#ریگزار
Explore tagged Tumblr posts
Photo
#Raigzaar MubarakQazi BalochiLiterature BalochiPoetry Balochilabzank Balochishahiri Balochilachchaبلوچی_شاعریبلوچی_لبزانک#مبارک_قاضی#ریگزار#raigzaar#balochiliterature#mubarakqazi#balochipoetry
0 notes
Photo
کویر مغستان که با نام ریگ زرین نیز شناخته میشود، در روستایی با همین نام، در نزدیکی اردکان قرار دارد. این کویر توسط ارتفاعاتی که از میانه آن را قطع میکند، به دو قسمت شمالی و جنوبی تقسیم میشود. از جمله گونههای جانوری ساکن در این کویر میتوان به گرگ، شغال، کفتار، روباه شنی، گربه شنی، بزمجه، لاسرتا، انواع مارمولکهای گکو و آگاما، انواع مار، انواع عقرب، تیهو، عقاب، هوبره، شاهین و... اشاره کرد. ریگزارهای بلند از زیباییهای بینظیر کویر مغستان هستند. #یزد #کویر #کویرزرین #ریگزار #عقاب #دیدنیهای_یزد #سفر #گردشگر #گردشگری #مغستان #اردکان #حیات_وحش #yazd #travel #traveltoyazd #tourist #photo #yazdworldcity #gotoyazd #yazdmustsee #desert #yazddesert https://www.instagram.com/p/B8cM7MwH8Kd/?igshid=bh20a5h8jyy0
#یزد#کویر#کویرزرین#ریگزار#عقاب#دیدنیهای_یزد#سفر#گردشگر#گردشگری#مغستان#اردکان#حیات_وحش#yazd#travel#traveltoyazd#tourist#photo#yazdworldcity#gotoyazd#yazdmustsee#desert#yazddesert
0 notes
Text
ہے اختیار میں تیرے تو معجزہ کردے
وہ شخص میرا نہیں ہے اسے میرا کردے
یہ ریگزار کہیں ختم ہی نہیں ہوتا
ذرا سی دور تو راستہ ہرا بھرا کردے
میں اس کے زور کو دیکھوں اور وہ میرا صبر و سکوں
مجے چراغ بنادے اور اسے ہوا کر دے
اکیلی شام بہت ہی اداس کرتی ہے
کسی کو بھیج، کوئ مرا ہمنوا کردے
6 notes
·
View notes
Text
جنونِ شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا
میں اپنی ذات کی سچائیوں سے ڈرتا رہا
محبتوں سے شناسا ہوا میں جس دن سے
پھر اس کے بعد شناسائیوں سے ڈرتا رہا
وہ چاہتا تھا کہ تنہا ملوں، تو بات کرے !
میں کیا کروں میں تنہائیوں سے ڈرتا رہا
میں ریگزار تھا، مجھ میں بسے تھے سناٹے
اسی لئے تو میں شہنائیوں سے ڈرتا رہا
میں اپنے باپ کا یوسف تھا اس لیے م��سن
سکوں سے سو نا سکا بھائیوں سے ڈرتا رہا...!
4 notes
·
View notes
Photo
#کویریزد #ریگزار #بیابان #yazd #desert #love https://www.instagram.com/p/Bp7C7c1n2oR/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=lpuors6jzasm
0 notes
Text
جنون شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا مُحسن نقوی
جنون شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا مُحسن نقوی
جنون شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا میں اپنی ذات کی سچائیوں سے ڈرتا رہا محبتوں سے شناسا ہوا میں جس دن سے پھر اس کے بعد شناسائیوں سے ڈرتا رہا وہ چاہتا تھا کہ تنہا ملوں، تو بات کرے میں کیا کروں میں تنہائیوں سے ڈرتا رہا میں ریگزار تھا، مجھ میں بسے تھے سناٹے اسی لئے تو میں شہنائیوں سے ڈرتا رہا میں اپنے باپ کا یوسف تھا اس لیے محسن سکوں سے سو نا سکا بھائیوں سے ڈرتا رہا…!
View On WordPress
0 notes
Text
خودی نہ بیچ
خودی نہ بیچ
تاریخِ عالم 11 ستمبر 2001ء کو فراموش نہیں کر سکتی کہ یہ وحشت وبربریت کی 20 سالہ داستان ہے۔ یہ وہ دن تھا جب امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے 4 جہاز ٹکرائے اور اُسے زمیں بوس کر دیا۔ تب امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے اعلان کیا کہ ’’صلیبی جنگ‘‘ کا آغاز ہوگیا۔ الزام آیا اُسامہ بِن لادن پر جو افغانستان میں طالبان حکومت کی پناہ میں تھا۔ امریکہ نے طالبان سے اسامہ بن لادن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اُس کی بات نہ مانی گئی تو افغانستان کو ریگزار میںبدل دیا جائے گا۔ طالبان کا جواب تھا کہ اپنے مہمان کو دشمن کے حوالے کرنا اُن کی روایت نہیں۔ تب عقیل وفہیم اصحاب نے سوچا کہ یہ اُجڈ طالبان فاترالعقل ہیں۔ بھلا یہ نہتے بے سروسامان، جاہل وگنوار، امریکہ کا کیا مقابلہ کریں گے۔ یہ موٹرسائیکل سوار جدیدترین آلاتِ حرب سے لیس اقوامِ عالم کی سب سے بڑی طاقت سے بھلا کیوں کر نبرد آزما ہوںگے۔ طالبان کا تمسخر اُڑاتے لوگوں کے لبوں پر تھا کہ افغانیوں نے روس کے خلاف جنگ امریکہ کی مدد سے جیتی تھی، اِسی زعم میں اب انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی بربادیوں کی داستان رقم کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اُدھر خوددار طالبان کا جذبِ باہم علامہ اقبال کے اِس شعر کی عملی تفسیر کہ
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اُنہوں نے سوائے رَبِ لَم یَزل کے کسی کے آگے جھکنا سیکھا ہی نہیں تھا پھر بھلا وہ طاغوت کے دَر پر کیسے سجدہ ریز ہو جاتے۔ اُدھر اندھی طاقت سے مغلوب امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے بوریا نشینوں کو نشانِ عبرت بنانے کی ٹھانی۔ بہانہ مگر یہ کہ وہ افغانستان کی تقدیر بدلنے آئے ہیں، اِس سرزمین کو ’’مُلا‘‘ نامی دہشت گردوں سے پاک کرنے اور افغانستان کی تعمیرِنَو کرنے آئے ہیں۔ حیرت مگر یہ کہ اُن کے پاس طالبان کی دہشت گردی کا کوئی ایک ثبوت بھی نہیں تھا۔ جس جرمِ ضعیفی کی سزا دینے کے لیے 57 ملکوں کی افواج افغانستان پر حملہ آور ہوئی اُس کا مآل حاکمِ مطلق کے ہاں کچھ اور لکھا جا چکا تھا۔
7 اکتوبر 2001ء کو نیٹو ممالک کی افواج افغانستان پر چڑھ دوڑیں۔ میلوں دور سے زمین پر رینگتی چیونٹی کے پاؤں تک گِن لینے والے سیٹلائیٹ افغانستان کی فضاؤں میں گردش کرنے لگے۔ ڈیزی کٹر بم سنگلاخ پہاڑوں کو ریت کے زروں میں تبدیل کرنے لگے۔ اپاچی ہیلی کاپٹر انسانی بُو سونگھتے ہوئے ہر اُس شخص کا شکار کرنے لگے جس کے چہرے پر داڑھی اور ٹخنوں سے اونچی شلوار تھی۔ دنیا کی تر��یت یافتہ ترین مغرور ومتکبر افواج کے نزدیک ہر افغان مرد، عورت، بوڑھا اور بچہ، اُن کا شکار ٹھہرا۔ افغانستان کی فضائیں بارود اور خون کی بُو سے متعفن ہوئیں، گھر اُجڑے، کھیتیاں بے برگ وبار ہوئیںاور پورا افغانستان بادِسموم کے تھپیڑوں کی زَد میں۔ عام خیال یہی تھا کہ بَس سال چھ ماہ میں اِن بھوکے ننگے بے سروساماں طالبان کا نام ونشان مِٹ جائے گا۔ دَورِحاضر کے بزرجمہر یہ کہتے پائے گئے کہ اِن رجعت پسندوں میں جدیدیت کے علم برداروں کا مقابلہ کرنے کی سَکت کہاں۔ پھر ہوا یوں کہ اندھی طاقت کا زعم ہوا ہو گیا، جنگ طول پکڑتی گئی، سفیدفام لاشے گرنے لگے، تابوت کم پڑ گئے اور نوحہ خوانی سے 57 ملکوں کے دَرودیوار گونجنے لگے۔
7 اکتوبر 2001ء کو امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیااور 13 نومبر کو شمالی اتحاد نے اتحادی فوج کی مدد سے کابل پر قبضہ کر لیا۔یہ عجیب جنگ 20 سال تک جاری رہی۔ اِس 20 سالہ گناہِ بے لذت میں امریکہ کے 2.2 ٹریلین ڈالر صرف ہوئے۔ 3 لاکھ افغان فوج کی تربیت اور اُسے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنے پر 88 ارب ڈالر مزید صرف ہوئے لیکن نتیجہ ہزیمت ہی ہزیمت۔ جب کچھ بَن نہ پڑا تو پاکستان کی مدد سے قطر میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ کامیاب مذاکرات کے بعد امریکی افواج کی واپسی کا سفر ہوا اور امریکی افواج کی واپسی کی حتمی تاریخ 31 اگست 2021ء طے ہوئی۔ اِس واپسی کے دوران ہی طالبان 15 اگست 2021ء کو کابل کے صدارتی محل پر دستک دینے لگے اور 57 ممالک کی افواج کا بقول اقبالؒ یہ حال کہ ’’عقابی شان سے جھپٹے تھے جو، بے بال وپَر نکلے‘‘۔ حیرت مگر یہ کہ2 اگست 2021ء کو طالبان افغانستان کے 91اضلاع پر قابض تھے اور 171 اضلاع پر اشرف غنی کی حکومت۔ محض 13 دنوں بعد 15 اگست 2021ء کو پورا افغانستان طالبان کی عملداری میں تھااور اشرف غنی مفرور، جس پر طالبان رَہنماء مُلّا برادر بھی حیران۔ عقیل وفہیم اور اہلِ فکرونظر اُس وقت بھی حیران ہوئے تھے جب طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے سپرد کرنے سے انکار کرتے ہوئے جنگ کو ترجیح دی تھی اور اب بھی وہ حیرتوں کے بحرِ بے کنار میں گُم ہیں کہ کہاں گئی وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس 3 لاکھ فوجیوں پر مشتمل افغان فوج جس کا کہیں نام ونشان تک نہ ملا۔ پینٹاگون نے کہا ’’ہم رَہنمائی، تربیت اور وسائل فراہم کر سکتے ہیںلیکن جنگ کے لیے جذبہ خرید کر نہیں دے سکتے‘‘۔ بجا ارشاد مگر 57 ممالک کی افواج کا جذبہ کہاں گھاس چرنے چلا گیا تھاجو 50 ہزار نہتے افغان طالبان کو زیر نہ کر سکیں۔کیا طالبان کی یہ فتح اللہ کے حاکمِ مطلق ہونے کی بیّن دلیل نہیں؟۔
افغان طالبان کی حکومت کا پچھلا دَور یقیناََ خامیوں سے پُر تھا۔ تب اُن میں شدت پسندی کا عنصر زیادہ تھا جس کی کسی صورت تحسین نہیں کی جا سکتی۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے 20 سالہ جدوجہدِ آزادی نے اُن کے اذہان وقلوب کو صیقل کر دیا ہو۔ اب اگر صاحبانِ فکرونظر اپنا زاویۂ نگاہ بدلنے کی زحمت گوارا کریں تو اُنہیں سنتِ رسولﷺ کی پیروی کرتے طالبان نظر آئیں گے۔ فتح مکّہ کے موقع پر حضورِاکرم ﷺ نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے اُس وحشی کو بھی معاف کر دیا جس نے حضرت امیر حمزہؓ کو شہید کیا تھا۔ آج طالبان نے بھی عام معافی کا اعلان کر دیا۔ اُنہوں نے اشرف غنی، امراللہ صالح اور حمد اللہ محب جیسے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔ طالبان افغانستان میں تمام قبائلی طاقتوں کے ساتھ مل کر ’’امارتِ اسلامی‘‘ قائم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں جس پر لبرل اور سیکولر طبقوں کی طرف سے تنقیدوتعریض جاری ہے۔ حقیقت مگر یہ کہ قطر معاہدے میں امریکہ یہ تسلیم کر چکا کہ افغانستان میں اسلامی حکومت ہوگی جس کے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے ساتھ مثبت تعلقات ہوںگے۔ قطر معاہدے میں انسانی حقوق کی بات کی گئی نہ خواتین کے حقوق کی لیکن طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بَرملا کہا کہ طالبان کا انتقام لینے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اُنہوں نے کہا ’’خواتین کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی، میڈیا کے نمائندوں اور سفارت کاروں کو آزادی کا یقین دلاتے ہیں‘‘۔
پاکستان کی تشویش تحریکِ طالبان پاکستان کے بارے میں ہے۔ یہ عین حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی ایک دہشت گرد گروہ ہے جس نے پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہوئے کسی مسجد کا لحاظ رکھا نہ مدرسے اور چرچ کا۔ افواجِ پاکستان نے اِن دہشت گردوں کا یوں صفایا کیا کہ بچے کھچے دہشت گرد یا تو چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں گھُس گئے یا پھر فرار ہوگئے۔ کچھ اصحاب کا یہ خیال ہے کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اور ٹی ٹی پی محض دہشت گردوں کا ٹولہ۔اِن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ امریکی خبررساں ادارے کے مطابق طالبان سربراہ مُلا ہیبت اللہ نے ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کارروائیاں روکنے کا حکم دیتے ہوئے تین رکنی کمیشن بنا دیا ہے۔ اِس کمیشن نے ٹی ٹی پی کو خبردار کیا ہے کہ اِس کے ارکان عام معافی کے بدلے ہتھیار ڈالیں اور پاکستان چلے جائیں۔
Source link
0 notes
Text
مثلث برمودای ایران
کویر بهخودیخود سرشار از رمز و راز است. ریگزار ترسناک و خارقالعادهای به نام «ریگ جن» در منطقه کویری سمنان در ۱۷۰ کیلومتری تهران قرار گرفته که هر موجود زندهای که به آن سفر میکند را به کام مرگ میکشاند.
📷
این منطقه که یکی از داغترین نقاط روی زمین است، پوشیده از تپههای شنی و باتلاقهای نمک است که آن را به یکی از صعبالعبورترین نواحی جهان تبدیل کرده است. در طول قرنها، هرگز کسی موفق به گذر از این ناحیه نشده و هیچ جانوری نیز در آن زندگی نمیکند. بهدلیل وقوع اتفاقات بیپاسخ و بدونمنطق فراوان در این منطقه، عنوان «مثلث برمودای ایران» را به آن دادهاند.
📷
قصهها و افسانههای بسیاری از گذشته مانده که میگوید این ریگزار نفرین شده و محلی برای زندگی اجنه است و ارواح پلید و شیاطین در آن فرمانروایی میکنند و اجازه ورود هیچ جانداری را به آن نمیدهند. حتی برخی از اهالی منطقه میگویند، صدای صحبتکردن اجنه با یکدیگر را در این ناحیه شنیدهاند. برخی دیگر از محلیها نیز میگویند، هرکس قدم به این بیابان بگذارد، توسط زمین بلعیده میشود و دیگر باز نمیگردد.
📷
با وجود این افسانهها و داستانها، اکنون این کویر شگفتانگیز و اسرارآمیز به یکی از جذابترین و مهیجترین جاهای دیدنی استان سمنان برای گردشگران علاقهمند به هیجان و وحشت تبدیل شده است.
0 notes
Photo
🏜 کویر مرنجاب از شمال به دریاچه نمک آران و بیدگل، از غرب به کویر مسیله، دریاچه حوض سلطان و حوض مره، از شرق به کویر بندریگ و پارک ملی کویر و از جنوب به آران و بیدگل و کاشان محدود میشود. ارتفاع متوسط کویر مرنجاب از سطح آبهای آزاد حدود هشتصد و پنجاه متر است. قسمت عمده این کویر شامل تپههای شنی و ریگزار میشود و از لحاظ پوشش گیاهی و جانوری، به دلیل وجود آب و غذای فراوان بسیار غنی است ☀️ نزدیک بودن این منطقه به تهران، امنیت آن در مقایسه با سایر قسمتهای کویری ایران نظیر کویر لوت، چهار فصل بودن و اعتدال نسبی دمای آن، تعدد جاذبههای گردشگری و تنوع گونههای جانوری و پوشش گیاهی، کویر مرنجاب را به مقصدی مناسب برای کویرنوردی تبدیل کردهاند 👌 اگر تجربه سفر به کویر ندارید مرنجاب میتونه شروع خوبی برای شما باشه. از تجربههای کویر نوردیتون برامون بگید. شما کدوم کویر رو پیشنهاد میدین؟ 🌐 mosaferkhane . com 🆔️ @mosaferkhanecom 📷 @sheida_davarpanah #مسافرخانه #کویر #کویرمرنجاب #مرنجاب #کویر_مرنجاب #آران_بیدگل #کاشان #اصفهان #کویرنوردی #کویرگردی #جاذبه_گردشگری #جاذبه_توریستی #مکانهای_دیدنی #desert #maranjab #maranjabdesert #aranbidgol #kashan #isfahan #mosaferkhane (at Maranjab Desert کویر مرنجاب) https://www.instagram.com/p/CHfGzEiACj5/?igshid=1ucl56vxj89ug
#مسافرخانه#کویر#کویرمرنجاب#مرنجاب#کویر_مرنجاب#آران_بیدگل#کاشان#اصفهان#کویرنوردی#کویرگردی#جاذبه_گردشگری#جاذبه_توریست��#مکانهای_دیدنی#desert#maranjab#maranjabdesert#aranbidgol#kashan#isfahan#mosaferkhane
0 notes
Video
instagram
کویر ورزنه _ اصفهان کویر آرامشی دارد که شاید آن را نتوان در هیچ کدام از جلوه های دیگر طبیعت پیدا کرد. جایی که تا چشم کار می کند مناظر یکدستی از شن های کویری را می بینید که غرق در سکوت و آرامش اند. در دل همین کویرهاست که می توانید لحظاتی ناب از غروب خورشید و رصد ستارگان در آسمانِ شب و تفریحات منحصربفردی مثل آفرود، موتور سواری، شتر سواری، اسکی روی ماسه (sandboarding) و … را تجربه کنید. استان اصفهان کویرهای زیادی را در خودش جای داده که یکی از آن ها همین کویر ورزنه است. کویر ورزنه در ۱۰۰ کیلومتری شرق اصفهان و ۱۵۰ کیلومتری غرب یزد جای دارد و از شرق به تالاب گاوخونی، از شمال به شهرستان ورزنه و زاینده رود می رسد. با رفتن به این کویر منطقه ای وسیع و گسترده را می بینید که سراسر پوشیده از ریگزار، ماسه های تمیز و روان و تپه های شنی است. اگر می خواهید با سفر به کویر، غرق آرامش و سکوت بی پایانش شوید بهترین زمان برای راهی شدن، بهار و پاییز است چون تابستان های گرم و زمستان های سردی دارد. حتما در مدت کویر گردی کفش های مخصوص بپوشید و از کرم ضد آفتاب، عینک آفتابی و کلاه آفتاب گیر استفاده کنید. #آیتا #آیتاتراول#هتلکده #بلیطچی #هتل #مشهد #کیش #ویزا #شنگن #آژانس_هواپیمایی#کربلا #دلار #صرافی#سفر #بلیط #هواپیما #خرید_بلیط #سفرکن_پول_برمیگرده_اما_زمان_هرگز #استانبول #ترکیه #کانادا #ویزای_تحصیلی #ویزای_مولتیپل #تور #ایرانگردی #جهانگردی #travel #aita #hotelkade #blitchi https://www.instagram.com/p/CFth2nRnd6r/?igshid=14oazc1s3om1v
#آیتا#آیتاتراول#هتلکده#بلیطچی#هتل#مشهد#کیش#ویزا#شنگن#آژانس_هواپیمایی#کربلا#دلار#صرافی#سفر#بلیط#هواپیما#خرید_بلیط#سفرکن_پول_برمیگرده_اما_زمان_هرگز#استانبول#ترکیه#کانادا#ویزای_تحصیلی#ویزای_مولتیپل#تور#ایرانگردی#جهانگردی#travel#aita#hotelkade#blitchi
0 notes
Photo
زمانگءَ من نزاناں کجا کجا جنگ اِنت
0 notes
Text
شمشیر بے نیام، قسط نمبر 9
مؤرخ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ اس کیفیت میں کہ شہر میں خوراک کاکوئی ذخیرہ نہ تھا، لوگوں کو روزانہ نصف خوراک دی جا رہی تھی۔ منافقین اور یہودی تخریب کار درپردہ حرکت میں آ گئے تھے۔ کوئی بھی نہ جان سکا کہ یہ آواز کہاں سے اٹھی ہے لیکن یہ آواز سارے شہر میں پھیل گئی۔’’ محمد ہمیں کیسی بری موت مروانے کا بندوبست کر رہا ہے ۔ایک طرف وہ کہتا ہے کہ بہت جلد قیصروکسریٰ کے خزانے ہمارے قدموں میں پڑے ہوں گے، دوسری طرف ہم نے اس کی نبوت کا یہ اثر بھی نہ دیکھا کہ آسمان سے ہمارے لیے خوراک اترے۔‘‘لوگوں نے اسلام تو قبول کرلیا تھا لیکن وہ گوشت پوست کے انسان تھے۔ وہ پیٹ کی آوازوں سے متاثر ہونے لگے ۔آخر ایک ��واز نے انہیں پیٹ کے بھوت سے آزادی دلا دی۔ ’’کیا تم خدا سے یہ کہو گے کہ ہم نے اپنے پیٹ کو خدا سے زیادہ مقدس جانا تھا؟‘‘یہ ایک رعد کی کڑک کی طرح آواز تھی جو مدینہ کے گلی کوچوں میں سنائی دینے لگی ۔’’آج خدا کو وہ لوگ عزیز ہوں گے جو اس کے رسولﷺ کے ساتھ بھوکے اورپیاسے جانیں دے دیں گے۔ خدا کی قسم! اس سے بڑی بزدلی اور بے غیرتی مدینہ والوں کیلئے اور کیا ہو گی کہ ہم اہلِ مکہ کے قدموں میں جا گریں اورکہیں کہ ہم تمہارے غلام ہیں ہمیں کچھ کھانے کو دو۔‘‘رسول ِاکرمﷺ شہرکے دفاع میں اس قدر سر گرم تھے کہ آپﷺ کیلئے دن اور رات ایک ہو گئے تھے ۔آپﷺ اﷲ کے محبوب نبیﷺ تھے ۔آپ چاہتے تو معجزے بھی رونما ہو سکتے تھے لیکن آپ ﷺ کو احساس تھا کہ ہر آدمی پیغمبر اور رسول نہیں،نہ کوئی انسان آپﷺ کے بعد نبوت اور رسالت کا درجہ حاصل کر سکے گا اس لیے آپﷺ ان انسانوں کیلئے یہ مثا ل قائم کر رہے تھے کہ انسان اپنی ان لازوال جسمانی اور نفسیاتی قوتوں کو جو خداوند تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہیں، استقلا ل اور ثابت قدمی سے استعمال کرے تو وہ معجزہ نماکارنامے انجا م دے سکتا ہے۔ محاصرے کے دوران آپﷺ کی سرگرمیاں اور آپﷺ کی حالت ایک سالار کے علاوہ ایک سپاہی کی بھی تھی۔ آپﷺ کو اس کیفیت اور اس سرگرمی میں دیکھ کر مسلمان بھوک اور پیاس کو بھول گئے اور ان میں ایساجوش پیدا ہو گیا کہ ان میں بعض خندق کے قریب چلے جاتے او ر قریش کو بزدلی کے طعنے دیتے۔وہ سات مارچ ۶۲۷ء کا دن تھا۔جب ابو سفیان نے پریشان ہو کر کہا کہ۔’’ حیُّ بن اخطب کو بلاؤ ۔‘‘ا سکی پریشانی کا باعث یہ تھا کہ دس دنوں میں ہی اس کے لشکر کی خوراک کا ذخیرہ بہت کم رہ گیا تھا۔ سپاہیوں نے قرب و جوار کی بستیوں میں لوٹ مار کر کہ کچھ خوراک تو حاصل کر لی تھی لیکن اس ریگزار میں لوگوں کے گھروں میں بھی خوراک کا کوئی ذخیرہ نہیں ہوتا تھا۔ قریش کے لشکر میں بددلی پھیلنے لگی ۔اپنے لشکر کے جذبے کو یوں ٹھنڈا پڑتے دیکھ کر اس نے یہودیوں کے ایک قبیلے کے سردار کو حیُّ بن اخطب کو بلایا جو قریش کی زمین دوز مدد کیلئے لشکر کے قریب ہی کہیں موجود تھا ۔وہ تو اس انتظار میں تھا کہ اہلِ قریش اسے بلائیں اور ا س سے مدد مانگیں ۔مدینہ سے کچھ ہی دور یہودیوں کے ایک قبیلے بنو قریظہ کی بستی تھی۔ اس قبیلے کا سردار کعب بن اسد اس بستی میں رہتا تھا ۔اس رات جب وہ گہری نیندسویا ہوا تھا۔دروازے پر بڑی زورکی دستک سے اس کی آنکھ کھل گئی۔اس نے اپنے غلام کو آواز دے کر کہا۔’’ دیکھو باہر کون ہے؟‘‘’’حیُّ بن اخطب آیا ہے۔‘‘غلام نے کہا۔’’رات کے اس وقت وہ اپنے ہی کسی مطلب سے آیا ہوگا۔‘‘کعب بن اسد نے غصیلی آواز میں کہا۔’’اسے کہو کہ میں اس وقت تمہارا کوئی مطلب پورا نہیں کر ��کتا،دن کے وقت آنا۔‘‘بنو قریظہ یہودیوں کا وہ قبیلہ تھا جس نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا اور ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر رکھا تھا۔اس معاہدے میں یہودیوں کے دوسرے دو قبیلے۔بنو قینقاع اور بنو نضیر۔بھی شامل تھے لیکن ان دونوں قبیلوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور مسلمانوں نے انہیں وہ سزا دی تھی کہ وہ لوگ شام کی طرف بھاگ گئے تھے۔صرف بنو قریظہ تھا جس نے معاہدے کو برقرار رکھا اور اس کا احترام کیا۔مسلمان جنگ ِخندق میں اس قبیلے کی طرف سے ذرا سا بھی خطرہ محسوس نہیں کر رہے تھے۔حیُّ بن اخطب بھی یہودی تھا۔ وہ کعب بن اسد کو اپنا ہم مذہب بھائی سمجھ کر اس کے پاس گیا تھا۔وہ کعب بن اسد کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا چاہتا تھا اس لیے وہ غلام کے کہنے پر بھی وہاں سے نہ ہٹا ۔کعب بن اسد نے پریشان ہو کر اسے اندر بلا لیا۔’’میں جانتا ہوں تم اس وقت میرے پاس کیوں آئے ہو؟‘‘کعب بن اسد نے حیُّ سے کہا۔’’اگر تم ابو سفیان کے کہنے پر آئے ہو تو اسے کہہ دو کہ ہم نے مسلمانوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اس پر مسلمان پوری دیانتداری سے قائم ہیں۔ وہ ہمیں اپنا حلیف سمجھتے ہیں اور انہوں نے ہمیں پورے حقوق دے رکھے ہیں۔‘‘ ’’کعب بن اسد! ہوش میں آ!‘‘حیُّ بن اخطب نے کہا۔’’بنو قینقاع اور بنو نضیر کا انجام دیکھ لے۔مسلمانوں کی شکست مجھے صاف نظر آ رہی ہے خدائے یہودہ کی قسم!دس ہزار کا لشکر مسلمانوں کو کچل ڈالے گا۔پھر یہ مسلمان تم پر ٹوٹ پڑیں گے کہ یہودیوں نے انہیں شکست دلائی ہے۔‘‘’’تم چاہتے کیا ہو حیُّ؟‘‘کعب بن اسد نے پوچھا۔’’قریش کے لشکر کا ایک حصہ پہاڑوں کے پیچھے سے تمہارے پاس پہنچ جائے گا۔‘‘حیُّ نے کہا۔’’تمہاری موجودگی میں یہ سپاہی مسلمانوں پر عقب سے حملہ نہیں کر سکتے ۔تم اپنے قبیلے سمیت قریش سے مل جاؤاور مسلمانوں پر اس طرح سے حملہ کرو کہ تمہیں جم کر نہ لڑنا پڑے،بلکہ ضرب لگا کر پیچھے ہٹ آؤ۔اس سے قریش کو یہ فائدہ ہو گا کہ مسلمانوں کی توجہ خندق سے ہٹ جائے گی اور قریش کا لشکر خندق کو عبور کرلے گا۔‘‘’’اگر میں تمہاری بات مان لوں اور ہمارا حملہ وہ کام نہ کر سکے جو تم چاہتے ہو تو جانتے ہو مسلمان ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’تم مسلمانوں کے قہر و غضب سے واقف ہو۔کیا بنو قینقاع اور بنو نضیر کا کوئی ایک بھی یہودی تمہیں یہاں نظر آتاہے۔‘‘’’ابو سفیان نے سب کچھ سوچ کر تمہیں معاہدے کی دعوت دی ہے۔‘‘حیُّ بن اخطب نے کہا۔’’اگر مسلمانوں کا قہر و غضب تم پر گرنے لگا تو قریش کے لشکر کا ایک حصہ تمہارے قبیلے کی حفاظت کیلئے شیخین اور لاوا کی پہاڑیوں میں موجود رہے گا۔وہ شب ِ خون مارنے والے تجربہ کارسپاہیوں کالشکر ہو گا جو مسلمانوں کو تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی مہلت نہیں دیں گے۔‘‘’’تم مجھے اتنے بڑے خطرے میں ڈال رہے ہو جو میرے پورے قبیلے کو تباہ کر دے گا۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’تمہارا قبیلہ تباہ ہو یا نہ ہو، اہلِ قریش اتنی قیمت دیں گے جو تم نے کبھی سوچی بھی نہ ہو گی۔‘‘حیُّ نے کہا۔’’یا اپنے تعاون کی قیمت خود بتا دو۔جو کہو گے،جس شکل میں مانگو گے تمہیں قیمت مل جائے گی،اور تمہارے قبیلے کو پورا تحفظ ملے گا۔مسلمان اگلے چند دنوں میں نیست و نابود ہو جائیں گے۔تم اس کا ساتھ دو۔ جو زندہ رہے گا اور جس کے ہاتھ میں طاقت ہو گی۔‘‘ کعب بن اسد آخر یہودی تھا۔اس نے زروجواہرات کے لالچ میں آ کر حیُّ بن اخطب کی بات مان لی۔ ’’قریش کا کوئی سپاہی ہماری بستی کے قریب نہ آئے۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔مسلمانوں پر میرا قبیلہ شب خون مارتا رہے گا۔ یہ کام رات کی تاریکی میں کیا جائے گا تاکہ مسلمانوں کو پتہ ہی نہ چل سکے کہ شبخون مارنے والے بنو قریظہ کے آدمی ہیں……اور حیُّ۔‘‘کعب نے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔’’ تم دیکھ رہے ہو کہ میں یہاں اکیلا پڑا ہوں۔ میری راتیں تنہائی میں گزر رہی ہیں۔‘‘’’آج کی رات تنہا گزارو۔‘‘حُیّ نے کہا۔’’کل تم تنہا نہیں ہو گے۔‘‘’’مجھے دس دنوں کی مہلت ملنی چاہیے۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’مجھے اپنے قبیلے کو تیار کرنا ہے۔‘‘قریش اور بنو قریظہ کے درمیان معاہدہ ہو گیا۔’’سعد بن عتیق‘‘ معمولی قسم کا ایک جوان تھا جس کی مدینہ میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔وہ خنجر اور تلواریں تیز کرنے کا کام کرتا تھا ۔اس میں یہ خوبی تھی کہ خدا نے اسے آواز پر سوز اور سریلی دی تھی اور وہ شہسوار تھا۔راتوں کو کسی محفل میں اس کی آواز سنائی دیتی تھی تو لوگ باہر آ کر اس کا گانا سنا کرتے تھے۔کبھی رات کو وہ شہر سے باہر چلا جاتا اور اپنی ترنگ میں گایا کرتا تھا۔ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ایک رات وہ پُر سوز لَے میں شہر سے دور کہیں گا رہا تھا کہ ایک بڑی خوبصورت اور جوان لڑکی اس کے سامنے یوں آن کھڑی ہوئی جیسے کوئی جن یا چڑیل انسان کے حسین روپ میں آ گئی ہو۔سعد گھبرا کر خاموش ہو گیا۔’’اس آواز سے مجھے محروم نہ کر جو مجھے گھر سے نکال لائی ہے۔‘‘ لڑکی نے کہا۔’’ مجھے دیکھ کے تو خاموش ہو گیا ہے تو میں دور چلی جاتی ہوں۔ اپنے نغمے کا خون نہ کر۔تیری آواز میں ایسا سوز ہے جیسے تو کسی کے فراق میں نغمہ سرا ہے۔‘‘’’کون ہے تو؟‘‘سعد نے کہا۔’’ اگر تو جنات میں سے ہے تو بتا دے۔‘‘لڑکی کی جل ترنگ جیسے ہنسی سنائی دی۔صحرا کی شفاف چاندنی میں اس کی آنکھیں ہیروں کی طرح چمک رہی تھیں۔’’میں بنو قریظہ کی ایک یہودی کی بیٹی ہوں۔‘‘’’اور میں مسلمان ہوں۔‘‘’’مذہب کو درمیان میں ن�� لا۔‘‘یہودن نے کہا۔’’نغموں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔میں تیرے لیے نہیں تیرے نغمے اور تیری آواز کیلئے آئی ہوں۔‘‘سعد دوبارہ اپنی دھن میں گنگنانے لگا۔ایک روز یہودن نے اسے کہا کہ سعد قبول کرے تو وہ اس کے پاس آ جائے گی اور اسلام قبول کرلے گی۔دو تین روز ہی گزرے تھے کہ مدینہ کا محاصرہ آ گیا۔سعد بن عتیق کا کام بڑھ گیا ۔اس کے پاس تلواریں خنجر اور برچھیوں کی انّیاں تیز کروانے والوں کا ہجوم رہنے لگا۔وہ راتوں کو بھی کام کرتا تھا۔ایک روز یہ یہودن اپنے باپ کی تلوار اٹھائے اس کے پاس آئی۔ ’’تلوار تیز کرانے کے بہانے آئی ہوں۔‘‘یہودن نے کہا۔’’آج ہی رات یہاں سے نکلو ورنہ ہم کبھی نہ مل سکیں گے۔‘‘’’کیا ہو گیا ہے؟‘‘’’پرسوں شام میرے باپ نے مجھے کہا کہ قبیلے کے سردار کعب بن اسد کو میری ضرورت ہے ۔‘‘یہودن نے بتایا۔’’باپ نے حُیّ بن خطب کا نام بھی لیا تھا۔ میں کعب کے گھر چلی گئی۔وہاں حُیّ کے علاوہ دو اور آدمی بیٹھے ہوئے تھے ،وہ اس طرح کی باتیں کر رہے تھے کہ مسلمانوں کے آخری دن آ گئے ہیں۔‘‘کعب بن اسد، حُیّ بن اخطب اور قریش کے درمیان اس لڑکی کی موجودگی میں معاہدہ ہوااور مسلمانوں پر عقب سے حملوں کا منصوبہ طے ہوا۔اس یہودن کو رات بھر کعب کے پا س گزارنی پڑی۔صبح وہ اپنے گھر آگئی۔اسے مسلمانوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہ تھی ۔اس کی دلچسپیاں سعد کے ساتھ تھیں۔اس کے کانوں میں یہ بات بھی پڑی تھی کہ کعب اسے بیوی یا داشتہ کی حیثیت سے اپنے پاس رکھ لے گا۔سعد بن عتیق اس یہودن کی محبت کو تو بھول ہی گیا ۔اس نے یہودن کو گھر بھیج دیا اور ایک بزرگ مسلمان کو بتایا کہ کعب بن اسد نے حُیّ کے کہنے پہ قریش کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے ۔اس بزرگ نے یہ اطلاع اوپر پہنچا دی ۔رسولِ اکرمﷺ کو بتایا گیا کہ بنو قریظہ نے بنو قینقاع اور بنو نضیر کی طرح اپنا معاہدہ توڑ دیا ہے ۔آپﷺ نے کعب بن اسد کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے پہلے یہ یقین کر لینا ضروری سمجھا کہ بنو قریظہ نے واقعی قریش کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔اﷲ اپنے نام لیوا بندوں کی مدد کرتا ہے۔اس کے فوراً بعد ایک ایساواقعہ ہو گیا کہ جس سے تصدیق ہو گئی کہ بنو قریظہ اور قریش کے درمیان بڑا خطرناک معاہدہ ہوا ہے۔واقعہ یوں ہوا۔عورتوں اور بچوں کو شہر کے ان مکانوں اورچھوٹے چھوٹے قلعوں میں منتقل کر دیا گیا تھا جو خندق سے دو ر تھے۔ایک ایسے ہی قلعے میں رسول اکرمﷺ کی پھوپھی صفیہؓ چند ایک عورتوں اور بہت سے بچوں کے ساتھ مقیم تھیں۔ایک روز صفیہؓ قلعے کی فصیل پر گھوم پھر رہی تھیں کہ انہوں نے نیچے دیکھا۔ایک آدمی دیوار کے ساتھ ساتھ مشکوک سی چال چلتا جارہا تھا۔وہ کہیں رکتا،دیوار کو دیکھتا اور آگے چل پڑتا۔صفیہؓ اسے چھپ کر دیکھنے لگیں۔صاف پتا چلتا تھا کہ یہ آدمی قلعہ کے اندر آنے کا کوئی راستہ یا ذریعہ دیکھ رہاہے۔صفیہؓ کو اس وجہ سے بھی اس آدمی پر شک ہوا کہ شہر کے تمام آدمی خندق کے قریب مورچہ بند تھے یا جنگ کے کسی اور کام میں مصروف تھے۔اگر یہ کوئی اپنا آدمی ہوتااور کسی کام سے آیا ہوتا تو دروازے پر دستک دیتا۔ قلعے میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ صرف ایک مرد تھا ۔یہ تھے عرب کے مشہور شاعر’’ حسان ؓبن ثابت‘‘۔صفیہ ؓنے حسان ؓسے کہا کہ نیچے ایک آدمی مشکوک انداز سے دیوار کے ساتھ ساتھ جارہا ہے۔’’مجھے شک ہے کہ وہ یہودی ہے۔‘‘صفیہؓ نے حسانؓ سے کہا۔’’تم جانتے ہو حسان! بنو قریظہ نے دوستی کا معاہدہ توڑ دیا ہے۔یہ شخص مجھے یہودیوں کا مخبر معلو ہوتا ہے ۔بنو قریظہ ہم پر عقب سے حملہ کریں گے تاکہ ہمارے مردوں کی توجہ خندق کی طرف سے ہٹ جائے اور وہ پیچھے آ جائیں۔یہودیوں کے پاس ہمارے مردوں کو مورچوں سے نکال کر پیچھے لانے کا یہ طریقہ کارآمد ہو گاکہ وہ ان قلعوں پر حملے شروع کر دیں جن میں عورتیں اور بچے ہیں۔نیچے جاؤ حسان!اﷲ تمہارا نگہبان ہو،اس شخص کو للکارو۔اگر وہ واقعی یہودی ہو تو اسے قتل کر دو۔خیال رکھنا کہ اس کے ہاتھ میں برچھی ہے اور اس کے چغے کے اندر تلوار بھی ہوگی۔‘‘’’اے عظیم خاتون! ‘‘حسانؓ شاعر نے کہا۔’’کیا آپ نہیں جانتیں کہ میں بیمار ہوں اگر مُجھ میں ذرا سی طاقت بھی ہوتی تو اس وقت میں میدان جنگ میں ہوتا۔‘‘مؤرخ ابن ہشام اور ابن قتیبہ نے لکھا ہے کہ عرب کے عظیم شاعر کا یہ جواب سن کر رسول ِاکرمﷺ کی پھوپھی صفیہؓ خود اس مشکوک آدمی کو پکڑنے یا مارنے کیلئے چل پڑیں۔لیکن یہ نہ دیکھاکہ ایک مسلّح مرد کے مقابلے میں جاتے ہوئے ان کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے۔وہ جلدی میں جو ہتھیار لے کر گئیں وہ برچھی نہیں تھی،تلوار نہیں تھی،وہ ایک ڈنڈہ تھا۔صفیہؓ دوڑتی ہوئی باہر نکلیں اور اس مشکوک آدمی کے پیچھے جا رکیں۔جودیوار کے ساتھ کھڑا اوپر دیکھ رہا تھا۔’’کون ہے تو؟‘‘صفیہؓ انے اسے للکارا۔مشکوک آدمی نے بدک کر پیچھے دیکھا۔اگر وہ کسی غلط نیت سے نہ آیا ہوتا تو اس کا انداز کچھ اور ہوتا۔مگر اس نے برچھی تان لی۔صفیہؓ نے اس کا چہرہ دیکھا تو کوئی شک نہ رہا وہ یہودی تھااور وہ بنو قریظہ کا ہی ہو سکتا تھا۔اسے یقین تھا کہ ایک عورت ،وہ بھی ایک ڈنڈے سے مسلّح، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔’’تجھ پر خدا کی لعنت!‘‘صفیہؓ نے للکار کر کہا۔’’کیا تو بنو قریظہ کا مخبر نہیں ہے؟‘‘’’محمد)ﷺ( کی پھوپھی !یہاں سے چلی جا۔‘‘یہودی نے کہا۔’’کیا تو میرے ہاتھوں مرنے آئی ہے۔ہاں میں بنو قریظہ کا آدمی ہوں۔‘‘’’پھر تو یہاں سے زندہ نہیں جائے گا۔‘‘ یہودی نے قہقہہ لگایا اور بڑھ کر برچھی ماری۔جس تیزی سے برچھی آئی تھی ،اس سے زیادہ تیزی سے صفیہؓ ایک طرف ہو گئیں۔یہودی کا وار خالی گیا تو وہ سنبھل نہ سکا۔وہ آگے کو جھکا اور اپنے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک نہ سکا۔صفیہؓ نے پوری طاقت سے اس کے سر پر ڈنڈامارا۔ایک عورت کے بازو میں خدا کا قہر آگیاتھا۔یہودی رُک کر سیدھا ہوا لیکن اس کا سر ڈولنے لگا۔صفیہؓ نے اسے سنبھلنے کا موقع نہ دیا اوراس کے سر پر پہلے سے زیادہ زور سے ڈنڈا مارا۔اب یہودی کھڑا نہ رہ سکا۔اس کے ہاتھ سے برچھی گری پھر اسکے گھٹنے زمین سے لگے،صفیہؓ نے اس کے سر پر ،جس سے خون بہہ بہہ کر اس کے کپڑوں کو لال کر رہا تھا ایک اور ڈنڈہ مارا ،وہ جب بے ہوش ہو کر لڑھک گیا تو صفیہؓ اس کے سر پر ہی ڈنڈے مارتی چلی گئیں،جیسے زہریلے ناگ کا سر کچل رہی ہوں۔صفیہؓ نے اس وقت ہاتھ روکا جب یہودی کی کھوپڑی کچلی گئی اور اس کا جسم بے حس ہو گیا،صفیہ ؓ قلعہ میں چلی گئیں۔’’حسان! ‘‘صفیہؓ نے اپنے شاعر حسان ؓسے کہا۔’’میں وہ کام کر آئی ہوں جو تمہیں کرنا تھا ۔اب جاؤ اور اس یہودی کے ہتھیار اٹھالاؤ اور اس کے کپڑوں کے اندر جو کچھ ہے وہ بھی لے آؤ۔میں عورت ہوں کسی مرد کے کپڑوں کے اندر ہاتھ ڈالنا ایک عورت کیلئے مناسب نہیں۔چاہو تو یہ مالِ غنیمت تم لے سکتے ہو ،مجھے اس کی ضرورت نہیں۔‘‘’’اﷲ آپ کی عصمت و عفت کی حفاظت کرے! ‘‘حسانؓ نے شاعروں کی مسکراہٹ سے کہا۔’’مالِ غنیمت کی ضرورت مجھے بھی نہیں ہے ۔اور میں اپنے اندر اتنی توانائی محسوس نہیں کرتا کہ یہ کام انجام دے سکوں‘‘۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ خبر رسولِ کریمﷺ تک پہنچی تو آپﷺ کو پریشانی ہوئی، شہر میں خوراک کی کیفیت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ہر فرد کو اس کی اصل ضرورت کی صرف ایک چوتھائی خوراک ملتی تھی۔رسولِ کریمﷺ نے خدائے ذوالجلال سے مدد مانگی اور کوئی حکمت عملی سوچنے لگے۔ادھر خندق کا محاذ سر گرم تھا ۔خالد کو اپنی اس وقت کی بے چینی اور بے تابی اچھی طرح یاد تھی ۔وہ خندق کے ساتھ ساتھ گھوڑا دوڑاتا اور کہیں سے خندق عبور کرنے کے طریقے سوچتا تھا۔وہ مرد ِمیدان تھا لڑے بغیر واپس جانے کو اپنی توہین سمجھتا تھا۔مگر وہاں لڑائی اس نوعیت کی ہو رہی تھی کہ قریش کے تیر انداز خاصی تعداد میں خندق کے اس مقام پر قریب آتے جہاں مسلمان مورچہ بند تھے۔یہ سلع کی پہاڑی تھی ۔تیر انداز مسلمانوں پر تیر برساتے۔ مسلمان جوابی تیر اندازی کرتے۔کبھی قریش کاکوئی تیر انداز جیش کسی اور جگہ گشتی سنتریوں پر تیر چلاتا مگر مسلمانوں کا جیش فوراً پہنچ جاتا۔رات کو مسلمان خندق پر سنتریوں کی تعدداد میں اضافہ کردیتے تھے اور قریش خندق سے دور پیچھے خیمہ گاہ میں چلے جاتے تھے۔ رسولِ کریمﷺ کو جہاں مدینہ میں خوراک کی قلت کا جو قحط کی صورت اختیار کرتی جا رہی تھی احساس تھا،وہاں آپ ﷺکو یہ بھی معلوم تھا کہ قریش کا لشکر بھی نیم فاقہ کشی پر آگیا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے کی شرائط ماننے پر اور معاہدوں اور سمجھوتوں پر مجبور کر دیتی ہے۔ کسی بھی تاریخ میں اس شخص کا نام نہیں لکھا جسے رسولِ کریمﷺ نے خفیہ طریقے سے قریش کے اتحادی غطفان کے سالار عینیہ کے پاس اس مقصد کیلئے بھیجا کہ اسے قریش کی دوستی ترک کرنے پر آمادہ کرے۔اسے یہ نہیں کہا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل جائے۔رسولِ کریمﷺ کا مقصد صرف یہ تھا کہ غطفان اور عینیہ رضا مند ہو جائیں اور اپنے قبیلے کو واپس لے جائیں تو قریش کا لشکر دو ہزار نفری کی فوج سے محروم ہو جائے گا۔ یہ توقع بھی کی جا سکتی تھی کہ دوسرے قبائل بھی غطفان کی تقلید میں قریش کے لشکر سے نکل جائیں گے۔’’کیا محمد)ﷺ( ہمیں زبانی معاہدے کی دعوت دے رہا ہے؟‘‘سالار عینیہ نے رسول خداﷺ کے ایلچی سے کہا۔’’ہم نے یہاں تک آنے کا جو خرچ برداشت کیا ہے وہ کون دے گا؟‘‘’’ہم دیں گے۔‘‘رسولِ خداﷺ کے ایلچی نے کہا۔’’نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ اپنے قبیلے کو واپس لے جاؤ تو اس سال مدینہ میں کھجور کی جتنی پیداوار ہو گی اس کا تیسرا حصہ تم لے جانا۔خود مدینہ آجانا۔ پوری پیداوار دیکھ لینا اور اپنا حصہ اپنے ہاتھوں الگ کر کے لے جانا۔‘‘سالار عینیہ میدانِ جنگ میں لڑنے اور لڑانے والوں کی قیادت کرنے والا جنگجو تھا۔لیکن غیر جنگی مسائل اور امور کو بہت کم سمجھتا تھا۔مؤرخ ابنِ قتیبہ نے لکھا ہے کہ اس واقع کے کچھ ہی عرصہ بعد رسول اﷲﷺ نے اسے ’’مستعد احمق ‘‘کا خطاب دیا تھا۔وہ بڑے طاقت ور جسم والا اور جسمانی لحاظ سے پھرتیلا اور مستعد رہنے والا آدمی تھا۔اس نے اپنے سردارغطفان سے بات کی ۔’’خدا کی قسم! محمد )ﷺ(نے ہمیں کمزور سمجھ کر یہ پیغام بھیجا ہے۔‘‘غطفان نے کہا۔’’اس کے ایلچی سے پوچھو کہ مدینہ کے اندر لوگوں کو بھوک کا سامنا نہیں؟ہم انہیں بھوک سے نڈھال کر کے ماریں گے۔‘‘’’کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارا اپنا لشکر بھوک سے نڈھال ہو رہا ہے ؟‘‘سالار عینیہ نے کہا۔’’مدینہ والے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں ہم اپنے گھر سے بہت دور آگئے ہیں۔ کیا لشکر میں تم بے اطمینانی نہیں دیکھ رہے؟کیا تم نے دیکھا نہیں کہ ہماری کمانوں سے نکلے ہوئے تیر اب اتنی دور نہیں جاتے جتنی دور اس وقت جاتے تھے جب تیر اندازوں کو پیٹ بھر کر کھانا ملتا تھا۔ان کے بازوؤں میں کمانیں کھینچنے کی طاقت نہیں رہی ۔‘‘ ’’کیا اس کا فیصلہ تم کرو گے کہ ہمیں محمد )ﷺ(کو کیا جواب دینا چاہیے؟‘‘غطفان نے پوچھا۔’’یا میں فیصلہ کروں گا جوقبیلے کا سردار ہوں۔‘‘’’خدا کی قسم! میدانِ جنگ میں جو فیصلہ میں کر سکتا ہوں وہ تم نہیں کر سکتے۔‘‘سالار عینیہ نے کہا۔’’اور میدانِ جنگ سے باہر جو فیصلہ تم کر سکتے ہو وہ فیصلہ میری عقل نہیں کر سکتی۔میری عقل تلوار کے ساتھ چلتی ہے۔مگر یہاں میری فوج کی تلواریں اور برچھیاں اور ہمارے تیر مایوس ہو گئے ہیں۔ ہم خندق کے پار نہیں جا سکتے ۔ہمیں محمد)ﷺ( کی بات مان لینی چاہیے۔‘‘اور انہوں نے رسولِ کریمﷺ کی بات مان لی۔ایلچی امید افزا جواب لے کر آ گیا۔اسے قریش کا کوئی آدمی نہیں دیکھ سکا تھا کیونکہ غطفان کی فوج محاصرے کے کسی اور مقام پر تھی۔اﷲ کے رسول ﷺکے خلاف کون بول سکتا تھا۔مگر آپﷺ نے اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق اپنے سرکردہ ساتھیوں کو بلایا اور انہیں موقع دیا کہ کسی کو آپﷺ کے فیصلے سے اختلاف ہے تو وہ بولے۔آپﷺ ایک شخص کا فیصلہ پوری قوم پر ٹھونسنے کے قائل نہ تھے چنانچہ آپﷺ نے سب کو بتایا کہ آپﷺ نے غطفان کو کیا پیش کش کی ہے۔)یہاں اُمت کو مشورے کی اہمیت سکھائی گئی ہے(’’نہیں!‘‘چندپرجوش آوازیں اٹھیں ۔’’ہماری تلواریں جن کے خون کی پیاسی ہیں ،خدا کی قسم! ہم انہیں اپنی زمین کی پیدوار کا ایک دانہ بھی نہیں دیں گے۔جنگ تو ہوئی نہیں ہم لڑے بغیر کیوں ظاہر کریں کہ ہم لڑ نہیں سکتے۔‘‘اس کی تائید میں کچھ آوازیں اٹھیں۔ ایسی دلیلیں دی گئیں جنہیں رسول اﷲﷺ نے اس لیے قبول فرما لیا کہ یہ اکثریت کی آواز تھی۔آپﷺ نے اپنے ایلچی کو دوبارہ غطفان اور عینیہ کے پاس نہ بھیجا لیکن آپﷺ نے سب پر واضح کر دیا کہ تدبر اور حکمت عملی کے بغیر محاصرہ نہیں توڑا جا سکے گا۔خدا حق پرستوں کے ساتھ تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اپنے اﷲ سے مدد مانگی جو ایک انسان کے روپ میں آپ ﷺکے سامنے آگئی ۔یہ تھے’’ نعیم ؓبن مسعود‘‘۔ان کا تعلق غطفان کے قبیلے کے ساتھ تھا۔نعیمؓ سرکردہ شخصیت تھے ۔خدا نے انہیں غیر معمولی دماغ عطا کیا تھا۔تین اہم قبیلوں قریش ،غطفان اور بنو قریظہ پر ان کا اثر و رسوخ تھا۔ ایک روز نعیمؓ جو کہ قبیلہ غطفان میں تھے، مدینہ میں رسولِ خداﷺ کے سامنے آکھڑے ہوئے۔’’خدا کی قسم تو قبیلہ غیر کا ہے۔‘‘رسول اﷲﷺ نے فرمایا ۔’’تو ہم میں سے نہیں۔ تو یہاں کیسے آ گیا؟‘‘’’میں آپ میں سے ہوں۔‘‘نعیمؓ نے کہا۔’’مدینہ میں گواہ موجود ہیں۔ میں نے درپردہ اسلام قبول کر لیا تھا۔اپنے قبیلے کے ساتھ اسی مقصدکیلئے آیا تھا کہ آپﷺ کے حضور حاضر ہو جاؤں مگر موقع نہ ملا ،پتا چلا کہ آپﷺ نے میرے قبیلے کے سردار اور سالار کو قریش سے دوستی ترک کرکے واپس چلے جانے کا پیغام بھیجا تھا اور آپﷺ نے اس کا معاوضہ بھی بتا دیا تھا لیکن آپﷺ نے بات کو مزید آگے نہ بڑھایا ۔‘‘’’اﷲ کی تجھ پررحمت ہو۔‘‘رسولِ خداﷺ نے پوچھا۔’’کیا تو بات کو آگے بڑھانے آیا ہے؟‘‘ ’’نہیں، میرے اﷲ کے سچے نبیﷺ! ‘‘نعیم نے جواب دیا۔’’مجھے آپﷺ ہی کے قدموں میں آنا تھا۔اہلِ مدینہ پر مشکل کا وقت آن پڑا ہے۔میں اپنی جان لے کے حاضر ہوا ہوں۔ یہ حضور ﷺکے اور اسلام کے شیدائیوں کے جس کام آ سکتی ہے حضورﷺ کے قدموں میں پیش کرتا ہوں۔اپنے لشکر میں سے چھپ چھپا کر نکلا ہوں۔ خندق میں اتر تو گیا لیکن سنتریوں کی موجودگی میں اوپر آنا خودکشی کے برابر تھا۔اوپر چڑھنا ویسے بھی محال تھا ۔بڑی مشکل پیش آئی۔ خدا سے آپ ﷺکے نام پر التجاکی، گڑ گڑا کر دعا مانگی ،اﷲ نے کرم کیا ۔سنتری آگے چلے گئے اور میں خندق پر چڑھ آیا۔‘‘رسولِ اکرمﷺ کو نعیمؓ کے متعلق بتایا گیا کہ یہ کس حیثیت کی ��خصیت ہے۔ رسولِ کریمﷺ نے ان کے ساتھ دو چار باتیں کیں تو آپﷺ کو اندازہ ہو گیا کہ نعیمؓ اونچی سطح اور عقل کے انسان ہیں۔ آپﷺ نے نعیم ؓکو بتایا کہ محاصرے نے جو حالات پیدا کر دیئے ہیں ان سے نکلنے کیلئے ضروری ہو گیا ہے کہ قریش کے لشکر میں جو مختلف قبائل شامل ہیں انہیں قریش سے بدزن کیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو تین قبائل کے ساتھ خفیہ معاہدے کرلیے جائیں ۔’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ نعیم نے کہا۔’’اگر میں یہ کام اپنے طریقے سے کردوں تو کیا حضورﷺ مجھ پر اعتماد کریں گے ؟‘‘’’تجھ پر اﷲ کی رحمت ہو نعیم‘‘۔رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔’’ میں تجھے ا ور تیرے نیک ارادوں کو اﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘’’میں واپس اپنے قبیلے میں چلا جاؤں گا۔‘‘نعیم نے کہا۔’’لیکن یہ نہیں بتاؤں گا کہ میں مدینہ میں آیا تھا۔یہاں سے میں کعب بن اسد کے پاس جا رہا ہوں ،میرے اﷲ کے رسولﷺ !میری کامیابی کیلئے دعا فرمائیں۔‘‘مدینہمیں رات کو پہرے بڑے سخت تھے۔ پیچھے کی طرف خندق نہیں تھی ۔ادھر پہاڑیوں نے قدرتی دفاع مہیا کر رکھا تھا ۔ادھر پہرے داروں اور گشتی سنتریوں کی تعداد زیادہ رکھی گئی تھی اور شہر کے کسی آدمی کا بھی ادھر جانا بڑا مشکل تھا۔رسولِ اکرمﷺ نے نعیم ؓکے ساتھ اپنا ایک آدمی بھیج دیا تھا تاکہ کوئی سنتری انہیں روک نہ لے ۔یہ آدمی نعیمؓ کو مدینہ کے ساتھ باہرتک چھوڑ کر واپس آ گیا۔رات کا پہلا پہر تھا جب نعیمؓ بنو قریظہ کی بستی میں کعب بن اسد کے دروازے پر پہنچے۔دروازہ غلام نے کھولا۔’’تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو نہ کعب؟‘‘نعیم ؓنے پوچھا۔’’نعیم بن مسعود کو کون نہیں جانتا۔‘‘کعب نے کہا ۔’’غطفان کے قبیلے کو تجھ جیسے سردار پر بہت فخر ہوگا۔کہو نعیم رات کے اس پہر میں تمہاری کیا خدمت کر سکتا ہوں؟میں نے دس دنوں کی مہلت مانگی تھی۔ابھی تو چھ سات دن گزرے ہیں ۔میں نے مسلمانوں پر شب خون مارنے کیلئے آدمی تیار کر لیے ہیں۔ کیا تم یہی معلوم کرنے آ ئے ہو؟‘‘ ’میں اسی سلسلے میں آیا ہوں ۔‘‘نعیمؓ نے کہا۔’’تم بے وقوفہو کعب۔تم نے قریش کیساتھ کس بھروسے پر معاہدہ کر لیا ہے؟مجھ سے نہ پوچھنا کہ میرے دل میں تمہاری ہمدردی کیوں پیدا ہوئی۔میں مسلمانوں کا بھی ہمدرد نہیں کیونکہ میں مسلمان نہیں۔تم اچھی طرح جانتے ہو میرے دل میں انسانیت کی ہمدردی ہے۔ میرے دل میں ہمدردی ہے تمہاری ان خوبصورت اور جوان بیٹیوں، بیویوں اور بہنوں کی، جو مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں گی۔تم نے قریش سے بڑا ہی خطرناک معاہدہ کر لیا ہے لیکن اس کی ضمانت نہیں لی کہ اہلِ قریش تمہیں مسلمانوں سے بچا لیں گے۔ہم نے بھی قریش کے ساتھ معاہدہ کیا ہے لیکن کچھ ضمانت بھی لی ہے ۔‘‘’’کیا قریش جنگ ہار جائیں گے؟‘‘کعب بن اسد نے پوچھا۔’’وہ جنگ ہار چکے ہیں۔‘‘نعیم ؓنے کہا ۔’’کیا یہ خندق انہیں شہر پر حملہ کرنے دے گی؟قریش کے لشکر کو بھوک نے بے حال کرنا شروع کر دیا ہے ۔میرا قبیلہ بھوک سے پریشان ہو گیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ کل تم میرے قبیلے کو بدنام کرو کہ غطفان تمہیں مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے تھے، تم مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں اپنا دشمن بنا لو گے اور قریش اور ہم محاصرہ اٹھا کہ واپس چلے جائیں گے۔ اپنے دونوں قبیلوں قینقاع اور بنو نضیر کا انجام جومسلمانوں کے ہاتھوں ہواتھا وہ تمہیں یا د ہو گا۔‘‘کعب بن اسد پر خاموشی طاری ہو گئی۔’’ میں جانتا ہوں کہ تم نے قریش سے کتنی اجرت لی ہے ۔‘‘نعیم نے کہا ۔’’لیکن یہ خزانہ جو تم ان سے لے رہے ہو، یہ خوبصورت لڑکیاں جو حُیّ بن اخطب نے تمہارے پاس بھیجی ہیں ۔یہ سب مسلمانوں کی ملکیت ہو جائے گی اور تمہارا سر تمہارے تن سے جدا ہوگا۔‘‘’’تو کیا میں قریش سے معاہدہ توڑ دوں؟‘‘ کعب نے پوچھا۔’’معاہدہ نہ توڑو ۔‘‘نعیم ؓنے کہا۔’’انہیں ابھی ناراض نہ کرو لیکن اپنی حفاظت کی ان سے ضمانت لو۔عرب کے رواج کے مطابق انہیں کہو کہ ان کے اونچے خاندانوں کے کچھ آدمی تمہیں یرغمال کے طور پر دے دیں۔اگر انہوں نے اپنے چند ایک معزز اور سرکردہ آدمی دے دیئے تو یہ ثبوت ہو گا کہ وہ معاہدہ میں مخلص ہیں۔‘‘’’ہاں نعیم!‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’میں ان سے یرغمال میں آدمی مانگوں گا۔‘‘ نعیمؓ بن مسعود رات کے وقت پہاڑیوں میں چلے جا رہے تھے ۔ان کی منزل قریش کی خیمہ گاہ تھی جو کئی میل دور تھی۔ سیدھا رستہ چھوٹا تھالیکن راستے میں خندق تھی۔ وہ بڑی دور کا چکر کاٹ کہ جا رہے تھے۔ وہ گذشتہ رات سے مسلسل چل رہے تھے مگر چھپ چھپ کر چلنے اور عام سفر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔نعیمؓ جب ابو سفیان کے پاس پہنچے تو ایک اور رات شروع ہو چکی تھی۔اس وقت ان کی ہڈیاں بھی دکھ رہی تھیں اور ان کی زبان سوکھ گئی تھی۔ ایک ہی بار بے تحاشا پانی پی کر وہ بولنے کے قابل ہوئے۔ابوسفیان نعیم ؓکی دانشمندی اور تدبر سے متاثر تھا۔’’تمہاری حالت بتا رہی ہے کہ تم اپنے لشکر میں سے نہیں آئے۔‘‘ابوسفیان نے نعیمؓ سے پوچھا۔’’کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘’’بہت دور سے۔‘‘ نعیمؓ بن مسعود نے جواب دیا۔’’ جاسوسی کی ایک مہم سے آ رہا ہوں ،تم لوگ بنو قریظہ کیساتھ معاہدہ کر آئے ہو۔ کیا تم بھول گئے تھے کہ یہودیوں کو ہمارے ساتھ جو دلچسپی ہے وہ صرف اس لیے ہے کہ وہ اسلام کو ہمارے ہاتھوں یہیں پر ختم کرا دینا چاہتے ہیں۔ میں بنو قریظہ کے دو دوستوں سے مل آیا ہوں اور مجھے مدینہ کا بھی ایک پرانا دوست مل گیا تھا۔ مجھے پتا چلا ہے کہ کعب بن اسد نے محمد)ﷺ( کا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ کعب نے مسلمانوں کو خوش کرنے کا ایک نیا طریقہ سوچا ہے۔ تم نے اسے کہا کہ وہ مدینہ میں مسلمانوں پر حملے کرے ۔وہ اب تم سے قریش کے سرکردہ خاندانوں کے چند افراد یرغمال میں ضمانت کے طور پر رکھنے کیلئے مانگے گا۔ مگر انہیں وہ مسلمانوں کے حوالے کر دے گااور مسلمان ان افراد کو قتل کر دیں گے۔پھر یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں گے اور دونوں ہم پر حملہ کر دیں گے۔ میں تمہیں خبردار کرنے آیا ہوں کہ یہودیوں کو یرغمال میں اپنا ایک آدمی بھی نہ دینا ۔‘‘’’خدا کی قسم نعیم!‘‘ ابوسفیان نے کہا۔’’اگر تمہاری یہ بات سچ نکلی ۔تو میں بنو قریظہ کی بستیاں اجاڑ دوں گا۔کعب بن اسد کی لاش کو میں اپنے گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھسیٹتا ہوا مکہ لے جاؤں گا۔اس نے کیا سوچ کر ہمیں دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے؟‘‘’’اس کی سوچ پر آپ نے شراب اور حسین لڑکیوں کا طلسم طاری کر دیا ہے۔‘‘ نعیمؓ بن مسعود نے کہا۔’’ کیا شراب اورعورت کسی کے دل میں خلوص اور دیانت داری رہنے دیتی ہے؟‘‘’’اسے شراب اور عورت کس نے دی؟‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’کیا بد بخت کعب اتنی سی بات نہیں سمجھ سکا کہ میں نے اس کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اس میں اس کی قوم اور اس کے مذہب کا تحفظ ہے۔اگر محمد)ﷺ(کا مذہب اسی طرح پھیلتا چلا گیا تو یہودیت ختم ہو جائے گی۔‘‘ ’’تم یہودیوں کو ابھی تک نہیں سمجھ سکے۔‘‘نعیم ؓنے کہا۔’’وہ اپنے دشمن پر بھی ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ وہ اس کے دشمن ہیں ۔حُیّ بن اخطب بھی یہودی ہے ۔اس نے تمہاری طرف سے کعب کو شراب کا نصف مٹکا اور دو نہایت حسین لڑکیا ں دی ہیں۔ میں جب کعب سے ملا تو وہ شراب میں بد مست تھا اور دونوں لڑکیاں نیم برہنہ حالت میں اس کے پاس تھیں ۔اس نے بد مستی کے عالم میں مجھے کہا کہ وہ اہلِ قریش کو انگلیوں پر نچا رہا ہے۔‘‘’’نعیم!‘‘ ابو سفیان نے تلوار کے دستے پر ہاتھ مار کر کہا۔’’ میں مدینہ سے محاصرہ اٹھاکر بنو قریظہ کی نسل ختم کر دوں گا۔اس کی یہ جرات کہ قبیلہ قریش کے سرکردہ چند افراد کو ضمانت کے طور پر یرغمال بناکر رکھنا چاہتا ہے۔‘‘’’تمہیں اتنا نہیں بھڑکنا چاہیے ابو سفیان۔‘‘نعیمؓنےکہا۔’’ٹھنڈے دل سے سوچواور فیصلہ کر لو کہ کعب کو تم ایک بھی آدمی یرغمال میں نہیں دو گے ۔‘‘’’میں فیصلہ کر چکا ہوں ۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ کیا تم اہلِ مدینہ کی کوئی خبر دے سکتے ہو؟وہ کس حال میں ہیں؟ وہ کب تک بھوک برداشت کریں گے ؟‘‘نعیمؓ بن مسعود کو ابو سفیان کے پاؤں اکھاڑنے کا موقع مل گیا۔ ’’میں حیران ہوں ابو سفیان !‘‘ نعیمؓ نے کہا۔’’ اہلِ مدینہ خوش اور مطمئن ہیں ۔وہاں بھوک کے کوئی آثار نہیں، خوراک کی کمی ضرور ہے لیکن اہل ِمدینہ کا جوش اور جذبہ ایسا ہے کہ جیسے انہیں خوراک کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے محاصرے کا ان پر کوئی اثرنہیں ہوا۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’بالکل نہیں۔‘‘نعیم ؓبن مسعود نے کہا۔’’ان پر محاصرے کا یہ اثر ہے کہ وہ جوش و خروش سے پھٹے جا رہے ہیں ۔‘‘’’ہمارے یہودی جاسوس ہمیں بتا رہے ہیں کہ مدینہ میں خوراک تقریباً ختم ہو چکی ہے۔‘‘ابو سفیان نے ذرا پریشان ہو کر کہا۔ ’’وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔‘‘نعیمؓ نے اسے اور زیادہ پریشان کرنے کیلئے کہا۔’’میں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ یہودیوں پر بھروسہ نہ کرنا۔یہ بتا کر کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں وہ تمہیں اکسا رہے ہیں کہ تم مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر کہیں سے خندق عبور کر لو اور مدینہ پر حملہ کر دو۔ وہ اہلِ قریش اور میرے قبیلے غطفان کو مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ کرانا چاہتے ہیں۔‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم۔ #جاری_ہے Read the full article
0 notes
Text
ہے اختیار میں تیرے تو معجزہ کر دے
وہ شخص میرا نہیں ہے اسے میرا کر دے
یہ ریگزار کہیں ختم ہی نہیں ہوتا
ذرا سی دور تو رستہ ہر بھرا کر دے
میں اس کے زور کو دیکھوں ، وہ میرا صبر و سکوں
مجھے چراغ بنا دے اسے ہوا کر دے
اکیلی شام بہت ہی اداس کرتی ہے
کسی کو بھیج کوئی میرا ہمنوا کردے
7 notes
·
View notes
Text
امام عالی مقام ! کاش آپ ہمیں اس حال میں نہ چھوڑتے - قاضی نصیر عالم
امام عالی مقام ! کاش آپ ہمیں اس حال میں نہ چھوڑتے – قاضی نصیر عالم
امام عالی مقام ……. صدیاں بیت چلی ہیں . لیکن کچھ بھی نہیں بدلا ۔ آپ کے بے سائیباں پیروکار آج بھی اسی کربلا کے ریگزار میں انہی لشکر یوں کے گھیرے میں کھڑے ہیں ۔ جس “دستور” کے اصولوں کے توڑے جانے پر آپ نے علم حق بلند کیا اور اپنے خاندان سمیت اپنی جانیں قربان کردیں وہ دستور اور اس کے اصول تو در کنار اس قانون کو بھی ریاستیں نگل گئیں ۔ اب تو اس پورے دستور اور قانون کا کوئی تزکرہ بھی نہین کرتا ۔
امام…
View On WordPress
0 notes
Text
اگر تمایل دارید که به سفر بروید امیدواریم که به دَرَک بروید :
اگر بخواهی دنبال جذابیت ها و جاذبه های دَرَک بگردید باید حسابی به این موارد توجه کنید چرا که در این منطقه ای نسبتاً کوچک نباید احساس کنید که از جاذبههای کمی برخوردار است شما در اینجا به این نتیجه خواهید رسید که روستای درک همتا ندارد ، بگذارید از همین جا شروع کنیم اتصال ریگزار ها و شنزارهای داغ به ساحل زیبای دریا و بازدید از غروب بیکران و زیبایی که نظیر آن را در چنین منطقه ای حداقل در کشور ایران نخواهیم داشت . روستای درک جاذبه های بسیار زیادی برخوردار است . ما در ایرونا آن را برای شما بازگو خواهیم کرد ، این موارد می توان به :
وجود آب شور دریا اشاره کرد همانطور که میدانید آب دریاهای ایران بالاخص آب دریای عمان بسیار شور است و این وجود آب شیرین را در نزدیک خود تقریباً غیرممکن میکند اما چیزی که باعث یکی از جذابیت های آن شده وجود چاه های بسیار کم عمق و فراوان با آب شیرین می باشد به طوری که باغات و مزارع گرمسیری و درختان از طریق همین آب شیرین چاه مورد آبیاری و بهره برداری قرار می گیرند حتی میتوان به این مورد هم اشاره کرد که وجود باغهای هندوانه و ذرت هم از طریق آب شیرین همین چاه ها تغذیه می کند . وجود چاه های آب شیرین در روستای درک زرآباد یکی از اعجاب انگیزترین جاذبه های گردشگری این منطقه می باشد .
برای مطالعه جامع روی لینک ذیل لمس کنید
https://b2n.ir/732113
0 notes
Text
جبر کے خلاف احتجاج کا منفرد انداز
جبر کے خلاف احتجاج کا منفرد انداز
ریگزار کربلامیں لکھی گئی خونیں داستاں محض ایک واقعہ اور سانحہ نہیں بلکہ تاریخ انسانی کا المناک اور اندوہناک باب ہے،اہلبیت اطہار کے پاکیزہ خون سے کربلاکی ریت پرلکھی گئی یہ تحریرآج بھی اہل حق کو خون کے آنسو رلا رہی ہے،مومنین اہل بیت اطہار کیساتھ ہونے والے اس ظلم جبر استبداد پر صدیوں سے عزا داری کی صورت میں تاریخ انسانی کا سب سے بڑا احتجاج کر رہے ہیں۔واقعہ کربلاتاریخ انسانی میں حق کا پرچم سر بلند رکھنے اور جبر کے خلاف آواز اٹھانے کا سب سے منفرد انداز تھا،کچھ لوگ اعتراض کرتے تھے کہ جب اتنے جید حضرات نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو امام عالی مقام نے کیوں نہ کی؟ اس اعتراض کا جواب سید مودودی نے نہایت مختصر مگر بلیغ دیا،کہتے ہیں،جب سیدنا حسین نے بیعت نہیں کی تھی تو دوسروں نے کیونکر کی یعنی جب سید الشہداء نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا تھا تو اس کی بیعت باطل ہو گئی،یہی وہ معرکہ تھا جسے سر کرنے امام صرف اہل بیت کی ہمراہی میں مدینہ سے نکلے،ارادہ جنگ کا ہوتا تو مکہ اور مدینہ میں امام عالی مقام جہاد کا اعلان کرتے تو لاکھوں جاں نثار سر بکف کشاں کشاں چلے آتے،مگر نواسہ رسولؐ کے ذریعے اللہ پاک نے دنیا والوں اور اہل اسلام کو کئی سبق دینا تھے اور یہ قافلہ سخت جاں جس کا ہر فرد پاکیزہ و مطہر تھا اپنی منزل کو رواں رہا۔
کیا امام عالی مقام نہ جانتے تھے کہ اگر معرکہ ہواتو یہ 72نفوس اطہر جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے مقابلہ نہ کر سکیں گے مگر انہوں نے اپنے نانا کے دین کے پیروکاروں کو درس دیا کہ جب معرکہ حق و باطل ہو تو عددی اکثریت کوئی معنی نہیں رکھتی،سامنے تیر و تفنگ سے لیس ہزاروں افراد بھی ہوں تو چند نفوس پاک بھی ان پر بھاری پڑ سکتے ہیں اور وقت نے یہ حقیقت ثابت بھی کر دی،اگر چہ یزیدی فوج کربلامیں بظاہر فتح یاب دکھائی دیتی ہے اور اہل بیت امام سمیت مظلومانہ شہید نظر آتے ہیں مگر اصل میں فتح یاب اور کامران اہلبیت اطہار ہی ٹھہرے،ظلم کیخلاف حق کی آواز آج بھی حسین اور ان کے جاں نثار ہیں،باطل فوج کے شرکاء سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ اہل اسلام اپنے بچوں کا نام یزید،شمر کے نام پر نہیں رکھتے،اور قافلہ حسین میں شامل افراد کے نام عقیدت و احترام سے لئے جاتے ہیں۔
سیدنا امام عالی مقام نے جب دیکھا کہ ان کے نانا کے دین میں ایسی بدعتیں شامل کی جا رہی ہیں جو مستقبل میں امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیر دیں گی تو آپ نے گھر سے نکلنے کا عزم کیا،یہ شہدائے کربلاکی قربانی کا دوسرا سبق ہے،کہ جب دیکھو دین میں اللہ جل شانہ کے احکامات اور نبی پاک کی تعلیمات سے ہٹ کر روایات کو فروغ دیا جا رہا ہے تو گھروں میں بیٹھ رہنا حرام ہے،خلافت دین اسلام کا انسانیت کیلئے ایک تحفہ عظیم تھا،اس نظام نے تاریخ انسانی میں انسانیت کی بھلائی کیلئے وہ روشنی بکھیری جس کی نظیر نہیں ملتی مگر شخصی حکمرانی،جاہ و حشم،داد و دہش،دنیاوی لذتوں،آرام و آسائش کے دلدادہ لوگوں نے اس نظام کی کایا ہی لپیٹ دی،اور مسلمان بادشاہی کی گود میں جا گرے،آج تک اگر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا قیام دوبارہ عمل میں نہ آ سکا تو دراصل یہ اہل اسلام سے قدرت کا انتقام ہے،جنہوں نے اہل بیت کو اس وقت تنہا چھوڑا جب وہ انسانیت کو بچانے نکلے اور شہید بھی انہوں نے کیا جو مسلمان ہونے کے دعویدار تھے،ان سے انتقام نہ لینا قدرت کو پسند نہ آیا اور مسلمان خلافت سے محروم کر دیئے گئے۔
مگر کیا زنجیرزنی،سینہ کوبی کر کے شہداء کربلاکا وہ قرض اتارا جا سکتا ہے جو نوع انسانی کے سر پر آج بھی واجب الادا ہے،اگر چہ یہ اپنے جذبات کے اظہار کا ایک سلیقہ قرینہ ہے،احتجاج کا اپنا انداز ہے مگر اصل ضرورت امام عالی مقام کی فکر اور کردار کو اپنانے کی ہے،باطل کے سامنے پورے قد سے کھڑا ہونے اور حق کا ساتھ دینا اصل فکر حسینی ہے،غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا بھی فکر حسینی کا پیغام ہے،یزید کی خلافت باطل تھی تو امام نے ��یعت نہ کی اور اس انکار کو چھپانے کے بجائے کھل کر مخالفت کی اور میدان عمل میں اترے،اس کے باوجود کہ اسباب نہ ہونے کے برابر تھے،مگر باطل کی سطوت و حشمت کو خاطر میں لائے نہ باطل کی اکثریت سے ڈرے،اور نہ اپنا عقیدہ و مسلک بیان کرنے سے باز آئے،یعنی سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور پورا کنبہ شہید کرا لیا،یہ تھی عزیمت اور شان نواسہ رسولؐ اور ان کے ساتھیوں کی۔
نماز کی بروقت ادائیگی کا سبق بھی ہمیں کربلاسے ملتا ہے،شہید عزیز و اقارب بچوں کے جنازے اٹھاتے اور سامنے لاکھوں کی دشمن حق فوج کی موجودگی کے باوجود امام نے دشمن کو پیغام بھجوایا نماز کا وقت ہے ادا کرنے دو مگر شمر نے کہا یہ نماز کا وقت نہیں تو امام عالی مقام یہ کہہ کر نماز ادا کرنے میں لگ گئے کہ تم اپنا کام کرو ہم اپنا کام کرتے ہیں۔
آسمان چرخ نیلی فام نے یہ منظر نہیں دیکھا ہو گا کہ قافلہ مختصر حق و صداقت اور سامنے ہزاروں کا تیر و تفنگ سے لیس لشکر مگر جو بظاہر کمزور ہیں وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور جو طاقت کے نشے میں سرشار ہیں وہ ڈرے سہمے ہیں،ایسا بھی کبھی نہ ہواکہ ایک لشکر جرار کے مقابلے میں نہتے افراد ڈٹ کر کھڑے ہوں،ان کے چہرے تمتما رہے ہوں، اطمینان ہو،اللہ کی رضا پر راضی ہوں،اور ہزاروں کا لشکر یہ بھی نہ سوچے کہ مقابلہ میں نواسہ رسولؐ اور اہل بیت عظام ہیں،وہ بیبیاں سورج چاندتارے بھی جن سے حیاکرتے ہوں وہ خیموں میں بیٹھی ہیں اور جب یزیدی لشکر اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ٹھہرا تو ان بیبیوں کو رسیوں سے باندھ کر توہین و تذلیل کی گئی،مگر آج بھی روشنی کا استعارہ، امام اور ان کے ساتھی ہیں اور یزید ذلت میں ڈوبا ایک نفرت انگیز شخص۔
اس المناک اور اندوہناک سانحہ پر اہل حق قیامت تک احتجاج جاری رکھیں گے،سیدنا حسین قیامت تک حق و صداقت کا علم اور یزید ظلم جبر کا نشان رہے گا،عقیدت اور محبت شہداء کربلاکے حصے میں آئی اور نفرت و حقارت یزید اور اس کے ساتھیوں کا مقدر بنی،مگر امام عالی مقام کی قربانی کو ثمرآور کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم تمام اہل اسلام کردار حسینی کی روشنی سے اپنی زندگی کو منور کریں،باطل کے مقابلے میں کھڑا ہونے اور حق کا ساتھ دینے کی عملی کوشش کریں،مظلوم کی آواز بنیں، ظالم کے ہاتھ روکیں،جھوٹ،بد دیانتی،بد عہدی سے نجات حاصل کریں اور وقت مقررہ پر نماز کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔
Source link
0 notes