#وہاب
Explore tagged Tumblr posts
Text
الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر میئر کراچی سے وضاحت طلب کر لی
الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سے وضاحت طلب کرلی۔ میئر کراچی کو آج کی پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرنے پر مراسلہ جاری کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق میئر کراچی ضابطہ اخلاق کی شق نمبر 18 اور 41 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے،ضابطہ اخلاق کے مطابق میئر، چیئرمین اور ناظم کسی سیاسی جماعت کو سپورٹ نہیں کرسکتے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے مرتضیٰ وہاب کو بھجوائے گئے…
View On WordPress
0 notes
Text
0 notes
Text
, وہاب علی کی ہلاکت کن حالات میں ہوئیمیں مسافر ہوں اور راستہ کُھلنے کا انتظار کر رہا ہوں
قطر سے لوٹنے والے وہاب علی کی ہلاکت پر کرم میں احتجاج جاری: ’میں مسافر ہوں اور راستہ کُھلنے کا انتظار کر رہا ہوں‘ مضمون کی تفصیل مصنف, محمد زبیر خان عہدہ, صحافی 42 منٹ قبل ’میرے بھائی معصوم اور بے ضرر انسان تھے۔ اُن کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ وہ ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔ قطر میں جس کمپنی میں وہ کام کرتے تھے وہاں ضلع کرم کے بہت سے لوگ کام کرتے تھے۔ میرے بھائی تو بس اپنے علاقے میں جا کر رشتہ…
View On WordPress
0 notes
Text
متوازی ہاکی ایسوسی ایشن بنانیوالوں پر10 سال کی پابندی
کراچی ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) سندھ اولمپک ایسوسی ایشن نے صوبے میں متوازی ہاکی ایسوسی ایشن بنانے والوں اور متوازی سرگرمیوں میں حصہ لینے والوں پر دس سال کی پابندی لگادی۔ایس او اے نے ایک خط کے ذریعے حکومت سندھ کے محکمہ کھیل کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا، ایس او اے نے خط لکھنے کا فیصلہ سندھ ہاکی ایسوسی ایشن کے صدر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے بعد کیا۔سندھ ہاکی ایسوسی ایشن کے…
0 notes
Text
پیپلزپارٹی حکومت کی اہم اتحادی جماعت ہے،وزیراعظم
وزیراعظم شہبازشریف کاکہناہےکہ پیپلزپارٹی حکومت کی اہم اتحادی جماعت ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریفسےپاکستان پیپلز پارٹی کےوفد کی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ملاقات کی۔ وفد میں سید نوید قمراورمئیر کراچی مرتضی وہاب شامل تھ۔ملاقات میں نائب وزیرِ اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیرِ قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، وزیرِ اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ اور اٹارنی جنرل بھی شریک تھے۔ وزیراعظم شہبازشریف…
0 notes
Text
تجزیہ کاروں نے بلدیاتی انتخابات کی طرح 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں بھی جماعت اسلامی کو عوامی سطح پر کراچی کی سب سے مقبول جماعت قرار دیا ہے۔الیکشن 2024 کے حوالے سے جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں پاکستان کے نامور صحافی، تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز حامد میر، شاہزیب خانزادہ، شہزاد اقبال، سہیل ورائچ اور ارشاد بھٹی نے جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمان کی حالیہ کارکردگی اور سیاسی سرگرمیوں کو سراہا ہے۔خصوصی الیکشن ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ پلس کنسلٹنٹ کے حالیہ سروے میں جماعت اسلامی بہت سے حلقوں میں اوپر جا رہی ہے جس کی ایک وجہ حالیہ بارش اور سوشل میڈیا پر ان کے حق میں چلنے والی مہم ہے۔جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ کے میزبا�� شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کے بعد ہونے والے ��روے کے مطابق کراچی کی عوام کی اولین ترجیح جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمان کو منتخب کرنا تھا نہ کہ پی ٹی ائی یا کسی اور سیاسی جماعت کو جبکہ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی ائی نے کراچی سے بہت سیٹیں نکالی تھیں۔سینئر تجزیہ کار اور کالم نگار مظہر عباس نے کہا کہ کراچی میں ہونے والی حالیہ بارش کا فائدہ جماعت اسلامی کو ہوگا اور جماعت اسلامی نے دو تین سال پہلے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے کراچی پر مرکوز کی ہے۔مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ اس وجہ سے جماعت اسلامی کی سیاست پر بہت سے سوالات بھی اٹھے تھے، جماعت اسلامی سے اور بھی بہت سے نامور لوگ الیکشن لڑ رہے ہیں لیکن جماعت اسلامی کی پوری سیاست اس وقت حافظ نعیم الرحمان کے گرد گھوم رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حافظ نعیم الرحمان کراچی سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں، ایک نارتھ ناظم آباد جو ان کا اپنا حلقہ ہے جبکہ دوسرا اونگی ٹاؤن کا حلقہ ہے اور حافظ نعیم الرحمان کے مطابق ان کی جماعت نے بہاریوں کے ایشوز کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ اورنگی ٹاؤن سے زیادہ ووٹ حاصل کریں۔تجزیہ کار ارشاد بھٹی کا کہنا تھا دھونس اور دھاندلی سے حافظ نعیم الرحمان کو میئر کراچی بننے سے روکا گیا اور مرتضیٰ وہاب کو اقلیت میں ہونے کے باوجود میئر منتخب کروا دیا گیا، الیکشن کمیشن اسلام اباد کے الیکشن نہ کروا سکا اور نہ ہی سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کو روک سکا۔سینئر تجزیہ کار سہیل ورائچ کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے اپنے تجربات سے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے، پہلے جماعت اسلامی کی مہم میں نہ تو امیر کا نام ہوتا تھا نہ ہی اس کی تصویر ہوتی تھی، انہوں نے تبدیلی یہ کی ہے کہ بجائے مرکزی لیڈر شپ کے مقامی رہنماؤں اور امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم میں اجاگر کیا، اسی لیے آپ کو گوادر میں ہدایت الرحمان یا پھر کراچی میں حافظ نعیم الرحمان کے نام اور تصویریں نظر ائیں گی، ان کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی یہی ہے کہ جو ’سن آف سوائل‘ ہے اسے سامنے لایا جائے۔سہیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ جہاں بھی جماعت اسلامی کا کوئی امیدوار کھڑا ہوگا اس کی عوام میں ساکھ بہت اچھی ہوگی کیونکہ لوگ اسے مقامی طور پر جانتے ہوں گے۔
جماعت اسلامی کراچی کی سب سے مقبول جماعت بن کر سامنے آئی ہے: تجزیہ کار
View On WordPress
0 notes
Text
قصہ سرکلر ریلوے کی بحالی کا
سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بیڑا اٹھا لیا۔ جسٹس مقبول باقر بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کے لیے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے وفد میں شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کے سی آر کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بنیادی مقصد تجارت و صنعت کو فروغ دینا ہے اور کے سی آر صرف ٹریکس اور اسٹیشنوں کا قیام ہی نہیں بلکہ معاشی فوائد کو کراچی سے پاکستان کے اہم شہروں تک پہنچانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر سرکلر ریلوے بحال ہو گئی تو روزانہ لاکھ سے زیادہ مسافر ان ریل گاڑیوں میں سفر کریں گے۔ نگران وزیر اعلیٰ نے فورم کے شرکاء کو بتایا کہ اس منصوبہ پر 2 بلین ڈالر کی لاگت آئے گی اور سرکلر ریلوے کی لائن 43 کلومیٹر طویل ہو گی۔ کے سی آر شہر کے خاصے علاقوں سے گزرے گی۔ پھر یہ بھی کہا کہ سندھ کی نگراں حکومت اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔ جب میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں سی پیک منصوبہ پر دستخط کرنے کی تقریب بیجنگ میں منعقد ہوئی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی وزیر اعظم کے وفد میں شامل تھے۔ انھوں نے واپسی پر کراچی آکر اعلان کیا کہ چین کے سی آر کی بحالی کے لیے تیار ہے۔
میاں نواز شریف کے اس وفد میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی شامل تھے، انھوں نے لاہور پہنچنے پر اعلان کیا کہ سی پیک کے منصوبہ میں لاہور کی اورنج ٹرین کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے، یوں لاہور میں اورنج ٹرین کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ منصوبہ تکمیل کے قریب تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت وفاق اور پنجاب میں قائم ہوئی تو منصوبہ کئی مہینوں کے لیے التواء کا شکار ہوا، مگر یہ منصوبہ مکمل ہوا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ پھر تحریک انصاف کے وزیر اعظم کے ساتھ بیجنگ گئے اور واپسی پر یہ بری خبر سنائی کہ چین کو اس منصوبے میں دلچسپی نہیں رہی۔ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی بد امنی کیس میں سماعت کے دوران ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات کے خاتمہ کا حکم دیا۔ ان کی توجہ کے سی آر کے التواء کے منصوبہ پڑ گئی۔ انھوں نے اس منصوبے کی عدم تکمیل پر سندھ حکومت کی کارکردگی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس وقت کے بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کو طلب کیا گیا اور یہ احکامات جاری کیے گئے کہ سرکلر ریلوے پر قائم تجاوزات کو ہنگامی طور پر ہٹایا جائے، یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ سرکاری مشینری نے فوری طور پر آپریشن شروع کیا۔ سرکلر ریلوے کی لائن پر سیکڑوں بستیاں، اسپتال اور سرکاری دفاتر حتیٰ کہ تھانے قائم تھے۔
حکومتی عملے نے سپریم کورٹ کے طے شدہ وقت کے مطابق کام مکمل کیا۔ اس وقت کے ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ پاکستان ریلوے زبوں حالی کا شکار ہے اس بناء پر حکومت سندھ کو کے سی آر کی بحالی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں وفاق میں مختلف جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے احسن اقبال کو پلاننگ کی وزارت کی سربراہی سونپی گئی۔ احسن اقبال کی قیادت میں اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے دوسری فزیبلٹی تیار کی گئی جس پر 2.027 ملین ڈالرکا تخمینہ لگایا گیا۔ اس فزیبلٹی کے مطابق یہ منصوبہ 38 مہینوں میں مکمل ہونا تھا۔ احسن اقبال کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ چین کی حکومت پھر اس منصوبہ میں دلچسپی لے رہی ہے اس بناء پر نئی فزیبلٹی تیار کرنا ضروری ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سرکلر ریلوے 43.13 کلومیٹر طویل ہو گی، جس میں سے 17.74 کلومیٹر ریلوے لائن زمین پر تعمیر ہو گی اور 25.51 کلومیٹر ایلی ویٹر پر تعمیر ہو گی۔
اس فزیبلٹی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پہلے کے سی آر کی ملکیت وفاقی حکومت ہو گی اور پھر یہ بتدریج حکومت سندھ کو منتقل ہو جائے گی مگر یہ معاملہ محض فزیبلٹی تک محدود ہو گیا۔ یہ خبریں بھی ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں کہ چین کی حکومت پشاور سے کراچی کے لیے تعمیر ہونے والی نئی ریلوے لائن ایم۔ ون پر فوری طور پر سرمایہ کاری نہیں کرے گی۔ اب نگراں وزیر اعظم بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کے لیے چین کے دار الحکومت بیجنگ گئے تو پھر دونوں منصوبوں کی تجدید ہوئی۔ سرکلر ریلوے جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں تعمیرکی گئی، اس وقت شہر میں کئی نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ S.I.T.S میں بہت سے کارخانے قائم ہوئے یوں سرکلر ریلوے ایک نیم دائرہ کی شکل میں چلنے لگی۔ یہ سرکلر ریلوے پپری سے کراچی آنے کے لیے کم وقت میں سب سے زیادہ مناسب سواری تھی۔ اسی طرح وزیر منشن کیماڑی سے سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد، یونیورسٹی روڈ سے سی او ڈی تک کے علاوہ سے ہوتی ہوئی مرکزی ریلوے سے منسلک ہوجاتی تھی۔ پھر مضافات کے علاقوں سے روزانہ علیٰ الصبح ہزاروں مسافر آدھے گھنٹہ میں (لانڈھی اور ملیر سٹی سے ) سٹی اسٹیشن پہنچ جاتے تھے۔
اس وقت تمام مالیاتی ادارے سرکاری ادارے، اسکول اور دیگر کاروبا��ی اداروں کے دفاتر میکلوروڈ، آئی آئی چندریگر روڈ اور اطراف کے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ مسافر سرکلر ریلوے کے ذریعے اپنے گھروں تک آرام دہ سفر کے ذریعے واپس پہنچ جاتے تھے۔ اس زمانے میں اندرون شہر میں ٹرام وے چلتی تھی۔ سٹی اسٹیشن سے کینٹ اسٹیشن، سولجر بازار اور چاکیواڑہ تک ٹرام سفر کے لیے بہترین سواری تھی مگر پیپلز پارٹی کی حکومت میں ٹرانسپورٹ مافیا ارتقاء پذیر ہوئی۔ بیوروکریسی نے ساری دنیا کی طرح الیکٹرک ٹرام میں تبدیلی کرنے کے بجائے اس بناء پر بند کرنے کا فیصلہ کیا کہ ٹرام کی پٹری ٹریفک میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ٹرام کی جگہ چھوٹی منی بسوں نے لے لی جن میں مسافر مرغا بن کر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سرکلر ریلوے 1984 میں بند ہو گئی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سندھ کے گورنر عشرت العباد نے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کو کراچی بلا کر سرکلر ریلوے کے افتتاح کی تقریب منعقد کی۔
یہ سرکلر ریلوے چنیسر ہالٹ تک جاتی تھی مگر کچھ عرصے بعد یہ بھی بند ہو گئی، بعد ازاں شیخ رشید کے پاس ریلوے کا محکمہ آگیا۔ انھوں نے ریلوے کے ملازمین کو صبح پپری مارشلنگ یارڈ لے جانے والی ریل گاڑی کو سرکلر ریلوے کا نام دیا مگر یہ تجربہ ناکام ہوا۔ ناقص پبلک ٹرانسپورٹ کی بناء پر 80ء کی دہائی میں کراچی خون ریز ہنگاموں کا شکار ہوا مگر کسی حکومت نے کراچی میں جدید ماس ٹرانزٹ منصوبہ پر کام نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ سال کراچی والوں پر ایک احسان کیا۔ پیپلز بس سروس کے نام پر 250 بسیں چلنے لگیں۔ اس سروس سے مسافروں کو خاصا فائدہ ہوا مگر نگران صوبائی وزیر منصوبہ بندی کے وزیر یونس دھاگہ کا تجزیہ ہے کہ شہر میں کم از کم 5 ہزار بسیں چلنی چاہئیں۔ اب نگران وزیر اعلیٰ نے سرکلر ریلوے کو متحرک کرنے کا عزم کیا ہے مگر کوئی شہری اس خبر پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کراچی کے شہریوں کو ممبئی، کلکتہ، دہلی اور ڈھاکا کی طرز پر انڈر گراؤنڈ ٹرین، الیکٹرک ٹرام اور جدید سفر کی سہولتیں سے اس صدی میں مستفید ہونے کا موقع ملے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب لاہور فون نمبر:99201390
ہینڈ آؤٹ نمبر1514
وزیراعلیٰ محسن نقوی کی صوبائی وزراء کے ہمراہ کرسمس کی مناسبت سے کتھیڈرل چرچ میں دعائیہ تقریب میں شرکت،کیک کاٹا،بشپ ندیم کامران نے وزیر اعلی کو پھول پیش کئے
مسیحی برادری کو کرسمس کی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف آپ کے ہی نہیں ہمارے بھی ہیں:محسن نقوی
ہم بھی اسی خدا کی عبادت کرتے ہیں جس خدا کی آپ عبادت کرتے ہیں، نبی پاکؐ سے لیکر قائداعظمؒ تک، ہمیں مسیحی بھائیوں کے حقوق اچھی طرح بتائے گئے
جب مسیحی بھائیوں کے حقو ق سلب ہوتے ہیں تو شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم نے نبی پاکؐ کے درس کو بھلا دیا ہے،ہمار اپاکستان مسیحی بھائیوں کے بغیر نامکمل ہے
مسیحی بھائیوں کو سکیورٹی فراہم کرنا ہمار افرض ہے،ہمیں صرف کسی سانحہ پر نہیں بلکہ پورا سال اتحاد کے ساتھ رہنا ہے
لاہور24دسمبر:وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے صوبائی وزراء کے ہمراہ کرسمس کی مناسبت سے مسیحی برادری کی خوشیوں میں شرکت کیلئے کتھیڈرل چرچ میں دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔بشپ آف لاہور بشپ ندیم کامران نے وزیر اعلی محسن نقوی کو پھول پیش کئے۔ وزیراعلیٰ محسن نقوی نے مسیحی برداری کے ساتھ ملکر کرسمس کا کیک کاٹا۔وزیراعلیٰ محسن نقوی کو بشپ آف لاہوربشپ ندیم کامران نے انجیل اورحضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ سے لکھی زبور کا نمونہ پیش کیا۔وزیراعلیٰ محسن نقوی نے مسیحی برداری کو کرسمس کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ مسیحی برادری کو کرسمس کی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں - آج کا رات اورکل کا دن ہم سب کے لئے انتہائی اہم ہے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف آپ کے ہی نہیں ہمارے بھی ہیں۔حضرت عیسی علیہ السلام کے یوم ولادت پر اتنی ہی خوشی ہمیں ہے جتنی آپ کو۔ہم سب میں جو مشترکہ بات ہے کہ وہ ہم ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ہم بھی اسی خدا کی عبادت کرتے ہیں جس خدا کی آپ عبادت کرتے ہیں۔ نبی پاکؐ سے لیکر قائداعظمؒ تک،اسلام کی شروعات سے لیکر پاکستان بننے تک ہمیں مسیحی بھائیوں کے حقوق اچھی طرح بتائے گئے۔انہوں نے کہا کہجب مسیحی بھائیوں کے حقو ق سلب ہوتے ہیں تو شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم نے نبی پاکؐ کے درس کو بھلا دیا ہے۔ہمار اپاکستان مسیحی بھائیوں کے بغیر نامکمل ہے۔پاکستانی جھنڈے میں سبز رنگ مسلمانوں کے جبکہ سفید رنگ اقلیتوں برادریوں کیلئے ہے۔انہوں نے کہا کہ جڑانوالہ واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔جڑانوالہ واقعہ کے نتیجہ میں متاثرہ گرجا گھروں اورگھروں کو بحال کیا ہے،متاثرین کی دادرسی کی ہے اور ہمارے جذبات متاثرین کے ساتھ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر ممکن کوشش ہے کہ جڑانوالہ واقعہ یا ایسے کسی بھی واقعہ کے مرتکب افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔بشپ ندیم کامران اورمولانا عبدالخبیرآزاد ملک کے اتحاد کیلئے بہت کام کررہے ہیں۔بشپ ندیم کامران اورمولانا عبدالخبیر آزاد جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ مسیحی بھائیوں کو سکیورٹی فراہم کرنا ہمار افرض ہے۔ پورے پنجاب میں انتظامیہ اور پولیس فول پروف سکیورٹی دینے کیلئے سرگرم ہے۔ ضلعی سطح پر کرسمس کی تقاریب منعقد کی جارہی ہیں۔ہمیں صرف کسی سانحہ پر نہیں بلکہ پورا سال اتحاد کے ساتھ رہنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کا تحفظ کرنا ہمارا دینی اورآئینی فرض ہے۔صوبائی وزیر اوقاف اظفر علی ناصر،انسپکٹرجنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، خطیب بادشاہی مسجد مولانا عبدالخبیر آزاد نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔تقریب میں صوبائی وزراء منصور قادر،عامر میر،اظفر علی ناصر،بلال افضل،مشیر وہاب ریاض،انسپکٹر جنرل پولیس، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، کمشنر لاہورڈویژن،سی سی پی او،سیکرٹری انسانی حقوق و اقلیتی امور، سیکرٹری اوقاف،سیکرٹری اطلاعات،ڈپٹی کمشنر اورمسیحی برادری کی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔
٭٭٭٭
0 notes
Text
پاکستانی کرکٹ، اشرافیہ کی تجربہ گاہ
زوال ایک ایسا سماجی عمل ہے جو کسی ایک شعبے پر نازل نہیں ہوتا بلکہ معاشرتی زندگی کو بحیثیت مجموعی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور پھر انحطاط کا ایک ایسا ہمہ گیر عمل شروع ہوتا ہے جس سے کوئی طبقہ محفوظ نہیں رہتا۔ یہی عذاب آج ہمارے معاشرے پر نازل ہے، آج ہماری عدلیہ انحطاط کا شکارہے، تعلیم کا شعبہ بدترین زوال میں جکڑا ہوا ہے، ہمارے سماجی رویے کسی طور بھی صحت مند معاشرے کے عکاس نہیں، تصنیف و تالیف ہو یا درس و تدریس، صنعت و حرفت یا سائنس اور ٹیکنالوجی ہر شعبے پر زوال کی خزاں نے اپنی چادر پھیلا رکھی ہے، جب سارے شعبے زوال کا شکار ہیں تو کھیل کا شعبہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ آج ہمارے پاس محض ماضی کی داستانیں ہیں اور حال کا دامن کامیابیوں سے خالی ہے۔جس طرح امت مسلمہ صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کو یاد کر کے ماضی میں رہنا پسند کرتی ہے اسی طرح ہم بھی جاوید میانداد اور عمران خان کا زمانہ یاد کر کے محض ماضی کی کامیابیوں سے خوشیاں کشید کرتے ہیں اور حال کی ناکامیوں سے نظریں چراتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے پاس خوشیاں حاصل کرنے کے مواقع پہلے ہی بہت کم ہیں۔
مہنگائی، بیروزگاری دہشت گردی اور دیگر معاشرتی مسائل نے پوری قوم کو افسردہ کر رکھا ہے۔ لے دے کے کرکٹ تھی جس سے ہماری قوم کچھ دیر کیلئے ہی سہی، غم روزگار سے فرار حاصل کرتی تھی۔ لیکن ایڈہاک ازم نے ایک طرف تو کھیلوں کے میدان اجاڑ دیے تو دوسری طرف قوم خوشیاں حاصل کرنے کے مواقع سے بھی محروم ہو گئی۔ میری دانست میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کبھی ادارے تشکیل نہیں پا سکے۔ یہاں پر ایک فرد کا بت بنا کر اسے پوجنے کا رواج ہے۔بڑے اور اہل لوگ تو کبھی کبھار پیدا ہوتے ہیں یہ تو ادارے ہوتے ہیں جو بڑے لوگوں کی صلاحیتوں سے طویل عرصے تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جب ادارے بن جاتے ہیں تو معمولی صلاحیت کے لوگوں میں بھی یہ اہلیت پیدا کر دی جاتی ہے کہ وہ ان اداروں کی وجہ سے غیر معمولی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ جب ادارے طاقتور نہیں ہوتے تو رشوت، سفارش اور کئی چور دروازے کھل جاتے ہیں، میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ کھرے کھوٹے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور پھر تیسری اور چوتھی سطح کے لوگ صف اول میں آ جاتے ہیں اور ہمہ گیر زوال کا سبب بنتے ہیں۔
ہماری کرکٹ کا بھی یہی حال ہے۔ اچھے کرکٹرز ذاتی پسند نا پسند کا شکار ہو چکے ہیں۔ ماضی کے ہیروز کیلئے پی سی بی میں داخلہ بند ہے۔ یہاں پر ڈومیسٹک کرکٹ ختم کر دی گئی، مختلف ڈیپارٹمنٹس کی ٹیمیں بھی ختم کر دی گئیں، اقربا پروری اور سفارش کا ایسا دور چلا کہ ہر طرف ہی بھرتی کے لوگ نظر آنے لگے۔ کھلاڑیوں پر ہی کیا موقوف یہاں تو کرکٹ بورڈ کے سربراہ ایسے ایسے لوگ مقرر کیے گئے جن کا کرکٹ سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ گزشتہ چند سال میں مقرر ہونے والے چیئرمین حضرات کے اسماء پر نظر ڈالیں تو اس زوال کی وجہ ایک لمحے میں سمجھ آتی ہے، شہر یار خان، نجم سیٹھی، ذکااشرف، اعجازبٹ، نسیم اشرف، جنرل توقیر ضیا، مجیب الرحمن، جسٹس نسیم حسن شاہ اور ان جیسے بہت سے لوگ جن کا کرکٹ سے دور تک کا بھی واستہ نہیں وہ کئی کئی سال اس کے کرتا دھرتا بنے رہے، اگر سفارت کار، بینک کار، سرمایہ دار، ڈاکٹرز، جج، جرنیل اور پراپرٹی ڈیلر یا عمر رسیدہ بزرگ کرکٹ کے معاملات چلائیں گے تو پھر اس کا یہی حال ہو گا جو آج ہماری کرکٹ ٹیم کا ہو رہا ہے۔
اگر ہم کرکٹ ٹیم کی حالیہ تنظیم کی بات کریں تو محمد ��فیظ کو ابتدائی طور پر ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا جنہوں نے نہ تو کوچنگ کا کوئی کورس کر رکھا ہے اور نہ ہی اس کا تجربہ ہے اور نہ ہی یہ پی سی بی کی طرف سے جاری کردہ شرائط پر پورا اترتے ہیں۔ جب یہ انکشاف ہوا کہ وہ کوچ نہیں بن سکتے تو ان کیلئے ڈائریکٹر کا ایک الگ عہدہ تخلیق کیا گیا۔ اسی طرح سابق فاسٹ بالر وہاب ریاض کو چیف سلیکٹر بنانے کا اعلان کیا گیا جو اس وقت نگران وزیر کھیل بھی ہیں۔ ان کی جانب سے سلمان بٹ کو اپنا کنسلٹنٹ مقرر کرنے کے اعلان سے پوری کرکٹ میں ایک بھونچال آگیا۔ ایک ایسا شخص جو میچ فکسنگ میں سزا بھگت چکا ہے اسے کنسلٹنٹ مقرر کیوں کیا گیا۔ بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بدترین کارکردگی دکھانے والی ٹیم آسٹریلیا کے ٹور پر ایسے روانہ ہوئی ہے جیسے پکنک پر جا رہی ہو۔ نہ ان میں باہمی ربط ہے اور نہ ہی وہ نظم نظر آرہا ہے جو ماضی میں پاکستان کی ٹیم کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔
دوستیوں اور رشتہ داریوں کی بنیاد پر ٹیم میں کھلاڑیوں کی جگہ بنائی جا رہی ہے اور جو شخص کھلاڑیوں میں جگہ نہیں بنا پا رہا اسے انتظامیہ میں شامل کر کے فیملی سمیت آسٹریلیا بھیجا گیا ہے۔ ہماری انتظامیہ نے کرکٹ ورلڈ کپ کی شکست سے بھی سبق نہیں سیکھا۔ اس بدترین زوال کا مقابلہ ادارہ جاتی تشکیل سے کیا جا سکتا ہے۔ جہاں پر صرف میرٹ کی حکمرانی ہو۔ کرکٹ اب محض کھیل نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کی عزت اور وقار کی علامت ہے اسے چند غیر سنجیدہ اور کھلنڈرے لوگوں کی تجربہ گاہ بنانا پاکستانی وقار کی بے حرمتی ہے۔ اس کی سربراہی ایسے لوگوں کے حوالے کی جائے جو اس کھیل کا علم رکھتے ہوں، تمام تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں۔ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو بحال کیا جائے۔علاقائی ٹیمیں ازسر نو تشکیل دی جائیں۔ کوچ مقرر کرتے وقت بین الاقوامی معیار کو مد نظر رکھا جائے۔ تب جا کر زوال آشنا ٹیم کو عروج کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔ خدارا پاکستانی قوم کی خوشیاں واپس کریں اور اس خوبصورت کھیل کو اپنی ذاتی خواہشات کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
سلمان بٹ چیف سلیکٹر وہاب ریاض کے کنسلٹنٹ مقرر: ’یہ سب مل کر ٹیم کا انتخاب کریں گے، میرے پاس تو الفاظ نہیں‘
http://dlvr.it/SzbZ9T
0 notes
Text
نیوزی لینڈ کے ساتھ 5 ٹی 20 میچوں کی سیریز کے لیے سلیکشن کمیٹی کا اجلاس 13 دسمبر کو ہوگا
قومی ٹیم کے دورہ نیوزی لینڈ کیلئے وہاب ریاض کی سربراہی میں نیشنل مینز سلیکشن کمیٹی کا اجلاس 13 دسمبر کو لاہور میں ہوگا۔ اجلاس میں نیوزی لینڈ میں ہونے والی پانچ میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے حوالے سے سلیکشن کے معاملات پر غور کیا جائے گا۔ سلیکشن کمیٹی کراچی میں جاری نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ 24-2023 کی پرفارمنسز پر غور کرے گی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے کہا کہ پچھلے 25 سال سے…
View On WordPress
0 notes
Text
بابراعظم نمبر ون پلئیر ہیں، ذکا اشرف کا پنڈی اسٹیڈیم کا دورہ - ایکسپریس اردو
ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض سے بھی ملاقات (فوٹو: ایکسپریس ویب) پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف کا کہنا ہے کہ بابراعظم نمبر ون پلئیر ہے بطور کھلاڑی ملک کا نام روشن کررہا ہے۔ دورہ آسٹریلیا کیلئے ٹریننگ سیشن کے دوسرے روز راولپنڈی اسٹیڈیم کا دورہ کیا، اس دوران میجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نے ٹیسٹ کپتان شان مسعود، فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی، ٹیم…
View On WordPress
0 notes
Text
youtube
میئر کراچی بھی سپوتِ کراچی بھی "مرتضی وہاب صدیقی" شہرِ کراچی کے میئر منتخب۔
جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن پیپلز پارٹی پر گرم۔
جماعت اسلامی کا " حق دو کراچی کو" کے نام سے احتجاجی تحریک کا اعلان۔
پیپلز پارٹی کے پاس کراچی میں پائوں جمانے کا آخری موقع۔
تفصیلی تجزیہ و تازہ ترین تبصرہ جانیئے، لنک پر کلک کیجیئے
0 notes
Text
کراچی مئیر الیکشن اور معاشی صورتحال
کراچی میئر کے انتخابات میں تحریک انصاف کے 31 ارکان کے اغواء اور دھاندلی کے ذریعے پیپلز پارٹی کے امید وار مرتضی وہاب کی کامیابی نے وطن عزیز پاکستان کے انتخابی نظام سے متعلق کئی سوالات اٹھا دئیے ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ دھونس و جبر کے ذریعے دھاندلی زدہ الیکشن کو کراچی کے عوام آخر کیسے قبول کر سکتے ہیں۔ کراچی ایک سیاسی شعور رکھنے والا شہر ہے۔ اس کو اپنی حقیقی قیادت سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے؟ یہ کیسا مذاق ہے کہ جماعت اسلامی کی حمایت کرنے والے تحریک انصاف کے اکتیس ارکان کو انتخابی عمل سے دور کر دیا گیا؟ جماعت اسلامی کی طرف سے مئیر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کراچی کے عوام کے حق پر ڈاکہ مارا گیا ہے اور وہ اس الیکشن کو تسلیم نہیں کرتے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ایک سو اکیانوے ارکان کی اکثریت رکھنے والے حافظ نعیم الرحمن کو ہرا دیا گیا ہے اور پیپلز پارٹی ایک سو تہتر ارکان کے ساتھ مرتضی وہاب کو جتوانے میں بالاآخر کامیاب ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریتی مینڈیٹ رکھنے والی جماعت کا مئیر نہیں بننے دیا گیا۔ تحریک انصاف کے اکتیس ارکان کے لاپتہ ہونے کے بعد تو کراچی مئیر کے الیکشن کا سارا عمل ہی مشکوک ہو گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو کراچی میں اکثریتی مینڈیٹ رکھنے والی پارٹی جماعت اسلامی کو مئیر شپ دے دینی چاہئے تھی مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی اگر کراچی میں حقیقی نمائندگی حافظ نعیم الرحمن کو دے دیتی تو شہر قائد کی حالت بدل جاتی اور ترقی کا عمل شروع ہو جاتا۔ حافط نعیم الرحمن نے بھی واضح طور پر پیغام دے دیا ہے کہ وہ کراچی کے عوام کے مینڈیٹ کو چرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اکتیس ارکان کو اغواء کرنے اور کراچی کے مینڈیٹ کو ہتھیانے کے خلاف وہ پرامن احتجاج کریں گے اور قانونی راستہ اختیار کریں گے۔ ا�� پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کا یہ امتحان ہے کہ وہ اس سنگین اور مشکل صورتحال سے کیسے نکلتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کراچی مئیر کے الیکشن میں کھلم کھلا دھاندلی اور جبرو دھونس سے سندھ حکومت کی بدنامی اور جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ اگر حافط نعیم الرحمن کراچی کا مئیر بن جاتا تو کون سی قیامت آجاتی؟۔ پیپلزپارٹی کو اپنے اس غیر جمہوری روئیے پر ضرور غور کرنا چاہئے۔
کراچی کی طرح پورے ملک میں عوام غیر یقینی کیفیت اور اضطراب میں مبتلاء ہیں۔ دن بدن بڑھتی ہوئی ہوشربا مہنگائی نے بھی غریب عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اب لوگ دو وقت کی بجائے ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی طرح پی ڈی ایم کی حکومت نے بھی قوم کو مایوس کیا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے گزشتہ ایک سال کے دور حکومت میں بد ترین معاشی کارکردگی دکھائی ہے۔ اب پاکستان کے عوام کی نظر یں اکتوبر میں عام انتخابات پر ہیں کیونکہ ملک کے تمام مسائل کا حل بروقت اور شفاف انتخابات میں ہے۔ مقام افسوس ہے کہ پی ڈی ایم کے بعض وزراء کی جانب اس سال اکتوبر میں الیکشن کی تاخیر کے بیانات آئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اکتوبر میں الیکشن نہیں چاہتی بلکہ وہ عام انتخابات کو اگلے سال تک لے جانا چاہتی ہے۔ انتخابات میں تاخیر جمہوریت کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لئے پی ڈی ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے۔
عوام پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں کی کارکردگی دیکھ چکے ہیں، سب نے عوام کو مہنگائی کے عذاب تلے دبائے رکھا، ان لوگوں کے پاس عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے، نا اہل اور کرپٹ مافیا کو جب تک مسترد نہیں کر دیا جاتا، اور ملک کی بھاگ دوڑ ایماندار لوگوں کے سپرد نہیں کر دی جاتی اس وقت تک ملکی حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ وقت اور حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ وطن عزیز میں چور دروازے سے جو بھی بر سر اقتدار آیا اس نے 25 کروڑ عوام کو صرف مایوس کیا ہے۔ اس نے لوٹ مار کر کے اپنی تجوریوں کو بھرا۔ ان کے نزدیک عوام کیڑے مکوڑے ہیں۔ پاکستان اس وقت نازک ترین موڑ پر پہنچ چکا ہے، پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم اتحاد کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں 10 کروڑ افراد سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی نیچے جا چکے ہیں۔ وفاقی بجٹ سے بھی قو م کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔
طرفا تماشا یہ ہے کہ حالیہ وفاقی بجٹ 144 کھرب 60 ارب روپے کا ہے جو بجٹ 69 کھرب 24 کھرب خسارے کا بجٹ ہے۔ یہ محض الفاظ کا گورکھ دھندہ دکھائی دیتا ہے جس سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ حکومت کو تنخواہوں اور پنشن میں بھی مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کرنا چاہئے تھا۔ اسی طرح مزدور کی کم از کم اجرت 40 ہزار روپے کی جانی چاہئے تھی تاکہ مہنگائی سے تنگ عوام کی زندگی پر پڑنے والے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ کم آمدنی والوں کے لئے تو وفاقی بجٹ میں توقع کے مطابق کچھ نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ معاشی استحکام اور مہنگائی کم کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ مالی سال کے ابتدائی دس ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4 اعشاریہ 6 فیصد جبکہ فی کس آمدنی ایک ہزار 568 ڈالر کی کم ترین سطح پر اور معیشت سکڑ کر 341 ارب ڈالر پر آ گئی ہے۔ اگر رواں سال اکتوبر میں صاف شفاف انتخابات ہونگے تو ہی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا۔ اس وقت اضطراب اور بے یقینی کی کیفیت سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
محسن نقوی نے 5رکنی نئی قومی سلیکشن کمیٹی تشکیل دیدی
پی سی بی کے چئیرمین محسن نقوی کی سرجری کے بعد پانچ رکنی نئی قومی سلیکشن کمیٹی تشکیل دے دی۔ کمیٹی کی پہلی اسائنمنٹ بنگلہ دیش کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز ہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی۔۔سلیکشن میں من مانی کرنے پر سلیکٹرز وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو برطرف کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق سلیکشن کمیٹی سے بلال افضل اور حسن چیمہ کو بھی فارغ کردیا گیا ہے۔ چئرمین پی سی بی محسن نقوی نے صرف پانچ رکنی قومی…
0 notes
Text
کراچی آرٹس کونسل میں تین روزہ چھٹا سندھ لٹریچر فیسٹیول اختتام پذیر
فوٹو؛ ایکسپریس کراچی: آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور سندھ لٹریری فاﺅنڈیشن کے مشترکہ تعاون سے منعقدہ تین روزہ ”چھٹا سندھ لٹریچر فیسٹیول 2023“ اختتام پذیر ہوگیا۔ فیسٹیول کے آخری روز معروف گلوکار وہاب بگٹی اور سیف سمیجو کی شاندار پرفارمنس اور مشاعرے نے سندھ لٹریچر فیسٹیول کو چار چاند لگا دیے، تین دن آرٹس…کراچی آرٹس کونسل میں تین روزہ چھٹا سندھ لٹریچر فیسٹیول اختتام پذیر
View On WordPress
0 notes