Tumgik
#محفل شعر و ادب
iattock · 3 years
Text
محفل شعروادب کیمبل پور
محفل شعروادب کیمبل پور
محفل شعر ادب16 ستمبر1957کو قائم ہوئی ۔یہ تنظیم ضلع اٹک میں سب سے زیادہ فعال،مفید،کارآمد اور سب سے زیادہ عمر پانے والی ادبی تنظیم ہے۔اس وقت اٹک کے ہر چھوٹے بڑے ادیب پر اس تنظیم کے اثرات ہیں۔نذر صابری مرحوم اس کے بانی اور سیکرٹری تھے،اور مرتے دم تک وہ اس کے سیکرٹری رہے البتہ چند ماہ کے لیے پروفیسر منظور بھی اس تنظیم کےسیکرٹری کے عہدے پر متمکن رہےلیکن صابری صاحب کی علمیت اور شخصیت کی وجہ سے ان کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
alibabactl · 4 years
Text
💜معلومات اردو ادب💜
س۔1۔
*آورد* ۔ جب شاعر ارادی طور پر فکر سخن میں بیٹھے اور شعر کہنے کے بعد اس کے لفظ و بیان اور ترتیب و تنظیم پر غور و غوض کرے اور بہتر پیرایہ میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔
س2۔
*ابتذال*۔ کلام میں غیر مہذب سوقیانہ اور بازاری الفاظ لانا یا ایسا کلام کہنا جس کا مضمون شائستگی سے بعید ابتذال کہلاتا ہے ۔
س۔3۔
*استعارہ*۔ استعارہ علم بیان کی اصطلاح ہے جس کا معنی ادھار لینا ہے کسی شے کے لوازمات اور خصوصیت کو کسی دوسری شے سے منسوب کرنا ۔
س۔4۔
*اشتراکیت* ۔ شخصی ملکیت کے تصور اور اجتماعی ملکیت کا فلسفہ جس میں معاشرے کے افراد میں ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم و اشتراکیت کہلاتا ہے۔
س5۔
*المیہ*۔ المیہ اس ڈرامے کو کہتے ہیں جس کو پڑھنے یا دیکھنے سے قاری یا ناظر میں رحم یا خوف دونوں جزبات پیدا ہوں یعنی وہ ڈرامہ جس کے واقعات میں حزنیہ فضا ہو اور وہ اپنے اختتام پر قاری یا ناظر کو حزیں افسردہ ہمدرد اور اندوہ گیر چھوڑ دے ۔
س۔6۔
*انشا پرداز*۔ کسی نثر پارے میں دو چیزیں قابل توجہ ہوتی ہیں اول مواد دوم اسلوب اگر کسی نثر پارے کا اسلوب نہایت نرالا شعرانہ اور متخیلہ کی کرشمہ سازی کا حامل ہے تو وہ نثر پارہ اپنے اسلوب کی بدولت زندہ رہتا ہے اردو میں رجب علی بیگ سرور محمد حسین آذاد ملا وجہی اور غالب ایسے صاحب طرز انشا پرداز ہیں جن کی نثر شاندار اسلوب کی بنا پر ہمیشہ سے مقبول ہے ۔
س۔7۔
*ایجاز* ۔ کسی موضوع کو کم سے کم ممکنہ حرفوں میں ادا کرنا ایجاز کہلاتا ہے۔
س۔8۔
*علم بدیع* ۔ یہ شعری تنقید کی ایک اصطلاح ہے چنانچہ علم بدیع وہ علم ہے جس میں کلام کی خوبیوں سے بحث کی جاتی ہے۔
س۔9۔
*بحر* ۔ یہ علم عروض کی اصطلاح ہے شعر جس وزن پر کہے جاتے ہیں اس کا اصطلاحی نام بحر ہے ۔
س۔10۔
*بلاغت* ۔ اس سے مراد پہنچنا اثر آفرینی اور کلام کا سریع الفہم ہونا ہے بلاغت ہر وہ زریعہ ہے جس سے ہم اپنے معنی کو خوبصورت انداز میں فصاحت کے ساتھ سامع تک پہنچاتے ہیں اور سامع کے دل میں وہی اثر پیدا کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے دل میں ہوتا ہے۔
س۔11۔
*تاثر* ۔ وہ جزباتی اثر جو قاری سامع یا ناظر کسی فن پارے کو پڑھ س یا دیکھ کر فوری طور پر قبول کرتا ہے تاثر کہلاتا ہے۔
س۔12۔
*تجسیم* ۔ غیر مرئی حقائق جبلات یا عادات وغیرہ کو حرکی مادی جسم میں ڈھال کر پیش کرنا تجسیم کہلاتا ہے ۔
س۔13۔
*تجنیس* ۔ یہ ایک صنعت شاعری ہے اس سے مراد ہم جنس ہونا اور ہم صوتیت ہے کلام میں دو ایسے الفاظ استعمال کرنا جو تلفظ یا املا یا دونوں میں مشابہت رکھتے ہوں لیکن معنوں میں اختلاف ہو تجنیس کہلاتا ہے۔
س۔14۔
*تحریف* ۔ پیروڈی کا لفظ یونانی الاصل ہے اردو می اس کے لیے تحریف کی اصطلاح رائج ہوئی کسی شاعر کے سنجیدہ کلام کو معمولی رد وبدل سے مضحکہ خیز بنا دینا یا کسی سنجیدہ کلام کی اس طرح نکل اتارنا کہ وہ مضحک بن جاے ۔
س۔15۔
*تخلص* ۔ شاعر اپنے ذاتی اور خاندانی نام کے علاوہ جو نام شعرانہ شناخت کے طور پر اپناتا ہے اسے اصطلاحاً تخلص کہلاتا ہے ۔
س۔15۔
*خطاب* ۔ جو بادشاہ یا سرکار سے اعزازی طور پر ملتا ہے جیسے علامہ الدولہ وغیرہ۔
س۔16۔
*لقب* ۔ ایک وصفی نام جو کسی خصوصیت یا وصف کی وجہ سے پڑ گیا ہو جیسے مرزا نوشہ لقب ہے اسد اللہ خان غالب کا ۔
س۔17۔
*ترفع*۔ تنقید کی عظیم اور قدیم اصطلاح ہے جو دوسری صدی عیسوی سے رائج ہے ترفع کسی فن پارے کی وہ خوبی ہے جس کے باعث اس کا اسلوب عام سطح سے بلند ہو کر خاص امتیاز کا حامل ہو جاتا ہے ۔
س۔18۔
*تصرف* ۔ یہ عمومی طور پر شعری اصطلاح ہے جس سے دخل دینا اختیار قبضہ وغیرہ مراد ہے کسی شاعر یا نثر نگار کے کلام میں کچھ ردوبدل کرکے ایک نئی معنوی کیفیت پیدا کرنا تصرف کہلاتا ہے۔
س۔19۔
*تصوّف* ۔ یہ روحانیت کی اصطلاح ہے فرد کے روحانی تجربے کو تصوف کہتے ہیں تصوف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صاحبِ حال کے تجربے میں آتا ہے یہ فرد کی مکمل تنہائی کا تجربہ ہے جو ناقابل بیان ہے یعنی اس تجربے کا ابلاغ نہیں ہو سکتا کیونکہ ابلاغ عمرانی ہے۔
س۔20
*تضاد* ۔ یہ ایک شعری صنعت ہے جب کلام میں ایسے الفاظ لاے جائیں جو معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہوں صنعت تضاد کہلاتی ہے
س۔21۔
*تقریظ*۔ کسی ادب پارے کے بارے میں تبصرہ کرنا عکاظ کے مقام پر ایک میلہ لگتا تھا جہاں ایک شعری نشست منعقد کی جاتی تھی صدر محفل کسی ایک قصیدے کو دوسرے پر برتری دے کر اس کی خوبیوں اور محاسن پر ایک بلیغ تقریر کرتا تھا اسے تقریظ کہتے تھے۔
س۔22۔
*تلمیح* ۔ تلمیح کی اصطلاح علم بدیع کے حصے میں آئی ہے کلام میں کوئی ایسا لفظ یا مرکب استعمال کرنا جو کسی تاریخی مذہبی یا معاشرے واقعے یا کہانی کی طرف اشارہ کرے تلمیح ہے ۔
س۔23۔
*تنقید* ۔ کسی فن پارے کے محاسن کو معیاراتِ فن کے مطابق پرکھنا جانچ پڑتال کرنا اور اندرونی حاسبہ جمال کی مدد سے اس کی قدر وقیمت کا تعین کرنا "تنقید" کہلاتا ہے۔
س۔24۔
*جزئیات نگاری* ۔ کسی واقعے یا امیج کو شاعری یا افسانے میں بیان کرتے وقت اس کے نہایت معمولی حصے کو بھی مدِ نظر رکھنا جزئیات نگاری کہا جاتا ہے۔
س۔25۔
*خارجیت* ۔ یہ تنقید شعر کی اصطلاح ہے جو خارجی واردات لوازمات اور متعلقات میں راہ کر شاعری کرے وہ خارجیت پسند ہوتا ہے خارجیت پسند شاعر زندگی کی بیرونی سطح دیکھتا ہے
س۔26۔
*مقفیٰ نثر* ۔ ایسی نثری عبارت جس کے فقروں میں وزن نہ ہو لیکن قافیہ کا استعمال کیا گیا ہو ۔
س27۔
*مسجع نثر* ۔ ایسی عبارت جس کے ایک فقرے کے الفاظ دوسرے فقرے کے الفاظ میں ہم وزن اورہم قافیہ ہوں ۔
28۔
*صنعت حسن تعلیل* ۔ حسن تعلیل ایسی شعری صنف ہے جس میں شاعر کسی واقعے کی اصل منطقی جغرافیائی یا سائنسی وجہ نظر انداز کر کے ایک تخیلاتی جزباتی اور عین شاعرانہ وجہ بیان کرے
؎پیاسی جو تھی سپاہِ خدا تین رات کی
ساحل سے سر ٹپکتی تھیں موجیں فرات کی۔
س۔29۔
*راجائیت*۔ ادبی اصطلاح کے طور پر آرزو مندی زندگی سے محبت اور پر امید لہجہ اختیار کرنا ۔
س۔30۔
*ریختی*۔ ایسی نظم جو عورتوں کے بارے میں عورتوں کی طرف سے لکھی جاے ۔
س31۔
*شہر آشوب* ۔ وہ نظم جس میں کسی ملک شہر یا معاشرے کے اقتصادی سیاسی یا معاشرتی دیولیہ پن مجلسی زندگی کے پہلوؤں کا نقشہ طنزیہ انداز میں پیش کیا جاے ۔
س۔32۔
*واسوخت*۔ ایسی نظم جس میں شاعر اپنے محبوب کی بےوفائی تفافل اور رقیب کے ساتھ اس کے تعلق کی شکایت کرتا ہے اور ساتھ ہی کسی اور محبوب کے ساتھ واسطہ ظاہر کر کے اسے دھمکاتا ہے ۔
س33۔
*رمزوایمائیت*۔ رمزوایمائیت سے مراد کسی پوشیدہ بات کو اشاروں میں بیان کرنا ۔
س34۔
*تغزل*۔ یہ ایک شعری اصطلاح ہے تغزل اس کیفیت کا نام ہے جو شاعری میں لطیف و اثر اور حسن و درد پیدا کرتی ہے۔
؎چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ۔
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے ۔
س35۔
*سہل ممتنع* ۔ ایسا شعر جو اس قدر آسان لفظوں میں ادا ہو جاے کہ اس کے آگے مزید سلاست کی گنجائش باقی نہ رہے ۔
؎ تم میرے پاس ہوتے ہو گویا ۔
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ۔
س۔36۔
*امیجری* ۔ کسی امیج کو زبان دینا شاعر یا ادیب الفاظ کے زریعے سے وہ تصویریں پیش کرتا ہے جو تہ درتہ کیفیات کی شکل میں اس کے زہنی تجربوں میں آتی ہیں اور خارجی دنیا میں اس کا وجود نہیں ہوتا۔
س۔37۔
*خمریات*۔ یہ بنیادی طور پر شاعری کی اصطلاح ہے ایسی شاعری جس میں شراب اور متعلقات شراب کا بکثرت زکر ہو اسے خمریات کہتے ہیں ۔
س۔38۔
*داخلیت*۔ ادب میں داخلیت سے مراد یہ ہے کہ شاعر اپنی قلبی واردات اپنے نجی جزبات و احساسات میں ہی اپنی تخلیقی زندگی گزارتا ہے ۔
س۔39۔
*دبستان* ۔ جب بہت سے ادیب اور شعرا ایک مخصوص علاقے اور زمانے کی طرز بود و باش اور سماجی اقدار سے متاثر ہو کر ادب میں ایک ہی طرز فکر اور انداز نظر اپناتے ہیں تو اسے دبستان کہا جاتا ہے۔ جیس دبستان لکھنو دبستان دہلی
س۔40۔
*رعایت لفظی* ۔ رعایت لفظی شاعری و نثری اصطلاح ہے لفظوں کی مناسبت سے ایک ایسی دلچسپ اور مضحکہ خیز صورت حال کو سطح پر لانا جو ��ہلے نظروں سے غائب تھی مثلاً اے بی اور بی اے میں تجنیسی
ربط ہے
Copied
17 notes · View notes
urduclassic · 4 years
Text
بچوں کے ادب کی بے ادبی
میں کتابوں کی ایک دو منزلہ دکان میں گیا اور عملے کے ایک شخص سے پوچھا کہ بچوں کی کتابیں کہاں ہیں؟ اس نے کہا کہ اوپر پڑی ہیں۔ میں اوپر کی منزل میں گیا تو دیکھا ، بچوں کی کتابیں فرش پر پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ رکھی ہوئی نہیں تھیں، واقعی پڑی ہوئی تھیں۔ کتابوں کے جس شان دار شو روم میں نو نو سو روپے کی کتاب آراستہ ہو وہاں تیس پینتیس روپے کی کتاب کی قدر کون کرے گا اور کیوں کرے گا؟ یہ حال ہے ہمارے مستقبل کے معماروں کے لئے تخلیق ہونے والے ادب اور کتب کا۔ جن کتابوں کا نہ گاہک ہو، نہ قاری، جن کی نہ فروخت ہو، نہ کاروبار اور نہ بڑا منافع، تو پھر نہ کوئی انہیں چھاپے گا، نہ بیچے گا اور ان کا ٹھکانا فرش پر ہی ہو گا۔ کسی اور کا دُکھا ہو یا نہ دُکھا ہو، میرا دل یوں دُکھا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا ، یہ بات سنہ چالیس کی ہو گی، ہمارے گھر میں لاہور سے بچوں کا نہایت خوش نما رسالہ ’’پھول‘‘ آیا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے ’’پھول‘‘ کا بھی چل چلاؤ تھا۔ پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پیام تعلیم نام کا ماہنامہ نکلا۔ ایسا اعلیٰ معیاری رسالہ پھر کبھی نہ نکلا۔ 
اس کے بعد ماہنامہ شمع کے ادارے نے اپنے بے پناہ مراسم اور وسائل کی بنا پر رسالہ کھلونا جاری کیا جو گھر گھر پڑھا گیا۔ وہ ملک کی تقسیم کی زد میں آکر اپنے خاتمے کو پہنچا لیکن پاکستان میں فیروز سنز جیسے بڑے اشاعتی ادارے نے بچوں کا بیش بہا ادب شائع کیا اور اسی دوران روزنامہ جنگ نے بے مثال رسالہ بھائی جان جاری کیا۔ وہ بھی تھک ہار کے بیٹھ رہا تب حکیم سعید مرحوم اس میدان میں اترے اور انہوں نے رسالہ نونہال ہمدرد جاری کیا جس نے اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا۔ اسی دوران ایک ادارے نے کمال ذہانت سے کام لے کر جدید دور کی نئی نسل کو سامنے رکھ کر رسالہ سنگترہ شائع کیا۔ وہ بھی حوصلہ ہار گیا۔ لاہور سے نئے زمانے کا پھول نکل رہا ہے اور کراچی سے کھلاڑی شائع ہو رہا ہے اور ان کے حوصلے کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کچھ پرچے اور بھی ہیں کہ جیسے بھی بنے جاری ہیں۔ 
کتنے ہی شان و شوکت سے نکلے اور چل بسے۔ غنیمت ہے کہ آرٹس کونسل آف پاکستان ، کراچی جو سال کے سال دھوم مچاتی ہوئی عالمی اردو کانفرنس منعقد کرتی ہے اور جس کو اب خیر سے تیرہ برس ہو چلے ہیں، اس میں بیچ میں کہیں کچھ وقت نکال کر ’بچوں کا ادب‘ کے عنوان سے ایک اجلاس ضرور سجایا جاتا ہے۔اس سال بھی محفل آراستہ ہوئی اور میری خوش نصیبی کہ مجھے بھی بلایا گیا۔ لیکن اُس َبلا نے کہ جس کا نام کورونا ہے، ہمارے سارے ہی کس بل نکال دئیے۔ میں جو چھ ماہ سے خود کو بچائے بیٹھا تھا، ان دشوار حالات میں اپنے اندر کراچی جانے کی ہمت نہ پا سکا اور آرٹس کونسل کے کرتا دھرتا محمد احمد شاہ صاحب سے معذرت کر لی۔ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی سے کام لیا اور میں گھر بیٹھے ’آن لائین‘ صدارت کے فرائض انجام دے سکا۔ کانفرنس میں بچوں کا ادب لکھنے والی محترمہ نیّر رُباب، اردو کے سرکردہ اسکالر ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور بچوں کی خاطر طویل عرصے تک خدمات انجا م دینے والے جناب سلیم مغل بھی شریک تھے۔
نئی نسل کے لئے ادب تخلیق کرنے کی راہ میں ساری دشواریاں گنوائی گئیں اور خاص طور پ�� سلیم مغل صاحب نے ماضی کے ان نام ور اور سر کردہ ادیبوں، شاعروں کو خراج ِتحسین پیش کیا جنہوں نے بچوں کے لئے بہت کام کیا لیکن جن میں سے زیادہ تر بھلا دیے گئے۔ اس سیشن میں ویسے بھی کم ہی احباب آتے ہیں ۔ اس بار ’ایس او پیز‘ کی پابندیوں کی وجہ سے شرکا کو دو دو میٹر کے فاصلے پر بٹھایا گیا۔ اس سے ہال بھرا بھرا لگا۔ لیکن مجھے پچھلے سال کا سیشن بہت یا د آیا ۔ اُس روز اجلاس کی کارروائی جاری تھی اور خاصی سنجیدہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اچانک ہال کا دروازہ کھلا اور آٹھ دس بچے ہنستے کھل کھلاتے داخل ہوئے۔ ان کا آنا تھا کہ ساری فضا بدل گئی اور اسٹیج پر بیٹھے ہوئے عمائدین نے وہ سنجیدہ گفتگو رکھی ایک طرف اور ہم نے بچوں کی دل چسپی کی چیزیں سنانی شروع کر دیں۔اسٹیج پر محترم محمود شام بھی موجود تھے جنہوں نے کسی کو دوڑا کر باہر بُک اسٹال سے بچوں کے گیتوں کی اپنی کتاب منگوائی اور نو وارد کمسن سامعین کو گیت سنائے۔ بچوں کے آنے پر مجھے مومنؔ کا شعر یاد آیا:
مومن آیا ہے بزم میں ان کی صحبتِ آدمی مبارک ہو
تو بات یہ ہو رہی تھی کہ کتاب ہماری زندگی سے رخصت ہو رہی ہے۔ جن بچوں کے بارے میں ہمارا جی چاہتا ہے کہ وہ کتاب پڑھیں، وہ بچے اب اسمارٹ فون کے لتّی ہو گئے ہیں۔ جو بچے کبھی لوری سن کر سویا کرتے تھے وہ اب کمپیوٹر گیمز کھیلتے کھیلتے سوتے ہیں۔غضب یہ ہوا ہے کہ آج کی مائیں لوری بھول گئی ہیں۔ میں نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر ’ لفظوں کا سفر‘ کے عنوان سے احباب جو مشقیں کر رہے ہیں، میں نے ان سے کہا کہ پرانی لوریاں لکھ کر بھیجیں۔ زیادہ تر کو فلمی لوریاں یاد تھیں ، بہت کم نے پرانی لوریاں لکھیں اور اُن میں بھی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ میں نے تجویز پیش کی کہ ہمیں ’بیڈ ٹائم اسٹوریز‘ کو رواج دینا چاہئے، یعنی بچے کو سلاتے وقت ماں کو چاہئے کہ کتاب سے پڑھ کر چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنائے۔ اس سے بچے کی ذہنی تربیت بھی ہو گی اور وہ کتاب سے روشناس ہو گا۔خیال رہے کہ اس سے پہلے کہ وہ کمپیوٹر گیمز کی طرف راغب ہو اس کا کتاب سے تعارف کرا دیا جائے۔
بیڈ ٹائم اسٹوریز بہت چھوٹے بچوں کے لئے لکھی جاتی ہیں اور ا س کے لئے آن لائن ورک شاپ کرائے جا سکتے ہیں۔ شاید مجھ ہی کو اٹھنا پڑے گا۔ مسافر نواز بہتیرے ہیں ، مل جائیں گے۔ مجھے شکایت اپنے ادیبوں شاعروں سے ہے (جانتا ہوں کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا) شکایت یہ ہے کہ وہ بچوں کے لئے کیوں نہیں لکھتے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس کام میں نہ شہرت ہے، نہ عزت ہے اور سب سے بڑھ کر نہ دولت ہے۔ ہماری نگاہوں کے سامنے ابنِ انشا، شان الحق حقی اور صوفی تبسم بچوں کے لئے کمال کی چیزیں لکھ گئے ہیں۔ راجا مہدی علی خاں کی تحریریں ہمیں یاد ہیں۔ یہاں تک کہ تلوک چند محروم جیسے سینئرشاعر بھی بچوں کے لئے کافی مواد چھوڑ گئے ہیں۔ آج کے شاعر اُن کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟ شاید یہ خسارے کا سودا ہے۔ قصور کسی کا نہیں ، ہمارا ہی ہے کہ ابھی تک خود کو اس خواب سے نکال نہیں پائے ہیں۔
رضا علی عابدی
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes · View notes
emergingkarachi · 5 years
Text
’’کراچی کہیں جسے‘‘
کراچی کے ساتھ یادوں کا سلسلہ اس قدر طویل ہے کہ اب اس کا ابتدائی زمانہ یاد کرنے میں بھی دِقت ہوتی ہے۔ میری عمر اس وقت کوئی نو یا دس برس کی ہو گی۔ میرے بڑے ماموں محمد اسلم نیشنل ٹائر بنانے والی کمپنی میں ملازمت کرتے تھے اور اُن دنوں ان کی پوسٹنگ کراچی میں تھی۔ ان کے پاس ایک دو کمروں کا کوارٹر نما سا گھر تھا اور گلی کے کنارے پر ایک چائے خانہ کا ہوٹل تھا جس کی مالکن اور مینیجر ایک بہت شفیق خاتون تھی جسے سب لوگ خالہ ہوٹل والی کہہ کر پکارتے تھے۔ اس علاقے کا نام غالباً پیر الٰہی بخش کالونی تھا۔
دوسری یاد رہ جانے والی یہ ہے کہ وہاں دُور دُور تک سبزے کا نام و نشان نہیں تھا کوئی پندرہ بیس برس بعد دوبارہ جانا ہوا تو نہ صرف شہر بہت بڑا ہو چکا تھا بلکہ اب کہیں کہیں سبزہ بھی آنے لگا تھا اور وہاں ایک ایسا کلچر جنم لے چکا تھا جس میں پاکستان کے ہر علاقے کی نمائندگی ہو رہی تھی اور لوگوں کا عمومی مزاج بہت دوستانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے تعصب سے پاک تھا۔ رزق کے مواقع کی فراوانی کے باعث ہر طرف سے لوگ آ آکر یہاں آباد ہو رہے تھے اور محنت کر کے اپنے اپنے حصے کا رزق کھا رہے تھے اور رات کے دو بجے بھی شہر آباد اور محفوظ نظر آتا تھا۔ 
تب سے اب تک اس کی آبادی سبزے اور جغرافیائی حدود میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن دلوں کی کشادگی بوجوہ پہلے سے کم ہوتی جا رہی تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے نہ صرف اس کے امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے بلکہ روّیوں میں بھی ایک مثبت تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ کچھ دن قبل مجھے ایک سندھی ٹوپی میلے میں وہاں کی نوجوان نسل نے دی اور بالخصوص سندھی نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا اور میں وہاں سے بہت خوشگوار تاثر کے ساتھ واپس آیا کہ مجھے ایک بار پھر سے اس کشادہ قلب، وسیع نظر، غریب پرور اور انصاف پسند کراچی کی جھلک نظر آئی جو گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے اپنی تہذیبی شناخت سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ 
گزشتہ ہفتے کی رات الخدمت فائونڈیشن پاکستان کی کراچی شاخ کے ایک فنڈ ریزر میں اس خوشگوار تبدیلی کی مہک تو ایسی تھی جس سے اب تک جسم و جان مہکے ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں کراچی کے انسان دوست شہریوں نے اللہ کی خوشنودی اور انسانوں کی خدمت کے لیے کھڑے کھڑے سات کروڑ سے زیادہ کے عطیات بہم کر دیئے۔ افتخار عارف، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور مجھے اس پروگرام میں کلام سنانے کے لیے مدعو کیا گیا۔ پروگرام کے آغاز سے قبل الخدمت پاکستان کے صدر برادرم میاں عبدالشکور میرے کمرے میں تشریف لائے تو باتوں باتوں میں میں نے اپنے بارے میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کی لکھی ہوئی کتاب ’’امجد فہمی‘‘ کا ایک نسخہ ان کو پیش کیا کہ اسے پروگرام میں میری طرف سے نیلامی کے لیے رکھ دیجیے گا اور جو رقم اس سے حاصل ہو اُسے میری طرف سے عطیہ سمجھ کر قبول کر لیجیے گا۔
میں اپنے دستخطوں سے یہ کتاب خریدنے والے کا نام لکھ کر انھیں پیش کر دوں گا۔ میرا اندازہ تھا کہ اس طرح پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک کی آفر آ جائے گی لیکن حیرت اور خوشی کی بات یہ ہوئی کہ پہلی بولی ہی ایک لاکھ کی لگی ایک اور صاحب نے ایک لاکھ ایکاون ہزار کی آواز لگائی جب کہ آخری بولی دو لاکھ تک پہنچ گئی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ عملی طور پر تو کتاب صرف آخری بولی والے محترم کو ہی ملی لیکن بقیہ دونوں حضرات نے اعلان کر دیا کہ وہ کتاب نہ ملنے کے باوجود بھی اپنی اعلان کردہ رقم اس کے حواے سے بطور عطیہ پیش کر رہے ہیں۔ اگرچہ میں نے بعد میں برادرم اجمل سراج کی معرفت ان کو بھی کتابیں بھجوا دیں مگر ان کی اس جذبہ محبت نے نہ صرف میرا دل جیت لیا بلکہ میرے اس ایمان کو بھی تقویت دی کہ ہمارے معاشرے میں اچھے لوگوں کی کمی نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے ۔
اگلے روز صبح مجھے Getz Pharma والوں نے ایک ایسی خصوصی تقریب میں مدعو کر رکھا تھا جس میں صرف مجھے اپنی شاعری سنانا تھی۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری سے متعلق کمپنیاں ڈاکٹر حضرات سے اپنے تعلقات کو وسیع اور مضبوط کرنے کے لیے ڈانسرز، ڈانس گانے کی پارٹیاں یا غیر ملکی تفریحی دوروں کا اہتمام کرتی ہیں اور شعر وا دب، فنونِ لطیفہ یا تہذیب، اخلاقیات اور جمالیات سے اُن کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن فارم ایوو کے بعد گیٹز فارما والوں نے اس روائت کی ابتدا کر کے ایک ایسا احسن قدم اٹھایا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے کہ اس وقت نئی اور پرانی نسل کے درمیان پُل تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور بلاشبہ شعر و ادب کی بنیاد پر تعمیر کیا جا نے والا پُل وقت کے اس دریا کے دونوں کناروں کو ملانے کے لیے بروقت بھی ہے اور بہترین بھی۔
محفل کے حاضرین اور منتظمین سب کے سب کا بنیادی تعلق میڈیکل سائنس سے تھا جو انھیں ایک اچھا اور کامیاب پروفیشنل تو بنا سکتی ہے مگر ایک متوازن اور معقول انسان بننے کے لیے شعر و ادب اور سوشل سائنسز کے رول سے بھی انکار ممکن نہیں۔ اس محفل کے حاضرین نے جب توجہ اور محبت سے شاعری سنی اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور یہاں صَرف کیے گئے وقت کو اپنی زندگی کے بہترین کوالٹی ٹائم کا حصہ بنایا وہ بہت ہی خوش کن تجربہ تھا اس سے قطع نظر کہ یہ محفل میرے لیے ترتیب دی گئی تھی اس کی اصل خصوصیت یہ ہے کہ اس کے توسط سے ہمارے معاشرے کے کامیاب اور لائق انسانوں کو اخلاق ، رزق اور رُوح کی تشکیل اور فروغ کا ایک ایسا موقع مہیا کیا گیا جس کا تسلسل ہماری تاریخ اور تہذیب کے اُس اضافی بوجھ کو بہت حد تک کم کر سکتا ہے جسے ہم خواہ مخواہ ہی اُٹھائے پھر رہے ہیں ۔
عرفان اویس سے میری دوستی اور محبت کا دورانیہ تو کوئی بہت زیادہ نہیں مگر اپنی اپنائیت اور باہمی محبت کی شدّت کی وجہ سے وہ میرے نوجوان دوستوں میں سب سے آگے ہے۔ وہ جتنا اچھا سرکاری افسر ہے اتنا ہی اچھا لکھاری اور صاحبِ مطالعہ آدمی ہے۔ اس بار بھی اُس نے رات کے کھانے پر میرے لیے ایک عظیم محفل دوستاں کا اہتمام کر رکھا تھا۔ میں ہوٹل سے برادرم اشرف شاہین کے گھر منتقل ہو گیا تھا کہ اس سے دل کی باتیں کیے اور محفل جمائے بہت عرصہ ہو گیا تھا۔ سو گھر میں گپ شب کے بعد اُس کی پسندیدہ کریک کلب میں کافی دی گئی اور پھر بار بی کیو ٹو نائٹ میں کھانے کے دوران گفتگو کا ایک ایسا سلسلہ چلا جس میں کسی موضوع کو اپنی شکل واضح کرنے کی سہولت نہیں مل سکی۔ تو بے تکلف دوستوں کی محفل کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ جہاں دلیل اور محبت کا مقام آئے بات کا رُخ فوراً کسی اور طرف موڑ دیا جاتا ہے۔
چار دنوں میں لاہور، دبئی، کراچی اور کراچی لاہور کے سفر نے تھکایا تو یقیناً مگر تین اچھی تقریبات اور دوستوں سے ملاقات کے لطف نے جسمانی تھکن کو اظہار کا موقع ہی نہیں دیا۔ اس حوالے سے ایک پرانی غزل کا سدا تارہ رہنے والا شعر یاد آ رہا ہے کہ:
نشاطِ وصل کا لمحہ عجیب لمحہ تھا کہاں رہا ہوں میں اتنے برس، نہیں معلوم!
امجد اسلام امجد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
darushsohrabi · 4 years
Photo
Tumblr media
آسی احمد حسینی، امروز، روی در پرده وصل کشید. نوشتن درباره چنین مردی وارسته، سخت و دشواره، اما فارغ از تعریفهای احساسی، میشه گفت که او بازمانده ای از انگشت شمار مردان نیک روزگار بود. از مهمترین ویژگی های ایشان، متانت در سخن و طبع بخشاینده و خوی نیکو بود. سادات یادگاری صحنه در صده هایی پیش از این از منطقه دالاهو به صحنه کوچی اجباری داشتند. آسید احمد یادگاری نیز در دهه های اول این قرن، به منطقه نظام آباد تهران آمد و از همان آغاز منزل ایشان، محفل یارانی از سراسر مناطق یارسانی نشین بود، و مرکزی بود برای ذکر و نذر و نیاز، و مامنی بود برای جوانانی در ورود به تهران نیازمند چنین پشتوانه ای بودند. مهمترین بخش از فعالیتهای ایشان بر مبارزه با تفکر انحرافی مکتب نورعلی الهی بود. رابطه تنگاتنگ ایشان با آسی نصرالدین حیدری و حمایت آن بزرگوار در این امر خطیر باعث شد تا صورت ناپسند اهل مکتب بیش از پیش بر عموم، آشکار شود، البته در این راه متحمل رنجهای بیشماری شد، چنانکه بارها مورد سو قصد قرار گرفت، اما از پای ننشست. ایشان به سفره داری شهره بود، شاید کمتر شاهد بوده ایم که تنها دست به طعام برده باشد، همیشه اینگونه بود که جمعی از مهمانان خوانده و ناخوانده، از هر دوده و خاندان و ریشه ای، با ایشان هم سفره بوده اند. او مردی عارف بود و به شعر و ادب، تسلط وافری داشت. آبروی کسی را نمیبرد و بر حفظ ادب در سخن و کلام اصرار داشت. در وقایع مختلف، نقش میانجی را ایفا مینمود، چنانکه بارها از طرف سادات حیدری گوران، بعنوان حکم، در دعاوی مختلف معرفی شد. در نهایت امروز چشم از این جهان فروبست و برای ما خاطری درد آلود ماند و خاطره ای که هرگز فراموش نخواهد شد. او از دون دیگر سر برون خواهد کرد تا این رشته تا ابد ادامه یابد. #سید_احمد_حسینی #بگتر #اهلحق #یارسان #یارستان #صحنه #yarsan #ahlehagh #goran #sahne https://www.instagram.com/p/CMRoqvbAXaR/?igshid=1u857td91aboz
0 notes
azharniaz · 4 years
Photo
Tumblr media
محب اللہ عارفی*خواجہ سید محمد ظفر عالم طلعت* میں گزشتہ چار دہائیوں سے اپنے والد محترم کی شفقت سے محروم ہوں لیکن ایک شخصیت ایسی ہے جس نے اس کمی کو کافی حد تک پورا کیا ہے میری مراد جناب محب اللہ عارفی صاحب مرحوم و مغفور سے ہے یوں تو عارفی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں پاکستان اور ہندوستان کے ادبی اور شعری حلقوں میں ایک زمانہ آپ کی خدمات کا معترف ہے آپ نے ایک ایسی ادبی اور شعری محفل ہفتہ وار شروع کی جو شملہ سے شروع ہوکر کراچی پھر اسلام آباد اور اس کے بعد پھر کراچی پر اختتام پزیر ہوئی۔ یہ محفل پچاس سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے اس محفل نے بہت ہی غیر محسوس طریقے سے علم و ادب اور شعر و شاعری کی ایسی خدمت کی ہے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے میں بھی اس محفل میں آخری دس بارہ سال شریک ہوتا رہا ہوں۔ ان کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو محبت اور حسن سلوک ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر مکتبہ فکر ومسلک، ہر مذہب اور ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں لوگ جو شعر و ادب سے دلچسپی رکھتے تھے ان کی اس محفل میں باقاعدگی سے شرکت کرتے، ظاہر ہے ایسی محفل کو بغیر کسی تعطل کے زمانے کے ہر نشیب و فراز سے گزار کر نصف صدی تک جاری و ساری رکھنا محب صاحب کی مقناطیسی شخصیت اور ان کی محبت و شفقت اور حسن سلوک ہی کا کرشمہ تھا۔ ان کی محفل میں زبان وفرقہ کی کوئی قید نہیں تھی سیاسی طور پر بھی ہر پارٹی کے لوگ شرکت کرتے تھے، یہاں تک کہ غیر مسلم حضرات بھی شرکت کرتے۔ اس تنوع کے باوجود سب کو جوڑ کے رکھنا اور پچاس سال سے زیادہ اس محفل کو کامیابی سے چلانا کوئی آسان کام نہ تھا، ان کی محبت اور حسن سلوک نے سب کو باندھ رکھا تھا۔ ان کا ہر ایک سے انفرادی تعلق بھی تھا اگر کوئی غیر حاضر ہوتا تو اس کی خیریت معلوم کرتے اگر کوئی بیمار ہوتا تو اس کی مزاج پرسی کرتے کسی فوتگی کی صورت میں تعزیت فرماتے۔
0 notes
modern-tiles · 5 years
Text
Tumblr media
آج اردو کے مشہور شاعر، فلمی گیت کار اور مکالمہ نگار ندا فاضلی کا یومِ وفات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندا فاضلی کا اصلی نام مقتدا حسن تھا۔ وہ 12 اکتوبر 1938 کو بھارتی ریاست گوالیار میں پیدا ہوئے تھے۔ بالی وڈ کی فلمی دنیا کے لیے بعض یادگار گیت تخلیق کرنے کے علاوہ ان کے لکھے گئے دوہوں اور غزلوں کو جگجیت سنگھ نے لاکھوں لوگوں تک پہنچایا۔ان کے والد بھی شاعر تھے جو 1960 میں مذہبی فسادات کے دوران مارے گئے۔ ان کے خاندان کے باقی افراد پاکستان منتقل ہو گئے لیکن ندا ہندوستان ہی میں رہے۔
وہ اپنے والدِ گرامی کے جنازے میں بھی شرکت نہ کر سکے، جس کا اُنھیں قلق تھا اور ایک نظم میں اس قلق کو اس طرح اظہار کر کے ہمیشگی عطا کر دی کہ:
" تمہاری قبر پہ میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا "
بچپن میں ہندو مندر سے ایک بھجن کی آواز سنی اور شاعری کی طرف مرغوب ہوئے۔ انہوں نے انسانیت پر شاعری کی۔ اس دور میں مرزا اسداللہ خاں غالب، میر تقی میر سے متاثر ہوئے، میرا اور کبیر سے بھی۔ انہوں نے ایلئیٹ، گگول، اینٹن چکوف (انتون چیخوف) اور ٹکاساکی کو بھی پڑھا اور اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا اضافہ کیا۔
ابتدائی دنوں میں وہ ملازمت کی تلاش میں ممبئی آئے اور دھرم یُگ (رسالہ) اور بلٹز کے لیے لکھتے رہے۔ ان کا شاعرانہ لہجہ لوگوں کو پسند آیا اور فلم بنانے والوں کی نظر ان پر پڑی ساتھ ساتھ ہندی اور اردو ادب والوں کی۔ مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔ کئی گلوکاروں نے اور غزل گانے والوں نے ان کی غزلیں، نظمیں اور گیت گائے، جس سے ان کو شہرت ملی۔
ان کی شہرت یافتہ غزلوں میں، " دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونہ ہے، مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سوناہے" مشہور ہے۔
فلمی گیتوں میں "آ بھی جا" ( سُر - زندگی کا نغمہ)، تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے ( فلم - آپ تو ایسے نہ تھے) "ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے" (فلم - سر فروش) وغیرہ بہت مشہور ہوئے ۔
انہوں نے 1960ء کے دور کے شعرا پر تنقیدی مضامین لکھے لکھے، جس کا عنوان “ملاقاتیں“ تھا۔
بالی وڈ (بالی وڈ)کے فلم ہدایتکار کمال امروہی نے ندا فاضلی سے مل کر کہا کہ فلم رضیہ سلطانہ کے لیے گیت لکھیں، جب کہ یہ گیت جاں نثار اختر کو لکھنا تھا، لیکن اسی دوران میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ انہوں نے اس فلم کے دو نغمے لکھے اور کافی مشہور بھی ہوئے (1983ء)۔ اس طرح انہوں نے فلمی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر پائے۔
ان کے مشہور فلمی نغموں میں فلم آپ تو ایسے نہ تھے، گڈیا، شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ٹی۔ وی۔ سیرئیلس کے لیے بھی نغمے اور گیت لکھے۔ سائلاب، نیم کا پیڑ، جانے کیا بات ہوئی اور جیوتی کے لیے ٹائٹل نغمے لکھے۔
گلوکارہ کویتا سبرامنیم اور جگجیت سنگھ نے بھی غزلیں گائیں اور کئی البم بھی بنے۔ انہوں نے بی۔ بی۔ سی۔ ہندی ویب سائٹ کے لیے کئی عصری معاملات اور ادب پر مضامین لکھے۔ اکثر اپنی گفتگو میں مرزا اسد اللہ خان غالب کا ذکر کیا کرتے ہیں۔
ان کی شاعری فنکاروں جیسی ہے۔ یہ جب اپنا کلام لکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی مصور کی تصویر ہے یا پھر کسی موسیقی کار کی موسیقی۔
1969ء میں انہوں نے اپنا مجموعہ کلام 1969ء میں شائع کروایا۔ ان کے کلام میں بچپن، غم انگیزی، فطری عناصر، زندگی کا فلسفہ، انسانی رشتے، گفت اور فعل میں تفریق وغیرہ موضوعات پائے جاتے ہیں۔
تقسیم ہند سے بالکل اتفاق نہیں کرنے والے فاضلی، مذہب کے نام پر فسادات، سیاست دانوں اور فرقہ پرستوں پر جم کر تنقید کرتے ہیں۔ 1992 کے فسادات کے دوران، تحفظی وجوہات کی بنا پر انہوں نے اپنے ایک دوست کے گھر پناہ لی تھی۔ مذہبی رواداری پر کام کرنے کے لیے انہیں بہت سارے اعزازات ملے۔ انہوں نے اب تک 24 کتابیں لکھیں۔ مہاراشٹر حکومت کی جانب سے میر تقی ایوارڈ ملا۔ مختلف صوبائی حکومتوں کے ٹکسٹ بکس میں ان کی سوانح اور تخلیقات بھی ہیں۔
1998 – ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ
2003 - سٹار سکرین ایوارڈ برائے بہترین نغمہ نگار - فلم “سُر“ کے لیے۔
2003 - بالی وڈ مووی ایوارڈ برائے بہترین نغمہ نگار - فلم ‘سُر‘ کے گیت ‘آبھی جا‘ کے لیے۔
2013 – پدم شری اعزاز؛ حکومت بھارت۔
ندا فاضلی نے ذیل کی فلموں کے لیے گیت لکھے:
رضیہ سلطان
تمنا (فلم) - گھر سے مسجد ہے ۔
سُر دی میلاڈی آف لائف۔
اس رات کی صبح نہیں۔
نا خدا (فلم-1981)
آپ تو ایسے نہ تھے (فلم)
یاترا
سرفروش (فلم) - ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے۔
سُر (فلم) - آ بھی جا۔
بھارتی حکومت نے ندا فاضلی کو پدم شری، ساہتہ اکیڈمی ایوارڈ، اور میر تقی میر ایوارڈ سے نوازا۔ ان کے پانچ مجموعے شائع ہوئے، جن میں ’لفظوں کے پھول،‘ مور ناچ، اور ’دنیا ایک کھلونا ہے،‘ وغیرہ شامل ہیں۔
فلمی دنیا کے سفر کے بارے میں ندا نے فلمی رسالے فلم فیئر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ فلم رضیہ سلطان کے خالق کمال امروہی کو فلم کے اصل نغمہ نگار جانثار اختر کے اچانک انتقال کے بعد ایک شاعر کی ضرورت تھی، چنانچہ انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور میں نے فلم کے لیے دو گیت لکھے۔ اس فلم کو بننے میں تو بہت دیر لگی لیکن اس دوران مجھے دوسری فلموں میں کام ملنا شروع ہو گیا۔
ندا فاضلی نے ’رضیہ سلطان،‘ کے علاوہ ’سرفروش،‘ ’اس رات کی صبح نہیں،‘ ’آپ ایسے تو نہ تھے،‘ اور ’گڑیا‘ کے گیت لکھے جنھوں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ 2003 میں انھیں فلم ’سُر‘ کے لیے سٹار سکرین ایوارڈ کے بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ ملا۔
فلم ’آپ ایسے تو نہ تھے‘ کے ان کا لکھا ہوا اور محمد رفیع کا گایا ہوا نغمہ ’تو اس طرح سے مری زندگی میں شامل ہے‘ آج بھی بہت مقبول ہے۔
ندا فاضلی انسان دوست شاعر تھے اور اس سلسلے میں وہ سماج کی جانب سے عائد پابندیوں، خاص طور پر مذہبی قید و بند پر تنقید کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا شعر ہے:
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
یہ شعر بےحد مشہور ہوا تھا اور مشاعروں میں خاص طور پر فرمائش کر کے ان سے سنا جاتا تھا۔ اسی موضوع پر ان کا قطعہ ہے:
گھاس پر کھیلتا ہے اک بچّہ
پاس ماں بیٹھی مسکراتی ہے
مجھ کو حیرت ہے جانے کیوں دنیا
کعبہ و سومنات جاتی ہے
ندا فاضلی یوں تو سادہ خیالات کو سادہ الفاظ میں پیش کرنے میں مہارت رکھتے تھے لیکن 1980 کی دہائی میں ابھرنے والی علامت نگاری کی تحریک سے وہ بھی متاثر ہوئے نہ رہ سکے۔ اس ضمن میں ان کا ایک شعر اس زمانے میں خاصا بدنام ہوا تھا:
سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی
ندا فاضلی ’اندازِ بياں‘ کے نام سے بی بی سی ہندی کے لیے کالم بھی لکھا کرتے تھے۔
ندا فاضلی کی وفات 8 فروری 2016 کو ممبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#منتخب_کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں
اُن چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاصلہ نظروں کا دھوکا بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ جیسا اک آدمی میرا ہی ہمنام
اُلٹا سیدھا وہ چلے مجھے کرے بدنام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سو ناہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہمیں
رُخ ہواؤں کا جدھر کا ہے اُدھر کے ہم ہیں
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیا نہیں جب گاؤں میں
آگ لگے سب گاؤں میں
کتنی میٹھی تھی املی
ساجن تھے جب گاؤں میں
سچ کہہ گُیّاں اور کہاں
ان جیسی چھب گاؤں میں
ان کے جانے کی تاریخ
دنگل تھا جب گاؤں میں
دیکھ سہیلی دھیمے بھول
بیری ہیں سب گاؤں میں
کتنی لمبی لگتی ہے
پگڈنڈی اب گاؤں میں
من کا سودا، من کا مول
کیسا مذہب گاؤں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہریں پڑیں تو سویا ہوا جل مچل گیا
پربت کو چیرتا ہوا دریا نکل گیا
رنگوں کے امتزاج میں پوشیدہ آگ تھی
دیکھا تھا میں نے چھو کے مرا ہاتھ جل گیا
اکثر پہاڑ سر پہ گرے اور چپ رہے
یوں بھی ہوا کہ پتّہ ہلا، دل دہل گیا
پہچانتے تو ہوگے نِدا فاضلی کو تم
سورج کو کھیل سمجھا تھا، چھوتے ہی جل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعورِ مرگ
اسے نہیں معلوم
کہ امّا ں کیوں روتی ہیں
سر لٹکاے بہنیں کیوں بیٹھی رہتی ہیں
سورج ڈھلتے ہی
کتّا رونے لگتا ہے
گھڑی گھڑی دروازے کو تکنے لگتا ہے
گھر کا آنگن
میلا میلا کیوں رہتا ہے؟
جگہ جگہ پر پانی پھیلا کیوں رہتا ہے
اسے نہیں معلوم
کہ گُڑیا کب آئ تھی
مٹّی کی ہنڈیا کس نے دلوائ تھی
لیکن جب کوئ پھیری والا آتا ہے
یا کوئ گھر والا اس کو دھمکاتا ہے
جانے وہ کیا ادھر ادھر دیکھا کرتا ہے
جیسے کوئ کھوئ شے ڈھونڈھا کرتا ہے
اور اچانک چِلّا کر رونے لگتا ہے
اسے نہیں معلوم۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوجھ
میرے بکھرے بالوں پر اور بھی تو ہنستے ہیں
میری خستہ حالی پر قہقہے لگاتے ہیں
میری ہر تباہی پر حاشئے چڑھاتے ہیں
اب تو جو بھی ملتے ہیں اجنبی سے ملتے ہیں
آنکھیں کھوئ رہتی ہیں، صرف ہونٹ ہلتے ہیں
صرف ایک تم اتنے کیوں خموش رہتے ہو
میری تلخ باتوں کو ہنس کے ٹال دیتے ہو
میں جہاں نظر آؤں، ہاتھوں ہاتھ لیتے ہو
جان بوجھ کر میں نے کپ کو نیچے پھینکا ہے
بے سب ہی شبنم کو مار کر رلایا ہے
پین کے نئے نِب کو میز پر چلایا ہے
کیوں خفا نہیں ہوتے، کیوں بگڑ نہیں جاتے
کس لئے بھلا مجھ سے اب جھگڑ نہیں پاتے
ٹیڑھی میڑھی نظروں سے گھور کر جدا ہو جاؤ
دوست چند لمحوں کو آج پھر خفا ہو جاؤ
اور بھی تو ہنستے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین تو کہیں آسمان نہیں ملتا
جسے بھی دیکھئے وہ اپنے آپ میں گم ہے
زبان ملی ہے مگر ہم زبان نہیں ملتا
بجھا سکا ہے بھلا کون وقت کے شعلے
یہ ایسی آگ ہے جس میں دھواں نہیں ملتا
تیرے جہاں میں ایسا نہیں کے پیار نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی،وہاں نہیں ملتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنہا تنہا ہم رو لیں گے محفل محفل گائیں گے
جب تک آنسو پاس رہیں گے تب تک گیت سنائیں گے
تم جو سوچو وہ تم جانو ہم تو اپنی کہتے ہیں
دیر نہ کرنا گھر جانے میں ورنہ گھر کھو جائیں گے
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر وہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
کن راہوں سے دور ہے منزل کون سا راستہ آسان ہے
ہم جب تھک کر رک جائیں گے اوروں کو سمجھائیں گے
اچھی صورت والے سارے پتھر دل ہوں ممکن ہے
ہم تو اُس دن رائے دیں گے جس دن دھوکہ کھائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﯽ ﻃﺮﺡ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺍﺗﻨﺎ ﺳﭻ ﺑﻮﻝ ﮐﮧ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺒﺴﻢ ﻧﮧ ﺑﺠﮭﮯ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺧﺘﻢ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺁﮔﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﯿﺎﺱ ﺟﺲ ﻧﮩﺮ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺋﯽ ﻭﮦ ﺑﻨﺠﺮ ﻧﮑﻠﯽ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﻭﮦ ﺩﺭﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﻣﺮﮮ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﺗﻮ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮﮌ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺍﯾﮏ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﻣﺤﻔﻠﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺍﮐﯿﻼ ﮨﻮﮔﺎ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﺏ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﺩ ﺭﻻﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﮨﺮ ﺭﻧﮓ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﭼﮩﺮﮦ ﺳﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﭼﮩﺮﮦ ﭼﮩﺮﮦ
ﺟﺲ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﻮ ﮨﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺭﺧﺼﺖ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ
ﺳﺎﺭﺍ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﻭ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺁﻧﭽﻞ ﻣﯿﮟ
ﯾﮧ ﺍﺟﺎﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺍﮎ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﮯ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺟﻮ ﮨﻮ ﺍﮎ ﺑﺎﺭ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﮨﺮ ﺍﮎ ﮐﺸﺘﯽ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ
ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯ ﮨﯽ ﻣﻨﺠﺪﮬﺎﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﺮﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺠﮯ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﺎﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ
ﮨﻮ
ﮨﺮ ﺍﮎ ﺑﺎﺯﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮨﺎﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺳﮑﮭﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﭼﻠﻨﺎ ﭨﮭﻮﮐﺮﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﮨﮕﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺳﺘﮧ ﺳﺪﺍ ﺩﺷﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 note · View note
dhanaklondon · 6 years
Text
پرچمِ ستارہ ہلال پاکستانی کمیونٹی ٹوسٹماسٹرز کلب اجلاس نمبر ۲ رپورٹ : ٹوسٹماسٹر قاضی دانش قمر تصاویر : ندیم رفعت خان آج کا موضوع : پہلا قدم آج کا لفظ : آغاز اراکین مجلس عاملہ : صدر : ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی نائب صدر تعلیم : ٹوسٹماسٹر فیصل مراد نائب صدر رکنیت : ٹوسٹماسٹر اظہر فاروق نائب صدر رابطہ عامہ : ٹوسٹماسٹر دانش قمر معتمد : ٹوسٹماسٹر ��ہنا فراز خازن: ٹوسٹماسٹر عمر فاروق اعوان منتظمِ مجلس : ٹوسٹماسٹر یاسر ندیم ذمہ داران اجلاس : ناظم اجلاس : ٹوسٹماسٹر فیصل مراد نگران وقت : ٹوسٹماسٹر شارف خان لسانی تجزیہ کار : ٹوسٹماسٹر عمر فاروق خطا شمار : ٹوسٹماسٹر عبد الرحمان رائے شمار : ٹوسٹماسٹر فراز خالد مقرر لمحہ : ٹوسٹماسٹر وحید اسلم سامع اجلاس : ٹوسٹماسٹر ندیم خان لطیفہ گو : ٹوسٹماسٹر یاسر ندیم عمومی تجزیہ کار : ڈی ٹی ایم عمر فاروق تعلیمی نشست : مقرر اوّل : ٹوسٹماسٹر یاسر ندیم / تجزیہ کار : ٹوسٹماسٹر اظہر فاروق مقرر دوئم : ٹوسٹماسٹر لہنا فراز ، تجزیہ کار/ ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی مختصر وقفہ ،
  برجستہ موضوعاتی نشست ناظمِ برجستہ موضوعاتی نشست : ٹوسٹماسٹرز قدسیہ ندیم لالی تجزیہ کار ، برجستہ موضوعاتی تقاریر : ٹوسٹماسٹر اظہر فاروق منتظمِ انجمن ٹوسٹماسٹر یاسر ندیم جو ( رکن جیکبز کلب بھی ہيں ) نے اجلاس کا آغاز کیا اور حاضرین محفل کا پُر تپاک استقبال کیا وقت کی نبض پر مضبوطی سے گرفت رکھتے ہوئے بلا تاخیر کلب کی صدر ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی کو تکریم کے ساتھ اسٹیج پر مدعو کیا ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی نے خطبہ صدارت ميں والدین کو بچوں کی نفسیات کو مدِ نظر رکھ کر تربیت پر مختصر اور جامع پیغام دیا ، بھر پور خوشی و طمانیت کا اظہار کہا کہ محض پندرہ دن ميں اراکین کی تعداد بیس سے بڑھ کر ستائس افراد تک پہنچ گئی ہے نیز کلب سے وابستہ دس سینئرز اراکین و ڈی ٹی ایم ( چار سینئر اراکین صحاری ٹوسٹماسٹرز کلب اور چار اراکین جیکبز ٹوسٹماسٹرز کلب ) جیسی شخصیات ہوتے ہوئے بھی اس نومولود کمیونٹی کلب کے لیے بھی اپنا وقت اور خدمات دینے کے لیے پیش پیش ہيں ناظم اجلاس سینئر رکن جیکبز ٹوسٹماسٹرز کلب و سابق صدر منتخب نائب صدر تعلیم و تربیت پاکستانی کمیونٹی ٹوسٹماسٹرز کلب نے اجلاس کی کاروائی کو برق رفتاری سے آگے بڑھتے ہوئے ذمہ دارانِ اجلاس کا تعارف و ان کی جملہ امور کی تصدیق کا مرحلہ طے کیا تعلیمی نشست ميں دو کسرِ جمود تقاریر تھيں جو ( ٹوسٹماسترز یاسر ندیم اور ٹوسٹماسٹر لہنا فراز ) نے حیرت انگیز طور پر بہترین انداز سے پیش کيں ، وقفے کے بعد بہ حیٽیت ناظمِ برجستہ موضوعاتی نشست ، ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی نے منفرد انداز سے سفر کے موضوع کو بنیاد بنا کے تسلسل کے انداز ميں نشست کا آغاز کیا اس نشست کے تجزیہ کار ڈی ٹی ایم عمر فاروق رہے اجلاس نمبر ۲ ميں چار نئے اراکین بھی شریک تھے جو پاکستانی کمیونٹی ٹوسٹماسٹرز کلب کا نام سن کر مقررہ ہوٹل پہنچے اور اجلاس کے اختتام پر اپنی رکنیت حاصل کی، مہمانان سے اُن کا تعارف و اجلاس کے بارے ميں رائے طلب کی گئی،ایک مکمل اور بھرپور اجلاس پر حاضرین نے خوشی کا اظہار کیا
  کراچی سے تعلق رکھنے والے فہیم زیدی زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ان کو افسانہ نگاری پر خاص گرفت حاصل ہے معاشرے کے چبھتے ہوئے موضوعات کو دامن قرطاس پر منتشر کرنے کے ہنر سے بہ خوبی آشنا ہیں گزشتہ کئی برس کراچی کے مختلف اخبارات میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے ملازمت کرتے رہے ، ایک دہائی سے سعودی عرب میں مقیم ہیں تاہم انہوں نے یہاں رہ کر اپنے خون میں شامل لکھنے کی روش کو ترک نہیں کیا مزید تر لکھتے چلے گئے اور تاحال لکھنے کا عمل جاری ہے سعودی عرب کے واحد روزنامہ “ اردو نیوز “ میں ہر ہفتے ان کا کالم شائع ہو رہا ہے ۔ یہاں رہتے ہوئے بھی انہوں نے ہفت روزہ اخبار جہاں ۔ روزنامہ جنگ کراچی ۔ روزنامہ جسارت اور بھی متعدد اخبارات کے لئے کام کیا جو ہنوز جاری ہے ان کے بلاگز اور مضامین اخبارات ۔ انٹرنیشنل نیوز اور سوشل ویب سائٹ پر وقتا فوقتا شائع ہو رہے ہیں عالیہ فراز ، کراچی سے تعلق رکھتی ہيں گریجویشن مائکرو بائیو لوجی سعودیہ عرب میں گزشتہ سات سال سے مقیم ہيں ، چار بچوں کی والدہ ، اردو ادب اورشعر و شاعری سے دلچسپی رکھنے والی زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا شوق کے ساتھ کتب بینی پسندیدہ مشغلہ ہے، محمد عثمان اصغر، وہاڑی (پنجاب) سے تعلق. ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی ،2011ء میں جامعہ بہاؤالدین زکریا ملتان سے ہی سے بی-ایس-سی انجینئرنگ مکمل کی. برسر روزگار ہوئے تو کام کی نوعیت کے باعث، ملک پاکستان کے طول و عرض کا سفر کیا. عرصہ چار سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں اور یہاں تکنیکی جانچ پڑتال، سلامتی کے شعبہ سے وابستہ ہیں. راجہ عبدالرحمن ہے، تعلق پاکستان ضلع چکوال سے ہے ، سعودی عرب میں زمانہ طالبعلمی گزارنے کے بعد گزشتہ تیرہ برس سے ایک جرمن کمپنی سیمنس سے وابستہ ہوں ۔ ذاتی طور پر تاریخ اور شعر وسخن سے دلچسبی ہے
صدر کلب نے فائزین ميں اسناد تقسیم کيں تیار شدہ تقریر کی فائز : ٹوسٹماسٹر لہنا فراز برجستہ موضوعاتی نشست کے فائز : ٹوسٹماسٹر وحید اسلم تجزیاتی نشست کی فائز ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی صدر پاکستانی کمیونٹی ٹوسٹماسٹرز کلب ، قدسیہ ندیم لالی نے اختتامی کلمات ميں حاضرینِ محفل کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ آج نئے شامل ہونے والے اراکین سمیت یہ ایک قابل فخر بات ہے کہ اب تک پاکستانی کمیونٹی ٹوسٹماسٹرز کلب ميں اعلی تعلیم یافتہ افراد شامل ہوئے ہيں جس ميں یونیورسٹی کے پروفیسر ، انجینئر ز ، ڈاکٹر ، صحافی ، ادباء و شعراء کی تعداد دیکھی جا رہی ئے جو ایک خوش آئند بات ہے کہ ابتداء سے اعلی تعلیم یافتہ افراد کی بھر پور توجہ حاصل رہی ہے جس سے امید کی جاتی ہے کہ اس کلب کو عوام الناس تک رسائی انتہائی آسان رہے گی ، اگلے اجلاس کی تاریخ جو پانچ مارچ طے ہوئی ہے کے اعلان کے ساتھ کلب کے برخاست ہونے کا اعلان کیا
پاکستانی کمیونٹی ٹوسٹماسٹرز کلب اجلاس نمبر ۲ پرچمِ ستارہ ہلال پاکستانی کمیونٹی ٹوسٹماسٹرز کلب اجلاس نمبر ۲ رپورٹ : ٹوسٹماسٹر قاضی دانش قمر تصاویر : ندیم رفعت خان آج کا موضوع : پہلا قدم آج کا لفظ : آغاز اراکین مجلس عاملہ : صدر : ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی نائب صدر تعلیم : ٹوسٹماسٹر فیصل مراد نائب صدر رکنیت : ٹوسٹماسٹر اظہر فاروق نائب صدر رابطہ عامہ : ٹوسٹماسٹر دانش قمر معتمد : ٹوسٹماسٹر لہنا فراز خازن: ٹوسٹماسٹر عمر فاروق اعوان منتظمِ مجلس : ٹوسٹماسٹر یاسر ندیم ذمہ داران اجلاس : ناظم اجلاس : ٹوسٹماسٹر فیصل مراد نگران وقت : ٹوسٹماسٹر شارف خان لسانی تجزیہ کار : ٹوسٹماسٹر عمر فاروق خطا شمار : ٹوسٹماسٹر عبد الرحمان رائے شمار : ٹوسٹماسٹر فراز خالد مقرر لمحہ : ٹوسٹماسٹر وحید اسلم سامع اجلاس : ٹوسٹماسٹر ندیم خان لطیفہ گو : ٹوسٹماسٹر یاسر ندیم عمومی تجزیہ کار : ڈی ٹی ایم عمر فاروق تعلیمی نشست : مقرر اوّل : ٹوسٹماسٹر یاسر ندیم / تجزیہ کار : ٹوسٹماسٹر اظہر فاروق مقرر دوئم : ٹوسٹماسٹر لہنا فراز ، تجزیہ کار/ ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی مختصر وقفہ ، برجستہ موضوعاتی نشست ناظمِ برجستہ موضوعاتی نشست : ٹوسٹماسٹرز قدسیہ ندیم لالی تجزیہ کار ، برجستہ موضوعاتی تقاریر : ٹوسٹماسٹر اظہر فاروق منتظمِ انجمن ٹوسٹماسٹر یاسر ندیم جو ( رکن جیکبز کلب بھی ہيں ) نے اجلاس کا آغاز کیا اور حاضرین محفل کا پُر تپاک استقبال کیا وقت کی نبض پر مضبوطی سے گرفت رکھتے ہوئے بلا تاخیر کلب کی صدر ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی کو تکریم کے ساتھ اسٹیج پر مدعو کیا ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی نے خطبہ صدارت ميں والدین کو بچوں کی نفسیات کو مدِ نظر رکھ کر تربیت پر مختصر اور جامع پیغام دیا ، بھر پور خوشی و طمانیت کا اظہار کہا کہ محض پندرہ دن ميں اراکین کی تعداد بیس سے بڑھ کر ستائس افراد تک پہنچ گئی ہے نیز کلب سے وابستہ دس سینئرز اراکین و ڈی ٹی ایم ( چار سینئر اراکین صحاری ٹوسٹماسٹرز کلب اور چار اراکین جیکبز ٹوسٹماسٹرز کلب ) جیسی شخصیات ہوتے ہوئے بھی اس نومولود کمیونٹی کلب کے لیے بھی اپنا وقت اور خدمات دینے کے لیے پیش پیش ہيں ناظم اجلاس سینئر رکن جیکبز ٹوسٹماسٹرز کلب و سابق صدر منتخب نائب صدر تعلیم و تربیت پاکستانی کمیونٹی ٹوسٹماسٹرز کلب نے اجلاس کی کاروائی کو برق رفتاری سے آگے بڑھتے ہوئے ذمہ دارانِ اجلاس کا تعارف و ان کی جملہ امور کی تصدیق کا مرحلہ طے کیا تعلیمی نشست ميں دو کسرِ جمود تقاریر تھيں جو ( ٹوسٹماسترز یاسر ندیم اور ٹوسٹماسٹر لہنا فراز ) نے حیرت انگیز طور پر بہترین انداز سے پیش کيں ، وقفے کے بعد بہ حیٽیت ناظمِ برجستہ موضوعاتی نشست ، ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی نے منفرد انداز سے سفر کے موضوع کو بنیاد بنا کے تسلسل کے انداز ميں نشست کا آغاز کیا اس نشست کے تجزیہ کار ڈی ٹی ایم عمر فاروق رہے اجلاس نمبر ۲ ميں چار نئے اراکین بھی شریک تھے جو پاکستانی کمیونٹی ٹوسٹماسٹرز کلب کا نام سن کر مقررہ ہوٹل پہنچے اور اجلاس کے اختتام پر اپنی رکنیت حاصل کی، مہمانان سے اُن کا تعارف و اجلاس کے بارے ميں رائے طلب کی گئی،ایک مکمل اور بھرپور اجلاس پر حاضرین نے خوشی کا اظہار کیا کراچی سے تعلق رکھنے والے فہیم زیدی زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ان کو افسانہ نگاری پر خاص گرفت حاصل ہے معاشرے کے چبھتے ہوئے موضوعات کو دامن قرطاس پر منتشر کرنے کے ہنر سے بہ خوبی آشنا ہیں گزشتہ کئی برس کراچی کے مختلف اخبارات میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے ملازمت کرتے رہے ، ایک دہائی سے سعودی عرب میں مقیم ہیں تاہم انہوں نے یہاں رہ کر اپنے خون میں شامل لکھنے کی روش کو ترک نہیں کیا مزید تر لکھتے چلے گئے اور تاحال لکھنے کا عمل جاری ہے سعودی عرب کے واحد روزنامہ “ اردو نیوز “ میں ہر ہفتے ان کا کالم شائع ہو رہا ہے ۔ یہاں رہتے ہوئے بھی انہوں نے ہفت روزہ اخبار جہاں ۔ روزنامہ جنگ کراچی ۔ روزنامہ جسارت اور بھی متعدد اخبارات کے لئے کام کیا جو ہنوز جاری ہے ان کے بلاگز اور مضامین اخبارات ۔ انٹرنیشنل نیوز اور سوشل ویب سائٹ پر وقتا فوقتا شائع ہو رہے ہیں عالیہ فراز ، کراچی سے تعلق رکھتی ہيں گریجویشن مائکرو بائیو لوجی سعودیہ عرب میں گزشتہ سات سال سے مقیم ہيں ، چار بچوں کی والدہ ، اردو ادب اورشعر و شاعری سے دلچسپی رکھنے والی زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا شوق کے ساتھ کتب بینی پسندیدہ مشغلہ ہے، محمد عثمان اصغر، وہاڑی (پنجاب) سے تعلق. ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی ،2011ء میں جامعہ بہاؤالدین زکریا ملتان سے ہی سے بی-ایس-سی انجینئرنگ مکمل کی. برسر روزگار ہوئے تو کام کی نوعیت کے باعث، ملک پاکستان کے طول و عرض کا سفر کیا. عرصہ چار سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں اور یہاں تکنیکی جانچ پڑتال، سلامتی کے شعبہ سے وابستہ ہیں. راجہ عبدالرحمن ہے، تعلق پاکستان ضلع چکوال سے ہے ، سعودی عرب میں زمانہ طالبعلمی گزارنے کے بعد گزشتہ تیرہ برس سے ایک جرمن کمپنی سیمنس سے وابستہ ہوں ۔ ذاتی طور پر تاریخ اور شعر وسخن سے دلچسبی ہے صدر کلب نے فائزین ميں اسناد تقسیم کيں تیار شدہ تقریر کی فائز : ٹوسٹماسٹر لہنا فراز برجستہ موضوعاتی نشست کے فائز : ٹوسٹماسٹر وحید اسلم تجزیاتی نشست کی فائز ٹوسٹماسٹر قدسیہ ندیم لالی صدر پاکستانی کمیونٹی ٹوسٹماسٹرز کلب ، قدسیہ ندیم لالی نے اختتامی کلمات ميں حاضرینِ محفل کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ آج نئے شامل ہونے والے اراکین سمیت یہ ایک قابل فخر بات ہے کہ اب تک پاکستانی کمیونٹی ٹوسٹماسٹرز کلب ميں اعلی تعلیم یافتہ افراد شامل ہوئے ہيں جس ميں یونیورسٹی کے پروفیسر ، انجینئر ز ، ڈاکٹر ، صحافی ، ادباء و شعراء کی تعداد دیکھی جا رہی ئے جو ایک خوش آئند بات ہے کہ ابتداء سے اعلی تعلیم یافتہ افراد کی بھر پور توجہ حاصل رہی ہے جس سے امید کی جاتی ہے کہ اس کلب کو عوام الناس تک رسائی انتہائی آسان رہے گی ، اگلے اجلاس کی تاریخ جو پانچ مارچ طے ہوئی ہے کے اعلان کے ساتھ کلب کے برخاست ہونے کا اعلان کیا
0 notes
Text
'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا'
نئی دہلی — 
داغ دہلوی نے جب یہ شعر کہا ہوگا کہ ’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ، سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ تو انھیں یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ایک وقت آئے گا جب واقعی اردو ادب کی دھوم سارے جہاں میں ہو گی۔ ریختہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام دارالحکومت دہلی میں منعقدہ تین روزہ جشن ریختہ کے پانچویں ایڈیشن میں جب ہم پہنچے تو یہ شعر اپنی پوری معنویت کے ساتھ جلوہ گر نظر آیا۔
اس جشن میں محفل خانہ، بزمِ خیال، دیارِ اظہار اور سخن زار کے عنوان سے چار پنڈالوں میں سجے اسٹیجوں سے تین روز تک مسلسل اور ایک ساتھ پروگرام چلتے رہے۔
دہلی کے قلب میں واقع انڈیا گیٹ کے نزدیک میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں فیسٹیول کا آغاز وڈالی برادران کی قوالیوں سے اور اختتام نوراں سسٹر کی قوالیوں سے ہوا۔ مجموعی طور پر چالیس سے زیادہ سیشن ہوئے اور ہر سیشن شائقین سے بھرا رہا۔
جشن ریختہ کے پانچویں سیشن میں فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، اداکاروں اور فلم سازوں نے اردو زبان کے حوالے سے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مرد و خواتین کے مشاعرے، داستان گوئی، مکالمے، بیت بازی، غزل سرائی اور فلم اسکریننگ وغیرہ نے آنے والے شائقین کو خوب محظوظ کیا۔
جاویداختر اور شبانہ اعظمی نے اپنے اپنے والد جاں نثار اختر اور کیفی اعظمی کے فن پر گفتگو کی۔
’’فیض کے تین عشق‘‘ کے نام سے ایک سیشن میں گوپی چند نارنگ نے فیض کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔
علامہ اقبال کے فن پر پولینڈ کے ایک پروفیسر پیوترے کلودکو ووسکی نے گفتگو کی۔
پروفیسر پرشوتم اگروال اورعبدل بسم اللہ نے کبیر کے فن پر تبادلۂ خیال کیا۔
ایک سیشن میں بدنام شعرا اور شاعرات پر گفتگو ہوئی تو ایک میں اپنی شاعری سنانے کے لیے نوجوانوں کی بھیڑ مشتاق نظر آئی۔
ریختہ فاؤنڈیشن کے چئرمین سنجیو صراف کا کہنا ہے کہ یہ اردو زبان ہی ہے جو تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ سکتی ہے۔
ممتاز شاعر اور ریختہ فاؤنڈیشن کے ایڈیٹر انچارج فرحت احساس نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ ریختہ نے ملک بھر میں اردو کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ریختہ کا مقصد اردو زبان اور اردو تہذیب کو زیادہ سے لوگوں تک پہنچانا ہے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کل جو پانچواں جشن ختم ہوا ہے اس میں صرف پہلے دو روز میں مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے ڈھائی لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والی نئی نسل، انجینئر، ڈاکٹر، آئی ٹی پروفیشنل وغیر پہنچے۔ شرکا میں 80 فیصد نوجوان تھے۔
بقول ان کے اس پلیٹ فارم سے اردو کے تعلق سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور اردو کو فروغ دینے میں ہندوستان میں پہلے کبھی اتنا بڑا پروگرام نہیں چلایا گیا۔
کئی پروگراموں کی نظامت کرنے والے معروف شاعر اور ناظم مشاعرہ شکیل جمالی نے کہا کہ ریختہ فاؤنڈیشن نے اردو کو گھر گھر تک پہنچا دیا اور اب لوگ اردو سیکھ رہے ہیں۔ اب تو ریختہ نے اردو رسم الخط سکھانے کی بھی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کلاسز شروع کی گئی ہیں۔
بقول ان کے ریختہ نے معیار کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس میں ادب، فلم، اسٹیج ہر شعبے کی بڑی شخصیات نے اس میں شرکت کی۔ اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد آتی ہے اور اردو زبان سے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
اس فیسٹیول میں دہلی کے باہر سے بھی لوگ آئے۔ یہاں سے آٹھ سو کلو میٹر دور اتر پردیش کے مؤناتھ بھنجن سے آنے والے ایک شائق ابو اشعر فہیم نے کہا کہ ابھی تک ہم صرف یو ٹیوب پر ریختہ کو سنتے تھے۔ اس بار ہم نے سوچا کہ خود چل کر دیکھا جائے کہ کیا کام ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق ریختہ نے اردو کو اس معاشرے تک پہنچا دیا ہے جو اپر سوسائٹی کہلاتا ہے۔ اس نے دوریاں ختم کر دی ہیں۔ اب لوگ اردو پڑھ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، اردو کتابیں خرید رہے ہیں اور اردو میں سوچ رہے ہیں۔ اس نے گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے مختلف تہذیبوں کے مابین دوریاں ختم کر دی ہیں۔
فیسٹیول کے شرکا میں زبردست جوش دیکھا گیا ہے۔جب ایک سیشن میں فلم اداکار جاوید جعفری نے کہا کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ اردو خطرے میں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اردو قطرے قطرے میں ہے‘‘ تو شائقین نے انتہائی پرجوش اور والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا۔
متعدد شائقین یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اب ہمیں اس کے اگلے فیسٹیو ل کا انتظار رہے گا۔
The post 'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا' appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2EBkz2K via
0 notes
dragnews · 6 years
Text
'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا'
نئی دہلی — 
داغ دہلوی نے جب یہ شعر کہا ہوگا کہ ’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ، سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ تو انھیں یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ایک وقت آئے گا جب واقعی اردو ادب کی دھوم سارے جہاں میں ہو گی۔ ریختہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام دارالحکومت دہلی میں منعقدہ تین روزہ جشن ریختہ کے پانچویں ایڈیشن میں جب ہم پہنچے تو یہ شعر اپنی پوری معنویت کے ساتھ جلوہ گر نظر آیا۔
اس جشن میں محفل خانہ، بزمِ خیال، دیارِ اظہار اور سخن زار کے عنوان سے چار پنڈالوں میں سجے اسٹیجوں سے تین روز تک مسلسل اور ایک ساتھ پروگرام چلتے رہے۔
دہلی کے قلب میں واقع انڈیا گیٹ کے نزدیک میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں فیسٹیول کا آغاز وڈالی برادران کی قوالیوں سے اور اختتام نوراں سسٹر کی قوالیوں سے ہوا۔ مجموعی طور پر چالیس سے زیادہ سیشن ہوئے اور ہر سیشن شائقین سے بھرا رہا۔
جشن ریختہ کے پانچویں سیشن میں فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، اداکاروں اور فلم سازوں نے اردو زبان کے حوالے سے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مرد و خواتین کے مشاعرے، داستان گوئی، مکالمے، بیت بازی، غزل سرائی اور فلم اسکریننگ وغیرہ نے آنے والے شائقین کو خوب محظوظ کیا۔
جاویداختر اور شبانہ اعظمی نے اپنے اپنے والد جاں نثار اختر اور کیفی اعظمی کے فن پر گفتگو کی۔
’’فیض کے تین عشق‘‘ کے نام سے ایک سیشن میں گوپی چند نارنگ نے فیض کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔
علامہ اقبال کے فن پر پولینڈ کے ایک پروفیسر پیوترے کلودکو ووسکی نے گفتگو کی۔
پروفیسر پرشوتم اگروال اورعبدل بسم اللہ نے کبیر کے فن پر تبادلۂ خیال کیا۔
ایک سیشن میں بدنام شعرا اور شاعرات پر گفتگو ہوئی تو ایک میں اپنی شاعری سنانے کے لیے نوجوانوں کی بھیڑ مشتاق نظر آئی۔
ریختہ فاؤنڈیشن کے چئرمین سنجیو صراف کا کہنا ہے کہ یہ اردو زبان ہی ہے جو تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ سکتی ہے۔
ممتاز شاعر اور ریختہ فاؤنڈیشن کے ایڈیٹر انچارج فرحت احساس نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ ریختہ نے ملک بھر میں اردو کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ریختہ کا مقصد اردو زبان اور اردو تہذیب کو زیادہ سے لوگوں تک پہنچانا ہے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کل جو پانچواں جشن ختم ہوا ہے اس میں صرف پہلے دو روز میں مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے ڈھائی لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والی نئی نسل، انجینئر، ڈاکٹر، آئی ٹی پروفیشنل وغیر پہنچے۔ شرکا میں 80 فیصد نوجوان تھے۔
بقول ان کے اس پلیٹ فارم سے اردو کے تعلق سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور اردو کو فروغ دینے میں ہندوستان میں پہلے کبھی اتنا بڑا پروگرام نہیں چلایا گیا۔
کئی پروگراموں کی نظامت کرنے والے معروف شاعر اور ناظم مشاعرہ شکیل جمالی نے کہا کہ ریختہ فاؤنڈیشن نے اردو کو گھر گھر تک پہنچا دیا اور اب لوگ اردو سیکھ رہے ہیں۔ اب تو ریختہ نے اردو رسم الخط سکھانے کی بھی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کلاسز شروع کی گئی ہیں۔
بقول ان کے ریختہ نے معیار کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس میں ادب، فلم، اسٹیج ہر شعبے کی بڑی شخصیات نے اس میں شرکت کی۔ اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد آتی ہے اور اردو زبان سے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
اس فیسٹیول میں دہلی کے باہر سے بھی لوگ آئے۔ یہاں سے آٹھ سو کلو میٹر دور اتر پردیش کے مؤناتھ بھنجن سے آنے والے ایک شائق ابو اشعر فہیم نے کہا کہ ابھی تک ہم صرف یو ٹیوب پر ریختہ کو سنتے تھے۔ اس بار ہم نے سوچا کہ خود چل کر دیکھا جائے کہ کیا کام ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق ریختہ نے اردو کو اس معاشرے تک پہنچا دیا ہے جو اپر سوسائٹی کہلاتا ہے۔ اس نے دوریاں ختم کر دی ہیں۔ اب لوگ اردو پڑھ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، اردو کتابیں خرید رہے ہیں اور اردو میں سوچ رہے ہیں۔ اس نے گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے مختلف تہذیبوں کے مابین دوریاں ختم کر دی ہیں۔
فیسٹیول کے شرکا میں زبردست جوش دیکھا گیا ہے۔جب ایک سیشن میں فلم اداکار جاوید جعفری نے کہا کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ اردو خطرے میں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اردو قطرے قطرے میں ہے‘‘ تو شائقین نے انتہائی پرجوش اور والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا۔
متعدد شائقین یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اب ہمیں اس کے اگلے فیسٹیو ل کا انتظار رہے گا۔
The post 'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا' appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2EBkz2K via Today Pakistan
0 notes
Text
'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا'
نئی دہلی — 
داغ دہلوی نے جب یہ شعر کہا ہوگا کہ ’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ، سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ تو انھیں یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ایک وقت آئے گا جب واقعی اردو ادب کی دھوم سارے جہاں میں ہو گی۔ ریختہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام دارالحکومت دہلی میں منعقدہ تین روزہ جشن ریختہ کے پانچویں ایڈیشن میں جب ہم پہنچے تو یہ شعر اپنی پوری معنویت کے ساتھ جلوہ گر نظر آیا۔
اس جشن میں محفل خانہ، بزمِ خیال، دیارِ اظہار اور سخن زار کے عنوان سے چار پنڈالوں میں سجے اسٹیجوں سے تین روز تک مسلسل اور ایک ساتھ پروگرام چلتے رہے۔
دہلی کے قلب میں واقع انڈیا گیٹ کے نزدیک میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں فیسٹیول کا آغاز وڈالی برادران کی قوالیوں سے اور اختتام نوراں سسٹر کی قوالیوں سے ہوا۔ مجموعی طور پر چالیس سے زیادہ سیشن ہوئے اور ہر سیشن شائقین سے بھرا رہا۔
جشن ریختہ کے پانچویں سیشن میں فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، اداکاروں اور فلم سازوں نے اردو زبان کے حوالے سے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مرد و خواتین کے مشاعرے، داستان گوئی، مکالمے، بیت بازی، غزل سرائی اور فلم اسکریننگ وغیرہ نے آنے والے شائقین کو خوب محظوظ کیا۔
جاویداختر اور شبانہ اعظمی نے اپنے اپنے والد جاں نثار اختر اور کیفی اعظمی کے فن پر گفتگو کی۔
’’فیض کے تین عشق‘‘ کے نام سے ایک سیشن میں گوپی چند نارنگ نے فیض کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔
علامہ اقبال کے فن پر پولینڈ کے ایک پروفیسر پیوترے کلودکو ووسکی نے گفتگو کی۔
پروفیسر پرشوتم اگروال اورعبدل بسم اللہ نے کبی�� کے فن پر تبادلۂ خیال کیا۔
ایک سیشن میں بدنام شعرا اور شاعرات پر گفتگو ہوئی تو ایک میں اپنی شاعری سنانے کے لیے نوجوانوں کی بھیڑ مشتاق نظر آئی۔
ریختہ فاؤنڈیشن کے چئرمین سنجیو صراف کا کہنا ہے کہ یہ اردو زبان ہی ہے جو تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ سکتی ہے۔
ممتاز شاعر اور ریختہ فاؤنڈیشن کے ایڈیٹر انچارج فرحت احساس نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ ریختہ نے ملک بھر میں اردو کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ریختہ کا مقصد اردو زبان اور اردو تہذیب کو زیادہ سے لوگوں تک پہنچانا ہے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کل جو پانچواں جشن ختم ہوا ہے اس میں صرف پہلے دو روز میں مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے ڈھائی لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والی نئی نسل، انجینئر، ڈاکٹر، آئی ٹی پروفیشنل وغیر پہنچے۔ شرکا میں 80 فیصد نوجوان تھے۔
بقول ان کے اس پلیٹ فارم سے اردو کے تعلق سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور اردو کو فروغ دینے میں ہندوستان میں پہلے کبھی اتنا بڑا پروگرام نہیں چلایا گیا۔
کئی پروگراموں کی نظامت کرنے والے معروف شاعر اور ناظم مشاعرہ شکیل جمالی نے کہا کہ ریختہ فاؤنڈیشن نے اردو کو گھر گھر تک پہنچا دیا اور اب لوگ اردو سیکھ رہے ہیں۔ اب تو ریختہ نے اردو رسم الخط سکھانے کی بھی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کلاسز شروع کی گئی ہیں۔
بقول ان کے ریختہ نے معیار کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس میں ادب، فلم، اسٹیج ہر شعبے کی بڑی شخصیات نے اس میں شرکت کی۔ اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد آتی ہے اور اردو زبان سے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
اس فیسٹیول میں دہلی کے باہر سے بھی لوگ آئے۔ یہاں سے آٹھ سو کلو میٹر دور اتر پردیش کے مؤناتھ بھنجن سے آنے والے ایک شائق ابو اشعر فہیم نے کہا کہ ابھی تک ہم صرف یو ٹیوب پر ریختہ کو سنتے تھے۔ اس بار ہم نے سوچا کہ خود چل کر دیکھا جائے کہ کیا کام ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق ریختہ نے اردو کو اس معاشرے تک پہنچا دیا ہے جو اپر سوسائٹی کہلاتا ہے۔ اس نے دوریاں ختم کر دی ہیں۔ اب لوگ اردو پڑھ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، اردو کتابیں خرید رہے ہیں اور اردو میں سوچ رہے ہیں۔ اس نے گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے مختلف تہذیبوں کے مابین دوریاں ختم کر دی ہیں۔
فیسٹیول کے شرکا میں زبردست جوش دیکھا گیا ہے۔جب ایک سیشن میں فلم اداکار جاوید جعفری نے کہا کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ اردو خطرے میں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اردو قطرے قطرے میں ہے‘‘ تو شائقین نے انتہائی پرجوش اور والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا۔
متعدد شائقین یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اب ہمیں اس کے اگلے فیسٹیو ل کا انتظار رہے گا۔
The post 'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا' appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2EBkz2K via Urdu News
0 notes
urduclassic · 4 years
Text
ناصر زیدی : حق گوئی ہی ہے جرم اگر، تو یہ بھی بھاری مجرم ہیں
یُوں تو ہم عصری کا اطلاق ہمارے اردگرد کے بے شمار لوگوں پر ہوتا ہے مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا لڑکپن اور فنی کیرئیر کم و بیش ساتھ ساتھ گزرتا ہے اور یوں آپ انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے اور اپنے ساتھ ساتھ بڑھتا اور سنورتا دیکھتے ہیں۔ ناصر زیدی کا شمار بھی ایسے ہی دوستوں اور ہم عصروں میں ہوتا تھا۔ اسکول کے زمانے میں وہ عطاء ا لحق قاسمی کا ہم جماعت تھا اور دونوں کے دوستانہ تعلقات میں اس زمانہ کا لڑکپن بڑھاپے تک قائم رہا، عطا اُسے پُھسپھسا اور وہ ا ُسے مولوی زادہ کہہ کر بلاتا تھا ۔ دونوں ہی بندہ ضایع ہو جائے پر جملہ ضایع نہ ہو کے قائل تھے سو اُن کی موجودگی میں کسی محفل کا سنجیدہ یا بے رنگ رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اسّی کی دہائی میں ایم اے او کالج کے شعبہ اُردو میں ناصر اپنے مخصوص بیگ اور دراز زلفوں کے ساتھ مسکراتا ہوا میرے اور عطا کے مشترکہ کمرے میں داخل ہوا اور ایک کتاب میز پر رکھتے ہوئے بولا، ’’اوئے مولوی زادے دیکھ میری کتاب کا دوسرا ایڈیشن آگیا ہے ‘‘
عطا نے پلکیں جھپکائے بغیر کہا۔’’پہلا کدھر گیا ہے؟‘‘ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس جملے کا سب سے زیادہ مزا خود ناصر زیدی نے لیا اور اسی حوالے سے بھارتی مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا وہ مشہور جملہ بھی دہرایا کہ ’’جو صاحب اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی ایک کاپی خریدیں گے انھیں پہلے ایڈیشن کی دو کاپیاں مفت پیش کی جائیں گی‘‘۔ اندرون ملک مشاعروں اور ادبی تقریبات کے حوالے سے ہم نے بے شمار سفر ایک ساتھ کیے ہیں ۔ اس کی نہ صرف آواز اچھی تھی بلکہ ریڈیو کی ٹریننگ نے اُسے اور نکھار دیا تھا اس پر اُس کی یادداشت اور ذوقِ مطالعہ نے مل کر اُسے ریڈیو، ٹی وی اور دیگر مشاعروں کا مستقل میزبان بنا دیا تھا ۔ جزوی نوعیت کی ملازمتوں سے قطع نظر وہ سار ی عمر تقریباً فری لانسر رہا اور غالباً سب سے زیادہ عرصہ اُس نے ماہنامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت میں گزارا ۔ اتفاق سے وفات کے وقت بھی ایک بار پھر وہ اُسی رسالے سے منسلک تھا۔ 
صدیقہ جاوید کی وفات کے باعث رسالے کے مالی معاملات اُس کی ذاتی صحت اور گھریلو مسائل کی دیرینہ پیچیدگیوں نے اُس کی صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا تھا جس کا اثر اس کی نقل و حرکت اور طبیعت کی شگفتگی پر بھی پڑا تھا کہ گزشتہ چند ملاقاتوں میں وہ پہلے جیسا ناصر زیدی نہیں رہا تھا ۔ جہاں تک کلاسیکی شاعری اور اشعار کی اصل شکل اور صحت کا تعلق ہے اُس کا مطالعہ بہت اچھا تھا اور اس سلسلے میں وہ اکثر اپنے ’’مستند‘‘ ہونے کا اظہار بھی کرتا تھا اور یہ اُسے سجتا بھی تھا کہ فی زمانہ ’’تحقیق‘‘ کی طرف لوگوں کا رجحان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے ۔ ضیاء الحق کے زمانے میں وہ کچھ عرصہ سرکاری تقریریں لکھنے کے شعبے سے بھی منسلک رہا جس پر بعد میں اُسے تنقید کا بھی سامنا رہا خصوصاً اسلام آباد ہوٹل میں روزانہ شام کو احمد فراز کی محفل میں اس حوالے سے ایسی جملہ بازی ہوتی تھی کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ جہاں تک اُس کا شاعری کا تعلق ہے وہ اپنی اٹھان کے زمانے کے ہم عصروں سرمد سہبائی ، عدیم ہاشمی، اقبال ساجد، ثروت حسین، جمال احسانی ، غلام محمد ناصر، خالد احمد، نجیب احمد، عبید اللہ علیم، نصیر ترابی اور دیگر کئی نئی غزل کے علمبرداروں کے مقابلے میں اُسی روائت سے جڑا رہا جو کلاسیکی اساتذہ اور اُن کے رنگ میں رنگی ہوئی نسل کے شعرا میں زیادہ مقبول تھی اس کی ایک غزل اور ایک سلام کے چند اشعار دیکھئے۔
جذبات سرد ہو گئے طوفان تھم گئے اے دورِ ہجر اب کے ترے ساتھ ہم گئے
کچھ اس ادا سے اُس نے بُلایا تھا بزم میں جانا نہ چاہتے تھے مگر پھر بھی ہم گئے
مہلت نہ دی اجل نے فراعینِ دِقت کو قسطوں میں جی رہے تھے مگر ایک دم گئے
وہ ساتھ تھا تو سارا زمانہ تھا زیرِ پا وہ کیا گیا کہ اپنے بھی جاہ و حشم گئے
ہر چند ایک ہُو کا سمندر تھا درمیاں مقتل میں پھر بھی جانِ جہاں صرف ہم گئے
ناصرؔ نہیں ہے مجھ کو شکستِ انا کا غم خوش ہُوں کسی کی آنکھ کے آنسو تو تھم گئے
مرثیے اور سلام پر اُس نے کام بھی بہت کیا ہے اور لکھا بھی بہت ہے ایک سلام کے چند شعر دیکھئے
ذکر جو روز و شب حسینؔ کا ہے معجزہ یہ عجب حسینؔؓ کا ہے
دل میں جو بُغض پنج تن رکھّے وہ کہے بھی تو کب حسینؓ کا ہے
سرِ نیزہ بلند ہے جو سر با ادب ، باادب حسینؓ کا ہے
قلب و جاں پر فقط نہیں موقوف میرا جو کچھ ہے سب حسینؓ کا ہے
اسی دوران میں نقاد اور افسانہ نگار رشید مصباح اور شاعر افراسیاب کامل بھی اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے ہیں، رب کریم ان سب کی روحوں پر اپنا کرم فرمائے۔
امجد اسلام امجد 
بشکریہ ایسکپریس نیوز
4 notes · View notes
katarinadreams92 · 6 years
Text
'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا'
نئی دہلی — 
داغ دہلوی نے جب یہ شعر کہا ہوگا کہ ’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ، سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ تو انھیں یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ایک وقت آئے گا جب واقعی اردو ادب کی دھوم سارے جہاں میں ہو گی۔ ریختہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام دارالحکومت دہلی میں منعقدہ تین روزہ جشن ریختہ کے پانچویں ایڈیشن میں جب ہم پہنچے تو یہ شعر اپنی پوری معنویت کے ساتھ جلوہ گر نظر آیا۔
اس جشن میں محفل خانہ، بزمِ خیال، دیارِ اظہار اور سخن زار کے عنوان سے چار پنڈالوں میں سجے اسٹیجوں سے تین روز تک مسلسل اور ایک ساتھ پروگرام چلتے رہے۔
دہلی کے قلب میں واقع انڈیا گیٹ کے نزدیک میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں فیسٹیول کا آغاز وڈالی برادران کی قوالیوں سے اور اختتام نوراں سسٹر کی قوالیوں سے ہوا۔ مجموعی طور پر چالیس سے زیادہ سیشن ہوئے اور ہر سیشن شائقین سے بھرا رہا۔
جشن ریختہ کے پانچویں سیشن میں فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، اداکاروں اور فلم سازوں نے اردو زبان کے حوالے سے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مرد و خواتین کے مشاعرے، داستان گوئی، مکالمے، بیت بازی، غزل سرائی اور فلم اسکریننگ وغیرہ نے آنے والے شائقین کو خوب محظوظ کیا۔
جاویداختر اور شبانہ اعظمی نے اپنے اپنے والد جاں نثار اختر اور کیفی اعظمی کے فن پر گفتگو کی۔
’’فیض کے تین عشق‘‘ کے نام سے ایک سیشن میں گوپی چند نارنگ نے فیض کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔
علامہ اقبال کے فن پر پولینڈ کے ایک پروفیسر پیوترے کلودکو ووسکی نے گفتگو کی۔
پروفیسر پرشوتم اگروال اورعبدل بسم اللہ نے کبیر کے فن پر تبادلۂ خیال کیا۔
ایک سیشن میں بدنام شعرا اور شاعرات پر گفتگو ہوئی تو ایک میں اپنی شاعری سنانے کے لیے نوجوانوں کی بھیڑ مشتاق نظر آئی۔
ریختہ فاؤنڈیشن کے چئرمین سنجیو صراف کا کہنا ہے کہ یہ اردو زبان ہی ہے جو تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ سکتی ہے۔
ممتاز شاعر اور ریختہ فاؤنڈیشن کے ایڈیٹر انچارج فرحت احساس نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ ریختہ نے ملک بھر میں اردو کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ریختہ کا مقصد اردو زبان اور اردو تہذیب کو زیادہ سے لوگوں تک پہنچانا ہے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کل جو پانچواں جشن ختم ہوا ہے اس میں صرف پہلے دو روز میں مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے ڈھائی لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والی نئی نسل، انجینئر، ڈاکٹر، آئی ٹی پروفیشنل وغیر پہنچے۔ شرکا میں 80 فیصد نوجوان تھے۔
بقول ان کے اس پلیٹ فارم سے اردو کے تعلق سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور اردو کو فروغ دینے میں ہندوستان میں پہلے کبھی اتنا بڑا پروگرام نہیں چلایا گیا۔
کئی پروگراموں کی نظامت کرنے والے معروف شاعر اور ناظم مشاعرہ شکیل جمالی نے کہا کہ ریختہ فاؤنڈیشن نے اردو کو گھر گھر تک پہنچا دیا اور اب لوگ اردو سیکھ رہے ہیں۔ اب تو ریختہ نے اردو رسم الخط سکھانے کی بھی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کلاسز شروع کی گئی ہیں۔
بقول ان کے ریختہ نے معیار کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس میں ادب، فلم، اسٹیج ہر شعبے کی بڑی شخصیات نے اس میں شرکت کی۔ اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد آتی ہے اور اردو زبان سے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
اس فیسٹیول میں دہلی کے باہر سے بھی لوگ آئے۔ یہاں سے آٹھ سو کلو میٹر دور اتر پردیش کے مؤناتھ بھنجن سے آنے والے ایک شائق ابو اشعر فہیم نے کہا کہ ابھی تک ہم صرف یو ٹیوب پر ریختہ کو سنتے تھے۔ اس بار ہم نے سوچا کہ خود چل کر دیکھا جائے کہ کیا کام ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق ریختہ نے اردو کو اس معاشرے تک پہنچا دیا ہے جو اپر سوسائٹی کہلاتا ہے۔ اس نے دوریاں ختم کر دی ہیں۔ اب لوگ اردو پڑھ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، اردو کتابیں خرید رہے ہیں اور اردو میں سوچ رہے ہیں۔ اس نے گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے مختلف تہذیبوں کے مابین دوریاں ختم کر دی ہیں۔
فیسٹیول کے شرکا میں زبردست جوش دیکھا گیا ہے۔جب ایک سیشن میں فلم اداکار جاوید جعفری نے کہا کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ اردو خطرے میں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اردو قطرے قطرے میں ہے‘‘ تو شائقین نے انتہائی پرجوش اور والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا۔
متعدد شائقین یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اب ہمیں اس کے اگلے فیسٹیو ل کا انتظار رہے گا۔
The post 'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا' appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2EBkz2K via Hindi Khabrain
0 notes
thebestmealintown · 6 years
Text
'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا'
نئی دہلی — 
داغ دہلوی نے جب یہ شعر کہا ہوگا کہ ’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ، سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ تو انھیں یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ایک وقت آئے گا جب واقعی اردو ادب کی دھوم سارے جہاں میں ہو گی۔ ریختہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام دارالحکومت دہلی میں منعقدہ تین روزہ جشن ریختہ کے پانچویں ایڈیشن میں جب ہم پہنچے تو یہ شعر اپنی پوری معنویت کے ساتھ جلوہ گر نظر آیا۔
اس جشن میں محفل خانہ، بزمِ خیال، دیارِ اظہار اور سخن زار کے عنوان سے چار پنڈالوں میں سجے اسٹیجوں سے تین روز تک مسلسل اور ایک ساتھ پروگرام چلتے رہے۔
دہلی کے قلب میں واقع انڈیا گیٹ کے نزدیک میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں فیسٹیول کا آغاز وڈالی برادران کی قوالیوں سے اور اختتام نوراں سسٹر کی قوالیوں سے ہوا۔ مجموعی طور پر چالیس سے زیادہ سیشن ہوئے اور ہر سیشن شائقین سے بھرا رہا۔
جشن ریختہ کے پانچویں سیشن میں فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، اداکاروں اور فلم سازوں نے اردو زبان کے حوالے سے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مرد و خواتین کے مشاعرے، داستان گوئی، مکالمے، بیت بازی، غزل سرائی اور فلم اسکریننگ وغیرہ نے آنے والے شائقین کو خوب محظوظ کیا۔
جاویداختر اور شبانہ اعظمی نے اپنے اپنے والد جاں نثار اختر اور کیفی اعظمی کے فن پر گفتگو کی۔
’’فیض کے تین عشق‘‘ کے نام سے ایک سیشن میں گوپی چند نارنگ نے فیض کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔
علامہ اقبال کے فن پر پولینڈ کے ایک پروفیسر پیوترے کلودکو ووسکی نے گفتگو کی۔
پروفیسر پرشوتم اگروال اورعبدل بسم اللہ نے کبیر کے فن پر تبادلۂ خیال کیا۔
ایک سیشن میں بدنام شعرا اور شاعرات پر گفتگو ہوئی تو ایک میں اپنی شاعری سنانے کے لیے نوجوانوں کی بھیڑ مشتاق نظر آئی۔
ریختہ فاؤنڈیشن کے چئرمین سنجیو صراف کا کہنا ہے کہ یہ اردو زبان ہی ہے جو تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ سکتی ہے۔
ممتاز شاعر اور ریختہ فاؤنڈیشن کے ایڈیٹر انچارج فرحت احساس نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ ریختہ نے ملک بھر میں اردو کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ریختہ کا مقصد اردو زبان اور اردو تہذیب کو زیادہ سے لوگوں تک پہنچانا ہے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کل جو پانچواں جشن ختم ہوا ہے اس میں صرف پہلے دو روز میں مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے ڈھائی لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والی نئی نسل، انجینئر، ڈاکٹر، آئی ٹی پروفیشنل وغیر پہنچے۔ شرکا میں 80 فیصد نوجوان تھے۔
بقول ان کے اس پلیٹ فارم سے اردو کے تعلق سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور اردو کو فروغ دینے میں ہندوستان میں پہلے کبھی اتنا بڑا پروگرام نہیں چلایا گیا۔
کئی پروگراموں کی نظامت کرنے والے معروف شاعر اور ناظم مشاعرہ شکیل جمالی نے کہا کہ ریختہ فاؤنڈیشن نے اردو کو گھر گھر تک پہنچا دیا اور اب لوگ اردو سیکھ رہے ہیں۔ اب تو ریختہ نے اردو رسم الخط سکھانے کی بھی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کلاسز شروع کی گئی ہیں۔
بقول ان کے ریختہ نے معیار کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس میں ادب، فلم، اسٹیج ہر شعبے کی بڑی شخصیات نے اس میں شرکت کی۔ اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد آتی ہے اور اردو زبان سے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
اس فیسٹیول میں دہلی کے باہر سے بھی لوگ آئے۔ یہاں سے آٹھ سو کلو میٹر دور اتر پردیش کے مؤناتھ بھنجن سے آنے والے ایک شائق ابو اشعر فہیم نے کہا کہ ابھی تک ہم صرف یو ٹیوب پر ریختہ کو سنتے تھے۔ اس بار ہم نے سوچا کہ خود چل کر دیکھا جائے کہ کیا کام ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق ریختہ نے اردو کو اس معاشرے تک پہنچا دیا ہے جو اپر سوسائٹی کہلاتا ہے۔ اس نے دوریاں ختم کر دی ہیں۔ اب لوگ اردو پڑھ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، اردو کتابیں خرید رہے ہیں اور اردو میں سوچ رہے ہیں۔ اس نے گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے مختلف تہذیبوں کے مابین دوریاں ختم کر دی ہیں۔
فیسٹیول کے شرکا میں زبردست جوش دیکھا گیا ہے۔جب ایک سیشن میں فلم اداکار جاوید جعفری نے کہا کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ اردو خطرے میں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اردو قطرے قطرے میں ہے‘‘ تو شائقین نے انتہائی پرجوش اور والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا۔
متعدد شائقین یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اب ہمیں اس کے اگلے فیسٹیو ل کا انتظار رہے گا۔
The post 'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا' appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2EBkz2K via India Pakistan News
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا'
نئی دہلی — 
داغ دہلوی نے جب یہ شعر کہا ہوگا کہ ’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ، سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ تو انھیں یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ایک وقت آئے گا جب واقعی اردو ادب کی دھوم سارے جہاں میں ہو گی۔ ریختہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام دارالحکومت دہلی میں منعقدہ تین روزہ جشن ریختہ کے پانچویں ایڈیشن میں جب ہم پہنچے تو یہ شعر اپنی پوری معنویت کے ساتھ جلوہ گر نظر آیا۔
اس جشن میں محفل خانہ، بزمِ خیال، دیارِ اظہار اور سخن زار کے عنوان سے چار پنڈالوں میں سجے اسٹیجوں سے تین روز تک مسلسل اور ایک ساتھ پروگرام چلتے رہے۔
دہلی کے قلب میں واقع انڈیا گیٹ کے نزدیک میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں فیسٹیول کا آغاز وڈالی برادران کی قوالیوں سے اور اختتام نوراں سسٹر کی قوالیوں سے ہوا۔ مجموعی طور پر چالیس سے زیادہ سیشن ہوئے اور ہر سیشن شائقین سے بھرا رہا۔
جشن ریختہ کے پانچویں سیشن میں فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، اداکاروں اور فلم سازوں نے اردو زبان کے حوالے سے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مرد و خواتین کے مشاعرے، داستان گوئی، مکالمے، بیت بازی، غزل سرائی اور فلم اسکریننگ وغیرہ نے آنے والے شائقین کو خوب محظوظ کیا۔
جاویداختر اور شبانہ اعظمی نے اپنے اپنے والد جاں نثار اختر اور کیفی اعظمی کے فن پر گفتگو کی۔
’’فیض کے تین عشق‘‘ کے نام سے ایک سیشن میں گوپی چند نارنگ نے فیض کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔
علامہ اقبال کے فن پر پولینڈ کے ایک پروفیسر پیوترے کلودکو ووسکی نے گفتگو کی۔
پروفیسر پرشوتم اگروال اورعبدل بسم اللہ نے کبیر کے فن پر تبادلۂ خیال کیا۔
ایک سیشن میں بدنام شعرا اور شاعرات پر گفتگو ہوئی تو ایک میں اپنی شاعری سنانے کے لیے نوجوانوں کی بھیڑ مشتاق نظر آئی۔
ریختہ فاؤنڈیشن کے چئرمین سنجیو صراف کا کہنا ہے کہ یہ اردو زبان ہی ہے جو تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ سکتی ہے۔
ممتاز شاعر اور ریختہ فاؤنڈیشن کے ایڈیٹر انچارج فرحت احساس نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ ریختہ نے ملک بھر میں اردو کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ریختہ کا مقصد اردو زبان اور اردو تہذیب کو زیادہ سے لوگوں تک پہنچانا ہے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کل جو پانچواں جشن ختم ہوا ہے اس میں صرف پہلے دو روز میں مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے ڈھائی لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والی نئی نسل، انجینئر، ڈاکٹر، آئی ٹی پروفیشنل وغیر پہنچے۔ شرکا میں 80 فیصد نوجوان تھے۔
بقول ان کے اس پلیٹ فارم سے اردو کے تعلق سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور اردو کو فروغ دینے میں ہندوستان میں پہلے کبھی اتنا بڑا پروگرام نہیں چلایا گیا۔
کئی پروگراموں کی نظامت کرنے والے معروف شاعر اور ناظم مشاعرہ شکیل جمالی نے کہا کہ ریختہ فاؤنڈیشن نے اردو کو گھر گھر تک پہنچا دیا اور اب لوگ اردو سیکھ رہے ہیں۔ اب تو ریختہ نے اردو رسم الخط سکھانے کی بھی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کلاسز شروع کی گئی ہیں۔
بقول ان کے ریختہ نے معیار کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس میں ادب، فلم، اسٹیج ہر شعبے کی بڑی شخصیات نے اس میں شرکت کی۔ اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد آتی ہے اور اردو زبان سے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
اس فیسٹیول میں دہلی کے باہر سے بھی لوگ آئے۔ یہاں سے آٹھ سو کلو میٹر دور اتر پردیش کے مؤناتھ بھنجن سے آنے والے ایک شائق ابو اشعر فہیم نے کہا کہ ابھی تک ہم صرف یو ٹیوب پر ریختہ کو سنتے تھے۔ اس بار ہم نے سوچا کہ خود چل کر دیکھا جائے کہ کیا کام ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق ریختہ نے اردو کو اس معاشرے تک پہنچا دیا ہے جو اپر سوسائٹی کہلاتا ہے۔ اس نے دوریاں ختم کر دی ہیں۔ اب لوگ اردو پڑھ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، اردو کتابیں خرید رہے ہیں اور اردو میں سوچ رہے ہیں۔ اس نے گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے مختلف تہذیبوں کے مابین دوریاں ختم کر دی ہیں۔
فیسٹیول کے شرکا میں زبردست جوش دیکھا گیا ہے۔جب ایک سیشن میں فلم اداکار جاوید جعفری نے کہا کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ اردو خطرے میں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اردو قطرے قطرے میں ہے‘‘ تو شائقین نے انتہائی پرجوش اور والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا۔
متعدد شائقین یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اب ہمیں اس کے اگلے فیسٹیو ل کا انتظار رہے گا۔
The post 'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا' appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2EBkz2K via Daily Khabrain
0 notes
dani-qrt · 6 years
Text
'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا'
نئی دہلی — 
داغ دہلوی نے جب یہ شعر کہا ہوگا کہ ’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ، سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ تو انھیں یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ایک وقت آئے گا جب واقعی اردو ادب کی دھوم سارے جہاں میں ہو گی۔ ریختہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام دارالحکومت دہلی میں منعقدہ تین روزہ جشن ریختہ کے پانچویں ایڈیشن میں جب ہم پہنچے تو یہ شعر اپنی پوری معنویت کے ساتھ جلوہ گر نظر آیا۔
اس جشن میں محفل خانہ، بزمِ خیال، دیارِ اظہار اور سخن زار کے عنوان سے چار پنڈالوں میں سجے اسٹیجوں سے تین روز تک مسلسل اور ایک ساتھ پروگرام چلتے رہے۔
دہلی کے قلب میں واقع انڈیا گیٹ کے نزدیک میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں فیسٹیول کا آغاز وڈالی برادران کی قوالیوں سے اور اختتام نوراں سسٹر کی قوالیوں سے ہوا۔ مجموعی طور پر چالیس سے زیادہ سیشن ہوئے اور ہر سیشن شائقین سے بھرا رہا۔
جشن ریختہ کے پانچویں سیشن میں فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، اداکاروں اور فلم سازوں نے اردو زبان کے حوالے سے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مرد و خواتین کے مشاعرے، داستان گوئی، مکالمے، بیت بازی، غزل سرائی اور فلم اسکریننگ وغیرہ نے آنے والے شائقین کو خوب محظوظ کیا۔
جاویداختر اور شبانہ اعظمی نے اپنے اپنے والد جاں نثار اختر اور کیفی اعظمی کے فن پر گفتگو کی۔
’’فیض کے تین عشق‘‘ کے نام سے ایک سیشن میں گوپی چند نارنگ نے فیض کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔
علامہ اقبال کے فن پر پولینڈ کے ایک پروفیسر پیوترے کلودکو ووسکی نے گفتگو کی۔
پروفیسر پرشوتم اگروال اورعبدل بسم اللہ نے کبیر کے فن پر تبادلۂ خیال کیا۔
ایک سیشن میں بدنام شعرا اور شاعرات پر گفتگو ہوئی تو ایک میں اپنی شاعری سنانے کے لیے نوجوانوں کی بھیڑ مشتاق نظر آئی۔
ریختہ فاؤنڈیشن کے چئرمین سنجیو صراف کا کہنا ہے کہ یہ اردو زبان ہی ہے جو تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ سکتی ہے۔
ممتاز شاعر اور ریختہ فاؤنڈیشن کے ایڈیٹر انچارج فرحت احساس نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ ریختہ نے ملک بھر میں اردو کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ریختہ کا مقصد اردو زبان اور اردو تہذیب کو زیادہ سے لوگوں تک پہنچانا ہے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کل جو پانچواں جشن ختم ہوا ہے اس میں صرف پہلے دو روز میں مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے ڈھائی لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والی نئی نسل، انجینئر، ڈاکٹر، آئی ٹی پروفیشنل وغیر پہنچے۔ شرکا میں 80 فیصد نوجوان تھے۔
بقول ان کے اس پلیٹ فارم سے اردو کے تعلق سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور اردو کو فروغ دینے میں ہندوستان میں پہلے کبھی اتنا بڑا پروگرام نہیں چلایا گیا۔
کئی پروگراموں کی نظامت کرنے والے معروف شاعر اور ناظم مشاعرہ شکیل جمالی نے کہا کہ ریختہ فاؤنڈیشن نے اردو کو گھر گھر تک پہنچا دیا اور اب لوگ اردو سیکھ رہے ہیں۔ اب تو ریختہ نے اردو رسم الخط سکھانے کی بھی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کلاسز شروع کی گئی ہیں۔
بقول ان کے ریختہ نے معیار کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس میں ادب، فلم، اسٹیج ہر شعبے کی بڑی شخصیات نے اس میں شرکت کی۔ اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد آتی ہے اور اردو زبان سے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
اس فیسٹیول میں دہلی کے باہر سے بھی لوگ آئے۔ یہاں سے آٹھ سو کلو میٹر دور اتر پردیش کے مؤناتھ بھنجن سے آنے والے ایک شائق ابو اشعر فہیم نے کہا کہ ابھی تک ہم صرف یو ٹیوب پر ریختہ کو سنتے تھے۔ اس بار ہم نے سوچا کہ خود چل کر دیکھا جائے کہ کیا کام ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق ریختہ نے اردو کو اس معاشرے تک پہنچا دیا ہے جو اپر سوسائٹی کہلاتا ہے۔ اس نے دوریاں ختم کر دی ہیں۔ اب لوگ اردو پڑھ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، اردو کتابیں خرید رہے ہیں اور اردو میں سوچ رہے ہیں۔ اس نے گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے مختلف تہذیبوں کے مابین دوریاں ختم کر دی ہیں۔
فیسٹیول کے شرکا میں زبردست جوش دیکھا گیا ہے۔جب ایک سیشن میں فلم اداکار جاوید جعفری نے کہا کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ اردو خطرے میں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اردو قطرے قطرے میں ہے‘‘ تو شائقین نے انتہائی پرجوش اور والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا۔
متعدد شائقین یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اب ہمیں اس کے اگلے فیسٹیو ل کا انتظار رہے گا۔
The post 'جشنِ ریختہ نے پورے ملک میں اردو کا ماحول پیدا کر دیا' appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2EBkz2K via Urdu News
0 notes