#وہم
Explore tagged Tumblr posts
Text
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدید وفا کا نہ شکایات کا وقت
لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوحہ کہیے
آج تک تم سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
12 notes
·
View notes
Text
ان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت ، وہ باتیں ، وہ زمانہ دل کا
نہ سنا اس نے توجہ سے فسانہ دل کا
عمر گزری ، مگر درد نہ جانا دل کا
کچھ نئی بات نہیں حُسن پہ آنا دل کا
مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا
وہ محبت کی شروعات ، وہ بے تہاشہ خوشی
دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ سمانا دل کا
دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یارب ! نہ لگانا دل کا
ایک تو میرے مقدر کو بگاڑا اس نے
اور پھر اس پہ غضب ہنس کے بنانا دل کا
میرے پہلو میں نہیں ، آپ کی مٹھی میں نہیں
بے ٹھکانے ہے بہت دن سے ،ٹھکانا دل کا
وہ بھی اپنے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے
“ ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا “
خوب ہیں آپ بہت خوب ، مگر یاد رہے
زیب دیتا نہیں ایسوں کو ستانا دل کا
بے جھجک آ کے ملو، ہنس کے ملاؤ آنکھیں
آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں ملانا دل کا
نقش بر آب نہیں ، وہم نہیں ، خواب نہیں
آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا
حسرتیں خاک ہوئ��ں، مٹ گئے ارماں سارے
لٹ گیا کوچہء جاناں میں خزانہ دل کا
لے چلا ہے مرے پہلو سے بصد شوق کوئی
اب تو ممکن نہیں لوٹ کے آنا دل کا
ان کی محفل میں نصیر ! ان کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ، ہاتھ سے جانا دل کا
پیر سیّد نصیر الدین نصؔیر گیلانی ؒ
9 notes
·
View notes
Text
ایک وہم کی موت سے زیادہ افسوسناک کوئی چیز نہیں ہے جس کے ساتھ ہم اپنی زندگی کے کئی سالوں سے جی رہے تھے۔
There is nothing more tragic than the death of an illusion that we lived with for many years of our lives.
Arthur Koestler
54 notes
·
View notes
Text
ایک عمر تک میں اسکو بڑا قیمتی رہا،
میں اہم تھا ،یہ وہم تھا بڑی دیر تک رہا۔
5 notes
·
View notes
Text
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج ، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا ، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چھاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آکے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بیر ، نہ اک مہر ، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا ، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن میرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
- فیض احمد فیض
5 notes
·
View notes
Text
انہیں یہ خوف کہ ہر بات مجھ سے کہہ ڈالی
مجھے یہ وہم کہ کوئی بات ابھی باقی ہے
5 notes
·
View notes
Text
اک عمر سے فریب سفر کھا رہے ہیں ہم
معلوم ہی نھیں کہ کہاں جا رہے ہیں ہم
یوں گرد سے اٹے ہیں کہ پہچان مٹ گئی
لیکن یہ وہم ہے کہ جلا پا رہے ہیں ہم
بنیاد پختہ کا تو نا آیا کبھی خیال
چھت جھکتی آرہی ہے تو پچھتا رہے ہیں ہم
برسوں سے انتظار ہے اک نخل سبز کا
آب حیات ریت پہ ٹپکا رہے ہیں ہم
یہ سوچتے ہیں ٹوٹتے تاروں کو دیکھ کر
منزل سے رفتہ رفتہ قریب آرہے ہیں ہم
اک دائرے میں گھومتے پھرتے رہے ندیم
اس وہم میں مگن کہ بڑھے جا رہے ہیں ہم
4 notes
·
View notes
Text
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حبیب جالب کی بیگم ایک دن اُن سے ملاقات کیلئے جیل گئیں اور جالب سے کہنے لگیں۔ آپ تو جیل میں آگئے ہو یہ بھی سوچا ہے کہ بچوں کی فیس کا کیا بنے گا اور گھر میں آٹا بھی ختم ہونے والا ہے۔ حبیب جالب نے اس ملاقات کے بارے میں ایک نظم لکھی۔ جس کا عنوان ”ملاقات“ رکھا۔
ملاقات جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کو جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زباں تھی
صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
تو ایک حقیقت ہے مری جاں مری ہم دم جو تھی مری غزلوں میں وہ اک وہم و گماں تھی
محسوس کیا میں نے ترے غم سے غم دہر ورنہ مرے اشعار میں یہ بات کہاں تھی
حبیب جالب
8 notes
·
View notes
Text
دستیاب مجھ کو بڑی دیر تک رہا
میں انتخاب اس کا بڑی دیر تک رہا
اک عمر تک میں اس کو بڑا قیمتی لگا
میں اہم تھا یہ وہم مجھ کو بڑی دیر تک رہا ۔
3 notes
·
View notes
Text
quotes in urdu
Quote:
“آپ اپنی زندگی سے بھلے خوش نہ ہوں پر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپکی جیسی زندگی گزارنے کے لیے ترستے ہیں۔”
Meaning:
Lesson: This quote teaches us gratitude. Instead of focusing on what we lack, we should value our blessings. Gratitude brings peace and contentment.
Quote:
“محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ تمہاری کامیابی شور مچا دےؔ”
Lesson: Success doesn’t come from boasting but from consistent hard work. This quote emphasizes humility and perseverance.
Quote:
“برے لوگوں کی زندگی میں کبھی خوشی نہیں آ سکتیؔ”
Lesson: True happiness comes from good deeds, kindness, and selflessness. Negative actions always lead to dissatisfaction.
Quote:
“ہم دنوں کو کبھی یاد نہیں رکتے ہیں، ہمیں صرف لمحے یاد رہتے ہیںؔ”
Lesson: Life is about cherishing beautiful moments, not counting days. Focus on creating memories.
Quote:
“نفسیات کے مطابق، اگر آپ کسی کو پسند کرتے ہیں اور وہ آپ کے اردگرد موجود ہو تو آپ کا رویہ کافی عجیب ہو جائے گا۔”
Lesson: This quote highlights the vulnerability of emotions. Understanding your feelings helps you navigate relationships better.
Quote:
“چھوٹی چھوٹی غل��یوں سے بچو، ایک ایک چھوٹا سوراخ ہی بچھے جہاز کو ڈبو دیتا ہےؔ”
Lesson: This quote teaches us to pay attention to minor details, as they can have significant consequences in the long run.
Quote:
“خوش رہو کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کے پاس کتنا وقت بچا ہےؔ”
Lesson: This quote emphasizes the value of living in the moment and spreading positivity. Cherish life and make every moment count.
Quote:
“جس کو راضی کرنے سے سکون ملتا ہو اس سے ناراض کر کے سکون حاصل نہیں کر سکتےؔ”
Lesson: This quote reminds us of the importance of nurturing relationships that provide inner peace. Value the people who matter in your life.
Quote:
“جب انسان پر اچھا وقت آتا ہے تو وہ بھولنے والی چیزوں میں سب سے پہلے اپنی اوقات بھولتا ہےؔ”
Lesson: This quote teaches us to stay grounded and humble, even during moments of success and prosperity.
Quote:
“بڑوں سے بد تمیزی کی سزا بد تمیز بچوں کی صورت میں ملتی ہے۔”
Lesson: This quote teaches us to respect our elders and set a positive example for the next generation.
Quote:
“تمہاری وجہ سے اگر کوئی بے سکون ہو جائے تو سمجھ لو کہ تم ظالموں میں سے ہو۔”
Meaning: If your actions disturb someone’s peace, consider yourself an oppressor.
Lesson: This quote emphasizes the importance of being mindful of others’ well-being and avoiding harm.
Quote:
“جب خاموشی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ الفاظ سے بھی زیادہ زخم دے سکتی ہے۔”
Lesson: This quote highlights the power of silence and the importance of using it wisely.
Quote:
“آپ کے پاس دو راستے ہیں، یا تو آپ اپنے ذہن کو کنٹرول کر لیں یا آپ کا ذہن آپ کو کنٹرول کرے گا۔”
Lesson: This quote inspires self-discipline and mental strength to lead a balanced life.
Quote:
“مشکلات اس بات کا اشارہ ہوتی ہیں کہ آپ اپنی زندگی میں لاپروائی سے کام لے رہے ہیں۔”
Lesson: This quote teaches us to view difficulties as opportunities for self-improvement and responsibility.
Quote:
“لفظوں سے ہی خاموشی ٹوٹتی ہے اور لفظ ہی خاموش کر دیتے ہیں۔”
Lesson: This quote underscores the power of speech and its impact on communication and relationships.
Quote:
“جس چیز کے لیے آپ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں، اسے حاصل کرنے کے بعد آپ کو اتنی ہی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔”
Lesson: This quote highlights the value of hard work and the immense satisfaction of achieving your goals.
Quote:
“دل کی سچائی اور پاکیزگی سے کامیابی انسان کا مقدر بن جاتی ہے۔”
Lesson: This quote teaches us that genuine intentions and honesty lead to success and fulfillment.
Quote:
“غریبی اکثر انسان کو تمام خوبیوں سے محروم رکھتی ہے، خالی بیگ کا سیدھے کھڑے ہونا مشکل ہے۔”
Lesson: This quote highlights the struggles of poverty and the importance of helping those in need.
Quote:
“جب آپ غلط ہوں تو قبول کریں اور جب آپ صحیح ہوں تو خاموش رہیں۔”
Lesson: This quote teaches humility in mistakes and grace in correctness.
Quote:
“وہم میں مبتلا لوگوں کا کوئی علاج نہیں۔”
Lesson: This quote reminds us to stay grounded in reality and avoid the trap of baseless assumptions.
Quote:
“دو چیزیں انسان کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہیں: جہاں بولنا ہو وہاں خاموش رہنا اور جہاں خاموش رہنا ہو وہاں بولنا۔”
Lesson: This quote teaches the importance of timing and wisdom in communication.
Quote:
“دھوکے بازوں کو لگتا ہے کہ ہر کوئی دھوکے باز ہے اور جھوٹوں کو لگتا ہے کہ ہر کوئی جھوٹا ہے۔”
Lesson: This quote reflects the projection of one’s character onto others and the need for self-awareness.
Quote:
“جب رزق حلال نہ ہو تو زندگی میں سکون نہیں ہوتا۔”
Lesson: This quote emphasizes the importance of earning through honest and ethical means for a peaceful life.
Quotes In Urdu
1 note
·
View note
Text
اسموگ۔ موسمیاتی مسئلہ یا انتظامی نا اہلی؟
اہل پاکستان کیلئے موسم کی تبدیلی، ’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ کی طرح ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔ ماضی قریب میں درختوں کے پتے گرنے سے موسم کی تبدیلی کا اشارہ ملتا تھا، پرندوں کی ہجرت موسم کے بدلنے کا پتہ دیتی تھی، ہوائیں اچانک سرد ہو جاتی تھی، شام کے سائے لمبے ہو جاتے تھے لیکن اب موسم سرما کی آمد سے قبل فضا خشک ہو جاتی ہے، اسموگ ڈیرے ڈال دیتی ہے، صبح اور شام کے اوقات میں یہ صورتحال مزید تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ آسمان دھند کی چادر تان لیتا ہے اسکی وجہ سے حد نگاہ متاثر ہوتی ہے اور ساتھ ہی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر اسموگ برقرار رہے تو مختلف امراض کے بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے وہ ہر قسم کی بیماریوں کا جلد شکار ہونے لگتے ہیں۔ موسمیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ جب ہوائیں نہیں چلتیں اور درجہ حرارت میں کمی یا کوئی موسمی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو ماحول میں موجود آلودگی فضا میں جانے کے بجائے زمین کے قریب رہ کر ایک تہہ بنا دیتی ہے جسکی وجہ سے غیر معمولی آلودگی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ صفائی کے ناقص انتظامات، کچرے کے ڈھیر کو آگ لگانا، دیہی علاقوں میں اینٹیں بنانے والے بھٹے، صنعتی علاقوں میں فیکٹریاں اور ملوں کی چمنیاں ماحول کو آلودہ اور خطرناک بناتی ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں کے کسانوں کے معاملات یکساں ہیں بھارتی کسانوں کی طرح پاکستانی کسان بھی مڈھی کو آگ لگاتے ہیں، یوں دہلی اور لاہور آلودگی میں ایک د��سرے کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسموگ نامی بیماری صرف برصغیر کا ہی مقدر ہے یا دنیا اس سے پہلے اس مسئلے سے نپٹ چکی ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق 26 جولائی 1943ء کو امریکی شہر لاس اینجلس میں اپنے وقت کی سب سے بڑی اسموگ پیدا ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران شدید اسموگ کی وجہ سے لاس اینجلس کے شہریوں کو وہم ہوا کہ جاپان نے کیمیائی حملہ کر دیا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے جنگ کے باوجود اپنے شہریوں کو اسموگ سے بچانے کیلئے موثر اقدامات کیے۔ دسمبر 1952 ء میں لندن میں فضائی آلودگی کی لہر نے حملہ کیا لندن میں آلودہ دھند کی وجہ سے 12 ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 1980ء کی دہائی میں چین میں کوئلے سے چلنے والے گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہوا تو وہاں بھی اسموگ اور فضائی آلودگی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ 2014ء میں بیجنگ کو انسانوں کے رہنے کیلئے ناقابل قبول شہر قرار دیا گیا لیکن چین نے اس مسئلے کو ختم کرنے کیلئے جدید ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم قائم کیا۔
پبلک ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر تبدیل کیا اور گاڑیوں میں ایندھن کے معیار میں بھی بہتری لائی گئی۔ برطانیہ امریکہ اور چین نے کوئلے سے چلنے والے نئے منصوبوں پر پابندی لگائی، رہائشی عمارتوں میں کوئلے سے چلنے والے ہیٹنگ سسٹم کو بتدریج بند کیا، بڑی گاڑیوں اور ٹرکوں کے انجن میں ایندھن کے معیار کو بہتر کیا، آلودگی پھیلانے والی پرانی کاروں کے استعمال پر پابندی عائد کی۔ جس سے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ بیجنگ کا فضائی آلودگی سے لڑنے کیلئے مقرر کردہ بجٹ 2013 ء میں 430 ملین ڈالر تھا جو 2017ء میں 2.6 ارب ڈالر کر دیا گیا۔ جہاں تک پاکستان میں اسموگ پیدا کرنیوالے اسباب کا تعلق ہے تو ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان خصوصا لاہور میں 83.15 فیصد آلودگی ٹرانسپورٹ سے، 9.7 فیصد ناقص صنعتوں سے، 3.6 فیصد کوڑا جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں خصوصاً لاہور کراچی ملتان فیصل آباد اور یہاں تک اسلام آباد میں بھی فضائی آلودگی کے باعث آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں دشواری، کھانسی، ناک کان گلا اور پھر پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔
الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس مسئلے سے نپٹنے کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام نہیں ہو رہا اور نہ ہی ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ حکومت کا سارا زور اسکول بند کرنے اور لاک ڈاؤن لگانے پر ہے۔ دوسرا حملہ دکانداروں اور معیشت پر کیا جاتا ہے جبکہ تیسری بڑی وجہ کسانوں کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ آلودگی میں سب سے زیادہ حصہ ناقص ٹرانسپورٹ کا ہے شاید ٹرانسپورٹ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ حکومت اسکے سامنے بے بس ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اسموگ کا موسم آنے سے پہلے ہی مناسب حفاظتی انتظامات کر لئے جاتے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں سڑک پر نہ آتیں، بھارتی حکومت سے بات کی جاتی اپنے عوام میں شعور پیدا کیا جاتا اور قانون اور ضابطے کے مطابق ہر قسم کی کارروائی عمل میں لائی جاتی۔ حکومتی غفلت اور عوام میں شعور کی عدم آگاہی کے باعث ہمارے شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہے، وہاں رہنے والے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر وقت سے پہلے ہی موت کی گھاٹی میں اتر رہے ہیں۔ جس طرح امن و امان، صحت، تعلیم جیسی دیگر سہولیات کیلئے عوام خود ہی اپنے طور پر انتظامات کر رہے ہیں اسی طرح اسموگ سے نپٹنے کیلئے بھی عوام کو خود احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہو گی۔
اسموگ سے بچاؤ کیلئے ماسک اور چشمے کا استعمال کریں۔ تمباکو نوشی کم کر دیں، گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں، بازاروں گلیوں اور سڑکوں میں کچرا پھینکنے اور اسے آگ لگانے سے اجتناب کریں، جنریٹر اور زیادہ دھواں خارج کرنیوالی گاڑیاں درست کروائیں۔ حکومت کو چاہئے کہ آلودگی سے مقابلہ کرنے کیلئے عالمی معیار کے مطابق انتظامات کرے۔ ایندھن کا معیار بہتر کرے۔ گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ کیلئے حقیقی چیکنگ کی جائے تاکہ ہمارے شہر رہنے کے قابل بن سکیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
🔰 تذکرے اور صحبتیں مقربان خدا کا تذکرۂ دلپذیر دل کے بند دروازوں پر دستک دینے والی کتاب
🛒 کتاب گھر بیٹھے حاصل کریں، صرف ایک کلک کی دوری پر! https://www.minhaj.biz/item/tazkare-awr-suhbatain-bh-0012
یہ سنت الٰہیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور مقرب بندوں اور ان کے احوال و مقامات کا ذکر فرماتا ہے۔ جن کے دل و جان میں اللہ کی یاد اور ذکر ہمہ وقت سرایت کر جائے انہیں حضور حق میں دائمی ہم نشینی نصیب ہو جاتی ہے۔ اس لئے قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ تم بھی ان کے ہم نشین اور ہم مجلس وہم صحبت رہا کرو تاکہ دوست کے دوست سے تمہیں بھی بوئے دوست نصیب ہو اور ان کے واسطہ سے تمہیں بھی دوست کی ہم نشینی میسر آئے۔ مگر افسوس! ہم آج ان حقیقتوں کو بھول گئے ہیں، ہم اس مولا کی طلب و محبت سے غافل ہوگئے ہیں جس نے ہمیں عدم سے ہست کیا اور بے بہا نعمتوں سے نوازا، بالآخر ہمیں جانا بھی اسی کے پاس ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ہمارے دل عشق و محبت الٰہی سے تو کیا شناسا ہوتے یادِ الٰہی سے بھی غافل ہوگئے ہیں، بلکہ غفلت کے باعث پتھروں سے بھی سخت تر ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں عاشقوں اور خستہ دلوں کے احوال سنے اور پڑھے جائیں تاکہ ان کی خستگی، شکستگی اور سوختگی کے حالات سن کر ہمارے دلوں کی سختی ٹوٹے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ کا تذکرہ مبارک 📗 تذکرۂ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم 🔹 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ 🔹 سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہم 🔹 سیدنا امام ابو محمد جعفر صادق رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت حبیب عجمی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت ابراہیم ادھم رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت داؤد طائی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت بشر حافی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت ابو علی شقیق بلخی رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت ذوالنّون مصری رضی اللہ عنہ 🔹 حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ
مصنف: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 160 قیمت : 330 روپے
💬 وٹس ایپ لنک / نمبر 👇 https://wa.me/923224384066
#TazkaryawrSuhbatain#Awliya#Aulia#MinhajBooks#BooksbyDrQadri#IslamicBooks#TahirulQadri#DrQadri#MinhajulQuran#IslamicLibrary#books#UrduBooks#pdfb
0 notes
Text
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا
اُسے اپنے فردا کی فِکر تھی، وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اُس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خُود فنا کے سفر پہ تھا، اُسے روکنا بھی محال تھا
کہاں جاؤ گے مُجھے چھوڑ کر، میں یہ پُوچھ پُوچھ کے تھک گیا
وہ جواب مُجھ کو نہ دے سکا، وہ تو خُود سراپا سوال تھا
وہ جو اُس کے سامنے آ گیا، وہی روشنی میں نہا گیا
عجب اُس کی ہیبتِ حُسن تھی، عجب اُس کا رنگِ جمال تھا
دم واپسِیں اُسے کیا ہوا، نہ وہ روشنی، نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بِکھر گیا، وہ تو آپ اپنی مِثال آپ تھا
وہ مِلا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پہ کوئی گِلہ نہ تھا
اُسے میری چُپ نے رُلا دیا، جِسے گُفتگُو میں کمال تھا
میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا مجھے فخریؔ اتنا وہ کہہ سکا
جِسے جانتا تھا میں زندگی، وہ تو صِرف وہم و خیال تھا
11 notes
·
View notes
Text
طفلان کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں سودا بھی ایک وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں گا یعنی میں لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں بس اک غبار وہم ہے اک کوچہ گرد کا دیوار بود کچھ نہیں اور در بھی کچھ نہیں یہ شہر دار و محتسب و مولوی ہی کیا پیر مغان و رند و قلندر بھی کچھ نہیں شیخ حرام لقمہ کی پروا ہے کیوں تمہیں مسجد بھی اس کی کچھ نہیں منبر بھی کچھ نہیں مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں شاید وہ جبر ہے کہ مقدر بھی کچھ نہیں جانی میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں فدا یہ اور بات ہے ترا پیکر بھی کچھ نہیں یہ شب کا رقص و رنگ تو کیا سن مری کہن صبح شتاب کوش کو دفتر بھی کچھ نہیں بس اک غبار طور گماں کا ہے تہ بہ تہ یعنی نظر بھی کچھ نہیں منظر بھی کچھ نہیں ہے اب تو ایک جال سکون ہمیشگی پرواز کا تو ذکر ہی کیا پر بھی کچھ نہیں کتنا ڈراؤنا ہے یہ شہر نبود و بود ایسا ڈراؤنا کہ یہاں ڈر بھی کچھ نہیں پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص یعنی وفائے عہد کا بستر بھی کچھ نہیں نسبت ��یں ان کی جو ہے اذیت وہ ہے مگر شہ رگ بھی کوئی شے نہیں اور سر بھی کچھ نہیں یاراں تمہیں جو مجھ سے گلہ ہے تو کس لئے مجھ کو تو اعتراض خدا پر بھی کچھ نہیں گزرے گی جونؔ شہر میں رشتوں کے کس طرح دل میں بھی کچھ نہیں ہے زباں پر بھی کچھ نہیں
1 note
·
View note
Photo
’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘کی پہلی اذان میں کہا جائے یا دوسری میں ؟ سوال ۱۹۶: ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کے الفاظ پہلی اذان میں کہے جائیں یا دوسری میں؟ جواب :’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کے الفاظ پہلی اذان میں کہے جائیں جیسا کہ حدیث میں واردہوا ہے: ((فَاِذَا اَذَّنْت أذان الصبحَ الْأَوَّلِ فَقُلْ: ’’ اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘)) (مسند احمد: ۳/۴۰۸۔) ’’جب تم صبح کی پہلی اذان دو تو یہ کہو:’’الصلاۃ خیر مِّن النوم‘‘ اس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ الفاظ پہلی اذان میں ہیں، دوسری میں نہیں، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ اس حدیث میں اذان اول سے مراد کیا ہے؟ اس سے مراد وہ اذان ہے جو وقت شروع ہونے کے بعد ہوتی ہے۔ اور دوسری اذان سے مراد اقامت ہے، کیوں کہ اذان کو بھی اقامت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((بَیْنَ کُلِّ اَذَانَیْنِ صَلَاۃٌ)) (صحیح البخاری، الاذان، باب بین کل اذانین صلاۃ لمن شاء، ح: ۶۲۷ وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب بین کل اذانین صلاۃ، ح:۸۳۸۔) ’’ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔‘‘ اس حدیث میں دو اذانوں سے مراد اذان اور قامت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ: ’’امیرالمومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا اضافہ کیا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اذان اول جس میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کہنے کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد نماز فجر کے لیے دی جانے والی اذان ہے۔ وہ اذان جو طلوع فجر سے قبل ہوتی ہے، وہ فجر کے لیے نہیں ہوتی، لوگ رات کے آخری حصے کی اس اذان کو فجر کی پہلی اذان کے نام سے موسوم کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اذان نماز فجر کے لیے نہیں ہوتی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِنَّ بِلَا لَا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ لیوقظ نائمکم ویرجع قائمکمْ )) (صحیح البخاری، الاذان، باب الاذان قبل الفجر، ح: ۶۲۱، ۶۲۲ وصحیح مسلم، الصیام، باب بیان ان الدخول فی الصوم یحصل… ح: ۱۰۹۲، ۱۰۹۳۔) ’’بے شک بلال رات کو اذان کہتے ہیں‘‘ تاکہ سونے والوں کو بیدارکریں اور قیام کرنے والے (نمازختم کرکے)لوٹ جائیں اور سحری کرلیں)) ۔‘‘ یعنی وہ تو اس لیے اذان کہتے ہیں تاکہ سویا ہوا اٹھ کھڑا ہو اور وہ سحری کھا لے اور قیام کرنے والا بھی لوٹ آئے اور سحری کھا لے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے بھی فرمایا تھا: ((فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ فَلْیُؤَذِّنْ لَکُمْ أَحَدُکُمْ)) (صحیح البخاری، الاذان، باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ… ، ح: ۶۳۱ وصحیح مسلم، المساجد، باب من احق بالامامۃ، ح: ۶۷۴۔) ’’جب نماز کا وقت ہو جائے، تو تم میں سے ایک شخص تمہاری خاطر اذان دے۔‘‘ اور معلوم ہے کہ نماز کا وقت طلوع فجر کے بعد ہوتا ہے، لہٰذا طلوع فجر سے پہلے کی اذان، فجر کی اذان نہیں ہے، آج کل کے لوگوں کا یہ عمل اور فعل صحیح ہے اور ان کا یہ کہنا کہ ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کے الفاظ اذان فجر کے لیے ہیں بجا ہے۔ جس شخص نے یہ وہم کیا ہے کہ حدیث میں اذان اول سے مراد وہ اذان ہے جو طلوع فجر سے پہلے ہوتی ہے، صحیح نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس بات کی دلیل کہ اس سے مراد وہ اذان ہے جو رات کے آخری حصے میں ہوتی ہے، یہ ہے کہ اس وقت ادا کی جانے والی نفل نماز کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ اور خیر کا لفظ افضل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ہم عرض کریں گے کہ خیر کا لفظ اس واجب کے لیے استعمال ہوتا ہے جو واجبات میں سے بے حد اہمیت کا حامل ہو، مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ، ﴾ (الصف: ۱۰۔۱۱) ’’مومنو! میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دلادے؟ (وہ یہ کہ) تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘ حالانکہ سب سے بہتر تو ایمان ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نماز جمعہ کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ﴾ (الجمعۃ: ۹) ’’مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کی یاد (نماز) کے لیے جلدی کرو اور (خریدو) فروخت ترک کر دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘ لہٰذا خیر واجب میں بھی ہو سکتی ہے اور مستحب میں بھی۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۲۴۷، ۲۴۸ ) #FAI00149 ID: FAI00149 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
کُچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا
کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا
اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا
اب خود سے اگر شرماؤ تو کیا
تم آس بندھانے والے تھے
اب تُم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا
دنیا بھی وہی اور تُم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا
میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا
جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بُجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا
اب وہم ہے یہ دنیا اس میں
کچھ کھوؤ تو کیا اور پاؤ تو کیا
ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا
- عبید اللہ علیمؔ
9 notes
·
View notes