#عیسائیت
Explore tagged Tumblr posts
Photo
بائبل پڑھیں: beblia.com 🙏
متفق ہو تو آمین کہیں۔
رومیوں 4:4-5
beblia.com
#بائبل#خدا اچھا ہے#انجیل مقدس#عیسائی#خدا#یسوع#ایمان#چرچ#زندگی#سچائی#محبت کرتا ہے#مسیح#پیار کیا#محبت#صحیفہ#انجیل#عبادت#فضل#دعا#اچھی خبر#زبردست#گرجا گھروں#عیسائیت
0 notes
Text
The Real Messiah - A Jewish Response to Missionarie
This is a fascinating read & I’d recommend it to all Christians who want to understand why the Jewish leadership rejected Christ as God & Messiah. The author clearly doesn’t understand Biblical Christianity & makes numerous claims & errors about what is believed by Christians & the basis of those beliefs. To be fair this book was an eye opener as to why Judaism continues to reject Jesus as the…
0 notes
Text
گریٹر اسرائیل اور مسلمانوں کا تصور خلافت (1)
شام میں علوی آمریت کی تسخیر کے بعد جس طرح مڈل ایسٹ میں اُس ترکیہ کا کردار بڑھ گیا جو خود کو خلافت عثمانیہ کی وارث سمجھتی ہے، اُس سے مسلم اُمہ میں بھی یوروپی یونین کی طرز پہ وسیع تر مسلم فیڈریشن (خلافت )کے قیام کی دیرینہ آرزوئیں جاگ اٹھیں ، دوسری جانب سقوط دمشق میں یہودیوں کو بھی ”عظیم تر اسرائیل“ کی گونج سنائی دینے لگی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت عیسائیت ہی مڈل ایسٹ میں جاری جنگووں کی سب سے…
0 notes
Photo
حریت فکر کا نظریہ کہاں تک درست ہے ؟ سوال ۱۰۹: ہم ’’حریت فکر‘‘ کے الفاظ سنتے اور پڑھتے ہیں درحقیقت یہ ’’حریت اعتقاد‘‘ کی طرف گویا کہ دعوت ہے، اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جواب :اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ جو شخص اس بات کو جائز سمجھتا ہے کہ انسان اعتقاد میں آزاد ہے وہ جو چاہے دین اختیار کرے تو ایسا شخص کافر ہے کیونکہ جو شخص بھی آزادی خیال کا عقیدہ رکھے کہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرنا بھی جائز ہے وہ اپنے اس عقیدہ کی وجہ سے اللہ عزوجل کے ساتھ کفر کرتا ہے، اس لئے اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ وہ توبہ کر لے تو درست ورنہ اسے قتل کرنا واجب ہوگا۔ ادیان افکار نہیں ہیں بلکہ یہ تو وحی الٰہی ہیں جسے اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں پر نازل فرمایا ہے تاکہ بندے اس کے مطابق زندگی بسر کریں اور یہ لفظ ’’فکر‘‘ جس سے مقصود دین ہوتا ہے، واجب ہے کہ اسے اسلامی لغت کی کتابوں سے حذف کر دیا جائے کیونکہ دراصل لفظ فکر کہہ کر اسی فاسد معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے اس ترکیب لفظی کے اعتبار سے گویا اسلام ایک فکر ہے۔ نصرانیت، جسے لوگ مسیحیت کے نام سے پہچانتے ہیں وہ بھی ایک فکر ہے اور یہودیت بھی ایک فکرہے گویاکہ شریعتیں محض زمینی افکار ہیں جنہیں لوگوں میں سے جو چاہیں آزادی کے ساتھ اختیار کر سکتے ہیں، حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ ادیان سماوی تو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین ہیں، لہٰذا انسان کو ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ یہ بلاشبہ وحی الٰہی سے عبارت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے نازل فرمایا ہے تاکہ ان کے مطابق اس کے بندے اس کی عبادت کریں، اس بنیادپرانہیں ’’فکر‘‘ نہیں کہنا درست نہیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں اپنی اصل یعنی اسلام پر قائم نہیں، لہٰذا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اسلام ہی سچا دین اور بنی نوع انسان کے لیے واجب الاتباع ہے) خلاصہ جواب یہ ہے کہ جو شخص بھی یہ عقیدہ رکھے کہ ہر شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ جو چاہے دین اختیار کرے اسے مکمل آزادی حاصل ہے، تو ایسا شخص اپنے اس عقیدہ کی بنیادپر کافر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ﴾ (آل عمران: ۸۵) ’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلٰمُ﴾ (آل عمران: ۸۶) ’’دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘ لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرنا بھی جائز ہے کیونکہ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے تو اہل علم کی صراحت کے مطابق وہ کافرکہلائے گا اور دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۱۸۰، ۱۸۱ ) #FAI00092 ID: FAI00092 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Video
جرمن مسلمان بیوی کی عیسائیت میں تبدیلی بچوں کی پرورش کے لیے ایک متاثر کن...#muftitaqiusmani
0 notes
Link
0 notes
Text
مسلمان بچیوں کا طوفان ارتداد اسباب و علاج
مسلمان بچیوں کا طوفان ارتداد اسباب و علاج ✍ محمد اسعد نعمانی کشن گنجی٢٦ شعبان المعظم ١٤٤٢ه ادیان عالم میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جسے علم و حکمت، معرفت و بصیرت اور حجت و برہان کے میدان میں کوئی شکست دے سکا ہے نہ آئندہ دے سکے گا۔ دشمنان اسلام انتھک کوششوں کے باوجود نہ اسلام کو مغلوب کر سکے نہ ہی مسلمانوں کو اپنے دین سے برگشتہ کرسکے۔ برطانوی ہند میں تبلیغ عیسائیت کی انتہائی جد وجہد اور ان کی حد…
View On WordPress
0 notes
Text
آج جناح بھی ہوتا تو ہاتھ اٹھا لیتا
جب افکارِ تازہ کو دماغوں میں گھسنے سے روکنے کے تمام ہتھیار اور حربے یکے بعد دیگرے کند ہونے لگیں تو پھر تازہ نمو بخش نظریات کو وبائی شکل میں پھیلنے سے روکنے کے لیے ایک آخری ہتھیار میدان میں لایا جاتا ہے، ’ہماری ثقافتی اقدار خطرے میں ہیں، ہمارا اسلام، ہندوتوا، عیسائیت، یہودیت، بودھ مت، لادینیت خطرے میں ہے۔‘ یوں ازہان کی تشکیلِ نو کا عمل مزید کچھ عرصے کے لیے ملتوی تو ہو جاتا ہے۔ البتہ حالات کا جبر بھی ساتھ ساتھ بطور سودِ مرکب بڑھتا جاتا ہے اور ایک دن ہر بند ٹوٹ جاتا ہے اور سب اچھا برا بہا لے جاتا ہے۔ اب یہ آپ کی قسمت کہ اس سیلاب کے دوران انقلاب کے موتی ہاتھ آتے ہیں کہ انارکی و بربادی کا کوئی طویل سیاہ دور۔
بالکل اسی طرح جب نااہلی ہی معیارِ اہلیت قرار پائے، ریاست بظاہر ’قائد کا فرمان کام کام اور صرف کام‘ کی تسبیح پھیر رہی ہو مگر عملاً ’ کام جوان کی موت ہے‘ کے نظریے پر راسخ ہو۔ وہاں بیدار مغزی، ٹیلنٹ پول اور متعلقہ شعبوں و اداروں کی مشاورتی یکسوئی و یکجائی کی مدد سے کسی بھی سنجیدہ و سنگین چیلنج سے نمٹنے کی توقع اپنے ہی منھ پر مل لینی چاہئے۔ سامنے کی مثال کورونا کی ہے۔ باقی دنیا نے اس کا سامنا قومی وسائل کی یکجائی کے ساتھ سخت لاک ڈاؤن اور اس کے نفاذ کو زود ہضم بنانے کے لیے معاشی پیکیجز کے ��نجکشنز سے کیا۔ یوں وائرس کا زور توڑنے میں کہیں مکمل تو کہیں جزوی کامیابی حاصل کی۔ مگر ہمارے ہاں روزِ اول سے عام آدمی کی تو چھوڑئیے خود ریاست نے کورونا کے مقابلے میں عامیانہ پن اختیار کر لیا۔
یہ کسی راہ چلتے نے نہیں بلکہ وزیرِ اعظم نے کہا کہ کورونا محض ایک فلو ہے اور اس میں صرف بوڑھے لوگ مرتے ہیں اور وہ بھی دو ڈھائی فیصد۔ پھر فرمایا کہ لاک ڈاؤن کیا تو لوگ بھوکے مر جائیں گے، پھر فرمایا کہ لوگوں نے اگر اس بیماری کو سنجیدہ نہیں لیا تو لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا، پھر فرمایا کہ ملک دوسری بار لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا، پھر فرمایا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن کیا جائے گا۔ پھر ایک مشیرِ باتدبیر نے فرمایا کہ عالمی ادارہِ صحت کی جانب سے چار ہفتے کے مکمل لاک ڈاؤن کی سفارش پر عمل کرنا مشکل ہے، عالمی ادارہِ صحت تو محض وبا کو دیکھ رہا ہے ہمیں مجموعی حقائق دیکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لاک ڈاؤن بمقابلہ بھوک کی بحثیانا ڈھال کے پیچھے ریاستی بے عملی نے پناہ لینے کی کوشش کی۔
تادمِ تحریر یہاں کورونا سے لگ بھگ تین ہزار اموات ہو چکی ہیں لیکن بھک مری کے سبب ایک بھی رجسٹرڈ موت سامنے نہ آ سکی۔ حالانکہ بھک مری کی تلوار کورونا سے پہلے بھی لٹک رہی تھی اور بعد میں بھی لٹکتی رہے گی۔ دنیا کا شاید ہی کوئی دوسرا ملک ہو جہاں کورونا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن کا خالص انتظامی و طبی فیصلہ سوائے طبی ماہرین کے کسی اور کے مشورے سے کیا گیا ہو۔ مگر پاکستان میں ریاستی بے عملی نے علما، کاروباریوں اور ججوں سمیت ہر شعبے کی اینٹی لاک ڈاؤن بھاوناؤں کو پوری اہمیت دی مگر طبی ماہرین کی ایک نہیں سنی۔ نتیجہ یہ ہے کہ تقریباً پانچ سو ڈاکٹر اور نیم طبی کارکن وائرس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اور 38 ڈاکٹرز اور چار پیرا میڈکس سمیت 42 ہراول سپاہی اپنا فرض نبھاتے ہوئے اب تک شہید ہو چکے ہیں۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ لاک ڈاؤن کے کتنے مخالف علما، جج، وزرا، ساہوکار و صنعت کار اب تک ڈاکٹروں، قانون نافذ کرنے والوں یا میڈیا کارکنوں کی طرح فرض نبھاتے ہوئے کام آئے؟ البتہ ان کے فیصلوں کے سبب کام آنے والوں کی تعداد تین ہزار کو ضرور چھو رہی ہے اور ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ پہلے کہہ رہے تھے گھبرانا نہیں کورونا جون میں عروج تک پہنچے گا اور پھر زوال شروع ہو جائے گا۔ اب کہہ رہے ہیں کہ عروج جولائی یا اگست میں آئے گا اور پھر زور ٹوٹنا شروع ہو جائے گا۔ مگر یہاں بھی آدھا سچ بولا جا رہا ہے، زور ان ممالک میں ٹوٹا ہے جنھوں نے زور توڑنے کے لیے لاک ڈاؤن سمیت سخت تدابیر کیں۔
مگر برازیل کے صدر بولسنارو، امریکی صدر ٹرمپ اور حکومت سویڈن کی طرح جن ممالک نے اسے مذاق سمجھا وہاں زور ٹوٹنے کا فیصلہ ریاست کے ہاتھ سے نکل کر کورونا کے ہاتھ میں جا چکا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی انہی عقل مند ممالک میں ہو رہا ہے جہاں اب جو بھی فیصلہ کرنا ہے کورونا کو ہی کرنا ہے۔ جس ملک کے صحت بجٹ میں کورونا بھی ایک پیسے کا اضافہ کروانے میں ناکام ہو جائے اس ملک کا مقدمہ مقدر کی عدالت میں لڑنے کے لیے شاید جناح جیسا وکیل بھی آج ہاتھ اٹھا لیتا۔ کہنے کو یہ ملک اگرچہ جناح نے ہی لے کر دیا تھا، مگر اس غریب کو بھی کہاں اندازہ تھا کہ اس کے بعد کیسا کیسا۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
1 note
·
View note
Photo
بائبل پڑھیں: beblia.com 🙏
متفق ہو تو آمین کہیں۔
یوحنا 4:13-14
beblia.com
#بائبل#خدا اچھا ہے#انجیل مقدس#عیسائی#خدا#یسوع#ایمان#چرچ#زندگی#سچائی#محبت کرتا ہے#مسیح#پیار کیا#محبت#صحیفہ#انجیل#عبادت#فضل#دعا#اچھی خبر#زبردست#گرجا گھروں#عیسائیت
0 notes
Text
مسیحی انفاس ۔ عیسائیت کے مروجہ عقائد کے ابطال
مسیحی انفاس ۔ عیسائیت کے مروجہ عقائد کے ابطال میں مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی�� کے فرمودات ۔ ہادی علی چودھری
View On WordPress
0 notes
Text
004۔Maktub by Paulo Coelho
004۔Maktub by Paulo Coelho
Maktub by Paulo Coelho
زبان: انگریزی
مکتوب، مشہور مصنف پاؤلو کوئیلہو کی لکھی ہوئی ایک مختصر کتاب ہے۔ پاؤلو کوئیلہو وہی مصنف ہیں جن کی لکھی ہوئی کتاب “الکیمسٹ” مقبولیت کے غیر معمولی ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ الکیمسٹ کے برعکس، مکتوب کوئی ناول نہیں ہے بلکہ یہ حکائیتوں اور واقعات کی کتاب ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے دنیا بھر کی ثقافتوں، مذاہب، قبائیل وغیرہ میں مروج رسوم و رواج یا ان کے اعتقادات کے بارے میں…
View On WordPress
#Alchemist#Budhism#Christianity#English#Hindusim#Islam#Jewism#Maktub#Non-Fiction#Paulo Coelho#Review#Short stroy#ہندو مت#مکتوب#یہودیت#پاؤلو کوئیلہو#بدھ مت#تبصرہ#عیسائیت
1 note
·
View note
Text
گوا: تبدیلی ٔ ��ذہب کے الزام میں چرچ کا پادری گرفتار
گوا: تبدیلی ٔ مذہب کے الزام میں چرچ کا پادری گرفتار
گوا: تبدیلی ٔ مذہب کے الزام میں چرچ کا پادری گرفتار گوا ، 27مئی ( آئی این ایس انڈیا ) گوا پولیس نے مبینہ طور پر لوگوں کو لالچ دے کر عیسائیت اختیار کرنے پر اُکسانے والے پادری کو گرفتار کیا ہے۔ شمالی گوا کے سوڈیم گاؤں میں فائیو پِلر چرچ کے پادری ڈومینک ڈی سوزا کو نکھل شیٹی اور پرکاش کھوبریکر کی دو تحریری شکایات کے بعد جمعرات کی رات کو گرفتار کیا گیا۔ مذکورہ پادری کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ…
View On WordPress
0 notes
Text
*مجوسی*
*مجوسی یا پارسی زرتشت کے پیروکاروں کو کہتے ہیں۔*
جو دو خالق مانتے ہیں، ایک خالق خیر (یزدان) اور ایک خالق شر (اہرمن) یہ لوگ اپنے آپ کو زرتشت کا پیرو کہتے ہیں اور اس کو نبی بھی بتاتے ہیں۔
معلوم نہیں یہ لوگ بعد میں گمراہ ہوئے یا شروع ہی سے غلط تھے۔
میرا خیال ہے زرتشت کے بعد کے پجاریوں نے شیطان کے نرغے میں آکر گمراہی اختیار کی۔
اس کی تفصیل میں نے کوروش اعظم والی پوسٹ میں لکھی تھی۔
*نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم*
کے دور میں دنیا کی دو سپر پاور تھیں ایک روم اور دوسری ایران، سلطنت شام یا روم پر عیسائیوں کی حکومت تھی اور سلطنت ایران پر مجوسی قبضہ جمان تھے اور دونوں اکثر برسر پیکار رہتے ہے۔
ایک دفعہ ان دونوں پاورز میں سخت جنگ ہوئی اور روم کے عیسائی مغلوب ہوگئے۔
لیکن کچھ ہی سالوں میں رومیوں نے دوبارہ اپنا تسلط قائم کردیا۔
اس کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔
بہرحال مسلمانوں نے دونوں کے خلاف جنگیں لڑیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مجوسیوں کی ایرانی حکومت ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی۔
عربوں نے ایران فتح کیا تو ان میں سے کچھ مسلمان بن گئے،
کچھ نے جزیہ دینا قبول کیا اور باقی آٹھویں سے دسویں صدی عیسوی کے درمیان ترک وطن کرکے ہندوستان آگئے۔
ان کا دعوی ہے کہ ان کے مذہبی رہنما کے پاس اوستا کا وہ قدیم نسخہ موجود ہے جو ان کے پیغمبر زردشت یا زرتشت پر نازل ہوا تھا۔
پارسی اپنے مردوں کو جلانے یا دفنانے کے بجائے ایک کھلی عمارت میں رکھ دیتے ہیں تاکہ اسے گدھ وغیرہ کھا جائیں۔ اس خاص عمارت کو دخمہ ’’منار خاموشی‘‘ کہا جاتا ہے۔
دخمہ ایسے شہروں میں تعمیر کیا جاتا ہے جہاں پارسیوں کی "معتدبہ" (عبادت کرنے والے پجاری) زیادہ تعداد میں آباد ہوں، ۔
جہاں دخمہ نہیں ہوتا وہاں ان کے قبرستان ہوتے ہیں جن میں مردوں کو بہ امر مجبوری دفن کیا جاتا ہے،
جسمانی طہارت اور کھلی فضا میں رہائش پارسیوں کے مذہبی فرائض میں داخل ہے۔ پاکیزگی کی مقدس علامت کے طور پر ، ان کے معابد اور مکانات میں،
ہر وقت آگ روشن رہتی ہے۔
خواہ وہ چراغ ہی ہو۔ ہندو ’’سناتن دھرم‘‘ اور یہودیوں کی طرح ، پارسی مذہب بھی غیر تبلیغی ہے۔
یہ لوگ نہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کرتے ہیں اور نہ ان کے ہاں شادی کرتے ہیں۔
ان کڑی پابندیوں کے باعث ابھی تک دوسرے طاقتور مذاہب ’’اسلام اور عیسائیت‘‘ کے ثقافتی اثرات سے محفوظ ہیں۔ حصول علم ان کا جزوایمان ہے ۔
ہر پارسی معبد میں ایک اسکول ہوتا ہے۔
دنیا میں پارسیوں کی کل تعداد لاکھوں میں ہے اور اس میں بھی ان لوگوں میں شادی کے رجحان کے کم ہونےسے مزید کمی واقع ہورہی ہے۔
سب سے زیادہ اکثریت ممبئی اوراس کے گردو نواح میں آباد ہے۔
یہ لوگ عموما تجارت پیشہ ہیں اور سماجی بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ بمبئی اور کراچی کے کئی سکول ہسپتال اور کتب خانے ان کے سرمائے سے چل رہے ہیں۔
ہندوستان کا پہلا فولاد کا کارخانہ جمشید ٹاٹا نے جمشید پور میں بنایا۔ ہندوستان میں جدیدسٹیج ڈرامے اور فلم سازی کے بانی بھی یہی ہیں۔
جو کہ اسی مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔پارسی زرتشت عقیدے پر یقین رکھتے ہیں اور یہ دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے۔۔
آج دنیا میں ایک اندازے کے مطابق صرف ایک لاکھ چالیس ہزار پارسی باقی رہ گئے ہیں جن میں سے بیشتر بھارت میں آباد ہیں۔کم تعداد میں ہونے کے باوجود پارسی بھارتی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ٹاٹا خاندان سمیت ملک کے اہم صنعت کار پارسی ہیں۔
پاکستان سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کی سینٹ سیویئر چرچ والی چڑھائی اترتے ہی ایک قدیمی عمارت نمودار ہوتی ہے جس کوشہر کی بلڈر مافیا کے علاوہ ہر ایک شہری نے بھلا دیا ہے۔یہ قدیمی عمارت پارسیوں کی عبادتگاہ اور دھرم شالا ہوا کرتی تھی۔مگر اب سکھر اور اندرون سندھ میں کوئی ایک پارسی بھی نہیں جو سکھر کے اس ویران و اداس مندر کی انگاری میں آگ جلا سکے۔ سکھر میں پارسیوں کا ٹیمپل کئی سالوں سے ویران پڑا ہے۔ عمارت کے ماتھے پر ٹیمپل کی تعمیر کا سال انیس سو تئیس اور ماما پارسی لکھا ہوا ہے۔
کراچی پاکستان میں بھی کافی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کے اوپر بی بی سی نے ایک عد د آرٹیکل بھی کچھ عرصہ پہلے چھاپا تھا۔ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ لاہور میں بھی ایک پارسی قبرستان موجود ہے۔ مگر معلوم نہیں کہاں ہے۔
ایک اور دلچسپ بات آپ میں سے بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگی کہ قائداعظم کی بیوی بھی ایک پارسی خاتون تھیں ۔ جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا تھا۔
0 notes
Text
مسلمان عیسائیت اختیار کر رہے ہیں۔
______________________________________________________________ ______________________________________________________________ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان عیسائیت اختیار کر رہے ہیں۔ یہ بے مثال ہے، اور بہت سے مذہب تبدیل کرنے والوں کی طرف سے دی گئی حیران کن وضاحت ان کے یسوع کے خواب اور خواب ہیں۔ وہ تمام مسلمانوں سمیت انسانیت کو بچانے کے لیے صلیب پر مر…
View On WordPress
0 notes
Text
جنوبی ایشیا میں عیسائیت کا فروغ
جنوبی ایشیا میں عیسائیت کا فروغ
عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے جس کے تقریباً ڈھائی ارب پیروکار ہیں عیسائیت ایک ابراہیمی مذہب ہے جو حضرت عیسیٰؑ ناصری کی زندگی اور تعلیمات پر مبنی ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے جس کے تقریباً ڈھائی ارب پیروکار ہیں۔ اس کے پیروکار، جنھیں عیسائی کہا جاتا ہے، 157 ممالک اور خطوں میں آبادی کی اکثریت کی تشکیل کرتے ہیں، اور یہ مانتے ہیں کہ یسوع مسیح ہے، جس کے مسیحا کے طور پر آنے کی پیشن گوئی…
View On WordPress
0 notes
Text
بھارت میں دلتوں کی حالت زار
چوں کہ دلت ہندومت کے چار ورنوں پر مشتمل نظام سے خارج ہیں اور انھیں ”اوارن” کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اس لیے ان کا یہاں الگ سے جائزہ لیا گیا ہے۔ دلت (جس کا مطلب ہے ٹوٹا ہوا، سنسکرت میں بکھرا ہوا) ان لوگوں کا نام ہے جو انڈیا میں سب سے نچلی جاتی (پیشہ ورانہ ذات) سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں ”اچھوت” کہا جاتا ہے کیوں کہ انھیں مذہبی طور پر ناپاک سمجھا جاتا ہے، اور دلتوں کے ساتھ جسمانی لمس یا سماجی میل جول ایک ہندو شخص کی ذات کی پاکیزگی کو آلودہ کرتا ہے۔ دلتوں کے لیے ایک اور اصطلاح، جسے مہاتما گاندھی نے وضع کیا اور اسے فروغ دیا، ہریجن ہے۔ ہری ہندو دیوتا کرشن کا دوسرا نام ہے اور اس طرح گاندھی دلتوں کو کرشنا کے عقیدت مندوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ماہر اقتصادیات، سیاست دان اور سماجی مصلح بی آر امبیدکر (1891-1956)، جو خود ایک دلت پس منظر رکھتے تھے، اور عام طور پر بابا صاحب کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے کہا تھا کہ اچھوت ہونے کا تصور ہندوستانی سماج میں 400 عیسوی کے آس پاس آیا، اور اس کی وجہ بدھ مت اور برہمنوں کی زبردست طاقت (جسے برہمنیت کہتے ہیں) کے درمیان بالا دستی کی جدوجہد تھی۔ امبیدکر، جنھوں نے ہندوستان کے پہلے وزیر قانون و انصاف کے طور پر خدمات انجام دیں اور ہندوستان کے آئین کے معمارِ اعلیٰ مانے جاتے ہیں، نے اپنی موت سے عین قبل دلتوں کے بڑے پیمانے پر بدھ مت میں منتقلی کی قیادت کی۔ بھارت 20 کروڑ سے زیادہ دلتوں کا گھر ہے، دلت برادری نہ صرف کسی بھی ہندو ورن سے بلکہ بھارت میں مسلم کمیونٹی سے بھی بڑی ہے۔ وہ پورے بھارت میں رہتے ہیں، عام طور پر دیہات اور قصبات کے مضافات میں الگ الگ محلوں کی صورت میں۔
بھارت کی 2011 کی مردم شماری کے مطابق دلت برادریاں ملک کی آبادی کا 16.6 فی صد پر مشتمل ہیں۔ اتر پردیش (21 فی صد)، مغربی بنگال (11 فی صد)، بہار (8 فی صد) اور تامل ناڈو (7 فی صد) ملک کی کُل دلت آبادی کا تقریباً نصف ہیں۔ ان کی شرح شمال مشرقی بھارت میں سب سے کم ہے کیوں کہ وہاں کی مقامی آبادی ہندو نہیں ہے، اور وہ ذات پات کے نظام کی پیروی نہیں کرتے۔ بنگالی تارکین وطن نے دلتوں کی قلیل تعداد کو اپنی سوسائٹی میں متعارف کرایا ہے۔ اسی طرح کے گروہ بقیہ برصغیر پاک و ہند میں بھی پائے جاتے ہیں؛ پاکستان کی 2 فی صد سے بھی کم آبادی ہندو ہے، جن میں 70-75 فی صد دلت ہیں۔ بنگلا دیش میں 2010 میں 50 لاکھ دلت تھے، جن میں اکثریت بے زمین اور دائمی غربت میں تھی۔ دلت اپنے پیشے کے لحاظ سے اپنے اندر بھی مختلف جاتیوں میں بہت زیادہ تقسیم ہیں۔ دلتوں کے مختلف گروہوں کے درمیان سماجی تفریق بھی بہت ہے، کچھ اپنے آپ کو سماجی طور پر دوسروں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
بھارت میں دلت صفائی ستھرائی کے کارکنوں کے طور پر کام کرتے رہتے ہیں: خاک روب (بھنگی)، نالیوں کی صفائی کرنے والے، کوڑا اٹھانے والے، اور سڑکوں کی صفائی کرنے والے۔ دیگر پیشوں میں لیدر ورکر، ٹینرز (چمڑا رنگنے والے)، چمڑا اتارنے والے، موچی، زرعی مزدور اور ڈھول پیٹنے والے شامل ہیں۔ برہمنوں نے اپنی حکمرانی کو سہارا دینے اور اسے دوام بخشنے کے لیے پاکیزگی اور نجاست کے تصور کا استعمال کیا۔ اس عمل میں، مقامی غیر آریائی آبادی (اکثر سیاہ جلد والے قبائلی لوگ) کو ورن نظام میں شامل نہیں کیا گیا اور صدیوں کے دوران وہ اچھوت بن گئے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ورن ہندوؤں کو ان سے جسمانی طور پر رابطہ کرنے، ان کا تیار کردہ کھانا لینے، اور ان سے پانی لینے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ خیال کہ چمڑے کے جوتے نجس ہوتے ہیں (خواہ ان پر کیچڑ نہ بھی ہو) اس تصور سے آیا کہ چمڑا، یعنی گائے کی کھال اور جس نے جوتے بنائے ہیں وہ بھی نجس ہیں۔
چناںچہ بے عزتی یا نفرت کے اظہار کے لیے ایک دوسرے پر جوتے پھینکنے کا تعلق ہندو مت کے اسی باب سے ہے۔ انسانوں میں عدم مساوات کی طرح چھوت چھات کی سماجی حقیقت اور اس کے تصور پر سب سے پہلے بدھ مت اور جین مت دونوں نے تنقید کی۔ اسلام اور عیسائیت جیسے ابراہیمی مذاہب بھی اصولی طور پر انسانوں کی عدم مساوات کو مسترد کرتے ہیں لیکن برصغیر میں یہ تصور ہندوؤں کے اثر سے بگڑ چکا ہے۔ جب انگریز ہندوستان آئے تو انھوں نے اچھوت پرستی، ستی (بیوہ کو جلانے)، بچوں کی شادی اور دیگر سماجی رسومات پر تنقید شروع کر دی۔ اس سے ہندوؤں میں ‘خود تنقیدی’ نگاہ پیدا ہوئی، اور ہندو اصلاحی تحریکوں نے جنم لیا، جیسا کہ برہمو سماج اور انیسویں صدی میں بنگالی نشاۃ ثانیہ کے بانئین، جنھوں نے ذات پات کے نظام کو مسترد کر دیا، لیکن جب بات ان کی اپنی بیٹیوں کی شادی کی آتی تو انھیں اسے قبول کرنا پڑتا۔ اس لیے سماجی اصلاح کی تحریکیں کامیاب نہ ہو سکیں۔
آزاد بھارت میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز ممنوع ہے اور چھوت چھات کو بھارتی آئین نے ختم کر دیا ہے۔ اس کے فوراً بعد بھارت نے دلتوں کی صلاحیت بڑھانے کے لیے بھی ریزرویشن سسٹم متعارف کرایا، تاکہ وہ سیاسی نمایندگی، سرکاری ملازمتیں اور تعلیم حاصل کر سکیں۔ ”شیڈولڈ کاسٹ” میں نام کی تبدیلی کے بعد دلتوں کے لیے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں نشستیں محفوظ ہیں۔ اصولی طور پر اس سے دلتوں کے لیے تعلیم اور نوکری حاصل کرنا ممکن ہو گیا ہے لیکن اس سے امتیازی سلوک برائے نام ہی کم ہوا ہے۔ اپنے پیدائشی حالات اور غربت کی وجہ سے مجبور، دلت بھارت میں صفائی ستھرائی کے کارکنوں اور دیگر ”نجس” ملازمتوں میں کام کرتے رہتے ہیں۔ 2019 تک، ایک اندازے کے مطابق 60 لاکھ دلت گھرانوں میں سے 40 سے 60 فی صد لوگ صفائی ستھرائی اور اسی طرح کی دیگر ملازمتوں میں مصروف تھے۔ حتیٰ کہ جو لوگ یونیورسٹیوں اور اچھی ملازمتوں میں جگہ بناتے ہیں انھیں بھی امتیازی سلوک کے خلاف لڑنا پڑتا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے اپنے چیمبرز کو گنگا کے مقدس پانی سے ”پاک” کیا تھا، کیوں کہ ان میں پہلے ایک دلت جج رہا تھا۔
اکرام سہگل
فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes