#مزاحمت
Explore tagged Tumblr posts
Text
جمہوریہ ترکیہ کی مزاحمت اور شاندارترقی کے 101 سال
(حسنین اولکھ) 29 اکتوبر یوم جمہوریہ ترکیہ منایا جاتا ہے، ترکیہ کی عوام نے سامراجی قوتوں کے خلاف عظیم قربانیوں اور عزم و حوصلے سے اپنی آزادی حاصل کی اور اسے برقرار رکھا، عثمانی سلطنت سے لے کر جمہوریہ ترکیہ کی تشکیل تک، ترکیہ کی تاریخ اتحاد، بہادری اور خودمختاری کی ایک روشن مثال ہے، برصغیر کے مسلمانوں اور ترک بھائیوں کے درمیان ہمیشہ سے ایک مضبوط رشتہ رہا ہے، جو مشکل کی ہر گھڑی میں یکجہتی اور حمایت…
0 notes
Text
اسرائیل نے فوٹیج جاری کر کے یحییٰ سنوار کی شہادت کی داستان کو امر کر دیا
اپنی زندگی کی طرح یحییٰ سنوار کی شہادت بھی مصائب کے خلاف مزاحمت کی عکاس تھی۔ وہ 1962ء میں خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے جہاں نکبہ کے دوران ان کا خاندان اپنے گھر عسقلان سے نقل مکانی کر کے پناہ حاصل کیے ہوئے تھا۔ یحییٰ سنوار نے 1987ء میں حماس کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی اس میں شمولیت اختیار کر لی اور داخلی سیکیورٹی ونگ کے اہم رکن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ یحییٰ سنوار جاسوسوں اور مخالفین کے سہولت کاروں کی شناخت کرنے میں مہارت رکھتے تھے اور اس کے لیے وہ اکثر اوقات سخت طریقہ کار اختیار کرتے تھے۔ ان کی جانب سے بنائے گئے نظام کی پائیداری اس سے بھی ثابت شدہ ہے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود اسرائیل کی انٹیلی جنس اب تک غزہ کی پٹی میں یحییٰ سنوار سمیت حماس کے دیگر اہم رہنماؤں کی نقل وحرکت کو بےنقاب کرنے میں جدوجہد کا سامنا کررہی ہے۔ اور جب وہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے تب بھی اسرائیل نے بذات خود اعتراف کیا کہ اسرائیلی افواج کا ان سے ٹکرا جانا ایک اتفاق تھا۔
1982ء اور 1988ء میں گرفتار ہونے والے یحییٰ سنوار نے رہائی سے قبل اسرائیلی جیل میں 23 سال گزارے اور انہیں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے تبادلے میں ایک ہزار 46 دیگر فلسطینی قیدیوں کے ہمراہ رہا کیا گیا۔ ممکنہ طور پر یہی وہ وجہ تھی جس کی بنا پر انہیں 7 اکتوبر کے حملے کی ترغیب ملی جس کے تحت حماس 250 اسرائیلی سپاہیوں کو یرغمالی بنا کر غزہ لے گیا۔ جیل نے ایک تربیتی مرکز کے طور پر کام کیا، سالوں بعد یحییٰ سنوار نے اپنے سپورٹرز کو بتایا، ’وہ چاہتے تھے یہ جیل ہماری قبر بن جائے جہاں وہ ہمارے حوصلوں اور عزائم کو کچل سکیں۔۔۔ لیکن ہم نے جیل کو اپنے لیے عبادت گاہوں اور مطالعے کے لیے اکیڈمیز میں تبدیل کر دیا‘۔ یہ محض کھوکھلی باتیں نہیں تھیں۔ یحییٰ سنوار نے جیل میں گزارے جانے والے عرصے میں عبرانی زبان پر عبور حاصل کیا اور ساتھ ہی وہ مشاہدہ کرتے رہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز کیسے کام کرتی ہیں بالخصوص بدنامِ زمانہ داخلی سیکیورٹی ونگ شن بیٹ کس طرح کام کرتا ہے، اس پر غور کیا۔ انہوں نے حاصل کردہ معلومات کا بہترین انداز میں استعمال کیا۔
یحییٰ سنوار جو سالوں سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے، غزہ میں ہی مقیم تھے، ایک مجاہد کے طور پر اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ رہے اور اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے اپنے گھر کے ملبے کے درمیان کرسی پر بیٹھے نظر آئے۔ حیرت انگیز طور پر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی وہ ایسے ہی ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔ زمینی کارروائی کے دوران اسرائیلی افواج سے سامنا ہونے پر یحییٰ سنوار اور ان کے تین محافظوں نے ایک عمارت میں پناہ لی۔ اسرائیل کے مطابق یحییٰ سنوار نے قریب آنے والے سپاہیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک اسرائیلی فوجی شدید زخمی ہوا۔ عمارت میں داخل ہو کر بات کرنے سے انکاری اسرائیلی فوج نے عمارت کو ٹینک سے نشانہ بنایا جس میں یحییٰ سنوار شدید زخمی ہوئے اور ان کا دایاں بازو جدا ہو گیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے ڈرون بھیجا۔ ان کے محافظ شہید ہو چکے تھے اور جیسا کہ ڈرون فوٹیج نے دکھایا، یحییٰ سنوار زخمی حالت میں سر پر کوفیہ باندھے صوفے پر براجمان تھے۔ ان کا بایاں بازو جو اس وقت حرکت کرنے کے قابل تھا، انہوں نے اس بازو سے مزاحمت کی آخری کوشش کے طور پر قریب آنے والے اسرائیلی کواڈ کاپٹر پر چھڑی پھینکی جوکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے ہولوکاسٹ کے خلاف مزاحمت کی ایک انسانی کوشش تھی۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی انہیں شہید کرنے کے لیے ایک اسنائپر شوٹر کی ضرورت پیش آئی۔
ان کی شہادت نے اسرائیل کے بہت سے جھوٹے دعووں کا پردہ چاک کیا۔ ایک سال سے زائد عرصے سے اسرائیلی میڈیا نے یحییٰ سنوار کے ٹھکانے کے بارے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کے ہر دعوے کو فرض شناسی کے ساتھ رپورٹ کیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ غزہ سے فرار ہو چکے ہیں اور کسی دوسرے ملک میں چھپے ہیں جبکہ ان کے ہم وطن مصائب کا سامنا کررہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ ایک خاتون کے بھیس میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ایک فریب جسے اسرائیل نے اپنی وحشیانہ کارروائیوں کے لیے جواز کے طور پر پیش کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اسرائیل نے اب تک انہیں اس لیے نشانہ نہیں بنایا کیونکہ وہ زیرِزمین سرنگوں میں خودکش جیکٹ پہن کر اسرائیلی یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس کے بجائے یحییٰ سنوار محاذ پر موجود تھے اور رفح میں اسرائیلی افواج سے چند میٹرز کی دوری پر تھے۔ ان کی آخری لمحات کی ویڈیو جاری کرکے اسرائیل نے یقینی بنایا کہ ان کی بہادری کی داستان امر ہو جائے۔
حتیٰ کہ وہ لوگ جو صہیونیت سے ہمدردی رکھتے ہیں، انہوں نے بھی فوٹیج جاری کرنے کے اقدام پر سوال اٹھایا لیکن میرے نزدیک ایسا اس لیے ہے کیونکہ اسرائیل اب تک ان لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنے سے قاصر ہے جنہیں وہ تقریباً ایک صدی سے ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر یہ فوٹیج جاری کرنے کے پیچھے اسرائیل کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو یحییٰ سنوار کی لاچارگی دکھائی جائے اور مزاحمت کے حوالے سے ناامیدی ظاہر کی جائے تو اس مقصد میں وہ بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ اس سے بالکل الٹ تاثر گیا۔ انہیں گمان تھا کہ یحییٰ سنوار کو مار کر وہ ان کی تحریک کو ختم کرسکتے ہیں تو وہ اب تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ مزاحمت، قیادت کے بجائے ڈھائے جانے والے مظالم سے مضبوط ہوتی ہے۔ جب تک جبر رہے گا تب تک اس کے خلاف مزاحمت بھی موجود رہے گی۔ جہاں تک یحییٰ سنوار کی بات ہے، یہی وہ انجام تھا جس کی انہیں خواہش تھی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا، ’اسرائیل مجھے سب سے بڑا تحفہ مجھے قتل کر کے دے سکتا ہے۔۔۔ میں کورونا وائرس، اسٹروک یا ہارٹ اٹیک سے مرنے کے بجائے ایف 16 طیارے کی بمباری سے شہید ہونے کو ترجیح دوں گا‘۔ یحییٰ سنوار کو تو وہ مل گیا جس کی انہیں خواہش تھی، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اسرائیل اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوپاتا ہے یا نہیں۔
ضرار کھوڑو
بشکریہ ڈان نیوز
4 notes
·
View notes
Text
"ہاں، پہلے تھپڑ پر ہم لڑکھڑاتے ہیں، دوسرے پر ہم مزاحمت کر سکتے ہیں، اور تیسرے پر ہم چیخ سکتے ہیں۔ لیکن دس بجے ہم گیارہ کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔"
"Yes, at the first slap we stagger, at the second we may resist, and at the third we may scream. But at ten o'clock we do nothing but wait for eleven."
Noor Abdul Majeed
18 notes
·
View notes
Text
پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟
جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔ اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی۔
شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا۔ ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں۔ مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔
2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ اسی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔ ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔ مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15 ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔
اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ پھر 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی۔ میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23 مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی۔ ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو انگریزوں کے دشمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
ابن انشاء نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
ایک دیوار گریہ بنائیں کہیں جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔
ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes
·
View notes
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی م��یشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پ��بندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
اصول بیچنے والو ! بہت ہی نیچ ہو تم
اب اس سے کیا کہ زمانے میں، معتبر ہی رہو
ہمارے دل پہ جو گزری ہے اس سے کیا تم کو
یہی ہے خوب کہ تم ہم سے ، بے خبر ہی رہو
مزاحمت کو بھلا کر مفاہمت پہ چلے
شبِ سیاہ کے پرستار ، بے ثمر ہی رہو
2 notes
·
View notes
Text
لیا (۱۰) - سهیلا (۲)
خیلی محتاط و آروم وارد حیاط خونه شدم و در رو بستم. صدای امواج و آب ضعیفی شنیده میشد. یه بوته بزرگ شمشاد جلوی دید بود. شمشاد رو که دور زدم با دیدن این صحنه خشکم زد. 😳 برگام ریخت! 🫨 سهیلا با موهای بلوند و فر خوشگلش و لخت مادر زاد و بدنی که مالامال از عضلات ورزیده و سنگین بود ایستاده بود و لیا هم لخت مادر زاد جلوی پاش نشسته بود و داشت کص سهیلا رو میخورد! 😱🤯
سهیلا داشت آه میکشید و لذت میبرد. یدفه لیا برگشت و با چشمای قشنگش که از لذت و شهوت مست بود، بهم نگاه کرد. بدنم یخ کرد!... اونا کنار استخر بودن و من نزدیک ۱۵ متر باهاشون فاصله داشتم ولی بدنشون جوری دم کرده بود که من تک تک رگهاشون رو میدزدم. لیا با دستان قدرتمندش رونهای بزرگ و عضلانی سهیلا رو میمالید. رگ های دست و ساعد و بازوش مثل همیشه بیرون زده بود اما خیلی بیشتر از قبل برآمده بود رگهاش. رگ بزرگی از کص سهیلا تا زیر سینه هاش که مثل دو تا گنبد محکم و بزرگ سربرافراشته بودن امتداد داشت. لیا با چشمای خمارش گفت:« اووووووم... ببین کی اینجاس؟... مموشی کردنی من!... اوووووووههههف 🫦😈💦» سهیلا هم سرش رو آورد پایین و منو دید و گفت:« میلاد کوچولو... اومدی؟... بیا اینجا ببینم!» من بدنم میلرزید... لیا و سهیلا مجموعا از کل مردهایی که توی کیش میشناختم بیشتر عضله داشتن. دو تا ماده شیر عضلانی با بدنهایی که از زیر چونه تا نوک انگشتان پا پوشیده از عضله بود. من که عرق سرد روی صورتم نشسته بود گفت��:« لیا!... عزیزم... داری چیکار میکنی؟!!! 😨» لیا لبخند شیرینی زد و گفت:« دارم حال میکنم عسلِ کصم... قراره تو ام حال کنی... میخوام بمالیمت به کص هامون عسل... عسلِ کصِ لیا... 😈💜💦» این الفاظ رو جوری میگفت که هم وحشت کردم و هم کیرم بلند سد. بی اختیار برگشتم به سمت در ویلا... اما!
اما در بسته بود. هر چه سعی کردم نمیشد بازش کرد. انگار جوری طراحی شده بود که فقط از راه دور باز بشه. ضربان قلبم از وحشت بالا رفته بود و بدنم میلرزید. عرق کرده بود. یدفه احساس کردم یه سایه ای اومد پشت سرم. برگشت و با دیدن لیا ترسیدم و چسبیدم به در!
لیا در حالی که پاهاش رو به اندازه عرض شانه باز کرد بود، دست های قطورش رو به کمرش زد و یه فیگور زیر بغل گرفت. جلال و جبروت بدن عضلانی لیا باعث وحشت بیشتر من شد. تتو های دستش تا روی سرشونه اش رفته لود و بیشتر شده بود و من تازه متوجه شده بودم. گردنش هم پوشیده از تتو بود. دو قلب هم اطراف نوک پستوناش تنو زده بود. لیا پوزخندی زد و گفت:« جایی میخوای بری مموشی من؟ 😏» من با لکنت گفتم:« ن... ن... ن...نه ییییعنی چرا... ببخشید مزاحمت شدم عزیزم!...» لیا شروع کرد به خندیدن و گفت:« اتفاقاً خوب شد اومدی عسلم... هوس کردم بمالمت به کصم 🫦😋» شروع کردم به التماس کردن و لیا بیشتر میخندید. بدنم مثل بید میلرزید. لیا با لبخند شهوت آلودی بهم گفت:« نترس میلاد... کاریت ندارم عشقم... » هی گفتم:« لیا... تو رو خدا... لیا بزار برم بعدا تو بیا... اصلا فردا بیا...» لیا اومد نزدیک تر و خندید و گفت:« فردا چرا عشقم... بیا امشب میخوام باهات حال کنم... یه استراحتی هم میکنی عسلِ کصِ تپل من! 😈 💋💋💋» و مچ دستام گرفت و با قدرتش چسبوند به در و شروع کرد ازم لب بگیره. به محض لمس لب های گرم و مرطوب لیا توسط لب هام ضربان قلبم آرومتر شد و آرامش وجودم رو فراگرفت. لیا همزمان با لب گرفتن بدن عضلانی خودش رو به من میمالید و کصش رو از روی شلوار به کیر راست شده من فشار میداد. بعد از چند لحظه لبم رو رها کرد و با لبخندی گفت:« میلادم... بمون همینجا... خیلی خوش میگذره...» صداش رو اروننر کرد و با چشمکی گفت:« سهیلا هم میخواد بهت کص بده... انقدر تعریف تبحرت توی سکس رو براش کردم که برات خیس خیسه!...» اما لیا تصمیمش رو گرفته بود انگار، چون من هرچی التماس و اصرار بهش کردم گوشش بدهکار نبود. منم که مثل یه فنچ در اختیار داشت. دریای شهوتشم طوفانی بود و در این مواقع هیچ زنی منطق سرش نمیشه. خلاصه همونجا با زور و قدرتش لباسهام رو پاره کرد و منو مثل یه قالی لوله شده انداخت روی کولش و برگشت به سمت سهیلا.
1K notes
·
View notes
Text
آموزش پارک دوبل یکی از مهمترین مهارتهایی است که هر رانندهای باید به آن مسلط باشد. این مهارت نه تنها برای پارک کردن خودرو در فضاهای محدود بلکه برای انجام مانورهای مختلف در ترافیک شهری نیز ضروری است. در این مقاله به بررسی اهمیت آموزش پارک دوبل و کاربردهای آن میپردازیم.
چرا آموزش پارک دوبل مهم است؟
تسلط بر رانندگی: پارک دوبل به شما کمک میکند تا کنترل کامل بر خودرو خود داشته باشید و در فضاهای تنگ با دقت مانور دهید.
افزایش اعتماد به نفس: تسلط بر پارک دوبل، اعتماد به نفس شما را در رانندگی افزایش میدهد و باعث میشود در شرایط مختلف رانندگی احساس راحتی بیشتری داشته باشید.
رعایت قوانین: پارک دوبل در مکانهای مشخص و با رعایت قوانین، باعث میشود تا از ایجاد مزاحمت برای سایر رانندگان جلوگیری کرده و نظم ترافیکی را حف�� کنید.
کاهش استر��: هنگامی که شما به مهارت پارک دوبل مسلط باشید، در هنگام پارک کردن خودرو در مکانهای شلوغ احساس استرس کمتری خواهید داشت.
کاربردهای آموزش پارک دوبل
پارک در فضاهای محدود: مهمترین کاربرد پارک دوبل، پارک کردن خودرو در فضاهای محدود مانند خیابانهای باریک، پارکینگهای کوچک و مراکز خرید شلوغ است.
مانور در ترافیک: مهارت پارک دوبل به شما کمک میکند تا در ترافیک شلوغ و در جاهایی که فضای مانور کمی وجود دارد، به راحتی مانور دهید.
پارک موازی: این مهارت به شما کمک میکند تا خودرو را به صورت موازی با سایر خودروها پارک کنید.
پارک عمودی: در برخی از پارکینگها، نیاز به پارک عمودی خودرو وجود دارد که این مهارت نیز با آموزش پارک دوبل قابل دستیابی است.
مزایای آموزش پارک دوبل به صورت حرفهای
یادگیری سریعتر: آموزشگاههای رانندگی با استفاده از روشهای آموزشی استاندارد و مربیان مجرب، به شما کمک میکنند تا در کمترین زمان ممکن به مهارت پارک دوبل مسلط شوید.
ایمنی بیشتر: در آموزشگاههای رانندگی، شما در محیطی امن و تحت نظارت مربی، مهارتهای خود را بهبود میبخشید و از بروز حوادث احتمالی جلوگیری میکنید.
اطلاع از قوانین: مربیان آموزشگاه رانندگی، شما را با قوانین و مقررات مربوط به پارک خودرو آشنا میکنند.
رفع مشکلات: در صورتی که در هنگام یادگیری پارک دوبل با مشکل مواجه شوید، مربی میتواند به شما کمک کند تا این مشکلات را برطرف کنید.
آموزش پارک دوبل در منزل
اگر به هر دلیلی امکان شرکت در کلاسهای آموزش رانندگی را ندارید، میتوانید با استفاده از منابع آموزشی موجود در اینترنت، کتابها و فیلمهای آموزشی، به صورت خودآموز به یادگیری پارک دوبل بپردازید. با این حال، بهتر است برای یادگیری اصولی و ایمن این مهارت، از یک مربی مجرب کمک بگیرید.
نکات مهم برای آموزش پارک دوبل
صبر و حوصله: یادگیری پارک دوبل نیازمند تمرین و صبر است. عجله نکنید و به تدریج به مهارتهای خود اضافه کنید.
تمرین مداوم: هرچه بیشتر تمرین کنید، مهارت شما در پارک دوبل بهتر خواهد شد.
ایمنی: هنگام تمرین، ایمنی خود و دیگران را در اولویت قرار دهید.
استفاده از منابع آموزشی معتبر: برای یادگیری بهتر، از منابع آموزشی معتبر و بروز استفاده کنید.
در نهایت، آموزش پارک دوبل یکی از مهمترین مهارتهایی است که هر رانندهای باید به آن مسلط باشد. با یادگیری این مهارت، میتوانید به راحتی در شهر رانندگی کرده و از رانندگی لذت ببرید.
کلمات کلیدی: آموزش پارک دوبل، پارک دوبل، رانندگی، مهارت رانندگی، آموزشگاه رانندگی، پارک موازی، پارک عمودی
[تصویر آموزش پارک دوبل]
نکته: برای یادگیری بهتر پارک دوبل، میتوانید از فیلمهای آموزشی موجود در اینترنت استفاده کنید. با جستجوی عبارت "آموزش پارک دوبل" در موتورهای جستجو، به ویدیوهای آموزشی متنوعی دسترسی خواهید داشت
0 notes
Text
حسن نصر اللہ کے ممکنہ جانشین ہاشم صفی الدین کی شہادت کی تصدیق
لبنان کی تحریک مزاحمت حزب اللہ نےسینئر رہنما ہاشم صفی الدین کی شہادت کی تصدیق کردی۔ حزب اللہ کے مطابق ہاشم صفی الدین اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے تھے، انہیں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کےبعد ان کا جانشین سمجھا جارہا تھا۔ گزشتہ روز اسرائیلی فوج نےحزب اللہ کےقائم مقام سربراہ ہاشم صفی الدین کو شہید کرنےکا دعویٰ کیا تھا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ ہاشم صفی الدین کوتین ہفتےپہلےبیروت…
0 notes
Text
تحریک انصاف کا جمعے کے روز ملک گیراحتجاج کا اعلان
(عثمان خادم کمبوہ)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی )نے جمعہ کے روز ملک گیرسطح پر شدید احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی اجلاس نے اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں جمعہ کو احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے ،پارٹی کی سیاسی کمیٹی نےآئینی ترمیم کے حکومتی منصوبے کی بھرپور مزاحمت کا فیصلہ کرتے ہوئے آئین میں ترمیم کے خلاف جمعہ کے روز ملک گیر سطح پر شدید احتجاج کی کال دی ہے،اعلامیہ کے مطابق عمران خان…
0 notes
Photo
دوران طواف میں حج اسود کو بوسہ دینا ضروری نہیں سوال ۵۰۱: میں نے بعض طواف کرنے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے اپنی خواتین کو آگے ڈھکیلتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دینا افضل ہے یا مردوں کی بھیڑ سے عورتوں کا دور رہنا؟ جواب :سائل نے اگر یہ عجیب بات دیکھی ہے، تو میں نے اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز بات یہ دیکھی ہے کہ بعض لوگ فرض نماز میں سلام پھیرنے سے پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور حجر اسود کو بوسہ دینے کی کوشش میں دوڑ بھاگ میں لگ جاتے ہیں اس طرح فرض نماز کو جو ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے، ایک ایسے کام کی وجہ سے باطل کر لیتے ہیں، جو واجب نہیں ہے اور طواف کے بغیر اسے مشروع قرار نہیں دیا گیا ہے۔ یہ لوگوں کی جہالت مرکب ہے، جس پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ حجر اسود کا بوسہ واستلام صرف طواف میں سنت ہے، طواف کے بغیر سنت نہیں ہے۔ اگر کسی کو معلوم ہے کہ طواف کے بغیر حجر اسود کا بوسہ واستلام سنت ہے، تو امید ہے کہ وہ ہمیں بھی اس کے بارے میں مطلع فرما دے گا، اللہ تعالیٰ اسے جزائے خیر سے نوازے۔ حجر اسود کو بوسہ دینا طواف میں مسنون ہے اور مسنون بھی اس صورت میں کہ اس سے طواف کرنے والے یا کسی دوسرے کو کوئی ایذا نہ پہنچے۔ اگر اس سے کسی دوسرے کو ایذا پہنچتی ہو تو پھر بوسے کے بجائے دوسرا طریقہ اختیار کیا جائے گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مشروع فرمایا ہے اور وہ یہ کہ انسان حجر اسود کو ہاتھ سے چھو لے اور ہاتھ کا بوسہ لے لے اور اگر اس میں بھی ایذا ومشقت ہو تو پھر تیسرا طریقہ اختیار کیا جائے گا جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے اور وہ یہ کہ ہم حجر اسود کی طرف ایک ہاتھ سے، دونوں ہاتھوں سے نہیں، یعنی دائیں ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کریں اور اسے بوسہ نہ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اسی طرح ثابت ہے۔ اگر اس طرح کی صورت حال در پیش ہو جیسی سائل نے ذکر کی ہے کہ انسان اپنی خواتین کو آگے ڈھکیلتا ہے تاکہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے سکیں تو ان خواتین میں کوئی حاملہ بھی ہو سکتی ہییا کوئی بڑھیا بھی ہو سکتی ہے، کوئی ایسی دوشیزہ بھی ہو سکتی ہے جو دھکم پیل کو برداشت نہ کر سکتی ہو یا اس نے ہاتھ میں بچہ اٹھا رکھا ہو تو یہ تمام صورتیں بے حد معیوب ہیں کیونکہ اس طرح خواتین کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور مردوں کے ساتھ مزاحمت کاخطرہ ہے، اور یہ تمام صورتیں حرام یا کم از کم مکروہ ہیں، لہٰذا کسی بھی آدمی کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کام میں کافی گنجائش ہے، آپ بھی اس گنجائش سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے آپ پر سختی نہ کریں کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ بھی آپ پر سختی کرے گا۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۳۵، ۴۳۶ ) #FAI00411 ID: FAI00411 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
27 ویں ترمیم نہیں آئے گی بھرپور مزاحمت کریں گے: فضل الرحمان
(24 نیوز )جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 27 ویں ترمیم نہیں آئے گی، اگر ایسا ہوا تو بھرپور مزاحمت کریں گے۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اصل ڈرافٹ اور فائنل ہونے والے ڈرافٹ میں فرق تھا، آئینی ترمیم کی 56 کلاز تھیں،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں ہوں ،حکومت میں جانےکا کوئی ارادہ نہیں ہے، 27ویں ترمیم نہیں آئےگی بھرپور مزاحمت کریں گے۔سربراہ…
0 notes
Text
ٹیکس نیٹ بڑھنے میں رکاوٹ؟
پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا کررہا ہے اسکی بنیادی وجہ وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے نجی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ حتمی طور پر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں عام آدمی تو ماچس کی ڈبیا خریدنے پر بھی ٹیکس دینے پر مجبور ہے جبکہ بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت دستیاب ہے۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں غیر دستاویزی معیشت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کی ٹیکس مشینری کی بدانتظامی ظاہر ہوتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد غیر رسمی معیشت کا حصہ رہتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے لوگوں میں حکومت کی ٹیکس مشینری پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنیں گے تو انہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے عملے کی طرف سے بلا جواز تنگ کرنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔
ٹیکس پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں اور ٹیکس قوانین میں وضاحت کی کمی بھی ٹیکس دہندگان کے لیے سمجھ بوجھ اور تعمیل کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم اس محکمے کو بھی عملے کی مبینہ نااہلیوں، بدعنوانیوں اور ناکافی وسائل کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے حال ہی میں ایف بی آر اور کسٹم کے بعض افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی ہے۔ تاہم ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ میں توسی�� کے حوالے سے ایک اور اہم فیکٹر سیاسی قیادت یا حکومت کا عزم ہے کیونکہ زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ہی طویل عرصے سے عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اسے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں یہ کوشش سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں حکومت کی طرف سے متعارف کروائی گئی ’’تاجر دوست اسکیم‘‘ کی ناکامی اس کی ایک مثال ہے۔
تاجر طبقے سے متعلق حکومت کے اپنے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک بھر میں کاروبار کرنے والے 35 لاکھ تاجروں میں سے صرف تین لاکھ باقاعدگی سے ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے یکم اپریل کو شروع کی گئی ’’تاجر دوست اسکیم‘‘ کے تحت 32 لاکھ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن ایک ماہ میں اس اسکیم کے تحت سو سے بھی کم تاجروں نے رضاکارانہ رجسٹریشن کروائی ہے۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے افسوسناک ہے کہ جی ڈی پی میں ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر کا حصہ 18 فیصد ہونے کے باوجود اس شعبے کا محصولات میں حصہ چار فیصد سے بھی کم ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تاجر دوست اسکیم ناکام ہونے کے بعد ایف بی آر نے نان فائلر تھوک اور خوردہ فروشوں کی سپلائز پر ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ نئے ٹیکس ریٹس کا اعلان بجٹ 25-2024ء میں کیا جائے گا اور اس کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا۔ ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کے مجوزہ منصوبے کے مطابق تاجر دوست اسکیم کے تحت رجسٹرڈ نہ ہونے والے ڈسٹری بیوٹرز کی مینوفیکچرر زکو سپلائز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھا کر 10 فیصد کر دی جائے گی جو اس وقت 0.2 فیصد ہے، جس کا اثر ریٹیلرز کو منتقل کیا جائے گا۔
مینوفیکچرر سپلائی کرنے والوں سے ڈسٹری بیوٹرز کے 10 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس منہا کریں گے جسے نیچے سپلائی چین میں منتقل کیا جائے گا اسی طرح درآمد کنندگان بھی سپلائرز پر 10 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کاٹیں گے۔ اس وقت فائلر تاجروں پر 0.1 فیصد اور نان فائلرز پر 0.2 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس عائد ہے۔ ایف بی آر کے تخمینے کے مطابق اس اقدام سے تقریباً 400 سے 500 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو گا۔ اگرچہ اس اقدام سے حکومت کے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہو جائے گا لیکن طویل المدت بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ کہنا بیجا نہیں ہو گا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی حکومتی کوششوں کو ایک مرتبہ پھر دھچکا لگا ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے یہ بھی امکان ہے کہ تاجروں کے متوقع احتجاج کے بعد ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کا فیصلہ واپس لے لیا جائے یا اس کی شرح میں ا��نی کمی کر دی جائے کہ تاجروں کو اس پر اعتراض نہ رہے۔ اس طرح لامحالہ ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لئے تمام تر بوجھ یا تو عام عوام پر ڈالا جائے گا یا پھر ان سیکٹرز پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی جائے گی جو پہلے سے ٹیکس نیٹ کا حصہ ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس فرسودہ سوچ کو تبدیل کر کے ٹیکس نیٹ میں توسیع کو ٹیکس اصلاحات کا بنیادی نکتہ بنائے اس سے ٹیکس ریونیو میں خودبخود اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے لئے فوری طور پر ہر شہری کے شناختی کارڈ نمبر کو ٹیکس نمبر قرار دیا جائے اور ایسے نان فائلرز کے خلاف فوری کریک ڈائون کیا جائے جو ماہانہ لاکھوں روپے کے اخراجات کرنے کے باوجود ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ہاں، پہلے تھپڑ پر ہم لڑکھڑاتے ہیں، دوسرے پر ہم مزاحمت کر سکتے ہیں، اور تیسرے پر ہم چیخ سکتے ہیں۔ لیکن دس بجے ہم گیارہ کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔
Yes, on the first slap we stutter, on the second we can resist, and on the third we can scream. But at ten o'clock we do nothing but wait for eleven.
The light of Abdul Majeed
21 notes
·
View notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر حکومت پنجاب ننکانہ صاحب فون نمبر056-9201028
ہینڈ آوٹ نمبر415
ننکانہ صاحب:( )22 ستمبر 2024۔۔۔۔۔۔وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو نے ناجائز تجاوزات کا جائزہ لینے کے لیے ننکانہ سٹی، موڑ کھنڈا اور منڈی فیض آباد کا طویل دورہ کیا۔اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل رائے ذوالفقار علی، اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ وجیہہ ثمرین، سی او ضلع کونسل عامر اختر بٹ، سی او میونسپل کمیٹی راو انوار، متعلقہ انکروچمنٹ انسپکٹرز، انجمن تاجران کے نمائندے، میڈیا نمائندگان سمیت دیگر افسران بھی ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ موجود تھے۔طویل دورے کے دوران ڈپٹی کمشنر محمد تسلیم اختر راو نے ننکانہ سٹی، موڑکھنڈا اور منڈی فیض آباد کے تاجران سے ملاقات بھی کی۔ڈپٹی کمشنر نے انجمن تاجران کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوکاندار حضرات 25 ستمبر تک ناجائز تجاوزات اپنی مدد آپ کے تحت ہٹا لیں، 25 ستمبر کے بعد ناجائز تجاوزات کرنے والوں کا سامان ضبط کر لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ 25 ستمبر کے بعد ضلع کے تمام شہروں اور قصبوں میں بیک وقت ناجائز تجاوزات کے خلاف سخت کریک ڈاون کا آغاز کیا جائے گا۔انجمن تاجران کے نمائندوں نے 25 ستمبر تک ڈپٹی کمشنر کو ناجائز تجاوزات ہٹانے کی یقین دہانی کروائی۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ نے کہا کہ ناجائز تجاوزات اور اسٹیٹ لینڈ پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھ بلاتفریق کاروائیاں کریں گے، شہریوں کی سہولت کے لیے بنائے جانے والے راستوں ہر صورت کلیئر کروایا جائے گا، اداروں سے مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے ویژن کے مطابق عوام الناس کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے۔ڈپٹی کمشنر نے عوامی مسائل کے حل کے لیے موڑ کھنڈا اور منڈی فیض آباد کی مساجد میں کھلی کچہریاں بھی لگائیں، ڈپٹی کمشنر نے مساجد میں عوام الناس کے مسائل سنے اور متعلقہ افسران کو عوامی شکایات موقع پر حل کرنے کے احکامات بھی جاری کیے۔ڈپٹی کمشنر نے کھلی کچہری کے دوران ریڑھی بانوں سے ملاقات بھی کی۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر ننکانہ محمد تسلیم اختر راو نے متعلقہ افسران کو ضلع کے تمام شہروں میں ریڑھی بانوں کے لیے فوری جگہ مختص کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضلع کے ہر شہر میں ریڑھی بانوں کو جگہ کی دستیابی سمیت تمام تر سہولیات فراہم کریں گے تاکہ یہ اپنے بچوں کے لیے بہتر روزگار کما سکیں۔انہوں نے ریڑھی بانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریڑھی بان شہریوں کی گزرگاہوں کو بند نہ کریں اور کسی سرکاری اہلکار یا دوکاندار کو ریڑھی لگانے کے پیسے ادا نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ بھتہ مانگنے والوں کے خلاف مجھے ڈائریکٹ شکایت کریں، سخت ایکشن لیا جائے گا، ریڑھی بان غریب لوگ ہیں، ان کا رزق بند نہیں کرنا چاہتے، آپ کو بھی انتظامیہ کے احکامات پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کے لیے رزق کمائیں لیکن شہریوں کو اشیاء جائز منافع رکھ فروخت کریں۔بعد ازاں ڈپٹی کمشنر محمد تسلیم اختر راو نے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کے ستھرا پنجاب مہم کے تحت ضلع بھر میں جاری شجرکاری، شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کو خوبصورت بنانے کے حوالے سے کھیاڑے کلاں تا ننکانہ روڑ کا دورہ کیا۔انہوں نے متعلقہ اداروں کی جانب سے لگائے جانے والے پودوں کا جائزہ لیا۔اس موقع پر انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پودوں کی نگہداشت میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا، پودے درخت بن کر آنے والی نسلوں کو سرسبز و شاداب ماحول فراہمی کے ساتھ ساتھ ماحول کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔علاوہ ازیں ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو نے گزشتہ دنوں شاہکوٹ روڑ پر واگزار کروائی جانے والی اسٹیٹ لینڈ کا دورہ کیا۔اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ وجیہہ ثمرین سمیت دیگر ریونیو عملہ بھی ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ تھے۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ لینڈ کو قابضین سے واگزار کروانے کے لیے آپریشن کو تیز کیا جائے گا اور سرکاری اراضی کا چپہ چپہ قابضین سے واگزار کروایا جائے گا۔
0 notes
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر ��بادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم پر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes
·
View notes