#صحابی
Explore tagged Tumblr posts
Text
حضرت امیر معاویہ صحابی ہیں یا نہیں کیا ان کو ظالم فاسق کہنا درست ہے ؟
حضرت امیر معاویہ صحابی رسول ہیں.از مولانا محمد سلمان رضا واحدی امجدی سوال ۔حضرت امیر معاویہ صحابی ہیں یا نہیں کیا ان کو ظالم فاسق کہنا درست ہے ؟ سائل التمش رضا الجواب ۔بعون الملک الوھاب ۔ حضرت امیر معاویہ صحابئ رسول ہیں جو ان کو صحابی نہ مانیں وہ گمراہ بد مذہب ہے ۔ صاحب مشکوۃ حضرت امیر معاویہ کے بارے میں الاکمال میں لکھتے ہیں ۔ کان ھو وابوہ من مسلمۃ ۔ امیر معاویہ اور ان کے باپ یوم فتح مکہ ایمان…
0 notes
Text
𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑵𝒂𝒂𝒎 𝒔𝒆, 𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑾𝒂𝒔'𝒕𝒆.
🌹🌹 𝗔𝗚𝗥𝗘𝗘𝗜𝗡𝗚 𝗧𝗢 𝗟𝗘𝗦𝗦𝗘𝗥 𝗘𝗩𝗜𝗟:
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
9️⃣1️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💠 𝗔𝗚𝗥𝗘𝗘𝗜𝗡𝗚 𝗧𝗢 𝗟𝗘𝗦𝗦𝗘𝗥 𝗘𝗩𝗜𝗟:
𝗨𝗺𝗮𝘆𝗿 𝗶𝗯𝗻 𝗛𝗮𝗯𝗶𝗯 𝗶𝗯𝗻 𝗞𝗵𝗮𝗺𝗮𝘀𝗵𝗮𝗵, 𝗮 𝗰𝗼𝗺𝗽𝗮𝗻𝗶𝗼𝗻 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ, 𝘀𝗮𝗶𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗵𝗲 𝘄𝗵𝗼 𝗱𝗼𝗲𝘀 𝗻𝗼𝘁 𝘁𝗼𝗹𝗲𝗿𝗮𝘁𝗲 𝘁𝗵𝗲 𝗹𝗲𝘀𝘀𝗲𝗿 𝗲𝘃𝗶𝗹 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗶𝗴𝗻𝗼𝗿𝗮𝗻𝘁 𝘄𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗵𝗮𝘃𝗲 𝘁𝗼 𝗲𝗻𝗱𝘂𝗿𝗲 𝘁𝗵𝗲 𝗴𝗿𝗲𝗮𝘁𝗲𝗿 𝗲𝘃𝗶𝗹 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗶𝗴𝗻𝗼𝗿𝗮𝗻𝘁.
(Al-Mujam alAwsat,Hadith No. 2258)
● 𝗝𝘂𝘀𝘁 𝗮𝘀 𝘁𝗵𝗲𝗿𝗲 𝗮𝗿𝗲 𝗶𝗻𝘁𝗲𝗹𝗹𝗶𝗴𝗲𝗻𝘁 𝗽𝗲𝗼𝗽𝗹𝗲 𝗶𝗻 𝘁𝗼𝗱𝗮𝘆’𝘀 𝘄𝗼𝗿𝗹𝗱, 𝘁𝗵𝗲𝗿𝗲 𝗮𝗿𝗲 𝗮𝗹𝘀𝗼 𝗶𝗴𝗻𝗼𝗿𝗮𝗻𝘁 𝗽𝗲𝗼𝗽𝗹𝗲.
● 𝗜𝗴𝗻𝗼𝗿𝗮𝗻𝘁 𝗽𝗲𝗼𝗽𝗹𝗲 𝗵𝘂𝗿𝘁 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿𝘀 𝗯𝗲𝗰𝗮𝘂𝘀𝗲 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲𝗶𝗿 𝗶𝗴𝗻𝗼𝗿𝗮𝗻𝗰𝗲.
● 𝗧𝗵𝗶𝘀 𝗶𝘀 𝗮 𝘀𝗺𝗮𝗹𝗹 𝗽𝗿𝗼𝗯𝗹𝗲𝗺 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗯𝗲𝗴𝗶𝗻𝗻𝗶𝗻𝗴.
● 𝗪𝗶𝘀𝗱𝗼𝗺 𝗿𝗲𝗾𝘂𝗶𝗿𝗲𝘀 𝗲𝗻𝗱𝘂𝗿𝗶𝗻𝗴 𝘁𝗵𝗶𝘀 𝘀𝗺𝗮𝗹𝗹 𝘀𝘂𝗳𝗳𝗲𝗿𝗶𝗻𝗴.
● 𝗧𝗵𝗲 𝗺𝗮𝗻 𝘄𝗵𝗼 𝗴𝗲𝘁𝘀 𝗲𝗻𝘁𝗮𝗻𝗴𝗹𝗲𝗱 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝘁𝗵𝗲 𝗶𝗴𝗻𝗼𝗿𝗮𝗻𝘁 𝗼𝘃𝗲𝗿 𝗮 𝘀𝗺𝗮𝗹𝗹 𝗮𝗳𝗳𝗹𝗶𝗰𝘁𝗶𝗼𝗻 (𝗹𝗲𝘀𝘀𝗲𝗿 𝗲𝘃𝗶𝗹) 𝘂𝗹𝘁𝗶𝗺𝗮𝘁𝗲𝗹𝘆 𝘄𝗶𝗹𝗹 𝘀𝘂𝗳𝗳𝗲𝗿 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗴𝗿𝗲𝗮𝘁𝗲𝗿 𝗵𝗮𝗿𝗺 (𝗴𝗿𝗲𝗮𝘁𝗲𝗿 𝗲𝘃𝗶𝗹).
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💠 *کم برائی پر راضی ہونا:*
عمیر بن حبیب بن خماشہ جو کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، نے فرمایا کہ جو شخص جاہلوں کی چھوٹی برائی کو برداشت نہیں کرتا اسے جاہلوں کی بڑی برائی کو برداشت کرنا پڑے گا۔
(المعجم الاوسط، حدیث نمبر 2258)
● آج کی دنیا میں جس طرح ذہین لوگ ہیں اسی طرح جاہل بھی ہیں۔
● جاہل لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف دیتے ہیں۔
● یہ شروع میں ایک چھوٹا سا مسئلہ ہوتا ہے۔
● حکمت یہ ہے کہ اس چھوٹی سی تکلیف کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔
● جو آدمی کسی چھوٹی مصیبت (کم برائی) پر جاہلوں کے ساتھ الجھ جاتا ہے وہ آخر کار زیادہ نقصان (بڑی برائی) میں مبتلا ہوتا ہے۔
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
💠 *اور جاہلوں سے نہ الجھو :*
● شیطان تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے دشمن انسان ہے۔
● یہ جب غصہ دلائے جوش میں لائے فرمان الٰہی کے خلاف ابھارے جاہلوں سے بدلہ لینے پر آمادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کرو ۔
● وہ جاہلوں کی جہالت کو بھی جانتا ہے اور تیرے بچاؤ کی ترکیبوں کو بھی جانتا ہے۔
● جہالت رشد و ہدایت کے مقابلے میں ہے۔
● جہالت علم کے بالمقابل بھی ہے۔
● گمراہی اور بےعلمی گویا ہمسائے ہیں۔
● اعراض کس طرح کریں ، یعنی جاہلوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں۔
● نیز جو باتیں وہ کرتے اور جو برے اعمال وہ کرتے ہیں ان کو اہمیت نہ دیں اور اگر ایسے حالات سامنے آجائیں تو شریفانہ انداز اختیار کرکے گزر جائیں۔
● ان کے ساتھ بحث و تکرار نہ کریں جس کا نتیجہ ماسوائے کشیدگی کے اور کچھ نہیں ہوتا اور جس میں محض وقت اور قوت ضائع ہوتی ہے۔
● بعض اوقات سکون اور اعراض کی وجہ سے ان کا نفسیاتی علاج بھی ہوجاتا ہے۔
● یوں ان کے سرکش نفوس کی اصلاح ہوجاتی ہے۔
● اور یہ اصلاح بدکلامی اور بحث و مناظرے کے مقابلے میں زیادہ موثر ہوتی ہے۔
● جس کے نتیجے میں عناد اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔
● مزید یہ کہ الجھاؤ کے نتیجے میں مخاطبین کی اصلاح ہوگی یا نہ ہوگی یہ بات مشکوک ہے۔
● البتہ الجھنے والا داعی بہرحال ان لوگوں سے دور ہوجاتا ہے جن میں اصلاح احوال اور قبولیت حق کا مادہ ہوتا ہے۔
● اور جب داعی لغو اور بدکلام لوگوں سے اعراض کردے۔
● تو وہ پروقارنظر آتا ہے۔
● اور لوگ دیکھتے ہیں کہ داعی کے مخالف لوگ جہالت میں مبتلا ہیں ، احمقانہ کام کرتے ہیں تو اس وجہ سے وہ عوام الناس کی نظروں میں گر جاتے ہیں۔
● ہر صاحب دعوت کو چاہئے کہ وہ اللہ کی ان ہدایات پر اچھی طرح غور و فکر کرے کیونکہ رب العالمین انسانی نفسیات کی داخلیات سے بھی اچھی طرح واقف ہے اسی لیے اس نے یہ ہدایات دی ہیں۔
🍃 *جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعث رحمت بن کر رہیں، باعث آزار نہ بنیں۔* 🍃
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
2 notes
·
View notes
Text
صحابی ہونے کی نشانی
#younus_algohar #goharshahi #alratv #ifollowgoharshahi
0 notes
Text
سیرت و سوانح عبد الکریم سیالکوٹی رضی اللہ عنہ صحابی مسیح موعودؑ
سیرت و سوانح عبد الکریم سیالکوٹی رضی اللہ عنہ صحابی مسیح موعودؑ
0 notes
Photo
جنات کے شر سے بچنے کا طریقہ سوال ۴۲: کیا جن انسان پر اثر انداز ہو سکتا ہے، نیز جنوں سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟ جواب :بے شک جنات انسان پر اثر انداز ہو کر اسے ایذا پہنچا سکتے ہیں۔ ان کے ایذا پہنچانے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، وہ قتل بھی کر سکتے ہیں، پتھر مار کر ایذا بھی پہنچا سکتے ہیں اور انسان کو ڈرا بھی سکتے ہیں، اسی طرح وہ اور بھی کئی طریقوں سے ایذا پہنچا سکتے ہیں جیسا کہ سنت نبوی اور امر واقع سے ثابت ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوہ میں، غالباً یہ غزوۂ خندق تھا، ایک صحابی کو اپنے گھر جانے کی اجا��ت دے دی۔ وہ جوان تھے اور ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ جب وہ اپنے گھر پہنچے تو دیکھا کہ ان کی بیوی دروازے پر کھڑی ہے، انہوں نے اسے برا سمجھا۔ وہ ان سے کہنے لگی کہ اندر آجائیں، یہ گھر کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ بستر پر ایک سانپ بل کھا رہا ہے۔ ان کے پاس نیزہ تھا،انہوں نے نیزہ مارا جس سے وہ مر گیا اور عین اسی لمحے، جس میں سانپ مرا، وہ صحابی بھی فوت ہوگئے حتیٰ کہ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان میں سے پہلے کون فوت ہوا، سانپ یا صحابی؟ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو آپ نے چھوٹی دم والے خبیث سانپ اور اس سانپ کے سوا جس کی پشت پر سفید اور سیاہ دودھاریاں ہوں گھروں میں آنے والے سانپوں کے قتل سے منع فرما دیا۔[1] یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جن انسانوں پر زیادتی کر سکتے ہیں اور انہیں ایذا پہنچا سکتے ہیں جیسا کہ امر واقع اس بات کا شاہد ہے اور تواتر کے ساتھ ایسے واقعات ثابت ہیں کہ انسان کسی ویران جگہ گیا تو اس پر پتھر گرنے لگے حالانکہ اس ویرانے میں نہ کوئی انسان تھا اور نہ کوئی اور چیز۔ اس طرح بسا اوقات بندہ ویرانوں میں ڈراؤنی آوازیں یا پتوں کی کھڑکھڑاہٹ جیسی آوازیں سنتا ہے جن سے ڈرتا اور ایذا محسوس کرتا ہے، اسی طرح جن انسان کے جسم کے اندر بھی اس سے عشق کی وجہ سے یا اسے ایذا پہنچانے کے ارادہ سے یا کسی اور سبب سے داخل ہو سکتا ہے جیسا کہ درج ذیل آیت کریمہ سے اشارہ ملتا ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ﴾ (البقرۃ: ۲۷۵) ��’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔‘‘ اس صورت میں جن انسانوں کے اندر سے بات کر سکتا ہے بلکہ وہ اس شخص سے بھی باتیں کر سکتا ہے جو آسیب زدہ کو قرآن کریم کی آیات پڑھ کر دم کر رہا ہو۔ دم کرنے والا بسا اوقات اس سے یہ وعدہ بھی لے لیتا ہے کہ وہ آئندہ یہاں نہیں آئے گا، اس طرح کے بہت سے امور حد تواتر تک پہنچنے کی وجہ سے لوگوں میں حد سے زیادہ مشہور ومعروف ہیں۔ جنوں کے شر سے بچنے کے لیے انسان کو وہ پڑھنا چاہیے جس کا اس بارے میں سنت نبویہ میں ذکر ہے، مثلاً: اس مقصد سے آیت الکرسی پڑھی جائے کیونکہ انسان جب رات کو آیت الکرسی پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ اس کی حفاظت پر مامور ہو جاتا ہے اور صبح تک شیطان اس کے قریب نہیں آ سکتا۔ واللّٰہ الحافظ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۹۳، ۹۴ ) #FAI00039 ID: FAI00039 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
معاویة بن ابیسفیان
در نظر اهل سنت
معاویه در میان اهل سنت، جایگاه خود را به عنوان صحابی پیغمبر و کاتب وحی و مراسلات حفظ کردهاست. عنوان خال المؤمنین به معنی دایی مؤمنان که به سبب ازدواج خواهرش با پیامبر به وی داده شد، بر جایگاه وی افزودهاست. ابوموسی اشعری یک بار او را امینالله خوانده بود. با این حال مخالفت دو تن از خلفای راشدین با او، عمر بن خطاب و علی بن ابی طالب باعث شدهاست علمای اهل تسنن در قائل شدن مرتبهٔ عدل و رضوان برای او شک کنند. معاویه در بیعت رضوان حضور نداشته و از «سابقون الأولون» نیست و در غزوهها با پیامبر حضور نداشتهاست. عباسیان نیز با اینکه سنّی بودند، همواره در خطبهها معاویه را لعن میکردند.[۱۶]
امروزه دیدگاه مذاهب چهارگانه اهل سنت دربارهٔ معاویه یکسان نیست برای مثال حنفیها او را عادل میدانند و در مقابل انتقاد به معاویه برای سبّ نمودن علی بن ابیطالب ویا عهدشکنی اش در عهدنامه صلح با حسن بن علی و انتخاب یزید به جانشینی خود، میگویند او مجتهد بوده و به اجتهادش عمل کردهاست و هر چند در این اجتهادها اشتباه کرده باشد، نزد خدا مأجور است.
جدا از این حدیث، اهل سنت علی را صحابه ارجمند پیامبر و از خلفای راشدین میدانند و سبّ او
گناهی بزرگ محسوب میشود[۱۷]
خدا لعنتش کند ان شاء الله
0 notes
Text
Watch "رب اکبر کی قسم حضرت بلال حبشی نے مدینہ کیوں چھوڑا ؟ اذان میں علی ولی اللہ سب سے پہلے کس صحابی پڑھا؟" on YouTube
View On WordPress
0 notes
Text
خوخہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
(حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی کھڑکی جو 1400 سال سے بند نہیں ہوئی!)
یمین الدین احمد
جب آپ (مرد حضرات) مسجد نبوی میں باب السلام سے داخل ہوکر مواجہہ شریف پہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرنے کے لیے جاتے ہیں اور وہاں کھڑے ہو کر عین اپنے پیچھے نظر ڈالیں تو آپ کو یہ بڑی کھڑکی نظر آئے گی۔
یہ کھڑکی 1400 سال سے بند نہیں ہوئی. کیونکہ ایک عظیم المرتبت صحابی نے اپنی صاحبزادی سے وعدہ کر رکھا ہے کہ یہ کھڑکی ہمیشہ کھلی رہے گی، اور یہ آج بھی کھلی ہوئی ہے۔ یہ اب تک کا سب سے بڑا اور طویل وعدہ ہے۔
کھڑکی کی یہ تصویر میں نے آج عصر کی نماز کے بعد روضہ رسول پر سلام کی حاضری کے بعد لی۔
سنہ 17 ہجری میں اسلامی فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کثیر تعداد کی وجہ سے خلیفہ دوم سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسجد نبوی کی توسیع کا حکم دیا۔
لیکن حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو ایک بڑی مشکل درپیش تھی۔ وہ یہ کہ ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہا کا حجرہ جنوبی جانب عین اس جگہ واقع تھا جہاں اب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صلوۃ و سلام کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ وہی جگہ ہے جہاں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم سے نکاح کے بعد ان کا حجرہ تھا۔
ہم جب سلام کے لیے جاتے ہیں تو اکثر لوگ اس کھڑکی پر غور نہیں کرتے کہ سامنے کی ساری دیوار میں یہ ایک کھڑکی کیوں ہے اور یہ کھلی ہوئی کیوں ہے؟
اور اگر ہم غور کریں تو یہ دیکھیں گے کہ یہ کھڑکی اور اس کے پیچھے جو کمرہ ہے، وہ جنوب کی طرف اکیلا ہے اور مسجد کے لیے اسی جانب توسیع کرنا پڑ رہی تھی، اس لیے سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے حجرے کا ہٹانا ضروری تھا۔
لیکن سوال یہ تھا کہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو اس حجرے کے خالی کرنے پہ کیسے آمادہ کیا جائے، جس میں ان کے شوہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سویا کرتے تھے؟
سو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی صاحبزادی کے پاس آتے ہیں کہ انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے لیکن ام المؤمنين یہ سن کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں اور اپنے اس شرف و عزت بھرے حجرے سے نکلنے سے انکار کر دیا، جس میں ان کے محبوب شوہر رسول اقدس صلّی اللہ علیہ وسلم آرام فرمایا کرتے تھے۔
چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ واپس لوٹ آئے اور دو دن بعد دوبارہ یہی کوشش کی یہ لیکن معاملہ جوں کا توں تھا۔ ام المومنین دو ٹوک انکار کرتی جا رہی تھیں اور کوئی بھی انہیں اس بات پہ آمادہ کرنے کی کامیاب کوشش نہیں کر پا رہا تھا۔
اب دیگر اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ام المؤمنين کو راضی کرنے کے لیے کوشاں ہوئے، لیکن ام المومنین نے ہر بار صاف انکار کر دیا۔ کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک شرف و عزت والے حجرے میں رہ رہی ہیں جہاں فقط ایک دیوار کے پار ان کے محبوب شوہر کی قبر مبارک تھی۔ وہ کیسے مطمئن ہو سکتی تھیں کہ انہیں اس سے دور کر دیا جائے؟
جب کافی کوشش کر لی گئی تو اب حضرت عمر نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور دیگر امہات المومنین اور بڑی خواتین صحابیات سے کہا کہ وہ حفصہ بنت عمر سے بات کریں۔
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا چونکہ عمر بن خطاب کی بیٹی تھیں اور مزاج میں تیزی بھی ویسی ہی تھی۔ ان کی اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے درمیان نوک جھونک پہلے بھی ہوتی رہتی تھی لیکن دونوں میں باقی امہات المومنین کے مقابلے میں محبت بھی زیادہ تھی۔
اب حضرت عائشہ کی معیت میں ساتھی صحابیات نے مداخلت کی، لیکن سیدہ حفصہ نے انکار کردیا اور ایک بڑی شرط کے علاوہ اپنا فیصلہ بدلنے سے انکار کر دیا۔
اور وہ شرط یہی تھی کہ ان کے لیے حجرے کی دیوار بند کر کے ایک کھڑکی کھول دی جائے جہاں سے وہ اپنے محبوب شوہر صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو دیکھتی رہیں اور یہ وعدہ کیا جائے کہ یہ کھڑکی کبھی بھی بند بھی نہیں ہوگی۔
چنانچہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ان کی یہ شرط قبول کرلی اور یہ وعدہ بھی کرلیا اور یہ وعدہ آج تک قائم ہے اور سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات کے 1400 سال بعد بھی یہ کھڑکی کھلی ہوئی ہے۔
اس کھڑکی کے متعدد نام ہیں جن میں سب سےمعروف خوخہ حفصہ اور خوخہ عمر ہیں جنہیں امام سیوطی اور حافظ ابن کثیر نے ذکر کیا ہے۔
آج تک جو بھی مسجد نبوی کا متولی بنا ہے، اس نے اس کھڑکی کی دیکھ بھال کی ہے اور اس وقت سے لے کر آج تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا وعدہ پورا کیا ہے کہ یہ کھڑکی کبھی بند نہیں ہوئی۔
(یہ مضمون ابراہیم الجریری صاحب سے لیا گیا ہے اور کچھ ترمیم کے ساتھ پیش خدمت ہے۔)
اگلی بار آپ جب بھی مدینہ جائیں اور سلام کے لیے حاضر ہوں تو آپ خود بھی اس مبارک کھڑکی کو دیکھ سکتے ہیں اور ہاتھ لگا سکتے ہیں۔
یمین الدین احمد
30 مارچ 2023 بمطابق
8 رمضان المبارک 1444ھ
مسجد نبوی، مدینہ منورہ۔
1 note
·
View note
Text
مؤذن رسولؐ حضرت بلالؓ - Roznama Sahara اردو
image:ummid.com محمد توصیف عالم عاشق رسولؐ، مؤذن رسول حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو صحابی رسول بعد میں مگر عاشق رسول پہلے کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے آقائے کائنات محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد آذان پکارنا بند کردیا تھا۔ کیونکہ جب حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ آذان پکارتے ہوئے اشھد ان محمد رسول اللہ، تک پہنچتے تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی…
View On WordPress
0 notes
Text
🔰 عظمت صحابیت اور حقیقت خلافت
پیغمبر اسلام علیہ التحیۃ والسلام نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی ایسے افراد کی ایک وقیع اور قابلِ ذکر جماعت تیار کر لی تھی جس نے آگے جا کر آپ ﷺ کی دائمی اور ابدی تعلیمات کے فروغ کے لیے خدمات سر انجام دینا تھیں۔ اس خوش بخت طبقے کو چونکہ حالتِ ایمان میں آپ ﷺ کی سنگت و معیت میسر آئی تھی اس لیے انہیں صحابہ (نبی ﷺ کے لطفِ صحبت سے مستفید ہونے والے) کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَهٗٓ فرما کر انہیں مجالست و مصاحبت اور رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ فرما کر مقامِ رضا کا شرف بخشا ہے۔ یہ نفوسِ قدسیہ علمِ نبوی کے وارث ہونے کی وجہ سے اُمت کے لیے حجت اور منبع و مصدر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب کوئی شخص ان سے بے نیاز ہو کر دین کے چشمۂ صافی سے سیراب نہیں ہو سکتا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مَکَانَةُ الصُّحْبَة وَحَقِیْقَةُ الْخِلَافَة کے عنوان سے کتاب میں انہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی عظیم المرتبت شخصیات کے تذکار، اَفکار اور اَنوار کی تجلیات کو علمی و تحقیقی انداز سے قلم بند کیا ہے۔ اس تصنیفِ لطیف میں آپ نے واضح فرما دیا ہے کہ رسولِ مکرم ﷺ کے وصال کے بعد خلافتِ راشدہ علی منہاج النبوۃ قائم رہی۔ آپ نے مشاجراتِ صحابہ (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی اِختلافات) کو ایسے حکیمانہ انداز میں بیان کیا ہے کہ نفسِ مسئلہ بھی واضح ہو جاتا ہے اور عصمتِ صحابہ پر بھی کوئی تعریض واقع نہیں ہوتی۔
یہ تحقیقی کام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عظیم تاریخی کاوش ہے۔ اس اعتبار سے انہوں نے اِفراط و تفریط سے بالاتر اور وابستگی و تعصب کو پسِ پشت ڈال کر حقائق کو روایت و درایت کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے اسلام کے حقیقی نظریے کو واضح کیا ہے۔ اس حوالے سے یہ تاریخی کاوش بالخصوص نسلِ نو کی نظریاتی آب یاری کرے گی۔
اس کتاب کے درج ذیل ابواب ہیں:
📗 باب 1 : قرآن مجید میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل اور تعظیم کا بیان 🔹 فصل 1 : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل اور علو مرتبت کا بیان 🔹 فصل 2 : مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کی تعریف و توصیف
📗 باب 2 : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل اور ان کی تعظیم میں ارشادات نبوی ﷺ 🔹 فصل 1 : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا زمانہ سب سے بہترین زمانہ ہے 🔹 فصل 2 : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا امت محمدی کے لیے سبب امان ہونے کا بیان 🔹 فصل 3 : حصول فتح کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے توسّل کا بیان 🔹 فصل 4 : حضور ﷺ کا اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی عزت و حرمت کی حفاظت کا حکم دینے اور انہیں سب و شتم کرنے سے روکنے کا بیان 🔹 فصل 5 : فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم کے باب میں اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے ائمہ کی مرویات 🔹 فصل 6 : فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم کے باب میں صحابہ کرام، تابعین اور سلف صالحین سے مروی اقوال 🔹 فصل 7 : نہج البلاغۃ میں سیدنا امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی روایات 🔹 فصل 8 : کتب شیعہ امامیہ میں ائمہ اہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر مرویات
📗 باب 3 : ائمہ حدیث کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی معرفت اور ان کے طبقات 🔹 پہلا امر : صحابی کی تعریف پر علماء کی آراء 🔹 دوسرا امر : صحابیت کو ثابت کرنے کے طرق 🔹 تیسرا امر : صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عادل ہونا 🔹 چوتھا امر : صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا حضور ﷺ سے روایت کرنا 🔹 پانچواں امر : حضور ﷺ سے روایت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد 🔹 چھٹا امر : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں افضلیت کی ترتیب 🔹 ساتواں امر : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے پہلے اسلام کس نے قبول کیا؟ 🔹 آٹھواں امر : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں وفات کس کی ہوئی؟
📗 باب 4 : خلافت عامہ و خاصہ کا بیان 🔹 خلافت عامہ اور اس کی صفات کا بیان 🔹 خلافت کے لیے سب سے زیادہ اہل کون ہے؟ 🔹 مفضول کی امامت کا بیان 🔹 خلیفہ/ سربراہ مملکت کے لیے معصوم ہونے کی شرط نہیں ہے 🔹 امامت یعنی اسلامی ریاست کی سربراہی وراثت کے طور پر ثابت نہیں ہوتی 🔹 امامت نص کی بجائے اُمت کے انتخاب سے ثابت ہوتی ہے
📗 باب 5 : خلافت راشدہ کی لازمی صفات 🔹 فصل 1 : خلافت راشدہ کا اثبات اور اس کی مدت کا تعین 🔹 فصل 2 : حضور نبی اکرم ﷺ نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں فرمایا بلکہ اس کا اختیار امت کے سپرد کر دیا تھا 🔹 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا بیان 🔹 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا بیان 🔹 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا بیان 🔹 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی خلافت کا بیان
📗 باب 6 : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین تنازعات کی حقیقت اور ان پر طعن سے اجتناب
📗 باب 7 : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں جنگ میں شرکت نہ کر سکنے والوں کی ندامت اور افسردگی 🔹 حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی ندامت اور افسردگی 🔹 ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی واقعہ جمل پر افسردگی 🔹 حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی ندامت اور توبہ 🔹 فضائل معاویہ میں جو کچھ روایت کیا گیا ہے اُس میں سے کچھ بھی صحیح نہیں 🔹 حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے معاملے میں ائمہِ فقہ کی تصریحات
📗 باب 8 : جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے وجوب تعظیم اور انہیں لعن طعن کی سخت ممانعت
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 528 قیمت : 570 روپے
پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/urdu/book/631/Azmat-e-Sahabiyat-awr-Haqiqat-e-Khilafat
📧 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
#MinhajBooks#BooksbyDrQadri#IslamicBooks#TahirulQadri#DrQadri#MinhajulQuran#IslamicLibrary#books#UrduBooks#pdfbooks
0 notes
Text
خلیفۂ رسولِ کریمؐ، سیّدالصحابہ حضرت ابُوبکر صدیق ؓ
خلیفۂ رسولِ کریمؐ، سیّدالصحابہ حضرت ابُوبکر صدیق ؓ
بچپن سے ہی آپؓ کو رسول اکرم ﷺ سے والہانہ محبّت و مودّت تھی۔ آپؓ کا نام عبداﷲ، لقب صدیق اور عتیق ہیں۔ یہ دونوں القاب جناب نبی کریمؐ نے عطا فرمائے۔ آپؓ کا نسب آٹھویں پشت پر رسول کریمؐ سے جا ملتا ہے۔ آپؓ نہایت رقیق القلب اور بُردبار تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی کریمؐ کے پہلے صحابی، پہلے امتی، پہلے خلیفہ، رازدار اور آپؐ کے سسر بھی تھے۔ سیدنا ابوبکرؓ قریش کے ایک بااثر اور ممتاز فرد تھے۔ آپؓ کی…
View On WordPress
0 notes
Text
ایک صحابیہؓ کے طلاق مانگنے کا واقعہ
ایک صحابیہؓ کے طلاق مانگنے کا واقعہ
ایک صحابیہؓ کے طلاق مانگنے کا واقعہ ———————— میں نے ایک صحابیہؓ کا ایک عجیب واقعہ پڑھا ہے کہ ایک صحابی رسول رات کو اپنے گھر میں آرام فرماتھے . . اور انہیں پیاس لگی تو انہوں نے اہلیہ سے پانی مانگا ،ان کی اہلیہ صحابیہ عورت تھی وہ پانی لے کرآئیں تو وہ صحابی دوبارہ سو چکے تھے وہ اتنی خدمت گزار تھیں کہ پانی لے کر کھڑی ہوگئیں ،جب رات کا کافی حصہ گزر گیا تو صحابی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے…
View On WordPress
0 notes
Text
𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑵𝒂𝒂𝒎 𝒔𝒆, 𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑾𝒂𝒔'𝒕𝒆.
🌹🌹 𝗗𝗘𝗙𝗘𝗡𝗦𝗘 𝗧𝗛𝗥𝗢𝗨𝗚𝗛 𝗧𝗢𝗟𝗘𝗥𝗔𝗡𝗖𝗘:
♦️"𝘼 𝙟𝙤𝙪𝙧𝙣𝙚𝙮 𝙩𝙤𝙬𝙖𝙧𝙙𝙨 𝙚𝙭𝙘𝙚𝙡𝙡𝙚𝙣𝙘𝙚".♦️
✨ 𝗦𝗲𝘁 𝘆𝗼𝘂𝗿 𝘀𝘁𝗮𝗻𝗱𝗮𝗿𝗱 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗿𝗲𝗮𝗹𝗺 𝗼𝗳
𝗹𝗼𝘃𝗲 ❗
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹𝟭𝟬𝟬 𝗣𝗥𝗜𝗡𝗖𝗜𝗣𝗟𝗘𝗦 𝗙𝗢𝗥
𝗣𝗨𝗥𝗣𝗢𝗦𝗘𝗙𝗨𝗟 𝗟𝗜𝗩𝗜𝗡𝗚. 🔹
(ENGLISH/اردو/हिंदी)
9️⃣2️⃣ 𝗢𝗙 1️⃣0️⃣0️⃣
💠 𝗗𝗘𝗙𝗘𝗡𝗦𝗘 𝗧𝗛𝗥𝗢𝗨𝗚𝗛 𝗧𝗢𝗟𝗘𝗥𝗔𝗡𝗖𝗘:
𝗧𝗵𝗲 𝗳𝗮𝗺𝗼𝘂𝘀 𝗰𝗼𝗺𝗽𝗮𝗻𝗶𝗼𝗻 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ, 𝗔𝗯𝗱𝘂𝗹𝗹𝗮𝗵 𝗶𝗯𝗻 𝗔𝗯𝗯𝗮𝘀, 𝘀𝗮𝗶𝗱, “𝗗𝗲𝗳𝗲𝗻𝗱 𝘁𝗵𝗲 𝗶𝗴𝗻𝗼𝗿𝗮𝗻𝗰𝗲 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗶𝗴𝗻𝗼𝗿𝗮𝗻𝘁 𝘁𝗵𝗿𝗼𝘂𝗴𝗵 𝘁𝗼𝗹𝗲𝗿𝗮𝗻𝗰𝗲.”
(Tafsir al-Qurtubi, Vol. 15, p. 361)
● According to this view of Abdullah ibn Abbas, one of the proper methods of defense is to refrain from retaliation.
● It happens again and again in the world that man has to face the actions of the ignorant.
● The method of tolerance stops such action at the very first stage.
● On the contrary, if we opt for the way of reaction, their evil will continue until it gets out of control.
🌹🌹And Our ( Apni ) Journey Continues...
-------------------------------------------------------
؏ منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر
2️⃣9️⃣ رواداری کے ذریعے دفاع:
پیغمبر اسلامﷺ کے مشہور صحابی حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "برداشت کے ذریعے جاہلوں کی جہالت کا دفاع کرو۔"
(تفسیر القرطبی، جلد 15، صفحہ 361)
● عبداللہ ابن عباس کے اس قول کے مطابق دفاع کے مناسب طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ انتقام سے پرہیز کیا جائے۔
● دنیا میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو جاہلوں کے اعمال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
● رواداری کا طریقہ اس طرح کے عمل کو پہلے ہی مرحلے میں روک دیتا ہے۔
● اس کے برعکس اگر ہم رد عمل کا راستہ اختیار کریں گے تو ان کی برائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک یہ قابو سے باہر نہ ہوجائے۔
🌹🌹اور ہمارا سفر جاری ہے...
-----------------------------------------------------
9️⃣2️⃣ सहनशीलता के माध्यम से रक्षा:
पैगम्बरे इस्लामﷺ के प्रसिद्ध साथी अब्दुल्लाह इब्न अब्बास ने कहा था, "सहिष्णुता के माध्यम से अज्ञानी की अज्ञानता की रक्षा करो।"
(तफ़सीर अल-कुर्तुबी, खंड 15, पृष्ठ 361)
● अब्दुल्लाह इब्न अब्बास के इस दृष्टिकोण के अनुसार, बचाव का एक उचित तरीका प्रतिशोध से बचना है।
● संसार में बार-बार ऐसा होता है कि मनुष्य को अज्ञानी लोगों के कार्यों का सामना करना पड़ता है।
● सहनशीलता की विधि ऐसी कार्रवाई को पहले चरण में ही रोक देती है।
● इसके विपरीत, यदि हम प्रतिक्रिया का रास्ता अपनाते हैं, तो उनकी बुराई तब तक जारी रहेगी जब तक कि वह नियंत्रण से बाहर न हो जाए।
🌹🌹और हमारा सफर जारी है...
0 notes
Text
ایک صحابیؓ تھے ان کی بیوی تیز مزاج کی تھی۔۔۔ - UGN
ایک صحابیؓ تھے ان کی بیوی تیز مزاج کی تھی۔۔۔ – UGN
سبحان اللہ ۔۔۔ایک صحابیؓ تھے ان کی بیوی تیز مزاج کی تھی۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی فطرت ہی ایسی بنائی ہے کہ جو کمزور ہوتا ہے اس کی زبان زیادہ چلتی ہے اور جو طاقتور ہوتا ہے اس کا ہاتھ زیادہ چلتا ہے۔ اس لیے عورت کی زبان زیادہ چلتی ہے اور مرد کا ہاتھ زیادہ چلتا ہے۔۔۔ ان صحابیؓ نے سوچا اب میں کیا کروں۔ پھر خیال آیا کہ حضرت عمرؓ بہت سخ مزاج ہیں ہر کسی کو سیدھا کرکے رکھتے ہیں۔ درہ ہر وقت ان کے…
View On WordPress
#UGN#urdu news gold#urdu news pakistan#urdu news paper#urdu news paper pakistan#urdu newspaper#ان#ایک#بیوی#تھی#تھے#تیز#صحابی#کی#مزاج
0 notes
Photo
شیطانی وسوسوں سے ڈرنا ہی ایمان صریح ہے سوال : ایک شخص کے دل میں شیطان نے اللہ عزوجل کے بارے میں بہت زیادہ وسوسے پیدا کر دیے ہیں اور وہ اس کی وجہ بہت ڈرتا ہے خوف وہراس کا شکار رہتا ہے اس سلسلہ میں آپ کیا راہنمائی فرمائیں گے؟ جواب: سائل کے بارے میں جو یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ شیطانی وسوسوں کے نتائج سے ڈرتا ہے، تو اس کے لیے یہ خوف وہراس نوید بشارت ہے کہ اس کے حق میں اس کے نتائج اچھے ہی ہوں گے دراصل ان وسوسوں کے ذریعے سے شیطان مومنوں پر حملہ آور ہوتا ہے تاکہ ان کے دلوں میں صحیح عقیدے کو خراب کر کے ان میں فساد وبگاڑ پیداکردے، اوراللہ کے بندوں کو نفسیاتی و فکری قلق واضطراب میں مبتلا کر دے تاکہ ان کا ایمان مکدر ہو جائے بلکہ اگر وہ سچے مومن ہیں تو ان کی زندگی ہی أجیرن کر دے۔ اہل ایمان کو پیش آنے والی یہ کوئی پہلی یا آخری بات نہیں ہے بلکہ جب تک دنیا میں کوئی مومن ہے، اس طرح کی باتیں پیش آتی رہیں گی۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس طرح کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ سے پوچھا کہ ہم اپنے دلوں میں بعض ایسی باتیں پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی انہیں زبان پر لانا بھی بہت گراں سمجھتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ((اَوَ قَدْ وَجَدْتُّمُوہُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ)) (صحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان… ح: ۱۳۲۔) ’’کیا تم اس چیز کو (اپنے دلوں میں) پاتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’جی ہاں!‘‘ آپ نے فرمایا: ’’یہی ایمان صریح ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَأْتِی الشَّیْطَانُ اَحَدَکُمْ فَیَقُوْلُ مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ حَتَّی یَقُوْلَ مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ؟ فَاِذَا بَلَغَہٗ فَلْیَسْتَعِذْ بِاللّٰہِ وَلْیَنْتَہِ)) (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، ح: ۳۲۷۶ وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان، ح: ۱۳۴۔) ’’تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آکر کہتا ہے کہ (مخلوق کو) اس طرح کس نے پیدا کیا ہے؟ اس طرح کس نے پیدا کیا ؟ حتیٰ کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب وہ یہاں تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگے اور رک جائے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک شخص نے عرض کیا: میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ انہیں زبان پر لانے سے مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ میں جل کر کوئلہ ہو جاؤں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی رَدَّکیدہُ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ))( سنن ابی داود، الادب، باب فی رد الوسوسۃ، ح: ۵۱۱۲۔) ’’سب تعریف اس اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اس کے معاملے کو وسوسہ کی طرف لوٹا دیا ۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب الایمان میں تحریرفرماتے ہیں کہ مومن شیطانی وسوسوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جو کفر یہ اندازکے وسوسے ہوتے ہیں جن سے اس کا سینہ تنگ ہو جاتا ہے، جیسا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا تھا: یا رسول اللہ! ہم میں کسی ایک کے دل میں اگر ایسا خیال بھی آجاتا ہے کہ اسے زبان پر لانے کے بجائے اس کے نزدیک یہ باتکہیں زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے کہ وہ آسمان سے زمین پر گر جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ((ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ)) صحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان… ح: ۱۳۲۔) ’’یہ تو خالص ایمان ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: (صحابی نے عرض کیا کہ) وہ اسے زبان پر لانا بہت گراں محسوس کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الحمد للّٰه الذی رد کیدہ الی الوسوسۃ)) ( سنن ابی داود، الادب، باب فی رد الوسوسۃ، ح: ۵۱۱۳۔) ’’سب تعریف اس اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اس کے مکرو فریب کو وسوسہ کی طرف لوٹا دیا ہے۔‘‘ یعنی اس طرح کا وسوسہ بندے کی دلی کراہت وناپسندیدگی کے باوجودپیداہونا، پھراس کا اسے اپنے دل سے دور کرنے کی کوشش بھی کرتا خالص ایمان ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی مجاہد کے پاس کوئی دشمن آجائے اور وہ اسے دور ہٹاتے ہوئے اس پر غالب آجائے تو یہ عظیم جہاد ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے فرمایا ہے: ’’یہی وجہ ہے کہ طالب علم اور عبادت گزار لوگوں کو ایسے وسوسے اور شبہات پیش آتے ہیں، جو دوسرے لوگوں کو پیش نہیں آتے کیونکہ دوسرے لوگ تو اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے راستے پر چلتے ہی نہیں بلکہ وہ تو اپنے رب سے غافل ہو کر خواہشات نفس کے پجاری بن جاتے ہیں اور یہی شیطان کا مطلوب و مقصود ہے، لیکن اس کے برعکس جو لوگ علم وعبادت کے ساتھ اپنے رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، دراصل شیطان ان کا دشمن ہے اور وہ انہیں اللہ تعالیٰ سے دور لے ج��نا چاہتا ہے۔‘‘[1] میں اس سائل سے یہ بھی کہوں گا کہ جب تمہارے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ وسوسے شیطانی ہیں، تو انہیں وقت وتوانائی صرف کرکے دور ہٹا دو اوران کے خلاف برسرپیکارہوجاؤ یہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے بشرطیکہ تم ان کے خلاف مجاہدہ کرتے رہو، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: -(ان اللّٰه تجاوز عن امتی ما وسوست بہ صدورہا ما لم تعمل او تتکلم)) (صحیح البخاری، العتق، باب الخطاء والنسیان فی العتاقۃ والطلاق، ح: ۲۵۲۸ وصحیح مسلم، ح: ۱۲۷۔) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے سینوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے درگزر کا رویہ اختیارفرمایا ہے، جب تک وہ ان کے مطابق عمل نہ کرے یا ان کے مطابق بات نہ کرے۔‘‘ اگر آپ سے یہ کہا جائے کیا آپ اپنے دل میں آنے والے ان وسوسوں پر اعتقاد رکھتے ہیں؟ یا انہیں حق سمجھتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اس طرح صفت بیان کریں جس طرح آپ کے دل میں وسوسہ آتا ہے؟ تو آپ اس کا یہ جواب دیں کہ ہمیں اس طرح کی بات زبان پر لانا زیب نہیں دیتی، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور یہ تو بہت بڑا بہتان ہے، آپ دل اور زبان سے اس کی تردید کریں، اس سے نفرت کرتے ہوئے لوگوں میں دور سے دور ترہو تے چلے جائیں اس بنیادپردل میں آنے والے یہ خیالات محض وسوسے ہیں اور شیطان کے جال ہیں، جو انسان کے جسم میں خون کی گردش کی طرح چلتا پھرتارہتاہے تاکہ تمہیں دین سے دور لے جائے اور دین کو تم پر خلط ملط کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی اور حقیر باتوں کے بارے میں شیطان تمہارے دل میں شک وشبہ پیدا نہیں کرتا، مثلاً: تم ہمیشہ دنیا کے ان بڑے بڑے شہروں کے بارے میں سنتے رہتے ہو جو مشرق ومغرب کے ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی آبادی بھی بہت زیادہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ انسانوں سے بھرے ہوئے ہیں، مگر ان شہروں کے وجود کے بارے میں تمہارے دل میں کبھی کوئی شک پیدا نہیں ہوا اور نہ کبھی دل میں یہ خیال آیا ہے کہ یہ تو ویرانے اور اجڑے ہوئے دیار ہیں، رہنے سہنے کے قابل ہی نہیں اور نہ ان میں کوئی رہ رہا ہے کیونکہ اس طرح کے کاموں میں تشکیک پیدا کرنے سے شیطان کو کوئی غرض نہیں، البتہ شیطان کی بڑی غرض یہ ضرور ہے کہ وہ مومن کے ایمان کو خراب کر دے۔ وہ اپنے سواروں اورپا پیادوں کے ساتھ مل کر کوشش کرتا ہے کہ مومن کے دل سے علم وہدایت کی روشنی کو بجھا دے اور اسے شک اور حیرت کی تاریکی میں مبتلا کر دے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے ایک مفید دوا کی نشان دہی فرما دی ہے جو موجب شفا ہے اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ وسوسے کی حالت میں انسان اعوذ باللّٰہ پڑھ لے اور وسوسے کو ترک کر دے۔ جب انسان وسوسے کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگا رہے تاکہ اس کی رضا اور اجر وثواب کو حاصل کر سکے تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وسوسہ ختم ہو جائے گا۔ ان تمام خیالات کو اپنے دل سے جھٹک دیا کرو جبکہ تم اللہ کی عبادت کر رہے ہو، اس سے دعا کر رہے ہو اور اس کی عظمت و بزرگی کے گن گا رہے ہو۔ اگر تم کسی کو سن لو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہ کچھ کہہ رہا ہے، جو تمہارے دل میں بصورت وسوسہ پیدا ہو رہا ہے، تو تمہارا بس چلے تو تم اسے قتل کر دو، تو اس سے بھی معلوم ہوا کہ تمہارے دل میں پیدا ہونے والی ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ یہ محض خیالات اور وسوسے ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں جیسے کسی شخص نے اپنے کپڑوں کو دھویا ہو اور اس کا لباس پاک صاف ہو مگر اس کے دل میں بار بار یہ خیال آئے کہ شاید اس کا کپڑا پاک نہیں، شاید ایسے کپڑے میں نماز نہیں ہوتی تو اس صورت میں اس طرح کے وسوسوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دینی چاہیے۔ میری نصیحت کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ٭ اس صورت میں اعوذ باللہ پڑھ لیا جائے اور دل میں آنے والے خیالات بالکل ترک کر دئیے جائیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے۔ ٭ عبادت اور عمل کو انہماک اور استغراق کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت بجا لاتے ہوئے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے سر انجام دیا جائے۔ ٭ انسان اگر مکمل توجہ، انہماک اور استغراق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ یہ سارے وسوسے کافور ہو جائیں گے۔ ٭ اللہ تعالیٰ سے کثرت کے ساتھ دعا اور التجا بھی کی جائے کہ وہ اپنے فضل و کرم کے ساتھ ان وسوسوں سے محفوظ رکھے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۴، ۴۵، ۴۶، ۴۷ ) #FAI00012 ID: FAI00012 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes