#منصور عثمانی
Explore tagged Tumblr posts
Text
بجھنے نہ دو چراغ وفا جاگتے رہو منصور عثمانی
بجھنے نہ دو چراغ وفا جاگتے رہو منصور عثمانی
بجھنے نہ دو چراغ وفا جاگتے رہو پاگل ہوئی ہے اب کے ہوا جاگتے رہو سجدوں میں ہے خلوص تو پھر چاندنی کے ساتھ اترے گا آنگنوں میں خدا جاگتے رہو الفاظ سو نہ جائیں کتابوں کو اوڑھ کر دانشوران قوم ذرا جاگتے رہو کیسا عجیب شور ہے بستی میں آج کل ہر گھر سے آ رہی ہے صدا جاگتے رہو پہلے تو اس کی یاد نے سونے نہیں دیا پھر اس کی آہٹوں نے کہا جاگتے رہو پھولوں میں خوشبوؤں میں ستاروں میں چاند میں کھولے گا کوئی بند قبا…
View On WordPress
0 notes
Text
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا
بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا
یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو کوئی آسان ہے کیا؟ سرمد و منصور ہو جانا
قدم ہے راہِ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہو جانا
نظر سے دور رہ کر بھی تقؔی وہ پاس ہیں میرے کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہو جانا
مفتی تقی عثمانی
4 notes
·
View notes
Text
اس شہر میں چلتی ہے ہوا اور طرح کی
اس شہر میں چلتی ہے ہوا اور طرح کی جرم اور طرح کے ہیں سزا اور طرح کی
اس بار تو پیمانہ اٹھایا بھی نہیں تھا اس بار تھی رندوں کی خطا اور طرح کی
ہم آنکھوں میں آنسو نہیں لاتے ہیں کہ ہم نے پائی ہے وراثت میں ادا اور طرح کی
اس بات پہ ناراض تھا ساقی کہ سر بزم کیوں آئی پیالوں سے صدا اور طرح کی
اس دور میں مفہوم محبت ہے تجارت اس دور میں ہوتی ہے وفا اور طرح کی
شبنم کی جگہ آگ کی بارش ہو مگر ہم منصورؔ نہ مانگیں گے دعا اور طرح کی
4 notes
·
View notes
Photo
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا ہماری بادہ نوشی پر فرشتے رشک کرتے ہیں کسی کے سنگِ در کو چومنا مخمور ہو جانا بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہو جانا قدم ہے راہِ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہو جانا نظر سے دور رہ کر بھی تقؔی وہ پاس ہیں میرے کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہو جانا۔ ❣️❣️❣️❣️ مفتی تقی عثمانی صاحب ❣️❣️❣️ https://www.instagram.com/p/CTSgNncqz9I/?utm_medium=tumblr
0 notes
Text
مفتی تقی عثمانی محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا قدم رکھے ہیں الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چُور ہو جانا یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا بَسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجا ہے پہاڑوں کو توبس آتا ہے جل کر طور ہوجانا نظر سے دور رہ کر بھی تقی وہ پاس ہیں میرے کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا
5 notes
·
View notes
Text
کون سی کتابیں پڑھنی چاہئیں؟ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ قومی ادب کے ساتھ ساتھ اگر وقت ملے تو ہمیں عالمی ادب کو بھی پڑھنا چاہیے اس سے فکر ونظر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں اور دنیا کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ در اصل دنیا کے ہر خطّے اور قوم کے اپنے حالات، اپنی اقدار و روایات، اپنی رسم و رواج اور اپنے مخصوص عقائد و نظریات ہوتے ہیں جس کے تحت کسی ملک اور قوم کا ادب جنم لیتا ہے۔ اگر ہم بین الاقوامی ادب کی بات کریں تو اس میں: لاطینی امریکا کے نامور ادیب گبریل گارشیا مارکیز کی "تنہائی کے سو سال" اور "وبا کے دنوں میں محبت" خشونت سنگھ کی "ٹرین ٹو پاکستان"، "سچ، محبّت اور ذرا سا کینہ" ہرمن ہیسے کا ناول "سدھارتھ" پائیلو کوئیہلو کا ناول "الکیمسٹ" تُرک ادیب حان پاموک کا "مائی نیم از ریڈ"، جسے اُردو میں "سُرخ میرا نام" سے شائع کیا گیا ہے، کا اپنا ہی مزہ ہے۔ اِس کے علاوہ فکشن میں ٹالسٹائی کی "وار اینڈ پیس"، الیگزنڈر پوشکن اور انتن چیخوف کے کلاسیکل افسانے، شکسپئر کی کہانیاں دستوفسکی کی "جرم اور سزا"، "ذلّتوں کے مارے لوگ" ارنسٹ ہیمنگوئے کا سمندر" حوزا سارے ماگو کا "اندھے لوگ" ابو یحییٰ کا "جب زندگی شروع ہو ئی" کارل مارکس کی "داس کیپٹل" اور گرو رجنیش کی کتابیں بھی بہترین انتخاب ہیں۔ جنرل کتابوں میں مائیکل ہارٹ کی "سو عظیم آدمی" ستّار طاہر کی "سو عظیم کتابیں" مفتی تقی عثمانی کی "اسلام اور سیاسی نظریات" ڈاکٹر محمود احمد غازی کے "محاضراتِ سیرت" اور "محاضراتِ فقہ" مفتی ابولبابہ شاہ منصور کی کُتب مختار مسعود کی 'آوازِ دوست" واصف علی واصف اور اشفاق احمد کی "زاویہ" "مخزن اخلاق" اور "بکھرے موتی" ہر لائبریری کی زینت ہونی چاہیے۔ سفرناموں میں مفتی تقی عثمانی کا "جہانِ دیدہ" اور "دُنیا مرے آگے" مُستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے وحید الدین خان کے "غیر ملکی اسفار" اور قدیم میں "سفرنامہ ابنِ بطوطہ" اور البیرونی کا سفر نامہ بہترین ہیں۔ مزاح میں پطرس بخاری کے مضامین مشتاق احمد یوسفی کی کتابیں کرنل محمد خان کی "بزم آرائیاں" شفیق الرحمان کی "حماقتیں" کرشن چندر کی "ایک گدھے کی سرگزشت" شوکت تھانوی کی "شیطان کی ڈائری" اور یونس بٹ کی کتابیں بہترین تفریح ہیں۔ تاریخ میں ڈاکٹر مُبارک علی کا کام لائقِ تحسین ہے، تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو اِنہیں ایک بارضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ تاریخ کے حوالے سے مولانا اسماعیل ریحان کا کام بھی قابلِ تعریف ہے۔ ہندوستان کی تاریخ پڑھنے کے لیے محمد قاسم فرشتہ کی "تاریخِ فرشتہ"، مقدمہ ابنِ خلدون ٹائن بی کی "اسٹڈی آف ہسٹری" گبن کی "ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن ایمپائر" بھی ضرور دیکھنی چاہیے۔ قدیم تاریخ میں ابنِ کثیر کی "البدایہ والنّھایہ" جس کا اُردو ترجمہ "تاریخ ابنِ کثیر" کے نام سے ہوا ہے۔ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی "تاریخِ اسلام" ہر ایک کو پڑھنی چاہیے۔ خو�� نوشت میں مولانا زکریا کاندھلوی کی "آپ بیتی" مہاتما گاندھی کی تلاشِ حق" افضل حق کا "میرا افسانہ" کلدیپ نائر کی "ایک زندگی کافی نہیں" دیوان سنگھ مفتون کی "ناقابلِ فراموش" بے نظیر بھٹو کی "مشرق کی بیٹی" امیر تیمور کی "میں ہوں تیمور" قدرت اللہ شہاب کا 'شہاب نامہ" احسان دانش کی "جہانِ دانش" علّامہ اسد کی "روڈ ٹو مکہ" اور "بندۂ صحرائی" پرویز مشرف کی "سب سے پہلے پاکستان" عمران خان کی "میں اور میرا پاکستان" صدر الدین ہاشوانی کی "سچ کا سفر" بہترین آپ بیتیاں ہیں۔ مشہور مؤرّخ و ادیب ابو الحسن علی ندوی کی کتابیں "انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر"، تاریخِ دعوت و عزیمت"، "پاجا سراغ زندگی"، نقوشِ اقبال"، "نئی دُنیا سے صاف صاف باتیں"، "مُسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی کشمکش"، "معرکۂ اِیمان ومادیت" اور پُرانے چراغ" ساری کتابیں پڑھنے کے قابل ہیں۔ کونسلنگ کے حوالے سے مولانا وحید الدین خان کی کتابیں ضرور خریدی جائیں، اُن کی کتابیں لازوال ہیں۔ ( مُحمد عرفان ندیم .... کالم نویس )
7 notes
·
View notes
Text
جب خلافت عثمانیہ کا سورج غروب ہو گیا
خلافتِ عثمانیہ (خلافتِ راشدہ، خلافت امویّہ اور خلافتِ عباسیہ کے بعد) اسلامی تاریخ کی چوتھی بڑی خلافت تھی۔ اس میں تقریباً 642 سال از 1282ء تا 1924ء تک 37 حکمران مسند آرائے خلافت ہوئے۔ پہلے 8 حکمران سلطان تھے۔ خلیفۃ المسلمین نہ تھے۔ انہیں اسلامی سلطنت کی سربراہی کا اعزاز تو حاصل تھا، خلافت کا روحانی منصب حاصل نہ تھا۔ 9 ویں حکمران سلطان سلیم اوّل سے لے کر 36 ویں حکمران سلطان وحید الدین محمد سادس تک 30 حضرات سلطان بھی تھے اور خلیفہ بھی، کیونکہ خلافتِ عباسیہ کے آخری حکمران نے سلطان سلیم کو منصب و اعزاز خلافت کی سپردگی کے ساتھ وہ تبرکاتِ نبویہ بھی بطور سند و یادگار دے دیے تھے جو کہ خلفائے بنو عباس کے پاس نسل در نسل محفوظ چلے آرہے تھے۔
یکم نومبر 1922ء کو چونکہ مصطفی کمال پاشا نے مغربی طاقتوں اور ’’برادری‘‘ کی ایما پر ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کے ذریعے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کی قرارداد منظور کر کے خلیفہ اسلام، عثمانی سلطان محمد وحید الدین ششم کی اٹلی کی طرف ملک بدری کے احکامات جاری کر دیے تھے، اس لیے اس نامبارک دن سلطنت ختم ہو گئی، البتہ خلافت اب بھی باقی تھی۔ سلطان وحید الدین ششم کی جلا وطنی کے بعد ان کے پہلے قریبی رشتہ دار عبدالمجید آفندی کو آخری عثمانی خلیفہ بنایا گیا، مگر 3 مارچ 1924ء کو ترکی کی قومی اسمبلی نے ایک مرتبہ پھراسلام دشمنی اور مغرب پروروں کا ثبوت دیتے ہوئے اتاترک کی قیادت میں اسلامی خلافت کے خاتمے کا قانون بھی منظور کر لیا۔ اس طرح آخری خلیفہ جو سلطان نہ تھے، خلیفہ عبدالمجید دوم کی اپنے محل سے رخصتی اور پہلے سوئٹزرلینڈ پھر فرانس جلاوطنی کے ساتھ ہی سلطنت عثمانیہ کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کا المناک سانحہ بھی پیش آگیا۔
ابولبابہ شاہ منصور
0 notes
Text
دانلود فیلم دلشدگان ۱۳۷۰
فیلم سینمایی دلشدگان سیزدهمین فیلم ساختهی علی حاتمی است.
این فیلم در ژانر درام تاریخی در سال ۱۳۷۰ ساخته شده است. علی حاتمی بجز کارگردانی این اثر، نویسندهٔ فیلم نامه، تهیهکننده و طراح صحنهی دلشدگان نیز بودهاست.
از آنجا که داستان فیلم دربارهٔ موسیقی ایرانی است، سرشار از صحنههایی است که به نوازندگی و فرهنگ اهالی موسیقی در دوران قاجار میپردازد.
این صحنهها با توانایی منحصر به فرد علی حاتمی در خلق فضاهای قدیمی همراه شدهاست.
همچنین میتوان موسیقی این فیلم را، که ساخته حسین علیزاده است، به عنوان یکی از نقاط قوت آن برشمرد.
این موسیقی با صدای آواز محمدرضا شجریان همراه شدهاست.
داستان فیلم دلشدگان
در زمان سلطنت احمد شاه، تاجری فرنگی به بهانه رونق فرهنگ و هنر قصد دارد با پرکردن چند صفحه از چند موسیقیدان ایرانی، ردیف های اصیل ایرانی را که در حال فراموشی است، از گزند گذر زمان حفظ کند.
به همین منظور از آقاحسین دلنواز خواسته می شود که جمعی از بهترین نوازندگان را انتخاب کند.
این قصد و برنامه سفر به فرنگ با مشکلاتی مواجه می شود.
اما استاد دلنواز خود تصمیم می گیرد این برنامه را عملی کند.
در فرنگ صدای دلنشین اهرخان خواننده گروه، هنگام تمرین، موجب شفای لیلا برادرزاده سفیر عثمانی می شود که در مجاورت باغ پانسیون گروه زندگی می کند.
هوای سرد و موذی فرنگ طاهرخان را که جسماً آدم ضعیفی است، دچار ذات الریه می کند.
آنها پس از اتمام کارهای ضبط صفحه، دچار مشکلات مالی شده مجبور می شوند برای جبران، کنسرتی برپا کنند.
در این سفر هر کس خاطرات گذشتهی خود را به نوعی مرور یا بازگو میکند.
سرانجام خوانندهٔ گروه دلباختهٔ شاهزادهٔ نابینای تُرک میشود و در غربت جان میسپارد.
بازیگران
امین تارخ اکبر عبدی جلال مقدم فرامرز صدیقی سعید پورصمیمی حمید جبلی محمدعلی کشاورز فتحعلی اویسی رقیه چهرهآزاد جمشید هاشم پور شهلا ریاحی لیلا حاتمی توران مهرزاد علی اصغر گرمسیری منصور والامقام سرور نجاتالهی
تماشای آنلاین فیلم دلشدگان
http://dl.iranidata.com/film/cinematic/irani/Del_Shodegan_1370_HQ_(www.IraniData.com).mp4
دانلود فیلم
نوشته دانلود فیلم دلشدگان ۱۳۷۰ اولین بار در دانلود فیلم های تاریخی در تاریخ ما. پدیدار شد.
source https://films.tarikhema.org/%D9%81%DB%8C%D9%84%D9%85-%D9%87%D8%A7%DB%8C-%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%DB%8C%D9%86%D8%A7%D9%85%D9%87-%D8%A7%DB%8C/delshodegan/Movies/1642.html
0 notes
Text
مظفرالدین شاه قاجار ،آخرین پادشاهی که در ایران مرد
مظفرالدینشاه قاجار پنجمین پادشاه ایران از دودمان قاجار بود مظفرالدین شاه قاجار دوران: ۱۲۷۵ تا ۱۲۸۵ خورشیدی تاجگذاری: ۱۲۷۵ خورشیدی، عمارت بادگیر تهران زادروز: ۵ فروردین ۱۲۳۲ زادگاه: تهران، ایران درگذشت: ۱۸ دی ۱۲۸۵ (۵۳ سال) محل درگذشت: تهران، ایران همسر : تاجالملوک امالخاقان، اشرف ملک خانم سرورالسلطنه، معصومه خانم نزهتالسلطنه، نورالدوله، دلپسند باجی معززالسلطنه، شرفالدوله، مهینالسلطنه، مهینالدوله دودمان قاجار: پدر ناصرالدینشاه مادر شکوهالسلطنه فرزندان: محمدعلی میرزا دین: اسلام، شیعه مظفرالدینشاه قاجار (زادهٔ ۵ فروردین ۱۲۳۲– درگذشتهٔ ۱۸ دی ۱۲۸۵) پنجمین پادشاه ایران از دودمان قاجار بود. وی پس از کشتهشدن پدرش ناصرالدینشاه و پس از نزدیک به ۴۰ سال ولایتعهدیِ، شاه شد و از تبریز به تهران آمد. در جریان جنبش مشروطه، برخلاف کوششهای صدراعظمهایش علیاصغرخان اتابک (اتابک اعظم) و عینالدوله، با مشروطیت موافقت کرد و فرمان مشروطیت را امضا کرد. او ده روز پس از امضای قانون اساسی درگذشت. او آخرین پادشاهی است که در ایران درگذشتهاست. مظفرالدینشاه در کربلا به خاک سپرده شدهاست. مظفرالدین شاه از میان دو برادر دیگر، مسعود میرزا و کامران میرزا، پس از فوت دو پسر فروغ السلطنه (جیران تجریشی) به ولایتعهدی برگزیده شد. به موجب قانون سلطنت قاجار، ولیعهد باید از تیره «دولو» قاجار و از همسری عقدی انتخاب می شد. اما ناصرالدین شاه برخلاف این قانون، نخست، قاسم میرزا پسر فروغ السلطنه را برای مقام سلطنت پس از خود برگزید اما او درگذشت و دوباره از روی علاقه به جیران تجریشی فرزند دیگر او را به ولایتعهدی برگزید که او هم درگذشت. با فوت این دو پسر، قانون سلطنت فقط با شرایط مظفرالدین شاه جور درمی آمد.
تابلوی مظفرالدین شاه اثر کمالالملک مسعود میرزا با آنکه بزرگ تر بود، از مادری غیرقاجاری و صیغه ای متولد شده بود. کامران میرزا نیز با آنکه از همسری عقدی و قاجاری (منیرالسلطنه) به دنیا آمده بود، چند ماهی از مظفرالدین میرزا کوچک تر بود. بنابراین ناصرالدین شاه، مظفرالدین میرزا را که کودکی 9 ساله، زردرو و بیمار بود، در سال 1277 به نیابت برگزید. او از شکوه السلطنه دومین زن عقدی ناصرالدین شاه در 14 جمادی الثانی 1269 ق در تهران به دنیا آمده بود. وی پسر چهارم ناصرالدین شاه و فرزند شکوه السلطنه بود. پس از این انتخاب به مدت 36 سال در دارالحکومه تبریز تمرین سلطنت کرد تا آنکه یک روز مانده به پنجاهمین سال سلطنت ناصرالدین شاه به طور ناگهانی وارد تهران شد. از دوران جایگیری مظفرالدینشاه در تبریز، که بنا بود آیین شهریاری را به ممارست بیاموزد، چیز زیادی گزارش نشدهاست؛ مگر آنکه بنابر بیشتر تاریخنویسان مشروطه، مردان ناشایست دورهاش کرده، سبب شدند که سادهدل و کمسواد بار آید. او شاهی مهربان و سادهدل بود و در دوران سلطنت او ایران با هیچ کشوری جنگ نکرد؛ اما در عین حال امتیازات فراوانی به بیگانگان داده شد.
همراه ملازمان وی قریب ۴۰ سال در شهر تبریز زندگی کرد تا اینکه پس از کشته شدن پدرش در سال ۱۲۷۵ خورشیدی، در سن ۴۴ سالگی به ��لطنت رسید. از زمان کشتهشدن ناصرالدین شاه تا جلوس مظفرالدین شاه به تخت سلطنت ۴۰ روز به طول انجامید و طی این مدت علیاصغر اتابک، آخرین صدراعظم ناصرالدین شاه، اداره امور کشور را به دست داشت. وی در عمارت بادگیر تاجگذاری نمود و دو ماه پس از جلوس وی میرزا رضای کرمانی، قاتل ناصرالدین شاه، در میدان مشق به دار آویخته شد. از رویدادهای مهم در دوران او، پیدایش نخستین «سینماتوگراف» است. صدای مظفرالدینشاه، که قدیمیترین سند صوتی ایران بهشمار میرود، هنوز هم موجود است.
سکهٔ طلای مظفرالدینشاه، ضرب سال ۱۲۷۵ خورشیدی حکومت مظفرالدین شاه در سال اول سلطنت خود امینالسلطان را از مقام صدارت عزل کرد و برای مدتی کوتاه کابینهای بدون صدراعظم تشکیل داد که در آن علیقلی مخبرالدوله وزیر داخله، عبدالحسین میرزا فرمانفرما وزیر جنگ و محسن مشیرالدوله وزیر امور خارجه بود. پس از چهار ماه مخبرالدوله به دلیل دخالتهای فرمانفرما در حوزهٔ اختیاراتش استعفا داد. مظفرالدین شاه نیز علی امینالدوله را از آذربایجان به تهران فراخواند و نخست او را رئیسالوزا (رئیس مجلس وزرا) و پس از چند ماه وزیر اعظم و سرانجام صدراعظم نمود، ولی امینالدوله که افکار تجددخواهی و غربگرایی داشت از ابتدای زمامداری خود با مخالفت علما مواجه شد و بعد از شش ماه از صدارت کنارهگیری کرد. مظفرالدین شاه پس از امینالدوله، محسن خان مشیرالدوله را به ریاست وزرا (ریاست مجلس شورای دولتی) انتخاب کرد، ولی منصب او هم بیش از سه ماه به طول نینجامید و مظفرالدین شاه مجدداً امینالسلطان را به صدارت برگزید. اولین همسر او امالخاقان دختر میرزا تقیخان امیرکبیر بود که محمدعلی شاه قاجار حاصل این ازدواج بود. به هنگام فوت مظفرالدین شاه از وی ۱۸ دختر و ۶ پسر به نام های محمدعلی میرزا، ملکمنصور میرزا شعاعالسطنه، ابوالفتح میرزا سالارالدوله، ابوالفضل میرزا عضدالسلطان، حسن علی میرزا نصرتالسلطنه و ناصرالدین میرزا ناصری باقی ماندند.
مظفرالدین شاه قاجار در روز ۱۸ دی ۱۲۸۵ در سن ۵۳ سالگی درگذشت سفر به اروپا مظفرالدین شاه مانند پدرش مشتاق سفر به اروپا بود و در روز ۲۳ فروردین ۱۲۷۹ (۱۲ ذیحجهٔ ۱۳۱۷ ه. ق) اولین سفر خود را به کشورهای اروپایی آغاز کرد. امینالسلطان، که در ۲۰ امرداد ۱۲۷۷ ه.خ. (پنجشنبه ۲۲ ربیعالاول ۱۳۱۶ ه.ق. ) برای دومین بار با وعدهٔ تأمین مخارج سفر شاه، به مقام صدارت منصوب شده بود، قراردادی برای دریافت ۲۳ میلیون و پانصد هزار روبل قرضه از روسیه امضا کرد و در ازاء آن عایدات گمرکات ایران را، که ممر اصلی درآمد خزانه بود، به وثیقه گذاشت. با دریافت این قرضه، مقدمات سفر مظفرالدین شاه به فرانسه فراهم شد. اولین سفر مظفرالدین شاه به اروپا هفت ماه به طول انجامید و در این مدت پنجمین پادشاه قاجار از کشورهای روسیه، اتریش، سوئیس، آلمان، بلژیک، فرانسه و در راه بازگشت از ترکیه (عثمانی) دیدن کرد. از وقایع مهم این سفر سوءقصد به جان مظفرالدین شاه در پاریس بود، که ضارب در کار خود توفیق نیافت و آسیبی به مظفرالدین شاه نرسید. دو سال بعد، وی پس از دریافت وام جدیدی به مبلغ ده میلیون روبل از روسیه و اعطای امتیازات تازهای در شمال ایران به روسها، عازم اروپا شد. دومین سفر مظفرالدین شاه به اروپا که در ۱۷ فروردین ۱۲۸۱ (۲۷ ذیحجهٔ ۱۳۱۹ ه. ق) آغاز شد شش ماه به طول انجامید و در این مدت مظفرالدین شاه از اتریش، آلمان، بلژیک، فرانسه، انگلستان و ایتالیا بازدید کرد. مقصد نهایی مظفرالدین شاه در این سفر انگلستان بود. مسافرت سوم شاه به اروپا روز ۱۶ خرداد ۱۲۸۴ (۱ ربیعالثانی ۱۳۲۳ ه. ق) آغاز شد و ۴ ماه (تا ۱۴ رجب ۱۳۲۳ ه. ق) به طول انجامید. این سفر نیز متعاقب دریافت یک وام ۲۹۰ هزار لیرهای از بانک شاهی انگلیس عملی شد. مشروطیت مظفرالدین شاه پس از بازگشت از سفر دوم خود، امینالسلطان را برکنار کرد و پس از یک سال، که هیئتی ۵ نفره مدیریت امور کشور را در دست داشت، دامادش عینالدوله را به عنوان صدراعظم منصوب کرد. عینالدوله برای تأمین هزینهٔ سفر سوم شاه، مسیو نوز بلژیکی، مدیر امور گمرکات ایران را مأمور افزایش درآمد گمرک کرد. افزایش تعرفهٔ گمرکی به تحصن تجار تهران در حرم عبدالعظیم انجامید.
مظفرالدین شاه پس از بازگشت از سفر دوم خود، امینالسلطان را برکنار کرد پس از بازگشت شاه، حوادث دیگری چون به چوب بستن تجار قند توسط احمد خان علاءالدوله (حاکم وقت تهران)، به تحصن بزرگتری در حرم عبدالعظیم در ۲۳ آذر ۱۲۸۴ با درخواست تأسیس عدالتخانه منجر شد. با قول شاه تحصن پایان یافت اما تعلل در برپایی عدالتخانه موجب تحصن علمای تهران در قم و افزایش خواستهها به عزل عینالدوله و برپایی دارالشورا شد. شاه نهایتاً عینالدوله را عزل و نصرالله مشیرالدوله را صدراعظم کرد. او یک سال پس از پایان سفر سوم خود، در روز ۱۳ مرداد ۱۲۸۵ در بستر بیماری فرمان مشروطیت را که متضمن ترتیبات تشکیل مجلس بود امضا کرد و روز ۱۴ مهر ماه همین سال اولین دورهٔ مجلس شورای ملی در حضور شاه افتتاح شد. مظفرالدین شاه نخستین قانون اساسی ایران را که در دورهٔ اول مجلس تنظیم شده بود، روز ۸ دی ۱۲۸۵ امضا کرد و ۱۰ روز بعد در ۱۸ دی ۱۲۸۵ درگذشت. با امضای فرمان مشروطیت که در تاریخ ۱۲۸۵ هجری خورشیدی، مادهتاریخ عدل مظفر که حروف ابجد آن برابر میشود با ۱۳۲۴ و در معنای عدالت مظفرالدین شاه است بر روی لوحهای نوشته شد و پس از برپایی مجلس شورای ملی بر سر آن جای گرفت. بدینسان نشانگر مشروطیت و یادآور نام پادشاه امضاکننده و نخستین پادشاه اجراکننده آن بود. مرگ مظفرالدین شاه قاجار سرانجام در روز ۱۸ دی ۱۲۸۵ در سن ۵۳ سالگی درگذشت و در کربلا به خاک سپرده شد. منبع: بیت��ته Read the full article
0 notes
Text
پارٹنر شپ...!
عبدالحامد خان کراچی پرل کانٹیننٹل میں ملازم تھے‘ تنخواہ اچھی تھی لیکن وہ مالدار نہیں تھے‘ تین بچے تھے‘ ایک بیٹا اور دوبیٹیاں۔ صاحبزادے کا نام سہیل خان تھا‘ سہیل خان نے 1984ء میں بی کام کیا اور یہ کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں ملازم ہو گئے‘ یہ وہاں تین سال کام کرتے رہے‘ سہیل خان نے نوکری کے دوران اپنا بزنس شروع کرنے کا فیصلہ کیا‘ نوکری کو خیرباد کہا‘ پچاس ہزار روپے اکٹھے کئے‘ نو سلائی مشینیں خریدیں اور یو اینڈ آئی کے نام سے گارمنٹس کا چھوٹا سا یونٹ لگا لیا‘ اللہ تعالیٰ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیااور یہ کامیاب ہونے لگے‘ یورپ اور امریکا کی گارمنٹس کمپنیاں اس وقت پاکستان سے ڈینم پینٹس بنواتی تھیں‘ سہیل خان نے ڈینم پینٹس بنانی شروع کر دیں اور یہ آہستہ آہستہ ملک کے بڑے ایکسپورٹرز میں بھی شمار ہونے لگے‘ سہیل خان نے 1990ء میں والد عبدالحامد خان اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو بھی کاروبار میں شامل کر لیا‘ یہ ترقی کے زینے چڑھتے چلے گئے‘ یہ 2000ء میں تبلیغی جماعت میں شامل ہو گئے اور یہ مولانا طارق جمیل کے ساتھ چلے بھی لگانے لگے‘ جنید جمشید بھی اس وقت تازہ تازہ مولانا کے حلقے میں شامل ہوئے تھے‘ وہ بھی چلے پر جاتے رہتے تھے‘ یہ دونوں تبلیغ کرنے کے اس دور میں ایک دوسرے کے دوست بن گئے‘ جنید جمشید نے اس زمانے میں اپنے نام سے گارمنٹس کا ایک برانڈ بنایا اور وہ برانڈ کُرتا کارنر کے حوالے کر دیا‘ جنید جمشید ملک کا بڑا نام تھے لیکن ان کا برانڈ مار کھا گیا‘ وہ مارکیٹ میں جگہ نہ بنا سکا‘ جنید جمشید مذہب کی طرف راغب ہو رہے تھے‘ وہ موسیقی چھوڑ کر اپنی باقی زندگی اللہ کے نام وقف کرنا چاہتے تھے مگر وہ روزگار کے خدشات کا شکار تھے‘ وہ گانا گانے کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے‘ وہ سمجھتے تھے’’ میں نے جس دن گانا چھوڑ دیا میں اس دن سڑک پر آ جاؤں گا‘‘ اور ان کا یہ خدشہ غلط بھی نہیں تھا‘ جنید جمشید نے 2002ء میں شعیب منصور کے ساتھ مل کر پیپسی کیلئے نیا البم بنانا تھا‘ پیپسی کے ساتھ کروڑوں روپے کا کانٹریکٹ ہو چکا تھا‘ وہ مختلف فورمز پر گانا گانے کے پیسے بھی وصول کر چکے تھے مگر انہوں نے جوں ہی داڑھی بڑھائی اور گانا گانے سے انکار کیا‘ ان کے سارے کانٹریکٹ منسوخ ہو گئے اور وہ ایک ہی رات میں عرش سے فرش پر آ گئے‘ بچے مہنگے سکولوں میں پڑھتے تھے‘وہ بچوں کو سکول سے اٹھانے پر مجبور ہو گئے اور گھر کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہو گیا‘ جنید جمشید کے بقول ’’میرے پاس اس زمانے میں والدہ کی دواء کیلئے سو روپے بھی نہیں تھے‘‘۔ان برے حالات میں سہیل خان ان کیلئے غیبی مدد ثابت ہوئے‘ جنید جمشید نے ایک دن مشورے کیلئے ان سے رابطہ کیا‘ لنچ پر ملاقات طے ہو گئی‘ جنید جمشید چھوٹی سی لیبل مشین لگانا چاہتے تھے‘ ان کی خواہش تھی وہ لیبل مشین لگائیں اور سہیل خان اپنے لیبلز کا ٹھیکہ انہیں دے دیں‘ سہیل خان نے بات سننے کے بعد جواب دیا ’’جنید بھائی ہم تیس پیسے کے حساب سے لیبل خریدتے ہیں‘ یہ کام آپ کے شایان شان نہیں ہو گا‘ آپ کو دو تین ہزا روپے کے آرڈرز کیلئے لوگوں کے دفتروں کے چکر لگانا پڑیں گے‘ آپ اس کے بجائے کوئی بڑا کام کریں‘‘ یہ بات جنید جمشید کے دل کو لگی‘ انہوں نے اپنے برانڈ پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا مگر ان کے پاس سرمایہ نہیں تھا چنانچہ انہوں نے سہیل خان کو پارٹنر شپ کی پیش کش کر دی‘ سہیل خان مان گیا اور یوں جنید جمشید نے گارمنٹس کا کام شروع کر دیا‘ سہیل خان نے طارق روڈ‘ گلشن اقبال اور حیدری میں تین دکانیں خریدیں ‘ اپنی فیکٹری کے اندر جنید جمشید کے نام کا ایک کارنر بنا یااور کام شروع کر دیا مگر برانڈ اس کے باوجود کامیاب نہ ہو سکا‘ جنید جمشید مایوس ہو کر گانے کی طرف واپس چلے گئے‘ داڑھی بھی صاف کرا دی اور اپنے پرانے معاہدے بھی تازہ کر لئے‘ یہ تبدیلی سہیل خان اور جنید جمشید کے معاہدے میں رکاوٹ بن گئی‘ کام تقریباً بند ہو گیا لیکن جنید جمشید جلد ہی واپس آ گئے‘کام دوبارہ شروع ہو گیا‘ سہیل خان نے یہ برانڈ اپنے بہنوئی محمود خان کی نگرانی میں دے دیا لیکن وہ بھی یہ کام نہ چلا سکے‘ برانڈ بری طرح پٹ گیا‘ جنید جمشید کا مالی بحران بڑھ گیا لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور جنید جمشید کا برانڈ تیزی سے ترقی کرنے لگا‘ کیسے؟ ہم اب اس طرف آتے ہیں۔ سہیل خان اور جنید جمشید مشکل دور میں مشورے کیلئے مولانا تقی عثمانی کے پاس چلے گئے‘ مولانا نے دونوں کی بات سنی اور فرمایا ’’میں تم دونوں کو کامیابی کا گُر بتا دیتا ہوں‘ آپ اس گُر کو پلے باندھ لو تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا‘‘ یہ دونوں مولانا صاحب کی بات غور سے سننے لگے‘ مولانا نے فرمایا ’’تم دو پارٹنر ہو‘ تم آج سے اللہ تعالیٰ کو اپنا تیسرا پارٹنر بنا لو‘ تم کامیاب ہو جاؤ گے‘‘ یہ بات دونوں کے دل کو لگی‘ یہ دونوں باہر نکلے اور ایک نیا کانٹریکٹ ڈیزائن کیا‘ جے ڈاٹ میں سہیل خان‘ جنید جمشید اور اللہ تعالیٰ تین پارٹنر ہو گئے اور یہ دونوں نہایت ایمانداری سے اپنے منافع کا تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے لگے‘ بس یہ اکاؤنٹ کھلنے اور تیسرے پارٹنر کی شمولیت کی دیر تھی ملبوسات کے ناکام برانڈ کو پہیے لگ گئے‘ یہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے کامیاب ترین برانڈز میں شامل ہو گیا‘ یہ لوگ شروع میں اپنے منافع کا تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کو دیتے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی پارٹنر شپ کا نتیجہ سامنے آنے لگا تو یہ لوگ اپنی سیل کا تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے لگے‘ یہ لوگ اپنے آؤٹ لیٹس سے جو کماتے تھے یہ اس کا تیسرا حصہ چپ چاپ اللہ تعالیٰ کے نام وقف کر دیتے تھے‘ اس نئے ارینجمنٹ نے ان پر برکتوں کے مزید دروازے کھول دیئے‘ ان کی ترقی اور منافع دونوں کے پہیے تیز ہو گئے اور یہ تمام ملکی برانڈز کو پیچھے چھوڑتے چلے گئے‘ جے ڈاٹ ملک کا سب سے بڑا برانڈ بن گیا‘ پاکستان میں اس وقت اس کے 65 آؤٹ لیٹس ہیں‘ ملک سے باہر 8 بڑے شو روم ہیں جبکہ جے ڈاٹ نے عالمی سطح پر دس فرنچائز بھی دے رکھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پارٹنر شپ نے جنید جمشید اور سہیل خان دونوں کی زندگی بدل دی‘ جنید جمشید اس کاروبار میں 25 فیصد کے شیئر ہولڈر تھے‘ یہ 25فیصد بھی بہت بڑی تھی‘ یہ رقم جنید جمشید کی ضرورت سے زیادہ تھی چنانچہ انہوں نے اس رقم کا بھی بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا‘ مساجد بنائیں‘ مدارس کو فنڈ کیا‘ بیواؤں اور یتیموں کو سپورٹ کیا اور وہ طالب علموں کو وظیفے بھی دینے لگے‘ وہ جوں جوں اللہ تعالیٰ کی پارٹنر شپ میں اضافہ کرتے چلے گئے اللہ تعالیٰ ان پر اپنے کرم کے دروازے کھولتا چلا گیا یہاں تک کہ مولوی جنید جمشید راک سٹار جنید جمشید سے زیادہ مقبول ہو گیا‘ وہ گانا گاتے تھے تو وہ مشہور تھے‘ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے پر چل پڑے تو وہ باعزت شخصیت بن گئے‘ وہ گلوکار تھے تو لوگ ان سے آٹو گراف لیتے تھے‘ وہ مولوی بنے تو لوگ ان کے ہاتھ چومنے لگے اور وہ سٹار تھے تو وہ پیسے کے پیچھے بھاگتے تھے‘ وہ اللہ والے ہوئے تو پیسہ ان کے تعاقب میں دوڑ پڑا‘ سہیل خان کی دنیا بھی بدل گئی‘ یہ اللہ تعالیٰ کو پارٹنر بنا کر مٹی کے جس ڈھیر کو ہاتھ لگاتے ہیں وہ سونا بن جاتا ہے اور یہ جس پراجیکٹ میں اللہ تعالیٰ کو شامل نہیں کرتے وہ منصوبہ کثیر سرمایہ کاری اور ماہر ترین ٹیم کے باوجود بیٹھ جاتا ہے‘ یہ تجربہ حیران کن تھا چنانچہ سہیل خان نے اپنے ہر کاروبار میں اللہ تعالیٰ کو پارٹنر بنا لیا‘ اللہ تعالیٰ ان کے بعض بزنس میں دوسرا پارٹنر ہے اور بعض میں تیسرا چنانچہ ان کے تمام کاروبار دن رات دوڑ رہے ہیں‘ پارٹنر شپ کا یہ فارمولہ سہیل خان کی زندگی کا اتنا بڑا حصہ ہے کہ انہوں نے گھر میں چندے کا ایک باکس رکھا ہوا ہے‘ خاندان کا جو بھی فرد گھر سے باہر جاتا ہے وہ اس باکس میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتا ہے اور یہ باکس بعد ازاں ضرورت مندوں کی جھولی میں خالی کر دیا جاتا ہے‘ یہ باکس اب سہیل خان کے خاندان کا حصہ بن چکا ہے۔ مجھے جنید جمشید کی مقبولیت کے پیچھے ان کی قربانی دکھائی دی اور خوشحالی کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی پارٹنر شپ‘ جنید جمشید نے اللہ تعالیٰ کیلئے شہرت کو ٹھوکر ماری تھی‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت دونوں میں عزت سے نواز دیا اور جنید جمشید نے اپنے کاروبار میں اللہ تعالیٰ کو پارٹنر بنا لیا تھا اللہ تعالیٰ نے انہیں مال و دولت سے رنگ دیا‘ یہ ملک کے خوشحال ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے‘ کاش جنید جمشید کی زندگی اور موت ہماری آنکھیں کھول دے‘ کاش ہم جنید جمشید کی طرح اللہ تعالیٰ کیلئے شہرت بھی قربان کر دیں اور اللہ تعالیٰ کو اپنا پارٹنر بھی بنا لیں اور اللہ تعالیٰ جواب میں ہماری زندگیاں بھی بدل دے‘ مجھے یقین ہے ہم نے جس دن یہ کیا‘ ہم اس دن خوشحال بھی ہو جائیں گے اور باعزت بھی‘ کیوں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کبھی یہ گوارہ نہیں کرتی دنیا کا کوئی شخص اس کے نام پر شہرت قربان کرے اور یہ اسے بدلے میں عزت نہ دے اور کوئی شخص اسے اپنا بزنس پارٹنر بنائے اور اسے اس کے بعد کاروبار میں نقصان ہو جائے‘ بے شک اللہ تعالیٰ کائنات کا سب سے بڑا غیرت مند پارٹنر ہے‘ یہ اپنے پارٹنر کو کبھی نقصان نہیں ہونے دیتا۔
0 notes
Photo
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا ہماری بادہ نوشی پر فرشتے رشک کرتے ہیں کسی کے سنگِ در کو چومنا مخمور ہو جانا بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہو جانا قدم ہے راہِ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہو جانا نظر سے دور رہ کر بھی تقؔی وہ پاس ہیں میرے کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہو جانا۔ مفتی تقی عثمانی صاحب https://www.instagram.com/p/CTSf6Ayqomh/?utm_medium=tumblr
0 notes