#لفظ بولتے ہیں
Explore tagged Tumblr posts
Text
الســـــلام علــــــیکم ورحمتہ اللہ وبركاتہ
"وہ رب تمہ��ری مرضی کے مطابق تمہاری زندگی کو بدل دے گا بس صبر کرنا اور یقین کامل رکھنا وہ تمہاری کہانی مکمل کرے گا اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں...♥️
صــــــبح بخــــــیر
#اردو#اردو مزاح#کاپی پیسٹ#اردو پوسٹ#کاپی#urdu#inspiration#life quotes#urdulovers#منقول#اردوشاعری#اردوادب#اقتباسات#لفظ بولتے ہیں
8 notes
·
View notes
Photo
اللہ کے ناموں یا صفات کا انکار کفر ہے سوال ۳۸: اگر اللہ تعالیٰ کے اسماء یا صفات میں سے کسی چیز کا انکار کر دیا جائے، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اس انکار کی دو قسمیں ہیں: انکار تکذیب: یہ بلا شک و شبہ کفر ہے۔ اگر کوئی شخص کتاب وسنت میں ثابت شدہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی اسم یا صفات میں سے کسی صفت کا انکار کر دے، مثلاً: وہ یہ کہے کہ اللہ کا ہاتھ نہیں ہے، تو تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ایسا شخص کافر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی کسی خبر کی تکذیب کرنا ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے۔ انکار تاویل: یعنی انکار تو نہ کرے مگر تاویل سے کام لے۔ اس کی درج ذیل دو قسمیں ہیں: ٭ اس تاویل کی عربی زبان میں گنجائش ہو تو یہ موجب کفر نہیں ہے۔ ٭ عربی زبان میں اس تاویل کی گنجائش نہ ہو تو یہ موجب کفر ہے۔ کیونکہ جب زبان میں اس کی گنجائش نہ تھی تو یہ تکذیب ہوگئی جیسے کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کا نہ تو حقیقت میں کوئی ہاتھ ہے اور نہ یہ نعمت یا قوت کے معنی میں ہے تو یہ کافر ہے کیونکہ اس نے مطلق نفی کر دی ہے اور یہ حقیقتاً تکذیب کرنے والا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص ارشاد باری تعالیٰ: ﴿بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ﴾ (المائدۃ: ۶۴) ’’بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔‘‘ کے بارے میں یہ کہے کہ دونوں ہاتھوں سے مراد آسمان اور زمین ہیں تو وہ بھی کافر ہے کیونکہ ازروئے لغت یہ معنی صحیح نہیں ہیں اور نہ شرعی حقیقت ہی کا یہ تقاضا ہے، لہٰذا یہ معنی بیان کرنے والا بھی منکر اور مکذب ہی قرار پائے گا۔ ہاں اگر وہ یہ کہے کہ ﴿یَدٌ﴾ سے مراد نعمت یا قوت ہے، تو وہ کافر نہیں ہوگا کیونکہ ﴿یَدٌ ﴾ کا لفظ عربی زبان میں نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے: وَکَمْ لِظَلَام اللَّیْلِ عِنْدَکَ مِنْ یَدٍ تُحَدِّثُ اَنَّ الْمَانَوِیَۃَ تَکْذِبُ ’’رات کی تاریکی کے تم پر کتنے احسانات ہیں، جو یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’مانویہ‘‘ جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ اس شعر میں یَدٌ کا لفظ نعمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ مانویہ فرقے کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ظلمت اور تاریکی سے خیر پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے شر ہی جنم لیتا ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۸۹، ۹۰ ) #FAI00035 ID: FAI00035 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
خلع اور اس کے ضروری احکام/🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی - Siasat Daily
خلع اور اس کے ضروری احکام/🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی – Siasat Daily
اس وقت خلع کا موضوع قانون دانوں، میڈیا کے لوگوں اور بہت سے عوام اور دانشوروں کے درمیان موضوع بحث بنا ہوا ہے، بعض لوگوں کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ جیسے مرد اپنی مرضی سے بیوی کو طلاق دے سکتا ہے، اسی طرح بیوی بھی اپنی مرضی سے یک طرفہ طور پر خلع دے سکتی ہے، اس سلسلے میں وضاحت کے طور پر چند سطریں لکھی جارہی ہیں:عربی زبان میں ’’ خلع‘‘ کے معنی اُتارنے کے ہیں، عرب کپڑے اُتارنے کے لئے ’’ خلع‘‘ کا لفظ بولتے…
View On WordPress
0 notes
Text
مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عُجلتوں میں، لکھا ہُوا
کہیں،، رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو،،،، حُسنِ یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو،،،،،، حاکموں کو بُرا بھلا
تمہیں،،، فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیرِ شہر کہے تُمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو
نہ امیرِ شہر کا زکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو
کہیں تار تار ہوں،، عصمتیں
میرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا،،،،، نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہُوئے
میرے جاں نثار،،،،، گلی گلی
ہیں میرے اشارے کے مُنتظر
میرے عسکری میرے لشکری
جو تُمہارے جیسے جوان تھے
کبھی،،، میرے آگے رُکے نہیں
انہیں اس جہاں سے اُٹھا دِیا
وہ جو میرے آگے جُھکے نہیں
جنہیں،، مال و جان عزیز تھے
وہ تو میرے ڈر سے پِگھل گئے
د گئے
میرے جاں نثاروں کو حُکم ہے
کہ،،،،،، گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیرِ شہر کا حُکم ہے
بِنا اعتراض،، وہ مان لیں
جو میرے مفاد کے حق میں ہیں
وہی،،،،،،، عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں
سبھی فیصلے،،،،،،، وہ ہُوا کریں
جنہیں مجھ کچھ نہیں واسطہ
انہیں،،،، اپنے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں،،،،، گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
اُنہیں،،،، زر کا سکہ اُچھال دو
جنہیں،،،،، اپنے درش عزیز ہوں
اُنہیں کال کوٹھڑی میں ڈال دو
جو میرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے، اسے مان لو
جو میرا امام،،،،،،، بیاں کرے
وہی دین ہے ، سبھی جان لو
جو غریب ہیں میرے شہر میں
انہیں بُھوک پیاس کی مار دو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے،، زمین میں اتار دو
جو میرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں، خُوب مال و منال دو
جو، میرے خلاف ہیں بولتے
انہیں، نوکری سےنکال دو
جو ہیں بے خطاء وہی در بدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے
جو گُناہ کریں وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے
یہ عجیب رُت ہے بہار کی
کہ،، ہر ایک زیرِ عتاب ہے
"کہیں پر شکستہ ہے فاختہ
کہیں،،، زخم زخم گلاب ہے"
میرے دشمنوں کو، جواب ہے
نہیں غاصبوں پہ شفیق میں
میرے حاکموں کو خبر کرو
نہیں،، آمروں کا رفیق میں
مجھے زندگی کی ہوس نہیں
مجھے،، خوفِ مرگ نہیں زرا
میرا حرف حرف لہو لہو
میرا،،، لفظ لفظ ہے آبلہ
3 notes
·
View notes
Text
ڈاکٹر صفدر محمود : پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ
آپ ذہنی طور پر کتنے ہی تیار کیوں نہ ہوں کسی عزیز دوست یا پرانے رفیق کی رحلت کی خبر آپ کو ایک دفعہ ہلا ضرور دیتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ڈاکٹر صفدر محمود کے ضمن میں ہوا کہ اگرچہ مرحوم اور اُن کی تحریروں کے ساتھ تعارف کی عمر تو نصف صدی سے بھی کچھ زیادہ تھی مگر گزشتہ تین دہائیوں میں یہ رشتہ دوستی کی شکل میں ڈھل چکا تھا۔ اُن کا مضمون پولیٹیکل سائنس اور پیشہ تدریس اور بیوروکریسی رہا لیکن ادب سے تعلق اور تاریخِ پاکستان سے گہرا شغف ہمارے درمیان ایک ایسے پُل کی شکل اختیار کر گیا کہ صورتِ حال کچھ کچھ ’’خبر تحیّر عشق سن‘‘ والی ہو گئی اور اُن سے محبت اور اپنائیت کا رشتہ ایک اہم اثاثے کی شکل اختیار کرتا چلا گیا ۔ اُن کا آبائی تعلق کھاریاں کے ایک نواحی قصبے ’’ڈنگہ‘‘ سے تھا۔ پنجابی میں ڈنگا کا لفظ ٹیڑھے کی معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے‘ اس لیے تفننِ طبع کے طور پر احباب اُن سے اکثر یہ سوال بھی کرتے تھے کہ آپ جیسے شریف اور سیدھے آدمی کا ’’ڈنگہ‘‘ میں پیدا کیا جانا اپنی جگہ پر صنعتِ تضاد کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے وہ اُن منتخب لوگوں میں سے تھے جنہیں اپنی علمیت جھاڑنے کا سرے سے کوئی شوق نہیں ہوتا مگر وہ اُن کی تحریر و تقریر سے ہمہ وقت اپنی وسعت اور گہرائی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔
انھیں بجا طور پر یہ گِلہ تھا کہ شعر و ادب کی درمیانے درجے کی کتابوں کو اول نمبر کے علم و تحقیق کی حامل کتابوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور سنجیدگی سے تنقید و تحقیق کرنے والوں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ صحیح معنوں میں حقدار ہوتے ہیں اور دیگر ممالک کے برعکس قومی اعزازات کی تقسیم کے وقت بھی انھیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، پاکستان کی تاریخ اور تحریک پر مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے دیکھا جائے تو یقیناً ان کا کام اعلیٰ ترین اعزازات کا مستحق تھا ، میں نے انھیں زندگی بھر بہت کم بولتے اور بحث کرتے سنا ہے مگر اُن کی ہر کتاب اس بات کی شاہد ہے کہ خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے تب نظر آتی ہے اک مصرعہٗ تر کی صُورت تاریخ تو ان کا مضمون تھا ہی مگر وہ ادب کے بہت سنجیدہ اور عمدہ قاری تھے اُن کی اپنی نثر بھی بہت رواں دواں اور ہموار ہوا کرتی تھی اور وہ اُن چند محققین میں سے تھے جن کے اخباری کالم بھی بہت شوق اورتوجہ سے پڑھے جاتے تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد چند سال قبل وہ بھی ڈیفنس کے اُسی سیکٹر میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوئے جہاں میں پہلے سے مقیم تھا لیکن اُن سے زیادہ تر ملاقات جمعے کی نماز کے وقت مسجد میں ہی ہوا کرتی تھی۔
ایک دن اچانک خبر ملی کہ وہ اپنی بیگم کے ہمراہ امریکا اپنے بچوں کے پاس جا رہے ہیں کچھ عرصہ بعد میری بیگم نے جو اُن کی بیگم کی سہیلی بھی ہیں بتایا کہ وہ بغرضِ علاج امریکا ہی میں رک گئے ہیں جب کہ ان کی بیگم واپس آگئی ہیں، اس دوران میں یہی سمجھتا رہا کہ ان کی اس علالت کا تعلق عمر سے ہے اور جلد اُن سے ملاقات ہو جائے گی پھر امریکا سے کسی دوست نے بتایا کہ نہ صرف وہ بہت زیادہ بیمار ہیں بلکہ ان کی یادداشت بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے جس سے رنج میں مزید اضافہ ہوا، چند ماہ قبل اِسی حالت میں اُن کو واپس وطن لایا گیا جہاں وہ اسی ذہنی گمشدگی کے دوران خاموشی سے رخصت ہو گئے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ جس شخص کی یادداشت اپنی جگہ تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہو اُسے اپنا نام تک یاد نہ رہے۔ میرے نزدیک ڈاکٹر صفدر محمود ہمارے دور کے ایک بہت نامور تاریخ دان، مصنف اور تجزیہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت مہذب، قابلِ فخر اور قیمتی انسان بھی تھے جن کی رحلت ہمارے معاشرے کو غریب تر اور مجھے ایک پیارے دوست سے محروم کر گئی ہے ۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران صحافی عبدالرحیم یوسف زئی، چلڈرن کمپلیکس کے ملازمت کے زمانے کی رفیق ڈاکٹر فائزہ اصغر اور اردو اور پشتو کی مشہور ادیبہ زیتون بانو کے علاوہ اور ایک اور بہت اچھے ہم عصر لکھاری طارق اسماعیل ساگر بھی داغِ مفارقت دے گئے ہیں، رب کریم ان سب کی روحوں کو اپنی امان میں رکھے اور انھیں بلند درجات عطا فرمائے۔ طارق بھائی سے میری ذاتی اور براہ راست ملاقات تو زیادہ نہیں تھی مگر نہ صرف میں اُن کے کام سے ہمیشہ آگاہ رہنے کی کوشش کرتا تھا بلکہ برادرم شہزاد رفیق کی فلم ’’سلاخیں‘‘ کے مکالمے لکھنے کے دوران اُن سے ایک غائبانہ سی قربت بھی رہی، اُن کی رحلت پر بہت سے احباب نے فیس بک وغیرہ پر تعزیت کے پھول بھیجے ہیں مگر مجھے سب سے زیادہ شہزاد رفیق ہی کی ایک مختصر تحریر نے متاثر کیا ہے جس کا عنوان انھوں نے ’’خشک پتوں کی طرح لوگ اُڑتے جاتے ہیں‘‘ رکھا ہے وہ لکھتے ہیں۔
الوداع طارق اسماعیل ساگر صاحب الوداع، آپ کا ناول ’’میں ایک جاسوس تھا‘‘ ایف ایس سی میں تھا جب میں نے پڑھا آپ سے تعارف و تعلق کا سبب یہ ناول تھا اور محبت شفقت اور احترام کا رشتہ قائم ہوا جس پر مجھے ناز ہے آپ ایک خاموش مجاہد تھے، آپ کے جسم پر پڑے ہوئے زخموں کے نشانات کی پوری قوم مقروض ہے اور رہے گی۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کر جنرل تک سب نے کاکول اکیڈمی جانے سے پہلے آپ کے ناول ضرور پڑھے ہوں گے مرحوم کی خدمات حساّس اداروں سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میری فلم ’’سلاخیں‘‘ کی کہانی اسکرین پلے طارق صاحب کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے اور ’’سلیوٹ ‘‘ کے ریسرچ ورک کا کریڈٹ بھی آپ کا ہے۔ بیماری سے پہلے ایک اسکرپٹ پر کام کر رہے تھے شائد قدرت کو منظور نہ تھا۔ سر آپ کو سلیوٹ۔‘‘ آخر میں ایک سلیوٹ ڈاکٹرصفدر محمود کے لیے بھی کہ میرے نزدیک تحریک و تاریخ پاکستان کا کوئی مطالعہ اُن کی کتابوں کو پڑھے بغیر ممکن اور مکمل نہیں ہو سکتا ایک شعر جو ان کی زندگی میں انھیں سنانے کا موقع نہ مل سکا اُسی پر اسی تعزیتی کالم کا اختتام کرتا ہوں یقیناً وہ اسے سن کر اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے کہ اُن کے داد دینے کا طریقہ یہی تھا۔
سرِ عام کھول کے رکھ دیے جو بھی واقعے تھے چُھپے ہوئے نہیں وقت سا کوئی صاف گو بڑی بدلحاظ ہے ہسٹری
امجد اسلام امجد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes
·
View notes
Text
مجھ کو گِلہ ہے کہ
تو نے مجھ کو وہ لفظ بخشے
جو بولتے ہیں تو ایک دنیا کے خواب بھی اُن میں بولتے ہیں
یہ سانس لیں تو زمانہ ان میں دلوں کی دھڑکن کو ڈھونڈتا ہے
مگر یہ کتنا ستم ہے خالق.....!
جو میرے لفظوں میں اپنے خوابوں کو دیکھتے ہیں
وہ لوگ مجھ سے گریزپا ہیں..
میں چاہتا تھا کہ کوئی ہوتا
عظیم خالق ......! کوئی تو ہوتا
جو میری خاطر اُداس جاڑے کی سرد راتوں میں
رَتجگوں کے عذاب سہتا
جو میرے حصے کے زخم اپنے جگر پہ لیتا
جو میری آنکھوں میں اشک پاتا
تو خون روتا
جدائی مجھ کو اُداس کرتی
تو وہ بھی پہروں اُداس رہتا
1 note
·
View note
Text
مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عُجلتوں میں، لکھا ہُوا
کہیں رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو حُسنِ یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو حاکموں کو بُرا بھلا
تمہیں فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیرِشہر کہے تمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو
نہ امیرِ شہر کا زکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو
کہیں تار تار ہوں عصمتیں
میرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہوئے
میرے جاں نثار گلی گلی
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
اُنہیں زر کا سکہ اُچھال دو
جنہیں اپنے درش عزیز ہوں
اُنہیں کال کوٹھڑی میں ڈال دو
جو میرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے، اسے مان لو
جو میرا امام بیاں کرے
وہی دین ہے ، سبھی جان لو
جو غریب ہیں میرے شہر میں
انہیں بُھوک پیاس کی مار دو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے زمین میں اتار دو
جو میرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں خُوب مال و منال دو
جو میرے خلاف ہیں بولتے
انہیں نوکری سےنکال دو
جو ہیں بے خطا وہی در بدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے
جو گُناہ کریں وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے
یہ عجیب رُت ہے بہار کی
کہ ہر ایک زیرِ عتاب ہے
کہیں پر شکستہ ہے فاختہ
کہیں زخم زخم گلاب ہے
مرے دشمنوں کو جواب ہے
نہیں غاصبوں پہ شفیق مَیں
مرے حاکموں کو خبر کرو
نہیں آمروں کا رفیق مَیں
مجھے زندگی کی ہوس نہیں
مجھے خوفِ مرگ نہیں ذرا
مرا حرف حرف، لہو لہو
مرا لفظ لفظ ہے آبلہ
1 note
·
View note
Text
اردو ميں جسے ہم “بيوی ” بولتے هيں قرآن مجيد ميں اس کے لئے تین لفظ استعمال ہوئے ہیں
1- إمراءة
2- زوجة
3- صاحبة
إمراءة :
امراءة سے مراد ايسی بيوی جس سے جسمانی تعلق تو ہو مگر ذہنی تعلق نہ ہو
زوجة :
ايسی بيوی جس سے ��ہنی اور جسمانی دونوں تعلقات ہوں يعنی ذهنی اور جسمانی دونوں طرح ہم آہنگی ہو
صاحبة :
ايسی بيوی جس سے نه جسمانی تعلق ہو نہ ذہنی تعلق ہو
اب ذرا قرآن مجيد كی آيات پر غور كيجئے :
1- امراءة
حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام كی بيوياں مسلمان نہیں ہوئی تھيں تو قرآن مجيد ميں ان كو
" امراءة نوح " اور " امراءة لوط " كہہ كر پكارا هے،
اسی طرح فرعون كی بيوی مسلمان هو گئی تھی تو قرآن نے اسكو بھی
" وامراءة فرعون" کہ كر پكارا هے
(ملاحظه كريں سورة التحريم كے آخری آيات ميں)
یہاں پر جسمانی تعلق تو تھا اس لئے کہ بيوياں تهيں ليكن ذهنی ہم آہنگی نہیں تھی اس لئے کہ مذہب مختلف تھا
2- زوجة :
جہاں جسمانی اور ذہنی پوری طرح ہم آہنگی ہو وہاں بولا گيا جيسے
( ﻭﻗﻠﻨﺎ ﻳﺎ آﺩﻡ ﺍﺳﻜﻦ ﺃﻧﺖ ﻭ ﺯﻭﺟﻚ ﺍﻟﺠﻨﺔ )
اور نبی صلی اللّٰہ عليه و سلم كے بارے فرمايا
( يأيها النبي قل لأزواجك .... )
شايد اللّٰہ تعالٰی بتانا چاہتا ہے کہ ان نبيوں كا اپنی بيويوں كے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا
ایک عجيب بات هے زكريا علیہ السلام كے بارے کہ جب أولاد نہیں تھی تو بولا
( و امراتي عاقرا .... )
اور جب أولاد مل گئی تو بولا
( ووه��نا له يحی و أصلحنا له زوجه .... )
اس نكته كو اهل عقل سمجھ سكتے هيں
اسی طرح ابولهب كو رسوا كيا يہ بول کر
( وامرءته حمالة الحطب )
كہ اس کا بيوی كے ساتھ بھی كوئی اچھا تعلق نہیں تھا
3- صاحبة :
جہاں پر كوئی کسی قسم کا جسمانی يا ذہنی تعلق نہ ہو
اللّٰہ تعالٰی نے اپنی ذات كو جب بيوی سے پاک کہا تو لفظ "صاحبة" بولا اس لئے كه یہاں كوئی جسمانی يا ذہنی كوئی تعلق نہیں ہے
(ﺃﻧﻰ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻪ ﻭﻟﺪ ﻭﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﻟﻪ ﺻﺎﺣﺒﺔ)
اسی طرح ميدان حشر ميں بيوی سے كوئی جسمانی يا ذہنی كسی طرح كا كوئی تعلق نہیں ہو گا تو فرمايا
( ﻳﻮﻡ ﻳﻔﺮ ﺍﻟﻤﺮﺀ ﻣﻦ ﺃﺧﻴﻪ ﻭﺃﻣﻪ وﺃﺑﻴﻪ ﻭﺻﺎﺣﺒﺘﻪ ﻭﺑﻨﻴﻪ )
كيونکہ وہاں صرف اپنی فكر لگی ہو گی اس لئے "صاحبته" بولا
اردو ميں:
امراءتي , زوجتي , صاحبتي سب كا ترجمة " بيوی" ہی كرنا پڑے گا
ليكن ميرے رب كے كلام پر قربان جائيں جس كے ہر لفظ كے استعمال ميں كوئی نہ كوئی حكمت پنہاں ہے
اور رب تعالى نے جب دعا سکھائی تو ان الفاظ ميں فرمايا
( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ
أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاما )
"وأزواجنا"
زوجہ سے استعمال فرمايا اس لئے كه آنكھوں کی ٹھنڈک تبھی ہو سکتی ہے جب جسمانی كے ساتھ ذہنی بھی ھم آہنگی ھو
4 notes
·
View notes
Text
چلو زندگی کو گنتے ہیں!
''بولتے ہاتھ ۔ انکل سرگم۔ آخری چٹان۔ تنہائیاں۔ صبح کی نشریات۔ چاچا جی۔ ففٹی ففٹی۔ خواجہ اینڈ سن۔ شب دیگ۔ سورج کے ساتھ ساتھ۔ وارث۔ من چلے کا سودا۔ توتا کہانی۔ جانگلوس۔ ایک محبت سو افسانے۔ ویلے دی گل۔ فرمان الٰہی۔ بھول نہ جانا پھر پپا۔ کیوی ایک پرندہ ہے۔ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ بناکا گیت مالا۔ ایگل اور ٹی ڈی کے کیسٹ۔ نیشنل کا ٹیپ ریکارڈر۔ دس روپے کی برف۔ پانی سے بھرا واٹر کولر۔ وی سی آر۔ وی سی پی ۔ گھوڑے کی ٹاپ۔ فجر کے وقت گلی میں سے گزرتے کسی بابے کے درود شریف پڑھنے کی آواز۔ روشن دان۔ ہینڈ پمپ۔ قلم دوات۔ ہولڈر۔ جی کی نب۔ فلاوری انگلش۔ تختی۔ گاچی۔ بستہ۔ چھٹیوں کا کام ۔ لکیروں والا دستہ۔ دستے پر اخبار چڑھانا۔ مارکر۔ حاشیہ۔ خوشخطی۔ رف کاپی۔ رف عمل۔ سلیٹ۔ سلیٹی۔ کریم کی خالی شیشیاں بھرنے والا۔ گلیوں میں چارپائیاں۔ لکن میٹی۔ چور سپاہی۔ اڈا کھڈا۔ شٹاپو۔ باندر کلا۔ کوکلا چھپاکی۔ یسو پنجو‘ چڑی اُڑی کاں اُڑا۔ صراحی۔ چائے کی پیالیاں۔ سیڑھیوں کے نیچے باورچی خانہ۔ بتیوں والا چولہا۔ ٹارزن۔ عمرو عیار۔ زنبیل۔ افراسیاب۔ چھڑی اور سائیکل کا ٹائر۔ دکان دار سے چونگا۔ نیاز بٹنا اور آواز آنا ''میرے بھائی کا بھی حصہ دے دیں۔‘‘
مرونڈا۔ گچک۔ سوکھا دودھ۔ ڈیکو مکھن ٹافی۔ لچھے۔ ون ٹین کا کیمرہ۔ مائی کا تنور۔ کوئلوں والی استری۔ ہمسائے کے ٹیلی فون کا پی پی نمبر۔ گولی والی بوتل۔ جمعرات کی آدھی چھٹی۔ ٹٹوریل گروپ۔ بزمِ ادب۔ ششماہی امتحانات۔ پراگریس رپورٹ۔ عرس کے میلے میں دھمال ڈالتا سائیں۔ ٹیڈی پیسہ۔ چونّی۔ بارہ آنے۔ پُتلی تماشا۔ گراری والا چاقو۔ سیمنٹ کی ٹینکی۔ شام کے وقت گلی میں پائپ سے پانی کا چھڑکائو۔ دروازے کی کنڈی۔ دیسی تالا۔ ہاون دستہ۔ دادی کی کہانیاں۔ اُڑن کھٹولے کے خواب۔ ڈھیلی جرابوں کے اوپر ربڑ چڑھانا۔ لوہے کی بالٹی۔ جست کے برتن۔ بھانڈے قلعی کرا لو۔ بندر کا تماشا۔ بچے کی ��یدائش پر خواجہ سرائوں کا رقص۔ گلی میں پکتی دیگ۔ چھت کی نیند۔ تاروں بھرا آسمان۔ دوپٹے کے پلو میں بندھے پیسے۔ انٹینا۔ چھت پر مٹی کا لیپ۔ شہتیر۔ بالے۔ پھونکنی۔ تندوری۔ چڑیوں کا آلنا۔ مسہری۔ شوخ رنگوں کے پائے والا پلنگ۔ بان کی چارپائی ۔ کھرا۔ نالی۔ پلاسٹک کی ٹونٹی۔ کپڑے دھونے والا ڈنڈا۔ مسی روٹی۔ پنجیری۔ پِنّیاں۔ بالو شاہی۔ دو ٹیوٹر والا ڈیک۔ دستر خوان۔ صبح کا مشترکہ ناشتہ۔ رات کا مشترکہ کھانا۔ دانتوں پر ملنے والا منجن۔ سٹیل کے گلاس۔ سٹیل کی پلیٹیں۔ سٹیل کے جگ۔ موڑھے۔ سائیکل کی قینچی۔ سکائی لیب کی خبریں۔ سیلاب کا خوف۔ ماں کی آغوش۔ باپ کا ڈر۔ دھوتی۔ سلوکا۔ مشترکہ بیڈ روم۔ اینٹوں والا فرش۔ بیٹھک۔ اُستادوں کی مار۔ مولا بخش۔ کاربن پیپر۔ سوجی کی مٹھائی۔ ڈیمو کے لڑنے پر تالا رگڑنا۔ ڈیمو کے ساتھ دھاگا باندھ کر اڑانا۔
دو غباروں کے درمیان ڈوری باندھ کر 'واکی ٹاکی‘ بنانا۔ پانی سے بھری بالٹی میں اُلٹا گلاس ڈال کر بلبلے نکالنا۔ صابن سے سر دھونا۔ نانی جان کے لیے پانی کی بوتل میں نمازیوں سے پھونکیں مروا کے لانا۔ سر درد کے لیے مولوی صاحب سے دم کروانا۔ بوتل کے سٹرا کو پائپ کہنا۔ آدھی رات کو ڈرائونے قصے سننا۔ رات دس بجے کے بعد سڑکوں کا سنسان ہو جانا۔ خالی کمرے میں کسی بابے کا گمان ہونا۔ بچی کھچی روٹیوں کے ٹکڑے کباڑیے کو بیچ دینا۔ مقدس عبارت والے اوراق چوم کر کسی دیوار کی درز میں پھنسا دینا۔ بیلٹ کے بغیر پینٹ پہننا اور محلے داروں سے شرماتے پھرنا۔ کُنڈلوں والے بال۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے قہقہے۔ سکول جاتے ہوئے بس کی چھت پر پڑے ٹائر میں بیٹھ کر سفر کرنا۔ گلابی رنگ کا سٹوڈنٹ کارڈ جیب میں رکھنا۔ کڑھائی والا رومال۔ خوش آمدید والے تکیے۔ ہاتھوں سے گھولی ہوئی مہندی۔ رنگین آنچلوں کی خوشبو۔ بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کرنے کا فیشن۔ سُرمے کی لکیر خوبصورتی کی علامت۔
پسینے بھری قمیص اتار کر چلتے ہوئے پیڈسٹل فین پر ڈال دینا۔ فیوز بلب کو ہلا کر اُس کی تار پھر سے جوڑ دینا۔ بجلی کے میٹر گھروں کے اندر۔ بجلی کا سانپ کی طرح لمبا بل آنا۔ سنیمائوں کے پوسٹر پر نظریں جم جانا۔ سائیکل روک کر مجمع باز کی گفتگو سننا۔ صاف کپڑوں کے ساتھ جیب میں صاف رومال بھی رکھنا۔ قمیص کی جیب میں پین لٹکانا۔ بٹوے میں چھوٹی سی ٹیلی فون ڈائری رکھنا جس میں A سے Z تک سے شروع ہونے والے ناموں کے الگ خانے ہوتے تھے۔ کسی پرانے سال کی ڈائری میں اقوال زریں‘ نعتیں اور اشعار لکھنا۔ ٹی وی کے اوپر خوبصورت غلاف چڑھائے رکھنا۔ کسی کے تالا لگے ٹیلی فون کے کریڈل سے ٹک ٹک کر کے کال ملانے کی کوشش کرنا۔
عید میلاد النبیﷺ پر چراغ جلانا۔ محرم میں حلیم بانٹنا۔ سبیل سے میٹھا پانی پینا۔ باراتوں پر سکے لوٹنا۔ دولہا کا منہ پر رومال رکھنا۔ دلہن کا دوسرے شہر سے بارات کے ساتھ بس میں آتے ہوئے راستے میں دل خراب ہو جانا۔ سردیوں میں اُبلے ہوئے ایک انڈے کو بھی پورا مزا لے کر کھانا۔ محلے میں کسی کی وفات پر تدفین تک ساتھ رہنا۔ مسجد کے مولوی صاحب کے لیے گھر میں الگ سے سالن رکھنا۔ ٹی وی ڈرامے میں کسی المناک منظر پر خود بھی رو پڑنا۔ فلم دیکھتے ہوئے ہیرو کی کامیابی کے لیے صدق دِل سے دُعا کرنا۔ لڑائی میں گالی دے کر بھاگ جانا۔ بارش میں ایک دوسرے پر گلی کے پانی سے چھینٹے اڑانا۔ سونے سے پہلے تین دفعہ آیت الکرسی پڑھ کر چاروں کونوں میں پھونک مارنا۔
مائوں کا گھر کی پیٹی میں چپکے چپکے بیٹیوں کا جہیز اکٹھا کرنا۔ ایک پائو گوشت کے شوربے سے پورے گھر کا خوشی خوشی کھانا کھانا اور شکر الحمدللہ کہہ کر سو جانا۔ مہمانوں کی آمد پر خصوصی اہتمام کرنا اور محلے والوں کا خصوصی طور پر کہنا کہ ''مہمان نوں ساڈے ول وی لے کے آنا‘‘۔ بسنت کے دنوں میں چھت پر ڈور لگانا‘ مانجھا لگانا۔ بازار سے پنے‘ گچھے اور چرخیاں خریدنا۔ گڈیاں لوٹنا‘ ڈوریں اکٹھی کرنا۔ چارپائی پر بیٹھ کر ٹوٹا ہوا شیشہ سامنے رکھ کر چہرے پر صابن لگا کر شیو کرنا۔ صبح کام پر نکلنا تو مائوں کی دعائوں کی آوازیں گلی کی نکڑ تک سنائی دینا۔ جسمانی تھکاوٹ کی صورت میں دودھ میں ہلدی ڈال کر پی جانا اور اگلی صبح بھلے چنگے ہو جانا۔ سکول سے چھٹی کا بہانہ بناتے ہوئے بغلوں میں پیاز رکھ کر جسمانی حرارت تیز کر لینا اور پھر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جانا۔ سلیٹ ہمیشہ تھوک سے صاف کرنا۔ محلے کے بڑے بوڑھوں سے اکثر مار کھانا اور بھول جانا۔ پنکج ادھاس کی غزلیں یاد کرنا اور ' میکدہ‘ کے لفظ سے نا آشنائی کے باعث گاتے پھرنا ''ایک طرف اُس کا گھر‘ ایک طرف میں گدھا‘‘۔
اگر آپ کو یہ سب یاد ہے تو آپ خوش قسمت ہیں کہ آئی ٹی انقلاب سے پہلے والی زندگی انجوائے ک��آئے۔
اِن میں سے شاید ہی کوئی چیز باقی بچی ہو‘ اور اگر ہو گی بھی تو شاید ویسی نہیں رہی ہو گی۔
زندگی کی نہر کے بہتے پانیوں میں سے ایک دفعہ ہاتھ نکال لیں تو وہ ویسے کب رہتے ہیں!
ایسی بھی تھی زندگی!
93 notes
·
View notes
Text
کبھی کبھی الفاظ کم پڑ جاتے ہیں
ہر زبان اپنے آپ میں مکمل ہوتی ہے۔ خیالات اور جذبات کے اظہار کے لیے سبھی زبانوں میں الفاظ موجود ہیں۔ پھر بھی متعدد احساسات ایسے ہوتے ہیں جنہیں بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ ذائقے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہم کھٹا، میٹھا، کڑوا جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ متعدد بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ درست ذائقہ بتانے کے لیے معقول الفاط نہیں ملتے۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری زبان میں ایسے الفاظ کی کمی ہو۔ لیکن دیگر زبانوں میں ان کے لیے معقول الفاظ ہو سکتے ہیں۔ دراصل رنگ�� خوشبو، ذائقہ وغیرہ بیان کرنے کے لیے ہم جس طرح کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ان سے ہماری تہذیب کی عکاسی ہوتی ہے۔
ایسا بھی سمجھا جاتا ہے کہ انگریزی زبان کی لغت میں سب سے زیادہ الفاظ موجود ہیں۔ لیکن حالیہ ریسرچ یہ ثابت کرتی ہے کہ ماحول کو محسوس کر کے اسے بیان کرنے میں جس طرح کے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے اس سے ہماری تہذیب کا پتہ چلتا ہے۔ یہ ریسرچ یورپ، شمالی اور جنوبی امریکہ، ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا کی بیس زبانوں پر کی گئی۔ ریسرچ میں شامل افراد سے میٹھے پانی کا ذائقہ بتانے، خوشبو والا کاغذ سونگھ کر اس کی مہک بتانے اور رنگین کاغذ دیکھ کر اس کا رنگ بتانے کے لیے کہا گیا۔ کسی کے پاس خوشبو کے لیے صحیح الفاظ تھے تو کسی کے پاس رنگ کے لیے۔ اور کسی کے پاس میٹھے پانی کے لیے عمدہ لفظ تھا۔
لیکن تینوں کے لیے صحیح الفاظ بتانے والا کوئی نہیں تھا۔ اس ریسرچ کی سربراہ آصفہ ماجد نے بر صغیر کی ایک خانہ بدوش برادری جہائے پر بھی ریسرچ کی۔ انہوں نے پایا کہ اس برادری کے لوگ چونکہ جنگلوں میں رہتے ہیں، اس لیے وہ ہر طرح کی خوشبو کو بہتر جانتے ہیں۔ ان کی زبان میں مختلف طرح کی بو کے لیے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ اس معاملے میں ان کی زبان میں انگریزی سے بھی زیادہ الفاظ موجود ہیں۔ تاہم رنگوں اور ذائقوں کے لیے ان کے پاس بہت کم الفاظ ہیں۔ آسٹریلیا میں عام طور پر انگریزی بولی جاتی ہے۔ لیکن وہاں چند افراد امپالا زبان بولتے ہیں۔ ریسرچ میں ان افراد کو بھی شامل کیا گیا۔ اس ریسرچ میں کل 313 افراد شامل کیے گیے اور سبھی کو مختلف گروپس میں تقسیم کر کے ان کا ٹیسٹ کیا گیا۔
اس ریسرچ میں پایا گیا کہ فارسی زبان میں ذائقوں کے لیے بہت الفاظ ہیں۔ ریسرچ میں سامنے آیا کہ جن تہذیبوں میں کھانے پینی کی روایت زیادہ ہے ان کی زبان میں ذائقوں کے لیے زیادہ الفاظ موجود ہیں۔ اسی طرح جو آبادیاں جنگلات میں رہتی ہیں وہ رنگوں اور خوشبوؤں کو بہتر پہچانتی ہیں۔ اشاروں کی زبان استعال کرنے والوں میں بھی اس طرح کی کشمکش دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثال کے طور پر بالی کے کاٹا کولوک گاؤں میں تقریباً 1200 افراد اشاروں کی زبان بولتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ ایک ہی طرح کے گھروں میں رہتے ہیں ان کی زبان میں بہت سے ڈھانچوں کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہوتے ہیں۔ ریسرچ میں موسیقی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ ان کی زبان میں کئی طرح کی آوازوں کے لیے الفاظ تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ موسیقی کی دنیا میں رہتے ہیں وہ بات چیت کے لیے اپنی ایک الگ لغت تیار کر لیتے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
5 notes
·
View notes
Text
خاموشی
خاموشی، ایک ایسا لفظ جو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، لیکن اس کی اہمیت کو ناقابل یقین طور پر کم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ایسا دوست جو کبھی دھوکہ نہیں دیتا، ایک ایسا ساتھی جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے، اور ایک ایسا استاد جو ہمیں زندگی کے سب سے قیمتی سبق سکھاتا ہے۔
آج کے اس شور شرابے سے بھرے دور میں، خاموشی ایک ایسی نعمت ہے جسے ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔ ہر طرف ہنگامہ، ہر طرف شور، اور ہر طرف باتیں۔ اس سب کے درمیان، خاموشی ایک ایسی پناہ گاہ ہے جہاں ہم اپنے آپ کو تلاش کر سکتے ہیں۔
خاموشی کے فوائد بے شمار ہیں۔ یہ ہمیں اپنے اندر کی آواز سننے کا موقع دیتی ہے۔ جب ہم خاموش ہوتے ہیں تو ہمارے دماغ زیادہ واضح طور پر سوچ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں بہتر فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ خاموشی سے ہم دوسروں کو بھی سننے کا موقع دیتے ہیں۔ کبھی کبھی لوگوں کو صرف سننے کی ضرورت ہوتی ہے۔
خاموشی سے ہم بہت سی الجھنوں سے بھی بچ سکتے ہیں۔ جب ہم زیادہ بولتے ہیں تو کبھی کبھی ایسی باتیں بھی نکل جاتی ہیں جن پر ہمیں بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے۔ خاموشی سے ہمارے تعلقات بھی بہتر ہوتے ہیں۔ جب ہم خاموش ہوتے ہیں تو دوسرے لوگ ہمیں زیادہ توجہ سے سنتے ہیں اور ہماری باتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
خاموشی سے ہم اپنی توانائی کو بھی بچا سکتے ہیں۔ جب ہم زیادہ بولتے ہیں تو ہماری توانائی ضائع ہوتی ہے۔ خاموشی سے ہم اپنی روح کو سکون دیتے ہیں۔
خاموشی ایک فن ہے، جسے سیکھا جا سکتا ہے۔ اگر ہم روزانہ کچھ وقت خاموشی کے لیے نکالیں تو ہم اس فن میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم میڈٹیشن کر سکتے ہیں�� یا کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ کر خاموش رہ سکتے ہیں۔
خاموشی کا سفر آسان نہیں ہے۔ ہمارے اردگرد اتنا شور ہے کہ خاموشی کو برقرار رکھنا مشکل کام ہے۔ لیکن اگر ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم خاموش رہیں گے تو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔
خاموشی ہی زندگی کی اصل آواز ہے۔
#اردو#اردو پوسٹ#urdu#inspiration#life quotes#urdulovers#اردو ادب#اردو اقتباس#urdu posts#urdu stuff#urdu literature#urdu lines
7 notes
·
View notes
Text
سارہ شگُفتہ
سارہ شگفتہ لکھتی ہیں :
ایک شام شاعر صاحب نے کہا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ پھر ایک روز ریستوراں میں ملاقات ہوئی۔ اُس نے کہا شادی کرو گی؟ دوسری ملاقات میں شادی طے ہو گئی۔
اَب قاضی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ میں نے کہا ۔ آدھی فیس تم قرض لے لو اور آدھی فیس میں قرض لیتی ہوں۔ چونکہ گھر والے شریک نہیں ہوں گے میری طرف کے گواہ بھی لیتے آنا۔
ایک دوست سے میں نے اُدھار کپڑے مانگے اور مقررہ جگہ پر پہنچی اور نکاح ہو گیا۔
قاضی صاحب نے فیس کے علاوہ میٹھائی کا ڈبہ بھی منگوالیا تو ہمارے پاس چھ روپے بچے۔
باقی جھنپڑی پہنچتے پہنچتے ، دو روپے، بچے ۔ میں لالٹین کی روشنی میں گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی تھی۔
شاعر نے کہا ، دو روپے ہوں گے، باہر میرے دوست بغیر کرائے کے بیٹھے ہیں۔ میں نے دو روپے دے دئے۔ پھر کہا ! ہمارے ہاں بیوی نوکری نہیں کرتی۔ نوکری سے بھی ہاتھ دھوئے۔
گھر میں روز تعلیم یافتہ شاعر اور نقاد آتے اور ایلیٹ کی طرح بولتے۔ کم از کم میرے خمیر میں علم کی وحشت تو تھی ہی لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی بُھوک برداشت نہ ہوتی ۔
روز گھر میں فلسفے پکتے اور ہم منطق کھاتے۔
ایک روز جھونپڑی سے بھی نکال دیئے گئے، یہ بھی پرائی تھی۔ ایک آدھا مکان کرائے پر لے لیا۔ میں چٹائی پر لیٹی دیواریں گِنا کرتی ۔
اور اپنے جہل کا اکثر شکار رہتی۔
مجھے ساتواں مہینہ ہوا۔ درد شدید تھا اور بان کا درد بھی شدید تھا ۔ عِلم کے غرور میں وہ آنکھ جھپکے بغیر چلا گیا۔ جب اور درد شدید ہوا تو مالِک مکان میری چیخیں سُنتی ہوئی آئی اور مجھے ہسپتال چھوڑ آئی ۔ میرے ہاتھ میں درد اور پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ تھے۔
تھوڑی دیر کے بع لڑکا پیدا ہوا۔ سردی شدید تھی اور ایک تولیہ بھی بچے کو لپیٹنے کے لئے نہیں تھا۔
ڈاکٹر نے میرے برابر اسٹریچر پر بچے کو لِٹا دیا۔
پانچ منٹ کے لئے بچے نے آنکھیں کھولیںاور کفن کمانے چلا گیا۔
بس ! جب سے میرے جسم میں آنکھیں بھری ہوئی ہیں۔ Sister وارڈ میں مجھے لٹا گئی۔ میں نے Sister سے کہا میں گھر جانا چاہتی ہوں کیونکہ گھر میں کسی کو عِلم نہیں کہ میں کہاں ہوں ۔ اُس نے بے باکی سے مجھے دیکھا اور کہا ، تنہارے جسم میں ویسے بھی زہر پھیلنے کا کا ڈر ہے ۔ تم بستر پر رہو ۔ لیکن اب آرام تو کہیں بھی نہیں تھا۔
میرے پاس مُردہ بچہ اور پانچ رُوپے تھے۔
میں نے Sister سے کہا ، میرے لئے اب مشکل ہے ہسپتال میں رہنا۔ میرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں میں لے کر آتی ہوں، بھاگوں گی نہیں۔
تمہارے پاس میرا مُردہ بچہ امانت ہے، اور سیڑھیوں سے اُتر گئی۔ مجھے 105 ڈگری بُخار تھا۔ بس پر سوار ہوئی ، گھر پہنچی۔ میرے پستانوں سے دُودھ بہہ رہا تھا ۔میں دودھ گلاس میں بھر کر رکھ دیا ۔ اتنے میں شاعر اور باقی منشی حضرات تشریف لائے ۔ میں نے شاعر سے کہا ، لڑکا پیدا ہوا تھا ، مَر گیا ہے۔
اُس نے سرسری سنا اور نقادوں کو بتایا۔
کمرے میں دو منٹ خاموشی رہی اور تیسرے منٹ گفتگو شروع ہوگئی !
فرائڈ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟
راں بو کیا کہتا ہے ؟
سعدی نے کیا کہا ہے ؟
اور وارث شاہ بہت بڑا آدمی تھا ۔
یہ باتیں تو روز ہی سُنتی تھی لیکن آج لفظ کُچھ زیادہ ہی سُنائی دے رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا !
جیسے یہ سارے بڑے لوگ تھوڑی دیر کے لئے میرے لہو میں رُکے ہوں، اور راں بو اور فرائڈ میرے رحم سے میرا بچہ نوچ رہے ہوں۔ اُس روز علم میرے گھر پہلی بار آیا تھا اور میرے لہُو میں قہقہے لگا رہا تھا ۔ میرے بچے کا جنم دیکھو !!!
چنانچہ ایک گھنٹے کی گفتگو رہی اور خاموشی آنکھ لٹکائے مجھے دیکھتی رہی۔ یہ لوگ عِلم کے نالے عبُور کرتے کمرے سے جُدا ہوگئے۔
میں سیڑھیوں سے ایک چیخ کی طرح اُتری۔ اب میرے ہاتھ میں تین رُوپے تھے ۔ میں ایک دوست کے ہاں پہنچی اور تین سو روپے قرض مانگے ۔ اُس نے دے دیئے ۔ پھر اُس نے دیکھتے ہوئے کہا !
کیا تمہاری طبیعت خراب ہے ؟
میں نے کہا ، بس مجھے ذرا ا بخار ہے ، میں زیادہ دیر رُک نہیں سکتی ۔ پیسے کسی قرض خواہ کو دینے ہیں ، وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا۔
ہسپتال پہنچی ۔ بِل 295 روپے بنا۔ اب میرے پاس پھر مُردہ بچہ اور پانچ روپے تھے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا۔
آپ لوگ چندہ اکٹھا کر کے بچے کو کفن دیں، اور اِس کی قبر کہیں بھی بنا دیں۔ میں جارہی ہوں۔
بچے کی اصل قبر تو میرے دل میں بَن چکی تھی۔
میں پھر دوہری چیخ ےک ساتھ سیڑھیوں سے اُتری اور ننگے پیر سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں سوار ہوئی۔
ڈاکٹر نے سمجھا شاید صدمے کی وجہ سے میں ذہنی توازن کھو بیٹھی ہوں۔ کنڈکٹر نے مجھ سے ٹکٹ نہیں مانگا اور لوگ بھی ایسے ہی دیکھ رہے تھے۔ میں بس سے اُتری، کنڈکٹر کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھتے ہوئے ، چل نکلی۔ گھر ؟ گھر!! گھر پہنچی۔
گلاس میں دودھ رکھا ہوا تھا۔
کفن سے بھی زیادہ اُجلا۔
میں نے اپنے دودھ کی قسم کھائی ۔ شعر میں لکھوں گی، شاعری میں کروں گی، میں شاعرہ کہلاؤں گی۔اور دودھ باسی ہونے سے پہلے ہی میں نے ایک نظم لکھ لی تھی، لیکن تیسری بات جھوٹ ہے، میں شاعرہ نہیں ہوں۔ مجھے کوئی شاعرہ نہ کہے۔ شاید میں کبھی اپنے بچے کو کفن دے سکوں۔
آج چاروں طرف سے شاعرہ! شاعرہ! کی آوازیں آتی ہیں، لیکن ابھی تک کفن کے پیسے پُورے نہیں ہوئے۔
_سارا شگفتہ
76 notes
·
View notes
Photo
سانجھا پنجاب ریڈہو کو انٹرویو دیتے ہوئے سیدی یونس الگوہر نے فرمایا دھرم ہمارے شریر کے لیئے ہے۔سارے دھرم جسم کے لیئے ہیں یہ ہمارے جسم کو مندر،مسجد،گوردوارے لے کر جاتے ہیں۔ایک دھرم ہماری آتما کا ہے وہ سب کا ایک ہی ہے۔وہ پیار محبت اور اللہ کا نور ہے۔ ھمارے اندر جو شیطان بیٹھا ہے اگر اس کو پاک نہ کریں تو ہم نہ اچھے ہندو،نہ اچھے سکھ،نہ اچھے مسلمان بن سکتے ہیں۔ہم نے اس گندگی کو باہر نکالنا ہے۔کوئی مرشد ملے کوئی بابا ملے وہ نور کو اندردل میں اتارے۔من کا جاپ سکھائے۔اس سے اندر کی گندگی باہر جاتی ہے لوگ جو پوجا پاٹ کرتےہیں وہ اندر آتما تک گئی نہیں آتما ویسی کی ویسی ہے اگر پوجا پاٹ،ذکرفکر،وانی جو بھی سُن رہا ہے وہ باہرہی باہر ہے تو آدمی پلیت کا پلیت ہی رہے گا۔ اس کا نور اندر جانا ضروری ہے جو چیز نور کو اندر لے جاتی ہے اس کو روحانیت کہتے ہیں ہمارا من اسلیئے بھٹکتا ہے کہ ہم نے من کی خوراک ،نوراُس کو دیا نہیں ہے وہ بھوکا ہے ہماری آتما بھوکی ہے،جب آتما بھوکی ہے تو پریشانی رہے گی۔آتما کو جگارت کرنا ضروری ہے لوگوں کے اندر جو شیطان بیٹھا ہوا ہے اُس نے لوگوں کو اُلجھایا ہوا ہے سارے دھرموں میں لڑائی جھگڑا پھیلا ہواہے،کیونکہ اب ہر دھرم روحانیت سے خالی ہو گیا ہے۔جب تک آپکی آتما میں نور نہیں جائے گا آپ لڑتے جھگڑتے رہو گے۔ نور کو اندرمرشد لے جاتا ہے پوجا پاٹ تو بعد میں کام آتی ہے سب سے پہلے بندے کا سمبندھ پرم آتما کے ساتھ جُڑنا ضروری ہے جب وہ رب کے ساتھ جڑ جائے گا تو اُسکی پوجا پاٹ بھی صحیح ہو گی نفرتیں بھی ختم ہوں گی۔رب سے تعلق جوڑنے کے لیئے مرشدوں کے پاس جانا پڑتا ہے ہم کو بھی ہمارے مرشد نے اجازت دی ہے کہ یہ لفظ اللہ کیسے دل میں اُتاریں۔جب وہ دل میں اترجائے گا تو نور بننا شروع ہو جائے گا اور رب سے تعلق جُڑ جائے گا آپ دُنیا میں جو بھی بُرا کرتے ہیں وہ یہاں پر ہی سامنے آجائے گا ، اسلام میں اسکو مکافاتِ عمل بولتے ہیں اوپر والے نے اچھائی کو سمجھنے کے لیئے بُرائی بنائی ہے یہ اُس کا قانونِ قدرت ہے۔ہم انسان اسکی پلانگ کو سمجھ نہیں سکتے داڑھی اور اچھے لباس سے انسان اچھا نہیں بنتا۔اچھاوہی ہے جس کا من پاک ہو گیاہو اندر سے شیطان نکل گیا ہو۔ کسی کا کوئی بھی دھرم ہو آتما کو صاف کرنے کا ایک ہی گُر ہے کہ دل کے اندر نور جائے۔ 17.10.2017. #ifollowGoharShahi #ImamMehdiGoharShahi #GoharShahi #YounusAlGohar #Mohammad Watch ALRA TV👇 https://youtube.com/c/ALRATV "Watch Sufi Online with Younus AIGohar" is a daily show aired LIVE at *3:00 AM https://www.instagram.com/p/CkXyvCIPsPo/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Text
قندپارسی
آشوب آرزو / وقار خان
اب آپ سے کیا پردہ، ہمیں فارسی اور سرائیکی بہت پسند ہیں۔ اگرچہ ہم ان زبانوں پر اتنی بھی دسترس نہیں رکھتے، جتنی واپڈا بجلی کی ترسیل پر یا عدالتیں انصاف کی فراہمی پر رکھتی ہیں، البتہ الفاظ کی نشست و برخاست، برجستگی، طرز تکلم و طرز تخاطب اور جملوں، محاوروں اور ا��عار کا جامعیت سے بھرپور اختصار ہمیں بہت بھاتا ہے۔ اگر مقرر فارسی یا سرائیکی لہجے میں موتی پرونے والی کوئی خوش اطوار سی خاتون ہو تو واللہ، اس کی گلفشانی کی پھوار ہمیں براہ راست اپنے قلب پر محسوس ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ہم دستیاب مال سے بھی اپنا ٹھرک پورا کر لیتے ہیں، چاہے وہ آغا پٹھان ہی کیوں نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے مواقع پر شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ’’سماع وعظ کجا، نغمہ رباب کجا‘‘
آغا افغانی کی مادری زبان فارسی ہے۔ وہ کئی سالوں سے ہمارے علاقے میں مزدوری کر رہا ہے۔ بوڑھا پٹھان اَن پڑھ ہے مگر سرمست حافظ شیرازی کی زبان بولتا ہے تو وہ کہیں اور سنا کرے کوئی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک دن سخت گرمی میں ہمارے گھر کلہاڑی سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔ پسینے میں شرابور تھا اور نقاہت اور تھکاوٹ اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ہم نے اس کی خیریت دریافت کی ’’حال شما خوب است؟‘‘ (کیا تمہارا حال اچھا ہے؟) اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’خوب نیست، جوانی رفت‘‘ (اچھا نہیں، جوانی گزر گئی ہے) ہماری کج فہمی کہتی ہے کہ ایسے مختصر ترین مگر کوزے میں دریا بند کرنے والے جملے شاید ہی کسی زبان میں ملتے ہوں۔ ایسا ہی غالب کا ایک شعر یاد آیا ’’دریغا کہ عہد جوانی گزشت /جوانی مگو، زندگانی گزشت‘‘ آغا کی اردو بھی فارسیت زدہ ہے۔ شام اندھیرا ہونے سے پہلے گھر روانہ ہوتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجے میں کہتا ہے ’’میرے سائیکل میں چراغ نہیں‘‘ ہمارے ملک میں کچھ پرانے لوگ کہتے ہیں ’’چشم ما روشن، دل ماشاد‘‘ ایران میں ہم نے دیکھا کہ لوگ مہمان کے سامنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اور قدرے جھک کر انہی معنوں میں مختصراً ایک لفظ بولتے ہیں’’چشم‘‘... یہ لفظ اپنے اندر خلوص اور وسعت کا جہاں سمیٹے ہوتا ہے۔ وہ لوگ مٹھاس سے لبریز لہجے میں کہتے ہیں ’’تو نورچشم ما ای‘‘ شاید اسی لئے فارسی کو ’’قند پارسی‘‘یعنی شکر کی طرح میٹھی زبان کہا جاتا ہے۔
دسمبر کی اس خنک اور خشک شب ہمیں کچھ بھولی بسری خوش گفتار خواتین کی نرماہٹ سے آراستہ اور رس گھولتی، نشاط انگیز فارسی گفتگو اس لئے یاد آئی ہے کہ جناب انوؔر مسعود نے جیو کے ’’جرگہ‘‘ میں کہا ہے کہ فارسی ہمارا ہزار سالہ حافظہ ہے، جسے چھوڑ دینے سے اردو پر ہماری گرفت کمزور ہو گئی۔ انہوں نے فرمایا ’’اردو کو بچانے کے لئے ہمیں دوبارہ فارسی سے رجوع کرنا پڑے گا‘‘ خوب است! لیکن ہمارے خیال میں اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا.....تیز رفتار تر��ی کے اس سفر میں ہماری تہذیبی اقدار یوں گرد گرد ہوئی ہیں کہ اب یہاں نوشت و خواند، اہل علم کی صحبتیں، صاحب مطالعہ اور اہل زباں جیسے الفاظ اور اعمال بطور فیشن تو تھوڑے بہت استعمال ہوتے ہی ہیں مگر عملی طور پر متروک اور قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔
آج ہم نے برصغیر میں فارسی کی تاریخ بیان نہیں کرنی۔ مختصراً یہ عرض کرنا ہے کہ یقیناً ہمارا حافظہ ہزار سالہ ہو گا لیکن اب یہ حافظہ اتنا لاغر ہو گیا ہے کہ ہزار سال تو دور کی بات، اس میں تو سات دہائیاں قبل کی سب سے ضروری بات بھی محفوظ نہیں کہ محمدعلی جناح کس طرح کا ملک چاہتے تھے؟ اپنی بوسیدہ اقدار سے جان چھڑاتے ہوئے ہم نے کمپیوٹر کے عہد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ایسی قیامت خیز چال چلی کہ ’’کلاغی تگ کبک را گوش کرد، تو خودش را فراموش کرد‘‘ یعنی کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔ امروز فارسی اور اردو کی مہار ہمارے ایسے ’’ایں چیست؟ پکوڑے تلیست‘‘ برانڈ ’’اہل علم‘‘ لکھاریوں اور اینکرز کے ہاتھ ہے، جو ’’داشتہ بکار آید‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ’’داشتہ کار پر آتی ہے‘‘ موزوں سمجھتے ہیں۔ اردو معلی پر دسترس کی بھی وہی مثال کافی ہے کہ استاد نے طلبا سے پوچھا کہ اس جملے میں گرامر کے لحاظ سے کون سا زمانہ پایا جاتا ہے ’’بچے نقل کررہے ہیں‘‘ شاگرد نے کہا ’’امتحان کا زمانہ‘‘ ٹی وی چینلز پر ہمارے برادران و ہمشیرگان نے گیسوئے اردو سنوارتے ہوئے اسے فارسی سے پاک کر کے انگریزی کا ایسا تڑکہ لگایا ہے کہ ریختہ کی عظمت بال کھولے بین کر رہی ہے۔ خدا معلوم یہ زبان اور اقدار کا کیسا ارتقا ہے کہ اب ہمیں واعظ شیریں لساں، خزینہ علم وحکمت اور منبع فصاحت وبلاغت تو تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں مگر فصاحت اور حکمت تو کجا، خطبات سے رتی برابر شیرینی برآمد کرنا محال ہے۔ بس شعلہ بار لہجے ہیں اور دشنہ و خنجرکا انداز بیاں ۔
آج ہم نے بات فارسی کی وسعت اور مٹھاس تک محدود رکھنی تھی مگر بموجب نوشتہ تقدیر کے کڑواہٹ کی طرف نکل گئی۔ ہمیں اکثر ملکی حالات پر فارسی کے محاورے اور کہاوتیں یاد آتی ہیں۔ کب اور کیوں یاد آتی ہیں؟ یہ آپ نے خود اخذ کرنا ہے۔ سنئے ’’آنچہ دانا کند، کند ناداں، لیک بعد ازخرابی بسیار‘‘ (دانا جو کام کرتا ہے، کرتا ناداں بھی وہی ہے لیکن نقصان اٹھانے کے بعد) آں را کہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک است‘‘ (جس کا دامن صاف ہے، وہ محاسبے سے خوفزدہ کیوں ہے؟) ’’برزبان تسبیح و دردل گاوخر‘‘ (ظاہر میں نیک، دل میں لالچ) ’’ہرکہ درکان نمک رفت،نمک شد‘‘ (جو بھی نمک کی کان میں گیا، نمک ہو گیا) ’’ماتم زدہ را عید بود ماتم دیگر‘‘ (مفلس کی خوشی بھی ماتم سے خالی نہیں ہوتی)
’’آب آید،تیمم برخاست‘‘ (پانی مل جائے تو تیمم کی اجازت نہیں) اور ان الفاظ کا ہمیں مطلب تو معلوم نہیں مگر ان میں ردم کمال کا ہے کہ’’جواب جاہلاں، باشد خموشی‘‘(شیخ سعدی اختصار اور جامعیت کا بادشاہ ہے۔ صرف دو جملے نقل کرتے ہیں کہ ’’بخشیدم،گرچہ مصلحت ندیدم‘‘ (معاف کر دیا اگرچہ مجھے اس میں اچھائی نظر نہیں آتی) اور وہ جو بادشاہ نے ہزار دینار کی تھیلی ننگ دھڑنگ فقیر کی طرف اچھالتے ہوئے کہا کہ دامن پھیلا درویش، تو اس نے کیاجواب دیا؟....’’دامن از کجا آرم کہ جامہ ندارم‘‘ (میں دامن کہاں سے لائوں ،میرے تن پر تو لباس ہی نہیں) انوؔر مسعود صاحب نے اقبال کی فارسی شاعری کو بھی یاد کیا ہے،سو ہم اقبال کے ان سدا بہارفارسی اشعار پر بات ختم کرتے ہیں:
زمن بر صوفی و ملا سلامے
کہ پیغام خدا گفتند مارا
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی ؐرا
(میری طرف سے صوفی اور ملا کو سلام کہ انہوں نے خدا کا پیغام ہم تک پہنچایا لیکن پیغام کی تاویل انہوں نے کچھ اس طرح کی کہ خود خدا، جبرئیل اورمصطفیﷺ بھی حیران رہ گئے)
8 notes
·
View notes
Text
آسٹریلیا کے بارے میں : یہ ملک دنیا کے سب سے چھوٹے براعظم پر مشتمل ہے
آسٹریلیا کو زیادہ تر پاکستانی اس کی کرکٹ ٹیم کی وجہ سے جانتے ہیں۔ اس کا سرکاری نام دولت مشترکہ آسٹریلیا ہے۔ یہ ملک دنیا کے سب سے چھوٹے براعظم پر مشتمل ہے۔ اس میں تسمانیہ کا بڑا جزیرہ اور بحر جنوبی، بحر ہند اور بحر الکاہل کے کئی چھوٹے بڑے جزائر شامل ہیں۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں انڈونیشیا، مشرقی تیمور اور پاپوا نیو گنی شمال کی طرف، سولومن جزائر اور وانواتو شمال مشرق کی طرف اور نیوزی لینڈ جنوب مشرق کی طرف موجود ہے۔لاطینی میں آسٹریلیس کا مطلب ’’جو جنوب میں ہو‘‘ ہے۔ جنوب کی نامعلوم زمین کے بارے کہانیاں قدیم رومن دور میں ملتی ہیں۔ لیکن ان میں اصل براعظم کے بارے کوئی حقیقی معلومات نہیں تھیں۔
آسٹریلیا کا لفظ انگریزی میں پہلی بار 1625ء میں استعمال کیا گیا۔ 1793ء میں جارج شا اور سر جیمز سمتھ نے زوالوجی اور باٹنی برائے نیو ہالینڈ کے نام سے تحریر شائع کی جس میں انہوں نے وسیع و عریض جزیرے کا ذکر کیا تھا نہ کہ براعظم کا۔ 1814ء میں آسٹریلیا کا نام مشہور ہوا جو ایک برطانوی نیویگیٹر نے اپنے سفر کے بعد کتاب کی شکل میں لکھا۔ اس کا نام میتھیو فلنڈرز تھا اور اس نے پہلی بار آسٹریلیا کے گرد چکر لگایا۔ اس کتاب کی نوعیت اگرچہ فوجی تھی، لیکن لفظ ’’آسٹریلیا‘‘ کو عام مقبولیت حاصل ہوئی کیونکہ یہ کتاب وسیع پیمانے پر پڑھی گئی۔ بعد ازاں نیو ساوتھ ویلز کے گورنر نے اپنے سرکاری مراسلات میں لفظ ’’آسٹریلیا‘‘ کو استعمال کیا اور 1817ء میں اس نام کو سرکاری درجہ دینے کی سفارش کی گئی جو منظور ہوئی۔
یہ سوال دلچسپی سے خالی نہیں کہ آسٹریلیا میں انسانی آبادی کب ہوئی۔ عام رائے یہی ہے کہ یہاں مقامی آسٹریلوی 60 ہزار سال قبل آئے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ اس سے بھی قبل یہاں موجود تھے۔ انہیں ’’ابارجینیز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اٹھارہویں صدی کے اواخر میں یہ برطانوی نوآبادی بن گیا۔ مقامی آسٹریلوی جو زبانیں بولتے تھے انہیں 250 گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس براعظم پر سب سے پہلے ولندیزی مہم ��و 1606ء میں پہنچے اور انہوں نے اسے ’’نیو ہالینڈ‘‘ کا نام دیا۔ آسٹریلیا کے جنوبی نصف پر برطانیہ نے 1770ء میں ملکیت کا دعویٰ کیا اور سزاؤں کے طور پر یہاں لوگوں کو بھیجنا شروع کیا۔ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئے علاقے دریافت ہوتے گئے، 19ویں صدی تک ادھر مزید پانچ نو آبادیاں بنا دی گئیں۔ یکم جنوری1901ء کو ان چھ نوآبادیوں نے مل کر ایک فیڈریشن بنائی اور اس طرح دولت مشترکہ آسٹریلیا وجود میں آیا۔ اس کے بعد سے آسٹریلیا میں معتدل جمہوری سیاسی نظام رائج ہے۔ اس کا دارالحکومت کینبرا ہے۔ آسٹریلیا کا رقبہ 76 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد ہے۔ تاہم رقبے کے تناسب سے آبادی کم ہے۔ اس کی آبادی اڑھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
محمد ریاض
2 notes
·
View notes
Text
ڈرہم تحقیقات میں پیش رفت ہو رہی ہے | فاکس نیوز #اہمخبریں
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%da%88%d8%b1%db%81%d9%85-%d8%aa%d8%ad%d9%82%db%8c%d9%82%d8%a7%d8%aa-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%be%db%8c%d8%b4-%d8%b1%d9%81%d8%aa-%db%81%d9%88-%d8%b1%db%81%db%8c-%db%81%db%92-%d9%81%d8%a7%da%a9%d8%b3/
ڈرہم تحقیقات میں پیش رفت ہو رہی ہے | فاکس نیوز
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
صبح بخیر اور فاکس نیوز فرسٹ میں خوش آمدید۔ اپنا دن شروع کرنے کے لیے آپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے…
ترقی کرنا – تحقیقات سے واقف ایک ذریعہ نے فاکس نیوز کو بتایا کہ اسپیشل کونسل جان ڈرہم کی تحقیقات میں “تیز” ہو گئی ہے اور زیادہ لوگ “تعاون” کر رہے ہیں اور فیڈرل گرینڈ جیوری کے سامنے آ رہے ہیں جتنا کہ پہلے بتایا گیا تھا۔ پڑھنا جاری رکھو …
ریورس میں ڈیفنڈ – جیسے ہی 2020 میں پورے ملک میں پولیس کو بچانے کی تحریک پھیل گئی، اسکول ریسورس آفیسرز کے بجٹ میں کمی کردی گئی اور بہت سے افسران کو ہال ویز سے ہٹا دیا گیا۔ تقریباً دو سال بعد، یہ بدلنا شروع ہو گیا ہے۔ پڑھنا جاری رکھو …
ہاف ٹائم ریکیپ – سی این این کے “نیو ڈے” کے پیر کے ایپیسوڈ میں ایک سیگمنٹ پیش کیا گیا جس میں سپر باؤل ہاف ٹائم شو اور بلیک لائیوز میٹر موومنٹ کے لیے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے کے بارے میں بات کی گئی، ایک مہمان نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک “خراب دن” تھا۔ پڑھنا جاری رکھو …
ٹرمپ کی سچائی – فاکس نیوز کے میزبان ٹکر کارلسن نے پیر کے “ٹکر کارلسن ٹونائٹ” کے ایکولوگ میں کہا، اگر آپ ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے چار سال کے عہدے پر قریب سے دیکھتے ہیں، اور ہم نے ایسا کیا، تو یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ٹرمپ جتنا عجیب و غریب دعویٰ کر رہے ہیں، اتنا ہی زیادہ امکان یہ سچ تھا. پڑھنا جاری رکھو …
بپتسمہ کی غلطی؟ – ایک پادری نے فینکس، ایریزونا میں ایک کیتھولک چرچ سے استعفیٰ دے دیا ہے، جب اس بات کا تعین کیا گیا تھا کہ اس نے ایک لفظ بدل کر دہائیوں تک ہزاروں بپتسمہ غلط طریقے سے ادا کیے تھے۔ پڑھنا جاری رکھو …
سیاست
DEMS DURHAM DILEMMA – ڈیموکریٹس جنہوں نے ایک بار اس وقت کے خصوصی مشیر رابرٹ مولر کی حفاظت پر زور دیا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان کی روس کی تفتیش بغیر کسی مداخلت کے جاری رہے گی، ایک بالکل مختلف دھن گایا جب ٹرمپ انتظامیہ نے اسی روس کی تحقیقات کی ابتداء کی تحقیقات جاری رکھنے کے لیے جان ڈرہم کو خصوصی مشیر مقرر کیا۔ پڑھنا جاری رکھو …
اے او سی نے جرم قبول کیا۔ – نمائندہ الیگزینڈریا اوکاسیو-کورٹیز، DN.Y. نے نیویارک شہر میں چوریوں میں اضافے کو سال کے آخر میں چائلڈ ٹیکس کریڈٹ کی میعاد ختم ہونے سے منسلک کیا، پیر کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو کے مطابق۔ پڑھنا جاری رکھو …
اینتھونی وینر ڈاجز – رسوا ہونے والے سابق سیاستدان انتھونی وینر نے ان سوالوں کو ٹال دیا کہ آیا وہ بدل گیا ہے، جس سے پیر کو “Hannity” کے میزبان کو حیرت ہوئی۔ پڑھنا جاری رکھو …
سیاسی خونریزی؟ – 2010 کے وسط مدتی انتخابات ڈیموکریٹس کے لیے تاریخی طور پر ایک خراب سال تھے … اس سال کے وسط مدتی انتخابات 2010 میں ڈیموکریٹس کو درپیش چیلنجوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ پڑھنا جاری رکھو …
پوٹن کا منصوبہ – مغرب میں بہت سے لوگوں نے رائے دی ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن ممکنہ طور پر اہمیت کا “کچھ” کر رہے ہوں گے۔ لیکن روسی خارجہ پالیسی کے اندرونی ذرائع دمیتری سوسلوف کے مطابق، روس کی چالیں منصوبے کے مطابق چل رہی ہیں۔ پڑھنا جاری رکھو …
مزید کارٹونز کے لیے یہاں کلک کریں…
رائے
کے ٹی میکفارلینڈ – ہٹلر کے پروپیگنڈہ سربراہ جوزف گوئبلز نے ایک بار کہا تھا کہ ’’اگر آپ جھوٹ بولتے ہیں اور اسے دہراتے رہتے ہیں تو لوگ آخرکار اس پر یقین کر لیں گے۔‘‘ بالکل وہی ہے جو ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم کے عملے نے 2016 میں صدارت کے لیے انتخاب لڑنے کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے اس وقت کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے نیٹ ورک سرور کو ہیک کر کے اس امید پر کہ ٹرمپ اور روس کا ایک ناپاک تعلق دریافت کر لیا تھا۔ انہیں کچھ نہیں ملا کیونکہ وہاں کبھی بھی کچھ نہیں ملا تھا۔ لیکن کوئی بات نہیں، وہ صرف کچھ نہ کچھ بنائیں گے۔ پڑھنا جاری رکھو …
ڈیوڈ مارکس – اوٹاوا – اوٹاوا میں زمین پر ملک کی پارلیمنٹ کی عمارت کے سائے میں ٹرک ڈرائیور کا احتجاج حالیہ یادوں میں ایسا نہیں لگتا ہے۔ پڑھنا جاری رکھو
سین۔ جان تھون، ریپ۔ اسٹیو اسکیلائز – ہم نے اپنے کیریئر کا زیادہ تر حصہ لڑنے اور بھاری ہاتھ والے حکومتی مینڈیٹ کو الٹنے کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ایک چیز جو ہم نے گزشتہ برسوں میں سیکھی ہے وہ یہ ہے کہ جب واشنگٹن میں ڈیموکریٹس کے پاس طاقت ہوتی ہے، تو وہ اسے عام طور پر آزادی پر قدغن لگانے والے قوانین نافذ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، چاہے وہ چھوٹے کاروباروں، خاندانی کسانوں یا اختراع کاروں پر ہو۔ لیکن ہم نے کبھی بھی ڈیموکریٹس کو چھوٹے بچوں کے رویے کو منظم کرنے کی کوشش کرتے نہیں دیکھا – اب تک۔ پڑھنا جاری رکھو …
چارلس ای سٹینلی جونیئر – 26 مار�� 1943 کی شام کو، میرے والد جمعہ کی رات اکیلے فوج میں تھے، اور ان کے ساتھی ہوا بازی کے زیادہ تر طالب علم شہر سے باہر بھاپ اڑا رہے تھے۔ اس نے بجائے اس مذہبی اعتکاف میں شرکت کا انتخاب کیا تھا۔ پڑھنا جاری رکھو …
ایملی سیڈیل – پچھلے سال، صدر جو بائیڈن نے امریکن ریسکیو پلان (ARP) پر قانون پر دستخط کیے – ایک تقریباً 2 ٹریلین ڈالر کا بل ایک جھنڈے والی معیشت کے لیے ایک اہم فروغ کے طور پر فروخت کیا گیا، مبینہ طور پر “لوگوں کو کس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔” پس منظر میں، مخالفین بل کے بارے میں درست تھے – اور اس فضول اور نقصان دہ خسارے کے اخراجات کی حمایت کرنے والے قانون سازوں کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ پڑھنا جاری رکھو …
چھت کے انکشافات: دن 86 – پروجیکٹ HOOD کی تشدد سے بچاؤ کی ٹیم کے سربراہ جیمز ہائی اسمتھ، اس بات پر بحث کرنے کے لیے پہلے کی چھت کے انکشاف پر نمودار ہوئے کہ کس طرح ان کی ٹیم کی کوششوں نے ایک ماہ میں 50 سے زیادہ انتقامی ہلاکتوں کو روکا۔ اس کے بعد، بہت سے قارئین نے ای میلز بھیجے، جو مزید تفصیل سے جاننا چاہتے تھے کہ پروگرام کیسے کام کرتا ہے۔ چنانچہ، پروجیکٹ HOOD کمیونٹی سینٹر کے لیے عمارت کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے اپنی 100 روزہ چھت پر نظر رکھنے کے 86ویں دن، پادری کوری بروکس نے ہائی سمتھ کو اپنی بات چیت جاری رکھنے کے لیے واپس بلایا۔ سیپڑھنا جاری رکھیں…
فاکس نیوز پاسٹر کوری بروکس کے ساتھ ہر روز ایک نئے کے ��اتھ چیک ان کے ساتھ ساتھ چلیں۔ چھت کا انکشاف.
فاکس بزنس
منگل، 15 فروری 2022 کو صبح 3:50 بجے اسٹاک فیوچرز
صارفین کا درد – جنوری میں ہول سیل قیمتوں میں ایک بار پھر تیزی آنے کا امکان ہے کیونکہ صارفین کی مضبوط طلب اور وبائی امراض سے متعلقہ سپلائی چین کی وجہ سے دہائیوں میں سب سے زیادہ افراط زر کو ہوا ملتی ہے۔ پڑھنا جاری رکھو …
تعلیمی سکور کارڈ – WalletHub نے 18 پیمائشوں پر مبنی تمام 50 امریکی ریاستوں کا موازنہ کیا جیسے کہ 25 سال یا اس سے زیادہ عمر کے بالغوں کا حصہ کم از کم ہائی اسکول ڈپلومہ، اسکول سسٹم کا معیار، بلیو ربن اسکول فی کس، پبلک ہائی اسکول گریجویشن کی شرح اور NAEP ریاضی اور پڑھنے کے ٹیسٹ کے اسکور . پڑھنا جاری رکھو …
بائیڈن کا اقتصادی لیجر – ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے سالانہ انڈیکس آف اکنامک فریڈم کے مطابق صدر بائیڈن کی قیادت میں امریکی معیشت اب تک کی کم ترین سطح پر گر گئی۔ پڑھنا جاری رکھو …
دوسری خبروں میں
گھریلو خواتین کا الزام- دی سالٹ لیک ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق “ریئل ہاؤس وائف آف سالٹ لیک” کی اسٹار جین شاہ اور اس کے معاون پر ٹیلی مارکیٹنگ اسکیم چلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے جس کا وفاقی استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس نے سیکڑوں “کمزور، اکثر عمر رسیدہ، محنت کش طبقے کے لوگوں” سے فائدہ اٹھایا۔ . پڑھنا جاری رکھو …
ماسک سے پردہ – ریڈنگ، میساچوسٹس سے تعلق رکھنے والے کوریائی جنگ کے تجربہ کار یوجین “ایڈ” نورٹن کو اپنے مقامی جم کے اندر اس کے چہرے اور سر پر بہت سی چوٹیں آئیں جب اسے COVID کے تخفیف کے اقدامات کی وجہ سے پہننا پڑا ماسک اس کے چہرے پر چڑھ گیا اور اس نے اس کی بینائی کو دھندلا دیا۔ – اس کے گرنے کا سبب بنتا ہے۔ پڑھنا جاری رکھو …
گھاس کا میدان – جیمی-لن سگلر، جس نے 1999 سے 2007 تک جاری رہنے والے شو میں میڈو سوپرانو کا کردار ادا کیا، شیورلیٹ کو “دی سوپرانوس” کے افتتاحی سلسلے کو دوبارہ بنانے میں مدد کی تاکہ اس کے آل الیکٹرک شیوی سلویراڈو کو آگے بڑھایا جا سکے۔ پڑھنا جاری رکھو …
سی این این کراس شائرز میں روگن – CNN کئی مہینوں سے پوڈ کاسٹ اسٹار جو روگن پر اہم حملوں کی سطح کر رہا ہے، تجویز کرتا ہے کہ اسے ماضی کے تبصروں کی وجہ سے برطرف کر دیا جائے اور یہاں تک کہ ان کے ماضی کے بیانات کا 6 جنوری کے کیپیٹل فساد سے موازنہ کیا جائے۔ پڑھنا جاری رکھو …
‘گرین ویلنٹائنز’ – Gisele Bündchen اور Tom Brady نے منگل کو سوشل میڈیا پر اپنے ویلنٹائن ڈے کے تحائف کا اشتراک کیا — ایک دوسرے کے لیے وہی تحفہ چنتے ہوئے۔ پڑھنا جاری رکھو …
دن کا ویڈیو
گٹ فیلڈ! پینل نے مشہور شخصیات اور عوامی عہدیداروں کو روسٹ کیا جنہوں نے سپر باؤل میں ماسک نہیں پہنا تھا جبکہ بچے اسکولوں میں نقاب پوش رہتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں …
اج کی تصویر
SpaceX ارب پتی Shift4 Payments کے بانی Jared Isaacman کو پولارس پروگرام کے نام سے منسوب مشنوں کی ایک سیریز کے حصے کے طور پر واپس خلا میں بھیجے گا۔ Isaacman، جنہوں نے ستمبر میں SpaceX کی Inspiration4 پرواز کے کمانڈر کے طور پر فنڈز فراہم کیے اور خدمات انجام دیں، نے تین اضافی نجی خلائی پروازیں خریدنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، بشمول Starship کا پہلا مکمل کریو مشن۔ تصویر کے پیچھے کی کہانی کے لیے یہاں کلک کریں…
فاکس ویدر
آپ کے پڑوس میں موسم کیسا لگ رہا ہے؟ پڑھنا جاری رکھو …
آخری لفظ
“اب ہم جانتے ہیں کہ کلنٹن کی مہم نے ایک ٹیک فرم کو ٹرمپ ٹاور کے سرورز میں دراندازی کرنے کے لیے ادائیگی کی اور پھر بعد میں ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے سرورز میں دراندازی کی، دوسرے لفظوں میں، غیر قانونی طور پر صدارتی امیدوار کی جاسوسی۔”
– شان ہینٹی
سوشل میڈیا پر فاکس نیوز کو فالو کریں۔فیس بک
انسٹاگرام
یوٹیوب
ٹویٹر
LinkedIn
ہمارے نیوز لیٹرز کے لیے سائن اپ کریں۔
فاکس نیوز فرسٹ
فاکس نیوز کی رائے
فاکس نیوز لائف اسٹائل
فاکس نیوز انٹرٹینمنٹ (FOX411)
ہماری ایپس ڈاؤن لوڈ کریں۔
فاکس نیوز
فاکس بزنس
فاکس ویدر
فاکس اسپورٹس
ٹوبی
فاکس نیوز آن لائن دیکھیں
فاکس نیوز گو
فاکس نیوز فرسٹ کا یہ ایڈیشن فاکس نیوز نے مرتب کیا تھا۔ جیک ڈرشلاگ. صبح کے وقت ہمیں اپنا پہلا انتخاب بنانے کے لیے آپ کا شکریہ! ہم بدھ کو آپ کے ان باکس میں پہلی چیز دیکھیں گے۔
Source link
0 notes