#وہم
Explore tagged Tumblr posts
Text
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا
اُسے اپنے فردا کی فِکر تھی، وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اُس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خُود فنا کے سفر پہ تھا، اُسے روکنا بھی محال تھا
کہاں جاؤ گے مُجھے چھوڑ کر، میں یہ پُوچھ پُوچھ کے تھک گیا
وہ جواب مُجھ کو نہ دے سکا، وہ تو خُود سراپا سوال تھا
وہ جو اُس کے سامنے آ گیا، وہی روشنی میں نہا گیا
عجب اُس کی ہیبتِ حُسن تھی، عجب اُس کا رنگِ جمال تھا
دم واپسِیں اُسے کیا ہوا، نہ وہ روشنی، نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بِکھر گیا، وہ تو آپ اپنی مِثال آپ تھا
وہ مِلا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پہ کوئی گِلہ نہ تھا
اُسے میری چُپ نے رُلا دیا، جِسے گُفتگُو میں کمال تھا
میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا مجھے فخریؔ اتنا وہ کہہ سکا
جِسے جانتا تھا میں زندگی، وہ تو صِرف وہم و خیال تھا
11 notes
·
View notes
Text
ایک وہم کی موت سے زیادہ افسوسناک کوئی چیز نہیں ہے جس کے ساتھ ہم اپنی زندگی کے کئی سالوں سے جی رہے تھے۔
There is nothing more tragic than the death of an illusion that we lived with for many years of our lives.
Arthur Koestler
54 notes
·
View notes
Text
ایک عمر تک میں اسکو بڑا قیمتی رہا،
میں اہم تھا ،یہ وہم تھا بڑی دیر تک رہا۔
5 notes
·
View notes
Text
انہیں یہ خوف کہ ہر بات مجھ سے کہہ ڈالی
مجھے یہ وہم کہ کوئی بات ابھی باقی ہے
5 notes
·
View notes
Text
اک عمر سے فریب سفر کھا رہے ہیں ہم
معلوم ہی نھیں کہ کہاں جا رہے ہیں ہم
یوں گرد سے اٹے ہیں کہ پہچان مٹ گئی
لیکن یہ وہم ہے کہ جلا پا رہے ہیں ہم
بنیاد پختہ کا تو نا آیا کبھی خیال
چھت جھکتی آرہی ہے تو پچھتا رہے ہیں ہم
برسوں سے انتظار ہے اک نخل سبز کا
آب حیات ریت پہ ٹپکا رہے ہیں ہم
یہ سوچتے ہیں ٹوٹتے تاروں کو دیکھ کر
منزل سے رفتہ رفتہ قریب آرہے ہیں ہم
اک دائرے میں گھومتے پھرتے رہے ندیم
اس وہم میں مگن کہ بڑھے جا رہے ہیں ہم
4 notes
·
View notes
Text
جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور
I acknowledge the face of the universe as only a name
جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے
The substance of reality is but an illusion before me
- Mirza Ghalib (مرزا غالب)
11 notes
·
View notes
Text
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حبیب جالب کی بیگم ایک دن اُن سے ملاقات کیلئے جیل گئیں اور جالب سے کہنے لگیں۔ آپ تو جیل میں آگئے ہو یہ بھی سوچا ہے کہ بچوں کی فیس کا کیا بنے گا اور گھر میں آٹا بھی ختم ہونے والا ہے۔ حبیب جالب نے اس ملاقات کے بارے میں ایک نظم لکھی۔ جس کا عنوان ”ملاقات“ رکھا۔
ملاقات جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کو جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زباں تھی
صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
تو ایک حقیقت ہے مری جاں مری ہم دم جو تھی مری غزلوں میں وہ اک وہم و گماں تھی
محسوس کیا میں نے ترے غم سے غم دہر ورنہ مرے اشعار میں یہ بات کہاں تھی
حبیب جالب
8 notes
·
View notes
Text
دستیاب مجھ کو بڑی دیر تک رہا
میں انتخاب اس کا بڑی دیر تک رہا
اک عمر تک میں اس کو بڑا قیمتی لگا
میں اہم تھا یہ وہم مجھ کو بڑی دیر تک رہا ۔
3 notes
·
View notes
Text
اسموگ۔ موسمیاتی مسئلہ یا انتظامی نا اہلی؟
اہل پاکستان کیلئے موسم کی تبدیلی، ’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ کی طرح ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔ ماضی قریب میں درختوں کے پتے گرنے سے موسم کی تبدیلی کا اشارہ ملتا تھا، پرندوں کی ہجرت موسم کے بدلنے کا پتہ دیتی تھی، ہوائیں اچانک سرد ہو جاتی تھی، شام کے سائے لمبے ہو جاتے تھے لیکن اب موسم سرما کی آمد سے قبل فضا خشک ہو جاتی ہے، اسموگ ڈیرے ڈال دیتی ہے، صبح اور شام کے اوقات میں یہ صورتحال مزید تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ آسمان دھند کی چادر تان لیتا ہے اسکی وجہ سے حد نگاہ متاثر ہوتی ہے اور ساتھ ہی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر اسموگ برقرار رہے تو مختلف امراض کے بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے وہ ہر قسم کی بیماریوں کا جلد شکار ہونے لگتے ہیں۔ موسمیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ جب ہوائیں نہیں چلتیں اور درجہ حرارت میں کمی یا کوئی موسمی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو ماحول میں موجود آلودگی فضا میں جانے کے بجائے زمین کے قریب رہ کر ایک تہہ بنا دیتی ہے جسکی وجہ سے غیر معمولی آلودگی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ صفائی کے ناقص انتظامات، کچرے کے ڈھیر کو آگ لگانا، دیہی علاقوں میں اینٹیں بنانے والے بھٹے، صنعتی علاقوں میں فیکٹریاں اور ملوں کی چمنیاں ماحول کو آلودہ اور خطرناک بناتی ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں کے کسانوں کے معاملات یکساں ہیں بھارتی کسانوں کی طرح پاکستانی کسان بھی مڈھی کو آگ لگاتے ہیں، یوں دہلی اور لاہور آلودگی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسموگ نامی بیماری صرف برصغیر کا ہی مقدر ہے یا دنیا اس سے پہلے اس مسئلے سے نپٹ چکی ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق 26 جولائی 1943ء کو امریکی شہر لاس اینجلس میں اپنے وقت کی سب سے بڑی اسموگ پیدا ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران شدید اسموگ کی وجہ سے لاس اینجلس کے شہریوں کو وہم ہوا کہ جاپان نے کیمیائی حملہ کر دیا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے جنگ کے باوجود اپنے شہریوں کو اسموگ سے بچانے کیلئے موثر اقدامات کیے۔ دسمبر 1952 ء میں لندن میں فضائی آلودگی کی لہر نے حملہ کیا لندن میں آلودہ دھند کی وجہ سے 12 ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 1980ء کی دہائی میں چین میں کوئلے س�� چلنے والے گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہوا تو وہاں بھی اسموگ اور فضائی آلودگی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ 2014ء میں بیجنگ کو انسانوں کے رہنے کیلئے ناقابل قبول شہر قرار دیا گیا لیکن چین نے اس مسئلے کو ختم کرنے کیلئے جدید ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم قائم کیا۔
پبلک ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر تبدیل کیا اور گاڑیوں میں ایندھن کے معیار میں بھی بہتری لائی گئی۔ برطانیہ امریکہ اور چین نے کوئلے سے چلنے والے نئے منصوبوں پر پابندی لگائی، رہائشی عمارتوں میں کوئلے سے چلنے والے ہیٹنگ سسٹم کو بتدریج بند کیا، بڑی گاڑیوں اور ٹرکوں کے انجن میں ایندھن کے معیار کو بہتر کیا، آلودگی پھیلانے والی پرانی کاروں کے استعمال پر پابندی عائد کی۔ جس سے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ بیجنگ کا فضائی آلودگی سے لڑنے کیلئے مقرر کردہ بجٹ 2013 ء میں 430 ملین ڈالر تھا جو 2017ء میں 2.6 ارب ڈالر کر دیا گیا۔ جہاں تک پاکستان میں اسموگ پیدا کرنیوالے اسباب کا تعلق ہے تو ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان خصوصا لاہور میں 83.15 فیصد آلودگی ٹرانسپورٹ سے، 9.7 فیصد ناقص صنعتوں سے، 3.6 فیصد کوڑا جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں خصوصاً لاہور کراچی ملتان فیصل آباد اور یہاں تک اسلام آباد میں بھی فضائی آلودگی کے باعث آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں دشواری، کھانسی، ناک کان گلا اور پھر پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔
الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس مسئلے سے نپٹنے کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام نہیں ہو رہا اور نہ ہی ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ حکومت کا سارا زور اسکول بند کرنے اور لاک ڈاؤن لگانے پر ہے۔ دوسرا حملہ دکانداروں اور معیشت پر کیا جاتا ہے جبکہ تیسری بڑی وجہ کسانوں کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ آلودگی میں سب سے زیادہ حصہ ناقص ٹرانسپورٹ کا ہے شاید ٹرانسپورٹ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ حکومت اسکے سامنے بے بس ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اسموگ کا موسم آنے سے پہلے ہی مناسب حفاظتی انتظامات کر لئے جاتے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں سڑک پر نہ آتیں، بھارتی حکومت سے بات کی جاتی اپنے عوام میں شعور پیدا کیا جاتا اور قانون اور ضابطے کے مطابق ہر قسم کی کارروائی عمل میں لائی جاتی۔ حکومتی غفلت اور عوام میں شعور کی عدم آگاہی کے باعث ہمارے شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہے، وہاں رہنے والے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر وقت سے پہلے ہی موت کی گھاٹی میں اتر رہے ہیں۔ جس طرح امن و امان، صحت، تعلیم جیسی دیگر سہولیات کیلئے عوام خود ہی اپنے طور پر انتظامات کر رہے ہیں اسی طرح اسموگ سے نپٹنے کیلئے بھی عوام کو خود احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہو گی۔
اسموگ سے بچاؤ کیلئے ماسک اور چشمے کا استعمال کریں۔ تمباکو نوشی کم کر دیں، گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں، بازاروں گلیوں اور سڑکوں میں کچرا پھینکنے اور اسے آگ لگانے سے اجتناب کریں، جنریٹر اور زیادہ دھواں خارج کرنیوالی گاڑیاں درست کروائیں۔ حکومت کو چاہئے کہ آلودگی سے مقابلہ کرنے کیلئے عالمی معیار کے مطابق انتظامات کرے۔ ایندھن کا معیار بہتر کرے۔ گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ کیلئے حقیقی چیکنگ کی جائے تاکہ ہمارے شہر رہنے کے قابل بن سکیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
🔰 تذکرے اور صحبتیں مقربان خدا کا تذکرۂ دلپذیر دل کے بند دروازوں پر دستک دینے والی کتاب
🛒 کتاب گھر بیٹھے حاصل کریں، صرف ایک کلک کی دوری پر! https://www.minhaj.biz/item/tazkare-awr-suhbatain-bh-0012
یہ سنت الٰہیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور مقرب بندوں اور ان کے احوال و مقامات کا ذکر فرماتا ہے۔ جن کے دل و جان میں اللہ کی یاد اور ذکر ہمہ وقت سرایت کر جائے انہیں حضور حق میں دائمی ہم نشینی نصیب ہو جاتی ہے۔ اس لئے قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ تم بھی ان کے ہم نشین اور ہم مجلس وہم صحبت رہا کرو تاکہ دوست کے دوست سے تمہیں بھی بوئے دوست نصیب ہو اور ان کے واسطہ سے تمہیں بھی دوست کی ہم نشینی میسر آئے۔ مگر افسوس! ہم آج ان حقیقتوں کو بھول گئے ہیں، ہم اس مولا کی طلب و محبت سے غافل ہوگئے ہیں جس نے ہمیں عدم سے ہست کیا اور بے بہا نعمتوں سے نوازا، بالآخر ہمیں جانا بھی اسی کے پاس ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ہمارے دل عشق و محبت الٰہی سے تو کیا شناسا ہوتے یادِ الٰہی سے بھی غافل ہوگئے ہیں، بلکہ غفلت کے باعث پتھروں سے بھی سخت تر ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں عاشقوں اور خستہ دلوں کے احوال سنے اور پڑھے جائیں تاکہ ان کی خستگی، شکستگی اور سوختگی کے حالات سن کر ہمارے دلوں کی سختی ٹوٹے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ کا تذکرہ مبارک 📗 تذکرۂ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم 🔹 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ 🔹 سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہم 🔹 سیدنا امام ابو محمد جعفر صادق رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت حبیب عجمی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت ابراہیم ادھم رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت داؤد طائی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت بشر حافی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت ابو علی شقیق بلخی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت ذوالنّون مصری رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ
مصنف: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 160 قیمت : 330 روپے
💬 وٹس ایپ لنک / نمبر 👇 https://wa.me/923224384066
#TazkaryawrSuhbatain#Awliya#Aulia#MinhajBooks#BooksbyDrQadri#IslamicBooks#TahirulQadri#DrQadri#MinhajulQuran#IslamicLibrary#books#UrduBooks#pdfb
0 notes
Text
آخری بار ملو
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل
راکھ ہو جائیں کوئی اور تقاضہ نہ کریں
چاک وعدہ نہ سلے زخم تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امید تو آنکھیں چھن جائیں
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدید وفا کا نہ شکایات کا وقت
لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوحہ کہیے
آج تک تم سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ملو
ماتمی ہیں دم رخصت در و دیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے نہ اقرار نہ انکار ملو
آخری بار ملو
مصطفی زیدی
12 notes
·
View notes
Text
حقیقی چیزیں صرف ایک بار ہوتی ہیں.. موت، پیدائش، محبت، کچھ بھی دو بار نہیں ہوتا سوائے وہم کے۔
Real things only happen once.. Death, birth, love, nothing happens twice except illusion.
• Carlos Zafone
14 notes
·
View notes
Text
طفلان کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں سودا بھی ایک وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں گا یعنی میں لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں بس اک غبار وہم ہے اک کوچہ گرد کا دیوار بود کچھ نہیں اور در بھی کچھ نہیں یہ شہر دار و محتسب و مولوی ہی کیا پیر مغان و رند و قلندر بھی کچھ نہیں شیخ حرام لقمہ کی پروا ہے کیوں تمہیں مسجد بھی اس کی کچھ نہیں منبر بھی کچھ نہیں مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں شاید وہ جبر ہے کہ مقدر بھی کچھ نہیں جانی میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں فدا یہ اور بات ہے ترا پیکر بھی کچھ نہیں یہ شب کا رقص و رنگ تو کیا سن مری کہن صبح شتاب کوش کو دفتر بھی کچھ نہیں بس اک غبار طور گماں کا ہے تہ بہ تہ یعنی نظر بھی کچھ نہیں منظر بھی کچھ نہیں ہے اب تو ایک جال سکون ہمیشگی پرواز کا تو ذکر ہی کیا پر بھی کچھ نہیں کتنا ڈراؤنا ہے یہ شہر نبود و بود ایسا ڈراؤنا کہ یہاں ڈر بھی کچھ نہیں پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص یعنی وفائے عہد کا بستر بھی کچھ نہیں نسبت میں ان کی جو ہے اذیت وہ ہے مگر شہ رگ بھی کوئی شے نہیں اور سر بھی کچھ نہیں یاراں تمہیں جو مجھ سے گلہ ہے تو کس لئے مجھ کو تو اعتراض خدا پر بھی کچھ نہیں گزرے گی جونؔ شہر میں رشتوں کے کس طرح دل میں بھی کچھ نہیں ہے زباں پر بھی کچھ نہیں
0 notes
Photo
’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘کی پہلی اذان میں کہا جائے یا دوسری میں ؟ سوال ۱۹۶: ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کے الفاظ پہلی اذان میں کہے جائیں یا دوسری میں؟ جواب :’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کے الفاظ پہلی اذان میں کہے جائیں جیسا کہ حدیث میں واردہوا ہے: ((فَاِذَا اَذَّنْت أذان الصبحَ الْأَوَّلِ فَقُلْ: ’’ اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘)) (مسند احمد: ۳/۴۰۸۔) ’’جب تم صبح کی پہلی اذان دو تو یہ کہو:’’الصلاۃ خیر مِّن النوم‘‘ اس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ الفاظ پہلی اذان میں ہیں، دوسری میں نہیں، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ اس حدیث میں اذان اول سے مراد کیا ہے؟ اس سے مراد وہ اذان ہے جو وقت شروع ہونے کے بعد ہوتی ہے۔ اور دوسری اذان سے مراد اقامت ہے، کیوں کہ اذان کو بھی اقامت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((بَیْنَ کُلِّ اَذَانَیْنِ صَلَاۃٌ)) (صحیح البخاری، الاذان، باب بین کل اذانین صلاۃ لمن شاء، ح: ۶۲۷ وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب بین کل اذانین صلاۃ، ح:۸۳۸۔) ’’ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔‘‘ اس حدیث میں دو اذانوں سے مراد اذان اور قامت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ: ’’امیرالمومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا اضافہ کیا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اذان اول جس میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کہنے کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد نماز فجر کے لیے دی جانے والی اذان ہے۔ وہ اذان جو طلوع فجر سے قبل ہوتی ہے، وہ فجر کے لیے نہیں ہوتی، لوگ رات کے آخری حصے کی اس اذان کو فجر کی پہلی اذان کے نام سے موسوم کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اذان نماز فجر کے لیے نہیں ہوتی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِنَّ بِلَا لَا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ لیوقظ نائمکم ویرجع قائمکمْ )) (صحیح البخاری، الاذان، باب الاذان قبل الفجر، ح: ۶۲۱، ۶۲۲ وصحیح مسلم، الصیام، باب بیان ان الدخول فی الصوم یحصل… ح: ۱۰۹۲، ۱۰۹۳۔) ’’بے شک بلال رات کو اذان کہتے ہیں‘‘ تاکہ سونے والوں کو بیدارکریں اور قیام کرنے والے (نمازختم کرکے)لوٹ جائیں اور سحری کرلیں)) ۔‘‘ یعنی وہ تو اس لیے اذان کہتے ہیں تاکہ سویا ہوا اٹھ کھڑا ہو اور وہ سحری کھا لے اور قیام کرنے والا بھی لوٹ آئے اور سحری کھا لے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے بھی فرمایا تھا: ((فَإِذَا ح��ضَرَتِ الصَّلَاۃُ فَلْیُؤَذِّنْ لَکُمْ أَحَدُکُمْ)) (صحیح البخاری، الاذان، باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ… ، ح: ۶۳۱ وصحیح مسلم، المساجد، باب من احق بالامامۃ، ح: ۶۷۴۔) ’’جب نماز کا وقت ہو جائے، تو تم میں سے ایک شخص تمہاری خاطر اذان دے۔‘‘ اور معلوم ہے کہ نماز کا وقت طلوع فجر کے بعد ہوتا ہے، لہٰذا طلوع فجر سے پہلے کی اذان، فجر کی اذان نہیں ہے، آج کل کے لوگوں کا یہ عمل اور فعل صحیح ہے اور ان کا یہ کہنا کہ ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کے الفاظ اذان فجر کے لیے ہیں بجا ہے۔ جس شخص نے یہ وہم کیا ہے کہ حدیث میں اذان اول سے مراد وہ اذان ہے جو طلوع فجر سے پہلے ہوتی ہے، صحیح نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس بات کی دلیل کہ اس سے مراد وہ اذان ہے جو رات کے آخری حصے میں ہوتی ہے، یہ ہے کہ اس وقت ادا کی جانے والی نفل نماز کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ اور خیر کا لفظ افضل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ہم عرض کریں گے کہ خیر کا لفظ اس واجب کے لیے استعمال ہوتا ہے جو واجبات میں سے بے حد اہمیت کا حامل ہو، مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ، ﴾ (الصف: ۱۰۔۱۱) ’’مومنو! میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دلادے؟ (وہ یہ کہ) تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘ حالانکہ سب سے بہتر تو ایمان ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نماز جمعہ کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ﴾ (الجمعۃ: ۹) ’’مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کی یاد (نماز) کے لیے جلدی کرو اور (خریدو) فروخت ترک کر دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘ لہٰذا خیر واجب میں بھی ہو سکتی ہے اور مستحب میں بھی۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۲۴۷، ۲۴۸ ) #FAI00149 ID: FAI00149 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے!
فیض احمد فیض
4 notes
·
View notes
Text
تُو ہتھیلی پہ دھری خاک سے بڑھ کر کیا ہے ؟
یہ جو ہونے کا تجھے وہم ہے، ہونے سے نکل 🥀
1 note
·
View note