#دیار
Explore tagged Tumblr posts
Text
جو اتر کے زینۂِ شام سے تیری چشم ِخوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ میرے بام و در کو سجا گئے
یہ عجیب کھیل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے وہ تیری زبان پر آگئے
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
وہ چراغ ِجاں کبھی جس کی لو نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیری بیوفائی کے وسوسے اسے چپکے چپکے بجھا گئے
وہ تھا چاند شام ِوصال کا کہ تھا روپ تیرے جمال کا
میری روح سے میری آنکھ تک کسی روشنی میں نہا گئے
یہ جو بندگان ِنیاز ہے یہ تمام ہیں وہ لشکری
جنہیں زندگی نے اماں نہ دی تو تیرے حضور میں آ گئے
تیری بے رخی کے دیار میں میں ہوا کے ساتھ ہَوا ہوا
تیرے آئینے کی تلاش میں میرے خواب چہرہ گنوا گئے
تیرے وسوسوں کے فشار میں تیرا شرار ِرنگ اجڑ گیا
میری خواہشوں کے غبار میں میرے ماہ و سال ِوفا گئے
وہ عجیب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشتِ خواب میں دور تک کوئی باغ جیسے لگا گئے
میری عمر سے نہ سمٹ سکے میرے دل میں اتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے تیری اک نگاہ میں آ گئے
- امجد اسلام امجد
15 notes
·
View notes
Text
تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا
مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو بس اپنے گھر کا خیال رکھنا
اجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی
اب اس میں اگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا
دیار الفت میں اجنبی کو سفر ہے در پیش ظلمتوں کا
کہیں وہ راہوں میں کھو نہ جائے ذرا دریچہ اجال رکھنا
بچھڑنے والے نے وقت رخصت کچھ اس نظر سے پلٹ کے دیکھا
کہ جیسے وہ بھی یہ کہہ رہا ہو تم اپنے گھر کا خیال رکھنا
یہ دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے یا خزاں بہاروں کی گھات میں ہے
نصیب صبح عروج ہو تو نظر میں شام زوال رکھنا
کسے خبر ہے کہ کب یہ موسم اڑا کے رکھ دے گا خاک آذرؔ
تم احتیاطاً زمیں کے سر پر فلک کی چادر ہی ڈال رکھنا
4 notes
·
View notes
Text
کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در
یہ وہی دیار ہے دوستو! جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر
میں بھٹکتا پھرتا ہوں سے دیر سے یو نہی شہر شہر نگر نگر
کہاں کھو گیا مرا قافلہ کہاں رہ گئے مرے ہم سفر
جنھیں زندگی کا شعور تھا انھیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینۂ خام پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر
مری بیکسی کا نہ غم کرو مگر اپنا فائدہ سوچ لو!
تمہیں جس کی چھاؤں عزیز ہے میں اسی درخت کا ہوں ثمر
یہ بجا کہ آج اندھیری ہے زرا رت بدلنے کو دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خشک ہے ،وہی شاخ لائے گی برگ و بر
ناصر کاظمی
4 notes
·
View notes
Text
دڤێ پارچێ دا جونگکووك هەول ددان کۆ یونگی ر��گاربکەت ژ ناڤ ئاگری دگەل هندێ کۆ وی شیا رزگار بکەت و بینت ژ ناڤدا لێ ویبتوونێ Save Me دبێژت یونگی یێ مری ... جونگکووك د دەمێ خودا نەگەهشتی یێ کۆ رزگار ب کەت ...
و ل ڤێرێ دیار دبت جونگکووك خۆ کوشت ژبەر کۆ هەست ب گونەهێ دکر ؟
ئێك ژ تێبینی یێن جونگکووك د HYYH دا ♪
• ئەز رابیم و چووم ل سەر ئاڤاهیەکێ گەلەکێ بلند و من ب شێوەکێ ترس باژێر د دیت و ئەز هێشتا بەردەوام ب سەرکەڤتم بۆ سەر ئاڤاهی بۆ بلندترین جھ و من دەست ب پەیاسان ل سەر کر و ها یێ خاڤ دبم و هەست پێدکەم دێ پێن من ژی خیانەتێ ل من کەن و هێدی هێدی یێ هەڤسەنگی یا خۆ یێ ژ دەست ددەم من هزرا خۆ کر ئەگەر ب تنێ ب ئێك پێنگاڤێ بمرم ؟ ئەگەر مرم ئەرێ دێ هەمی تشت دێ ب دوماهی هێن ؟ مادێ کەسەك مینت بێ من و هەست ب نەخووشی یێ کەت ؟
____________________________________________________________________
• وێنێ بەرگێ ئەلبوومێ زنجیرا love yourself
- بەرگێ love yourself wonder ێ گولەکا گرتی یە
- بەرگێ ئەلبوومێ love yourself hear ژی د ڤەکری نە !
ئەڤە ژی ژبەر ھندێ چونکی رویدانێن یوفوریا رویدان ژبەری گول بهێتە گرتن واتە ژ بەری و love yourself پشتی وێ ژی هەروەسان .
★★★
بەلێ ب هیڤی یا وێ چەندێ وە دەمێن خووش دگەل EUPHORIA بوراند بن و هیڤی یاوێ چەندێ پتر ئەم گرنگی یێ ب ناڤەروکا هەر نامەکێ ب دەین .. 5 سال ب سەر EUPHORIA ڤە تێپەرین من فەرزانی کۆ تشتەکێ بچیك دەربارەی وێ دروست بکەم , EUPHORIA دنوکەدا پێدڤی ب پشتەڤانا یە دا کۆ ب مینیت زیندی ب هیڤی یا وێ چەندێ هەمی دەما پشتەڤانی و حەژێکرنێ پێشکێشی جونگکووك بکەن وب مینن ساخلەم 💜
نڤێسین و وەرگێڕان // هــــیــونـــگ
2 notes
·
View notes
Text
Please listen to Diar (دیار), they're an awesome band who play with Syrian, Andalusian, and flamenco music
youtube
enough about taylor swift already. reblog and tag the smallest, least known artist you listen to
#i fell in love with them at tirgan festival back in 2018#the smallest artists i know i dont even know their names theyre small local bands i was never able to find again lol
32K notes
·
View notes
Text
نت سنتور آهنگ گریه نکن از عارف
نت سنتور آهنگ گریه نکن از عارف
نت دونی , نت سنتور , نت متوسط سنتور , نت سنتور عماد رام , notdoni , نت های سنتور عماد رام , نت های سنتور , سنتور , عماد رام , نت عماد رام , نت های عماد رام , نت های گروه نت دونی , نت های متوسط سنتور , نت سنتور متوسط
پیش نمایش نت سنتور آهنگ گریه نکن از عارف
نت سنتور آهنگ گریه نکن از عارف
دانلود نت سنتور آهنگ گریه نکن از عارف
خرید نت سنتور آهنگ گریه نکن از عارف
جهت خرید نت سنتور آهنگ گریه نکن از عارف روی لینک زیر کلیک کنید
نت سنتور آهنگ گریه نکن از عارف
نت سنتور گریه نکن از عارف
تنظیم نت سنتور » گروه نت دونی
آهنگساز: عماد رام
همچنین جهت مشاهده نت پیانو گریه نکن از عارف می توانید اینجا کلیک کنید .
متن آهنگ گریه نکن از عارف
به من نگو گریه نکن این لحظه های عمرمه که قطره قطره آب میشه وقتی میگی دوست دارم انگار زمین و آسمون رو سر من خراب میشه
بیزارم از عشق بیمارم از عشق من عاشق تنهایی و این خلوت تنهایی خویشم از من گذشته دیوونه بازی دلبسته ی میخونه و این حالت شب های خویشم
جز غم ندیدم در سراب زندگانی نقش فریبی بوده آن شور جوانی کو آن بهار و قصه های عاشقانه من از بهار خود ندیدم جز خزانی من نغمه ی باران سردم تصویری از فریاد دردم وامانده ای در غربت تاریکی فردای خویشم درمانده ای با این دل دیوونه ی شیدای خویشم
ای خالق یکتای من پیدای نا پیدای من در این نیاز بی نیازی ای خدا تو یار من باش من گمشده در نیمه راه عمر خود غمخوار من باش در این دیار بی کسی آواره از مأوای خویشم از سرگذشتم خسته ام در ماتم دنیای خویشم
نت سنتور گریه نکن عارف
به من نگو گریه نکن این لحظه های عمرمه که قطره قطره آب میشه وقتی میگی دوست دارم انگار زمین و آسمون رو سر من خراب میشه
بیزارم از عشق بیمارم از عشق من عاشق تنهایی و این خلوت تنهایی خویشم از من گذشته دیوونه بازی دلبسته ی میخونه و این حالت شب های خویشم
نت سنتور عارف گریه نکن
کلمات کلیدی : نت دونی , نت سنتور , نت متوسط سنتور , نت سنتور عماد رام , notdoni , نت های سنتور عماد رام , نت های سنتور , سنتور , عماد رام , نت عماد رام , نت های عماد رام , نت های گروه نت دونی , نت های متوسط سنتور , نت سنتور متوسط
#نت دونی#نت سنتور#نت متوسط سنتور#نت سنتور عماد رام#notdoni#نت های سنتور عماد رام#نت های سنتور#سنتور#عماد رام#نت عماد رام#نت های عماد رام#نت های گروه نت دونی#نت های متوسط سنتور#نت سنتور متوسط
0 notes
Text
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں 🥀
0 notes
Text
غیرملکی قرض، مال مفت دل بے رحم
موجودہ حکومت سے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ IMF سے قرضہ منظورہوتے ہی وہ بے دریغ اپنے اخراجات بڑھا دے گی۔ وہ صبح وشام عوام سے ہمدردی اور انھیں ریلیف بہم پہنچانے کے دعوے توبہت کرتی رہتی ہے لیکن عملاً اس نے انھیں کوئی ایسا بڑا ریلیف نہیں پہنچایا ہے جیسا اس نے اپنے وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کو صرف ایک جھٹکے میں پہنچا دیا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ ہر بار عوام کو یہ تسلیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ آپ اگلے چند ماہ میں حکومتی اخراجات کم ہوتے دیکھیں گے۔ اُن کے مطابق حکومت جسے اپنے غریب عوام کا بہت خیال ہے وہ بہت جلد سرکاری اخراجات کم کرے گی، مگر ہم نے پچھلے چند ماہ میں اخراجات کم ہوتے تو کیا بلکہ بے دریغ بڑھتے ہوئے ہی دیکھے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نام نہاد مسیحا عوام سے تو ہر وقت قربانی دینے کی درخواستیں کرتے ہیں لیکن خود وہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ سارے کے سارے خود ساختہ عوامی غم خوار اللہ کے فضل سے کسی غریب طبقہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔
اِن میں بہت سے بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار لوگ ہیں۔ پشت درپشت اِن کی جاگیریں ان کی اولادوں میں بٹتی رہی ہیں۔ اُن کی زمینوں کا ہی تعین کیا جائے تو تقریباً آدھا پاکستان انھی لوگوں کی ملکیت ہے۔ اِنکے گھروں میں وہ فاقے نہیں ہو رہے جن سے ہمارے بیشتر عوام دوچار ہیں۔ ملک میں جب بھی کوئی بحران آتا ہے تو یہ سب لوگ ترک وطن کر کے دیار غیر میں جا بستے ہیں۔ جن لوگوں سے یہ ووٹ لے کر پارلیمنٹ کے منتخب ارکان بنتے ہیں انھیں ہی برے وقت میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے دن سے لے کر آج تک اس ملک میں جب جب کوئی بحران آیا ہے قربانیاں صرف غریب عوام نے ہی دی ہیں۔مالی مشکلات پیدا کرنے کے اصل ذمے دار یہی لوگ ہیں جب کہ قربانیاں عوام سے مانگی جاتی ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور اشیائے خورونوش کی گرانی عوام کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔ IMF کی کڑی شرطوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے اور عالمی مالی ادارے جب کوئی قرضہ منظور کر دیتے ہیں تو شاہانہ خرچ اِنہی خیر خواہوں کے شروع ہو جاتے ہیں۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی اہل کاروں کی تنخواہوں میں یکمشت اتنا بڑا اضافہ کرنے کی بھلا ایسی کیا بڑی ضرورت آن پڑی تھی کہ پچاس فیصد نہیں سو فیصد نہیں چار سو سے لے کر نو سو فیصدی تک ایک ہی چھلانگ میں بڑھا دی گئی ہیں۔ جب کہ ان بھاری تنخواہوں کے علاوہ دیگر مراعات اور بھی دی جارہی ہیں۔ ان کے گھر کے اخراجات بھی حکومت کے خزانوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔ بجلی، گیس اور ٹیلیفون تک کے بلوں کی ادائیگی عوام کے پیسوں سے کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں حاضری لگانے کے الاؤنس بھی اس کے علاوہ ملتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کیفے ٹیریا میں انھیں لنچ اور ڈنر بھی بہت ہی ارزاں داموں میں ملا کرتے ہیں۔ اِنکے سفری اخراجات بھی عوام کے ٹیکسوں سے پورے کیے جاتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ انھیں اتنی بڑی بڑی تنخواہوں سے نوازا گیا ہے۔ IMF نے ابھی صرف ایک ملین ڈالر ہی دیے ہیں اور ہمارے مسیحاؤں نے فوراً ہی اس میں سے اپنا حصہ سمیٹ لیا ہے، مگر جب یہ قرض ادا کرنے کی بات ہو گی تو عوام سے وصول کیا جائے گا۔
حکومت نے تو یہ کام کر کے اپنے ساتھیوں کی دلجوئی کر دی ہے مگر ہمیں یہ توقع نہ تھی کہ اپوزیشن کے ارکان اس کی اس حرکت پر خاموش رہیںگے۔ پاکستان تحریک انصاف جو ہر حکومتی کام پر زبردست تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے اس معاملے میں مکمل خاموشی طاری کیے ہوئے ہے۔ اس بہتی گنگا میں اس نے بھی اشنان کرنے میں بڑی راحت محسوس کی ہے اور مال غنیمت سمجھ کر جو آتا ہے ہنسی خوشی قبول کر لیا ہے۔ یہاں اسے اپنے غریب عوام کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں ��ٓیا۔ کوئی منحنی سی آواز بھی پارلیمنٹ میں بلند نہیں کی۔ غریب عوام کو ابھی تک اس حکومت سے کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا ہے۔ مہنگائی کی کمی کے جو دعوے کیے جارہے ہیں تو زمینی حقائق کے بالکل برخلاف ہیں، کسی شئے کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔ جس آٹے کی قیمت کم کیے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ ایک بار پھر پرانی قیمتوں کو پہنچ چکا ہے۔ عوام کی سب بڑی مشکل بجلی اورگیس کے بلز ہیں۔اس مد میں انھیں ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا ہے۔
سردیوں میں صرف تین ماہ کے لیے جو رعایتی سیل حکومت نے لگائی ہے۔ وہ بھی حیران کن ہے کہ جتنی زیادہ بجلی خرچ کرو گے اتنا زیادہ ریلیف ملے گا۔ یعنی گزشتہ برس اِن تین سال میں عوام نے جتنی بجلی خرچ کی ہے اس سے زیادہ اگر وہ اس سال اِن تین مہینوں میں خرچ کریں گے تو حکومت اس اضافی بجلی پر کچھ ریلیف فراہم کریگی۔ سبحان اللہ سردیوں میں عام عوام ویسے ہی کم بجلی خرچ کرتے ہیں انھیں زیادہ بجلی خرچ کرنے پر اکسایا جا رہا ہے۔ یہ ریلیف بھی انھی امیروں کو ملے گا جو سردیوں میں الیکٹرک ہیٹر چلاتے ہیں۔ غریب عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس نام نہاد ریلیف کی تشہیراخبارات میں بڑے بڑے اشتہاروں کے ذریعے کی جارہی ہے جنھیں دیکھ کر عوام قطعاً خوش نہیں ہو رہے بلکہ نالاں اور سیخ پا ہو رہے ہیں ۔ خدارا عقل کے ناخن لیں اورصحیح معنوں میں عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کی کوشش کریں۔ غیرملکی قرضوں سے انھیں نجات دیں اور کچھ دنوں کے لیے سکھ کا سانس لینے دیں۔ ابھی معیشت پوری طرح بحال بھی نہیں ہوئی ہے اور قرض کو مال مفت سمجھ کر اپنے ہی لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسے اس بے رحمی سے خرچ کیا جارہا ہے جیسے پھر کبھی موقع نہیں ملے گا۔ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کا سویا ہوا ضمیراس شاہانہ اخراجات پر نہیں جاگا۔
IMF جو حکومتی ہر اقدام پر کڑی نظر رکھتی ہے وہ بھی نجانے کیوں اس غیر ضروری فراخدلی پر خاموش ہے۔ وہ دراصل چاہتی بھی یہی ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام اسی طرح قرض لینے کے لیے ہمیشہ اس کے محتاج بنے رہیں اور وہ چند ملین قرض دینے کے بہانے ان پر پابندیاں لگاتی رہے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتی کہ ہم اس کے چنگل سے آزاد ہو کر خود مختار اور خود کفیل ہو پائیں۔ اس کی ہشت پالی گرفت ہمیں کبھی بھی اپنے شکنجہ سے نکلنے نہیں دے گی۔ یہ سی پیک اور معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر سب فریب نظر ہیں۔ ہم کبھی بھی اِن سے فیضیاب نہیں ہو پائیںگے۔ ہمیں برباد کرنے کے لیے تو اُن کے پاس بہت سے آپشن ہیں۔ کبھی سیاسی افراتفری اور کبھی منتخب حکومت کی اچانک تبدیلی۔ کبھی ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیاں تو کبھی سی پیک رول بیک کرنے کی کوششیں۔ اسی طرح اور ممالک نے بھی ایسے ہی کئی MOU سائن کیے ہیں لیکن وہ بھی صرف کاغذوں پر موجود ہیں ،عملاً کوئی قدم بھی ابھی نہیں بڑھایا ہے۔ حالات جب اتنے شکستہ اور برے ہوں تو ہمیں اپنا ہاتھ بھی ہولہ رکھنا چاہیے۔ پڑوسی ملک بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے کہیں زیادہ ہیں لیکن وہاں کے پارلیمنٹرین کی تنخواہیں اور مراعات ہم سے بہت ہی کم ہیں۔ یہی سوچ کر ہمارے حکمرانوں کو احساس کرنا چاہیے کہ ہم کیونکر اتنے شاہانہ خرچ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر منصور نورانی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
کیستی که من اینگونه به جد در دیار رویاهای خویش با خیال تو درنگ میکنم؟
•احمد شاملو
0 notes
Text
زندگینامه سیمین دانشور از تولد تا مرگ
سیمین دانشور، نامی که در تاریخ ادبیات ایران جایگاه ویژهای دارد، به عنوان اولین زن ایرانی که داستاننویسی حرفهای را آغاز کرد، شناخته میشود. اما سیمین دانشور کیست و چرا آثار او اینچنین تاثیرگذار است؟ او زنی از دیار شیراز بود که در سال ۱۳۰۰ به دنیا آمد و در خانوادهای فرهنگی پرورش یافت. دانشور با ورود به دانشگاه تهران ��ر رشته ادبیات فارسی، مسیر خود را به سمت ادبیات و فرهنگ ایران هموار کرد و بعدها با تحصیل در دانشگاه استنفورد، دانش خود را به سطحی جهانی رساند.
0 notes
Text
از دیار خیام
به دیار خیام
جرعهای نوشیدن از احساسات و لطافت در دنیای پیچ و مهرهها هم غنیمت است.
نیم روزی غنی از شعر و کلمات و به دور از دستورات هم غنیمت است.
تراوش ذرهای هنر حتی اگر چیزی از آن ندانم هم غنیمت است.
1 note
·
View note
Text
غَم ہے یا خُوشی ہے تُو
میری زندگی ہے تُو
آفتوں کے دَور میں
چَین کی گھڑی ہے تُو
میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تُو
مَیں خزاں کی شام ہُوں
رُت بہار کی ہے تُو
دوستوں کے دَرمیاں
وجۂ دوستی ہے تُو
میری ساری عُمر میں
ایک ہی کمی ہے تُو
مَیں تَو وُہ نہِیں رہا
ہاں، مگر وُہی ہے تُو
ناصرؔ اِس دیار میں
کِتنا اَجنبی ہے تُو
- ناصرؔ کاظمی
21 notes
·
View notes
Text
ادھر یہ حال کہ چھونے کا اختیار نہیں
ادھر وہ حسن کہ آنکھوں پہ اعتبار نہیں
میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں
مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں
تم اپنی حالت غربت کا غم مناتے ہو
خدا کا شکر کرو مجھ سے بے دیار نہیں
میں سوچتا ہوں کہ وہ بھی دکھی نہ ہو جائے
یہ داستان کوئی ایسی خوش گوار نہیں
تو کیا یقین دلانے سے مان جاؤ گے؟
یقیں دلاؤں کہ یہ ہجر دل پہ بار نہیں
قدم قدم پہ نئی ٹھوکریں ہیں راہوں میں
دیار عشق میں کوئی بھی کامگار نہیں
یہی سکون مری بے کلی نہ بن جائے
کہ زندگی میں کوئی وجہ انتظار نہیں
خدا کے بارے میں اک دن ضرور سوچیں گے
ابھی تو خود سے تعلق بھی استوار نہیں
گلہ تو مجھ سے وہ کرتا ہے اس طرح جوادؔ
کہ جیسے میں تو جدائی میں سوگوار نہیں
جواد شیخ
2 notes
·
View notes
Text
ویدئوی سخنرانی ژیوار صداقت- موضوع سخنرانی: هنری رو به خاموشی، گذری بر جایگاه رنگرزی در کاشان، دیار بافته های رنگین- ۱۸ نوامبر ۲۰۲۴
youtube
View On WordPress
1 note
·
View note
Text
پی آئی اے کا عروج و زوال
بیرون ملک رہنے والے پاکستانی، ’’پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز‘‘ کے ساتھ ایک رومانس رکھتے تھے۔ جو شخص بھی بیرون ملک روانہ ہوتا یا پاکستان واپس جاتا تو پاکستانی پرچم بردار ائیر لائن کو ترجیح دیتا۔ دیار غیر میں ایئرپورٹ پر کہیں کونے میں بھی پی آئی اے کا کیبن دیکھتے تو وہیں ایک چھوٹا سا پاکستان آباد ہو جاتا۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ایک ہی اڑان میں یورپ اور کینیڈا سے مسافروں کو اپنی بانہوں میں بھرتی اور لاہور اسلام آباد ��ا کراچی میں انکے مطلوبہ ایئرپورٹ پر اتار دیتی۔ اگر کوئی شخص بیرون ملک مزدوری کرتے ہوئے وفات پا جاتا تو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ایک ہمدرد ادارے کی طرح اسکے سارے فرائض اپنے ذمہ لیتی اور اسکی میت کو پاکستان منتقل کرنے کے تمام انتظامات منٹوں میں طے پا جاتے۔ ایک طویل عرصہ تک پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن بیرون ملک رہنے والوں کیلئے ایک ماں کا کردار ادا کرتی رہی۔ پھر اس ایئرلائن کو نظر لگ گئی۔ محافظ، راہزن بن گئے۔ عروج سے زوال تک کا سفر ایسے بے ڈھنگے طریقے سے طے ہوا کہ آج اسکا نوحہ لکھتے ہوئے قلم بھی رو رہا ہے اور دل بھی بوجھل ہے۔
میں ان دنوں بیرون ملک سفر پر ہوں جس جگہ بیٹھتا ہوں پی آئی اے کا نوحہ شروع ہو جاتا ہے ہر پاکستانی کا دل پی آئی اے کے توہین آمیز اختتام پر انتہائی اداس ہے۔ جو مسافر ایک ہی اڑان میں دنیا کے کسی بھی کونے سے پاکستان پہنچ جاتے تھے آج انہیں پاکستان آنے کیلئے دربدر ہونا پڑتا ہے، پروازیں بدلنا پڑتی ہیں، کئی ملکوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے، سامان اتارنا اور چڑھانا پڑتا ہے اور جو کام پی آئی اے سات گھنٹوں میں سر انجام دے دیتی تھی آج وہ 12 گھنٹوں میں بھی بطریق احسن انجام نہیں پاتا۔ دیار غیر میں وفات پانے والوں کی میتیں جو ضروری کارروائی کے بعد پی آئی اے اپنے ذمے لے لیتی تھی آج اس میت کو کئی کئی دن سرد خانے کی نذر ہونا پڑتا ہے۔ اول تو کوئی ائیر لائن میت لانے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتی اور اگر کوئی تیار ہو بھی جائے تو اس کے اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ مرنے والے کی ساری جمع پونجی بھی لگا دی جائے وہ اخراجات پورے نہ ہو سکیں۔ مجبوراً پاکستانی کمیونٹی سے چندہ کر کے اپنے بھائی کی میت دیار غیر سے وطن بھیجی جاتی ہے اور وہ بھی کارگو کے ذریعے۔
ایک شخص کے خاندان کیلئے اس سے بڑی اذیت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو شخص ساری عمر دیار غیر کی خاک چھانتا رہا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے، انکے گھر بنانے، بچوں کی شادیاں کرنے کیلئے اپنی عمر صرف کر دی جب اسے مردہ حالت میں پاکستان آنا پڑا تو وہ مناسب طریقے کے بجائے ایک کارگو سامان کے ایک حصے کے طور پر پاکستانی ایئرپورٹ پر اترتا ہے۔ اخراجات کی تو بات چھوڑیں اصل بات تو عزت و وقار کی ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل کا پرچم دنیا کے ہر ایئرپورٹ پر لہراتا تھا آج وہ پرچم اندرون ملک بھی رسوا ہو رہا ہے، جس کے طیاروں پر غیر ملکی ایئر لائنز تربیت لیا کرتی تھیں آج ان طیاروں کی حالت ایسی ہے کہ شاید انہیں سڑکوں پر بھی نہ چلایا جا سکے۔ جو ادارہ غیر ملکی ایئر لائنوں کو فضائی میزبان تیار کر کے دیتا تھا آج وہاں پر ڈھنگ کے میزبان بھی دستیاب نہیں ، جس کے پائلٹ دنیا بھر کیلئے عزت و فخر کا نشان ہوا کرتے تھے آج ان کے ماتھے پر جعلی ڈگری کا جھوٹا داغ لگا کر پوری دنیا میں ان کا داخلہ ممنوع کر دیا گیا ہے۔
پی آئی اے کے زوال کا ہر دن پاکستانیوں کے دل زخمی کرنے والی داستان ہے، یہ کہانی لکھتے ہوئے انگلیاں فگار ہیں، کس کے ہاتھ پہ میں پی آئی اے کا لہو تلاش کروں۔ ایک ایسی ائیر لائن جسکے پاس کل 33 طیارے ہیں جن میں 17 اے 320، 12 بوئنگ 777 اور چار اے ٹی آر ہیں۔ جس کے مجموعی اثاثوں کی بک ویلیو (کتابی قیمت) تقریباً 165 ارب روپے اور 60 فیصد شیئرز کی مالیت تقریباً 91 ارب روپے بنتی ہے۔ جبکہ حکومت نے خریداروں کو راغب کرنے کے لیے کم از کم بولی 85 ارب روپے مقرر کر رکھی ہو، اس کی بولی محض دس ارب روپے لگانا بذات خود توہین آمیز اور ناقابل یقین ہے۔ ایک ایسی کمپنی جیسے ہوا بازی کا تجربہ ہی نہیں اس کو نیلامی کی بولی میں شامل کرنا کئی سوالات جنم دے رہا ہے۔ ’’غیر سیاسی‘‘ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، وزیر نجکاری جناب عبدالعلیم خان، وزیر خزانہ جناب محمد اورنگزیب کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ ہر قومی اثاثہ برائے فروخت نہیں ہوتا۔
ہم تو یہ توقع لگائے ہوئے تھےکہ ملکی معیشت کے اشاریے بہتر ہوں گے اور اسٹیل مل پی آئی اے جیسے ادارے پاؤں پر کھڑے ہوں گے۔ خدارا ملک کی سلامتی اور ملک کا امتیازی نشان بننے والے اداروں کو فروخت کرنے کے بجائے ان کی بحالی پر توجہ دیں۔ اگر صوبہ خیبرپختونخوا، صوبہ پنجاب اور پلاٹ بیچنے والی کمپنی یہ ادارہ چلانے کا دعویٰ کر سکتی ہے تو خود حکومت کیوں نہیں چلا سکتی۔ پی آئی اے بچائیں اور اسے چلائیں۔ امیگریشن حکام کی بدسلوکی اور بے توقیری کا نشانہ بننے والوں کے زخموں پر مرہم اسی صورت میں رکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن ایک مرتبہ پھر اڑان بھرے اور سبز ہلالی پرچم پوری دنیا میں لہرائے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
شبکه تلویزیونی جدید افغانستان در تبعید راه اندازی شد
سانهی «دیار» که از سوی جمعی از خبرنگاران در تبعید افغانستان، به منظور بازتاب واقعیتهای حیات سیاسی-اجتماعی این کشور و ایجاد بستری برای گفتوگوی مسئلهمحور اندیشهها بنیان نهاده شده است، امروز رسماً آغاز به فعالیت کرد.
«دیار» بههمتِ جمعی از خبرنگارانِ خبرهی افغانستان که مقیم در امریکا، اروپا، تاجیکستان و پاکستان هستند با تمرکز بر حادترین معضلات و چالشهای فراروی جامعهی افغانستان و تلاش برای واکاوی این معضلات و فراهمآوری افقی برای اندیشیدنِ دقیق و معنادار به این مسئلهها آغاز بهکار کرده است. «دیار» ارزشهای خود را آزادی، بیطرفی و کار معیاری خبرنگاری میخواند و تلاش دارد که روایتی آزاد و متفاوت از آنچه در…
0 notes