#محمد و رند
Explore tagged Tumblr posts
Text
ولا يألف الإنسانُ إلّا نظيرهُ
وكلّ امرئٍ يصبو إلى مَن يُشاكِلهُ🤍
اللهم اجعله لي كما أحب واجعلني له كما يحب واجعلنا لك كما تحب وترضى🤍
الاثنين|| ٥-٨-٢٠٢٤
Mohammed Shaheen 🤍💍
#tumblr#تمبلر#خطوبة#عقدقران#محمد و رند#اغسطس#عروس#عريس#engagement#mohammad#randjaberr#wedding vibes#decor#wedding#cake#جعل بينكم مودة و رحمة#i said yes#she said yes
6 notes
·
View notes
Text
کچھ ضرب المثل اشعار
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
شہیر مچھلی شہری
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
ثاقب لکھنوی
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
ثاقب لکھنوی
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
مہتاب رائے تاباں
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خان سیاح
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
علامہ اقبال
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مولانا محمد علی جوہر
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
مرزا غالب
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کلیم عاجز
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرزا غالب
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
ظریف لکھنوی
��سانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھہ کچھہ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم ز��ب داستاں کے لئے
شیفتہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
علامہ اقبال
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فشاں لا الہ الا اللہ
علامہ اقبال
دیارِعشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
علامہ اقبال
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
اقبال
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبال
اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
اقبال
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
علامہ اقبال
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
حالی
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
اکبر الہ آبادی
لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے انبار
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
میر انیس
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میرتقی میر
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
سید محمد خاں رند
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
مہاراج بہادر برق
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ابراہیم ذوق
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا
آتش
وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے
شیفتہ
چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
فدوی عظیم آبادی
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
فراق گورکھپوری
داور حشر میرا نامۂ اعمال نہ دیکھہ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
محمد دین تاثیر
فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب
بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے
آتش
مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھےجن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے
آتش
امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے
چراغ حسن حسرت
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
عزیز الحسن مجذوب
دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
داغ دہلوی
درم و دام اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
غالب
چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے
یگانہ چنگیزی
دیکھہ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا
وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا
عزیز لکھنوی
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا
عزیز لکھنوی
دینا وہ اُس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر اُدھر کو اِدھر کو بڑھا کے ہاتھہ
نظام رام پوری
گرہ سے کچھ نہیں جاتا ہے پی لے زاہد
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں
امیر مینائی
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
اکبر الہ آبادی
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اکبر الہ آبادی
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
حسرت موہانی
تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مضطر خیر آبادی
دیکھہ آؤ مریض فرقت کو
رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے
حسن بریلوی
الجھا ہے پائوں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
مومن خان مومن
دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے
شاد عظیم آبادی
کوچۂ عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے
خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے
وزیر علی صبا
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
داغ دہلوی
گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
غالب
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
غالب
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
غالب
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
غالب
اسی لئے تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے ہیں
اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کاررواں ہو کر
خواجہ وزیر
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
ذوق
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
اکبر الہ آبادی
فکر معاش، عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
سودا
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اقبال
یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھہ میں وہ جام اسی کا ہے
2 notes
·
View notes
Text
اصل تحریکِ انصاف کہاں گئی؟
پاکستان کی وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردو��دل کے بعد ایسے چہرے کابینہ میں شامل ہوئے ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ زرداری اور مشرف حکومت کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔ یہ بھی چہ موگوئیاں جاری ہیں کہ حکومت تو تحریک انصاف کی ہے لیکن وفاقی کابینہ میں تحریک انصاف کے ساتھ شروع سے وابستہ رہنے والوں کی تعداد کم ہوتی جار ہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت پر یہ تنقید بھی کی جارہی ہے کہ اس کی 47 رکنی کابینہ میں غیر منتخب افراد کی تعداد بڑھ کر 16 ہو گئی ہے۔ حال ہی میں ہونے والی سب سے بڑی تبدیلی وزیرخزانہ کی ہے اسد عمر کی جگہ وزیرخزانہ بنائے جانے والے عبدالحفیظ شیخ مشرف دور میں سندھ کابینہ کا حصہ تھے۔ جبکہ 2010 میں انہیں یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں مشیر خزانہ مقرر کیا گیا تھا۔
عبدالحفیظ شیخ 2012 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بھی منتخب ہوئے تاہم حکومت کی تبدیلی کے بعد وہ امریکہ میں ملازمت کرتے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ مقرر کئے جانے والے بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ کو پرویز مشرف کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اعجاز شاہ، پرویز مشرف اور چوہدری پرویز الہی پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ اگر انہیں قتل کیا گیا تو یہ شخصیات اس میں ملوث ہوں گی۔ بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے مشرف دور حکومت میں انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر 2004 سے 2008 تک کام کیا اس دوران ان پر سیاسی انجینئرنگ کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی تھیں کہ پرویز مشرف انہیں آسٹریلیا میں پاکستان کا سفیر لگانا چاہتے تھے لیکن آسٹریلوی حکومت کی طرف سے مسترد کیے جانے پر انہیں ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو لگا دیا گیا۔
اعجاز شاہ جولائی 2018 کے انتخابات میں ننکانہ صاحب سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے تھے۔ مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں شامل رہنے والی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی اطلاعات کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔ فردوس عاشق اعوان نے 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ سے الیکشن لڑا تاہم اس وقت کے اسپیکر چوہدری امیر حسین سے ان کے اختلافات زبان زدعام رہے۔ فردوس عاشق اعوان 2008 میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوئیں اور پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیراطلاعات و نشریات رہیں 2013 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انہیں سیالکوٹ سے شکست ہوئی جس کے بعد وہ عارضی طور پر سیاست سے کنارہ کش ہو گئیں تھیں۔ 2017 میں فردوس عاشق اعوان نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی لیکن 2018 کے انتخابات میں انہیں شکست ہوئی تاہم اب انہیں وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات مقرر کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی مقرر کئے جانے والے فواد چوہدری بھی سابق صدر پرویز مشرف کے ترجمان رہ چکے ہیں جبکہ وہ پیپلزپارٹی کا حصہ رہنے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، وفاقی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال بھی پرویز مشرف کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر انسداد منشیات ��لی محمد خان مہر مشرف دور میں وزیرِ اعلیٰ سندھ رہ چکے ہیں۔ علی محمد مہر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے رہے ہیں تاہم وہ مختلف ادوار میں پیپلزپارٹی کے اتحادی رہے ہیں لیکن اب وہ بھی پی ٹی آئی کی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔
مخدوم خسرو بختیار، عمرایوب خان، طارق بشیر چیمہ، غلام سرور خان، ملک امین اسلم، عبدالرزاق داؤد، ندیم افضل چن سمیت تحریک انصاف میں شامل بہت سے افراد کا تعلق ماضی میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور سابق صدر پرویز مشرف سے رہا ہے۔ کابینہ میں ردوبدل کے بعد غیر منتخب افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے ان ٹیکنوکریٹس میں عبدالحفیظ شیخ، ڈاکٹر ظفر اللہ اور ندیم بابر شامل ہیں۔ ان غیر منتخب ارکان نے ایم این اے اسد عمر، عامر کیانی اور غلام سرور خان کی جگہ لی ہے۔ فردوس عاشق اعوان بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ وفاقی کابینہ میں وزراء کی تعداد 24 ہے، جس میں 5 وزیر مملکت، 13 معاونین خصوصی اور 5 مشیران بھی کابینہ کا حصہ ہیں۔ معاونین خصوصی میں سے صرف علی نواز اعوان رکن قومی اسمبلی جبکہ یار محمد رند رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔ دیگر غیر منتخب معاونین خصوصی میں شہزاد اکبر، افتخار درانی، نعیم الحق، زلفی بخاری، شہزاد قاسم، عثمان ڈار، یوسف بیگ مرزا اور ندیم افضل چن شامل ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ کی شمولیت کے بعد وزیراعظم کے مشیران کی مجموعی تعداد 5 ہو گئی ہے جو کوئی الیکشن جیت کر نہیں آئے۔ دیگر غیرمنتخب مشیران میں ملک امین اسلم، عبدالرزاق داؤد، شہزاد ارباب اور ڈاکٹر عشرت حسین شامل ہیں۔ سیاسی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر پرویز مشرف کی کابینہ اور غیرمنتخب افراد کو رکھنا تھا تو تبدیلی کا نعرہ کیوں لگایا گیا؟
علی رانا
بشکریہ وائس آف امریکہ
2 notes
·
View notes
Text
سینیٹ الیکشن:سیاسی جوڑ توڑ، اسد عمر کا کوئٹہ جانے کا فیصلہ
سینیٹ الیکشن:سیاسی جوڑ توڑ، اسد عمر کا کوئٹہ جانے کا فیصلہ
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق سینیٹ انتخابات 3 مارچ کو ہوں گے، الیکشن کی تیاریاں اور سیاسی جوڑ توڑ بھی عروج پرہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر نے دیگر وزرا کے ہمراہ کوئٹہ کا دورہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر اسد عمر پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند سے ملاقات کرینگےاور ان کے صاحبزادے کے دستبردار کرانے کی درخواست…
View On WordPress
0 notes
Photo
ذکر بر دار کردن حسنک وزیر... و حسنک را سوی دار بردند و به جایگاه رسانیدند، بر مرکبی که هرگز ننشسته بود. و جلادش استوار ببست و رسنها فرود آمد. و آواز دادند که سنگ دهید، هیچ کس دست به سنگ نمیکرد و همه زار میگریستند، خاصه نشابوریان. پس مُشتی رند را سیم دادند که سنگ زنند. و مرد خود مرده بود، که جلادش رسن به گلو افگنده بود و خفه کرده. اینْتْ حسنک و روزِ دارش. و گفتارش، رَحمُة الله عَلیه، این بود که گفتی مرا دعای نیشابوریان بسازد، و نساخت... چون ازین فارغ شدند بوسهل و قوم از پایِ دار بازگشتند و حسنک تنها ماند چنانکه تنها آمده بود از شکم مادر… و حسنک قریبِ هفت سال بر دار بماند، چنانکه پایهایش همه فرو تراشید و خشک شد چنانکه اثری نماند، تا به دستوری فرود گرفتند و دفن کردند، چنانکه کس ندانست که سرش کجاست و تن کجاست. و مادر حسنک زنی بود سخت جگر، او را چنان شنودم که دو سه ماه این حدیث پنهان داشتند و چون بشنید جَزَعی نکرد چنانکه زنان کنند، بلکه بگریست به درد چنانکه حاضران از دردِ او خون گریستند. پس گفت: بزرگا مردا که این پسرم بود که پادشاهی چون محمود این جهان بدو داد و پادشاهی چون مسعود آن جهان. و ماتمِ پسر سخت نیکو بداشت، و هر خردمند که این بشنید بپسندید، و جای آن بود. و یکی از شعرای نشابور این مرثیه بگفت اندر وی، و بدین جای یاد کرده شد. ببرید سرش را که سران را سر بود آرایش دهر و مُلک را افسر بود گر قرمطی و جهود یا کافر بود از تخت به دار برشدن مُنکر بود "از کتاب تاریخ بیهقی، متن کامل با مقدمه، توضیحات و شرح مشکلات - دکتر محمد جعفر یاحقّی و مهدی سیّدی، انتشارات سخن، چاپ دوم، از ص ۲۲۷ تا ۲۳۰" https://www.instagram.com/p/CIGK22Tnc6p/?igshid=txunkhtq0xzn
0 notes
Photo
بلوچستان : تعلیمی ادارے 31 مارچ تک بند رہیں گے کوئٹہ میں وزیر تعلیم بلوچستان یار محمد رند نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر بلوچستان کے سرکاری و نجی تعلیمی ادارے مزید 15 دن تک بند رہیں گے۔
0 notes
Photo
┈••✾•🍃❁﷽❁🍃•✾••┈ . . ⛔ 📍 انحراف افکار عمومی جهان از پیروزی مقاومت به واسطه استعفای #ظریف 👇 📡 اندیشکده آمریکایی رند در تحلیلی پیرامون استعفای محمدجواد ظریف نوشته است: 🔺️همزمان با استعفای ظریف دیداری دیپلماتیک بین #رهبری ایران و #حسن_روحانی با #بشار_اسد برگزار شده بود که حاوی پیام پیروزی و غلبه #جبهه_مقاومت بر فتنه #سوریه پس از اعلام رسمی خروج نیرویهای آمریکایی از سوریه بود. این دیدار با هدف برجستهسازی موقعیت ایران به عنوان متحد و پشتیبان اصلی سوریه طرحریزی شده بود که با استعفای ظریف این دیدار تحتالشعاع قرار گرفته و نگاههای جهانی به سوی ظریف معطوف شد. . . https://www.rand.org/blog/2019/02/behind-the-surprise-resignation-of-irans-foreign-minister.html . . #محمد_جواد_ظریف #استعفای_ظریف #جواد_ظریف #حسن_روحانی #خیانتی_ظریفانه #دولت_بی_کفایت #دولت_بی_لیاقت #محاکمه_ظریف . . ┈••✾•🍃❤️🍃•✾••┈ . . 🌴 الحمدُ لِلهِ الّذی جَعَلَنا مِنَ المُتَمَسِّکینَ بِولایةِ اَمیرِالمؤمنینَ و الائمةِ المَعصومینَ علیهم السلام 🌴 1⃣ 📩 https://eitaa.com/GheyratIRAN 2⃣ 📩 https://www.instagram.com/Hassan.dehghan62 3⃣ 📩 https://twitter.com/HassanDehghan36 4⃣ 📩 https://sapp.ir/GheyratIRAN 5⃣ 📩 https://fb.me/Hassandehghan62 (در شیراز پایتخت فرهنگی ایران.Shiraz,Irans cultural capital) https://www.instagram.com/p/Bua-te9D359/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=1owc978x8tx1c
#ظریف#رهبری#حسن_روحانی#بشار_اسد#جبهه_مقاومت#سوریه#محمد_جواد_ظریف#استعفای_ظریف#جواد_ظریف#خیانتی_ظریفانه#دولت_بی_کفایت#دولت_بی_لیاقت#محاکمه_ظریف
0 notes
Photo
سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں شروع کر دیں کوئٹہ: بلوچستان میں28 جنوری کو تحلیل ہونے والے بلدیاتی اداروں کی مدت میں مزید توسیع کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا جبکہ حکومت بلوچستان نے صوبے میں بلدیاتی الیکشن کیلئے آٹھ ماہ کا وقت مانگا ہے جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کرتے ہوئے بلدیاتی الیکشن وقت پر منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سابق میئر کوئٹہ کا یہ موقف ہے کہ اُنہوں نے18 فروری کو حلف لیا تھا اس طرح2017-18 کا جو بلدیاتی اداروں کیلئے بجٹ منظور ہوا تھا اسے وقت سے قبل سیز کردیا گیا تھا جو کہ بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے اسی لئے اُنہوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ حکومت بلوچستان نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں اصلاحات اور ترامیم کے سلسلے میں الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت سے رجوع کیا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وسائل کی تقسیم کے ساتھ ساتھ مختلف شہروں میں بڑھتے ہوئے ترقیاتی عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے میونسپل کمیٹیوں اور کارپوریشنوں کا قیام ضروری ہے اسی طرح صوبے کے18 اضلاع میں قحط سالی کے سبب ایمرجنسی نافذ ہے لہٰذا صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حکومت بلوچستان کا یہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل140 اے اور الیکشن ایکٹ217 کے سیکشن(4)29 کے مطابق120دن کے اندر انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد بلوچستان میں سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے شروع کردیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے تمام سیاسی، قوم پرست اور مذہبی جماعتیں زور لگائیں گی جبکہ کئی سیاسی اتحاد بھی تشکیل پائیں گے ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ بھی بلدیاتی انتخابات میں ماضی کی طرح صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سیاسی میدان سجے گا کیونکہ یہ انتخابات بھی جماعتی بنیادوں پر ہونگے اس لئے میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے سیاسی جماعتیں سر توڑ کوششیں کریں گی۔ وفاق میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے تو کوئٹہ میں اپنا ہوم ورک بھی شروع کردیا ہے ان کے صوبائی صدر سردار یار محمد رند اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے تو گذشتہ چند دنوں سے کوئٹہ میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں کے طوفانی دورے کررہے ہیں۔ تحریک انصاف بلوچستان کی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان میں بھی خیبر پختونخوا کی طرز کا بلدیاتی نظام لانے کے خواہاں ہیں اس کے علاوہ تحریک انصاف بلوچستان کا یہ دعویٰ ہے کہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کا اگلا میئر ان کا ہوگا جس کیلئے وہ اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی رابطے کر رہی ہے۔ دوسری طرف پشتونخواملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بی این پی (عوامی)، جمعیت علماء اسلام (ف)، جمعیت علماء اسلام (نظریاتی)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)اور بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی بلدیاتی انتخابات کیلئے حکمت عملی بنانا اور رابطوں کا آغاز کردیا ہے۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی جو کہ ابھی نئی نئی ہے کو بلدیاتی انتخابات کی تیاری میں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاہم ان تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صوبے میں مخلوط حکومت بی اے پی کی ہے تو توقع ہے کہ وہ ماضی کی حکمران پارٹیوں کی طرز پر اپنے کارکنوں تک رسائی حاصل کرکے اس شارٹ پیریڈ میں کافی حد تک کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور اپنی ادھوری تنظیم سازی بھی مکمل کرے گی۔ گو کہ بعض سینئر کارکن اور عہدیداران نئی سیاسی جماعت کی موجودہ حکمت عملی سے نالاں دکھائی دیتے ہیں لیکن پارٹی کے سربراہ جام کمال جوکہ صوبے کے وزیراعلیٰ بھی ہیں اُن کا کہنا ہے کہ بی اے پی واحد سیاسی جماعت ہے جس کا بنیادی مقصد بلوچستان کے حقوق کا تحفظ اور گڈ گورننس کا قیام ہے کیونکہ بلوچستان مزید خامیوں اور بدانتظامی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی اے پی بڑے قلیل عرصے میں آگے آئی اور نہ صرف صوبے میں حکومت بنائی بلکہ سینیٹ میں بھی چیئرمین شپ پر کامیابی حاصل کی جو کہ بی اے پی کیلئے قابل ستائش ہے حالانکہ ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو کہ15 سال سے سیاست میں ہیں لیکن حکومت نہیں بناسکیں۔ بی اے پی اپنے منشور کے مطابق کئے گئے وعدوں کو پورا کرے گی۔ The post سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں شروع کر دیں appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes
Photo
ایم پی اے ہاسٹل پر سابقہ سپیکرز ،وزراء اور سینیٹرز کاقبضہ،حیرت انگیز انکشافات کوئٹہ(آن لائن) پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر سرادر یار محمد رند سمیت دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے پارلیمانی لیڈروں کو اب تک کمرے الاٹ نہیں کئے بلوچستان اسمبلی میں متصل ایم پی اے ہاسٹل میں پارلیمانی لیڈروں اراکین اسمبلی کو کمرے الاٹ نہیں کئے گئے بلوچستان اسمبلی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر کو ایم پی اے ہاسٹل میں ایک سوئٹ روم الاٹ کرنے کی اجازت ہے بلکہ ایم پی اے ہاسٹل پر سابقہ اسپیکر سابقہ وزراء اورسابقہ سینیٹرز کا کمروں پر قبضہ جمع رکھے ہونے کا انکشاف ذرائع کے مطابق سابق اسپیکر بلوچستان
0 notes
Text
لیاری جاگ رہا ہے
لیاری میں خوشگوار تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں۔ لیاری کے فرزندوں نے تخلیق کے میدان میں نئے ریکارڈ قائم کر دیے۔ لیاری کے بارے میں ایک اور کتاب “Lyari on the rise” شایع ہو گئی ۔ یہ لیاری میں قائم بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی، شعبہ انگریزی کے طالب علم عمیر رزاق نے تحریر کی ۔ اس سے قبل لیاری کی سماجی اور سیاسی تاریخ پر ایک سماجی کارکن رمضان بلوچ کی کتاب ’’ لیاری کی ادھوری کہانی‘‘ اور سماجی تاریخ پر لطیف بلوچ کی کتاب ’’ لیاری کا مقدمہ ‘‘ شایع ہوئیں۔
معروف وکیل وحید نور کا شعری مجموعہ ’’سکوت بول پڑا‘‘ بھی شایع ہوا۔ رمضان بلوچ نے اپنی کتاب میں لیاری کا پس منظر اور اہم سیاسی اور سماجی تحریکوں پر روشنی ڈالی تھی ، اس کتاب میں کئی اہم انکشافات درج تھے۔ لطیف بلوچ نے لیاری کا پس منظر ، لیاری میں چلنے والی طلبہ و سیاسی تحریکوں خاص طور پر بائیں بازوکی تحریکوں اورکارکنوں پر روشنی ڈالی ہے۔ وحید نور کے دیوان کا دیباچہ پروفیسر سحر انصاری نے تحریر کیا ہے۔ عمیر رزاق کہتے ہیں کہ لیاری میں گینگ وار نے سب کچھ تباہ کیا۔ اس لڑائی کو لیاری کے عوام پر مسلط کیا گیا تھا ۔ لیاری کے لوگوں نے مجرمانہ کردار کے حامل افراد کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی ۔
یہی وجہ ہے کہ لیاری میں امن قائم ہوتے ہی سماجی اور سیاسی سرگرمیاں پھر تیز ہو گئیں۔ فٹ بال کے نائٹ میچ ، مہینوں جاری رہنے والے فٹ بال ٹورنامنٹ ، باکسنگ کلب ، لڑکیوں کا باکسنگ کے کھیل میں عملا دلچسپی لینا ، پھر غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں نے ایک مثبت ماحول پیدا کر دیا۔ لیاری کے اسٹریٹ چلڈرن فٹبال ٹیم کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہو گئی ہے مگر میڈیا لیاری کا تشخص بحال کرنے کو تیار نہیں۔ اب بھی لیاری کے باسیوں کو بدنام زمانہ مجرموں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ عمیر نے لیاری میں ہونے والی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک انگریزی کے رسالے میں آرٹیکل تحریرکیے۔ پھر ان آرٹیکلز کو جمع کر کے ایک معلوماتی کتاب کی شکل دی۔ عمیر رزاق کی یہ کتاب 172 صفحات اور 35 مختصر ابواب پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کے بارے میں آراء پر مبنی مضامین رمضان بلوچ ، ڈاکٹر اختر بلوچ اور معروف سماجی کارکن عابد حسین بروہی نے تحریر کیے ہیں۔ رمضان بلوچ لکھتے ہیں کہ جب ہم لیاری کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلاچی کی پہلی بستی کا ذکر کر رہے ہیں، ارتقائی عمل کے نتیجے میں کلاچی ،کراچی میں تبدیل ہو گئی۔ لیاری کے لوگوں کوکچھ شکایتیں بھی ہیں ۔ ان کا سیاسی استحصال ہوا۔ یہاں کے لوگ غربت ، غیر مستحکم زندگی اور معاشی محرومیوں کا شکار ہیں مگر میڈیا کی طاقت لیاری کو گندا، میلا اور مجرموں کی آماجگاہ قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان عمیر اس تحریک کو تحریر کرنے پر مجبور ہوئے۔
لیاری کے فرزند اور لیاری میں قائم ہونے والی پہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ لکھتے ہیں کہ لیاری میں آرٹ، کلچر، ادب، کھیل، صحافت، موسیقی اور تعلیمی میدان میں تخلیق کاروں نے جنم لیا۔ وہ عمیر رزاق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عمیر رزاق جو پیدائشی طور پر لیاری کی آواز ہیں۔ عمیر نے اپنی صحافتی اور سماجی ذمے داریوں کو پورا کیا ہے۔ معروف وکیل اور شاعر وحید نور Shuttering the black night کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ لیاری کے فرزندوں پروفیسرعلی محمد شاہین، لالہ لعل بخش رند، رحیم بخش آزاد، جدوک بلوچ، یوسف نسقندی، فیض محمد بلوچ ، ن ، م، دانش اور یوسف مستی خان وغیرہ کے کرداروں کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کچھ بد نما چہروں کو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا انتہائی غیر ضروری توجہ دیتا ہے، جس سے لیاری کا تشخص خراب ہوتا ہے۔
اس کتاب کے پہلے باب میں لیاری کے نوجوانوں کے کارناموں کو بیان کرتے ہوئے عمیر لکھتے ہیں کہ لیاری کے محلہ شاہ بیگ لائن کے غریب والدین کی بیٹی مریم آسکانی نے دل کے مریضوں کے لیے ایک آلہ تیار کیا جو دل سے ملنے والی غیر معمولی سگنلز کو ریکارڈ کرتا ہے۔ اسلام آباد میں 2016ء میں ہونے والی ایک نمائش میں اس آلے کی تیاری پر مریم آسکانی کو پہلا انعام دیا گیا۔ اسی طرح عاصمہ حیا بلوچ ایک مصور ہیں ، ان کا پنسل ورک مشہور ہے۔ لیاری کے علاقے بہار کالونی کی مکین کاملا رضا نے آغا خان بورڈ کے میٹرک کے ملک بھر میں ہونے والے امتحانات میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ سنیئر صحافی نرگس بلوچ کی بیٹی مہوش بلوچ جنہوں نے امریکا میں قانون کی تعلیم حاصل کی تھی انھیں نیویارک کی تمام عدالتوں میں وکالت کی اجازت ملی۔ ماہرہ احمد میانجی کو ان کی تعلیمی خدمات پر Pakistan Youth Icon کا اعزاز حاصل ہوا۔
احسان شاہ کو ان کی فلم جاور (جو امن کے بارے میں ہے) پر بین الاقوامی ایوارڈ ملا۔ احسان شاہ او ان کی اہلیہ نازین کی ایک دوسی ٹیلی فلم ’’پریزن ود آؤٹ وال‘‘ Prison without wall کی نمائش بے نظیر یونیورسٹی آڈیٹوریم لیاری میں ہوئی۔ گذنو روز غنی کو امن کی کوششوں پر ایوارڈ ملا۔ اصیلہ عبداﷲ محمد علی جناح یونیورسٹی کے بزنس مینیجمنٹ کے شعبے میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے پر گولڈ میڈل کی حقدار قرار پائیں ۔ باکسر امیر علی نے نیشنل چیمپئن شپ کے مقابلوں میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ عمیر نے لکھا ہے کہ اگلے دو سال لیاری کے لیے انتہائی اہم ہیں، اگر نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہ کیا تو ناپسندیدہ عناصر اس پیدا ہونے والے خلاء کو پر کریں گے اور مقامی اور قومی میڈیا پھر ان عناصر کی سرگرمیوں کو اجاگر کریں گے۔ عمیر نے کتاب کے دوسرے باب میں لکھا ہے کہ ایک سماجی تنظیم سوشل ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ترتیب کردہ اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ 80ء کی دہائی میں سیکڑوں اسٹریٹ ایجوکیشن سینٹر کام کر رہے تھے۔
لیاری کے سماجی کارکنوں کی کوششوں سے نوجوانوں کی تربیت کے لیے مختلف اداروں نے پروگرام منعقد کیے۔ ان اداروں میں آغا خان فاؤنڈیشن سب سے اہم تھی۔ عمیر نے اس کتاب میں گزشتہ برسوں کے دوران لیاری میں ہونے والی سماجی سرگرمیوں اور لیاری سے متعلق تحریرکی جانے والی کتابوں کی تقاریب اجراء کے بارے میں تفصیلی تحریریں شامل کی ہیں ۔ کتاب میں بغدادی کے ایک ورکشاپ میں کام کرنے والے 17 سالہ جاوید بلوچ کا بھی ذکر ہے۔ جاوید بلوچ کو معروف شخصیتوں کے اسکیچ بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ جاوید بلوچ نے میڈم نورجہاں، امیتابھ بچن، میوزک کمپوزر اے آر رحمن، اداکار نصیرالدین شاہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے اسکیچ تیار کیے ہیں۔ جاوید نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے 8 بہن بھائی ہیں مگر کسی کو بھی مصوری سے لگاؤ نہیں۔ میرے والد کو بھی مصوری سے دلچسپی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے مجھے تصاویر بناتے دیکھا تو کہا کہ میں یہ مشق جاری رکھوں۔
بلوچ کامیڈین در محمد افریقی کا ذکر کرتے ہوئے کتاب میں تحریر کیا گیا ہے کہ درمحمد نے ساری زندگی آرٹ کلچر کے احیاء کے لیے وقف کی۔ مرحوم در محمد لیاری کے علاوہ بلوچستان، ایران اور مسقط میں بھی خاصے مقبول تھے۔ مصنف نے لیاری سے شایع ہونے والے ایک شام کے اخبار پر بنائی جانے والی ڈاکیومنٹری کا ذکر کیا ہے ۔ اس اخبار نے زرد صحافت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ ڈاکیومنٹری میں صحافیوں کے علاوہ خواتین اور متعلقہ لوگوں کے خیالات شامل کیے گئے۔
لیاری گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں گینگ وار کا شکار ہوا ، اور اندھیروں میں ڈوبا۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں متحرک ہوئیں۔ لیاری میں سکون ہوتے ہی سماجی سرگرمیاں تیز ہو گئیں۔ لیاری اس خطے کا واحد علاقہ ہے جس کے بارے میں صرف ایک سال میں تین کتابیں شایع ہوئی ہیں ۔ یہ کتابیں لیاری کے فرزندوں نے تحریر کی ہیں مگر ذرایع ابلاغ اب بھی لیاری کی منفی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ عمیر نے لیاری کا حقیقی امیج ابھارنے کے لیے یہ کتاب تحریر کی ہے۔ عمیر اوران کے ساتھیوں کی کوششیں جلد رنگ لائیں گی اور قومی میڈیا لیاری کا مثبت چہرہ پیش کرے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ اب لیاری جاگ رہا ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان
0 notes
Text
سبی میلہ
یہ تاریخی میلہ ایک طویل عرصہ سے منعقد ہو رہا ہے۔ شہر سبی درہ ��ولان کے دھانے پر واقع ایک قدیم شہر ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ شہر برصغیر پاک و ہند میں داخلے کے لیے افغانیوں اور ایرانیوں کی گزر گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ انگریز دور حکومت میں یہ شہر افغانستان جانے کے لیے بھی استعمال ہوا۔ کچھ تاریخ دانوں کے مطابق اس خطہ میں اسلام سے پہلے یہ شہر قلات کے ساتھ ملحق تھا اور ہندو آبادی اسے ’’سیواس‘‘ کے نام سے پکارتی تھی۔ یہاں مشہور ہندو راجا سہرا رائے کی حکومت تھی اس کا دارالحکومت اسور شہر تھا یہ شہر موجود بھکر کے نزدیک تھا بعد ازاں مسلمانوں کے ساتھ مکران کے مقام پر جنگ میں یہ راجہ مارا گیا اور یہ حکومت مشہور راجہ داھرکے باپ کے ہاتھ میں چلی گئی
محمد بن قاسم کے زمانے میں سبی مسلمانوں کے دائرہ حکومت میں شامل تھا۔
اس کے بعد اس شہر نے کئی دور حکومت دیکھے اور پھر 1739ء میں یہ برصغیر کے مغربی صوبوں کے ساتھ منسلک ہوگیا۔ خان آف قلات میر محبت خان کے دور حکومت میں شہر قلات میں شامل ہوا ان کے والد میر عبد اللہ خان سندھ حکمران نور محمد کلہوڑہ کے ساتھ ایک طویل لڑائی کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔ کچھ تاریخ دانوں کی تحقیق کے مطابق سبی شہر کا نام ایک ہندو شہزادی سیوا رانی کے نام پر رکھا گیا، لیکن تاریخ میں اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ اس شہر کے مقامی لوگ اب تک اس شہر کو سیوا کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔ اس علاقے کے لیے خان آف قلات اور اس کی بہن شہزادی بہنجا نے 17 حملوں کا مقابلہ کیا۔ شہزادی اس شہر کے محاصرے کے دوران ہی وفات پاگئی۔ 1834ء میں انگریزوں نے اس علاقے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلی افغان جنگ میں اسے مرکز کے طور پر استعمال کیا۔ یہ تو ہوا اس شہر کا ایک مختصر سا تعارف، اب ذرا اس شہر کے مشہور سبی میلے کے تاریخی پس منظر کو بیان کریں اس میلے کے بارے میں بھی تاریخ دان مختلف الرائے ہیں کہ یہ کب اور کیسے شروع ہوا۔اشیاء کے بدلے اشیاء کے اصول پر اس میلے میں تجارت کی جاتی تھی۔
یہ شہر ایران، افغانستان، ترکی اور وسطی ایشیاء کے ممالک کے تاجر حضرات کے لیے ایک بہت بڑا مرکز تھا یہ تاجر اس شہر میں اپنا مال لے کر اکٹھے ہوتے اور اشیاء کا باہمی تبادلہ کر لیتے۔ کچھ کے خیال کے مطابق یہ میلہ بلوچستان کے عظیم ہیرو میر چاکر خان رند کے دور حکومت میں شروع ہوا، جو اکثر اس ماہ میں قبائل کو اکٹھا کرتے تھے تا کہ آپس کے تنازعات طے پاسکیں۔ ضلعی گزٹ کے مطابق 1885ء میں یہاں پہلا افغان گھوڑوں کی فروخت کا میلہ منعقد ہوا۔ میر چاکر خان رند نے سبی کو اپنا دارالحکومت بنایا اور یہاں ہر سال قبائلی سرداروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور قابل تعریف افراد کو اکٹھا کیا جانے لگا۔ ان سربراہان کے ہمراہ بہت سے ملازمین اور کاروباری افراد آتے جو اپنی وقت گزاری کے لیے کچھ نہ کچھ شغل کرتے رہتے ،ان اوقات میں مقامی لوگوں کے علاوہ پنجاب اور سندھ کے تاجر حضرات بھی اپنے مویشیوں کے ہمراہ میلے میں شرکت کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ یہ میلہ میلہ اسپاں و مویشیاں کی صورت اختیار کر گیا۔
انگریزوں کے دور میں سبی حکومت کا سرمائی دارالحکومت بن گیا۔ انہوں نے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اس میلے کو استعمال کیا اور اس میلے کے شرکاء اور معززین کو نقد رقوم اور اعزازت سے بھی نوازا جانے لگا۔ علاقے کے سرداروں کے لیے لازم کر دیا گیا کہ وہ اپنی بگھی کو میلے میں خود کھینچیں ،اکثر نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس فیصلے کو قبول کیا ،لیکن چند سرداروں نے اسے بے عزتی قرار دیا اور انکار کر دیا۔ گورنر جنرل کا علاقائی ایجنٹ ایک سالانہ شاہی جرگہ بلاتا اور ان قبائلی سرداروں کو اعزازی تلوار یں اور انعامات دیئے جانے لگے جو برطانوی حکومت کے لیے خدمات انجام دیتے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سلسلہ بدستور جاری رہا شاہی جرگے کا نام بدل کر سبی دربار رکھ دیا گیا۔
شیخ نوید اسلم
(پاکستان کی سیر گائیں)
0 notes
Text
سبی میلہ
یہ تاریخی میلہ ایک طویل عرصہ سے منعقد ہو رہا ہے۔ شہر سبی درہ بولان کے دھانے پر واقع ایک قدیم شہر ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ شہر برصغیر پاک و ہند میں داخلے کے لیے افغانیوں اور ایرانیوں کی گزر گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ انگریز دور حکومت میں یہ شہر افغانستان جانے کے لیے بھی استعمال ہوا۔ کچھ تاریخ دانوں کے مطابق اس خطہ میں اسلام سے پہلے یہ شہر قلات کے ساتھ ملحق تھا اور ہندو آبادی اسے ’’سیواس‘‘ کے نام سے پکارتی تھی۔ یہاں مشہور ہندو راجا سہرا رائے کی حکومت تھی اس کا دارالحکومت اسور شہر تھا یہ شہر موجود بھکر کے نزدیک تھا بعد ازاں مسلمانوں کے ساتھ مکران کے مقام پر جنگ میں یہ راجہ مارا گیا اور یہ حکومت مشہور راجہ داھرکے باپ کے ہاتھ میں چلی گئی
محمد بن قاسم کے زمانے میں سبی مسلمانوں کے دائرہ حکومت میں شامل تھا۔
اس کے بعد اس شہر نے کئی دور حکومت دیکھے اور پھر 1739ء میں یہ برصغیر کے مغربی صوبوں کے ساتھ منسلک ہوگیا۔ خان آف قلات میر محبت خان کے دور حکومت میں شہر قلات میں شامل ہوا ان کے والد میر عبد اللہ خان سندھ حکمران نور محمد کلہوڑہ کے ساتھ ایک طویل لڑائی کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔ کچھ تاریخ دانوں کی تحقیق کے مطابق سبی شہر کا نام ایک ہندو شہزادی سیوا رانی کے نام پر رکھا گیا، لیکن تاریخ میں اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ اس شہر کے مقامی لوگ اب تک اس شہر کو سیوا کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔ اس علاقے کے لیے خان آف قلات اور اس کی بہن شہزادی بہنجا نے 17 حملوں کا مقابلہ کیا۔ شہزادی اس شہر کے محاصرے کے دوران ہی وفات پاگئی۔ 1834ء میں انگریزوں نے اس علاقے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلی افغان جنگ میں اسے مرکز کے طور پر استعمال کیا۔ یہ تو ہوا اس شہر کا ایک مختصر سا تعارف، اب ذرا اس شہر کے مشہور سبی میلے کے تاریخی پس منظر کو بیان کریں اس میلے کے بارے میں بھی تاریخ دان مختلف الرائے ہیں کہ یہ کب اور کیسے شروع ہوا۔اشیاء کے بدلے اشیاء کے اصول پر اس میلے میں تجارت کی جاتی تھی۔
یہ شہر ایران، افغانستان، ترکی اور وسطی ایشیاء کے ممالک کے تاجر حضرات کے لیے ایک بہت بڑا مرکز تھا یہ تاجر اس شہر میں اپنا مال لے کر اکٹھے ہوتے اور اشیاء کا باہمی تبادلہ کر لیتے۔ کچھ کے خیال کے مطابق یہ میلہ بلوچستان کے عظیم ہیرو میر چاکر خان رند کے دور حکومت میں شروع ہوا، جو اکثر اس ماہ میں قبائل کو اکٹھا کرتے تھے تا کہ آپس کے تنازعات طے پاسکیں۔ ضلعی گزٹ کے مطابق 1885ء میں یہاں پہلا افغان گھوڑوں کی فروخت کا میلہ منعقد ہوا۔ میر چاکر خان رند نے سبی کو اپنا دارالحکومت بنایا اور یہاں ہر سال قبائلی سرداروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور قابل تعریف افراد کو اکٹھا کیا جانے لگا۔ ان سربراہان کے ہمراہ بہت سے ملازمین اور کاروباری افراد آتے جو اپنی وقت گزاری کے لیے کچھ نہ کچھ شغل کرتے رہتے ،ان اوقات میں مقامی لوگوں کے علاوہ پنجاب اور سندھ کے تاجر حضرات بھی اپنے مویشیوں کے ہمراہ میلے میں شرکت کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ یہ میلہ میلہ اسپاں و مویشیاں کی صورت اختیار کر گیا۔
انگریزوں کے دور میں سبی حکومت کا سرمائی دارالحکومت بن گیا۔ انہوں نے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اس میلے کو استعمال کیا اور اس میلے کے شرکاء اور معززین کو نقد رقوم اور اعزازت سے بھی نوازا جانے لگا۔ علاقے کے سرداروں کے لیے لازم کر دیا گیا کہ وہ اپنی بگھی کو میلے میں خود کھینچیں ،اکثر نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس فیصلے کو قبول کیا ،لیکن چند سرداروں نے اسے بے عزتی قرار دیا اور انکار کر دیا۔ گورنر جنرل کا علاقائی ایجنٹ ایک سالانہ شاہی جرگہ بلاتا اور ان قبائلی سرداروں کو اعزازی تلوار یں اور انعامات دیئے جانے لگے جو برطانوی حکومت کے لیے خدمات انجام دیتے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سلسلہ بدستور جاری رہا شاہی جرگے کا نام بدل کر سبی دربار رکھ دیا گیا۔
شیخ نوید اسلم
(پاکستان کی سیر گائیں)
0 notes
Photo
عاقبت حسنک وزیر!!! برگرفته از برگه اقای بهمن رضایی # *حسن بن محمد میکالی* آخرین وزیر دانای سلطان محمود غزنوی و شناخته شده بنام حسنک وزیر میباشد و او از خاندان *دیواشتیج* شاهزاده سغدی بود سلطان محمود غزنوی به خاطر دانش و هوش بالای حسنک او را به وزیری گمارد و حسنک نیز سالها به سلطان محمود غزنوی خدمت کرد # حسنک وزیر در زمان محمود غزنوی به زیارت حج رفت و به دلیل نا آرامی مسیر بازگشت از مسیر مصر راهی ایران شد و در مصر خلعت خلیفه فاطمی مصر را که شیعه اسماعیلیه بود پذیرفت و در غزنی تسلیم سلطان محمود غزنوی کرد و خلیفه عباسی مسلمانان، در بغداد حسنک را بخاطر پذیرفت خلعت فاطمیون از شیعه اسماعیلی به خاطر به خدمت نرسیدن ولی به بهانه کردن قرمطی گری، او را از سلطان محمود خواست که تسلیم وی کند. # ابوالفضل بیهقی میگوید، سلطان محمود به وزیرش اعتماد داشت و میدانست که او قرمطی نیست و به خواست خلیفه جواب رد داد و نسبت به پافشاری خلیفه در اعدام حسنک وزیر سلطان محمود به خشم امده و گفت، به این خلیفه خرف شده بیاید نبشت که من از بهر عباسیان انگشت در کرده ام در همه جهان و قرمطی می جویم و انچه یافته اید و بر دار میکشند و اگر مرا درست شدی که حسنک قرمطی است خبر به امیرالمومنین رسیدی که در باب وی چه رفتی. وی را من پرورده ام و با فرزندان و برادرانم برابر است و اگر وی قرمطی است من هم قرمطی باشم! # پس از مرگ سلطان محمود غزنوی، حسنک وزیر در به سلطنت رساندن محمد، پسر سلطان محمود و برادر مسعود تلاش بسیار کرد و پس از شکست، سلطان مسعود غزنوی زمام امور را به دست گرفت و قرمطی گری وزیر پدرش را بهانهای قرار داد و به خواست خلیفه بغداد و پافشاری *بوسهل زوزنی* او را به دار آویخت و صحنه به دار آویخته شدن حسنک وزیر بیشک یکی از شاهکارهای نثر فارسی سده پنجم خورشیدی است که بیهقی میگوید: # حسنک وزیر را به سوی دار بردند و به جایگاه رسانیدند و بر مرکبی که هرگز ننشسته بود نشانیدند و جلادش استوار ببست و رسنها فرود آورد و آواز دادند که سنگ زنید و هیچ کس دست به سنگ نبردند و همه میگریستند، خاصه نشاپوریان. خاصه مشتی رند را زر دادند تا سنگ زنند و مرد خود مرده بود و جلادش رسن به گلو افکنده بود خوبه کرد. این است حسنک و روزگارش و گفتارش، رحم الله و علیه. این بود که خود بزندگانی بگفتی که *مرا دعای نیشاپوریان بسازد* و نساخت و اگر زمین و آب و مسلمانان بغضب بستند نه زمین ماند بدو و نه اب و چندان غلام و ضیاع و اسباب و زر و سیم و نعمت که هیچ سودش نداشت و او رفت و ان قوم که مکر ساخته بودند نیز برفتند . . .(ادامه کامنت اول) https://www.instagram.com/p/CBu1_sjnfXu/?igshid=j67lgregt5tr
0 notes
Text
دیدار ظریف و سناتور آمریکایی در نیویورک
دیدار ظریف و سناتور آمریکایی در نیویورک
دیدار ظریف و سناتور آمریکایی در نیویورک پایگاه خبری المانیتور در خبری مدعی شد روز گذشته «محمد جواد ظریف» با سناتور جمهوری خواه «رند پال» دیدار کرده است.
View On WordPress
0 notes
Photo
ضمنی الیکشن؛ بلوچستان عوامی پارٹی کامیاب، بی این پی کے تحفظات کوئٹہ: بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 47 کیچ سے دہری شہریت کے باعث عبدالرؤف رند کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب میں دوبارہ کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس نشست پر بی اے پی کے اُمیدوار لالا رشید دستی نے کامیابی حاصل کی جبکہ اپوزیشن جماعت بی این پی نے اس نشست پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ کہا ہے کہ ضمنی انتخاب میں بی این پی کے اُمیدوار جمیل دستی کامیاب ہوئے لیکن ان کی جیت کو ایک منصوبے کے تحت ہار میں تبدیل کردیا گیا۔ پارٹی نے اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو جلد ہی اپنی سفارش اس حوالے سے مرتب کرکے پارٹی کو پیش کرے گی اور ان سفارش��ت کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ضمنی انتخاب سے ایک روز قبل ہی پارٹی نے مبینہ دھاندلی کی منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے تحفظات سے الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ حکام کو آگاہ کردیا تھا۔ واضح رہے کہ25 جولائی کے عام انتخابات میں اس نشست پر بلوچستان عوامی پارٹی کے میر عبدالرؤف رند کامیاب ہوئے تھے جنہیں دوہری شہریت رکھنے کے باعث نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔ بلوچستان اسمبلی کی خالی ہونے والی ایک اور نشست پی بی 26 کوئٹہ پر بھی رواں ماہ کے آخر میں ضمنی الیکشن ہونے جا رہا ہے اس کے بعد بلوچستان اسمبلی کی 65 نشستیں مکمل ہو جائیں گی۔ پی بی26 کوئٹہ کی نشست پر25 جولائی کو ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے احمد کوہزاد کامیاب ہوئے تھے جن کا قومی شناختی کارڈ چیلنج کردیا گیا تھا اور انہیں غیر ملکی قرار دیتے ہوئے نا اہل کردیا گیا تھا۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں سمیت اپوزیشن جماعتیں بھی اس نشست پر فوکس کئے بیٹھی ہیں اور جس طرح دیگر ضمنی الیکشن میں حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ٹف ٹائم مل رہا ہے اسی طرح اس نشست پر بھی کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ کوئٹہ کی صوبائی اسمبلی کی اس نشست پر حکمران جماعت کی اتحادی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت عوامی نیشنل پارٹی کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں بی این پی اور متحدہ مجلس عمل بھی پنجہ آزمائی کررہی ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ضمنی انتخابات میں اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنے کیلئے کافی ٹف ٹائم مل رہا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ بلوچستان اسمبلی میں اپنے اعداد و شمار میں اضافہ کریں تاکہ مستقبل قریب میں جام حکومت کیلئے مشکلات پیدا کی جا سکیں جبکہ بی اے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی یہ حکمت عملی ہے کہ وہ اپنی جیتی ہوئی نشستوں پر دوبارہ کامیابی حاصل کرکے اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم بنائیں۔ ان حلقوں کے مطابق اپوزیشن جماعتیں بھی اس وقت اسمبلی میں اعداد و شمار کے اعتبار سے مضبوط پوزیشن بنائے ہوئے ہیں اور حکمران جماعتوں اور اپوزیشن کے درمیان اعداد و شمار کے حساب سے بہت کم فاصلہ رہ گیا ہے۔ گو کہ تربت کے ضمنی الیکشن میں بی اے پی نے دوبارہ کامیابی حاصل کرکے اسمبلی کے اندر اپنی پوزیشن کو مستحکم بنا لیا ہے تاہم کوئٹہ کی نشست پر بی اے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ یہ نشست بھی حاصل کرلیں تاکہ ان کی پوزیشن مزید مستحکم ہوجائے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کیلئے بلوچستان اسمبلی میں موجودہ صورتحال انتہائی نازک ہے اور انہیں اب پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا اگر انکی جانب سے ذرا سی بھی غلطی ہوئی یا کسی معاملے میں اتحادیوں کو ناراض کیا تو معاملہ اُلٹ بھی ہو سکتا ہے؟ کیونکہ اپوزیشن جماعتیں تمام صورتحال کا بغور جائزہ لیتے ہوئے گھات لگائے بیٹھی ہیں اور وہ وزیراعلیٰ جام کمال کی معمولی سی غلطی کی منتظر ہیں جن پر وہ کھیل سکیں۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال نہ صرف اتحادیوں کو یکجا رکھیں بلکہ انہیں اپنی جماعت کے اندر بھی معاملات کو سنبھالنا ہوگا اور انہیں وکٹ کے دونوں طرف پر اعتماد ہو کر کھیلنا ہوگا۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو اور انکے بعض دیگر ساتھی ابھی تک ناراض دکھائی دے رہے ہیں جس کی واضح مثال گذشتہ روز اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کی بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل سے ملاقات ہے۔ سیاسی حلقے اس ملاقات کو بھی بہت اہمیت دے رہے ہیں بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر معاملات ابھی تک سلجھے نہیں جبکہ وقتی طور پر سب اچھا ہے کی رپورٹ تو دی جا رہی ہے لیکن اندرون خانہ رابطوں اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ’’محبتیں‘‘ بڑھنے کا سلسلہ بھی تواتر سے جاری ہے۔ اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی کی بڑی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند بھی شروع دن سے وزیراعلیٰ جام کمال سے کھنچے کھنچے سے ہیں اور حال ہی میں ان کے خلاف جو کیسز لگے ہوئے تھے جن میں ان کی کامیابی کو چیلنج کیا گیا تھا ان کیسز کے فیصلے بھی ان کے حق میں آگئے ہیں ان فیصلوں کے آنے کے بعد وہ بھی سیاسی طور پر سرگرم دکھائی دے رہے ہیں اور مختلف سیاسی شخصیات اور اراکین اسمبلی سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی سعید احمد ہاشمی نے گذشتہ دنوں وفاقی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کی جانب سے سی پیک مغربی روٹ کے حوالے سے دیئے گئے بیان پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے قوم پرست جماعتوں کی طرز پر لب و لہجہ استعمال کرکے اپنی جماعت کی سیاسی پوزیشن کو بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے واضح کیا ہے اور یہ بات باور کرائی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی بھی صوبے کے حقوق کے حصول کیلئے دیگر قوم پرست جماعتوں سے پیچھے نہیں ہے صوبے کے حقوق اور عوام کی فلاح و بہبود کے جس مقصد کیلئے اس نئی جماعت کی بنیاد رکھی گئی تھی وہ اس سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں۔اسی طرح وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے بھی یہ موقف سامنے آیا ہے کہ سی پیک میں بلوچستان کیلئے سڑکوں، ڈیمز، انڈسٹریل پارکس، پانی کے بڑے منصوبے، زراعت اور تعلیم کے منصوبے شامل نہ کئے گئے تو موجودہ حکومت وفاق کے سامنے ڈٹ جائے گی ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گذشتہ پانچ سالوں میں سی پیک جیسے بڑے منصوبے میں بلوچستان کے صرف دو منصوبے شامل کئے گئے جن میں گوادر بندر گاہ اور حبکو کول پاور پراجیکٹ سرفہرست ہیں گو کہ ان دونوں منصوبوں کا عام آدمی کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں ملے گا لیکن ان منصوبوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی کی وفاقی حکومتوں نے غلطیاں کیں اور ہماری سابقہ صوبائی حکومتوں نے انکی ہاں میں ہاں ملائی مگر اب ایسا نہیں ہوگا سی پیک میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بڑے منصوبے شامل کرنا ناگزیر ہے اور وہ ان معاملات کو پلاننگ کمیشن کے سامنے بھی رکھیں گے۔ وزیراعلیٰ جام کمال سی پیک کی جوائنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی جس کا اگلے ماہ چین میں اجلاس ہونے جا رہا ہے میں شرکت کیلئے اسلام آباد کی پیش رفت دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور اس حوالے سے آئندہ چند دنوں میں وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں گے۔ سیاسی تجزیہ نگار وزیراعلیٰ اور ان کی جماعت کے اس موقف کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔
0 notes
Photo
ایم پی اے ہاسٹل پر سابقہ سپیکرز ،وزراء اور سینیٹرز کاقبضہ،حیرت انگیز انکشافات کوئٹہ(آن لائن) پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر سرادر یار محمد رند سمیت دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے پارلیمانی لیڈروں کو اب تک کمرے الاٹ نہیں کئے بلوچستان اسمبلی میں متصل ایم پی اے ہاسٹل میں پارلیمانی لیڈروں اراکین اسمبلی کو کمرے الاٹ نہیں کئے گئے بلوچستان اسمبلی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر کو ایم پی اے ہاسٹل میں ایک سوئٹ روم الاٹ کرنے کی اجازت ہے بلکہ ایم پی اے ہاسٹل پر سابقہ اسپیکر سابقہ وزراء اور سابقہ سینیٹرز کا کمروں پر قبضہ جمع رکھے ہونے کا انکشاف ذرائع کے مطابق سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی سید مطیع اللہ آغا گذشتہ 10سال سے ایم پی اے ہاسٹل میں کمرے پر قبضہ کیا ہو اہے جس کو کئی بار نوٹس جاری کئے گئے مگر اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اسی طرح سابق سپیکر جمال شاہ کاکڑ نے بھی ایک کمرہ الاٹ ہے مگر اب تک اسے خالی نہیں کیا جبکہ سابق سینیٹر مرحوم سردار اعظم موسیٰ خیل کے نام پر بھی ایک کمرہ الاٹ ہے مگر اب تک اسے خالی نہیں کیا گیا پشتون نخو ا میپ کے صوبائی صدر و سینیٹر عثمان کاکڑ کے نام پر بھی کمرہ الاٹ ہے مگر اب تک خالی نہیں کیا اور ایم پی اے ہاسٹل کی انتظامیہ بھی بے بس نظر آرہی ہے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سر اختر مینگل کے نام پر بھی ایک کمرہ الاٹ ہے جس کو اب تک خالی نہیں کرایا جا سکا اور اسی طرح سابق رکن قومی اسمبلی رؤف مینگل سابق رکن قومی اسمبلی عارفہ صدیق ،سابقہ نگران وزیر حسین بخش بنگلزئی ،سمیت کئی اعلیٰ سرکاری افسران نے کمرے الاٹ کئے ہیں مگر کئی سالوں بعد بھی خالی نہیں کرائے جا سکے ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ بلوچستان اسمبلی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر کو ایم پی اے ہاسٹل میں ایک سوئٹ روم الاٹ کرنے کی اجازت ہے مگر نو سوئٹ رومز ہیں اب تک کسی بھی پارلیمانی لیڈر کو روم الاٹ نہیں کیا گیا تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی اسپیکرکو بھی رہائش میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ The post ایم پی اے ہاسٹل پر سابقہ سپیکرز ،وزراء اور سینیٹرز کاقبضہ،حیرت انگیز انکشافات appeared first on Zeropoint. Get More News
0 notes