دانلود برنامه سالانه 1404-1403| تقویم اجرایی رایگان
دانلود برنامه سالانه 1404-1403| تقویم اجرایی رایگان WORD طرح تدبیر
دانلود برنامه سالانه 1404-1403| تقویم اجرایی رایگان
برنامه سالانه و تقویم اجرایی ابتدایی ویرایش جدید 1404-1403
لینک دانلود طرح تدبیر:
دانلود برنامه سالانه 1404-1403| تقویم اجرایی رایگان
0 notes
𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑵𝒂𝒂𝒎 𝒔𝒆, 𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑾𝒂𝒔'𝒕𝒆.
🌹🌹 𝗗𝗘𝗙𝗘𝗡𝗦𝗘 𝗧𝗛𝗥𝗢𝗨𝗚𝗛 𝗧𝗢𝗟𝗘𝗥𝗔𝗡𝗖𝗘:
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
9️⃣2️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💠 𝗗𝗘𝗙𝗘𝗡𝗦𝗘 𝗧𝗛𝗥𝗢𝗨𝗚𝗛 𝗧𝗢𝗟𝗘𝗥𝗔𝗡𝗖𝗘:
𝗧𝗵𝗲 𝗳𝗮𝗺𝗼𝘂𝘀 𝗰𝗼𝗺𝗽𝗮𝗻𝗶𝗼𝗻 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺, 𝗔𝗯𝗱𝘂𝗹𝗹𝗮𝗵 𝗶𝗯𝗻 𝗔𝗯𝗯𝗮𝘀, 𝘀𝗮𝗶𝗱, "𝗗𝗲𝗳𝗲𝗻𝗱 𝘁𝗵𝗲 𝗶𝗴𝗻𝗼𝗿𝗮𝗻𝗰𝗲 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗶𝗴𝗻𝗼𝗿𝗮𝗻𝘁 𝘁𝗵𝗿𝗼𝘂𝗴𝗵 𝘁𝗼𝗹𝗲𝗿𝗮𝗻𝗰𝗲."
(Tafsir al-Qurtubi, Vol. 15, p. 361)
● 𝗔𝗰𝗰𝗼𝗿𝗱𝗶𝗻𝗴 𝘁𝗼 𝘁𝗵𝗶𝘀 𝘃𝗶𝗲𝘄 𝗼𝗳 𝗔𝗯𝗱𝘂𝗹𝗹𝗮𝗵 𝗶𝗯𝗻 𝗔𝗯𝗯𝗮𝘀, 𝗼𝗻𝗲 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗽𝗿𝗼𝗽𝗲𝗿 𝗺𝗲𝘁𝗵𝗼𝗱𝘀 𝗼𝗳 𝗱𝗲𝗳𝗲𝗻𝘀𝗲 𝗶𝘀 𝘁𝗼 𝗿𝗲𝗳𝗿𝗮𝗶𝗻 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗿𝗲𝘁𝗮𝗹𝗶𝗮𝘁𝗶𝗼𝗻.
● 𝗜𝘁 𝗵𝗮𝗽𝗽𝗲𝗻𝘀 𝗮𝗴𝗮𝗶𝗻 𝗮𝗻𝗱 𝗮𝗴𝗮𝗶𝗻 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝘄𝗼𝗿𝗹𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗺𝗮𝗻 𝗵𝗮𝘀 𝘁𝗼 𝗳𝗮𝗰𝗲 𝘁𝗵𝗲 𝗮𝗰𝘁𝗶𝗼𝗻𝘀 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗶𝗴𝗻𝗼𝗿𝗮𝗻𝘁.
● 𝗧𝗵𝗲 𝗺𝗲𝘁𝗵𝗼𝗱 𝗼𝗳 𝘁𝗼𝗹𝗲𝗿𝗮𝗻𝗰𝗲 𝘀𝘁𝗼𝗽𝘀 𝘀𝘂𝗰𝗵 𝗮𝗰𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗮𝘁 𝘁𝗵𝗲 𝘃𝗲𝗿𝘆 𝗳𝗶𝗿𝘀𝘁 𝘀𝘁𝗮𝗴𝗲.
● 𝗢𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗰𝗼𝗻𝘁𝗿𝗮𝗿𝘆, 𝗶𝗳 𝘄𝗲 𝗼𝗽𝘁 𝗳𝗼𝗿 𝘁𝗵𝗲 𝘄𝗮𝘆 𝗼𝗳 𝗿𝗲𝗮𝗰𝘁𝗶𝗼𝗻, 𝘁𝗵𝗲𝗶𝗿 𝗲𝘃𝗶𝗹 𝘄𝗶𝗹𝗹 𝗰𝗼𝗻𝘁𝗶𝗻𝘂𝗲 𝘂𝗻𝘁𝗶𝗹 𝗶𝘁 𝗴𝗲𝘁𝘀 𝗼𝘂𝘁 𝗼𝗳 𝗰𝗼𝗻𝘁𝗿𝗼𝗹.
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💠 *رواداری کے ذریعے دفاع :*
پیغمبر اسلام کے مشہور صحابی حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "برداشت کے ذریعے جاہلوں کی جہالت کا دفاع کرو۔"
(تفسیر القرطبی، جلد 15، صفحہ 361)
● عبداللہ ابن عباس کے اس قول کے مطابق دفاع کے مناسب طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ انتقام سے پرہیز کیا جائے۔
● دنیا میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو جاہلوں کے اعمال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
● رواداری کا طریقہ اس طرح کے عمل کو پہلے ہی مرحلے میں روک دیتا ہے۔
● اس کے برعکس اگر ہم رد عمل کا راستہ اختیار کریں گے تو ان کی برائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک یہ قابو سے باہر نہ ہوجائے۔
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
💠 *انتقام کا جذبہ اور اسلام کی روشن تعلیمات :*
● آدمی کو جب ناکامی، رسوائی، ذلت، حقارت اور ہزیمت کا سامنا ہوتا ہے تو اُس کوغصہ آتا ہے۔
● اور ا س کے ساتھ ایسے حالات پیدا کرنے والے کے لئے اُس کے دل میں شدید نفرت اور انتقام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
● انتقام لینے کا جذبہ ایک نفسیاتی عمل ہے۔
● انسان کا غصہ اُس کو انتقام کی اُس انتہا تک لے جاتا ہے جہاں اُس کی تسکین ہو سکے۔
● انتقام کا یہ عمل کس قدر تباہی و بربادی لائے گا اس کا کوئی اندازہ انتقام لینے والے کو نہیں ہوتا۔
● وہ تو بس اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈی کرنا ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔
● کبھی کبھی دو فریق میں عمل اور ردّ عمل کاسلسلہ طویل مدت تک چلتا رہتا ہے۔
● اور اس سے معاشرے اور ماحول کو وہ نقصان پہنچتا ہے جس کی بھرپائی ممکن نہیں ہوتی۔
● اس مسئلے کے حل کے لئے ایک ایسے تیسرے فریق کی ضرورت ہوتی ہے، جو ثالث کا فریضہ انجام دے سکے اور نفرت کو دور کر سکے۔
● ہوتا یہ ہے کہ جب انتقامی کارروائی کے نتیجے میں تباہی اور ہلاکت کافی نقصان پہنچا دیتی ہے تب فریقین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اب مصالحت کی کوئی صورت پیدا ہو۔
● پھر یا تو اُن کی اپنی کوشش سے یا کسی اور ذریعہ سے تیسرا فریق سامنے آتا ہے اور جیسے تیسے معاملہ طے کراتا ہے۔
● اکثر معاملہ طے کرنے میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
● اس انداز سے کئے گئے بیچ بچاؤ کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جیسے ہی ہارے ہوئے فریق کو موقع ملتا ہے وہ کامیاب فریق سے اپنا انتقام لینے کی تدبیر کرتا ہے۔
● اور فتنہ و فساد کا ماحول دوبارہ گرم ہوجاتا ہے۔
● اسلام جو عدل و انصاف قائم کرنے والا ایک مکمل آسمانی نظام حیات ہے صرف وہی اس مسئلے کا مناسب ترین حل پیش کرتا ہے۔
● وہ اس مسئلے کی خارجی اور داخلی دونوں تدابیر کرنے کی تلقین کرتا ہے اور تعلیم دیتا ہے۔
● سورہ حجرات کا مطالعہ کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ کسی کا مذاق اڑانا، اُس کا تمسخر کرنا، اُس کو برے القاب سے یاد کرنا، بدگمانی کرنا، تجسس کرنا، غیبت اور چغل خوری کرنا ایسی برائیاں ہیں جن سے دلوں کو شدیدچوٹ لگتی ہے۔
● اور محبت کی جگہ نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔
● قرآن پہلے تو اپنے ماننے والوں کو اس سے روکتا اور ایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔
● اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرانے کی تاکید کرتا ہے۔
● ظالم فریق سے لڑکر ظلم کو روکنے کا حکم دیتا ہے۔
🔸 ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والوں سے لڑو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ پلٹ ا��ئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
🔸 مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے تم پر رحم کیا جائے گا۔
🔸 اے لوگوجو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں، آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔
🔸 اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
🔸 تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمہارے اندر ایسا کوئی ہے جواپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاناپسند کرے گا۔ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔(الحجرات:۹تا۱۲)
● گویا اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف پر قائم رہنے والے بے لوث، بے غرض اور خدا مست لوگوں کی ایک ٹولی ضرور ہونی چاہئے جو ایسے حالات میں فتنہ و فساد کو خیر و صلاح سے بدلنے کے لئے جہاد کرنے والی ہو۔
● اگر مسلم معاشرے میں ایسے لوگ موجود نہ ہوں تو سمجھنا چاہئے کہ مسلم معاشرہ خیر سے محروم ہو چکا ہے۔
● داخلی تدبیر کے طور پر قرآن اہل ایمان کی یہ صفت بتاتا ہے کہ وہ غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کی خطاؤں کو معاف کردیتے ہیں۔
● غصہ ایک فطری صفت ہے جو انسان کے دل اور دماغ میں موجود رہتی ہے۔
● عبادت اور ریاضت سے اس کمزوری پر قابو پانا ہی تقویٰ اور احسان کے درجے تک آدمی کو لے جاتا ہے۔
● ایک اعلیٰ درجہ کا مومن پہلے تو غصہ پر ،جو شیطان کا ہتھیار ہے، قابو پا کر خود کو شیطان سے محفوظ کرنے کی تدبیر کرتا ہے اور بشری تقاضوں کے تحت جب ارد گرد کے لوگوں سے کوئی ایسا قصور سرزد ہوجاتاہے جو غصہ اور انتقامی کارروائی کا سبب بن سکتا ہے تو لوگوں کے قصور کو وہ اہل ایمان معاف کر دیتا ہے۔
● صبر اور درگزر کا یہ عمل بھی اہل ایمان کی ایک نیکی شمار ہوتا ہے اور اُس کو اس پر اجر و انعام ملتا ہے۔
● خیر اور نیکی کا یہ شوق ہی اہل ایمان کو ایک صابر و شاکر اور ضبط و تحمل والا انسان بنادیتا ہے،
● جس سے معاشرے کو امن و سکون کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔
🔸 ’’جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال۔ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں، ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔ (۱۳۴)
🔸 اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام اُن سے ہو جاتا ہے یا کوئی گناہ وہ کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً اُنہیں اللہ یاد آجاتا ہے اور وہ اُس سے اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں، کیونکہ اللہ کے سوا کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو اور وہ جان بوجھ کر اپنی غلطی پر ضد نہیں کرتے۔ (۱۳۵)
🔸ایسے ہی لو گوں کا بدلہ اُن کے رب کے پاس یہ ہے کہ و ہ اُن کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں اُنہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کے لئے۔ (آل عمران:۱۳۴تا۱۳۶)
● رسول اللہ ؐنے غصہ کے سلسلے میں کس قدر تاکید سے تعلیم دی اور تلقین کی ہے ملاحظہ کیجئے:
🔸 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریمؐ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا کہ مجھے وصیت فرمائیے: آپ نے فرمایا کہ غصہ میں نہ آیا کرو اور اسی کو بار بار دہرایا کہ غصے میں نہ آیا کرو۔(بخاری)
🔸 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:پہلوان وہ نہیں جو پچھاڑ دے، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ (بخاری/ مسلم)
🔸 عطیہؓ بن عُروہ سعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے او ر پانی ہی آگ کو بجھاتا ہے، لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وضو کر لیا کرے۔(ابوداؤد)
🔸 ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:اگر تم میں سے کسی کوغصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے،اگر غصہ چلا جائے تو ٹھیک ورنہ لیٹ جائے۔(احمد، ترمذی)
🔸 ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:کسی بندے نے اللہ تعالیٰ کے نزدیک غصہ کے گھونٹ سے افضل کوئی گھونٹ نہیں پیاجس کو وہ رضائے الٰہی کے لئے پئے۔ (مسنداحمد)
🔸 انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: جس نے زبان کو روکا تو اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ ڈال دے گا، جس نے غصہ کو روکا تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو روک لے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے عذر کو قبول کیا تو اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول کرے گا۔ (بیہقی)
🔸 ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا ا ے رب تیرے بندوں میں تیرے نزدیک سب سے معزز کون ہے؟ رب نے فرمایا جو قدرت رکھتے ہوئے معاف کر دے۔(بیہقی)
● انتقام لیتے ہوئے عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ جتنا ظلم ہوا ہے اتنا ہی انتقام لیا جائے ، اس حد سے آگے بڑھنے کے نتیجے میں مظلوم خود ظالم بن جاتا ہے۔
● کسی کے ظلم اور زیادتی پر صبر کرنا ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔
● ایسی عبادت جس میں خود کچھ نہیں کرنا پڑتا ہے صرف صبر کرنے اور خاموش رہ جانے سے اعلیٰ درجہ کا ثواب اور اجر ملتا ہے۔
● آج کی دنیا والے یا تو کسی بھی ظلم و زیادتی کا بدلہ لینا فرض سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ظلم کا بدلہ نہ لینا بھی پاپ ہے۔
● یا پھر یہ فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو اُس کے سامنے دوسرا گال بھی حاضر کر دو کہ ایک اور طمانچہ مار لو۔
● یہ دونوں باتیں غلط ہیں اور ان سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔
● اسلام عدل و اعتدال کا دین ہے۔
● اُس کا سب سے اہم فریضہ اور اعلیٰ درجہ کی عبادت نیکی کو پروان چڑھانا اور برائی کو روکنا اور مٹانا ہے۔
● وہ نہ تو بدلہ ضرور لیا جائے یہ کہتا ہے اور نہ ظلم و زیادتی کو بالکل معاف کردینے کا حکم دیتا ہے۔
● اسلام کے احکام دو حیثیت رکھتے ہیں۔
● ایک کا تعلق انسانوں کی ذاتی زندگی سے ہے اور دوسرے کا تعلق سماج کی اجتماعی زندگی سے ہے۔
● انفرادی طورپر وہ اہل ایمان کو اُس کے ساتھ جو ظلم و زیادتی کی جارہی ہے اُسے معاف کردینے کا حکم دیتا ہے۔
● لیکن دوسرے کے ساتھ اگر ظلم اور ناانصافی کی جارہی ہے تو سماج کا یہ فرض ٹھہراتا ہے کہ پہلے ظلم اور نا انصافی کرنے والے کو سمجھائے اور یہ کہ برائی کر کے جہنم سے جانے سے بچائے اور اس کی تلقین کرے کہ ظلم نہ کرو۔
● اگر ظالم اپنے ظلم سے توبہ نہ کرے اور ظلم و نا انصافی پر ڈھٹائی دکھائے تو سماج مظلوم کے حق میں اُس سے لڑے اور کمزور کو طاقتور کے ظلم اور ناانصافی کا شکار ہونے سے بچائے۔
● اس تدبیر سے سماج کا کمزور طبقہ طاقتور طبقے کی دست درازیوں سے محفوظ رہے گا۔
● مگر صورت حال یہ ہے کہ دور حاضر میں سارے کے سارے مسلمان دنیا پرست، خود غرض اور مطلبی ہو چکے ہیں۔
● وہ اپنے فائدے کو نقصان سے بچانے کے لئے حق کا ساتھ دینے کی جرأت نہیں رکھتے اور ناحق اور نا انصافی سے لڑنے اور اُس کو روکنے کا ارادہ ہی نہیں کرتے۔
● غیر مسلم سماج کے ساتھ ساتھ مسلم سماج بھی ہر طرح کی برائیوں ظلم اور ناانصافیوں کا اکھاڑا بنا ہوا ہے۔
● *مسلمان پڑوسی غیر مسلموں کے مسائل کیا حل کریں گے یہ خود اپنے مسائل میں ایسے الجھے ہوئے ہیں جن سے ان کو زندگی بھر نجات نہیں ملنے والی ہے۔*
🍃 *جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعث رحمت بن کر رہیں، باعث آزار نہ بنیں۔* 🍃
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
1 note
·
View note
نظر کی حقیقت اور اس کا علاج
سوال ۶۵: کیا انسان کو نظر لگ جاتی ہے اس کا علاج کیا ہے؟ کیا نظر سے بچنا توکل کے منافی ہے؟
جواب :نظر لگنا برحق ہے اور یہ شرعی اور حسی طور پر ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِہِمْ﴾ (القلم: ۵۱)
’’اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((اَلْعَیْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَیْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتْ الْعَیْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا)) (صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۸۔)
’’نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔‘‘
اسی طرح امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، جب کہ وہ غسل کر رہے تھے اتفاق سے انہوں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ: ’’میں نے آج تک کسی کنواری دو شیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔‘‘ یہ کہنا تھا کہ سہل بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور عرض کیا گیا: سہل بے ہوش ہو کر گر گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (مَنْ تَتَّہِمُوْنَ ٖ) ’’تم ان کے بارے میں کس کو مورد الزام ٹھہراتے ہو؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: عامر بن ربیعہ کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((عَلَامَ یَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ إِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مِنْ أَخِیہِ مَا یُعْجِبُہُ فَلْیَدْعُ لَہُ بِالْبَرَکَۃ))ِ (سنن ابن ماجہ، الطب، باب العین، ح:۳۵۰۹ وسنن الکبری للنسائی: ۴/ ۳۸۱۔)
’’تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے کے درپے کیوں ہے؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔‘‘
پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، دونوں گھٹنوں اور ازار کے اندر کے حصے کو دھویا اور پھر آپ نے حکم دیا کہ وہ پانی نظر لگے ہوئے شخص پر بہا دیں۔‘‘
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: (وَاَمَرَہُ اَنْ یَّکْفَأَ الْاِنَائَ مِنْ خَلْفِہٖ) ’’اور آپ نے عائن کو حکم دیا کہ وہ معین کے پیچھے کی طرف سے اس پر پانی کے اس برتن کو انڈیل دیں۔‘‘
واقعات سے بھی نظر بد لگنے کی شہادت ملتی ہے، بلاشبہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
نظر بد لگنے کی حالت میں درج ذیل شرعی علاج استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔
۶۔ دم کرنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((لَا رُقْیَۃَ اِلاَّ مِنْ عَیْنٍ اَوْ حُمَۃٍ)) (صحیح البخاری، الطب، باب من اکتوی او کوی غیرہ… ح:۵۷۰۵ وصحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنۃ بغیر حساب ولا عذاب، ح:۲۲۰۔)
’’ جھاڑ پھونک یادم نظر لگنے یا بخار ہی کی وجہ سے ہے۔‘‘
جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے:
((بِاسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ، مِنْ کُلَّ شَیْئٍ یُؤْذِیْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰہُ یَشْفِیْکَ، بِاسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ)) (صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶۔)
’’اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی
آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔‘‘
۲۔ دھونا: جیسا کہ سابقہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا (کہ وہ خود کو دھوئیں) اور پھر اس پانی کو مریض پر انڈیل دیا جائے۔
نظر لگانے والے کے بول و براز کو مذکورہ مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اسی طرح اس کے پاؤں کی مٹی کو استعمال کرنا بھی بے اصل بات ہے، ثابت وہی ہے جس کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کے اعضا اور ازار کے اندرون کو دھلایا جائے گا اور شاید اسی کی مثل اس کے رومال، ٹوپی اور قمیض وغیرہ کو بھی اندر سے دھلانا ہو۔ واللّٰہ اعلم
نظر بد سے پیشگی حفاظت تدبیر اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ایسا کرناتوکل کے منافی بھی نہیں بلکہ یہی عین توکل ہے، کیونکہ یہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر اعتماد کرنا اور ان اسباب کو اختیار کرنا ہے جن کو اس نے مباح قرار دیا یا جن کے استعمال کا اس نے حکم دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو ان کلمات کے ساتھ دم کیا کرتے تھے:
((أَعِیْذُکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّہَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ))( صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب ۱۰، ح: ۳۳۷۱ وسنن ابن ماجہ، الطب، باب ما عوذ بہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وما عوذ بہ، ح: ۳۵۲۵ ولفظہا: اعوذ بکلمات االلّٰه … وسنن ابی داود، السنۃ، باب فی القرآن، ح:۴۷۳۷ وجامع الترمذی، الطب، باب کیف یعوذ الصبیان، ح:۲۰۶۰۔)
’’میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کی پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان اور زہریلی بلا کے ڈر سے اور ہر لگنے والی نظر بد کے شر سے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اسماعیل واسحاق رحمہم اللہ کو اسی طرح دم کیا کرتے تھے۔
فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۱۲۵، ۱۲۶، ۱۲۷ )
#FAI00058
ID: FAI00058 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
چند خوشبو بھری یادوں کو سنبھالے ہوئے ہے
دل مگن رہنے کی تدبیر نکالے ہوئے ہے
دیکھنا کل وہی شعلہ کی طرح بھڑکے گا
جو شگوفہ وہ سر بزم اچھالے ہوئے ہے
0 notes
پروتئین تراپی بعد از دکلره : با توجه به اظهارات بعدی شما، ارزش یک لحظه فکر کردن را دارد. "اوه اما من دوستت دارم!" او گفت، و به چهره او، برای آن زمان، این بود احتمالا درست است پس دیگر چیزی نگفتم و برخاستیم و به آن ملحق شدیم بازیکنان پل و من تدبیر کردم که دیگر با من صحبت نکند.
رنگ مو : تنها قبل از اینکه شب بخیر بگوید. "آیا مالکوم از شما خواستگاری کرد؟" وقتی به رختخواب آمدیم لیدی ور پرسید. "من فکر کردم هنگام شام نگاهی در چشمانش دیدم." من به او گفتم که او این کار را به نوعی انجام داده است لطف خانم آنجلا گری "این خیلی وحشتناک است!" او گفت. "در برخی موارد همه گیری منظم وجود دارد.
پروتئین تراپی بعد از دکلره
پروتئین تراپی بعد از دکلره : از هنگ های گارد همین الان برای ازدواج با این فقیرترین چیزهای معمولی شخصیت های اخلاقی بالا و پاهای بی تفاوت. اما باید فکر می کردم ناز اسکاتلندی از مالکوم در برابر آنها محافظت می کرد طرح ها. بیچاره خاله کاترین!" من به خودم اجازه نمی دهم در مورد لرد رابرت زیاد فکر کنم.
لینک مفید : پروتئین تراپی مو
زن جوان قابل احترام - هیچ حرفی برای مخالفت با اخلاق او وجود ندارد شخصیت - و من به او قول ازدواج داده ام، پس شاید ما بهتر است خداحافظی کنید." "خداحافظ» گفتم؛ "اما فکر میکنم دلایل زیادی برای احساس توهین دارم با توجه به پیشنهاد شما، که اینطور نبود.
پروتئین تراپی بعد از دکلره : آقای. برای من درسی بوده است. اما اگر او بیاید، نمی دانم که آیا لیدی کاترین به نظر من خنده دار خواهد بود که نگویم او را زمانی می شناختم اول از او صحبت کرد الان خیلی دیر است، بنابراین نمی توان کمکی کرد. مهمانی مکینتاش امروز بعدازظهر رسید. ازدواج باید کاملا داشته باشد.
لینک مفید : بوتاکس مو و پروتئین تراپی
تاثیرات متفاوت بر برخی افراد تعداد زنان متاهلی که در آنها دیدیم لندن دوست داشتنی بود - من همیشه می شنیدم که زیباتر از آنها بود قبلا - اما مری مکینتاش کاملاً وحشتناک است. او نمی تواند بیشتر از این باشد بیست و هفت، اما او حداقل چهل ساله به نظر می رسد.
پروتئین تراپی بعد از دکلره : و تنومند، و بیرون زده همه در مکان های نامناسب، و صاف در جایی که میله ها باید باشند. و چهار بچه دو بزرگتر تقریباً همسن به نظر می رسند، الف بعدی کمی کوچکتر است، و یک بچه وجود دارد، و همه آنها غوغا می کنند، و اگرچه به نظر می رسد آنها انبوهی از پرستاران دارند.
لینک مفید : پروتئین تراپی مو یعنی چه
آقای مکینتاش بیچاره باید مهربان باشد از زیر یک او آنها را می آورد و می برد و خود را می دهد دستمال زمانی که آنها لخت می کنند، اما شاید او احساس غرور می کند که الف فردی در اندازه او تقریباً در یک زمان این چهار نوزاد بزرگ را به دنیا آورد مانند آن همه چیز به سادگی وحشتناک است.
پروتئین تراپی بعد از دکلره : چای یک هیاهو بود! چهار خاله بر سر شیرخواران فوران می کنند و غذا دادن به آنها با کیک و غرغر کردن با نوع صداها آنها می توانند «خرارها» من مطمئن هستم، زمانی که آنها می گیرند مسن تر. من نمی دانم که آیا نوزادان هر روز بعد از ظهر پایین می آیند شلیک اتفاق می افتد مهمانان از آن لذت خواهند برد.
لینک مفید : روش پروتئین تراپی در منزل
وقتی از پله ها بالا آمدیم به ژان گفتم که به نظرم وحشتناک به نظر می رسید ازدواج کردن؛ او نه؟ اما او شوکه شد و گفت نه، ازدواج و مادری وظایف مقدسی بود و به خواهرش حسادت میکرد. این نوع چیزها تصور من از سعادت نیست. دوتا واقعا خوش رفتار فکر می کنم بچه ها خوشمزه خواهند بود.
پروتئین تراپی بعد از دکلره : اما همه چیز در مورد چهار اسکالینگ هم سن و سال بورژوا است و نه امر یک خانم. فکر می کنم پاسخ لرد رابرت تا شنبه نمی تواند به اینجا برسد.
لینک مفید : بوتاکس مو بهتر است یا پروتئین تراپی
من تعجب می کنم که او چگونه آن را ترتیب داده است؟ از او زیرکانه است. خانم کاترین این را گفت آقای کمپیون که میومد تو همون هنگ شاید وقتی—— اما فکر کردن به آن فایده ای ندارد.
پروتئین تراپی بعد از دکلره : فقط به نحوی امشب احساس خیلی بهتری دارم - همجنسگرا، و انگار برایم مهم نیست بسیار فقیر بودن - که مجبور شدم کمی بعد مالکوم را اذیت کنم شام. من می بازی صبر می کردم و هرگز چشمانم را از کارت. او مدام سعی می کرد چیزهایی به من بگوید تا مرا به سمت پیانو بیاورد.
لینک مفید : پروتئین تراپی سرد مو در خانه
اما من وانمود کردم که متوجه نشدم یک نخل در گوشه بلندی ایستاده است دفتر نوشتن چیپندیل، و جسی اتفاقاً آن را گذاشت میز صبر پشت آن و نه، بنابراین بقیه آنها نمی توانند ببینند همه چیزهایی که اتفاق می افتاد مالکوم بالاخره خیلی نزدیک کنارم نشست، و میخواستم به آسها کمک کنم.
پروتئین تراپی بعد از دکلره
: اما نمیتوانم افراد نزدیک را تحمل کنم من، بنابراین تخته را ناراحت کردم و او مجبور شد تمام کارت های روی تخته را بردارد کف. کرستی، برای تعجب، سپس پیانو زد - یک کیک واک - و چیزی در آن بود که به من احساس می کرد. می خواهم حرکت کنم.
لینک مفید : پروتئین تراپی و کراتین
برقصم، تکان دادن - نمی دانم چیست - و شانه هایم به مرور زمان کمی تکان می خورد به موسیقی مالکوم طوری نفس کشید که انگار سرما خورده باشد و گفت: درست در گوشم، با صدایی چاق: "تو میدونی که شیطان هستی-و من--" فوراً جلوی او را گرفتم و برای اولین بار کاملاً به بالا نگاه کردم.
پروتئین تراپی بعد از دکلره : شوکه و متعجب "واقعا آقای مونتگومری، نمی دانم منظور شما چیست" گفتم. او شروع به بی قراری کرد. "اوه-منظورم-منظورم-من به شدت آرزو دارم تو را ببوسم." "اما من ذرهای نمیخواهم تو را ببوسم" گفتم و چشمامو باز کردم در او او شبیه یک آدم کینه توز به نظر می رسید.
لینک مفید : قیمت پروتئین تراپی مو در سالن تهران
خوشبختانه در آن لحظه جسی به صبور بازگشت و دیگر نتوانست چیزی بگوید. لیدی کاترین و خانم مکینتاش در مسیر بالا به اتاق من آمدند بستر. او - لیدی کاترین - می خواست به مری نشان دهد که چقدر زیبا هستند انجام شده بود قبل از ازدواج مال او بود.
پروتئین تراپی بعد از دکلره : همه را نگاه کردند دور کرتون و چیزهای نرگس رنگ مرده، و در نهایت من میتوانستم ببینم که چشمانشان اغلب به لباس شب و پیراهن من منحرف شده است.
لینک مفید : پروتئین تراپی اتوکشی دارد
روی صندلی کنار آتش خوابیده "اوه، لیدی کاترین، می ترسم از صورتی بودن من تعجب کنید ابریشم،" با عرض پوزش گفتم: «همانطور که در ماتم هستم.
0 notes
عمران سمیت سب رہنماؤں کے لئے دلی دُعا
پہلے تو میں اپنا محاسبہ کرتا ہوں۔ اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ میں اُردو کے سب سے بڑے اخبار میں اپنے دل کی باتیں کر سکوں۔ دنیا بھر میں لاکھوں پڑھنے والے پاکستان کے کونے کونے میں میرے الفاظ کے مطالعے کے لئے اپنا قیمتی وقت نکالتے ہیں۔ کیا میں ان کے علم میں کوئی اضافہ کرتا ہوں۔ سات دہائیوں سے مجھے خدائے بزرگ برتر نے حکمرانوں کو بہت قریب سے دیکھنے ان کے ساتھ سفر کرنے کی سہولتیں دی ہیں۔ میں نے ان کی حاشیہ برداری کی ہے یا ان کے سامنے کلمۂ حق کہا ہے۔ تاریخ میرے کان میں کہہ رہی ہے۔ آج 14 مئی ہے۔ اگر اس سر زمین میں آئین کی پاسداری ہو رہی ہوتی۔ عدالتِ عظمیٰ کے قوانین کو حکمران تسلیم کر رہے ہوتے تو آج پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا دن تھا۔ انتخابات ٹالنے کے لئےانتخابات کروانے والوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ کہا گیا کہ 14 مئی کو سیکورٹی نہیں دے سکتے کیونکہ فورسز سرحدوں پر مصروف ہیں۔ مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ فورسز 14 مئی کو پنجاب میں موجود ہیں۔ الیکشن کے انعقاد کے مثبت اقدام کے لئے نہیں۔ بلکہ الیکشن پر اصرار کرنے والوں کی تادیب کے لئے۔ 9 مئی کو انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے یوم سیاہ قرار دیا ہے۔ 70 سال سے اوپر کے میرے ہم عصروں نے کتنے سیاہ دن دیکھے ہیں۔
16 دسمبر 1971 سب کیلئے یوم سیاہ۔ پھر کسی کیلئے 4 اپریل 1979۔ کسی کیلئے 17 اگست 1988۔ کسی کیلئے 12 اکتوبر 1999۔ کسی کیلئے 26 اگست 2006۔ کسی کیلئے 27 دسمبر2007۔ جن سر زمینوں میں آئین کو بار بار سرد خانے میں ڈالا جائے۔ جہاں آمروں کے منہ سے نکلے الفاظ ہی قانون ہوں۔ جہاں اپنے اپنے علاقوں میں سرداروں۔ جاگیرداروں۔ مافیا چیفوں کا راج ہو۔ وہاں مختلف خاندانوں کے لئے مختلف دن سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آج اتوار ہے۔ میں نادم ہوں کہ ہمارے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کو ایسے ایسے بھیانک مناظر دیکھنا پڑ رہے ہیں جو وہ تاریخ کے اوراق میں چنگیز۔ ہلاکوخان اور دوسرے سفاک جابروں کے دَور میں پڑھتے رہے ہیں۔ میں تو اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندہ ہوں۔ مگر جن کے حکم پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہ خبر نہیں کہ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کے سامنے سر بلند کر کے کھڑے ہوتے ہیں یا سر جھکا کے۔ عورتوں کو بال پکڑ کر گھسیٹا جارہا ہے۔ بزرگوں کو ڈنڈا ڈولی کیا جارہا ہے۔ ہانکا لگا کر شکار کیا جارہا ہے۔ ایمبولینسوں کو جلایا جا رہا ہے ۔ سرکاری عمارتوں میں گھس کر آگ لگائی جارہی ہے۔
بہت ہی حساس رہائش گاہیں اور ہیڈ کوارٹرز کسی محافظ کے بغیر چھوڑے جارہے ہیں۔ ہجوم ان میں بلاک روک ٹوک داخل ہو رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے پولیس حکومت کے سیاسی مخالفین کی رہائش گاہوں میں گھس کر بلوائیوں کی طرح شکست وریخت کر رہی ہے۔ قوم ۔ میڈیا تقسیم ہو چکے ہیں۔ من حیث القوم۔ اس افراتفری کو نہیں دیکھا جارہا کہ ملک تباہ ہو رہا ہے۔ حکومت وقت جو معیشت کے سامنے بازی ہار چکی ہے۔ جو افراط زر کے آگے ناکہ نہیں لگا سکی۔ جو اپنے قائد اعظم کی تصویر والی کرنسی کو کافروں کی تصویروں والی کرنسی کے سامنے عاجز ہونے سے نہیں روک سکی۔ وہ ملک کے استحکام کے لئے کوئی تدبیر نہیں کر سکی۔ جس کے وزراء کو ایسے ہنگامی حالات میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے بیٹھنے۔ عدلیہ کو بے نقط سنانے اور اپنے سیاسی مخالف کو فتنہ ۔غیر ضروری عنصر۔ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر قیامتیں برپا ہیں۔ تاریخ کے شرمناک مناظر دکھائے جارہے ہیں۔ ملک کو مزید جلائو گھیرائو۔ نوجوانوں کی ہلاکتوں سے بچانے کے لئے سب سے بڑی عدالت کو اسی قیدی کو روبرو بلانا پڑتا ہے۔
جس کی گرفتاری پر ادارے۔ حکمراں بہت مطمئن تھے۔ قاضی القضاۃ کو کہنا پڑا کہ آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اس ایک جملے کے بہت معانی ہیں۔ بہت سے اداروں اور بہت سے لوگوں کے لئے اس ایک جملے میں بہت اشارے اور بہت انتباہ بھی ہیں۔ آگے کیا ہونا ہے۔ ستارے تو بہت خوفناک پیشنگوئیاں کررہے ہیں۔ میں تو اللہ تعالیٰ سے اس شخصیت کے لئے دعائیں مانگوں گا کہ جس کو سامنے لا کر احتجاج کرنے والوں سے اپیل کروانا پڑی کہ وہ پُر امن رہیں۔ املاک کو تباہ نہ کریں۔ میں پورے خشوع و خضوع سے قادرمطلق سے التجا کر رہا ہوں کہ اگر ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ملک میں امن۔ استحکام نہ صدر مملکت کے ہاتھ میں ہے۔ نہ وزیر اعظم کے۔ نہ کسی وزیر اعلیٰ کے بلکہ ایک اپوزیشن لیڈر کے بس میں ہے۔ جس کے خلاف ایک سو سے کہیں زیادہ مقدمات مختلف شہروں۔ مختلف تعزیرات کے تحت دائر کر دیے گئے ہیں۔ تو ہم اپنے پروردگار اپنے معبود۔ اپنے قدیر۔ کبیر سے گڑ گڑا کر درخواست کریں کہ اے سارے جہانوں کے مالک۔ عمران خان کو تدبر�� بصیرت اور وژن عطا کر کہ وہ قوم کو استحکام کی منزل کی طرف لے جائے۔ اسے اس ادراک کی تقویت دے کہ وہ مستقبل کے لئے صراط مستقیم کا انتخاب کر سکے۔
اس عظیم مملکت میں معیشت کے سنبھلنے میں اپنی سیاسی طاقت سے کام لے سکے۔ اس وقت اس خطّے میں بڑی سازشیں ہو رہی ہیں۔ منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ بڑی طاقتوں کی بھی کوششیں ہیں کہ پاکستانی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا رہیں۔ صوبوں کے درمیان کشمکش رہے۔ سوشل میڈیا پر ان سازشوں کے مظاہر بھی درج ہو رہے ہیں۔ لسانی۔ نسلی۔ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جارہی ہے تو ہم اس الرحمن الرحیم سے التماس کریں کہ اب جب اس ایک شخص کی آواز پر نوجوان جگہ جگہ شہر شہرسڑکوں پر نکل آتے ہیں تو اس کے ذہن کو ایسی تقویت دے ۔ ایسی روشنی دے کہ وہ اس عظیم مملکت کے بانی اور بر صغیر کے بے مثال رہبر قائد اعظم کے افکار پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے نوجوانوں کو تیار کرے۔ ملک میں صرف احتجاج کے لئے اپیل نہ کرے۔ بلکہ آئندہ دس پندرہ برس کا ایک لائحہ عمل دے۔ اس ایک سال میں خواب بہت بکھر چکے۔ آرزوئیں خاک ہو چکیں۔ معیشت ریزہ ریزہ ہو چکی۔ اقوام عالم میں پاکستان بے وقعت ہو چکا ہے۔ اے الملک۔ اے الرافع۔ اے الغنی۔ اے الوارث۔ الباقی۔ یہ 22 کروڑ تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمارے منصفوں کو۔ سالاروں کو۔ حکمرانوں کو یہ ہدایت دے کہ وہ صرف ایسی راہ پر چلیں۔ جس پر تیری نعمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ان راہوں کو چھوڑ دیں۔ جس پر تیرا غضب اترتا ہے۔ ہمارے سب رہنمائوں بالخصوص عمران خان کو یہ استطاعت دے کہ وہ صرف ملک کے لئے سوچیں۔ اسے بحرانوں سے نکالیں۔ آمین۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
طرح تدبیر مدارس ابتدایی تکمیل شده فرم های سال ۹۷-۹۸
طرح تدبیر مدارس ابتدایی
فرم تکمیل شده طرح تدبیر
فرم پر شده طرح تدبیر
براساس نگارش جدید ویرایش ۱۳ آبان سال۱۳۹۷ براساس ساحت های سند تحول
دانلود برنامه ی سالانه و تقویم اجرایی طرح تدبیر سال تحصیلی۹۷-۹۸براساس نگارش جدید در دو نمونه ی متفاوت
توضیحات و فهرست آنچه که در این فایل موجود است
دانلود جدیدترین طرح تدبیر مدارس ابتدایی سال ۹۷
برنامه تدبیر چیست؟؟
براساس نگارش جدید ویرایش در۱۳ آبان ۱۳۹۷ براساس ساحت های سند تحول
دانلود برنامه ی سالانه و تقویم اجرایی کامل شده تدبیر سال تحصیلی۹۷-۹۸
براساس نگارش جدید ویرایش ۹۷/۹/۱۳ براساس ساحت های سند تحول
فرمت فایل WORD و قابل ویرایش(متناسب با تکمیل در سایت همگام)
کامل شده براساس ساحت های سند تحول بنیادین برنامه سالانه(فرم ۲)
جدول خود ارزیابی (فرم ۶)تقویم اجرایی (فرم۳)
تعداد صفحات فایل اول) ۱۰۰ صفحه قابل ویرایش
تعداد صفحات فایل دوم) ۸۰ صفحه قابل ویرایش
1 note
·
View note
ذکرِ خوباں
(عورت کی خِلقت از رُوئے تمثیل)
ہندی شاعروں نے عورت کی خِلقت کا قصہ اِس طرح لکھا ہے کہ، ”آغازِ آفرینش میں خلّاقِ دو عالم نے جب عورت کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا سارا مسالہ مرد کے پیدا کرنے میں کام آ گیا۔ عورت کے بنانے کے لئے عالمِ ایجاد میں کوئی چیز اعتبار کے لائق نہ رہی“۔
بڑے غور و تامُل کے بعد یہ تدبیر کارپردازانِ ازل کے ذہن میں آئی کہ چہرے کی شکل تو چاند سے لی جائے اور خَمِ ابرو ہلال سے، غُنچہِ ناشگفتہ سے دہن اور برگِ گُل سے ہونٹ، نرگسِ شہلا سے آنکھ، سرو سے قد، نسرین سے بدن اور کَبک سے رفتار لے لی جائے۔
شبِ تار سے بالوں کی سیاہی اور درازیِ شبِ ہجراں سے بالوں کی درازی لے لی جائے۔ یاقُوت سے ہونٹوں کی سُرخی ، پتھر سے سنگ دلی اور طوطے کی آنکھ سے بے مروتی مانگ لیں، ماتھے کی چمک کندن سے اور دانتوں کی دمک موتیوں سے لے لیں۔
قُلقُلِ مینا سے آواز کی کھنک اور شمعِ سوزاں سے آنسوؤں کی لڑی ضرورت کے وقت عاریتاً لے لو۔ گردشِ روزگار سے مزاج کا تلوُّن لے لیا جائے ، گلے میں بانہیں ڈال دینے کی ادا سرِ دست عشقِ پیچاں سے لے لو اور دیکھتے رہو کہ برگِ گُل پر جب قطرہِ شبنم نسیمِ سَحر سے جُنبِش میں آئے اُس وقت اس کے دل کے دھڑکنے کی تصویر کھینچ لینا۔
خُوئے جفا چرخِ ستم گار سے اور کبھی بھُولے بھٹکے کی رسمِ وفا چکوے چکوی سے مانگ لو۔ کمر کی ضرورت نہیں کہ دہنِ یار کی طرح نظر نہیں آتی۔ زلف کو پریشاں اور آئینہِ رخسار کو درخشاں بنا دینا ، زبان کے لئے سوسَن کی قلم قینچی سے کاٹ کر لگا دینا، لڑکپن کی اٹکھیلیاں بلی کے اُن بچوں سے جو پنجوں میں ناخُن چھپانا نکالنا سیکھ گئے ہوں لے لینا اور خود اپنے بچوں کی حفاظت میں جان پر کھیلنے کے تیور شیرنی سے لے لو۔
اداؤں میں بلانے سے بھاگنا اور نہ ملیے تو خود ملنے کے بہانے ڈھونڈنا، نگاہ سے بلانا اور زَبان سے کوسنا، منہ نہ لگانے پر گلے کا ہار بن جانا اور ناز برداری کی جائے تو لاپروائی کی شکایتیں کرنا اور ایسی ہزار ناز و انداز کی باتیں کُوٹ کُوٹ کر بھر دینا۔ غرَض ایسے ھی اجتماعِ ضدَّین سے عالمِ ایجاد کے نسخہ نوسیوں نے یہ معجونِ مرکب یعنی عورت کو بنا کر مرد کے حوالے کر دیا۔
کہتے ھیں کہ اِس واقعے کے چند روز بعد انسان نے خدا سے شکایت کی کہ، ”یہ تحفہ جو مجھے عطا ہوا ھے میرے لیے بلائے جان ھے۔ اِس کو واپس لے لیا جائے۔ اِس نے میری زندگی اجیرن کر دی ، اس کی زبان خدنگِ نظر سے زیادہ تیز ہے ، یہ بلا کی طرح پیچھے پڑی رہتی ہے، مجھے کسی طرف نگاہ اٹھ اکر دیکھنے نہیں دیتی، اِس کے مارے مجھ سے کوئی کام نہیں ہوتا، بے سبب خفا رہتی ھے، اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا ھے، میری اس کی نہیں بنتی“۔
حکم ھُوا کہ، ”تمہاری اِس کی نہیں بنتی تو تم اِسے یہاں چھوڑ جاؤ“۔
دو چار دن ھی گزرے ہوں گے کہ حضرتِ انسان پھر خالِق کے پاس حاضر ہو گئے اور عرض کی کہ پروردگار! جب سے عورت چُھٹی مجھے بڑی تکلیف ھے، رات دن اُسی کا خیال رہتا ہے، گھر اُجڑ گیا، زندگی کا لطف جاتا رہا، شبِ تار میں وہ چاند سا چہرہ رہ رہ کر یاد آتا ھے، زلفِ پریشان کا خیال جو بندھ جاتا ہے تو پہروں نیند اُچٹ جاتی ھے۔
ارشاد ہوا کہ، ”عورت کو تم خود ہی چھوڑگئے تھے نا؟ تمہارا جی چاہے پھر لے جاؤ“۔
کیا دیکھتے ہیں کہ دوسرے تیسرے دن حضرتِ انسان پھر خدا کے پاس یہ عرض لے کر پہنچے کہ، ”بندہِ درگاہ کچھ عرض نہیں کرسکتا، بور کے لڈو کا سا حال ہے کہ کھائے تو پچھتائے نہ کھائے تو پچھتائے۔ لیکن میں نے بڑے غور سے دیکھا کہ عورت سے اس قدر آرام نہیں جس قدر کہ تکلیف ہے، حضور! اسے رکھ لیں“۔
فرشتوں کو حکم ہوا کہ، ”اس احمق کو نکال دو۔ اس سے کہہ دو کہ جس طرح مناسب جانے کرے“۔
اس پر انسان نے کہا، ”حضور، اس کے ساتھ تمام عمر کاٹنی مشکل ھے“۔
جواب ملا کہ، ”اس کے بغیر بھی تمہیں جینا مشکل ہوگیا تھا“۔
اُس کے بعد فرشتوں کو حکم ہوا کہ، ”اِسے بکنے دو۔ کارخانۂ عالَم میں اور بہت ضروری کام ہیں۔ یہاں ایسی فرصت نہیں کہ کوئی بے کار کے جھگڑوں میں پڑے“۔
27 notes
·
View notes
Tum Ik Gorakh Dhanda Ho
By Naz Khialvi
کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا
kabhi yahaan tumhein dhoonda kabhi wahaan pohancha
At times I searched for you here, at times I traveled there
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
tumhaari deed ki khaatir kahaan kahaan pohancha
For the sake of seeing You, how far I have come!
غریب مٹ گئے پامال ہو گئے لیکن
ghareeb mit gaye paamaal ho gaye lekin
Similar wanderers wiped away and ruined, but
کسی تلک نہ ترا آج تک نشاں پہنچا
kisi talak na tera aaj tak nishaan pohancha
Your sign has still not reached anyone
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
ho bhi naheen aur har ja ho
You are not, yet You are everywhere
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
ہر ذرّے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے
har zarre mein kis shaan se tu jalwa-numa hai
With what majesty You manifest Yourself in each atom!
حیراں ہے مگر عقل کہ کیسا ہے تو کیا ہے
hairaan hai magar aqal ke kaise hai tu kya hai
But my mind is astonished by how you are, what you are
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈا تو نہیں ملتا
tujhe dair-o-haram mein maine dhoonda tu naheen milta
I looked for you in the temple and mosque, but you cannot be found
مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دل میں دیکھا ہے
magar tashreef farma tujhe apne dil mein dekha hai
But I have seen You gracing my heart with Your presence
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
ڈھونڈے نہیں ملے ہو نہ ڈھونڈے سے کہیں تم
dhoonde naheen mile ho na dhoonde se kaheen tum
You are not found through searching; nor through searching are You anywhere
اور پھر یہ تماشہ ہے جہاں ہم ہیں وہیں تم
aur phir ye tamaasha hai jahaan ham hain waheen tum
But then there is this spectacle that You are wherever we are
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
jab bajuz tere koi doosra maujood naheen
When besides you, there is no second in existence
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
phir samajh mein naheen aata tera parda karna
I do not understand why you seclude yourself
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
حرم و دیر میں ہے جلوۂ پرفن تیرا
haram-o-dair mein hai jalwa-e-pur-fan tera
In the mosque and temple your artful manifestation is present
دو گھروں کا ہے چراغ اک رخِ روشن تیرا
do gharon ka hai charaagh ik rukh-e-raushan tera
Your one face is the light of two homes [mosque and temple]
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
جو الفت میں تمہاری کھو گیا ہے
jo ulfat mein tumhaari kho gaya hai
The individual who has lost himself in your affection
اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے
usi khoye hue ko kuchh mila hai
It is that lost one who has actually found something
نہ بت خانے نہ کعبے میں ملا ہے
na but-khane na kaabe mein mila hai
He found You in neither the idol house nor in the Kaaba
مگر ٹوٹے ہوئے دل میں ملا ہے
magar toote hue dil mein mila hai
Rather he found You in a broken heart
عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے
adam ban kar kaheen tu chhup gaya hai
You have hidden somewhere as nothingness
کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے
kaheen tu hast ban kar aa gaya hai
While elsewhere You have come as existence
نہیں ہے تو تو پھر انکار کیسا
naheen hai tu to phir inkaar kaisa
If You are not, then why deny it?
نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے
nafi bhi tere hone ka pata hai
Even negation reveals Your existence
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
main jis ko keh raha hoon apni hasti
That which I am calling my own existence –
اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے
agar wo tu naheen to aur kya hai
If not You, what else could it be?
نہیں آیا خیالوں میں اگر تو
naheen aaya khayaalon mein agar tu
If You did not come into my thoughts,
تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے
to phir main kaise samjha tu Khuda hai
Then how did I recognize You as God?
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو کیا ہو
hairaan hoon is baat pe tum kaun ho kya ho
I am astonished thinking about who You are, what You are
ہاتھ آؤ تو بت ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
haath aao to but haath na aao to Khuda ho
If I can grasp you, you are an idol, but if not then you are God
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
عقل میں جو گھر گیا لا انتہا کیونکر ہوا
aqal mein jo ghir gaya la-intiha kyoonkar hua
How can one who is enclosed in our comprehension be boundless?
جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا
jo samajh mein aa gaya phir wo Khuda kyoonkar hua
How can one we understand then be God?
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
falsafi ko behes ke andar Khuda milta naheen
The philosopher does not find God in his arguments
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
dor ko suljha raha hai aur sira milta naheen
He is untangling the cord but cannot ever find its end
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
پتہ یوں تو بتا دیتے ہو سب کو لا مکاں اپنا
pata yoon to bata dete ho sab ko la-makaan apna
Thus you tell everyone that your address is “nowhere”
تعجب ہے مگر رہتے ہو تم ٹوٹے ہوئے دل میں
ta’ajjub hai magar rehte ho tum toote hue dil mein
How amazing it is, though, that you live in a broken heart
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
jab ke tujh bin naheen koi maujood
When there is none except you in existence,
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
phir ye hangama ae Khuda kya hai
Then what, O God, is all this commotion about?
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
چھپتے نہیں ہو سامنے آتے نہیں ہو تم
chhupte naheen ho saamne aate naheen ho tum
You neither hide nor come forth
جلوہ دکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تم
jalwa dikha ke jalwa dikhaate naheen ho tum
Even when showing Yourself, You do not show Yourself
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم
dair-o-haram ke jhagre mitaate naheen ho tum
You do not wipe out quarrels between religions [the temple and mosque]
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم
jo asal baat hai wo bataate naheen ho tum
You do not say what the actual truth is
حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح
hairaan hoon mere dil mein samaaye ho kis tarah
I am surprised at how You have occupied my heart
حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم
haalaanke do jahaan mein samaate naheen ho tum
Though even the two worlds cannot accommodate You
یہ معبد و حرم یہ کلیسا و دیر کیوں
ye maabad-o-haram ye kaleesa-o-dair kyoon
Why this shrine and mosque, this church and temple?
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم
harjaaii ho jabhi to bataate naheen ho tum
Whenever there is disloyalty, You do not tell us
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
دل پہ حیرت نہیں عجب رنگ جما رکھا ہے
dil pe hairat naheen ajab rang jama rakha hai
It is not astonishment, but a wondrous color that has formed on my heart
اک الجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے
ek uljhi hui tasveer bana rakha hai
You have drawn up a confused picture
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکّر کیا ہے
kuchh samajh mein naheen aata ke ye chakkar kya hai
I do not understand what this whole matter is
کھیل کیا تم نے ازل سے یہ رچا رکھا ہے
khel kya tum ne azal se ye racha rakha hai
What is this game you have fabricated since eternity?
روح کو جسم کے پنجرے کا بنا کر قیدی
rooh ko jism ke pinjre ka bana kar qaidi
Having made the soul a prisoner to the body,
اس پہ پھر موت کا پہرا بھی بٹھا رکھا ہے
us pe phir maut ka pehra bhi bitha rakha hai
You have then placed it in the custody of death
دے کے تدبیر کے پنچھی کو اڑانیں تم نے
de ke tadbeer ke panchhi ko uraanen tum ne
Having given the bird of Your plan flights
دامِ تقدیر میں ہر سمت بچھا رکھا ہے
daam-e-taqdeer mein har samt bichha rakha hai
You have placed the trap of destiny for it on each side
کر کے آرائشیں کونین کی برسوں تم نے
kar ke aaraaishen kaunain ki barson tum ne
Having decorated the two worlds for eons
ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے
khatam karne ka bhi mansooba bana rakha hai
You have also established a plan for destruction
لا مکانی کا بہرحال ہے دعوہ بھی تمہیں
la-makaani ka bahar-haal hai daawa bhi tumhein
Though in any case you claim to be without a home
نَحْنُ اَقْرَب کا بھی پیغام سنا رکھا ہے
nahnu aqrab ka bhi paighaam suna rakha hai
You have also told us the message of “We are nearer…” [Qur’an 50:16]
یہ برائی وہ بھلائی یہ جہنم وہ بہشت
ye buraai wo bhalai ye jahannum wo bahisht
This badness, that goodness, this hell, that heaven
اس الٹ پھیر میں فرماؤ تو کیا رکھا ہے
is ulat pher mein farmaao to kya rakha hai
Do explain to me, what is the point of this jumbled mess?
جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو
jurm Aadam ne kiya aur saza beton ko
Adam sinned, yet his children were given the punishment
عدل و انصاف کا معیار بھی کیا رکھا ہے
adal-o-insaaf ka meyaar bhi kya rakha hai
What kind of standard of equity and justice have You kept?
دے کے انسان کو دنیا میں خلافت اپنی
de ke insaan ko dunya mein khilaafat apni
By giving mankind Your viceregency on Earth,
اک تماشہ سا زمانے میں بنا رکھا ہے
ik tamaasha sa zamaane mein bana rakha hai
You have created a spectacle in the world
اپنی پہچان کی خاطر ہے بنایا سب کو
apni pehchaan ki khaatir hai banaaya sab ko
You made everyone for the sake of recognizing You
سب کی نظروں سے مگر خود کو چھپا رکھا ہے
sab ki nazron se magar khud ko chhupa rakha hai
But You have hidden Yourself from everyone’s vision
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو
nit naye naqsh banaate ho mita dete ho
Continuously you make and erase new designs
جانے کس جرمِ تمنّا کی سزا دیتے ہو
jaane kis jurm-e-tamanna ki saza dete ho
Who knows which crime of desire You punish us for
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
kabhi kankar ko bana dete ho heere ki kani
At times you turn pebbles into a mine of diamonds
کبھی ہیروں کو بھی مٹّی میں ملا دیتے ہو
kabhi heeron ko bhi mitti mein mila dete ho
At times you merge even diamonds back into the soil
زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے
zindagi kitne hi murdon ko ata ki jis ne
He who gave life to so many corpses
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
wo maseeha bhi saleebon pe saja dete ho
Even that Messiah You adorn on crucifixes
خواہشِ دید جو کر بیٹھے سرِ طور کوئی
khwaahish-e-deed jo kar baithe sar-e-toor koi
If someone sits on Mount Sinai with the wish of seeing You
طور ہی برقِ تجلّی سے جلا دیتے ہو
toor hi barq-e-tajalli se jala dete ho
You burn Mount Sinai down with a bolt of brightness
نارِ نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
naar-e-Namrood mein dalwaate khud apna khaleel
You Yourself get Your friend [Abraham] thrown into the fire of Nimrod
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
khud hi phir naar ko gulzaar bana dete ho
But then You Yourself turn the fire into a bed of roses
چاہِ کنعان میں پھینکو کبھی ماہِ کنعاں
chaah-e-kanaan mein phenko kabhi maah-e-kanaan
You throw the Moon of Canaan [Joseph] into the well of Canaan
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
noor Yaaqoob ki aankhon ka bujha dete ho
You thereby extinguish the light from Jacob’s eyes [making him blind]
بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
becho Yoosuf ko kabhi misr ke baazaaron mein
Sometimes you sell Joseph in the bazaars of Egypt
آخر کار شہِ مصر بنا دیتے ہو
aakhir-kaar shah-e-misr bana dete ho
But ultimately you make him the king of Egypt
جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
jazb-o-masti ki jo manzil pe pohanchta hai koi
When one reaches the height of divine absorption and intoxication
بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو
baith kar dil mein ana-al haqq ki sada dete ho
Sitting in his heart, you give voice to the words “I am the truth!”
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
khud hi lagwaate ho phir kufr ke fatwe us par
Then You Yourself place charges of blasphemy on him
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
khud hi Mansoor ko sooli pe charha dete ho
You yourself make Mansoor hang by the noose
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
apni hasti bhi wo ik roz ganwa baithta hai
One day he too loses his life
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
apne darshan ki lagan jis ko laga dete ho
Whomever you give the desire of Your sight
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
koi Raanjha jo kabhi khoj mein nikle teri
If some Ranjha departs on a search for You
تم اسے جھنگ کے بیلے میں رلا دیتے ہو
tum use Jhang ke bele mein rula dete ho
You torment him in the forests of Jhang
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
justajoo le ke tumhaari jo chale Qais koi
If some Qais embarks on a quest for You,
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو
us ko Majnoon kisi Laila ka bana dete ho
You turn him into a madman for some Laila
جوت سسّی کے اگر من میں تمہاری جاگے
jot Sassi ke agar man mein tumhaari jaage
If love for You awakens in Sassi’s heart
تم اسے تپتے ہوئے تھل میں جلا دیتے ہو
tum use tapte hue thal mein jala dete ho
You burn her in the scorching desert
سوہنی گر تم کو مہینوال تصوّر کر لے
Sohni gar tum ko Maheenwaal tasawwur kar le
If Sohni imagines You as Mahiwal
اس کو بکھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
us ko bikhri hui lehron mein baha dete ho
You drown her in the frenzied waves
خود جو چاہو تو سرِ عرش بلا کر محبوب
khud jo chaho to sar-e-arsh bula kar mehboob
If You desire then You can summon Your beloved to the highest heavens
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
ek hi raat mein mairaaj kara dete ho
In just one night, you complete the Nightly Journey to Heaven [of Muhammad]
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
آپ ہی اپنا پردہ ہو
aap hi apna parda ho
You are Your own veil
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
جو کہتا ہوں مانا تمہیں لگتا ہے برا سا
jo kehta hoon maana tumhein lagta hai bura sa
Granted, what I say seems bad to You
پھر بھی ہے مجھے تم سے بہرحال گلا سا
phir bhi hai mujhe tum se bahar-haal gila sa
But still, I have a complaint to you in any case
چپ چاپ رہے دیکھتے تم عرشِ بریں پر
chup-chaap rahe dekhte tum arsh-e-bareen par
You remained quiet, looking from the Sublime Throne at
تپتے ہوئے کربل میں محمد کا نواسہ
tapte hue Karbal mein Muhammad ka nawaasa
Muhammad’s grandson [Hussein] in burning Karbala
کس طرح پلاتا تھا لہو اپنا وفا کا
kis tarah pilaata tha lahoo apna wafa ko
How he let his blood become a drink of loyalty
خود تین دنوں سے وہ اگرچہ تھا پیاسہ
khud teen dinon se wo agarche tha pyaasa
Even though he had been thirsty for three days
دشمن تو بہرحال تھے دشمن مگر افسوس
dushman to bahar-haal the dushman magar afsos
The enemy was, after all, the enemy – but how sad it is
تم نے بھی فراہم نہ کیا پانی ذرا سا
tum ne bhi faraaham na kiya paani zara sa
That You did not provide even a little bit of water
ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
har zulm ki taufeeq hai zaalim ki viraasat
The bounty for every cruelty is the inheritance of the oppressor
مظلوم کے حصّے میں تسلّی نہ دلاسہ
mazloom ke hisse mein tasalli na dilaasa
But the oppressed is given neither consolation nor comfort
کل تاج سجا دیکھا تھا جس شخص کے سر پر
kal taaj saja dekha tha jis shakhs ke sar par
Yesterday, the individual who had a crown adorning his head
ہے آج اسی شخص کے ہاتھوں میں ہکاسہ
hai aaj usi shakhs ke haathon mein hikaasa
Today I see a beggar’s bowl in the same individual’s hands
یہ کیا ہے اگر پوچھوں تو کہتے ہو جوابًا
ye kya hai agar poochhoon to kehte ho jawaaban
If I ask what all this is, You say in response:
اس راز سے ہو سکتا نہیں کوئی شناسا
is raaz se ho sakta naheen koi shanaasa
“No one can be acquainted with this secret!”
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
حیرت کی اک دنیا ہو
hairat ki ik dunya ho
You are a world of bewilderment
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
ہر ایک جا پہ ہو لیکن پتہ نہیں معلوم
har ek ja pe ho lekin pata naheen maaloom
You are in each and every place but I do not know your whereabouts
تمہارا نام سنا ہی نشاں نہیں معلوم
tumhaara naam suna hai nishaan naheen maaloom
I have heard your name, but your mark I do not know
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
دل سے ارمان جو نکل جائے تو جگنو ہو جائے
dil se armaan jo nikal jaaye to jugnoo ho jaaye
If a wish emerges from the heart it glows like a firefly
اور آنکھوں میں سمٹ آئے تو آنسو ہو جائے
aur aankhon mein simat aaye to aansoo ho jaaye
And if it condenses in the eyes it becomes tears [of joy]
جاپ یا ہو کا جو بیہو کرے ہو میں کھو کر
jaap ya hoo ka jo behoo kare hoo mein kho kar
By getting lost in Him [God] through the repeated chant of“Ya Hoo”
اس کو سلطانیاں مل جائیں وہ باہو ہو جائے
us ko sultaaniyaan mil jaaein wo Baahoo ho jaaye
One receives lordships and becomes like Sultan Bahoo
بال بیکا نہ کسی کا ہو چھری کے نیچے
baal bika na kisi ka ho chhuri ke neeche
Some receive not the slightest of injury under a knife
حلقِ اصغر میں کبھی تیر ترازو ہو جائے
halq-e-asghar mein kabhi teer taraazoo ho jaaye
But at times an arrow in Asghar’s throat becomes the scale [of justice]
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
کس قدر بےنیاز ہو تم بھی
kis qadar be-niyaaz ho tum bhi
How carefree You are, too!
داستانِ دراز ہو تم بھی
daastaan-e-daraaz ho tum bhi
A lengthy saga You are, too!
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
راہِ تحقیق میں ہر گام پہ الجھن دیکھوں
raah-e-tehqeeq mein har gaam pe uljhan dekhoon
On the path of inquiry, I see confusion at every footstep
وہی حالات و خیالات میں انبن دیکھوں
wahi haalaat-o-khayaalaat mein anban dekhoon
I see that discord between circumstances and ideas
بن کے رہ جاتا ہوں تصویر پریشانی کی
ban ke reh jaata hoon tasveer pareshaani ki
I become a picture of distress
غور سے جب بھی کبھی دنیا کے درپن دیکھوں
ghaur se jab bhi kabhi dunya ke darpan dekhoon
Whenever I closely look at the world’s mirror
ایک ہی خاک پہ فطرت کے تضادات اتنے
ek hi khaak pe fitrat ke tazaadaat itne
On one earth, there are so many conflicts of nature
اتنے حصّوں میں بنٹا ایک ہی آنگن دیکھوں
itne hisson mein banta ek hi aangan dekhoon
I see one courtyard divided into so many parts
کہیں زحمت کی سلگتی ہوئی پتجھڑ کا سما
kaheen zehmat ki sulagti hui patjhar ka sama
Somewhere there is the season of the burning autumn of hardship
کہیں رحمت کے برستے ہوئے ساون دیکھوں
kaheen rehmat ke baraste hue saawan dekhoon
Somewhere I see the descending monsoons of mercy
کہیں پھنکارتے دریا کہیں خاموش پہاڑ
kaheen phunkaarte darya kaheen khaamosh pahaar
Somewhere hissing rivers, somewhere silent mountains
کہیں جنگل کہیں صحرا کہیں گلشن دیکھوں
kaheen jangal kaheen sehra kaheen gulshan dekhoon
Somewhere jungle, somewhere desert, somewhere rose gardens I see
خون رلاتا ہے یہ تقسیم کا انداز مجھے
khoon rulaata hai ye taqseem ka andaaz mujhe
This manner of division makes me weep tears of blood
کوئی دھنوان یہاں پر کوئی نردھن دیکھوں
koi dhanwaan yahaan par koi nirdhan dekhoon
Here I see some rich, some poor
دن کے ہاتھوں میں فقط ایک سلگتا سورج
din ke haathon mein faqat ek sulagta sooraj
In day’s hands, there is only one smoldering sun
رات کی مانگ ستراوں سے مزیّن دیکھوں
raat ki maang sitaaron se muzayyan dekhoon
But I see that night’s part is bejeweled with many stars
کہیں مرجھائے ہوئے پھول ہیں سچّائی کے
kaheen murjhaaye hue phool hain sachaai ke
Somewhere there are the withered flowers of truth
اور کہیں جھوٹ کے کانٹوں پہ بھی جوبن دیکھوں
aur kaheen jhoot ke kaanton pe bhi joban dekhoon
And elsewhere I see the thorns of deceit flourishing
شمس کی کھال کہیں کھنچتی نظر آتی ہے
Shams ki khaal kaheen khinchti nazar aati hai
I see Shams’s skin being peeled off somewhere
کہیں سرمد کی اترتی ہوئی گردن دیکھوں
kaheen Sarmad ki utarti hui gardan dekhoon
Somewhere I see Sarmad’s head coming off
رات کیا شے ہے سویرا کیا ہے
raat kya shai hai savera kya hai
What is this thing called night, what is dawn?
یہ اجالا یہ اندھیرا کیا ہے
ye ujaala ye andhera kya hai
What is this light, what is this darkness?
میں بھی نائب ہوں تمہارا آخر
main bhi naaib hoon tumhaara aakhir
After all, I too am Your deputy
کیوں یہ کہتے ہو کہ تیرا کیا ہے
kyoon ye kehte ho ke tera kya hai
Why then do you say, “What is yours?”?
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
دیکھنے والا تجھے کیا دیکھتا
dekhne waala tujhe kya dekhta
What could someone looking for You see?
تو نے ہر رنگ سے پردہ کیا
tu ne har rang se parda kya
You have veiled Yourself in every manner!
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
مسجد مندر یہ مے خانے
masjid mandir ye mai-khaane
Mosque, temple, these taverns
کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے
koi ye maane koi wo maane
Some believe in this, some believe in that
سب تیرے ہیں جانا کاشانے
sab tere hain jaana kaashaane
All of them are Your home, Dear
کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے
koi ye maane koi wo maane
Some believe in this, some believe in that
اک ہونے کا تیرا قائل ہے
ik hone ka tera qaail hai
One is persuaded of Your existence
انکار پہ کوئی مائل ہے
inkaar pe koi maail hai
Another is inclined towards denial
اصلیت لیکن تو جانے
asliyat lekin tu jaane
But You alone know the reality
کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے
koi ye maane koi wo maane
Some believe in this, some believe in that
اک خلق میں شامل کرتا ہے
ik khalq mein shaamil karta hai
One includes You within creation
اک سب سے اکیلا رہتا ہے
ik sab se akela rehta hai
Another stays aloof from the rest
ہیں دونوں تیرے مستانے
hain donon tere mastaane
Both are Your drunken devotees
کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے
koi ye maane koi wo maane
Some believe in this, some believe in that
سب ہیں جب عاشق تمہارے نام کے
sab hain jab aashiq tumhaare naam ke
When all are lovers of Your name,
کیوں یہ جھگڑے ہیں رحیم و رام کے
kyoon ye jhagre hain Raheem-o-Raam ke
Why are there quarrels between Rahim and Ram [Muslims and Hindus]?
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
دیر میں تو حرم میں تو عرش پہ تو زمیں پہ تو
dair mein tu haram mein tu arsh pe tu zameen pe tu
You are in the temple, in the mosque, in the heavens, on the ground
جس کی پہنچ جہاں تلک اس کے لیے وہیں پہ تو
jis ki pohanch jahaan talak us ke liye waheen pe tu
However far one’s reach goes, You are there for him
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
ہر اک رنگ میں یکتا ہو
har ik rang mein yakta ho
In every possible aspect, You are unique
تم اک گورکھ دھندا ہو
tum ik gorakh dhanda ho
You are a baffling puzzle
مرکزِ جستجو عالمِ رنگ و بو
markaz-e-justajoo aalam-e-rang-o-boo
The center of our quest, the world of color and scent
دم بدم جلوہ گر تو ہی تو چار سو
dam-ba-dam jalwa-gar tu hi tu chaar soo
In every breath You are manifest, You are on all four sides
ہو کے ماحول میں کچھ نہیں الا ہو
Hoo ke maahaul mein kuchh naheen illa hoo
In God’s surroundings there is nothing but Him
تم بہت دلربا تم بہت خوبرو
tum bohat dilruba tum bohat khoobaroo
You are very enchanting, You are very beautiful
عرش کی عظمتیں فرش کی آبرو
arsh ki azmatein farsh ki aabroo
Glories of heaven, honor of earth
تم ہو کونین کا حاصلِ آرزو
tum ho kaunain ka haasil-e-aarzoo
You are the attainment of the desires of the two worlds
آنکھ نے کر لیا آنسوؤں سے وضو
aankh ne kar liya aansoo’on se wazoo
My eye has performed ablutions with tears
اب تو کر دو عـطا دید کا اک سبو
ab to kar do ata deed ka ik suboo
Now at least grant me a small proof of Your presence
آؤ پردے سے تم آنکھ کے روبرو
aao parde se tum aankh ke roo-ba-roo
Come out from Your veil, face-to-face with my eye
چند لمحے ملن دو گھڑی گفتگو
chand lamhe milan do ghari guftagoo
For a few moments of union, two hours of discussion
نازؔ جپتا پھرے جابجا کوبکو
Naaz japta phire ja-ba-ja koo-ba-koo
Naz will mutter in devotion, in every place and every alley,
وَحْدَہُ وَحْدَہُ لا شَریكَ لَهُ
wahdahoo wahdahoo la shareeka lahoo
“He is one, He is one, He has no partner!
اللہ هو اللہ هو اللہ هو اللہ هو
Allah hoo Allah hoo Allah hoo Allah hoo
God is, God is, God is, God is!”
88 notes
·
View notes
حضرت ابراہیم علیہ سلام!
انکی قوم نے سورج چاند کو ہی اصل سمجھ لیا۔۔علم نجوم کی مسخ شدہ شکل ختم کی۔۔اور اب سے پہلے بتا کہ انسان خود directly اللہ سے جڑ سکتا ہے اسکو کسی واسطے کی ضرورت نہیں۔بیت الشمس اور بیت القمر کی جگہ بیت المقدس اور بیت الحرم بنایا۔
■انسانی فطرت،جبلت کیا ہے؟ یہ مالاکیت اور بہیمیت کے ملاپ سے بنتی ہے اور اسکی 8 اقسام ہیں۔۔مثال:جیسے بہادری خلق کی 5 اقسام 1۔بندہ abnormal یعنی اس میں بہادری نہیں آسکتی مخنث 2۔بہادری کم درجے کی ریاضت کرتا ہے مشقت بھی بہادر ہونے کے لیے 3۔متوسط کم مشقت کرنی پڑتی ہے 4۔بہادر ہوتا ہے 5۔شدید بہادر جو کسی کے کہنے سے رکتا نہیں unique or ideal ہوتا ہے۔اسی طرح انسانی جبلت کی اقسام ہیں:
1۔پیدائیشی کافر، اللہ کی طرف رجوع ہی نہیں کر سکتا۔کیوں وہاں اللہ پاس جب کہا الست رب وہاں صرف روح تھی لیکن اس دنیا میں پھر اسکا بہیمی خارجی وجود بنا جس نے روحانیت کو چھپادیاabnormal ہوگیا۔ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور لوگوں کو انبیاء نے ختم کیا ہے2۔ پھر 3۔ متوسطہ ہیں۔4۔انبیاء ہیں جن کو حضرت ابراہیم کی اتباع کرنے کا حکم دیا۔5۔ابراہیم فطرت انسانیت کے امام۔۔
انسان حیوان خواص(آدم)،انسانی(ادریس انسانی والا غلبہ) اور ذاتی/شخصی(نوح کا تھا) خواص کا مجموعہ اب جب تشخص مکمل ہوا تو اسکا وجود روحانی(ابراہیم)، مثالی(عیسی')، خارجی (دو دائرے1۔حدت/شدت •موسی'2۔ ٹھراو •دائود) بنا۔ اور ان سب مزاجوں کا مجموعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اب یہاں ترقی ہوئی مدد اب مالائے اعلاء سے شروع ہوئی۔ انکی زندگی میں جو واقعات آئے وہ انکی تکمیل کے تھے۔ ملت حنیفیت بنائی۔
علم الفطرت کی حیثیت سے امام شاہ نے 3 خصوصیت بتائیں ابراہیم علیہ سلام کی۔
1۔انہوں نے خود عبادت کیا ہےاور اس کے طریقے بتائے۔ چاند،سورج خدا نہیں عقلی بنیاد پر سوچ کر عبادت کا معیار رکھا اور توحیدوحنیفیت کا بتایا۔پھر طریقے میں نماز سکھائی اور اللہ کا گھر بنایا عبادت کے حصول کے لیے۔ ارتفاقات میں قتل سے بچنا شرک سے بچنا وغیرہ کی تعلیم سکھائی۔حکمت(ہر چیز کا اپنی اپنی اصل جگہ پررکھ کر اسکا معرفت اور شعور حاصل کرنااور انکی اجماعیت سے انسانیت کی نفع سوچنا) کے اعلی مقام پر فائز ہو گئے کیوں کہ اللہ پاک نے ہر چیز کا مشاہدہ کرا دیا انکو۔ اب حکمت اور عقل کے طور پر لوگوں کو سمجھایا کہ یہ چاند کیسے خدا ہوسکتا ہے خدا تو وہ ہونا چاہیے جو ہر وقت ہو۔سوال اٹھایا کہ غوروفکر کرو ۔اب ہر چیز کے پیچھے منبہ اور مرکز اللہ کی ذات ہے(حنیف) انہوں نے کہا کہ میں ان میں سے کسی کو خدا کا شریک نہیں بناتا یہ اللہ کے حکم کے ماتحت ہیں۔ قوم کی خرابی یہ تھی کہ وہ اللہ کو تو مانتے تھے لیکن ان چیزوں کو اللہ کا شریک بناتے تھے۔
۔۔۔دوسرا واقعہ کہ ابراہیم میں غیرت ۔۔یہ غیرت انکو اللہ سے ملی تھی(فطرت انسانی حدیث:کہ کہاکہ سعد غیرت مند ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے زیادہ میں ہوں اور مجھ سے زیادہ اللہ ہے۔۔اللہ شرک کو معاف نہیں کرے گا۔) شدیدہ پیدا ہوئی اب انکی قوم نے ارضی قوتوں کو خدا بنا لیا، بے روح بت،پانی آگ جن ڈرتے تھے یا کوئی چیز فائدہ دیتی تھی۔
اب اک انہوں نے حکمت کے تحت بت توڑ دیے۔بتوں سے پہلے کہا کہ کھاتے اور بولتے کیوں نہیں ہو۔کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا۔۔۔عوامی قوت ساتھ ملائی۔۔اور عقلی سوال کیے۔اب وہ خاموش انہوں نے کہا ابراہیم کو آگ میں ڈال دو۔ابراہیم اگر جل گئے تو گویا انسانیت جل گئی۔ابھی پورا نظام بنانا ہے اسماعیل تحریک وغیرہ۔ارادہ ہوا اللہ پاک کا تمام قوتیں حرکت میں اللہ کا نظام تدبیر ہوا 4۔قبض (آگ کی تپش کم ہوئی)،بست(ٹھنڈی ہوا آئی)،اہالا،الہام(فرشتے اورجانوروغیرہ آئے آگ بجھانے)۔پھر صرف 3 لوگ ایمان لائے انکے بھتیجے لوط،سارہ۔۔اس بستی کو چھوڑ کر پھر ہجرت کی۔
1 note
·
View note
ضابطہ ...... حبیب جالب
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل
یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل
یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازو ۓ قاتل
یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ دل
یہ ضابطہ ہے کہ غم کو نہ غم کہا جاۓ
یہ ضابطہ ہے ستم کو کرم کہا جاۓ
بیاں کروں نہ کبھی اپنی دل کی حالت کو
نہ لاؤں لب پہ کبھی شکوہ و شکایت کو
کمالِ حسن کہوں عیب کو جہالت کو
جگاؤں نہ سوئ ہوئ عدالت کو
یہ ضابطہ ہے حقیقت کو اک فسانہ کہوں
یہ ضابطہ ہے قفس کو بھی آشیانہ کہوں
یہ ضابطہ ہے کہوں دشت کو گلستاں زار
خزاں کے روپ کو لکھوں فروغ حسن بہار
ہر ایک دشمن جاں کو کہوں میں ہمدم و یار
جو کاٹتی ہے سرِ حق، وہ چوم لوں تلوار
خطا و جرم کہوں اپنی بے گناہی کو
سحر کا نور لکھوں رات کی سیاہی کو
جو مٹنے والے ہیں ان کے لیۓ دوام لکھوں
ثناء یزید کی اور شمر پر سلام لکھوں
جو ڈس رہا ہے وطن کو نہ اس کا نام لکھوں
سمجھ سکیں نہ جسے لوگ وہ کلام لکھوں
دروغ گو ئ کو سچائ کا پیام کہوں
جو راہ زن ہے اسے رہبر عوام کہوں
میرے جنوں کو نہ پہنا سکو گے تم زنجیر
نہ ہو سکے گا کبھی تم سے میرا ذہن اسیر
جو دیکھتا ہوں جو سچ ہے کروں گا وہ تحریر
متاع ہر دو جہاں بھی نہیں بہاۓ ضمیر
نہ دے سکے گی سہارا تمہیں کو ئ تدبیر
فنا تمہارا مقدر بقا میری تقدیر
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جاۓ گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جاۓ گا
اگر ہے فکر گریباں تو گھر میں جا بیٹھو
یہ وہ عذاب ہے دیوانگی سے جاۓ گا
بجھے چراغ، لٹیں عصمتیں، چمن اجڑ ا
یہ رنج جس نے دیۓ کب خوشی سے جاۓ گا
جیو ہماری طرح سے مرو ہماری طرح
نظام زر تو اسی سادگی سے جاۓ گا
جگا نہ شہہ کے مصاحب کو نیند سے جالب
اگر وہ جاگ اٹھا نو کری سے جاۓ گا
13 notes
·
View notes
تم اک گورکھ دھندہ ہو
کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے، پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جَا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
ہر ذرے میں کس شان سے تُو جلوہ نما ہے
حیراں ہے مگر عقل کہ کیسا ہے تُو کیا ہے
تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈا تُو نہیں ملتا
مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دِل میں دیکھا ہے
ڈھونڈے نہیں ملتے ہو، نا ڈھونڈے سے کہیں تم
اور پھر یہ تماشا ہے کہ جہاں ہم ہیں وہیں تم
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
حرم و دیر میں ہے جلوۂ پُر فن تیرا
دو گھروں کا ہے چراغِ رُخِ روشن تیرا
تم اک گورکھ دھندہ ہو
جو اُلفت میں تمہاری کھو گیا ہے
اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے
نہ بُت خانے نہ کعبے میں ملا ہے
مگر ٹُوٹے ہوئے دِل میں ملا ہے
عَدم بن کر کہیں تُو چھپ گیا ہے
کہیں تُو ہست بن کر آ گیا ہے
نہیں ہے تُو، تو پھر انکار کیسا
نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ تُو نہیں تو اور کیا ہے
نہیں آیا خیالوں میں اگر تُو
تو پھر میں کیسے سمجھا تُو خدا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو، کیا ہو
ہاتھ آؤ تو بُت، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
عقل میں جو گھِر گیا، لا انتہا کیونکر ہوا
جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا
فلسفی کو بھیس کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
پتہ یُوں تو بتا دیتے ہو سب کو لا مکاں اپنا
تعجب ہے مگر رہتے ہو تم ٹُوٹے ہوئے دِل میں
جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خُدا کیا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
چھُپتے نہیں ہو، سامنے آتے نہیں ہو تم
جلوہ دکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تم
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم
حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح
حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم
یہ معبد و حرم، یہ کلیسا و دیر کیوں
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم
تم اک گورکھ دھندہ ہو
دل پہ حیرت نے عجب رنگ جما رکھا ہے
ایک اُلجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکر کیا ہے
کھیل کیا تم نے ازل سے یہ رچا رکھا ہے
روح کو جسم کے پنجرے کا بنا کر قیدی
اس پہ پھر موت کا پہرہ بھی بٹھا رکھا ہے
دے کہ تدبیر کے پنچھی کو اڑانیں تم نے
دام تقدیر بھی ہر سمت بچھا رکھا ہے
کر کے آرائشیں کونین کی برسوں تم نے
ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے
لامکانی کا بہر حال ہے دعویٰ بھی تمہیں
نَحنُ اَقرَب کا بھی پیغام سنا رکھا ہے
یہ برائی، وہ بھلائی، یہ جہنم، وہ بہشت
اس اُلٹ پھیر میں فرماؤ تو کیا رکھا ہے
جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو
عدل و انصاف کا معیار بھی کیا رکھا ہے
دے کے انسان کو دنیا میں خلافت اپنی
اک تماشا سا زمانے میں بنا رکھا ہے
اپنی پہچان کی خاطر ہے بنایا سب کو
سب کی نظروں سے مگر خود کو چھپا رکھا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
نت نئے نقش بناتے ہو، مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مُردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سرِ طور کوئی
طور ہی، برقِ تجلی سے جلا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہِ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بُجھا دیتے ہو
بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو
جذب ومستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں اَنا الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کُفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں رُلا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو
جوت سسّی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہینوال تصور کر لے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
جو کہتا ہوں مانا تمہیں لگتا ہے برا سا
پھر بھی ہے مجھے تم سے بہر حال گِلہ سا
چُپ چاپ رہے دیکھتے تم عرشِ بریں پر
تپتے ہوئے کربل میں محمد کا نواسہ
کس طرح پلاتا تھا لہو اپنا وفا کو
خود تین دنوں سے وہ اگر چہ تھا پیاسا
دشمن تو بہر طور تھے دشمن مگر افسوس
تم نے بھی فراہم نہ کیا پانی ذرا سا
ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسا
کل تاج سجا دیکھا تھا جس شخص کے سر پر
ہے آج اسی شخص کے ہاتھوں میں ہی کاسہ
یہ کیا ہے اگر پوچھوں تو کہتے ہو جواباً
اس راز سے ہو سکتا نہیں کوئی شناسا
حیرت کی اِک دُنیا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
ہر ایک جا پہ ہو لیکن پتہ نہیں معلوم
تمہارا نام سُنا ہے نشاں نہیں معلوم
دِل سے ارمان جو نکل جائے تو جگنو ہو جائے
اور آنکھوں میں سمٹ آئے تو آنسو ہو جائے
جاپ یا ہُو کا جو بے ہُو کرے ہُو میں کھو کر
اس کو سلطانیاں مل جائیں وہ با ہُو جائے
بال بِکا نہ کسی کا ہو چھری کے نیچے
حلقِ اصغر میں کبھی تِیر ترازو ہو جائے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
کس قدر بے نیاز ہو تم بھی
داستانِ دراز ہو تم بھی
راہِ تحقیق میں ہر گام پہ اُلجھن دیکھوں
وہی حالات و خیالات میں اَن بَن دیکھوں
بن کے رہ جاتا ہوں تصویر پریشانی کی
غور سے جب بھی کبھی دنیا کا درپن دیکھوں
ایک ہی خاک سے فطرت کے تضادات اتنے
کتنے حصوں میں بٹا ایک ہی آنگن دیکھوں
کہیں زحمت کی سلگتی ہوئی پت جھڑ کا سماں
کہیں رحمت کے برستے ہوئے ساون دیکھوں
کہیں پھُنکارتے دریا، کہیں خاموش پہاڑ
کہیں جنگل، کہیں صحرا، کہیں گلشن دیکھوں
خوں رُلاتا ہے یہ تقسیم کا انداز مجھے
کوئی دھنوان یہاں پر کوئی نرِدھن دیکھوں
دن کے ہاتھوں میں فقط ایک سلُگتا سورج
رات کی مانگ ستاروں سے مزیّن دیکھوں
کہیں مُرجھائے ہوئے پھول ہیں سچائی کے
اور کہیں جھوٹ کے کانٹوں پہ بھی جوبَن دیکھوں
شمس کی کھال کہیں کھینچتی نظر آتی ہے
کہیں سرمد کی اترتی ہوئی گردن دیکھوں
رات کیا شئے ہے سویرا کیا ہے
اجالا یہ اندھیرا کیا ہے
میں بھی نائب ہوں تمہارا آخر
کیوں یہ کہتے ہو کہ تیرا کیا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
مسجد، مندر، یہ میخانے
کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے
سب تیرے ہیں جاناں کاشانے
کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے
کوئی ہونے کا تیرے قائل ہے
اِنکار پہ کوئی مائل ہے
اک خلق میں شامل کرتا ہے
اک سب سے اکیلا رکھتا ہے
ہیں دونوں تیرے مستانے
کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے
سب ہیں جب عاشق تمہارے نام کے
کیوں یہ جھگڑے ہیں رحیم و رام کے
دہر میں تُو، حرم میں تُو
عرش پہ تُو، زمیں پہ تُو
جس کی پہنچ جہاں تلک
اس کے لیے وہیں پہ تُو
ہر ایک رنگ میں یکتا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
مرکزِ جُستجو عالم رنگ و بُو
دم بدم جلوہ گر، تُو ہی تُو چار سُو
ہُو ماحول میں کچھ نہیں اِلّا ھُو
تم بہت دِلرُبا، تم بہت خُوبرو
عرش کی عظمتیں فرش کی آبرُو
تم ہو کونین کا حاصلِ آرزو
آنکھ نے کر لیا آنسوؤں سے وضو
اب تو کر دو عطا دید کا اک سبُو
آؤ پردے سے تم آنکھ کے رُو برُو
چند لمحے مِلن، دو گھڑی گفتگو
نازؔ جپَتا پھِرے جا بجا، کُو بکُو
وَحدہ وَحدہ لا شریکَ لہ
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
12 notes
·
View notes
بالیاژ نقره ای : برای گفتن - که دختری هست که از من خوشش می آید، می ترسم. "من نمی خواهم کنجکاو باشم، اما آیا او در این کشور است؟" از لوگان پرسید. «نه؛ او در هامبورگ است. "خیلی پیش رفته؟" آیا شما چیزی گفته اید؟ از لوگان پرسید. «نه؛ پدرم آن را دوست نداشت امیدوار بودم.
رنگ مو : که شما در درون و برون خود هستید لوگان گفت: خلق و خوی. "چرا، می دانید، من در یک مکان معمولی تنگ هستم. من نه نحوه قرار دادن آن را بلد باشید می بینید، من نمی توانم فکر نکنم که - من به جای خودم متعهد شده ام. به نظر می رسد این یک چیز متکبرانه وحشیانه است.
بالیاژ نقره ای
بالیاژ نقره ای : او را بیاورم گرد.' پ. 140«تو را دارم نوشته چیزی دارید. آیا مکاتبه دارید؟” "نه، اما می ترسم زیاد نگاه داشته باشم." همانطور که چشمان ویسکونت اسکرمرستون به هیچ وجه مناسب نبود برای بیان با نیروی مغناطیسی زبان محبت ها، لوگان باید دستور لبخندش را می داد. "اما چرا نظرت را عوض کردی.
لینک مفید : بالیاژ مو
اگر او را دوست داشتی؟" او درخواست کرد. "اوه، شما خیلی خوب می دانید! آیا کسی می تواند او را ببیند و اسکریمرستون با ابهامی در ضمایر خود گفت: اما با اشاره به خانم ویلوبی. لوگان مایل بود پاسخ دهد که می تواند در دست اول ارائه دهد.
بالیاژ نقره ای : یک استثنا از قاعده، اما این بی تدبیر به نظر می رسید. "به جرأت می گویم هیچ کس که محبت هایش از قبل درگیر نشده باشد، می توانست بدون دوست داشتن او را ببیند. اما من فکر می کردم که شما نامزد کرده اید به خانمی که اکنون در هامبورگ است؟ اسکریمرستون بدبخت گفت: «من هم همینطور، اما من اشتباه کردم.
لینک مفید : بالیاژ دودی صدفی
اوه، لوگان، شما تفاوت را نمی دانید! نجیب زاده رنج دیده خاطرنشان کرد: این بیز واقعی است. سادگی بسیار او ادامه داد: «پس پدرم، تو او را بشناس او مخالف ماجرای دیگر بود، اما اگر فکر کند من خود را متعهد کردهام و سپس میخواهم با ایدههای او عقبنشینی کنم، او ترجیح می دهد.
بالیاژ نقره ای : مرا مرده ببیند اما من نمی توانم با آن ادامه دهم چیز دیگر اکنون: من به سادگی نمیتوانم نمیتوانم. من ذهن خوبی دارم به دنبال ��رگوش ها بروم و خودم را در حال خزیدن در پرچین قرار دهم.» لوگان گفت: "اوه، مزخرف!" که کهنه است و زیادی. با همه چیزهایی که می بینم، هیچ آسیبی وارد نشده است.
لینک مفید : بالیاژ چانک لایت
خانم جوان، به آن وابسته است، نمی شکندپ. 141او قلب. در واقع، آنها این کار را نمی کنند—ما این کار را نمی کنند. فقط باید محکم بنشینی تو بیش از من متعهد نیستی. فقط اگر می رفتی و خودت را متعهد می کردی هر دو را بدبخت می کردی در حال حاضر، زمانی که شما نمی خواهید آن را انجام دهید.
بالیاژ نقره ای : من در موقعیت شما مطمئناً محکم بنشین: خودت را متعهد نکن - چه اینجا و چه به اصطلاح وجود دارد. یا اگر نمی توانید محکم بنشینید، یک پیچ برای آن بسازید آی تی. برو نروژ من به شدت معتقدم که طرح دوم بهترین است اما، به هر حال، به کار خود ادامه دهید.
لینک مفید : لایت بالیاژ چیست
شما خوب هستید - من به شما قول می دهم که فکر می کنم همه شما هستید درست است.’ اسکریمرستون گفت: "ممنون، خروس پیر." 'متاسف حوصله شما را سر بردم، اما باید با کسی صحبت کنم.’ * * * * * * لوگان گفت: بهترین کاری که می توانید انجام دهید.
بالیاژ نقره ای : شما احساس خیلی بهتری داشته باشید این نوع نگرانی از نگهداری ناشی می شود چیزهایی برای خود، تا زمانی که خال ها به کوه نگاه کنند. اگر دوست دارید من خودم با شما به نروژ خواهم رفت.» اسکریمرستون گفت: "ممنون، وحشتناک،" اما به نظر نمی رسید.
لینک مفید : بالیاژ نقره ای دودی
بسیار مشتاق. بیچاره اسکریمرستون کوچولو! لوگان از کنار رودخانه تا خانه را «سینه» کرد. چکمههای او سنگین بودند، زیرا دو بار در بالای آن قرار گرفته بود. سبد او که فنویک پشت سرش حمل می کرد سنگین بود، اما سبک بود قلب لوگان، چون قاتل ده ها قزل آلای خوبش را کشته بود.
بالیاژ نقره ای : او و نگهبان از چوب در سطح چمن بیرون آمدند. تمام انبوه خانه تاریک جلوی آنها افتاده بود. لوگان بود اجازه دادن به خود را از پنجره قفل فرانسوی; چون خیلی دیر شده بود - حدود دو بامداد پ. 142او کلید درب پنجره را در جیبش داشت. نوری عبور کرد گالری طولانی: دید که از هر پنجره می گذرد و ناپدید می شود.
لینک مفید : فرق سامبره و بالیاژ و لایت
آنجا سکوت مرده بود: یک برگ هم زده نشد. سپس صدای تپانچه بلند شد، یا دو تپانچه بود؟ لوگان به سمت پنجره دوید، میله اش، که بعد از ماهیگیری در دستش پایین آورده بود. "فنویک سریع به سمت در پشتی برو!" او گفت. و فنویک، به پایین پرتاب شد، اما با چنگ زدن به تور بلند فرود، پرواز کرد راه عقب لوگان پنجره اتاق پذیرایی را باز کرد.
بالیاژ نقره ای : پنجره اتاق را بیرون آورد جعبه کبریت، با زنگ های لرزان، شمعی روشن کرد، و با شمع در یک دست، میله در دست دیگر، با سرعت از طریق سالن، و در طول یک گذرگاه پشتی که به اتاق اسلحه منتهی می شود. او یک نگاه اجمالی گرفته بود ارل از راه پله اصلی پایین می دوید و حدس زده بود.
لینک مفید : بالیاژ لایت
که مشکل در طبقه همکف بود همانطور که او به پایان رسید گذرگاه تاریک طولانی، فنویک از در ورودی پشتی، که از آن عبور کرد، پرید در باز بود چیزی که لوگان دید یک گروه در حال چرخش بود شاهزاده اسکالاسترو در آغوش سه مرد مبارزه می کند: یک سفید بلند پشته در گوشه ای مچاله شده بود.
بالیاژ نقره ای : فنویک در این لحظه پرتاب کرد توری بالای سر یکی از مهاجمان شاهزاده، و با چرخشی، مرد را نیمه خفه و ناتوان نگه داشت. فنویک به چرخش ادامه داد.
لینک مفید : بالیاژ و امبره و سامبره
با اهرم محور بلند تور، بدبخت را از شاهزاده بیرون کشید و پایین انداخت. یکی دیگر از مردها با قسمی بلند به سمت لوگان چرخید و داشت بلند می شد.
بالیاژ نقره ای : یک تپانچه لوگان بالاخره صدا را شناخت - اکنون یسوعی را شناخت او گریه کرد و با تمام وجود پرید قدرت و سرعت یک شمشیرباز متخصص، در پ. 143را صورت همکار با نوک میله اتصالات فلزی کلیک کرد و از دهان مرد برخورد کرد.
0 notes
چند اعلیٰ معلوماتی کتب : ڈاکٹر عبدالقدیر خان
لوگوں کی لاپروائی اور حکومت کی نااہلی سے کورونا وائرس خوب پھیل گیا ہے اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور عوام مرتے (شہید ہوتے) جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں حکومت کی بہترین پالیسی یہ ہونا چاہئے کہ تمام ٹی وی چینلز سے احتیاطی تدابیر نشر کرتی رہے، جو ماسک نہ پہنے اس کو بند کر دیں لیکن کاروبار مکمل کھول دیا جائے۔ دکاندار بھی ماسک لگائیں اور دستانے پہن کر کام کریں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی رحلت فرماتا ہے تو پھر یہ قدرت کا اپنے کام کی تکمیل ہے اور اللہ رب العزّت کے احکامات کی تعمیل ہے۔ ملک میں لاتعداد خود ساختہ ماہرین موجود ہیں جو ہدایات، احکامات دے رہے ہیں۔ جب افسران اور وزیراعظم ماسک نہ لگائیں تو عوام کیوں لگائیں گے۔ چلئے یہ باتیں چھوڑ کر چند اعلیٰ، معلوماتی کتب پر تبصرہ کرتے ہیں۔
1۔ پہلی کتاب ہے The Art of Craft of Management (انتظامیہ کیلئے ہنرمندی اور تدبیر)۔ اس کتاب کے مصنف مشہور بینکر جناب سراج الدین عزیز ہیں۔ یہ نہایت اعلیٰ بینکر اور منتظم رہے ہیں۔ بینکنگ کی دنیا میں آپ کا اعلیٰ مقام ہے۔ آپ دراز قد، چُست، خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ آپ یورپین ہیں۔ آپ اعلیٰ مقرر ہیں اور حاضرین کو مسحور کر دیتے ہیں۔ ایک اعلیٰ بینکر کی حیثیت سے آپ نے افریقہ، یورپ، امارات، چین میں اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں۔ آپ کی بہترین صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر ایک یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی ہے۔ خوش قسمتی سے میں اس کانوکیشن میں مہمانِ خصوصی تھا۔ یہ کتاب سراج بھائی کے جواہر پاروں سے پُر ہے۔ یہ ایک خوبصورت، خوشبودار پھولوں کے گلدستے کی طرح ہے، ایک خزینہ معلومات و ہدایات ہے۔
اس میں سراج بھائی نے اپنے تجربوں اور عقل و فہم کے موتی بکھیر دیے ہیں۔ کتاب میں 55 مضامین ہیں اور سب کے سب نہایت اعلیٰ اور ہدایت آمیز ہیں۔ جب تک آپ اس کتاب کا مطالعہ نہیں کریں گے آپ اس کی بہتری اور خوبصورتی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ آپ خاموشی سے بیٹھ کر اس کا مطالعہ کریں اور ہر نصیحت و ہدایت کو یاد رکھیں۔ چند دن پیشتر 8 جون 2020ء کے روزنامہ دی نیوز میں سراج بھائی نے ایک نہایت اعلیٰ مضمون بعنوان ’کیوں ریٹائر ہو‘ لکھا تھا‘ میں نے اس کو نہایت شوق و دلچسپی سے پڑھا۔ یہ آرٹیکل ایک ہدایت نامہ ہے۔ سراج بھائی نے مثالوں سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تجربہ کار سمجھدار لوگوں کو انسٹھ، ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر نہیں کرنا چاہئے، اب مغربی ممالک میں بھی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جا رہی ہے۔
میں بھی یہ عرض کروں گا کہ آپ ریکارڈ دیکھ لیں کہ نوبیل انعام یافتہ لوگوں کی عمر ساٹھ، ستر سال سے بھی اوپر رہی ہے۔ یعنی 60 سال اور اس کے بعد ہی انسان صحیح معنوں میں عقل و فہم کا ستارہ بنتا ہے۔ میں نے کہوٹہ میں اپنے رفقائے کار کو ستر، ستر برس تک روکے رکھا۔ مجھے اس معاملے میں حکومت کی جانب سے اختیار دیا گیا تھا۔ میں دوسرے اداروں سے ریٹائر ہونے والے اچھے، تجربہ کار لوگوں کو اپنے پاس بلا لیتا تھا، یہ افراد ہیرا تھے۔ یہ آرٹیکل حکومتی سربراہوں کے لئے نہایت مفید مشوروں سے پُر ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ سیاست دان، حکمران طبقہ اس وہم میں مبتلا رہتا ہے کہ تمام عقل و فہم اس کرسی میں ہے جس پر وہ بیٹھ جاتے ہیں اور وہ فوراً ان میں منتقل ہو جاتی ہے۔
2۔ دوسری کتاب انتہائی اہم اسلامی معلومات اور حیات رسولﷺ پر ہے جو پروفیسر ڈاکٹر طارق رمضان نے تحریر کی ہے۔ پروفیسر طارق رمضان ایک اعلیٰ دینی اسکالر ہیں، عربی، انگریزی پر عبور حاصل ہے۔ آپ نے جنیوا سے عربی اور اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ بعد میں آپ نے جامعۃ الازہر میں خاصا وقت گزارا اور اسلام کی موشگافیوں سے شناسائی حاصل کی۔ بعد میں سوئٹزر لینڈ کی فرائی برگ یونیورسٹی میں درس دیا۔ بعد میں آپ کیمبرج یونیورسٹی کے سینٹ انٹونی کالج میں سینئر ریسرچ فیلو تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر طارق رمضان نے حیات رسولﷺ کے مختلف پہلوئوں پر بہت اچھے مضامین لکھے ہیں، یہ کتاب، مختصر سہی مگر بہت مفید ہے اور سیرت طیبہ پر ایک قیمتی اضافہ ہے۔ پروفیسر طارق رمضان ایک اعلیٰ تحریر داں ہیں اور آپ نے اسلام، سیرت طیبہ پر بہت سے مضامین لکھ کر اسلام کی اعلیٰ خدمت کی ہے۔ آپ کو ان کی تحریروں سے فوراً یہ یقین ہو جاتا ہے کہ آپ ہمارے پیارے رسولﷺ سے کس قدر محبت رکھتے ہیں۔ انہیں ایک امریکی یونیورسٹی سے پروفیسر شپ کا دعوت نامہ آیا تھا مگر آزادیٔ تقریر و تحریر کے علم برداروں نے ان کو ویزا نہیں دیا۔
3۔ تیسری کتاب ’’A bridged Biography of Prophet Muhammad‘‘ (ایک مختصر سوانح حیات رسولﷺ) ہے اس کو امام محمد ابن عبدالوہاب ال تمیمی نے تحریر کیا ہے اور یہ لاہور سے شائع کی گئی ہے۔ یہ نہایت اعلیٰ، مکمل مگر مختصر رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ پر کتاب ہے اور آپﷺ کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتی ہے۔ چونکہ یہ کتاب آسان انگریزی میں نہایت آسان و موثر طریقے سے حیات طیبہ پر لکھی گئی ہے اس لئے یہ غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لئے بہت اہم ہے وہاں وہ خود بھی پڑھ سکتے ہیں اور خاص طور پر بچوں کو بھی پڑھا سکتے ہیں۔ میرا مشورہ تو یہی ہے کہ ہر تارک وطن فیملی کے گھر میں یہ کتاب ہونی چاہئے اور بچوں کو پڑھانی چاہئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
حکایت رومی:
سبق:
1. چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت کا کفارہ ہے۔ مفہوم حدیث
2. اللہ تعالیٰ کی عطا پر راضی رہو اور ہر چیز حاصل کرنے کی خواہش نہ کرو.
3. سنت الٰہیہ اور ہمارے لیے مقام غور و فکر۔
امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے درخواست کی کہ اُسے چوپایوں اور پرندوں کی بولی سکھا دیں۔ آپ نے اُسے منع کیا کہ یہ بات خطرناک ہے۔وہ اس سے باز رہے۔ اُس نے اسرار کیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُسے کتے اور مرغے کی بولی سکھا دی۔ صبح کے وقت اُس کی خادمہ نے دسترخوان جھاڑا تو باسی روٹی کا ٹکڑا گرا مرغ نے اُس ٹکڑے کو اُٹھا لیا۔ کتا مرغ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ مرغ تو دانا بھی چگ سکتا ہے اور کتا دانا کھانے سے عاجز ہے لہٰذا مرغ وہ روٹی کا ٹکڑا اُسے دے دے۔مرغ نے کتے سے کہا کہ چُپ ہو جا غم نہ کر آقا کا گھوڑا کل مر جائے گا۔ تجھے اللہ پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا۔ مالک اُن کی بولی سمجھ رہا تھا اُس نے گھوڑا فروخت کر دیا اور اپنے آپ کو نقصان سے بچا لیا۔ دوسرے دن بھی مرغ روٹی لے اُڑا اور گھوڑا نہ مرا تو کتے نے مرغ سے شکایت کی کہ وہ جھوٹا ہے اور کتے کو بھوک سے دو چار کر دیا ہے۔ مرغ نے کتے کو تسلی دی کہ گھوڑا مرا تو ہے لیکن دوسرے گھر میں ۔ فکر نہ کر کل مالک کا خچر مر جائے گا اور اُسے صرف کتے ہی کھا سکیں گے۔
مالک جو اُن کی بولی سمجھ رہا تھا اُس نے خچر بھی فروخت کر دیا اور دوسرے نقصان سے بھی خود کو بچا لیا۔دوسرے دن خچر کے مرنے کا واقعہ نہ ہوا تو کتے نے مرغ سے سخت شکایت کی کہ تجھے آئندہ کی کوئی خبر نہیں ہوتی ، ڈینگیں مارتا رہتا ہے تو جھوٹا ہے۔مرغ نے کہا کہ ایسا نہیں خچر دوسری جگہ جا کر مر گیا ہے۔ کل اس کا غلام بیمار پڑے گا اور جب وہ مرے گا تو یہ کتوں اور مانگنے والوں کو روٹیاں کھلائے گا۔ مالک نے یہ سنا اور غلام فروخت کر دیا اور دل میں بڑا خوش ہوا کہ اُس نے کتے اور مرغے کی بولی سیکھ کر بڑی دانائی اور حکمت سے کام لیا ہے اور کس طرح تین نقصان اپنی دانائی سے ٹال دیئے۔ تیسرے دن اُس محروم کتے نے مرغ سے شدید شکایت کی، اُسے جھوٹا ، فریبی اور دغا باز کہا۔ مرغ نے کہا کہ میں اور میری قوم جھوٹ سے سخت دور ہیں۔ ہم صبح اذان دیتے ہیں تو لوگ نماز پڑھتے ہیں اگر بے وقت اذان دینے کی عادت ڈال لیں تو ہم ذبح کر دیئے جاتے ہیں۔وہ غلام بھی فوت ہو چکا ہے ہمارے مالک نے اپنا مالی نقصان تو بچا لیا ہے مگر اپنی جان پر بوجھ لاد لیا ہے۔ مرغ نے اگلے دن مالک کے مرنے کی خبر دی اور بتایا کہ اس واقع پر اُس کے ورثہ گائے ذبح کریں گے اور کھانا تقسیم کریں گے۔۔
یہ سن کر وہ شخص حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف بھاگا اور سارا واقعہ سنایا اور بتایا کہ میں ڈرا ہوا ہوں کہ کتے اور مرغ کی پہلی تینوں باتیں سچی تھیں اب جبکہ اُنہوں نے اس کے مرنے کی خبر دے دی ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام ہی اُسے پناہ دے سکتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے اُس شخص سے کہا کہ فطرت کا اصول ہے کہ جب اُس کی کمان سے تیر نکل جائے تو سلیمان علیہ السلام بھی اُسے واپس نہیں کر سکتے۔ ہاں میں تیرے لیے سلامتی ایمان کی دعا کر سکتا ہوں۔تیری طرف قضا نے تین دفعہ نقصان کے لیے ہاتھ بڑھایا جو تو نے اپنی تدبیر سے لوٹا دیا اگر تو ایسا نہ کرتا تو قضا تیرے مالی نقصان سے پلٹ جاتی اور یہ بڑی مصیبت اس قدر جلدی تیرے سامنے نہ آکھڑی ہوتی۔اب اس سے راہِ فرار نہیں ہے۔
(بحوالہ: حکایات رومی مصنف: مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ)
خلاصہ اور تفسیر: مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کی تفسیر بیان فرمائی جس کا مفہوم یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کے باعث بعض اوقات چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت کا کفارہ بنا کر بھیج دیتا ہے۔
انسان سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے حالانکہ بعض چیزیں جو اسے بھلی معلوم ہوتی ہیں وہ اس کی ہلاکت کا باعث بھی بن جاتی ہیں جیسا کہ اوپر بیان کردہ کردار کے لیے جانوروں کی بولیاں سیکھنا مصیبت کا باعث بن گیا۔ اور یہاں ایک اور حقیقت بھی بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہی قائم کردہ دستور کے مطابق معاملات فرماتا ہے اگرچہ وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ چھوٹی اور بڑی دونوں قسم کی مصیبتوں کو ٹال دے لیکن وہ اپنی سنت اور طریقہ کار سے روگردانی نہیں فرماتا۔ اور ہم کس بھول میں گم گشتہ ہیں کہ خدا کو بھولے بیٹھے ہیں اور ہر گناہ کر کے بھی ذرہ برابر پریشان نہیں بلکہ پر اطمینان ہیں کہ ہم پر ضرور فضل رحمن ہو گا۔ خبردار! اللہ تعالیٰ اپنے طریقہ کار سے مکمل اجتناب نہیں فرماتا بلکہ بڑی سزا ٹالنے کے لیے بھی چھوٹی سزا دے دیا کرتا ہے۔ لہذا ہمیں اللہ تعالیٰ کے سخت ترین جانچ پڑتال کی سخت فکر کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
1 note
·
View note
چومسکی اور بعد از کورونا زندگی
نوم چومسکی کا شمار بیسویں اور اکیسویں صدی کے ان گنے چنے روشن خیال دانشوروں میں ہوتا ہے جن کے سیاسی ، سماجی و اقتصادی تجزیات و خطابات کو عالمی سطح پر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اگر جدید سرمایہ دارانہ نظام کے کھلائے گئے شگوفوں، سپر پاورز بالخصوص امریکا کے فیصلہ سازی کے ظاہری و باطنی نظام اور اس نظام کی ڈوریاں ہلانے والوں کو سمجھنا ہو۔ یا پھر یہ سمجھنا ہو کہ کلاسیکی اور جدید نوآبادیاتی دور نے تیسری دنیا کو کس طرح قیادتی و اقتصادی طور پر بانجھ کیا اور عالمگیریت ( گلوبلائزیشن) کے نام پر کیسے کیسے فطرت کی دودھیل گائے کا آخری قطرہ نچوڑ کر اسے اندھا دھند لالچ کے بینک اکاؤنٹس میں بھرنے اور پھر اس دولت سے مزید استحصال کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے شکنجہ سازی ہو رہی ہے اور کس طرح عالمگیریت کے تابوت میں انسانی و قدرتی وسائل کو لٹا کر اس تابوت کو طفیلی کہاروں کے کندھے پر رکھ کے آخری جنازہ گاہ کی جانب لے جایا جا رہا ہے ؟
یہ سب سمجھنے کے لیے نوم چومسکی ان گنے چنے دانشوروں میں بچ گئے ہیں جن کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔ فی الحال پیشِ خدمت ہے کورونا اور بعد از کورونا زندگی سے متعلق چومسکی کے خیالات کی تلخیص ۔ ’’ اس وائرس کوپھیلنے سے روکا جا سکتا تھا۔ وبا پھیلنے سے لگ بھگ دو ماہ پہلے گذشتہ برس اکتوبر میں امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سینٹر فار ہیلتھ سیکیورٹی میں عالمی اقتصادی فورم اور بل اینڈ ملنڈا فاؤنڈیشن کے تعاون سے ایک ممکنہ عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے ایونٹ دو سو ایک کے نام سے کمپیوٹرائزڈ مشق کی گئی۔ اس مشق سے جو نتائج اخذ کیے گئے ان کو کسی سیاسی فیصلہ ساز نے نہ دھیان سے پڑھا نہ کوئی حکمتِ عملی بنانے کا تکلف کیا۔ مگر فیصلہ ساز اب یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ انھیں پیشگی خبردار نہیں کیا گیا تھا اور مصیبت ان پر اچانک ٹوٹی۔
اکتیس دسمبر کو چین نے عالمی ادارہِ صحت کو ایک نامعلوم وائرس سے پھیلنے والے نمونیہ جیسے مرض کے بارے میں خبردار کیا۔ ایک ہفتے بعد کچھ چینی سائنسدانوں نے اسے کورونا وائرس کے طور پر شناخت کیا اور اس بارے میں انھیں جتنا بھی معلوم تھا متعلقہ ماہرین کو آگاہ کر دیا۔ لیکن جب چین سے باہر وائرولوجی کے ماہرین تک یہ تفصیل پہنچی تو کیا انھوں نے یا ان کی حکومتوں نے کوئی تدبیر سوچی ؟ چین کے علاوہ جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور نے کم از کم وائرس کے پہلے ہلے کو روکنے کے لیے احتیاطی اقدامات شروع کر دیے۔یورپ کو پہلے تو حالات کی سنگینی کا احساس نہ ہوا اور جب ہوا تو ہر کسی نے انفرادی طور پر جو مناسب سمجھا کرنا شروع کر دیا۔ جرمنی کو تیزی سے ادراک ہوا اور اس نے ہنگامی طور پر عمومی ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھانا شروع کر دی۔مگر جرمنی نے ہمسائیہ ممالک سے تعاون اور معلومات کے تبادلے کے بجائے ان اقدامات کو خود تک محدود رکھا اور وائرس کو محصور کرنے میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا۔
باقی ممالک اسے نظرانداز کرتے رہے اور قیمتی وقت ضایع ہوتا رہا۔ اس معاملے میں یورپ کی حد تک سب سے ناقص پالیسی برطانیہ کی اور اس سے بھی بدتر پالیسی امریکا کی رہی۔ ایک دن ٹرمپ نے کہا یہ تو معمولی سا فلو ہے۔ اس سے کوئی بڑا بحران پیدا نہیں ہو گا اور اگلے دن اسی ٹرمپ نے کہا یہ ایک بدترین بحران ہے اور میں تو پہلے دن سے جانتا تھا اور پھر چند روز بعد یہی ٹرمپ کہہ رہا تھا ہمیں پھر سے معمولات بحال کرنے ہوں گے کیونکہ مجھے الیکشن لڑنا ہے۔ ٹرمپ کو سن سن کر میرے لیے کورونا سے بھی زیادہ خوفناک یہ تصور ہے کہ یہ دنیا اس وقت کن مسخروں کے ہاتھوں میں ہے اور ان کے سبب ہم سب عالمی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کی کگار سے جھول رہے ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ امریکا اس وقت کورونا سے متاثر سب سے بڑا ملک ہے اور ایک سو نوے سے زائد ریاستوں میں یہ وائرس پنجے گاڑ چکا ہے۔
ٹرمپ اور اس کے چیلوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون سب سے پہلے خاتمے کے دہانے تک پہنچتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دو نہائیت سنگین خطرے ہمارے سروں پر پہلے ہی سے تلوار جیسے لٹک رہے ہیں۔ جوہری تصادم اور عالمی درجہِ حرارت میں اضافہ۔ کورونا تباہی کے نشانات چھوڑ کے ایک دن رخصت ہو جائے گا مگر اس تباہی کی آگے چل کر بھرپائی ممکن بھی ہے۔ البتہ باقی دو خطرے ایسے ہیں جن سے واپسی ممکن نہ ہو گی۔ سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ اس وقت بھی ٹرمپ ایران پر سے اقتصادی شکنجہ ڈھیلا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بدقسمتی سے آج بھی امریکا کے ہاتھ میں اتنی طاقت ہے کہ جو نہ مانے اسے عالمی مالیاتی نظام سے باہر کیا جا سکتا ہے۔ مگر امید کی کرن بھی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بلا ٹلنے کے بعد عالمی سطح پر ایسی سوچ پروان چڑھے کہ آخر ہم کیسی دنیا میں محفوظ رھ سکتے ہیں۔ پندرہ برس پہلے جب سارس نامی وائرس نے سر اٹھایا تھا، اس وقت طبی لیبارٹریوں میں اسی خاندان کے اگلے وائرس سے نمٹنے کے لیے ویکسین کی تیاری کا کام شروع ہو سکتا تھا۔
مگر بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں چونکہ منافع کی دوڑ میں شامل نجی ہاتھوں میں ہیں لہذا ان کور چشموں کو ویکسین کی تیاری پر پیسہ لگانے سے زیادہ فوری دمڑی بنانے کے لیے نئی باڈی کریم کی مارکیٹنگ میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ ذرا سوْچئے اگر سن پچاس کی دہائی میں پولیو ویکسین کسی سرکاری امریکی لیبارٹری میں بننے کے بجائے کسی نجی کمپنی کی لیبارٹری میں بنتی اور اس کے جملہِ حقوق پوری دنیا کے نام ہونے کے بجائے کسی ایک شخص کے نام ہوتے تو آج دنیا میں پولیو کی کیا صورت ہوتی ؟ آج بھی ضرورت ہے کہ کورونا کے لیے جو بھی ویکسین تیار ہو اس کے حقوق کرہِ ارض کے تمام باسیوں کے نام ہوں۔ورنہ کورونا کروڑوں زندگیوں کی قیمت پر چند لوگوں کے لیے ایک اور سونے کی کان بن جائے گا۔ اس وبا کے ٹلنے کے بعد دنیا میں دو تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ یا تو لوگوں کے تحفظ کے نام پر آمریت کا شکنجہ اور کس جائے گا یا پھر عالمی سماج کو اندھے منافع کے وائرس سے آزاد کرکے ایک زیادہ انسان دوست سماج کی تعمیر کی تحریک زور پکڑ جائے گی۔ فی الحال امکانات ففٹی ففٹی ہیں‘‘۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes
·
View notes