Tumgik
#علی میر
rebecmusic · 7 days
Text
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
شمالی وزیرستان میں حجام کی دکان چلانے والے 5 پنجابی نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی بازار میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چھ افراد جاں بحق ہوگئے۔ پولیس کے مطابق جاں بحق افراد میر علی بازار میں حجام کی دوکان چلا رہے تھے، تمام افراد کا تعلق پنجاب سے بتایا جاتا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مقتولین کو رات کو نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا اور آج صبح میرعلی بازار کے قریب سے لاشیں برآمد ہوئیں۔ خیال رہے کہ 22 دسمبر 2023 کو جنوبی وزیرستان کے علاقے دژہ غونڈئی میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
djneir · 10 months
Text
instagram
0 notes
classicalartdark · 1 year
Text
Tumblr media
Edit after میر علی هروی (Metropolitan Museum of Art) (Ed. Lic.: CC BY-NC 3.0)
214 notes · View notes
googlynewstv · 2 months
Text
دھوتی اور بنیان والا اقبال, محمد علی جناح کا ہیرو کیوں تھا؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ دھوتی اور بنیان پہننے والا ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بانی پاکستان محمد علی جناح کا ہیرو اس لیے تھا کہ اس نے پنجاب میں مسلم لیگ کو کھڑا کر دیا تھا لیکن افسوس کہ اج مسلم لیگ تو دور کی بات, ریاست پاکستان بھی اقبال اور جناح کی سوچ اور نظریے سے کوسوں دور جا چکی ہے. اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر سوال کرتے ہیں کہ یہ کون سا پاکستان ہے؟ یہ کم از کم علامہ…
0 notes
xuxanov · 3 months
Text
🔹
XVI əsrdə yaşamış Təbrizli miniatürçü rəssam Mir Seyid Əlinin öz görünümü (avtoporteti).
▫️
بودا بیزیم تَبداش "میر سید علی نقاشئن" اُوز گؤرونوْمو.
🔺
Mir Sayyid Ali (b. 1510). Self-Portrait of Mir Sayyid Ali, 1555-1556. In the collection of the Los Angeles County Museum of Art (Los Angeles County Museum of Art)
▫️
Mir Sayyid Ali was born in Tabriz, Azerbaijan-Iran. He migrated to Kabul, Afghanistan in 1552 to work for the Mughal Emperor Humayun (r. 1530-1540 and 1555-1556) and accompanied him to Delhi in 1555 to become the director of the royal manuscript atelier. He oversaw the production of the Hamzanama (Adventures of Hamza) project consisting of 1400 large-scale paintings bound in fourteen volumes in 1562-1572, which was completed under Abd al-Samad in 1572-1577 (see M.78.9.1). Mir Sayyid Ali depicts himself dressed in South Asian garb. He wears a Deccani style white turban with a decorative band wrapped around it and a floral jigha (plume-like ornament similar to an aigrette). Kneeling on a rug in a landscape, he is intently reading a book supported by an elegant book stand (see M.73.5.118 and M.76.2.19). Beside him is an inkwell, a pen box (see M.73.5.340 and M.89.160a-b), a writing tablet with two inscriptions, and an unfurling paper scroll. The upper inscription on the tablet reads, ‘At the top of the writing tablet, it is written in gold: “The master’s tyranny is better than the father’s kindness.”’ The lower inscription furnishes the artist’s signature, ‘Depicted by Sayyid Ali, the rarity of the kingdom of Humayun Shah.’ The calligraphic panels on the rug are a poetic couplet, ‘My two eyes are the coverings in that abode so that you may ordain your bridal room, there. Wherever you trudge along, I want to become the dust on the road, there.’ (Translations by A.S. Melikian-Chirvani.)
Tumblr media Tumblr media
1 note · View note
mediazanewshd · 5 months
Link
0 notes
efshagarrasusblog · 6 months
Text
‼️#کلیپ مزدوران #مشهد #خراسان رضوی شماره ۷ (قیام ۱۴۰۱)
‼️#کلیپ مزدوران #مشهد #خراسان رضوی شماره ۷ (قیام ۱۴۰۱)۱. ا میر پاسبان۲. محمد وحدت پور۳. مصطفی واحدی۴. برهان دلیری فر۵. حسین سعیدی۶. سرگرد احمدی۷.بنیامین سارونی۸. بنیامین سجادی۹. سعید مسعود علوی۱۰. سید حسن حسینی لرگانی۱۱. محمد حسین سیستانی۱۲. امیر حسین شایسته۱۳. محمد جواد روئین تن۱۴. سوان سوم پاسدار علی رعنایی۱۵. مهدی رضایی۱۶. مهدی رضایی بحرآباد۱۷. نعمت الله زارعی۱۸. محمد رضا زارعی۱۹. امیر…
View On WordPress
0 notes
omid441 · 8 months
Text
Tumblr media
آهنگ علی میر استرس https://www.music-single.com/ali-mir-stress.html
0 notes
dpr-lahore-division · 9 months
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب لاہور فون نمبر:99201390
ہینڈ آؤٹ نمبر1514
وزیراعلیٰ محسن نقوی کی صوبائی وزراء کے ہمراہ کرسمس کی مناسبت سے کتھیڈرل چرچ میں دعائیہ تقریب میں شرکت،کیک کاٹا،بشپ ندیم کامران نے وزیر اعلی کو پھول پیش کئے
مسیحی برادری کو کرسمس کی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف آپ کے ہی نہیں ہمارے بھی ہیں:محسن نقوی
ہم بھی اسی خدا کی عبادت کرتے ہیں جس خدا کی آپ عبادت کرتے ہیں، نبی پاکؐ سے لیکر قائداعظمؒ تک، ہمیں مسیحی بھائیوں کے حقوق اچھی طرح بتائے گئے
جب مسیحی بھائیوں کے حقو ق سلب ہوتے ہیں تو شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم نے نبی پاکؐ کے درس کو بھلا دیا ہے،ہمار اپاکستان مسیحی بھائیوں کے بغیر نامکمل ہے
مسیحی بھائیوں کو سکیورٹی فراہم کرنا ہمار افرض ہے،ہمیں صرف کسی سانحہ پر نہیں بلکہ پورا سال اتحاد کے ساتھ رہنا ہے
لاہور24دسمبر:وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے صوبائی وزراء کے ہمراہ کرسمس کی مناسبت سے مسیحی برادری کی خوشیوں میں شرکت کیلئے کتھیڈرل چرچ میں دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔بشپ آف لاہور بشپ ندیم کامران نے وزیر اعلی محسن نقوی کو پھول پیش کئے۔ وزیراعلیٰ محسن نقوی نے مسیحی برداری کے ساتھ ملکر کرسمس کا کیک کاٹا۔وزیراعلیٰ محسن نقوی کو بشپ آف لاہوربشپ ندیم کامران نے انجیل اورحضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ سے لکھی زبور کا نمونہ پیش کیا۔وزیراعلیٰ محسن نقوی نے مسیحی برداری کو کرسمس کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ مسیحی برادری کو کرسمس کی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں - آج کا رات اورکل کا دن ہم سب کے لئے انتہائی اہم ہے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف آپ کے ہی نہیں ہمارے بھی ہیں۔حضرت عیسی علیہ السلام کے یوم ولادت پر اتنی ہی خوشی ہمیں ہے جتنی آپ کو۔ہم سب میں جو مشترکہ بات ہے کہ وہ ہم ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ہم بھی اسی خدا کی عبادت کرتے ہیں جس خدا کی آپ عبادت کرتے ہیں۔ نبی پاکؐ سے لیکر قائداعظمؒ تک،اسلام کی شروعات سے لیکر پاکستان بننے تک ہمیں مسیحی بھائیوں کے حقوق اچھی طرح بتائے گئے۔انہوں نے کہا کہجب مسیحی بھائیوں کے حقو ق سلب ہوتے ہیں تو شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم نے نبی پاکؐ کے درس کو بھلا دیا ہے۔ہمار اپاکستان مسیحی بھائیوں کے بغیر نامکمل ہے۔پاکستانی جھنڈے میں سبز رنگ مسلمانوں کے جبکہ سفید رنگ اقلیتوں برادریوں کیلئے ہے۔انہوں نے کہا کہ جڑانوالہ واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔جڑانوالہ واقعہ کے نتیجہ میں متاثرہ گرجا گھروں اورگھروں کو بحال کیا ہے،متاثرین کی دادرسی کی ہے اور ہمارے جذبات متاثرین کے ساتھ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر ممکن کوشش ہے کہ جڑانوالہ واقعہ یا ایسے کسی بھی واقعہ کے مرتکب افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔بشپ ندیم کامران اورمولانا عبدالخبیرآزاد ملک کے اتحاد کیلئے بہت کام کررہے ہیں۔بشپ ندیم کامران اورمولانا عبدالخبیر آزاد جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ مسیحی بھائیوں کو سکیورٹی فراہم کرنا ہمار افرض ہے۔ پورے پنجاب میں انتظامیہ اور پولیس فول پروف سکیورٹی دینے کیلئے سرگرم ہے۔ ضلعی سطح پر کرسمس کی تقاریب منعقد کی جارہی ہیں۔ہمیں صرف کسی سانحہ پر نہیں بلکہ پورا سال اتحاد کے ساتھ رہنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کا تحفظ کرنا ہمارا دینی اورآئینی فرض ہے۔صوبائی وزیر اوقاف اظفر علی ناصر،انسپکٹرجنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، خطیب بادشاہی مسجد مولانا عبدالخبیر آزاد نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔تقریب میں صوبائی وزراء منصور قادر،عامر میر،اظفر علی ناصر،بلال افضل،مشیر وہاب ریاض،انسپکٹر جنرل پولیس، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، کمشنر لاہورڈویژن،سی سی پی او،سیکرٹری انسانی حقوق و اقلیتی امور، سیکرٹری اوقاف،سیکرٹری اطلاعات،ڈپٹی کمشنر اورمسیحی برادری کی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔
٭٭٭٭
0 notes
mindroastermir2 · 9 months
Text
بطالوی کا انجام ۔ میر قاسم علی
بطالوی کا انجام ۔ میر قاسم علی
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingkarachi · 1 year
Text
لاوارث شہر کا ’میئر‘ کون
Tumblr media
وہ شاعر نے کہا تھا نا’’ ؎ مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں۔‘‘ ابھی ہم پہلے سال کی بارشوں کی تباہ کاریوں سے ہی باہر نکل نہیں پائے کہ ایک اور سمندری طوفان کی آمد آمد ہے۔ اب خدا خیر کرے یہ طوفان ٹلے گا یا میئر کا الیکشن جو کم از کم کراچی میں کسی سیاسی طوفان سے کم نہیں۔ ویسے تو مقابلہ پی پی پی کے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب اور جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کے درمیان ہے مگر دونوں کی جیت اس وقت زیر عتاب پاکستان تحریک انصاف کے منتخب بلدیاتی نمائندوں پر منحصرہے، وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں۔ اتوار کے روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بڑے پراعتماد نظر آئے اور کہا نہ صرف میئر کراچی ایک ’جیالا‘ ہو گا بلکہ اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر سندھ کے لوگ پی پی پی کو ووٹ دیں گے۔ بظاہر کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے مگر شاہ صاحب پہلے آنے والے طوفان سے تو بچائیں۔ دوسری طرف اسی شام جماعت اسلامی نے، جس کی شکایت یہ ہے کہ پی پی پی زور زبردستی سے اپنا ’میئر‘ لانا چاہتی ہے، سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے ’مدد‘ طلب کی ہے۔ 
امیر جماعت اسلامی سراج الحق خصوصی طور پر کراچی آئے کیونکہ یہ الیکشن جماعت کیلئے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ شاید پورے پاکستان میں یہ واحد بلدیہ ہے جہاں ان کا میئر منتخب ہو سکتا ہے اگر پاکستان تحریک انصاف کے تمام منتخب بلدیاتی نمائندے حافظ نعیم کو ووٹ دے دیں۔ ماضی میں جماعت کے تین بار میئر منتخب ہوئے دو بار عبدالستار افغانی 1979ء اور 1983ء میں اور جناب نعمت اللہ ایڈووکیٹ 2001 میں، مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 1979ء میں پی پی پی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جیسا آج پی ٹی آئی کے بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ہو رہا ہے ورنہ افغانی صاحب کا جیتنا مشکل تھا البتہ 1983ء میں وہ باآسانی جیت گئے اور دونوں بار ڈپٹی میئر پی پی پی کا آیا۔ لہٰذا ان دونوں جماعتوں کا یہاں کی سیاست میں بڑا اسٹیک ہے۔ اسی طرح نعمت اللہ صاحب کو 2001 کی میئر شپ متحدہ قومی موومنٹ کے بائیکاٹ کے طفیل ملی جنہوں نے اس وقت کے بلدیاتی الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جو ایک غلط سیاسی فیصلہ تھا۔
Tumblr media
اب تھوڑی بات ہو جائے پی پی پی کی بلدیاتی سیاست کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ 22 اگست 2016ء کے بعد جو ہوا اس سے شہری سندھ کا سیاسی توازن پی پی پی کے حق میں چلا گیا اور پہلی بار دیہی اور شہری سندھ کی بلدیاتی قیادت ان کے ہاتھ آنے والی ہے، جس میں حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور نواب شاہ شامل ہیں۔ پی پی پی پر تنقید اپنی جگہ مگر کسی دوسری سیاسی جماعت نے اندرون سندھ جا کر کتنا سیاسی مقابلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہو یا 29 سال پرانی تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)۔ رہ گئی بات ’قوم پرست‘ جماعتوں کی تو بدقسمتی سے یہ صرف استعمال ہوئی ہیں ’ریاست‘ کے ہاتھوں۔ ایسے میں افسوس یہ ہوتا ہے کہ اتنی مضبوط پوزیشن میں ہونے اور برسوں سے برسر اقتدار رہنے کے باوجود آج بھی سندھ کا اتنا برا حال کیوں ہے۔ شہروں کو ایک طرف رکھیں کیا صوبہ تعلیمی میدان میں آگے ہے کہ پیچھے۔ بارشوں کا پانی جاتا نہیں اور نلکوں میں پانی آتا نہیں۔ 
18ویں ترمیم میں واضح اختیارات کے باوجود۔ آج بھی منتخب بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے مرہون منت ہیں، آخر کیوں؟۔ چلیں اس کو بھی ایک طرف رکھیں۔ شاہ صاحب جس وقت پریس کانفرنس کر رہے تھے تو ان کے دائیں اور بائیں سب منتخب نمائندے بیٹھے تھے، سوائے میئر کیلئے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب کے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں بات بھی شائستگی سے کرتے ہیں جس میں والدین وہاب اور فوزیہ وہاب کی تربیت بھی نظر آتی ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یو سی کا الیکشن جیت کر امیدوار بنتے۔ اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ اگر پی پی پی بلدیاتی الیکشن میں کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے تو کیا کوئی بھی منتخب نمائندہ اس قابل نہیں کہ ’میئر‘ کیلئے نامزد ہو سکے ایسے میں صرف ایک غیر منتخب نمائندے کو میئر بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی گئی۔ کیا یہ رویہ جمہوری ہے۔ مرتضیٰ سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ آپ نے بلدیاتی الیکشن نہیں لڑا اور اب کیا آپ کی نامزدگی منتخب یوسی چیئرمین کے ساتھ ’تھوڑی زیادتی‘ نہیں۔ 
تعجب مجھے اس لئے نہیں ہوا کیونکہ پی پی پی میں کچھ ایسا ہی چند سال پہلے بھی ہوا تھا جب پارٹی کی کراچی کی صدارت کیلئے رائے شماری میں تین نام تھے جن کو ووٹ پڑا مگر جب نتائج کا اعلان ہوا تو ایک صاحب جو دوڑ میں ہی نہیں تھے وہ کراچی کے صدر ہو گئے۔ ’جیالا‘ کون ہوتا ہے اس کا بھی شاید پی پی پی کی موجودہ قیادت کو علم نہ ہو کہ یہ لفظ کیسے استعمال ہوا اور کن کو ’جیالا‘ کہا گیا۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی چڑھ جانے والوں، خود سوزی کرنے اور کوڑے کھانے، شاہی قلعہ کی اذیت سہنے والوں کے لئے اس زمانے میں پہلی بار استعمال ہوا یعنی وہ جو جان دینے کے لئے تیار رہے اور دی بھی۔ اب مرتضیٰ کا مقابلہ ہے جماعت کے ’جیالے‘ سے یا انہیں آپ جماعتی بھی کہہ سکتے ہیں، حافظ نعیم سے ، جنہوں نے پچھلے چند سال میں خود کو ایک انتہائی محنتی اور متحرک سیاسی کارکن منوایا اور جلد کراچی شہر میں جماعت کی پہچان بن گئے۔ دوسرا 2016ء میں متحدہ کو ’ریاستی طوفان‘ بہا کر لے گیا جس کو حافظ نعیم نے پر کرنے کی کوشش کی اور بارشوں میں شہر کے حالات اور تباہی نے بھی انہیں فائدہ پہنچایا۔
مگر ان دونوں جماعتوں کے درمیان آئی، پی ٹی آئی اور 2018ء میں 14 ایم این اے اور 25 ایم پی اے جیت گئے جس کا خود انہیں الیکشن کے دن تک یقین نہیں تھا۔ البتہ حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں انہیں نشستیں ضرور مل گئیں کہ کراچی کا میئر جو بھی منتخب ہو گا وہ ’پی ٹی آئی‘ کی وجہ سے ہی ہو گا چاہے وہ ووٹ کی صورت میں، مبینہ طور پر ’نوٹ‘ کی صورت میں ہو یا لاپتہ ہونے کی صورت میں۔ اگر 9؍ مئی نہیں ہوتا توشاید ان کے معاملات خاصے بہتر ہوتے، اب دیکھتے ہیں کہ اگر الیکشن ہو جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کے کتنے نومنتخب نمائندے آتے ہیں اور کتنے لائے جاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ووٹنگ اوپن ہے سیکرٹ بیلٹ کے ذریعہ نہیں۔ رہ گئی بات ’لاوارث کراچی‘ کی تو بھائی کوئی بھی آجائے وہ بے اختیار میئر ہو گا کیونکہ سیاسی مالی اور انتظامی اختیارات تو بہرحال صوبائی حکومت کے پاس ہی ہوں گے یہ وہ لڑائی ہے جو کسی نے نہیں لڑی۔ لہٰذا ’کراچی کی کنجی‘ جس کے بھی ہاتھ آئے گی اس کا اختیار 34 فیصد شہر پر ہی ہو گا۔ جس ملک کے معاشی حب کا یہ حال ہو اس ملک کی معیشت کا کیا حال ہو گا۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
اداکارہ ریشم نے احد رضا میر اور سجل علی کی طلاق کی تصدیق کردی
پاکستان شوبز انڈسٹری کی لیجنڈری اداکارہ ریشم نے احد رضا میر اور سجل کی شادی ختم ہونے کی تصدیق کر دی۔ حال ہی میں ریشم نے ایک پوڈ کاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی۔ دورانِ گفتگو اداکارہ نے شوبز انڈسٹری کے جوڑوں میں ہونے والی طلاقوں پر بھی بات کی اور بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کو افسوس ناک قرار دیا۔ دورانِ انٹرویو ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کل شادی کی عمر صرف سال، ڈیڑھ سال یا دو سال ہی نظر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
آئیں ترک بھائیوں سے سیکھیں
Tumblr media
قارئین کرام! آج پاکستان جس سنگین آئینی و سیاسی و معاشی اور انتظامی بحران میں پکڑا جکڑا گیا ہے اس سے ہر ملکی طبقہ متاثر اور شہری مضطرب ہے۔ مکمل واضح ہے کہ ہم بحیثیت قوم صراط مستقیم سے بھٹک گئے۔ گزری رات نیند اجڑی رہی تو میں خود بخود عالم اضطراب میں دیکھی بنتی تاریخ میں بھٹکتا رہا۔ رات گئے ترکیہ الیکشن کے نتائج نیٹ پر دیکھتے یادوں کے پرتو کھلے تو آج و حال پاکستان کے حوالے سے تاریخ کا اک پورا چیپٹر کھل کر سامنے آگیا۔ بہت حوصلہ افزا بہت سبق آموز۔80 کی دہائی میں جب اسلامی اور آزاد مغربی دنیا کی مالی و عسکری معاونت سے افغانستان میں روسی قابض افواج کے خلاف افغان مجاہدین کی کمال نتیجہ خیز مزاحمت جاری تھی تو اس کےسیاسی اثرات دور دور تک پہنچنے لگے۔ پولینڈ میں مزدوروں کی سالیڈیرٹی تحریک، روسی بغل میں آزادی کے لئے جارجیا اور بالٹکس اسٹیٹس کی کروٹیں، نیپال کے شاہی خاندان میں بھارتی جکڑ سے نکلنے کا اضطراب، فلسطین میں خالصتاً سول فورس کے زور پر کامیابی سے بڑھتی تحریک انتفادہ، اسی طرز پر 1987-88 میں بغیر کسی بڑی بیرونی مداخلت کے مقبوضہ کشمیر ��یں سول زیر قیادت اور سیٹ اپ سے پاپولر اپ رائز (پرامن عوامی تحریک) کا لوئر پروفائل میں محتاط آغاز ہوا۔ افغانستان میں روسی شکست اور جینوا مذاکرات کے بعد روسی قابض افواج کا انخلاہی جاری نہ تھا، سوویت ایمپائر اور دیوار برلن تیزی سے مائل با انہدام تھیں۔
اس پس منظر میں یہ مئی 1990ء کی بات ہے مقبوضہ کشمیر کا پاپولر اپ رائز (انتفادہ) کا گراف تیزی سے بڑھنے لگا تو نئی دہلی نے بوکھلا کر بے قابو ہوئی مکمل پرامن سول تحریک پر لاٹھی گولی اور پھر بے رحمانہ کھلی فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ شدت اختیار کرتا گینگ ریپس تک پہنچا، اس مرحلے پر تحریک آزادی کے سرگرم رہنما میر واعظ مولوی فاروق موجود میر واعظ کے والد شہید کر دیئے گئے۔ آزاد کشمیر میں داخل ہوتے دریائے جہلم میں شہدا کی بہہ کر آنے والی لاشوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ پاکستان میں محترمہ بے نظیر کی پہلی حکومت تھی۔ جماعت اسلامی کےاسکالر سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے اسلامی ممالک میں اپنے قریبی رابطوں کے تعاون سے پاکستان کا ایک بڑا پارلیمانی وفد تشکیل دیا، مقصد ان ممالک کی حکومتوں اور وہاں کے اپوزیشن رہنمائوں سمیت رائے عامہ کے رہنمائوں کو مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہی اور کشمیری انتفادہ کے لئے حمایت اورتعاون حاصل کرنا تھا۔ وفد کی قیادت امیر جماعت اسلامی سینیٹر قاضی حسین احمد کر رہے تھے اور اس میں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (درخواستی، جو جمعیت فضل الرحمٰن سے الگ دھڑا تھا) کے سینیٹر اور اراکین قومی اسمبلی شامل تھے۔ 
Tumblr media
گویا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سب پارلیمانی گروپ ایک پیج پر تھے اور سب کچھ کرنے پر آمادہ۔ پروفیسر خورشید صاحب اور سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے مجھے وفد میں بطور میڈیا منیجر شامل ہونے کے لئے مدعو کیا، جو یقیناً میرے لئے پیشہ ورانہ اور کشمیر کاز پر سرگرم لکھاری کے حوالے سے اعزاز تھا۔ میرا کام وفد کی سرگرمیوں کی مفصل خبریں جلد سے جلد پاکستان اور متعلقہ ممالک کو بھیجنا تھا۔ ممالک میں سعودی عرب، ترکی، مصر، سوڈان، ابوظہبی، قطر اور دبئی شامل تھے۔ انقرہ کے صدارتی محل میں جب صدر تورگت اوزال سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے سامنے رکھا نقشہ پھیلا کر قاضی صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے مکمل انہماک سے مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوئوں کو سمجھا، ترکی کی ہر ممکن تعاون، مدد کا یقین دلایا اور فرمایا اب میں ترکی کے مسئلہ کشمیر پر تاریخی اور مسلمہ قومی موقف سے ہٹ کر ایک اور اہم بات آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔ صدر اوزال پیشے کے انجینئر تھے۔ بتانے لگے میں عہدہ صدارت سے پہلے پشاور کے افغان مہاجرین کیمپس دیکھنے گیا تھا، یہ اسلام آباد سے پشاور تک 9 سال بعد میرا دوسرا سفر تھا جس میں گردو نواح کے مناظر دیکھ کر مایوس ہوا اندازہ ہوا کہ پاکستان میں ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ 
پاک ترک گہری دوستی کا تقاضا ہے کہ میں آپ کی توجہ اس طرف ضرور دلائوں کہ مسئلہ کشمیر پر اپنے جاندار موقف پر قائم رہتے آپ اپنا فوکس اقتصادی ترقی پر کریں، اس سے آپ مسئلہ کشمیر کو بھی جلد حل کرانے کی صلاحیت حاصل کریں گے۔ پاکستان کااقتصادی طور پر مستحکم ہونا بہت اہم ہے‘‘۔ انقرہ وفد نے نومولود سیاسی جماعت رفاہ پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ بھی کیا جہاں پارٹی کے سربراہ انجینئر نجم الدین اربکان سے ہماری ظہرانے پر طویل ملاقات ہوئی۔ وہ مکمل حکیمانہ انداز سے ترکیہ کے سخت گیر سیکولر جرنیلوں کی امکانی مزاحمت سے بچتے اور خود کو قابل قبول بنانے کا پہلا ہدف حاصل کر چکے تھے کہ وہ رفاہ پارٹی کو بلدیاتی سطح پر سرگرم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اقتصادی سرگرمیوں کو بھی بڑھانے میں ان کی ترجیح بہت واضح تھی۔ انہوں نے وفد کو اس کے مقصد (کشمیر کاز) پر بھرپور حمایتی بیان جاری کرنے کے ساتھ اسے فارغ ہی نہیں کر دیا بلکہ اپنے نائب کو ہدایت دی کہ وفد کو ایک مثالی بلدیاتی حلقہ (جو ایک پہاڑی دیہی علاقے میں واقع تھا) انقرہ کے چیمبر آف کامرس کا دورہ کرایا جائے۔ ان کی بریفنگ کا لب لباب اور سیاسی حکمت عوام الناس کو ان کے بنیادی حقوق کے حصول کو بذریعہ سیاست یقینی بنانے کے لئے ان کے ساتھ جڑ جانا اور ترک اقتصادیات میں عملاً شریک ہونا تھا۔ 
آنے والے وقت نے آشکار کیا کہ گلی محلے کی سطح پر عوام کی انتہائی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے بہترین ماڈل کی پریکٹس سے جناب نجم الدین اربکان کی پارٹی نے بڑی اکثریت سے ترک عوام کے دل موہ لئے۔ اتنے کہ ترکی کے کھوئے اسلامی تشخص کی بحالی کے دوررس ہدف کو حاصل کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کرلی۔ موجودہ ترک صدر جناب طیب ایردوان میئر شپ میں استنبول کی کامیاب ترین شہری قیادت سے ملک کو مطلوب اپنی کامیاب قیادت کی راہ نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ واضح رہے کہ نجم الدین اربکان رفاہ پارٹی کو اکثریتی پارلیمانی جماعت بنا کر عہدہ صدارت پر فائز ہوئے اور داخلی سیاست کے ثانوی جھمیلوں کے باوجود ترکی کے اسلامی تشخص کا عمل رکا نہیں۔ طیب ایردوان کی موجودہ اکثریتی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی جو گزشتہ روز کے انتخاب میں رات گئے آنے والے انتخاب میں دوبارہ اکثریت حاصل کرتی نظر آ رہی ہے، نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کی ہی آف شوٹ جبکہ طیب ایردوان بانی پارٹی کے ہی سیاسی شاگرد ہیں جنہوں نے ترکی کی اقتصادی اور عسکری قوت کی بحالی میں تاریخ ساز کردا ر ادا کیا اور ترکی کے عالمی و علاقائی سیاست میں کردار کی اہمیت اتنی بڑھ گئی کہ دنیا بھر خصوصاً یورپ، امریکہ اور روس کی نظریں ترکیہ کے جاری انتخابی نتائج پر لگی ہیں۔ ترکی کی یہ جدید روشن تاریخ سازی پاکستان کے لئے کیسے بہت سبق آموز اور عملاً بہت کچھ سیکھنے کا ساماں ہے؟ اس کے تجزیے سے پہلے قارئین یہ ذہن نشین کر لیں۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
jawadhaider · 1 year
Text
مرثیہ میر انیس بسلسلہ شہادت امیر المومنینؑ علی علیہ السلام
انیسویں تاریخ کی لکھی ہے یہ اخبار
مسجد میں گئے بہر عبادت شہہ ابرار
جب سجدہ اول میں گئے حیدر کرار
قاتل نے لگائی سر پُرنور پر تلوار
سر ہوگیا دو ٹکڑے محمد کے وصی کا
پھر دو سرے سجدے کو اٹھا سر نہ علی کا
دریا کی طرح خون ہوا زخموں سے جاری
مسجد میں تڑپنے لگا وہ عاشق باری
طاقت نہ سنبھلنے کی رہی غش ہوا طاری
سرپیٹ کے سب کرنے لگے گریہ و زاری
رونے جو ملک ما سبق کن فیکون کو
اک زلزلہ تھا منبر و محراب و ستوں کو
افلاک پر سر پیٹ کے جبرئیل پکارے
فریاد ہے ظالم نے ید اللہ کو مارا
سر ہوگیا سجدے میں دو نمازی کا دو پارا
ہے غرق نجوں برج امامت کا ستارا
ماتم کا ہوا جوش صف جن و ملک میں
فرق آیا ضیائے ماہ و خورشید فلک میں
مارا اسے جو زینت افلاک و زمیں تھا
مارا اسے جو خاتم قدر کا نگیں تھا
مارا اسے جو راز امامت کا امیں تھا
مارا اسے جو شاہنشہاہ دیں تھا
پہنچاتا تھا جو روزہ کشائی فقراء کو
ان روزوں میں زخمی کیا مہمان خدا کو
کوفہ میں یکایک یہ خبر ہوئی جب تشہیر
سر پیٹتے مسجد میں گئے شبر و شبیر
روتے تھے جو لوگ ان سے یہ کی دونوں نے تقریر
تھا کون عدو کس نے لگ��ئی ہے یہ شمشیر
ہم دیکھ لیں مہر رخ تابان علی کو
دو بہرہ خدا راہ یتیمان علی کو
شہزادوں کے منہ دیکھ کے خلقت نے جو دی راہ
ڈوبے ہوئے خون میں نظر آئے اسد اللہ
عماموں کو سر پر سے پٹک دونوں نے کی آہ
اور گر کے لگے آنکھوں سے ملنے قدم ِشاہ
چلاتے تھے بیٹوں کی کمر توڑ چلے آپ
دکھ سہنے کو دنیا میں ہمیں چھوڑ چلے آپ
بیٹوں کے جو رونے کی صدا کان میں آئی
تھے غش میں مگر چونک کے آواز سنائی
کیوں روتے ہو کیوں پیٹ کے دیتے ہو دھائی
ہوتی نہیں کیا باپ کی بیٹوں سے جدائی
تھا تنگ بہت فرقہ اعداء کے ستم سے
دنیا کے میں اب چھوٹ گیا رنج و الم سے
غش طاری ہے مسجد سے مجھے لے چلو اب گھر
گھر سے نہ چلی آئے کہیں زینب مضطر
بابا کو اٹھا لائے جو سبطین پیامبر
دروازے پہ روتے تھے حرم کھولے ہوئے سر
خوں دیکھا محاسن پہ امام مدنی کا
غل خانہ زہرا پہ ہوا سینہ زنی کا
فرزندوں نے حجرے میں جو بستر پر لٹایا
زینب کو پدر کا سر زخمی نظر آیا
چلائی کہ یہ کیا مجھے قسمت نے دکھایا
ماں سے بھی چھٹی باپ کا بھی اٹھتا ہے سایہ
کیوں دیدۂ حق بین کو نہیں کھولتے بابا
کیسا یہ غش آیا کہ نہیں بولتے بابا
یہ کہتی تھی اور باپ کا غم کھاتی تھی زینب
سم کا اثر اک ایک کو دکھلاتی تھی زینب
سر بھائی جو ٹکراتے تھے گھبراتی تھی زینب
تھے شیر خدا غش میں موئی جاتی تھی زینب
چلاتی تھی سر پیٹ کے اے وائے مقدر
میں باپ کے آگے نہ موئی ہائے مقدر
دو دون کبھی ہوشیار تھے حیدر کبھی بے ہوش
قاتل کو بھی بھیجا وہی جو آپ کیا نوش
ہاں حیدریوں بزم میں رقت کو ہواجوش
شمع حرم لم یزل ہوتی ہے خاموش
دعوی ہے اگر تم کو مولائے علی کا
مجلس میں ہو غل ہائے علی ، ہائے علی کا
چہرے میں جب ہویدا ہوئے جب موت کے آثار
سدھے ہوئے قبلہ کی طرف حیدر کرار
لب پہ صلوات اور کلمہ تھا جاری ہر بار
ہنگام قضا ہاتھ اٹھا کر بدل زار
فرزند و اقارب میں لگا چھاتی سے سب کو
دنیا سے سفر کر گئے اکیسویں شب کو
ہاں اہل عزا روؤ کہ یہ وقت بکا ہے
پیٹو کے محمد کا وصی قتل ہوا ہے
ہادی جو تمہارا تھا وہ دنیا سے اٹھا ہے
دن آج کا سوچو تو قیامت سے سوا ہے
اک شور ہے ماتم کا بپا گھر میں علی کے
بیٹے لیئے جاتے ہیں جنازہ کو علی کے
خاموش انیس اب کےنہیں طاقت گفتار
سینہ میں تپاں صورت بسمل ہے دل زار
خالق سے دعا مانگ کہ یا ایزد غفار
آباد رہیں خلق میں ��یدر کے عزادار
کیا روتے ہیں ماتم میں امام ازلی کے
حقا کہ یہ سب عاشق صادق ہیں علی کے
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
قومی سلامتی اور حب الوطنی کے نام پرپابندیاں اورگرفتاریاں غلط کیوں؟
قومی سلامتی اور حب الوطنی کے نام پرپابندیاں اورگرفتاریاں غلط کیوں؟سینئیر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا یے کہ آج کے پاکستان میں حکمران اشرافیہ اور اس کے مفادات کا تحفظ کرنے والے اداروں پر تنقید کرو تو وہ توہین کہلاتی ہے اور ملک دشمنی قرار پاتی ہے لیکن علامہ اقبال اور محمد علی جناح کے بارے میں کوئی بھی جھوٹ بول دیں ان کی کوئی پکڑ نہیں۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان…
0 notes