#نان فائلرز
Explore tagged Tumblr posts
Text
حکومت کی 15 نئی پابندیوں نے نان فائلرز میں کھلبلی مچا دی
وفاقی حکومت کی جانب سے نان فائلرز پر 15 قسم کی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے نے ٹیکس نیٹ ورک میں شامل ہونے سے انکاری افراد میں کھلبلی مچا دی ہے۔ وفاقی حکومت نے مزید شکنجہ کسنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نان فائلرز کے زمین، جائیداد، گھر اور گاڑی کی خریداری سمیت مختلف قسم کی 15 پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو یعنی ایف بی آر حکام کے مطابق نان فائلرز کی کیٹیگری ختم کرکے ٹیکس نہ دینے…
0 notes
Text
نان فائلرز کو ایف بی آر کے حتمی نوٹس، بجلی کے کنکشن منقطع کئے جائیں گے
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے لاکھوں نان فائلرز کو حتمی نوٹس جاری کردیے، ہیں جس کے بعد ان کے ہوٹیلیٹی کنکشنز منقطع کرنے کا عمل شروع کیا جائے گا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے رواں مالی سال 15 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے مشن پر کام تیز کردیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر امجد ��بیر ٹوانہ نے کہا تھا کہ کنیکشن کاٹنے اور موبائل سمیں بلاک کرنے کی مشق جنوری 2024 میں نافذ…
View On WordPress
0 notes
Text
نان فائلرز پر کیا پابندیاں لگائی جائینگی؟ بڑی خبر آگئی
( کلیم اختر) انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ گزر گئی، ایف آئی اے نے کمر کس لی، اب سخت کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔ تفصیلات کےمطابق 31اکتوبر تک گوشوارے جمع کروانےوالوں کی تعداد ساڑھے 52 لاکھ سے تجاوز کرگئی، ایف بی آر ذرائع کا کہناتھا کہ گزشتہ سال کے مقابلے ٹیکس گوشواروں کی تعداد 85 فیصد تک بڑھ گئی ،جولائی 2023 سے ابتک 18 لاکھ 64 ہزار 567 نئے افراد فائلر بنے۔جولائی 2024 کے بعد 6 لاکھ 2…
0 notes
Text
ٹیکس نیٹ بڑھنے میں رکاوٹ؟
پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا کررہا ہے اسکی بنیادی وجہ وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے نجی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ حتمی طور پر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں عام آدمی تو ماچس کی ڈبیا خریدنے پر بھی ٹیکس دینے پر مجبور ہے جبکہ بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت دستیاب ہے۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں غیر دستاویزی معیشت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کی ٹیکس مشینری کی بدانتظامی ظاہر ہوتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد غیر رسمی معیشت کا حصہ رہتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے لوگوں میں حکومت کی ٹیکس مشینری پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنیں گے تو انہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے عملے کی طرف سے بلا جواز تنگ کرنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔
ٹیکس پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں اور ٹیکس قوانین میں وضاحت کی کمی بھی ٹیکس دہندگان کے لیے سمجھ بوجھ اور تعمیل کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم اس محکمے کو بھی عملے کی مبینہ نااہلیوں، بدعنوانیوں اور ناکافی وسائل کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے حال ہی میں ایف بی آر اور کسٹم کے بعض افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی ہے۔ تاہم ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے ایک اور اہم فیکٹر سیاسی قیادت یا حکومت کا عزم ہے کیونکہ زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ہی طویل عرصے سے عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اسے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں یہ کوشش سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں حکومت کی طرف سے متعارف کروائی گئی ’’تاجر دوست اسکیم‘‘ کی ناکامی اس کی ایک مثال ہے۔
تاجر طبقے سے متع��ق حکومت کے اپنے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک بھر میں کاروبار کرنے والے 35 لاکھ تاجروں میں سے صرف تین لاکھ باقاعدگی سے ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے یکم اپریل کو شروع کی گئی ’’تاجر دوست اسکیم‘‘ کے تحت 32 لاکھ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن ایک ماہ میں اس اسکیم کے تحت سو سے بھی کم تاجروں نے رضاکارانہ رجسٹریشن کروائی ہے۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے افسوسناک ہے کہ جی ڈی پی میں ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر کا حصہ 18 فیصد ہونے کے باوجود اس شعبے کا محصولات میں حصہ چار فیصد سے بھی کم ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تاجر دوست اسکیم ناکام ہونے کے بعد ایف بی آر نے نان فائلر تھوک اور خوردہ فروشوں کی سپلائز پر ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ نئے ٹیکس ریٹس کا اعلان بجٹ 25-2024ء میں کیا جائے گا اور اس کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا۔ ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کے مجوزہ منصوبے کے مطابق تاجر دوست اسکیم کے تحت رجسٹرڈ نہ ہونے والے ڈسٹری بیوٹرز کی مینوفیکچرر زکو سپلائز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھا کر 10 فیصد کر دی جائے گی جو اس وقت 0.2 فیصد ہے، جس کا اثر ریٹیلرز کو منتقل کیا جائے گا۔
مینوفیکچرر سپلائی کرنے والوں سے ڈسٹری بیوٹرز کے 10 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس منہا کریں گے جسے نیچے سپلائی چین میں منتقل کیا جائے گا اسی طرح درآمد کنندگان بھی سپلائرز پر 10 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کاٹیں گے۔ اس وقت فائلر تاجروں پر 0.1 فیصد اور نان فائلرز پر 0.2 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس عائد ہے۔ ایف بی آر کے تخمینے کے مطابق اس اقدام سے تقریباً 400 سے 500 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو گا۔ اگرچہ اس اقدام سے حکومت کے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہو جائے گا لیکن طویل المدت بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ کہنا بیجا نہیں ہو گا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی حکومتی کوششوں کو ایک مرتبہ پھر دھچکا لگا ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے یہ بھی امکان ہے کہ تاجروں کے متوقع احتجاج کے بعد ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کا فیصلہ واپس لے لیا جائے یا اس کی شرح میں اتنی کمی کر دی جائے کہ تاجروں کو اس پر اعتراض نہ رہے۔ اس طرح لامحالہ ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لئے تمام تر بوجھ یا تو عام عوام پر ڈالا جائے گا یا پھر ان سیکٹرز پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی جائے گی جو پہلے سے ٹیکس نیٹ کا حصہ ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس فرسودہ سوچ کو تبدیل کر کے ٹیکس نیٹ میں توسیع کو ٹیکس اصلاحات کا بنیادی نکتہ بنائے اس سے ٹیکس ریونیو میں خودبخود اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے لئے فوری طور پر ہر شہری کے شناختی کارڈ نمبر کو ٹیکس نمبر قرار دیا جائے اور ایسے نان فائلرز کے خلاف فوری کریک ڈائون کیا جائے جو ماہانہ لاکھوں روپے کے اخراجات کرنے کے باوجود ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
اہم ٹیکس اصلاحات
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس قوانین سے نان فائلرز کی کیٹگری ختم کرنے اور ٹیکس نہ دینے والوں پر 15 پابندیاں لگانے کا جو فیصلہ کیا وہ معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنے والے وطن عزیز کیلئے نہ صرف وقت کی ضرورت ہیں بلکہ امور مملکت چلانے کے تقاضوں کا لازمی جزو بھی۔ ریاست ایک ماں کی طرح اپنے بچوں کیلئے اپنے وسائل وقف کرتی اور بنیادی حقوق اور سلامتی سمیت تمام امور کی نگہبانی کرتی ہے تو ان سے ان کی آمدنی اور حیثیت کے مطابق ملکی معاملات چلانے کے لئے ٹیکس کی طلب گار بھی ہوتی ہے جس سے انکار یا ہیر پھیر کا طرز عمل دنیا کے کسی ملک میں برداشت نہیں کیا جاتا۔ کئی ممالک میں تو ٹیکس گریزی یا آمدنی و وسائل کے بارے میں غلط معلومات فراہم کرنے والوں کو سنگین جرم کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔ جو ممالک آج ترقی یافتہ کہلاتے ہیں، ان کی ترقی و خوشحالی کا ایک اہم عنصر وہاں ٹیکس کی ادائیگی کا کلچر ہے۔ وطن عزیز میں محصولات میں اضافے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے اشرافیہ کے طرز عمل، سرکاری اداروں میں رشوت ستانی، مختلف النوع ٹیکس استثنا اور ایسے عوامل شامل ہیں جن کی آڑ میں ٹیکس گریزی کے عادی عناصر پناہ لیتے رہے ہیں۔
پچھلے برسوں کے دوران معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے جو ترغیبات دی گئیں ان میں فائلرز کے لئے بعض رعایتیں اور نان فائلرز کے لئے کچھ رکاوٹیں شامل تھیں جن کے نتائج توقعات کے مطابق نہیں رہے۔ اب حکومت نے ٹیکس قوانین میں نئی اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے تو کہا جاتا ہے کہ موجودہ فائلرز اور نان کمپلائنٹ شہریوں سے مزید ریونیو حاصل کرنے کے لئے بڑے صنعت کاروں کی حمایت حاصل کر لی گئی ہے۔ تاہم صنعت کاروں کا موقف ہے کہ زراعت پر ٹیکس نہ لگا تو ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب جمود کا شکار رہے گا۔ اسلام آباد میں صنعت کاروں اور تاجروں سے ملاقات میں چیئرمین ایف بی آر وزیر مملکت برائے خزانہ نے جو باتیں بتائیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے برس نان فائلرز سے صرف 25 ارب روپے فیس کی مد میں جمع ہوئے۔ اب نان فائلر کیٹگری ختم ہونے کی صورت میں لین دین پر ٹیکس ادا کرنے سے بچنے کے لئے معمولی فیس ادا کرنے کا راستہ بند ہو گیا ہے۔ نان فائلرز کی کیٹگری ختم کرکے ٹیکس نہ دینے والوں پر جو 15 پابندیاں عائد کی جانی ہیں ان میں سے پانچ ابتدائی طور پر لگائی جائیں گی جن میں جائداد ،گاڑیوں، بین الاقوامی سفر، کرنٹ اکائونٹ کھولنے اور میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری پر پابندیاں شامل ہیں۔
حکومت نے جدید مشین لرننگ اور الگور تھمز کے ذریعے نان فائلرز کی شناخت کا فیصلہ کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر ایسے افراد کی نگرانی کی جائے گی جن کی آمدن کی سطح ان کے لین دین سے مطابقت نہیں رکھتی۔ چیئرمین ایف بی آر کے مطابق یہ اقدامات ایف بی آر کے تبدیلی کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ جسے وزیراعظم کی منظوری مل چکی ہے اور بتدریج نان فائلرز کی 15 اقسام کے ٹرانزیکشنز پابندیوں کی ��د میں آجائیں گے۔ جہاں تک مبصرین کا تعلق ہے، ان کا موقف پہلے بھی یہ رہا ہے اور آج بھی ہے کہ مخصوص آمدن سے زائد انکم اور وسائل کے حامل تمام لوگوں کو دیانتداری سے ٹیکس ادا کرنا چاہئے۔ بااثر افراد کے لئے چھوٹ کی گنجائشیں نکالنے سے گریز کیا جانا چاہئے کیونکہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کا بوجھ ان لوگوں پر پڑتا ہے جو ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ ٹیکس گریزی کےاثرات فلاحی اقدامات کی کٹوتی، غربت میں اضافے اور قرض خواہی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ نئی ٹیکس اصلاحات کے نتیجے میں ملکی معیشت استحکام کی راہ پر تیزی سے آگے بڑھے گی اور قرضوں کے بھاری بوجھ سے نجات میں مدد ملے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Link
0 notes
Text
ٹیکس اصلاحات ضروری کیوں؟
پاکستان کی دگرگوں معاشی حالت کے سبب ہر حکومت کو ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لئے مقامی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے۔ بعدازاں اس قرض کی ادائیگی کے لئے یا تو مزید قرض لینا پڑتا ہے یا پھر اس کے لئے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے طبقات پر عائد مختلف ٹیکسز کی شرح میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ دائرہ ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ مزید سکڑتا جا رہا ہے اور اس میں پھنسے ہوئے ٹیکس دہندگان کو اتنا نچوڑا جا چکا ہے کہ اب ان میں مزید ٹیکس ادا کرنے کی سکت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ٹیکس نظام میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے کمزور طبقات بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے عائد کئے جانے والے بالواسط ٹیکسز کا سب سے زیادہ بوجھ اس طبقے کو اٹھانا پڑتا ہے جو کہ ملک میں جاری تاریخی مہنگائی کے باعث پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ ٹیکس کے امتیازی نظام سے عام آدمی کے متاثر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیلز ٹیکس کی شرح بیس، پچیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والے مزدور کے لئے بھی وہی ہے جو کہ کسی صاحب ثروت کے لئے ہے۔
اس طرح ایک موٹرسائیکل سوار کو بھی پٹرول کی خریداری پر پیٹرولیم لیوی کی اتنی ہی شرح ادا کرنی پڑتی ہے جتنی کہ کسی لگژری گاڑی کے مالک سے وصول کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں رائج ٹیکس نظام کے غیر منصفانہ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ اس میں تین یا چار فیصد اضافی ادائیگی کرنے والے نان فائلر یعنی ٹیکس ادا نہ کرنے والے شہری کو ایک فائلر یعنی باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے اور ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والے شہری کے مقابلے میں زیادہ سہولیات یا آسانی حاصل ہے۔ نان فائلر شہری اس اضافی ادائیگی سے بچنے کے لئے بھی کئی راستے نکال لیتے ہیں اور اس طرح حکومت کے ریکارڈ کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں روپے کے اخراجات کرنے کے باوجود نہ صرف حکومت کو ٹیکس کی ادائیگی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ انہیں ٹیکس وصول کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے کسی قسم کی پوچھ گچھ، آڈٹ یا مانیٹرنگ سے بھی نجات مل جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں کہیں بھی نان فائلر کا تصور نہیں ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں دستاویزی معیشت کے مقابلے میں غیر دستاویزی معیشت یعنی بلیک مارکیٹ کا حجم کئی گنا زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت کے پاس عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے بھی زرمبادلہ دستیاب نہیں ہے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ جو ٹیکس نیٹ کا حصہ نہ ہونے کے باوجود شاہانہ زندگیاں گزار رہے ہیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ حکومت ٹیکس اصلاحات کے نام پر ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کرنے کی بجائے غیر روایتی اور سخت اصلاحات کرے کیونکہ اب اس کے بغیر پاکستان کی بقاناممکن ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہیے کہ سب سے پہلے تمام کرنسی نوٹ منسوخ کر دے تاکہ جن لوگوں نے گھروں یا نجی لاکرز میں اربوں روپے کا کالا دھن چھپا رکھا ہے اسے باہرنکلوایا جا سکے۔
اس سلسلے میں پالیسی بنا کر ایک تاریخ مقرر کی جا سکتی ہے کہ جو لوگ کرنسی نوٹ حکومت کو واپس کرنا چاہتے ہیں وہ بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوائیں اور اپنی تمام رقوم بینکوں میں جمع کروائیں۔ اس دوران جو لوگ ٹیکس نیٹ سے باہر ہوں انہیں ٹیکس نمبر الاٹ کر کے ٹیکس دہندگان کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جہاں سرمائے کی گردش میں فوری طور پر بے پناہ اضافہ ہو جائے گا وہیں غیر دستاویزی معیشت کے حجم میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جا سکے گی۔ اسی طرح بیرون ملک سفر کرنے والوں یا ان کے اسپانسرز کے لئے ٹیکس دہندہ ہونا ضروری قرار دیا جائے۔ اس حوالے سے حکومت کو ڈیٹا حاصل کرنے میں بھی زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ بیرون ملک سفر کرنے والے شہریوں کا تمام تر ڈیٹا پہلے ہی ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے ساتھ ساتھ زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے پر بھی ٹیکس کا نفاذ ضروری ہے۔
اس مسئلے کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں ٹیکس اصلاحات کا بنیادی نکتہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ٹیکس اصلاحات کے نام پر پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد اور اداروں پر ٹیکس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس فرسودہ سوچ کو تبدیل کر کے ٹیکس نیٹ میں توسیع کو ٹیکس اصلاحات کا بنیادی نکتہ بنائے اس سے ٹیکس ریونیو میں خود بخود اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے لئے فوری طور پر ہر شہری کے شناختی کارڈ نمبر کو ٹیکس نمبر قرار دیا جائے اور ایسے نان فائلرز کے خلاف فوری کریک ڈاؤن کیا جائے جو ماہانہ لاکھوں روپے کے اخراجات کرنے کے باوجود ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ملک کا دفاع تب ہی مضبوط ہو گا جب معیشت ٹھیک ہو گی۔ اگر ہمارے پاس مالی وسائل ہی نہیں ہوں گے تو ہم کسی بیرونی جارحیت کا مقابلہ کیسے کریں گے۔
اس لئے جو جہاں ہے اسے اپنی پرانی روش کو ترک کر کے اس ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے ساتھ ساتھ ٹیکس وصول کرنے والے اداروں میں رائج اس روایتی کلچر کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس میں ٹیکس دہندگان کے ساتھ ملک کی خدمت کرنے والوں جیسا برتاؤ کرنے کی بجائے ملزموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے یا پھر انہیں بلا جواز نوٹس پر نوٹس بھیج کر ہراساں کیا جاتا ہے۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
حکومت نے نان فائلرز کے خلاف گھیرا تنگ کردیا
#NAB #FBR #aajkalpk
اسلام آباد: حکومت نے نان فائلرز کے خلاف گھیرا مزید تنگ کردیا۔ قومی احتساب بیورو کو 20 سال سے پرانے بند مقدمات دوبارہ کھولنے کا اختیار بھی مل گیا جبکہ ڈاکٹر اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ ہم نے آئل اینڈ گھی اور سٹیل سیکٹر کو ٹیکس میں ریلیف دیا ہے۔ اب ہم روایتی کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور کریک ڈاؤن کے ذریعے فائلر اور نان فائلر کو جانچیں گے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کے چیئرمین ڈاکٹر…
View On WordPress
0 notes
Text
جائیداد کی منتقلی پر پہلی بار فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگ گئی
وفاقی حکومت نے یکم جولائی سے رئیل اسٹیٹ کی جائیدادوں کی فروخت پر پہلی بار فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، وفاقی بجٹ میں پراپرٹی کی الاٹمنٹ اور منتقلی پر فائلرز کے لیے 3 فیصد اور نان فائلرز کے لیے 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ٹیکس یعنی ایف ای ڈی لگایا گیا ہے۔ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والا فنانس بل صدر مملکت کی جانب سے دستخط کے بعد ایکٹ کی صورت یکم جولائی سے نافذ ہوجائے گا جس کے تحت بلڈر…
View On WordPress
0 notes
Text
ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے والوں کے بجلی گیس کے کنکشن منقطع، موبائل سمز بند ہوں گے، ہر ضلع میں ٹیکس آفس کا قیام
حکومت نے جمعہ کو ملک بھر میں 145 ڈسٹرکٹ ٹیکس آفسز (ڈی ٹی اوز) قائم کیے ہیں تاکہ جون 2024 تک 15 لاکھ سے 20 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن بی کے تحت ڈسٹرکٹ ٹیکسیشن افسران بجلی اور گیس کے کنکشن سمیت یوٹیلٹی کنکشن منقطع کرنے اور نان فائلرز کی موبائل سمز کو بلاک کرنے کے مکمل طور پر مجاز ہوں گے۔ بورڈ کے پاس ان افراد کے سلسلے میں انکم ٹیکس جنرل آرڈر…
View On WordPress
0 notes
Photo
نان فائلرز سے بھی آمدن کے ذرائع پوچھنے کافیصلہ،اب بینکوں سے 50 ہزار سے زائد کیش نکلوانے والے بھی جواب دینگے،دھماکہ خیز فیصلے کراچی(این این آئی) فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے نان فائلرز کے گھیرا مزید تنگ کر دیا۔ بینکوں میں بھاری رقوم کی لین دین کرنے والوں کا ڈیٹا اکھٹا کر نا شروع کر دیا گیا۔ یومیہ 50 ہزار سے زیادہ کیش نکلوانے والے بھی جواب دیں گے۔ذرائع کے مطابق ایف بی آر کا نان فائلرز کے خلاف ایکشن جاری ہے، بینکوں سے بھاری رقوم منتقل کرنے والوں کی تفصیلات جمع کر لی گئی، نوٹس جاری کر کے پوچھ گچھ ہو گی۔ ذرائع کے مطابق تمام بینک معلومات فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں،
#آمدن#بھی#بینکوں#پوچھنے#جواب#خیز#دینگےدھماکہ#ذرائع#زائد#سے#فائلرز#فیصلے#کافیصلہاب#کیش#کے#نان#نکلوانے#ہزار#والے
0 notes
Text
نان فائلر ہوں، چور نہیں ہوں
جناب وزیراعظم!
آپ نے خطاب کیا اوروہ اعداد و شمار بیان کئے جو سوشل میڈیا پر روایت کئے جاتے ہیں، مجھے فی الوقت ملک پر تیس ارب یا اکتیس ارب کے قرضوں بارے کچھ نہیں کہنا کہ جنہوں نے قرضے لئے وہ اس کی قابل قبول اور تسلی بخش وضاحت پیش کر چکے مگر مجھے آپ سے اپنے بارے ضرور کہنا ہے کہ میں پاکستان ایک عام شہری، نان فائلر ضرور ہوں مگر ٹیکس چور نہیں ہوں ، یہ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ آپ میرے دئیے ہوئے ٹیکس پر ایوان وزیراعظم میں رہیں، ایک سال میں ایک ارب سے زائد خرچ بھی کریں، آپ کے صدرعلوی صاحب میرے ٹیکسوں سے اپنے طوطوں کے لئے بیس، بیس لاکھ کے پنجرے بنانے کے اشتہارات بھی جاری کروائیں ، بتیس بتیس لاکھ کے مشاعرے بھی کروائیں، آپ کے کسی دیہات سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ ایک برس میں بیس بیس کروڑ کے ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں پر جھولا بھی جھولیں اور اس کے بعد آپ کہیں کہ ہم پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے۔ سرکار ! یہ ریاست اور اس کے تمام ادارے ہمارے ہی ٹیکسوں سے چلتے ہیں کسی کے ذاتی اکاونٹ سے نہیں ۔
جناب وزیراعظم!
اگر صرف ایک فیصد پاکستانی ٹیکس دیتے ہوں تو یہ ملک ہرگز نہ چلے، نہ دفاعی اخراجات پورے ہوں اور نہ ہی شہری کہ ٹیکس تو پاکستان کا ہر شہری دیتا ہے۔ وہ بوڑھا شخص بھی جو کسی دور دراز کے علاقے میں کسی پہاڑی پر بیٹھا سگریٹ کے کش لگا رہا ہے، وہ جو کسی گاو¿ں میں گرم دن میں پنکھا چلا لیتا اور رات کو بلب جلا لیتا ہے۔ وہ شہری جو ایک گاڑی چلاتا ہے تواس کے خریدنے پر ٹیکس دیتا ہے،ا س کی رجسٹریشن پر ٹیکس دیتا ہے، ڈرائیونگ لائسنس بنوانے پر ٹیکس دیتا ہے،پٹرول ڈلوائے تو اس پر ٹیکس دیتا ہے، چلائے یا نہ چلائے مگر اس کا ٹوکن ٹیکس بھرتا ہے، کسی اچھی سڑک پر گاڑی لے جائے تو ٹال ٹیکس دیتا ہے، لائن، لین یاکسی اشارے کی خلاف ورزی ہوجائے تو اس پر ٹیکس دیتا ہے۔
چلیں، گاڑی والے کو چھوڑیں، ایک شخص مہینہ بھر محنت مزدوری کرنے کے بعد تنخواہ لیتا ہے تو ٹیکس دیتا ہے، گھر میں پانی کانلکا کھولتا ہے تو ٹیکس دیتا ہے،چولہا جلاتا ہے تو ٹیکس دیتا ہے، اپنے پیاروں سے بات کرنے کے لئے فون کرتا ہے تو ٹیکس دیتا ہے، بازار سے بنیان ، کرتا ، شلوار اور چپل خریدتا ہے تو ٹیکس دیتا ہے،ٹی وی دیکھے یا نہ دیکھے ٹیکس دیتا ہے، بچے کی سالگرہ کرتے ہوئے خوش ہوتا ہے تو کیک اور غباروں پر ٹیکس دیتا ہے، اس کا کوئی پیارا مرجاتا ہے تو اس دفنانے سے رشتے داروں کو کھلانے تک پر ٹیکس دیتا ہے، بیٹی یا بیٹے کی شادی کرتا ہے تو اپنی ایک ایک مسکراہٹ پر ٹیکس پر دیتا ہے ، اب کیا وہ ٹیکس میں اپنی جان دے دے؟
جناب وزیراعظم!
یہ تصور درست کروا دیج��ے، ٹیکس ہر پاکستانی دیتا ہے مگر ریٹرن کے فائلر صرف ایک فیصد ہیں اور ان دونوں کے درمیان فرق کرنا بہت ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستانی فائلر کیوںنہیں بنتے توا س کا جواب بھی بہت سادہ ہے کہ جب ہر پاکستانی ٹیکس دے رہاہے تو اسے فائلر ہونے میں کیا مسئلہ ہے، جان لیجئے، اسی سوال کے جواب سب سے بڑی حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ خرابی ٹیکس دینے والے میں نہیں بلکہ ٹیکس لینے والے میں ہے۔ ہرپاکستانی اسی طرح سوچتا ہے جس طرح آپ وزیراعظم بننے سے پہلے سوچتے تھے کہ ہمارا ٹیکس ہماری فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کیا جاتا اور ہمیں بتاتے تھے کہ آپ نے آف شور کمپنی اس لئے بنائی تاکہ ٹیکس بچایا جا سکے۔
بصد احترام، میں آپ کی گذشتہ تین برس کی انکم ٹیکس ریٹرنز دیکھتا ہوں تو میرے سامنے آتا ہے کہ آپ تین یا چار سو کنال کے گھر میں رہتے اور ہوائی جہازوں میں اڑتے پھرتے رہنے کے باوجودسالانہ اوسطاً ایک لاکھ روپے بھی براہ راست ٹیکس ادا نہیں کرتے رہے کیونکہ ہم سب پاکستانی یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے حکمران طبقات چاہے وہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں سمیت کوئی بھی ہوں ، ہمارا ٹیکس کھا جاتے ہیں تو پھروہ ٹیکس ہم خود ہی کیوں نہ کھا جائیں مگر اس کے حقیقت ہونے کے باوجود میں اسے براہ راست ٹیکس نہ دینے کا جواز نہیں بناتا۔
جناب وزیراعظم!
وفاقی حکومت نے گیارہ کھرب بیس ارب کے اضافی ٹیکس لگائے تو پنجاب کی حکومت بھی پیچھے نہیں رہی اور اس نے ہر طبقہ ہائے زندگی پر ٹیکس باقاعدہ ’ ٹھوک‘ دئیے، اب اس کا ردعمل کیا آتا ہے وہ ایک سیاسی سوال ہے اور یہ کالم سیاسی نہیں ہے۔ غیر سیاسی طور پر عرض یہ کرنا ہے کہ آپ کے اداروں اور ان اداروں کے اوپر بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس ذہنی اور جسمانی طور پر وہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ ٹیکس اکٹھا کر سکیں۔ آپ کے ٹیکس انسپکٹر جب کسی فیکٹری اونر کے پاس جاتے ہیں تو اسے بتاتے ہیں کہ تمہارا ٹیکس ایک لاکھ روپے بنتا ہے، پچیس ہزار جمع کرواو، پچیس ہزار مجھے دو اور پچاس ہزار کی بچت کرو۔
وہ اگر اس’ فراخدالانہ‘ اور’ سمجھدارانہ‘ پیش کش کو قبول نہ کرے تو اسے نہ صرف ایک لاکھ ٹیکس دینا پڑتا ہے بلکہ کئی لاکھ کی خواری الگ ہوتی ہے۔ مسئلہ ہی یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ میں آنے والا ہرشخص رگڑا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک آسان شکار ہوتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ایمنسٹی سکیم کا استعمال کیا جائے اور میرا کہنا ہے کہ اگر آپ اس سکیم کے ذریعے اپنے وزیر خزانہ کے ہی اثاثے ڈکلیئر کروا دیں تو قوم آپ کی پیش کش پر اعتماد کر لے گی۔
جناب وزیراعظم!
حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری ادارے ٹیکس لینا ہی نہیں چاہتے۔ ایف بی آر کہتا ہے کہ اسے ہر برس’ ریٹرن ‘جمع کروائی جائے جو وصولیوں اور ادائیگیوں پر ٹیکس کی رسید ہوتی ہے مگراس ریٹرن کا تیار کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں، اسے انتہائی مشکل اور ٹیکنیکل بنایا گیا ہے مگر اس سے بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ ریٹرن آپ کے بنک اکاونٹ کی بنیاد پر بنتی ہے یعنی اگر آپ نقد لین دین کریں تو ریٹرن کی زدمیں نہیں آتے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے سترہ ہزار سات سو انچاس بنکوں کے تقریبا پانچ کروڑ بنک اکاؤنٹس کا ڈیٹا تو سنٹرلائزڈ ہے اور اداروں کی انگلیوں کے نیچے ہے تو آپ ان پانچ کروڑ اکاؤنٹس کو جمع شدہ گوشوارے کیوں ڈیکلئیر نہیں کر دیتے جس کے بعد آپ کے فائلرز کی تعداد اچانک اٹھارہ ، بیس لاکھ سے بڑھ کے چار سے پانچ کروڑ ہوجائے گی۔
آپ سچ پوچھیں تو ریٹرن ایک رسید ہے کہ میں نے کتنا ٹیکس ادا کیا اور رسید ہمیشہ وصول کرنے والا دیتا ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ میرے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پر میری تنخواہ کے علاوہ پانی، بجلی، گیس، پراپرٹی، پٹرول، فون اور دیگر مدات پر جتنا ٹیکس کٹا اس کی رسید مجھے ایف بی آر دے اور میرا شکریہ ادا کرے مگریہاں الٹی گنگا بہتی ہے کہ ٹیکس بھی میں ہی دیتا ہوں اور نان فائلر ہونے کی وجہ سے چور بھی میں ہی کہلاتا ہوں ۔
جناب وزیراعظم!
اگر آپ شناختی کارڈ نمبر کو ہی نیشنل ٹیکس نمبر بنا کے کام شروع کر دیں اور بنک اکاونٹس ہی گوشوارے بنا دیں تو صرف ایک مزید کام کرتے ہوئے پوری کی پوری اکانومی کو ڈاکومنٹڈ کیا جاسکتا ہے کہ ایک لاکھ روپے سے زائد کسی بھی نقد ادائیگی یعنی کیش پے منٹ کو قانونی تسلیم کرنے سے انکا رکر دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر شہری اپنی ادائیگیوں کے قانونی تحفظ کے لئے بنکنگ چینل استعمال کرے گا۔
جب ہر زیر استعمال بنک اکاونٹ ایک گوشوارہ ہو گا تواس کے بعد کوئی امیر آدمی نان فائلر نہیں رہے گا اور جو رہے گا وہ اپنے رسک پر ہو گا کیونکہ کسی بھی تنازعے کی صورت میں عدالتیں اس کا دعویٰ قبول نہیں کریں گی۔ یوں ہمارے چہرے سے یہ کالک بھی اتر جائے گی کہ صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں، جی ہاں، اس سوشل میڈیائی تصور کو درست کرنا از حد ضروری ہے کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے، ٹیکس تو ہر پاکستانی دیتا ہے مگر فائلرز صرف ایک فیصد ہیں حسنین احمد انصاری
10 notes
·
View notes
Text
عمرہ زائرین اور ٹیکس دہندگان‘ احمقانہ موازنہ
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکمران دنیاوی اعتبار سے ملکی معاملات چلانے اور ملک کے عوام کو فلاحی ریاست بنا کر دینے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ ان میں اس کی صلاحیت ہی نہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کے وقت سے حکومت کی جانب سے دینی حوالوں سے چھیڑ چھاڑ گستاخی کی حد تک اقدامات، الفاظ ، جملے اور تبصرے کیے جارہے ہیں۔ کبھی قادیانی کو مشیر بنا لیا تو اس کی حمایت میں کچھ دیوانے چیخنے لگے، پھر گستاخ رسول آسیہ کی حمایت کی گئی، سود کے حق میں دیوانگی کی حد تک مہم چلائی گئی اور اب ٹیکس کو عمرے سے ملانے لگے۔
روزنامہ جنگ میں طاہر خلیل اور تنویر ہاشمی کے نام سے شائع ہونے والی خبر میں عمرہ زائرین کی تعداد اور ٹیکس دہندگان کی تعداد کا موازنہ کیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے بھی خبر بنائی، اس کی سرخی نکالی اور جن لوگوں نے اس کو شائع کرنے کی اجازت دی ان کے بارے میں دو ہی باتیں کہی جا سکتی ہیں… یا تو وہ عقل سے بالکل عاری ہیں یا ان کے اندر دین اور اسلامی شعائر سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ خبر کے مطابق 30 مئی تک 15 لاکھ 90 ہزار 731 پاکستانیوں نے عمرہ کیا اور ٹیکس دینے والوں کی تعداد 12 سے 14 لاکھ کے درمیان ہے۔ اس خبر کو وزیراعظم کے ویڈیو پیغام اور ایف بی آر کے ترجمان کے تبصرے سے ملایا گیا ہے جو واضح طور پر شرارت ہے۔
خبر کی شرارت اس بات سے سمجھ میں آتی ہے کہ اگر عمرہ زائرین کی تعداد 15 یا 16 لاکھ ہے تو اس میں اوسطاً فی گھر 5 افراد رکھے جاتے ہیں اور عمرے کے لیے بسا اوقات پورا خاندان دس بارہ افراد پر مشتمل گروپ جاتا ہے۔ کیا کسی تاجر کے ماں، باپ، بیٹے، بیٹی، چھوٹے بچے سب فائلر ہوتے ہیں۔ ٹیکس گزار اور فائلر تو ایک ہی آدمی ہوتا ہے اگر اس تعداد کو 5 پر بھی تقسیم کیا جائے تو یہ 3 لاکھ نکلتی ہے۔ جب کہ اس خبر کو بنانے اور شائع کرنے والوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ کمیٹیاں ڈال کر روپیہ روپیہ جوڑ کر برسوں جمع کرتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کب پیسے پورے ہوں اور کب وہ عمرہ کرنے جائیں۔
ان میں چھوٹے موٹے کام کرنے والے، تنخواہ دار اور سفید پوش لوگ ہوتے ہیں۔ ریٹائرڈ لوگوں کی بہت بڑی تعداد اپنے بچوں کے خرچ پر عمرہ کرتی ہے جو بیرون ملک مقیم ہوتے ہیں، وہاں سے رقم بھیجتے ہیں اور ان کے والدین یا بزرگ عمرہ کرتے ہیں۔ عمرہ زائرین کو ٹیکس دہندگان سے ملانے والوں کا دماغ اس حد تک مائوف ہے کہ انہیں کسی چیز کا علم نہیں۔ حتیٰ کہ جائزہ 30 مئی تک کا لگایا۔ اگر 31 مئی تک کے اعداد و شمار ڈال دیتے تو کون پوچھتا۔ عمرہ زائرین کی تعداد اور ٹیکس فائلرز کے موازنے کی بات تو بہت واضح طور پر سمجھ میں آجانی چاہیے، اگر دل و دماغ میں دین اور اس کے شعائر کے خلاف خبث نہ بھرا ہو تو۔
اب آتے ہیں وزیراعظم کے پیغام کی طرف جس میں انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ صرف ایک فی صد افراد ٹیکس دیتے ہیں، یہی لوگ دراصل 22 کروڑ پاکستانی عوام کا بوجھ اُٹھا رہے ہیں۔ وزیراعظم کسی قابلیت کی بنیاد پر تو بنایا نہیں جاتا، برسوں پہلے ڈراما تعلیم بالغان میں یہ ڈائیلاگ بولا گیا تھا کہ زیر تعلیم سے پہلے ووٹ کا واو لگا دیں تو وزیر تعلیم بن جاتا ہے۔ شاید وزیراعظم بھی اسی طرح بنے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف ایک فی صد افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے شاید صرف فائلرز کو ٹیکس دہندہ تصور کر لیا ہے۔ ذرا وزیر اعظم بتائیں گندم خریدنے پر کتنا ٹیکس مل والے ادا کرتے ہیں، ان سے بڑے بیوپاری جو آٹا خریدتے ہیں اس پر کتنا ٹیکس دیتے ہیں، یہی آٹا جب روٹی بن کر نان بائی سے خریدا جاتا ہے تو اس پر بھی ٹیکس دیا جاتا ہے۔
صرف ایک چیز پر تین مرتبہ ٹیکس۔ اسی سے میدہ نکالا جاتا ہے، میدے سے ڈبل روٹی بنتی ہے اس پر بھی ٹیکس۔ انڈے پر ٹیکس، پٹرول پر چھ قسم کے ٹیکس، گیس پر ٹیکس، بجلی پر کئی ٹیکس، نمک تک پر ٹیکس۔ ایک لقمہ بھی کسی کے منہ میں ٹیکس کے بغیر نہیں جاتا۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ایک فی صد لوگ ٹیکس دے رہے ہیں۔ انہیں کوئی بتانے والا ہے کہ 22 کروڑ پاکستانی اعشاریہ صفر صفر ایک فی صد حکمران طبقے کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہیں۔ ہر پاکستانی یہ سارے ٹیکس مجبوراً دے رہا ہے۔ سننے میں بڑا اچھا جملہ ہے کہ ایک فی صد پاکستانی 22 کروڑ عوام کا بوجھ اُٹھا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ 22 کروڑ عوام حکمران طبقے کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں۔
ٹیکسوں کی تفصیل میں کیا جائیں، اس ملک کے حکمرانوں نے ہر چیز پر ہر ایک سے ٹیکس وصول کرنے کا دھندا شروع کر رکھا ہے۔ یہاں تک کہ بینک سے رقم نکالنے پر ٹیکس ہے، جمع کرنے پر بھی ٹیکس ہے اور اگر اکائونٹ کھول لیا اور بینک کی مطلوبہ رقم کھاتے میں نہیں تو بھی ٹیکس کٹے گا۔ موبائل فون پر ٹیکس تو عذاب بنا ہوا ہے۔ عدلیہ کے یوٹرن کی وجہ سے موبائل فون کمپنیوں کو لوٹ مار کی کھلی اجازت ملی ہوئی ہے۔ سی این جی پر بھی ٹیکس ہے، ان میں سے بیشتر ٹیکس وصول ضرور ہوتے ہیں لیکن سرکار کے خزانے میں جمع نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر جی ایس ٹی اشیا کی خرید و فروخت کے وقت صارف سے وصول کر لیا جاتا ہے لیکن دہرا کھاتہ بنا کر حکومت کو ٹیکس نہیں دیا جاتا۔ بڑے بڑے ہوٹل، بڑی موبائل کمپنیاں، بڑے پرائیویٹ اسپتال یہ بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ آغا خان چیریٹی اسپتال ہے اور ٹیکس کے معاملے میں سب کی طرح کام کر رہا ہے۔ یہ سارا کام ہوٹل والے، موبائل کمپنیاں اور اسپتال والے اکیلے نہیں کرتے۔ ایف بی آر کی مکمل سرپرستی ہوتی ہے۔ عمرہ زائرین اور ٹیکس دہندگان کے بارے میں خبر پر کوئی آواز بھی نہیں اُٹھی۔ سب کو دو لائن کی خبر اور چھوٹی سی تصویر جو لگوانی ہوتی ہے۔
مظفر اعجاز
بشکریہ روزنامہ جسارت
2 notes
·
View notes
Text
کیا اب کوئی نان فائلر رہ سکے گا ؟
اگر آپ پاکستانی شہری ہیں اور پوری ایمانداری اور باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن کسی بھی وجہ سے اپنے ادا کردہ ٹیکسوں کے گوشوارے جمع نہیں کرا رہے تو آپ مصیبت میں پڑ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں وفاقی حکومت کے ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کے علاوہ ٹیکس ادا کرنے والوں کو گوشوارے جمع کرانے کی طرف راغب کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایف بی آر کے ترجمان حامد عتیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کو پہلے مرحلے میں نوٹسز بھجوائے جائیں گے اور ایک خاص وقت پر جرمانے بھی عائد کیے جا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ایف بی آر کے پاس کسی دہندہ کی ٹیکس کی ادائیگی سے متعلق معلومات آئے اور گوشوارہ نہ آئے تو اس پر ایکشن لیا جائے گا۔‘ ایف بی آر کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں 13 کروڑ لوگ ایسے ہیں جو مختلف مدوں میں ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس دہندگان میں خاصی بڑی تعداد تنخواہ دار طبقے کی ہے، جن کی تنخواہ میں سے ہر مہینے انکم ٹیکس منہا ہو جاتا ہے۔ حامد عتیق کے مطابق: ’ان 13 کروڑ دہندگان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو موبائل فون کا کارڈ خریدنے پرٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس صرف 20 لاکھ ٹیکس دہندگان ایف بی آر کے پاس گوشوارے جمع کرواتے ہیں۔‘
حامد عتیق نے کہا: ’یہ تعداد بہت کم ہے اور ایف بی آر اسے 40 لاکھ تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘ ایف بی آر کے نئے سربراہ شبر زیدی نے گذشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ جو تبدیلیاں لا رہے ہیں ان کے بعد کوئی نان فائلر نہیں رہ سکے گا- ان کا مطلب تھا کہ اب ہر آمدن والے شخص کو گوشوارے جمع کروانے کے بغیر گزارا نہیں ہو گا۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ حکومت نے بینکوں سے بڑا بیلنس رکھنے والے اُن کھاتہ داروں کی تفصیلات بھی اکٹھی کی ہیں جنہوں نے گوشوارے جمع نہیں کروائے۔
ٹیکس گوشوارہ کیا ہے؟ ٹیکس گوشوارہ دراصل ایک فارم ہے جس میں ٹیکس دہندہ اپنی سالانہ آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات بیان کرتا ہے، جس سے ٹیکس اکٹھا کرنے والا ادارہ اس شخص پر لگنے والے ٹیکس کا اندازہ لگاتا ہے۔ عام طور پر ٹیکس کے گوشوارے جمع کروانے والے کو فائلر اور ایسا نہ کرنے والے کو نان فائلر کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس سے متعلق قوانین کے تحت ہر ٹیکس دہندہ (فرد یا ادارے) پر مالی سال کے خاتمے پر ایف بی آر کے پاس اُس سال کے دوران اپنے ادا کردہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانا لازم ہے۔ حامد عتیق کہتے ہیں: ’گوشوارے کے ذریعے ایف بی آر کو ٹیکس دہندہ کی مالی حالت سے متعلق پوری معلومات حاصل ہو جاتی ہیں کہ اس کی آمدن اور لائف اسٹائل کیا ہے اور اس نے سال بھر میں خود پر اور اپنے خاندان پر کتنا خرچ کیا ہے۔‘ ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں: ’گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کے ساتھ میری کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ساری دنیا میں ٹیکس دہندہ گوشوارے جمع کراتے ہیں تو ہمارے ہاں کیوں نہیں؟‘ ان کا مزید کہنا تھا: ’اب تو پاکستان پر دنیا کی طرف سے بھی دباؤ ہے کہ اپنے لوگوں کو ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے پر مجبور کریں۔‘
فائلرز کی تعداد کیسے بڑھے گی؟ وزیر برائے مال حماد اظہر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کے پاس موجود معلومات کو ٹیکس اکٹھا اور گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے گا اور ایف بی آر نادرا سے پاکستانی ٹیکس دہندگان سے متعلق معلومات حاصل کر رہا ہے۔ ان کے مطابق: ’نادرا کے پاس پانچ کروڑ 30 لاکھ شہریوں کی معلومات موجود ہے۔ جس میں ان کی جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس، بیرون ملک سفروں، بجلی و گیس اور دوسرے یوٹیلیٹی بلز، بچوں کے تعلیمی اخراجات، گاڑیوں کی تعداد، صحت کے اخراجات کی تفصیلات سمیت بہت سارے دوسرے اخراجات اور ملکیتوں سے متعلق معلومات شامل ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر 30 سے 40 لاکھ نان فائلرز کی معلومات بھی نادرا سے حاصل کر رہا ہے اور معلومات حاصل ہونے کے بعد نان فائلرز کے خلاف ضروری کاروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نادرا کے پاس موجود ڈیٹا ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ حامد عتیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ایف بی آر گوشوارے جمع کرانے کے لیے ایک موبائل ایپ تیار کر رہا ہے۔ ’اس سے گوشوارے جمع کروانا بہت سہل ہو جائے گا۔ یہ ایک بہت آسان اور عام آدمی کو سمجھ آنے والی ایپ ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ایپ پر کام کافی تیزی سے جاری ہے اور جولائی میں اسے لانچ کر دیا جائے گا۔ ساتھ ہی حامد عتیق نے امید ظاہر کی کہ اس سے فائلرز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔
نظام پر اعتراضات ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے نظام پر بہت سارے اعتراضات ہیں۔ نہ صرف ٹیکس دہندگان بلکہ ماہرین بھی اس نظام میں خامیاں دیکھتے ہیں۔ انکم ٹیکس کے وکیل جمیل چوہدری کہتے ہیں: ’جب ایک شہری ٹیکس ادا کرتا ہے تو ایف بی آر کو اسے وصولی کی رسید دینا چاہیے۔ یہ کیا نظام ہے کہ ٹیکس دینے والا ہی اپنے ادا کردہ ٹیکس کی رسید جمع کرائے گا؟‘ حامد عتیق کہتے ہیں: ’ٹیکسیشن کا عمل تب ہی پورا ہو تا ہے جب شہری ٹیکس ادا کرنے کے بعد اپنے گوشوارے بھی جمع کرائیں۔‘ دوسری جانب ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ ’گوشوارے جمع کروانا ساری دنیا میں رائج ہے اور ٹیکس کی ادائیگی کا اہم جز ہے۔‘
لاہورمیں پریکٹس کرنے والے ٹیکسیشن قوانین کے ماہر وکیل فصیح اللہ کے مطابق گوشوارے جمع کرانے کا عمل بہت مشکل اور پیچیدہ ہے۔ جسے ایک پڑھا لکھا شخص بھی مشکل سے سمجھ پاتا ہے۔ ان کے مطابق: ’بڑے بڑے ٹیکس کنسلٹنٹس اس سارے عمل کوسمجھ نہیں پاتے۔‘ اسلام آباد میں نجی معاشی کنسلٹنسی ادارے کے سربراہ ثاقب شیرانی کہتے ہیں: ’یہ سب بہانے ہیں۔ ہم ایک سنجیدہ عمل کی طرف جا رہے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ٹیکسیشن کے نظام گوشوارے جمع کرانے کے ذریعے چلتے ہیں۔ تاہم ثاقب شیرانی نے فائلرز کی تعداد بڑھانے سے متعلق ایف بی آر کی صلاحیتوں پر سوال اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا: ’یہ جو اقدامات اٹھا رہے ہیں ان کی ترتیب غلط ہے۔ میں خود گوشوارے جمع کرانے میں تنگ ہوتا ہوں۔‘ ثاقب شیرانی کہتے ہیں: ’ایف بی آر کو اپنے اندر صفائی کرنا ہو گی اور اپنے سٹاف کو بہت زیادہ اختیارات دینے سے اجتناب کرنا ہو گا۔‘
عبداللہ جان نامہ نگار، اسلام آباد
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note
·
View note
Text
کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر بھی ٹیکس نافذ، ایک لاکھ سے زائد ڈالر خریدنے پر پابندی
کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر بھی ٹیکس نافذ، ایک لاکھ سے زائد ڈالر خریدنے پر پابندی
بجٹ 23-2022ء میں کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر بھی ٹیکس نافذ کردیا گیا۔ کریڈٹ کارڈ سے ادائیگیوں پر فائلرز کو ایک فیصد جبکہ نان فائلرز کو 2 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق بجٹ میں آن لائن اور سوشل میڈیا سے آمدن پر ٹیکس بڑھانے کی بھی تجویز ہے، انکم ٹیکس میں دی گئی مراعات کم کرنے اور انٹرنیشنل سفر کیلئے بزنس کلاس پر 4 گنا ٹیکس لگے گا۔ حکومت نے بجٹ میں ایک ماہ میں 10 ہزار ڈالر سے زائد اور ایک…
View On WordPress
0 notes