#فلموں کا معاشرے پر اثر
Explore tagged Tumblr posts
Text
انٹرنیٹ ہماری زندگی تباہ کر رہا ہے؟
جب میری عمر کم تھی تو والدہ اس بات پر فکرمند ہوتی تھیں کہ میں انٹرنیٹ کی لت میں مبتلا ہوں۔ ذہن میں رہے کہ یہ 2000 کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب انٹرنیٹ عام طور پر گھر کے ایک خاص کمرے تک محدود ہوتا تھا۔ اگر آپ ایم ایس این میسنجر یا جاپانی اینیمیٹڈ ٹیلی ویژن سیریز ڈریگن بال زیڈ پر اپنی شام ضائع کرنا چاہتے تھے تو آپ کو ساکن مانیٹر کے سامنے بیٹھنا پڑتا تھا اور کوئی بھی آپ کی سرگرمی دیکھ سکتا تھا۔ تیزی سے موجودہ دور میں آئیں۔ سمارٹ فونز کی بدولت میں جب بھی چاہوں ڈریگن بال زیڈ دیکھ سکتا ہوں۔ درحقیقت اگر مجھے اندازہ لگانا پڑے تو میں شاید اس مضمون کو لکھنے سے پہلے اپنے فون کو پانچ سے 10 بار چیک کروں گا۔ اگر میں 2005 میں انٹرنیٹ کا عادی تھا تو مجھے نہ��ں معلوم کہ اب آپ میرے رویے کو کیا کہیں گے۔ سخت قسم کی لت؟ یا جنون؟ مجھے لگتا ہے کہ اس مرتبہ آپ اسے صرف ’21 ویں صدی کی دنیا میں رہنا‘ کہیں گے کیوں کہ ہمیشہ آن لائن رہنے کی میری لازمی ضرورت وہ ہے، جو زمین پر تقریباً ہر شخص کی ہے۔ خاصی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس میں میری والدہ بھی شامل ہیں (یہ درست ہے دوستو انہیں بھی آن لائن رہنا ہو گا) پھر اصل سوال یہ ہے کہ ویب کی ہماری اجتماعی لت کتنا نقصان پہنچا رہی ہے؟ ٹھیک ہے، ایلون مسک کا شکریہ کہ ان کی بدولت ہمیں ایک جواب مل سکتا ہے۔
کار ساز کمپنی ٹیسلا کے ممتاز چیف ایگزیکٹیو افسر اور سوشل میڈیا پلیٹ فار ٹوئٹر پر ہلچل مچانے والے ایلون مسک نے اپنے سٹار لنک سیٹلائٹ سسٹم کے ذریعے ایک نیم الگ تھلگ ایمازون قبیلے کو نیٹ سے جوڑنے میں مدد کی۔ اس نظام کی مدد سے زمین کے دور دراز علاقوں میں بھی تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس ویڈیو گریب میں ایلون مسک کو نیورالنک پریزنٹیشن کے دوران سرجیکل روبوٹ کے ساتھ کھڑا دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی) ماروبو قبیلے نے گذشتہ نو ماہ انسانی علم کے ہمارے اجتماعی ذخیرے کے عجائبات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارے اور نتائج کی پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔ اس موضوع پر اخبار نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق قبیلے کے ارکان جلد ہی سوشل میڈیا اور فلموں کے عادی ہو گئے اور وہ اپنے دن کا زیادہ تر حصہ ویڈیوز دیکھنے اور پرتشدد ویڈیو گیمز کھیلنے میں گزارتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان اپنے فون میں اس قدر مشغول ہو گئے ہیں کہ انہوں نے قبیلے کے شکار کرنے اور ماہی گیری کے معمولات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ ایسی سرگرمیاں ہیں جو برادری کی بقا کے لیے اہم ہیں۔
بے لگام انٹرنیٹ کے استعمال کے خطرات کے بارے میں کیس سٹڈی کے طور پر، نتائج بہت خوفناک ہیں۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں بلیوں کی ویڈیوز اور فلموں کی کشش قبیلے میں وائرس کی طرح پھیل گئی، جس کے نتیجے میں قبیلے کی عادات اور رویے مکمل طور پر تب��یل ہو کر رہ گئے۔ اس بارے میں ایک دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ شاید وہ اس لیے بہت زیادہ متاثر ہوئے کیوں کہ انہوں نے اس ضمن میں کوئی تیاری نہیں کی تھی لیکن اگر ہم ایمانداری سے بات کریں تو ریڈاِٹ تک رسائی کے بعد کا ان کا معاشرہ ہمارے معاشرے سے کتنا مختلف دکھائی دیتا ہے؟ مجھے غلط مت سمجھیں۔ یقیناً کچھ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ سٹار لنک سسٹم کو ماروبو میں لانے کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وہ ہنگامی صورت حال کی صورت میں بیرونی دنیا اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کے قابل ہوں گے، جو ایک اچھا خیال ہے، چاہے آپ نئی ٹیکنالوجی کے کتنے ہی بے مخالف کیوں نہ ہوں۔ قبیلے کے لوگ زیادہ تر دنوں میں صرف صبح اور شام کو اپنا انٹرنیٹ آن کرتے ہیں (اگرچہ اتوار سب کے لیے مفت ہوتا ہے) جو آن لائن دنیا تک نیم محدود رسائی کے میرے کم عمری کے تجربات کے تھوڑا سا قریب عمل ہے۔
لیکن مجموعی طور پر، ایمازون (مقام کا نام، ویب سائٹ نہیں) کو ایمازون (ویب سائٹ، جگہ نہیں) تک رسائی دینا تھوڑا سا خطرناک ہے۔ یہ آپ کے اس بات پر غور کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ کی جیب میں موجود چھوٹا سا باکس واقعی آپ کے رویے پر کتنا اثر انداز ہوتا ہے۔ سچی کہانی۔ میں نے 2016 تک سمارٹ فون نہیں لیا حالاںکہ میری زندگی میں شامل زیادہ تر لوگوں کے پاس پہلے سے ہی سمارٹ فون تھا۔ بات یہ ہے کہ میں غیرروایتی نہیں تھا۔ میں واقعی 26 سال کی عمر تک فون لینے کے معاہدے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے اس وقت تک میں نے ایک پرانا نوکیا فون استعمال کیا جس کا کوئی ماہانہ بل نہیں تھا۔ فون کے آدھے بٹن غائب تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے دوستوں سے بہت مایوس تھا جو رات کے وقت تفریح کے لیے گھر سے نکلنے کے بعد اپنے فون سے چپکے رہتے تھے یا بات چیت کے دوران اپنے نوٹیفیکیشن چیک کرتے رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جیسے ہی مجھے اپنا فون ملا میں کتنی جلدی ان لوگوں میں سے ایک بن گیا۔ ہم فون اور انٹرنیٹ کی ’لت‘ کے بارے میں مذاق کرتے ہیں لیکن شاید ہمیں مذاق کرنا بند کر کے واقعی جائزہ لینا شروع کرنا چاہیے کہ یہ اصل میں کس قدر حقیقی لت کی طرح ہے۔
خاص طور پر نوجوانوں کے لیے، ایک ایسے آلے تک رسائی جو دن میں 24 گھنٹے فوری تسکین فراہم کرسکتا ہے، بہترین خیال نہیں ہوسکتا۔ حتیٰ کہ ماروبو کو بھی کام کے اوقات کے دوران اپنے انٹرنیٹ کو بند رکھنے کی سمجھ تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ معجزہ ہی ہو گا کہ اگر ہم کبھی کچھ اور کر پائیں، کام ہی کیوں، جب میں اپنے جالی دار جھولے میں لیٹ کر لوگوں یا گرتے ہوئے لوگوں کی پرمزاح ویڈیوز دیکھ سکتا ہوں؟ لوگوں سے بالمشافہ بات کیوں کی جائے جب وٹس ایپ مجھے زیادہ پرمزاح یا زیادہ ذہانت پر مبنی ردعمل کی منصوبہ بندی کرنے کا وقت دیتا ہے؟ زندگی میں کیا پریشانی ہے جب فون موجود ہو تو؟ مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ میں نے اس مضمون کو لکھنے سے پہلے 12 بار اپنا فون دیکھا لیکن اچھی بات یہ ہے کہ میں اسے ��کمل کرنے میں کامیاب رہا۔ شاید ابھی تک ہمارے لیے امید باقی ہے۔
رائن کوگن
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note
·
View note
Text
معاشرے کی خامیوں اور طبقاتی تضاد کو عیاں کرنے والا فلم ساز -
ضیا سرحدی مارکسی نظریات سے متاثر تھے۔ وہ ایسے ہدایت کار اور کہانی نویس مشہور تھے جس کی فلمیں انہی نظریات کے زیرِ اثر شاہ کار ثابت ہوئیں۔ ضیا سرحدی نے اپنے سماج کے مختلف چہرے اور معاشرے میں طبقاتی تضاد کو بڑے پردے پر پیش کیا اور شائقین ہی نہیں ناقدین سے بھی داد پائی۔ ضیا سرحدی کو بچپن ہی میں فلموں کا شوق پیدا ہوگیا تھا جو نوعمری میں ان کا عشق بن گیا اور جب وہ مارکسی فلسفے سے آشنا ہوئے تو زندگی…
View On WordPress
0 notes
Link
رانگ ٹرن ، نامی ، پوری فرینچائز، یعنی تمام کے تمام ، چھ حصوں کا ، عمومی مزاج ایک ہی ہےکہ ، یعنی قتل و غارت اور انتہا کے اسپیشل ایفیکٹس ، اب اگر ، قتل وغارت، چیر پھاڑ کو ، ہارر یا خوفناک سمجھتا ہے ، تو یہ فلم اس کے لیے ، ایک ڈراونا خواب ہے ۔لیکن اس فلم میں پراسراریت سسپینس، ماحول، لوکیشن کے چناو کا معیار اتنا اعلی ہے کہ ، جوں جوں فلم آگےبڑھتی ہے کہ انسان کا لاشعور اسے یہ سمجھانا شروع کردیتا ہے، جیسا کہ فلم کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ رانگ ٹرن ، یعنی غلط موڑ ۔ایک غلط موڑ، انسان کی زندگی کو ، اس کی آنکھوںکے سامنے ، کیسے المیہ بنا دیتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ
دیکھنے والے کو اندازہ ہوتا جاتا ہے کہ یہ فلم ، ہارر لگنے کے باوجود ،
مکمل طور پر ایک ، Slasher فلم ہے
سلیشر فلم یعنی، جس پہ غالب تاثر ،اور پلاٹ کا مرکز ،قتل و غارت اور بے رحمانہ، انداز میں خون کی ہولی کھیلنا ہو ، اب وہ خون کی ہولی ، انسان کھیلیں یا کوئی مافوق الفطرت مخلوق۔
یہ تو ہوا اس فلم کا مزاج اس کے پلاٹ پر کچھ بات کی جائے
فلم کا پلاٹ
رانگ ٹرن ،کےپہلے حصے ، کا پلاٹ ، عمومی طور پر ، پہلی نظر میں، وہی گھسا پٹا محسوس ہوتا ہے ، جو فلم بین ، عرصہ دراز سے ، ایول ڈیڈ ، ٹائپ کی فلموں کے سٹائل میں دیکھتے ہوئے آرہے ہیں یعنی کہ چند کردار راستہ بھول کر یا ، جوانی کی مستی میں ، یا جان بوجھ کر نکلے ہیں ، جو بظاہر ، آبادی سے ، بہت زیادہ / بالکل کٹا ہوا نہیں ہے ، حتی کہ ، سناٹے اور ہریالی سے بھرا مقام ہے لیکن، وہاں ، کسی چرند ، پرند، وغیرہ کا نا م و نشان تک نہیں ، ہاں ، ایک آدھ جگہ ، کسی ، جنگلی جانور، وغیرہ کی ادھڑی ہوئی لاش، بہرحال ، سڑک کے کنارے ، نظر آجاتی ہے ۔جس سے بنیادی طور پر اس کہانی کا پلاٹ ، کسی ، آسمانی حوادث کا شکار خطہ زمین ، کے گرد، بنا ہوا محسوس ہوتاہے ، پر جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے یہ بھیانک حقیقت ، بہرحا ل ، واشگاف انداز میں واضح ہوتی چلی جاتی ہے کہ ، کہ اس فلم کے پلاٹ کی جڑ ، اور مرکزی خیال کے ، بیج میں ، ایک ایسا انسانی المیہ چیخ رہا ہے ، جس کی کراہیں ، بدصورت شکلوں ، اور شقاو ت قلبی سے بھرے ، بظاہر، مجسم ، دو ٹانگوں والے انسان کے ، بگڑے ، ہوئے ، چہروں پر بکھری ��ڑی ہیں ۔
استعارہ
جیساکہ، ڈراونی یا قتل و غارت سے بھری فلمیں ،بظاہر ایک مقصد لیے لگتی ہے، کہ سفاکیت سے لوگوں کے اجسام ادھیڑنا ،
انسانی خون سے غسل کرنا،
انسانی اعضاء کو ،مرچ مصالحہ ، لہسن پیاز، ادرک ٹماٹر ،کے ساتھ پورے اہتمام سے مکمل ریسیپی بنا کر کھانا،
اور تو اور ، جس کی کھال کے چھوٹے چھوٹے قتلے بنائے جارہے ہوں، وہ اس وقت زندہ ہو ، اسے خاردار تاروں سے جکڑا ہوا ہو ،
اس کی گردن پر کو شکجنے سے قابو کیا گیا ہو، اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر،
اس کی ران، اس کے سینے اور بازوں کی مچھلیوں سے
تازہ گوشت کے پارچے کاٹ کر ، اس کے سامنے ہی ، بھونا یا، فرائ کیا جا رہا ہو، گویا ، بندہ نہ ہوا ، لائیو باربی کیو ہوگیا۔
اسے یہ معلوم ہو ، کہ ابھی ، کسی بھی وقت، اس کے دائیں یا بائیں جانب، کوئی سرجیکل بلیڈ مار کر، کھال کو پھاڑ کر ، ، اس کا جگر یا تلی ، وغیرہ ، نکال کر ، ، اسے ترکی کباب کی مانند پیاز، ٹماٹر، ہری مرچ ، کے ساتھ سیخ میں پرو کر کھایا جایے گا
اور مرغیوں کے پنچوں کی صفائی کے اندا ز میں اس کی انگلی ، کو کاٹا جا سکتا ہے ، حتی کے ، وہ کچی بھی ، ٹافی یا چاکلیٹ کی مانند ، کھائی جا سکتی ہے ، یہ سب پڑھ ، یا سوچ کر، جتنا اندوہناک معلوم ہوتا ہے ، اتنا ہے نہیں ۔جی ایسا ہی ہے ، اس کی وجہ سادہ ہے ، ہم فلموں کو ، ویسا دیکھتے ہیں جیسا نظر آتی ہیں ، ہم استعاروں میں بات کرنے کے عادی ہیں لیکن استعارے سمجھنے کے لیے زحمت نہیں کرتے ،
ہونے کو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے ،پر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ تو ہو سکتا ہے، کہ اس فلم میں انسانی رویوں ،اور کردار یا پھر، مختلف کمزوریوں کو ،بدصورت شکلوں میں دکھایا گیا ہو ،
لیکن ، ایسا کرنے سے ، کتنی فیصد عوام ، موضوع کو سمجھ پائے گی ؟
اور کتنے فیصد، ناظرین ،اسے محض ، اسپیشل ایفیکٹس، ساونڈ کی سائنس ، تھری ڈی ، اچھے گیٹ اپ ، میک اپ آرٹسٹ کی تخلیقی مہارت کے ذریعے پھیلائی گئی ہولناکی سمجھیں گے ۔ان سوالوں کے جواب کے لیے ، ہم اپنے اگلے عنوان پر چلتے ہیں ،جو کہ یہ ہے کہ ، جس معاشرے میں یہ فلم دکھائی جا رہی ہے ، اس کا عمومی ، مزاج یا رجحان کیا ہے
معاشرے کا رجحان
یہ محض ، ایک مشاہدہ ہے ،کوئی ، کائناتی ، اصول یا ، اسے کوئی آفاقی حقیقت نہ سمجھا جائے۔
لیکن بہرحال، یہ معاشرے کے رجحانات پر، منحصر ہے کہ ،وہ ایسی فلموں کو ، کس طرح سمجھتا یا خیال کرتا ہے ۔مثلا، ایک عمومی ، رائے نہ سہی ، لیکن ، ایک مخصوص معاشرے میں ، اگر دیکھا جائے تو جہاں احساسات ، جذبات ، حساسیت، حد سے زیادہ ہوجائے ، میں کہتا ہوں حد سے زیادہ ہوجائے تو ایسے معاشروں میں ، آپ کو ، دو خوبیاں ، مشترکہ ، طور پر، بدرجہ اتم نظر آئیں گی
وہ اپنی ذات کی حد تک تو ، بہت زیادہ حساس ہو جاتا ہے
اور دوسروں کے لئے صرف اتنا احساس کر پاتا ہے، جتنے سے ، اس کے اپنے ، روزمرہ کے معاملات ، یا Bread and Butter ڈسٹرب نہ ہو
جہاں جہاں آپ کو، ایسا معاشرہ /افراد نظر آئیں گے ،ان میں ایسی قدریں /خصوصیات ،مشترک ملیں گے ،کہ سامنے کی چیز پر فوکس کیاجائے ، نہ کہ کل کو سمجھ کر ، اس پر کوئی رائے یا موقف بنایا جائے ، جہاں موضوعات کوچھوڑ کر، لفظوں کا آپریشن کیا جائے ، اور پھر چھوٹے چھوٹے لفظ پکڑ پکڑ کر ، موضوع کو چھوڑ کر ، اخلاقیات پہ ہاتھ مارا جائے ، ہلکی پھلکی ، تنقید پہ برا مانا جائے ، وہاں ، اجتماعی طور پر، جعلی خیر سگالی ، بھوک کی طرح ، وارد ہوجاتی ہے ۔اور پھر لوگوں کی بنیادی ضرورت ، مٹھاس، وہ بھی جعلی ، حتی کے ان کو پتا بھی ہو کہ ، جعلی ہے ، پھر بھی وہ اسی کی ڈیمانڈ کرتے ہیں ،
یوں سمجھ لیجئے کہ ، نشئی کو پتا ہی ہوتا ہے کہ ، نشہ خطرناک ہے ، پر کیا کرسکتا ہے ، سوائے ، زیادہ سے زیادہ کرنے کے ۔
الغرض ، ایسے معاشرے ، جہاں ، احساس، اپنے زیر جامے کی حفاظت کو کہا جائے ، وہاں مذکورہ بالا فلمیں اور مناظرلوگوں کے دل کے ٹکڑے کردیتے ہیں ، پھر ، وہاں ، کرداروں کی حقیقت پر مبنی ، اداکاری ، ایسے افراد کو خون کے آنسو رلاتی ہے ، جبکہ ، حقیقی زندگی میں اس سے کہیں زیادہ وحشیانہ مناظر ، شئیر/فیس بک ، واٹس ایپ ، سینہ گزٹ کے ذریعے ۔ کرتے پھر رہے ہوتے ہیں ، کسی قتل کسی کٹی پھٹی لاش کسی ، کی لٹی ہوئی عزت کو ، آگے بڑھا کر ، ایک دوسرے کی غیر ت جگاتے پائے جاتے ہیں ۔
لیکن اگر ویسا، عمل ایسے افراد کے ساتھ ہوجائے ، ، تو کوئی ان لوگوں سے سے اس کا تذکرہ یا سوال تک نہ کرے ، کیوں کہ وہ ان کا ، پرسنل/ذاتی /نجی مسئلہ ہے ۔
مذکورہ بالا، خصوصیات ، کا شکا ر، افراد/سوسائٹی /معاشروں کی یہی حساسیت اور سوچ ہوتی ہے
ایسی فلموں یا مناظر کو ، محض ، منفی گردانتے ہیں ۔
دوسری طرف ، معاشرے کے کچھ طبقے ، ایسے بے رحمانہ فلمی مناظر کے پیچھے کی سوچ کو ، گرپ کرنے /جکڑنے یا ، سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
سٹوری لائن ، اس کو بنانے کا انداز، تکنیکی معاملات ،اس سوچ کے پیچھے کا فلسفہ ، اس پر بات ہوتی ہے ، در اصل فلم لکھنے یا بنانے والا ، دکھانا کیا چاہ رہا ہے ؟
سادہ سی بات ہے جس معاشرے میں ، جو طبقہ زیادہ ہوگا، اس پر ، فلم کا اثر اسی طرح پڑے گا ۔
پہلے والے ، صرف ٹریلر دیکھ کر اس کے خلاف انسانیت زدگی شروع کردیں گے
دوسرے والے ، پوری دیکھ کر ، بھی اس کا اثر ، لے کر ، سوال اٹھائیں گے کہ کیوں کیا کب کیسے فائدہ کیا ہوا، ایسا کیوں کیا گیا ، وغیرہ وغیرہ ۔، نہ کہ منظر اور انداز پر ۔
جب آپ کی حساسیت کا یہ عالم ہو کہ آپ کو ، لکھئے ہوئے میں لہجہ سنائی دیتا ہو۔۔ تو پھر اتنی خوفناک یا کاٹ پیٹ والی فلم ، آپ کے شعوری معدے کے لیے ، نہیں بنی ۔
عمر کے لحاظ سے، لوگوں کے اذہان پر اس کا فرق، یعنی دیکھنی چاہئے ، یا نہیں دیکھنی چاہئے
چھوٹے بچے/نابالغ بالکل نہ دیکھیں ۔
پچیس سے چالیس والے بھی دیکھنے سے پہلے درج ذیل، سطور کا مشاہدہ فرمائیں
چالیس کے بعد والے ، افراد اگر ، ہلکی آنچ کے گلابی سے نہ ہوں تو، ان کے لیے یہ مضمون ویسے ہی بےکار ہے ، کیوں کہ ، چالیس کے بعد بھی ، بندے کو ، اگر پتا نہ ہو ، کہ میں نے کیا دیکھناہے ، اور کیا نہیں ۔۔ تو پھر۔۔۔۔ خیر ۔۔
یہ فلم ، صنفی تفریق سے کافی زیادہ بالاتر ہے ، کیونکہ اکثر اوقات بہت سے بظاہر کرخت اصحاب ، اور ماچومین دکھنے والے افراد بھی اس فلم کے اندر دکھائے گئے مناظر کو یہ جانتے ہوئے بھی ، کہ یہ مناظر ، صرف سپیشل فیکٹ ہے جیسا دکھایا جارہا ہےایسا کچھ نہیں ہے، نہیں دیکھ پاتے دے ۔
بھی کبھار ایسی خواتین جو بظاہر بہت نازک اور بہت بہت حساس محسوس ہوتی ہیں، وہ ایسی فلموں اور ایسے مراحل ،کو کھانا کھاتے ہوئے بھی دیکھ لیتی ہیں۔تو اس میں ، عمروں اور جنس کے کا تفاوت سے قطع نظر ، یہ دیکھنا پڑے گا کہ ، کہ دیکھنے والا کس لیےا سے دیکھ رہا ہےکیا وہ فلم میں کی ٹیکنیک اس میں ، سجھائی گئی ، سوچ ، پر فوکس ہے کہ دکھانے والا۔ بنانے والا ۔لکھنے والا ۔دکھانا کیا چاہ رہا ہے ، یا پھر وہ سامنے آتے مناظر، کو دیکھ کر ، ان مناظر کی ، ظاہر، غلاظت ، خوفناکی ، قساوت قلبی ، میں قید ہو کر ، سوچنے سمجھنے سے عاری ہوجاتا ہے ؟ اگر آپ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے، ہلکے سے گلابی ہیں ، یعنی کمزور اعصاب کے ہیں ، تو پھر بالکل مت دیکھئے یے لیکن جسمانی طور پر کمزور ہی سہی ، پر ،اعصابی طور پر ، مضبوط ہیں ، اور ، احساسات کی ذیابطیس کا شکار نہیں ، اور فلم لکھنے والے, بنانے والے ,دکھانے والے ,کو سمجھنا چاہتے ہیں اس کا نظریہ سوچنا چاہتے ہیں ، تو اس فلم کو ضرور دیکھئے ، شاید آپ کا ، فلم میکنگ / واچنگ کے موجودہ ، نظریہ ، یکسر تبدیل ہو کر رہ جائے ۔
0 notes
Text
آشا پاریکھ کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا
مرمو نے کہا کہ فلموں کا نوجوانوں اور بچوں پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ اس لیے معاشرے کی توقع ہے کہ فلم انڈسٹری اس میڈیم کو ملک کا مستقبل بنانے کے لیے موثر طریقے سے استعمال کرے۔ #MunsifUrdu
نئی دہلی: صدر دروپدی مرمو نے کہا ہے کہ مشہور فلمی اداکارہ آشا پاریکھ کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازنا خواتین کی ناقابل تسخیر طاقت کا احترام ہے اور سنیما کی دنیا ایک بہتر معاشرے اور قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مرمو نے یہ بات جمعہ کو یہاں مختلف زمروں میں 68 ویں قومی فلم ایوارڈزکے موقع پر کہی۔ سینما کی دنیا کا سب سے باوقار اعزاز آشا پاریکھ کو دیا گیا۔ انہوں نے تمام ایوارڈ جیتنے…
View On WordPress
0 notes
Text
سادگی کا کلچر اختیار کرنا ہو گا
ہماری ریاستی ، حکمرانی سمیت تمام طبقات کے نظام میں ایک بنیادی مسئلہ سادگی کے کلچر سے دوری بھی ہے۔ ہم نے بطور معاشرہ خود بھی اپنی زندگیوں میں اپنی مشکلات پیدا کی ہیں اوراس کی وجہ ایک ایسے کلچر کو تقویت دینا ہے جو ان کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔ ایک طرف ہمارا ماتم معاشی بدحالی کا ہے تو دوسری طرف ہم بطور معاشرہ اپنے معاملات میں بڑی تبدیلی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی معاشی بحران کے تناظر میں ہم غیر معمولی اقدامات کے لیے تیار نظر آتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہم سادگی سے کیا مراد لیتے ہیں ۔ اس کی سادہ سی تعریف یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم ایسے طور طریقوں سے گریز کریں جو بے جا نمود نمائش کے زمرے میں آتے ہیں یا ہم اپنے موجود وسائل سے ہٹ کر ایسا انداز اختیار کرتے ہیں جو ہمارے لیے بوجھ بن جاتے ہیں ۔ ہمارا حکمرانی یا ریاست کا نظام ہو یا خاندان سمیت مختلف طبقات سے جڑے نظام میں ہم بڑی شدت سے نمود ونمائش کا کلچر دیکھ رہے ہیں یا اسے اپنی ضرورت بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ایک مسئلہ لوگوں کے سامنے اپنی نمود ونمائش کا بھی ہے تاکہ ہم لوگوں پر اپنا سماجی معیار دکھا کر خود کو دوسروں سے زیادہ بہتر انداز میں پیش کر سکیں ۔ اس رویہ نے عمومی طور پر معاشرے کے اندر ایک ایسی طبقاتی دوڑ بھی لگا دی ہے کہ یا تو یہ عمل ان لوگوں میں جن کے پاس کچھ نہیں ان میں مایوسی یا غصہ پیدا کرتا ہے یا وہ ان مادی چیزوں کے حصول کے لیے خود بھی ناجائز زرائع کو اختیار کر کے اسی نمود نمائش کی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔عمومی طور پر معاشر ے کے بالادست طبقات یا حکمرانی سے جڑے افراد اپنے نظام میں سادگی کا کلچر اختیار کریں تو اس کا بڑا اثر معاشرے کے مجموعی مزاج پر پڑتا ہے۔
ایک طرف رونا اس بات کا ہے کہ ہمارا معاشی نظام سنگین بحران کا شکار ہے تو دوسری طرف ریاستی اور حکومتی سطح پر وسائل کا بے دریغ استعمال اور خاص طور پر حکمرانی کے نظام میں جو شاہانہ انداز ہے وہ ہمارے داخلی تضاد کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے ۔ صدر، وزیر اعظم ، وزرائے اعلی ، گورنر، وزرا کے دفاتر اورگھروں کے سرکاری اخراجات کی تفصیل ہی کو دیکھ لیں تو ہمیں سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارا داخلی تضاد کیا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے سالانہ ایوان وزیر اعظم کے اخراجات میں سابقہ حکمرانوں کے مقابلے میں کمی کو عملا یقینی بنا کر اچھی مثال قائم کی ، لیکن دوسری طرف ایوان صدر، ایوان وزرائے اعلی اور گورنر ہاوسز کے اخراجات میں ہمیں کوئی بڑی تبدیلی کا عمل دیکھنے کو نہیں مل سکا اور ماشااللہ ان کو دی جانیوالی سہولیات اور مراعات ہی دیکھیں تو دکھ ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔
ہمارے سماجی معاملات کا حال بھی دیکھیں تو یہاں بھی کافی تضادات ہیں۔ ہمارے کھانے ، پہنے ، تفریح اور زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ہم بہت آگے نکل گئے ہیں ۔ ہمارے کھانوں کی مجالس میں جو شاہانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے وہ خود قابل مذمت ہے ۔ یہاں تک کہ علمائے کرام کی محفلوں میں بھی سادگی کے کلچر کا بدترین مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ ہم معاشرے میں تربیت کا اوپر سے لے کر نیچے تک ایسا نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو لوگوں میں ایک سادہ زندگی یا سادگی کے کلچر کو تقویت دے سکے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے میڈیا میں بھی جو کچھ ڈراموں ، فلموں یا کمرشل اشتہارات کے نام پر دکھایا جارہا ہے وہ بھی معاشرے میں موجود طبقات میں سادگی کے کلچر کی نفی کرتا ہے ۔ اب وہ زمانہ گیا جب ہم اپنے ڈراموں اور فلموں کی بنیاد کو اصلاح کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔
اب جو کمرشلزم کی ڈور ہے اس میں نمود نمائش یا گلیمرائزیشن کے کلچر کو زیادہ طاقت ملی ہے ۔ ہمارے ہاں بڑے اور اچھے لوگوں کا معیار بھی اس بیماری کا شکار ہو گیا ہے کہ کون کتنا رکھتا ہے اور کتنا لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ جو لوگ اب معاشرے میں سادگی کے کلچر کی بات کرتے ہیں تو ان کو پرانے زمانے کے فرسودہ خیالات کی بنیاد پر رد کیا جاتا ہے۔ جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ لوگ اپنی چادر دیکھ کر اپنے پاؤں پھیلائیں تو اس کی بھی سماجی عمل میں مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اب معاشرے کا چال چلن بدل گیا ہے اور اگر ہم نے آج کے دور کیمطابق خود کو نہ ڈھالا تو ہم معاشرے میں پیچھے رہ جائیں گے اور ہمیں بڑے طبقات میں زیادہ عزت نہیں مل سکے گی ۔ یعنی عزت کا معیار نمود نمائش یا بے جا اخراجات یا پیسے کے ضیاع سے دیکھا جاتا ہے ، جو خود بڑا المیہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے معاشرے میں نمود نمائش کے مقابلے میں سادگی کے کلچر کو طاقت دی جاسکے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہو گا اور نہ ہی یہ کسی ایک فریق پر ڈالا جاسکتا ہے ۔ یہ پورا نظام اپنی تربیت کے نظام میں ایک بڑی اصلاح چاہتا ہے اور یہ کام ڈنڈے کے زور کے مقابلے میں سیاسی ، سماجی اور اخلاقی شعور کی مدد سے ہی ممکن ہے۔ بڑی تربیت گاہ تو خاندان اور تعلیم کے نظام سے ہی جڑا ہوا ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا عمل بہت پیچھے رہ گیا ہے اور لگتا ہے کہ افراد کی عملی تربیت اور معاشرے میں اس کی نمایاں جھلک ہماری ترجیحات کا ایجنڈا نہی۔ سیاسی جماعتیں ، قیادت، میڈیا ، اہل دانش یا رائے عامہ کو عملا بنانے والے افراد یا ادارے سادگی کے کلچر کو بنیاد بنا کر کچھ عملی طور پر کرنے کے لیے تیار نہیں۔
سلمان عابد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں
پرفارمنگ آرٹس معاشرے کا اہم ترین شعبہ ہے۔ فنکار اپنے فن کے ذریعے معاشرے کو نہ صرف تفریح مہیا کرتے ہیں بلکہ معاشرتی ثقافتی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی ترقی اور تنوع نے فنکاروں کی معاشرتی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ فنکار محض اپنے شعبہ میں کام کرنے تک محدود نہیں رہے۔ فنکار معاشرتی سرگرمیوں اور ان کے ذریعے سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا نہ صرف اہم حصہ بلکہ محرک بن چکے ہیں۔ فنکاروں کی بڑھتی ہوئی معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اہمیت نے ان کو سلیبرٹی کا درجہ دے دیا ہے۔ فنکار رائے عامہ کو متحرک، اثر انداز اور ہموار کرنے کے لیے اہم ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی معاشروں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں میڈیا کا ��ردار بڑھتا جا رہا ہے۔ میڈیا کے اس کردار نے فنکاروں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں فنکار زندگی کے قریباً تمام شعبہ جات میں متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست بھی ایک ایسا سماجی شعبہ ہے جس میں فنکاروں نے اپنا نام اور مقام بنایا ہے، اگر دنیا بھر کے فلمی مراکز کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فلم سے وابستہ اداکار اور اداکارائیں ہمیشہ ہی سیاست کے میدان میں متحرک رہے ہیں۔ فلم کے علاوہ ٹی وی، تھیٹر اور فن موسیقی سے وابستہ فنکاروں نے بھی سیاست کے میدان میں خاطر خواہ کامیابی��ں سمیٹی ہیں۔
موجودہ دور میں فنکاروں کی شمولیت انتخابی اور سیاسی مہم کا اہم ترین جزو ہے۔ فنکار نہ صرف خود سیاسی عمل میں بھر پور حصہ لیتے ہیں بلکہ اپنے پسندیدہ سیاسی رہنمائوں اور امیدواروں کی بھر پور تائید بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی موجودگی نے فنکاروں کے لیے سیاسی عمل میں شمولیت اور شرکت مزید آسان بنا دی ہے۔ دنیا بھر میں فنکار اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے سے سیاسی امیدواروں کی حمایت میں پوسٹس، ٹویٹس، تصاویر اور وڈیوز شئیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فنکار اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں اور جلسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں گلوکار اپنے پسندیدہ سیاسی امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کی مہم کے لیے سیاسی نغمات بھی ریکارڈ کراتے ہیں۔ سیاست میں فنکاروں کی کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ فنکار صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر اور رکن پارلیمنٹ بھی بنے ہیں۔ یہ کامیابیاں ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان میں بھی سیاست کے میدان میں متحرک فنکاروں کی فہرست کافی طویل ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں کئی فنکار اور گلوکار خاصے سرگرم ہیں۔
گلوکار جواد احمد نے اپنی نئی سیاسی جماعت پاکستان برابری پارٹی کی بنیاد رکھی ہے۔ جواد احمد25جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح گلوکار ابرارالحق بھی سیاست میں خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں اور نارووال سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ معروف اداکار ایوب کھوسہ پاکستان پیپلز پارٹی میں خاصے متحرک ہیں، اگر ماضی کی بات کی جائے تو اداکارہ کنول رکن پنجاب اسمبلی اور اداکار و میزبان طارق عزیز قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ دونوں نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سیاست میں حصہ لیا۔
ماضی میں اداکار محمد علی اور مصطفیٰ قریشی بھی سیاست میں خاصے متحرک رہے ہیں، اگر گلوکاروں کی بات کی جائے تو قریباً تمام مقبول گلوکار مختلف سیاسی جماعتوں کے لیے نغمات کی ریکارڈنگ میں مصروف ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہالی ووڈ کے فنکاروں نے سیاست کے میدان میں بھی سب سے زیادہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ امریکہ کے چالیسویں صدر بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے رونلڈ ریگن امریکی فلموں کے کامیاب ہیرو تھے۔ رونلڈ ریگن20 جنوری 1981 سے20جنوری 1989 تک امریکہ کے صدر رہے۔ اس سے قبل ریگن1967 سے 1975تک ریاست کیلیفورنیا کے33ویں گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ ریگن نے سیاسی میدان میں کامیابیاں رپبلکن پارٹی کی سپورٹ سے حاصل کیں۔ ریگن نے کچھ عرصہ ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کیے رکھی۔ ریگن کو اپنے سیاسی کیرئیر میں کنزرویٹو خیالات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ریگن نے اقتصادی اصلاحات کیں اور امریکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے اقدامات کیے۔
ریگن کی صدارت کے دوران سب سے بڑا چیلنج سرد جنگ تھا۔ ریگن نے صدر رچڑڈ نکسن کی پالیسی کے برخلاف امریکی فوجی طاقت کو سوویت یونین کی طاقت کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ ریگن نے اپنے فنی سفر کے دوران فلموں کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بھی کام کیا۔ ریگن نے بطور اداکار اسی سے زائد فلموں، ٹی وی سیریز اور تھیٹر ڈراموں میں کام کیا۔ ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں کے مشہور ہیرو آرنلڈ شواز نیگر 2003 سے2011 تک ریاست کیلیفورنیا کے گورنر رہے۔ آرنلڈ کو رپبلیکن پارٹی کی تائید حاصل تھی۔ آرنلڈ کا سیاسی سفر تنازعات کی زد میں بھی رہا۔ علاوہ ازیں امریکی کانگرس کے رکن بین جونز، سینیٹر ال فرینکن، سینیٹر سٹیفن پیس، سینٹر شیلا کوہل، گورنر کنیکٹیکٹ جان ڈیوس لوج، سینٹر جارج مرفی سمیت کئی اداکار امریکی سیاست کے میدان میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔
بالی ووڈ کے اداکار اور اداکارائیں بھی سیاست کے میدان میں خاصے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ جیا للیتا ہندوستانی سیاست میں سب سے کامیاب اداکارہ ہیں۔جیا للیتا2015سے 2016تک ریاست تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ بھی رہیں۔ اس طرح فنی میدان میں بھی جیا للیتا تیلگو فلموں کی کامیاب ہیروئن تھی۔ فلموں میں اداکاری پر جیا للیتا کو کئی ایوارڈز بھی ملے۔ اسی طرح این ٹی رائو 1983 سے 1984تک ریاست آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ رہے۔ این ٹی رائو مدراسی سینما کا ایک معروف نام ہے۔ بالی وڈ کے کئی ستارے ہندوستانی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔ ان میں امیتابھ بچن، جیا بچن، راج ببر، ہیما مالنی، شترو گن سنہا، جاوید جعفری، گو وندا، کرن کھیر، متھن چکر وتی، موہن بابو، پریش راول، سنیل دت، شبانہ اعظمی، ونود کھنہ اور دیگر کئی نام شامل ہیں۔
اس طرح پولینڈ کے صدر لیک کیسنی زسکی اور منیلا کے صدر جوزف ایسترادا بھی اداکاری کے میدان میں نام بنا چکے ہیں۔ فلپائن کی سیاست میں اداکاروں کی ایک بڑی تعداد متحرک رہی ہے۔تھائی لینڈ، رشیا، ارجنٹائن، برازیل، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، میکسیکو، نیدرلینڈ، پولینڈ اور برطانیہ وہ ممالک ہیں جہاں پر سیاست میں اداکاروں نے اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر خاصا نام کمایا اور اپنی شناخت بنائی۔
The post فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MRMIWU via Today Pakistan
0 notes
Text
فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں
پرفارمنگ آرٹس معاشرے کا اہم ترین شعبہ ہے۔ فنکار اپنے فن کے ذریعے معاشرے کو نہ صرف تفریح مہیا کرتے ہیں بلکہ معاشرتی ثقافتی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی ترقی اور تنوع نے فنکاروں کی معاشرتی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ فنکار محض اپنے شعبہ میں کام کرنے تک محدود نہیں رہے۔ فنکار معاشرتی سرگرمیوں اور ان کے ذریعے سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا نہ صرف اہم حصہ بلکہ محرک بن چکے ہیں۔ فنکاروں کی بڑھتی ہوئی معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اہمیت نے ان کو سلیبرٹی کا درجہ دے دیا ہے۔ فنکار رائے عامہ کو متحرک، اثر انداز اور ہموار کرنے کے لیے اہم ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی معاشروں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں میڈیا کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ میڈیا کے اس کردار نے فنکاروں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں فنکار زندگی کے قریباً تمام شعبہ جات میں متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست بھی ایک ایسا سماجی شعبہ ہے جس میں فنکاروں نے اپنا نام اور مقام بنایا ہے، اگر دنیا بھر کے فلمی مراکز کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فلم سے وابستہ اداکار اور اداکارائیں ہمیشہ ہی سیاست کے میدان میں متحرک رہے ہیں۔ فلم کے علاوہ ٹی وی، تھیٹر اور فن موسیقی سے وابستہ فنکاروں نے بھی سیاست کے میدان میں خاطر خواہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔
موجودہ دور میں فنکاروں کی شمولیت انتخابی اور سیاسی مہم کا اہم ترین جزو ہے۔ فنکار نہ صرف خود سیاسی عمل میں بھر پور حصہ لیتے ہیں بلکہ اپنے پسندیدہ سیاسی رہنمائوں اور امیدواروں کی بھر پور تائید بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی موجودگی نے فنکاروں کے لیے سیاسی عمل میں شمولیت اور شرکت مزید آسان بنا دی ہے۔ دنیا بھر میں فنکار اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے سے سیاسی امیدواروں کی حمایت میں پوسٹس، ٹویٹس، تصاویر اور وڈیوز شئیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فنکار اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں اور جلسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں گلوکار اپنے پسندیدہ سیاسی امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کی مہم کے لیے سیاسی نغمات بھی ریکارڈ کراتے ہیں۔ سیاست میں فنکاروں کی کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ فنکار صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر اور رکن پارلیمنٹ بھی بنے ہیں۔ یہ کامیابیاں ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان میں بھی سیاست کے میدان میں متحرک فنکاروں کی فہرست کافی طویل ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں کئی فنکار اور گلوکار خاصے سرگرم ہیں۔
گلوکار جواد احمد نے اپنی نئی سیاسی جماعت پاکستان برابری پارٹی کی بنیاد رکھی ہے۔ جواد احمد25جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح گلوکار ابرارالحق بھی سیاست میں خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں اور نارووال سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ معروف اداکار ایوب کھوسہ پاکستان پیپلز پارٹی میں خاصے متحرک ہیں، اگر ماضی کی بات کی جائے تو اداکارہ کنول رکن پنجاب اسمبلی اور اداکار و میزبان طارق عزیز قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ دونوں نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سیاست میں حصہ لیا۔
ماضی میں اداکار محمد علی اور مصطفیٰ قریشی بھی سیاست میں خاصے متحرک رہے ہیں، اگر گلوکاروں کی بات کی جائے تو قریباً تمام مقبول گلوکار مختلف سیاسی جماعتوں کے لیے نغمات کی ریکارڈنگ میں مصروف ہیں۔ بین الاقوام�� سطح پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہالی ووڈ کے فنکاروں نے سیاست کے میدان میں بھی سب سے زیادہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ امریکہ کے چالیسویں صدر بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے رونلڈ ریگن امریکی فلموں کے کامیاب ہیرو تھے۔ رونلڈ ریگن20 جنوری 1981 سے20جنوری 1989 تک امریکہ کے صدر رہے۔ اس سے قبل ریگن1967 سے 1975تک ریاست کیلیفورنیا کے33ویں گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ ریگن نے سیاسی میدان میں کامیابیاں رپبلکن پارٹی کی سپورٹ سے حاصل کیں۔ ریگن نے کچھ عرصہ ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کیے رکھی۔ ریگن کو اپنے سیاسی کیرئیر میں کنزرویٹو خیالات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ریگن نے اقتصادی اصلاحات کیں اور امریکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے اقدامات کیے۔
ریگن کی صدارت کے دوران سب سے بڑا چیلنج سرد جنگ تھا۔ ریگن نے صدر رچڑڈ نکسن کی پالیسی کے برخلاف امریکی فوجی طاقت کو سوویت یونین کی طاقت کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ ریگن نے اپنے فنی سفر کے دوران فلموں کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بھی کام کیا۔ ریگن نے بطور اداکار اسی سے زائد فلموں، ٹی وی سیریز اور تھیٹر ڈراموں میں کام کیا۔ ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں کے مشہور ہیرو آرنلڈ شواز نیگر 2003 سے2011 تک ریاست کیلیفورنیا کے گورنر رہے۔ آرنلڈ کو رپبلیکن پارٹی کی تائید حاصل تھی۔ آرنلڈ کا سیاسی سفر تنازعات کی زد میں بھی رہا۔ علاوہ ازیں امریکی کانگرس کے رکن بین جونز، سینیٹر ال فرینکن، سینیٹر سٹیفن پیس، سینٹر شیلا کوہل، گورنر کنیکٹیکٹ جان ڈیوس لوج، سینٹر جارج مرفی سمیت کئی اداکار امریکی سیاست کے میدان میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔
بالی ووڈ کے اداکار اور اداکارائیں بھی سیاست کے میدان میں خاصے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ جیا للیتا ہندوستانی سیاست میں سب سے کامیاب اداکارہ ہیں۔جیا للیتا2015سے 2016تک ریاست تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ بھی رہیں۔ اس طرح فنی میدان میں بھی جیا للیتا تیلگو فلموں کی کامیاب ہیروئن تھی۔ فلموں میں اداکاری پر جیا للیتا کو کئی ایوارڈز بھی ملے۔ اسی طرح این ٹی رائو 1983 سے 1984تک ریاست آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ رہے۔ این ٹی رائو مدراسی سینما کا ایک معروف نام ہے۔ بالی وڈ کے کئی ستارے ہندوستانی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔ ان میں امیتابھ بچن، جیا بچن، راج ببر، ہیما مالنی، شترو گن سنہا، جاوید جعفری، گو وندا، کرن کھیر، متھن چکر وتی، موہن بابو، پریش راول، سنیل دت، شبانہ اعظمی، ونود کھنہ اور دیگر کئی نام شامل ہیں۔
اس طرح پولینڈ کے صدر لیک کیسنی زسکی اور منیلا کے صدر جوزف ایسترادا بھی اداکاری کے میدان میں نام بنا چکے ہیں۔ فلپائن کی سیاست میں اداکاروں کی ایک بڑی تعداد متحرک رہی ہے۔تھائی لینڈ، رشیا، ارجنٹائن، برازیل، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، میکسیکو، نیدرلینڈ، پولینڈ اور برطانیہ وہ ممالک ہیں جہاں پر سیاست میں اداکاروں نے اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر خاصا نام کمایا اور اپنی شناخت بنائی۔
The post فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MRMIWU via India Pakistan News
0 notes
Text
فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں
پرفارمنگ آرٹس معاشرے کا اہم ترین شعبہ ہے۔ فنکار اپنے فن کے ذریعے معاشرے کو نہ صرف تفریح مہیا کرتے ہیں بلکہ معاشرتی ثقافتی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی ترقی اور تنوع نے فنکاروں کی معاشرتی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ فنکار محض اپنے شعبہ میں کام کرنے تک محدود نہیں رہے۔ فنکار معاشرتی سرگرمیوں اور ان کے ذریعے سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا نہ صرف اہم حصہ بلکہ محرک بن چکے ہیں۔ فنکاروں کی بڑھتی ہوئی معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اہمیت نے ان کو سلیبرٹی کا درجہ دے دیا ہے۔ فنکار رائے عامہ کو متحرک، اثر انداز اور ہموار کرنے کے لیے اہم ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی معاشروں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں میڈیا کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ میڈیا کے اس کردار نے فنکاروں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں فنکار زندگی کے قریباً تمام شعبہ جات میں متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست بھی ایک ایسا سماجی شعبہ ہے جس میں فنکاروں نے اپنا نام اور مقام بنایا ہے، اگر دنیا بھر کے فلمی مراکز کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فلم سے وابستہ اداکار اور اداکارائیں ہمیشہ ہی سیاست کے میدان میں متحرک رہے ہیں۔ فلم کے علاوہ ٹی وی، تھیٹر اور فن موسیقی سے وابستہ فنکاروں نے بھی سیاست کے میدان میں خاطر خواہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔
موجودہ دور میں فنکاروں کی شمولیت انتخابی اور سیاسی مہم کا اہم ترین جزو ہے۔ فنکار نہ صرف خود سیاسی عمل میں بھر پور حصہ لیتے ہیں بلکہ اپنے پسندیدہ سیاسی رہنمائوں اور امیدواروں کی بھر پور تائید بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی موجودگی نے فنکاروں کے لیے سیاسی عمل میں شمولیت اور شرکت مزید آسان بنا دی ہے۔ دنیا بھر میں فنکار اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے سے سیاسی امیدواروں کی حمایت میں پوسٹس، ٹویٹس، تصاویر اور وڈیوز شئیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فنکار اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں اور جلسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں گلوکار اپنے پسندیدہ سیاسی امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کی مہم کے لیے سیاسی نغمات بھی ریکارڈ کراتے ہیں۔ سیاست میں فنکاروں کی کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ فنکار صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر اور رکن پارلیمنٹ بھی بنے ہیں۔ یہ کامیابیاں ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان میں بھی سیاست کے میدان میں متحرک فنکاروں کی فہرست کافی طویل ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں کئی فنکار اور گلوکار خاصے سرگرم ہیں۔
گلوکار جواد احمد نے اپنی نئی سیاسی جماعت پاکستان برابری پارٹی کی بنیاد رکھی ہے۔ جواد احمد25جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح گلوکار ابرارالحق بھی سیاست میں خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں اور نارووال سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ معروف اداکار ایوب کھوسہ پاکستان پیپلز پارٹی میں خاصے متحرک ہیں، اگر ماضی کی بات کی جائے تو اداکارہ کنول رکن پنجاب اسمبلی اور اداکار و میزبان طارق عزیز قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ دونوں نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سیاست میں حصہ لیا۔
ماضی میں اداکار محمد علی اور مصطفیٰ قریشی بھی سیاست میں خاصے متحرک رہے ہیں، اگر گلوکاروں کی بات کی جائے تو قریباً تمام مقبول گلوکار مختلف سیاسی جماعتوں کے لیے نغمات کی ریکارڈنگ میں مصروف ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہالی ووڈ کے فنکاروں نے سیاست کے میدان میں بھی سب سے زیادہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ امریکہ کے چالیسویں صدر بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے رونلڈ ریگن امریکی فلموں کے کامیاب ہیرو تھے۔ رونلڈ ریگن20 جنوری 1981 سے20جنوری 1989 تک امریکہ کے صدر رہے۔ اس سے قبل ریگن1967 سے 1975تک ریاست کیلیفورنیا کے33ویں گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ ریگن نے سیاسی میدان میں کامیابیاں رپبلکن پارٹی کی سپورٹ سے حاصل کیں۔ ریگن نے کچھ عرصہ ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کیے رکھی۔ ریگن کو اپنے سیاسی کیرئیر میں کنزرویٹو خیالات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ریگن نے اقتصادی اصلاحات کیں اور امریکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے اقدامات کیے۔
ریگن کی صدارت کے دوران سب سے بڑا چیلنج سرد جنگ تھا۔ ریگن نے صدر رچڑڈ نکسن کی پالیسی کے برخلاف امریکی فوجی طاقت کو سوویت یونین کی طاقت کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ ریگن نے اپنے فنی سفر کے دوران فلموں کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بھی کام کیا۔ ریگن نے بطور اداکار اسی سے زائد فلموں، ٹی وی سیریز اور تھیٹر ڈراموں میں کام کیا۔ ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں کے مشہور ہیرو آرنلڈ شواز نیگر 2003 سے2011 تک ریاست کیلیفورنیا کے گورنر رہے۔ آرنلڈ کو رپبلیکن پارٹی کی تائید حاصل تھی۔ آرنلڈ کا سیاسی سفر تنازعات کی زد میں بھی رہا۔ علاوہ ازیں امریکی کانگرس کے رکن بین جونز، سینیٹر ال فرینکن، سینیٹر سٹیفن پیس، سینٹر شیلا کوہل، گورنر کنیکٹیکٹ جان ڈیوس لوج، سینٹر جارج مرفی سمیت کئی اداکار امریکی سیاست کے میدان میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔
بالی ووڈ کے اداکار اور اداکارائیں بھی سیاست کے میدان میں خاصے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ جیا للیتا ہندوستانی سیاست میں سب سے کامیاب اداکارہ ہیں۔جیا للیتا2015سے 2016تک ریاست تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ بھی رہیں۔ اس طرح فنی میدان میں بھی جیا للیتا تیلگو فلموں کی کامیاب ہیروئن تھی۔ فلموں میں اداکاری پر جیا للیتا کو کئی ایوارڈز بھی ملے۔ ��سی طرح این ٹی رائو 1983 سے 1984تک ریاست آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ رہے۔ این ٹی رائو مدراسی سینما کا ایک معروف نام ہے۔ بالی وڈ کے کئی ستارے ہندوستانی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔ ان میں امیتابھ بچن، جیا بچن، راج ببر، ہیما مالنی، شترو گن سنہا، جاوید جعفری، گو وندا، کرن کھیر، متھن چکر وتی، موہن بابو، پریش راول، سنیل دت، شبانہ اعظمی، ونود کھنہ اور دیگر کئی نام شامل ہیں۔
اس طرح پولینڈ کے صدر لیک کیسنی زسکی اور منیلا کے صدر جوزف ایسترادا بھی اداکاری کے میدان میں نام بنا چکے ہیں۔ فلپائن کی سیاست میں اداکاروں کی ایک بڑی تعداد متحرک رہی ہے۔تھائی لینڈ، رشیا، ارجنٹائن، برازیل، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، میکسیکو، نیدرلینڈ، پولینڈ اور برطانیہ وہ ممالک ہیں جہاں پر سیاست میں اداکاروں نے اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر خاصا نام کمایا اور اپنی شناخت بنائی۔
The post فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MRMIWU via Daily Khabrain
0 notes
Text
فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں
پرفارمنگ آرٹس معاشرے کا اہم ترین شعبہ ہے۔ فنکار اپنے فن کے ذریعے معاشرے کو نہ صرف تفریح مہیا کرتے ہیں بلکہ معاشرتی ثقافتی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی ترقی اور تنوع نے فنکاروں کی معاشرتی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ فنکار محض اپنے شعبہ میں کام کرنے تک محدود نہیں رہے۔ فنکار معاشرتی سرگرمیوں اور ان کے ذریعے سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا نہ صرف اہم حصہ بلکہ محرک بن چکے ہیں۔ فنکاروں کی بڑھتی ہوئی معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اہمیت نے ان کو سلیبرٹی کا درجہ دے دیا ہے۔ فنکار رائے عامہ کو متحرک، اثر انداز اور ہموار کرنے کے لیے اہم ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی معاشروں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں میڈیا کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ میڈیا کے اس کردار نے فنکاروں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں فنکار زندگی کے قریباً تمام شعبہ جات میں متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست بھی ایک ایسا سماجی شعبہ ہے جس میں فنکاروں نے اپنا نام اور مقام بنایا ہے، اگر دنیا بھر کے فلمی مراکز کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فلم سے وابستہ اداکار اور اداکارائیں ہمیشہ ہی سیاست کے میدان میں متحرک رہے ہیں۔ فلم کے علاوہ ٹی وی، تھیٹر اور فن موسیقی سے وابستہ فنکاروں نے بھی سیاست کے میدان میں خاطر خواہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔
موجودہ دور میں فنکاروں کی شمولیت انتخابی اور سیاسی مہم کا اہم ترین جزو ہے۔ فنکار نہ صرف خود سیاسی عمل میں بھر پور حصہ لیتے ہیں بلکہ اپنے پسندیدہ سیاسی رہنمائوں اور امیدواروں کی بھر پور تائید بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی موجودگی نے فنکاروں کے لیے سیاسی عمل میں شمولیت اور شرکت مزید آسان بنا دی ہے۔ دنیا بھر میں فنکار اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے سے سیاسی امیدواروں کی حمایت میں پوسٹس، ٹویٹس، تصاویر اور وڈیوز شئیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فنکار اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں اور جلسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں گلوکار اپنے پسندیدہ سیاسی امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کی مہم کے لیے سیاسی نغمات بھی ریکارڈ کراتے ہیں۔ سیاست میں فنکاروں کی کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ فنکار صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر اور رکن پارلیمنٹ بھی بنے ہیں۔ یہ کامیابیاں ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان میں بھی سیاست کے میدان میں متحرک فنکاروں کی فہرست کافی طویل ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں کئی فنکار اور گلوکار خاصے سرگرم ہیں۔
گلوکار جواد احمد نے اپنی نئی سیاسی جماعت پاکستان برابری پارٹی کی بنیاد رکھی ہے۔ جواد احمد25جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح گلوکار ابرارالحق بھی سیاست میں خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں اور نارووال سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ معروف اداکار ایوب کھوسہ پاکستان پیپلز پارٹی میں خاصے متحرک ہیں، اگر ماضی کی بات کی جائے تو اداکارہ کنول رکن پنجاب اسمبلی اور اداکار و میزبان طارق عزیز قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ دونوں نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سیاست میں حصہ لیا۔
ماضی میں اداکار محمد علی اور مصطفیٰ قریشی بھی سیاست میں خاصے متحرک رہے ہیں، اگر گلوکاروں کی بات کی جائے تو قریباً تمام مقبول گلوکار مختلف سیاسی جماعتوں کے لیے نغمات کی ریکارڈنگ میں مصروف ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہالی ووڈ کے فنکاروں نے سیاست کے میدان میں بھی سب سے زیادہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ امریکہ کے چالیسویں صدر بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے رونلڈ ریگن امریکی فلموں کے کامیاب ہیرو تھے۔ رونلڈ ریگن20 جنوری 1981 سے20جنوری 1989 تک امریکہ کے صدر رہے۔ اس سے قبل ریگن1967 سے 1975تک ریاست کیلیفورنیا کے33ویں گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ ریگن نے سیاسی میدان میں کامیابیاں رپبلکن پارٹی کی سپورٹ سے حاصل کیں۔ ریگن نے کچھ عرصہ ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کیے رکھی۔ ریگن کو اپنے سیاسی کیرئیر میں کنزرویٹو خیالات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ریگن نے اقتصادی اصلاحات کیں اور امریکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے اقدامات کیے۔
ریگن کی صدارت کے دوران سب سے بڑا چیلنج سرد جنگ تھا۔ ریگن نے صدر رچڑڈ نکسن کی پالیسی کے برخلاف امریکی فوجی طاقت کو سوویت یونین کی طاقت کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ ریگن نے اپنے فنی سفر کے دوران فلموں کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بھی کام کیا۔ ریگن نے بطور اداکار اسی سے زائد فلموں، ٹی وی سیریز اور تھیٹر ڈراموں میں کام کیا۔ ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں کے مشہور ہیرو آرنلڈ شواز نیگر 2003 سے2011 تک ریاست کیلیفورنیا کے گورنر رہے۔ آرنلڈ کو رپبلیکن پارٹی کی تائید حاصل تھی۔ آرنلڈ کا سیاسی سفر تنازعات کی زد میں بھی رہا۔ علاوہ ازیں امریکی کانگرس کے رکن بین جونز، سینیٹر ال فرینکن، سینیٹر سٹیفن پیس، سینٹر شیلا کوہل، گورنر کنیکٹیکٹ جان ڈیوس لوج، سینٹر جارج مرفی سمیت کئی اداکار امریکی سیاست کے میدان میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔
بالی ووڈ کے اداکار اور اداکارائیں بھی سیاست کے میدان میں خاصے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ جیا للیتا ہندوستانی سیاست میں سب سے کامیاب اداکارہ ہیں۔جیا للیتا2015سے 2016تک ریاست تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ بھی رہیں۔ اس طرح فنی میدان میں بھی جیا للیتا تیلگو فلموں کی کامیاب ہیروئن تھی۔ فلموں میں اداکاری پر جیا للیتا کو کئی ایوارڈز بھی ملے۔ اسی طرح این ٹی رائو 1983 سے 1984تک ریاست آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ رہے۔ این ٹی رائو مدراسی سینما کا ایک معروف نام ہے۔ بالی وڈ کے کئی ستارے ہندوستانی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔ ان میں امیتابھ بچن، جیا بچن، راج ببر، ہیما مالنی، شترو گن سنہا، جاوید جعفری، گو وندا، کرن کھیر، متھن چکر وتی، موہن بابو، پریش راول، سنیل دت، شبانہ اعظمی، ونود کھنہ اور دیگر کئی نام شامل ہیں۔
اس طرح پولینڈ کے صدر لیک کیسنی زسکی اور منیلا کے صدر جوزف ایسترادا بھی اداکاری کے میدان میں نام بنا چکے ہیں۔ فلپائن کی سیاست میں اداکاروں کی ایک بڑی تعداد متحرک رہی ہے۔تھائی لینڈ، رشیا، ارجنٹائن، برازیل، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، میکسیکو، نیدرلینڈ، پولینڈ اور برطانیہ وہ ممالک ہیں جہاں پر سیاست میں اداکاروں نے اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر خاصا نام کمایا اور اپنی شناخت بنائی۔
The post فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MRMIWU via Urdu News
0 notes
Text
فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں
پرفارمنگ آرٹس معاشرے کا اہم ترین شعبہ ہے۔ فنکار اپنے فن کے ذریعے معاشرے کو نہ صرف تفریح مہیا کرتے ہیں بلکہ معاشرتی ثقافتی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی ترقی اور تنوع نے فنکاروں کی معاشرتی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ فنکار محض اپنے شعبہ میں کام کرنے تک محدود نہیں رہے۔ فنکار معاشرتی سرگرمیوں اور ان کے ذریعے سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا نہ صرف اہم حصہ بلکہ محرک بن چکے ہیں۔ فنکاروں کی بڑھتی ہوئی معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اہمیت نے ان کو سلیبرٹی کا درجہ دے دیا ہے۔ فنکار رائے عامہ کو متحرک، اثر انداز اور ہموار کرنے کے لیے اہم ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی معاشروں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں میڈیا کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ میڈیا کے اس کردار نے فنکاروں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں فنکار زندگی کے قریباً تمام شعبہ جات میں متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست بھی ایک ایسا سماجی شعبہ ہے جس میں فنکاروں نے اپنا نام اور مقام بنایا ہے، اگر دنیا بھر کے فلمی مراکز کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فلم سے وابستہ اداکار اور اداکارائیں ہمیشہ ہی سیاست کے میدان میں متحرک رہے ہیں۔ فلم کے علاوہ ٹی وی، تھیٹر اور فن موسیقی سے وابستہ فنکاروں نے بھی سیاست کے میدان میں خاطر خواہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔
موجودہ دور میں فنکاروں کی شمولیت انتخابی اور سیاسی مہم کا اہم ترین جزو ہے۔ فنکار نہ صرف خود سیاسی عمل میں بھر پور حصہ لیتے ہیں بلکہ اپنے پسندیدہ سیاسی رہنمائوں اور امیدواروں کی بھر پور تائید بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی موجودگی نے فنکاروں کے لیے سیاسی عمل میں شمولیت اور شرکت مزید آسان بنا دی ہے۔ دنیا بھر میں فنکار اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے سے سیاسی امیدواروں کی حمایت میں پوسٹس، ٹویٹس، تصاویر اور وڈیوز شئیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فنکار اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں اور جلسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں گلوکار اپنے پسندیدہ سیاسی امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کی مہم کے لیے سیاسی نغمات بھی ریکارڈ کراتے ہیں۔ سیاست میں فنکاروں کی کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ فنکار صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر اور رکن پارلیمنٹ بھی بنے ہیں۔ یہ کامیابیاں ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان میں بھی سیاست کے میدان میں متحرک فنکاروں کی فہرست کافی طویل ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں کئی فنکار اور گلوکار خاصے سرگرم ہیں۔
گلوکار جواد احمد نے اپنی نئی سیاسی جماعت پاکستان برابری پارٹی کی بنیاد رکھی ہے۔ جواد احمد25جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح گلوکار ابرارالحق بھی سیاست میں خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں اور نارووال سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ معروف اداکار ایوب کھوسہ پاکستان پیپلز پارٹی میں خاصے متحرک ہیں، اگر ماضی کی بات کی جائے تو اداکارہ کنول رکن پنجاب اسمبلی اور اداکار و میزبان طارق عزیز قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ دونوں نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سیاست میں حصہ لیا۔
ماضی میں اداکار محمد علی اور مصطفیٰ قریشی بھی سیاست میں خاصے متحرک رہے ہیں، اگر گلوکاروں کی بات کی جائے تو قریباً تمام مقبول گلوکار مختلف سیاسی جماعتوں کے لیے نغمات کی ریکارڈنگ میں مصروف ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہالی ووڈ کے فنکاروں نے سیاست کے میدان میں بھی سب سے زیادہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ امریکہ کے چالیسویں صدر بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے رونلڈ ریگن امریکی فلموں کے کامیاب ہیرو تھے۔ رونلڈ ریگن20 جنوری 1981 سے20جنوری 1989 تک امریکہ کے صدر رہے۔ اس سے قبل ریگن1967 سے 1975تک ریاست کیلیفورنیا کے33ویں گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ ریگن نے سیاسی میدان میں کامیابیاں رپبلکن پارٹی کی سپورٹ سے حاصل کیں۔ ریگن نے کچھ عرصہ ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کیے رکھی۔ ریگن کو اپنے سیاسی کیرئیر میں کنزرویٹو خیالات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ریگن نے اقتصادی اصلاحات کیں اور امریکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے اقدامات کیے۔
ریگن کی صدارت کے دوران سب سے بڑا چیلنج سرد جنگ تھا۔ ریگن نے صدر رچڑڈ نکسن کی پالیسی کے برخلاف امریکی فوجی طاقت کو سوویت یونین کی طاقت کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ ریگن نے اپنے فنی سفر کے دوران فلموں کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بھی کام کیا۔ ریگن نے بطور اداکار اسی سے زائد فلموں، ٹی وی سیریز اور تھیٹر ڈراموں میں کام کیا۔ ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں کے مشہور ہیرو آرنلڈ شواز نیگر 2003 سے2011 تک ریاست کیلیفورنیا کے گورنر رہے۔ آرنلڈ کو رپبلیکن پارٹی کی تائید حاصل تھی۔ آرنلڈ کا سیاسی سفر تنازعات کی زد میں بھی رہا۔ علاوہ ازیں امریکی کانگرس کے رکن بین جونز، سینیٹر ال فرینکن، سینیٹر سٹیفن پیس، سینٹر شیلا کوہل، گورنر کنیکٹیکٹ جان ڈیوس لوج، سینٹر جارج مرفی سمیت کئی اداکار امریکی سیاست کے میدان میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔
بالی ووڈ کے اداکار اور اداکارائیں بھی سیاست کے میدان میں خاصے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ جیا للیتا ہندوستانی سیاست میں سب سے کامیاب اداکارہ ہیں۔جیا للیتا2015سے 2016تک ریاست تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ بھی رہیں۔ اس طرح فنی میدان میں بھی جیا للیتا تیلگو فلموں کی کامیاب ہیروئن تھی۔ فلموں میں اداکاری پر جیا للیتا کو کئی ایوارڈز بھی ملے۔ اسی طرح این ٹی رائو 1983 سے 1984تک ریاست آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ رہے۔ این ٹی رائو مدراسی سینما کا ایک معروف نام ہے۔ بالی وڈ کے کئی ستارے ہندوستانی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔ ان میں امیتابھ بچن، جیا بچن، راج ببر، ہیما مالنی، شترو گن سنہا، جاوید جعفری، گو وندا، کرن کھیر، متھن چکر وتی، موہن بابو، پریش راول، سنیل دت، شبانہ اعظمی، ونود کھنہ اور دیگر کئی نام شامل ہیں۔
اس طرح پولینڈ کے صدر لیک کیسنی زسکی اور منیلا کے صدر جوزف ایسترادا بھی اداکاری کے میدان میں نام بنا چکے ہیں۔ فلپائن کی سیاست میں اداکاروں کی ایک بڑی تعداد متحرک رہی ہے۔تھائی لینڈ، رشیا، ارجنٹائن، برازیل، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، میکسیکو، نیدرلینڈ، پولینڈ اور برطانیہ وہ ممالک ہیں جہاں پر سیاست میں اداکاروں نے اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر خاصا نام کمایا اور اپنی شناخت بنائی۔
The post فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MRMIWU via Hindi Khabrain
#pakistani urdu newspaper daily#khabrain#the hindu newspaper#punjab news#bengali news#akhbar urdu pep
0 notes
Text
فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں
پرفارمنگ آرٹس معاشرے کا اہم ترین شعبہ ہے۔ فنکار اپنے فن کے ذریعے معاشرے کو نہ صرف تفریح مہیا کرتے ہیں بلکہ معاشرتی ثقافتی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی ترقی اور تنوع نے فنکاروں کی معاشرتی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ فنکار محض اپنے شعبہ میں کام کرنے تک محدود نہیں رہے۔ فنکار معاشرتی سرگرمیوں اور ان کے ذریعے سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا نہ صرف اہم حصہ بلکہ محرک بن چکے ہیں۔ فنکاروں کی بڑھتی ہوئی معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اہمیت نے ان کو سلیبرٹی کا درجہ دے دیا ہے۔ فنکار رائے عامہ کو متحرک، اثر انداز اور ہموار کرنے کے لیے اہم ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی معاشروں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں میڈیا کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ میڈیا کے اس کردار نے فنکاروں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں فنکار زندگی کے قریباً تمام شعبہ جات میں متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست بھی ایک ایسا سماجی شعبہ ہے جس میں فنکاروں نے اپنا نام اور مقام بنایا ہے، اگر دنیا بھر کے فلمی مراکز کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فلم سے وابستہ اداکار اور اداکارائیں ہمیشہ ہی سیاست کے میدان میں متحرک رہے ہیں۔ فلم کے علاوہ ٹی وی، تھیٹر اور فن موسیقی سے وابستہ فنکاروں نے بھی سیاست کے میدان میں خاطر خواہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔
موجودہ دور میں فنکاروں کی شمولیت انتخابی اور سیاسی مہم کا اہم ترین جزو ہے۔ فنکار نہ صرف خود سیاسی عمل میں بھر پور حصہ لیتے ہیں بلکہ اپنے پسندیدہ سیاسی رہنمائوں اور امیدواروں کی بھر پور تائید بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی موجودگی نے فنکاروں کے لیے سیاسی عمل میں شمولیت اور شرکت مزید آسان بنا دی ہے۔ دنیا بھر میں فنکار اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے سے سیاسی امیدواروں کی حمایت میں پوسٹس، ٹویٹس، تصاویر اور وڈیوز شئیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فنکار اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں اور جلسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں گلوکار اپنے پسندیدہ سیاسی امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کی مہم کے لیے سیاسی نغمات بھی ریکارڈ کراتے ہیں۔ سیاست میں فنکاروں کی کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ فنکار صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر اور رکن پارلیمنٹ بھی بنے ہیں۔ یہ کامیابیاں ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان میں بھی سیاست کے میدان میں متحرک فنکاروں کی فہرست کافی طویل ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں کئی فنکار اور گلوکار خاصے سرگرم ہیں۔
گلوکار جواد احمد نے اپنی نئی سیاسی جماعت پاکستان برابری پارٹی کی بنیاد رکھی ہے۔ جواد احمد25جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح گلوکار ابرارالحق بھی سیاست میں خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں اور نارووال سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ معروف اداکار ایوب کھوسہ پاکستان پیپلز پارٹی میں خاصے متحرک ہیں، اگر ماضی کی بات کی جائے تو اداکارہ کنول رکن پنجاب اسمبلی اور اداکار و میزبان طارق عزیز قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ دونوں نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سیاست میں حصہ لیا۔
ماضی میں اداکار محمد علی اور مصطفیٰ قریشی بھی سیاست میں خاصے متحرک رہے ہیں، اگر گلوکاروں کی بات کی جائے تو قریباً تمام مقبول گلوکار مختلف سیاسی جماعتوں کے لیے نغمات کی ریکارڈنگ میں مصروف ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہالی ووڈ کے فنکاروں نے سیاست کے میدان میں بھی سب سے زیادہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ امریکہ کے چالیسویں صدر بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے رونلڈ ریگن امریکی فلموں کے کامیاب ہیرو تھے۔ رونلڈ ریگن20 جنوری 1981 سے20جنوری 1989 تک امریکہ کے صدر رہے۔ اس سے قبل ریگن1967 سے 1975تک ریاست کیلیفورنیا کے33ویں گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ ریگن نے سیاسی میدان میں کامیابیاں رپبلکن پارٹی کی سپورٹ سے حاصل کیں۔ ریگن نے کچھ عرصہ ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کیے رکھی۔ ریگن کو اپنے سیاسی کیرئیر میں کنزرویٹو خیالات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ریگن نے اقتصادی اصلاحات کیں اور امریکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے اقدامات کیے۔
ریگن کی صدارت کے دوران سب سے بڑا چیلنج سرد جنگ تھا۔ ریگن نے صدر رچڑڈ نکسن کی پالیسی کے برخلاف امریکی فوجی طاقت کو سوویت یونین کی طاقت کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ ریگن نے اپنے فنی سفر کے دوران فلموں کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بھی کام کیا۔ ریگن نے بطور اداکار اسی سے زائد فلموں، ٹی وی سیریز اور تھیٹر ڈراموں میں کام کیا۔ ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں کے مشہور ہیرو آرنلڈ شواز نیگر 2003 سے2011 تک ریاست کیلیفورنیا کے گورنر رہے۔ آرنلڈ کو رپبلیکن پارٹی کی تائید حاصل تھی۔ آرنلڈ کا سیاسی سفر تنازعات کی زد میں بھی رہا۔ علاوہ ازیں امریکی کانگرس کے رکن بین جونز، سینیٹر ال فرینکن، سینیٹر سٹیفن پیس، سینٹر شیلا کوہل، گورنر کنیکٹیکٹ جان ڈیوس لوج، سینٹر جارج مرفی سمیت کئی اداکار امریکی سیاست کے میدان میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔
بالی ووڈ کے اداکار اور اداکارائیں بھی سیاست کے میدان میں خاصے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ جیا للیتا ہندوستانی سیاست میں سب سے کامیاب اداکارہ ہیں۔جیا للیتا2015سے 2016تک ریاست تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ بھی رہیں۔ اس طرح فنی میدان میں بھی جیا للیتا تیلگو فلموں کی کامیاب ہیروئن تھی۔ فلموں میں اداکاری پر جیا للیتا کو کئی ایوارڈز بھی ملے۔ اسی طرح این ٹی رائو 1983 سے 1984تک ریاست آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ رہے۔ این ٹی رائو مدراسی سینما کا ایک معروف نام ہے۔ بالی وڈ کے کئی ستارے ہندوستانی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔ ان میں امیتابھ بچن، جیا بچن، راج ببر، ہیما مالنی، شترو گن سنہا، جاوید جعفری، گو وندا، کرن کھیر، متھن چکر وتی، موہن بابو، پریش راول، سنیل دت، شبانہ اعظمی، ونود کھنہ اور دیگر کئی نام شامل ہیں۔
اس طرح پولینڈ کے صدر لیک کیسنی زسکی اور منیلا کے صدر جوزف ایسترادا بھی اداکاری کے میدان میں نام بنا چکے ہیں۔ فلپائن کی سیاست میں اداکاروں کی ایک بڑی تعداد متحرک رہی ہے۔تھائی لینڈ، رشیا، ارجنٹائن، برازیل، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، میکسیکو، نیدرلینڈ، پولینڈ اور برطانیہ وہ ممالک ہیں جہاں پر سیاست میں اداکاروں نے اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر خاصا نام کمایا اور اپنی شناخت بنائی۔
The post فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MRMIWU via Urdu News
0 notes
Text
فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں
پرفارمنگ آرٹس معاشرے کا اہم ترین شعبہ ہے۔ فنکار اپنے فن کے ذریعے معاشرے کو نہ صرف تفریح مہیا کرتے ہیں بلکہ معاشرتی ثقافتی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی ترقی اور تنوع نے فنکاروں کی معاشرتی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ فنکار محض اپنے شعبہ میں کام کرنے تک محدود نہیں رہے۔ فنکار معاشرتی سرگرمیوں اور ان کے ذریعے سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا نہ صرف اہم حصہ بلکہ محرک بن چکے ہیں۔ فنکاروں کی بڑھتی ہوئی معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اہمیت نے ان کو سلیبرٹی کا درجہ دے دیا ہے۔ فنکار رائے عامہ کو متحرک، اثر انداز اور ہموار کرنے کے لیے اہم ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی معاشروں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں میڈیا کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ میڈیا کے اس کردار نے فنکاروں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں فنکار زندگی کے قریباً تمام شعبہ جات میں متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست بھی ایک ایسا سماجی شعبہ ہے جس میں فنکاروں نے اپنا نام اور مقام بنایا ہے، اگر دنیا بھر کے فلمی مراکز کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فلم سے وابستہ اداکار اور اداکارائیں ہمیشہ ہی سیاست کے میدان میں متحرک رہے ہیں۔ فلم کے علاوہ ٹی وی، تھیٹر اور فن موسیقی سے وابستہ فنکاروں نے بھی سیاست کے میدان میں خاطر خواہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔
موجودہ دور میں فنکاروں کی شمولیت انتخابی اور سیاسی مہم کا اہم ترین جزو ہے۔ فنکار نہ صرف خود سیاسی عمل میں بھر پور حصہ لیتے ہیں بلکہ اپنے پسندیدہ سیاسی رہنمائوں اور امیدواروں کی بھر پور تائید بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی موجودگی نے فنکاروں کے لیے سیاسی عمل میں شمولیت اور شرکت مزید آسان بنا دی ہے۔ دنیا بھر میں فنکار اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے سے سیاسی امیدواروں کی حمایت میں پوسٹس، ٹویٹس، تصاویر اور وڈیوز شئیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فنکار اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں اور جلسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں گلوکار اپنے پسندیدہ سیاسی امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کی مہم کے لیے سیاسی نغمات بھی ریکارڈ کراتے ہیں۔ سیاست میں فنکاروں کی کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ فنکار صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر اور رکن پارلیمنٹ بھی بنے ہیں۔ یہ کامیابیاں ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان میں بھی سیاست کے میدان میں متحرک فنکاروں کی فہرست کافی طویل ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں کئی فنکار اور گلوکار خاصے سرگرم ہیں۔
گلوکار جواد احمد نے اپنی نئی سیاسی جماعت پاکستان برابری پارٹی کی بنیاد رکھی ہے۔ جواد احمد25جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح گلوکار ابرارالحق بھی سیاست میں خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں اور نارووال سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ معروف اداکار ایوب کھوسہ پاکستان پیپلز پارٹی میں خاصے متحرک ہیں، اگر ماضی کی بات کی جائے تو اداکارہ کنول رکن پنجاب اسمبلی اور اداکار و میزبان طارق عزیز قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ دونوں نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سیاست میں حصہ لیا۔
ماضی میں اداکار محمد علی اور مصطفیٰ قریشی بھی سیاست میں خاصے متحرک رہے ہیں، اگر گلوکاروں کی بات کی جائے تو قریباً تمام مقبول گلوکار مختلف سیاسی جماعتوں کے لیے نغمات کی ریکارڈنگ میں مصروف ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہالی ووڈ کے فنکاروں نے سیاست کے میدان میں بھی سب سے زیادہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ امریکہ کے چالیسویں صدر بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے رونلڈ ریگن امریکی فلموں کے کامیاب ہیرو تھے۔ رونلڈ ریگن20 جنوری 1981 سے20جنوری 1989 تک امریکہ کے صدر رہے۔ اس سے قبل ریگن1967 سے 1975تک ریاست کیلیفورنیا کے33ویں گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ ریگن نے سیاسی میدان میں کامیابیاں رپبلکن پارٹی کی سپورٹ سے حاصل کیں۔ ریگن نے کچھ عرصہ ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کیے رکھی۔ ریگن کو اپنے سیاسی کیرئیر میں کنزرویٹو خیالات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ریگن نے اقتصادی اصلاحات کیں اور امریکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے اقدامات کیے۔
ریگن کی صدارت کے دوران سب سے بڑا چیلنج سرد جنگ تھا۔ ریگن نے صدر رچڑڈ نکسن کی پالیسی کے برخلاف امریکی فوجی طاقت کو سوویت یونین کی طاقت کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ ریگن نے اپنے فنی سفر کے دوران فلموں کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بھی کام کیا۔ ریگن نے بطور اداکار اسی سے زائد فلموں، ٹی وی سیریز اور تھیٹر ڈراموں میں کام کیا۔ ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں کے مشہور ہیرو آرنلڈ شواز نیگر 2003 سے2011 تک ریاست کیلیفورنیا کے گورنر رہے۔ آرنلڈ کو رپبلیکن پارٹی کی تائید حاصل تھی۔ آرنلڈ کا سیاسی سفر تنازعات کی زد میں بھی رہا۔ علاوہ ازیں امریکی کانگرس کے رکن بین جونز، سینیٹر ال فرینکن، سینیٹر سٹیفن پیس، سینٹر شیلا کوہل، گورنر کنیکٹیکٹ جان ڈیوس لوج، سینٹر جارج مرفی سمیت کئی اداکار امریکی سیاست کے میدان میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔
بالی ووڈ کے اداکار اور اداکارائیں بھی سیاست کے میدان میں خاصے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ جیا للیتا ہندوستانی سیاست میں سب سے کامیاب اداکارہ ہیں۔جیا للیتا2015سے 2016تک ریاست تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ بھی رہیں۔ اس طرح فنی میدان میں بھی جیا للیتا تیلگو فلموں کی کامیاب ہیروئن تھی۔ فلموں میں اداکاری پر جیا للیتا کو کئی ایوارڈز بھی ملے۔ اسی طرح این ٹی رائو 1983 سے 1984تک ریاست آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ رہے۔ این ٹی رائو مدراسی سینما کا ایک معروف نام ہے۔ بالی وڈ کے کئی ستارے ہندوستانی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔ ان میں امیتابھ بچن، جیا بچن، راج ببر، ہیما مالنی، شترو گن سنہا، جاوید جعفری، گو وندا، کرن کھیر، متھن چکر وتی، موہن بابو، پریش راول، سنیل دت، شبانہ اعظمی، ونود کھنہ اور دیگر کئی نام شامل ہیں۔
اس طرح پولینڈ کے صدر لیک کیسنی زسکی اور منیلا کے صدر جوزف ایسترادا بھی اداکاری کے میدان میں نام بنا چکے ہیں۔ فلپائن کی سیاست میں اداکاروں کی ایک بڑی تعداد متحرک رہی ہے۔تھائی لینڈ، رشیا، ارجنٹائن، برازیل، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، میکسیکو، نیدرلینڈ، پولینڈ اور برطانیہ وہ ممالک ہیں جہاں پر سیاست میں اداکاروں نے اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر خاصا نام کمایا اور اپنی شناخت بنائی۔
The post فن اور سیاست ہمیشہ ساتھ رہے ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MRMIWU via Urdu News
0 notes
Text
26 ویں بوسان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اپرنا سین کی 'دی ریپسٹ' کا ورلڈ پریمیئر ہوگا۔
26 ویں بوسان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اپرنا سین کی 'دی ریپسٹ' کا ورلڈ پریمیئر ہوگا۔
اس فلم میں تین مرکزی کرداروں کے سفر کو بیان کیا گیا ہے اور ایک خوفناک واقعے کی وجہ سے ان کی زندگی کیسے جڑی ہوئی ہے۔
نیشنل ایوارڈ یافتہ ہدایتکار اپرنا سین کی فلم ’’ دی ریپسٹ ‘‘ ، جس میں کنکونا سین شرما ، ارجن رامپال اور تنمے دھنانیا شامل ہیں ، 26 ویں بوسان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول (بی آئی ایف ایف) میں اس کا ورلڈ پریمیئر ہونے والا ہے۔
یہ بھی پڑھیں | سینما کی دنیا سے ہمارا ہفتہ وار نیوز لیٹر ‘پہلا دن پہلا شو’ اپنے ان باکس میں حاصل کریں۔. آپ مفت میں سبسکرائب کر سکتے ہیں۔
یہ فلم ، اپلوز انٹرٹینمنٹ نے کویسٹ فلمز پرائیویٹ کے تعاون سے تیار کی ہے۔ لمیٹڈ ، فیسٹیول کے ‘اے ونڈو آن ایشین سنیما’ سیکشن کا حصہ ہے اور اسے مائشٹھیت کم جیسوک ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
’’ ریپسٹ ‘‘ تین مرکزی کرداروں کے سفر اور ایک خوفناک واقعے کی وجہ سے ان کی زندگیاں کس طرح جڑی ہوئی ہیں اس کا بیان کرتا ہے۔
میکرز کے مطابق ، فلم کا مقصد واضح جرم سے آگے دیکھنا ہے ، “نہ صرف یہ جاننا کہ یہ جرم سے بچ جانے والوں اور مجرموں کو کس طرح متاثر کرتا ہے ، بلکہ یہ بھی جانتا ہے کہ جب سچ گھر کے قریب پہنچ جائے تو کسی کے مثالی نظریات کو کس طرح تبدیل کیا جاتا ہے۔ . ” سین نے کہا کہ مجرموں کو جنم دینے کے ذمہ دار سماجی نظام میں عدم مساوات کو دریافت کرنے کی کوشش کے علاوہ ، جس چیز نے اسے کہانی کی طرف راغب کیا وہ “تینوں مرکزی کرداروں کی نفسیات” تھی۔
“تہوں کو اتارنا اور احتیاط سے تعمیر شدہ چہرے کے نیچے والے شخص کو حاصل کرنا ایک دلچسپ عمل تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں ہندوستانوں کو آمنے سامنے آنا پڑا – وہ ہندوستان جو اپنے پرانے عقائد کے ساتھ شہری کچی آبادیوں میں رہتا ہے ، اور شہری ترقی یافتہ ہندوستان کو اپنے ‘ترقی پسند’ ویلیو سسٹم کے ساتھ تعلیم دیتا ہے۔
اپلیز انٹرٹینمنٹ کے سی ای او سمیر نائر نے کہا کہ “مسٹر اور مسز آئیر ”ہیلمر پروجیکٹ کے لیے دلچسپ تھا۔
کم جوسیوک ایوارڈ کے لیے نامزدگی اور پورے ایشیا کے سب سے مشہور فلمی میلے بوسان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول (BIFF) میں عالمی پریمیئر کے ساتھ جوش و خروش دوگنا ہو گیا ہے۔ ہمیں کویسٹ فلموں کے ساتھ شراکت کرنے پر خوشی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اپرنا کا کہانی سنانے کا منفرد برانڈ ، خاص طور پر پیچیدہ موضوعات جو ہمارے معاشرے کو پریشان کر رہے ہیں ، عالمی سامعین کے ساتھ بڑے پیمانے پر گونجیں گے۔
کوشٹ فلمز پرائیویٹ لمیٹڈ کی سشندا چٹرجی اور شوبھا شیٹی لمیٹڈ نے کہا کہ انہوں نے بطور پروڈیوسر بورڈ میں آنے کا فیصلہ کیا جب انہوں نے اس کی “گہری اثر انگیز” کہانی سنی۔
” ریپسٹ ” معاشرے میں فالٹ لائنز کی عکاسی کرتا ہے اور یہ کچھ متعلقہ سوالات اٹھاتا ہے۔ ہم شکر گزار ہیں کہ Applause Entertainment نے ہم پر اعتماد کیا اور بورڈ پر آنے کا انتخاب کیا۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہماری فلم بسن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں دنیا کے دیکھنے کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔
بنگلہ دیشی فلمساز مصطفیٰ سرور فاروقی کو کم جیسوک ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے جس میں ان کی تازہ ترین فیچر ’’ نو لینڈز مین ‘‘ ہے جس میں نواز الدین صدیقی مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ ڈرامہ ، جو نسل ، مذہب اور قومیت پر مبنی امتیازی سلوک اور نفرت انگیز جرائم سے متعلق ہے ، اے آر رحمان کی موسیقی ہے۔
بی آئی ایف ایف اس سال 6 سے 15 اکتوبر تک ہونے والا ہے۔
. Source link
0 notes
Text
کرس وو: سابق EXO رکن چین میں عصمت دری کے الزامات کے بعد حراست میں
کرس وو: سابق EXO رکن چین میں عصمت دری کے الزامات کے بعد حراست میں
چینی دارالحکومت کے چوآیانگ ضلع کی پولیس نے بتایا کہ 30 سالہ وو کے خلاف مقدمہ جس کا چینی نام وو یفان ہے اب بھی زیر تفتیش ہے۔
یہ الزامات پچھلے مہینے چین کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر سامنے آئے تھے ، جب ایک خاتون نے تصدیق شدہ ہینڈل “ڈو میزو” کے تحت پوسٹ کیا تھا کہ جب وہ بیجنگ میں چین کی کمیونیکیشن یونیورسٹی کی طالبہ تھی تب اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ اس نے کہا کہ مبینہ حملے کے وقت وہ 17 سال کی تھی۔
ایک بڑے نیوز پورٹل 163.com کے انٹرویو کے بعد ان الزامات نے مزید توجہ حاصل کی۔
سی این این وو کے نمائندوں تک پہنچ چکا ہے اور ابھی تک جواب کا منتظر ہے۔
وو ، جو جنوبی چین میں پیدا ہوا تھا لیکن کینیڈا کا شہری ہے ، نے گزشتہ ماہ اپنے ذاتی ویبو اکاؤنٹ پر الزامات کی تردید کی۔ ان کی کمپنی نے اعلان کیا کہ وہ اپنے الزام لگانے والے کے خلاف قانونی کارروائی کر رہی ہے ، اور الزامات کو “بدنیتی پر مبنی افواہیں” قرار دیا۔
پولیس کے بیان کے بعد ان کے ایک بار انتہائی مقبول سوشل میڈیا اکاؤنٹس بشمول ان کے ویبو پیج کو 51 ملین سے زائد فالوورز کے ساتھ ختم کر دیا گیا ہے۔
چین کی اعلیٰ قانون نافذ کرنے والی ایجنسی ، حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی سیاسی اور ��انونی امور کے کمیشن نے ہفتے کو وو کی حراست پر تبصرہ کرتے ہوئے ویبو پر پوسٹ کیا ، “چینی سرزمین پر ، چینی قوانین کی پابندی ضروری ہے۔ ہم غلط نہیں کرتے ، ہم غلط نہیں کرتے۔ ہم حقائق کو بنیاد اور قانون کو معیار کے طور پر لیتے ہیں۔ “
وو نے مشہور کورین چینی پاپ گروپ EXO کے ممبر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی ، پھر 2014 میں بینڈ چھوڑنے کے بعد ایک سولو اداکاری کے طور پر۔ اس نے متعدد فلموں میں اداکاری کی اور بربیری جیسے برانڈز کے لیے ماڈلنگ کی ، جلد ہی ملک کے ٹاپ برانڈ سفیروں میں سے ایک بن گیا۔ .
لیکن اس کے بہت سے بڑے برانڈ شراکت داروں نے عصمت دری کے الزامات پھیلتے ہی اپنے آپ کو فاصلے پر لے لیا۔
فرانسیسی فیشن ہاؤس لوئس ووٹن ، جس نے وو کو 2018 میں برانڈ ایمبیسڈر نامزد کیا ، نے جولائی میں سی این این کو بتایا کہ کمپنی فنکار کے ساتھ اپنے تعلقات کو معطل کر رہی ہے جب تک کہ دعووں کی تحقیقات نہیں ہو جاتی۔
اس وقت ایک ای میل بیان میں کہا گیا ہے کہ “لوئس ووٹن مسٹر کرس وو کے بارے میں حالیہ الزامات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اس طرح فنکار کے ساتھ تعاون کو معطل کر دیتے ہیں جب تک کہ تفتیش مکمل نہیں ہو جاتی۔”
اطالوی لگژری برانڈ بلغاری ، پورش چائنا ، اور کاسمیٹکس برانڈ کینز ان میں شامل تھے جنہوں نے جولائی میں وو کے ساتھ تعلقات کو مکمل طور پر معطل یا منقطع کر دیا۔
چین کی #MeToo موومنٹ۔
اگرچہ چینی سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اس کی حراست کی خبر کے بعد وو کے دفاع میں آئے ، بہت سے لوگوں نے ڈو میزو کی حمایت کا اظہار کیا – اس کے ساتھ ساتھ حیرت ہے کہ وو کو بالکل بھی حراست میں لیا گیا ، جنہوں نے چین میں انصاف کے حصول میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی مشکلات کو اجاگر کیا۔
“مجھے ڈو میزو کا شکریہ کہنا ہے ،” ایک ویبو صارف نے تبصرہ کیا۔. “میں عورتوں کے لیے بات کرنے پر اس کا بہت شکر گزار ہوں!”
#MeToo موومنٹ جو 2017 اور 2018 میں دنیا بھر میں پھیل گئی ، جنسی زیادتی کے نظامی مسائل اور ہائی پروفائل مجرموں کے لیے جوابدہی کی کمی کو اجاگر کیا۔ متعدد ممالک میں ، خواتین نے ہیش ٹیگ کا استعمال اپنے تجربات کو جنسی بدسلوکی یا زیادتی کے ساتھ شیئر کرنے اور ٹھوس تبدیلی کا مطالبہ کرنے کے لیے کیا۔
چین میں ، کارکن کہتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا ہے۔ ترقی کی کچھ نشانیاں – لیکن اہم دھکا اور خاموش رہنے کا دباؤ بھی۔ جب نئی نسل کی تحریک 2018 میں چین پہنچی ، سوشل میڈیا پر جنسی بدسلوکی اور #MeToo پر بحث کرنے والی پوسٹوں کی ایک بڑی تعداد کو سنسر کیا گیا ، اور آگے آنے والی خواتین نے کہا کہ انہیں ابھی تک سرکاری سطح پر مزاحمت کا سامنا ہے۔
2018 میں ، پیکن�� یونیورسٹی کے طالب علم یو ژین نے وصول کیا۔ وسیع پیمانے پر توجہ جب منتظمین نے مبینہ طور پر عصمت دری کے معاملے پر اس کی اور دیگر طالبات کی ایک پٹیشن کو بند کرنے کی کوشش کی ، جس سے کافی غم و غصہ ہوا۔
ایک خاتون جس نے ایک ممتاز سرکاری ٹیلی ویژن اینکر کے خلاف الزامات لگائے ، آن لائن نے کہا کہ پولیس کی جانب سے اس پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی شکایت واپس لے کیونکہ سوال کرنے والے شخص کا معاشرے پر “بہت بڑا ‘مثبت اثر” تھا۔
اور جب کہ سروے بتاتے ہیں کہ چین میں جنسی زیادتی اور ہراساں کرنا عام ہے ، اصل مقدمات کی تعداد چھوٹا ہے. چین کے اعلیٰ پراسیکیوٹر کے دفتر کے مطابق 2013 سے 2017 تک ملک کی 1.4 بلین آبادی میں سے صرف 43،000 پر “خواتین کے ذاتی حقوق کی خلاف ورزی کے جرائم” کے لیے مقدمہ چلایا گیا۔ یہ جرائم اسمگلنگ اور جبری جسم فروشی سے لے کر عصمت دری تک ہیں۔
سی این این کے بیجنگ بیورو اور لورا ہی نے رپورٹنگ میں تعاون کیا۔
. Source link
0 notes