#مسلمان، الحمد للہ ،
Explore tagged Tumblr posts
omega-news · 2 years ago
Text
پنجاب میں نکاح کیلئے ختم نبوت کے حلف نامے پر دستخط کرنا لازمی
پنجاب میں نکاح کیلئے ختم نبوت کے حلف نامے پر دستخط کرنا لازمی
پنجاب میں نکاح کے لیے ختم نبوت کے حلف نامے پر دستخط کرنا لازمی قرار دے دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ نے نکاح کے لیے ختم نبوت پر ایمان کے حلف والے نئے فارم استعمال کرنے کی ہدایت کر دی۔ انہوں نے کہا ہے ہ نکاح نامے میں ختم نبوت پر ایمان کا حلف شامل ہونے پر قوم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا ہے کہ نکاح کے وقت دلہا اور دلہن کے لیے ختم نبوت کے حلف نامے پر دستخط کرنا لازمی ہوگا اور نکاح…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
kishmishwrites · 3 years ago
Text
کیا گورے واقعی ملاوٹ نہیں کرتے؟
برصغیر کے لوگ صدیوں سے انگریز راج آنے تک ملاوٹ کے مفہوم سے  نا آشنا تھے۔ گھروں میں دیسی گھی، گڑ، شکر، لسی، دودھ، مکھن، دیسی مرغیاں، دیسی انڈے، بکرے، دنبے وغیرہ کا گوشت استعمال کیا جاتا تھا۔۔ نہانے کے لیے کالا صابن ہوتا تھا۔۔ برتن دھونے کے لیے مٹی، ریت اور کالا صابن استعمال ہوتا تھا۔۔ یہ برصغیر کا حقیقی چہرہ تھا۔۔ یہی یہاں کا معیار تھا اور یہی رواج بھی۔۔ پھر بھوکے ننگے، لالچی، چور ذہن انگریز میدان میں آئے۔ تب "مصنوعات" کا رواج نکلا. "مصنوعات" کیا تھیں۔"مصنوعی" چیزیں. انسانی تخلیق۔ مقصد صرف پیسہ کمانا تھا استعماریت اور سرمایہ کاری تھا۔۔ جو آج پوری دنیا کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں ان عالمی جعل سازوں نے "ولایتی" کونسیپٹ متعارف کرایا۔۔ بالکل ایسے جیسے آج ہر دو نمبر اور گھٹیا پروڈکٹ کو "چائنہ" کہہ لیا جاتا ہے۔۔ دیسی گھی کے مقابلے میں ولائتی گھی آگیا۔۔ کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کا تحفہ انہی انگریزوں کی کرم نوازی ہے۔۔ دیسی مشروبات (ستو، لسی، دودھ) وغیرہ کے مقابلے میں ولائتی کیمیکل ملے مشروبات (کوکا کولا، سیون اپ) وغیرہ انہی انگریزوں کا تحفہ ہےجو ملاوٹ نہیں کرتے۔ برصغیر میں چائے بھی انگریز نے متعارف کروائ یہ اب ہمارے لئے ایک نشہ بن چکی ہے کہ جس کے بغیر زندگی گزارنی مشکل ہو گئ ہے۔   گڑ ،شکر کے مقابلے میں گنے کے رس میں مضر صحت کیمیکل کی ملاوٹ سے چینی بنا کر عوام کو اس طرف لگا دیا گیا۔ پوری قوم کو ذیابیطس مبارک ہو انگریز ملاوٹ نہیں کرتا۔ دودھ خالص ہوتا تھا اور دودھ سے بنی تمام اشیاء بھی۔۔ نیسلے کمپنی (ان کی ہے جو ملاوٹ نہیں کرتے) نے جعلی دودھ متعارف کرایا۔۔ الحمد للہ کیمیکل ملا دودھ ساری دنیا کو بیچنے کا سہرا اسی کمپنی کے سر ہے جو ملاوٹ نہیں کرتی۔ سچ کہوں تو بہت ساری پروڈکٹ جن کو دودھ کہا جاتا ہے ان میں دودھ نام کی سرے سے کوئی چیز نہیں ہوتی۔ شکر ہے عدالت نے پابندی لگائی اور اب ٹی وائٹنر وغیرہ لکھنے لگے ہیں۔ علاج معالجہ طبیب ہی کرتے تھے جس سے انسان واقعی تندرست بھی ہو جاتا تھا۔۔ انہی عالمی جعل سازوں نے انگریزی کیمیکل ملی ادویات متعارف کرائیں جن سے انسان روز بروز نت نئی بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے۔۔ جب سے انگریزی ادویات کا دور دورہ ہوا ہے شاید ہی کوئی انسان روئے کائنات پر صحت مند بچا ہو۔۔ مقصد کیا تھا۔۔ صرف اور صرف پیسہ کمانا۔۔ آج بیماریوں کا یہ عالم ہے کہ ہر گھر میں ہزاروں کی ادویات جا رہی ہیں اور صحت مند پھر بھی کوئی نہیں ہو رہا۔۔۔  لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ انگریز ملاوٹ نہیں کرتا۔۔ ملاوٹ والی ساری اشیاء مسلمانوں کی ہیں۔۔ حضرات ذی وقار۔۔ انگریز مضر صحت کیمیکلز سے کیا کیا بنا کر بیچ رہا ہے زرا ایک نظر ادھر کیجیے۔  دودھ، مکھن، گھی، آئس کریم، خشک دودھ، کیچپ، چینی، رنگ برنگی فوڈ آئٹمز، مشروبات، ڈبے والے جوس، کاسمیٹکس، میڈیسن، پھلوں کو پکانے کیلیے رنگ برنگے کمیکل۔۔۔ اور جانے کتنی لمبی لسٹ ہے جس کا احاطہ کرنا شاید بس سے باہر ہے۔۔لیکن ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔۔ یعنی حد ہے ذہنی غلامی کی۔۔ دوسری  اہم  چیز انہوں نے سب سے بڑا کمال یہ کیا کہ مذہب میں بھی ملاوٹ کر دی۔خلافت کی جگہ جمہوریت۔بریلوی دیوبندی شیعہ ۔جیسے مسالک ایجاد کیے ۔جہاد کو ختم کرنے کیلے قادیانیت کا پودا کاشت کیا وحدت امت  مسلمہ کو  وطنیت کے  زہر سے بدل کر اسکی  جنس ہی بدل دی اصل  تعلیم کی بجائے لارڈ میکالے کا  طرق  تعلیم  نافذ کیا اور مسلمانوں کو  نا تین میں نا تیرہ میں کردیا مسلمان بے چارہ زیادہ سے زیادہ کیا ملاوٹ کرلے گا۔۔ مرچ میں برادہ پیس لے گا۔۔ دودھ میں پانی ڈال لے گا۔۔ چائے کی پتی میں باتھو پیس لے گا۔۔ اصل چور تو یہ ہیں جو سرمائے کی آڑ میں شیمپو، صرف، صابن سے لے کر روزمرہ استعمال کی ہر چیز میں مضر صحت کیمیکلز کا دھڑا دھڑ استعمال کر رہے ہیں اور الزام جب بھی لگتا ہے بے چارے سازش کا شکار مسلمانوں پر لگتا ہے جن کی بے ایمانی بھی بڑی محدود سی ہے۔۔ براہ کرم ذہنی غلامی سے نکلیں اور خود کو درست کریں۔۔ ملاوٹ، جھوٹ، دھوکہ جیسی چیزیں ہمارا ورثہ نہیں ہیں۔۔ یہ معصوم صورت عیاروں کی چالیں ہیں جو دنیا بھر کو رنگی برنگی مصنوعات کے نام پر  مضر صحت کیمیکل بیچنے میں مصروف ہیں
5 notes · View notes
rbu-urdu-islamic-posts · 4 years ago
Text
روح قربانی
از نوید الطاف خان
لیکچرر دعوۃ اکیڈمی
ــــــــــــــــــــــــ
قرآن کریم کی سورہ انفال کی آیت نمبر162، 163 میں اللہ تبارک وتعالی نے نبی اکرم ﷺ کو حکم فرمایا ہےکہ اے نبی کہہ دیجئے بے شک میری نماز، میری قربانی ، میرا جینا اور میر امرنا اللہ کےلیے ہےجو تمام جہانوں کا پالنے والے ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں،اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں اولین مسلمانوں میں سے ہوں۔
ان دو آیات میں امت کو جس اہم ترین نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اعمال کے اچھے اور بُرے ہونے کا معیار حکم الٰہی اور رضائے الٰہی ہے۔ وہی عمل اللہ جل جلالہ کے نزدیک اچھا ہو گا جسے اس نے اچھا قراد دیا ہو اور وہی اس کے نزدیک قابل قبول ہوگا جو اس کی رضا کے لیے کیا گیا ہوگا۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی کام، کسی بھی نیت سے کیا گیاہو اور بظاہرعقل کے معیار پر پورا اترنے والا اور دل کو بہانے والاہو،اللہ کے ہاں بے وقعت ہی کہلائے گا۔ اسی لیے اللہ پاک نے نبوت کی زبان سے کہلوایا کہ انسان کی نماز اللہ کے لیے ہونی چاہیے ، اس کی قربانی بھی اللہ کے لیے ہونی چاہیے ۔ بلکہ اس کا جینا اوراس کا مرنا بھی اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔
اسی طرح اللہ پاک نے سورۃ الکوثر میں نبی اکرم ﷺ کو کچھ اس طرح حکم دیا ہے:
اے نبی ﷺ ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی ۔ اس لیے اپنے رب کی رضا کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔ بے شک تمہارا دشمن ہی نے نام و نشان ہے۔
گویا خود نبی آخرالزماں کی زندگی میں بھی دو اہم ترین اعمال اور اس کی بنیاد پر دین و دنیا میں سربلندی کے اسباب بتائے گئے ہیں اور وہ اللہ پاک کی رضا کے لیے نماز کا پڑھنا اور اس کی رضا کے لیے قربانی کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں دشمنان اسلام کو خواہ کتنا ہی عارضی عروج نصیب ہو وہ بالآخر بے نام و نشان ہی ہیں۔نیک نامی اور نیک شہرت صرف ان لوگوں کو ہی حاصل ہو گی جو نما ز کے ساتھ ساتھ قربانی کو دینی فریضہ کےطور پر اپنائیں۔
اصل زندگی یہی ہے کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ وحدہ لاشریک کی رضا کی طلب کے لیے خاص کر دیا جائے۔زندگی کو اس اصول پر گزارنے کی ایک عملی مثال حضرت ابراہیم علیہ السللام کی سیرت مبارکہ ہے۔ انہوں نے سب کچھ اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا۔ پیدائش ہوئی تو بت فروش باپ کے گھر میں۔ جب ایمان نے اس بندئے مؤمن کےدل میں گھر کیا تو والد کے دل میں اس نور کوروشن کرنے کے لیے تگ ودو اور دعا کرنی شروع کی۔ جب والد نہ مانا تو احترام کے ساتھ،اسے اپنے رب کی رضا کے مقابلےمیں قربان کریا اور اس سے اپنی راہیں جدا فرمالیں ۔ اس کے بعد اپنی قوم کو ایمان و توحید کی طرف بلایا۔ اور انہیں سبق سکھلانے کے لیے ان کے خود ساختہ خداؤں کو توڑ دیا اور کلہاڑی ان کے سب سےبڑے بت کے گردن میں رکھ دی۔ اس کے بعد بادشاہ وقت نمرود کے ساتھ علی الاعلان مناظرہ کیا اور اسے لا جواب کرنے اور ماضی کی مخالفت کی وجہ سے آگ میں جھونک دیئے گئے۔ گویا اس دفعہ اپنی جان اللہ کے حضور قربان کرنے کے لیے پیش کر دی۔ مگر اللہ کے حکم سے آگ گل و گلزار بن گئی۔ آگے اپنے وطن سے ہجرت کرلی ۔ اب وطن اپنے رب کے لیےقربان کر دیا۔
بڑھاپے کی عمر میں اللہ پاک نے بیٹے کی نعمت سے نوازا تو حکم ہوا کہ انہیں ان کی والدہ سمیت بے آب وگیا ہ میدان یعنی مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر واپس فلسطین چلے جاؤ۔ گویا اس دفعہ اپنی بیوی اور بالکل چھوٹے بچے کو اللہ کے لیے ایک چھوڑ دیا۔
اور اس کے بعد جب بیٹا کچھ بڑا ہوا تو خواب کے ذریعے سے حکم ہوا کہ اسے میری رضا کے لیے ذبح کرکے قربان کر دو ۔ چنانچہ اس کے لیے بھی تیار ہوگے۔اپنی سعادت مند بیوی اور بیٹے کو حکم الٰہی سے آگاہ کرنے کے بعد چھری لے کر انہیں بھی اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کے لیے کمر کس لی ۔ مگر اللہ پاک کو کچھ اور منظور تھا۔چنانچہ سامنے حضرت اسماعیل کی جگہ جنت سے لایا گیا ایک ذبح شدہ مینڈھاپڑا تھا۔
یہ ہے وہ اصل حقیقت اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کی راہ میں قربانیوں کی داستان جس کی بدولت نہ صرف یہ کہ اللہ پاک نے ان کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشا بلکہ رہتی دنیا تک اپنے بندوں کے لیے یہ لازم قرار دیا کہ کہ اس خاص دن یعنی ۱۰ ذی الحجۃ کو ان کی یاد میں مخصوص قسم کے جانوروں قربان کرکے اللہ کی رضا اور خوش نودی حاصل کی جائے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس دن جانور کو ذبح کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل زیادہ افضل نہیں۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم، إنه ليأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها، وأن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع من الأرض، فطيبوا بها نفسا
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ یوم النحر کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل عمل جانور کا خون بہانا ( یعنی اسے قربانی کے لیے ذبح کرنا) ہے۔ یقینا یہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں، ناخنوں کے ساتھ آئے گا، اور یہ خون اللہ کے ہاں (شرف قبولیت کو)پہنچ جاتا ہے قبل اس کے کہ زمین کو لگے۔ چنانچہ خوش دلی سے جانور قربان کرو۔)
اس حدیث مبارکہ میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ :
اس دن جانور ذبح کرنےسے بڑھ کر اللہ کی رضا حاصل کرنے والا عمل کوئی نہیں۔
یہ عمل اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ امر تعبدی ہے۔
قربانی سے جڑی ایک ایک چیز یہاں تک کہ جانور کے بالوں، ناخنوں کی بھی اللہ کے ہاں بڑی قدر ہے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ جو آدمی استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔
یعنی ایسے آدمی کا مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور خوشی سےکوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ایسا آدمی اس قابل ہے کہ وہ اس قسم کی اجتماعیت کا حصہ ہو۔
الغرضعید الاضحیٰ کا اصل مقصد دراصل حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کی انہی قربیوں کو دیا رکھنا ہے۔اورذی الحجہ کے دس ایام میں بالعموم اور عید الاضحٰی کے دن بالخصوص ان کے اس عمل یعنی اللہ پاک کی راہ میں بیٹے کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے اوراس کام کی عظمت کو دل میں لاتے ہوئے ،جانور ذبح کیا جائے۔
اس لیے ایسی سوچ یا آواز کہ" قربانی کی جگہ اگر کسی انتہائی غریب و نادار لوگوں کی مدد کی جائے تو شاید زیادہ اچھا ہو سکتا ہے۔" میں سوائے شیاطانیت کے کچھ نہیں۔ قربانی دراصل ایک مسلمان کو ایمان کے اندر پختہ کرنے کا مرحلہ ہے۔ اور اللہ کی رضا کے لیے اپنا سب کچھ، اپنا تن، من ، تھن، اپنے قریبی رشتہ دار، اپنا وطن حتی کہ اپنی اولاد کو قربان کرنےکے تصور کو اجاگر کرنا ہے۔
ایک لمحہ کے لیے سوچئے کہ صرف عید الاضحٰی کےوقت ہی کیوں غریب یاد اور ان کی ہم دردی جاگ جاتی ہے۔اگر فرض کیا یہ عملِ قربانی نہ ہوتا تو کیا غریب اور ان کی ضرورتیں ہی ختم ہو جاتیں؟ کیا غیر اسلامی دنیا میں جہاں یہ مبارک عمل نہ ہوتا تو اس کے بجائے اتنی مقدار کے برابر رقم غریبوں کے لیے مختص ہے؟کیا وہاں غریب ختم ہوگئے؟اسی طرح اسلامی دنیا میں دیگرسرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کئے جانے والے غیر ضروری اخراجات کے بجائے غربت کو مٹانے کے لیے رقم مختص کیوں نہیں کی جاتی؟ اور کیا اس پورے مرحلے میں رونما ہونے والی معاشی سرگرمیوں سے غریبوں کو فائدہ نہیں ہوتا؟
حقیقت میں بات صرف یہ ہے کہ اس علامت ِدین اور سنتِ ابراہیمی جو بنیادی طور پر مظہر رضا باری تعالیٰ اور پہچان توحید باری تعالیٰ ہے، یہ ان لوگوں کو برداشت نہیں جو دلوں میں مادہ پرستی،نفس ، ہوس اور شیطان پرستی کے بت بنائے بیٹھے ہیں۔ اور اس عمل سے ان آباد اور سجے کمروں میں بت شکنی ہوتی محسوس ہوتی ہے۔مگر
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم آذان، لا الہ الا اللہ
اسی طرح قربانی کے اندر اصل صرف یہ نہیں کہ آدمی بس حصہ کے بقدر روپے پیسے دے دے اور اپنے حصے کا گوشت لے کر تقسیم کر دےبلکہ اس عمل میں حتی الامکان خود اور اپنی اولاد کو شریک رکھنا چاہیے اورحضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کی قربانیوں کا احساس رکھ کر جانور قربان کرے۔
بعینہ اس مبارک عمل کو سرکاری تحویل میں لینے کی تجاویز بھی اصل مقصد سے توجہ ہٹانا اوراس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش ہو سکتیں ہیں۔سرکار کے ذمہ کو جو ضروری کام ہے وہ ہی کسی درجہ میں کرلے تو عوام اس کے شکر گذار ہوں گے۔ قربانی اہل ایمان خود ہی کرلیں گے ۔
کیا سرکار بنیادی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہ ہو چکی کہ یہ اضافی ذمہ داری اس پر سونپی جائے؟ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ سرکاری سطح پر جمع ہونے والی زکاۃ پر عوام کا کتنا اعتماد ہے اور لوگ کیوں رمضان آنے سے پہلے بینکوں سے رقم نکال لیتے ہیں یا پھر باقاعدہ طور پر بینک کو خود بخود زکاۃ کی رقم کاٹنے سے منع کر دیتے ہیں؟ حالانکہ یہی لوگ خود زکاۃ ادا کرتے بھی ہیں اور ایک عرصہ سے پاکستان دنیا میں زکاۃ و صدقات دینے والے ممالک میں الحمد للہ سر فہرست ہ��۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قربانی کواس کے مقاصد کے روشنی میں کرنے کی توفیق دے ۔ امین
1 note · View note
warraichh · 3 years ago
Text
جا وید چوہدری
”مائی نیم از جینا“ خاتون نے فلائیٹ ہموار ہوتے ہی اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا‘ میں نے کتاب بند کی اور اس کے ساتھ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا‘ خاتون بزرگ تھی‘ عمر ساٹھ اور ستر کے درمیان ہو گی‘ وہ شکل سے پڑھی لکھی اور سمجھ دار بھی دکھائی دیتی تھی‘ ��س نے کتاب کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ”کیا یہ عربی کی کتاب ہے“ میں نے مسکرا کر جواب دیا ”نہیں‘ یہ اردوزبان کی کتاب ہے“ وہ مسکرائی‘ اپنا ہاتھ دوبارہ میری طرف
بڑھایا‘ ملایا اور دیر تک جھلا کر بولی ” تم پاکستانی ہو“ میں نے گرم جوشی سے جواب دیا ”الحمد للہ“ وہ حقیقتاً خوش ہو گئی‘ فلائیٹ لمبی تھی چنانچہ ہم دیر تک گفتگو کرتے رہے‘ پتہ چلا جینا امریکن
ہے‘ تاریخ کی استاد ہے‘ وہ طالب علموں کو ”عالمی تنازعے“ پڑھاتی ہے چنانچہ وہ مسئلہ کشمیر سے اچھی طرح واقف ہے‘ وہ قائداعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی دونوں سے بہت متاثر تھی‘ اس نے مجھ سے پوچھا ”کیا تم نے گاندھی کو پڑھا ہے“ میں نے جواب دیا ”جی ہاں میں نے گاندھی کی آٹوبائیو گرافی بھی پڑھی اور ان کے سات سماجی گناہوں کا مطالعہ بھی کیا“ جینا نے مجھ سے گاندھی کے سات سماجی گناہوں کے بارے میں پوچھا‘ میں نے عرض کیا ”پوپ گریگوری اول نے 590ءمیں سات خوفناک گناہوں کی فہرست جاری کی تھی‘ ان کا کہنا تھا انسان کو سات گناہ ہوس‘بسیار خوری ‘لالچ ‘کاہلی ‘شدید غصہ ‘حسد اورتکبر  ہلاک کر دیتے ہیں‘ انسان اگر ان سات گناہوں پر قابو پا لے تو یہ شاندار‘ بھرپور اور مطمئن زندگی گزارتا ہے‘ گاندھی جی نے پوپ گریگوری کے سات گناہوں کی فہرست سے متاثر ہو کر 1925ءمیں سات سماجی گناہوں کی فہرست جاری کی‘ ان کا کہنا تھا جب تک کوئی معاشرہ ان سات گناہوں پر قابو نہیں پاتا وہ معاشرہ اس وقت تک معاشرہ نہیں بنتا‘ گاندھی جی کے بقول اصولوں کے بغیر سیاست گناہ ہے‘ کام کے بغیر دولت گناہ ہے‘ ضمیر کے بغیر خوشی گناہ ہے‘ کردار کے بغیر علم گناہ ہے‘
اخلاقیات کے بغیر تجارت گناہ ہے‘ انسانیت کے بغیر سائنس گناہ ہے اور قربانی کے بغیر عبادت گناہ ہے‘ یہ سات اصول بھارت کےلئے گاندھی کا سماجی ایجنڈا تھا“ وہ مسکرائی‘ مجھے تھپکی دی اور پھر پوچھا ”کیا تم قائداعظم محمد علی جناح کے سات اصول بھی بیان کر سکتے ہو“ میں نے مسکرا کر جواب دیا ”قائداعظم پریکٹیکل بااصول انسان تھے‘ وہ فرمودات پر یقین نہیں رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے زندگی میں قوم کو کوئی تحریری ایجنڈا نہیں دیا تھا“ وہ میری طرف دیکھتی رہی‘
میں نے عرض کیا” گاندھی اور قائداعظم میں فرق تھا‘ گاندھی فلاسفر تھے اور قائداعظم پریکٹیکل انسان تھے‘ وہ کہنے کی بجائے کرنے پر یقین رکھتے تھے چنانچہ ہمارے پاس اقوال سے زیادہ قائداعظم کی مثالیں موجود ہیں“ میں خاموش ہو گیا‘ وہ بولی ”میں وہ مثالیں سننا چاہتی ہوں“ میں نے عرض کیا ”مثلاً قائداعظم نے پوری زندگی وقت کی پابندی کی‘ پوری زندگی قانون نہیں توڑا‘ پوری زندگی اقرباءپروری نہیں کی‘ پوری زندگی رشوت دی اورنہ لی‘
پوری زندگی اپنے مذہبی رجحانات کی نمائش نہیں کی( وہ سنی تھے‘ وہابی تھے یا پھر بریلوی قائد نے پوری زندگی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی)‘ پوری زندگی وعدے کی پابندی کی‘پوری زندگی کوئی سمجھوتہ نہیں توڑا‘ پروٹوکول نہیں لیا‘ سرکاری رقم نہیں کھائی‘ ٹیکس نہیں بچایا‘ آمدنی نہیں چھپائی‘ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا‘ کسی کا حق نہیں مارا اور پوری زندگی کسی شخص کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی“۔وہ مسکرا کر بولی ”ویل ڈن‘ آپ ٹھ��ک کہہ رہے ہیں‘ وہ واقعی بہت شاندار انسان تھے‘
میں ان سے بہت انسپائر ہوں“ وہ رکی اور پھر آہستہ سے بولی ”میں اگر آپ سے مزید سوال پوچھ لوں تو آپ مائینڈ تو نہیں کریں گے“ میں نے مسکرا کر جواب دیا” نہیں ضرور ضرور پوچھیں‘ میں حاضر ہوں“ وہ بولی ”کیا آپ قائداعظم سے محبت کرتے ہیں“ میں نے فوراً جواب دیا ”دل و جان سے“ وہ بولی ”آپ پھر بتائیے آپ میں اپنے قائداعظم کی کون کون سی خوبی موجود ہے“ میرے لئے یہ سوال غیر متوقع تھا‘ میں پریشان ہو گیا اور میں پریشانی میں دائیں بائیں دیکھنے لگا‘
وہ شرمندہ ہو گئی اور آہستہ آواز میں بولی ”آپ یہ چھوڑ دیں‘ آپ صرف یہ بتائیں آپ کی قوم نے اپنے قائد کی کون کون سی خوبی کو اپنی ذات کا حصہ بنایا“ میں مزید شرمندہ ہو گیا‘ میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ وہ مسکرا کر بولی ”میں تاریخ کی طالب علم ہوں‘ میں اسلام سے بھی انسپائر ہوں‘ میں آدھی اسلامی دنیا دیکھ چکی ہوں‘ آپ مسلمان دو عملی (منافقت) کا شکار ہیں‘ آپ لوگ ہمیشہ نبی اکرم کو اپنا ہیرو کہتے ہیں‘ آپ ان کے خلفاءاور صحابہؓ کو بھی آئیڈیل کہتے ہیں لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو آپ ان کی کوئی ایک خوبی بھی ”اڈاپٹ“ نہیں کرتے‘
آپ میں آپ کے آئیڈیلز کی کوئی خوبی نظر نہیں آتی‘ آپ لوگ قائد اعظم جیسی شخصیات کے بارے میں بھی اسی طرز عمل کا شکار ہیں‘ آپ نے قائداعظم کو نوٹ پر چھاپ دیا‘ آپ ہر فورم پر ان کی عزت بھی کرتے ہیں اور آپ ان کےلئے لڑنے مرنے کےلئے بھی تیار ہو جاتے ہیں لیکن جب ان جیسا بننے کی باری آتی ہے تو آپ دائیں بائیں دیکھنے لگتے ہیں چنانچہ میرا مشورہ ہے آپ اگر اسلام پھیلانا چاہتے ہیں تو آپ رسول اللہ ﷺ جیسی عادتیں اپنا لیں اور آپ اگر پاکستان کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ قائداعظم کے اصولوں پر عمل شروع کر دیں‘
آپ کا ملک یورپ سے آگے نکل جائے گا“ وہ رکی اور نرم آواز میں بولی ”میں اپنی ہر پہلی کلاس میں طالب علموں سے ان کے آئیڈیلز کے بارے میں پوچھتی ہوں‘ یہ جب اپنے اپنے آئیڈیلز بتا دیتے ہیں تو پھر میں ان سے پوچھتی ہوں آپ وہ خوبیاں گنوائیں جو آپ نے اپنے آئیڈیلز سے متاثر ہو کر اپنی زندگی میں شامل کیں‘ زیادہ تر طالب علموں کا رد عمل آپ جیسا ہوتا ہے‘ میں پھر ان کو بتاتی ہوں میں اس وقت تک آپ کے آئیڈیل کو آئیڈیل نہیں مانوں گی جب تک آپ کی زندگی میں ان کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی‘
آپ اگر دل سے اپنے آئیڈیلز کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں تو پھر آپ میں اس کی عادتیں موجود ہونی چاہئیں ورنہ آپ منافق ہیں اور میں نے زندگی میں کسی منافق کو کبھی مطمئن اور اچھی زندگی گزارتے نہیں دیکھا“ وہ رکی اور بولی ”آپ یقین کریں میرے کورس کے آخر میں پوری کلاس اپنے اپنے آئیڈیلز جیسی ہو چکی ہوتی ہے‘ آپ بھی اپنی قوم کو ٹریننگ دیں‘ آپ انہیں بتائیں یہ اگر واقعی قائداعظم سے محبت کرتے ہیں تو پھر یہ قائداعظم جیسے ہو جائیں ‘آپ لوگوں کا ملک قائداعظم کا ملک ہو جائے گا“۔
میرا سفر ختم ہو گیا لیکن جینا سے سیکھا ہوا سبق کبھی ختم نہیں ہوگا‘ میں روز صبح اٹھتے وقت اپنے آپ سے کہتا ہوں ”میں نے کل کا دن بھی قائداعظم کے بغیر گزار دیا‘ کیا میں آج بھی اپنی زندگی میں قائداعظم کا کوئی اصول شامل نہیں کروں گا“ مجھے شرمندگی ہوتی ہے لیکن پھر اس کے ساتھ ساتھ نیا عزم‘ نیا جوش بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ہمارے ملک کے تمام سیاستدانوں کا یہ المیہ رہا‘ انہوں نے زندگی بھر قائداعظم کو نوٹ اور مزار سے باہر نہیں آنے دیا‘ یہ 25 دسمبر‘ 23 مارچ اور14 اگست کو قائداعظم کے نام پر ایک گھسا پٹا بیان جاری کردیتے ہیں اور بس‘
انہوں نے کبھی قائداعظم کی ذات اور حیات میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی اور یہ وہ سیاسی منافقت ہے جس نے ہمارے سیاستدانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا‘ یہ آج ملک کے اندر رہ سکتے ہیں اور نہ ہی باہر‘ یہ گارڈز کے بغیر بھی سروائیو نہیں کر سکتے‘ یہ اپنے محل‘ اپنے فلیٹ اور اپنی گاڑی سے نکلتے وقت بھی دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور پھر گلی‘ سڑک یا ائیرپورٹ پر قدم رکھتے ہیں اور یہ ہر لمحہ گو‘ گو اور جوتے کے خوف کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ اور یہ لوگ یہ سزا کیوں بھگت رہے ہیں؟
یہ دراصل قائداعظم کے ساتھ منافقت کی سزا ہے‘ آپ پاکستان کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ قائداعظم اور قائداعظم کے پاکستان کے ساتھ منافقت کرنے والے ہر حکمران کو عبرت کا نشانہ بنتے اور گم نامی میں مرتے دیکھیں گے‘ آپ کو ملک کے تمام حکمران آخری زندگی میں تنہائی کے شکار اور لوگوں سے ڈرتے اورگھبراتے ملیں گے‘ عمران خان اب ملک کے حکمران بن رہے ہیں اور وہ دن اب زیادہ دور نہیں ہیںجب یہ ایوان صدر میں پاکستان کے 19ویں وزیراعظم کا حلف اٹھا ئیں گے‘
میری ان سے درخواست ہے یہ حلف اٹھانے سے پہلے پاکستانی تاریخ کی کوئی کتاب لیں اور ماضی کے تمام حکمرانوں کے آخری دور کا مطالعہ کریں‘ یہ چند لمحوں میں ان کے انجام کی وجوہات ”انڈر سٹینڈ“ کر لیں گے‘ یہ اگراس کے بعد قائداعظم کے آٹھ اصولوں کو حکومت کا حصہ بنا دیں تو یہ ملک خود بخود تبدیل ہو جائے گا‘ عمران خان قائداعظم کی طرح پوری حکومت کو وقت کا پابند بنا دیں‘ حکومت اور قانون کی پابندی دونوں کو ایک کر دیں‘ صدر‘ وزیراعظم اور وزراءقائداعظم کی طرح صرف ایک روپیہ تنخواہ لیں‘ اقرباءپروری‘ رشوت اور جھوٹ حکومت کےلئے گالی ہونی چاہیے‘
مذہب پرائیویٹ مسئلہ ہوناچاہیے‘ ملک میں کوئی شخص کسی سے مذہب اور عقیدہ نہ پوچھے‘ میرٹ کو عبادت کا درجہ دے دیا جائے‘ سادگی کو حکومت اور معاشرے کا حصہ بنا دیا جائے اور بے خوفی کو سفارتی پالیسی بنا دیا جائے‘ آپ یقین کریں یہ ملک اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا لیکن اگر عمران خان نے بھی قائداعظم کے ساتھ منافقت کی‘ یہ بھی اگر ماضی کے حکمرانوں جیسے ثابت ہوئے تووہ وقت دور نہیں جب ہم کھلی آنکھوں سے دیکھیں گے یہ بھی میاں نواز شریف کی طرح لوگوں سے چھپ رہے ہوں گے‘ لوگ آصف علی زرداری کی طرح ان کا ٹکٹ بھی لینا پسند نہیں کریں گے‘ ہجوم ان کے دروازوں کے سامنے بھی اوئے اوئے کے نعرے لگا رہا ہو گا اور ان کے دروازوں پر بھی ٹھڈوں کی بارش ہو رہی ہو گی۔
0 notes
asliahlesunnet · 3 years ago
Photo
Tumblr media
شکوک وشبہات اور وساوس کا حل سوال گزارش ہے کہ میرے سوالات کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے میرا یہ خط آخر تک ضرورپڑھئے۔کوئی شخص نعوذ باللہ مرتد کب ہوتا ہے؟ ہوسکتا ہے میرا یہ سوال عجیب محسوس ہو، لیکن اس نے مجھے سخت پریشان کررکھا ہے، بسا اوقات مجھے اپنے روزمرہ کے کاموں کے متعلق یوں لگتا ہے کہ یہ حرکرتیں مرتد ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں الحمد للہ دل سے پوری طرح ایمان پر قائم ہوں۔ لیکن جس طرح میں نے بتایا ہے کہ میں جو بھی کام کرتا ہوں تو کوئی بھی کام کرنے سے پہلے مجھے شوک وشبہات گھیر لیتے ہیں۔ مثلاً میں کسی شخص سے یا چند اشخاص سے بات کر رہا ہوں (اسی اثناء میں) ایک لفظ بولنا چاہتا ہوں، لیکن اس کے بولنے سے پہلے ہی مجھے یہ شک پڑجاتا ہے کہ کہیں یہ کفریہ لفظ نہ ہو، چنانچہ میں لکنت کا شکار ہوجاتا ہوں، بسا اوقات مجھے یہ غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ یہ لفظ زبان سے نکالوں یا نہ نکالوں۔ چونکہ بات جاتی ہوتی ہے، اس لئے یہ لفظ زبردستی زبان سے نکل جاتا ہے حالانکہ میرا ارادہ اس سے نعوذباللہ کفرکا نہیں ہوتا، چنانچہ مجھے وسوسے آنے لگتے ہیں کیا میں اس وقت مرتدکے حکم میں ہوتا ہوں۔ نعوذ باللہ من ذالک وسوسہ میں اضافہ ا س طرح ہوتا ہے کہ اس لفظ کے بولنے سے پہلے مجھے ا سکا احساس تھا، توکیا میرا حکم اس شخص کا ساہوگا جسے کفر پر مجبور کردیا گیا ہو؟ کیونکہ لوگوں کی نظریں مجھ پر جمی ہوتی ہیں اور وہ میری بات پوری ہونے کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ پھر میں دیکھتا ہوں کہ یہ تو بہت کمزور دلیل ہے، چنانچہ میرے شکوک میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ تو بات چیت کے دوران ان لمحات میں میں کیاکروں؟ یہ ایک عجیب احساس ہے جو مجھے گھیر لیتا ہے تو میری نیند حرام ہوجاتی ہے۔ جب میں اس چیز کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا کیونکہ یہ شکوک دوبارہ شروع ہوجاتے ہیں۔ کیا اس کے بغیر میری نماز صحیح نہیں ہوگی؟ کیا میرے سابقہ اعمال ضائع ہوجائیں گے جس طرح مرتد کے ہوجاتے ہیں؟ مثلاً کیا مجھے دوبارہ فریضہ حج اداکرنا پڑے گا؟ اس کے علاوہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب می غصے میں ہوتا ہوں تو میرا دل بعض خاص خیالات کی طرف شدت سے مائل ہوتا ہے (میں یہ خیالات بیان نہیں کرسکتا)‘ لیکن میں جلد ہی اپنے اعصاب پر قابو پالیتا ہوں اور ان خیالات سے نجات پانے کی کوشش کرتاہوں تو کیا یہ بھی نعوذ باللہ کفر شمار ہوگا؟میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک حدیث پڑھی ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ ’’اگر کوئی مسلمان اپنے بھائی کو کافر کہ توان دونوں میں ایک کافر ہوجاتاہے‘‘ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے آدمی کو کافر کہے تو اس کا حکم مرتد والا حکم ہوجاتا ہے؟ اور اگر میں محسوس کروں کہ فلاں ش��ص کافر ہے اور زبان سے نہ کہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟ میں یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص بعض خرافات پر یقین رکھے مثلاً تیرہ (۱۳) کے ہندسے کو منحوس سمجھے، یا زمین پر ناخن وغیرہ پھینکنے کو منحوس سمجھے تو کیا یہ بھی کفر ہے؟ واضح رہے کہ ان خرافات پر یقین رکھنے والا پوری طرح مسلمان ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تعلیمات پر ایمان رکھتا ہے اور جب یہ شحص توبہ کرلے اور ان خرافات پر یقین کرنا چھوڑ دے تو کیاوہ اسلام میں نئے سرے سے داخل ہونے والے کی طرح ہوگا۔ یعنی اس پر غسل وغیرہ واجب ہوگا؟ پھر میں یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ میرے وساوس اور شکوک وشبہات جتنے بھی ہوں، کیا یہ گناہ شمار ہوں گے ان پر میرا مؤاخذہ ہوگا یا نہیں؟ میں کبھی کبھار ان سے نجات پانے کی کوشش میں ان کے بارے میں گھنٹا سوچتا رہتاہوں۔ اب میں خط کو مزید طول نہیں دینا چاہتا اور مذکورہ بالا تمام معروضات کا خلاصہ ایک سوال کی صورت میں عرض کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ کوئی شخص مرتد کب ہوتا ہے؟ میں یہ نہیں پوچھ رہا کہ مرتد کی پہچان کیا ہے؟ میں تو یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ انسان اپنے بارے میں کس طرح جان سکتا ہے کہ وہ مرتد ہوگیا ہے؟ اور میں یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر مرتد دوبارہ مسلمان ہونا چاہے تو اس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے جس طرح ایک کافر مسلمان ہوتے وقت غسل کرتا ہے ‘ اگر مرتدہونے کے زمانے میں اس پر غسل جنابت فرض نہ ہوا ہو؟ ایک اور سوال بھی ہے کہ حج فرض ہے جو زندگی میں صرف ایک بار اداکرنا فرض ہے سوائے حالت ارتداد کے (نعوذ باللّٰہ من ذالک) تو کیا اور بھی ایسے حالات ہیں جن میں مسلمان پر دوبارہ حج کرنا فرض ہو جاتا ہے؟ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: (۱) دائرہ اسلام سے خارج کرنے والی چیزیں بہت سی ہیں، جنہیں علماء نے مرتد کے احکام کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ جو شخص مرتد ہوجائے، اس کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوجائے تو اس کے وہ نیک کام ضائع نہیں ہوتے، جو ا س نے پہلے اسلام کے دوران کئے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: ﴿وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْن﴾ (البقرۃ ۲/ ۲۱۷) ’’اور جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور حالت کفر میں مرجائے تو ایسے لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں (سب) اعمال ضائع ہوگئے اور یہی لوگ جہنم والے ہیں، اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل ضائع ہونے کی یہ شرط بیان کی ہے کہ یہ عمل کرنے والے کی سزا موت کفر ہے۔‘‘ (۲) دل میں آنے والے خیالات اور شیطانی وسوسوں کی بنا پر انسان کا مؤاخذہ ہوتا ہے نہ ان کی بنا پر وہ اسلام سے خارج ہوتا ہے: ارشاد نبوی ہے: (أِنَّ اللّٰہَ تَجَاو��زَ عَنْ أُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَھَا) ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کی وہ غلطیاں معاف کردیں جن کے متعلق وہ (صرف) دل میں سوچیں (عمل نہ کریں)۔‘‘ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہے۔ (۳) برے خیالات اور وسوسوں کو دل سے دور ہٹا دیں اور اللہ کی پناہ مانگیں، اللہ کاذکر اور تلاوت قرآن مجید کثرت سے کریں۔ نیک لوگوں کی مجلس اختیار کریں اور نفسیاتی واعصابی امراض کے ڈاکٹر سے علاج کروائیں۔ حسب توفیق تقویٰ پر کاربند رہیں اور مشکل اور پریشانی کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں تاکہ وہ آپ کے تفکرات اور پریشانیاں دور فرمائے ارشاد ربانی ہے: ﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا٭ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا ﴾ (الطلاق۶۵؍۲۔۳) جو شخص اللہ سے ڈرے، اللہ اس کے لئے (پریشانیوں سے) نکلنے کی راہ بنادے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ اللہ اپنے کام کو پہنچنے والا ہے (یعنی پورا کرکے رہے گا) اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے اندازہ مقرر کررکھا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو شفا عطافرمائے۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتوی��(۷۸۱۱) فتاوی ابن باز ( ج ۲ ص ۱۳۳، ۱۳۴، ۱۳۵ ) #B200126 ID: B200126 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
aijaz3130 · 3 years ago
Text
🍂🍃ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ🍂🍃
🌹حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‌‌‌‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‌‌‌‏ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، ‌‌‌‌‌‏فَإِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ، ‌‌‌‌‌‏فَحَقٌّ عَلَى كُلِّ مَنْ سَمِعَهُ أَنْ يَقُولَ:‌‌‌‏ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، ‌‌‌‌‌‏وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ وَلَا يَقُولَنَّ:‌‌‌‏ هَاهْ هَاهْ فَإِنَّمَا ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَضْحَكُ مِنْهُ۔
🌹रसूल अल्लाह ﷺ ने फ़रमाया: अल्लाह तआला छींक को पसंद करता है और जंभाई को नापसंद, पस जब तुम में से किस�� को छींक आए और वो _अलहमदु-लिल्लाह_ कहे तो हर मुस्लमान के लिए जो उसे सुने _यरहमुक-अल्लाह_ कहना ज़रूरी है। अब रही जंभाई की बात तो जिस किसी को जंभाई आए, उसे चाहीए की वो अपनी ताक़त भर उसे रोके और हाह हाह (की आवाज़) ना कहे, क्योंकि ये शैतान की तरफ़ से है, और शैतान उस से हँसता है।
🌹Rasool Allah ﷺ ne farmaya: Allah taala chheenk ko pasand karta hai aur jambhaee ko napasand, pas jab tum mein se kisi ko chheenk aaye aur woh _«Alhamdulillah»_ kahe to har musalman ke liye jo usay sune _« Yarhamuk Allah »_ kehna zaroori hai. Ab rahi jambhaee ki baat to jis kisi ko jambhaee aaye, usay chahiye ke woh apni taaqat bhar usay rokay aur hah hah (ki awaaz) naa kahe, kyun ke yeh shaitan ki taraf se hai, aur shaitan uss se hansta hai.
🌹رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند، پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ «الحمد للہ» کہے تو ہر مسلمان کے لیے جو اسے سنے «یرحمک اللہ» کہنا ضروری ہے۔ اب رہی جمائی کی بات تو جس کسی کو جمائی آئے، اسے چاہیئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسے روکے اور ہاہ ہاہ نہ کہے، کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، اور شیطان اس سے ہنستا ہے
🌹The Messenger of Allah (ﷺ) said: Indeed Allah loves sneezing and He dislikes the yawn. So when one of you sneezes and says _Al-Hamdulillah_ (All praise is due to Allah),' then it is a right due from every one who hears him to say: _Yarhamukallah_ (May Allah have mercy upon you)' As for yawning then when one of you yawns let him suppress it as much as possible and not say: Hah Hah' for that is only from Ash-Shaitan laughing at him.
📚 _*Jamiat Tirmidhi: jild 5, kitab Al-Adab 43, hadith no. 2747*_
*Grade: Sahih*
0 notes
cosmicqbit · 4 years ago
Photo
Tumblr media
MADANIinfo: الحمد للہ 16 جون 2021بدھ کو ایک غیر مسلم نے دعوتِ اسلامی کے پیج پر رابطہ کیا اور مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کی سوشل میڈیا دعوتِ اسلامی کی ٹیم نے انہیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا اور ان کا نیو اسلامی نام احمد رضا رکھا گیا #SaggeMadina #Cosmicqbit #UbaideRaza #UbiadeQadri
0 notes
okasha-calligraphy · 4 years ago
Photo
Tumblr media
ھوسمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیناللہ نے ہماری پہچان کے لئے ہمارا نام مسلمان رکھا. اللہ نے ہمیں پیدا بھی مسلمان کیا یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی اور نصرانی بنا دیتے ہیں. تخلیق انسانی کے بعد جس پہلی نعمت سے بندے کو نوازا جاتا ہے وہ مسلمان ہونا ہے.  اگر ہم دنیا میں اسی نعمت کو سب سے اعلیٰ و ارفع نعمت شمار کر لیں تو اس سے بڑی شکرگزاری کی وجہ اور کوئی نہیں ہو سکتی. بے شک اس میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں کہ اس ذات نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا. اور ایک آزاد ملک کی نعمت سے نوازا. جس طرح مکہ کی آب و ہوا میں ذرا سختی ہے ویسے ہی اللہ رب العزت کے نام میں بھی جلال ہے. لفظ جلالہ ادا کرنے میں سرور بھی ہے. لفظ جلالہ ادا کرنے میں سکون بھی ہے. ایک بار دل سے اللہ کہہ دینے سے اللہ رب العزت کے واحد و یکتااور اس کی ربوبیت و الوہیت ہونے کا یقین بھی ہے. اپنے معبودو بر حق کا نام پکارنے سے پریشانیاں دل سے ایسے زائل ہو جاتی ہیں جیسے اس ذات  نے ہمیں اپنی رحمت کے  حصار میں لے لیا ہو.اللّٰہ اللّٰہ اللّٰہ کہہ دینے سے دل ایمان اور سکون سے بھر جاتا ہے اور حلاوت ایمان کی تازگی کا سبب بھی بنتا ہے.مجھ ناچیز کی یہ خوش قسمتی ہے کہ مجھے کسوٰی (غلاف کعبہ) کی تیاری میں  سونے کی تار سے لفظ پرونے کا موقع ملا. اس نعمت کو تعبیر کرنے کے لیے  الفاظ کا سہارا لینا ناممکن ہے. اس رب کی لاکھ ہا شکرگزاری سے میرا دل لبریز ہے الحمد للہ رب العالمین حمداً کثیرا طیباًمبارکاً فیہ
0 notes
daleelpk-blog · 5 years ago
Text
شہید ڈاکٹر اسامہ کا پیغام -لطیف النساء
موت وہ ہے ، کہ کرے جس کا زمانہ افسوس ورنہ آئے ہیں سبھی دھرمیں میں مرنے کیلئے نوجوان ڈاکٹر اسامہ ہم سب کیلئے کتنا نیا مگر کتنا پر سکون آسودگی دینے والا نام ہے ۔ کہتے ہیں نا کہ انسان کا کام بولتا ہے بالکل صحیح کہتے ہیں ۔ نوجوان ڈاکٹر اپنی زندگی وبائی بیماری "کرونا "کا شکار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ مگر ڈاکٹرز اور اسکی انسانیت کو چار چاند لگا گیا ۔ کرونا کے مریضوں کا علاج اپنا اولین فرض سمجھ کر بلکہ جہاد سمجھ کر ادا کرتا رہا اور خود ہی اس مرض میں مبتلا ہو گیا ۔ موت حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ زندگی موت کی امانت ہے اسکی حفاظت ہر ایک پرفرض ہے ۔ مگر زندگی کا مقصد سمجھنا اور زندگی کو مقصد کی خاطر گزارنا اعلیٰ ظرفی اور انسانیت کی معراج ہے ۔ ڈاکٹر ہونے کے ناطے اسے اس بیماری کی نوعیت کا بھرپور اندازہ رہا ہوگا ۔ مگر قربان جانئے اس ماں کی تربیت تعلیم ڈاکٹر اسامہ کی دی کہ وہ فرض کو نبھاتے ہوئے نہ صرف اپنی جان دے گیا بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کے نام عظیم پیغام بھی دے گیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ گئے اسامہ کہ یہ میرا پیغام زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانا ۔ اس لئے میرا قلم خود بخود چلنے لگا کہ ظاہر ہے موبائل پر وائرل ہونے کے باوجود ہزارہا مستحق لوگوں نے اسامہ کا قیمتی پیغام نہ سنا ہوگا کیونکہ کسی کے پاس چارجنگ کا مسئلہ تو کسی کے پاس پیسے کا مسئلہ ، کسی کے پاس وقت نہیں ، کسی نے میسج پڑھا نہیں ۔ ہزارہا ہی لوگ ہیں اس لئے میں نے سوچا پرنٹ میڈیا بھی لوگوں کے حسین ذہنوں میں اس کا یہ عظیم پیغام پرنٹ کردے تا کہ وہ بھی اپنی نہ صرف زندگی کی حفاظت کرسکیں بلکہ اسے با مقصد بھی بنا سکیں ۔ ڈاکٹر اسامہ شہید نے انتہائی تکلیف اور اکھڑتی سانس کے ساتھ یہ پیغام دیا کی اس وائرس کرونا کو مذاق نہ سمجھو ۔ اس کے چہرے سے تکلیف اور کرب عیاں تھا ۔ مگر لوگوں کی فکر تھی سلام کیا اور کہا کہ اپنے بچوں کی اپنی ، اپنے خون کی فکر کرو، اپنے دوستوں ، رشتہ داروں ، گھر والوں ، بزرگوں کی فکرکرو ۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ یہ بڑا اذیت والا وائرس ہے ۔ کھانے پینے کے پیچھے نہ پڑو ۔ اس کے پیچھے نہ بھاگو ۔ اپنا ، اپنے آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھو ۔ اپنے آپ کو اپنے گھر تک محدود کر لیں ۔ اگر تکلیف زیادہ ہے تو قریبی ڈا کٹر کو دکھا کر اسکی ہدایات پر سختی سے عمل کریں ۔ حکومت سے تعاون کی تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کریں ۔ یہ بہت ضروری ہے اور واقعی اس وبا کو سنجیدگی سے لیں ۔ اللہ سے دعا کریں اللہ اس عذاب کو جلد از جلد ٹا ل دے (آمین) ڈاکٹر اسامہ شہید نے فرمایا کہ آپ کی ہی دعائوں سے میں قدرے بہتر ہوں اور اللہ کا واسطہ دے کر کہا کہ قوم کے بچوں پر رحم کریں۔ میں خوش قسمت ہوں میرے پاس وسائل ہیں میرا علاج ہو رہا ہے ۔ میں بہتر ہورہا ہوں ، یہ مذاق نہیں ہے اللہ رحم فرمائے۔ الحمد للہ میں علاج کروا رہا ہوں ۔ ہماری قوم کے پاس وسائل نہیں ہیں لہٰذا اس کو زیادہ سیریس لینے کی ضرورت ہے ۔ اس نے کھانستے کھانستے بھی ویڈیو بنوائی اور اس کو آگے شیئر کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ سبحان اللہ دوسروں سے اتنی ہمدردی اور انہیں تکلیف سے بچانے کی اتنی فکر یہی ایک مسلمان کااصل کام ہے ۔ اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا اللہ تعالیٰ ڈاکٹر اسامہ کو جنت الفردوس میں مقام عطا فر مائے ۔ ان کے لواحقین کو دونوں جہاں میں ہر طرح کی کامیابی اور عافیت عطا فرمائے (آمین)۔ یہی تو اسلای سو سائٹی کے عظیم خوشنما مینار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہماری پاکستانی اور مسلم دنیا کی نسلوں میں ان جیسے ہیروز پیدا فرمائے ۔ یہی وہ عملی نمونہ ہیں ، اصل ہیرو ہیں جو قابل تقلید ، قابل عمل ، قابل ستائش ہیں ۔ ماں باپ ، اساتذہ اور تمام ملک وقوم کا فخر ہیں ، واقعی کسی نے خوب کہا ہے خوشنما دنیا میں وہ روشنی کے مینار ہیں روشی سے جنکے ملا حوں کے بیڑے پار ہیں Read the full article
0 notes
rbu-urdu-islamic-posts · 5 years ago
Text
نماز وتر كى وارد شدہ كيفيات
نماز وتر كى ادائيگى ميں افضل كيفيت كيا ہے ؟
جواب کا متن
الحمد للہ :
نماز وتر اللہ تعالى كے قرب كے ليے سب سے افضل اور عظيم عبادات ميں شامل ہوتى ہے، حتى كہ بعض علماء كرام ـ يعنى احناف ـ تو اسے واجبات ميں شمار كرتے ہيں، ليكن صحيح يہى ہے كہ يہ سنت مؤكدہ ميں شامل ہوتى ہے جس كى مسلمان شخص كو ضرور محافظت كرنى چاہيے، اور اسے ترك نہيں كرنا چاہيے.
امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نماز وتر چھوڑنے والا شخص برا آدمى ہے، اس كى گواہى قبول نہيں كرنى چاہيے"
جو كہ نماز وتر كى ادائيگى كى تاكيد پر دلالت كرتى ہے.
نماز وتر كى ادائيگى كى كيفيات كا خلاصہ ہم مندرجہ ذيل نقاط ميں بيان كر سكتے ہيں:
نماز وتر كى ادائيگى كا وقت:
اس كا وقت نماز عشاء كى ادائيگى سے شروع ہوتا، يعنى جب انسان نماز عشاء ادا كر لے چاہے وہ مغرب اور عشاء كو جمع تقديم كى شكل ميں ادا كرے تو عشاء كى نماز ادا كرنے سے ليكر طلوع فجر تك نماز وتر كا وقت رہے گا.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا اللہ تعالى نے تمہيں ايك نماز زيادہ دى ہے اور وہ نماز وتر ہے جو اللہ تعالى نے تمہارے ليے عشاء اور طلوع فجر كے درميان بنائى ہے"
سنن ترمذى حديث نمبر ( 425 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ترمذى ميں صحيح كہا ہے.
اور كيا نماز وتر كو اول وقت ميں ادا كرنا افضل ہے يا كہ تاخير كے ساتھ ادا كرنا افضل ہے ؟
سنت نبويہ اس پر دلالت كرتى ہے كہ جو شخص رات كے آخر ميں بيدار ہونے كا ��مع ركھتا ہو اس كے ليے نماز وتر ميں تاخير كرنا افضل ہے، كيونكہ رات كے آخرى حصہ ميں نماز پڑھنى افضل ہے، اور اس ميں فرشتے حاضر ہو تے ہيں، اور جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكتا تو اس كے ليے سونے سے قبل نماز وتر ادا كرنا افضل ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے.
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكے گا تو وہ رات كے اول حصہ ميں وتر ادا كر لے، اور جسے يہ طمع ہو كہ وہ رات كے آخرى حصہ ميں بيدار ہو گا تو وہ وتر رات كےآخرى حصہ ميں ادا كرے، كيونكہ رات كے آخرى حصہ ميں ادا كردہ نماز مشھودۃ اور يہ افضل ہے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 755 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور يہى صحيح ہے، اور باقى مطلق احاديث كو اس صحيح اورصريح افضليت پر محمول كيا جائے گا، ان ميں يہ حديث بھى ہے:
" ميرى دلى دوست نے مجھے وصيت كى كہ ميں وتر ادا كر سويا كروں"
يہ اس شخص پر محمول ہو گى جو بيدار نہيں ہو سكتا. اھـ
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 277 ).
وتر ميں ركعات كى تعداد:
كم از كم وتر ايك ركعت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رات كے آخر ميں ايك ركعت وتر ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 752 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رات كى نماز دو دو ہے، لہذا جب تم ميں سے كسى ايك كو صبح ہونے كا خدشہ ہو تو وہ ايك ركعت ادا كر لے جو اس كى پہلى ادا كردہ نماز كو وتر كر دے گى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 911 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 749 )
لہذا جب انسان ايك ركعت ادا كرنے پر ہى اكتفا كرے تو اس نے سنت پر عمل كر ليا...
اور اس كے ليے تين اور پانچ اور سات اور نو ركعت وتر بھى ادا كرنے جائز ہيں.
اگر وہ تين وتر ادا كرے تو اس كے ليے دو طريقوں سے تين وتر ادا كرنے مشروع ہيں:
پہلا طريقہ:
وہ تين ركعت ايك ہى تشھد كے ساتھ ادا كرے. اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ميں پائى جاتى ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وتر كى دو ركعتوں ميں سلام نہيں پھيرتے تھے"
اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تين وتر ادا كرتے تو اس كى آخر كے علاوہ نہيں بيٹھتے تھے"
سنن نسائى ( 3 / 234 ) سنن بيھقى ( 3 / 31 ) امام نووى رحمہ اللہ تعالى المجموع ميں لكھتےہيں: امام نسائى نے حسن سند كے ساتھ اور بيھقى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے. اھـ
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 7 ).
دوسرا طريقہ:
وہ دو ركعت ادا كر كے سلام پھير دے اور پھر ايك ركعت واتر ادا كرے اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما دو ركعت اور اپنے وتر كے درميان سلام پھيرتے تھے، اور انہوں نے بتايا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا ہى كيا كرتے تھے"
رواہ ابن حبان حديث نمبر ( 2435 ) ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ( 2 / 482 ) ميں كہتے ہيں اس كى سند قوى ہے. اھـ
ليكن اگر وہ پانچ يا سات وتر اكٹھے ادا كرے تو صرف اس كے آخر ميں ايك ہى تشھد بيٹھے اور سلام پھير دے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كو گيارہ ركعت نماز ادا كرتے اس ميں پانچ ركعت وتر ادا كرتے اور ان ميں آخرى ركعت كے علاوہ كہيں نہ بيٹھتے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 737 ).
اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پانچ اور سات وتر ادا كرتے اور ان كے درميان سلام اور كلام كے ساتھ عليدگى نہيں كرتے تھے"
مسند احمد ( 6 / 290 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1714 ) نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں اس كى سند جيد ہے.
ديكھيں: الفتح الربانى ( 2 / 297 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار د��ا ہے.
اور جب اكٹھى نو ركعت وتر ادا كرنى ہوں تو تو آٹھويں ركعت ميں تشھد بيٹھ كر پھر نويں ركعت كے ليے كھڑا ہو اور سلام نہ پھيرے اور نويں ركعت ميں تشھد بيٹھ كر سلام پھيرے گا، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نو ركعات ادا كرتے اور ان ميں آٹھويں ركعت ميں بيٹھ كر اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى حمد بيان كرتے اور دعاء كرتے اور سلام پھيرے بغير اٹھ جاتے پھر اٹھ كر نويں ركعت ادا كر كے بيٹھتے اور اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى حمد بيان كر كے دعاء كرتے اور پھر ہميں سنا كر سلام پھيرتے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 746 ).
اور اگر وہ گيارہ ركعت ادا كرے تو پھر ہر دو ركعت ميں سلام پھيرے اور آخر ميں ايك وتر ادا كرے.
وتر ميں كم از كم اور اس ميں قرآت كيا ہو گى:
وتر ميں كم از كم كمال يہ ہے كہ دو ركعت ادا كر كے سلام پھيرى جائے اور پھر ايك ركعت ادا كر كے سلام پھيرے، اور تينوں كوايك سلام اور ايك تشھد كے ساتھ ادا كرنا بھى جائز ہے، اس ميں دو تشھد نہ كرے جيسا كہ بيان ہو چكا ہے.
اور پہلى ركعت ميں سبح اسم ربك الاعلى پورى سورۃ پڑھے، اور دوسرى ركعت ميں سورۃ الكافرون اور تيسرى ركعت ميں سورۃ الاخلاص پڑھے.
ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وتر ميں سبح اسم ربك الاعلى اور قل يا ايھالكافرون اور قل ہو اللہ احد پڑھا كرتے تھے"
سنن نسائى حديث نمبر ( 1729 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
نماز وتر كى مندرجہ بالا سب صورتيں اور كيفيات سنت ميں وارد ہيں اور اكمل يہ ہے كہ مسلمان شخص ايك ہى كيفيت ميں نماز وتر ادا نہ كرتا رہے بلكہ اسے كبھى ايك اور كبھى دوسرى كيفيت ميں نماز وتر ادا كرنى چاہيے تا كہ وہ سنت كے سب طريقوں پر عمل كر سكے.
واللہ اعلم .
0 notes
akifaza786-blog · 5 years ago
Text
مکتبۃ الاسلام اینڈرائڈ ایپلیکیشن
مکتبہ اسلام،ایک تعارف
مفتی حماد فضل
Askmuftihammad.com [email protected] الحمد للہ و کفی والصلوۃ والسلام علی خاتم الانبیاء علم نور ھے اور اس نورکو محفوظ کرنے کا ذریعہ کتاب ھےیہ وہ میراث ھے جس میں علم کے خزائن مدفون ھیں۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ھے۔آقا ﷺپر نازل ھوا۔کاتبین وحی کو لکھوایا گیا۔اور متواتر طریق سے ھم تک پہنچا۔احادیث مبارکہ،یاد کرنے کے ساتھ ،لکھی بھی گئیں۔اج امت کے پاس آقا ﷺ کے مبارک ارشادات کا مجموعہ احادیث مبارکہ کی ان کتابوں کی شکل میں ھمارے سامنے ھے،جن کے مولفین نے اس علم کے منقول ذخیرے کو محفوظ کر لیا۔فقہ حنفی ھم تک نہ پہنچ پاتی اگر امام محمد رح کتب کی شکل میں مدون نہ کرتے دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ھے جس کو علامہ اقبال رح نے ذکر کیا. گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں،تو دل ہوتا ہے سیپارا علم کے اس ذخیرے کو کتابی شکل میں طلباء اور قارئین تک پہنچانا،عظیم۔صدقہ جاریہ ھے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ھے کہ سائنسی ترقی سے بے شمار خواب بہت تیزی سے حقیقت کا روپ دھار گئے۔ایک وہ زمانہ تھا جب تصور بھی نہ تھا کہ آواز کو بھی محفوظ کیا جاسکتا ھے۔گراموفون، سے ٹیپ ریکارڈر،پھر سی ڈی اور ڈیجیٹل ریکارڈر،اور دیکھتے ھی دیکھتے موبائل ۔ ایک وہ زمانہ تھا جب تلاوت اور بیانات کی کیسٹس سنبھال سنبھال کر الماری میں رکھتے تھے کہ خراب نہ ھو۔دیکھتے ھی دیکھتے،سی ڈی اور ڈیجیٹل پلیئر کا زمانہ آیا اور ساری کیسٹس دھری کی دھری رہ گئیں۔ اب تو ٹیپ ریکارڈر بھی نہیں ملتا کہ تلاوت،نعت اور اکابر کے ان بیانات، کی کیسٹس کو ھی سن لیں ۔سب کچھ موبائل میں سما گیا۔ اس سائنسی انقلاب کاادراک ھمیں کرنا پڑے گا ۔ بلب سے ٹیوب لائٹ،پھر انرجی سیور پھر ایل ای ڈی۔ بالکل اسی طرح کتب کو محفوظ کرنے کا ابتدائی زمانہ مخطوطات کی شکل میں میں تھا جو کاتبین کے ھاتھوں سے لکھے جاتے ،تقسیم ھوتے۔پڑھے جاتے اور محفوظ ھوتےبشکل نقل و عمل ۔پھر پریس کا زمانہ آگیا۔کتب تیزی سے منتقل ھونا شروع ھوئی۔دفع دخل مقدر، جرمنی میں پریس کی ایجاد سے کم و بیش 500 سال قبل مسلمان پریس ایجاد کر چکے تھے۔ ۔یہ سچ ہے کہ گوٹن برگ کے متحرک چھاپہ خانے کی ایجاد بعد کی چیز ہے لیکن یہ اسی چھاپہ خانے کی ترقی یافتہ صورت تھی جس کی ایجاد مسلم اہل فن وحرفت کے ذہن سے ہوئی ۔اس پر ان شاء اللہ پھر کبھی تفصیل سے کلام کروں گا سردست،موضوع وہ تنوع ھے جو پریس اور کتابت میں آیا۔ایک زمانہ بھاپی پریس کا تھا ۔پھر روٹری پرنٹنگ پریس آیا پھر آفسیٹ پریس اور آج کل۔ڈیجیٹل پرنٹنگ پریس بالکل اسی طرح کتاب کا معاملہ بھی ھے۔۔ موبائل کی ایجاد نے اپنے اندر کئی ایجادات کو سمونا شروع کیا۔اینڈرائڈ موبائل آیا تو دن دگنی رات چگنی کی رفتار سے چیزیں اس میں سماتی چلی گئیں۔ جہاں دیگر،چیزیں سمائیں وھاں کتب بھی ڈیجیٹل فارمیٹ میں منتقل ھونا شروع ھو گئیں۔ اس انقلاب سے ھم آنکھیں بند نہیں کر سکتے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جو برکت،لطف اور فوائد اصل کتاب سے مطالعہ کرنے کے ھیں،وہ موبائل میں اس کتاب کو پڑھنے میں نہین۔مگر یہ بھی حقیقت ھے کہ موبائل کے میموری کارڈ میں با آسانی پوری ایک لائبریری سما سکتی ھے۔ عرب دنیا نے اس حقیقت کا ادراک ھم سے پہلے کیا۔ دینی کتب کا مطالعہ کا ذوق اور اشاعت کتب میں وہ ھم سے بہت آگے ھیں،جہاں دس دس ہزار کا ایک ایڈیشن چھپتا ھے اور ھاتھوں ھاتھ نکل جاتا ھے۔عرب حضرات کی طرف سے مکتبہ شاملہ کی شکل میں کتب کے اس ذخیرے کو محفوظ کرنے کی بہت عمدہ کاوش سامنے آئی۔ابتداء میں یہ سافٹ وئیر تھا پھر موبائل میں بھی آگیا۔ چھ ہزار سے زائد عربی کتب اس میں محفوظ ہو گئین جن میں سرچ ممکن تھی۔ اس کو دیکھتے ھوئے اردو میں دینی کتب کو اسی طرز پر لانے کا کام کا آغاز ھوا،جس کا سہرا مکتبہ جبرئیل کے بانی مولانا ذیشان کے سر جاتا ھے ۔مولانا ،اور انکی ٹیم اس سلسلے میں نقش اول بنے۔ چند وجوھات کی بنا پر ،مکتبہ جبرئیل کو محدود کر دیا گیا اور کچھ احوال کی بنا پر مولانا ذیشان مد ظلہ اس سے الگ ھو گئے اس صورت حال میں ،مکتبہ اسلام بنانے کا فیصلہ ہوا۔
مکتبةالاسلام کیا ھے؟
مکتبة الاسلام ،مستند دینی کتب کی ہر ایک تک آسان رسائی کے لئے تیار کی گئی ایپ ھے ۔جس کا مقصد دینی علوم کی ترویج ،جدید ذرائع کے ذریعے ان کی نشر و اشاعت،ان کو محفوظ کرنا اور تحقیق میں سہولت پیدا کرنا ھے۔مکتبةالاسلام کا ویژن ھے کہ اسلام سے متعلقہ، دنیا کی ھر زبان میں موجود مستند دینی کتابوں کی رسائی ھر ایک تک ھو۔ مکتبہ اسلام صرف اردو نہیں بلکہ دنیا کی ھر زبان میں لکھی گئی مستند دینی کتب کا،ان شاء اللہ، سب سے بڑا ذخیرہ ھو گا ۔مکتبة الاسلام مستند مفتیان کرام کی زیر نگرانی کام کر رھا ھے ۔یہ دارالنور فاونڈیشن(رجسٹرڈ) اور جامعہ طہ کا ذیلی پروجیکٹ ھے (jamiataha.com)۔ مکتبة الاسلام،بے شمار اضافی فیچرز پر مشتمل ھے جو شاملہ اور مکتبہ جبرئیل میں نہیں تھے اب تک جو فیچرز اس میں شامل کر دئے گئے ھیں وہ یہ ھیں۔ 1۔قرآن ،حدیث،سیرت، علم۔کلام،،فقہ فتاوی، اصلاح وتزکیہ،درس نظامی،لغات،وظائف و دعائیں،رسائل و جرائد،زبان و ادب ،فنون عصریہ ،تاریخ و جغرافیہ، کے عناوین کا احاطہ کرتے ھوئے پانچ ہزار کے قریب کتب پر مشتمل ھے۔ مکتبہ کھولتے ساتھ آپ کے سامنے چار نام خانوں میں لکھے نظر آئیں گے۔تفصیلی تلاش،ڈاونلوڈ کتب،میری لائبریری، حالیہ مطالعہ۔اوپر ایک لائن میں مصنف یا کتاب کا نام لکھا ھوا ھے ۔اس کامطلب ھے کہ آپ کسی کتاب کو اس کے نام سے مصنف کے نام سے تلاش کرنا چاھتے ھیں تو تلاش کر سکتے ھیں۔ تفصیلی تلاش کا مطلب ھے کہ آپ کسی لفظ کو لے کر کسی مخصوص کیٹیگری یا تمام کیٹیگریز میں تلاش کرنا چاھتے ھیں۔مگر یہ بات ملحوظ رکھئے کہ تلاش صرف ان کتب یا کیٹیگریز میں ممکن ھے جو آپ ڈاون لوڈ کر چکے ھیں۔تلاش کے لئے مختلف آپشن آپ کے سامنے آئیں گی۔عنوان کا مطلب ھے کہ آپ اس لفظ کو کتب کے عناوین میں تلاش کرنا چاھتے ھیں۔مکمل کتاب کا مطلب ھے کہ کتاب کی تمام عباراتاور لائنز میں اس کو تلاش کیا جائے۔اگر کئی الفاظ ھوں تو آپ سے چار آپشن پوچھی جائیں گی 1۔تمام الفاظ۔اس کا مطلب ھے لکھے گئے تمام الفاظ جن کو تلاش کرنا مقصود ھے ،وہ جس جس عبارت میں موجود ھو،انکو نکال دے۔اس آپشن میں ترتیب قور اکٹھا لکھے ھونے کو نہیں دیکھے گا۔مثلاآپ نے لکھا۔کرسی میز میں ۔تو یہ تینوں الفاظ الگ الگ تلاش کر کے دکھائے گا۔جن جن عبارات میں یہ تینوں موجود ھو اگرچہ اکٹھے نہ ھوں۔ 2۔کوئی بھی لفظ۔اس کا مطلب ھے کہ لکھے گئے الفاظ میں سے کوئی بھی لفظ کسی بھی صفحے پر ھو نکال دے۔مثلا آپ نے لکھا۔میز کرسی میں۔اب یہ ان تمام صفحات کو بھی نکال دے گا جن میں صرف "میز "ھو یا صرف" کرسی" یا صرف "میں" کا لفظ آتا ھو۔ 3۔مکمل مطابقت ۔اس کا مطلب ھے کہ جتنے الفاظ لکھے یہ سب اکٹھے جہاں کہیں لکھے ھو ،وہ عبارت نکالیں۔مثلا آپ نے سجدہ کرسی کے الفاظ لکھے اور یہ آپشن منتخب کی۔اب یہ الفاظ جن جن عبارات میں اکٹھے لکھے ھوں گے،صرف وہ نکالے گا۔ ذیل کی تصاویر سے بات واضح ھو جائے گی۔ ااس تلاش کا رزلٹ آپ شئیر بھی کر سکتے ھیں۔جس کے لئے شیئر کی آپشن دی گئی ھے۔ ۔مکتبہ کے اوپر دائیں طرف آپ کو تین چھوٹی سی لائیںیں ڈلی نظر آئیں گی۔ان کو کلک کریںنگے تو آپ کے سامنے یہ تصویر آئے گی۔ اس تصویر میں آپ دیکھ سکتے ھیں کہ درج ذیل آپشن دی گئی ھیں ۔سرورق۔اس کا مطلب ھے ھوم پیج ۔حالیہ مطالعہ۔اس کا مطلب ھے کہ جن کتب کا مطالعہ یا تلاش کے دوران مطالعہ، ماضی قریب میں کیا گیا ھے۔اسی طرح اس میں ایک آپشن حلال فوڈ کی دی گئی ھے ۔اس میں تمام ای کوڈز،ان کا ماخذ اور ممکنہ حکم درج کر دیا گیا ھے۔مشکوک کا مطلب ھے کہ اس کے دونوں ماخذ ھو سکتے ھیں حلال بھی اور حرام بھی۔اس لئے اگر متحقق نہ ھو کہ ماخذ کیا ھے تو چھوڑ دیا جائے۔ میری لائبریری کا مطلب ھے کہ کہ وہ کتب جو آپ ڈاون لوڈ کر چکے ھیں۔ عناوین مین سے آپ اپنے مطلب کی کیٹیگری یا مخصوص کتب کو ڈاون لوڈ کر سکتے ھیں.ڈاون لوڈ کرنے کے لئے یہ آپشن بھی موجود ھے کہ پوری ایک کیٹیگری کو اکٹھا ڈاون لوڈ کر لیں۔مثلا آپ چاھتے ھیں کہ حدیث سے متعلقہ تمام کتب ڈاون لوڈ ھو جائیں تو اس کیٹیگری کو تھوڑی دیر پریس کئے رکھیں۔آپ کے سامنے ڈاون لوڈ کیٹیگری لکھا آئے گا کلک کریں۔ساری کیٹیگری ڈاون لوڈ ھو جائے گی۔اگر مخصوص کتب ڈاون لوڈ کرنا چاھئیں تو جس کتاب پر تھوڑی دیر کے لئے پریس کئے رکھین گے وہ ڈاون لوڈ ھو جائے گی۔ 3 4۔کتب میموری کارڈ یا موبائل میموری میں محفوظ کی جا سکتی ھیں۔ 56۔ایپ کے استعمال کرنے کے طریقہ کار سے آگاہی کے لئے ویڈیو شامل کی جارھی ھیں۔جو ھمارے یو ٹیوب چینل پر آپ کو لے جائیں گی۔ ٹیلیگرام ،واٹس ایپ ٹوئٹر اور فیسبک پر ھمارا پیج ھو گا۔جن کے لنکس شامل کئے جارھے ھیں۔نیز رابطہ کے لئے ای میل اکاونٹ بھی شامل۔کر دیا گیا ھے۔ 7۔کتب فی الوقت اردو،عربی،انگریزی میں ھیں۔پشتو،فارسی اور ھندی ،بلکہ دنیا کی ھر زبان میں موجود مستند دینی کتب اس ایپ میں میسر ھو سکیں گی۔ان شاء اللہ 8۔یہ ایپ فی الوقت اینڈرائڈ موبائل کے لئے ھے۔ایپل کے لئے کام ھو رھا ھے۔نیز ویب سائٹ اور کمپیوٹر کے لئے سافٹ ویئر پر بھی کام ھو رھا ھے۔ جو فیچرز شامل ھونے ھیں (ان شاء اللہ) 1۔اس مکتبہ مین کوئی بھی قاری کتاب اپلوڈ کر سکے گا۔البتہ اپلوڈ ھونے کے بعد وہ ھمارے پینل سے دو مراحل میں جانچ پڑتال کے بعد منظور ھونے کی شکل میں ظاھر ھو سکے گی۔ 2۔قاری اس مین فتوی اپلوڈ کر سکیں گے ۔اس طرح دارالافتاء کے فتاوی کا عظیم ذخیرہ محفوظ ھو جائے گا جس میں سرچ ھو سکے گی۔ 3۔جو کتب آپ کے موبائل میں موجود ھوں ،انکو بھی آپ اس میں شامل کر سکیں گے البتہ وہ باقی لوگوں کو ظاھر نہیں ھوں گی۔ 4۔ اھم دار الافتاء کی ویب سائٹ سے آن لائین سرچ رزلٹ بھی ظاھر ھوں گے مگر اس کے لئے نیٹ چاھئے ھو گا۔ اپنے فیڈ بیک سے ھمیں مطلع کیجئے تاکہ اس ایپ۔کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکے ۔ 0092302 84 84 434 Read the full article
0 notes
asliahlesunnet · 3 years ago
Photo
Tumblr media
بے دین اور منافق سے رابطہ رکھنا سوال جس عمارت میں میری رہائش ایک شخص رہتا ہے جو کبھی داڑھی رکھ لیتا ہے کبھی مونڈ دیتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، والدین کی نافرمانی کرتا ہے اور دین اسلام کو برا بھلا کہتاہے، حقیقت یہ ہے کہ اس میں منافقوں کی بہت سے علامتیں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی پناہہ ایک بار اس نے میری موجودگی میں دس منٹ میں سات آٹھ بار دین کوگالی دی۔ کیا ایسے شخص کو سلام کیا جاسکتا ہے حالانکہ میر�� دل میں اس سے شدید نفرت ہے؟ اگر وہ سلام کرے تو کیا میں جواب دوں؟ جواب لْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: دین اسلام کو گالی دینا (نعوذ باللہ) صریح کفر ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَبِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُ وْن٭ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ ﴾ (التوبۃ۹/ ۶۵، ۶۶) ’’کیا تم اللہ ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ٹھٹھا کرتے تھے؟ معذرت نہ کرو، تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔‘‘ اس مفہوم کی اور بھی آیت کریمہ موجود ہیں۔ اسے نصیحت کرنا اور اس برائی سے روکنا ضروری ہے۔ اگر وہ نصیحت قبول کرلے تو الحمد للہ، ورنہ ایسے شخص کو سلام کرنا بالکل جائز نہیں۔ اگر وہ سلام کرے تو جواب نہ دیاجائے، اس کی دعوت قبول نہ کی جائے۔ اس کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے حتیٰ کہ وہ توبہ کر لے یا مسلمان حاکم اسے سزائے موت دے دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتَلُوْ ہُ)(صحیح بخاری، مسند احمد/۲، ۵/ ۲۳۱، سنن ترمذی، سنن ابی داود، سنن النسائی ابن ماجہ) ’’جو شخص اپنا دین تبدیل کرے اسے قتل کردو،[1]اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی کتاب ’’صحیح‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ بلاشبہ مسلمان کہلانے والا شخص جب دین کو گالی دے تو اس نے اپنا دین بدل لیا۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭٭ فتویٰ (۳۲۵۵) فتاوی ابن باز ( ج ۲ ص ۱۵، ۱۶ ) #B200009 ID: B200009 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
cleopatrarps · 6 years ago
Text
قصہ جالوت و طالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام
حضرت داؤد علیہ السلام کو حکومت کیسے ملی اس کے بارے مفسرین نے لکھا ہے کہ جب طالوت علیہ رحمہ جو کہ بنی اسرائیل کے ایک نیک شخص تھے وہ جب بادشاہ بن گئے تو طالوت علیہ رحمہ نے بنی اسرائیل کو جہاد کے لئے تیار کیا اور ایک کافر بادشاہ ”جالوت”سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو لے کر میدان جنگ میں نکلے۔ جالوت بہت ہی قد آور اور نہایت ہی طاقتور بادشاہ تھا
وہ اپنے سر پر لوہے کی جو ٹوپی پہنتا تھا اس کا وزن تین سو رطل تھا۔جب حضرتِ طالْوت رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ بنی اسرائیل کے لشکر کولے کر ظالم بادشاہ جالوت سے مقابلے کے لئے بیتْ المقدَّس سے روانہ ہوئے تو ان کے لشکر کی اِس طرح آزمائش ہوئی پارہ۲،البقرہ:۹۴۲۔ترجَمہ:(طالوت)بولا
بے شک اللہ تمہیں ایک نَہَر سے آزمانے والا ہے،تو جو اس کاپانی پئے وہ میرا نہیں اورجو نہ پئے وہ میرا ہے مگروہ جو ایک چْلّو اپنے ہاتھ سے لے لے۔ تفسیر خزائن میں ہے کہ سخت گرمی تھی،صِرف313 افراد نے صبر کیا اور صرف ایک چلّو پانی لیا۔الحمد للہ عزوجل وہ ایک چلّْو ان کے لئے اوراْن کے جانوروں کیلئے کافی ہو گیا اور جنہوں نے بے صبری کی اور خوب پانی پیا تھا ان کے ہونٹ سیاہ ہو گئے،پیاس خوب بڑھ گئی اور ہمّت ہار گئے۔جالوت کے عظیم لشکر سے 313 مسلمانوں کا مقابلہ تھا جو اطاعت گزار تھے ان کے حوصلے مضبوط تھے،ان کا نقشہ اِسی آیتِ کریمہ میں اس طرح پیش کیا گیا ہے:پارہ۲،البقرہ:۹۴۲۔ترجمہ:(بے صبرے)بولے:
ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں(کے مقابلے)کی،بولے وہ جنھیں اللہ سے ملنے کا یقین تھا(یعنی صبر کرنے والے کہنے لگے) کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ کے حکم سے اوراللہ صابروں کے ساتھ ہے۔جب دونوں فوجیں میدانِ جنگ میں لڑائی کے لئے صف آرائی کرچکیں تو حضرت طالوت نے اپنے لشکر میں یہ اعلان فرما دیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کریگا، میں اپنی شہزادی کا نکاح اس کے ساتھ کردوں گا۔ اور اپنی آدھی سلطنت بھی اس کو عطا کردوں گا۔یہ فرمان شاہی سن کر حضرت داؤد علیہ السلام آگے بڑھے جو ابھی بہت ہی کمسن تھے اور بیماری سے چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ اور غربت و مفلسی کا یہ عالم تھا کہ بکریاں چرا کر اس کی اجرت سے گزر بسر کرتے تھے۔روایت ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام گھر سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے تھے تو راستہ میں ایک پتھر یہ بولا کہ
اے حضرت داؤد! مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پتھرہوں۔ پھر دوسرے پتھر نے آپ کو پکارا کہ اے حضرت داؤد مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کا پتھر ہوں۔پھر ایک تیسرے پتھر نے آپ کو پکار کر عرض کیا کہ اے حضرت داؤد علیہ السلام مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں جالوت کا قاتل ہوں۔ آپ علیہ السلام نے ان تینوں پتھروں کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت داؤد علیہ السلام اپنی گوپھن لے کر صفوں سے آگے بڑھے اور جب جالوت پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے ان تینوں پتھروں کو اپنی گوپھن میں رکھ کر اور بسم اللہ پڑھ کر گوپھن سے تینوں پتھروں کو جالوت کے اوپر پھینکا اور یہ تینوں پتھر جا کر جالوت کی ناک اور کھوپڑی پر لگے اور اس کے بھیجے کو پاش پاش کر کے سر کے پیچھے سے نکل کر تیس جالوتیوں کو لگے اور
سب کے سب مقتول ہو کر گر پڑے۔پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے لا کر اپنے بادشاہ حضرت طالوت کے قدموں میں ڈال دیا اس پر حضرت طالوت اور بنی اسرائیل بے حد خوش ہوئے۔جالوت کے قتل ہوجانے سے اس کا لشکر بھاگ نکلاا ور حضرت طالوت کو فتح مبین ہو گئی اور اپنے اعلان کے مطابق حضرت طالوت نے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کردیا اوراپنی آدھی سلطنت کا ان کو سلطان بنا دیا۔ پھر پورے چالیس برس کے بعد جب حضرت طالوت بادشاہ کا انتقال ہو گیا تو حضرت داؤد علیہ السلام پوری سلطنت کے بادشاہ بن گئے اور جب حضرت شمویل علیہ السلام کی وفات ہو گئی تواللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو سلطنت کے ساتھ نبوت سے بھی سرفراز فرمادیا۔آپ سے پہلے سلطنت اور نبوت دونوں اعزاز ایک ساتھ کسی کو بھی نہیں ملا تھا۔ آپ پہلے شخص ہیں کہ ان دونوں عہدوں پر فائز ہو کر ستر برس تک سلطنت اور نبوت دونوں منصبوں کے فرائض پورے کرتے رہے اور پھر
آپ کے بعد آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے سلطنت اور نبوت دونوں مرتبوں سے سرفراز فرمایا۔ تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۸۰۳،پ۲،البقرہ۱۵۲اس واقعہ کا اجمالی بیان قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں اس طرح ہے کہ:۔ ترجمہ:۔اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا۔،البقرہ:251حضرت داؤد علیہ السلام کا ذریعہ معاش:۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے باوجود یہ کہ ایک عظیم سلطنت کے بادشاہ تھے مگر ��اری عمر وہ اپنے ہاتھ کی دستکاری کی کمائی سے اپنے خورد و نوش کا سامان کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجایا کرتا تھا اور آپ اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے اور ان کو فروخت کر کے اس رقم کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔ روح البیان،ج۱،ص۱۹۳،پ۲،البقرہ:۱۵۲حضرت طالوت کی سرگزشت کی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کی مقدس زندگی سے یہی سبق ملتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ جب اپنا فضل و کرم فرماتا ہے تو ایک لمحہ میں رائی پہاڑ اور ذرہ کو آفتاب بنا دیتا ہے۔ غور کرو کہ حضرت داؤد علیہ السلام ایک کمسن لڑکے تھے اور خود نہایت ہی مفلس اور ایک غریب باپ کے بیٹے تھے۔ مگر اچانک اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنے عظیم اور بڑے بڑے مراتب ودر جات کے اعزاز سے سرفراز فرما دیا کہ ان کے سر پر تاجِ شاہی رکھ کر اْنہیں بادشاہ بنا دیا۔ اور ایک بادشاہ کی شہزادی اْن کے نکاح میں آئی اور پھر نبوت کا مرتبہ بلند اْنہیں عطا فرما دیا کہ اس سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی بلند مرتبہ ہو سکتا ہی نہیں۔پھر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ کا جلوہ دیکھو کہ جالوت جیسے جابر اور طاقتور بادشاہ کا قاتل حضرت داؤد علیہ السلام کو بنادیا جو ایک کمسن لڑکے اور بیمار تھے اور وہ بھی ان کے تین پتھروں سے قتل ہوا۔ حالانکہ جالوت کے سامنے ان چھوٹے چھوٹے تین پتھروں کی کیا حقیقت تھی؟ جب کہ
وہ تین سو رطل وزن کی فولادی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ایک چیونٹی کو ہاتھی پر غالب کردے اور اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ہاتھی ایک چیونٹی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔طالوت دبگری یعنی چمڑا پکانے کا پیشہ کرتے تھے یا بکریاں چراتے تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام بھی پہلے بکریاں چرایا کرتے تھے اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بنادیا اور نبوت کے شرف سے بھی سرفراز فرما دیا تو انہوں نے اپنا ذریعہ معاش زرہیں بنانے کے پیشے کوبنالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی پیشہ اختیار کرنا خواہ وہ دبگری ہو یا چرواہی ہو یا لوہاری ہو یا کپڑا بننا ہو، الغرض کوئی پیشہ ہرگز ہرگز نہ ذلیل ہے نہ ان پیشوں کے ذریعہ روزی حاصل کرنے والوں کے لئے کوئی ذلت ہے۔جو
لوگ بنکروں اور دوسرے پیشہ وروں کو محض ان کے پیشہ کی بناء پر ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں وہ انتہائی جہالت و گمراہی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں۔رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی جائز پیشہ اختیار کرنا یہ انبیاء و مرسلین اور صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ لہٰذا ہرگز ہرگز پیشہ ور مسلمان کوحقیر ذلیل شمار نہیں کرنا چاہیے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پیشہ ور مسلمان ان لوگوں سے ہزاروں درجہ بہتر ہے جو سرکاری نوکریوں اور رشوتوں اور دھوکہ دہی کے ذریعہ رقمیں حاصل کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اپنے شریف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ شرعاً اس سے زیادہ ذلیل کون ہو گا جس کی کمائی حلال نہ ہو یا مشتبہ ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم بنی اسرائیل کے مشہور انبیا • ابراہیم • اسحاق • یعقوب • یوسف • موسیٰ • ہارون • داؤد • سليمان • دنی ایل • یسوع مسیح
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post قصہ جالوت و طالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2HoAYIo via Today Urdu News
0 notes
katarinadreams92 · 6 years ago
Text
قصہ جالوت و طالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام
حضرت داؤد علیہ السلام کو حکومت کیسے ملی اس کے بارے مفسرین نے لکھا ہے کہ جب طالوت علیہ رحمہ جو کہ بنی اسرائیل کے ایک نیک شخص تھے وہ جب بادشاہ بن گئے تو طالوت علیہ رحمہ نے بنی اسرائیل کو جہاد کے لئے تیار کیا اور ایک کافر بادشاہ ”جالوت”سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو لے کر میدان جنگ میں نکلے۔ جالوت بہت ہی قد آور اور نہایت ہی طاقتور بادشاہ تھا
وہ اپنے سر پر لوہے کی جو ٹوپی پہنتا تھا اس کا وزن تین سو رطل تھا۔جب حضرتِ طالْوت رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ بنی اسرائیل کے لشکر کولے کر ظالم بادشاہ جالوت سے مقابلے کے لئے بیتْ المقدَّس سے روانہ ہوئے تو ان کے لشکر کی اِس طرح آزمائش ہوئی پارہ۲،البقرہ:۹۴۲۔ترجَمہ:(طالوت)بولا
بے شک اللہ تمہیں ایک نَہَر سے آزمانے والا ہے،تو جو اس کاپانی پئے وہ میرا نہیں اورجو نہ پئے وہ میرا ہے مگروہ جو ایک چْلّو اپنے ہاتھ سے لے لے۔ تفسیر خزائن میں ہے کہ سخت گرمی تھی،صِرف313 افراد نے صبر کیا اور صرف ایک چلّو پانی لیا۔الحمد للہ عزوجل وہ ایک چلّْو ان کے لئے اوراْن کے جانوروں کیلئے کافی ہو گیا اور جنہوں نے بے صبری کی اور خوب پانی پیا تھا ان کے ہونٹ سیاہ ہو گئے،پیاس خوب بڑھ گئی اور ہمّت ہار گئے۔جالوت کے عظیم لشکر سے 313 مسلمانوں کا مقابلہ تھا جو اطاعت گزار تھے ان کے حوصلے مضبوط تھے،ان کا نقشہ اِسی آیتِ کریمہ میں اس طرح پیش کیا گیا ہے:پارہ۲،البقرہ:۹۴۲۔ترجمہ:(بے صبرے)بولے:
ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں(کے مقابلے)کی،بولے وہ جنھیں اللہ سے ملنے کا یقین تھا(یعنی صبر کرنے والے کہنے لگے) کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ کے حکم سے اوراللہ صابروں کے ساتھ ہے۔جب دونوں فوجیں میدانِ جنگ میں لڑائی کے لئے صف آرائی کرچکیں تو حضرت طالوت نے اپنے لشکر میں یہ اعلان فرما دیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کریگا، میں اپنی شہزادی کا نکاح اس کے ساتھ کردوں گا۔ اور اپنی آدھی سلطنت بھی اس کو عطا کردوں گا۔یہ فرمان شاہی سن کر حضرت داؤد علیہ السلام آگے بڑھے جو ابھی بہت ہی کمسن تھے اور بیماری سے چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ اور غربت و مفلسی کا یہ عالم تھا کہ بکریاں چرا کر اس کی اجرت سے گزر بسر کرتے تھے۔روایت ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام گھر سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے تھے تو راستہ میں ایک پتھر یہ بولا کہ
اے حضرت داؤد! مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پتھرہوں۔ پھر دوسرے پتھر نے آپ کو پکارا کہ اے حضرت داؤد مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کا پتھر ہوں۔پھر ایک تیسرے پتھر نے آپ کو پکار کر عرض کیا کہ اے حضرت داؤد علیہ السلام مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں جالوت کا قاتل ہوں۔ آپ علیہ السلام نے ان تینوں پتھروں کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت داؤد علیہ السلام اپنی گوپھن لے کر صفوں سے آگے بڑھے اور جب جالوت پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے ان تینوں پتھروں کو اپنی گوپھن میں رکھ کر اور بسم اللہ پڑھ کر گوپھن سے تینوں پتھروں کو جالوت کے اوپر پھینکا اور یہ تینوں پتھر جا کر جالوت کی ناک اور کھوپڑی پر لگے اور اس کے بھیجے کو پاش پاش کر کے سر کے پیچھے سے نکل کر تیس جالوتیوں کو لگے اور
سب کے سب مقتول ہو کر گر پڑے۔پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے لا کر اپنے بادشاہ حضرت طالوت کے قدموں میں ڈال دیا اس پر حضرت طالوت اور بنی اسرائیل بے حد خوش ہوئے۔جالوت کے قتل ہوجانے سے اس کا لشکر بھاگ نکلاا ور حضرت طالوت کو فتح مبین ہو گئی اور اپنے اعلان کے مطابق حضرت طالوت نے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کردیا اوراپنی آدھی سلطنت کا ان کو سلطان بنا دیا۔ پھر پورے چالیس برس کے بعد جب حضرت طالوت بادشاہ کا انتقال ہو گیا تو حضرت داؤد علیہ السلام پوری سلطنت کے بادشاہ بن گئے اور جب حضرت شمویل علیہ السلام کی وفات ہو گئی تواللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو سلطنت کے ساتھ نبوت سے بھی سرفراز فرمادیا۔آپ سے پہلے سلطنت اور نبوت دونوں اعزاز ایک ساتھ کسی کو بھی نہیں ملا تھا۔ آپ پہلے شخص ہیں کہ ان دونوں عہدوں پر فائز ہو کر ستر برس تک سلطنت اور نبوت دونوں منصبوں کے فرائض پورے کرتے رہے اور پھر
آپ کے بعد آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے سلطنت اور نبوت دونوں مرتبوں سے سرفراز فرمایا۔ تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۸۰۳،پ۲،البقرہ۱۵۲اس واقعہ کا اجمال�� بیان قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں اس طرح ہے کہ:۔ ترجمہ:۔اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا۔،البقرہ:251حضرت داؤد علیہ السلام کا ذریعہ معاش:۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے باوجود یہ کہ ایک عظیم سلطنت کے بادشاہ تھے مگر ساری عمر وہ اپنے ہاتھ کی دستکاری کی کمائی سے اپنے خورد و نوش کا سامان کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجایا کرتا تھا اور آپ اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے اور ان کو فروخت کر کے اس رقم کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔ روح البیان،ج۱،ص۱۹۳،پ۲،البقرہ:۱۵۲حضرت طالوت کی سرگزشت کی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کی مقدس زندگی سے یہی سبق ملتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ جب اپنا فضل و کرم فرماتا ہے تو ایک لمحہ میں رائی پہاڑ اور ذرہ کو آفتاب بنا دیتا ہے۔ غور کرو کہ حضرت داؤد علیہ السلام ایک کمسن لڑکے تھے اور خود نہایت ہی مفلس اور ایک غریب باپ کے بیٹے تھے۔ مگر اچانک اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنے عظیم اور بڑے بڑے مراتب ودر جات کے اعزاز سے سرفراز فرما دیا کہ ان کے سر پر تاجِ شاہی رکھ کر اْنہیں بادشاہ بنا دیا۔ اور ایک بادشاہ کی شہزادی اْن کے نکاح میں آئی اور پھر نبوت کا مرتبہ بلند اْنہیں عطا فرما دیا کہ اس سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی بلند مرتبہ ہو سکتا ہی نہیں۔پھر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ کا جلوہ دیکھو کہ جالوت جیسے جابر اور طاقتور بادشاہ کا قاتل حضرت داؤد علیہ السلام کو بنادیا جو ایک کمسن لڑکے اور بیمار تھے اور وہ بھی ان کے تین پتھروں سے قتل ہوا۔ حالانکہ جالوت کے سامنے ان چھوٹے چھوٹے تین پتھروں کی کیا حقیقت تھی؟ جب کہ
وہ تین سو رطل وزن کی فولادی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ایک چیونٹی کو ہاتھی پر غالب کردے اور اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ہاتھی ایک چیونٹی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔طالوت دبگری یعنی چمڑا پکانے کا پیشہ کرتے تھے یا بکریاں چراتے تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام بھی پہلے بکریاں چرایا کرتے تھے اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بنادیا اور نبوت کے شرف سے بھی سرفراز فرما دیا تو انہوں نے اپنا ذریعہ معاش زرہیں بنانے کے پیشے کوبنالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی پیشہ اختیار کرنا خواہ وہ دبگری ہو یا چرواہی ہو یا لوہاری ہو یا کپڑا بننا ہو، الغرض کوئی پیشہ ہرگز ہرگز نہ ذلیل ہے نہ ان پیشوں کے ذریعہ روزی حاصل کرنے والوں کے لئے کوئی ذلت ہے۔جو
لوگ بنکروں اور دوسرے پیشہ وروں کو محض ان کے پیشہ کی بناء پر ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں وہ انتہائی جہالت و گمراہی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں۔رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی جائز پیشہ اختیار کرنا یہ انبیاء و مرسلین اور صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ لہٰذا ہرگز ہرگز پیشہ ور مسلمان کوحقیر ذلیل شمار نہیں کرنا چاہیے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پیشہ ور مسلمان ان لوگوں سے ہزاروں درجہ بہتر ہے جو سرکاری نوکریوں اور رشوتوں اور دھوکہ دہی کے ذریعہ رقمیں حاصل کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اپنے شریف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ شرعاً اس سے زیادہ ذلیل کون ہو گا جس کی کمائی حلال نہ ہو یا مشتبہ ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم بنی اسرائیل کے مشہور انبیا • ابراہیم • اسحاق • یعقوب • یوسف • موسیٰ • ہارون • داؤد • سليمان • دنی ایل • یسوع مسیح
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post قصہ جالوت و طالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2HoAYIo via Hindi Khabrain
0 notes
jebandepourtoipetite · 6 years ago
Text
قصہ جالوت و طالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام
حضرت داؤد علیہ السلام کو حکومت کیسے ملی اس کے بارے مفسرین نے لکھا ہے کہ جب طالوت علیہ رحمہ جو کہ بنی اسرائیل کے ایک نیک شخص تھے وہ جب بادشاہ بن گئے تو طالوت علیہ رحمہ نے بنی اسرائیل کو جہاد کے لئے تیار کیا اور ایک کافر بادشاہ ”جالوت”سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو لے کر میدان جنگ میں نکلے۔ جالوت بہت ہی قد آور اور نہایت ہی طاقتور بادشاہ تھا
وہ اپنے سر پر لوہے کی جو ٹوپی پہنتا تھا اس کا وزن تین سو رطل تھا۔جب حضرتِ طالْوت رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ بنی اسرائیل کے لشکر کولے کر ظالم بادشاہ جالوت سے مقابلے کے لئے بیتْ المقدَّس سے روانہ ہوئے تو ان کے لشکر کی اِس طرح آزمائش ہوئی پارہ۲،البقرہ:۹۴۲۔ترجَمہ:(طالوت)بولا
بے شک اللہ تمہیں ایک نَہَر سے آزمانے والا ہے،تو جو اس کاپانی پئے وہ میرا نہیں اورجو نہ پئے وہ میرا ہے مگروہ جو ایک چْلّو اپنے ہاتھ سے لے لے۔ تفسیر خزائن میں ہے کہ سخت گرمی تھی،صِرف313 افراد نے صبر کیا اور صرف ایک چلّو پانی لیا۔الحمد للہ عزوجل وہ ایک چلّْو ان کے لئے اوراْن کے جانوروں کیلئے کافی ہو گیا اور جنہوں نے بے صبری کی اور خوب پانی پیا تھا ان کے ہونٹ سیاہ ہو گئے،پیاس خوب بڑھ گئی اور ہمّت ہار گئے۔جالوت کے عظیم لشکر سے 313 مسلمانوں کا مقابلہ تھا جو اطاعت گزار تھے ان کے حوصلے مضبوط تھے،ان کا نقشہ اِسی آیتِ کریمہ میں اس طرح پیش کیا گیا ہے:پارہ۲،البقرہ:۹۴۲۔ترجمہ:(بے صبرے)بولے:
ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں(کے مقابلے)کی،بولے وہ جنھیں اللہ سے ملنے کا یقین تھا(یعنی صبر کرنے والے کہنے لگے) کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ کے حکم سے اوراللہ صابروں کے ساتھ ہے۔جب دونوں فوجیں میدانِ جنگ میں لڑائی کے لئے صف آرائی کرچکیں تو حضرت طالوت نے اپنے لشکر میں یہ اعلان فرما دیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کریگا، میں اپنی شہزادی کا نکاح اس کے ساتھ کردوں گا۔ اور اپنی آدھی سلطنت بھی اس کو عطا کردوں گا۔یہ فرمان شاہی سن کر حضرت داؤد علیہ السلام آگے بڑھے جو ابھی بہت ہی کمسن تھے اور بیماری سے چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ اور غربت و مفلسی کا یہ عالم تھا کہ بکریاں چرا کر اس کی اجرت سے گزر بسر کرتے تھے۔روایت ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام گھر سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے تھے تو راستہ میں ایک پتھر یہ بولا کہ
اے حضرت داؤد! مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پتھرہوں۔ پھر دوسرے پتھر نے آپ کو پکارا کہ اے حضرت داؤد مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کا پتھر ہوں۔پھر ایک تیسرے پتھر نے آپ کو پکار کر عرض کیا کہ اے حضرت داؤد علیہ السلام مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں جالوت کا قاتل ہوں۔ آپ علیہ السلام نے ان تینوں پتھروں کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت داؤد علیہ السلام اپنی گوپھن لے کر صفوں سے آگے بڑھے اور جب جالوت پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے ان تینوں پتھروں کو اپنی گوپھن میں رکھ کر اور بسم اللہ پڑھ کر گوپھن سے تینوں پتھروں کو جالوت کے اوپر پھینکا اور یہ تینوں پتھر جا کر جالوت کی ناک اور کھوپڑی پر لگے اور اس کے بھیجے کو پاش پاش کر کے سر کے پیچھے سے نکل کر تیس جالوتیوں کو لگے اور
سب کے سب مقتول ہو کر گر پڑے۔پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے لا کر اپنے بادشاہ حضرت طالوت کے قدموں میں ڈال دیا اس پر حضرت طالوت اور بنی اسرائیل بے حد خوش ہوئے۔جالوت کے قتل ہوجانے سے اس کا لشکر بھاگ نکلاا ور حضرت طالوت کو فتح مبین ہو گئی اور اپنے اعلان کے مطابق حضرت طالوت نے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کردیا اوراپنی آدھی سلطنت کا ان کو سلطان بنا دیا۔ پھر پورے چالیس برس کے بعد جب حضرت طالوت بادشاہ کا انتقال ہو گیا تو حضرت داؤد علیہ السلام پوری سلطنت کے بادشاہ بن گئے اور جب حضرت شمویل علیہ السلام کی وفات ہو گئی تواللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو سلطنت کے ساتھ نبوت سے بھی سرفراز فرمادیا۔آپ سے پہلے سلطنت اور نبوت دونوں اعزاز ایک ساتھ کسی کو بھی نہیں ملا تھا۔ آپ پہلے شخص ہیں کہ ان دونوں عہدوں پر فائز ہو کر ستر برس تک سلطنت اور نبوت دونوں منصبوں کے فرائض پورے کرتے رہے اور پھر
آپ کے بعد آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے سلطنت اور نبوت دونوں مرتبوں سے سرفراز فرمایا۔ تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۸۰۳،پ۲،البقرہ۱۵۲اس واقعہ کا اجمالی بیان قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں اس طرح ہے کہ:۔ ترجمہ:۔اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا۔،البقرہ:251حضرت داؤد علیہ السلام کا ذریعہ معاش:۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے باوجود یہ کہ ایک عظ��م سلطنت کے بادشاہ تھے مگر ساری عمر وہ اپنے ہاتھ کی دستکاری کی کمائی سے اپنے خورد و نوش کا سامان کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجایا کرتا تھا اور آپ اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے اور ان کو فروخت کر کے اس رقم کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔ روح البیان،ج۱،ص۱۹۳،پ۲،البقرہ:۱۵۲حضرت طالوت کی سرگزشت کی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کی مقدس زندگی سے یہی سبق ملتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ جب اپنا فضل و کرم فرماتا ہے تو ایک لمحہ میں رائی پہاڑ اور ذرہ کو آفتاب بنا دیتا ہے۔ غور کرو کہ حضرت داؤد علیہ السلام ایک کمسن لڑکے تھے اور خود نہایت ہی مفلس اور ایک غریب باپ کے بیٹے تھے۔ مگر اچانک اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنے عظیم اور بڑے بڑے مراتب ودر جات کے اعزاز سے سرفراز فرما دیا کہ ان کے سر پر تاجِ شاہی رکھ کر اْنہیں بادشاہ بنا دیا۔ اور ایک بادشاہ کی شہزادی اْن کے نکاح میں آئی اور پھر نبوت کا مرتبہ بلند اْنہیں عطا فرما دیا کہ اس سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی بلند مرتبہ ہو سکتا ہی نہیں۔پھر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ کا جلوہ دیکھو کہ جالوت جیسے جابر اور طاقتور بادشاہ کا قاتل حضرت داؤد علیہ السلام کو بنادیا جو ایک کمسن لڑکے اور بیمار تھے اور وہ بھی ان کے تین پتھروں سے قتل ہوا۔ حالانکہ جالوت کے سامنے ان چھوٹے چھوٹے تین پتھروں کی کیا حقیقت تھی؟ جب کہ
وہ تین سو رطل وزن کی فولادی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ایک چیونٹی کو ہاتھی پر غالب کردے اور اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ہاتھی ایک چیونٹی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔طالوت دبگری یعنی چمڑا پکانے کا پیشہ کرتے تھے یا بکریاں چراتے تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام بھی پہلے بکریاں چرایا کرتے تھے اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بنادیا اور نبوت کے شرف سے بھی سرفراز فرما دیا تو انہوں نے اپنا ذریعہ معاش زرہیں بنانے کے پیشے کوبنالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی پیشہ اختیار کرنا خواہ وہ دبگری ہو یا چرواہی ہو یا لوہاری ہو یا کپڑا بننا ہو، الغرض کوئی پیشہ ہرگز ہرگز نہ ذلیل ہے نہ ان پیشوں کے ذریعہ روزی حاصل کرنے والوں کے لئے کوئی ذلت ہے۔جو
لوگ بنکروں اور دوسرے پیشہ وروں کو محض ان کے پیشہ کی بناء پر ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں وہ انتہائی جہالت و گمراہی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں۔رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی جائز پیشہ اختیار کرنا یہ انبیاء و مرسلین اور صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ لہٰذا ہرگز ہرگز پیشہ ور مسلمان کوحقیر ذلیل شمار نہیں کرنا چاہیے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پیشہ ور مسلمان ان لوگوں سے ہزاروں درجہ بہتر ہے جو سرکاری نوکریوں اور رشوتوں اور دھوکہ دہی کے ذریعہ رقمیں حاصل کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اپنے شریف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ شرعاً اس سے زیادہ ذلیل کون ہو گا جس کی کمائی حلال نہ ہو یا مشتبہ ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم بنی اسرائیل کے مشہور انبیا • ابراہیم • اسحاق • یعقوب • یوسف • موسیٰ • ہارون • داؤد • سليمان • دنی ایل • یسوع مسیح
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post قصہ جالوت و طالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2HoAYIo via
0 notes
thebestmealintown · 6 years ago
Text
قصہ جالوت و طالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام
حضرت داؤد علیہ السلام کو حکومت کیسے ملی اس کے بارے مفسرین نے لکھا ہے کہ جب طالوت علیہ رحمہ جو کہ بنی اسرائیل کے ایک نیک شخص تھے وہ جب بادشاہ بن گئے تو طالوت علیہ رحمہ نے بنی اسرائیل کو جہاد کے لئے تیار کیا اور ایک کافر بادشاہ ”جالوت”سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو لے کر میدان جنگ میں نکلے۔ جالوت بہت ہی قد آور اور نہایت ہی طاقتور بادشاہ تھا
وہ اپنے سر پر لوہے کی جو ٹوپی پہنتا تھا اس کا وزن تین سو رطل تھا۔جب حضرتِ طالْوت رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ بنی اسرائیل کے لشکر کولے کر ظالم بادشاہ جالوت سے مقابلے کے لئے بیتْ المقدَّس سے روانہ ہوئے تو ان کے لشکر کی اِس طرح آزمائش ہوئی پارہ۲،البقرہ:۹۴۲۔ترجَمہ:(طالوت)بولا
بے شک اللہ تمہیں ایک نَہَر سے آزمانے والا ہے،تو جو اس کاپانی پئے وہ میرا نہیں اورجو نہ پئے وہ میرا ہے مگروہ جو ایک چْلّو اپنے ہاتھ سے لے لے۔ تفسیر خزائن میں ہے کہ سخت گرمی تھی،صِرف313 افراد نے صبر کیا اور صرف ایک چلّو پانی لیا۔الحمد للہ عزوجل وہ ایک چلّْو ان کے لئے اوراْن کے جانوروں کیلئے کافی ہو گیا اور جنہوں نے بے صبری کی اور خوب پانی پیا تھا ان کے ہونٹ سیاہ ہو گئے،پیاس خوب بڑھ گئی اور ہمّت ہار گئے۔جالوت کے عظیم لشکر سے 313 مسلمانوں کا مقابلہ تھا جو اطاعت گزار تھے ان کے حوصلے مضبوط تھے،ان کا نقشہ اِسی آیتِ کریمہ میں اس طرح پیش کیا گیا ہے:پارہ۲،البقرہ:۹۴۲۔ترجمہ:(بے صبرے)بولے:
ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں(کے مقابلے)کی،بولے وہ جنھیں اللہ سے ملنے کا یقین تھا(یعنی صبر کرنے والے کہنے لگے) کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ کے حکم سے اوراللہ صابروں کے ساتھ ہے۔جب دونوں فوجیں میدانِ جنگ میں لڑائی کے لئے صف آرائی کرچکیں تو حضرت طالوت نے اپنے لشکر میں یہ اعلان فرما دیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کریگا، میں اپنی شہزادی کا نکاح اس کے ساتھ کردوں گا۔ اور اپنی آدھی سلطنت بھی اس کو عطا کردوں گا۔یہ فرمان شاہی سن کر حضرت داؤد علیہ السلام آگے بڑھے جو ابھی بہت ہی کمسن تھے اور بیماری سے چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ اور غربت و مفلسی کا یہ عالم تھا کہ بکریاں چرا کر اس کی اجرت سے گزر بسر کرتے تھے۔روایت ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام گھر سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے تھے تو راستہ میں ایک پتھر یہ بولا کہ
اے حضرت داؤد! مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پتھرہوں۔ پھر دوسرے پتھر نے آپ کو پکارا کہ اے حضرت داؤد مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کا پتھر ہوں۔پھر ایک تیسرے پتھر نے آپ کو پکار کر عرض کیا کہ اے حضرت داؤد علیہ السلام مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں جالوت کا قاتل ہوں۔ آپ علیہ السلام نے ان تینوں پتھروں کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت داؤد علیہ السلام اپنی گوپھن لے کر صفوں سے آگے بڑھے اور جب جالوت پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے ان تینوں پتھروں کو اپنی گوپھن میں رکھ کر اور بسم اللہ پڑھ کر گوپھن سے تینوں پتھروں کو جالوت کے اوپر پھینکا اور یہ تینوں پتھر جا کر جالوت کی ناک اور کھوپڑی پر لگے اور اس کے بھیجے کو پاش پاش کر کے سر کے پیچھے سے نکل کر تیس جالوتیوں کو لگے اور
سب کے سب مقتول ہو کر گر پڑے۔پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے لا کر اپنے بادشاہ حضرت طالوت کے قدموں میں ڈال دیا اس پر حضرت طالوت اور بنی اسرائیل بے حد خوش ہوئے۔جالوت کے قتل ہوجانے سے اس کا لشکر بھاگ نکلاا ور حضرت طالوت کو فتح مبین ہو گئی اور اپنے اعلان کے مطابق حضرت طالوت نے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کردیا اوراپنی آدھی سلطنت کا ان کو سلطان بنا دیا۔ پھر پورے چالیس برس کے بعد جب حضرت طالوت بادشاہ کا انتقال ہو گیا تو حضرت داؤد علیہ السلام پوری سلطنت کے بادشاہ بن گئے اور جب حضرت شمویل علیہ السلام کی وفات ہو گئی تواللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو سلطنت کے ساتھ نبوت سے بھی سرفراز فرمادیا۔آپ سے پہلے سلطنت اور نبوت دونوں اعزاز ایک ساتھ کسی کو بھی نہیں ملا تھا۔ آپ پہلے شخص ہیں کہ ان دونوں عہدوں پر فائز ہو کر ستر برس تک سلطنت اور نبوت دونوں منصبوں کے فرائض پورے کرتے رہے اور پھر
آپ کے بعد آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے سلطنت اور نبوت دونوں مرتبوں سے سرفراز فرمایا۔ تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۸۰۳،پ۲،البقرہ۱۵۲اس واقعہ کا اجمالی بیان قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں اس طرح ہے کہ:۔ ترجمہ:۔اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا۔،البقرہ:251حضرت داؤد علیہ السلام کا ذریعہ معاش:۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے باوجود یہ کہ ایک عظیم سلطنت کے بادشاہ تھے مگر ساری عمر وہ اپنے ہاتھ کی دستکاری کی کمائی سے اپنے خورد و نوش کا سامان کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجایا کرتا تھا اور آپ اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے اور ان کو فروخت کر کے اس رقم کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے تھے او�� اللہ تعالیٰ نے آپ کو پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔ روح البیان،ج۱،ص۱۹۳،پ۲،البقرہ:۱۵۲حضرت طالوت کی سرگزشت کی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کی مقدس زندگی سے یہی سبق ملتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ جب اپنا فضل و کرم فرماتا ہے تو ایک لمحہ میں رائی پہاڑ اور ذرہ کو آفتاب بنا دیتا ہے۔ غور کرو کہ حضرت داؤد علیہ السلام ایک کمسن لڑکے تھے اور خود نہایت ہی مفلس اور ایک غریب باپ کے بیٹے تھے۔ مگر اچانک اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنے عظیم اور بڑے بڑے مراتب ودر جات کے اعزاز سے سرفراز فرما دیا کہ ان کے سر پر تاجِ شاہی رکھ کر اْنہیں بادشاہ بنا دیا۔ اور ایک بادشاہ کی شہزادی اْن کے نکاح میں آئی اور پھر نبوت کا مرتبہ بلند اْنہیں عطا فرما دیا کہ اس سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی بلند مرتبہ ہو سکتا ہی نہیں۔پھر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ کا جلوہ دیکھو کہ جالوت جیسے جابر اور طاقتور بادشاہ کا قاتل حضرت داؤد علیہ السلام کو بنادیا جو ایک کمسن لڑکے اور بیمار تھے اور وہ بھی ان کے تین پتھروں سے قتل ہوا۔ حالانکہ جالوت کے سامنے ان چھوٹے چھوٹے تین پتھروں کی کیا حقیقت تھی؟ جب کہ
وہ تین سو رطل وزن کی فولادی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ایک چیونٹی کو ہاتھی پر غالب کردے اور اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ہاتھی ایک چیونٹی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔طالوت دبگری یعنی چمڑا پکانے کا پیشہ کرتے تھے یا بکریاں چراتے تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام بھی پہلے بکریاں چرایا کرتے تھے اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بنادیا اور نبوت کے شرف سے بھی سرفراز فرما دیا تو انہوں نے اپنا ذریعہ معاش زرہیں بنانے کے پیشے کوبنالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی پیشہ اختیار کرنا خواہ وہ دبگری ہو یا چرواہی ہو یا لوہاری ہو یا کپڑا بننا ہو، الغرض کوئی پیشہ ہرگز ہرگز نہ ذلیل ہے نہ ان پیشوں کے ذریعہ روزی حاصل کرنے والوں کے لئے کوئی ذلت ہے۔جو
لوگ بنکروں اور دوسرے پیشہ وروں کو محض ان کے پیشہ کی بناء پر ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں وہ انتہائی جہالت و گمراہی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں۔رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی جائز پیشہ اختیار کرنا یہ انبیاء و مرسلین اور صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ لہٰذا ہرگز ہرگز پیشہ ور مسلمان کوحقیر ذلیل شمار نہیں کرنا چاہیے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پیشہ ور مسلمان ان لوگوں سے ہزاروں درجہ بہتر ہے جو سرکاری نوکریوں اور رشوتوں اور دھوکہ دہی کے ذریعہ رقمیں حاصل کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اپنے شریف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ شرعاً اس سے زیادہ ذلیل کون ہو گا جس کی کمائی حلال نہ ہو یا مشتبہ ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم بنی اسرائیل کے مشہور انبیا • ابراہیم • اسحاق • یعقوب • یوسف • موسیٰ • ہارون • داؤد • سليمان • دنی ایل • یسوع مسیح
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post قصہ جالوت و طالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2HoAYIo via India Pakistan News
0 notes