Tumgik
#غائب حواس
shiningpakistan · 1 year
Text
تم کو بھی لے ڈوبیں گے
Tumblr media
کرہِ ارض پر پائی جانے والی نباتات و حیاتیات و جمادات انسانی وجود سے بہت پہلے سے موجود ہیں اور اگر ساڑھے چار ارب سال پر محیط بقائی کیلنڈر کی جمع تقسیم کی جائے تو اس حساب سے انسان کو یہاں موجودہ شکل میں وجود پذیر اور آباد ہوئے محض چند گھنٹے ہی گذرے ہیں۔ اتنی سی دیر میں ہی اس نے کرہِ ارض کی جمی جمائی زندگی اور ارتقائی زنجیر کا تیا پانچا کر کے رکھ دیا ہے اور اب بھی خجل ہونے کے بجائے یہ سوچ رہا ہے کہ اگلی ایک صدی میں جب یہ سیارہ اس کی حرکتوں کے سبب اتنا گرم ہو جائے گا کہ زیست کرنا دوبھر ہو جائے۔ تب وہ کس سیارے کا رخ کرے گا ؟ چونکہ انسان اس زمین کی تمام مخلوق کے درمیان نووارد ترین ہے۔ چنانچہ قاعدے سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنا بقائی نظریہ اربوں برس سے جاری حیاتیاتی نظائر کی روشنی میں ترتیب دے کر اردگرد کی وسیع حیاتیاتی برادری کا ماحول دوست کردار بن جاتا ہے۔ مگر انسان نے اس کرہ ِ ارض کو رواں رکھنے والے فطری اصولوں کو حقیر سمجھ کے ٹھکراتے ہوئے خود ساختہ اصول دیگر تمام مخلوق پر لاگو کرنے کی غیر فطری کوشش کی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ 
تازہ بری خبر یہ ہے کہ انسان عالمی درجہِ حرارت کو دو ہزار تیس تک کم ازکم ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ تک کم کرنے کی جس کوشش کا وعدہ کر بیٹھا ہے۔ اس پر خود انسان نے ہی سب سے کم کان دھرا۔ چنانچہ درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری کا اضافہ اندازوں سے بہت جلد یعنی دو ہزار ستائیس تک محسوس ہونے لگے گا۔ گویا بقا کی لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی ٹرین میں سوار انسان شاید ہی ہنگامی زنجیر کھینچ پائے۔  درجہ حرارت میں ہماری حرکتوں کے سبب ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ میں اضافے کا مطلب مزید سیلاب، مزید خشک سالی، موسموں کا پہلے سے بڑھ کے باؤلا پن اور پورے حیاتیاتی بقائی نظام کی زنجیر کا خطرناک حد سے بھی اوپر تک کمزور ہونا شامل ہے۔ اسے کہتے ہیں ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ ہم میں سے کتنے جانتے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع کے جس ستون پر انسانی تہذیب کھڑی ہے۔ اب وہ ستون ہی لرز رہا ہے۔ آٹھ میں سے تین ارب انسانوں کی بیس فیصد پروٹین ضروریات محض مچھلی سے پوری ہوتی ہیں۔ اسی فیصد انسانی غذا پودوں سے حاصل ہوتی ہے اور کم وبیش اتنے ہی انسان جڑی بوٹیوں سے تیار ادویات استعمال کرتے ہیں، اگر مچھلی ، پودے اور جڑی بوٹیاں ختم ہو جائیں تو سوچیے کیا ہو گا ؟
Tumblr media
اسی لیے کہتے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع کا تحفظ دراصل اس بقائی زنجیر کا تحفظ ہے جس سے خود ہماری زندگی بندھی ہوئی ہے، مگر ہم اتنے ڈھیٹ ہیں کہ احساس تک نہیں کہ کم از کم پچھلے دو سو برس میں ہماری لالچ اور مستقبل کو جان بوجھ کے نظرانذاز کرنے کی عادت نے اس کرہِ ارض کے پچھتر فیصد رقبے اور چھیاسٹھ فیصد سمندری حیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ زمین پر کم ازکم آٹھ کروڑ اقسام کے پودے اور جانور موجود ہیں، مگر ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اور کتنی حیات ہے جو اب تک دریافت ہونے کی منتظر ہے۔ اور کون کون سے ان گنت پودے ، چرند ، پرند اور سمندری مخلوق ہے جس کے وجود سے اب تک ہم واقف ہی نہیں ہو پائے، اور جتنی مخلوق دریافت ہو چکی ہے اس سے دوستی کرنے اور اس کا تحفظ کرنے کے بجائے ہم باہوش و حواس اسے بھی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا اس کی تشریح یوں ہے کہ بقائی زنجیر سے صحرا اور سمندر اور پہاڑ اور جنگل اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ کسی ایک کو چھیڑنے کا مطلب زندگی کی پوری عمارت کو ہلانا ہے۔ 
مثلاً افریقہ کے صحراِ اعظم سے جو ریت اڑ کے فضا میں شامل ہوتی ہے۔ ہر سال ہوائیں اس میں سے بائیس ہزار ٹن ریت کے ذرات تین ہزار میل پرے واقع ایمیزون کے جنگلات پر برساتی ہیں اور پھر یہ ریتیلی برسات ایمزون کو تازہ حیاتیاتی جلا بخشتی ہے۔ اس وقت معلوم نباتات میں سے ایک ملین پودے ، پھول اور حیاتیاتی اقسام بقا کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں، اور ہم کہ جو حیاتیاتی تنوع کے تنے پر بیٹھے ہیں،اس تنے کو ہی تیزی سے کاٹ رہے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ عالمی معیشت کا آدھا دار و مدار قدرتی وسائل پر ہے۔ ایک ارب سے زائد انسانوں کی روزی روٹی جنگلات سے وابستہ ہے۔ ہم اور ہماری ’’ نام نہاد ترقی ’’ جتنی بھی کاربن خارج کرتی ہے۔ اس کا آدھا یہی جنگلات اور سمندر جذب کر کے ہمیں ہم سے محفوظ بنانے کا اضافی کارِ مسلسل کر رہے ہیں۔ مگر ہماری حرکتوں کے سبب یہ کاربن جذب کرنے والی پچاسی فیصد دلدلیں اور مینگرووز (تمر ) کے جنگلات غائب ہو چکے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ زرعی زمین اور لکڑی حاصل کرنے کے جنون میں کاربن جذب کرنے والے جنگلات تیزی سے کٹ رہے ہیں۔ نایاب پودے اور ان پر بھروسہ کرنے والے حشرات و پرند زرعی زمینوں میں مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات کے اندھا دھند استعمال کا نشانہ ہیں۔ 
ان حرکتوں کے سبب درجہِ حرارت میں جو اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ہاتھوں مجبور ہو کے سخت جان پودے اور جنگلی حیات ٹھنڈے علاقوں کی جانب مراجعت کر رہے ہیں، مگر وہاں بھی موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں برف تیزی سے پگھلنے کے سبب سرد علاقوں میں رہنے والی مخلوق کو اپنی زندگی کے لالے پڑ ے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دو سو برس کی انسانی سرگرمیوں کے سبب بڑھتے سمندری درجہِ حرارت نے نصف کورل ریفز کو نگل لیا ہے اور بقیہ اگلے پچاس برس میں غائب ہو جائیں گی۔ اور ان کے ساتھ ہی بحری مخلوق کی بے شمار نسلیں کہ جن کی نسلی و غذائی بقا کا دار و مدار ہی کروڑوں برس سے ان ریفز پر ہے وہ بھی جہان سے رخصت ہو جائیں گی۔ اب بھی وقت ہے کہ جو تیس فیصد جنگل بچ گئے ہیں انھیں بچا لیا جائے اور جو تین فیصد دلدلی علاقے اور جھیلیں اپنے حجم سے دوگنی کاربن ہضم کر رہی ہیں انھیں پھر سے پاؤں پر کھڑا کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکالا جائے۔ یہ عناصر گئے تو ہم بھی تھوڑی بہت صاف ہوا، غذا اور دوا سے گئے۔ یہ آخری فصیل منہدم ہو گئی تو زہریلی وباؤں کا جو لشکر ان عناصر نے روک رکھا ہے وہ اتنے انسان کھا جائے گا کہ ہلاکو اور ہٹلر معصوم نظر آئیں گے۔
(یہ کالم عالمی یومِ حیاتیاتی تنوع ( بائیس مئی ) کے تناظر میں بغرض آگہی لکھا گیا) وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
nashwannews · 2 years
Photo
Tumblr media
إلى الإخوة مجلس القيادة.. لحظة دقيقة الحرج - نشوان نيوز https://nashwannews.com/252248
0 notes
bazmeurdu · 5 years
Text
بہزاد جدید آرٹ گیلری میں : احمد ندیم قاسمی
استاد بہزاد جب آرٹ گیلری میں داخل ہوا تو اس کا پہلا تاثر روحانی آسودگی کا تھا۔ چار طرف رنگوں اور خطوں کی چھاؤنی چھا رہی تھی اور رنگ اور خط ہی تو ایک مصور کا سرمایہ حیات ہوتے ہیں۔ پھر اس نے گیلری کے وسط میں رکھے ہوئے ایک بنچ پر ابتدائی انسان کا ایک مجسمہ رکھا دیکھا۔ اللہ اللہ! گزشتہ صدیوں میں آرٹ نے کتنی بے حدود ترقی کی ہے! اِس مجسمے میں اتنی زندگی ہے جیسے یہ ابھی اُٹھ کر چلنے لگے گا اور بہزاد دم بخود رہ گیا جب ابتدائی انسان کا یہ مجسمہ سچ مچ اُٹھ کر چلنے لگا۔ جلد ہی بہزاد نے اپنی حیرت پر قابو پایا اور سوچا کہ یہ وہ صدی ہے جس میں آوازیں پورے کرۂ ارض کا سفر کر کے مشرق و مغرب کے گھر گھر میں سنی جا سکتی ہیں اور جس میں چلتی پھرتی تصویریں ہوا کا سفر کرتی ہوئی آتی ہیں اور گھروں میں سجے ہوئے شیشے کے پردوں پر منعکس ہو جاتی ہیں۔ 
اگر ایسی صدی میں آرٹسٹ کا تراشا ہوا ایک مجسمہ، عام انسانوں کی طرح چلنے پھرنے لگے تو اس پر حیرت کا اظہار اپنی جہالت کا اعلان ہو گا۔ پھر استاد بہزاد نے دیکھا کہ ابتدائی انسان کا وہ مجسمہ پلٹا اور اس کے پاس آ کر اس کے سامنے رک گیا اور بولا۔ ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘ تو یہ مجسمہ نہیں ہے، آرٹسٹ ہے! حسن کے اس تخلیق کار نے اپنی شخصیت کو حسن سے کیوں محروم کر رکھا ہے؟ اس کے بال اتنے بے ہنگم کیوں ہیں؟ کیا اسے معلوم نہیں کہ انسان نے جب کھیتی باڑی کرنا سیکھا تھا تو وہ حجامت بنانا بھی سیکھ گیا تھا! آخر آج کا آرٹسٹ، تصویر بنانے سے زیادہ اپنے آپ کو بنانے میں اتنا وقت کیوں ضائع کرتا ہے؟ اس مصور کے بالوں اور لباس کی یہ بے ترتیبی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ بے ترتیبی اس نے بڑی ترتیب سے پیدا کی ہے تاکہ وہ مصور نظر آئے۔ 
مصور جب مصور دکھائی دینے کی، اور شاعر، شاعر دکھائی دینے کی کوشش کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی مصوری اور شاعری میں کوئی ایسی کمی ہے جس کا خود مصور اور شاعر کو بھی احساس ہے۔ بہزاد نے سوچا کہ مصور اور شاعر اپنی اس کمی کو دور کرنے کی بجائے اسے اپنی شخصیت کی رومانیت میں کیوں چھپاتا ہے؟ اس طرح تو وہ دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش میں اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے اور اپنے آپ کو دھوکا دینے والا انسان تو کبھی بڑا آرٹسٹ نہیں بن سکتا۔ مصور نے اپنے سوال کو دہرایا تو استاد بہزاد بولا ’’میں پرانے خیال کا آدمی ہوں۔ صدیوں کی فصلیں کاٹ کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ آج کے آرٹ کا اسلوب کیا ہے۔ میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار ہوں مگر پہلے مجھے اس آرٹ گیلری کی سیر تو کرائیے تاکہ میرے دل میں یہ اعتماد پیدا ہو سکے کہ آپ کا ماڈل بن کر آپ کا اور اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا۔‘‘
مصور نے بہزاد کو بازو سے پکڑا اور ایک تصویر کے پاس لے گیا۔ تصویر پر مصور نے اپنے دستخط بھی انگریزی میں کیے تھے اور نیچے ایک گوشے میں تصویر کا نام بھی انگریزی میں درج تھا۔ بہزاد حواس باختہ سا نظر آیا تو مصور سمجھ گیا کہ بدنصیب کو انگریزی نہیں آتی، چنانچہ اس نے تصویر کے نام کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا ’’ذات کی شکست۔‘‘ ’’مگر یہ بنائی کس نے ہے؟‘‘ بہزاد نے پوچھا۔ مصور تن کر بولا ’’میں نے۔ مگر نہیں۔ میں نے اسے بنایا نہیں ہے بلکہ اس نے خود کو مجھ سے بنوایا ہے۔ میرے اندر کوئی ایسی قوت ہے جسے آپ میری چھٹی حس کہہ لیجیے۔ وہی مجھ سے یہ تصویریں بنواتی ہے۔ اس میں میرا شعور، میرا ارادہ قطعی شامل نہیں ہوتا۔ ایک بار آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو میں نے محسوس کیا کہ اگر میں یہ تصویر نہیں بناؤں گا تو مر جاؤں گا، چنانچہ تصویر آپ کے سامنے ہے۔‘‘
بہزاد نے تصویر کو بغور دیکھا۔ پھر مصور کی طرف دیکھ کر بولا ’’معذرت چاہتا ہوں مگر فن کی دیانت مجھے یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کاش اس رات آپ مر ہی گئے ہوتے تاکہ فن اس آلودگی سے محفوظ رہتا جو آپ نے اس تصویر کی صورت میں فن کے منہ پر دے ماری ہے۔ اوّل تو آپ نے اس تصویر کے اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں تک ریت کے اڑتے ہوئے جو ذرات دکھائے ہیں، وہ ذرات کی بجائے مکئی اور جوار کے دانے معلوم ہوتے ہیں۔ پھر اس میں سے ’’ذات‘‘ غائب ہے۔ صرف شکست ہی شکست ہے، اور شکست کو تو مثبت ہونا چاہیے کیونکہ جب کچھ ٹوٹتا ہے تو کچھ بنتا بھی ہے۔ 
اور آپ نے ذات کو توڑنے تاڑنے کے بعد اس پر اپنے دستخط جڑ دیے ہیں، یہ جو تصویر کے کونے میں ایک لمبا سا کیڑا پڑا بل کھا رہا ہے تو یہ آپ کے دستخط ہی ہیں نا؟ اور یہ بھی انگریزی ہی میں ہیں نا؟ پھر جب آپ اپنی زبان میں دستخط تک نہیں کر سکتے تو اپنی بے چاری ذات کے ساتھ کیا انصاف کریں گے۔ معاف کیجیے گا، میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار نہیں ہوں قدرت نے مجھے ایک خاص سلیقے سے بنایا ہے۔ میں آپ کے سپرد ہو کر قدرت کے معیاروں کی ہتک کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ بہزاد نے یہ کہا اور مصور کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔
احمد ندیم قاسمی
8 notes · View notes
pakistan-affairs · 3 years
Text
چبا لیں خود ہی کیوں نہ اپنا ڈھانچہ
میں نے بس سنا ہی سنا ہے کہ دلی سات بار اجڑی۔ مگر گزشتہ چالیس برس میں کابل کا تین بار اجڑنا تو ہم نے بھی اپنی زندگی میں دیکھ لیا۔ کسی کو اشرف غنی کی سرکار سے ہمدردی ہے تو کسی کو طالبان کی آنے والی جیت کی شکل میں اپنے خواب پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ سب کی نگاہیں ، میڈیا کے کیمرے، اقوامِ متحدہ کی غلام گردشیں، ہمسایہ ممالک کے دارالحکومت، سفارتی مداری، مصیبت کو منافع بخش صنعت میں بدلنے کے ماہر شکرے ، معدنی دولت کھدیڑنے کے منتظر کارپوریٹئے، کرائے پر جنگی خدمات بجا لانے والی کمپنیاں اور سیاسی بچولیے منتظر ہیں کہ پلڑا کس جانب جھک رہا ہے۔ طالبان ایک کے بعد ایک صوبائی دارالحکومت لیتے جا رہے ہیں اور امریکی بی باون طیاروں کی چھتر چھایا بھی کابل حکومت کی بدانتظامی ، حواس باختگی ، مزاحمت کے کاغذی دعوے اور ہنوز دلی دور است کی سوچ کو تحفظ دینے میں ناکام ہے۔
بظاہر ساڑھے تین لاکھ نفر پر مشتمل افغان فوج کا بجٹ پانچ سے چھ ارب ڈالر سالانہ ہے جس کا پچھتر فیصد امریکا پورا کرتا ہے۔ ناٹو افواج اپنا بھاری سامان بھی ساتھ لے جانے کے بجائے افغان فوج کے استعمال کے لیے پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔ افغان فضائیہ کے پاس ایک سو چھہتر طیارے اور ہیلی کاپٹرز بھی ہیں۔ چھتیس میں سے اٹھائیس صوبائی دارالحکومت بھی بظاہر کابل انتظامیہ کے قبضے میں ہیں۔ مگر ایک مربوط جنگی حکمتِ عملی کا فقدان، ہر عہدیدار کا ڈسپلن کی لڑی میں پروئے جانے سے انکار اور شیر اور شکاری کے ساتھ بیک وقت بھاگنے کی عادت اور دوستوں سے زیادہ دشمن بنانے کی غیر معمولی صلاحیت، مشکوک وفاداریاں اور یک سوئی کی قلت نے افغان فوج کو رانا سانگا کے لشکر میں تبدیل کر دیا ہے جس کے خوفزدہ ہاتھی اپنی ہی سپاہ کو روندنے پر آمادہ ہیں۔ طالبان کی تعداد اگرچہ اسی ہزار سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ ان کے پاس اسلحہ بھی ہلکا ہے۔ ان کا بنیادی ہتھیار کاشنکوف یا گن بردار ہلکے ٹرک ہیں۔
مگر ڈسپلن ، یکسوئی اور دشمن کو حیرت میں ڈال دینے کی فوجی حکمتِ عملی اور پروپیگنڈے کے مروجہ جدید طریقوں کو چابکدستی سے استعمال کر کے گھوڑے کو ہاتھی کے حجم کا دکھانے کی خبری صلاحیت حیرت انگیز نتائج پیدا کر رہی ہے۔ پچھلے بیس برس میں مسلسل حالتِ جنگ میں رہنے کے سبب جنگ طالبان کی عادتِ ثانیہ اور آن دی جاب اکیڈمی بن چکی ہے۔ اس کا نتیجہ اندھا دھند لڑائی میں وسائل جھونکنے کے بجائے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سرحدی ناکوں پر قبضے اور پھر شہروں کے محاصرے والی حکمتِ عملی میں واضح جھلک رہا ہے۔ مگر کوئی عام افغان سے نہیں پوچھ رہا کہ بھیا تجھے کون چاہیے اور اس سے کیا چاہیے۔ تو پچھلے چالیس برس میں دو سپرپاورز، بیسیوں جنگجو ملیشیاؤں اور آس پاس کے ملکوں کی شطرنجی بساط پر بار بار پٹنے کے بعد، سیاسی اور معاشی کرپشن کی چکی میں لاکھوں پیاروں کو گیہوں کے دانوں کی طرح آٹا بنوانے کے بعد اب اپنے لیے اور اپنے پوتوں نواسوں کے لیے کیسا سماج اور ملک چاہتا ہے۔
اب تو مجھے وہ کہانی بھی سچ لگ رہی ہے کہ خدا نے چھ دن میں یہ دنیا بنائی اور جو فالتو پتھر ، گارا ، مٹی بچ گئے ان سے ساتویں دن افغانستان بنا دیا اور پھر اوپر جا کر براجمان ہو گیا۔ اگر واقعی اوپر والا انسانوں کی طرح علاقوں کی قسمت بھی پہلے سے لکھ دیتا ہے تو یقین مانو جب افغانستان کی قسمت لکھنے کا وقت آ یا ہو گا تب تک قدرت کے قلم کی روشنائی خشک ہو چکی ہو گی۔ اور پھر متعلقہ فرشتے نے افغانستان کی جنم پتری پر ٹیڑھی میڑھی لکیریں بنا کر فائل بند کر دی ہو گی۔ میں سوچتا ہوں کہ کوئی تو پیمانہ ہو گا جس کے مطابق کہیں یہ فیصلہ ہوتا ہو گا کہ اگر کوئی قوم اتنے سر کٹوا لے ، اتنے ہزار لیٹر لہو خیرات کر دے اور اتنے فیصد در در کی ٹھوکریں کھا لے تو پھر اسے اتنے برس یا اتنے دن یا اتنے لمحوں کے لیے اتنے کلو سکون دے دو ، اتنے لیٹر خوشی دے دو اور کھڑکی بھر نیلا آسمان دے دو۔
پچھلے چالیس برس میں تین ملین افغان باہر دھکیل دیے گئے۔ ایک کروڑ سے زیادہ اندرونِ ملک دربدر ہو گئے، لاکھوں زمین کی گہرائی میں سو گئے۔ چوتھی نسل کے نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والے بچے پشاور، لاہور ، کراچی کی گلیوں میں کچرا جمع کرنے کے تھیلے لے کر گھوم رہے ہیں۔ جن کے پاس پیسہ ، دبدبہ ، سفارش اور تعلقات تھے انھوں نے خلیجی ریاستوں ، سرسبز یورپی گلیاروں اور شمالی امریکا میں لوٹ اور کرپشن ، اسمگلنگ کے پیسے اور اپنے ہی لوگوں کا مستقبل پیشگی فروخت کر کے محل کھڑے کر لیے۔ جو بیس برس سماج کی تعمیر کے لیے نصیب ہوئے تھے اس مدت میں من و سلوی کی طرح برسنے والے کھربوں ڈالر ان جیبوں میں غائب ہو گئے جن کی گہرائی بس خدا ہی جانتا ہے۔ پھر بھی کوئی بتائے کہ اور کون سی قیامت ٹوٹنے کو رہ گئی ہے، اب کون سی قربانی باقی ہے جس کے بعد افغانستان کے گھائل کشکول میں تھوڑا سا سکھ اور مٹھی بھر خوشی آ جائے۔ تو کیا افغانستان کی فائل گم ہو گئی ہے یا دنیا اندھی ہو گئی ہے ؟
پچھلے چالیس بیالیس برس سے ایسا کیوں ہے کہ ہر چند برس بعد کابل اجڑ جاتا ہے، ہرات کپکپانے لگتا ہے ، قندھار کی آنکھیں خوف سے ابل کے باہر آ جاتی ہیں۔مزار شریف کو لقوہ ہو جاتا ہے۔ مگر کیوں ؟ اگر انسانوں کی طرح ممالک کو بھی موت آ سکتی تو میں پہلا انسان ہوتا جو دعا کرتا کہ یا تو افغانستان پر سے خوف اور موت کی نحوست اٹھا لے یا پھر افغانستان کو ہی اٹھا لے۔
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم
چبا لیں خود ہی کیوں نہ اپنا ڈھانچہ تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
(جون ایلیا)
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
adhorikahani24 · 5 years
Photo
Tumblr media
ناول: مدیحہ_کی_من_مانیاں ازقلم: صالحہ_منصوری قسط_نمبر_03 آخری_قسط فارس گھ�� آیا تو بہت تھکا ہوا تھا ۔ وہ اکثر آفس میں ہی افطار کرتا تھا اور نماز بعد واپس آتا ۔ آج وہ گھر آیا تو خلاف معمول گھر میں ممانی جان کی آمد سے رونق تھی ۔ " ممانی جان آئیں ہیں ۔؟ پتا نہیں چڑیل آئی بھی ہو یا نہیں ۔" وہ خود کلامی کرتا جا کر اماں سے ملا ۔ " اور کیسے ہو ۔؟ سالگرہ بہت بہت مبارک ہو ۔" وہ اس کی پیشانی چومتی بہت پیار سے کہہ رہی تھیں ۔ اس نے ادھر ادھر نظریں گھمائی ۔ چڑیل نہیں آئی تھی ۔ اسے ایک عجب سی مایوسی ہوئی ۔ " تھینک یو ممانی ، میں ذرا چینج کر لوں پھر آتا ہوں ۔" وہ اجازت لے کر اٹھ گیا ۔ کمرے میں داخل ہوا تو گھپ اندھیرے نے اس کا استقبال کیا ۔ اسے حیرت ہوئی کیوں کہ پھوپھو ہمیشہ عصر بعد ہر کمرے کی لائٹ آن کر دیتی تھیں تو آج کیوں نہیں کیا ۔ جیسے ہی اس نے سوئچ پر ہاتھ مارا پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا ۔ اس کے سفید بڑے سے بیڈ پر جابجا سرخ سرخ خون کے دھبے موجود تھے اور سامنے دیوار پر کسی انسانی ہاتھ کا خون سے نشان بنا ہوا تھا ۔ سرہانے رکھی میز پر ایک موٹی سی چھپکلی اور زمین پر دو تین چوہے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔ پورے کمرے کا حلیہ اتنا اجڑا اور بکھرا ہوا تھا کہ بے اختیار اسے کراہیت آئی ۔ وہ مڑا تو کسی نے دروازے سے اسے دھکا دے کر گرا دیا اور خود بھی اندر آکر دروازہ مقفل کر دیا ۔ " کون ہو تم ۔؟" وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا ۔ مقابل کی پشت اس کی طرف تھی سو وہ اس کا سیاہ بھوتوں والا چغہ ہی دیکھ سکا ، مقابل آہستہ سے مڑا ۔ اس کا چہرہ چھپا ہوا تھا صرف ہلکے ہلکے سرخ ہونٹ جھانک رہے تھے جو اس کی گوری رنگت کے باعث اور زیادہ نمایاں ہوتے ۔ اسے دیکھ کر فارس کو اندازہ ہوا کہ وہ کوئی عورت ہے ۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا ایک اور شخص سیاہ چغہ والا بالکونی سے نمودار ہوا ۔ اس کے ہاتھ میں چاقو تھی جو اس نے پہلے والے کو دے دی۔ اس کے بعد تیسرا شخص اس کے بیڈ کے نیچے سے نکلا اور فارس کے سامنے بھاگتے ہویے چوہے کو ٹھوکر ماری ۔ وہ چوہا بیچارہ اٹیچ باتھ روم کے دروازے سے ٹکرا کر اپنے ہوش و حواس سے بےگانا ہو گیا ۔ تبھی واش روم کا دروازہ کھلا اور ایک چوتھا شخص اس کے سامنے آیا جو ان تینوں سے قدرے چھوٹا لگ رہا تھا ۔ ان کے چہرے چھپے ہویے تھے اور وہ آہستہ آہستہ اپنا دائرہ فارس کے گرد تنگ کرتے گول گول چکر لگا رہے تھے ۔ " کیا چاہتے ہو تم ۔۔۔۔ آخر کچھ بولتے کیوں نہیں ۔" وہ پہلے ہی تھکا ہوا تھا اور اب اسے ان سب سے گزرنا محال لگ رہا تھا کہ ایک شخص جس کے ہاتھ میں چاقو تھا اس کی باتیں سن کر آگے بڑھا اور فارس کے گلے پر چاقو رکھ کر بولا :- " ہیپی برتھ ڈے فارس ۔" اور پھر اس نے فارس کو ہلکا سا دھکا دیا ۔ وہ ہنس رہی تھی ۔ فارس حیران ہوا کیوں دوسرے شخص نے اپنا ماسک ہٹا دیا ۔ " ارحم ۔۔۔" اس کے منہ سے نکلا ، ارحم گردن پیچھے کئے ہنستی ہی جا رہی تھی جب ایک اور ماسک ہٹا اب کی حنا نے اسے کہا :- " ہیپی برتھ ڈے فارس بھائی ۔" ہنستے ہنستے وہ بھی بےحال تھی ۔ پھر تیسرا ماسک ثانیہ کے چہرے سے ہٹا ۔ " ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ڈراونی ہیپی برتھ ڈے فارس بھائی ۔" فارس نے مدیحہ کی طرف دیکھا جس نے ابھی تک ماسک نہیں ہٹایا تھا ۔ " مجھے تو پہچان چکے ہوں گے ۔" وہ پوچھ رہی تھی ۔ " جی نہیں ۔۔ ماسک کا کیا بھروسہ ۔۔۔" وہ منہ بنا کر بولا ۔ " اچھا جی لیکن تم سے پہلے میں نے کہہ رکھا تھا کہ عیدی تو بچے لیتے ہیں ۔۔ میں تو منہ دکھائی لوں گی ۔ اس لئے ہم اپنا چہرہ آپ کو نہیں دکھا سکتے ۔ سوری ۔" وہ بنا رکے بولتی گئی اور فارس حیرت کے سمندر میں غرق ہوتا گیا ۔ " میرے کمرے میں کیا کچھ کر ڈالا ہے تم لوگوں نے ظالم عورتوں ۔" اس نے دہائی دی تو ثانیہ کھلکھلا اٹھی ۔ " یہ واٹر کلر ہے ۔" اس نے بیڈ پر پڑے خون کی طرف اشارہ کیا ۔ " اور وہ پینٹ کیا ہوا ہے اگر آپ ذرا سا غور کرتے تو دیوار الگ اور کاغذ الگ دکھتا ۔" اس نے ہاتھ بڑھا کر خونی ہاتھ کا نشان اتار کر کاغذ لہراتے ہویے کہا ۔ " اور یہ چوہے ، چھپکلی ۔؟" فارس نے استفسار کیا تو اس مرتبہ ارحم نے تیزی سے بھاگتے ایک چوہے کو اٹھا کر ہوا میں اچھال کر کیچ کیا ۔ " تین مصنوعی چوہے کے ساتھ ایک مصنوعی چھپکلی بلکل مفت ۔" اس نے چھپکلی کی طرف اشارہ کیا ۔ " اور آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہماری بہن اور آپ کی ہونے والی فیوچر وائف مس مدیحہ شاہ نے ارینج کیا ہے ۔" حنا نے اپنے ہاتھ سینے پر رکھ کر ذرا جھکتے خالص چینیوں کی طرح کہا ۔ فارس نے مدیحہ کو دیکھتے نفی میں گردن ہلائی اور سر پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔ " تم کبھی نارمل نہیں ہو سکتی ۔" بیچارگی سے کہتے مدیحہ کو اس وقت وہ بہت پیارا لگا ۔ وہ آہستہ آہستہ ایک ایک قدم اٹھاتی اس تک آئی پھر اچانک اپنی مصنوعی چاقو فارس کے گلے پر رکھی ۔ " بتاؤ تمہارے دل میں گھنٹی بجتی ہے یا نہیں ۔؟" وہ پوچھ رہی تھی اور پیچھے کھڑی ارحم اور حنا کی ہنسی چھوٹ گئی ۔ " گھنٹی ۔؟ " وہ حیران ہوا ۔ " وہ ۔۔ گھنٹی مطلب تم اسے لائک کرتے ہو یا نہیں ۔" ارحم نے ہنسی روکتے بمشکل کہا ۔ " افف ۔۔۔۔ ہاں بہن بجتی ہے گھنٹی ، گھنٹا ، وائلن ، پیانو ، گٹار سب بجتا ہے ۔" وہ تھکا تھکا ہلکا سا مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔ مدیحہ پہلے تو خوش ہوئی اور اسے چھوڑ کر الگ کھڑی ہوئی پھر جب الفاظ پر غور کیا تو ایک دم مڑی ۔ " اے بہن کس کو بولا ۔" وہ غراتے ہویے پوچھ رہی تھی ۔ فارس نے بھاگ نکلنے میں ہی عافیت جانی اور کپڑے لے کر جلدی سے واش روم میں گھس گیا ۔ وہ کپڑے بدل کر باہر آیا تو کمرے کا حلیہ ٹھیک ہو چکا تھا اور وہ چاروں غائب تھیں ۔ فارس مسکراتا ہوا نیچے آیا تو سب کو اپنا منتظر پایا ۔ مدیحہ بھی وہیں اورینج رنگ کے خوبصورت سے فراک میں ملبوس تھی البتہ سر سے دوپٹہ آگے کر کے رکھا ہوا تھا جس سے اس کی پیشانی اور ناک کا کچھ حصّہ چھپ گیا تھا ۔ اس کے آنے پر سب نے اسے وش کیا پھر ممانی جلد ہی چلی گئیں تو اس نے دروازے پر مدیحہ کو آہستہ سے چڑیل کہا ۔ وہ اسے گھورتی ہوئی نکل گئی پھر یہ سوچ کر خوش ہو گئی کہ کاہلوں کی ملکہ سے تو اچھا ہی ہے کہ چڑیل کہے ۔۔۔۔لیکن کیوں ۔؟ کیا کبھی کچھ اچھا نہیں کہہ سکتا ۔؟ وہ پھر سے منہ بنا کر بیٹھ گئی ۔ *** عید کے دن فارس اس کے گھر آیا تو حیران ہی رہ گیا ۔ پورے گھر کو نہایت خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا ، ادھر ادھر نظریں گھمائی تو ممانی جان کچن میں دکھائی دیں ۔ وہ سیدھا انکی طرف آیا ۔ " السلام علیکم ممانی جان … عید مبارک ۔" وہ انہیں گلے لگا کر بولا ۔ " وعلیکم السلام ۔۔ خیر سلامت ، خوش رہو ، اکیلے آے ہو ۔؟" انہوں نے استفسار کیا ۔ " جی گھر پر مہمان آ گئے تھے ۔ " وہ اماں کو بتا کر ایک ایک ڈش چیک کرنے لگا ۔" ارے واہ آج تو بہت زیادہ ہی بہترین کھانے نظر آ رہے ہیں کیا بات ہے ۔۔ " " ہاں صبح ہی مدیحہ نے بنا دئے اتنے سارے کھانے ۔۔۔ اب تم بتاؤ بیٹا یہ سبزی خور لڑکی نے اتنے اہتمام کر ڈالے کون کھائے گا خود تو کھاتی نہیں ۔" اس سے پہلے ان کی شکایتں اور بڑھتی وہ ہلکا سا مسکرا کر بولا " دیکھتے ہیں ناں ممانی جاں کب تک یہ محترمہ نخرے کرتی ہیں ۔" وہ ہنس کر کچن سے نکل گیا ۔ " ارے واہ میری کاہلوں کی ملکہ کام کاجو ہو گئی ۔؟" وہ اسے سوچتا سیڑھیاں چڑھ رہا تھا جب وہ نائٹ سوٹ میں ملبوس اپنے الجھے کھلے ہویے بالوں کو ایک ہاتھ سے سہلاتی اور دوسرے ہاتھ سے جمائی روکتی نیچے آتے ہویے فارس سے ٹکرا گئی ۔ " آوچ ۔" اس نے اپنی آدھی نیند میں ڈوبی آنکھوں کو پوراکھول کر مقابل کو دیکھا جو اپنی ناک پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا ۔ " توڑ دو میری ناک ۔" وہ غصّے سے بولا۔ " ابے ہٹ ۔" وہ شاید آدھے خواب میں تھی اس لئے غور کئے بغیر اترنے لگی پھر ایک دم کچھ یاد آنے سے جھٹکے سے مڑی اور اپنے منہ کو دونوں ہاتھوں سے چھپا کر کمرے کی طرف دوڑ گئی ۔ " عیدی تو بچے لیتے ہیں جی میں تو منہ دکھائی لوں گی ۔" جاتے جاتے اس نے فارس کو چھیڑا تو جواباً فارس نے ہانک لگائی ۔ " پہلے تیار تو ہو لو عید کے دن بھی نائٹ سوٹ میں ہی گھوم رہی ہو ۔" مگر وہ جا چکی تھی اور فارس یہاں مسکراتا کھڑا رہ گیا تبھی ثانیہ اپنے کمرے سے نکل آئی ۔ " اوہو فارس بھائی عید مبارک ۔" گلابی فراک میں ملبوس چشمش آج بھی پیاری لگ رہی تھی ۔ " خیر سلامت تمہاری بہن تیار نہیں ہوتی کیا ۔؟" وہ جواب دے کر پوچھنے لگا تو ثانیہ نے ہنس کر اپنا چشمہ ٹھیک کرتے کہا :- " کہاں رہتے ہیں آپ بھائی ۔؟ مدیحہ آپی نے کھانا بنایا ،پھر تیار ہو کے ایک دو ۔۔۔نہیں بلکہ ایک سو سیلفی لی پھر واپس نائٹ سوٹ پہن کر سو گئی ۔" " سو گئی ۔؟" اس نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔ " ہاں ناں ۔" ثانیہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔" اب عصر بعد تیار ہوگی شام میں مہمان آتے ہیں ناں۔" وہ بتا کر سیڑھیاں اتر گئی اور یہاں فارس ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا ۔ *** عید کے دو ہفتے بعد ان کی شادی کے سارے فنکشن شروع ہو گئے ۔ پھر شادی کے دن جب اس نے عروسی لباس دیکھا تو آنکھیں پھیل گئی ۔ " نہیں پہنوں گی میں یہ ۔" اس نے احتجاج کیا ۔ " مدیحہ ۔۔۔۔ بہن کیا ہوا ۔۔؟ کیوں نہیں پہننا ۔؟" حنا تو گھبرا ہی گئی ۔ " یہ یہ پہن کر میں چل بھی سکوں گی ۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟" وہ بھاری بھرکم لہنگے کو دیکھ کر ہی خوفزدہ تھی ۔ " اوہ اللّه ۔۔۔۔۔ عقل بٹ رہی تھی تو تم کر کیا رہی تھی ۔۔۔ نہیں آج تم بتا ہی دو ۔۔۔ بیوقوف عورت شادی پر شادی کا کپڑا نہیں پہنوں گی تو کیا ہسپتال سے تمہیں مریضوں کا لباس لا دیں ۔ نرم اور آرام دہ ۔" حنا پھٹ پڑی ۔ " لیکن حنا میں کیسے ۔۔۔۔" وہ منمنائی تو ارحم نے اسے واش روم میں ڈھکیلا ۔ " کچھ نہیں ہوتا مدیحہ جلدی کرو بس۔" کچھ دیر بعد مدیحہ بی بی سرخ و سبز رنگ کے عروسی جوڑے میں ملبوس ان کے سامنے کھڑی تھیں ۔ خیر کسی طرح ان سب نے اسے تیار کیا پھر جب سینڈلز کی باری آئی تو مدیحہ نے جھٹ سے ایک باکس کھولا اور اس میں موجود سفید رنگ کے جوگرز نکال کر اپنے پاؤں میں پہن لئے ۔ " یہ کیا ہے ۔؟" ارحم کا منہ کھل گیا البتہ ثانیہ نے اپنے دانت چھپانے کو چہرہ موڑ لیا لیکن ہنسی کی آواز مدیحہ کے کانوں سے ٹکرا گئی ۔ " اسے جوگرز کہتے ہیں اور ثانیہ بی بی تمہیں بڑی ہنسی آرہی ہے ۔" اس نے دونوں کو ایک ساتھ جواب دیا ۔ " شادی پر جوگرز کون پہنتا ہے مدیحہ ۔؟" حنا اب تھک گئی تھی اسے سمجھا سمجھا کر ۔ " حنا بہن پلیز یار پہلے ہی لہنگے کے بوجھ تلے دبی جا رہی ہوں یہ ہیل پہن کر نہیں چل سکوں گی اور ویسے بھی جوتے چھپ گئے ہیں ۔" ان نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا ۔ جوتے واقعی نظر نہیں آ رہے تھے ۔ " اوکے ۔" ارحم نے مسکرا کر حنا کو اشارہ کیا کہ اسے رہنے دے جب جوتے نظر نہیں آ رہے تو ٹھیک جیسی مرضی کرے ۔ کچھ دیر بعد وہ ہال میں موجود سٹیج پر تھی اور لوگوں سے چہک چہک کر شادی کی مبارک بعد کے ساتھ تحفے وصول رہی تھی ۔ " مدیحہ دلہن تھوڑی شرماتی ہے ۔" لوگ منتشر ہویے تو اس کے ساتھ بیٹھے فارس نے آہستہ سے کہا ۔ " ہاہاہا ۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔ سوری ۔" مدیحہ نے اسے دیکھا پھر کچھ سوچ کر اپنے پاؤں کی جانب دیکھا جو لمبے لہنگے سے چھپا ہوا تھا ۔ " ایسے کیا دیکھ رہی ہو ۔؟" اس نے مدیحہ کی نظروں کا تعاقب کیا ۔ تو مدیحہ نے اپنے پاؤں ذرا سے باہر نکالے ۔ " جوگرز ۔۔۔۔ " فارس کا لفظ اس کے حلق میں ہی کہیں اٹک گیا اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑ گیا یہ حقیقت دیکھ کر ۔ " ہاں ناں ۔۔۔۔ میرا تو دل چاہ رہا ہے تمہاری گھوڑی پر بیٹھ کر پورے شہر میں گھوموں ۔" وہ کچھ زیادہ ہی خوش تھی۔ فا��س ہنستے ہنستے نفی میں سر ہلا کر رہ گیا اور اس لمحے ان دونوں کو محظوظ دیکھ کر ارحم نے اپنے فون میں ان کی پک سیو کی پھر فوٹو ایڈیٹر سے اس کا کیپشن لکھا :- " مسٹر اینڈ مسز سائیکو ۔" اور فوٹو فارس کو سینڈ کر دی ۔ فارس کا فون آف تھا لیکن اسے یقین تھا وہ جب بھی دیکھے گا ضرور خوش ہوگا ۔ انہوں نے اسی طرح ہنستے کھیلتے شرارتیں کرتے رہنا تھا اتنا تو طے تھا کہ مدیحہ اپنی کاہلی تو چھوڑ دے گی مگر اپنی من مانیاں کبھی نہیں چھوڑنے والی آخر کو وہ بھی اب مسز فارس جو بن گئی تھی ۔ ختم شد ۔ *** ناول سے متعلق اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں ۔ مولا سلامت رکھے ۔ http://bit.ly/2YH9836
0 notes
humlog786-blog · 5 years
Text
ایک باپ بکاؤ ہے افسانہ راجندر سنگھ بیدی
Tumblr media
دیکھی نہ سنی یہ بات جو ۴۲ فروری کے ’’ٹائمز‘‘ میں چھپی۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ اخبار والوں نے کیسے چھاپ دی۔خرید و فروخت کے کالم میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا ہی اشتہار تھاجس نے وہ اشتہار دیا تھا ارادہ کے بغیر اسے معمے کی ایک شکل دے دی تھی۔پتے کے سوا اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی جس سے خریدنے والے کو کوئی دلچسپی ہو۔بکاؤ ہے ایک باپ۔عمر اکہتر سال۔بدن اکہرا،رنگ گندمی،دمے کا مریض حوالہ نمبر ایل۶۷۴۔معرفت ٹائمز۔ اکہتر برس کی عمر میں باپ کہاں رہا....دادا نانا ہو گیا۔وہ تو؟عمر بھر آدمی ہاں ہاں کرتا رہتا ہے۔آخر میں نانا ہو جاتا ہے۔ باپ خرید لائے تو ماں کیا کہے گی،جو بیوہ ہے عجیب بات ہے نا۔ایسے ماں باپ جو میاں بیوی نہ ہوں۔ ایک آدمی نے الٹے پاؤں دنیا کا سفر شروع کر دیا ہے آج کی دنیا میں سب سچ ہے بھائی۔سب سچ ہے۔ دمہ پھیلا دے گا۔ نہیں بے۔دمہ متعدی بیماری نہیں۔ ہے۔ نہیں۔ ہے۔ ان دونوں آدمیوں میں چاقو چل گئے۔جو بھی اس اشتہار کو پڑھتے تھے۔بڈھے کی سنک پرہنس دیتے تھے۔پڑھنے کے بعد اسے ایک طرف رکھ دیتے اور پھر اٹھا کر اسے پڑھنے لگتے۔جیسے ہی انہیں اپنا آپ احمق معلوم ہونے لگتا وہ اشتہار کو اڑوسیوں پڑوسیوں کی ناک لگے ٹھونس دیتے۔ ایک بات ہے....گھر میں چوری نہیں ہو گی۔ کیسے؟ ہاں کوئی رات بھر کھانستا رہے۔ یہ سب سازش ہے۔خواب آور گولیاں بیچنے والوں کی۔ پھر....ایک باپ بکاؤ ہے! لوگ ہنستے ہنستے رونے کے قریب پہنچ گئے۔ گھروں میں،راستوں پر،دفتروں میں بات ڈاک ہونے لگی۔جس سے وہ اشتہار اور بھی مشتہر ہو گیا۔ جنوری فروری کے مہینے بالعموم پت جھڑ کے ہو تے ہیں۔ ایک ایک داروغے کے نیچے بیس بیس جھاڑ دینے والے سڑکوں پر گرے سوکھے،سڑے بوڑھے پتے اٹھاتے اٹھاتے تھک جاتے ہیں۔جنہیں ان کو گھر لے جانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی کہ انہیں جلائیں اور سردی کے موسم میں وہ اشتہار گرمی پیدا کرنے لگا جو آہستہ آہستہ سینک میں بدل گئی۔ کوئی بات تو ہو گی؟ ہوسکتا ہے،پیسے،جائیداد والا.... بکواس....ایسے میں بکاؤ لکھتا؟ مشکل سے اپنے باپ سے خلاصی پائی ہے۔باپ کیا تھا۔چنگیز ہلاکو ��ھا سالا۔ تم نے پڑھا مسز گو ��وامی؟ دھت۔ہم بچے پالیں گے،سدھا،کہ باپ؟ایک اپنے ہی وہ کم ہیں نہیں۔گو سوامی ہے۔ باپ بھی حرامی ہوتے ہیں .... باکس ایل۶۷۴میں چٹھیوں کا طومار آیا پڑا ہے۔اس میں ایک ایسی بھی چٹھی آئی جس میں تھی کیرل کی لڑکی مس راونی کرشنن نے لکھا تھا کہ وہ ابو دبئی میں نرس کا کام کرتی رہی ہے اور اس کے ایک بچہ ہے۔وہ کسی ایسے مرد کے ساتھ شادی کی متمنی ہے جس کی آمدنی معقول ہو اور اس کے بچے کی مناسب دیکھ بھال کر سکے چا ہے وہ کتنی ہی عمر کا ہو۔اس کا کوئی شوہر ہو گا جس نے اسے چھوڑ دیا۔یا ویسے ابو دبئی کے کسی شیخ نے اسے الٹا پلٹا دیا۔چنانچہ غیر متعلق ہونے کی وجہ سے وہ عرضی ایک طرف رکھ دی گئی۔کیونکہ اس کا بکاؤ باپ سے کوئی تعلق نہ تھا۔بہرحال ان چٹھیوں سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہیڈ لے چیز،رابن سن،ارونگ اور اگا تھا کرسٹی کے سب پڑھنے والے ادھر پلٹ پڑے ہیں۔کلاسی فائڈ اشتہار چھاپنے والوں نے جنرل مینیجر کو تجویز پیش کی کہ اشتہاروں کے نرخ بڑھا دیے جائیں۔مگر نوجوان بوڑھے یا جوان مینیجر نے تجویز کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے کہاSHUICKS ایک پاپولر اشتہار کی وجہ سے نرخ کیسے بڑھا دیں؟....اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پولیس پہونچی۔اس نے دیکھا ہندو کالونی،دادر میں گاندھرو داس جس نے اشتہار دیا تھا،موجود ہے اور صاف کہتا ہے کہ میں بکنا چاہتا ہوں اگر اس میں کوئی قانونی رنجش ہے تو بتائیے۔وہ پان پر پان چباتا اور ادھر ادھر دیواروں پر تھوکتا جا رہا تھا۔مزید تفتیش سے پتہ چلا کہ گاندھرو داس ایک گائیک ہے۔کسی زمانے میں جس کی گائیکی کی بڑی دھوم تھی۔برسوں پہلے اس کی بیوی کی موت ہو گئی،جس کے ساتھ اس کی ایک منٹ نہ پٹتی تھی۔دونوں میاں بیوی ایک اندھی محبت میں بندھے ایک دوسرے کو چھوڑتے ہی نہ تھے۔شام کو گاندھرو داس کا ٹھیک آٹھ بجے گھر پہنچنا ضروری تھا۔ایک دوسرے کے ساتھ کوئی لین دین نہ رہ جانے کے باوجود یہ احساس ضروری تھا کہ....وہ ہے گاندھروداس کی تان اڑتی ہی صرف اس لئے تھی کی دمینتی اس کے سنگیت سے بھرپور نفرت کرنے والی بیوی گھر میں موجود ہے اور اندر کہیں گاجر کا حلوہ بنا رہی ہے اور دمینتی کے لئے یہ احساس تسلی بخش تھا کہ اس کا مرد جو برسوں سے اسے نہیں بلاتا۔ساتھ کے بستر پر پڑا،شراب میں بد مست خراٹے لے رہا ہے۔کیونکہ خراٹا ہی ایک موسیقی تھا۔جسے گاندھرو کی بیوی سمجھ پائی تھی بیوی کے چلے جانے کے بعد گاندھرو داس کو بیوی کی وہ سب زیادتیاں بھول گئیں۔ لیکن اپنے اس پر کئے ہوئے اتیا چار یاد ر ہ گئے۔وہ بیچ رات کے ایکا یک اٹھ جاتا اور گریبان پھاڑ کر ادھر ادھر بھاگنے لگتا۔بیوی کے بارے میں آخری خواب اس نے دیکھا کہ دوسری عورت کو دیکھتے ہی اس کی بیوی نے واویلا مچا دیا ہے اور روتی چلاتی ہوئی گھر سے بھاگ نکلی۔گاندھرو داس اس کے پیچھے دوڑا۔لکڑی کی سیڑھی کے نیچے کچی زمین میں دمینتی نے اپنے آپ کو دفن کر لیا۔مگر مٹی ہل رہی تھی اور اس میں دراڑیں چلی آئی تھیں جس کا مطلب تھا کہ ابھی اس میں سانس باقی ہے۔حواس باختگی میں گاندھرو داس نے اپنی عورت کو مٹی کے نیچے سے نکالا تو دیکھا ....اس کے،بیوی کے دونوں بازو غائب تھے۔ناف سے نیچے بدن نہیں تھا۔اس پر بھی وہ اپنے ٹھنٹ اپنے پتی کے گرد ڈالے اس سے چمٹ گئی اور گاندھروداس اسی پتلے سے پیار کرتا ہوااسے سیڑھیوں سے اوپر لے آیا۔گاندھروداس کا گانا بند ہو گیا۔ گاندھروداس کے تین بچے تھے۔تھے۔ کیا۔ہیں۔سب سے بڑا ایک نامی پلے بیک سنگر ہے جس کے لانگ پلیئنگ ریکارڈ بازار میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں۔ایرانی ریستورانوں میں رکھے ہوئے جیوک باکسوں سے جتنی فرمائشیں اس کے گانوں کی ہوتی ہیں اور کسی کی نہیں۔اس کے برعکس گاندھرو داس کی کلاسیکی میوزک کو کوئی بھی گھاس نہ ڈالتا تھا۔دوسرا لڑکا آفسٹ پرنٹر ہے اور جست کی پلیٹیں بھی بنا تا ہے۔پریس سے دو ڈیڑھ ہزار روپیہ مہینہ پاتا ہے اور اپنی اطالوی بیوی کیساتھ رنگ رلیاں مناتا ہے۔کوئی جئے یا مرے اسے اس بات کا خیال نہیں۔جس زمانے میں گاندھروداس کا موسیقی کے ساز بیچنے کا کام ٹھپ ہوا تو بیٹا بھی تھا۔گاندھرو نے کہا.... چلو ایچ ایم وی کے ریکارڈوں کی ایجنسی لیتے ہیں۔چھوٹے نے جواب دیا۔ہاں مگر آپ کیساتھ میرا کیا مستقبل ہے۔گاندھروداس کو دھچکہ سا لگا وہ بیٹے کا مستقبل کیا بنا سکتا تھا؟کوئی کسی کا مستقبل کیا بنا سکتا ہے؟ گاندھرو کا مطلب تھا۔میں کھاتا ہوں تم بھی کھاؤ۔میں بھوکا مرتا ہوں تم بھی مرو۔تم جوان ہو،تم میں حالات سے لڑنے کی طاقت زیادہ ہے اس کے جواب کے بعد گاندھروداس ہمیشہ کے لئے چپ ہو گیا۔رہی بیٹی تو وہ ایک اچھے مارواڑی گھر میں بیاہی گئی۔جب وہ تینوں بہن بھائی ملتے تو اپنے باپ کو رنڈوا،مرد بدھوا کہتے اور اپنی اس اختراع سے خود ہی ہنسنے لگتے۔ ایسا کیوں؟ چانزک،ایک شاعر اور اکاؤنٹنٹ جو اس اشتہار کے سلسلے میں گاندھروداس کے ہاں گیا تھا۔کہہ رہا تھا ....اس بڈھے میں ضرور کوئی خرابی ہے۔ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تین اولادوں میں سے ایک بھی اس کی دیکھ بھال نہ کرے۔کیا وہ ایک دوسرے کے اتنے نزدیک تھے کہ دور ہو گئے؟ہندسوں میں اُلجھے رہنے کی وجہ سے چانزک کے الہام اور الفاظ کے درمیان کوئی فساد پیدا ہو گیا تھا۔ وہ یہ جانتا تھا کہ ہندوستان تو کیا دنیا بھر میں کنبے کا تصور ٹوٹتا جا رہا ہے۔بڑوں کا ادب ایک فیوڈل بات ہو کر رہ گئی ہے۔ اس لئے سب بڈھے ہا ئیڈ پارک میں بیٹھےَ امتداد زمانہ کی سردی سے ٹھٹھرے ہوئے، ہر آنے جانے والے کو شکار کرتے ہیں کہ شاید ان سے کوئی بات کرے۔ وہ یہودی ہیں جنہیں کوئی ہٹلر ایک ایک کر کے گیس چیمبر میں دھکیلتا جا رہا ہ��۔ مگر دھکیلنے سے پہلے جمور کے ساتھ ان کے دانت نکال لیتا ہے جن پر سونا مڑھا ہے۔ یا اگر کوئی بچ گیا تو کوئی بھانجا بھتیجا اتفاقیہ طور پر اس بڈھے کو دیکھنے کے لئے اس کے مخروطی اٹیک میں پہنچ جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ تو مرا پڑا ہے اور اس کی کلزاقی آنکھیں اب بھی دروازے پر لگی ہیں۔نیچے کی منزل والے بدستور اپنا اخبار بیچنے کا کاروبار کر رہے ہیں کیونکہ دنیا میں روز کوئی نہ کوئی واقعہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ ڈاکٹر آ کر تصدیق کرتا ہے کہ بڈھے کو مرے ہوئے پندرہ دن ہو گئے۔ صرف سردی کی وجہ سے لاش گلی سڑی نہیں۔ پھر وہ بھانجا یا بھتیجا کمیٹی کو خبر کر کے منظر سے ٹل جاتا ہے، مبادا کہ آخری رسوم کے اخراجات اسے دینے پڑیں۔ ًً چانزک نے کہا ....ہو سکتا ہے بڈھے نے کوئی اندوختہ رکھنے کی بجائے اپنا سب کچھ ہی بچوں پر اڑا دیا ہو۔اندوختہ ہی ایک بولی ہے جسے دنیا کے لوگ سمجھتے ہیں اور ان سے زیادہ اپنے سگے سمبندھی اپنے ہی بچے بالے۔کوئی سنگیت میں تارے توڑ لائے۔نقاشی میں کمال دکھا جائے اس سے انہیں کوئی مطلب نہیں پھر اولاد ہمیشہ یہی چاہتی ہے کہ اس کا باپ وہی کرے جس سے وہ اولاد خوش ہو۔باپ کی خوشی کس بات میں ہے۔اس کی کوئی بات ہی نہیں اور ہمیشہ نہ خوش رہنے کے لئے اپنے کوئی سا بھی بے گانا بہانہ تراش لیتے ہیں۔ مگر گاندھرو داس تو بڑا ہنس مکھ آدمی ہے۔ ہر وقت لطیفے سناتا ہے۔ خود ہنستا ہے اور دوسروں کو ہنساتا رہتا ہے۔ اس کے لطیفے اکثر فحش ہوتے ہیں شاید وہ کوئی نقاب کھو ٹے میں جن کے پیچھے وہ اپنی جنسی ناکامیوں اور نا آسودگیوں کو چھپاتا رہتا ہے یا پھر سیدھی سی بات.... بڑھاپے میں انسان ویسے ہی ٹھرکی ہو جاتا ہے اور اپنی حقیقی یا مفروضہ فتوحات کی باز گشت! اشتہار کے سلسلے میں آنے والے کچھ لوگ اس لئے بھی بدک گئے کہ گاندھرو داس پر پچپن ہزار کا قرض بھی تھا جو بات اس نے اشتہار میں نہیں لکھی تھی اور غالباً اس کی عیاری کا ثبوت تھی۔اس پر طرہ ایک نوجوان لڑکی سے آشنائی تھی جو عمر میں اس کی بیٹی رما سے بھی چھوٹی تھی۔وہ لڑکی دیویانی گانا سیکھنا چاہتی تھی جو گورو جی نے دن رات ایک کر کے اسے سکھایا اور سنگیت کی دنیا کے شکھر پر پہنچا دیا۔لیکن ان کی عمروں کے فرق کے باوجود ان کے تعلقات میں جو ہیجانی کیفیت تھی اسے دوسرے تو ایک طرف خود وہ بھی نہ سمجھ سکتے تھے۔اب بھلا ایسے چاروں عیب شرعی باپ کو کون خریدے؟ اور پھر ....جو ہر وقت کھانستا رہے کسی وقت بھی دم اُلٹ جائے اس کا۔باہر جائے تو نو ٹانک مار کے آئے،بلکہ لوٹتے وقت پوا بھی دھوتی میں چھپا کر لے آئے۔ آخر....دمے کے مریض کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے۔ گاندھرو داس سنگیت سکھاتے ہوئے یہ بھی کہہ اٹھتا میں پھر گاؤں گا۔وہ تکرار کے ساتھ یہ بات شاید اس لئے بھی کہتا کہ اسے خود بھی اس میں یقین نہ تھا۔وہ سرمہ لگاتا بھی تو اسے اپنے سامنے اپنی مرحوم بیوی کی روح دکھائی دیتی جیسے کہہ رہی ہو۔ابھی تک گا رہے ہو؟ اس انوکھے مطالبے اور امتزاج کی وجہ سے لوگ گاندھرو داس کی طرف یوں دیکھتے تھے جیسے وہ کوئی بہت چمکتی ہوئی شے ہو اور جس کا نقش وہاں سے ٹل جانے کے بعد بھی کافی عرصے تک آنکھ کے اندر پردے پر برقرار رہے اور اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑے جب تک کوئی دوسرا عنصر نظارہ پہلے کو دھندلا نہ دے۔ کسی خورشید عالم نے کہا....میں خرید نے کو تیار ہوں بشرطیکہ آپ مسلمان ہو جائیں۔ مسلمان تو میں ہوں ہی۔ کیسے؟ میرا ایمان خدا پر مسلم ہے۔پھر میں نے جو پایا ہے اُستاد علاؤالدین کے گھرانے سے پایا ہے۔ آں ہاں،وہ مسلمان،کلمے والا.... کلمہ تو سانس ہے انسان کی جو اس کے اندر،باہر جاری اور ساری ہے۔میرا دین سنگیت ہے۔کیا استاد عبدالکریم خان کا بابا ہرداس ہونا ضروری تھا؟ پھر میاں خورشید عالم کا پتہ نہیں چلا۔ وہ تین عورتیں بھی آئیں لیکن گاندھرو داس جس نے زندگی کو نو ٹانک بنا کے پی لیا تھا،بولا ....جو تم کہتی ہو میں اس سے اُلٹ چاہتا ہوں۔کوئی نیا تجربہ جس سے بدن سو جائے اور روح جاگ اٹھے اسے کرنے کی تم میں کوئی ہمت ہی نہیں۔دین دھرم معاشرہ نہ جانے کن کن چیزوں کی آڑ لیتی ہو لیکن بدن روح کو شکنجے میں کس کے یوں سامنے پھینک دیتا ہے۔تم پلنگ کے نیچے کے مرد سے ڈرتی ہو اور اسے ہی چاہتی ہو تم ایسی کنواریاں ہو جو اپنے دماغ میں عفت ہی کی رٹ سے اپنی عصمت لٹواتی ہواور وہ بھی بے مہار....اور پھر گاندھرو داس نے ایک شیطانی مسکراہٹ سے کہا۔دراصل تمہارے نتیجے ہی غلط ہیں۔ ان عورتوں کو یقین ہو گیا کہ وہ ازلی مائیں دراصل باپ ہیں۔ کسی خدا کے بیٹے کی تلاش میں ہیں ورنہ تین تین چار چار تو ان کے اپنے بیٹے ہیں مجاز کی اس دنیا میں .... میں اس دن کی بات کرتا ہوں جس دن مان گنگا کے مندر سے بھگوان کی مورتی چوری ہوئی اس دن پت جھڑ بہار پر تھی،مندر کا پورا احاطہ سوکھے سڑے،بوڑھے پتوں سے بھر گیا۔کہیں شام کو بارش کا ایک چھینٹا پڑا اور چوری سے پہلے مندر کی مورتیوں پر پروانوں نے اتنی ہی فراوانی سے قربانی دی جس فراوانی سے قدرت انہیں پیدا کرتی اور پھر انہیں کھاد بناتی ہے یہ وہی دن تھاجس دن پجاری نے پہلے بھگوان کرشن کی رادھا (جو عمر میں اپنے عاشق سے بڑی تھی)کی طرف دیکھا اور پھر مسکرا کر مہترانی چھبو کی طرف (جو عمر میں پجاری کی بیٹی سے چھوٹی تھی) اور وہ پتے اور پھول اور بیج گھر لے گئی۔ مورتی تو خیر کسی نے سونے چاندی،ہیرے اور پنوں کی وجہ سے چرائی لیکن گاندھرو داس کو لارسن اینڈ لارسن کے مالک ڈروے نے بے وجہ خرید لیا۔گاندھرو داس اور ڈروے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔بوڑھے نے صرف آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کہہ دیا جیسے تیسے بھی ہو،مجھے لے لو بیٹے۔بنا بیٹے کے کوئی باپ نہیں ہو سکتا اس کے بعد ڈروے کو آنکھیں ملانے سوال کرنے کی ہمت ہی نہ پڑی۔سوال شرطوں کا تھا مگر شرطوں کے ساتھ کبھی زندگی جی جاتی ہے؟ڈروے نے گاندھرو داس کا قرض چکایا۔سہارا دیکر اسے اٹھایا اور مالا بارہل کے دامن میں اپنے عالیشان بنگلے گری گنج لے گیا جہاں وہ اس کی تیمار داری اور خدمت کرنے لگا۔ ڈروے سے اس کے ملازموں نے پوچھا۔سر آپ یہ کیا مصیبت لے آئے ہیں۔یہ بڈھا،مطلب،بابو جی آپ کو کیا دیتے ہیں۔ کچھ نہیں بیٹھے رہتے ہیں آلتی پالتی مارے کھانستے رہتے ہیں اور یا پھر زردرے والے پان چباتے جاتے ہیں۔جہاں جی چا ہے تھوک دیتے ہیں۔جس کی عادت مجھے اور میری صفائی پسند بیوی کو بھی نہیں پڑی۔مگر پڑ جائے گی۔دھیرے دھیرے....مگر تم نے ان کی آنکھیں دیکھی ہیں؟ جی نہیں۔ جاؤ دیکھو ان کی روتی ہنستی آنکھوں میں کیا ہے ان میں کیسے کیسے سندیس نکل کر کہاں کہاں پہنچ رہے ہیں؟ کہاں کہاں پہنچ رہے ہیں؟.... جمنا داس ڈورے کے ملازم نے غیر ارادی طور پر فضا میں دیکھتے ہوئے کہا.... آپ سائنسداں ہیں ! میں سائنس کی بات کر رہا ہوں۔ جمنا !اگر انسان کے زندہ رہنے کے لئے پھل پھول پیڑ پودے ضروری ہیں، جنگل کے جانور ضروری ہیں تو بو ڑھے بھی ضروری ہیں۔ورنہ ہمارا ایکولا جیکل بیلنس تباہ ہو جائے گا اگر جسمانی طور پر نہیں تو روحانی طور پر بے وزن ہو کر انسانی نسل ہمیشہ کے لئے معدوم ہو جائے۔ جمانا داس اور اتھادلے بھاؤ کچھ سمجھ نہ سکے۔ ڈروے نے بنگلے میں لگے شوک پیڑ کا ایک پتا توڑا اور جمنا داس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا اپنی پری سائنس سے کہو کہ یہ تازگی یہ شگفتگی، یہ شادابی اور یہ رنگ پیدا کر کے دکھائے.... اتھادلے بولا وہ تو اشوک کا بیج بوئیں .... آں ہاں ....ڈروے نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔میں بیج نہیں پتے کی بات کر رہا ہوں۔بیج کی بات کریں گے تو ہم خدا جانے کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے۔ پھر جمنا داس کے قریب ہوتے ہوئے ڈروے بولا میں تمہیں کیا بتاؤں جمنا جب میں بابو جی کے قدم چھو کر جاتا ہوں تو ان کی نگاہوں کا عزم مجھے کتنی شانتی کتنی ٹھنڈک دیتا ہے میں جوہر وقت ایک بے نام ڈر سے کانپتا رہتا تھا اب نہیں کانپتا ....مجھے ہر وقت اس بات کی تسلی رہتی ہے وہ تو ہیں۔مجھے یقین ہے بابو جی کو بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہو گا،میں نہیں مانتا سر....یہ خالی خولی جذباتیت ہے۔ ہو سکتا تھا۔ ڈروے بھڑک اٹھتا ہو سکتا تھا وہ جمنا داس، اپنے ملازم کو اپنی فرم سے ڈسمس کر دیتا لیکن باپ کی آنکھوں کے دم نے اسے یہ نہ کرنے دیا۔اس کی آواز میں الٹا کہیں سے کوئی سر چلا آیا اور اس نے بڑے پیا ر سے کہا،تم کچھ بھی کہہ لو،جمنا ہر ایک بات تو تم جانتے ہو میں جہاں جاتا ہوں لوگ مجھے سلام کرتے ہیں۔میرے سامنے سر جھکا تے ہیں۔بچھ بچھ جاتے ہیں۔ ڈروے اس کے بعد ایکا ایکی چپ ہو گیا اس کا گلا اور آنکھیں دھندلا گئیں۔سر میں بھی تو یہی کہتا ہوں ....دنیا آپ کے سامنے سر جھکاتی ہے!اس لیے....ڈروے نے اپنی آواز پاتے ہوئے کہا ....کہیں میں بھی سر جھکانا چاہتا ہوں۔اتھاولے،جمناداس اب تم جاؤ پلیز !میری پوجا میں دکھن مت ڈالو،ہم نے پتھر سے خدا پایا ہے۔ گری گنج میں لگے ہوئے آ م کے پیڑوں میں بور پڑا۔ ادھر پہلی کوئل کوکی ادھر گاندھرو داس نے برسو ں کے بعد تان اڑائی.... کوئلیا بولے اموا کی ڈال ....وہ گانے لگے کسی نے کہا۔آپ کا بیٹا آپ سے اچھا گاتا ہے۔ امٹیا....گاندھرواس نے،عیبا بولی میں کہا ....آخر میرا بیٹا ہے۔باپ نے میٹرک کیا ہے تو بیٹا ایم اے نہ کرے؟ ایسی باتیں کرتے ہوئے ناسمجھ بے باپ کے لوگ گاندھرو داس کی طرف دیکھتے کہ ان کی جھریو ں میں کہیں تو جلن دکھا ئی دے جب کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی تو کسی نے لقمہ دیا آپ کا بیٹا کہتا ہے،میرا باپ مجھ سے جلتا ہے۔ سچ؟....میرا بیٹا کہتا ہے۔ ہاں،میں جھوٹ تھوڑے بول رہا ہوں۔ گاندھرو داس تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گئے جیسے وہ کہیں اندر عالم ارواح میں چلے گئے ہوں اور ماں سے بیٹے کی شکایت کی ہو۔بڑھیا سے کوئی جواب پا کر وہ دھیر ے سے بولے ....اور تو کوئی بات نہیں، میرا بیٹا.... وہ بھی باپ ہے ....وہ پھر ان دنوں کی طرف لوٹ گئے جب بیٹے نے کہا تھا۔بابو جی میں شاستریہ سنگیت میں آپ ایسا کمال پیدا کرنا چاہتا ہو ں مگر ڈھیر سارا روپیہ کما کر۔اور بابو جی نے بڑی شفقت سے بیٹے کے کندھے تھپ تھپاتے ہوئے کہا ....ایسے نہیں ہوتا راجو ....یا آدمی کمال حاصل کرتا ہے یا پیسے ہی بناتا چلے جاتا ہے جب دو بڑے بڑے آنسو لڑھک کر گاندھرو داس کی داڑھی میں اٹک گئے جہاں ڈروے بیٹھا تھا۔ ادھر سے روشنی میں وہ ضم ہو گئے سفید روشنی جن میں سے نکل کر سات رنگوں میں بکھر گئی۔ ڈروے کو نہ جانے کیا ہوا وہ اٹھ کر زور سے چلا یا.... گیٹ آؤٹ ....اور لوگ چوہوں کی طرح ایک دوسرے پر گرتے پڑتے ہوئے بھاگے۔ گاندھرو داس نے اپنا ہاتھ اٹھا یا اور صرف اتنا کہا .... نہیں بیٹے نہیں۔ ان کے ہاتھ سے کوئی برقی روئیں نکل رہی تھیں۔ ڈروے جب لارسن اینڈ لارسن میں گیا تو فلپ، اس کا ورکس مینجر کمپیوٹر کو ڈیٹا فیڈ کر رہا تھا کمپیوٹر سے کارڈ باہر آ یا تو اس کا رنگ پیلا پڑ گیا وہ بار بار آنکھیں جھپک رہا تھا اور کارڈ کی طرف دیکھ رہا تھا لارسن اینڈ لارسن کو اکتا لیس لاکھ کا گھاٹا پڑنے والا ہے اس گھبراہٹ میں اس نے کارڈ ڈروے کے سامنے کر دیا جسے دیکھ کر اس کے چہرے پر شکن تک نہ آئی۔ ڈروے نے صرف اتنا کہا۔ کوئی انفارمیشن غلط فیڈ ہو گئی ہے۔ نہیں سر ....میں نے بیسوں بار چیک کراس چیک کر کے اسے فیڈ کیا ہے۔ تو پھر مشین ہے کوئی نقص پیدا ہو گیا ہو گا۔ آئی بی ایم والوں کو بلاؤ۔ مودک چیف انجینئر تو ساؤتھ گیا ہے۔ ساؤتھ کہاں؟ ترپتی کے مندر سنا ہے اس نے اپنے لمبے ہپی بال کٹوا کر مورتی کی نذر کر دیئے ہیں۔ ڈروے ہلکا سا م��کرایا اور بولا تم نے یہ انفارمیشن فیڈ کی ہے کہ ہمارے بیچ ایک باپ آیا ہے؟ فلپ نے سمجھا ڈروے اس کا مذاق اڑا رہے ہیں یا ویسے ہی ان کا دماغ پھر گیا ہے مگر ڈروے کہتا رہا.... اب ہمارے سر پر کسی کا ہاتھ ہے تبریک ہے اس کے نتیجے کا حوصلہ اور ہمت مت بھولو۔ یہ مشین کسی انسان نے بنائی ہے جس کا کوئی باپ تھا۔ پھر اس کا باپ اور آخر سب کا باپ جہل مرکب یا مفرد ! فلپ نے اپنی اندرونی خفگی کا منہ موڑ دیا۔کیا دیویانی اب بھی بابو جی کے پاس آتی ہے۔ ہاں۔ مسز ڈورے کچھ نہیں کہتی۔ پہلے کہتی تھیں۔ اب وہ ان کی پوجا کرتی ہیں۔ بابو جی دراصل عورت کی جات ہی سے پیار کرتے ہیں۔ فلپ معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہیں پر کرتی کے چتون دیکھ لئے ہیں۔ جن کے جواب میں وہ مسکراتے تو ہیں لیکن کبھی کبھی بیچ میں آنکھ بھی مار دیتے ہیں۔ فلپ کاغصہ اور بڑھ گیا۔ ڈروے کہتا....بابو جی کو شبد، بیٹی، بہو، بھابی، چاچی، للی، میا، بہت اچھے لگتے ہیں۔ وہ بہو کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیار سے اس کا گال چوم لیتے ہیں اور یوں قید میں آزادی پا لیتے ہیں۔ اور آزادی میں قید دیویانی؟ ڈروے نے حقارت سے کہا۔ سیکس کو اتنی ہی اہمیت دو جتنی کا وہ مستحق ہے۔ تیتر بٹیر بنے بغیر اس کے حواس پر مت چھانے دو۔ سنگیت شاید ایک آرتی دیویانی کے لئے میں سمجھا نہیں سر؟ بابو جی نے بتایا کہ وہ لڑکی بچپن ہی میں آوارہ ہو گئی۔ اس نے اپنے باپ کو کچھ اس عالم میں دیکھ لیا جب کہ و ہ نو خیزی سے جوانی میں قدم رکھ رہی تھی۔ جب سے وہ ہمیشہ کے لئے آ پ ہی اپنی ماں ہو گئی۔ باپ کے مرنے کے بعد وہ گھبرا کر ایک مرد سے دوسرے،دوسرے سے تیسرے کے پاس جانے لگی۔ اس کا بدن ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا۔ مگر روح تھی کہ تھکتی ہی نہ تھی۔ کیا مطلب؟ دیویانی کو دراصل باپ ہی کی تلاش تھی۔ فلپ جو ایک کیتھولک تھا ایک دم بھڑک اُٹھا، اس کے ابرو بالشت بھر اُوپر اُٹھ گئے اور پھیلی ہوئی آنکھو ں سے نار جہنم لپکنے لگی۔ اس نے چلا کر کہا....یہ فراڈ ہے۔ مسٹر ڈروے پیور۔ این او لٹر ہیڈ فراڈ جبھی ڈروے نے اپنے خریدے ہوئے باپ کی نم آنکھوں کو درنے میں لئے، کمپیوٹر کے پس منظر میں کھڑے فلپ کی طرف دیکھا اور کہا.... آج ہی بابو جی نے کہا تھا، فلپ تم انسان کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو صرف محسوس کرو اسے ....!   ٭٭٭ Read the full article
0 notes
weaajkal · 6 years
Photo
Tumblr media
چور @MantoIsManto @MantoSays #Literature #Writer #urdu #aajkalpk مجھے بے شمار لوگوں کا قرض ادا کرنا تھا اور یہ سب شراب نوشی کی بدولت تھا۔ رات کو جب میں سونے کے لیے چارپائی پر لیٹتا تو میرا ہر قرض خوا میرے سرہانے موجود ہوتا۔ کہتے ہیں کہ شرابی کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے ساتھ میرے ضمیر کا معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ وہ ہر روز مجھے سرزنش کرتا اور میں خفیف ہوکے رہ جاتا۔ واقعی میں نے بیسیوں آدمیوں سے قرض لیا تھا۔ میں نے ایک رات سونے سے پہلے بلکہ یوں کہیے کہ سونے کی ناکام کوشش کرنے سے پہلے حساب لگایا تو قریب قریب ڈیڑھ ہزار روپے میرے ذمے نکلے۔ میں بہت پریشان ہوا۔ میں نے سوچا یہ ڈیڑھ ہزار روپے کیسے ادا ہوں گے۔ بیس پچیس روزانہ کی آمدن ہے لیکن وہ میری شراب کے لیے بمشکل کافی ہوتے ہیں۔ آپ یوں سمجھیے کہ ہر روز کی ایک بوتل۔ تھرڈ کلاس رم کی۔ دام ملاحظہ ہوں۔ سولہ روپے۔ سولہ روپے تو ایک طرف رہے، ان کے حاصل کرنے میں کم از کم تین روپے ٹانگے پر صرف ہوجاتے تھے۔ کام ہوتا نہیں تھا، بس پیشگی پر گزارہ تھا۔ لیکن جب پیشگی دینے والے تنگ آگئے تو اُنھوں نے میری شکل دیکھتے ہی کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیا یا اس سے پیشتر کہ میں ان سے ملوں کہیں غائب ہو گئے۔ آخر کب تک وہ مجھے پیشگی دیتے رہتے۔ لیکن میں مایوس نہ ہوتا اور خدا پر بھروسہ رکھ کر کسی نہ کسی حیلے سے دس پندرہ روپے اُدھار لینے میں کامیاب ہوجاتا۔ مگر یہ سلسلہ کب تک جاری رہ سکتا تھا۔ لوگ میری عزت کرتے تھے مگر اب وہ میری شکل دیکھتے ہی بھاگ جاتے تھے۔ سب کو افسوس تھا کہ اتنا اچھا مکینک تباہ ہورہاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں بہت اچھا مکینک تھا۔ مجھے کوئی بگڑی مشین دے دی جاتی تو میں اُس کو سرسری طورپر دیکھنے کے بعد یوں چٹکیوں میں ٹھیک کردیتا۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں میری یہ ذہانت صرف شراب ملنے کی اُمید پرقائم تھی، اس لیے کہ میں پہلے طے کرلیا کرتا تھا کہ اگر کام ٹھیک ہو گیا تو وہ مجھے اتنے روپے ادا کردیں گے جن سے میرے دو روز کی شراب چل سکے۔ وہ لوگ خوش تھے۔ مجھے وہ تین روز کی شراب کے دام ادا کردیتے۔ اس لیے کہ جو کام میں کردیتا وہ کسی اور سے نہیں ہوسکتا تھا۔ لوگ مجھے لُوٹ رہے تھے۔ میری ذہانت وذکاوت پر میری اجازت سے ڈاکے ڈال رہے تھے۔ اور لُطف یہ ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ میں اُنھیں لُوٹ رہا ہوں۔ اُن کی جیبوں پر ہاتھ صاف کررہا ہوں۔ اصل میں مجھے اپنی صلاحتیوں کی کوئی قدر نہ تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ میکنزم بالکل ایسی ہے جیسے کھانا کھانا یا شراب پینا۔ میں نے جب بھی کوئی کام ہاتھ میں لیا مجھے کوفت محسوس نہیں ہوئی۔ البتہ اتنی بات ضرور تھی کہ جب شام کے چھ بجنے لگتے تو میری طبعیت بے چین ہوجاتی۔ کام مکمل ہو چکا ہوتا مگر میں ایک دو پیچ غائب کردیتا تاکہ دوسرے روز بھی آمدن کا سلسلہ قائم رہے۔ یہ شراب حرامزادی کتنی بُری چیز ہے کہ آدمی کو بے ایمان بھی بنادیتی ہے۔ میں قریب قریب ہر روز کام کرتا تھا۔ میری مانگ بہت زیادہ تھی اس لیے کہ مجھ ایسا کاریگر ملک بھر میں نایاب تھا۔ تار باجا اور راگ بوجھا والاحساب تھا۔ میں مشین دیکھتے ہی سمجھ جاتا تھا کہ اس میں کیا قصور ہے۔ میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں۔ مشینری کتنی ہی بگڑی ہوئی کیوں نہ ہو اُس کو ٹھیک کرنے میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگنا چاہیے۔ لیکن اگر اس میں نئے پرزوں کی ضرورت ہو اور آسانی سے دستیاب نہ ہورہے ہوں تو اُس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ میں بلا ناغہ شراب پیتا تھا اور سوتے وقت بلا ناغہ اپنے قرض کے متعلق سوچتا تھا، جو مجھے مختلف آدمیوں کو ادا کرنا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا۔ پینے کے باوجود اضطراب کے باعث مجھے نیند نہ آتی۔ دماغ میں سینکڑوں اسکیمیں آتی تھیں۔ بس میری یہ خواہش تھی کہ کہیں سے دس ہزار روپے آجائیں تو میری جان میں جان آئے۔ ڈیڑھ ہزار روپیہ قرض کا فی الفور ادا کر دُوں۔ ایک ٹیکسی لُوں اور ہر قرض خواہ کے پاس جاکر معذرت طلب کروں اور جیب سے روپے نکال کر اُن کو دے دُوں۔ جو روپے باقی بچیں اُن سے ایک سیکنڈ ہینڈ موٹر خرید لوں اور شراب پینا چھوڑ دُوں۔ پھر یہ خیال آتا کہ نہیں دس ہزار سے کام نہیں چلے گا۔ کم از کم پچاس ہزار ہونے چاہئیں۔ میں سوچنے لگتا کہ اگراتنے روپے آجائیں، جو یقیناً آنے چاہئیں تو سب سے پہلے میں ایک ہزار نادار لوگوں میں تقسیم کر دُوں گا۔ ایسے لوگوں میں جو روپیہ لے کر کچھ کاروبار کرسکیں۔ باقی رہے انچاس ہزار۔ اس رقم میں سے میں نے دس ہزار اپنی بیوی کو دینے کا ارادہ کیا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ فکسڈ ڈیپازٹ ہونا چاہیے۔ گیارہ ہزار ہوئے باقی رہے انتالیس ہزار۔ میرے لیے بہت کافی تھے۔ میں نے سوچا یہ میری زیادتی ہے چنانچہ میں نے بیوی کا حصّہ دوگنا کردیا، یعنی بیس ہزار۔ اب بچے انتیس ہزار۔ میں نے سوچا کہ پندرہ ہزار اپنی بیوہ بہن کو دے دُوں گا۔ اب میرے پاس چودہ ہزار رہے۔ ان میں سے آپ سمجھیے کہ دو ہزار قرض کے نکل گئے۔ باقی بچے بارہ ہزار۔ ایک ہزار رُوپے کی اچھی شراب آنی چاہیے۔ لیکن میں نے فوراً تھو کردیا اور یہ سوچا کہ پہاڑ پر چلا جاؤں گا اور کم از کم چھ مہینے رہوں گا تاکہ صحت درست ہوجائے۔ شراب کے بجائے دُودھ پیا کروں گا۔ بس ایسے ہی خیالات میں دن رات گزر رہے تھے۔ پچاس ہزار کہاں سے آئیں گے یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ ویسے دو تین اسکیمیں ذہن میں تھیں۔ شمع دہلی کے معمے حل کروں اور پہلا انعام حاصل کر لُوں۔ ڈربی کی لاٹری کا ٹکٹ خرید لُوں۔ چوری کروں اور بڑی صفائی سے۔ میں فیصلہ نہ کرسکا کہ مجھے کون سا قدم اُٹھاناچاہیے۔ بہرحال یہ طے تھا کہ مجھے پچاس ہزار وپے حاصل کرنا ہیں۔ یُوں ملیں یا وُوں ملیں۔ اسکیمیں سوچ سوچ کر میرا دماغ چکرا گیا۔ رات کو نیند نہیں آتی تھی جو بہت بڑاعذاب تھا۔ قرض خواہ بے چارے تقاضا نہیں کرتے تھے لیکن جب اُن کی شکل دیکھتا تو ندامت کے مارے پسینہ پسینہ ہوجاتا۔ بعض اوقات تو میرا سانس رُکنے لگتا اور میرا جی چاہتا کہ خودکشی کر لُوں اور اس عذاب سے نجات پاؤں۔ مجھے معلوم نہیں کیسے اور کب میں نے تہیہ کرلیا کہ چوری کروں گا۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا کہ۔ محلے میں ایک بیوہ عورت رہتی ہے جس کے پاس بے اندازہ دولت ہے۔ اکیلی رہتی ہے۔ میں وہاں رات کے دو بجے پہنچا۔ یہ مجھے پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا وہ دوسری منزل پر رہتی ہے۔ نیچے پٹھان کا پہرہ تھا میں نے سوچا کوئی اور ترکیب سوچنی چاہیے اوپر جانے کے لیے۔ میں ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ میں نے خود کو اس پارسی لیڈی کے فلیٹ کے اندر پایا۔ میرا خیال ہے کہ میں پائپ کے ذریعے اُوپر چڑھ گیا تھا۔ ٹارچ میرے پاس تھی۔ اُس کی روشنی میں میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک بہت بڑا سیف تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی سیف کھولا تھا نہ بند کیا تھا لیکن اس وقت جانے مجھے کہاں سے ہدایت ملی کہ میں نے ایک معمولی تار سے اُسے کھول ڈالا۔ اندر زیور ہی ز یور تھے۔ بہت بیش قیمت۔ میں نے سب سمیٹے اور مکے مدینے والے زرد رومال میں باندھ لیے۔ پچاس ساٹھ ہزارروپے کا مال ہو گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اتناہی چاہیے تھا۔ کہ اچانک دوسرے کمرے سے ایک بُڑھیا پارسی عورت نمودار ہوئی۔ اُس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر پوپلی سی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ میں نے اپنی جیب سے بھرا ہوا پستول نکال کرتان لیا۔ اس کی پوپلی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر اور زیادہ پھیل گئی۔ اُس نے مجھے بڑے پیار سے پوچھا۔ ’’آپ یہاں کیسے آئے؟‘‘ میں نے سیدھا سا جواب دیا۔ ’’چوری کرنے۔ ‘‘ ’’اوہ!‘‘ بُڑھیا کے چہرے کی جھریاں مسکرانے لگیں۔ ’’تو بیٹھو۔ میرے گھر میں تو نقدی کی صورت میں صرف ڈیڑھ روپیہ ہے۔ تم نے زیور چرایا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ تم پکڑے جاؤ گے کیونکہ ان زیوروں کو صرف کوئی بڑا جوہری ہی لے سکتا ہے۔ اور ہر بڑا جوہری انھیں پہچانتا ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ کُرسی پر بیٹھ گئی۔ میں بہت پریشان تھا کہ یا الٰہی یہ سلسلہ کیا ہے۔ میں نے چوری کی ہے اور بڑی بی مسکرا مسکرا کر مجھ سے باتیں کررہی ہے۔ کیوں؟ لیکن فوراً اس کیوں کا مطلب سمجھ میں آگیا جب ماتا جی نے آگے بڑھ کر میرے پستول کی پروانہ کرتے ہُوئے میرے ہونٹوں کا بوسہ لے لیا اور اپنی بانھیں میری گردن میں ڈال دیں۔ اس وقت خدا کی قسم میرا جی چاہا کہ گٹھڑی ایک طرف پھینکوں اور وہاں سے بھاگ جاؤں۔ مگر وہ تسمہ پا عورت نکلی اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ میں مطلقاً ہل جل نہ سکا۔ اصل میں میرے ہر رگ و ریشے میں ایک عجیب و غریب قسم کا خوف سرایت کرگیا تھا۔ میں اسے ڈائن سمجھنے لگا تھا جو میرا کلیجہ نکال کرکھانا چاہتی تھی۔ میری زندگی میں کسی عورت کا دخل نہیں تھا۔ میں غیر شادی شدہ تھا۔ میں نے اپنی زندگی کے تیس برسوں میں کسی عورت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر پہلی رات جب کہ میں چوری کرنے کے لیے نکلا تو مجھے یہ پھپھا کُٹنی مل گئی جس نے مجھ سے عشق کرنا شروع کردیا۔ آپ کی جان کی قسم میرے ہوش و حواس غائب ہو گئے۔ وہ بہت ہی کریہہ المنظر تھی میں نے اُس سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ’’ماتا جی مجھے بخشو۔ یہ پڑے ہیں آپ کے زیور۔ مجھے اجازت دیجیے۔ ‘‘ اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ ’’تم نہیں جاسکتے۔ تمہارا پستول میرے پاس ہے۔ اگر تم نے ذرا سی بھی جنبش کی تو ڈز کردوں گی۔ یاٹیلی فون کرکے پولیس کو اطلاع دے دُوں گی کہ وہ آکر تمھیں گرفتار کرلے۔ لیکن جانِ من میں ایسا نہیں کروں گی۔ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔ میں ابھی تک کنواری رہی ہوں۔ اب تم یہاں سے نہیں جاسکتے۔ ‘‘ یہ سُن کر قریب تھا کہ میں بے ہوش ہوجاؤں کہ ٹن ٹن شروع ہوئی۔ دُور کوئی کلاک صبح کے پانچ بجنے کی اطلاع دے رہا تھا۔ میں نے بڑی بی کی ٹھوڑی پکڑی اور اُس کے مُرجھائے ہوئے ہونٹوں کا بوسہ لے کر جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں عورتیں دیکھی ہیں لیکن خدا واحد شاہد ہے کے تم ایسی عورت سے میرا کبھی واسطہ نہیں پڑا۔ تم کسی بھی مرد کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے اپنی زندگی کی پہلی چوری تمہارے مکان سے شروع کی۔ یہ زیور پڑے ہیں۔ میں کل آؤنگا بشرطیکہ تم وعدہ کرو کہ مکان میں اور کوئی نہیں ہو گا۔ ‘‘ بڑھیا یہ سُن کر بہت خوش ہوئی۔ ’’ضرور آؤ۔ تم اگر چاہو گے تو گھر میں ایک مچھر تک بھی نہیں ہو گا جو تمہارے کانوں کو تکلیف دے۔ مجھے افسوس ہے کہ گھر میں صرف ایک روپیہ اور آٹھ آنے تھے۔ کل تم آؤ گے تو میں تمہارے لیے بیس پچیس ہزار بنک سے نکلوالوں گی۔ یہ لو اپنا پستول۔ ‘‘ میں نے اپنا پستول لیا اور وہاں سے دُم دبا کر بھاگا۔ پہلا وار خالی گیا تھا۔ میں نے سوچا کہیں اور کوشش کرنی چاہیے۔ قرض ادا کرنے ہیں اورجو میں نے پلان بنایا ہے اُس کی تکمیل بھی ہوناچاہیے۔ چنانچہ میں نے ایک جگہ اور کوشش کی۔ سردیوں کے دن تھے صبح کے چھ بجنے والے تھے۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب سب گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں۔ مجھے ایک مکان کا پتہ تھا کہ اس کا جو مالک ہے بڑا مالدار ہے۔ بہت کنجوس ہے۔ اپنا روپیہ بینک میں نہیں رکھتا۔ گھر میں رکھتا ہے۔ میں نے سوچا اُس کے ہاں چلنا چاہئے۔ میں وہاں کن مشکلوں سے اندر داخل ہوا میں بیان نہیں کرسکتا۔ بہرحال پہنچ گیا۔ صاحب خانہ جو ماشاء اللہ جوان تھے۔ سورہے تھے۔ میں نے اُن کے سرہانے سے چابیاں نکالیں اور الماریاں کھولنا شروع کردیں۔ ایک الماری میں کاغذات تھے اور کچھ فرنچ لیدر۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ یہ شخص جو کنوارا ہے فرنچ لیدر کہاں استعمال کرتا ہے۔ دوسری الماری میں کپڑے تھے۔ تیسری بالکل خالی تھی معلوم نہیں اس میں تالا کیوں پڑا ہوا تھا۔ اور کوئی الماری نہیں تھی۔ میں نے تمام مکان کی تلاشی لی لیکن مجھے ایک پیسہ بھی نظر نہ آیا۔ میں نے سوچا اس شخص نے ضرور اپنی دولت کہیں دبا رکھی ہو گی۔ چنانچہ میں نے اس کے سینے پر بھرا ہوا پستول رکھ کر اُسے جگایا۔ وہ ایساچونکا اور بدکا کہ میرا پستول فرش پر جاپڑا۔ میں نے ایک دم پسول اٹھایا اور اُس سے کہا۔ ’’میں چور ہوں۔ یہاں چوری کرنے آیا ہوں۔ لیکن تمہاری تین الماریوں سے مجھے ایک دمڑی بھی نہیں ملی۔ حالانکہ میں نے سُنا تھا کہ تم بڑے مالدار آدمی ہو۔ ‘‘ وہ شخص جس کا نام مجھے اب یاد نہیں مسکرایا۔ انگڑائی لے کر اُٹھا اور مجھے سے کہنے لگا۔ ’’یار تم چور ہو تو تم نے مجھے پہلے اطلاع دی ہوتی۔ مجھے چوروں سے بہت پیار ہے۔ یہاں جو بھی آتا ہے وہ خود کو بڑا شریف آدمی کہتا ہے حالانکہ وہ اوّل درجے کا کالا چور ہوتا ہے۔ مگر تم چور ہو۔ تم نے اپنے آپ کو چھیایا نہیں ہے۔ میں تم سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر اُس نے مجھے سے ہاتھ ملایا۔ اس کے بعد ریفریجریٹر کھولا۔ میں سمجھا شاید میری تواضع شربت وغیرہ سے کرے گا۔ لیکن اُس نے مجھے بُلایا اور کھلے ہوئے ریفریجریٹر کے پاس لے جاکر کہا۔ ’’دوست میں اپنا سارا روپیہ اس میں رکھتا ہوں۔ یہ صندوق��ی دیکھتے ہو۔ اس میں قریب قریب ایک لاکھ روپیہ پڑا ہے۔ تمھیں کتنا چاہیے؟‘‘ اُس نے صندوقچی باہر نکالی جو یخ بستہ تھی۔ اُسے کھولا۔ اندر سبز رنگ کے نوٹوں کی گڈیاں پڑی تھیں۔ ایک گڈی نکال کر اس نے میرے ہاتھ میں تھمادی اور کہا۔ ’’بس اتنے کافی ہوں گے۔ دس ہزار ہیں۔ ‘‘ میری سمجھ میں نہ آیا کہ اُسے کیا جواب دُوں۔ میں تو چوری کرنے آیا تھا۔ میں نے گڈی اُس کو واپس دی اور کہا۔ ’’صاحب! مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ مجھے معافی دیجیے۔ پھر کبھی حاضر ہوں گا۔ ‘‘ میں وہاں سے آپ سمجھیے کہ دُم دبا کر بھاگا گھر پہنچا تو سورج نکل چکا تھا۔ میں نے سوچا کہ چوری کا ارادہ ترک کردینا چاہیے۔ دوجگہ کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ دوسری رات کو کوشش کرتا تو کامیابی یقینی نہیں تھی۔ لیکن قرض بدستور اپنی جگہ پر موجود تھا جو مجھے بہت تنگ کررہا تھا۔ حلق میں یوں سمجھیے کہ ایک پھانس سی اٹک گئی تھی۔ میں نے بالآخر یہ ارادہ کرلیا کہ جب اچھی طرح سوچکوں گا تو اُٹھ کر خود کشی کر لُوں گا۔ سو رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں اُٹھا۔ دروازہ کھولا۔ ایک بزرگ آدمی کھڑے تھے۔ میں نے اُن کو آداب عرض کیا۔ انھوں نے مجھ سے فرمایا۔ ’’لفافہ دینا تھا اس لیے آپ کو تکلیف دی۔ معاف فرمائے گا، آپ سورہے تھے۔ ‘‘ میں نے اُس سے لفافہ لیا۔ وہ سلام کر کے چلے گئے۔ میں نے درواز بند کیا۔ لفافہ کافی وزنی تھا۔ میں نے اُسے کھولا اور دیکھا کہ سو سو روپے کے بے شمار نوٹ ہیں۔ گنے تو پچاس ہزار نکلے۔ ایک مختصر سا رقعہ تھا، جس میں لکھا تھا کہ آپ کے یہ روپے مجھے بہت دیر پہلے ادا کرنے تھے۔ افسوس ہے کہ میں اب ادا کرنے کے قابل ہوا ہوں‘‘ میں نے بہت غور کیا کہ یہ صاحب کون ہوسکتے ہیں جنہوں نے مجھ سے قرض لیا۔ سوچتے سوچتے میں نے آخر سوچا کہ ہوسکتا ہے کسی نے مجھ سے قرض لیا ہو جو مجھے یاد نہ رہا ہو۔ بیس ہزار اپنی بیوی کو۔ پندرہ ہزار اپنی بیوہ بہن کو۔ دو ہزار قرض کے۔ باقی بچے تیرہ ہزار۔ ایک ہزار میں اچھی شراب کے لیے رکھ لیے۔ پہاڑ پر جانے اور دُودھ پینے کا خیال میں نے چھوڑ دیا۔ دروازے پر پھر دستک ہوئی۔ اُٹھ کر باہر گیا۔ دروزہ کھولا تو میرا ایک قرض خواہ کھڑا تھا۔ اُس نے مجھ سے پانچ سو روپے لینا تھے۔ میں لپک کر اندر گیا۔ تکیے کے نیچے نوٹوں کا لفافہ دیکھا مگر وہاں کچھ موجود ہی نہیں تھا۔ سعادت حسن منٹو
0 notes
penslipsmagazine · 6 years
Photo
Tumblr media
اچھلتا مینڈک ۔۔۔ نصیر احمد اچھلتا مینڈک (نصیر احمد) میں نے اپنی زندگی میں بادشاہ سے زیادہ مزاح پسند آدمی نہیں دیکھا۔ وہ شاید صرف ہنسی مذاق کی خاطر زندہ تھا۔ ایک مزاحیہ کہانی سنانا اور اچھی طرح سے سنانا بادشاہ کا دل جیتنے اور انعام پانے کا بہترین ذریعہ تھا۔ اس کے ساتھ وزرا بھی لطیفہ سازی کے فن کے ماہرین تھے۔ وہ اپنے بادشاہ کی طرح فربہ اندام، چکنی مٹی سے بنے اور بے مثال مسخرے تھے۔ پتا نہیں ہنسی مذاق لوگوں کو موٹا کردیتا ہے یا فربہی میں ایسی کوئی بات ہوتی ہے کہ لوگ مائل بہ مزاح ہو جاتے ہیں۔ میں یہ بات یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دھان پان مسخرہ کم ہی ملتا ہے۔ بادشاہ شستہ جگت جسے وہ مزاح کا سایہ کہتا تھا کو سمجھنے کی مشکل میں کم ہی پڑتا تھا۔ اس کے برعکس وہ طویل اور پھکڑ لطیفوں کا زیادہ شائق تھا۔ وہ مشتاق یوسفی کی نسبت یونس بٹ سے زیادہ محظوظ ہوتا۔علاوہ ازیں شرارتوں کو جگت سے زیادہ بادشاہ کے ذوق سے مناسبت تھی۔ اس داستان کے عہد میں پیشہ ور مسخرے شاہی درباروں سے مکمل طور پر بے دخل نہیں کر دیے گئے۔ براعظم کی کئی حکومتوں نے مسخروں کو درباروں میں برقرار رکھا ہوا تھا جو شاہی دستر خوان کے ٹکڑوں سے فیض یاب ہو نے کے لیے ٹوپیوں اور گھنٹیوں سے مسلح، مختصر سے مختصر نوٹس پر اپنی طبائع کی طراری کا جادو جگانے کے لیے آن موجود ہوتے تھے۔ ہمارے بادشاہ کے پاس بھی ایک احمق ہمہ وقت حاضر تھا۔ در اصل باشاہ کو اپنی اور اپنے وزرا کی بوجھل دانائی کو متوازن رکھنے کے لیے حماقت کا کچھ سامان در کار تھا۔ بادشاہ کا یہ مسخرہ صرف مسخرہ نہیں تھا بلکہ اس کا پستہ قد اور معذوری بادشاہ کی نظروں میں سہ گنا اہمیت کی حامل تھی۔ ان دنوں بونے شاہی درباروں میں مسخروں کی طرح مقبول تھے۔ اکثر حکمرانوں کے لیے بونوں اور مسخروں کے بغیر صبح کو شام کرنا دشوار ہو جاتا تھا کہ مسخرے ان حکمرانوں کو ہنساتے تھے اور بونوں پر وہ ہنستے تھے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ سو میں ننانوے مسخرے موٹے، گول مٹول اور اول جلول سے ہوتے ہیں۔ بادشاہ کے اس مسخرے کا نام اچھلتا مینڈک تھا۔ اچھلتے مینڈک جیسے مزاح کے سہ جہتی خزانے کا مالک ہونا ہمارے بادشاہ کی خود پسندی کی تسکین کا باعث تھا۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اچھلتا مینڈک اس کا اصطباغی نام نہیں تھا بلکہ یہ نام اسے سات وزیروں کی متفقہ رائے کے بعد اسے اس کی چلنے کی معذوری کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اچھلتا مینڈک واقعی میں اچھل اچھل کر چلتا تھا۔ اس کی چال چھلانگ اور لہرا لہرا کے چلنے کا امتزاج تھی۔ ایسی چال جس کی دید باشاہ اور اس کے وزیروں کے لیے باعث عید تھی۔ اس پر مسخرے کا بڑھا ہوا پیٹ اور بڑا سا سر ان کا مزہ دوبالا کر دیتا تھا۔پھر بادشاہ کی خوشی دربار کی خوشی تھی اس لیے ہم سب مسخرے کی معذوریوں پہ ہنستے رہتے تھے۔ اگرچہ اچھلتا مینڈک اپنی ٹانگوں کے بھدے پن کے سبب سڑک اور فرش پر بمشکل چل سکتا تھا لیکن اس کے نچلے تن کے ضعف کی کمی اس کے اوپری عضلات کی بے پناہ قوت نے پوری کردی تھی۔ یہ قوت اس کے بازووں میں تھی جن کی مدد سے وہ طاقت کے حیران کن مظاہرے کرنے کے قابل تھا۔ اگر رسی کی مدد سے درخت یا کسی اور اونچے مقام پر چڑھنے کا مسئلہ درپیش ہو تو اس کی یہ قوت کام آتی تھی۔اس قسم کی مشقوں کے دوران وہ مینڈک کی بجائے گلہری اور بندر سے زیادہ مشابہ دکھائی دیتا۔ میں پورے یقین سے تو نہیں کہ سکتا مگر سنا ہے کہ وہ ہمارے بادشاہ کی سلطنت کے کسی دور دراز قبائلی علاقے کا باشندہ تھا۔ وہ اور اس سے ذرا کم ایک بونی لڑکی ان قبائلی علاقوں میں واقع اپنے گھروں سے جبری طور پر بے دخل کر دیے گئے تھے۔ اور بادشاہ کے کسی سپہ سالار نے بادشاہ کی خدمت میں تحفے کے طور پر پیش کیے تھے۔ وہ لڑکی متناسب اعضا کی حامل ایک ماہر رقاصہ تھی۔ مسخرہ اور وہ بونی لڑکی اپنے برے حالات کی وجہ سے ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے تھے اور ایک دوسرے کے قریبی دوست بن گئے تھے۔ اچھلتے مینڈک کے تماشے بھی ہم لوگوں کو بہت پسند تھے مگر اس بونی لڑکی ٹرپٹا کی خدمت کرنے نے مسخرے کو ہر دلعزیز بنا دیا تھا۔ کیونکہ بونی ہونے کے باوجود ٹرپٹا اپنے بے پناہ حسن کے باعث شہر میں بہت پسندیدہ تھی۔ ٹرپٹا بھی بڑے اثرو رسوخ کی مالک تھی۔ اور اچھلتے مینڈک کے لیے اپنے تعلقات استعمال کرنے سے کبھی بھی نہیں چوکتی تھی۔جب بھی اسے موقع ملتا۔ ایک ریاستی تہوار کے موقع پر، جس کا نام میں بھول گیا ہوں، بادشاہ نے نقاب پوشوں کے تماشے کی ٹھانی۔ اور جب بھی دربار میں نقاب پوشوں کے تماشے یا اس قسم کے کسی اور جشن کا انعقاد ہوتا ، اچھلتے مینڈک اور ٹرپٹا کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے لیے ضرور بلایا جاتا۔ خاص طور پر اچھلتا مینڈک جلسہ جلوس نکالنے، نت نئے کردار تجویز کرنے اور نوٹنکی کی شان بڑھانے کے لیے ان کرداروں کے ملبوسات کی آرائش کرنے کے معاملے میں ماہر تھا۔ اس کی مدد کے بغیر نقاب پوشوں کا ناچ تقریبا نا ممکن تھا۔ پھر جشن کی مقررہ شب آ پہنچی۔ ٹرپٹا کی زیر نگرانی ایک شاندار ہال نقاب پوشوں کے ناٹک کا تاثر فزوں کرنے کے لیے ہر ممکن آرائشی سامان سے سجایا گیا۔ جہاں تک ملبوسات اور کرداروں کا تعلق ہے، ہر کسی کو یہ اندازہ تھا کہ معاملات طے ہو چکے ہیں۔ اکثر اداکاروں نے اپنے کرداروں کا ہفتوں اور بعض صورتوں میں مہینوں پہلے اپنے کرداروں کا انتخاب کر لیا تھا۔ درحقیقت بادشاہ اور اس کے وزیروں کے علاوہ کسی کو اس معاملے میں ذرہ برابر بے یقینی نہیں تھی۔ پتا نہیں کیوں بادشاہ اور اس کے وزیروں نے اس معاملے میں حصہ ڈالنے میں تاخیر کر دی تھی۔ ان کے تامل کی وجہ شاید ان کی مذاق پسند طبیعتوں سے شاید جڑی ہو۔ قرین قیاس تو یہی ہے کہ ان کے جسموں پر چڑھی ہوئی چربی باعث تاخیر تھی۔بہرحال ہر کام احسن طریقے سے انجام پایا تو انھوں نے اچھلتے مینڈک اور ٹرپٹا کو دربار میں بلوا لیا۔ جب دونوں دوست شاہی فرمان کی بجآوری کے لیے دربار میں داخل ہوئے تو بادشاہ اور وزیر مے نوشی کی نشست گاہ پر براجمان تھے۔ لیکن بادشاہ کی طبیعت بہت منغض معلوم ہوتی تھی۔ بادشاہ جانتا تھا کہ اچھلتا مینڈک شراب نوشی کو ناپسند کرتا تھا کیونکہ اسے اپنے حواس کھونا اچھا نہیں لگتا تھا۔ ویسے بھی پاگل پن کا احساس اتنا سکوں خیز احساس تو ہوتا نہیں۔ مگر چونکہ بادشاہ شرارتوں کا دلدادہ تھا اس لیے اچھلتے مینڈک کو شراب پلا کر وہ حظ اٹھایا کرتا۔ ادھر آو اچھلتے مینڈک، جونہی مسخرہ اور اس کی دوست نشست گاہ میں داخل ہوئے، بادشاہ نے کہا۔اور اپنے غیر حاضر دوستوں کا جام صحت نوش کرو۔ اس بات پر اچھلتے مینڈک نے آہ بھری۔ بادشاہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ اور ہمیں اپنی خلاقی سے لطف اندوز کرو۔ ہمیں کردار چاہییں، معمول سے ہٹ کرنئے کردار۔ اس ازلی یکسانیت سے ہم بیزار ہو چکے ہیں۔ آو، پیو، شراب تمھاری طرار طبع کو چار چاند لگا دے گی۔ اچھلتے مینڈک نے بادشاہ کے اس حملے کو ایک برجستہ فقرے سے ٹالنے کی کوشش کی مگر اس کی کوشش بار آور ثابت نہ ہوئی۔اس دن بدقسمتی سے اچھلتے مینڈک کی سالگرہ بھی تھی۔ اور اپنے کھوئے ہوئے دوستوں کی یاد میں جام نوش کرنے کا حکم سنتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔اس نے جب ظالم حکمران کے ہاتھوں سے پیالہ لیا تو اس کے آنسو پیالے میں گر گرہے تھے۔ ہا ہا،ہاہا، بادشاہ گرجا جیسے ہی اچھلتے مینڈک نے بادل نخواستہ شراب حلق میں انڈیلی۔ دیکھا، اس جام کا کرشمہ دیکھا۔ تیری آنکھیں چمک اٹھی ہیں۔ بے چارہ، اچھلتا مینڈک، اس کی بڑی بڑی آنکھیں چمکنے کے بجائے وفور غم سے چندھیا سی گئی تھیں۔ شراب کا اس کے جوشیلے دماغ پر تھوڑا بہت تو اثر ہو ہی گیا تھا۔اس نے پیالہ میز پر رکھ دیا اور اہل مجلس کو پاگلوں کی طرح گھورنے لگا۔ ساری محفل بادشاہ کی کامیاب شرارت پہ مسرور تھی۔ اب کام کی بات، وزیر اعظم نے کہا جو کہ ایک موٹا تازہ شخص تھا۔ ہاں ، بادشاہ نے کہا- اچھلتے مینڈک، آؤ، ہماری اعانت کرو۔ پیارے ہم سب کو کردار درکار ہیں۔ ہا ہا ہا ہا چونکہ یہ قہقہہ داد کے لیے لگایا گیا تھا، اس لیے سات وزیروں نے ہم آہنگ ہو کر، بادشاہ کا ساتھ دیا۔ اچھلتا مینڈک کمزور اور کھوکھلی سی ہنسی ہنس دیا۔ آؤ، آؤ، بادشاہ نے بے صبری سے کہا۔ کیا تمھارے پاس کوئی نئی تجویز نہیں ہے؟ میں ایک نئی چیز کھوجنے کی فکر میں ہوں۔ بونے نے کسی قدر غائب دماغی سے جواب دیا۔ کھوج، بادشاہ غصے میں چلایا۔ کیا مطلب ہے تمھارا۔ ہاں، اب میں سمجھا تمھیں مزید شراب کی طلب محسوس ہو رہی ہے۔ اور بادشاہ نے ایک اور جام بھر کر لنگڑے کو پیش کردیا۔ اس نے نظر بھر کر شراب کی طرف دیکھا اور لنگڑے کی سانسیں اٹکنے لگیں۔ میں کہتا ہوں پیو ۔ کسی عفریت کی طرح بادشاہ چیخا۔ ورنہ شیطانوں کی قسم۔ بونا ہچکچا گیا۔ بادشاہ کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اور درباری طنزیہ مسکرانے لگے۔لاش کی طرح زرد ٹرپٹا بادشاہ کی نشست کی طرف بڑھی اور گھٹنوں کے بل جھک کر اپنے دوست کی جاں بخشی کے لیے بادشاہ سے التجائیں کرنے لگی۔ ٹرپٹا کی اس بدتہذیبی پر بادشاہ نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا۔ظاہر تھا کہ بادشاہ سے بن نہیں پڑ رہا کہ کیا کرے، کیا کہے جو اس کی نفرت اور توہین کا بھرپور اظہار کر سکے۔بلآخر اس نے کوئی لفظ کہے بغیر، ٹرپٹا کو دور دھکیلا اور لبالب پیالہ ٹرپٹا کے چہرے پر لوٹ دیا۔ بے چاری لڑکی تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس میں آہ بھرنے کا بھی یارا نہ تھا۔ اور میز کے ایک کونے پر اپنی مقررہ جگہ پر جا کے بیٹھ گئی۔کوئی ڈیڑھ منٹ تک ماحول پر موت کا سا سکوت چھایا رہا۔جس کے دوران اگر کوئی پر یا پتا بھی گرتا تو اس کی بھی آواز سنی جاتی۔ اس سکوت کو ایک مدھم، کرخت اور کٹی پھٹی غراہٹ نے توڑا جو بیک وقت نشست گاہ کے ہر گوشے سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ تم کس لیے شور مچارہے ہو۔ بادشاہنے خفگی سے بونے کی طرف مڑتے ہوئے استفسار کیا۔ بونے نے کافی حد تک اپنے اوسان بحال کر لیے تھے۔ اس نے بادشاہ پر معصومیت سے آنکھیں گاڑ کر کہا۔ میں، میں، میں یہ گستاخی کیسے کر سکتا ہوں۔ یہ آواز کہیں بار سے آئی ہے۔ ایک درباری نے خیال ظاہر کیا۔شاید کسی توتے نے کھڑکی کے باہر اپنے پنجرے سے چونچ رگڑی ہے۔ درست۔ بادشاہ کو جیسے اس رائے نے طمانیت بخشی۔مگر جنگجووں کی عزت کی قسم، یہ اسی آوارہ کے دانت پیسنے کی آواز ہے۔اس پر بونا کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ باشاہ ایک مسلم مزاح پرست تھا اس لیے اسے ہنسی پر اعتراض نہ ہوتا تھا۔ بونے نے اپنے بھدے اور مضبوط دانتوں کی نمائش کی اور رضائے شاہی کی تکمیل تک شراب چڑھانے کا عندیہ دے دیا۔اس کی فرمان برداری نے بادشاہ کو شانت کر دیا۔ایک اور پیالہ گلے میں اتارنے کے بعد اچھلتا مینڈک جوش و خروش کے ساتھ نقاب پوشوں کے ناٹک کی منصوبہ سازی میں مصروف ہو گیا۔ اور ایسی چابک دستی جیسے اس نے کبھی شراب پی ہی نہ ہو۔ بونے نے کہا۔ میں یہ تو بتا نہیں سکتا کہ کس بنا پر یہ خیال میرے ذہن میں آیا لیکن جونہی عالم پناہ نے لڑکی کو دھکیلا اور اس کے چہرے پر شراب لوٹ دی، جیسے عالم پناہ نے یہ سب کچھ کیا اور جب توتا کھڑکی کے باہر بے کار کا واویلا کر رہا تھا تب میرے ذہن میں ایک عظیم الشان عام ڈگر سے ہٹا ہو یہ خیال آیا۔میرے وطن کے لوک ورثہ میں سے نقاب پوشوں کا ایک ناٹک ہم لوگ اکثر کھیلا کرتے تھے مگر یہاں پر وہ کھیل نیا ہو گا۔ شومئی قسمت اس کھیل کے لیے آٹھ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہم آٹھ ہی تو ہیں۔ بادشاہ نے اپنی اس اتفاقی دریافت پر ہنستے ہوئے کہا۔ پورے آٹھ ہیں، میں اور میرے سات وزیر۔ ہم اس کھیل کو آٹھ زنجیر بستہ بن مانسوں کا کھیل کہتے ہیں۔ یہ ایک اعلی تفریح ہوتی ہے اگر ٹھیک طرح سے ادا کی جائے۔ ہم اسے نبھاہیں گے بادشاہ نے اٹھے ہوئے پلکیں جھپکا کر کہا۔ کھیل کی خوبصورتی۔ اچھلتے مینڈک نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، اس دہشت میں ہے جو یہ کھیل خواتین کے دلوں میں پیدا کرتا ہے۔ شاندار، بادشاہ اور اس کے وزیر ایک ساتھ گرجے۔ میں آپ صاحبان کو بن مانس بنا دوں گا، بونے نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ یہ سب آپ مجھ پر چھوڑ دیں، مشابہت اتنی عمدہ ہو گی کہ باقی نقاب پوش ناٹکی آپ کو صیحیح معنوں میں درندے سمجھنے لگیں گے۔ وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہو نے کے ساتھ ساتھ حیران بھی رہ جائیں گے۔ اعلی، بہت اعلی، بادشاہ نے جوش سے کہا، اس کھیل کے صلے میں اچھلتے مینڈک میں تمھیں انسان بنا دوں گا۔ زنجیریں اپنی چھنکاہٹ سے ابہام بڑھانے کے مقصد کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ آپ لوگ اپنے نگرانوں سے بھاگے ہوئے قیدیوں کا کردار ادا کریں گے۔ عالم پناہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ نقابوں کے ناٹک کے موقع پر، آٹھ بن مانس جن کو بیشتر لوگ اصلی جانتے ہوں، کیسا تاثر پیش کریں گے۔ وحشیانہ چیخوں کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہوئے، نفیس اور نازک لوگوں کے درمیاں۔ یہ تضاد تو ناقابل نقل ہے۔ ضرور ضرور اور مجلس مشاورت برخاست ہوئی تاکہ اچھلتے مینڈک کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ کیونکہ دیر ہوتی جارہی تھی۔ بونے کا اس منڈلی کو بن مانس بنانے کا طریقہ بہت سادہ لیکن اس کے مقاصد کے حصول کے لیے کافی تھا۔اس طرح کے حیوان مہذب دنیا میں جس وقت میں نے یہ کہانی لکھی تھی شاذ و نادر ہی دکھائی دیتے تھے۔چونکہ کرداروں کو مناسب طرح سے درندوں کی طرح بنایا گیا تھا۔ بہت زیادہ بھیانک بھی۔ اسی طرح سے فطرت کے حقائق کو درست طریقے سے پیش کرنے کی سعی کی گئی تھی۔ بادشاہ اور اس کے وزیروں کو تنگ ، بھاری قمیصوں اور چوڑی دار پائجاموں میں ملفوف کر دیا گیا۔ پھر ان کے جسموں پر تارکول پھیلا دی گئی۔ اس موقعے پر منڈلی کے ایک رکن نے پروں کی فرمائش کی جو بونے نے مسترد کر دی۔ اور عملی مطاہرے سے ان سب لوگوں کو قائل کر لیا کہ وحشیوں پر فلیکس کے پودوں کے ریشوں سے بنے ہوئے بال زیادہ سجتے ہیں۔تارکول کی تہہ پر فلیکس کی گھنی تہہ جما دی گئی۔ ایک لمبی زنجیر لائی گئی۔ پہلے بادشاہ کی کمر سے یہ زنجیر گزاری گئی اور پھر دوسروں کو اسی طریقے اس زنجیر سے منسلک کر دیا گیا۔ جب یہ زنجیری انتظام مکمل ہوا اور گروہ کے اراکین جو ایک دوسرے سے دور کھڑے تھے ، دائرے کی شکل میں ایک دوسرے کے قریب آگئے تا کہ تماشہ اصلی لگے۔ تب اچھلتے مینڈک نے زنجیر کو محور دونوں سمتوں سے صیحیح زاویوں میں سے گزار دیا۔ ویسے ہی جیسے آجکل ہم لوگ لنگور اور چمپینزی پکڑتے ہیں۔ جس تفریح گاہ میں یہ تماشا منعقد ہونا تھا وہ درحقیقت دائرے کی شکل میں اونچی چھت والا ایک کمرہ تھی۔اس تفریح گاہ میں روشنی صرف بالائی کھڑکی سے اندر داخل ہو سکتی تھی۔رات کے جشن کے لیے تیار کردہ یہ کمرہ ایک بڑے فانوس سے روشن کیا جاتا تھا۔یہ فانوس کمرےکے وسط میں ایک آہنی ڈوری سے بندھا ہوا تھا۔اس ڈوری کی مدد سے فانوس کو اوپر نیچے کیا جا سکتا تھا۔ مگر اس ڈوری کا سرا چھت کے اوپر تھا۔ کمرے کے انتظامات کی نگرانی کے لیے ٹرپٹا کو مقرر کیا گیا تھا مگر چند خاص اوامر میں اسے اپنے بونے دوست کی متواز قوت فیصلہ کی رہنمائی حاصل تھی۔بونے کے مشورے پر اس جشن کے موقع پر فانوس ہٹا دیا گیا تھا کیونکہ اس فانوس میں رکھی موم بتیوں کا پگھلتا موم مہمانوں کے لباس خراب کر سکتا تھا۔ ان مہمانوں کو بھیڑ کے باعث فانوس کے عین وسط سے دور رکھنا نا ممکن تھا۔اور اس گرم موسم میں موم نے تو پگھلنا ہی تھا۔ ہال کے مختلف حصوں میں گزرگاہوں سے ذرا پرے روشنی کرنے کے دیگر ذرائع کام میں لائے گئے تھے۔ دیوار کے ساتھ خواتین کے مجسموں سے بنے ساٹھ ستر ستونوں میں بڑی بڑی ��معیں جلا دی گئی تھیں۔ آٹھوں بن مانسوں نے اچھلتے مینڈک کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ہال کے کھچا کھچ بھرنے کا بڑے صبر سے انتظار کیا۔ جیسے ہی گھنٹال کی بازگشت معدوم ہوئی وہ ہال میں گرتے پڑتے گھس آئے۔ اصل میں زنجیروں کی بندش نے انھیں لڑکھڑا دیا تھا اور وہ ہال میں آتے ساتھ گر گئے تھے۔ نقاب پوش رقاصوں میں ولولہ بہت تھا اور اس ولولے نے بادشاہ کو بہت مسرور کیا۔بیشتر مہمان اس دہشت انگیز مخلوق کو فی الحقیقت کسی نوع کے درندے سمجھ بیٹھے تھے۔ بن مانس نہ سہی۔ اکثر خواتین تو خوف سے بوکھلا گئی تھیں۔ اگر بادشاہ نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ہال سے ہتھیا اٹھوا نہ لیے ہوتے تو اس منڈلی کے کپڑے ان کے اپنے ہی خون سے رنگین ہو جاتے۔ توقع کے مطابق بوکھلایا ہوا یہ ہجوم بیرونی دروازے کی طرف بھاگا۔ لیکن بادشاہ نے دروازے مقفل رکھنے کا انتظام کر لیا تھا۔ اس نے اپنی آمد کے بعد بونے کے مشورے پر چابیاں اس کے پاس رکھوا دی تھیں۔ جب یہ افراتفری انتہا تک پہنچ گئی اور ہر ناٹکی کو اپنی جان کے لالے پڑگئے اور وہ ڈوری جس سے فانوس لٹکا ہوتا تھا، وہ فانوس ہٹانے کے بعد اوپر کھینچ لی گئی تھی۔ اس ڈوری کو کسی نے آہستگی سے نیچے کھینچ لیا۔ حتی کہ اس کا کنڈا فرش سے صرف تین فٹ اوپر رہ گیا۔ اس کے فورا بعد بادشاہ اور اس کے رفقا جو ہر سمت میں دھما چوکڑی مچا رہے تھے زنجیر کے ساتھ ٹکراتے ہوئے ہال کے وسط میں داخل ہوئے۔ اور بونا انھیں ہنگامے پہ اکسا رہا تھا۔ جب وہ ڈوری کے ساتھ لگے کھڑے تھے تو بونے نے اس دوسری زنجیر جس کے ساتھ وہ بندھے تھے، زنجیر کا وہ حصہ تھام لیا جو دائروں کو کاٹتے ہوئے درست زاویوں کا مرکز تھا۔ بونے نے بڑی پھرتی سے فانوس والی زنجیر کا کنڈا اس زنجیر میں ڈال دیا جس میں وہ بندھے تھے اور کسی ان دیکھی قوت نے فانوس والی زنجیر کو اوپر اٹھا لیا۔ جس کے نتیجے میں آٹھوں بن مانس زنجیر میں لپٹے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔ دوسرے نقاب پوش ناٹکی اپنی ابتری سے تھوڑا بہت سنبھل چکے تھے۔ اور پورے معاملے کو ایک سوچی سمجھی تفریح جاننے لگے تھے۔ انھوں نے بن مانسوں کی حالت زار پر قہقہے لگانے شروع کر دیے تھے۔ انھیں مجھ پر چھوڑ دو۔ اچھلتا مینڈک چیخ اٹھا، انھیں میں دیکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے انھیں میں جانتا بھی ہوں۔ اگر میں ام کا بنظر غور جائزہ لے سکا تو جلد بتا بھی دوں گا یہ کون لوگ ہیں؟ یہ کہتے ہوئے وہ تماشائیوں کے سروں پر سے کودتے پھاندتے دیوار تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ ستونی مجسموں سےایک مشعل اٹھائے وہ کمرے کے وسط میں پہنچ گیا۔ وہ ایک بندر کی سی تیزی سے بادشاہ کے سر پر سے اچھلا اور چند فٹ اونچی زنجیر پر چڑھ گیا۔ اس نے آٹھ بن مانسوں کے چہرے دیکھنے کے لیے مشعل جھکائی اور چیخا ، میں جلد ہی پتا چلا لوں گا کہ یہ کون ہیں؟ اب جبکہ بشمول بن مانسوں کے سارا مجمع ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا تھا، بونے نے ایک تیز سیٹی بجائی، سیٹی بجنے کے ساتھ ہی زنجیر فرش سے تیس فٹ اوپر کھنچ گئی۔ اور چھت والی اس زنجیر کے ساتھ پریشاں، ہاتھ پیر مارتے بن مانس بھی اوپر اٹھ گئے۔ پھر زنجیر ان بن مانسوں کو فرش اور چھت کے پیچ لٹکا کر ٹھہر گئی، اچھلتا مینڈک بھی ابھی تک زنجیر سے چمٹا ہوا تھا لیکن وہ بن مانسوں سے کافی فاصلے پر تھا۔ ابھی تک وہ ان پر مشعل کی روشنی بھی پھینک رہا تھا جیسے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ اور انھیں پہچاننے کی کوشش کا ڈھونگ بھی کر رہا تھا۔ لیکن بن مانسوں اور بونے کی اس اچانک پرواز پر سارا ہجوم کچھ دیر سے موت کی خاموشی سے دوچار رہا۔ اس خاموشی کو ایک مدھم، کرخت غراہٹ نے توڑا۔ ایسی ہی غراہٹ بادشاہ اور اس کے وزیروں نے اس وقت سنی تھی جب بادشاہ نے ٹرپٹا کے چہرے پر شراب انڈیل دی تھی۔ لیکن اس بار اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ آواز کہاں سے آئی تھی۔ یہ آواز بونے کے نکیلے دانتوں سے آئی تھی جس نے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے بن مانسوں پر دانت پیسے تھے۔ ساتھ ہی بونے نے بادشاہ اور اس کے ساتوں احباب کے اوپر اٹھے ہوئے چہروں پر ایک قہر آلود نظر بھی ڈالی۔ غضب کی جنونی کیفیت سے بھرپور نگاہ۔ ہاہ ، غضب ناک مسخرے نے کہا، اب میں ان لوگوں کے چہرے دیکھ سکتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے بادشاہ کے چہرے کو قریب سے دیکھنے کا چھل کرتے ہوئے اس نے مشعل سے فلیکس کی تہہ کو آگ دکھا دی جس نے بادشاہ کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ ایک زوردار دھماکے سے دھڑا دھڑ شعلے جلنے لگے۔ آدھ منٹ کے وقفے کے بعد بن مانس بری طرح جلنے لگے، تماشائیوں کی چیخوں کے درمیان جو نیچے سے ان کی سمت ایک دہشت کے عالم میں گھرے ہوئے دیکھ رہے تھے مگر وہ بن مانسوں کی کچھ مدد نہ کر سکتے تھے۔ اب میں واضح طور پر دیکھ سکتا ہوں کہ یہ بن مانس کس قسم کے انسان ہیں۔ اچھلتے مینڈک نے کہا، یہ ایک ب��دشاہ اور اس کے سات وزیر ہیں، ایک بادشاہ جو ایک مجبور لڑکی کو پیٹتا ہے اور جسے طیش کے عالم میں خوف خدا نہیں ہوتا۔ اور سات وزیر جو اس بادشاہ کے اشتعال کو ہوا دیتے ہیں۔ اور میں تو آپ جانتے ہی ہیں ایک اچھلتا مینڈک ہوں، ایک مسخرہ، امید ہے کہ آپ نے میرے اس آخری تماشے سے خوب لطف اٹھایا ہو گا۔ بونے نے اپنی مختصر تقریر ختم کی ہی تھی کہ تارکول اور فلیکس کی زود سوختگی نے انتقام کا یہ کھیل تمام کر دیا۔آٹھ لاشیں ، اپنی زنجیر پہ جھول رہی تھیں۔ ایک وحشت خیز، سیاہی آلود، ناقابل شناخت انبار۔ لنگڑے نے مشعل پھینکی، چھت پر چڑھ کے کھڑکی کے راستے یہ جا وہ جا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس رات ٹرپٹا بھی چھت پر موجود تھی اور بونے کی آتش انتقام کی شریک کار تھی۔ اور دونوں اپنے ملک طرف فرار ہو گئے تھے۔ کیونکہ پھر انھیں کسی نے نہیں دیکھا۔
0 notes
nashwannews · 3 years
Text
شعبنا الكريم هذه هي الإمامة
شعبنا الكريم هذه هي الإمامة - نشوان نيوز https://nashwannews.com/248954
0 notes
dragnews · 6 years
Text
میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں
یہ واقعہ جن حالات میں میرے ساتھ پیش آیا، میرااس بات پر ایمان مزیدپختہ ہوگیا کہ بے شک پروردگار ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہےاوراپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے۔ مَیں بہ سلسلہ روزگار عرصہ دراز سےدبئی میں مقیم تھااورایک مقامی کمپنی میں بطور اسسٹنٹ فورمین ملازم تھا۔ مجھے ذاتی مکان، گاڑی سمیت ہر طرح کی آسودگی حاصل تھی، مگر دل میں حج کی تمنّا اور روضۂ رسول ؐ پر حاضری کی دیرینہ آرزو اب تک پوری نہیں ہو پائی تھی۔باالآخر 1995ء میں حج کی نیّت کرکے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کی
کہ ’’اے میرے رب، میں نے اس برس حج کا ارادہ کیا ہے، اس سلسلے میں تو میری رہنمائی کر اور میری منزلیں آسان کرکے اپنے گھر کی زیارت نصیب فرما۔‘‘ پھر میں نے اپنے دفتری ساتھی، ریاض احمد کو حج کے حوالے سے اپنے فیصلے کے بارے میںآگاہ کرتے ہوئےاس سے درخواست کی کہ میری غیرموجودگی میں میرے کام کی ذمّے داری تمہیں لینی ہوگی،
تو اس نے آمادگی ظاہر کردی۔جس کے بعدمیں نےچھٹیوں میں گھر جانے کی بجائے حج پر جانے کا پکّا ارادہ کرلیا اور حج کی تیاریاں شروع کردیں۔ گھر والوں کوبھی مطلع کردیا۔جوں جوں حج کا مہینہ قریب آرہا تھا، میرا جوش و جذبہ بھی بڑھتا جارہا تھا، پھر روانگی کے دن قریب آگئے اور محض چند روز رہ گئے تو ایک روز میرے دفتری ساتھی، ریاض احمد جس نے میری غیرموجودگی میں میرے کام کی ذمّے داری لی تھی، اچانک میرے کام کی ذمے داری اٹھانے سے انکارکردیا، اس کا موقف تھا کہ’
’مجھ پر پہلے سےزیادہ کام کا بوجھ بڑھ گیاہے، لہٰذا مزیدذمّے داری نہیں لےسکتا۔آپ منیجر کے پاس جاکر اپنی رخصت کی درخواست واپس لے لیں، کیوں کہ میرے انکار کے بعد وہ آپ کی چھٹی منظور نہیں کررہے۔‘‘جب کہ ادھر میرا ویزا لگ چکا تھا، ساری تیاریاں مکمل تھیں، اس کےاچانک انکار سےمیرا دماغ گھوم گیا۔ مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ میں اسی وقت ملازمت سے استعفے کی درخواست لکھ کر منیجر کے پاس پہنچ گیا اور بغیر کسی تمہید کے کہا ’’ منیجرصاحب!
میں کافی پہلے ریاض احمد کو بتاچکا تھا کہ اس سال مجھے حج پر جانا ہے،لیکن آج اچانک اس نے کام زیادہ ہونے کا بہانہ کرکےمیری غیر موجودگی میں اس نے ذمّے داری سے انکار کردیا ہے۔ میری ساری تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، میں ہر صورت حج پر جائوں گا، اس لیے استعفیٰ لایا ہوں، اسے قبول کرلیں۔ میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں۔‘‘ منیجر نے میرا دو ٹوک اندازدیکھا، تو رسمی طور پر سمجھاتے ہوئے میری چھٹی منظور کرلی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرکےخوشی خوشی باہر نکلا ، اپنے ضروری کام نمٹائے۔جب روانگی میں صرف ایک روز رہ گیا، تو ایک دوست ابرار احمد سے ملنے اس کی دکان چلا گیا۔
وہ دبئی سینما کے علاقے میں رہتا تھا، جہاں اس کی بجلی کے سامان کی دکان تھی۔تقریباً ایک گھنٹے تک باتیں کرنے کے بعدجب میں اٹھنے لگا، تو وہ بھی میرے ساتھ میرے گھر آگیا۔پھر کسی کام سے میں نے اپنی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو احساس ہوا کہ میرا پرس، جس میں پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس ، ورک پرمٹ، موٹر سائیکل کا لائسنس اور حج پر جانے کا خرچ سمیت ساری رقم اور ضروری کاغذات رکھے ہوئے تھے،غائب ہے، اس اچانک افتاد پر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسی فاش غلطی مجھ سے کیسے ہوگئی اور پرس کہاں گرادیا، کچھ بھی یاد نہیں آرہا تھا۔ ابرار نے فوراً اپنی دکان پر فون کیا۔ اس کے چھوٹے بھائی دکان پر تھے، انہوں نے اچھی طرح دیکھ کر بتایا کہ پرس وہاں موجود نہیں۔اس صورتِ حال پر میرے ہوش اڑگئے کہ اب کیا ہوگا، کیا اللہ تعالیٰ کی اس میں کوئی مصلحت ہے، یا پھر مجھ گناہ گار کو وہ اپنے گھر بلانا نہیں چاہتا کہ اتنے عرصے تک شدید خواہش اور وسائل رکھنے کے باوجود حج کا فریضہ ادا کرنے سے کیوں غفلت برتتا رہا۔ ابرار اور میں نے فوراً دکان پر واپس جانے کا ارادہ کیا، تاکہ خود پرس تلاش کرسکیں۔ میں نے تیزی سے گاڑی دوڑائی۔
ہم دونوں دکان پہنچے۔ اس کی دکان سے ذرا آگے کارنر پر ایک بلڈنگ زیرِ تعمیر تھی، وہاں ڈھیر کی شکل میں بہت سی بجری پڑی تھی اور کام رکا ہوا تھا، میں کچھ دیر پہلے جب یہاں آیا تھا، تو اپنی گاڑی بجری سےچند قدم کے فاصلے پر کھڑی کی تھی، اس دفعہ بھی وہیں کھڑی کی اور دکان کے آس پاس ہر جگہ اچھی طرح پرس تلاش کرنے لگا، لیکن پرس نہ ملا ، مایوس ہو کر باہر گاڑی کے پاس آیا، بجری کے ڈھیر کی طرف دیکھا، ابرار کا بھائی میرے ساتھ تھا، میں نے سوچا، شاید پرس بجری پر گر کر کہیں دب نہ گیا ہو،
حواس باختہ ہو کر بجری کےڈھیر کی طرف لپکا اور پاگلوں کی طرح اس کے اندر ہاتھ ڈال کر الٹنے پلٹنے لگا۔ میری دیکھا دیکھی ابرار کا بھائی بھی بجری میں اِدھر ادھر ہاتھ مارنے لگا۔ ہم دونوں تیزی سے یہ کام کررہے تھے، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا، اس صدمے نےمیرے اعصاب پر گہرا اثر ڈالا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں بے ہوش ہونے والا ہوں،میری زبان گنگ ہورہی تھی۔ سوچا، اگر مجھے کچھ ہوگیا، تو پھر حج کی حسرت دل ہی میں لیے دنیا سے رخصت ہوجائوں گا۔
یہ خیال آتے ہی آنکھوں سے آنسوئوں کی بارش ہونے لگی ، میں نے دل میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا ’’میرے مولا! اگر میرے نصیب میں حج کرنا نہیں، تو مجھے اسی وقت اٹھالے، اپنے عاشقوں سے ایسا سلوک مت کر کہ میں تیرے اور محبوبِ کبریا ؐ کا گھر دیکھے بغیر زندہ رہوں۔ میرے راستے میں رکاوٹیں کیوں، میری خطائیں معاف کردے۔‘‘ اس وقت میرا منہ آسمان کی طرف تھا اور بجری میں لتھڑے ہاتھ پرس ٹٹولتے ہوئے ڈھیلے پڑنے لگے تھے کہ ابرار، جو دکان کے سامنے کھڑا ہمیں دیکھ رہا تھا،
اچانک چلاّیا ’’محمود! اپنی گاڑی کی طرف دیکھو، یہ کون ہے؟‘‘ میرا سر چکرا رہاتھا، لیکن میں نے دیکھا کہ ایک شخص تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور میری گاڑی سے متص�� سفید کار میں تیزی سے بیٹھ کر گاڑی دوڑاتے ہوئے نظروں سے یک دم اوجھل ہوگیا۔ میں نے ابرار سے پوچھا، کیا ہوا؟اس نے جواب دیا ’’ذرا اپنی گاڑی کی چھت پر دیکھو‘‘ میں نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے ادھر دیکھا، تو حیرت انگیز طور پر وہاں مجھے اپنا گم شدہ پرس دکھائی دیا، ہم تینوں تقریباً دوڑتے ہوئے گاڑی کے پاس آئے۔
واقعی، وہ میرا گم شدہ پرس تھا، چیک کیا، توہر چیز جوں کی توں محفوظ تھی۔ ابرار نے بتایا کہ ’’میں تم لوگوں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ تیزی سے وہ سفید کار تمہاری گاڑی کے ساتھ آکر رکی ، اس میں سے ایک بزرگ اترے، انہوں نے تمہاری گاڑی پر پرس رکھا،جب تک میں نے چِلاّ کر تمہیں متوجہ کیا، وہ صاحب آناً فاناًگاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔‘‘ ابرار ان کا چہرہ صحیح طور پر دیکھ نہیں پایا تھا،
خود میں نے بھی ان کی ہلکی سی جھلک ہی دیکھی تھی ، اگر وہ شخص رک جاتا، توکم از کم اس کا شکریہ توضرور ادا کرتا، مگرشاید وہ کوئی عام شخص نہیں تھا، یہ سراسرغیبی مدد تھی، جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں ہی کو چنتاہے۔بہرحال، میرے لیے یہ خوشی بھی بہت تھی کہ میرے رب نے میری دعا قبول کرکے مجھے فوری اور غیبی امداد سے نوازا۔جس کے بعد مجھے حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ بھلا یہ واقعہ مَیںزندگی میں کبھی بھول سکتا ہوں۔ کبھی نہیں۔
The post میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2A50FJN via Today Pakistan
0 notes
cleopatrarps · 6 years
Text
میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں
یہ واقعہ جن حالات میں میرے ساتھ پیش آیا، میرااس بات پر ایمان مزیدپختہ ہوگیا کہ بے شک پروردگار ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہےاوراپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے۔ مَیں بہ سلسلہ روزگار عرصہ دراز سےدبئی میں مقیم تھااورایک مقامی کمپنی میں بطور اسسٹنٹ فورمین ملازم تھا۔ مجھے ذاتی مکان، گاڑی سمیت ہر طرح کی آسودگی حاصل تھی، مگر دل میں حج کی تمنّا اور روضۂ رسول ؐ پر حاضری کی دیرینہ آرزو اب تک پوری نہیں ہو پائی تھی۔باالآخر 1995ء میں حج کی نیّت کرکے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کی
کہ ’’اے میرے رب، میں نے اس برس حج کا ارادہ کیا ہے، اس سلسلے میں تو میری رہنمائی کر اور میری منزلیں آسان کرکے اپنے گھر کی زیارت نصیب فرما۔‘‘ پھر میں نے اپنے دفتری ساتھی، ریاض احمد کو حج کے حوالے سے اپنے فیصلے کے بارے میںآگاہ کرتے ہوئےاس سے درخواست کی کہ میری غیرموجودگی میں میرے کام کی ذمّے داری تمہیں لینی ہوگی،
تو اس نے آمادگی ظاہر کردی۔جس کے بعدمیں نےچھٹیوں میں گھر جانے کی بجائے حج پر جانے کا پکّا ارادہ کرلیا اور حج کی تیاریاں شروع کردیں۔ گھر والوں کوبھی مطلع کردیا۔جوں جوں حج کا مہینہ قریب آرہا تھا، میرا جوش و جذبہ بھی بڑھتا جارہا تھا، پھر روانگی کے دن قریب آگئے اور محض چند روز رہ گئے تو ایک روز میرے دفتری ساتھی، ریاض احمد جس نے میری غیرموجودگی میں میرے کام کی ذمّے داری لی تھی، اچانک میرے کام کی ذمے داری اٹھانے سے انکارکردیا، اس کا موقف تھا کہ’
’مجھ پر پہلے سےزیادہ کام کا بوجھ بڑھ گیاہے، لہٰذا مزیدذمّے داری نہیں لےسکتا۔آپ منیجر کے پاس جاکر اپنی رخصت کی درخواست واپس لے لیں، کیوں کہ میرے انکار کے بعد وہ آپ کی چھٹی منظور نہیں کررہے۔‘‘جب کہ ادھر میرا ویزا لگ چکا تھا، ساری تیاریاں مکمل تھیں، اس کےاچانک انکار سےمیرا دماغ گھوم گیا۔ مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ میں اسی وقت ملازمت سے استعفے کی درخواست لکھ کر منیجر کے پاس پہنچ گیا اور بغیر کسی تمہید کے کہا ’’ منیجرصاحب!
میں کافی پہلے ریاض احمد کو بتاچکا تھا کہ اس سال مجھے حج پر جانا ہے،لیکن آج اچانک اس نے کام زیادہ ہونے کا بہانہ کرکےمیری غیر موجودگی میں اس نے ذمّے داری سے انکار کردیا ہے۔ میری ساری تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، میں ہر صورت حج پر جائوں گا، اس لیے استعفیٰ لایا ہوں، اسے قبول کرلیں۔ میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں۔‘‘ منیجر نے میرا دو ٹوک اندازدیکھا، تو رسمی طور پر سمجھاتے ہوئے میری چھٹی منظور کرلی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرکےخوشی خوشی باہر نکلا ، اپنے ضروری کام نمٹائے۔جب روانگی میں صرف ایک روز رہ گیا، تو ایک دوست ابرار احمد سے ملنے اس کی دکان چلا گیا۔
وہ دبئی سینما کے علاقے میں رہتا تھا، جہاں اس کی بجلی کے سامان کی دکان تھی۔تقریباً ایک گھنٹے تک باتیں کرنے کے بعدجب میں اٹھنے لگا، تو وہ بھی میرے ساتھ میرے گھر آگیا۔پھر کسی کام سے میں نے اپنی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو احساس ہوا کہ میرا پرس، جس میں پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس ، ورک پرمٹ، موٹر سائیکل کا لائسنس اور حج پر جانے کا خرچ سمیت ساری رقم اور ضروری کاغذات رکھے ہوئے تھے،غائب ہے، اس اچانک افتاد پر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسی فاش غلطی مجھ سے کیسے ہوگئی اور پرس کہاں گرادیا، کچھ بھی یاد نہیں آرہا تھا۔ ابرار نے فوراً اپنی دکان پر فون کیا۔ اس کے چھوٹے بھائی دکان پر تھے، انہوں نے اچھی طرح دیکھ کر بتایا کہ پرس وہاں موجود نہیں۔اس صورتِ حال پر میرے ہوش اڑگئے کہ اب کیا ہوگا، کیا اللہ تعالیٰ کی اس میں کوئی مصلحت ہے، یا پھر مجھ گناہ گار کو وہ اپنے گھر بلانا نہیں چاہتا کہ اتنے عرصے تک شدید خواہش اور وسائل رکھنے کے باوجود حج کا فریضہ ادا کرنے سے کیوں غفلت برتتا رہا۔ ابرار اور میں نے فوراً دکان پر واپس جانے کا ارادہ کیا، تاکہ خود پرس تلاش کرسکیں۔ میں نے تیزی سے گاڑی دوڑائی۔
ہم دونوں دکان پہنچے۔ اس کی دکان سے ذرا آگے کارنر پر ایک بلڈنگ زیرِ تعمیر تھی، وہاں ڈھیر کی شکل میں بہت سی بجری پڑی تھی اور کام رکا ہوا تھا، میں کچھ دیر پہلے جب یہاں آیا تھا، تو اپنی گاڑی بجری سےچند قدم کے فاصلے پر کھڑی کی تھی، اس دفعہ بھی وہیں کھڑی کی اور دکان کے آس پاس ہر جگہ اچھی طرح پرس تلاش کرنے لگا، لیکن پرس نہ ملا ، مایوس ہو کر باہر گاڑی کے پاس آیا، بجری کے ڈھیر کی طرف دیکھا، ابرار کا بھائی میرے ساتھ تھا، میں نے سوچا، شاید پرس بجری پر گر کر کہیں دب نہ گیا ہو،
حواس باختہ ہو کر بجری کےڈھیر کی طرف لپکا اور پاگلوں کی طرح اس کے اندر ہاتھ ڈال کر الٹنے پلٹنے لگا۔ میری دیکھا دیکھی ابرار کا بھائی بھی بجری میں اِدھر ادھر ہاتھ مارنے لگا۔ ہم دونوں تیزی سے یہ کام کررہے تھے، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا، اس صدمے نےمیرے اعصاب پر گہرا اثر ڈالا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں بے ہوش ہونے والا ہوں،میری زبان گنگ ہورہی تھی۔ سوچا، اگر مجھے کچھ ہوگیا، تو پھر حج کی حسرت دل ہی میں لیے دنیا سے رخصت ہوجائوں گا۔
یہ خیال آتے ہی آنکھوں سے آنسوئوں کی بارش ہونے لگی ، میں نے دل میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا ’’میرے مولا! اگر میرے نصیب میں حج کرنا نہیں، تو مجھے اسی وقت اٹھالے، اپنے عاشقوں سے ایسا سلوک مت کر کہ میں تیرے اور محبوبِ کبریا ؐ کا گھر دیکھے بغیر زندہ رہوں۔ میرے راستے میں رکاوٹیں کیوں، میری خطائیں معاف کردے۔‘‘ اس وقت میرا منہ آسمان کی طرف تھا اور بجری میں لتھڑے ہاتھ پرس ٹٹولتے ہوئے ڈھیلے پڑنے لگے تھے کہ ابرار، جو دکان کے سامنے کھڑا ہمیں دیکھ رہا تھا،
اچانک چلاّیا ’’محمود! اپنی گاڑی کی طرف دیکھو، یہ کون ہے؟‘‘ میرا سر چکرا رہاتھا، لیکن میں نے دیکھا کہ ایک شخص تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور میری گاڑی سے متصل سفید کار میں تیزی سے بیٹھ کر گاڑی دوڑاتے ہوئے نظروں سے یک دم اوجھل ہوگیا۔ میں نے ابرار سے پوچھا، کیا ہوا؟اس نے جواب دیا ’’ذرا اپنی گاڑی کی چھت پر دیکھو‘‘ میں نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے ادھر دیکھا، تو حیرت انگیز طور پر وہاں مجھے اپنا گم شدہ پرس دکھائی دیا، ہم تینوں تقریباً دوڑتے ہوئے گاڑی کے پاس آئے۔
واقعی، وہ میرا گم شدہ پرس تھا، چیک کیا، توہر چیز جوں کی توں محفوظ تھی۔ ابرار نے بتایا کہ ’’میں تم لوگوں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ تیزی سے وہ سفید کار تمہاری گاڑی کے ساتھ آکر رکی ، اس میں سے ایک بزرگ اترے، انہوں نے تمہاری گاڑی پر پرس رکھا،جب تک میں نے چِلاّ کر تمہیں متوجہ کیا، وہ صاحب آناً فاناًگاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔‘‘ ابرار ان کا چہرہ صحیح طور پر دیکھ نہیں پایا تھا،
خود میں نے بھی ان کی ہلکی سی جھلک ہی دیکھی تھی ، اگر وہ شخص رک جاتا، توکم از کم اس کا شکریہ توضرور ادا کرتا، مگرشاید وہ کوئی عام شخص نہیں تھا، یہ سراسرغیبی مدد تھی، جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں ہی کو چنتاہے۔بہرحال، میرے لیے یہ خوشی بھی بہت تھی کہ میرے رب نے میری دعا قبول کرکے مجھے فوری اور غیبی امداد سے نوازا۔جس کے بعد مجھے حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ بھلا یہ واقعہ مَیںزندگی میں کبھی بھول سکتا ہوں۔ کبھی نہیں۔
The post میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2A50FJN via Today Urdu News
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
آپ کا چھوٹا بچہ وبائی مرض سے پہلے معاشرتی ہونا یاد نہیں کرسکتا ہے۔ انہیں ایڈجسٹ کرنے میں مدد کرنے کا طریقہ یہاں ہے۔
آپ کا چھوٹا بچہ وبائی مرض سے پہلے معاشرتی ہونا یاد نہیں کرسکتا ہے۔ انہیں ایڈجسٹ کرنے میں مدد کرنے کا طریقہ یہاں ہے۔
جب سے وہ گاڑی سے اترا اس وقت سے میلز کا غصہ بڑھ رہا تھا۔ اس نے اپنی ماں ، کائل کو پکڑ لیا اور گھر واپس جانے کو کہا۔
کچھ لمحوں بعد ، کائل ، جو نہیں چاہتے تھے کہ ان کا آخری نام ان کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جائے ، نے اپنی 3 سالہ ضد کو انڈور پول ڈیک کے فرش پر فلاپ ہوتے دیکھا۔ آخر کار اس نے رونا اور چیخنا شروع کر دیا۔
ایک سال سے زیادہ تنہائی میں رہنے کے بعد یہ ان کی پہلی بڑی سیر تھی۔
جیسے ہی میلز کی آنکھیں ادھر ادھر ہو گئیں – اس کی ماں نے دیکھا کہ اس کے دوست کا چھوٹا بچہ بھی خراب ہو رہا ہے۔
پول پر جانا پہلے خاندان کے لیے معمول کی سرگرمی تھی ، اور میلز ، جو عام طور پر سماجی ہیں ، نے اسے بتایا تھا کہ وہ وبائی امراض کے آغاز کے بعد پہلی بار جانے کے لیے پرجوش ہیں۔
اس کی ماں نے کہا ، “کسی ایسی چیز کے بارے میں بات کریں جو آپ کو بٹ پر دستک دے۔” “مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنا خوفزدہ ہوگا۔”
بہت سارے بچے ہیں جیسے میلز جو وبائی مرض سے پہلے معاشرتی طور پر آرام دہ رہے ہوں گے لیکن بہت کم عمر ہیں ان دنوں کو واضح طور پر یاد رکھیں۔ چونکہ بہت سارے لوگ وبائی تنہائی سے باہر آچکے ہیں ، ان کے بچے زندگی گزارنے کے ایک نئے طریقے میں تبدیلی کے لیے جدوجہد کر سکتے ہیں جس میں اب وہ جگہیں شامل ہیں جہاں وہ پہلے نہیں جا سکتے تھے۔
کم از کم ابھی کے لیے۔ والدین کے فیصلے اب بھی چل رہے ہیں۔ جبکہ بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے لیے امریکی مراکز کے رہنما خطوط میں کہا گیا تھا کہ جو لوگ مکمل طور پر ویکسین کروا چکے ہیں وہ وبائی مرض سے پہلے کی گئی بہت سی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ نئی رہنمائی اب گھر کے اندر ماسک پہننے پر زور دیتی ہے۔ اگر آپ ڈیلٹا ویرینٹ سے زیادہ سے زیادہ تحفظ کے لیے کافی یا زیادہ کورونا وائرس ٹرانسمیشن کے علاقے میں ہیں۔ (ایجنسی یہ بھی سفارش کر رہی ہے کہ K-12 اسکولوں میں لوگ ماسک پہنیں۔)
سی این این نے دو پیڈیاٹرک میڈیکل پروفیشنلز کے ساتھ بات کی تاکہ والدین اپنے چھوٹے بچوں کو ان نئے تجربات پر تشریف لے جائیں۔ یہاں ان کا کہنا تھا۔
وبائی مرض سے پہلے کے اصول میں ‘واپس نہ جائیں’۔
2.5 سال کی عمر میں یادیں بننا شروع ہو جاتی ہیں ، ڈاکٹر جینی ریڈسکی نے کہا – ایک ترقیاتی رویے کے ماہر امراض اطفال اور مشی گن میڈیسن میں پیڈیاٹرکس کے اسسٹنٹ پروفیسر۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک بچہ جو اس وقت تقریبا around 3 یا 4 سال کا ہے اس کے پاس بہت سی مضبوط یادیں نہیں ہیں کہ وبا سے پہلے کی زندگی کیسی تھی۔
رادیسکی والدین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ بچوں کو اپنی سماجی مہارتوں کو ترقی دیں ، لیکن مناسب رفتار سے۔
انہوں نے کہا ، “معمول پر آنے کا یہ خیال بہت سارے لوگوں کے لیے واقعی بہت زیادہ ہے ، لہذا میں چاہتا ہوں کہ والدین محسوس کریں کہ آپ کو اپنے بچوں کو ہر چیز کی طرف واپس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
میساچوسٹس جنرل ہسپتال اور ہارورڈ میڈیکل سکول میں ایک بچہ اور نوعمر نفسیاتی ڈاکٹر ڈاکٹر نیہا چودھری بھی خاندانوں کو سماجی روابط اور رشتوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دیتی ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یہ بچوں کی مجموعی ذہنی اور جسمانی فلاح و بہبود اور والدین کے لیے بھی ضروری ہے۔
لیکن اس نے نوٹ کیا کہ ایک سال سے زیادہ عرصے کے بعد جس میں معاشرتی ہونا معمول نہیں تھا ، کچھ بچوں کے لیے منتقلی مشکل ہوسکتی ہے ، خاص طور پر اگر وہ فطرت کے لحاظ سے کچھ زیادہ سخت ہوں۔
چودھری نے کہا ، “میں والدین کی حوصلہ افزائی کروں گا کہ وہ چیزوں کو معمول کے مطابق نہ سمجھیں کیونکہ بچوں کے لیے یہ معمول کے مطابق کاروبار نہیں رہے گا۔” “اگرچہ یہ مثبت ہے ، یہ اب بھی ایک تبدیلی ہے۔”
کائل نے کہا کہ اپنے بچوں کی جسمانی اور سماجی صحت کو متوازن کرنا مشکل رہا ہے۔
انہوں نے کہا ، “صرف یہ خیال کہ لوگ خطرہ ہیں صرف اس طرح سے گزرنا ایک بہت ہی مشکل تصور تھا جو انہیں بعد میں لوگوں کے آس پاس نہ ہونے پر خوفزدہ کرنے والا نہیں تھا۔”
اپنے بچے کو تیار کریں۔
جب آپ اپنے بچے کے لیے منصوبے بناتے ہیں – چاہے وہ کھیل کی تاریخ ہو ، اسکول ہو یا کیمپ ہو – ایسے طریقے ہیں جن سے آپ اپنے بچے کو ذہنی طور پر تیار کر سکتے ہیں تاکہ وہ زیادہ آرام دہ محسوس کرے۔
چودھری اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایک چھوٹا بچہ ایک نئی سماجی صورتحال کے بارے میں گھبراہٹ ، خوف یا فکر کا اظہار کرنا “بالکل نارمل” ہے۔
چوہدری نے کہا ، “والدین بچوں کو جتنی زیادہ معلومات سے آراستہ کر سکتے ہیں ، اتنا ہی بااختیار ہو سکتا ہے کہ وہ اس منتقلی سے گزرنے کا احساس کریں۔”
رادیسکی نے سماجی سرگرمی کے بارے میں پیشگی بات کرنے کا مشورہ دیا۔ اگر یہ کچھ ایسا ہے جو آپ کے بچے نے پہلے کیا ہے ، تو انہیں یاد رکھنے میں مدد کریں کہ یہ کیسا ہے۔ اگر وہ نہیں ہیں تو ، چودھری کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے ہی مقام پر لے جانے سے وہ اپنے آپ کو نئے ماحول کی طرف لے جانے میں مدد کر سکتے ہیں۔
لیکن جب آخری لمحات کے منصوبے بنتے ہیں ، والدین کے پاس اپنے بچے کو تیار کرنے کی عیاشی نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ، رادیسکی نے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کے مثبت پہلوؤں پر توجہ دیں اور اس بارے میں معلومات فراہم کریں کہ کیا توقع کی جائے۔
اگر خاندان کے ممبروں سے علیحدگی ایک مسئلہ ہے تو ، چودھری نے کہا کہ بچے کو والدین یا بہن بھائیوں سے چھوٹی انکریمنٹ کے لیے وقت گزارنے کا بندوبست کریں ، تاکہ بچہ زیادہ آرام دہ ہو جائے۔ مثال کے طور پر ، ایک قابل اعتماد بالغ کے ساتھ تھوڑی سیر شروع کرنے کے لیے ایک اچھی جگہ ہوسکتی ہے۔
لاک ڈاؤن کے بعد سے ، کائل نے کہا کہ اس نے دیکھا ہے کہ میلز اپنے 5 سالہ بھائی کے ساتھ “شدت سے انحصار” کرتا ہے۔ بیرونی اسکول کی سرگرمی کے دوران ، اس نے دیکھا کہ بھائیوں نے کبھی بھی اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
انہوں نے کہا ، “اس کا پورا نقطہ یہ تھا کہ انہیں کسی طرح کی معاشرت مل جائے ، لیکن اسی طرح ہر دوسرا خاندان بھی کام کر رہا تھا۔” “بہن بھائی اکٹھے رہے ، صرف بچے صرف خود کھیلے۔”
رادیسکی نے کہا کہ اپنے بچوں کو سماجی حالات کے لیے تیار کرنے میں مدد کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اگر وہ پریشان ہونے لگیں تو وہ کیا کر سکتے ہیں ، جیسے استاد کو ڈھونڈنا اور اس کا ہاتھ پکڑنا۔
اپنے بچوں سے بات کریں۔
چودھری نے مشورہ دیا کہ والدین اپنے بچے کے بارے میں کھل جائیں کہ جب وہ مغلوب ہوں تو وہ کیسے نمٹتے ہیں۔
چودھری نے کہا ، “بچوں سے یہ پوچھنے کے بارے میں کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں اور ان محفوظ جگہوں کو ان بات چیت کے لیے بنا رہے ہیں – یہ واقعی ایک صحت مند بنیاد ہے یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کے لیے جب وہ تھوڑا بڑا ہو جاتے ہیں اور زیادہ مشکل حالات سے گزرنا شروع کر دیتے ہیں۔” .
ورجینیا کے فالس چرچ کی ایک ماں چلو میسی نے کہا کہ اس نے اپنے 3 سالہ بیٹے کینن کے ساتھ پچھلے ایک سال سے گھبرانے کا کیا مطلب ہے کے بارے میں بہت بات کی ہے۔
میسی نے کہا کہ جب کوئی ڈیلیوری یا خدمت کرنے والا شخص وبائی امراض کے دوران دروازے پر آتا تو کینن شرما جاتا اور خوفزدہ ہو جاتا۔ ہونٹ کانپتے ہوئے ، وہ ان لمحوں میں اپنی ماں کو “کی کی ٹھیک ہے” کہتا۔
اب ، جیسا کہ میسی اور اس کے شوہر کے ٹیکے لگانے کے بعد خاندان زیادہ سماجی ہو گیا ہے ، لوگوں کے ارد گرد کینن کے اعصاب غائب ہو گئے ہیں۔
میسی نے کہا ، “یہ مضحکہ خیز ہے کہ کس طرح دور رہنا واقعی ایک سال سے زیادہ ہماری ذخیرہ الفاظ کا حصہ تھا – اور اس کی الفاظ کا ایک حصہ – اور میں نے اسے دو ماہ میں یہ کہتے ہوئے نہیں سنا ، جھانکنا نہیں۔”
لمحے میں پرسکون رہیں۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ اپنے بچے کو نئے حالات کے لیے کتنا تیار کرتے ہیں ، وہ انکشاف کر سکتا ہے۔
رادیسکی نے نوٹ کیا کہ نوعمر بچے اپنے جذبات کو اپنے رویے کے ذریعے بتاتے ہیں ، جیسے کہ ہنگامہ جو انہیں اس وقت صورتحال کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ، رادیسکی والدین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ زیادہ رد عمل نہ کریں۔
انہوں نے کہا ، “اگر آپ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ اپنے بچے کے جذبات سے خوفزدہ ہیں ، تو وہ ان کے جذبات کو اور بھی خوفناک اور اس سے بھی زیادہ زبردست محسوس کریں گے۔”
رادیسکی نے کہا کہ اس کے بجائے ، والدین اپنے بچے کو حواس پر توجہ دینے کے لیے ان کے ساتھ ایک گیم کھیل کر پرسکون کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ان چیزوں کو بیان کرتے ہوئے جو آپ محسوس کر سکتے ہیں ، سونگھ سکتے ہیں ، سن سکتے ہیں اور چھو سکتے ہیں۔
اگر مسئلہ برقرار رہے تو مدد طلب کریں۔
چودھری نے کہا کہ اگر آپ اپنے بچے کے ماہر امراض اطفال سے اچھی طرح چیک کروائیں یا کسی معالج سے مشورہ کریں تو اگر آپ کو کردار سے باہر کے رویے کی فکر ہو تو کم حد ہونی چاہیے۔ اگر آپ کا چھوٹا بچہ ایک دو ہفتوں سے زیادہ وقت کے لیے ڈھالنے کے لیے جدوجہد کرتا رہتا ہے یا ان کے جذبات زیادہ شدید ہو جاتے ہیں – جیسے بند کرنا یا مصروفیت نہ رکھنا – پیشہ ورانہ مدد لینا ان کو بہت فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
بچے لچکدار ہوتے ہیں۔
اس وبائی مرض نے اس کے خاندان کو کس طرح متاثر کیا ہے اس پر نظر ڈالتے ہوئے ، کائل نے کہا کہ وہ مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ، اس بات کو نوٹ کرتے ہوئے کہ ان کی شمولیت اور دوسروں کی مدد کی اقدار پیدا کرنا مشکل ہے جبکہ اسے لوگوں سے اپنے بچوں تک جگہ رکھنے کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا ، “مجھے واقعی ڈر ہے کہ یہ ایک خاندان کے طور پر دوسروں کے ساتھ سماجی طور پر بات چیت کرنے کے طریقے کو مستقل طور پر بدل دے گا۔”
اس نے کہا کہ وہ اکثر اس بات کا یقین نہیں کرتی ہے کہ میلز کی کتنی جدوجہد وبائی امراض کے درمیان رہنے سے یا صرف 3 سالہ ہونے سے آتی ہے۔
لیکن جیسے جیسے پول میں میلز کے پگھلنے کو کئی مہینے گزر چکے ہیں ، اس نے کہا کہ اس نے دیکھا ہے کہ اس کی شخصیت بڑوں کے ارد گرد کھلنے لگی ہے۔
کسی بھی وقت جب اس کے ارد گرد ایک سے زیادہ بالغ ہوتے ہیں جو اس کے لیے نئی قسم کا ہوتا ہے ، اس نے ان تمام تخلیقی صلاحیتوں سے بھری ان لمبی ، لمبی مہاکاوی کہانیوں کا آغاز کیا جو ہم نے پہلے نہیں دیکھی تھیں کیونکہ بظاہر اسے ایک گروہ ، سامعین کی ضرورت ہے۔ کیلی نے کہا۔
رادیسکی نے کہا کہ یہ نوجوان ذہنوں کی لچک ہے ، جو بالآخر ان لوگوں کو مدد دے گی جو اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
رادیسکی نے کہا ، “میرے پاس ابھی بچوں کی تشخیص کے بارے میں منفی یا غیر صریح محسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔”
میسی ، بچپن کی ایک تعلیم یافتہ ، نے کہا کہ وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ بچے لچکدار ہوتے ہیں۔
پھر بھی ، میسی نے کہا کہ وہ اب بھی یہ دیکھ کر راحت محسوس کرتی ہیں کہ جب اس نے اسے جون میں کیمپ کے اپنے پہلے دن کے لیے اتارا تو اس نے کہا کہ “الوداع ، ماں ،” اپنا بیگ رکھو ، چ��ا گیا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
. Source link
0 notes
thebestmealintown · 6 years
Text
میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں
یہ واقعہ جن حالات میں میرے ساتھ پیش آیا، میرااس بات پر ایمان مزیدپختہ ہوگیا کہ بے شک پروردگار ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہےاوراپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے۔ مَیں بہ سلسلہ روزگار عرصہ دراز سےدبئی میں مقیم تھااورایک مقامی کمپنی میں بطور اسسٹنٹ فورمین ملازم تھا۔ مجھے ذاتی مکان، گاڑی سمیت ہر طرح کی آسودگی حاصل تھی، مگر دل میں حج کی تمنّا اور روضۂ رسول ؐ پر حاضری کی دیرینہ آرزو اب تک پوری نہیں ہو پائی تھی۔باالآخر 1995ء میں حج کی نیّت کرکے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کی
کہ ’’اے میرے رب، میں نے اس برس حج کا ارادہ کیا ہے، اس سلسلے میں تو میری رہنمائی کر اور میری منزلیں آسان کرکے اپنے گھر کی زیارت نصیب فرما۔‘‘ پھر میں نے اپنے دفتری ساتھی، ریاض احمد کو حج کے حوالے سے اپنے فیصلے کے بارے میںآگاہ کرتے ہوئےاس سے درخواست کی کہ میری غیرموجودگی میں میرے کام کی ذمّے داری تمہیں لینی ہوگی،
تو اس نے آمادگی ظاہر کردی۔جس کے بعدمیں نےچھٹیوں میں گھر جانے کی بجائے حج پر جانے کا پکّا ارادہ کرلیا اور حج کی تیاریاں شروع کردیں۔ گھر والوں کوبھی مطلع کردیا۔جوں جوں حج کا مہینہ قریب آرہا تھا، میرا جوش و جذبہ بھی بڑھتا جارہا تھا، پھر روانگی کے دن قریب آگئے اور محض چند روز رہ گئے تو ایک روز میرے دفتری ساتھی، ریاض احمد جس نے میری غیرموجودگی میں میرے کام کی ذمّے داری لی تھی، اچانک میرے کام کی ذمے داری اٹھانے سے انکارکردیا، اس کا موقف تھا کہ’
’مجھ پر پہلے سےزیادہ کام کا بوجھ بڑھ گیاہے، لہٰذا مزیدذمّے داری نہیں لےسکتا۔آپ منیجر کے پاس جاکر اپنی رخصت کی درخواست واپس لے لیں، کیوں کہ میرے انکار کے بعد وہ آپ کی چھٹی منظور نہیں کررہے۔‘‘جب کہ ادھر میرا ویزا لگ چکا تھا، ساری تیاریاں مکمل تھیں، اس کےاچانک انکار سےمیرا دماغ گھوم گیا۔ مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ میں اسی وقت ملازمت سے استعفے کی درخواست لکھ کر منیجر کے پاس پہنچ گیا اور بغیر کسی تمہید کے کہا ’’ منیجرصاحب!
میں کافی پہلے ریاض احمد کو بتاچکا تھا کہ اس سال مجھے حج پر جانا ہے،لیکن آج اچانک اس نے کام زیادہ ہونے کا بہانہ کرکےمیری غیر موجودگی میں اس نے ذمّے داری سے انکار کردیا ہے۔ میری ساری تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، میں ہر صورت حج پر جائوں گا، اس لیے استعفیٰ لایا ہوں، اسے قبول کرلیں۔ میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں۔‘‘ منیجر نے میرا دو ٹوک اندازدیکھا، تو رسمی طور پر سمجھاتے ہوئے میری چھٹی منظور کرلی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرکےخوشی خوشی باہر نکلا ، اپنے ضروری کام نمٹائے۔جب روانگی میں صرف ایک روز رہ گیا، تو ایک دوست ابرار احمد سے ملنے اس کی دکان چلا گیا۔
وہ دبئی سینما کے علاقے میں رہتا تھا، جہاں اس کی بجلی کے سامان کی دکان تھی۔تقریباً ایک گھنٹے تک باتیں کرنے کے بعدجب میں اٹھنے لگا، تو وہ بھی میرے ساتھ میرے گھر آگیا۔پھر کسی کام سے میں نے اپنی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو احساس ہوا کہ میرا پرس، جس میں پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس ، ورک پرمٹ، موٹر سائیکل کا لائسنس اور حج پر جانے کا خرچ سمیت ساری رقم اور ضروری کاغذات رکھے ہوئے تھے،غائب ہے، اس اچانک افتاد پر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسی فاش غلطی مجھ سے کیسے ہوگئی اور پرس کہاں گرادیا، کچھ بھی یاد نہیں آرہا تھا۔ ابرار نے فوراً اپنی دکان پر فون کیا۔ اس کے چھوٹے بھائی دکان پر تھے، انہوں نے اچھی طرح دیکھ کر بتایا کہ پرس وہاں موجود نہیں۔اس صورتِ حال پر میرے ہوش اڑگئے کہ اب کیا ہوگا، کیا اللہ تعالیٰ کی اس میں کوئی مصلحت ہے، یا پھر مجھ گناہ گار کو وہ اپنے گھر بلانا نہیں چاہتا کہ اتنے عرصے تک شدید خواہش اور وسائل رکھنے کے باوجود حج کا فریضہ ادا کرنے سے کیوں غفلت برتتا رہا۔ ابرار اور میں نے فوراً دکان پر واپس جانے کا ارادہ کیا، تاکہ خود پرس تلاش کرسکیں۔ میں نے تیزی سے گاڑی دوڑائی۔
ہم دونوں دکان پہنچے۔ اس کی دکان سے ذرا آگے کارنر پر ایک بلڈنگ زیرِ تعمیر تھی، وہاں ڈھیر کی شکل میں بہت سی بجری پڑی تھی اور کام رکا ہوا تھا، میں کچھ دیر پہلے جب یہاں آیا تھا، تو اپنی گاڑی بجری سےچند قدم کے فاصلے پر کھڑی کی تھی، اس دفعہ بھی وہیں کھڑی کی اور دکان کے آس پاس ہر جگہ اچھی طرح پرس تلاش کرنے لگا، لیکن پرس نہ ملا ، مایوس ہو کر باہر گاڑی کے پاس آیا، بجری کے ڈھیر کی طرف دیکھا، ابرار کا بھائی میرے ساتھ تھا، میں نے سوچا، شاید پرس بجری پر گر کر کہیں دب نہ گیا ہو،
حواس باختہ ہو کر بجری کےڈھیر کی طرف لپکا اور پاگلوں کی طرح اس کے اندر ہاتھ ڈال کر الٹنے پلٹنے لگا۔ میری دیکھا دیکھی ابرار کا بھائی بھی بجری میں اِدھر ادھر ہاتھ مارنے لگا۔ ہم دونوں تیزی سے یہ کام کررہے تھے، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا، اس صدمے نےمیرے اعصاب پر گہرا اثر ڈالا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں بے ہوش ہونے والا ہوں،میری زبان گنگ ہورہی تھی۔ سوچا، اگر مجھے کچھ ہوگیا، تو پھر حج کی حسرت دل ہی میں لیے دنیا سے رخصت ہوجائوں گا۔
یہ خیال آتے ہی آنکھوں سے آنسوئوں کی بارش ہونے لگی ، میں نے دل میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا ’’میرے مولا! اگر میرے نصیب میں حج کرنا نہیں، تو مجھے اسی وقت اٹھالے، اپنے عاشقوں سے ایسا سلوک مت کر کہ میں تیرے اور محبوبِ کبریا ؐ کا گھر دیکھے بغیر زندہ رہوں۔ میرے راستے میں رکاوٹیں کیوں، میری خطائیں معاف کردے۔‘‘ اس وقت میرا منہ آسمان کی طرف تھا اور بجری میں لتھڑے ہاتھ پرس ٹٹولتے ہوئے ڈھیلے پڑنے لگے تھے کہ ابرار، جو دکان کے سامنے کھڑا ہمیں دیکھ رہا تھا،
اچانک چلاّیا ’’محمود! اپنی گاڑی کی طرف دیکھو، یہ کون ہے؟‘‘ میرا سر چکرا رہاتھا، لیکن میں نے دیکھا کہ ایک شخص تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور میری گاڑی سے متصل سفید کار میں تیزی سے بیٹھ کر گاڑی دوڑاتے ہوئے نظروں سے یک دم اوجھل ہوگیا۔ میں نے ابرار سے پوچھا، کیا ہوا؟اس نے جواب دیا ’’ذرا اپنی گاڑی کی چھت پر دیکھو‘‘ میں نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے ادھر دیکھا، تو حیرت انگیز طور پر وہاں مجھے اپنا گم شدہ پرس دکھائی دیا، ہم تینوں تقریباً دوڑتے ہوئے گاڑی کے پاس آئے۔
واقعی، وہ میرا گم شدہ پرس تھا، چیک کیا، توہر چیز جوں کی توں محفوظ تھی۔ ابرار نے بتایا کہ ’’میں تم لوگوں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ تیزی سے وہ سفید کار تمہاری گاڑی کے ساتھ آکر رکی ، اس میں سے ایک بزرگ اترے، انہوں نے تمہاری گاڑی پر پرس رکھا،جب تک میں نے چِلاّ کر تمہیں متوجہ کیا، وہ صاحب آناً فاناًگاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔‘‘ ابرار ان کا چہرہ صحیح طور پر دیکھ نہیں پایا تھا،
خود میں نے بھی ان کی ہلکی سی جھلک ہی دیکھی تھی ، اگر وہ شخص رک جاتا، توکم از کم اس کا شکریہ توضرور ادا کرتا، مگرشاید وہ کوئی عام شخص نہیں تھا، یہ سراسرغیبی مدد تھی، جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں ہی کو چنتاہے۔بہرحال، میرے لیے یہ خوشی بھی بہت تھی کہ میرے رب نے میری دعا قبول کرکے مجھے فوری اور غیبی امداد سے نوازا۔جس کے بعد مجھے حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ بھلا یہ واقعہ مَیںزندگی میں کبھی بھول سکتا ہوں۔ کبھی نہیں۔
The post میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2A50FJN via India Pakistan News
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years
Text
میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں
یہ واقعہ جن حالات میں میرے ساتھ پیش آیا، میرااس بات پر ایمان مزیدپختہ ہوگیا کہ بے شک پروردگار ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہےاوراپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے۔ مَیں بہ سلسلہ روزگار عرصہ دراز سےدبئی میں مقیم تھااورایک مقامی کمپنی میں بطور اسسٹنٹ فورمین ملازم تھا۔ مجھے ذاتی مکان، گاڑی سمیت ہر طرح کی آسودگی حاصل تھی، مگر دل میں حج کی تمنّا اور روضۂ رسول ؐ پر حاضری کی دیرینہ آرزو اب تک پوری نہیں ہو پائی تھی۔باالآخر 1995ء میں حج کی نیّت کرکے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کی
کہ ’’اے میرے رب، میں نے اس برس حج کا ارادہ کیا ہے، اس سلسلے میں تو میری رہنمائی کر اور میری منزلیں آسان کرکے اپنے گھر کی زیارت نصیب فرما۔‘‘ پھر میں نے اپنے دفتری ساتھی، ریاض احمد کو حج کے حوالے سے اپنے فیصلے کے بارے میںآگاہ کرتے ہوئےاس سے درخواست کی کہ میری غیرموجودگی میں میرے کام کی ذمّے داری تمہیں لینی ہوگی،
تو اس نے آمادگی ظاہر کردی۔جس کے بعدمیں نےچھٹیوں میں گھر جانے کی بجائے حج پر جانے کا پکّا ارادہ کرلیا اور حج کی تیاریاں شروع کردیں۔ گھر والوں کوبھی مطلع کردیا۔جوں جوں حج کا مہینہ قریب آرہا تھا، میرا جوش و جذبہ بھی بڑھتا جارہا تھا، پھر روانگی کے دن قریب آگئے اور محض چند روز رہ گئے تو ایک روز میرے دفتری ساتھی، ریاض احمد جس نے میری غیرموجودگی میں میرے کام کی ذمّے داری لی تھی، اچانک میرے کام کی ذمے داری اٹھانے سے انکارکردیا، اس کا موقف تھا کہ’
’مجھ پر پہلے سےزیادہ کام کا بوجھ بڑھ گیاہے، لہٰذا مزیدذمّے داری نہیں لےسکتا۔آپ منیجر کے پاس جاکر اپنی رخصت کی درخواست واپس لے لیں، کیوں کہ میرے انکار کے بعد وہ آپ کی چھٹی منظور نہیں کررہے۔‘‘جب کہ ادھر میرا ویزا لگ چکا تھا، ساری تیاریاں مکمل تھیں، اس کےاچانک انکار سےمیرا دماغ گھوم گیا۔ مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ میں اسی وقت ملازمت سے استعفے کی درخواست لکھ کر منیجر کے پاس پہنچ گیا اور بغیر کسی تمہید کے کہا ’’ منیجرصاحب!
میں کافی پہلے ریاض احمد کو بتاچکا تھا کہ اس سال مجھے حج پر جانا ہے،لیکن آج اچانک اس نے کام زیادہ ہونے کا بہانہ کرکےمیری غیر موجودگی میں اس نے ذمّے داری سے انکار کردیا ہے۔ میری ساری تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، میں ہر صورت حج پر جائوں گا، اس لیے استعفیٰ لایا ہوں، اسے قبول کرلیں۔ میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں۔‘‘ منیجر نے میرا دو ٹوک اندازدیکھا، تو رسمی طور پر سمجھاتے ہوئے میری چھٹی منظور کرلی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرکےخوشی خوشی باہر نکلا ، اپنے ضروری کام نمٹائے۔جب روانگی میں صرف ایک روز رہ گیا، تو ایک دوست ابرار احمد سے ملنے اس کی دکان چلا گیا۔
وہ دبئی سینما کے علاقے میں رہتا تھا، جہاں اس کی بجلی کے سامان کی دکان تھی۔تقریباً ایک گھنٹے تک باتیں کرنے کے بعدجب میں اٹھنے لگا، تو وہ بھی میرے ساتھ میرے گھر آگیا۔پھر کسی کام سے میں نے اپنی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو احساس ہوا کہ میرا پرس، جس میں پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس ، ورک پرمٹ، موٹر سائیکل کا لائسنس اور حج پر جانے کا خرچ سمیت ساری رقم اور ضروری کاغذات رکھے ہوئے تھے،غائب ہے، اس اچانک افتاد پر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسی فاش غلطی مجھ سے کیسے ہوگئی اور پرس کہاں گرادیا، کچھ بھی یاد نہیں آرہا تھا۔ ابرار نے فوراً اپنی دکان پر فون کیا۔ اس کے چھوٹے بھائی دکان پر تھے، انہوں نے اچھی طرح دیکھ کر بتایا کہ پرس وہاں موجود نہیں۔اس صورتِ حال پر میرے ہوش اڑگئے کہ اب کیا ہوگا، کیا اللہ تعالیٰ کی اس میں کوئی مصلحت ہے، یا پھر مجھ گناہ گار کو وہ اپنے گھر بلانا نہیں چاہتا کہ اتنے عرصے تک شدید خواہش اور وسائل رکھنے کے باوجود حج کا فریضہ ادا کرنے سے کیوں غفلت برتتا رہا۔ ابرار اور میں نے فوراً دکان پر واپس جانے کا ارادہ کیا، تاکہ خود پرس تلاش کرسکیں۔ میں نے تیزی سے گاڑی دوڑائی۔
ہم دونوں دکان پہنچے۔ اس کی دکان سے ذرا آگے کارنر پر ایک بلڈنگ زیرِ تعمیر تھی، وہاں ڈھیر کی شکل میں بہت سی بجری پڑی تھی اور کام رکا ہوا تھا، میں کچھ دیر پہلے جب یہاں آیا تھا، تو اپنی گاڑی بجری سےچند قدم کے فاصلے پر کھڑی کی تھی، اس دفعہ بھی وہیں کھڑی کی اور دکان کے آس پاس ہر جگہ اچھی طرح پرس تلاش کرنے لگا، لیکن پرس نہ ملا ، مایوس ہو کر باہر گاڑی کے پاس آیا، بجری کے ڈھیر کی طرف دیکھا، ابرار کا بھائی میرے ساتھ تھا، میں نے سوچا، شاید پرس بجری پر گر کر کہیں دب نہ گیا ہو،
حواس باختہ ہو کر بجری کےڈھیر کی طرف لپکا اور پاگلوں کی طرح اس کے اندر ہاتھ ڈال کر الٹنے پلٹنے لگا۔ میری دیکھا دیکھی ابرار کا بھائی بھی بجری میں اِدھر ادھر ہاتھ مارنے لگا۔ ہم دونوں تیزی سے یہ کام کررہے تھے، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا، اس صدمے نےمیرے اعصاب پر گہرا اثر ڈالا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں بے ہوش ہونے والا ہوں،میری زبان گنگ ہورہی تھی۔ سوچا، اگر مجھے کچھ ہوگیا، تو پھر حج کی حسرت دل ہی میں لیے دنیا سے رخصت ہوجائوں گا۔
یہ خیال آتے ہی آنکھوں سے آنسوئوں کی بارش ہونے لگی ، میں نے دل میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا ’’میرے مولا! اگر میرے نصیب میں حج کرنا نہیں، تو مجھے اسی وقت اٹھالے، اپنے عاشقوں سے ایسا سلوک مت کر کہ میں تیرے اور محبوبِ کبریا ؐ کا گھر دیکھے بغیر زندہ رہوں۔ میرے راستے میں رکاوٹیں کیوں، میری خطائیں معاف کردے۔‘‘ اس وقت میرا منہ آسمان کی طرف تھا اور بجری میں لتھڑے ہاتھ پرس ٹٹولتے ہوئے ڈھیلے پڑنے لگے تھے کہ ابرار، جو دکان کے سامنے کھڑا ہمیں دیکھ رہا تھا،
اچانک چلاّیا ’’محمود! اپنی گاڑی کی طرف دیکھو، یہ کون ہے؟‘‘ میرا سر چکرا رہاتھا، لیکن میں نے دیکھا کہ ایک شخص تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور میری گاڑی سے متصل سفید کار میں تیزی سے بیٹھ کر گاڑی دوڑاتے ہوئے نظروں سے یک دم اوجھل ہوگیا۔ میں نے ابرار سے پوچھا، کیا ہوا؟اس نے جواب دیا ’’ذرا اپنی گاڑی کی چھت پر دیکھو‘‘ میں نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے ادھر دیکھا، تو حیرت انگیز طور پر وہاں مجھے اپنا گم شدہ پرس دکھائی دیا، ہم تینوں تقریباً دوڑتے ہوئے گاڑی کے پاس آئے۔
واقعی، وہ میرا گم شدہ پرس تھا، چیک کیا، توہر چیز جوں کی توں محفوظ تھی۔ ابرار نے بتایا کہ ’’میں تم لوگوں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ تیزی سے وہ سفید کار تمہاری گاڑی کے ساتھ آکر رکی ، اس میں سے ایک بزرگ اترے، انہوں نے تمہاری گاڑی پر پرس رکھا،جب تک میں نے چِلاّ کر تمہیں متوجہ کیا، وہ صاحب آناً فاناًگاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔‘‘ ابرار ان کا چہرہ صحیح طور پر دیکھ نہیں پایا تھا،
خود میں نے بھی ان کی ہلکی سی جھلک ہی دیکھی تھی ، اگر وہ شخص رک جاتا، توکم از کم اس کا شکریہ توضرور ادا کرتا، مگرشا��د وہ کوئی عام شخص نہیں تھا، یہ سراسرغیبی مدد تھی، جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں ہی کو چنتاہے۔بہرحال، میرے لیے یہ خوشی بھی بہت تھی کہ میرے رب نے میری دعا قبول کرکے مجھے فوری اور غیبی امداد سے نوازا۔جس کے بعد مجھے حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ بھلا یہ واقعہ مَیںزندگی میں کبھی بھول سکتا ہوں۔ کبھی نہیں۔
The post میں نوکری چھوڑ سکتا ہوں، حج نہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2A50FJN via Urdu News
0 notes
adhorikahani24 · 5 years
Text
ناول: روح کا رشتہ ( قسط 1) http://bit.ly/2LAQEtV http://bit.ly/2xwCwtI
روح_کا_رشتہ تحریر _انا_الیاس پہلا حصہ
رات آہستہ آہستہ ڈھل رہي تھی۔ اب کے دور مین چونکہ گھونگھٹ کا رواج نہین لہزا حورین بھی اس تکلف سے آزاد تھی۔ وہ شرم و حیا جو کچھ دیر پہلے ایک دلہن ہونے کی وجہ سے تھی اب وہ مفقود تھی اور اسکی جگہ پریشانی بڑھنے لگ گئ تھی۔
"یا! اللہ، آخر اور کتنی دیر ایسے بيٹھنا پڑھے گا"۔ ابھی وہ پوری طرح سوچ بھی نہ پائ تھی کہ دھڑام سے دروازہ کھول کر کوئ بڑی عجلت مین داخل ہوا۔ اس کے پیچھے حورين کی ساس بھی داخل ہوءين۔
"حديد!ميری بات تو سنو بيٹا" وہپريشان صورت لے کر حديدسے مخاطب تھیں جو اس بيڈ روم کے ساتھ ملحق ايک روم ميں جا چکا تھا جو يقيناڈريسنگ روم تھا۔
"سوری ماں! ليکن ميں مزيد يہ ڈرامہ پلے نہيں کر سکتا" حديد ڈريسنگ روم سے باہر آتے ماں سے مخاطب ہوا۔ کچھ دير پہلے والی شيروانی کی جگہ اب جینز، ٹی شرٹ اور جيکٹ پہنے ہوۓ تھا۔ ایک ہاتھ میں بیگ تھا اور دوسرے ميں جوگرز۔ بیڈ کے باءيں جانب پڑے صوفے پر بيٹھ کرجلدی جلدی جوگرز پہننے لگا۔
"بیٹا! دیکھو تحمل سے میری بات سنو، بس دو دن اور ٹھر جاؤ پھر بے شک چلے جانا ميں کچھ نہیں کہوں گی"۔ سائرہ بیگم جو کہ حدید کی ماں اور حورين کی ساس تھيں التجائہ لہجے ميں حديد سے کہنے لگيں
ماں فار گارڈ سيک جتنا تماشا آپ لوگوں نے کرنا تھا کر ليا، ناؤ اٹس اوور۔" حديد نے غصے سے ہاتھ اٹھا کر ماں کو کچھ اور کہنے سے روک ديا۔
حورين اس سارے قصے ميں خاموش تماشائ تھی۔ وہ تو اس شوک سے باہر نہيں نکل پا رہی تھی کہ اس کی زندگی کا آغاز کس انداز سے ہو رہا ہے
ابھی تک حديد اور سائرہ بیگم حورين کی جانب متوجہ نہيں ہوۓ تھے۔ "حديد ميں کل لوکوں کو کيا جواب دوں گی۔" سائرہ بیگم نے بے چارگی سے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔ میں آپ کو يہ پہلے سوچنا چاہيے تھا۔ ميں مزيد آپکی کسی بليک ميلنگ کا حصہ نہيں بن سکتا۔" بات ختم کرکے ماں کا ماتھا چوما اور بيک نگاہ بھی حورين کے سجے سنورے روپ پہ ڈالے بنا جيسے آيا ويسے ہی کمرے سے باہر نکل گيا۔
سائرہ بیگم نے حديد کے ��کلنے کے بعد صدمے سے نکلتے ہوۓ ايک نظر حورين کے شاکڈ چہرے پر ڈالی۔ تو بے اختيار اس کے پاس آئيں۔ مگر کشمکش ميں تھيں کہ کيسے اس کو حديد کے اس ناروا سلوک کے بارے ميں بتا‏‏‏ئيں۔ان کے پاس بيٹھتے ہی حورين کو جيسے ہوش آيا۔اور وہ صدمے سے بس اتنا ہی بول پائ۔
"آنٹی يہ يہ۔۔۔۔۔ سب کيا ہے" حورين کے پوچھتے ہی سائرہ بیگم نظريں چراتے اور قدرے ہچکچاہٹ سے بولي "بيٹا تم پريشان نہ ہو۔۔۔۔ايسا کرو کہ چينج کرکے سو جاؤ۔
ان کا يہ انداز حورين کو بھڑکانے کے لۓ کافی تھا۔"ميں۔۔۔ ميں سو جاؤں۔۔۔۔۔۔ميرا شوہر مجھے تسليم کرنے سے انکاری ہے۔ جس کو ميرے وجود کی پرواہ نہ ہوئ۔۔۔مجھے نہيں پتہ يہ سب کيا ہو رہا ہے۔۔۔ميں يہاں کيوں ہو۔اور آپ مجھے سونے کا کہ رہی ہيں۔
انتہائ بے ربط جملے اس کے لبوں سے ادا ہو ۓ اورآنکھوں سے آنسو۔
اس کو ابھی تک يفين نہيں آ رہا تھا کہ يہ کيا اور کيوں ہو رہا ہے اس کے ساتھ۔ يکدم چٹانوں کی سی سختی اس کے چہرے پہ در آئ۔بے دردی سے اس نے اپنے آنسو صاف کئے۔"آنٹی مجھے سچ سچ بتا ديں۔ اس سب کے بعد اب کسی شک کی گنجائش نہيں کہ يہ شادی حديد کی مرضی کے بغير ہوئ ہے۔ سو اب آپ پليز مجھ سے کچھ مت چھپا‏ئيں۔جتنی ميری زندگی برباد ہونی تھی ہو گئ۔ وہ کس ميں انوالو ہيں اور اگر ہيں تو يہ شادی کيوں کروائ آپ نے۔ ميرا اور ميرے پيرينٹس کا کيا قصور تھا۔ ميری زندگی کيوں برباد کی۔ کچھ مت چھپائيں پليز۔۔۔
وہ ان کا ہاتھ تھامے بے اختيار پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ "نہيں نہيں بيٹا!حديد کسی ميں انوالو نہيں ہے۔ايسا کچھ۔۔۔" سائرہ بیگم نے اس کی بات کی ترديد کرتے ہو ۓ کہا ‎
۔"پليز آنٹی!اب بھی۔۔اب بھی آپ مجھ سے چھپا رہی ہيں۔ ايک بے قصور کی زندگی برباد کر کے آپ اپنے بيٹے کا پردہ رکھ رہی ہيں۔" حورين نے بے اختيار ان کی بات کاٹ کرغصے اور رنجيدگی سے کہا
"بيٹا!ميں جانتی ہوں تم کس کيفيت سے گزر رہی ہو۔مگر ميرا يقين کرو وہ بات نہيں ہے جو تم سوچ رہی ہو۔ اوکے! اگر تم ميرا ساتھ دينے کا وعدہ کرو تو ميں سب تمہيں ابھی اور اسی وقت بتا دوں گی مگرپھر تمہيں ميری مدد کرنا ہو گی
سائرہ بیگم نے فيصلہ کن اندازميں کہا۔ "آنٹی! يہ تو اس وجہ پے منخصر ہے- مگر مجھے بہت دکھ ہے کہ آپ نے کسی کی بيٹی اپنے بيٹے کے لئے برباد کر دی۔" حورين ابھی بھی بے يقين تھی کہ حديد کی اس حرکت کے پيچھے کسی لڑکی کا معاملہ نہيں ہے۔
بيٹا مجھے يقين ہے کہ وجہ سننے کے بعد تم اس بات کو اتنا بڑا نہيں جتنا اپنی غلط فہمی کی بنا پر سمجھ رہی ہو۔" سائرہ بیگم نے ہلکا سا مسکراتے ہو ۓ اس کے چہرے پر ہاتھ رکھا
- ‎" ۔ "آپ پليز مجھے بتائيں
------------------------
صبح اٹھ کر اپنے سر کو دباتے ہوۓ حورين نے دل ميں مصمم ارادہ کيا کہ اس کو اپنے اور حديد کے رشتے کو ايک جانس دينا ہے۔ اور پھر آخر ايک لڑکی کی زندگی ميں سمجھوتے کے علاوہ ہوتا بھی کيا ہے۔ مگر اس نے يہ بھی سوچا کہ خود کو گرانا بھی نہيں کہ اپنی نظروں ميں پھر اٹھ نہ سکے۔ ايسے با وقار طريقے سے اس کو اپنی طرف لانا ہے کہ شرمندگی کا زيادہ مارجن اس کے حصے ميں آ ۓ۔
ابھی يہ سوچ ہی رہی تھی کہ دروازے پر ناک ہوا۔ "يس کم ان۔"سائرہ بیگم مسکراتے چہرے کے ساتھ کمرے ميں داخل ہو‏ئيں۔ اسلام عليکم" ان کو ديکھتے ساتھ ہی حورين مسکراتے چہرے کے ساتھ ان کی جانب بڑھی۔انہوں نے اسے ساتھ لگا کر ڈھيروں دعا‏ئيں ديں۔ "اب ميری بيٹی ٹھيک ہے نا" انہوں نے تشويش سے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں ميں تھاما۔ "جی ميں بالکل ٹھيک ہوں" اس نے مسکراتے ہوۓ انہيں تسلی دی۔ "شکر ہے ميں رات بھر بہت پريشان رہی۔" انہوں نے تفکر سے کہا۔ "آنٹی آپ فکر نہ کريں ہم جلد ہی اس کا حل نکاليں گے" "بيٹا ميں کيسے تمہارا شکريہ ادا کروں۔تم نے ميرا مان رکھ ليا۔" "پليز آپ آ‏ئندہ کوئ شکرۓ والی بات نہيں کريں گی۔" حورين نے ان کو اس تکليف سے نکالنا چاہا جو حديد نے دی تھی۔ "تم آج سے مجھے ممی کہ سکتی ہو۔ اور اب جلدی سے نيچے آجاؤ سب ناشتے پر تمھارا انتظار کر رہے ہيں۔" "جی ممی
-------------------------
ناشتے کے فورابعد حورين کے پيرينٹس ملنے آگۓ۔"بيٹا مجھے تو جب سے حديد کے جانے کا پتہ چلا ميں تو پريشان ہو گئ تھی۔" حورين کی والدہ نے تشويش سے کہا"ارے نہيں ماما پريشانی کی کوئ بات نہيں، آپکو تو پتہ ہے ان کی جاب ہی ايسی ہے، بس صبح کال آگئ کے ضروری آپريشن ہے، سو صبح ہی نکلنا پڑھا۔"حورين نے ان کی تسلی کروائ۔ سائرہ بیگم نے تشکر بھری نظروں سے اسے ديکھا جس نے خوبصورتی سے ان کا پردہ رکھ کر مزيد سوالوں سے ان کو بچا ليا تھا۔
"ہاں بيٹا! فوجی ہوں يا کمانڈوز ان کو ہر وقت الرٹ رہنا پڑتا ہے۔کوئ بات نہيں اب تو عادت ڈالنی ہو گی تمہيں، اللہ حديد کو اس کے مقصد ميں کامياب کرے۔ وليمہ تو ہوتا ہی رہے گا، کيوں بھاي صاحب۔" حورين کے پاپا اياز صاحب نے حورين کو سمجھاتے آخر ميں حديد کے والد رياض صاحب سے تا‏ئيد چاہی۔ "بالکل جناب" رياض صاحب نے ان کی ہاں ميں ہاں ملائ۔
----------------------------
رات کا پجھلا پہر شروع ہو چکا تھا۔ حديد کو اميد تھی کے سب سو چکے ہوں گے۔ مين گيٹ چوکيدار نے کھول ديا۔ مين ڈور کی چابی اس کے پاس ہمہ وقت ہوتی تھی۔ سيڑھياں چڑھ کے وہ اوپر آيا اور جيسے ہی اپنے کمرے کے دروازے کا ناب گھمايا تو اسے لاکڈ ديکھ کر وہ حيران ہوا۔ پچھلے کچھ دن اس نے اتنی ذہنی اور جسمانی مشقت کی تھی کہ وہ يہ فراموش کر چکا تھا کہ اس کی شادی ہوئ تھی۔ وہ حيران ہوتا نيچے گيا لاؤنج ميں سب کمروں کی چابيوں کا گچھا موجود ہوتا تھا۔ مطلوبہ چابی نکالی، جيسے ہی اندر آيا تونيلگوں بلب کی روشنی ميں کسی کو اپنے بيڈ پر سوتے پايا۔ حيران ہوتا آگے بڑھا اور حورين پر نظر پڑھتے ہی اپنی زبردستی کی شادی ياد آئ۔
حديد کے خوبصورت نقوش تن گۓ۔"اوہ يہ ڈھيٹ يہيں موجود ہے۔" غصے سے اس نے اپنا بيگ اتنے زور سے زمين پر پٹخا کے درودديوار ہل کر رہ گۓ۔ جورين تو پھر بہت کمزور اعصاب کی مالک تھی
حديد کے خوبصورت نقوش تن گۓ۔"اوہ يہ ڈھيٹ يہيں موجود ہے۔" غصے سے اس نے اپنا بيگ اتنے زور سے زمين پر پٹخا کے درودديوار ہل کر رہ گۓ۔ جورين تو پھر بہت کمزور اعصاب کی مالک تھی۔
حورين ہڑبڑا کو نيند سے اٹھی۔ جوں ہی سامنے نظر گئ تو حديد کو سامنے ديکھ کر اڑے ہوۓ حواس کچھ بحال ہو‎ۓ يکدم دوپٹے کا خیال آيا۔ سرعت سے سرہانے پڑا دوپٹہ اٹھايا۔ حديد اس تمام صورتحال سے لاتعلق صوفے پر بيٹھا جوگرز اتارنے ميں ايسے محو تھا جيسے اس کے علاوہ کمرے ميں کوئ نہ ہو۔ "کمرے ميں واخل ہونے کے کچھ آواب ہوتے ہيں۔ خاص طور پر رات کے اس وقت جب لوگ سو رہے ہوں۔ ليکن افسوس اتنے اعلی عہدے پر فا‏ئز ہونے کے باوجود لگتا ہے مينرز آپکو چھو کر بھی نہيں گزرے۔"
حورين نے نيند سے اتنی بری طرح اٹھ ۓ جانے کی کھولن حديد پر لفظوں کی بوچھاڑ کی صورت نکالی۔ يہ ان کی پہلی باضابطہ ا‎ ملاقات اور بات چيت تھی۔ حديد نے کچھ حيرت اور غصے کے ملے جلے تاثرات سميت اس کے مغرور چہرے پر نگاہ ڈالی- بلاشبہ حورين کی خوبصورتی کو اس نے دل ميں سراہا- خوبصورت کالی بھنور سی گہری آنکھيں، کھڑی ناک، گندمی شفاف رنگت، بھرے بھرے ہونٹ اور لمبے گھنے کمر کو چھوتے بال جن کو ل‏ئيرزميں کٹوايا گيا تھا اس کو نہايت پر کشش بناتے تھے۔ مگر اس کے سخت الفاظ بری طرح اس کی ہستی کو ہلا گۓ تھے لہزا اس نے دو حرف اس کی خوبصورتی پر بھيجے اور پھنکارا "گھر ميرا، کمرا ميرا ميری مرضی ميں يہاں توپ چلا کر آؤں يا خاموشی سے آپ ہوتی کون ہيں مجھے مينرز کا طعنہ دينے واليں۔"حورين نے ايک استہزائيہ نظر حديد کے خوبصورت مگر کسی قرد غصيلے چہرے پر ڈالی
چھے فٹ دو انچ ہا‏ئيٹ، ورزشی جسم، گھنے بال فوجی ہ‏ئير کٹ، جو ماتھے پہ بکھرے ہوۓ تھے۔ ہيزل گرين آنکھيں جو مقابل کو چاروں شانے چت کر ديں۔ کھڑی ناک بھينچے ہونٹ اور دائيں گال پر پڑھنے والا ڈمپل اس کی خوبصورتی ميں چار چاند لگا رہے تھے۔ غصے سے اس کی جانب گھور رہا تھا۔ " ويسے تو سنا ہے کہ سيکرٹ سروسز والوں کا آئ کيو غضب کا ہوتا ہے، مگر آپکو ديکھ کر نہ صرف افسوس بلکہ حيرت ہے کہ انہوں نے آپکو رکھ کيسے ليا۔ جس کو يہ ياد نہيں کے ميں يہاں کيوں اور کس حيثيت سے ہوں۔ " حورين نے اسے طيش دلانے والی مسکراہٹ سميت طنزيہ نگاہوں سے ديکھا۔
جو ابھی تک اسی کے بيڈ پر براجمان بيک سے ٹيک لگاۓ اور اس کے بلينکٹ ميں مزے سے پھسکڑا مارے بيٹھی اس کو چيلنجنگ نگاہوں سے ديکھ رہی تھی۔ "جس رشتے کی ميرے نزديک کوئ حيثيت نہيں اس سے جڑے شخص کی بھی کوئ اہميت نہيں۔ مائنڈ اٹ مائ سو کالڈ وائف۔"طنزيہ مسکراہٹ سميت وہ حورين پر اس کی حيثيت واضح کر گيا تھا۔ " سو جب اس رشتے کی کوئ حيثيت نہيں تو آپکا بھی ميرے روم ميں کوئ کام نہيں۔ اپنا ٹھکانہ آپ خود ڈھونڈيں۔ ميں فريش ہونے جا رہا ہوں واپس آؤں تو آپ مجھے يہاں نظر نہ آئيں۔ ادروائز نتيجے کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی۔" اپنا بيگ اور جوگرز اٹھاتے وہ حورين کو وارن کرتا ڈريسنگ روم ميں غائب ہو گيا۔
اب اس کے آنے سے پہلے حورين کو کوئ حل نکالنا تھا۔ بے اختيار ممی کی وہ باتيں ياد آئيں جو انہوں نے حديد کے حوالے سے شاوی کی پہلی رات بتائيں تھيں۔ "بيٹا حديد کسی لڑکی ميں انوالو نہيں ہے۔ اگر ايسا ہوتا تو ميں خوشی خوشی اسکی پسند کو اپنی بہو بناتی۔ ان فيکٹ وہ سيکرٹ سروسز کے ساتھ جنون کی حد تک اٹيچڈ ہے۔ اس کا ماننا یہ ہے کہ اس کی لائف اتنی پرفيکٹ ہے کہ جس ميں بيوی اور اس سے محبت کی کوئ گنجائش نہيں۔ وہ اس رشتے کی حقيقت کو ماننے سے انکاری ہے۔ہمارا کيا ہے آج ہيں تو کل نہيں۔ مگر ايک ماں ہونے کے ناطے ميں اس کو يہ بے وقوفی نہيں کرنے دے سکتی تھی۔ ابھی تو ہم ہيں تو اسے پرواہ نہيں مگر جب ہم نہيں رہيں گے تو بہن بھائ کب تک اس کے ساتھ جڑے رہ پائيں گے۔ بس اسی لئے ميں نے زبردستی يہ قدم اٹھايا۔ مگر مجھے پورا يقين ہے۔ جس اللہ نے تم دونوں کے نصيب ملاۓ ہيں وہ جلد ہی حديد کا دل تمھاری جانب موڑے گا۔ بس تم ميرا اتنا ساتھ دو کے کچھ ٹائم صبر سے اس کو برداشت کرنا۔ ميں پوری طرح اس کی برين واشنگ کروں گی، بس کچھ دير کی بات ہے۔ ايک ماں کی التجا سمجھ لو
سب باتيں دہراتے اس نے خود کو تسلی دی۔ "کوئ بات نہيں حورين کبھی نہ کبھی يہ بندہ تمہاری حيثيت مانے گا۔ بس کمزور نہيں پڑھنا۔ ورنہ ان سب کو کيسے فيس کرو گی خاص طور سے اپنے پيرينٹس جنہيں اپنی خوشگوار زندگیکی تسلی دی ہے۔ بی بريو۔ مسٹر ايجينٹ حديد گيٹ ريڈی فار آ نيو ميشن۔" خود کو تسلی ديتے جلدی سے بيڈ سے اٹھی۔ الماری سے سنگل بيڈ بلينکٹ نکالا اور ابھی صوفے پر ليٹ کر کمبل ميں گم ہونے ہی والی تھی کہ حديد ڈريسنگ روم سے باہر آيا۔ اس کو کمرے ميں موجود ريکھ کر تيوری چڑھ گئ۔
"شکل سے تو کچھ سينس ايبل لگتی ہيں مگر حرکتيں بتاتی ہيں کے کافی ڈھيٹ قسم کی بندی ہيں آپ، جن پر ميری باتوں کا کوئ اثر نہيں ہوا۔" بيڈ پر دراز ہوتے ہوۓ بڑی گہری طنزيہ نظروں سے حديد نے اسے ديکھا۔ حورين نے اگر حديد کی ممی سے ان کا ساتھ دينے کا وعدہ نہ کيا ہوتا تو ابھی سب چھوڑ چھاڑ نکل جاتی۔ "جی بالکل آخر اتنے دنوں سے اس کمرے ميں ہوں، يہاں رہنے والی شخصيت کا کچھ تو اثر ہونا تھا۔ باقی رہ گئ ميری حيثيت اور اس کمرے ميں رہنے اور نہ رہنے کی بات تو اس کا جواب آپ ممی سے لی جئيے گا۔ ميرا جواب شايد تسلی بخش نہ ہو، گڈ نائيٹ" حديد کے دماغ کو مزيد بھڑکاتے ہوۓ حورين نے مزے سے کروٹ دوسری جانب لی اور کمبل سر تک اوڑھ ليا۔
‎ اسٹوپڈ ديکھ لو ں گا تمہيں" دانت پيستے ہوۓ حديد نے اس کی پشت کو گھورا اور سونے کی کوشش کی۔ جو شايد اتنی تھکاوٹ کے باوجود مشکل لگ رہا تھا اور وجہ وہ وجود تھا جس نے حديد کو اپنی حيثيت کا بتا کر اس کا دماغ ٹھکانے لگا ديا تھا۔
------------------------------
‎"حورين بيٹا کيا حديد رات ميں گھر آيا تھا۔" سائرہ بيگم نے چاۓ بناتی حورين سے پوچھا۔ "جی ممی ليٹ نائٹ آۓ تھے" حورين رخ موڑے چاۓ نکالتے ہوۓ بولی۔ "شکر!کوئ بات ہوئ" انہوں نے رازداری اور بڑے اشتياق سے حورين سے پوچھا۔"ممی آ‎پ تو ايسے پوچھ رہی ہيں جيسے ميں ان کی محبوب بيوی ہوں اور آتے ہی وہ مجھے پھولوں کے ہار پہنائيں گے، بس ہاتھ پکڑ کر کمرے سے نکالنے کی کسر باقی رہ گئ تھی۔
حورين نے ان کے خوشی سے تمتماتے چہرے پر دکھ کے ساۓ لہراتے ديکھے۔ انہوں نے خود کو سنبھالتے اس کے کندھے پر تسلی بھرا ہاتھ رکھا۔ "ميری جان تم بس حوصلہ نہ ہارنا ميں ہوں نہ تمہارے ساتھ۔"انہوں نے پيار سے اس کے چہرے پر پڑنے والی لٹوں کو پيچھے کرتے ہوۓ کہا۔ "ايک آپ ہی تو ہيں ممی جن کی وجہ سے ميں يہاں ہوں۔" حورين نے پيار سے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ تسلی بخش مسکراہٹ دی۔ "وا‎ؤ! واٹ آ رومينٹک سين۔" حديد نے کچن ميں داخل ہوتے ہوۓ شوارت سے ماں کو ديکھتے ہوۓ کہا۔ "بدتميز ايسے کہتے ہيں۔" سائرہ بيگم نے آگے اسکے شانے پہ چپت لگائ۔"اس نے بہت محبت سے انہيں بازؤؤں کے حصار ميں ليا۔ حورين تب تک کچن چھوڑ کے جا چکی تھی۔ "کيسی ہيں ميری جان جہاں" حديد نے محبت سے ان کے ماتھے پہ بوسا ديا۔ "بالکل ٹھيک اور ميرا بيٹا" انہوں نے نہايت محبت سے اس کو ديکھا۔" بالکل فٹ اب جلدی سے کچھ کھانے کو ديں بہت بھوک لگ رہی ہے۔" اپنی بيوی سے کہو وہی نکال کر دے۔
سائرہ بيگم کو اصل موضوغ کی طرف آنے کا موقع ملا۔"پليز ممی نو اريليونٹ ڈسکشن، ميں آل ريڈی بہت تھکا ہوا ہوں۔ کچھ دنوں کی چھٹی ريليکس کرنے کے لئے لے کر آيا ہوں۔آپکا بہو نامہ سننے کے لئے نہيں۔"حديد نے برا سا منہ بناتے ہوۓ کہا"حديد کيوں ‎ ماں کو اس عمر ميں ذليل کروانے پر تلے ہو ۓ ہو۔ يقين کرو بہت اچھی بچی ہے۔ تم ايک مرتبہ اس کی جانب توجہ کرکے تو ديکھو۔"انہوں نے حديد کا ناشتہ بناتے ہوۓ اسے قائل کرنس کی کوشش کی۔ "ممی کيا آپ چاہتی ہيں کہ ميں چھٹياں کينسل کروا کر واپس چلا جاؤں۔ يہ سب ميں نے آپکو کرنے کو نہيں کہا تھا۔ اب ناشتا ملے گا يا بھوکا چلا جاؤں، اور ويسے بھی آپکی بہو کو ہر چيز تو مل رہی ہے يہاں، ايون يور ايکسپويم سپورٹ، واٹ ايلس شی وانٹ۔" حديد کے غصے کو ديکھتے انہوں نے اسے سمجھانے کا ارادہ بدل کر فیالوقت کے لئے خاموشی اختيارکی
(جاری ہے)
from Blogger http://bit.ly/2LAQEtV via
0 notes
humlog786-blog · 5 years
Text
سانس لیتا ہوں تو اب خون کی بو آتی ہے : ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ
Tumblr media
بعض اوقات انسان انجانے میں ایسے افعال کرگزرتا ہے جن کے نتائج بہت بھیانک اورہولناک ہوتے ہیں ۔ جب نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انسان چلا اٹھتا ہے کہ یہ کیا ہوا میرے ساتھ۔جیسا کہ اس کہانی میں چڑیا ایک چھوٹا سا پرندہ ہے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ یہ کسی سے اپنا انتقام لے گی لیکن ۔۔۔ یہ لگ بھگ65- 1960 کی بات ہے۔ اس زمانہ میں پاکستان کے اکثر علاقے بجلی کی سہولت سے محروم تھے۔بالخصوص دیہی اورنواحی علاقے بہت زیادہ پس ماندہ تھے۔اس لئے رات ہوتے ہی تاریکی کا راج ہوتا ۔یعنی راتیں روشن تونہ تھیں لیکن لوگوں کے دل محبت وہمدردی کے نور سے منور تھے۔ لوگ بہت ملنسار تھے ۔ ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے میں دلی اطمینان وسکون محسوس کرتے تھے۔ ایک شخص کراچی کے نواحی علاقے میمن گوٹھ میں امامت کے فرائض ادا کرتا تھا۔ ��ہ اس علاقے میں بہت خوش تھا۔ وہاں کے لوگ بہت ملنسار،غم گسار، ہنس مکھ تھے۔ وہاں آب وہوا بہت تازہ تھی۔ ارد گرد سبزہ ہی سبزہ تھا۔خاص طور پر وہ شخص شاعرانہ مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ فطرت سے قریب زندگی گزارنے کا دلدادہ تھا۔ شاعرانہ مزاج ،پُرفضاماحول اور اس کی طبیعت کی جولانی نے اس کی آنکھوں میں گویا ساون ہی بسادیا۔بقول ابوعلی محمد رمضان صاحب تجھ کو سوجھتا ہے ہرا ہی ہرا ساون آنکھوں میں بس گیا ہو جیسے اس پرمستزاد وہاں خالص دودھ ،دہی ، مکھن، دیسی انڈے، دیسی گھی، تازہ سبزیاں اورگوشت الغرض خوش خوراکی کے لئے بہت ہی ارزاں قیمت پر بہترین غذا ہروقت میسرتھی۔ وہاں کی ایک اورخاص بات پرندوں کا گوشت تھا ۔ جو ذرا سی محنت سے بالکل مفت حاصل ہوجاتا۔ان صاحب کو بھی چڑوں کی یخنی محبوب تھی۔ کبھی کبھی وہ چڑے پکڑتے اوران کی یخنی سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔چڑے پکڑنے کے لئے اسے کوئی خاص محنت نہ کرنی پڑتی کیونکہ اس شخص کا کمرہ چڑیاں پکڑنے کے لئے نہایت موزوں تھا۔وہ اپنی دہلیز پر بہت سے دانے گرادیتا ۔جب چڑیاں دانے چگنے میں مصروف ہوتیں تو یہ اچانک دروازہ بند کردیتا اور اندر جاکر انہیں پکڑلیتا۔ ایک دن اس نے اسی ترکیب پر عمل کرتے ہوئے بہت ساری چڑیوں کو کمرے کے اندردھکیل کر کمرا بند کردیا۔ ارادہ تھا کہ تھوڑی دیر بعد انہیں ذبح کرکے شام کا بہترین سالن پکایاجائے گا۔ خدا کا کرنا کچھ یوں ہوا کہ وہ دن اس شخص کا کچھ اتنا مصروف گزرا کہ دن بھر اسے چڑیوں کا خیال تک نہ آیا۔دوپہر کو قیلولہ کرنے کے بعد جب وہ اٹھا تو عصر کا وقت ہوچکا تھا۔ عصر کی نماز پڑھاکر فارغ ہی ہوئے تھے کہ اس علاقے کا ایک بااثر آدمی ملنے کے لئے آگیا۔ اس سے گفتگو کے دوران مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا۔ مغرب کے بعد کسی اور شخص سے ملاقات کرنا پڑی جس نے کھانے کی دعوت بھی دی ۔ وہاں کھانا کھانے کے بعد جب آئے تو عشاء کا وقت ہوچکا تھا ۔ اس زمانے میں لائٹ تو تھی نہیں اس لئے لوگ عشاء کے فورا بعد سوجاتے تھے۔ یہ شخص بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہیں مسجد کے باہر کھاٹ لگا کر سوگیا ۔اب آتے ہیں انتقام کی جانب جس کے لئے یہ ساری تمہید باندھی گئی ہے۔ عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد وہ شخص سوگیا۔آدھی رات کواٹھا انتہائی گھبراہٹ ووحشت کا عالم، ہر سوسناٹا ،چاند کی کوئی روشنی نہیں ،اندھیرا ہی اندھیرا، وہ شخص بار بار تھوک رہاتھا ایسا محسوس ہورہاتھا کہ وہ خون تھو ک رہا ہے۔جب خوف اوروحشت پر قابو نہ پاسکا تو اس نے دفعۃً ایک فیصلہ کیا ۔اور وہیں سے اونچی اونچی آوازیں دے کر بستی کے لوگوں کو بلانے لگا۔ بستی کے چند افراد آئے وہ حیران و پریشان تھے آخر معاملہ کیا ہے۔آدھی رات کو ہمیں کیوں بلایا گیا ہے؟ امام صاحب نے ان (بستی والوں )سے کہا میری طبیعت بہت خراب ہورہی ہے ،مجھے بہت گھبراہٹ ہورہی ہے،میرے منہ سے خون نکل رہا ہے۔ بقول عزیز لکھنوی دل کی آلودگیٔ زخم بڑھی جاتی ہے سانس لیتا ہوں تو اب خون کی بو آتی ہے لہذا میں اس امامت کو جاری نہ رکھ سکوں گا۔ انہوں نے چراغ کی روشنی میں دیکھ کر بتایا کہ وہاں تو خون کا ایک دھبہ بھی نہیں ہے۔ لیکن اس شخص کا مسلسل اصرار تھا کہ یہ خون ہے اور چراغ کی روشنی میں بھی اسے لگا کہ وہ خون تھوک رہاہے۔ بستی کے لوگ ایسا قطعا نہ چاہتے تھے کہ وہ اس شخص سے بہت مطمئن تھے۔وہ ایک متقی اورپرہیز گار شخص تھا۔ دن کے اوقات میں بستی والوں کے بچوں کو ناظرہ اور دوسری تعلیم دیتا تھا۔ جب گاؤں والے کسی طرح نہ مانیں تو اس نے کہا مجھے لگتا ہے کہ مجھ پر ٹی بی کا حملہ ہوا ہے۔ اور پھر اسی وقت گاؤں والوں سے کچھ اورانتظام کرنے کا کہا۔ گاؤں والوں کے بار بار اصرار کے باوجود اس نے وہاں امامت جاری رکھنے سے منع کردیا آخر گاؤں والوں کو اس کی بات ماننی پڑی۔ اس شخص کو کچھ سمجھ نہ آرہاتھا کہ معاملہ کیا ہے ۔وہ جب سونے لگا تھا اس وقت تو بالکل ٹھیک تھا۔اس کی طبی معلومات کے مطابق اسے لگا کہ وہ ٹی بی کا شکار ہوچکا ہے۔ اس وقت ٹی بی ایک خوفناک اور لاعلاج مرض تھا۔ اگراس وقت کسی کو علم ہوجاتا کہ اسے ٹی بی ہے تو گویا اسے موت کا پروانہ مل گیا ، خاص کر کمزور مالی حالت والوں کے لئے یہ واقعی موت کا پروانہ ہی تھا۔اس شخص کی آواز قبر سے آتی معلوم ہوتی تھی ۔ایسا محسو س ہوتا تھا کہ اس شخص سے قوت گویائی سلب کرلی گئی ہے اور اب وہ اپنا حال تک بیان نہ کرپائے گا۔ بقول عزیز لکھنوی بتاؤ ایسے مریضوں کا ہے علاج کوئی کہ جن سے حال بھی اپنا بیاں نہیں ہوتا بہرحال جیسے تیسے کرکے صبح ہوئی اسی بے چینی میں صبح ہوتے ہی اس نے اپنا کمرہ کھولا اپنا سامان لیا تو وہاں پورے دن کی بھوکی پیاسی بے چین چڑیاں باہر نکلیں۔لیکن گردو وپیش سے مکمل بے خبر یہ بے چین شخص سب سے پہلے اسپتال گیا اپنا چیک اپ کروایا۔ڈاکٹر نے رپورٹ کے لئے اگلے دن آنے کا کہا لیکن اس شخص کی بے چینی دور نہ ہوتی تھی۔اس نے ملتان واپس جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں اپنے ایک دوست کو ذمہ داری سونپ کر ملتان چلا گیا ۔ وہ شخص اتنا بے چین تھا کہ کراچی سے رپورٹ کا انتظار بھی نہ کرسکا ۔اس نےملتان پہنچتے ہی سب سے پہلے نشتر ہسپتال سے اپنا دوبارہ چیک اپ کروایا ۔یہاں بھی رپورٹ کے لئے تین دن کا انتظار کرنا پڑا۔تین دن بعد رپورٹ ملی ۔ اسے ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ سو فیصد صحیح ہے ٹی بی کے کوئی آثار نہ تھے۔ایک دو دن بعد کراچی سے بھی رپورٹ آگئی کہ وہ بالکل صحیح ہے۔ لیکن یہ پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ گھبراہٹ، پریشانی، وہ تڑپ اس میں آخر کوئی کمی کیوں نہیں ہوتی بقول امداد امام اثرؔ تڑپ تڑپ کے تمنا میں کروٹیں بدلیں نہ پایا دل نے ہمارے قرار ساری رات آخر اس کے ذہن میں آیا" چڑیوں کا انتقام"۔یہ خیال ذہن میں چپک گیا کہ تم نے شدید گرمی میں چڑیوں کو پورا دن بھوکا پیاسا رکھا جس کی بناپر تمہارے حواس پر بھی ٹی بی کا بھوت سوار کردیاگیا۔اوردفعۃ حدیث مبارکہ ذہن میں آئی جس میں ایک بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے ایک عورت کے جہنم میں جانے کا ذکر تھا صحیح مسلم کی ایک روایت کچھ یوں ہے کہ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ سَجَنَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ لاَ هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَسَقَتْهَا إِذْ حَبَسَتْهَا وَ لاَ هِيَ تَرَكَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ "حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا’’ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا۔ اس نے بلی کو قید کئے رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی ، پھر اسی بلی کے سبب وہ جہنم میں گئی ۔ دوران قید اس نے بلی کو نہ کھانا دیا، نہ پانی اور نہ اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی ۔‘‘ (یوں اس نے بلی کوبھوکا پیاسا رکھ کر تڑپا تڑپا کر مارا تھا جس کے سبب وہ دوزخ کا ایندھن بن گئی)۔ یہ حدیث مبارکہ ذہن میں آتے ہی اس شخص نے توبہ کی اور اس واقعہ کے بعد وہ حتی المقدور پرندوں اور دیگر حشرات الارض کے دانہ پانی کا انتظام کرنے والا بن گیا۔یوں کافی عرصہ گزرنے کے بعداس کے دل کو ٹھنڈک ملی اوراسے سکون قلب میسر آیا۔ حاصل کلام: یہ دوسروں کو انجانے میں ایذا پہنچانے کے سبب اندر کی آگ تھی اتنی خوفناک کہ بھوک پیاس سب کچھ غائب ۔انسان اپنے تمام معمولات یکسر چھوڑ دینے پر مجبور ہوگیا۔حالانکہ یہ حادثہ اس شخص کے بھولنے کی وجہ سے پیش آیا تھا، لیکن دنیا میں بعض انسان تو جانتے بوجھتے دوسروں کو ایذا دیتے ہیں اور ان کی تکلیف پر خوش ہوتے ہیں۔ان کا انجام کیا ہوگا؟ ایسے انسان بعض اوقات دنیا ہی میں اپنے اندر کی آگ میں سلگنے لگتے ہیں۔ جسے ٹھنڈک ظاہری اسباب سے نہیں ملتی بلکہ انہیں تو بعض اوقات توبہ اور رب کی طرف پلٹنے کا بھی خیال ہی نہیں آتا۔اور وہ اسی آگ میں جل کر مرجاتے ہیں اور آخرت کی اس آگ کا ایندھن بن جاتے ہیں جس کا ایندھن انسان اورپتھر ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفظ وامان وعافیت میں رکھے! نہ ہم کسی پر ظلم کریں اور نہ ہم پر ظلم ہو ۔آمین   Read the full article
0 notes