Tumgik
#شعروادب
gamekai · 2 years
Text
معروف غزل گو شاعر جن کا ترنم بہت مشہور ہے -
خمار بارہ بنکوی اردو غزل گو شعرا میں‌ ایک نہایت معتبر نام جس نے اپنی زندگی میں ترنم سے مشاعرہ پڑھنے کی حسین روایت کو زندہ رکھا۔ خمار 1999ء میں‌ آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ اترپردیش کی راجدھانی سے مشرقی کی طرف 23 کلومیٹر دور شہر بارہ بنکی واقع ہے۔ اس کی خاص بولی تو کسی قدر اودھی سے ملتی جلتی ہے لیکن تعلیم یافتہ طبقہ اور شرفاء لکھنؤ کی زبان بولتے تھے۔ شعروادب کی محفلیں اور مشاعرے اور دیگر ادبی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
bigbukhari · 6 years
Photo
Tumblr media
آنکھ رہزن نہیں تو پھر کیا ہے لوٹ لیتی ہے قافلہ دل کا #اردوستان #اردوادب #اردو #اردوشاعری #شعروادب #شعروشاعری #شعرعاشقانه #اردوغزل #شعر_غزل #جلیل_مانک_پوری #خط_جہانگیری #urdupoetrylovers #urdupoetry #beautifulindiangirl #beautifulfaces #urdustaan #poetry (at Haydrabaad) https://www.instagram.com/p/Bsk-OE3HFmp/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=1ldhgaetqb5bf
4 notes · View notes
urduclassic · 3 years
Text
امجد اسلام امجد : وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں
وقت کی چلمن سے جھانک کر دیکھوں تو اپنے کالج کے دن شوخ و شنگ رنگوں میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ میرے یہ دن راولپنڈی شہر میں گزرے تھے‘ جہاں پہلے سر سید کالج اور پھر گورڈن کالج میں پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ ستّر کی دہائی کا زمانہ تھا۔ جب کالج میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کی بہتات ہوتی تھی۔ مشاعروں کی روایت اپنے عروج پر تھی۔ میں انگریزی ادب کا طالبِ علم تھا لیکن اُردو ادب س�� بھی گہری دلچسپی تھی۔ ہم دوست شام کو ملتے تو شعروادب پر گفتگو ہوتی۔ نئی کتابوں کا تذکرہ ہوتا۔ انھی دنوں ایک نئے شاعر کی آواز نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ سادہ اسلوب اور آسان ڈکشن، دل کَش استعارے اور تشبیہیں اور جذبے کی ایک رو جو پڑھنے اور سننے والے کو اپنے ساتھ بہا کر لے جانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس شاعر کا نام امجد اسلام امجد تھا۔ وہ جلد ہی نوجوانوں کے دلوں کی آواز بن گیا۔ مجھے یاد ہے اس زمانے میں امجد کی ''محبت کی ایک نظم‘‘ خاص و عام میں مقبول تھی۔ اس کا آغاز کُچھ یوں ہوتا تھا:
اگر کبھی میری یاد آئے تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں کسی ستارے کو دیکھ لینا
یہ نظم طوالت کے باوجود بہت سے نوجوانوں کو حفظ ہو گئی تھی۔ ستر کی دہائی میں ہی امجد اسلام امجد کا پہلا شعری مجموعہ ''بَرزَخ‘‘ شائع ہوا‘ اور اس کے چار سال بعد اس کا دوسرا مجموعہ ''ساتواں در‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ یہ نظم ''ساتواں در‘‘ میں موجود ہے۔ جلد ہی امجد ملکی سطح پر شعری منظر نامے میں نمایاں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر تو جیسے تخلیقی وفور کے بند کُھل گئے اور امجد نے شعر و ادب کی متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنے آپ کو منوایا۔ امجد کی زندگی محنت اور تخلیق کا امتزاج ہے‘ ورنہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص سرکاری ملازمت کے ساتھ پچاس سے زائد کتابیں تخلیق کر سکے۔ ''برزخ‘‘ کی اشاعت کے اگلے برس امجد کی فنی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا‘ جس نے اسے شہرت کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ یہ 1979ء کا سال تھا جب امجد کو ڈرامہ لکھنے کی پیش کش کی گئی۔ 
یاد رہے یہ وہ زمانہ تھا جب ضیاء الحق، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر 1977ء میں برسرِ اقتدار آ چکے تھے‘ اور ملک میں ہر چیز کو اسلامیانے کا عمل جاری تھا۔ اس عمل کی زد میں ملک کی فلم انڈسٹری بھی آ چکی تھی جو اس دور میں ایسی گھائل ہوئی کہ پھر جانبر نہ ہو سکی۔ یوں فلم کا نعم البدل ٹیلی ویژن ڈرامہ بن گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس دور میں پی ٹی وی ڈراموں نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر اپنے آپ کو منوایا۔ امجد اسلام امجد کو ڈرامے کی پیش کش ہوئی تو اس نے اسے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صرف پی ٹی وی کا ایک چینل ہوا کرتا تھا۔ پرائیویٹ چینلز ابھی شروع نہیں ہوئے تھے۔ پی ٹی وی پر ان دنوں ہفتہ وار ڈرامے نشر ہوتے تھے۔ ایسے میں اعلان کیا گیا کہ ایک نیا قسط وار ڈرامہ ''وارث‘‘ کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ امجد کا امتحان تھا کہ کیا وہ شعری سلطنت کے بعد ڈرامے کی اقلیم میں بھی نمایاں مقام حاصل کر سکے گا۔
وہ 1979ء کا سال تھا اور 29 دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی شام جب ''وارث‘‘ ڈرامے کی پہلی قسط نشر ہوئی۔ پہلی قسط نے ہی دیکھنے والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی تھی۔ یہ تیرہ قسطوں پر مبنی ڈرامہ تھا‘ جس میں کہانی، اداکاری اور ہدایت کاری اپنے عروج پر تھی۔ جس دن اس ڈرامے کی قسط نشر ہوتی بازار اور سڑکیں ویران ہو جاتیں۔ شہرت کا یہ درجۂ کمال بعد میں شاید ہی کسی ڈرامہ نگار کے حصے آیا ہو۔ اب ملک کے طول و عرض میں امجد کا تعارف اور پہچان ایک ڈرامہ نگار کی بن گئی تھی۔''وارث‘‘ کے بعد بھی امجد نے پی ٹی وی کی تاریخ کے چند مقبول ترین ڈرامے لکھے جن میں دہلیز، وقت، دن، رات، سمندر، بندگی اور فشار شامل ہیں۔ یہ امجد کے لکھے ہوئے ڈراموں کی طویل فہرست سے کُچھ نام ہیں۔ یہ 1980ء کی بات ہے وارث ڈرامے کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی۔
 انھی دنوں لاہور میں میری امجد سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ایک دوست نے امجد کا تعارف کراتے ہوئے کہا: ان سے ملیے یہ وارث ڈرامے کے تخلیق کار ہیں۔ میں نے امجد سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا: میرے لیے ان کا تعارف ایک شاعر کا ہے۔ امجد نے یہ سُن کر قہقہہ لگایا اور کہا: مجھے خوشی ہوتی ہے جب مجھے کوئی بحیثیتِ شاعر ملتا ہے۔ امجد کا قہقہہ بے ساختہ اور جاندار ہوتا ہے۔ اس کے پاس لطیفوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ہم نے 1987ء میں ملتان سے لودھراں تک ایک وین میں سفر کیا تھا۔ اس وین میں عطاء الحق قاسمی بھی تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کا سفر امجد اور عطاء کی گفتگو کی پھلجھڑیوں میں گزر گیا‘ اور ہم لودھراں کے قصبے میں جا پہنچے جہاں ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا‘ جس میں منیر نیازی بھی شریک تھے‘ اور جس کی نظامت پروین شاکر کر رہی تھیں۔ پھر مجھے وہ دن یاد آ رہا ہے جب نو دس برس قبل ہم لاہور میں ایک پبلشر کے آفس میں بیٹھے تھے۔ میں نے امجد سے کہا: آپ کے لکھے ڈراموں کی ایک طویل فہرست ہے‘ ان میں سے ایک ''میرے بھی ہیں کُچھ خواب‘‘ میرا پسندیدہ ڈرامہ ہے۔ 
امجد نے کہا: ہاں وہ ایک گونگے درزی کی کہانی ہے‘ جس کا کردار معروف اداکار محمد شفیع نے کیا تھا‘ اور ہیروئن ماضی کی معروف اداکارہ مصباح تھیں۔ میری فرمائش پر امجد نے اس ڈرامے کی VHS کیسٹ بذریعہ ڈاک مجھے بھجوا دی تھی۔ اسی محفل میں امجد نے میری فرمائش پر اپنی نظم ''سنو پیارے‘‘ سُنائی‘ جس کا آغاز یوں ہوتا تھا:
سُنو پیارے! محبت کرنے والوں کی نگاہیں بھی ہوا میں ڈولتی خوشبو کی صورت منظروں میں اپنے ہونے کی نشانی چھوڑ جاتی ہیں
وہ ایک یادگار محفل تھی جس میں ہم نے دیر تک امجد سے اس کی شاعری سُنی۔ امجد اسلام امجد کی شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے کی داستان کڑی مشقت اور محنت سے عبارت ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کرنے کے بعد وہ ایم اے او کالج میں لیکچرر کی پوزیشن پر فائز ہوا‘ لیکن یہ اس کی منزل نہیں تھی۔ اس کے خواب اس کے سامنے نئی منزلوں کے در کھول رہے تھے۔ ان خوابوں میں ایک خواب شہرِ سُخن کی سیر تھی۔ اس خواب کی تعبیر اسے جلد ہی مل گئی۔ اس کا سادہ مگر منفرد اسلوب لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ مشکل مضامین اس کی شاعری میں موم ہو جاتے۔ امجد کی ایک نظم کی چند سطریں ملاحظہ کریں:
محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا ایک اور نظم کی سطریں دیکھئے: میرے شہروں کو کس کی نظر لگ گئی ہم تو نکلے تھے ہاتھوں میں سورج لیے رات کیوں ہو گئی
پھر ایک روز نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے مہتمم، معروف شاعر اور عزیز دوست انعام الحق جاوید نے اطلاع دی کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ادبی میلے میں ایک سیشن امجد اسلام امجد کے حوالے سے ہے۔ یہ جان کر اچھا لگا کہ ہم اپنے ہم عصر ادیبوں کی تعظیم کرنا جانتے ہیں۔ میں نے کہا: دعوت کا شکریہ میں اس سیشن میں ضرور شرکت کروں گا۔ انعام الحق جاوید نے ہنستے ہوئے کہا: اور امجد صاحب کا انٹرویو آپ نے کرنا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کُچھ کہتا ٹیلی فون بند ہو چُکا تھا۔
نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے ادب میلے میں امجد اسلام امجد کے ساتھ سیشن میں خوب لطف آیا۔ بہت سے لوگ پہلی بار امجد کی ذاتی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے آشنا ہوئے۔ ان میں سے ایک پہلو کرکٹ کے ساتھ امجد کی جنون کی حد تک محبت تھی۔ وہ کالج کی کرکٹ ٹیم کا اہم رکن تھا۔ اس روز امجد کے شہر سُخن کے بہت سے رنگ بھی سامنے آئے۔ قوسِ قزح کے سارے رنگ: غزل، نظم، ڈرامہ، بچوں کا ادب، ترجمے، سفر نامے، مضامین، تنقید، اور کالم۔ حیرت ہوتی ہے سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ امجد نے اتنا کُچھ لکھنے کے لیے کیسے وقت نکالا۔ اسے دیکھیں اور سُنیں تو خوشگوار بشاشت کا احساس ہوتا ہے۔ ہر موقع کے لیے لطیفے، برجستہ جملے، اور قہقہے۔ لیکن اس کے اندر کی سنجیدگی اور اُداسی اس کی شاعری میں اُتر آئی ہے۔ شاعری کی دیوی اس پر شروع ہی سے مہربان تھی۔ مُجھے حیرت ہوئی کہ اس کی معروف غزل اس کے زمانۂ طالب علمی میں لکھی گئی تھی۔ آپ نے یقینا یہ غزل پڑھی یا سُنی ہو گی جس کا یہ شعر زبانِ زدِ عام ہے:؎
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں دلِ بے خبر مری بات سُن اسے بُھول جا اسے بُھول جا
مجھے اسلام آباد کی ایک بھیگی ہوئی شام یاد آ گئی جب میں گھر کے ٹیرس پر بیٹھے ڈوبتے سورج کے رنگ دیکھ رہا تھا۔ ایسے میں مجھے امجد کی ایک نظم یاد آگئی۔ میرا جی چاہا‘ میں امجد کی زبانی یہ نظم سُنوں۔ اس روز امجد نے میری فرمائش پر فون پر یہ نظم سُنائی تو یوں لگا آسمان پر پھیلے رنگوں میں کتنے ہی اور رنگ شامل ہو گئے ہیں۔ کیا خوب صورت نظم تھی: ''تُم جس خواب میں آنکھیں کھولو/ اس کا روپ امر/ تُم جس رنگ کا کپڑا پہنو/ وہ موسم کا رنگ/ تُم جس پھول کو ہنس کر دیکھو/ کبھی نہ وہ مُرجھائے/ تُم جس حرف پر انگلی رکھ دو/ وہ روشن ہو جائے‘‘ اسلوب کی یہی سادگی امجد کی شاعری کا بنیادی وصف ہے۔ اچھے ادب کی ایک تعریف یہ ہے کہ اسے پڑھ کر قاری کو ایک Pleasure of recognition ہو۔ دوسرے لفظوں میں ''میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ امجد کی نظم ''سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘‘ پڑھیں تو بہت سے لوگ اسے اپنی کہانی سمجھتے ہیں۔ اس نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے:
''روشنی مزاجوں کا کیا عجیب مقدر ہے/ زندگی کے رستے میں بچھنے والے کانٹوں کو/ راہ سے ہٹانے میں/ ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں/ خوشبوئیں پکڑنے میں گلستاں سجانے میں/ عمر کاٹ دیتے ہیں‘‘ اسی طرح امجد کی نظم ''تمھیں مُجھ سے محبت ہے‘‘ ایک بنیادی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ کس طرح محبت کو ہر دم تائیدِ تازہ کی ضرورت رہتی ہے: ''محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے/ کہ یہ جتنی پُرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے/ اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے/ اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے‘‘ امجد کی نظموں میں خیال کی رفعت اور نغمے کی مٹھاس گھل مل گئے ہیں۔ فلسفیانہ تصورات امجد کے اسلوب میں ڈھل کر عام فہم بن جاتے ہیں۔ محبت اس کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے‘ لیکن جوں جوں امجد کی شاعری کا سفر آگے بڑھتا گیا۔ اس میں نت نئے موضوعات کی چاندنی بکھرتی گئی۔ اس کی بعد میں آنے والی نظموں میں ایک لطیف فلسفیانہ دبازت تہہ در تہہ اُبھرنے لگی۔ امجد کی شاعری میں 'وقت‘ بھی ایک اہم موضوع ہے۔ وقت کا دریا جو ہر دم رواں رہتا ہے۔ وقت جو کبھی لوٹ کر نہیں آتا:؎
زندگی کے میلوں میں خواہشوں کے ریلے میں تُم سے کیا کہیں جاناں، اس قدر جھمیلے میں
وقت کی رو انی ہے، بخت کی گرانی ہے سخت بے زمینی ہے، سخت لامکانی ہے
وقت کے سفر میں چلتے چلتے بعض اوقات اچانک ایک حقیقت اس پر منکشف ہوتی ہے‘ جس سے اس سفر کی غرض و غایت ہی بدل جاتی ہے؎
تلاشِ منزل جاناں تو اک بہانا تھا تمام عمر میں اپنی طرف روانہ تھا
امجد کے ہاں بعض اوقات اس کی سنجیدہ شاعری میں ہلکا سا مزاح کا رنگ شامل ہو کر معنی کو بلیغ اور لطف کو دوبالا کر دیتا ہے؎
سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشوں کا تھا دل سے بڑا جہان میں امجد عدو نہیں
نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا یہ معجزہ تو میرے دستِ بے ہنر سے ہو��
وقت کا بہتا دریا ہر لحظہ منظر بدلتا آگے بڑھتا رہا ہے۔ وقت کے دریا کی تیز رفتاری ہر چیز کے کے عارضی پن کو اور واضح کر دیتی ہے۔ امجد کی شاعری میں وقت کی تندی و تیزی اور اپنی نارسائی کا تذکرہ یہاں وہاں ملتا ہے:؎
خواب کیا کیا چُنے، جال کیا کیا بُنے موج تھمتی نہیں، رنگ رُکتے نہیں
وقت کے فرش پر، خاک کے رقص پر نقش جمتے نہیں ابر جُھکتے نہیں
یہی عارضی پَن جذبوں کی کیفیت کا بھی ہے۔ امجد کو اس بات کا ادراک ہے کہ جذبوں کے دریا نے ایک دن اُتر جانا ہوتا ہے:؎ دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے 
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر آنا ہے
وہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے امجد جتنا بڑا شاعر ہے اتنا ہی اہم ڈرامہ نگار ہے۔ اس کی شاعری میں تمثیل کا رنگ نظر آتا ہے اور اس کے ڈراموں پر شاعری کی گہری چھاپ ہے۔ امجد کے ہاں کائنات کو سمجھنے اور کھوجنے کا عمل مسلسل نظر آتا ہے۔ سمجھنے اور جاننے کے عمل میں سوالات کا کردار انتہائی اہم ہے۔ امجد کی شاعری میں یہ استفہامیہ انداز کائنات کو سمجھنے کی کوشش ہے: ''گزرتے لمحو مجھے بتاؤ کہ زندگی کا اصول کیا ہے؟ تمام چیزیں اگر حقیقت میں ایک سی ہیں تو پھول کیوں ہیں ببول کیا ہے؟‘‘ امجد کا تخلیقی سفر چھ دہائیوں سے جاری ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش اسے ہر دم متحرک رکھتی ہے۔ نئے منظروں کے خواب اسے اب بھی اپنی طرف بُلاتے ہیں لیکن اب وہ ان رنگوں کو دور سے دیکھتا ہے۔ کبھی کبھی شام کو لاہور میں اپنے گھر کے ٹیرس پر بیٹھے ڈوبتے سورج کے رنگوں کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں اپنا شعر یاد آجاتا ہے:؎
سمے کے سمندر، کہا تو نے جو بھی، سُنا، پر نہ سمجھے جوانی کی ندی میں تھا تیز پانی، ذرا پھر سے کہنا
شاہد صدیقی
بشکریہ دنیا نیوز  
5 notes · View notes
bazmeurdu · 3 years
Text
حبیب جالب : ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
حبیب جالب سے میرا تعارف اُس وقت ہوا جب میں پرائمری کلاس میں پڑھتا تھا۔ ہم ان دنوں راولپنڈی کے ایک معروف علاقے ٹینچ بھاٹہ میں رہتے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جس میں ایک مختصر برآمدہ اور کچا صحن تھا‘ جس میں میٹھے رسیلے شہتوت کا ایک درخت تھا۔ ہمارے گھر کے سامنے دور دور تک کھیت پھیلے ہوئے تھے اور بائیں طرف ایک وسیع میدان تھا‘ جہاں مجھ سے بڑی عمر کے لڑکے کھیلنے آتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیلی ویژن اور ٹیلی فون گھر گھر نہیں پہنچے تھے اور موبائل فون کا تصور بھی ہمارے حاشیۂ خیال میں کبھی نہیں آیا تھا۔ گرمیوں کی شاموں میں گھر کے باہر کچی زمین پر کُرسیاں بچھ جاتیں اور گرمی کی شدت کم کرنے کیلئے پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا۔ کُرسیوں پر گھر کے بڑے بیٹھتے ہم بچے آتے جاتے کچھ دیر رُکتے اُن کی باتیں سنتے اور پھر کھیل میں مصروف ہو جاتے۔ اُردو ادب سے میری دلچسپی کی بڑی وجہ گھر کا ماحول تھا۔ میرے والد اُردو، فارسی اور پنجابی کے شاعر تھے۔ 
والدہ کو پڑھنے کا شوق تھا۔ انہی دنوں میرے بڑے بھائی اور ماموں ایم اے اُردو کا امتحان دے رہے تھے۔ انہوں نے پڑھائی کیلئے گھر کے قریب ایک کمرہ کرائے پر لیا ہوا تھا‘ جہاں وہ کتابوں کے ڈھیر میں پڑھا کرتے تھے۔ یہیں سے مجھے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ گھر میں کتابوں اور رسالوں کی فراوانی تھی۔ یوں میں کم عمری میں ہی شعروادب کے ذائقے سے آگاہ ہو چکا تھا۔ شعر و ادب سے اوائل عمری میں آشنائی حبیب جالب کو جاننے کا باعث بنی۔ ایک روز میں نے سُنا ہمارے گھر کے بڑے ہمیشہ کی طرح گھر کے باہر کچی زمین پر کرسیاں ڈالے بیٹھے ہیں اور ایک نوجوان شاعر حبیب جالب کا ذکر ہو رہا ہے جس نے مری کے ایک سرکاری مشاعرے میں حکومت مخالف نظم سُنا کر ایک ہلچل مچا دی تھی۔ سب اس کی جرأت اور حوصلے پر حیران ہو رہے تھے۔ میرے ننھے سے ذہن میں حبیب جالب کا نام چپک کر رہ گیا۔ 
بہت بعد میں جب میں ہائی سکول پہنچا تو ان کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملا کہ حبیب جالب 1928ء میں ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میانی افغاناں میں پیدا ہوئے تھے۔ جالب کے گھر پر مستقل غربت اور مفلسی کے سائے تھے۔ بارشوں میں گھر کی کچی چھت ٹپکنے لگتی لیکن اس افلاس میں امید کی کرن علم و ادب کی روشنی تھی۔ ان کے والد صوفی عنایت لکھنے پڑھنے کے رسیا تھے۔ ان کی جوتوں کی دکان تھی۔ ننھے جالب کو سکول داخل کرایا گیا۔ جالب کے گھر کے افراد دہلی چلے گئے تھے لیکن وہ اپنی نانی کے پاس گائوں میں رک گیا تھا۔ جالب کی نانی کی نظر تقریباً ختم ہو چکی تھی لیکن خاندانی وقار کا تقاضا تھا کہ وہ کسی کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کریں۔ وہ گھر میں ازاربند اور جرابیں بناتی تھیں۔ پھر وہ اور کم سن جالب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے گلیوں میں ازاربند اور جرابیں فروخت کرتے۔ اسی غربت کے عالم میں جالب نے گاؤں کے سکول میں سات جماعتیں پاس کیں اور پھر وہ بھی دہلی چلے گئے‘ جہاں ان کے گھر کے دوسرے افراد رہتے تھے۔ 
اسی دوران پاکستان بننے کی تحریک عروج پر پہنچ گئی اور پھر 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آگیا۔ اسی سال جالب اور اس کے گھر والے بھی دہلی چھوڑ کر اپنے خوابوں کے نگر پاکستان آگئے‘ جہاں ان کا پہلا پڑاؤ کراچی میں تھا۔ کراچی میں مشاعروں کی روایت نے جالب کی شاعری کے شوق کو ہوا دی۔ اُس وقت تک وہ حبیب جالب نہیں صرف حبیب احمد تھا۔ جالب کو پتا تھا کہ شاعر ہونے کیلئے تخلص ہونا بھی ضروری ہے۔ تخلص کیلئے اسے ''مست‘‘ کا لاحقہ اچھا لگا۔ یوں اب وہ مشاعروں میں حبیب احمد مست کے نام سے شرکت کرنے لگا۔ مست کا تخلص اس کی شخصیت سے قریب تھا۔ کراچی کا قیام نو دس برس کا ہو گا۔ یہیں جالب کی دوستی علاؤالدین سے ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علاؤالدین صاحب پاکستانی فلموں میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ جالب سے علاؤالدین کی قریبی دوستی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کراچی سے لاہور آیا تو ابتدائی دنوں میں علاؤالدین کے گھر میں قیام کیا‘ اور پھر تو لاہور جالب کا دلبر شہر بن گیا۔ 
لاہور آکر جلد ہی شعری حلقوں میں اس کی شناسائی ہو گئی تھی۔ اب ان کا قلمی نام حبیب جالب ہو گیا تھا۔ لاہور آکر بھی اس کی پارہ صفت طبیعت کو چین نہیں تھا۔ تب ملکی سیاست نے ایک نیا موڑ لیا جب ملک میں ایوب خان کے مارشل لا کا آغاز ہوا۔ جالب کی آزاد پسند طبیعت کو یوں لگا جیسے یکلخت ہوا میں آکسیجن کم ہو گئی ہو۔ ملک میں ایک سناٹے کا عالم تھا۔ اگر کوئی آواز تھی تو ان درباریوں کی جو ستائش اور تعریف میں مصروف تھے۔ پھر 1962ء کا سال آگیا‘ جب صدر ایوب کی حکومت کی طرف سے قوم کو ایک نیا آئین دیا گیا۔ اس پر درباری مدح خواہوں نے تعریفوں کے ڈونگرے برسانا شروع کر دیے جیسے یہ آئین قوم کے ہر دکھ اور درد کا مداوا بن کے آیا ہے۔ اس کے خلاف رائے دینے پر پابندی تھی۔ اس وقت صرف ایک توانا آواز جسٹس ایم آر کیانی کی تھی جو عدل کے ایوانوں میں گونج رہی تھی۔
جالب ایک دلِ حساس رکھتا تھا۔ یہ سناٹا اس کی جان کو آرہا تھا۔ اسے اپنے جذبات کے اظہار کا موقع نہیں مل رہا تھا لیکن جلد ہی اس کا بندبست بھی ہو گیا۔ اس زمانے میں مری میں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے زیرِ اہتمام ایک عظیم الشان مشاعرہ ہوا کرتا تھا جس میں پاکستان بھر سے معروف شاعروں کو دعوت دی جاتی تھی۔ سامعین میں ایک بڑی تعداد سرکاری افسران کی ہوتی تھی۔ حبیب جالب باقی شاعروں کے ہمراہ مشاعرے میں شرکت کیلئے ایک دن پہلے ہی مری پہنچ گئے تھے۔ رات کو مال روڈ پر گھومتے ہوئے انہیں ہائیکورٹ کے ایک جج مل گئے۔ وہ بھی ان کے ساتھ چہل قدمی کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں جج صاحب نے جالب سے پوچھا کہ کل کے مشاعرے میں وہ کیا سُنائیں گے۔ جالب نے بے ساختہ جواب دیا میں کل کے مشاعرے میں نظم ''دستور‘‘ پڑھوں گا۔ یہ سُن کر جج صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ بہتر ہو گا آپ یہ نظم نہ پڑھیں کیونکہ اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ 
جالب نے سنی ان سنی کر دی۔ جج صاحب نے جالب کے خطرناک ارادوں کا تذکرہ مشاعرے کے منتظمین سے بھی کر دیا۔ یہ ایک سنجیدہ صورتحال تھی۔ مشاعرے کے منتظمین کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ حالات یہ رُخ اختیار کر جائیں گے۔ جالب کا شاعری میں ابتدائی تعارف ایک رومانوی شاعر کا تھا۔ ان کی پہلی کتاب ''برگِ آوارہ ‘‘ تھی۔ برگِ آوارہ ان کی روما��وی شاعری کا دور تھا لیکن حالات کی تلخی اب ان کی شاعری میں اُتر آئی تھی۔ انہوں نے خود سے عہد کیا تھا کہ مری کے مشاعرے میں اپنے دل کی بات ضرور کہے گا اور صدر ایوب کے دستور کی حقیقت سب کے سامنے کھول دے گا۔ ادھر مشاعرے کے منتظمین کو جالب کے ارادوں کی خبر ہو چکی تھی۔ انہوں نے ایک چال چلی‘ مشاعرے میں تین مقبول مزاحیہ شاعر شوکت تھانوی، سید محمد جعفری، اور ظریف جیلپوری بھی شریک تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ اپنے کلام سے مشاعرہ لوٹ لیتے ہیں۔ 
منصوبے کے تحت حبیب جالب سے پہلے مزاحیہ شعرا کو بُلایا گیا تاکہ اس کے بعد جالب کی ہوا اکھڑ جائے اور وہ اپنا کلام نہ سنا سکے۔ ان شعرا کو سامعین کُھل کر داد دے رہے تھے۔ لوگوں کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اسی شوروغُل میں حبیب جالب کا نام پُکارا گیا۔ اب وہ گھڑی آن پہنچی تھی جس کا حبیب جالب کو عرصے سے انتظار تھا۔ جالب نے مائیک پر آکر اپنی گمبھیر آواز میں کہا ''خواتین و حضرات میری نظم کا عنوان ہے ''دستور‘‘۔ یہ سننا تھا کہ مشاعرہ کے منتظمین کے چہرے فق ہو گئے۔ ناظمِ مشاعرہ تیزی سے جالب کی طرف لپکا اور ہوئے چیختے ہوئے کہا ''کیا کررہے ہو؟ کیا کررہے ہو؟‘‘۔  
ضیاء الحق کے دور کا ایک اہم واقعہ ریفرنڈم تھا۔ یہ ریفرنڈم دراصل قوم کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق تھا ۔عام لوگوں کی اکثریت نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن نتیجہ تو پہلے سے ہی تیار ہو چکا تھا۔ یوں ریفرنڈم میں اسلامی اصلاحات کی حمایت میں 98.5 فیصد ووٹ آئے تھے جس کے نتیجے میں ضیاء الحق نے پانچ سال کے لیے اپنے اقتدار کی مدت میں اضافہ کر لیا ۔ حبیب جالب نے ریفرنڈم کی اصلیت کا پول اپنی نظم ریفرنڈم میں یوں کھولا:
شہر میں ہُو کا عالم تھا جِن تھا یا ریفرنڈم تھا قید تھے دیواروں میں لوگ باہر شور بہت کم تھا
کچھ باریش سے چہرے تھے اور ایمان کا ماتم تھا مرحومین شریک ہوئے سچائی کا چہلم تھا
ضیاء الحق کے دور میں بھٹو کو قتل کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دراصل عدالتی قتل تھا۔ اس وقت بھٹو کے دونوں بیٹے ملک سے باہر تھے ایسے میں بے نظیر بھٹو نے احتجاج کا پرچم اٹھایا۔ اس موقع پر جالب نے بے نظیر کیلئے نظم لکھی جو آناً فاناً گلیوں محلوں میں پھیل گئی ۔ نظم کا آغاز اس طرح سے تھا: ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے /پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے۔ اس نظم نے بے نظیر کے لیے ملکی سطح پر ہمدردی کے جذبات پیدا کر دیے تھے لیکن پھر جب بے نظیر حکومت میں آ گئیں اور عوام کی کسمپرسی کا عالم وہی رہا تو جالب چپ نہ رہ سکا اور بول اٹھا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے ہر بلاول ہے دیس کا مقروض پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اب جالب کا دمِ آخریں قریب آ رہا تھا ۔ پاکستانی سیاست میں مزاحمت کا سب سے روشن چراغ ٹمٹما رہا تھا ۔ وہ جس کی شاعری نے کتنے ہی دلوں کو ولولہ ٔ تازہ دیا تھا ‘وہ جس کی جمہوریت کے لیے قربانیاں ہمیشہ یاد رہیں گی‘ وہ جس نے گھر کی آسائش کیے بجائے عام لوگوں کے مفادات کے لیے جدو جہد پر توجہ دی۔ جالب کو کیا پتہ تھا کہ اس کے بعد بھی اس کی شاعری کی تپش لوگوں کے دلوں کو گرماتی رہے گی اور مزاحمت کے قافلوں کی پیشوائی کرتی رہے گی ۔ 
جب پرویز مشرف کے زمانے میں ججوں کو گھر بھیج دیا گیا تو عدلیہ بحالی تحریک چلی اس تحریک کا حصہ بننے کے لیے حبیب جالب موجود نہیں تھے کیونکہ اس سے پہلے ان کا انتقال ہو چکا تھا ‘ لیکن ان کا کلام اس تحریک کا ترانہ بن گیا۔ ریلیاں شروع ہو گئیں جن میں وکیلوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے لوگ بھی شریک ہوتے۔ لندن میں احتجاجی ریلیوں میں شاہرام اور تیمور (لال بینڈ) جالب کے کلام سے دلوں کو گرماتے تھے۔ احتجاجی ریلیوں میں شاہرام کی دل نشیں آواز میں ''دستور‘ ‘، ''مشیر‘‘ اور جالب کی دوسری نظموں نے ایک سماں باندھ دیا تھا ۔ عدلیہ بحالی تحریک کامیاب ہو گئی‘ تحریک کی کامیابی میں دوسرے عوامل کے علاوہ جالب کی انقلابی نظموں کا بھی حصہ تھا۔ یہ ہے زندہ کلام کی تاثیر جو کبھی پرانا نہیں ہوتا‘ جو ہر دور میں مظلوموں ‘ محنت کشوں اور مفلسوں کی دل کی آواز بن جاتا ہے۔ اس کلام میں جالب کی ذاتی جدوجہد کی روشنی بھی شامل تھی۔ جالب ہر دور میں جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا لیکن وہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی ترجمانی پوری ایمانداری سے کرتا رہا۔
جس نے قوم کے لیے اپنے گھر اور پیاروں کو فراموش کر دیا‘ جس کی موت کے بعد اس کے گھر والے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہو گئے ۔ جس کی بیٹی طاہرہ ٹیکسی چلاتی ہے لیکن شاید ہر با اصول شخص کا مقدر یہی ہوتا ہے۔ حبیب جالب کی کہانی نئی نہیں۔ ازل سے ابد تک انسانی تاریخ کی یہی داستان ہے ۔ وہی جبر کی سیاہ رات‘ وہی تعزیر کی تیز ہوا ئیں اور وہی ان ہواؤں سے الجھتے مزاحمت کے چراغ۔ جالب بھی ایک ایسا ہی چراغ تھا جو عمر بھر منہ زور حکمرانوں سے الجھتا رہا۔ جو آمریت کی سیاہ رات میں امید کی روشن کرن تھا اور جس کی روشنی جبر کی راتوں میں امید کی راہیں اجالتی رہے گی۔ اب جالب کی صحت ایک گرتی ہوئی دیوار تھی اسے لاہور کے شیخ زید ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ نقاہت نے جالب کو بستر سے لگا دیا تھا لیکن اس عالم میں بھی وہ ذہنی طور پر چوکس اور مستعد تھا۔ معروف صحافی مجاہد بریلوی راوی ہیں کہ جب جالب ہسپتال میں تھے تو نواز شریف کی حکومت تھی انہی دنوں نواز شریف نے ایک جلسے میں عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں آپ کے لیے جان بھی دے دوں گا‘ جالب نے بستر پر لیٹے لیٹے ایک نظم لکھی جس کا مطلع تھا:
نہ جاں دے دو نہ دل دے دو بس اپنی ایک مل دے دو
ہسپتال کی طویل راتوں میں جب جالب تنہا ہوتا تو اسے ان سب ہم سفروں کا خیال آتا جنہوں نے جمہوریت کے لیے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا تھا ۔ پھر اسے اپنی زندگی کے وہ سارے مرحلے یاد آ جاتے جب ایک جنون اس کی زندگی کا زادِ راہ تھا اورجب وہ جمہوریت کی نیلم پری کے تعاقب میں بہت دور نکل گیا تھا۔ پھر اسے اپنی نظم ''جمہوریت نہ آئی‘‘کا ایک بند یاد آ گیا اور اس کے چہرے پر ملال کا رنگ چھا گیا۔ نظم کی سطر سطر میں اداسی جھلک رہی تھی: بنگال بھی گنوایا/ اپنا ہی خوں بہایا /دار و رسن سے کھیلے /پاپڑ ہزار بیلے/محنت نہ رنگ لائی /جاں رات دن کھپائی/ جمہوریت نہ آئی تب رات کے گھپ اندھیرے میں اسے ایک بہت پرانی بات یاد آ گئی اور اس کے چہرے پر خود بخود مسکراہٹ پھیل گئی۔ اسے وہ دن یاد آ گیا جب پولیس اسے ہتھکڑیاں لگا کر اس کے گھر لائی تھی تا کہ وہ اپنی ضبط شدہ کتاب بر آمد کرائے۔ ایسے میں اس کی ننھی سی معصوم بیٹی باپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی دیکھ کر ہنس پڑی تھی ۔ شاید وہ ہتھکڑی کو کھلونا سمجھی تھی۔ جالب کو اس موقع پرلکھی ہوئی اپنی نظم یاد آ گئی:
اس کو شاید کھلونا لگی ہتھکڑی میری بچی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی
یہ ہنسی تھی سحر کی بشارت مجھے یہ ہنسی دے گئی کتنی طاقت مجھے
کس قدر زندگی کو سہارا ملا ایک تابندہ کل کا اشارہ ملا
ہسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے جالب کی نظروں کے سامنے سے ماضی کے سارے منظر گزر گئے ۔ اس نے سوچا کیسا کٹھن راستہ تھا لیکن کیسا دل ربا سفر تھا جب وہ ایک خواب کی انگلی پکڑ کر چل رہا تھا۔ اسے اپنا ایک شعر یاد آگیا جو زندگی کے سفر میں اس کا منشور رہا۔ نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں /چراغ ہم نے جلائے وفا کے رستے میں۔ اس کے چہرے پر اطمینان اور تشکر کی روشنی پھیل گئی۔ پھر اس کی آنکھیں خود بخود مندنے لگیں ۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی چاندنی اترنے لگی اور ایک نئی سحر کی بشارت اس کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں میں ہلکورے لینے لگی۔
شاہد صدیقی
بشکریہ دنیا نیوز
4 notes · View notes
maqsoodyamani · 3 years
Text
بانی شہر محمدقلی قطب شاہ کی تہذیب کے تسلسل میں شاندار محفل شعروادب کاانعقاد، صلاح الدین نیئر کوشہنشاہ شعروادب کاخطاب
بانی شہر محمدقلی قطب شاہ کی تہذیب کے تسلسل میں شاندار محفل شعروادب کاانعقاد، صلاح الدین نیئر کوشہنشاہ شعروادب کاخطاب
بانی شہر محمدقلی قطب شاہ کی تہذیب کے تسلسل میں شاندار محفل شعروادب کاانعقاد، صلاح الدین نیئر کوشہنشاہ شعروادب کاخطاب دانشوران اردوادب آصف پاشاہ، ای اسماعیل،پروفیسر شکور، ڈاکٹرمحمدغوث ،افضل الدین و��یگر کاخطاب     حیدرآباد۔16ستمبر(راست )     ذیمریس ادبی فورم وآل انڈیا اردوماس سوسائٹی فارپیس کے زیراہتمام تزئین فکروخیال وتہذیب شعروحکمت کے خدوخال پرروشنی ڈالنے کیلئے شہر کے منتخب دانشوران شعروادب کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
واقعہ کربلا اور ہم
واقعہ کربلا اور ہم
آج عشرہ محرم کا چھٹا دن ہے…… چار روز بعد آئندہ جمعرات کو یوم عاشور ہو گا…… دنیا بھر کے شیعہ مسلمان اور سنیوں کی بھاری اکثریت اس دن کو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے افراد کنبہ کی جن میں نہتی خواتین اور معصوم بچے بھی شامل تھے میدان کربلا میں یزیدی لشکر کے ہاتھوں مظلومانہ شہادت کی یاد تازہ کرتی ہے…… مجالس اور مساجد میں واقعہ کربلا کی تفصیلات بیان کی جاتی ہے…… شدت غم سے نڈھال سامعین ان پر گزرنے والے مصائب اور آلام کا تذکرہ کر کے گریہ و آہ وزاری کرتے ہیں …… ماتم کیا جاتا ہے…… حضرت حسین اور ان کے افراد خاندان کی حالت زار کا عقیدت بھرے الفاظ اور غمگین لہجوں میں ایسا ایسا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ سننے والا غیرمسلم ہو بھی تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا…… حضرت حسینؓ کی مظلومیت اور یزید کے ظالم فوجیوں کے ہاتھوں ان پر بے بسی کی کیفیت طاری کر کے شہادت سے دوچار کرنے کا المیہ ہمارے شعروادب کا استعارہ بن چکا ہے…… شاعری کی گئی ہے…… مرثیے رقم کئے گئے ہیں …… اردو ادب کی تاریخ ان بیانیوں سے بھری پڑی ہے…… میر انیس و دبیر جیسے چوٹی کے شاعروں نے تمام تر عروج اپنے مرثیوں کی وجہ سے حاصل کیا اور ہماری شاعری میں لازوال مقام پا لیا…… غالب سے لے کر اقبال اور آج کے عہد تک کی اعلیٰ شاعری کے نمونے حسین کی لازوال قربانی کو خراج تحسین سے مزین ہیں …… اس طرح شعراء، ادیب اور واعظین ہر سال مجالس منعقد کر کے اپنے اپنے کمالات کا مظاہرہ کرتے ہیں اور غم حسین کی محافل کو ایک زندہ اور ہماری ثقافت کے اندر رچی بسی روایات کا زندہ رکھنے کا باعث بنے ہوئے ہیں …… سنی مساجد میں بھی وعظ کی خصوصی محافل منعقد کی جاتی ہے جن میں عامتہ الناس اور معاشرے کے پڑھے لکھے لوگ پوری عقیدت کے ساتھ شرکت کر کے ہماری ابتدائی تاریخ کے سالوں کے اس اہم تر واقعے کے حوالے سے اپنے اندر جذبہ شہادت سے تسکین حاصل کرتے ہیں …… شیعہ بھائی اس موقع پر مخصوص اور جانی پہچانی رسومات ادا کرتے ہیں …… علم نکالے جاتے…… ذوالجناح کے جلوس برآمد ہوتے ہیں …… شرکاء سینہ کوبی کرتے ہیں …… اس طرح غم حسین کی یہ اہم تر تقریب ان کے یہاں سب سے بڑے مذہبی فریضے کی ادائیگی کا ذریعہ بن جاتی ہے…… جلوسوں کے راستوں پر جابجا ٹھنڈے پانیوں کی سلیبیں آراستہ کر کے حضرت حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی پیاس کا غم بجھایا جاتا ہے…… یوم عاشور کی تقریبات کا خاتمہ شام غریباں کے انعقاد پر ہوتا ہے…… جس میں قافلہ حسینی کی وہ خواتین اور بچے جو تلواروں کی زد سے بچ گئے …… ان بیوہ خواتین اور یتیم بچوں کی مظلومیت اور بے بسی کا ایسا منظر باندھا جاتا ہے کہ سن کر پتھر دل بھی ایک دفعہ موم ہو جاتے ہیں …… یہ چند جھلکیاں ہیں …… جن جانب اشارہ کر کے عشرہ محرم کے دوران اہل تشیع کی جانب سے نواسہ رسول کو ان کی مظلومانہ شہادت پر خراج عقیدت پیش کرنے کا حوالہ دیا گیا ہے ورنہ ان کے یہاں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں محرم کی تقریبات غم جو عبادت کا درجہ رکھتی ہیں اس سے کہیں زیادہ اور مختلف نوع کی رسومات کی ادائیگی کی صورت میں کیا جاتا ہے…… اسی طرح سنّی مسلمانوں کی جیسا کہ عرض کیا گیا بھاری اکثریت اپنے انداز میں یہ دن مناتی ہے…… مجالس میں مواعظ کے علاوہ گھروں کے اندر ختم قرآن پاک کا گہری عقیدت کے ساتھ اہتمام ہوتا ہے…… نیازیں بانٹی جاتی ہیں …… پلاؤ اور حلیم کی دیگیں پکتی ہیں اور ان میں تیارکردہ خوان خوب تقسیم ہوتے ہیں …… پیشتر مقامات پر لوگ اپنے اپنے علاقے کے قبرستانوں کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کے پیارے اس دنیا کو خیرباد کہہ کر ابدی نیند سو رہے ہوتے ہیں …… قبروں پر نئی مٹی ڈالی جاتی ہے…… انہیں پھولوں سے سجایا جاتا ہے…… پھولوں اور اگربتیوں کی خوشبوؤں سے پورا قبرستان مہک اٹھتا ہے…… یہ دن اتنے جوش و جذبے اور غم و اندوہ کی کیفیت میں ڈوب کر یوں منایا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر ہمارے طرز احساس کا حصہ بن گیا ہے…… اس کی رسوم اور تقریبات کے ذریعے نہ صرف ہم مسلمانوں کے ایک بڑے اور اہم فرقے کے لوگوں کے لئے عبادت کا وسیلہ بن جاتا ہے بلکہ سنّی عوام کے یہاں منعقد ہونے والی تقریبات ساری تصویر کا حصہ بن کر غمِ حسین کو ہمارے یہاں کی ادبی و ثقافتی زندگی کا اہم جز بنا دیتی ہے یوں اہل سنت کے یہاں عیدین کے بعد 10 محرم کا دن مذہبی علامات کے اظہار کا سب سے بڑا سبب بن جاتا ہے…… 
حضرت حسینؓ کی شہادت عظمیٰ کی یاد اس لئے بھی گہرے رنج و غم کے ساتھ منائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عظیم المرتبت آخری نبی حضرت محمد رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کی چند دہائیوں کے بعد ان کے اہل بیت کو اس المیے سے دوچار ہونا پڑا اس وجہ سے یہ واقعہ طلوع اسلام کی پہلی صدی کے اندر ہی ہمارے ملی دامن پر اَن مٹ سیاہ داغ بن کر چپک سا گیا ہے کہ مٹائے نہیں مٹتا…… دوسرا اہم تر سبب اس کا وہ عظیم الشان مشن ہے جس کی تکمیل کی خاطر جناب حسین نا صرف حکومتِ یزید جیسی پہاڑ سے زیادہ وقت کی مضبوط طاقت اور فوج کے ساتھ جا ٹکرائے…… اپنی خواتین اور بچوں تک کو قربانی کے لئے پیش کر دیا…… وہ مشن اور مقصد جیسا کہ ہمارے علماء تاریخ 
اور شارحین اسلام نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اسلامی ریاست یا خلافتِ اسلامیہ کے مضبوط ترین ستون کو اپنی موروثی بادشاہت کو مضبوط کرنے کے لئے مسمار کر دیا گیا تھا…… یزید کی بیعت کھلے عام مسلمانوں کی آزاد مرضی کی بجائے حکومتی جبر کے تحت کرائی گئی…… یوں اس وقت کے ووٹ کی حرمت پامال ہو کر رہ گئی…… حضرت حسینؓ کے لیے حکمران وقت کے بار بار کے تقاضوں اور ترغیبات کے باوجود ایسی بیعت کی توثیق کرنا مشکل ہو گیا تھا…… ان کے لئے نانا کے وجود میں لائے ہوئے اور قائم کردہ اس دینی ریاستی نظام پر ضرب کاری کا لگایا جانا ناقابل برداشت تھا اس لئے انہوں نے اس عالم میں کہ لوگوں پر یزید کی ناجائز حکمرانی کی ہیبت طاری تھی پہلے کنبے کے افراد کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ سے کوفہ تک کا لمبا سفر اختیار کیا…… یہ سب کھلی کارروائی تھی کسی قسم کی خفیہ یا زیرزمین سرگرمی نہیں تھی…… انہوں نے چونکہ سرعام اور بار بار کے مطالبے کے باوجود یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور ناجائز غیرآئینی حکومت کے آگے سرتسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا تھا جو وقت کی اشرافیہ کے طرز عمل کے خلاف تھا…… اس لئے اس عہد کے کئی داناؤں نے سمجھایا آپ اتنا بڑا خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں دمشق کے دربار کی جانب سے اسے خروج (بغاوت) پر محمول کیا جائے گا…… آپ کی اتنی بڑی قربانی کو قدرومنزلت کی نگاہ سے کوئی دیکھنے والا نظر نہیں آتا اور کم لوگوں میں آپ کی خاندانی تقدیس کی پروا باقی رہ گئی ہے…… اس عالم میں اپنی اور گھر کی خواتین و بچوں کی زندگیوں کو کسی بڑے خطرات سے دوچار نہ کیجئے لیکن حضرت حسینؓ کا جیسا کہ کتبِ تاریخ گواہ ہیں ایک ہی جواب تھا میں ایک ناجائز حکمران کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسے اپنے نانا کی عظیم الشان وراثت پر قابض نہیں ہونے دوں گا…… مدینہ سے روانگی کے وقت انہیں اہلِ کوفہ سے توقع تھی اور ان کی جانب سے موصول ہونے والے کئی خطوط اس کے گواہ بھی تھے کہ وہ قافلہ حسینی کی عملی حمایت اور کوفہ میں ان کی آمد کی دل و جان سے استقبال کر کے ان کی قوت میں خاطر خواہ اضافہ کر دیں گے لیکن وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا سب نے منہ پھیر لیا ہے…… اس حالت میں جناب حسین کہے قافلے کو یزیدی فوج نے گھیرے میں لے کر بے دردی کے ساتھ ان کے قتل کا سامان کیا…… یوں جو کچھ ہوا ہماری قوم کا بچہ بچہ اس سے واقف ہے اور اسی المیہ عظیم کی ہر سال کی مانند ان دنوں بھی ہم پورے روایتی طریقے سے یاد منا رہے ہیں ……
مگر فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے نواسہ رسول کو خراج تحسین پیش کرنے کا کیا یہی طریقہ ہمارے پاس باقی رہ گیا ہے جس مقصد کی خاطر انہوں نے اتنی بڑی اور تاریخی قربانی دی کیا ملتے جلتے حالات کے اندر اس کی تکمیل  ہماری ذمہ داری نہیں ہے…… پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ریاست مدینہ کے قیام کے بعد دوسری نظریاتی ریاست اس ملک کی شکل میں وجود میں لائی گئی…… قائداعظمؒ اس کے بانی تھے اور علامہ اقبالؒ اس کے تصور کے خالق…… علامہ سوشل جمہوریت کے بہت بڑے قائل تھے ان کے لیکچروں اور فارسی و اردو شاعری میں یا جو خطوط علامہ مرحوم نے بانی پاکستان کے نام لکھے یہاں تک کہ خطبہ الٰہ آباد جسے تصور پاکستان کی اثاثی دستاویز کہا جاتا ہے کہیں اس بات کا اشارہ نہیں پایا جاتا کہ نئی اور متوقع ریاست میں عوامی کی بجائے عسکری طاقت کے بل بوتے پر کسی کی حکمرانی کو جائز سمجھا جائے گا ان کے بعد بانیِ پاکستان محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لئے آزاد اور علیحدہ مملکت کے حصول کی خاطر اپنی کامیاب جدوجہد کے دوران کسی مقام پر بھی خالصتاً جمہوری اصولوں کے علاوہ جبر اور تسلط کے کسی اور طریقہ کار کو اختیار کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا نہ اپنی قیادت اور جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے بارے میں ایسا کوئی تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی کوئی عسکری قوت بھی ان کی مددگار بن کر قیام مملکت کے مشن کو نتیجہ خیز بنا سکتی ہے ان کا تمام تر یقین اپنے نصب العین کی سچائی اور برصغیر کے مسلمان عوام کی جمہوری طاقت پر انحصار کئے ہوئے تھا…… 1940 کا قراردادِ پاکستان منظور کرنے والا لاہور کا جلسہ ہو یا 1945-46 کے انتخابات ہوں جس میں مسلمانانِ ہند کی بھاری اکثریت نے ووٹ دیا تھا…… اس تمام تر جاں گسل جدوجہد کے دوران جانوں کی قربانیاں بھی دی گئیں جیلیں بھی کاٹی گئیں مخالفین کے طعنے بھی برداشت کئے گئے لیکن جو بھی راستہ اختیار کیا اس میں کسی قسم کی خفیہ یا زیرزمین سرگرمی کا نشان نہیں ملتا یہ کھلے میدان کی لڑائی تھی جس میں قائداعظمؒ نے مسلمان عوام کی بھاری اکثریت کے علاوہ علماء کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی…… مولانا شبیر احمد عثمانی جیسی جلیل القدر علمی شخصیت نے ساتھ دینے کا اعلان کیا…… بیوروکریسی یا فائنیشل سروسز میں چودھری محمد علی مرحوم اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کے پہلے گورنر زاہد حسین جیسے اپنے شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد نے دست تعاون بڑھایا لیکن تحریک پاکستان کے تمام سالوں کے دوران ہمیں ایک موقع پر بھی کسی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی جرنل یا آفیسر کا براہ راست یا بالواسطہ کردار نظر نہیں آیا نہ قائد اس کی ضرورت محسوس کرتے تھے…… مملکت خداداد کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے انہوں نے جو حلف اٹھایا اس میں مرحوم نے صاف الفاظ میں عہد کیا کہ وہ پاکستان کے آئین کی جو ابھی بنا نہیں تھا پیروی کو فرض اولین قرار دیں گے…… اپنی وفات سے چند ماہ پہلے کوئٹہ میں سینئر افسروں کی ایک تربیت گاہ سے خطاب کرتے ہوئے سوال و جواب کے سیشن کے دوران قائد نے بھانپنے میں دیر نہ لگائی کہ ان افسروں کی سوچ کا زاویہ نظر کیا ہے…… باہر آ کے انہوں نے صاف لفظوں میں بیان کیا کہ ہمارے افسروں کو آئین و جمہوریت کے لوازمات سے آگاہ کرنا ازحد ضروری ہو گیا ہے تاکہ وہ اس حقیقت کا ادراک کر لیں کہ ان کا فریضہ ملک کی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے نا کہ ریاستی امور میں مداخلت کرنا…… مگر موصوف کے آنکھیں بند کر لینے اور لیاقت علی کے قتل کے بعد ہمارا ملک اور قوم مارشل لاؤں کے جس اندھے گڑھے میں جا گرا ہے اور اب تک جوہری لحاظ سے جس غیرآئینی حکمرانی کے زیرسایہ ہمیں سرنیہوڑا کر زندہ رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اس عالم میں ہم حضرت حسینؓ کی یاد میں بے حال ہوئے جا رہے ہیں مگر ان کے اصولوں اور طرزعمل کو فراموش کر دیتے ہیں …… ریاست مدینہ کا نام لیتے نہیں تھکتے…… اس صورت حال اور کھلی و پس پردہ غیرآئینی حکمرانی کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو طنزو تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے…… کیا واقعہ کربلا کے المیے کی یادیں ہم سے اسی طرز عمل کا تقاضا کرتی ہیں …… مجھے یاد ہے 1961 میں جب پاکستان پہلے مارشل لاء کی زد میں تھا مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ٹیمپل روڈ لاہور پر ایک شیعہ لیڈر محمد علی زیدی کی قیام گاہ پر مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا شیعہ اور سنّی مسلمان یادِ حسین میں تو پیچھے نہیں رہتے لیکن آج اگر حضرت حسینؓ اسی محفل میں آ کر مسلمانوں سے مطالبہ کریں آؤ میرے ساتھ مل کر ایک غیرآئینی حکمرانی کے خلاف نکل کھڑے ہو جاؤ تو مجھے یقین ہے آپ میں سے دو آدمی بھی ڈر اور خوف کے مارے ساتھ دینے والے نہیں ہوں گے…… میں ایک عام سا نوجوان اس محفل میں موجود تھا اور یہ میرے دیکھنے کی بات ہے پوری کی پوری مجلس پر جس کے اندر بعض جیّد علماء بھی موجود تھے عجب سی خاموشی چھا گئی، بعد میں کچھ اور علماء نے بھی محفل کو گرمایا لیکن کسی ایک کو مولانا مودودی کے اٹھائے گئے نقطے کی جانب اشارہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی…… آج بھی جب ہم ہر سال کی مانند عشرہ محرم کی تقریبات منا رہے ہیں ہمارے ملک کے نظام پر جبر اور تشدد کی فضا چھائی ہے کم لوگوں کو کھل کر بات کرنے کا یارا ہے……
Source link
0 notes
azharniaz · 3 years
Text
آغا شورش کاشمیری پیدائش14 اگست
آغا شورش کاشمیری پیدائش14 اگست
آغا شورش کاشمیری پاکستان کے مشہور و معروف شاعر،صحافی، سیاست دان اوربلند پایہ خطیب تھے۔ آغا شورش کاشمیری 14 اگست 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام عبد الکریم تھا، لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
iattock · 3 years
Text
محفل شعروادب کیمبل پور
محفل شعروادب کیمبل پور
محفل شعر ادب16 ستمبر1957کو قائم ہوئی ۔یہ تنظیم ضلع اٹک میں سب سے زیادہ فعال،مفید،کارآمد اور سب سے زیادہ عمر پانے والی ادبی تنظیم ہے۔اس وقت اٹک کے ہر چھوٹے بڑے ادیب پر اس تنظیم کے اثرات ہیں۔نذر صابری مرحوم اس کے بانی اور سیکرٹری تھے،اور مرتے دم تک وہ اس کے سیکرٹری رہے البتہ چند ماہ کے لیے پروفیسر منظور بھی اس تنظیم کےسیکرٹری کے عہدے پر متمکن رہےلیکن صابری صاحب کی علمیت اور شخصیت کی وجہ سے ان کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
telegramchannel · 4 years
Text
کانال منطقه سرسبز شراء
کانال منطقه سرسبز شراء
کانال رسمی شهرستان خنداب اخبار طبیعت هواشناسی کشاورزی محیط زیست اجتماعی_فرهنگ گردشگری شعروادب ورزشی مطالبات مردمی تاریخی دره_دشت سرسبزشراء شامل دهستان پل دوآب از شازند و کل شهرستان خنداب میباشد. ارتباط با ما @SharraTelegramAdmin @Sharratelegramadmin1 افزودن کانال
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingkarachi · 11 years
Text
Karachi University memories
جامعہ کراچی ایسی درسگاہ ہے،جہاں سے فارغ التحصیل طلبا نے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کااظہارکرکے دنیا کو حیران کیا۔اس جامعہ میں متوسط طبقے کے طالب علم حصول علم کے لیے آئے اورخوابوں کی تعبیر لے کر دنیا میں چھاگئے۔میں اگر ان میں سے چند نام یادکروں، تومیرے حافظے پر جن شخصیات کاتصور ابھرتاہے ،ان میںابوالخیر کشفی،جمیل الدین عالی،اسلم فرخی، عطاالرحمن،فرمان فتح پوری،حسینہ معین،ابن انشا،جمیل جالبی،منظور احمد،محمد علی صدیقی،پروین شاکر،سحر انصاری اور زاہدہ حنا جیسی شخصیات شامل ہیں۔
یہ فہرست بہت طویل ہے، میں نے تو صرف شعرو ادب سے وابستہ چند نام درج کیے ہیں۔اسی طرح جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ کے منصب کی فہرست بھی کئی بڑے ناموں سے سجی ہوئی ہے،ان ناموں میں شعبہ تاریخ کے اشتیاق حسین قریشی،انگریزی کے شعبے سے محمود حسین اورشعبہ اردوکے جمیل جالبی سمیت1951سے لے کر 2013تک 16شخصیات نے اس منصب کی ذمے داری کو احسن طریقے سے نبھایا۔ ہزاروں کی تعداد میں اس جامعہ سے فارغ التحصیل طلبا کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ابھی تک جامعہ کراچی کی نسبت سے جتنے نام یہاں درج کیے گئے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ 64برس میں اس ادارے سے تعلیم حاصل کرکے جانے والوں نے علم کے چراغ روشن کیے۔تخیل کی سنہری دھوپ سے خیال کی فصلوں کو پکایا۔ باذوق تحریروں سے معنویت کی داستانیں رقم کیں۔افکار کے جگنو اور بیان کی تتلیاں ان کے اذہان سے اڑان بھر کر ساری دنیا میں محو پرواز رہیں۔
جامعہ کراچی سے منسوب یہ تصور اتنا خوبصورت ہے، جس کا یہاں مکمل طور پر بیان کرنا ممکن نہیں۔یہ وہ ہی سمجھ سکتا ہے، جو کبھی اس جامعہ کا طالب علم رہا ہو۔جس نے اس کی راہداریوں میں بیٹھ کر اساتذہ کو آتے جاتے دیکھا ہو۔جس نے محمود حسن لائبریری کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر چائے پی ہو۔حبس زدہ دوپہروں میں جامعہ کے مرکزی دروازے تک آنے کے لیے کئی کلومیٹر پیدل مسافت طے کی ہو۔وہ ان ناموں اوراحساسات کی گہرائی کو زیادہ بہترطورپر سمجھ سکتاہے اورجو تصور کے اس درجے کو سمجھ سکتا ہے،وہ یہ بھی جانتا ہوگا کہ اسی جامعہ کے ساتھ کئی طرح کی تلخ حقیقتیں بھی پیوستہ ہیں،جن سے ہر طالب علم کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معاشرے جب زوال پذیر ہوتے ہیں، تو ان کو بنانے والے شعبوں پر بھی زوال آتا ہے۔یہی زوال جامعہ کراچی پر بھی آیا۔ طلبا کی اکثریت بھی ایسی آئی ،جنھیں صرف سند حاصل کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے یا پھر وقت گزاری میں۔ جب معاشرے،ادارے اورافراد ایسے رویوں کے عادی ہو جائیں ،تو زوال کس دروازے سے آپ کے آنگن میں داخل ہوتا ہے،اس کا بھی احساس نہیں ہوتا۔
جامعہ کراچی کی روشن اور تخلیقی روایت کے ایسے ہی چار افراد کو میں جانتا ہوں،جنہوں نے خاموشی سے خود کو علم بانٹنے میں مصروف رکھا ہوا ہے،اس پر لطف یہ ہے کہ وہ صرف طالب علموں کو سیراب ہی نہیں کر رہے ،بلکہ خود کو بھی تخلیقی کیفیات سے جوڑ رکھا ہے۔ایک طرف تخلیق کار پیدا کر رہے ہیں ،تو دوسری طرف خود تخلیق کے کینوس پر اپنے اظہار کے رنگ بکھیر رہے ہیں۔یہ چار نام پروفیسر مسعود امجدعلی،ڈاکٹر افتخار شفیع ،ڈاکٹر رؤف پاریکھ اورڈاکٹر طاہر مسعود ہیں۔ایسے لوگوں کے دم سے ابھی علم کا چراغ جامعہ کراچی میں روشن ہے۔ان چاروں شخصیات کو آپ کسی ادبی میلے میں نہیں دیکھیں گے،شاید یہ میلے ٹھیلے کے لوگ بھی نہیں ہیں اور میلے کی انتظامیہ کو دکھائی بھی نہیں دیتے،لیکن یہی وہ لوگ ہیں، جنھیں ہم تخلیق کی آبرو اور خیال کی زینت کہتے ہیں۔جن کے احساس سے تخلیقات میں معنویت دھڑکتی ہے۔
ان میں سے پہلی شخصیت ’’پروفیسر مسعود امجد علی‘‘کا تعلق انگریزی کے شعبے سے ہے۔ساٹھ کی دہائی سے پڑھانے والے اس استاد سے ہزاروں طلبا فیض یاب ہوچکے ہیں۔ یہ 1994سے 1997تک اسی شعبے کے چیئرمین بھی رہے۔ یہ انگریزی زبان میں شاعری کرتے ہیں ۔ان کی نظموں کا مجموعہ ’’Chrysanthemum Blossoms‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شایع ہوچکا ہے مگر اہل شہر اس بات سے بے خبر ہیں اور انگریزی اخبارات کو بھی عام ڈگر سے ہٹ کر ایک معیاری نظمیں تخلیق کرنے والے اس شاعر کو دریافت کرنے کی زحمت نہیں کرنا پڑی،ایک ایسا شاعر جو مدرس بھی ہے اورجس کے لہجے اور تکنیک سے طلبا انگریزی زبان کی بُنت سیکھتے ہیں۔پروفیسر مسعودامجد علی اپنے شعبے کے بارے میں کس انداز میں رائے دیتے ہیں،یہی ان کی تخلیقی اُپچ کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ان کے خیال میں ’’جامعہ کراچی کا شعبۂ انگریزی ایک آرٹسٹ کے اسٹوڈیو کی طرح ہے،جہاں آپ فن اوررنگوں کا ذائقہ چکھتے ہیں۔‘‘
دوسری شخصیت کا تعلق بھی انگریزی کے شعبے سے ہے،انھیں ’’ڈاکٹر افتخار شفیع ‘‘کہاجاتاہے۔یہ فقیر منش استاد ہے،جس نے اپنی تہذیبی حساسیت کو تھام کر اورایک دوسری زبان کے شعروادب کو طلبا کے ذہنوں میں اتارا۔کم عمری میں پی ایچ ڈی کرنے والے اس مدرس کی بنیاد مولانا رومی کی شاعری تھی،جس کی عملی صورت ان کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتی ہے۔عام سے لباس میں ایسی خاص باتیں کرتے ہیں،لفظوں کے معنی اس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں کہ سننے والا اپنے آس پاس کا ہوش کھو بیٹھے، بے شک اہل شعور ایسے ہی لوگ ہوا کرتے ہیں۔کئی برس سے انگریزی ادب پڑھانے والے اس استاد نے اپنا دامن جھاڑا تو اردو شاعری کاخوبصورت مجموعہ ’’انگارہ‘‘ قارئین کومیسر آیا۔جس کا ایک شعر بہت سی ان کہی باتوں کا بیان ہے۔ لکھتے ہیں ’’جب بجھی شمع سخن گرمیٔ محفل کے لیے، آ گئے ہم بھی ہتھیلی پہ لیے انگارہ‘‘پروفیسر افتخار شفیع کی کتاب ’’انگارہ‘‘ کے دو سو تیراسی صفحات ان کے جذبات، وجدان، شعور اور مشاہدے کی اتھاہ گہرائیوں کو بیان کرتے ہیں اور بیان بھی ایسے شاعرانہ انداز میں، جیسے نرم وملائم بادصبا چھوکر گزر جائے ،وہ دکھائی نہ دے مگر اس کے ہونے کا احساس موجود ہو۔
تیسری شخصیت کا نام ڈاکٹر رؤف پاریکھ ہے۔یوں تو یہ کسی تعارف کے محتاج نہیں،لیکن میں رسم نبھانے کو اگر ان کے بارے میں کچھ بتاناچاہوں تومختصراً یہ ہے کہ ان کا تعلق شعبۂ اردو سے ہے،صرف جامعہ کے طلبا ہی ان کے علم سے فیض یاب نہیں ہوتے،بلکہ مجھ جیسے ناچیز بھی ان سے اکثر مواقعے پر رہنمائی لیتے ہیں۔یہ اردو ڈکشنری بورڈ،کراچی سے وابستہ رہے۔اردوکے شعبے میں پڑھانے کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے شعبہ لغت سے بھی وابستہ ہیں۔ایک موقر انگریزی روزنامے میں ہفتہ وار ادبی کالم بھی لکھتے ہیں۔انجمن ترقی اردو اور غالب لائبریری سے بھی وابستہ ہیں۔تصنیف وتالیف کاکام بڑی باقاعدگی سے کرتے ہیں اوراب تک ان کی تقریباً20کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔یہ بھی دل کے صاف،سچے اوراپنے کام سے محبت کرنیوالے وہ شخص ہیں، جن پر کسی بھی ہم عصر کو رشک آتاہے۔چوتھی شخصیت کا تعلق شعبۂ ابلاغ عامہ سے ہے۔ان کا نام ڈاکٹر طاہر مسعودہے اور یہ اس شعبے کے موجودہ چیئرمین ہیں۔یہ ان چند اساتذہ میں سے ہیں،جو تخلیق کار ہیں اور ’’صورت گرکچھ خوابوں کے‘‘ان کی مشہور زمانہ کتاب ہے۔اس کے علاوہ یہ افسانے ،ادبی مضامین اور اخباری کالم لکھتے ہیں۔ان کے افسانوں کی کتاب کا نام ’’گمشدہ ستارے‘‘تھا،جس میں کئی رنگ ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں۔ان کے ہم عصر تخلیق کاراورمعروف شاعر فراست رضوی ان کے بارے میں اس کتاب کے دیباچے میں کچھ اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں۔
’’ان کی کہانیوں کے کردار عام لوگ ہیں۔تقدیر کے جبر اور معاشرتی استحصال کے مارے ہوئے۔ان کے حالات زندگی بہت الجھے ہوئے ہیں۔یہ سب کسی نہ کسی دُکھ کا پہاڑ اٹھائے ہوئے زندگی کا بوجھ ڈھو رہے ہیں۔طاہر کی کہانیوں کے کردار خوش وخرم لوگ نہیں ہیںیہ سب زندگی کے ناکام افراد ہیں۔ ناآسودگی میں مبتلا کسی ادھورے پن کاشکار۔طاہر مسعود کی کہانیوں کے کردار ایسے کیوں ہیں؟ ’’وارڈ نمبر گیارہ کا معذور بوڑھا ’’منزل آخرفنا‘‘ کا عمر رسیدہ ریٹائرڈ کرنل، اکیلاپن جس کی روح میں اترگیا یاس زدہ گھرانے کی خاموش غم زدہ ماں۔’’خواب اورآنسو‘‘کاخواب گزیدہ ادیب۔ تنہائی کی ماری مسز رخشندہ کریم۔ادھوری بینائی کامالک صفدر علی اور حافظے کی قید سے آزاد ہو جانے والا کردار۔میں نے اس بارے میں سوچا تو مجھے ایسا لگا کہ طاہر مسعود انسان کے باطن میں اتر کر اس کی داخلیت کے نامعلوم گوشوں کو قاری پر منکشف کرنا چاہتے ہیں اورپھر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ عہد جدید کاآدمی اتنا ہی دکھی اور ژولیدہ ہے جتنا طاہر نے اپنی کہانیوں میں دکھایا ہے‘‘
پروفیسر مسعود کی انگریزی شاعری،ڈاکٹر افتخار شفیع کی اردو شاعری اورانگریزی ادب کا فہم،ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی علمی سخاوت اورڈاکٹر طاہر مسعود کی اداس بھری تخلیق سے بھرپور کہانیاں اورکردارسب کے درمیان ایک نکتہ یکساں ہے اوروہ ہے ’’خاموشی‘‘ان تخلیقی ستونوں کے دروازے سچی فکر کے لیے کھلے ہوئے ہیں،مگر سیراب کی اس منزل کو پانے کے لیے آپ کو ان کی طرف جانا ہوگا۔
خرم سہیل
Karachi University
0 notes
bigbukhari · 5 years
Photo
Tumblr media
مجھ کو پانی میں اترنے کا اشارہ کر کے چھپ گیا چاند سمندر سے کنارہ کر کے تجربہ ایک ہی عبرت کے لیے کافی تھا میں نے دیکھا ہی نہیں عشق دوبارہ کر کے #اردوستان #اردوشاعری #اردوادب #خط_جہانگیری #غزل #شعرعاشقانه #شعروادب https://www.instagram.com/p/Bv8YZkOgPgG/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=1v9od4i8anxxu
0 notes
dhanaklondon · 5 years
Text
  خزینہ۶ شعروادب انٹرنیشنل مانچسٹر برطانیہ اور اُردو گلوبل نیٹ ورک کی جانب سے محفل مُشاعرہ کا اہتمام
17 فروری 2020 کی شام برستے بادلوں اور یخ بستہ ہواؤں کی سنگت میں خزینہ۶ شعروادب انٹرنیشنل مانچسٹر برطانیہ اور اُردو گلوبل نیٹ ورک کی جانب سے محفل مُشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مصنف ڈرامہ نگار اور شاعر افتخار افی آف پاکستان کی کتاب یوکے یاترا کی تقریب رونمائ ہوئ محفل کی صدارت اور نظامت صابر رضا نے کی میزبانی کے فرائض چئر مین خزینہ شعروادب شیخ امتیاز اقبال اور نغمانہ کنول بانی و صدر خزینہ نے سر انجام دئیے
پروگرام کا آغاز سرور چشتی کی تلاوت و نعت رسول مقبول سے ہؤا ۔پروگرام کے پہلے حصے میں یوکے یاترا کی رونمائ ہوئ دوسرے حصے میں انٹر نیشنل مُشاعرہ پڑھا گیا جس میں نامور شعرا نے اپنا کلام پڑھ کر داد وصول کی اس محفل میں محمد عبداللہ ،ردا صاحبہ ، شبانہ کوثر جی ، محمد زمان صاحب ، محترم عظیم ملک جی سُر سنگیت کے بانی صحافی اور ٹی وی اینکر ، صاحبزادہ ہمایوں صاحب مقدس مجید گلوئینگ سٹارز ، محبوب الہی بٹ ، سپیکر اخبار کے ایڈیٹر اور شاعر ,شاہین بٹ ٹی وی اینکر ،طاہر چودھری اُردو ٹائمز ،سکندر نواز چئر میں کاروان ادب عبدل غفور کشفی شاعر ،برنلے ناہید کیانی شاعرہ ،عبدل غفار جی صنم ریسٹو رینٹ احمد شہزاد شاعر مسقط ،رانا رؤف جی سوشل ورکر افتخار ڈار جی سنگر سرور چشتی جی سی ای او نعت خواں ٹی وی چینل اونر ، محمد شہزاد علی مرزا اُردو گلوبل کے بانئ و چئیر میں ،شبنم مرزا شبانہ جی ڈاکٹر فصہ جی مصطفا یئہ شریف تنظیم ان کے بیٹے ، صابرہ ناہید جی خزینہ ، شگفتہ پرواز جی خزینہ ،ممتاز خان جی مصنف احمد شہزاد کی فیملی پامیلہ ملک خزینہ ،محمد حسنین خزینہ ، مقدسہ بانو خزینہ ، صابر رضا صاحب بانی و چئیر میں کاروان ادب ،مسیح برادران گل صاحب ، جنید شیخ کرن جنید محمد علی نوید شاہ جی پی ٹی آئ مصور صاحب بزنس مین ، اور بے شمار دیگر سیاسی سماجی قد آور شخصیات نے شرکت کی پروگرام کے اختتام پر عشائیہ دیا گیا
#gallery-0-5 { margin: auto; } #gallery-0-5 .gallery-item { float: left; margin-top: 10px; text-align: center; width: 33%; } #gallery-0-5 img { border: 2px solid #cfcfcf; } #gallery-0-5 .gallery-caption { margin-left: 0; } /* see gallery_shortcode() in wp-includes/media.php */
اُردو گلوبل کے پانچ سالہ جشن کو نغمانہ کنول نے بطور ڈایریکٹر اُردو گلوبل مرزا شہزاد علی بانئ تنظیم اُردو گلوبل کے ساتھ مل کر کیک بھی کاٹا اور خزینہ کے جانب سے میاں عامر علی ، بیورو چیف ،محمد حسنین خزینہ ۔افتخار افی جی شاعر مصنف ڈرامہ رائٹر ،اور دیگر کو تعریفی اسناد سے نوازہ گیا ماحول کو گرم رکھنے کے لئے شبنم نے کشمیری چائے پیش کی مشہور سنگر افتخار ڈار نے اپنی سُریلی آواز میں کئ گیت سُنائے ۔ اور یوں رات گئے یہ پر لُطف محفل اختتام پزیر ہوئ الحمد لللہ  رپورٹ نغمانہ کنول شیخ بانئ و صدر خزینہ شعروادب انٹر نیشنل مانچسٹر برطانیہ
خزینہ۶ شعروادب انٹرنیشنل مانچسٹر برطانیہ اور اُردو گلوبل نیٹ ورک کی جانب سے محفل مُشاعرہ کا اہتمام خزینہ۶ شعروادب انٹرنیشنل مانچسٹر برطانیہ اور اُردو گلوبل نیٹ ورک کی جانب سے محفل مُشاعرہ کا اہتمام
0 notes
09301098765 · 7 years
Photo
Tumblr media
. 28تیر سالروز تولدهنرمند ادیب سیمین بهبهانی بر ایرانیان اهل ادب وشعر گرامی باد #سالروز #سیمین_بهبهانی #شعروادب #فرهنگ_وهنر #هنرمند #خلاقیت_ساخت #طراحی_مدرن #سفارش_طراحی #برندینگ #مشاوره_فروش #جذب_مشتری #رازموفقیت #اسلوگان #webdesign #visual_art #stamp #logo . 28تیر سالروز تولدهنرمند ادیب سیمین بهبهانی بر ایرانیان اهل ادب وشعر گرامی باد #سالروز #سیمین_بهبهانی #شعروادب #فرهنگ_وهنر #هنرمند #خلاقیت_ساخت #طراحی_مدرن #سفارش_طراحی #برندینگ #مشاوره_فروش #جذب_مشتری #رازموفقیت #اسلوگان #webdesign #visual_art #stamp #logo 🔵 محنا ؛ موسسه اي دانش بنيان درحوزه مهندسي طراحي تبليغات،برندینگ، طراحي سيستم هاي اطلاع رساني وفرآيندهاي بازاريابي است.
0 notes
bigbukhari · 6 years
Photo
Tumblr media
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں #اردوستان #اردوشاعری #شعروادب #خواتین_کا_عالمی_دن #علامہ_اقبال #urdustaan #urdupoetry #beauty #women #womensday #wordlwomensday #womensfashion #maheela #خط_جہانگیری #غزل https://www.instagram.com/p/BuvHIIggZqa/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=bya7pkw6wcvh
0 notes
bigbukhari · 6 years
Photo
Tumblr media
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں عشق توفیق ہے گناہ نہیں #شعرعاشقانه #شعر_حب #محفل #اردوستان #اردو #اردوشاعری #اردوشعر #اردوغزل #عشق #گناہ #توفیق #محبت #خط_جہانگیری #شعروادب #فراق_گورکھپوری #urdu #urdupoetry #urdushairi #urdupoetrylovers (at Gorakhpur, Orissa, India) https://www.instagram.com/p/Bq42QQ_Hkkb/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=1vy6bau3nm1rg
0 notes
bigbukhari · 6 years
Photo
Tumblr media
جس طرف اُٹھ گئی ہیں آہیں ہیں چشم بد دور کیا نگاہیں ہیں #urdustaan #urdu #urdushairi #urdupoetrylovers #urdupoetry #اردوستان #خط_جہانگیری #اردوادب #شعروادب #شعروشاعری #اکبرالہ_آبادی #غزل #شعر #شعرعاشقانه (at Allahabad, India) https://www.instagram.com/p/BqnTfjanvVq/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=125nico63owqk
0 notes