#سجاد غلامی
Explore tagged Tumblr posts
musicmandi98 · 5 years ago
Photo
Tumblr media
دانلود آهنگ جدید سجاد غلامی به نام چشمات دانلود آهنگ جدید سجاد غلامی به نام چشمات در موزیک مند Download New Song By Sajad Gholami…
0 notes
silverlakeone · 5 years ago
Photo
Tumblr media
. ای آقای خوبی ها! تو هستی و حضورت در تمام گلبرگ های گل های نرگس عالم، رنگ می گیرد. ای مولای ما! تو هستی و ما نیستیم. ای ناجی و نجات دهنده! ما در طوفان بلاهای خود ساخته روزگار، غریبانه گرفتار آمده ایم. تا غرق نشده ایم بیا... . ندیدم شهی در دل آرایی تو به قربان اخلاق مولایی تو تو خورشیدی و ذره پرور ترینی فدای سجایای زهرایی تو نداری به کویت ز من بی نواتر ندیدم کریمی به طاهایی تو نداری گدایی به رسوایی من ندیدم نگاری به زیبایی تو نداری مریضی به بد حالی من ندیدم دمی چون مسیحایی تو نداری غلامی به تنهایی من ندیدم غریبی به تنهایی تو نداری اسیری به شیدایی من ندیدم کسی را به آقایی تو امید غریبان تنها کجایی؟ چراغ سر قبر زهرا کجایی؟ تجلی طه ، گل اشک مولا ، دل آشفته ی داغ آن کوچه ی غم گرفتار گودال خونین ، گرفتار غم های زینب ، سیه پوش قاسم عزادار اکبر گل باغ لیلا ، پریشان دست علم گیر سقا نفس های سجاد ، نواهای باقر ، دعاهای صادق کس بی کسی های شب های کاظم حبیب رضا و انیس غریب جواد الائمه تمنای هادی ، عزیز دل عسکری ، پس نگارا بفرما کجایی؟ دلم جز هوایت هوایی ندارد لبم غیر نامت نوایی ندارد وضو و اذان و نماز و قنوتم بدون ولایت بهایی ندارد دلی که نشد خانه ی یاس نرگس خراب است و ویران صفایی ندارد بیا تا جوانم  بده رخ نشانم که این زندگانی وفایی ندارد… #امام_زمان_علیه_السلام #حجت_بن_الحسن_العسکری .#بیا_تا_جوانم_بده_رخ_نشانم #مهدی_علیه_السلام #مهدی_بیا #علی_فانی #به_طاها_به_یاسین https://www.instagram.com/p/B-uSbvzJq4h/?igshid=17x2fq2iwj21f
0 notes
asbeabi · 5 years ago
Text
رکوردشکنی ورزش مازندران در بازیهای اینچئون، کسب 16 مدال رنگارنگ
به گزارش خبرنگاران، کاروان ورزشی مازندران در رقابتهای آسیایی اینچئون کره جنوبی با کسب شش طلا، پنج مدال نقره و پنج برنز در 10 رشته ورزشی، کلکسیون ورزشی استان را زرین تر کردند. بهداد سلیمی، رضا یزدانی، مسعود اسماعیل پور، عزت الله اکبری ، نرگس امامقلی نژاد، مجتبی عابدینی ، سجاد عباسی امیری ، سوسن حاجی پور ، مجید قیدی ، جاسم دلاوری ، مجتبی میرزاجان پور، عادل غلامی ، فرزان عاشورزاده ، بشیر باباجان زاده و فاطمه چالاکی مدالهای رشته های مختلف را در بازیهای آسیایی اینچئون کره جنوبی کسب کردند.
Tumblr media
from http://bit.ly/2nWn9cO via رکوردشکنی ورزش مازندران در بازیهای اینچئون، کسب 16 مدال رنگارنگ
0 notes
iranayande · 5 years ago
Text
کرونا در زندان؛ گزارشی از وضعیت محبوسین آذربایجانی در زندان اوین و زندان های آذربایجان
طی گزارشات موثق و تماس محبوسین سیاسی آذربایجانی، وضعیت زندانیان زندانهای ایران نگران کننده گزارش می شود. در تماس فعالین آذربایجانی اطلاع داده شده که دو نفر از زندانیان بند ۴ زندان اوین پس از بروز علائم مشابه ویروس کرونا و بد حالی به درمانگاه زندان اوین منتقل شده اند و همچنین تمامی فعالیت های خارج از بند متوقف شده و بند مذکور پس از ... به حالت قرنطینه در آمده است . آقایان توحید امیرامینی ،کیانوش اصلانی و کاظم صفابخش در بند ۴ در حال سپری کردن دوران محکومیت خویش هستند. همچنین از بندهای دیگر زندان اوین از جمله بند ۸ که ابراهیم نوری و جعفر رستمی راد در آن بند محبوس می باشند گزارشهای مشابهی به بیرون درز کرده است. متاسفانه از وضعیت آقایان علیرضا فرشی ، اکبر نعیمی ، احسان شکر خدایی و خانم زینب همرنگ اطلاع دقیقی در دسترس نیست و این مسئله بر نگرانی بیشتر خانواده های فعالین دامن زده است. همچنین طی گزارشهای واصله و تماس فعالین با نزدیکان ، بند سلامت زندان مرکزی اردبیل کلا تخلیه گردیده و زندانیانی که علایم شبیه به ویروس کرونا را دارند به بند مذکور منتقل می شود.عباس لسانی ، مژگان صیامی،رحیم غلامی و یوسف کاری هم اکنون در بندهای ۷ امنیتی، بند نسوان و بند ۱ زندان در حال سپری کردن دوران محکومیت خویش هستند. لازم به یاد آوریست که آقای رحیم غلامی بعلت بیماری آسم و مشکلات تنفسی و آقای عباس لسانی بعلت مصرف داروهای مرتبط با چربی و بیماری کبدی بیشتر در معرض خطر این بیماری می باشند و این مسئله نگرانی از وضعیت سلامت این فعالین و دیگر زندانیان را تشدید نموده است. طی روزهای گذشته آقایان صالح ملا عباسی وسلیمان کاظمی بعلت شیوع بیماری کرونا توانسته اند که با دریافت مرخصی از زندان اهر خارج شوند.اما زندانیان زندانهای دیگر از جمله لطیف حسنی در زندان رجایی شهر ، علی عزیزی،سجاد شهیری، امیر ستاری،محمد عبدالمحمدزاده و... در زندان مرکزی تبریز. خانم حکیمه احمدی و ابوالفضل فکوری،محرم ولی پور ،اکبر عزیزی و غلامرضا رشیدی در زندان مراغه کماکان در زندان و وضعیت نگران کننده می باشند. خانواده های فعالین آذربایجانی بعلت نگرانی از وضعیت بستگانشان به مقامات قضایی و مسئولین زندان در شهرهای تهران،تبریز و اردبیل مراجعه نموده اند و علی رغم صدور بخشنامه رئیس قوه قضاییه مبنی دادن مرخصی به زندانیان امنیتی که دارای حکم کمتر از ۵ سال پی باشند همچنان هیچ کدام از فعالین یاد شده نتوانسته اند از امکان آزادی موقت برخوردار شوند. لازم به ذکر است با توجه به محیط بسته زندان، تغذیه نامناسب ، نبود امکانات بهداشتی و پزشکی لازم، تراکم بالای جمعیت، بروز موارد مشکوک به کرونا در برخی زندانها موجب نگرانی زندانیان و خانواده های آنان شده است و بی شک مسئولیت هر اتفاق ناگوار علیه زندانیان آذربایجانی بر عهده مسئولین امنیتی _ قضایی خواهد بود. Read the full article
0 notes
gochathalove · 5 years ago
Text
دانلود آهنگ سجاد غلامی اعتراف
دانلود آهنگ جدید از سجاد غلامی به نام اعتراف Download New Music Sajjad Gholami Eteraaf برای دانلود آهنگ به ادامه مطلب مراجعه کنید … تکست و متن آهنگ اعتراف سجاد غلامی آشنایی باتو کار خدا بود خواستن تو دست خودم نبود اعتراف میکنم که باتو آرومم به دنیا میگی تویی خانمم میخوام اینو بدونی پای تو میمونم این ترانه رو من برات میخونم امروز فردا توی قلبم میمونی اعتراف میکنم که باتو آرومم به دنیا میگی تویی خانمم آروم آروم دارم دلبستت میشم اگه پیشم‌ نباشی دلتنگت میشم اعتراف میکنم که باتو آرومم به دنیا میگی تویی خانمم
سجاد غلامی اعتراف
Read the full article
0 notes
indy-guardiadossonhos · 6 years ago
Text
پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں
واشنگٹن — 
پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور ان میں سے بہت سے بچے ہوٹلوں، ورکشاپس، پٹرول پمپس اور گھروں میں کام کرتے نطر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تازہ اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں چائلڈ رائٹس موومنٹ نیٹ ورک کے پروگرام منیجرسجاد چیمہ نے کہا کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی تعداد کیا ہے، کیوں کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر 1996 کے بعد سے کوئی سروے نہیں ہوا۔
سن 1996 کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 33 لاکھ ایسے بچے ہیں جو مشقت یا مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ سروے بہت پرانا ہے، اس کی بنیاد پر تازہ تعداد کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی اور صرف دوسرے متعلقہ اعداد و شمار سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ اعداد و شمار موجود ہیں کہ پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے تو اس بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کم از کم نصف تو اسکول جانے کی عمر کے بچے ہوں گے، اور اس طرح سے اندازہ یہ ہے کہ تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ بچے مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے جو عمومی طور پر اپنی غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جاتے۔
ٹائروں پر پنکچر لگانے والے بچے پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے سجاد چیمہ نے کہا کہ یہ بچے مختلف قسم کی محنت و مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے لیکن ان میں سے سب سے تکلیف دہ مشقت کا شکار وہ بچے ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہیں اور جنہیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے جدید دور کی غلامی اور بد ترین قسم کی چائلڈ لیبر قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا نیٹ ورک چونکہ اس سلسلے میں کام کرتا ہے اس لیے اسے معلوم ہوا ہے کہ اس کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بہت سے بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور کئی بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ جو جنسی تشدد ہو تا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف قانون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسلا م آباد ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ اور بچوں کے حقوق کی ایک علمبردار خدیجہ علی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بچوں کی ملازمت کے بارے میں جو قانون تھا، 1991 کا ایک ایکٹ، وہ پورے پاکستان میں نافذ تھا جس کے مطابق آپ 14 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کام پر یا ملازم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے چائلڈ لیبر پر اپنی اپنی قانون سازی کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بچوں سے مشقت کے موجودہ قوانین پر عمل درآمد بہت کمزور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ خاندان بھی بچوں کو گھر میں ملازم رکھتی ہے، وہ گھروں میں کام کرتے ہیں، صفائی ستھرائی کرتے ہیں، بچے سنبھالتے ہیں۔
پاکستان میں اینٹوں کے کئی بھٹوں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قانون میں بچوں سے کام لینے کی سزا تو ایک سال تک کی ہے لیکن میں نے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بڑے مقدمات یا کوئی بڑی سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔
ا یڈووکیٹ خدیجہ علی نے طیبہ نامی بچی کے ساتھ تشدد کے جرم پر دی جانے والی حالیہ سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں بھی جو سزا دی گئی تھی وہ بچی سے ظلم یا دوسری زیادتیوں کے حوالے سے دی گئی تھی لیکن اس میں چائلڈ لیبر کی دفعہ کے تحت کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ملازم بچوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی کی ہی سزا نہیں ہونی چاہیئے بلکہ بچوں سے کام کا لیا جانا ہی ایک قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔
سجاد چیمہ نے بھی چائلڈ لیبر کے لئے موجود قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک بھر میں موجود مفت اور لازمی تعلیم کے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کر لیا جائے جس کے مطابق 5 سے 16 سال کا ہر بچہ اسکول جائے گا، تو یہ بھی ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کے حل کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔
The post پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2DO7DFo via Urdu News
0 notes
dragnews · 6 years ago
Text
پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں
واشنگٹن — 
پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور ان میں سے بہت سے بچے ہوٹلوں، ورکشاپس، پٹرول پمپس اور گھروں میں کام کرتے نطر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تازہ اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں چائلڈ رائٹس موومنٹ نیٹ ورک کے پروگرام منیجرسجاد چیمہ نے کہا کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی تعداد کیا ہے، کیوں کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر 1996 کے بعد سے کوئی سروے نہیں ہوا۔
سن 1996 کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 33 لاکھ ایسے بچے ہیں جو مشقت یا مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ سروے بہت پرانا ہے، اس کی بنیاد پر تازہ تعداد کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی اور صرف دوسرے متعلقہ اعداد و شمار سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ اعداد و شمار موجود ہیں کہ پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے تو اس بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کم از کم نصف تو اسکول جانے کی عمر کے بچے ہوں گے، اور اس طرح سے اندازہ یہ ہے کہ تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ بچے مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے جو عمومی طور پر اپنی غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جاتے۔
ٹائروں پر پنکچر لگانے والے بچے پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے سجاد چیمہ نے کہا کہ یہ بچے مختلف قسم کی محنت و مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے لیکن ان میں سے سب سے تکلیف دہ مشقت کا شکار وہ بچے ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہیں اور جنہیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے جدید دور کی غلامی اور بد ترین قسم کی چائلڈ لیبر قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا نیٹ ورک چونکہ اس سلسلے میں کام کرتا ہے اس لیے اسے معلوم ہوا ہے کہ اس کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بہت سے بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور کئی بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ جو جنسی تشدد ہو تا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف قانون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسلا م آباد ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ اور بچوں کے حقوق کی ایک علمبردار خدیجہ علی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بچوں کی ملازمت کے بارے میں جو قانون تھا، 1991 کا ایک ایکٹ، وہ پورے پاکستان میں نافذ تھا جس کے مطابق آپ 14 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کام پر یا ملازم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے چائلڈ لیبر پر اپنی اپنی قانون سازی کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بچوں سے مشقت کے موجودہ قوانین پر عمل درآمد بہت کمزور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ خاندان بھی بچوں کو گھر میں ملازم رکھتی ہے، وہ گھروں میں کام کرتے ہیں، صفائی ستھرائی کرتے ہیں، بچے سنبھالتے ہیں۔
Tumblr media
پاکستان میں اینٹوں کے کئی بھٹوں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قانون میں بچوں سے کام لینے کی سزا تو ایک سال تک کی ہے لیکن میں نے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بڑے مقدمات یا کوئی بڑی سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔
ا یڈووکیٹ خدیجہ علی نے طیبہ نامی بچی کے ساتھ تشدد کے جرم پر دی جانے والی حالیہ سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں بھی جو سزا دی گئی تھی وہ بچی سے ظلم یا دوسری زیادتیوں کے حوالے سے دی گئی تھی لیکن اس میں چائلڈ لیبر کی دفعہ کے تحت کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ملازم بچوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی کی ہی سزا نہیں ہونی چاہیئے بلکہ بچوں سے کام کا لیا جانا ہی ایک قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔
سجاد چیمہ نے بھی چائلڈ لیبر کے لئے موجود قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک بھر میں موجود مفت اور لازمی تعلیم کے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کر لیا جائے جس کے مطابق 5 سے 16 سال کا ہر بچہ اسکول جائے گا، تو یہ بھی ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کے حل کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔
The post پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2DO7DFo via Today Pakistan
0 notes
cleopatrarps · 6 years ago
Text
پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں
واشنگٹن — 
پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور ان میں سے بہت سے بچے ہوٹلوں، ورکشاپس، پٹرول پمپس اور گھروں میں کام کرتے نطر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تازہ اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں چائلڈ رائٹس موومنٹ نیٹ ورک کے پروگرام منیجرسجاد چیمہ نے کہا کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی تعداد کیا ہے، کیوں کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر 1996 کے بعد سے کوئی سروے نہیں ہوا۔
سن 1996 کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 33 لاکھ ایسے بچے ہیں جو مشقت یا مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ سروے بہت پرانا ہے، اس کی بنیاد پر تازہ تعداد کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی اور صرف دوسرے متعلقہ اعداد و شمار سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ اعداد و شمار موجود ہیں کہ پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے تو اس بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کم از کم نصف تو اسکول جانے کی عمر کے بچے ہوں گے، اور اس طرح سے اندازہ یہ ہے کہ تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ بچے مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے جو عمومی طور پر اپنی غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جاتے۔
ٹائروں پر پنکچر لگانے والے بچے پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے سجاد چیمہ نے کہا کہ یہ بچے مختلف قسم کی محنت و مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے لیکن ان میں سے سب سے تکلیف دہ مشقت کا شکار وہ بچے ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہیں اور جنہیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے جدید دور کی غلامی اور بد ترین قسم کی چائلڈ لیبر قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا نیٹ ورک چونکہ اس سلسلے میں کام کرتا ہے اس لیے اسے معلوم ہوا ہے کہ اس کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بہت سے بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور کئی بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ جو جنسی تشدد ہو تا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف قانون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسلا م آباد ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ اور بچوں کے حقوق کی ایک علمبردار خدیجہ علی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بچوں کی ملازمت کے بارے میں جو قانون تھا، 1991 کا ایک ایکٹ، وہ پورے پاکستان میں نافذ تھا جس کے مطابق آپ 14 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کام پر یا ملازم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے چائلڈ لیبر پر اپنی اپنی قانون سازی کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بچوں سے مشقت کے موجودہ قوانین پر عمل درآمد بہت کمزور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ خاندان بھی بچوں کو گھر میں ملازم رکھتی ہے، وہ گھروں میں کام کرتے ہیں، صفائی ستھرائی کرتے ہیں، بچے سنبھالتے ہیں۔
Tumblr media
پاکستان میں اینٹوں کے کئی بھٹوں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قانون میں بچوں سے کام لینے کی سزا تو ایک سال تک کی ہے لیکن میں نے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بڑے مقدمات یا کوئی بڑی سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔
ا یڈووکیٹ خدیجہ علی نے طیبہ نامی بچی کے ساتھ تشدد کے جرم پر دی جانے والی حالیہ سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں بھی جو سزا دی گئی تھی وہ بچی سے ظلم یا دوسری زیادتیوں کے حوالے سے دی گئی تھی لیکن اس میں چائلڈ لیبر کی دفعہ کے تحت کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ملازم بچوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی کی ہی سزا نہیں ہونی چاہیئے بلکہ بچوں سے کام کا لیا جانا ہی ایک قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔
سجاد چیمہ نے بھی چائلڈ لیبر کے لئے موجود قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک بھر میں موجود مفت اور لازمی تعلیم کے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کر لیا جائے جس کے مطابق 5 سے 16 سال کا ہر بچہ اسکول جائے گا، تو یہ بھی ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کے حل کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔
The post پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2DO7DFo via Today Urdu News
0 notes
katarinadreams92 · 6 years ago
Text
پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں
واشنگٹن — 
پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور ان میں سے بہت سے بچے ہوٹلوں، ورکشاپس، پٹرول پمپس اور گھروں میں کام کرتے نطر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تازہ اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں چائلڈ رائٹس موومنٹ نیٹ ورک کے پروگرام منیجرسجاد چیمہ نے کہا کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی تعداد کیا ہے، کیوں کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر 1996 کے بعد سے کوئی سروے نہیں ہوا۔
سن 1996 کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 33 لاکھ ایسے بچے ہیں جو مشقت یا مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ سروے بہت پرانا ہے، اس کی بنیاد پر تازہ تعداد کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی اور صرف دوسرے متعلقہ اعداد و شمار سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ اعداد و شمار موجود ہیں کہ پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے تو اس بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کم از کم نصف تو اسکول جانے کی عمر کے بچے ہوں گے، اور اس طرح سے اندازہ یہ ہے کہ تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ بچے مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے جو عمومی طور پر اپنی غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جاتے۔
ٹائروں پر پنکچر لگانے والے بچے پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے سجاد چیمہ نے کہا کہ یہ بچے مختلف قسم کی محنت و مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے لیکن ان میں سے سب سے تکلیف دہ مشقت کا شکار وہ بچے ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہیں اور جنہیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے جدید دور کی غلامی اور بد ترین قسم کی چائلڈ لیبر قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا نیٹ ورک چونکہ اس سلسلے میں کام کرتا ہے اس لیے اسے معلوم ہوا ہے کہ اس کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بہت سے بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور کئی بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ جو جنسی تشدد ہو تا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف قانون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسلا م آباد ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ اور بچوں کے حقوق کی ایک علمبردار خدیجہ علی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بچوں کی ملازمت کے بارے میں جو قانون تھا، 1991 کا ایک ایکٹ، وہ پورے پاکستان میں نافذ تھا جس کے مطابق آپ 14 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کام پر یا ملازم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے چائلڈ لیبر پر اپنی اپنی قانون سازی کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بچوں سے مشقت کے موجودہ قوانین پر عمل درآمد بہت کمزور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ خاندان بھی بچوں کو گھر میں ملازم رکھتی ہے، وہ گھروں میں کام کرتے ہیں، صفائی ستھرائی کرتے ہیں، بچے سنبھالتے ہیں۔
پاکستان میں اینٹوں کے کئی بھٹوں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قانون میں بچوں سے کام لینے کی سزا تو ایک سال تک کی ہے لیکن میں نے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بڑے مقدمات یا کوئی بڑی سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔
ا یڈووکیٹ خدیجہ علی نے طیبہ نامی بچی کے ساتھ تشدد کے جرم پر دی جانے والی حالیہ سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں بھی جو سزا دی گئی تھی وہ بچی سے ظلم یا دوسری زیادتیوں کے حوالے سے دی گئی تھی لیکن اس میں چائلڈ لیبر کی دفعہ کے تحت کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ملازم بچوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی کی ہی سزا نہیں ہونی چاہیئے بلکہ بچوں سے کام کا لیا جانا ہی ایک قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔
سجاد چیمہ نے بھی چائلڈ لیبر کے لئے موجود قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک بھر میں موجود مفت اور لازمی تعلیم کے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کر لیا جائے جس کے مطابق 5 سے 16 سال کا ہر بچہ اسکول جائے گا، تو یہ بھی ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کے حل کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔
The post پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2DO7DFo via Hindi Khabrain
0 notes
dani-qrt · 6 years ago
Text
پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں
واشنگٹن — 
پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور ان میں سے بہت سے بچے ہوٹلوں، ورکشاپس، پٹرول پمپس اور گھروں میں کام کرتے نطر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تازہ اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں چائلڈ رائٹس موومنٹ نیٹ ورک کے پروگرام منیجرسجاد چیمہ نے کہا کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی تعداد کیا ہے، کیوں کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر 1996 کے بعد سے کوئی سروے نہیں ہوا۔
سن 1996 کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 33 لاکھ ایسے بچے ہیں جو مشقت یا مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ سروے بہت پرانا ہے، اس کی بنیاد پر تازہ تعداد کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی اور صرف دوسرے متعلقہ اعداد و شمار سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ اعداد و شمار موجود ہیں کہ پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے تو اس بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کم از کم نصف تو اسکول جانے کی عمر کے بچے ہوں گے، اور اس طرح سے اندازہ یہ ہے کہ تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ بچے مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے جو عمومی طور پر اپنی غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جاتے۔
ٹائروں پر پنکچر لگانے والے بچے پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے سجاد چیمہ نے کہا کہ یہ بچے مختلف قسم کی محنت و مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے لیکن ان میں سے سب سے تکلیف دہ مشقت کا شکار وہ بچے ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہیں اور جنہیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے جدید دور کی غلامی اور بد ترین قسم کی چائلڈ لیبر قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا نیٹ ورک چونکہ اس سلسلے میں کام کرتا ہے اس لیے اسے معلوم ہوا ہے کہ اس کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بہت سے بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور کئی بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ جو جنسی تشدد ہو تا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف قانون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسلا م آباد ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ اور بچوں کے حقوق کی ایک علمبردار خدیجہ علی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بچوں کی ملازمت کے بارے میں جو قانون تھا، 1991 کا ایک ایکٹ، وہ پورے پاکستان میں نافذ تھا جس کے مطابق آپ 14 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کام پر یا ملازم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے چائلڈ لیبر پر اپنی اپنی قانون سازی کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بچوں سے مشقت کے موجودہ قوانین پر عمل درآمد بہت کمزور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ خاندان بھی بچوں کو گھر میں ملازم رکھتی ہے، وہ گھروں میں کام کرتے ہیں، صفائی ستھرائی کرتے ہیں، بچے سنبھالتے ہیں۔
Tumblr media
پاکستان میں اینٹوں کے کئی بھٹوں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قانون میں بچوں سے کام لینے کی سزا تو ایک سال تک کی ہے لیکن میں نے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بڑے مقدمات یا کوئی بڑی سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔
ا یڈووکیٹ خدیجہ علی نے طیبہ نامی بچی کے ساتھ تشدد کے جرم پر دی جانے والی حالیہ سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں بھی جو سزا دی گئی تھی وہ بچی سے ظلم یا دوسری زیادتیوں کے حوالے سے دی گئی تھی لیکن اس میں چائلڈ لیبر کی دفعہ کے تحت کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ملازم بچوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی کی ہی سزا نہیں ہونی چاہیئے بلکہ بچوں سے کام کا لیا جانا ہی ایک قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔
سجاد چیمہ نے بھی چائلڈ لیبر کے لئے موجود قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک بھر میں موجود مفت اور لازمی تعلیم کے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کر لیا جائے جس کے مطابق 5 سے 16 سال کا ہر بچہ اسکول جائے گا، تو یہ بھی ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کے حل کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔
The post پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2DO7DFo via Urdu News
0 notes
thebestmealintown · 6 years ago
Text
پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں
واشنگٹن — 
پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور ان میں سے بہت سے بچے ہوٹلوں، ورکشاپس، پٹرول پمپس اور گھروں میں کام کرتے نطر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تازہ اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں چائلڈ رائٹس موومنٹ نیٹ ورک کے پروگرام منیجرسجاد چیمہ نے کہا کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی تعداد کیا ہے، کیوں کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر 1996 کے بعد سے کوئی سروے نہیں ہوا۔
سن 1996 کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 33 لاکھ ایسے بچے ہیں جو مشقت یا مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ سروے بہت پرانا ہے، اس کی بنیاد پر تازہ تعداد کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی اور صرف دوسرے متعلقہ اعداد و شمار سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ اعداد و شمار موجود ہیں کہ پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے تو اس بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کم از کم نصف تو اسکول جانے کی عمر کے بچے ہوں گے، اور اس طرح سے اندازہ یہ ہے کہ تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ بچے مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے جو عمومی طور پر اپنی غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جاتے۔
ٹائروں پر پنکچر لگانے والے بچے پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے سجاد چیمہ نے کہا کہ یہ بچے مختلف قسم کی محنت و مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے لیکن ان میں سے سب سے تکلیف دہ مشقت کا شکار وہ بچے ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہیں اور جنہیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے جدید دور کی غلامی اور بد ترین قسم کی چائلڈ لیبر قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا نیٹ ورک چونکہ اس سلسلے میں کام کرتا ہے اس لیے اسے معلوم ہوا ہے کہ اس کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بہت سے بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور کئی بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ جو جنسی تشدد ہو تا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف قانون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسلا م آباد ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ اور بچوں کے حقوق کی ایک علمبردار خدیجہ علی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بچوں کی ملازمت کے بارے میں جو قانون تھا، 1991 کا ایک ایکٹ، وہ پورے پاکستان میں نافذ تھا جس کے مطابق آپ 14 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کام پر یا ملازم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے چائلڈ لیبر پر اپنی اپنی قانون سازی کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بچوں سے مشقت کے موجودہ قوانین پر عمل درآمد بہت کمزور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ خاندان بھی بچوں کو گھر میں ملازم رکھتی ہے، وہ گھروں میں کام کرتے ہیں، صفائی ستھرائی کرتے ہیں، بچے سنبھالتے ہیں۔
Tumblr media
پاکستان میں اینٹوں کے کئی بھٹوں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قانون میں بچوں سے کام لینے کی سزا تو ایک سال تک کی ہے لیکن میں نے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بڑے مقدمات یا کوئی بڑی سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔
ا یڈووکیٹ خدیجہ علی نے طیبہ نامی بچی کے ساتھ تشدد کے جرم پر دی جانے والی حالیہ سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں بھی جو سزا دی گئی تھی وہ بچی سے ظلم یا دوسری زیادتیوں کے حوالے سے دی گئی تھی لیکن اس میں چائلڈ لیبر کی دفعہ کے تحت کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ملازم بچوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی کی ہی سزا نہیں ہونی چاہیئے بلکہ بچوں سے کام کا لیا جانا ہی ایک قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔
سجاد چیمہ نے بھی چائلڈ لیبر کے لئے موجود قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک بھر میں موجود مفت اور لازمی تعلیم کے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کر لیا جائے جس کے مطابق 5 سے 16 سال کا ہر بچہ اسکول جائے گا، تو یہ بھی ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کے حل کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔
The post پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2DO7DFo via India Pakistan News
0 notes
party-hard-or-die · 6 years ago
Text
پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں
واشنگٹن — 
پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور ان میں سے بہت سے بچے ہوٹلوں، ورکشاپس، پٹرول پمپس اور گھروں میں کام کرتے نطر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تازہ اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں چائلڈ رائٹس موومنٹ نیٹ ورک کے پروگرام منیجرسجاد چیمہ نے کہا کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی تعداد کیا ہے، کیوں کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر 1996 کے بعد سے کوئی سروے نہیں ہوا۔
سن 1996 کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 33 لاکھ ایسے بچے ہیں جو مشقت یا مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ سروے بہت پرانا ہے، اس کی بنیاد پر تازہ تعداد کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی اور صرف دوسرے متعلقہ اعداد و شمار سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ اعداد و شمار موجود ہیں کہ پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے تو اس بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کم از کم نصف تو اسکول جانے کی عمر کے بچے ہوں گے، اور اس طرح سے اندازہ یہ ہے کہ تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ بچے مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے جو عمومی طور پر اپنی غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جاتے۔
ٹائروں پر پنکچر لگانے والے بچے پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے سجاد چیمہ نے کہا کہ یہ بچے مختلف قسم کی محنت و مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے لیکن ان میں سے سب سے تکلیف دہ مشقت کا شکار وہ بچے ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہیں اور جنہیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے جدید دور کی غلامی اور بد ترین قسم کی چائلڈ لیبر قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا نیٹ ورک چونکہ اس سلسلے میں کام کرتا ہے اس لیے اسے معلوم ہوا ہے کہ اس کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بہت سے بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور کئی بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ جو جنسی تشدد ہو تا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف قانون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسلا م آباد ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ اور بچوں کے حقوق کی ایک علمبردار خدیجہ علی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بچوں کی ملازمت کے بارے میں جو قانون تھا، 1991 کا ایک ایکٹ، وہ پورے پاکستان میں نافذ تھا جس کے مطابق آپ 14 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کام پر یا ملازم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے چائلڈ لیبر پر اپنی اپنی قانون سازی کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بچوں سے مشقت کے موجودہ قوانین پر عمل درآمد بہت کمزور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ خاندان بھی بچوں کو گھر میں ملازم رکھتی ہے، وہ گھروں میں کام کرتے ہیں، صفائی ستھرائی کرتے ہیں، بچے سنبھالتے ہیں۔
Tumblr media
پاکستان میں اینٹوں کے کئی بھٹوں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قانون میں بچوں سے کام لینے کی سزا تو ایک سال تک کی ہے لیکن میں نے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بڑے مقدمات یا کوئی بڑی سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔
ا یڈووکیٹ خدیجہ علی نے طیبہ نامی بچی کے ساتھ تشدد کے جرم پر دی جانے والی حالیہ سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں بھی جو سزا دی گئی تھی وہ بچی سے ظلم یا دوسری زیادتیوں کے حوالے سے دی گئی تھی لیکن اس میں چائلڈ لیبر کی دفعہ کے تحت کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ملازم بچوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی کی ہی سزا نہیں ہونی چاہیئے بلکہ بچوں سے کام کا لیا جانا ہی ایک قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔
سجاد چیمہ نے بھی چائلڈ لیبر کے لئے موجود قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک بھر میں موجود مفت اور لازمی تعلیم کے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کر لیا جائے جس کے مطابق 5 سے 16 سال کا ہر بچہ اسکول جائے گا، تو یہ بھی ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کے حل کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔
The post پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2DO7DFo via Daily Khabrain
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years ago
Text
پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں
واشنگٹن — 
پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور ان میں سے بہت سے بچے ہوٹلوں، ورکشاپس، پٹرول پمپس اور گھروں میں کام کرتے نطر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان بچوں کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تازہ اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں چائلڈ رائٹس موومنٹ نیٹ ورک کے پروگرام منیجرسجاد چیمہ نے کہا کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی تعداد کیا ہے، کیوں کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر 1996 کے بعد سے کوئی سروے نہیں ہوا۔
سن 1996 کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 33 لاکھ ایسے بچے ہیں جو مشقت یا مزدوری کرتے ہیں، لیکن یہ سروے بہت پرانا ہے، اس کی بنیاد پر تازہ تعداد کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی اور صرف دوسرے متعلقہ اعداد و شمار سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ اعداد و شمار موجود ہیں کہ پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے تو اس بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کم از کم نصف تو اسکول جانے کی عمر کے بچے ہوں گے، اور اس طرح سے اندازہ یہ ہے کہ تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ بچے مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے جو عمومی طور پر اپنی غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جاتے۔
ٹائروں پر پنکچر لگانے والے بچے پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں عام دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے سجاد چیمہ نے کہا کہ یہ بچے مختلف قسم کی محنت و مشقت یا مزدوری کر رہے ہوں گے لیکن ان میں سے سب سے تکلیف دہ مشقت کا شکار وہ بچے ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہیں اور جنہیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے جدید دور کی غلامی اور بد ترین قسم کی چائلڈ لیبر قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا نیٹ ورک چونکہ اس سلسلے میں کام کرتا ہے اس لیے اسے معلوم ہوا ہے کہ اس کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بہت سے بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور کئی بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ جو جنسی تشدد ہو تا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف قانون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسلا م آباد ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ اور بچوں کے حقوق کی ایک علمبردار خدیجہ علی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے بچوں کی ملازمت کے بارے میں جو قانون تھا، 1991 کا ایک ایکٹ، وہ پورے پاکستان میں نافذ تھا جس کے مطابق آپ 14 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کام پر یا ملازم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے چائلڈ لیبر پر اپنی اپنی قانون سازی کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بچوں سے مشقت کے موجودہ قوانین پر عمل درآمد بہت کمزور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ خاندان بھی بچوں کو گھر میں ملازم رکھتی ہے، وہ گھروں میں کام کرتے ہیں، صفائی ستھرائی کرتے ہیں، بچے سنبھالتے ہیں۔
پاکستان میں اینٹوں کے کئی بھٹوں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قانون میں بچوں سے کام لینے کی سزا تو ایک سال تک کی ہے لیکن میں نے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بڑے مقدمات یا کوئی بڑی سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔
ا یڈووکیٹ خدیجہ علی نے طیبہ نامی بچی کے ساتھ تشدد کے جرم پر دی جانے والی حالیہ سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں بھی جو سزا دی گئی تھی وہ بچی سے ظلم یا دوسری زیادتیوں کے حوالے سے دی گئی تھی لیکن اس میں چائلڈ لیبر کی دفعہ کے تحت کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ملازم بچوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی کی ہی سزا نہیں ہونی چاہیئے بلکہ بچوں سے کام کا لیا جانا ہی ایک قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔
سجاد چیمہ نے بھی چائلڈ لیبر کے لئے موجود قوانین پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک بھر میں موجود مفت اور لازمی تعلیم کے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کر لیا جائے جس کے مطابق 5 سے 16 سال کا ہر بچہ اسکول جائے گا، تو یہ بھی ملک میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کے حل کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔
The post پاکستان کے تقریباً سوا کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2DO7DFo via Urdu News
0 notes
gochathalove · 5 years ago
Text
دانلود آهنگ جدید سجاد غلامی میشه برگردی
دانلود آهنگ جدید از
سجاد غلامی
به نام میشه برگردی Download New Music Sajjad Gholami Mishe Bargardi میشه برگردی من تورو میخوام ، غیر از تو توی دنیا من هیچکی رو نمیخوام برای دانلود آهنگ به ادامه مطلب مراجعه کنید …
تکست و متن آهنگ سجاد غلامی میشه برگردی
نمیدونم کجایی نمیگیری از من سراغی حالم بده چرا نمیای خسته شدم پاشو بیا میشه برگردی من تورو میخوام غیر از تو توی دنیا من هیچکی رو نمیخوام عمق احساسم به تو نامحدوده هرکی اومد گفتم دلم به تو محدوده بدون تو از دنیا من دل کندم نتونستم جز به کسی دل بدم میشه برگردی من تورو میخوام غیر از تو توی دنیا من هیچکی رو نمیخوام قلبم بی تو زندگی نداره نبودنت با مرگم فرقی نداره میشه برگردی من تورو میخوام غیر از تو توی دنیا من هیچکی رو نمیخوام Read the full article
0 notes
intbir · 7 years ago
Link
0 notes
bonian-n · 7 years ago
Text
استقلال صعود کرد/منصوریان خوان اول را رد کرد + فیلم
یک شانزدهم نهایی جام حذفی؛
تیم های گل گهر سیرجان و استقلال تهران از مرحله یک شانزدهم نهایی جام حذفی در سیرجان به مصاف هم رفتند.
به گزارش خبرنگار خبرگزاری صداوسیما؛ در یکی از بازی های مهم مرحله یک شانزدهم نهایی جام حذفی در سیرجان تیم های گل گهر و استقلال تهران با قضاوت سیدحسین زرگر به مصاف هم رفتند.
وینگو بگوویچ سرمربی تیم گل گهر در این بازی تیمش را با نفرات زیر راهی میدان کرد:
آرمان شهداد نژاد، میلاد صادقیان، حامد زمانی،عیسی پرتو، سجاد اژدر، محمد غلامی، علیرضا ابراهیمی، پیمان نامور، احمد حسن زاده، امین پورعلی و علی شهسواری پور
علیرضا منصوریان هم آبی پوشان تهرانی را که در این بازی از لباس دوم خودشان استفاده می کنند، با این نفرات روانه میدان کرد:
سیدمهدی رحمتی، پادوانی٬ روزبه چشمی، خسرو حیدری، آرمین سهرابیان، فرشید باقری، امید نور افکن، فرشید اسماعیلی، جابر انصاری، مهدی قائدی و علی قربانی
بازی دو تیم در پایان نیمه اول با تساوی بدون گل پایان یافت.
شوت تماشایی نورافکن در دقیقه 47 به تیرک افقی دروازه گل گهر برخورد کرد و راهی به دروازه پیدا نکرد.
شوت محکم مهدی قائدی با دفع ناقص شهداد نژاد همراه شد و برگشت این توپ را امید نورافکن با یک ضربه در دقیقه 56 به گل اول استقلال تبدیل کرد.
در دقیقه ۷۶ محمد غلامی از روی نقطه پنالتی گل تساوی گل گهر را وارد دروازه استقلال کرد.
در دقیقه ۸۵ علی قربانی دومین گل استقلال را وارد دروازه حریف کرد.
بازی دو تیم در نهایت با برتری ۲ یک استقلال به پایان رسید تا علیرضا منصوریان ضمن صعود تیمش به مرحله یک هشتم نهایی در بازی اول از دو بازی ای که هیات مدیره استقلال به او فرصت داده بودند، با برتری به پایان برساند.
این خبر در حال بروزرسانی است….
0 notes