#عمر شریف
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 1 year ago
Text
کنگ آف کامیڈی عمر شریف کو مداحوں سے بچھڑے دو سال ہو گئے
پاکستان کے معروف کامیڈین و اداکارعمرشریف کی دوسری برسی آج منائی جارہی ہے۔ عمر شریف 19 اپریل 1955 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پیدا ہوئے تھے،ان کا اصل نام محمد عمر تھا،،فنون لطیفہ میں وہ عمر شریف کے نام معروف تھے اور اسی نام سے انہوں نے شہرت پائی۔ پاکستان کے علاوہ ان ممالک میں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے،وہاں عمرشریف کے اسٹیج ڈراموں کو پذیرائی حاصل تھی،پاکستان میں انھیں کامیڈی کنگ کا لقب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
keenmusicbanana · 2 months ago
Text
‏جلیل القدر صحابي عبدالله بن عمر رضي الله عنه به هره جمعه د سورة الکهف تلاوت كوی، دی د هماغه حدیث شریف راوي دی چې سورة الکهف له یوې تر بلې جمعې پوري د مؤمن لپاره نور دی، رڼا ده، هدایت دی و خیر ته د دنیا و د أخرت، عاصم دی د فتنة الدجال څخه.
یا لها من فوائد.
3 notes · View notes
my-urdu-soul · 2 years ago
Text
ناکام حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا
دنیا میں اب دکھوں کے سوا کچھ نہیں رہا
اک عمر ہو گئی ہے کہ دل کی کتاب میں
کچھ خشک پتیوں کے سوا کچھ نہیں رہا
یادیں کچھ اس طرح سے سماعت پہ چھا گئیں
پچھلی رفاقتوں کے سوا کچھ نہیں رہا
لب سی لیے تو اپنے ہی کمرے میں یوں لگا
خاموش آئنوں کے سوا کچھ نہیں رہا
جذبے تمام کھو گئے لمحوں کی دھول میں
اب دل میں دھڑکنوں کے سوا کچھ نہیں رہا
- خالد شریف
11 notes · View notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
پاکستان کا مستقبل امریکا یا چین؟
Tumblr media
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری بلاشبہ دونوں ممالک کی دوستی اور دوطرفہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔ چین نے ایسے وقت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا جب پاکستان دہشت گردی اور شدید بدامنی سے دوچار تھا اور کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا۔ چین کی جانب سے پاکستان میں ابتدائی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 62 ارب ڈالر تک ہو چکی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت اب تک 27 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک منصوبوں سے اب تک براہ راست 2 لاکھ پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع ملے اور چین کی مدد اور سرمایہ کاری سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کا حصہ بنی۔ سی پیک کو پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ترین منصوبہ ہے، لیکن منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے پروجیکٹس کے بعد سی پیک کے دیگر منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ملک کے چاروں صوبوں میں خصوصی اکنامک زونز کا قیام تھا جس کے بعد انڈسٹری اور دیگر پیداواری شعبوں میں چینی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ کرنا تھا لیکن اب تک خصوصی اکنامک زونز قائم کرنے کے منصوبے مکمل نہیں کیے جا سکے۔
سی پیک منصوبوں میں سست روی کی ایک وجہ عالمی کورونا بحرا ن میں چین کی زیرو کووڈ پالیسی اور دوسری وجہ امریکا اور مغربی ممالک کا سی پیک منصوبوں پر دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی ترجیحات اور رفتار پر تو تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کے پاس چینی سرمایہ کاری کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔ پاکستان کا معاشی مستقبل اور موجودہ معاشی مسائل کا حل اب سی پیک کے منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری سے ہی وابستہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور وزیراعظم شہباز شریف کی گفتگو پر مبنی لیک ہونے والے حساس ڈاکومنٹس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو اب چین یا امریکا میں سے کسی ایک کو اسٹرٹیجک پارٹنر چننا ہو گا۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات خصوصا مشرقی وسطی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اب چین عالمی سیاست کا محور بنتا نظر آرہا ہے۔
Tumblr media
پاکستان کو اب امریکا اور مغرب کو خوش رکھنے کی پالیسی ترک کر کے چین کے ساتھ حقیقی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرنا ہو گی چاہے اس کے لیے پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ چین کی طرف سے گوادر تا کاشغر 58 ارب ڈالر ریل منصوبے کی پیشکش کے بعد پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اس منصوبے سے نہ صرف پاک چین تعلقات کو اسٹرٹیجک سمت دے سکتا ہے بلکہ اس منصوبے کی بدولت پاکستان چین کو بذریعہ ریل گوادر تک رسائی دیکر اپنے لیے بھی بے پناہ معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے تاحال سی پیک کے سب سے مہنگے اور 1860 کلومیٹر طویل منصوبے کی پیشکش پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے فیصلہ ساز امریکا کو ناراض کر کے چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو طویل مدتی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے یا دونوں عالمی طاقتوں کو بیک وقت خوش رکھنے کی جزوقتی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں اشرافیہ کے کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کے مفادات براہ راست امریکا اور مغربی ممالک سے وابستہ ہیں۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے بچے امریکا اور مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ان افراد کی اکثریت کے پاس امریکا اور مغربی ممالک کی دہری شہریت ہے۔ ان کی عمر بھر کی جمع پونجی اور سرمایہ کاری امریکا اور مغربی ممالک میں ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک ہی اشرافیہ کے ان افراد کا ریٹائرمنٹ پلان ہیں۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو قربان کر کے چین کے ساتھ طویل مدتی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرے ان کوخوف ہے کہیں روس، ایران اور چین کی طرح پاکستان بھی براہ راست امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آجائے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے ریٹائرمنٹ پلان برباد ہو جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین خارجہ پالیسی کا مطلب تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات اور معاشی ترقی کے نئے امکانات اور مواقع پیدا کرنا ہے۔ لیکن ماضی میں روس اور امریکا کی سرد جنگ کے تجربے کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے لیے امریکا اور چین کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ جلد یا بدیر پاکستان کو امریکا یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ تعلقات کی قربانی کا فیصلہ کرنا ہو گا تو کیوں نہ پاکستان مشرقی وسطیٰ میں چین کے بڑھتے کردار اور اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری قائم کرنے کا فیصلہ کرے یہ فیصلہ پاکستان کے لیے مشکل ضرور ہو گا لیکن عالمی حالات یہی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل اب چین کے مستقبل سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر مسرت امین    
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 2 years ago
Text
بہت عرصہ گنہ گاروں میں پیغمبر نہیں رہتے
کہ سنگ و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے
ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوق تماشا کی
کبھی نظریں نہیں رہتیں کبھی منظر نہیں رہتے
بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی
جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے
مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ کہہ کر
شریف انسان گھر سے دیر تک باہر نہیں رہتے
خود آگاہی کی منزل عمر بھر ان کو نہیں ملتی
جو کوچہ گرد اپنی ذات کے اندر نہیں رہتے
پٹخ دیتا ہے ساحل پر سمندر مردہ جسموں کو
زیادہ دیر تک اندر کے کھوٹ اندر نہیں رہتے
بجا ہے زعم سورج کو بھی ناز اپنی تمازت پر
ہمارے شہر میں بھی موم کے پیکر نہیں رہتے
ناز خیالوی
2 notes · View notes
googlynewstv · 28 days ago
Text
 سارہ شریف قتل کیس،والد اور سوتیلی ماں کوعمرقید کی سزا
برطانوی عدالت نے10 سالہ سارہ شریف کے قتل کےجرم میں مقتولہ کے والد عرفان شریف اورسوتیلی ماں بینش بتول کو عمر قید کی سزاسنادی۔ عدالت نے مقتولہ کےچچا فیصل ملک کو بھی16 سال قید کی سزا سنائی۔ جج کے مطابق عرفان شریف کو کم سےکم40 سال اور بینش بتول کو کم سے کم 33 سال جیل میں گزارنا ہوں گے۔ سزا کا کم سے کم وقت ختم ہونےکےبعدبھی رہائی کی گارنٹی نہیں، کم سےکم سزا کا وقت ختم ہونےکےبعد پیرول فیصلہ ہوگا۔ گزشتہ…
0 notes
topurdunews · 2 months ago
Text
نمونیا سے بچاؤ اور بروقت علاج کی آگاہی اجتماعی ذمہ داری ہے: مریم نواز
(24نیوز)وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ نمونیا سے بچاؤ اور بروقت علاج کی آگاہی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ نمونیا سے بچاؤ کے سلسلے میں عالمی دن پر اپنے پیغام میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ نمونیا سے احتیاط ضروری ہے، بچوں اور بزرگوں کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اس مرض سے دنیا بھر میں سالانہ لاکھوں بچے اور بزرگ لقمہ اجل بنتے ہیں،انہوں نے کہا کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو نمونیا سے بچاؤ کی…
0 notes
idreescolumns · 3 months ago
Text
بہت عرصہ گنہ گاروں میں پیغمبر نہیں رہتے کہ سنگ و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوق تماشا کی کبھی نظریں نہیں رہتیں کبھی منظر نہیں رہتے بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ کہہ کر شریف انسان گھر سے دیر تک ۔۔باہر نہیں رہتے خود آگاہی کی منزل عمر بھر ان کو نہیں ملتی جو کوچہ گرد اپنی ذات کے اندر نہیں رہتے پٹخ دیتا ہے ساحل پر سمندر مردہ جسموں کو زیادہ دیر تک اندر کے کھوٹ اندر نہیں رہتے   Translate
1 note · View note
amjad-blog · 8 months ago
Text
Tumblr media
تشریح وتوضیح:-
گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔
وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔
یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔
اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں،
لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔
روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔
اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔
ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔
گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔
ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام
اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔
مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔
بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔
یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔
العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔
1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔
اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔
مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔
اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔
میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔
علامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔
حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔
اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔
یہ سب معلومات معروف کتاب ”وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مؤلف نور الدین ابو الحسن السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں----واللہ اعلم بالصواب
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ یہ تحریر صدقہ جاریہ ہے ، شیئر کرکے باقی احباب تک پہنچائیے ، شکریہ, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے ایمان میں تازگی کا باعث ہو .. جزاک اللہ خیرا کثیرا
0 notes
urduintl · 11 months ago
Text
ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی کی محمد شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے محمد شہباز شریف کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نیا وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق پاکستان میں ایرانی سفارتخانہ کی طرف سے اتوار کو جاری بیان میں کہا گیا کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے پر مبارکباد پیش کی۔
بیان کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک گہرے تاریخی اور ثقافتی روابط کی روشنی میں ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی مطلوبہ اور مناسب سطح کے حصول کے لیے تعاون کو مضبوط اور وسعت دینے کے لیے سخت محنت کریں گے۔
انہوں نے اپنے پیغام میں پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی مستقل پالیسی کے فریم ورک کے تحت برادر اور ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کو مضبوط اور گہرا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
ابراہیم رئیسی نے پاکستان کی نئی حکومت کی کامیابی اور ملک کی خوشحالی کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اقدامات اٹھائے گی۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں آج وزیراعظم کے عہدے کے لیے ہونے والے انتخاب میں شہباز شریف بھاری اکثریت کے ساتھ وزیراعظم منتخب ہو گئے۔
اتوار کو قومی اسمبلی میں اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت اج��اس میں ڈویژن کی بنیاد پر وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا گیا جس میں اراکین اسمبلی کو دو ڈویژن میں تقسیم کیا گیا۔
انتخابی عمل میں مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار شہباز شریف نے 201 جبکہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب خان نے 92 ووٹ حاصل کیے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے اراکین نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
یاد رہے کہ شہباز شریف لگاتار دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہو گئے جبکہ وہ مجموعی طور پر ملک کے 24ویں وزیراعظم ہیں۔
اس سے قبل دو سال پہلے سابق وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد بھی شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔
0 notes
shiningpakistan · 11 months ago
Text
آمریتوں سے جمہوریت تک کا ناکام سفر
Tumblr media
ملک میں پہلی بار چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دس ججزکے اکثریتی فیصلے میں پارلیمنٹ کی اہمیت اور قانون سازی کی برتری تسلیم کی گئی اور جن ججز نے اس کی مخالفت کی، وہ وہی ہیں جنھیں ہم خیال کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ نے پارلیمنٹ کو اہمیت دی، نہ اس کے قانون سازی کے حق کا احترام کیا، بلکہ گزرے چھ سات برسوں میں تو پارلیمنٹ کی چلنے دی گئی اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو قانون بننے سے پہلے ہی کالعدم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ 1956 کے آئین کے خاتمے اور 1973 کے آئین کی متعدد بار معطلی کے اور بحالی کے چکر میں آئین کے 50 سال تو مکمل ہو گئے مگر آئین میں بعض خامیوں کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور رہی۔ جنرل پرویز کو آئین میں ترمیم کا وہ اختیار دیا جو صرف پارلیمنٹ کا آئینی اختیار تھا مگر اس وقت کی سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کو قانونی کور فراہم کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل پرویز نے ہی ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا جب کہ 1985 کے بعد سے 1999 تک کوئی پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر سکی اور نہ ہی کسی وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری کرنے دی گئی۔
Tumblr media
وزیر اعظم کو فوجی صدور، سویلین صدور کے بعد 2008 میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد سپریم کورٹ نے دو منتخب وزرائے اعظم کو عہدے سے ہٹایا جب کہ اس سے قبل فوجی صدور اور سویلین صدور ہی وزیر اعظم کو برطرف کیا کرتے تھے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے آئین مارشل لا کو روکنے کی کوشش کی تھی جو 1977 میں ناکام رہی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور میں سویلین صدور کے 58-2/B کے اس اختیار کو ختم کیا جو فوجی صدر کے بعد دو سویلین صدور کو حاصل ہو گیا جس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کر کے پارلیمنٹ بھی ختم کی تھی مگر سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں تین سال میں الیکشن کرانا پڑے تھے جس پارلیمنٹ سے انھوں نے وردی میں خود کو صدر منتخب کرا لیا تھا۔ جنرل پرویز کے اقتدار میں پارلیمنٹ اتنی مضبوط تھی کہ پارلیمنٹ سے خطاب جنرل پرویز صرف ایک بار کر سکے تھے اور اپنے خلاف پارلیمنٹ کے رویے پر انھوں نے آئین کے مطابق کیا جانے والا یہ صدارتی خطاب بھی ترک کر دیا تھا اور پارلیمنٹ میں نعرے بازی پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ آئین کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں جو بھی خطاب کریں، اس پر گرفت نہیں ہوتی اور پہلی بار اتحادی حکومت میں پارلیمنٹ میں بعض عدالتی فیصلوں پر کڑی تنقید ہوئی۔ پہلے پارلیمنٹ اور اس کے منتخب کیے گئے وزیر اعظم کو دور آمریت میں نقصان پہنچا اور فوجی جنرلوں نے اقتدار سنبھال کر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ برطرف کی مگر جنرل پرویز مشرف دور میں 2007 تک قومی اسمبلی نے پہلی بار اپنی مدت پوری کی مگر اس پارلیمنٹ نے جنرل پرویز کی مرضی کے تین وزرائے اعظم منتخب کیے تھے۔ 2008 کی پارلیمنٹ کے بعد ملک میں آمریت کی جگہ جمہوریت تو آگئی مگر عدلیہ بحالی کے بعد مضبوط عدلیہ نے دو بار ملک کے منتخب وزرائے اعظم کو برطرف کیا۔  چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے عمر عطا بندیال تک عدلیہ نے پارلیمنٹ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں اور اسے مضبوط نہیں ہونے دیا۔ پارلیمنٹ کے منظور کیے کیے قوانین اور ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جاتا رہا جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور ہوئی اور آمریت کے بعد جمہوریت کا سفر کمزور ہوا۔ دنیا میں پارلیمنٹ مضبوط اور بااختیار ہوتی ہے۔
1973 کا آئین پارلیمنٹ نے بنایا تھا، ہر ادارے کے لیے قانون سازی کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے مگر پارلیمنٹ اپنے اس حق اور اختیار پر سمجھوتے بازی کرتی رہی جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی مگر پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے جانے کے بعد پارلیمنٹ کو اپنے حق اور اختیار کے لیے مزاحمت کرنا پڑی، جس کے جمہوریت اور سسٹم پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
نواز شریف وزیراعظم بننے کے لیے عوام کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ کر رہے ہیں، بلاول بھٹو زرداری
موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے نوجوانوں کی اپیل اور پرجوش منصوبے بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان کے وزیر اعظم بننے کی کوششوں کا مرکز ہیں، جو اگر کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ اپنی والدہ بے نظیر کے بعد سب سے کم عمر وزیر اعظم بن جائیں گے۔ جیسے ہی 8 فروری کو عام انتخابات قریب آ رہے ہیں، 35 سالہ، سابق وزیر خارجہ اور ایک ایسے خاندان کے بیٹے جس نے قوم کو دو وزرائے اعظم دیے، سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
bornlady · 1 year ago
Text
قیمت تمام دکلره مو : شادی در مراسم تعمید کودک عیاشی سه روز و سه به طول انجامید شب ها و همه210مهمانانی که در آنجا با امپراطور شادی می کردند می توانستند تا آخر عمر به هیچ چیز دیگری فکر نمی کنند. اما آن پسر به قوت بلوط و دوست داشتنی مثل گل رز بزرگ شد. رنگ مو : اما تمام آرزوهایش برآورده شد بیهوده. سرانجام، زمانی که او پیرمردی بود، فورچون به او رحم کرد همچنین پسری عزیز برای او به دنیا آمد که مانند او دنیا قبلا ندیده بود امپراتور به او نام آلئودور داد، و شرق و غرب و شمال و جنوب را جمع کردند تا در او شادی کنند. قیمت تمام دکلره مو قیمت تمام دکلره مو : در حالی که پدرش امپراتور هر روز به لبه قبر نزدیکتر می شد و چون ساعت مرگش فرا رسید، کودک را به زانو درآورد و به او گفت: «پسر عزیزم، ببین خداوند مرا می خواند. لحظه ای نزدیک است که من من برای به اشتراک گذاشتن سهم مشترک مردم. من پیش بینی می کنم. لینک مفید : تمام دکلره مو که شما یک خواهید شد مرد بزرگ و اگر مرده باشم استخوانهایم در قبر تو شادی خواهند کرد اعمال شریف در مورد اداره این قلمرو باید به شما بگویم هیچ، زیرا تو با حکمت خود خواهی دانست که چگونه باید پادشاه قانون. با این حال، یک چیز وجود دارد که باید به شما بگویم. قیمت تمام دکلره مو : آیا شما آن کوه آن طرف را می بینید؟ مواظب باش که پای خود را روی آن بگذاری، زیرا به ضرر و زیان تو نخواهد بود. آن کوه متعلق به «نیم مرد سوار بر بدتر از نیمه اسب لنگ» و هر کسی که سرمایه گذاری روی آن کوه نمی تواند بدون آسیب از آن فرار کند.» قبل از این که این کلمات را به زبان نیاورده بود. لینک مفید : تمام دکلره زیتونی گلویش سه بار به صدا در آمد و او روح را تسلیم کرد او مانند هر انسان دیگری به جایگاه خود رفت که در جهان متولد می شود، اگرچه هرگز امپراتوری مانند او وجود نداشت از زمانی که دنیا شروع شد اهل بیتش بر او بزرگوارش ناله کردند بزرگواران گریه کردند. قیمت تمام دکلره مو : امپراطور و آلئودور جوان.-ص. 210. 211 قومش نیز او را ناله کردند و سپس مجبور شدند او را دفن کنند. آلئودور، از لحظه ای که بر تخت پدرش نشست، مانند یک دولتمرد بالغ، عاقلانه بر این سرزمین حکومت کرد، اگرچه در سن و سالش اما بود یک کودک. همه جهان از نوسان او خوشحال شدند و مردم از بهشت ​​تشکر کردند. لینک مفید : تمام دکلره صدفی به آنها اجازه می دهد در روزگار چنین شاهزاده ای زندگی کنند. آلئودور تمام زمانی را که به امور ایالتی نمی‌پرداخت تعقیب و گریز. اما او همیشه دستورات پدرش را در نظر داشت و مر��قب بود که از حدی که برای او تعیین شده بود تجاوز نکند. با این حال، یک روز - من نمی دانم چگونه این اتفاق افتاد. قیمت تمام دکلره مو : اما به هر حال او به درونش افتاد یک مطالعه قهوه ای، و هرگز متوجه نشد که او از دامنه های آن فراتر رفته است مرد نیمه تا، پس از برداشتن ده قدم یا بیشتر، او را پیدا کرد خودش رو در رو با هیولا که او در حال تجاوز به زمینه های این موجود کوتاه رشد و وحشتناک او را ناراحت نمی کرد. لینک مفید : بوتاکس مو برای موهای دکلره شده بیش از حد، این فکر بود که او از فرمان در حال مرگ تخطی کرده است پدر عزیزش که او را اندوهگین کرد. "هو، هو!" هیولای شنیع فریاد زد: «آیا نمی دانی که همه رذلی که از مرزهای من فراتر می رود ملک من می شود؟» آلئودور پاسخ داد: «بله، اما باید به تو بگویم که این به دلیل کمبود بود از فکر و بدون آرزو212آن را که بر زمین تو پا گذاشته ام. قیمت تمام دکلره مو : من در برابر تو هیچ طرح شیطانی ندارم.» هیولا پاسخ داد: "من بهتر از آن می دانم." "اما من می بینم که، مانند همه ترسوها، فکر می کنید بهتر است بهانه بیاورید.» «نه، پس مطمئن باشید که خدا مرا حفظ می کند، من ترسو نیستم. من به تو گفته ام حقیقت ساده؛ اما اگر تو بجنگی، من آماده ام. لینک مفید : آمبره مو قیمت سلاح هایت را انتخاب کن با شمشیر بزنیم یا با قمه بزنیم یا با هم کشتی بگیریم؟» هیولا پاسخ داد: نه یکی و نه دیگری. "فقط یک راه آیا می توانی از مجازات عادلانه خود فرار کنی - باید دختر را برای من بیاوری از امپراتور سبز!» آلئودور خیلی دوست داشت از سختی بیرون بیاید به گونه ای دیگر، زیرا امور کشور اجازه نمی دهد. قیمت تمام دکلره مو : که او اینقدر طول بکشد سفری، سفری که در آن هیچ راهنمایی برای هدایت او پیدا نکرد. ولی هیولا از همه اینها چه می دانست؟ آلئودور احساس کرد که اگر این کار را بکند از شرم انگاشتن دزد و پایمال کننده حقوق بپرهیز از دیگران، او در واقع باید دختر امپراتور سبز را پیدا کند. لینک مفید : رنگ مو تمام دکلره علاوه بر این، او می خواست اگر می توانست با پوست کامل فرار کند. بنابراین در نهایت او قول داد که خدمات مورد نیاز او را انجام دهد.
حالا نیمه‌مرد سوار بر اسب‌های بدتر، به‌خوبی می‌دانست که به عنوان یک مرد شرافتمند،213آلئودور هرگز از مصیبت خود دور نمی شد. قیمت تمام دکلره مو : پس به او گفت: به نام خدا برو و موفق باش حضور تو!» بنابراین آلئودور رفت. او ادامه داد و بارها و بارها به این فکر کرد که چگونه او باید وظیفه خود را به انجام می رساند، و بنابراین به قول خود، زمانی که به آن رسید در حاشیه یک حوض، و در آنجا او یک پاک را دید که جان خود را بر روی آن می کوبید. لینک مفید : بوتاکس مو قیمت ساحل فوراً به سمت آن رفت تا گرسنگی خود را با آن رفع کند، وقتی پیک به او گفت: «من را نکش، پسر زیبا!
0 notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
نواز شریف کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
Tumblr media
نواز شریف 2019 کے گئے ہوئے 2023 میں لوٹ آئے ہیں۔ اس عرصے میں ان کا اپنا علاج بھی ہو گیا اور ہائی برڈ نظام والوں کی طبیعت بھی صاف ہو گئی۔ اس نظام کی بساط بچھانے والوں کا اپنی ہی دوا سے کافی حد تک علاج ہو گیا۔ مرض جانے مکمل طور پر ختم ہوا یا نہیں مگر ان برسوں میں مرض کی کم از کم تشخیص ہو گئی اس قوم کی ناکامی و نامرادی کی وجوہات اب بچے بچے کو سمجھ آ چکی ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ انہیں اصل مرض کا پتہ نہیں وہ خوفزدہ ہیں یا حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ اب اصل معاملہ نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ اب لوگ سرگوشیاں نہیں کر رہے، اب نعرے لگ رہے ہیں۔ اب لوگ اپنی شناخت چھپا نہیں رہے بلکہ اپنی شناخت اصل مرض کے حوالے سے بنا رہے ہیں۔ اس ملک میں سب قوتوں کو سبق مل چکا ہے۔ سب اپنی غلطیوں کا آموختہ دہرا چکے ہیں۔ کسی کا کسی سے حجاب نہیں رہا۔ اب کوئی نہیں کہہ رہا کہ ہماری غلطی نہیں ہے۔ اب کوئی نہیں لیکچر دے رہا کہ ہم مقدس ہیں۔ اب کسی کے سر پر عظمت رفتہ کی دستار نہیں ہے۔ اب کوئی سوشل میڈیا کے دشنام سے محفوظ نہیں۔ اب سب کچھ سرعام درپیش ہے، اب جنگ اداروں کی نہیں رہی، اب بات افراد تک آ گئی ہے۔ اب مرحلہ جان بچانے کا ہے۔ اب کوشش عزت کو تار تار ہونےسے محفوظ رکھنے کی ہے۔ ماضی کے سب مینار ڈھے چکے ہیں۔ اب کسی کے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اب ایک نیا زمانہ سب کو درپیش ہے اور اس زمانے میں نواز شریف واپس آ ئے ہیں۔
نواز شریف کے پاس اب بھی بہت آپشن ہیں۔ ایک رستہ تو سامنے کا ہے کہ سیدھا سیدھا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے لیں ۔ اسی دیوار کو ٹکر ماریں جس دیوار سے عمران خان نے اپنا سر پھوڑا ہے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ مفاہمت کر لیں۔ عمران خان سے انتقام لیں اور عمران خان کو لانے والوں کے نام بھول جائیں۔ عمران خان کو عقوبت خانے میں مزید ایذا پہنچائیں۔ ان کے سارے ساتھیوں کو گرفتار کروا دیں، اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا بدلہ لیں۔ ان کی مزید فائلیں کھلوا دیں۔ ان پر مقدمات کی لائنیں لگا دیں، انہیں عبرت کا نشان بنا دیں۔ ان سے وہی سلوک کریں جو بے نظیر کے ساتھ کیا تھا۔ ان کے خلاف بھی ایسے بندے بھرتی کریں جو ان سے بڑھ کر گالی دیں لیکن اس سارے عمل میں احتیاط رہے کہ نہ ہائی برڈ نظام کی بزم سجانے والوں کے نام آئیں نہ جنرل باجوہ پر کوئی الزام آئے نہ فیض حمید کا کوئی ذکر ہو۔ بس ایک سیاستدان دوسرے سے انتقام لے۔ یہ رسم ہمارے ہاں مباح ہے، اس کے پرستار بھی بہت ہیں، اس کا اجر بھی اس سماج میں زیادہ ہے۔
Tumblr media
نواز شریف کے پاس تیسرا آپشن یہ کہ عمران خان سے مفاہمت کر لیں۔ جس طرح بے نظیر کے ساتھ میثاق کیا تھا وہی معاہدہ دہرا دیں۔ عمران خان سے تصادم کے بجائے تعاون کا رستہ اختیار کریں۔ اگرچہ عمران سے توقع نہیں کہ وہ بات سمجھیں گے مگر بات کرنے میں کیا حرج ہے۔ عمران خان کو بتائیں کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا اتنا آسان نہیں۔ اس کے لیے کبھی ’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کا نعرہ لگانا پڑتا ہے کبھی کاکڑ فارمولا اپنانا پڑتا ہے اور کبھی ووٹ کی حرمت کا علم بلند کرنا پڑتا ہے۔ کبھی وطن بدر ہونا پڑتا ہے، کبھی طیارہ سازش کیس بھگتنا پڑتا ہے، کبھی بستر مرگ پر بیوی کو چھوڑ کر بے بنیاد مقدمات میں آکر گرفتاری دینا پڑتی ہے۔ کبھی اپنے ساتھیوں کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان کو بتائیں’’گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا ... گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں ‘‘ نواز شریف کے پاس ایک آپشن اور بھی ہے۔ وہ 25 کروڑ لوگوں کی فلاح کا رستہ ہے۔ اس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔ 
ایک بے لوث اور بے لاگ گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، جس میں الزام لگانا مقصود نہ ہو بلکہ اس دشوار صورت حال سے نکلنا مقصد ہو۔ جس سے فساد مقصود نہ ہو فلاح کاارادہ ہو۔ ایک دفعہ سب قوتوں کے ساتھ بیٹھیں۔ فیصلہ کریں۔ ماضی کی غلطیوں کو طشت از بام کریں یا انہیں بھلا دیں لیکن اب مستقبل کی جانب دیکھیں ۔ پچیس کروڑ زندگیوں کے متعلق سوچیں۔ اس وقت قوم کو ایک بڑے مباحثے کی ضرورت ہے، جہاں اختلاف کی تمام صورتوں کو ختم کیا جائے، جہاں اچھے مستقبل کی راہ تلاش کی جائے، جہاں ماضی کے زخموں کی ادھیڑنا بند کیا جائے۔ 25 کروڑ لوگ بہت ہوتے ہیں۔ 25 کروڑ لوگوں کے سینے پر لگے زخم بھی بہت ہوتے ہیں، ان زخموں کا علاج بہت دور کی بات ہے ابھی تک تو مرحلہ شمار تک نہیں پہنچا۔ نواز شریف اس وقت دنیا کے سب سے تجربہ کار سیاستدانوں میں سے ایک ہیں۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور چوتھی دفعہ وزیر اعظم بننے کا امکان ہے۔ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں عہدے کی طمع دل میں نہیں رہتی البتہ تاریخ میں تابندہ رہنے کی خواہش ضرور ہوتی ہے۔ اب یہ نواز شریف پر منحصر ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا نام رقم کرنے کے لیے کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں، ان کے لیے سب آپشنز کھلے ہیں۔
عمار مسعود
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
emergingpakistan · 2 months ago
Text
پی آئی اے کا عروج و زوال
Tumblr media
بیرون ملک رہنے والے پاکستانی، ’’پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز‘‘ کے ساتھ ایک رومانس رکھتے تھے۔ جو شخص بھی بیرون ملک روانہ ہوتا یا پاکستان واپس جاتا تو پاکستانی پرچم بردار ائیر لائن کو ترجیح دیتا۔ دیار غیر میں ایئرپورٹ پر کہیں کونے میں بھی پی آئی اے کا کیبن دیکھتے تو وہیں ایک چھوٹا سا پاکستان آباد ہو جاتا۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ایک ہی اڑان میں یورپ اور کینیڈا سے مسافروں کو اپنی بانہوں میں بھرتی اور لاہور اسلام آباد یا کراچی میں انکے مطلوبہ ایئرپورٹ پر اتار دیتی۔ اگر کوئی شخص بیرون ملک مزدوری کرتے ہوئے وفات پا جاتا تو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ایک ہمدرد ادارے کی طرح اسکے سارے فرائض اپنے ذمہ لیتی اور اسکی میت کو پاکستان منتقل کرنے کے تمام انتظامات منٹوں میں طے پا جاتے۔ ایک طویل عرصہ تک پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن بیرون ملک رہنے والوں کیلئے ایک ماں کا کردار ادا کرتی رہی۔ پھر اس ایئرلائن کو نظر لگ گئی۔ محافظ، راہزن بن گئے۔ عروج سے زوال تک کا سفر ایسے بے ڈھنگے طریقے سے طے ہوا کہ آج اسکا نوحہ لکھتے ہوئے قلم بھی رو رہا ہے اور دل بھی بوجھل ہے۔
میں ان دنوں بیرون ملک سفر پر ہوں جس جگہ بیٹھتا ہوں پی آئی اے کا نوحہ شروع ہو جاتا ہے ہر پاکستانی کا دل پی آئی اے کے توہین آمیز اختتام پر انتہائی اداس ہے۔ جو مسافر ایک ہی اڑان میں دنیا کے کسی بھی کونے سے پاکستان پہنچ جاتے تھے آج انہیں پاکستان آنے کیلئے دربدر ہونا پڑتا ہے، پروازیں بدلنا پڑتی ہیں، کئی ملکوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے، سامان اتارنا اور چڑھانا پڑتا ہے اور جو کام پی آئی اے سات گھنٹوں میں سر انجام دے دیتی تھی آج وہ 12 گھنٹوں میں بھی بطریق احسن انجام نہیں پاتا۔ دیار غیر میں وفات پانے والوں کی میتیں جو ضروری کارروائی کے بعد پی آئی اے اپنے ذمے لے لیتی تھی آج اس میت کو کئی کئی دن سرد خانے کی نذر ہونا پڑتا ہے۔ اول تو کوئی ائیر لائن میت لانے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتی اور اگر کوئی تیار ہو بھی جائے تو اس کے اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ مرنے والے کی ساری جمع پونجی بھی لگا دی جائے وہ اخراجات پورے نہ ہو سکیں۔ مجبوراً پاکستانی کمیونٹی سے چندہ کر کے اپنے بھائی کی میت دیار غیر سے وطن بھیجی جاتی ہے اور وہ بھی کارگو کے ذریعے۔ 
Tumblr media
ایک شخص کے خاندان کیلئے اس سے بڑی اذیت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو شخص ساری عمر دیار غیر کی خاک چھانتا رہا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے، انکے گھر بنانے، بچوں کی شادیاں کرنے کیلئے اپنی عمر صرف کر دی جب اسے مردہ حالت میں پاکستان آنا پڑا تو وہ مناسب طریقے کے بجائے ایک کارگو سامان کے ایک حصے کے طور پر پاکستانی ایئرپورٹ پر اترتا ہے۔ اخراجات کی تو بات چھوڑیں اصل بات تو عزت و وقار کی ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل کا پرچم دنیا کے ��ر ایئرپورٹ پر لہراتا تھا آج وہ پرچم اندرون ملک بھی رسوا ہو رہا ہے، جس کے طیاروں پر غیر ملکی ایئر لائنز تربیت لیا کرتی تھیں آج ان طیاروں کی حالت ایسی ہے کہ شاید انہیں سڑکوں پر بھی نہ چلایا جا سکے۔ جو ادارہ غیر ملکی ایئر لائنوں کو فضائی میزبان تیار کر کے دیتا تھا آج وہاں پر ڈھنگ کے میزبان بھی دستیاب نہیں ، جس کے پائلٹ دنیا بھر کیلئے عزت و فخر کا نشان ہوا کرتے تھے آج ان کے ماتھے پر جعلی ڈگری کا جھوٹا داغ لگا کر پوری دنیا میں ان کا داخلہ ممنوع کر دیا گیا ہے۔
پی آئی اے کے زوال کا ہر دن پاکستانیوں کے دل زخمی کرنے والی داستان ہے، یہ کہانی لکھتے ہوئے انگلیاں فگار ہیں، کس کے ہاتھ پہ میں پی آئی اے کا لہو تلاش کروں۔ ایک ایسی ائیر لائن جسکے پاس کل 33 طیارے ہیں جن میں 17 اے 320، 12 بوئنگ 777 اور چار اے ٹی آر ہیں۔ جس کے مجموعی اثاثوں کی بک ویلیو (کتابی قیمت) تقریباً 165 ارب روپے اور 60 فیصد شیئرز کی مالیت تقریباً 91 ارب روپے بنتی ہے۔ جبکہ حکومت نے خریداروں کو راغب کرنے کے لیے کم از کم بولی 85 ارب روپے مقرر کر رکھی ہو، اس کی بولی محض دس ارب روپے لگانا بذات خود توہین آمیز اور ناقابل یقین ہے۔ ایک ایسی کمپنی جیسے ہوا بازی کا تجربہ ہی نہیں اس کو نیلامی کی بولی میں شامل کرنا کئی سوالات جنم دے رہا ہے۔ ’’غیر سیاسی‘‘ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، وزیر نجکاری جناب عبدالعلیم خان، وزیر خزانہ جناب محمد اورنگزیب کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ ہر قومی اثاثہ برائے فروخت نہیں ہوتا۔
ہم تو یہ توقع لگائے ہوئے تھےکہ ملکی معیشت کے اشاریے بہتر ہوں گے اور اسٹیل مل پی آئی اے جیسے ادارے پاؤں پر کھڑے ہوں گے۔ خدارا ملک کی سلامتی اور ملک کا امتیازی نشان بننے والے اداروں کو فروخت کرنے کے بجائے ان کی بحالی پر توجہ دیں۔ اگر صوبہ خیبرپختونخوا، صوبہ پنجاب اور پلاٹ بیچنے والی کمپنی یہ ادارہ چلانے کا دعویٰ کر سکتی ہے تو خود حکومت کیوں نہیں چلا سکتی۔ پی آئی اے بچائیں اور اسے چلائیں۔ امیگریشن حکام کی بدسلوکی اور بے توقیری کا نشانہ بننے والوں کے زخموں پر مرہم اسی صورت میں رکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن ایک مرتبہ پھر اڑان بھرے اور سبز ہلالی پرچم پوری دنیا میں لہرائے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urdu-poetry-lover · 1 year ago
Text
بہت عرصہ گنہ گاروں میں پیغمبر نہیں رہتے
کہ سنگ و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے
ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوقِ تماشا کی
کبھی نظریں نہیں رہتیں کبھی منظر نہیں رہتے
بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی
جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے
مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ کہہ کر
شریف انسان گھر سے دیر تک باہر نہیں رہتے
خود آگاہی کی منزل عمر بھر ان کو نہیں ملتی
جو کوچہ گرد اپنی ذات کے اندر نہیں رہتے
پٹخ دیتا ہے ساحل پر سمندر مردہ جسموں کو
زیادہ دیر تک اندر کے کھوٹ اندر نہیں رہتے
بجا ہے زعم سورج کو بھی نازؔ اپنی تمازت پر
ہمارے شہر میں بھی موم کے پیکر نہیں رہتے
1 note · View note