینے کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔
شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔ جب تک ملک میں منتخب حکومت برسر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔ تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔ قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔ دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی باریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھر پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اب پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہر فرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبر پختونخواہ، پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذید مہنگی ہونے کا امکان ہے جس کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90 فیصد خود استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب کے بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔
پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کر کے ملک و اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76 برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔ اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
بجلی کی قیمت اور رعایا کی زبوں حالی
حال ہی میں صرف ایک ہفتے میں بجلی کی قیمتوں میں دو دفعہ اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی عوام نہیں رعایا پر مسلسل بجلی گرائی جا رہی ہے۔ بجلی کی مہنگائی سمیت ہر طرح کی مہنگائی سے رعایا اتنی شاک زدہ ہے کہ وہ احتجاج کے بھی قابل نہیں۔ بس ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی صورتحال ہے۔ ویسے بھی جنھوں نے احتجاج کیا ان کا عبرت ناک حشر سامنے ہے۔ اب تو رعایا احتجاج کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ پی ڈی ایم ک�� اتحادی حکومت جاتے جاتے پٹرول ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کر گئی۔ باقی ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی کسر نگران حکومت نے ایک بڑا اضافہ کر کے کر دی۔ لیکن نگران حکومت کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں۔ اصل ذمے داری تو اتحادی حکومت پر عائد ہوتی ہے جس کے اصل اسٹیک ہولڈرز تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تھے۔ جنھوں نے آئی ایم ایف سے ایسا تباہ کن معاہدہ کیا کہ عوام کے ہاتھ ہی کٹوا بیٹھے۔ گزشتہ ماہ میں پٹرول کی قیمت میں 40 روپے اضافہ ہوا اور حال ہی میں 8 روپے لیٹر پٹرول کی قیمت میں کمی کر دی گئی۔ یہ تو حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے والی بات ہوئی۔ اور تو اور جس دن یہ کمی ہوئی اسی روز مایع گیس کی قیمت 21 روپے بڑھا دی گئی یعنی پٹرول کی قیمت میں کمی کی نسبت 3 گنا اضافہ ۔ اسے کہتے ہیں رعایہ کے ساتھ ہاتھ کی صفائی۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کی آئی ایم ایف کو دی جانے والی دھمکیاں بھی کام نہ آسکیں۔ الٹا آئی ایم ایف نے ہماری مشکیں ایسی کسیں کہ سب توبہ توبہ کر بیٹھے۔ رعایہ کو اچھی طرح یاد ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب ہم سب کو تسلی دیتے رہے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے ڈیل نہ بھی ہوئی تو پلان B تیار ہے۔ جب کہ سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے آئی ایم ایف ڈیل کے بعد یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ میری تو آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہونے پر راتوں کی نیند ہی اڑ گئی تھی۔ یہ سوچ کر کہ اگر یہ ڈیل نہ ہوئی تو ہماری تمام امدادیں بند اور پٹرول ادویات سمیت دیگر اشیاء پاکستان میں ناپید ہو جائیں گی۔ عوام سٹرکوں پر آجائیں گے۔ نتیجہ خوفناک خانہ جنگی کی شکل میں نکلے گا۔ اگر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب گزشتہ سال کے آخر اور اس سال کے شروع تک آئی ایم ایف سے ڈیل کر لیتے تو معاشی حالات اتنے تباہ کن نہ ہوتے۔ ڈیل میں دیری نے پاکستانی معشیت کو تباہ کن موڑ پر لا کھڑا کیا۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار کو لانے والے کیا اس کے ذمے دار نہیں جب کہ سابق وزیراعظم شہباز شریف مفتاح اسماعیل کی تبدیلی کے لیے راضی نہیں تھے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باعث مہنگائی بے قابو ہوتے ہوئے اس کی شرح 31.44 فیصد پر پہنچ گئی ہے جب کہ مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 38.4 فیصد ہو گئی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ماہانہ سہ ماہی اور سالانہ بنیادوں پر متعدد بار اضافے کے باوجود پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بھی بڑھ کر 2300 ارب سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ دہائیوں سے عوام کی رگوں سے مسلسل خون نچوڑا جا رہا ہے۔ معاہدے کے مطابق ابھی یہ لوٹ مار کم از کم مزید 4 سال جاری رہنی ہے۔ 1990 کی دہائی میں آئی پی پیز سے یہ عوام دشمن معاہدے کیے گئے۔ اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ اس وقت کن کن پارٹیوں کی حکومتیں تھیں۔ ان معاہدوں سے عوام کی قیمت پر مبینہ طور پر اربوں کی کمیشن حاصل کی گئیں۔ سیاستدانوں اور اعلیٰ بیو رو کریسی نے ان معاہدوں سے خوب ہاتھ رنگے۔ ان عوام دشمن معاہدوں نے پاکستانی عوام کو غریب کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔
بھارت میں پچھلے سات سالوں میں غربت کی شرح کم ہو کر 25 سے 15 فیصد رہ گئی ہے۔ یعنی 10 فیصد کم ہو گئی ہے جب کہ بنگلہ دیش میں کچھ سال قبل کے مقابلے میں 19 فیصد رہ گئی ہے۔ اور اس کے برعکس پاکستان میں غربت کی شرح 40 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ ہے نہ کمال کی بات۔ ایک رپورٹ میں ورلڈ بینک کے حالیہ انکشاف کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں مڈل کلاس طبقے کی تعداد سکڑ کر آدھی رہ گئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق مستقبل میں پاکستان کی GDP مزید گرنے سے مڈل کلاس طبقہ مزید سکڑ کر رہ جائے گا جس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو ملنے والا حج کوٹہ بھی پورا استعمال نہیں کیا جا سکا اور سعودی حکومت کو واپس کرنا پڑا۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ملک کے معاشی حالات بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر گزشتہ دو برسوں میں 18 لاکھ سے زائد افراد پاکستان چھوڑ گئے ہیں۔ خراب معاشی حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھکاری بھی جو عمرے کے ویزے پر سعودی عرب اور عراق جا کر بھکاری کا پیشہ اختیار کر رہے ہیں گزشتہ دنوں ان ممالک سے ڈی پورٹ ہونے والے 90 فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے اس سے بڑی ملک کی بدنامی اور کیا ہو سکتی ہے ذرا غور فرمائیں!!! ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت امیروں پر ٹیکس لگا کر غریبوں پر خرچ کرے تاکہ غریبوں کا تحفظ ہو سکے جیسا کہ امریکا یورپ وغیرہ میں ہوتا ہے اگر ایسا نہ کیا گیا اور پاکستان میں مڈل کلاس کے سکڑنے کا رحجان جاری رہا تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پاکستان میں مڈل کلاس طبقہ بھی مکمل طور پر ختم ہو کر غربت کے گڑھے میں جا گرے گا۔
زمرد نقوی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
آئی ایم ایف معاہدہ، ہم ہاتھ کٹوا بیٹھے
دلچسپ کہیں افسوس ناک یا شرم ناک کہیں۔ نگران حکومت نے جس دن پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا اُسی دن عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں ڈیڑھ فیصد سے زائد تک گر گئیں۔ رواں اگست کے پہلے پندرہ دنوں میں دو مرتبہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، پہلی مرتبہ پی ڈی ایم حکومت ختم ہونے سے چند دن پہلے اور دوسرا پندرہ اگست نگران حکومت کے دور میں۔ قیمت بڑھاتے ہوئے دونوں مرتبہ صریح غلط بیانی کی گئی کہ عالمی منڈی میں خام تیل مہنگا ہو گیا ہے، جب کہ اس کے برعکس عالمی منڈی میں تیل سستا ہوا ہے۔ یہ تو ظلم کی انتہا ہے۔ شاید ہی دنیا کی کسی حکومت نے اپنی عوام سے ایسا سفید جھوٹ بولا ہو۔ عوام سے عجیب مذاق ہو رہا ہے۔ صرف پٹرول پر عوام سے 60 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ تیل کی قیمت گرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کی معیشت مشکلات کا شکار ہے جسکی وجہ سے سرمایہ کار خدشات کا شکار ہیں۔ معاشی سست روی کی وجہ سے تیل کی کھپت چین میں کم ہو گئی ہے۔ چین تیل کے بڑے خریداروں میں شامل ہے، باوجود اس کے کہ خام تیل کی پیداوار اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عوام پچھلے پانچ سالوں سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن ان کی طرف سے کبھی کوئی مؤثر احتجاج نہیں کیا گیا، چنانچہ قیمتیں بڑھانے میں حکومت بھی بے خوف ہے۔
ایک تو مہنگائی دوسری مصنوعی مہنگائی۔ دوکاندار، تاجر دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض چیزوں پر اضافی 100 روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کے گزشتہ کچھ عرصہ سے حیران کن بیان آ رہے ہیں، ایک طرف ن لیگ میں ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے کچھ غیر معمولی حقائق سامنے لا رہے ہیں۔ بہرحال، خاقان عباسی نے نیب کے حوالے سے ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے اپنی مثال پیش کی کہ نیب نے مجھ سے ہر سوال پوچھا لیکن ایک سوال نہیں پوچھا کہ میں ٹیکس ادا کرتا ہوں یا نہیں؟ انھوں نے واضح طور پر بتایا کہ حکمران طبقات ٹیکس ادا نہیں کرتے جب کہ وہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے سالانہ ہزاروں ارب روپے کی مراعات حاصل کرتے ہیں۔ ان طبقات کے ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہر آئے دن عوام پر نئے ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں۔ ایک طرف سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ہیں، جن کی تنخواہ سے ٹیکس پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے، دوسری طرف پاکستان کے 5 فیصد جاگیردار ہیں جن کے قبضہ میں پاکستان کی 75 فیصد زرعی اراضی ہے جو اپنی آمدن کے تناسب سے کسی طور ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔
چنانچہ حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اندرون بیرون ملک سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہمیں اپنے ہوائی اڈے جن میں لاہور ، اسلام آباد، کراچی کے ایئرپورٹ شامل ہیں۔ ہم آؤٹ سورس کرنے جا رہے ہیں یعنی یہ ہوائی اڈے عالمی بینک کے ذیلی ادارے کے کنٹرول میں چلے جائیں گے۔ یہ معاملات PIA سے بھی متعلق ہیں۔ جس کا خسارہ گزشتہ سال ستمبر تک 630 ارب روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔ اب تو مزید ایک سال اوپر ہونے والے ہیں، سوچیے خسارہ کہاں تک پہنچ چکا ہو گا۔ ہماری معاشی صورتحال اب بالکل ویسے ہی اس شخص کے مشابہ ہے جو دیوالیہ ہونے پر اپنا قرض اور سود ادا کرنے کے لیے گھر کی چیزیں بی�� رہا ہو کیونکہ ہمارے حکمران طبقات سے لے کر عام آدمی تک ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوکاندار چند ہزار روپے سالانہ ادا کرنے پر تیار نہیں۔ جب کہ یورپ خاص طور پر فلاحی ریاستوں میں تنخواہ اور آمدنی کا 30 سے 40 فیصد ٹیکس کی مد میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس طرح حکومتیں بے روزگاری، رہائش ، تعلیم اور صحت کی مد میں اپنے شہریوں کو بہت سہولیات دیتی ہیں۔
آئی ایم ایف تو مسلسل شور مچا رہا ہے کہ مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس لگایا جائے اور خسارہ میں جانے والے اداروں کو پرائیویٹایز کیا جائے۔ لیکن حکمران طبقات اور اشرافیات اپنے اوپر ٹیکس لگائیں گے؟ ایسا تو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ چنانچہ ہمیشہ کی طرح عوام کے زیر استعمال اشیاء پٹرول، ڈیزل، بجلی اور کھانے پینے وغیرہ کی اشیاء پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔ یہ ہے بے پناہ کمر طور مہنگائی کی اصل وجہ۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ گزشتہ پی ڈی ایم حکومت نے اندرونی قرضوں میں پی ٹی آئی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ قرضے اس اتحادی حکومت نے محض 15 ماہ کی قلیل مدت میں لیے۔ یعنی 18.5 کھرب روپے، یہ ہے مہنگائی کی دوسری وجہ۔ پاکستان ٹریڈز یونین کے صدر کہتے ہیں کہ حالت ایسی ہو گئی ہے کہ لوگ کھانے پینے کی چیزیں چرانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے تاجر اور عوام مشکل میں چلے گئے ہیں۔ ایک بڑے بزنس گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا ہے کہ ملکی معاشی حالات آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے اس بد ترین جگہ پہنچے ہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے، یہ معاہدہ میں درج ہے۔ جن پر ہم نے دستخط کیے ہیں۔ حکومت نے معاہدہ میں جا کر اپنے ہاتھ کٹوا لیے ہیں۔ کراچی میں 50 فیصد انڈسٹری بند ہو گئی ہے کیونکہ اس بار بجلی کا بل 52 روپے یونٹ سے زائد آیا ہے۔
زمرد نقوی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ
حضرت عمر ابنِ خطاب کا دورِ خلافت ہے۔ وہ مدینے میں اپنے گھر کے باہر ایک مجمع سے خطاب کر رہے ہیں، ''اے لوگو میری بات دھیان سے سنو اور اطاعت کرو‘‘۔ مجمع میں سے ایک آواز آئی کہ ہم نہ تمہاری بات سنیں گے نہ اطاعت کریں گے۔ یہ آواز حضرت سلمان فارسی کی تھی۔ ایک سناٹا چھا گیا۔ خلیفہ عمر نے پوچھا، ''اے سلمان مجھ سے ایسی کیا خطا ہو گئی؟‘‘ سلمان فارسی نے کہا یمن سے چادروں کا جو تحفہ آیا وہ سب میں برابر تقسیم ہوا۔ تمہارے تن پر دو چادریں کیسی؟ خلیفہ عمر نےسبب بتایا کہ میں نے اپنے کپڑے دھو کے ڈالے ہوئے تھے اور ایک چادر تن کے لیے ناکافی تھی۔ لہذا میں نے یہاں آنے کے لیے اپنے بیٹے کے حصے میں آنے والی چادر اس سے مانگ لی۔ خلیفہ عمر کو اس کا بھی پورا ادراک تھا کہ وہ جس منصب پر ہیں، اس کے سبب لوگ ان کے اہلِ خانہ کے طرزِ زندگی پر بھی کوئی بھی سوال اٹھا سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ رعیت کو جب کسی فعل سے منع کرتے تو پھر گھر والوں کو جمع کر کے تاکید کرتے کہ لوگوں کی تمہارے افعال پر ایسے نگاہ ہے جیسے پرندہ گوشت کو دیکھتا ہے۔ لہذا تم میں سے کسی نے کوئی ایسی حرکت کی جس سے میں نے عام آدمی کو روکا ہے تو پھر تمہیں مجھ سے تعلق کی بنا پر دوگنی ��زا ملے گی۔
مجھے یہ قصہ یوں بیان کرنا پڑا ہے کہ اس ملک کا آئینی نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہاں کا ہر حکمران خلفائے راشدین کا دور واپس لانے کا خواب دکھاتا ہے اور اس دور کے قصے سن کے ہر جنرل، جج ، بیوروکریٹ اور نیتا کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ مجھے یہ قصہ یوں بھی یاد آیا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ پر سرکاری توشہ خانے سے تحائف اونے پونے خرید کے بازار میں بیچنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے ان کے ناقابلِ ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کرنا پڑے۔ ان وارنٹس کی تعمیل کی کوشش کے دوران جو سرپھٹول ہوئی وہ آپ کے سامنے ہے۔ اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر حکومت نے گذشتہ بیس برس کے دوران توشہ خانے میں آنے جانے والی اشیا کی فہرست عام کر دی۔ فہرست کو دیکھ کے اندازہ ہوا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہر حکمران اور ان کے اہلِ خانہ نے دل کھول کے ”توشہ نوشی‘‘ کی۔ صدور اور وزرائے اعظم تو رہے ایک طرف۔ ان کے اہلِ خانہ اور ان سے نتھی افسروں نے بھی دو سو ساٹھ ملین روپے کے تحائف صرف ستاون ملین روپے کے عوض خرید لیے۔ یعنی اصل قیمت کا محض پندرہ سے بیس فیصد دے کر گھڑیاں، زیورات، نوادرات وغیرہ اڑس لیے گئے۔
پرویز مشرف سے عارف علوی تک اور شوکت عزیز سے شاہد خاقان عباسی تک کسی صدر یا وزیرِ اعظم یا ان کے کنبے نے نہیں سوچا کہ ہم اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ توشہ خانے سے استفادے کی کیا ضرورت ہے۔ اس عرصے میں چار سابق حکمران توشہ خانے سے کروڑوں روپے مالیت کی اشیا اونے پونے خریدنے کے سلسلے میں بدعنوانی کے الزامات میں ماخوذ ہو چکے ہیں۔ ان میں آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں۔ کسی حکمران یا افسر کے ذہن میں ایک لمحے کو یہ خیال نہیں آیا کہ توشہ خانہ سے مفت کے داموں اشیا خرید کے انہیں مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر کے اپنی جیب میں ڈالنے کے بجائے کسی فلاحی تنظیم یا ادارے کو یہ پیسے دان کر دے۔ پاکستان میں کم ازکم تنخواہ پچیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ اس ملک میں ستر فیصد کارکنوں کی اوسط ماہانہ آمدنی پینتیس ہزار روپے ہے۔ دو بچوں اور میاں بیوی پر مشتمل چار رکنی خاندان کا گھر اگر ذاتی نہیں ہے تو کھانے پینے، کپڑے لتے، بیماری، خوشی غمی اور تعلیمی فیس کے لیے ہی اس وقت ک�� از کم پچاس ہزار روپے ماہانہ درکار ہیں اور اتنے پیسوں میں بھی دو وقت کی روٹی، بجلی، پانی، گیس اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات ہی پورے ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔
لاکھوں پنشنرز اس وقت آٹھ ہزار سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ پر گذارہ کر رہے ہیں اور ہزاروں تو پنشن کا منہ دیکھے بغیر ہی چل بسے۔ لیکن اسی پاکستان میں ایسے مقتتدر لوگ بھی ہیں جن کی ماہانہ پنشن دس لاکھ روپے یا زائد بتائی جاتی ہے۔ انہیں سرکار کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی گھر کا کرایہ، گاڑی، پٹرول، یوٹیلٹی بلز کی مد میں ایک مخصوص رقم اور سیکورٹی گارڈز فراہم ہوتے ہیں۔ اگر یہ جلیل القدر ہستیاں ان میں سے ایک بھی رعائیت نہ لیں تب بھی وہ اپنے طور پر یہ سب افورڈ کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے یہ سوچ درکار ہے کہ یہ سب الللے تلللے ملک کی ننانوے فیصد آبادی پر بلاواسطہ ٹیکسوں، اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی اور بیرونی قرضوں سے پورے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں شہباز شریف حکومت نے وزراء اور سرکاری اہلکاروں کی مراعات میں کٹوتی کی تفصیلات کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان اقدامات سے دو سو ارب روپے سالانہ کی بچت ہو گی۔ آج ایک ماہ گذرنے کے بعد بھی حکومت اپنے وزراء اور بابووں سے محض نصف اضافی گاڑیاں ہی واپس لے سکی ہے۔
یہ حضرات سب کے سب اس ملک میں مساوات اور ہر شہری کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ریاستِ مدینہ کا نظام لانے کے خواب فروش ہیں۔ گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے توشہ خانہ کا آڈٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو جو اہلِ اقتدار، جج، جنرل اور بااثر افراد توشہ خانہ سے فیضیاب ہوئے ان سب کی فہرست مرتب کر کے ان سے ان تحائف کی پوری قیمت وصول کی جائے۔ میں یہ حکم پڑھنے کے بعد سے سوچ رہا ہوں کہ ایک وزیرِ اعظم تھے محمد خان جونیجو جنہوں نے جنرلوں کو سوزوکیوں میں بٹھانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ایک وزیرِ اعظم تھے نواز شریف جنہوں نے جنرل مشرف پر آرٹیکل چھ لاگو کر کے دیکھ لیا۔ اور ایک وزیرِ اعظم تھے عمران خان جنہوں نے ریاستِ مدینہ قائم کرتے کرتے توشہ خانہ کی گھڑیاں بازار میں بیچ دیں۔ اور ایک وزیرِ اعظم ہیں شہباز شریف جنہوں نے سادگی اپنانے کا نعرہ لگا کے توشہ خانہ کی جو فہرست جاری کی، اس میں کوئی جج اور جرنیل شامل نہیں۔ اور ایک تھے ہمارے محمد علی جناح۔ جنہوں نے گورنر جنرل ہاؤس کے عقب میں واقع کیفے گرینڈ والوں کو آرڈر دیا کہ وہ بڑی ڈبل روٹی نہ بھیجا کریں۔ کیونکہ ناشتہ کرنے والا صرف میں یا میری بہن فاطمہ ہے۔ چھوٹی ڈبل روٹی بھیجا کریں تاکہ ریاست کا پیسہ ضائع نہ ہو۔ چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ آج بھی کیفے گرینڈ والوں نے سنبھال کے رکھا ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
Text
سیلز میں کمی سے محصولات متاثر، ڈیزل پر لیوی بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کئے جانے کا امکان
حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے مقرر کردہ محصولات کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) کے لیے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) چارج کو بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کر سکتی ہے تاکہ 869 ارب روپے کے ہدف کو پورا کیا جا سکے۔ یہ پروجیکشن ایک بروکریج ہاؤس، جے ایس گلوبل نے جمعہ کو ایک رپورٹ میں کی۔ بروکریج ہاؤس نے کہا، “آئی ایم ایف کے ساتھ ہم آہنگی میں قائم…
View On WordPress
0 notes
Text
سوری مفتاح اسماعیل
یادش بخیر کچھ ماہ قبل جب جناب مفتاح اسماعیل پاکستان کے وزیر خزانہ تھے، تب مجھ سمیت ہر پاکستانی ایک امید کے ساتھ لندن کی طرف دیکھ رہا تھا کہ جونہی اسحاق ڈار پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھیں گے تو اسی وقت ڈالر منہ کے بل زمین پر گر جائے گا، ہم سب یہ امید بھی لگائے بیٹھے تھے کہ پاکستانی روپیہ بھی آبرومند ہو گا، درآمدات اور برآمدات کے درمیان عدم توازن کسی حد تک توازن کی طرف جائے گا، مہنگائی کے مارے عوام یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ظالمانہ ٹیکس کے نظام میں کچھ بہتری لائی جائے گی، اسی امید کی وجہ سے راقم نے بھی مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنائے جانے کی صورت میں خوش گمانیوں کا اظہار کیا تھا، لیکن اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم نے جو سلوک عوام کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد یہ کہنا تو بنتا ہے ’’سوری مفتاح اسماعیل‘‘۔ تہجد گزار اسحاق ڈار نے منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے اپنے پرانے بقایہ جات وصول کئے۔ اپنے مقدمات کا قلع قمع کیا اور پھر عوام کی مشکیں کسنے کی طرف توجہ دی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں جس کے گھمانے سے معیشت درست سمت میں گامزن ہو جائے، ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ مفتاح اسماعیل کے پاس بھی کوئی جادو کی چھڑی نہیں تھی جب وہ قیمتوں میں اضافے کی بات کرتے تھے تو مسلم لیگ کی ’’ڈیفیکٹو‘‘ قیادت کی طرف سے ٹویٹ آتا تھا کہ یہ اضافہ واپس لیا جائے۔
جب مفتاح اسماعیل ٹیکس لگاتے تھے تو مسلم لیگ کے لندن میں بیٹھے ہوئے قائد کبھی تو اجلاس چھوڑ کر چلے جاتے تھے اور کبھی غصے سے لال پیلے ہو جاتے تھے۔ تاہم اب ان کے چہیتے اسحاق ڈار کے تباہ کن اقدامات کے بعد نہ تو لندن سے اجلاس چھوڑ کر جانے کی خبریں آئی ہیں اور نہ ہی وزیراعظم ہاؤس میں تشریف فرما مسلم لیگ کے صدر کی جانب سے غصے کے اظہار کی خبر آئی ہے۔ اگر یہی’’چن چڑھانا‘‘تھا تو مفتاح اسماعیل میں کیا برائی تھی، کہ ان کو توہین آمیز طریقے سے ہٹا کر اسحاق ڈار کو خزانہ کا نگہبان مقرر کر دیا گیا۔ چند ماہ پہلے تک اسحاق ڈار پاکستانی عوام کے خوابوں کے شہزادے تھے لیکن انہوں نے واپس آ کر پاکستانی عوام کی نیندیں ہی چھین لیں۔ بجلی، گیس، پٹرول کا کیا ذکر کریں اب تو اجناس، سبزی، گوشت، کی قیمتیں پرواز کر کے عام آدمی کی دسترس سے باہر چلی گئی ہیں۔ جناب مفتاح اسماعیل کو بے آبرو کرنے کے بعد جناب اسحاق ڈار کو تو اس وجہ سے سرآنکھوں پر بٹھایا گیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی مہارت رکھنے والے وزیر خزانہ ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ جیسے انہوں نے آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں تو نہیں ڈالیں البتہ اس کی نشیلی آنکھوں کا شکار ہو کر اس کے سحر میں یوں گم ہوئے ہیں کہ جو تلوار انہوں نے آئی ایم ایف کے مطالبات پر چلانی تھی وہی تلوار پاکستانی عوام کی گردن پر چلا دی ہے۔ وفاقی حکومت نے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ جی ایس ٹی کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دیا ہے۔
تعمیراتی سامان کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ سیمنٹ کی بوری میں 30 سے 40 روپے فی بوری اضافہ ہو گیا ہے۔ اس ’’ہمدرد‘‘حکومت نے عوام کے زیر استعمال ہر چیز کو عوام کی پہنچ سے دور رکھنے کے عزم پر عمل کرتے ہوئے موٹر سائیکل کی قیمتوں میں بھی یکدم اضافہ کیا ہے۔ پاکستانی قوم کی سگریٹ سے جان چھڑانے کیلئے وزارت صحت نے طویل عرصہ مہم چلائی لیکن عوام تھے کہ سگریٹ پینے سے باز نہیں آرہے تھے جناب اسحاق ڈار نے سگریٹ کی قیمت میں تقریباً دو سو پچاس فیصد اضافہ کر دیا ہے یوں تمباکو نوشی کے خلاف مہم کو ایک نیا ’’رنگ‘‘دے دیا ہے۔ غریب کسان کو موجودہ حکومت نے خصوصی طور پر نشانے پر رکھا ہے۔ ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کے بعد آب پاشی کس قدر متاثر ہو گی اس کا اندازہ تو زمیندار ہی کر سکتا ہے۔ کھاد کی قیمتوں میں اضافے کے بعد فصلوں کی پیداوار کس قدر متاثر ہو گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ پاکستان پہلے ہی جس غذائی بحران کی طرف جارہا ہے وہ کسی ذی شعور شخص سے مخفی نہیں ان حالات میں کسانوں اور زرعی شعبے کے ساتھ یہ نارواسلوک ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔
موجودہ حکمراں ٹولہ اپنی تعیشات میں کمی کے بجائے، عوام کی توجہ مہنگائی سے ہٹانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ کبھی آڈیو لیکس کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے، کبھی عمران خان کی گرفتاری کی بات ہوتی ہے، کبھی صدر مملکت کے آئینی اختیارات کو محدود کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، یہ لوگ اگر اتنی توجہ اپنے شاہانہ اخراجات کنٹرول کرنے پر لگاتے تو شاید کچھ بہتری ہوتی، جہازی سائز کابینہ اور اس پر اٹھنے والے اربوں روپے کے اخراجات غریب عوام کو منہ چڑا رہے ہیں، حکمراں ٹولے کا ایک قدم بھی عوامی فلاح کی جانب نہیں اٹھ رہا، بلکہ ساری توجہ عمران خان اور تحریک انصاف کو دیوار کے ساتھ لگانے پہ صرف ہو رہی ہے۔حکمراں طبقے میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو ��نہیں درست راستے پر گامزن رکھنے کی تجویز دے۔ اپوزیشن کے خلاف آگ اگلنے والے تو ہر طرف موجود ہیں لیکن اس آگ پر پانی ڈالنے والا ایک شخص بھی موجود نہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر عام آدمی کے مسائل کے علاوہ ہر موضوع پر بات ہوتی ہے۔ اس ٹولے نے عام آدمی کا جینا محال کر دیا ہے اور مرنا مشکل۔ گھر بنانا ناممکن اور گھر بسانا مشکل کر دیا ہے۔ اب عوام کو اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے خود ہی میدان میں اترنا پڑے گا اور ووٹ کی طاقت سے سیاست کے پٹے ہوئے مہروں کو انجام آشنا کرنا ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
پیٹرول کی قیمت برقرار ہائی سپیڈ ڈیزل 5 روپے مہنگا
(24 نیوز) عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود حکومت کا پاکستان میں پیٹرول کی قیمت میں اضاف�� نہ کرنے کا فیصلہ ۔ وفاقی حکومت نے آئندہ 15 روز کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا ہے ،عالمی مارکیٹ میں اضافے کے باوجود پٹرول کی موجودہ قیمت برقرار رکھنے کا اعلان کر دیا ہے، جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق آج شب 12 بجے سے ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 5روپے فی لٹر اضافہ…
0 notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس ، محکمہ تعلقات عامہ ، حکومت پنجاب ، شیخوپورہ
ہینڈ آٶٹ نمبر : 10383
19 اکتوبر :- ڈپٹی کمشنر شیخوپوره شاہد عمران مارتھ نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف ، چیف سیکرٹری پنجاب اور کمشنر لاہور کی خصوصی ہدایت پر تمام اسسٹنٹ کمشنرز اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس ہر علاقے کی شاپس ، سپر اسٹورز ، گوشت کی دوکانوں، پٹرول پمپس ، سبزی و پھل منڈیوں ، ہوٹلز اور تندوروں پر اشیاء خورونوش اور نان و روٹی کی مقرر کردہ قیمتوں پر عملدرآمد کے لیے فیلڈ میں متحرک ہیں ، روٹی اور نان کی سرکاری قیمت کی خلاف ورزی پر ضلع بھر میں ابتک 36 ہزار 356 دکانوں اور تندوروں کی انسپکشن کی گئی جس کے دوران 3 ہزار 727 دوکانداروں کو 96 لاکھ 96 ہزار200 روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے جبکہ نان و روٹی کی زائد قیت وصول کرنے والے 45 دوکانداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی اور 31 کو حراست میں لیا گیا ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار گراں فروشوں ، ذخیرہ اندوزوں اور ملاوٹ مافیا کے خلاف ضلع شیخوپورہ میں جاری کریک ڈاؤن کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوۓ کیا ۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ نے بتایا کہ رواں ماہ اکتوبر میں ابتک 7 ہزار 962 دوکانوں کی انسپکشن کے دوران مجموعی طور پر 63 لاکھ 98 ہزار روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا گیا جبکہ 9 دوکانداروں کے خلاف مقدمات درج کرواۓ گئے ۔ ڈپٹی کمشنر شاہد عمران مارتھ نے کہا کہ ناجائز منافق خور ذخیرہ اندوز کسی رعایت کے مستحق نہیں ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 notes
Text
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان
وزیراعظم شہباز شریف کا عوام کو بڑا ریلیف، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا۔ وزارت خزانہ کے نوٹیکفیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 1.86 روپے فی لیٹر کمی،پٹرول کی قیمت 260.96 روپے سے کم ہو کر 259.10 روپے ہوگئی۔ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 3.32 روپے کمی،ڈیزل کی قیمت 266.07 روپے سے کم ہو کر 262.75 روپے ہو گئی۔مٹی کے تیل کی قیمت میں 2.15 روپے فی لیٹر کمی،مٹی کے تیل کی قیمت 171.77 روپے فی…
0 notes
Text
حکومت نے پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 22 روپے سے زائد اضافہ کردیا
اسلام آباد: حکومت نے پٹرول 22روپے 22 پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا، نئی قیمتوں پر اطلاق رات بارہ بجتے ہی شروع ہوگیا۔ جاری کردی نوٹی فکیشن کے مطابق پٹرول 22.20 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل آئل 17.20 روپے، مٹی کا تیل 12.90 روپے، لائٹ ڈیزل آئل 9.68 روپے فی لیٹر مہنگا کردیا گیا۔ نوٹی فکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت 22.20 روپے اضافے کے ساتھ 249.80 روپے سے بڑھا کر 272 روپے فی لیٹر جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت…
View On WordPress
0 notes