#مرزا محمد رفیع سودا
Explore tagged Tumblr posts
muhammad-ubaidullah-khan · 3 years ago
Text
Mirza Muhammad Rafi Sauda (مرزا محمد رفیع سودا)
فرماؤ گے جو تم تو اٹھاؤں گا میں پہاڑ
پر غیر کی نہ جائے گی مجھ سے اٹھائی بات
(سودا)
0 notes
urdu-poetry-lover · 5 years ago
Text
Tumblr media
غمگین اشعار
......
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
....
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاے کیوں
.....
غم عقبیٰ غم دوراں غم ہستی کی قسم
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
عزیز وارثی
...
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
فیض
.....
پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر
حاصل غم کو خدا را غم حاصل نہ بنا
حمایت علی شاعرؔ
......
غم سے نازک ضبط غم کی بات ہے
یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا
فنا نظامی کانپوری
......
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم
یہ غم ہوگا تو ک��نے غم نہ ہوں گے
حفیظ ہوشیارپوری
......
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
شکیل بدایونی
......
غم کی توہین نہ کر غم کی شکایت کر کے
دل رہے یا نہ رہے عظمت غم رہنے دے
قمر مرادآبادی
.......
آلام روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا
اصغر گونڈوی
......
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
چراغ حسن حسرت
....
غم دوراں غم جاناں غم عقبیٰ غم دنیا
کنولؔ اس زندگی میں غم کے ماروں کو نہ چین آیا
کنولؔ ڈبائیوی
.....
ایک وہ ہیں کہ جنہیں اپنی خوشی لے ڈوبی
ایک ہم ہیں کہ جنہیں غم نے ابھرنے نہ دیا
آزاد گلاٹی
.....
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
مرزا غالب
....
غم میں ڈوبے ہی رہے دم نہ ہمارا نکلا
بحر ہستی کا بہت دور کنارا نکلا
بیخود دہلوی
....
سچ ہے عمر بھر کس کا کون ساتھ دیتا ہے
غم بھی ہو گیا رخصت دل کو چھوڑ کر تنہا
انور شعور
.....
بے درد مجھ سے شرح غم زندگی نہ پوچھ
کافی ہے اس قدر کہ جیے جا رہا ہوں میں
ہادی مچھلی شہری
.....
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
احمد فراز
......
کون کسی کا غم کھاتا ہے
کہنے کو غم خوار ہے دنیا
محمد رفیع سودا
.....
مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں
شکیل بدایونی
.
11 notes · View notes
modern-tiles · 5 years ago
Text
Tumblr media
آج اردو کے مشہور شاعر، فلمی گیت کار اور مکالمہ نگار ندا فاضلی کا یومِ وفات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندا فاضلی کا اصلی نام مقتدا حسن تھا۔ وہ 12 اکتوبر 1938 کو بھارتی ریاست گوالیار میں پیدا ہوئے تھے۔ بالی وڈ کی فلمی دنیا کے لیے بعض یادگار گیت تخلیق کرنے کے علاوہ ان کے لکھے گئے دوہوں اور غزلوں کو جگجیت سنگھ نے لاکھوں لوگوں تک پہنچایا۔ان کے والد بھی شاعر تھے جو 1960 میں مذہبی فسادات کے دوران مارے گئے۔ ان کے خاندان کے باقی افراد پاکستان منتقل ہو گئے لیکن ندا ہندوستان ہی میں رہے۔
وہ اپنے والدِ گرامی کے جنازے میں بھی شرکت نہ کر سکے، جس کا اُنھیں قلق تھا اور ایک نظم میں اس قلق کو اس طرح اظہار کر کے ہمیشگی عطا کر دی کہ:
" تمہاری قبر پہ میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا "
بچپن میں ہندو مندر سے ایک بھجن کی آواز سنی اور شاعری کی طرف مرغوب ہوئے۔ انہوں نے انسانیت پر شاعری کی۔ اس دور میں مرزا اسداللہ خاں غالب، میر تقی میر سے متاثر ہوئے، میرا اور کبیر سے بھی۔ انہوں نے ایلئیٹ، گگول، اینٹن چکوف (انتون چیخوف) اور ٹکاساکی کو بھی پڑھا اور اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا اضافہ کیا۔
ابتدائی دنوں میں وہ ملازمت کی تلاش میں ممبئی آئے اور دھرم یُگ (رسالہ) اور بلٹز کے لیے لکھتے رہے۔ ان کا شاعرانہ لہجہ لوگوں کو پسند آیا اور فلم بنانے والوں کی نظر ان پر پڑی ساتھ ساتھ ہندی اور اردو ادب والوں کی۔ مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔ کئی گلوکاروں نے اور غزل گانے والوں نے ان کی غزلیں، نظمیں اور گیت گائے، جس سے ان کو شہرت ملی۔
ان کی شہرت یافتہ غزلوں میں، " دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونہ ہے، مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سوناہے" مشہور ہے۔
فلمی گیتوں میں "آ بھی جا" ( سُر - زندگی کا نغمہ)، تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے ( فلم - آپ تو ایسے نہ تھے) "ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے" (فلم - سر فروش) وغیرہ بہت مشہور ہوئے ۔
انہوں نے 1960ء کے دور کے شعرا پر تنقیدی مضامین لکھے لکھے، جس کا عنوان “ملاقاتیں“ تھا۔
بالی وڈ (بالی وڈ)کے فلم ہدایتکار کمال امروہی نے ندا فاضلی سے مل کر کہا کہ فلم رضیہ سلطانہ کے لیے گیت لکھیں، جب کہ یہ گیت جاں نثار اختر کو لکھنا تھا، لیکن اسی دوران میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ انہوں نے اس فلم کے دو نغمے لکھے اور کافی مشہور بھی ہوئے (1983ء)۔ اس طرح انہوں نے فلمی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر پائے۔
ان کے مشہور فلمی نغموں میں فلم آپ تو ایسے نہ تھے، گڈیا، شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ٹی۔ وی۔ سیرئیلس کے لیے بھی نغمے اور گیت لکھے۔ سائلاب، نیم کا پیڑ، جانے کیا بات ہوئی اور جیوتی کے لیے ٹائٹل نغمے لکھے۔
گلوکارہ کویتا سبرامنیم اور جگجیت سنگھ نے بھی غزلیں گائیں اور کئی البم بھی بنے۔ انہوں نے بی۔ بی۔ سی۔ ہندی ویب سائٹ کے لیے کئی عصری معاملات اور ادب پر مضامین لکھے۔ اکثر اپنی گفتگو میں مرزا اسد اللہ خان غالب کا ذکر کیا کرتے ہیں۔
ان کی شاعری فنکاروں جیسی ہے۔ یہ جب اپنا کلام لکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی مصور کی تصویر ہے یا پھر کسی موسیقی کار کی موسیقی۔
1969ء میں انہوں نے اپنا مجموعہ کلام 1969ء میں شائع کروایا۔ ان کے کلام میں بچپن، غم انگیزی، فطری عناصر، زندگی کا فلسفہ، انسانی رشتے، گفت اور فعل میں تفریق وغیرہ موضوعات پائے جاتے ہیں۔
��قسیم ہند سے بالکل اتفاق نہیں کرنے والے فاضلی، مذہب کے نام پر فسادات، سیاست دانوں اور فرقہ پرستوں پر جم کر تنقید کرتے ہیں۔ 1992 کے فسادات کے دوران، تحفظی وجوہات کی بنا پر انہوں نے اپنے ایک دوست کے گھر پناہ لی تھی۔ مذہبی رواداری پر کام کرنے کے لیے انہیں بہت سارے اعزازات ملے۔ انہوں نے اب تک 24 کتابیں لکھیں۔ مہاراشٹر حکومت کی جانب سے میر تقی ایوارڈ ملا۔ مختلف صوبائی حکومتوں کے ٹکسٹ بکس میں ان کی سوانح اور تخلیقات بھی ہیں۔
1998 – ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ
2003 - سٹار سکرین ایوارڈ برائے بہترین نغمہ نگار - فلم “سُر“ کے لیے۔
2003 - بالی وڈ مووی ایوارڈ برائے بہترین نغمہ نگار - فلم ‘سُر‘ کے گیت ‘آبھی جا‘ کے لیے۔
2013 – پدم شری اعزاز؛ حکومت بھارت۔
ندا فاضلی نے ذیل کی فلموں کے لیے گیت لکھے:
رضیہ سلطان
تمنا (فلم) - گھر سے مسجد ہے ۔
سُر دی میلاڈی آف لائف۔
اس رات کی صبح نہیں۔
نا خدا (فلم-1981)
آپ تو ایسے نہ تھے (فلم)
یاترا
سرفروش (فلم) - ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے۔
سُر (فلم) - آ بھی جا۔
بھارتی حکومت نے ندا فاضلی کو پدم شری، ساہتہ اکیڈمی ایوارڈ، اور میر تقی میر ایوارڈ سے نوازا۔ ان کے پانچ مجموعے شائع ہوئے، جن میں ’لفظوں کے پھول،‘ مور ناچ، اور ’دنیا ایک کھلونا ہے،‘ وغیرہ شامل ہیں۔
فلمی دنیا کے سفر کے بارے میں ندا نے فلمی رسالے فلم فیئر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ فلم رضیہ سلطان کے خالق کمال امروہی کو فلم کے اصل نغمہ نگار جانثار اختر کے اچانک انتقال کے بعد ایک شاعر کی ضرورت تھی، چنانچہ انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور میں نے فلم کے لیے دو گیت لکھے۔ اس فلم کو بننے میں تو بہت دیر لگی لیکن اس دوران مجھے دوسری فلموں میں کام ملنا شروع ہو گیا۔
ندا فاضلی نے ’رضیہ سلطان،‘ کے علاوہ ’سرفروش،‘ ’اس رات کی صبح نہیں،‘ ’آپ ایسے تو نہ تھے،‘ اور ’گڑیا‘ کے گیت لکھے جنھوں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ 2003 میں انھیں فلم ’سُر‘ کے لیے سٹار سکرین ایوارڈ کے بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ ملا۔
فلم ’آپ ایسے تو نہ تھے‘ کے ان کا لکھا ہوا اور محمد رفیع کا گایا ہوا نغمہ ’تو اس طرح سے مری زندگی میں شامل ہے‘ آج بھی بہت مقبول ہے۔
ندا فاضلی انسان دوست شاعر تھے اور اس سلسلے میں وہ سماج کی جانب سے عائد پابندیوں، خاص طور پر مذہبی قید و بند پر تنقید کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا شعر ہے:
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
یہ شعر بےحد مشہور ہوا تھا اور مشاعروں میں خاص طور پر فرمائش کر کے ان سے سنا جاتا تھا۔ اسی موضوع پر ان کا قطعہ ہے:
گھاس پر کھیلتا ہے اک بچّہ
پاس ماں بیٹھی مسکراتی ہے
مجھ کو حیرت ہے جانے کیوں دنیا
کعبہ و سومنات جاتی ہے
ندا فاضلی یوں تو سادہ خیالات کو سادہ الفاظ میں پیش کرنے میں مہارت رکھتے تھے لیکن 1980 کی دہائی میں ابھرنے والی علامت نگاری کی تحریک سے وہ بھی متاثر ہوئے نہ رہ ��کے۔ اس ضمن میں ان کا ایک شعر اس زمانے میں خاصا بدنام ہوا تھا:
سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی
ندا فاضلی ’اندازِ بياں‘ کے نام سے بی بی سی ہندی کے لیے کالم بھی لکھا کرتے تھے۔
ندا فاضلی کی وفات 8 فروری 2016 کو ممبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#منتخب_کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں
اُن چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاصلہ نظروں کا دھوکا بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ جیسا اک آدمی میرا ہی ہمنام
اُلٹا سیدھا وہ چلے مجھے کرے بدنام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سو ناہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہمیں
رُخ ہواؤں کا جدھر کا ہے اُدھر کے ہم ہیں
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیا نہیں جب گاؤں میں
آگ لگے سب گاؤں میں
کتنی میٹھی تھی املی
ساجن تھے جب گاؤں میں
سچ کہہ گُیّاں اور کہاں
ان جیسی چھب گاؤں میں
ان کے جانے کی تاریخ
دنگل تھا جب گاؤں میں
دیکھ سہیلی دھیمے بھول
بیری ہیں سب گاؤں میں
کتنی لمبی لگتی ہے
پگڈنڈی اب گاؤں میں
من کا سودا، من کا مول
کیسا مذہب گاؤں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہریں پڑیں تو سویا ہوا جل مچل گیا
پربت کو چیرتا ہوا دریا نکل گیا
رنگوں کے امتزاج میں پوشیدہ آگ تھی
دیکھا تھا میں نے چھو کے مرا ہاتھ جل گیا
اکثر پہاڑ سر پہ گرے اور چپ رہے
یوں بھی ہوا کہ پتّہ ہلا، دل دہل گیا
پہچانتے تو ہوگے نِدا فاضلی کو تم
سورج کو کھیل سمجھا تھا، چھوتے ہی جل گیا
۔۔۔۔۔۔۔��۔۔۔۔۔۔
شعورِ مرگ
اسے نہیں معلوم
کہ امّا ں کیوں روتی ہیں
سر لٹکاے بہنیں کیوں بیٹھی رہتی ہیں
سورج ڈھلتے ہی
کتّا رونے لگتا ہے
گھڑی گھڑی دروازے کو تکنے لگتا ہے
گھر کا آنگن
میلا میلا کیوں رہتا ہے؟
جگہ جگہ پر پانی پھیلا کیوں رہتا ہے
اسے نہیں معلوم
کہ گُڑیا کب آئ تھی
مٹّی کی ہنڈیا کس نے دلوائ تھی
لیکن جب کوئ پھیری والا آتا ہے
یا کوئ گھر والا اس کو دھمکاتا ہے
جانے وہ کیا ادھر ادھر دیکھا کرتا ہے
جیسے کوئ کھوئ شے ڈھونڈھا کرتا ہے
اور اچانک چِلّا کر رونے لگتا ہے
اسے نہیں معلوم۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوجھ
میرے بکھرے بالوں پر اور بھی تو ہنستے ہیں
میری خستہ حالی پر قہقہے لگاتے ہیں
میری ہر تباہی پر حاشئے چڑھاتے ہیں
اب تو جو بھی ملتے ہیں اجنبی سے ملتے ہیں
آنکھیں کھوئ رہتی ہیں، صر�� ہونٹ ہلتے ہیں
صرف ایک تم اتنے کیوں خموش رہتے ہو
میری تلخ باتوں کو ہنس کے ٹال دیتے ہو
میں جہاں نظر آؤں، ہاتھوں ہاتھ لیتے ہو
جان بوجھ کر میں نے کپ کو نیچے پھینکا ہے
بے سب ہی شبنم کو مار کر رلایا ہے
پین کے نئے نِب کو میز پر چلایا ہے
کیوں خفا نہیں ہوتے، کیوں بگڑ نہیں جاتے
کس لئے بھلا مجھ سے اب جھگڑ نہیں پاتے
ٹیڑھی میڑھی نظروں سے گھور کر جدا ہو جاؤ
دوست چند لمحوں کو آج پھر خفا ہو جاؤ
اور بھی تو ہنستے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین تو کہیں آسمان نہیں ملتا
جسے بھی دیکھئے وہ اپنے آپ میں گم ہے
زبان ملی ہے مگر ہم زبان نہیں ملتا
بجھا سکا ہے بھلا کون وقت کے شعلے
یہ ایسی آگ ہے جس میں دھواں نہیں ملتا
تیرے جہاں میں ایسا نہیں کے پیار نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی،وہاں نہیں ملتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنہا تنہا ہم رو لیں گے محفل محفل گائیں گے
جب تک آنسو پاس رہیں گے تب تک گیت سنائیں گے
تم جو سوچو وہ تم جانو ہم تو اپنی کہتے ہیں
دیر نہ کرنا گھر جانے میں ورنہ گھر کھو جائیں گے
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر وہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
کن راہوں سے دور ہے منزل کون سا راستہ آسان ہے
ہم جب تھک کر رک جائیں گے اوروں کو سمجھائیں گے
اچھی صورت والے سارے پتھر دل ہوں ممکن ہے
ہم تو اُس دن رائے دیں گے جس دن دھوکہ کھائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﯽ ﻃﺮﺡ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺍﺗﻨﺎ ﺳﭻ ﺑﻮﻝ ﮐﮧ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺒﺴﻢ ﻧﮧ ﺑﺠﮭﮯ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺧﺘﻢ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺁﮔﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﯿﺎﺱ ﺟﺲ ﻧﮩﺮ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺋﯽ ﻭﮦ ﺑﻨﺠﺮ ﻧﮑﻠﯽ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﻭﮦ ﺩﺭﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﻣﺮﮮ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﺗﻮ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮﮌ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺍﯾﮏ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﻣﺤﻔﻠﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺍﮐﯿﻼ ﮨﻮﮔﺎ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﺏ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﺩ ﺭﻻﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﮨﺮ ﺭﻧﮓ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﭼﮩﺮﮦ ﺳﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﭼﮩﺮﮦ ﭼﮩﺮﮦ
ﺟﺲ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﻮ ﮨﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺭﺧﺼﺖ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ���ﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ
ﺳﺎﺭﺍ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﻭ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺁﻧﭽﻞ ﻣﯿﮟ
ﯾﮧ ﺍﺟﺎﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺍﮎ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﮯ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺟﻮ ﮨﻮ ﺍﮎ ﺑﺎﺭ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﮨﺮ ﺍﮎ ﮐﺸﺘﯽ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ
ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯ ﮨﯽ ﻣﻨﺠﺪﮬﺎﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﺮﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺠﮯ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﺎﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ
ﮨﻮ
ﮨﺮ ﺍﮎ ﺑﺎﺯﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮨﺎﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺳﮑﮭﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﭼﻠﻨﺎ ﭨﮭﻮﮐﺮﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﮨﮕﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺳﺘﮧ ﺳﺪﺍ ﺩﺷﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 note · View note
muhammad-ubaidullah-khan · 3 years ago
Text
Mirza Muhammad Rafi Sauda (مرزا محمد رفیع سودا)
الغرض مطبخ اس گھرانے کا
رشک ہے آبدار خانے کا
آبدار خانہ میں آگ نہیں جلتی۔ جب آگ نہیں جلے گی تو لازم ہے کہ کھانا نہیں پکے گا، کھانا نہیں پکے گا۔ تو لازم ہے کہ وہ شخص نہ خود کھانا کھاتا ہے نہ ہی کسی کو کھلاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا مالک بہت کنجوس ہے۔
1 note · View note
muhammad-ubaidullah-khan · 3 years ago
Text
Mirza Muhammad Rafi Sauda (مرزا محمد رفیع سودا)
وہ اس کا خوان نعم ہے کہ جس کے مطبخ میں
صدا کھڑکنے کی ہے دیگ کے صدائے عام
اس شعر میں دیگ کھڑکنے کی آواز سے مراد سخاوت ہے کیونکہ جس مطبخ میں دیگ کھڑکے گی وہاں بہت سا کھانا پکے گا اور کھانا زیادہ پکنے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں بہت سے لوگ کھانا کھائیں گے اور جو شخص بہت سے لوگوں کو کھانا کھلائے گا وہ یقیناً سخی ہوگا۔ یہاں صفت سے موصوف تک پہنچنے میں کئی واسطے آئے ہیں۔
1 note · View note
muhammad-ubaidullah-khan · 3 years ago
Text
Mirza Muhammad Rafi Sauda on sleeplessness
سودا، تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
اب آئی سحر ہونے کو، ظالم کہیں مر بھی
1 note · View note
muhammad-ubaidullah-khan · 3 years ago
Text
Mirza Muhammad Rafi Sauda
اس چشم خوں چکا کا احوال کیا کہوں میں
گر زخم ہے تو یہ ہے ناسور ہے تو یہ ہے
0 notes
muhammad-ubaidullah-khan · 3 years ago
Text
Mirza Muhammad Rafi 'Sauda'
چمن میں کس کی مدارت تھی، بتا تو نسیم
کہ صبح، غنچوں کے سب عطردان کھول دئیے
0 notes
muhammad-ubaidullah-khan · 11 years ago
Text
سَودا۔
جو کہ ظالم ہے۔ وہ ہرگز پھولتا پھلتا نہیں۔ سبز ہوتے کھیت دیکھا ہے کبھُو شمشیر کا ؟
0 notes