#مزاحمت
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 5 months ago
Text
جمہوریہ ترکیہ کی مزاحمت اور شاندارترقی کے 101 سال
(حسنین اولکھ) 29 اکتوبر یوم جمہوریہ ترکیہ منایا جاتا ہے، ترکیہ کی عوام نے سامراجی قوتوں کے خلاف عظیم قربانیوں اور عزم و حوصلے سے اپنی آزادی حاصل کی اور اسے برقرار رکھا، عثمانی سلطنت سے لے کر جمہوریہ ترکیہ کی تشکیل تک، ترکیہ کی تاریخ اتحاد، بہادری اور خودمختاری کی ایک روشن مثال ہے، برصغیر کے مسلمانوں اور ترک بھائیوں کے درمیان ہمیشہ سے ایک مضبوط رشتہ رہا ہے، جو مشکل کی ہر گھڑی میں یکجہتی اور حمایت…
0 notes
risingpakistan · 5 months ago
Text
اسرائیل نے فوٹیج جاری کر کے یحییٰ سنوار کی شہادت کی داستان کو امر کر دیا
Tumblr media
اپنی زندگی کی طرح یحییٰ سنوار کی شہادت بھی مصائب کے خلاف مزاحمت کی عکاس تھی۔ وہ 1962ء میں خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے جہاں نکبہ کے دوران ان کا خاندان اپنے گھر عسقلان سے نقل مکانی کر کے پناہ حاصل کیے ہوئے تھا۔ یحییٰ سنوار نے 1987ء میں حماس کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی اس میں شمولیت اختیار کر لی اور داخلی سیکیورٹی ونگ کے اہم رکن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ یحییٰ سنوار جاسوسوں اور مخالفین کے سہولت کاروں کی شناخت کرنے میں مہارت رکھتے تھے اور اس کے لیے وہ اکثر اوقات سخت طریقہ کار اختیار کرتے تھے۔ ان کی جانب سے بنائے گئے نظام کی پائیداری اس سے بھی ثابت شدہ ہے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود اسرائیل کی انٹیلی جنس اب تک غزہ کی پٹی میں یحییٰ سنوار سمیت حماس کے دیگر اہم رہنماؤں کی نقل وحرکت کو بےنقاب کرنے میں جدوجہد کا سامنا کررہی ہے۔ اور جب وہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے تب بھی اسرائیل نے بذات خود اعتراف کیا کہ اسرائیلی افواج کا ان سے ٹکرا جانا ایک اتفاق تھا۔
1982ء اور 1988ء میں گرفتار ہونے والے یحییٰ سنوار نے رہائی سے قبل اسرائیلی جیل میں 23 سال گزارے اور انہیں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے تبادلے میں ایک ہزار 46 دیگر فلسطینی قیدیوں کے ہمراہ رہا کیا گیا۔ ممکنہ طور پر یہی وہ وجہ تھی جس کی بنا پر انہیں 7 اکتوبر کے حملے کی ترغیب ملی جس کے تحت حماس 250 اسرائیلی سپاہیوں کو یرغمالی بنا کر غزہ لے گیا۔ جیل نے ایک تربیتی مرکز کے طور پر کام کیا، سالوں بعد یحییٰ سنوار نے اپنے سپورٹرز کو بتایا، ’وہ چاہتے تھے یہ جیل ہماری قبر بن جائے جہاں وہ ہمارے حوصلوں اور عزائم کو کچل سکیں۔۔۔ لیکن ہم نے جیل کو اپنے لیے عبادت گاہوں اور مطالعے کے لیے اکیڈمیز میں تبدیل کر دیا‘۔ یہ محض کھوکھلی باتیں نہیں تھیں۔ یحییٰ سنوار نے جیل میں گزارے جانے والے عرصے میں عبرانی زبان پر عبور حاصل کیا اور ساتھ ہی وہ مشاہدہ کرتے رہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز کیسے کام کرتی ہیں بالخصوص بدنامِ زمانہ داخلی سیکیورٹی ونگ شن بیٹ کس طرح کام کرتا ہے، اس پر غور کیا۔ انہوں نے حاصل کردہ معلومات کا بہترین انداز میں استعمال کیا۔
Tumblr media
یحییٰ سنوار جو سالوں سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے، غزہ میں ہی مقیم تھے، ایک مجاہد کے طور پر اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ رہے اور اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے اپنے گھر کے ملبے کے درمیان کرسی پر بیٹھے نظر آئے۔ حیرت انگیز طور پر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی وہ ایسے ہی ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔ زمینی کارروائی کے دوران اسرائیلی افواج سے سامنا ہونے پر یحییٰ سنوار اور ان کے تین محافظوں نے ایک عمارت میں پناہ لی۔ اسرائیل کے مطابق یحییٰ سنوار نے قریب آنے والے سپاہیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک اسرائیلی فوجی شدید زخمی ہوا۔ عمارت میں داخل ہو کر بات کرنے سے انکاری اسرائیلی فوج نے عمارت کو ٹینک سے نشانہ بنایا جس میں یحییٰ سنوار شدید زخمی ہوئے اور ان کا دایاں بازو جدا ہو گیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے ڈرون بھیجا۔ ان کے محافظ شہید ہو چکے تھے اور جیسا کہ ڈرون فوٹیج نے دکھایا، یحییٰ سنوار زخمی حالت میں سر پر کوفیہ باندھے صوفے پر براجمان تھے۔ ان کا بایاں بازو جو اس وقت حرکت کرنے کے قابل تھا، انہوں نے اس بازو سے مزاحمت کی آخری کوشش کے طور پر قریب آنے والے اسرائیلی کواڈ کاپٹر پر چھڑی پھینکی جوکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے ہولوکاسٹ کے خلاف مزاحمت کی ایک انسانی کوشش تھی۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی انہیں شہید کرنے کے لیے ایک اسنائپر شوٹر کی ضرورت پیش آئی۔
ان کی شہادت نے اسرائیل کے بہت سے جھوٹے دعووں کا پردہ چاک کیا۔ ایک سال سے زائد عرصے سے اسرائیلی میڈیا نے یحییٰ سنوار کے ٹھکانے کے بارے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کے ہر دعوے کو فرض شناسی کے ساتھ رپورٹ کیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ غزہ سے فرار ہو چکے ہیں اور کسی دوسرے ملک میں چھپے ہیں جبکہ ان کے ہم وطن مصائب کا سامنا کررہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ ایک خاتون کے بھیس میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ایک فریب جسے اسرائیل نے اپنی وحشیانہ کارروائیوں کے لیے جواز کے طور پر پیش کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اسرائیل نے اب تک انہیں اس لیے نشانہ نہیں بنایا کیونکہ وہ زیرِزمین سرنگوں میں خودکش جیکٹ پہن کر اسرائیلی یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس کے بجائے یحییٰ سنوار محاذ پر موجود تھے اور رفح میں اسرائیلی افواج سے چند میٹرز کی دوری پر تھے۔ ان کی آخری لمحات کی ویڈیو جاری کرکے اسرائیل نے یقینی بنایا کہ ان کی بہادری کی داستان امر ہو جائے۔ 
حتیٰ کہ وہ لوگ جو صہیونیت سے ہمدردی رکھتے ہیں، انہوں نے بھی فوٹیج جاری کرنے کے اقدام پر سوال اٹھایا لیکن میرے نزدیک ایسا اس لیے ہے کیونکہ اسرائیل اب تک ان لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنے سے قاصر ہے جنہیں وہ تقریباً ایک صدی سے ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر یہ فوٹیج جاری کرنے کے پیچھے اسرائیل کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو یحییٰ سنوار کی لاچارگی دکھائی جائے اور مزاحمت کے حوالے سے ناامیدی ظاہر کی جائے تو اس مقصد میں وہ بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ اس سے بالکل الٹ تاثر گیا۔ انہیں گمان تھا کہ یحییٰ سنوار کو مار کر وہ ان کی تحریک کو ختم کرسکتے ہیں تو وہ اب تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ مزاحمت، قیادت کے بجائے ڈھائے جانے والے مظالم سے مضبوط ہوتی ہے۔ جب تک جبر رہے گا تب تک اس کے خلاف مزاحمت بھی موجود رہے گی۔ جہاں تک یحییٰ سنوار کی بات ہے، یہی وہ انجام تھا جس کی انہیں خواہش تھی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا، ’اسرائیل مجھے سب سے بڑا تحفہ مجھے قتل کر کے دے سکتا ہے۔۔۔ میں کورونا وائرس، اسٹروک یا ہارٹ اٹیک سے مرنے کے بجائے ایف 16 طیارے کی بمباری سے شہید ہونے کو ترجیح دوں گا‘۔ یحییٰ سنوار کو تو وہ مل گیا جس کی انہیں خواہش تھی، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اسرائیل اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوپاتا ہے یا نہیں۔
ضرار کھوڑو
بشکریہ ڈان نیوز  
4 notes · View notes
dr-jan-baloch · 3 months ago
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ایف بی ایم کا جرمنی میں مظاہرہ
https://humgaam.net/?p=99861
جرمنی (ہمگام نیوز) انسانی حقوق کا دن ہر سال 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے، جس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1948 میں انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظور کیا تھا۔ اس دن کے موقع پر فری بلوچستان موومنٹ (FBM) جرمنی برانچ نے بلوچستان میں جاری بحران کو اجاگر اور غیر قانونی قبضے سے آزادی کے مطالبے کا اعادہ کرنے کے لیے جرمنی کے شہر ہنوفر کے مرکزی اسٹیشن کے سامنے ایک احجاجی مظاہرہ کیا ۔ احتجاج کے دوران جرمن زبان میں سینکڑوں پمفلٹ بھی تقسیم کیے گئے تاکہ جرمن عوام میں بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جا سکے۔
مظاہرین سے اشفاق بلوچ، خدا داد بلوچ، بیبگر بلوچ اور ممتاز بلوچ نے خطاب کیا جبکہ ماڈریٹر کی ذمہ داری نوید بلوچ نے سرانجام دی۔
مقررین نے کہا کہ بلوچ عوام اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بلوچ کئی دہائیوں سے غیر انسانی سلوک کا شکار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ بلوچ جدوجہد اور بلوچ مغوی افراد کے خاندانوں کا مسلسل احتجاج منظم جبر و تشدد کے خلاف بہادری اور مزاحمت کی علامت ہے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بیبگر بلوچ نے کہا کہ فری بلوچستان موومنٹ نے آزادی کے حوالے سے اپنا موقف اپنایا ہے، چاہے وہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان ہو یا ایرانی مقبوضہ بلوچستان۔ اور آزادی سے پہلے اور بعد کا روڈ میپ پیش کیا ہے، چاہے وہ بلوچستان لبریشن چارٹر کی شکل میں ہو یا ایران کے لیے جمہوری عبوری منصوبہ۔
اس کے علاوہ مقررین نے کہا کہ عالمی سطح پر بیداری پیدا کرنے اور پاکستان اور ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کی دستاویز اور تشہیر کریں۔ جامع اور تفصیلی رپورٹیں بین الاقوامی وکالت اور کارروائی کی بنیاد کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔
3 notes · View notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
Tumblr media
"ہاں، پہلے تھپڑ پر ہم لڑکھڑاتے ہیں، دوسرے پر ہم مزاحمت کر سکتے ہیں، اور تیسرے پر ہم چیخ سکتے ہیں۔ لیکن دس بجے ہم گیارہ کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔"
"Yes, at the first slap we stagger, at the second we may resist, and at the third we may scream. But at ten o'clock we do nothing but wait for eleven."
Noor Abdul Majeed
19 notes · View notes
urduclassic · 7 months ago
Text
پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟
Tumblr media
جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔ اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی۔
شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا۔ ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں۔ مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔
Tumblr media
2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ اسی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔ ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔ مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی ک��وں لاحق رہتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15 ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔
اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ پھر 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی۔ میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23 مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی۔ ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو انگریزوں کے دشمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
ابن انشاء نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
ایک دیوار گریہ بنائیں کہیں جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔
ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے
حامد میر 
بشکریہ روزنامہ جنگ
4 notes · View notes
emergingpakistan · 10 months ago
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
Tumblr media
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
Tumblr media
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ 
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم ��سلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔ 
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 1 year ago
Text
اصول بیچنے والو ! بہت ہی نیچ ہو تم
اب اس سے کیا کہ زمانے میں، معتبر ہی رہو
ہمارے دل پہ جو گزری ہے اس سے کیا تم کو
یہی ہے خوب کہ تم ہم سے ، بے خبر ہی رہو
مزاحمت کو بھلا کر مفاہمت پہ چلے
شبِ سیاہ کے پرستار ، بے ثمر ہی رہو
2 notes · View notes
googlynewstv · 2 days ago
Text
بلوچستان میں ریاست اور بلوچ یکجہتی کونسل آمنے سامنے کیوں؟
بلوچ لبریشن آرمی کے ہاتھوں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ اور مسافروں کے قتل عام کے بعد سے ہونے والی جوابی کارروائیوں نے صوبے میں امن و امان کی صورت حال مزید تشویش ناک کر دی ہے جس کی بنیادی وجہ ماہ رنگ بلوچ کی زیر قیادت بلوچستان یکجہتی کونسل کیجانب سے کی جانے والی مزاحمت اور احتجاج ہے۔ ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے درجنوں معصوم ٹرین مسافروں کے قتل عام کی مذمت کرنے کی بجائے مسنگ پرسنز کا مسئلہ…
0 notes
mahchat · 3 months ago
Text
Tumblr media
ماه چت یک چت روم بی امنیت است که مدیر این سایت به تمام فایل های شما دسترسی دارد و اگر به او شماره ای بدهید دچار مزاحمت شما میشود لطفا در این چت روم هیچ گونه فعالیتی نداشته باشید
1 note · View note
inxta1 · 3 months ago
Text
ویژگی‌های یوتیوب پرمیوم
یوتیوب پرمیوم یک سرویس اشتراکی از یوتیوب است که به کاربران امکانات و ویژگی‌های خاصی را ارائه می‌دهد. این سرویس به طور خاص برای کاربرانی طراحی شده است که خواهان تجربه‌ای بهتر و بدون محدودیت در پلتفرم یوتیوب هستند. از زمان معرفی این سرویس در سال 2015، یوتیوب پرمیوم به عنوان یکی از محبوب‌ترین خدمات اشتراکی و پردرآمد گوگل شناخته شده است. در این مقاله به بررسی ویژگی‌های کلیدی یوتیوب پرمیوم خواهیم پرداخت.
1. حذف تبلیغات
یکی از بزرگترین ویژگی‌های یوتیوب پرمیوم، امکان مشاهده ویدئوها بدون تبلیغات است. کاربران با اشتراک در این سرویس، از تماشای تبلیغات قبل و در حین ویدئوها رهایی پیدا می‌کنند. تبلیغات به طور معمول یکی از عواملی هستند که تجربه کاربری را در یوتیوب مختل می‌کنند. حذف این تبلیغات نه تنها تجربه تماشای ویدئو را بهتر می‌کند، بلکه سرعت بارگذاری ویدئوها را نیز افزایش می‌دهد.
2. دسترسی به یوتیوب موزیک (YouTube Music)
یوتیوب پرمیوم دسترسی به سرویس یوتیوب موزیک را نیز فراهم می‌کند. یوتیوب موزیک یک پلتفرم استریم موسیقی مشابه اسپاتیفای و اپل موزیک است، که به کاربران این امکان را می‌دهد که به میلیون‌ها آهنگ، آلبوم و پلی‌لیست در قالب رایگان و بدون تبلیغات دسترسی داشته باشند. از دیگر قابلیت‌های یوتیوب موزیک می‌توان به پخش موسیقی آفلاین و جستجوی هوشمند اشاره کرد که کمک می‌کند کاربران موسیقی‌های مورد علاقه خود را راحت‌تر پیدا کنند.
3. پخش ویدئوها در پس‌زمینه
یوتیوب پرمیوم این امکان را برای کاربران فراهم می‌کند که ویدئوها را در پس‌زمینه دستگاه‌های خود پخش کنند. این ویژگی به ویژه برای کاربران موبایل بسیار مفید است، چرا که می‌توانند در حین انجام کارهای دیگر مانند مرور اینترنت، پیام دادن یا استفاده از اپلیکیشن‌های دیگر، به پخش ویدئوها ادامه دهند. این قابلیت به ویژه در زمانی که کاربران فقط به صدا و محتوای صوتی ویدیوی خاصی نیاز دارند، مفید است.
4. دانلود ویدئوها برای مشاهده آفلاین
یکی دیگر از ویژگی‌های برجسته یوتیوب پرمیوم، امکان دانلود ویدئوها برای مشاهده آفلاین است. کاربران با اشتراک در یوتیوب پرمیوم می‌توانند ویدئوهای مورد نظر خود را دانلود کرده و در زمانی که به اینترنت دسترسی ندارند، به تماشای آن‌ها بپردازند. این ویژگی به ویژه در شرایطی که اتصال اینترنت ضعیف است یا در سفر به اینترنت دسترسی ندارید، بسیار مفید خواهد بود.
5. یوتیوب اوریجینالز (YouTube Originals)
یوتیوب پرمیوم دسترسی به محتوای ویژه‌ای به نام یوتیوب اوریجینالز را نیز فراهم می‌آورد. این محتوای اختصاصی شامل فیلم‌ها و سریال‌های تولیدی خود یوتیوب است که تنها برای مشترکان یوتیوب پرمیوم قابل دسترسی است. این مجموعه‌ها شامل انواع محتواهای سرگرم‌کننده، مستندها و پروژه‌های ویژه از هنرمندان و تولیدکنندگان برجسته هستند.
6. پشتیبانی از کیفیت بالاتر ویدئو
یوتیوب پرمیوم به کاربران اجازه می‌دهد تا ویدئوها را با کیفیت بالاتر مشاهده کنند. این سرویس به ویژه برای کسانی که از دستگاه‌های نمایش با وضوح بالا مانند تلویزیون‌های 4K استفاده می‌کنند، بسیار مناسب است. کیفیت 4K یا حتی 8K در برخی از ویدئوها در یوتیوب پرمیوم در دسترس است که تجربه بصری فوق‌العاده‌ای را به کاربران ارائه می‌دهد.
7. پخش ویدئو بدون وقفه
یکی دیگر از ویژگی‌های یوتیوب پرمیوم، پخش ویدئو به صورت بدون وقفه است. این بدان معناست که وقتی شما در حال تماشای ویدئویی هستید و به هر دلیلی به بخش دیگری از ویدئو می‌خواهید بروید یا ویدئوها را به ترتیب خاصی ببینید، هیچ گونه توقف یا لود شدن مجدد وجود نخواهد داشت. این ویژگی مخصوصا در زمانی که به سرعت و بدون مزاحمت بخواهید ویدئوها را مرور کنید، مفید است.
8. دسترس‌پذیری برای همه دستگاه‌ها
یوتیوب پرمیوم این امکان را فراهم می‌کند که بتوانید از تمامی دستگاه‌های خود مانند تلفن همراه، تبلت، کامپیوتر و تلویزیون هوشمند به ویژگی‌های اشتراک خود دسترسی پیدا کنید. این قابلیت به کاربران این امکان را می‌دهد که هر زمانی و در هر جایی که بخواهند، از مزایای یوتیوب پرمیوم استفاده کنند.
9. دسترسی به محتواهای آموزشی و تخصصی
یوتیوب پرمیوم به خصوص برای کسانی که به دنبال محتواهای آموزشی و تخصصی هستند، گزینه‌ای ایده‌آل است. بسیاری از تولیدکنندگان محتوا در یوتیوب، آموزش‌های مفید و تخصصی خود را تنها برای کاربران پرمیوم ارائه می‌دهند. به این ترتیب، اشتراک یوتیوب پرمیوم می‌تواند ابزاری مفید برای یادگیری و ارتقاء مهارت‌ها باشد.
نتیجه‌گیری
یوتیوب پرمیوم با ارائه ویژگی‌هایی چون حذف تبلیغات، دسترسی به یوتیوب موزیک، پخش ویدئوها در پس‌زمینه، دانلود ویدئوها، و دسترسی به محتوای اختصاصی�� یک تجربه کاربری بسیار جذاب و کاربرپسند را ارائه می‌دهد. علاوه بر این، کیفیت بالای ویدئوها و امکان دسترسی از تمامی دستگاه‌ها نیز به این سرویس افزوده است. بنابراین، اگر به دنبال تجربه‌ای بدون وقفه و محدودیت در یوتیوب هستید، یوتیوب پرمیوم گزینه‌ای است که می‌تواند به خوبی نیازهای شما را برآورده کند.
منبع : https://inxta.ir/
0 notes
vakil-tabatabaee · 3 months ago
Text
وکیل جرایم سایبری علیرضا طباطبایی
اقدامات وکیل جرایم سایبری
مخاطرات فضای مجازی روز به روز افزایش می یابد. به موازات استفاده روزافزون از شبکه های اجتماعی و وابستگی زندگی اجتماعی به اینترنت و فناوی های نوین ، دنیای ما با چالش های بسیار مواجه است. امروزه بخشی از جرایم ، مختص فضای مجازی است. بنابراین در سال های اخیر مراجعه به وکیل اینترنتی یا وکیل سایبری در حال افزایش است.
وکیل علیرضا طباطبایی یکی از وکلای اینترنتی با تجربه است که در سال های اخیر نقش به سزایی در حل پرونده دعاوی سایبری و اینترنتی داشته است. در شهرهایی نظیر تهران و کرج و... شناخت یک وکیل متخصص در زمینه جرایم اینترنتی ضروری است. زیرا هر کس ممکن است در طول زندگی خود یک یا چند بار نیاز به مشاور با وکیل اینترنتی داشته باشد.
وکیل علیرضا طباطبایی آماده ارائه خدمات آنلاین حقوقی به هم‌وطنان عزیز در هر نقطه از کشور است. در صورت نیاز به مشاوره تلفنی، مشاوره حضوری حقوقی و مشاوره آنلاین با بهترین وکیل جرایم رایانه ای، می‌توانید با شماره‌های موجود در سایت وکیل طباطبایی تماس حاصل فرمایید.
وکیل جرایم اینترنتی در تهران و کرج
شهروندانی که در تهران و کرج ساکن هستند برای مشاوره حضوری میتوانند از وکیل علیرضا طباطبایی وقت ملاقات حضوری بگیرند و با وی ملاقات حضوری داشته باشند. در جلسه مشاوره حضوری وکیل اینترنتی علیرضا طباطبایی میتواند نقش مهمی در تشریح موضوعات مورد توجه مراجعین از جمله: امنیت داده ها، حقوق دیجیتال و مقررات مربوط به جرایم رایانه‌ای ایفا نماید..
وکیل اینترنتی می تواند شما در مورد انواع جرایم اینترنتی در حوزه فضای مجازی آگاه ساخته و روند پرونده را برایتان تشریح نماید.
ویژگی های وکیل جرایم اینترنتی
وکیل پایه یک دادگستری که در حوزه فضای مجازی فعالیت و تخصص دارد، وکیل اینترنتی یا وکیل جرایم رایانه ای گفته می‌شود. با پیشرفت روز افزون فناوری، فضای مجازی و اینترنت نیز گسترده می‌شود. بنابراین رخ دادن جرم در این حوزه بدیهی است. اما در این میان افرادی که دچار آسیب می‌شوند یا از نظر مالی متضرر می‌شوند، باید برای مطالبه حقوق از دست رفته خود و جبران ضررهای مالی از افراد متخصص کمک بگیرند. چه کسی بهتر از وکیل جرایم اینترنتی که در این حوزه مهارت دارد و می‌تواند به حل و فصل پرونده های اینترنتی بپردازد.
با مراجعه به وکیل طباطبایی می‌توانید از بهترین وکیل جرایم سایبری کمک بگیرید. از آنجا که در نظام حقوقی کشور ما قوانین خاصی برای جرم‌های رایانه‌ای به تصویب رسیده در پایتخت، دادسرای جرایم رایانه‌ای نیز تشکیل شده است. اما به خاطر جدید بودن این جرایم و تغییراتی که روز به روز در حوزه تکنولوژی‌های رایانه‌ای اتفاق می‌افتد، لازم است که از کمک وکلای آشنا با این حوزه استفاده کنید. بی شک وکیلی که قرار باشد در این حوزه به شما کمک کند باید بیشتر از هر چیز درباره اینترنت اطلاعات داشته باشد. در غیر این صورت نباید انتظار موفقیت در چنین پرونده‌هایی را داشته باشید.
چرا باید با وکیل جرایم رایانه ای مراجعه کنیم؟
وقتی با مشکلات ناشی از انعقاد قراردادهای نادرست در حوزه فناوری اطلاعات مواجه می شویم به یاد وکیل اینترنتی می افتیم. وقتی حسابمان مسدود می شود و یا دچار هک و نفوذ سایبری می شویم به سراغ وکیل اینترنتی می رویم. وقتی با توهین و افترا در شبکه های اجتماعی مواجه میشویم به همین ترتیب باید نزد وکیل جرایم اینترنتی برویم. هر گاه در حوزه رمزارزها و کیف پول دیجیتال دچاز مشکی حقوقی میشویم بدون شک وکیل باتجربه اینترنتی می تواند به ما کمک کند. در چنین مواردی وکیل طباطبایی یک گزینه بسیار مطلوب و شاخص برای ارائه مشاوره های حقوقی به صورت آنلاین یا حضوری خواهد بود.
وکیل علیرضا طباطبایی با استفاده از دانش و تجربه بی بدیل  خود میتواند ادله جرم و مستندات پرونده را شناسایی و به شما کمک های شایان توجه ارائه نماید. همواره شکایت شاکی به مراجع قضایی جزء اولین مراحلی است که باید انجام شود. اما حضور یک فرد به عنوان متهم در دادگاه یا دادسرا نیازمند آگاهی بسیار و رعایت تشریفات خاصی است. بنابراین بهتر است فردی که به عنوان وکیل و متخصص در این زمینه فعالیت می‌کند به شما مشاوره بدهد تا راحت‌تر بتوانید روند رسیدگی به پرونده را طی کنید.
جرایم سایبری چیست؟
مهمترین جرایم اینترنتی و رایانه‌ای که میتوانیم از آنها نام ببریم به شرح زیر می باشند :
سرقت و تخریب اطلاعات
 جعل رایانه‌ای
نشر اکاذیب
شنود غیر مجاز
انتشار و تولید داده‌ها و گذرواژه‌های کاربران اینترنتی
 مزاحمت اینترنتی
خرابکاری رایانه‌ای
دسترسی به دستگاه‌های پردازش داده
توهین به مقدسات
سرقت نرم‌افزار ا
انجام اعمال غیرقانونی بر ضد حقوق شهروندان
مزتکبین اینگونه جرایم معمولا پس از اثبات جرم ، مجازات حبس یا جزای نقدی و در مواردی هر دو مورد در انتظارشان خواهد بود.
توانمندی های وکیل جرایم سایبری
وکیل جرایم سایبری علاوه بر آشنایی کلی با قوانین مدنی و قانون آیین دادرسی مدنی و کیفری و تشریفات دادرسی ، بطور ویژه با جرایم رایانه ای و قوانین مرتبط با حوزه فناوری اطلاعات آشنایی دارد. برخی توانمندی های وکیل سایبری عبارتند از :
-         شناخت دقیق جرم سایبری و دفاع از موکل در صورت اتهامات واهی
-         توانایی در کشف و شناسایی ادله جرم و یا مستندات دیجیتال
-         ارائه مشاوره های تخصصی در مورد ابعاد مختلف جرایم سایبری و نحوه دفاع از اتهام
-         تنظیم دادخواست ها، شکواییه و لوایح تخصصی در حوزه جرایم سایبری
وکیل جرایم سایبری چه وظایفی به عهده دارد؟
در صورتی که به خاطر جرایم سایبری و مشکلات مربوط به حوزه فضای مجازی با یک وکیل متخصص مشورت کرده‌اید، احتمالاً می‌خواهید بدانید که وظیفه وکیل جرایم سایبری چیست و چه اقداماتی برای شما انجام می‌دهد.
ابتدا شما به عنوان یک مراجعه کننده باید مشکل خود را با وکیل در میان بگذارید و شرح جرم را ارائه نمایید.
 بعد از مشخص کردن نوع جرم توسط وکیل، سوال‌هایی پیرامون موضوع از شما پرسیده می‌شود که در رابطه با تاریخ وقوع جرم، مکان جرم و پیچیدگی جرم می‌باشد.
سپس وکیل پرونده را مورد بررسی قرار می‌دهد و با استفاده از راهکارهای قانونی، اقدام به حل مشکل می‌نماید. البته وظایف وکیل جرایم سایبری فقط محدود به این اقدامات نمی‌شود.
وکیل باید به جمع آوری اسناد و مدارک لازم برای پیگیری پرونده بپردازد. قطعاً مراجعه به دادگاه و شرکت در جلسه دادرسی نیاز به اسناد و شواهد محکمه پسند است. بنابراین وکیل جرایم اینترنتی با کمک مراجعه کننده شروع به جمع آوری مدارک نموده و ادله و شواهد لازم را برای ارائه به دادگاه آماده می‌نماید.
بعد از این مرحله در صورت نیاز به شرکت در جلسات دادگاه، وکیل به عنوان نماینده قانونی موکل خود در جلسات دادرسی شرکت می‌کند. مطمئناً نحوه برخورد وکیل و داشتن توانایی مذاکره تأثیر زیادی روی قاضی و رای دادگاه خواهد داشت.
با توجه به نوع پرونده و مدت زمان پیگیری، وظایف وکیل در برهه زمانی خاصی ادامه پیدا می‌کند تا بتواند رأی مطلوب را برای موکل خود دریافت کند.
0 notes
topurdunews · 5 months ago
Text
27 ویں ترمیم نہیں آئے گی بھرپور مزاحمت کریں گے: فضل الرحمان
 (24 نیوز )جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 27 ویں ترمیم نہیں آئے گی، اگر ایسا ہوا تو بھرپور مزاحمت کریں گے۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہ��ں نے کہا کہ اصل ڈرافٹ اور فائنل ہونے والے ڈرافٹ میں فرق تھا، آئینی ترمیم کی 56 کلاز تھیں،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں ہوں ،حکومت میں جانےکا کوئی ارادہ نہیں ہے، 27ویں ترمیم نہیں آئےگی بھرپور مزاحمت کریں گے۔سربراہ…
0 notes
risingpakistan · 3 months ago
Text
نان فائلرز کو فائلرز بنانے کا چیلنج
Tumblr media
پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا کر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ ریاست کے وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ پھر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل طبقات بھی ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافے اور ٹیکس در ٹیکس ادائیگیوں کے باعث مالی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ عام آدمی کیلئے بھی ہر چیز کی خریداری پر بھاری سیلز ٹیکس کی ادائیگی لازمی ہے۔ ایسے میں افسوسناک امر یہ ہے کہ اب بھی ملک میں بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت موجود ہے۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں غیر دستاویزی معیشت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کی ٹیکس مشینری کی بدانتظامی ظاہر ہوت�� ہے جسکی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد غیر رسمی معیشت کا حصہ رہتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے لوگوں میں حکومت کی ٹیکس مشینری پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنیں گے تو انہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے عملے کی طرف سے بلا جواز تنگ کرنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں اور غیر واضح ٹیکس قوانین بھی ٹیکس دہندگان کیلئے سمجھ بوجھ اور تعمیل کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں توسیع کیلئے اس خامی کو ٹیکس میکانزم اور قوانین بہتر بنا کر دور کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم اس محکمے کو بھی عملے کی مبینہ نااہلیوں، بدعنوانیوں اور ناکافی وسائل کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے ایک اور اہم فیکٹر سیاسی قیادت یا حکومت کا عزم ہے کیونکہ زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ہی طویل عرصے سے عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اسے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں یہ کوشش سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ 
Tumblr media
ان وجوہات کی بنا پر اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کو بھی یہ واضح نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ اگر اس نے اب بھی ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ٹیکس اصلاحات نہ کیں اور نان فائلر کو فائلر بنانے کی پالیسی پر عمل نہ کیا تو اس کیلئے موجودہ معاشی استحکام کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں حال ہی میں حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں یہ بل پیش کیا گیا ہے کہ نان فائلر افراد پر کاروں، جائیدادوں کی خریداری اور بینک اکاؤنٹس کھولنے پر پابندی عائد کی جائے۔ اسی طرح حکومت نے ٹیکس دہندگان کے خفیہ ڈیٹا کو کمرشل بینکوں اور نجی طور پر رکھے گئے ٹیکس آڈیٹرز کے ساتھ شیئر کرنےکیلئے بھی پارلیمنٹ سے منظوری مانگی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نان فائلرز کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور سیلز ٹیکس رجیم میں رجسٹرڈ نہ ہونیوالے افراد کے کاروبار اور جائیدادیں ضبط کرنے کے اختیارات بھی مانگ�� گئے ہیں۔ اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ نان فائلرز کو اپنے بینک کھاتوں سے ایک خاص حد سے زیادہ رقم نکالنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
مجوزہ بل میں جہاں کچھ اچھی چیزیں شامل ہیں وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے ماضی میں کئے گئے اپنے ہی اعلانات کے برعکس نان فائلر کیٹیگری کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں انکم ٹیکس آرڈیننس کے 10ویں شیڈول کو حذف کرنے کی ضرورت ہے جو نان فائلرز کیلئے زیادہ شرح کی ادائیگی کرکے فائلر بننے سے بچنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایف بی آر کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد نان فائلرز میں سے نومبر تک صرف 56 لاکھ افراد نے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ہیں۔ دیگر نان فائلرز ٹیکس نظام کی عدم فعالیت اور کمزوری یا حکومت کی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے تاحال ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دوسری طرف ایف بی آر کو گزشتہ پانچ ماہ میں 340 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے اندیشہ ہے کہ حکومت ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلئے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود افراد پر کوئی نیا ٹیکس لگا سکتی ہے یا پہلے سے نافذ شدہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر سکتی ہے۔ 
حالانکہ رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس محصولات کا ہدف پہلے ہی 13 ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے حکومت ٹیکس دہندگان پر نئے ٹیکس لگانے کے علاوہ براہ راست ٹیکسوں میں 48 فیصد اور بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافہ کر چکی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہے جس کے باعث پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد پر مالی بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے اور وہ بھی فرار کے راستے ڈھونڈنے شروع کر دیں۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
dr-jan-baloch · 6 days ago
Text
Tumblr media
عالمی اداروں خاص کر اقوام متحدہ کو جدجہد آزادی اور دہشت گردی کے درمیان فرق کوسمجھنا چاہئیے۔ فری بلوچستان موومنٹ 
https://humgaam.net/?p=102342
‎لندن (ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک کے تناظر میں اقوام متحدہ کا بلوچ قومی جد و جہد کو دہشت گردی سے تعبیر کرنا پاکستان کی طرف سے بلوچ نسل کشی کو توسیع دینے کے لئیے مزید حوصلہ افزائی کے مترادف ہے، اقوام متحدہ کو یہ سمجھنا ہوگا بلوچستان میں جاری قومی مزاحمت ایران و پاکستانی ریاستوں کی جارحیت کے خلاف اپنے قومی تشخص اور وطن کی دفاع کے لیئے ہو رہی ہے۔
‎بلوچ قومی فوج پاکستانی و ایرانی قبضہ گیر فورسز کے خلاف اپنے وطن متحدہ بلوچستان کی آزادی و خودمختار حیثیت کی بحالی کے لیئے جہدِ عمل میں مصروف ہیں، جس دن بلوچ سرزمین پر پاکستانی و ایرانی قبضے کا خاتمہ ہوجاتا ہے بلوچ قوم اپنے ��رزمین کے سرحدوں کے اندر مکمل امن و امان کی ضامن ہوگی۔
‎ترجمان نے کہا کہ ایران و پاکستان کے خلاف بلوچ جد و جہد آزادی کی تاریخ قبضے کی اول دن سے جاری و ساری ہے اور اس سے پہلے بھی پندرہویں صدی میں پرتگالیوں اور انیسویں صدی میں انگریزوں سمیت بلوچ قوم نے اپنی سرزمین پر دیگر قابض سامراجی قوتوں کے خلاف ہمیشہ سے اجتماعی طاقت سے مزاحمتی عمل کو زندہ رکھا ہے اور بلوچستان میں آج کی مزاحمتی جہد کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ بلوچ قوم کو غلام بنائے رکھنے اور انکی بتدریج اور منظم نسل کشی کے خلاف اپنی قومی شناخت اور اجتماعی یگانت و آزادی کو حاصل کرنے کی دفاعی کوششوں کا حصہ ہے جو صدیوں کی تسلسل پر مشتمل ہے تمام اقوام بشمولِ بلوچ قوم کو یہ حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر قابض طاقتوں کے خلافت ہرمحاذ پر جد وجہد کریں دنیا کی تاریخ قابضین اور سامراجی طاقتوں کے خلاف مزاحمتی ادوار کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے آج اقوام متحدہ روس کے قبضے اور سامراجیت کے خلاف مزاحمت کے لیے یوکرین کے حق کی توثیق کرتا ہے کیا بلوچوں کا بھی یہی حق نہیں؟ مزاحمت کا یہ حق اقوام متحدہ کے قیام سے بہت پہلے پوری انسانی تاریخ میں موجود رہا ہے۔
‎بیان میں مزید کہا گیا کہ تھامس ایکویناس، نکولو میکیاویلی، فرانسسکو ڈی ویٹوریا، ہیوگو گروٹیئس، جان لاک، ژاں جیکس روسو، امینوئل کانٹ، جان اسٹورٹ مل اور کارل مارکس جیسے فلسفیوں نے اس انسانی رجحان کا تجزیہ کیا اوراپنے تحفظ، اپنی دفاع اور غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمت کی اپنے تحریروں میں حمایت کی اسی طرح اقوام متحدہ کی وجود سے پہلے ویسٹ فیلیا کا معاہدہ، امریکی اعلانِ آزادی، انسان اور شہری کے حقوق کا فرانسیسی اعلامیہ، ہیگ کنونشنز، لیگ آف نیشنز کا عہد، کیلوگ برائنڈ معاہدہ سمیت اٹلانٹک چارٹر جیسے متعدد قانونی معاہدوں اور دستاویزات میں اقوام کی خود مختاری، آزادی، مزاحمت اور اپنے دفاع کے حق کو تسلیم کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی اپنی چاٹر کے تحت پاکستان بلوچستان پر ایک قابض طاقت ہے اور پاکستان کی بلوچستان میں موجودگی اقوام متحدہ کی چاٹر کی آرٹیکل ۲ کی شق تین اور چار کی خلاف ورزی ہے۔
‎بلوچستان کو یواین کی آرٹیکل کی شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان کی اسمبلی کے دونوں ایوانوں کی آزاد بلوچستان کو برقرار رکھنے کی قرارد کو پاکستان نے ماننے سے انکار کیا اور ایک آزاد ریاست پر فوج کشی کی اقوام متحدہ کی یہ قانونی ذمہ داری بنتی ہے کہ تمام مسائل کی بنیاد اور پاکستان کی یواین کی اپنی چاٹر کی خلاف ورزی پر ایکشین لیتے ہوئے پاکستان کو جوابدہ کرئے اور بلوچ قومی سوال کو حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
‎اقوام متحدہ جیسے عالمی امن کے ضامن صف اول کے ادارے کو چاہئیے کہ وہ قابض و جابر اور مقبوض کے درمیان فرق کو سمجھتے ہوئے پاکستان و ایران کو اس امر کا پابند بناتے کے وہ بلوچ قومی نسل کشی کو بند کریں اور وہاں لوگوں کے دلوں میں موجود آزادی و خودمختاری کے امنگوں کا احترام کریں لیکن اسکے برعکس اقوام متحدہ انہی قابضین کی زبان بولتے ہوئے بلوچ جد و جہد آزادی کو سمجھنے سے قاصر نظر آتا ہے ��وکہ بلوچ قوم کے لیئے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔
‎ایف بی ایم کے ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ بلوچ قومی جدو جہد آزادی مکمل طور پر ایک جائز اور عالمی اصول و ضوابط کے ساتھ مطابقت رکھنے والی تحریک ہے۔ جہاں دنیا کے دیگر حصوں میں قبضے اور منظم نسل کشی کے خلاف قومی مزاحمتیں جیسے فرنچ مزاحمت، پولش مزاحمت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے، اسی طرح اقوام متحدہ کو بلوچ مزاحمت کی مذمت کرنے کی بجائے اس سمجھنا اور تسلیم کرنا چاہئے۔
‎ترجمان نے مزید کہا کہ ایران و پاکستان نے نہ صرف بلوچستان پر قبضہ کیا ہے بلکہ وہاں پر ایک دھیمے رفتار کی بلوچ نسل کشی جاری و ساری ہے لیکن ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ اقوام متحدہ نے کبھی بھی بلوچستان کے سنگین حالات کے حوالے سے کوئی یادداشت پیش یا پاس کی ہوبلکہ اسکے برعکس اقوام متحدہ ایران کو ملینز کے حساب سے ڈالرز انسداد منشیات کے مد میں فراہم کررہا ہے تاکہ وہاں سے دیگر ممالک کو منشیات کی سپلائی کا سدباب کیا جائے یہاں اقوام متحدہ پر سوال یہی اٹھتا ہے کہ انہوں کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ ایران جیسے جابر و قابض ریاست ان ملینز آف ڈالرز کو کیسے اور کہاں خرچ کررہا ہے؟ اقوام متحدہ نے ہمیشہ اس حقیقت سے آنکھیں موند لی ہیں کہ منشیات کی سدباب کے لئیے دی جانے والی بیشتر رقوم بلوچ نسل کشی کے لئیے استعمال کئیے جارہے ہیں جہاں منشیات کے روک تام کے نام پر ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنوں کو پھانسیاں دی جاتی ہیں اور ٹرانسپورٹ اور مال برداری سے منسلک ہزارہا بلوچوں کو محض اس لئیے فائرنگ کرکے شہید کیا جاتا ہے کہ روزگار کے دگر موقع نہ ہونے کی وجہ سے تیل کی بار برداری اور اشیاء خودر نوش کی کاروبار کرتے ہیں۔
‎ اقوام متحدہ کی طرف سے دی جانے والی رقوم باقاعدگی کے ساتھ بلوچ قوم کی منظم نسل کشی میں استعمال ہورہی ہیں لیکن ایرانی قابض ریاست سے کوئی پوچھنے والا نہیں یہ بالکل ویسے ہے جیسے دوہزار سولہ میں فلپائنی صدر نے حکم دیا تھا کہ منشیات کے سدباب کے لئیے منشیات سے وابستہ تمام افراد کو قتل کردیا جائے تو ایک سال کے اندر سات ہزار پچیس افراد کو قتل کیا گیا بعد میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تحقیقی رپورٹ سے پتہ چلا کہ اس میں ایک کثیر تعداد بے گناہ لوگوں پر مشتمل تھی جسے محض پیسے کی لالچ، زاتی عناد اور سیاسی مخالفت کی بنیادوں پر قتل کیا گیا۔
‎ بلوچستان کے اندر ایران کی ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی ایک بھی یاد داشت یا ریزولوشن پیش یا پاس نہیں کی گئی علاوہ ازیں آج بلوچستان کے اندر قابض ایران و پاکستان ترقی و تعمیر کے نام پر بلوچوں کی گھروں کو مسمار کررہے ہے اور جو بلوچ اپنے آبائی گھروں یا زمینوں سے انخلا کرنے کےلیئے تیار نہیں ہوتے ان تمام بلوچوں پر جبر کے پہاڑ توڑے جارہے انکو بوگس مقدمات میں پھنسایا جارہا ہے اور کئیوں کو فائرنگ کرکے قتل کیا جارہا ہے۔ یہ سب بلوچ کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں بدلنے اور چابہار کو ایرانی ریاست کی صدر مقام بنانے اور لاکھوں کی تعداد میں غیر بلوچوں کو آباد کرنے کے لیئے ہی کیا جارہا ہے، اس لئے بلوچ قوم کے خلاف ایرانی ریاست�� جارحیت عالمی برادری سمیت دنیا کے امن کے ضامن اداروں خاصکر اقوام متحدہ کے پوری توجہ کا م��قاضی ہے۔
‎ایف بی ایم کے ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان میں قریبا پانچ سے چھ ہزار بلوچ سیاسی کارکنوں کی لاشیں مل چکی ہیں اورانسانی حقوق کے اداروں کے اندازے کے مطابق ہزاروں بلوچ پاکستان ریاستی اردارں کی زندانوں میں ہیں جن پر عقوبت خانوں کے اندر غیر انسانی اور غیر اخلاقی تشدد کیا جاتاہے اور کیئوں کو شہید کرکے لاشیں ویرانوں میں پھنک دی جاتی ہیں لیکن اقوام متحدہ کو توقیق نہیں ہوئی کہ وہ پاکستان سے پوچھ لے کہ اتنی تعداد میں غائب کیئے گئے بلوچوں کا کیا حال ہے، وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی پاسداریوں کے حوالے سے موجود شقوں کی دستخط کنندہ ہے ان پر لازم ہے کہ وہ جنگی قیدیوں سمیت تمام قیدیوں اور مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی احترام کو یقینی بنائیں لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے بلوچ قوم کے خلاف قابض پاکستانی و ایرانی بیانیے کی تائید کرنے اور اس طرح کی جانبدار رویوں سے بلوچ قوم اقوام متحدہ سے جو امید رکھتے ہیں وہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتے چلے جائیں گے اور بلوچ قوم بھی اقوام متحدہ کو جابر اور قابض ریاستوں کے سنگھی ساتھی اور انہی کا ترجمان سمجھنا شروع کردے گی۔
‎ترجمان نے کہا کہ آج بلوچ جہد آزادی کی شدت سے خائف ہوکر پاکستانی و ایرانی قابض ریاستیں بلوچ قوم کو اجتماعی سزاؤں کا نشانہ بنا رہے ہیں جس میں کئی ایسے مثالیں موجود ہیں کہ بہت سارے بلوچوں کو محض اس لئیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ ان کے عزیز و اقارب بلوچ جد و جہد آزادی سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہیں۔ قلات میں حالیہ واقعات کے بعد پاکستانی قابض فوج نے کئی عام بلوچوں کو فرضی انکاؤنٹر میں شہید کیا اسکے علاوہ بھی بلوچستان کے طول و عرض میں عام بلوچوں کو آئے روز شہید کیاجارہا ہے، یہ اجتماعی سزاوں کا عمل ویسے ہے جیسے چلی میں پنوشے کی طرف سے چلائی جانے والی بے رحم تطہیری مہم ہو یاکہ ارجنٹائن میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی قتل عام ہو آج بلوچستان کی سیاسی و سماجی منظرنامہ صرف ایسا نہیں بلکہ ان سے بھی بد تر ہے لیکن اقوام متحدہ اپنی زمہ دارویوں سے غافل اور قابضین کی سیاسی ایجنڈوں اور انکے بیانیے پر اکتفا کئیے ہوئے ہے۔
‎بلوچستان میں جاری آزادی کی جد و جہد میں دو فریق ہیں ایک طرف بلوچ قوم ہے جو اپنی چھینی گئی قومی آزادی و خومختاری کی بحالی کے لئیے اور اپنے وطن کی دفاع کے لئے جد جہد کر رہی ہے اور دوسری طرف پاکستانی ریاستی فوج اور اس کے ادارے ہیں جوکہ بلوچستان پر اپنے قبضے کو دوام دینے اور بلوچ قوم کو نیست نابود کرنے کی اپنی جنگی جنون و جارحیت پر قائم ہے، اقوام متحدہ کو سمجھنا ہوگا کہ بلوچ قوم کا مقصد بلوچ متحدہ سرزمین کی آزادی ہے اور بلوچ قوم ایران و پاکستان کی طرح تشدد برائے تشدد یا توسیع پسندی پر یقین نہیں رکھتا، بلکہ وہ ایک نہایت اہم مقصد کی خاطر جہدِ عمل میں مصروف ہے اور ہماری کوشش یہی ہے کہ بلوچ جہد آزادی کی تحریک تمام حوالوں سے متعین عالمی قوانین کے مطابق ہو اور انہی رائج عالمی قوانین میں ایک قانون حق آزادی اور اپنی وسائل پر حق اختیارکا بھی ہے. آج کی بلوچ قومی آزادی کی تحریک متحدہ بلوچستان کی آزادی و خودمختاری کی بحالی کی تحریک ہے اور اسے کوئی اور رنگ یا نام دینا کسی بھی طرح بلوچ قوم کے لیئے قابل قبول نہیں ہے۔
0 notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
Tumblr media
ہاں، پہلے تھپڑ پر ہم لڑکھڑاتے ہیں، دوسرے پر ہم مزاحمت کر سکتے ہیں، اور تیسرے پر ہم چیخ سکتے ہیں۔ لیکن دس بجے ہم گیارہ کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔
Yes, on the first slap we stutter, on the second we can resist, and on the third we can scream. But at ten o'clock we do nothing but wait for eleven.
The light of Abdul Majeed
21 notes · View notes
sayron · 1 year ago
Text
لیا (۱۰) - سهیلا (۲)
خیلی محتاط و آروم وارد حیاط خونه شدم و در رو بستم. صدای امواج و آب ضعیفی شنیده میشد. یه بوته بزرگ شمشاد جلوی دید بود. شمشاد رو که دور زدم با دیدن این صحنه خشکم زد. 😳 برگام ریخت! 🫨 سهیلا با موهای بلوند و فر خوشگلش و لخت مادر زاد و بدنی که مالامال از عضلات ورزیده و سنگین بود ایستاده بود و لیا هم لخت مادر زاد جلوی پاش نشسته بود و داشت کص سهیلا رو میخورد! 😱🤯
سهیلا داشت آه میکشید و لذت میبرد. یدفه لیا برگشت و با چشمای قشنگش که از لذت و شهوت مست بود، بهم نگاه کرد. بدنم یخ کرد!... اونا کنار استخر بودن و من نزدیک ۱۵ متر باهاشون فاصله داشتم ولی بدنشون جوری دم کرده بود که من تک تک رگهاشون رو میدزدم. لیا با دستان قدرتمندش رونهای بزرگ و عضلانی سهیلا رو میمالید. رگ های دست و ساعد و بازوش مثل همیشه بیرون زده بود اما خیلی بیشتر از قبل برآمده بود رگهاش. رگ بزرگی از کص سهیلا تا زیر سینه هاش که مثل دو تا گنبد محکم و بزرگ سربرافراشته بودن امتداد داشت. لیا با چشمای خمارش گفت:« اووووووم... ببین کی اینجاس؟... مموشی کردنی من!... اوووووووههههف 🫦😈💦» سهیلا هم سرش رو آورد پایین و منو دید و گفت:« میلاد کوچولو... اومدی؟... بیا اینجا ببینم!» من بدنم میلرزید... لیا و سهیلا مجموعا از کل مردهایی که توی کیش میشناختم بیشتر عضله داشتن. دو تا ماده شیر عضلانی با بدنهایی که از زیر چونه تا نوک انگشتان پا پوشیده از عضله بود. من که عرق سرد روی صورتم نشسته بود گفتم:« لیا!... عزیزم... داری چیکار میکنی؟!!! 😨» لیا لبخند شیرینی زد و گفت:« دارم حال میکنم عسلِ کصم... قراره تو ام حال کنی... میخوام بمالیمت به کص هامون عسل... عسلِ کصِ لیا... 😈💜💦» این الفاظ رو جوری میگفت که هم وحشت کردم و هم کیرم بلند سد. بی اختیار برگشتم به سمت در ویلا... اما!
اما در بسته بود. هر چه سعی کردم نمیشد بازش کرد. انگار جوری طراحی شده بود که فقط از راه دور باز بشه. ضربان قلبم از وحشت بالا رفته بود و بدنم میلرزید. عرق کرده بود. یدفه احساس کردم یه سایه ای اومد پشت سرم. برگشت و با دیدن لیا ترسیدم و چسبیدم به در!
Tumblr media
لیا در حالی که پاهاش رو به اندازه عرض شانه باز کرد بود، دست های قطورش رو به کمرش زد و یه فیگور زیر بغل گرفت. جلال و جبروت بدن عضلانی لیا باعث وحشت بیشتر من شد. تتو های دستش تا روی سرشونه اش رفته لود و بیشتر شده بود و من تازه متوجه شده بودم. گردنش هم پوشیده از تتو بود. دو قلب هم اطراف نوک پستوناش تنو زده بود. لیا پوزخندی زد و گفت:« جایی میخوای بری مموشی من؟ 😏» من با لکنت گفتم:« ن... ن... ن...نه ییییعنی چرا... ببخشید مزاحمت شدم عزیزم!...» لیا شروع کرد به خندیدن و گفت:« اتفاقاً خوب شد اومدی عسلم... هوس کردم بمالمت به کصم 🫦😋» شروع کردم به التماس کردن و لیا بیشتر میخندید. بدنم مثل بید میلرزید. لیا با لبخند شهوت آلودی بهم گفت:« نترس میلاد... کاریت ندارم عشقم... » هی گفتم:« لیا..‌. تو رو خدا... لیا بزار برم بعدا تو بیا... اصلا فردا بیا...» لیا اومد نزدیک تر و خندید و گفت:« فردا چرا عشقم... بیا امشب میخوام باهات حال کنم... یه استراحتی هم میکنی عسلِ کصِ تپل من! 😈 💋💋💋» و مچ دستام گرفت و با قدرتش چسبوند به در و شروع کرد ازم لب بگیره. به محض لمس لب های گرم و مرطوب لیا توسط لب هام ضربان قلبم آرومتر شد و آرامش وجودم رو فراگرفت. لیا همزمان با لب گرفتن بدن عضلانی خودش رو به من میمالید و کصش رو از روی شلوار به کیر راست شده من فشار میداد. بعد از چند لحظه لبم رو رها کرد و با لبخندی گفت:« میلادم... بمون همینجا... خیلی خوش میگذره...» صداش رو اروننر کرد و با چشمکی گفت:« سهیلا هم میخواد بهت کص بده... انقدر تعریف تبحرت توی سکس رو براش کردم که برات خیس خیسه!...» اما لیا تصمیمش رو گرفته بود انگار، چون من هرچی التماس و اصرار بهش کردم گوشش بدهکار نبود. منم که مثل یه فنچ در اختیار داشت. دریای شهوتشم طوفانی بود و در این مواقع هیچ زنی منطق سرش نمیشه. خلاصه همونجا با زور و قدرتش لباسهام رو پاره کرد و منو مثل یه قالی لوله شده انداخت روی کولش و برگشت به سمت سهیلا.
Tumblr media
1K notes · View notes