#دمے
Explore tagged Tumblr posts
Text
دمے کا مرض بچوں میں کیا مسائل پیدا کر سکتا ہے؟ ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی
(ویب ڈیسک) ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دمے کا مرض بچوں میں یادداشت کے مسائل سے تعلق اور مستقبل میں ڈیمینشیا ہونے کے خطرات رکھتا ہے۔ نئی تحقیق میں دمے کے مرض میں مبتلا بچوں میں یادداشت کی کارکردگی اس بیماری سے پاک بچوں کے مقابلے خراب دیکھی گئی۔ محققین کے مطابق یادداشت میں تنزلی دیر پا نتائج کا سبب ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ڈیمینشیا جیسی کیفیات میں مبتلا ہونے خطرات کو بڑھا سکتی ہے۔ دو برس…
0 notes
Text
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی
مارک ذکربرگ اور ایلون مسک کی شرکت اور قدرت کی ادھوری ادھوری تصویر۔۔
سعدیہ قریشی کے قلم سے۔
،،تصویر ادھوری رہتی ہے !
سعدیہ قریشی
رب کائنات نے زندگی کو ایسا ڈیزائن کیا ہے کہ تمام تر کامرانیوں اور کامیابیوں کے باوجود زندگی کی تصویر ادھوری رہتی ہے
کہیں نہ کہیں اس میں موجود کمی اور کجی کی ٹیڑھ ہمیں چھبتی ضرور ہے ۔
مارچ کے آغاز میں بھارت میں دنیا کی مہنگی ترین پری ویڈنگ تقریبات نے پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر بھی اس کا کافی چرچا رہا۔
بہت سی پوسٹیں ایسی نظر سے گزریں کہ ہمارے نوجوان آہیں بھرتے دکھائی دیے کہیں لکھا تھا بندہ اتنا امیر تو ہو کہ مارک زکر برگ اور ایلون مسک کو شادی پر بلاسکے ۔
یہ پری ویڈنگ تقریبات مکیش امبانی کے چھوٹے بیٹے اننت امبانی کی تھیں۔
مکیش امبانی ایشیا کے امیر ترین کاروباری اور دنیا کے امیر ترین لوگوں میں گیارویں نمبر پر ہیں وہ ریلائنس گروپ کے بانی اور چیئرمین ہیں.
پری ویڈنگ تقریبات کے لیے امبانی خاندان نے گجرات کے شہر جام نگر کو اربوں روپے لگا کر مہمانوں کے لیے سجایا۔
اس تقریب میں مہمانوں کو ڈھائی ہزار ڈشز ناشتے ،ظہرانے ۔شام۔کی چائے عشائیے اور مڈںائٹ ڈنر کے طور پر پیش کی گئیں
بھارت کے درجنوں اعلی درجے کے باورچی اور شیف جام نگر میں مہمانوں کے لیے کھانا بلانے کے لیے بنانے کے لیے بلائے گئےتین دنوں میں ایک ڈش کو دوسری دفعہ دہرایا نہیں گیا۔
تقریب میں تقریبا 50 ہزار لوگوں کے کھانے کا بندوبست کیا گیا۔
فلم انڈسٹری کے تمام سپر سٹار تقریب میں ناچتے دکھائی دئیے۔
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور ٹوئٹر خرید کر ایکس کی بنیاد رکھنے ایلون مسک اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ شریک ہوئے ٹرمپ کی بیٹی ایونکا ٹرمپ نے بھی خصوصی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی ۔
مہمانوں کو لانے اور لے جانے کے لیے چارٹر طیارے، مرسیڈیز کاریں اور لگزری گاڑیاں استعمال کی گئیں۔
2018 میں بھی مکیش امبانی نے اپنی بیٹی ایشا کی شادی پر اربوں ڈالرز خرچ کر کے پوری دنیا میں مہنگی شادی کا ایک ریکارڈ قائم کیا تھا ۔
اس شادی میں مہمانوں کو دعوت ناموں کے ساتھ سونے کی مالائیں بھی پیش کی گئی تھیں اور تمام مہمانوں کو شرکت کے لیے ان کو بھاری معاوضے دیے گئے تھے۔
ا خیال یہی ہے کہ اس تقریب میں بھی خاص مہمانوں شرکت کے لیے ریلائنس گروپ کی طرف سے ادائیگی کی گئی ہے ۔
دنیا بھر سے نامور گلیمرس شخصیات کی موجودگی کی چکاچوند کے باوجود اس تقریب کا مرکز نگاہ دولہا اننت امبانی اور دولہن رادھیکا مرچنٹ تھے ۔تقریب کے تین دن باقاعدہ طور پر ایک تھیم کے تحت منائے گئے ۔دولہا دلہن سے لے کر تمام لوگوں کے کپڑے اسی تھیم کے مطابق تھے تھیم کے مطابق تقریب کا کروڑوں روپے کا ڈیکور کیا گیا۔
تقریب کے دولہا اننت مبانی اس وجہ سے بھی خبروں کا موضوع رہے کہ وہ ایک خطرناک بیماری کا شکار ہیں۔ جس میں وزن بے تحاشہ بڑھ جاتا ہے۔ان کے ساتھ ان کی دھان پان سی خوبصورت دلہن دیکھنے والوں کو حیران کرتی
اننت امبانی کو شدید قسم کا دمے کا مرض لاحق ہے جس کا علاج عام دوائیوں سے ممکن نہیں ۔سو علاج کے لیے اسے سٹیرائیڈز دئیے جاتے رہے ہیں ۔ان میں سٹیرائیڈز کی ایک قسم کارٹیکو سٹیرائیڈز تھی سٹرائیڈز کی یہ قسم وزن بڑھنے کا سبب بنتی ہے ۔
اس سے انسان کی بھوک بے تحاشہ بڑھ جاتی ہے اتنی کہ وہ ہاتھی کی طرح کئی افراد کا کھانا اپنے پیٹ میں انڈیلنے لگتا ہے ۔
ایک طرف بھوک بڑھتی ہے تو دوسری طرف مریض کا میٹابولزم کچھوے کی طرح سست رفتار یوجاتا ۔میٹابلزم انسانی جسم کا وہ نظام ہے جس سے خوراک ہضم ہوتی ہے اور توانائی جسم کا حصہ بنتی ہے۔میٹابولزم اچھا ہو تو چربی توانائی میں تبدیل ہوتی ہے ۔
کارٹیکو سٹیرائڈز جسم کے نظام انہضام کو درہم برہم کردیتا ہے جسم کے اندر چربی جمع ہونے لگتی ہے اور جسم کئی طرح کی دوسری بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
مسلز پروٹین نہیں بنتی جس کے نتیجے میں جسم بے تحاشہ موٹا ہونے لگتا ہے
کورٹیکو سٹیرائڈز کے مزید برے اثرات یہ ہیں کہ جسم میں پانی جمع ہونے لگتا ہے جسے ڈاکٹری اصطلاح میں واٹر ریٹینشن کہتے ہیں اس واٹر اٹینشن کی وجہ سے بھی جسم موٹا ہونے لگتا ہے ۔
اسے قدرت کی ستم ظریفی کہیے کہ کھربوں ڈالر کے اثاثوں کے مالک مکیش امبانی کا لاڈلا اور چھوٹا بیٹا ایک ایسی بیماری کا شکار ہے جس کے علاج کے لیے سٹیرائڈز کی تباہی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا
۔اننت امبانی اپنی زندگی کے اوائل برسوں سے ہی اس بیماری کا شکار ہے اس کا اربوں کھربوں پتی باپ اپنے بیٹے کے بہلاوے کے لیے اپنے دولت پانی کی طرح بہاتا ہے۔
اس کے بیٹے کو ہاتھیوں سے لگاؤ ہوا تو مکیش امبانی نے ایکڑوں پر پھیلا ہوا ہاتھیوں کا ایک سفاری پارک بنادیا ۔اس سفاری پارک میں بیمار ہاتھیوں کے اسپتال ،تفریح گاہوں ،سپا اور مالش کا انتظام ہے ۔خشک میوہ جات سے بھرے ہوئے سینکڑوں لڈو روزانہ ہاتھیوں کو کھلا دیے جاتے ہیں۔
یہ صرف مکیش امبانی کے اپنے بیمار بیٹے کے ساتھ لاڈ کی ایک جھلک ہے۔
مگر وہ اپنی تمام تر دولت کے باوجود اپنے بیٹے کے لیے مکمل صحت سے بھرا ایک دن نہیں خرید سکا۔
اننت امبانی نے تقریب میں ہزاروں مہمانوں کے سامنے اپنے دل کی بات کرتے ہوئے کہا کہ میری زندگی پھولوں کی سیج نہیں رہی بلکہ میں نے کانٹوں کے راستوں پر چل کر زندگی گزاری ہے
اس کا اشارہ اپنی خوفناک بیماری کی طرف تھا اس نے کہا کہ میں بچپن ہی سے ایک ایسی بیماری کا شکار تھا جس میں میری والدین نے میرا بہت ساتھ دیا۔
جب اننت امبانی یہ باتیں کر رہا تھا تو کیمرے نے ایشیا کے سب سے امیر ترین شخص مکیش امبانی کے چہرے کو زوم کیا اس کے گہرے سانولے رنگ میں ڈوبے
خدو خال تکلیف سے پگھل رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے
تکلیف اور بے بسی کے آنسو کہ وہ کھربوں ڈالر کے اثاثوں کے باوجود اپنے بیٹے کے لیے مکمل صحت سے بھرا ہوا ایک دن نہیں خرید سکا۔
رب نے دنیا ایسی ہی بنائی ہے کہ تصویر ادھوری رہتی ہے ۔اسی ادھورے پن میں ہمیں اس ذات کا عکس دکھائی دیتا ہے جو مکمل ہے!
سو آئیں مکیش امبانی کی دولت پر رشک کرنے کی بجائے اپنی زندگی کی ادھوری تصویر پر اپنے رب کا شکر ادا کریں کیونکہ تصویر تو اس کی زندگی کی بھی مکمل نہیں!
(بشکریہ کالم 92 نیوز سعدیہ قریشی)
منقول
4 notes
·
View notes
Text
پتہ نہیں کہ کھڑکی ایجاد کرنے والا دمے کا مریض تها ،چور تھا یا کوئی عاشق تها
I don't know if the inventor of the window was an asthma patient, a thief or a lover.
19 notes
·
View notes
Text
’’گریٹ اسموگ آف لندن‘‘
لاہور اور پنجاب کے بہت سے شہر اس وقت جس خطرناک اسموگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے دنیا کے کئی ممالک اس کا سامنا کر چکے ہیں۔ اسموگ کے اندھیرے اور زہریلی فضا میں سانس لینے سے ان ملکوں کے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ 72 سال پہلے 5 دسمبر 1952 کی صبح جب لندن کے شہری سو کر اٹھے تو پورا شہر گہرے سیاہ دھوئیں میں ڈوب چکا تھا‘ حد نظر صفر ہو چکی تھی‘ گاڑیاں نظر نہیں آ رہی تھیں‘ ٹرین ڈرائیور پٹڑی نہیں دیکھ پا رہے تھے‘ طیاروں کے پائلٹس کو رن وے نظر نہیں آ رہا تھا۔ پورا شہر سیاہی مائل گہری دھند میں گم تھا‘ شام کے وقت پتہ چلا یہ دھند نہیں یہ گاڑھا سیاہ دھواں ہے۔ لوگ کھانس کھانس کر دم توڑنے لگے‘ لندن کی سماجی زندگی رک گئی‘ ٹریفک بند ہو گئی‘ ٹرینیں معطل ہو گئیں‘ فلائیٹس منسوخ ہو گئیں‘ دفتروں اور اسکولوں میں چھٹی ہو گئی‘ شاپنگ سینٹرز بند ہو گئے اور لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا ترک کر دیا‘ شہر میں سناٹ�� تھا۔ اسپتالوں میں مردے اور بیمار دونوں ایک بیڈ پر پڑے تھے‘ یہ صورتحال پانچ دن جاری رہی۔ نو دسمبر کی رات بارش شروع ہوئی اور فضا آہستہ آہستہ دھل گئی لیکن اموات کا سلسلہ جاری رہا۔
دسمبر کے آخر تک لندن کے بارہ ہزار لوگ انتقال کر چکے تھے جب کہ ڈیڑھ لاکھ لوگ دمے‘ آشوب چشم‘ ٹی بی اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار تھے۔‘ ماحولیات کے ماہرین نے تحقیقات شروع کر دیں‘ پتہ چلا 5 سے 9 دسمبر کے دوران لندن کی فضا میں روزانہ ہزار ٹن اسموگ پارٹیکلز پیدا ہوتے رہے‘ ان میں 140 ٹن ہائیڈرو کلورک ایسڈ‘ 14 ٹن فلورین کمپاونڈ اور 370 ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ شامل ہوتی تھی‘ یہ تمام مادے صحت کے لیے انتہائی مضر تھے۔ ماہرین نے سوچنا شروع کیا کہ یہ تمام پارٹیکلز آئے کہاں سے تھے؟ پتہ چلا یہ سال ہا سال کی غلطیوں، نااہلیوں، نالائقیوں اور کم علمی کا دھواں تھا۔ یہ سلسلہ 1200ء میں شروع ہوا تھا۔ سات سو برسوں میں لندن شہرکی آبادی میں دس گناہ اضافہ ہو گیا ہے‘ شہر کے اردگرد گھنے جنگل کٹ گئے‘ ندیاں اور جھیلیں ختم ہو گئیں‘ لوگ گاؤں چھوڑ کر لندن شہر میں آ گئے‘ کھیت کھلیانوں کی ج��ہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئیں‘ صنعتی انقلاب آیا تو شہر اور گرد نواح میں ہزاروں فیکٹریاں لگ گئیں‘ کوئلے سے چلنے والی ہزاروں فیکٹریاں اور پاور پلانٹ شہر کی فضا میں دھواں گھول رہے تھے۔
ٹرین سروس شروع ہوئی‘ ٹرام آئی‘ موٹرگاڑیاں آئیں‘ سب کا دھواں شہر کی فضا میں شامل ہونے لگا۔ سردیوں میں گھروں کو گرم کرنے کے لیے پتھر کا کوئلہ جلایا جانے لگا، ہر گھر کی چمنیوں سے نکلنے والا یہ زہریلا دھواں بھی فضا میں شامل ہو گیا۔ تعمیرات تیزی سے شروع ہوئی عمارتوں کی تعمیر کے لیے اینٹوں کے بھٹوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ لندن کی فضا آلودہ ہوتی چلی گئی‘ درخت کم ہونے سے ہوا میں آکسیجن کم ہو گئی‘ یہ سلسلہ چلتے چلتے 1952 تک پہنچ گیا‘ سردی شروع ہوئی‘ لوگوں نے اپنی انگیٹھیوں میں کوئلہ جلایا، لاکھوں ٹن دھواں پیدا ہوا‘ یہ دھواں فضا میں پہلے سے موجود آلودگیوں میں شامل ہو گیا۔ دسمبر کی سردی میں جب دھند آئی تو یہ آلودگی اس میں شامل ہو کر گہری‘ دبیز اور سیاہ گیس میں تبدیل ہو گئی اور اس کی تہہ پورے شہر اور گردنواح کی فضاء پر جم گئی۔ یہ گیس پانچ دن شہر کے اوپر چھائی رہی اور گلی محلوں، سڑکوں ، پارکوں میں گھومتی رہی۔ ماہرین نے اس دھند کو اسموگ اور فاگ دو لفظ ملا کر ’’اسموگ‘‘ کا نام دے دیا اور لندن کے اس ’’سانحے کو گریٹ اسموگ آف لندن‘‘ قرار دے دیا۔
سرور منیر راؤ
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Photo
دمے کے مریض کےلیے ’’ان ہیلر‘‘ کااستعمال جائزہے سوال ۴۱۴: ضیق النفس (دمہ) کے مریض کے لیے روزے کی حالت میں ان ہیلر استعمال کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے، کیا اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟[: ان ہیلر استعمال کرنے سے کوئی چیز معدے تک نہیں پہنچتی، لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ روزے کی حالت میں ان ہیلر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، کیونکہ اس کے استعمال سے دوائی کے اجزا معدہ تک نہیں پہنچتے اس بناء پر کہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جو اڑ جاتی، دھواں بنتی اور ختم ہوجاتی ہے اور اس کا کوئی جز معدے تک نہیں پہنچتا، لہٰذا حالت روزہ میں اسے استعمال کرنا جائز ہے، اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۸۶ ) #FAI00336 ID: FAI00336 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
بلغمی کھانسی اور دمہ کا گھریلو ٹوٹکوں سے علاج
بلغمی کھانسی اور دمہ کا گھریلو ٹوٹکوں سے علاج انجیر کھانسی و دمہ میں مفید انجیر بلغم خارج کرنے میں مدد دیتی ہے۔ کھانسی اور دمہ میں اسکے استعمال سے فائدہ ہوتاہے۔ چھوہارہ سے علاج چھوہارہ اور ادرک ،پان میں تھوڑا تھوڑا رکھ کر کھانے سے بلغمی کھانسی اور دمے میں افاقہ ہوتا ہے۔ ایک وقت میں پانچ سے زیادہ چھوہارے اور ادرک کے ٹکڑے نہ کھا ئیں۔ سونف سے علاج نصف رتی سونف کو منہ میں رکھ کر چبائیں او ر اسکے رس…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا سویابین سے دمے کی شدت کم ہوسکتی ہے؟
کیا سویابین سے دمے کی شدت کم ہوسکتی ہے؟
کیا سویابین سے دمے کی شدت کم ہوسکتی ہے؟جاپانی سائنسدانوں نے چوہوں پر تجربات سے معلوم کیا ہے کہ خمیر شدہ سویابین کی غذائی مصنوعات سے دمے کی علامات اور شدت میں کمی آتی ہے، تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان نتائج کی انسانوں میں تصدیق ہونا باقی ہے۔تجربات کے دوران چوہوں کو خمیری سویابین سے بنا ہوا ایک غذائی سپلیمنٹ کھلایا گیا جو ’’اِمیوبیلنس‘‘ کے نام سے دستیاب ہے۔اس سپلیمنٹ میں ’آئسوفلیوونز‘…
View On WordPress
0 notes
Text
اے دَ ګلو څا نګی ستا ځوانی دِ تل رنګینه وی
oh the branch of flower, i wish your youth shines on forever
ما غوندۍ زړه ستړے به دِ سوري ته دمے کوۍ
a man with a tired heart like me can rest in your shadow.
#pashto#lit#pashto-literature#pashto lines#ajmal khattak poetry#ajmal khattak#pashto shayari#pashto lyrics
53 notes
·
View notes
Text
لوگ دمے، دل کے دورے اور زخموں کی وجہ سے مر رہے ہیں ، ڈاکٹروں کے پاس دستانے نہیں ، سوڈان سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر کی دھماکہ خیز باتیں
لوگ دمے، دل کے دورے اور زخموں کی وجہ سے مر رہے ہیں ، ڈاکٹروں کے پاس دستانے نہیں ، سوڈان سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر کی دھماکہ خیز باتیں
خرطوم (این این آئی)سوڈان سے تعلق رکھنے والی جونیئر ڈاکٹر سارہ علی نے کہاہے کہ وہاں ڈاکٹر مریضوں کا معائنہ بھی نہیں کر پا رہے کیونکہ ان کے پاس دستانے نہیں ہیں۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ انھیں ان اندازوں سے حیرت نہیں کہ افریقہ میں وبا کے پہلے سال میں 25 کروڑ لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ کورونا وائرس ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ ان کے ملک کا نظامِ صحت پہلے ہی تباہ حال ہے،ان…
View On WordPress
#اور#باتیں#پاس#تعلق#خیز#دستانے#دل#دمے#دھماکہ#دورے#ڈاکٹر#ڈاکٹروں#رکھنے#رہے#زخموں#سوڈان#سے#کی#کے#لوگ#مر#نہیں#ہیں#والی#وجہ
0 notes
Text
رات کے وقت دمہ کی خراب صورتحال کی اصل وجہ دریافت
رات کے وقت دمہ کی خراب صورتحال کی اصل وجہ دریافت
دمے کے مریضوں میں رات کے وقت علامات بدتر کیوں ہو جاتی ہیں ایک نئی تحقیق میں پتا لگا لیا گیا۔ تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ سونے اور جاگنے کے کنٹرول سے متعلق جسم میں موجود اہل قدرتہ ہارمون، میلاٹونِن، پھیپھڑوں سے آنے اور جانے والی ہوا کے رستے کو تنگ کر دیتا ہے۔ متعدد رپورٹس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ دمے کی وجہ سے ہونے والی نصف اموات رات کے وقت ہوئیں۔ جو یہ بتاتا ہے کہ ناکٹرنل ایستھما(دمہ) کی علامات اور…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا سویابین سے دمے کی شدت کم ہوسکتی ہے؟ - اردو نیوز پیڈیا
کیا سویابین سے دمے کی شدت کم ہوسکتی ہے؟ – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین اوساکا: جاپانی سائنسدانوں نے چوہوں پر تجربات سے معلوم کیا ہے کہ خمیر شدہ سویابین کی غذائی مصنوعات سے دمے کی علامات اور شدت میں کمی آتی ہے، تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان نتائج کی انسانوں میں تصدیق ہونا باقی ہے۔ تجربات کے دوران چوہوں کو خمیری سویابین سے بنا ہوا ایک غذائی سپلیمنٹ کھلایا گیا جو ’’اِمیوبیلنس‘‘ کے نام سے دستیاب ہے۔ اس سپلیمنٹ میں ’آئسوفلیوونز‘…
View On WordPress
0 notes
Text
کورونا وائرس سے بچنے کے لیے پاکستان نے کیا اقدامات کیے ہیں؟
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے ملک بھر میں تمام تعلیمی اداروں کو بند، فوجی پریڈ کو منسوخ، پاکستان کی سرح��وں کو پندرہ روز تک مکمل بند اور بین الاقوامی پروازوں کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ پاکستان میں لوگوں کی صحت وزیراعظم کی اولین ترجیح ہے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ تفتان میں ایران سے آئے کچھ افراد کے کیسز بھی سامنے آئے تھے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو کراچی میں سامنے آیا تھا جس کے بعد اب تک ملک کے مختلف علاقوں میں 672 سے زیادہ افراد کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پیغام میں عوام کو بتایا: ’ ہم خطرات سے پوری طرح آگاہ اور چوکنے ہیں اور اپنے لوگوں کی صحت و سلامتی کیلئے مناسب انتظامات کر چکے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اس حوالے سے ہماری کاوشوں کو سراہا ہے اور انھیں دنیا میں بہترین قرار دیا ہے۔ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عوام کے لیے ہدایات پر مشتمل خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ نماز جمعہ کے لیے حکومتی احکامات پر عمل کریں اور ان باتوں کا خیال رکھیں کہ اگر آپ کو کھانسی، بخار یا زکام ہے یا آپ بزرگ، کم عمر یا دمے کے مریض ہیں تو گھر پر نماز پڑھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر آپ مسجد جا رہے ہیں تو وضو گھر پر کریں اور 20 سیکنڈ تک صابن سے ہاتھ دھوئیں، جائے نماز یا کوئی کپڑا ساتھ لے کر جائیں اور سجدے کے دوران سانس روک لیں۔ اس کے علاوہ مصافحہ کرنے، بغل گیر ہونے اور قریبی میل جول سے بھی گریز کریں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
1 note
·
View note
Text
چی گویرا : امریکہ کو ناکوں چنے چبوانے والے گوریلا جنگجو
’موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔' یہ بات چی گویرا نے موت سے دو برس قبل الجزائر میں ایفرو ایشین سالیڈیرٹی سمینار میں اپنا آخری بین الاقوامی خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔ چی گویرا ارجنٹینا میں پیدا ہوئے اور وہ کیوبا کے انقلابی رہنما تھے جو بائیں بازو کے حامیوں کے ہیرو بن گئے۔ البرٹو کوردا کی جانب سے لی گئی ان کی ایک تصویر 20 ویں صدی کی ایک معروف علامت بنی۔ ارنسٹو گویرا ڈی لا سرنا جو چی گویرا کے نام سے مقبول ہوئے، 14 جون سنہ 1928 کو ارجنٹینا کے علاقے روساریو کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بیونس آئیرز یونیوسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں انھیں جنوبی اور وسطی امریکہ میں بہت زیادہ سفر کرنے کا موقع ملا۔
انھوں نے بڑے پیمانے پر پھیلی غربت اور ظلم و جبر کا مشاہدہ کیا اور مارکسزم میں دلچسپی نے انھیں اس بات پر قائل کیا کہ جنوبی اور وسطی امریکہ کے مسائل کا واحد حل مسلح انقلاب ہے۔ وسعت اللہ خان سنہ 2007 میں بی بی سی اردو کے لیے لکھی اپنی تحریر میں چی گویرا کو کچھ اس طرح یاد کرتے ہیں: 'چی گویرا نے اپنی مختصر سی زندگی میں کیا نہیں کیا تھا۔ رگبی اور شطرنج کا کھلاڑی، دمے کا مریض، ڈاکٹر، فوٹوگرافر، موٹر بائیک رائیڈر، شاعر، گوریلا کمانڈر، باپ، شوہر، ڈائری نویس، ادیب اور انقلابی۔۔۔‘ 'وہ آدمی کے بھیس میں چلتی پھرتی تکلیف تھا۔ ایسا عبداللہ جو کسی بھی شادی کو دیوانہ ہونے کے لیے بیگانا نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے لیے پورا لاطینی امریکہ اور پھر پوری دنیا ایک ہی ملک تھا۔‘ سنہ 1954 میں وہ میکسیکو گئے اور آنے والے برس میں وہ کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو سے ملے۔
چی گویرا نے '26 جولائی کی تحریک' میں کاسترو کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور کیوبا کے ڈکٹیٹر بتیستا کے خلاف گوریلا جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ کاسترو نے سنہ 1959 میں بتیستا کا اقتدار ختم کیا اور کیوبا میں اقتدار سنبھال لیا۔ سنہ 1959 سے 1961 کے دوران چی گویرا کیوبا کے نیشنل بینک کے صدر تھے اور پھر وزیر برائے صنعت رہے۔ اس عہدے پر انھوں نے کیوبا کے سفارتکار کی حیثیت سے دنیا بھر میں سفر کیا۔ ملک کے اندر انھوں نے ایسے منصوبے بنائے جن کے ذریعے زمینوں کی دوبارہ سے تقسیم کی جاتی اور انھوں نے صنعتوں کے کے لیے منصوبہ بندی کی۔ امریکہ کے سخت ناقد کی حیثیت سے انھوں نے کاسترو کی حکومت کو سوویت یونین سے اتحاد میں معاونت فراہم کی۔ امریکہ کی جانب سے تجارتی پابندیوں اور ناکام اصلاحات کے بعد کیوبا کی معیشت بدحال ہوئی۔
اس مشکل وقت کے دوران چی گویرا نے کیوبا کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا۔ بعدازاں انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے دیگر حصوں میں انقلاب پھیلانا چاہتے ہیں اور پھر سنہ 1965 میں کاسترو نے اعلان کیا کہ چی گویرا نے کیوبا چھوڑ دیا ہے۔ کتاب چی گویرا کی ڈائری میں ان کی جانب سے کاسترو کو لکھے گئے دو خطوط بھی ہیں جن میں سے ایک میں وہ لکھتے ہیں کہ: ’مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کر دیا ہے جس نے مجھے کیوبا کی سرزمین اور انقلاب سے منسلک رکھا۔‘ ’سو میں تم سے، ساتھیوں سے اور تمھارے عوام سے جو میرے ہو چکے ہیں، رخصت ہوتا ہوں۔ کوئی قانونی بندھن مجھے اب کیوبا کے ساتھ نہیں باندھے ہے، جو بندھن ہیں وہ ایک اور نوعیت کے ہیں ایسے بندھن جنھیں اپنی مرضی سے توڑا نہیں جا سکتا۔‘
جاتے جاتے اپنے بچوں کے نام خط میں چی نے لکھا کہ: ’تمھارا باپ ایک ایسا آدمی تھا جس نے جو سوچا اُس پر عمل کیا۔ یقین رکھو وہ اپنے نظریات سے مکمل طور پر وفادار رہا۔ یاد رکھو اگر کوئی چیز اہم ہے تو انقلاب، اس کے مقابلے میں ہماری ذات، ہمارا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‘ چی گویرا نے کئی ماہ براعظم افریقہ، خاص طور پر کانگو میں گزارے۔ انھوں نے گوریلا جنگ کے لیے باغی فوج کو تربیت دینے کی کوشش کی۔ لیکن ان کی کوششیں رائیگاں گئیں اور سنہ 1966 میں وہ خفیہ طور پر کیوبا لوٹ گئے۔ کیوبا سے انھوں نے بولیویا جانے کی ٹھانی تا کہ وہ رینی بارنتوس اورتونو کی حکومت کے خلاف باغی فوجوں کی قیادت کر سکیں۔ امریکی مدد سے بولیویئن فوج نے انھیں اور ان کے باقی ماندہ جنگجوؤں کو گرفتار کیا۔
نو اکتوبر سنہ 1967 کو بویلیا کے گاؤں لاہیگورا میں چی گویرا کو خفیہ طور پر سپرد خاک کیا گیا۔ سنہ 1997 میں ان کی باقیات کا پتا چلا جنھیں نکال کر کیوبا کو لوٹایا گیا۔ کتاب چی گویرا کی ڈائری میں ایک مضمون فیدل کاسترو کا بھی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: ’یہ ثابت ہو چکا ہے کہ چی لڑتے ہوئے مارا گیا۔ اس کی ایم ٹو رائفل کی نالی ایک گولے سے بالکل بے کار ہو گئی تھی۔ اس کے پستول میں گولیاں نہیں تھیں۔ اس بے بسی میں اسے زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ ’اس کے ٹانگوں میں اتنے زخم تھے کہ وہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اسی حالت میں اسے ہگوراز لے جایا گیا۔ فوجی افسروں نے اُسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک سکول میں اس فیصلے پر عمل درآمد کی تفصیلات سب کو معلوم ہیں۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
2021 Right Now مصنوعی بستر 'دمہ کا سبب بن سکتا ہے'
2021 Right Now مصنوعی بستر ‘دمہ کا سبب بن سکتا ہے’
مصنوعی بستر نیو یارک: کیا آپ دمے کا شکار ہیں؟ پھر مصنوعی بستر سے پرہیز کریں ، کیونکہ ایک نئی تحقیق میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ پنکھوں کی مصنوعات سے کہیں زیادہ دمہ کو بڑھ سکتا ہے کیونکہ اس میں فنگل سیلز کی اعلی سطح ہوتی ہے۔ ایک بین الاقوامی ٹیم نے پایا ہے کہ مصنوعی بستر میں پنکھ بیڈنگ کے مقابلے میں فنگس سے متعلق بیٹا گلوکن کی بہت زیادہ سطح ہوتی ہے ، جو کوکی کی خلیوں کی دیواروں سے غیر الرجینک…
View On WordPress
#بستر#بن#تازہ ترین خبریں#ٹائمز آف انڈیا#خبریں#دمہ#زندگی اور انداز تازہ ترین خبریں#زندگی اور طرز کی خبریں#سبب#سکتا#کا#مصنوعی#ہے
0 notes
Text
صبح کے ناشتے میں ڈبل روٹی کھانے والے ہو جائیں ہو شیار، ناشتے میں ڈبل روٹی کا روزانہ استعمال دمے کی بیماری کا باعث کیسے ہوسکتا ہے؟ جانیں - Humnews Tv
صبح کے ناشتے میں ڈبل روٹی کھانے والے ہو جائیں ہو شیار، ناشتے میں ڈبل روٹی کا روزانہ استعمال دمے کی بیماری کا باعث کیسے ہوسکتا ہے؟ جانیں – Humnews Tv
admin 3 hours ago صحت اورکھانے 32 Views زندگی کی رقتار میں وقت کے ساتھ جیسے جیسے اضافہ ہوا انسان نے بھی جلد بازی میں کھانے پینے کی ایسی چیزوں کا استعمال شروع کر دیا جو کہ نہ صرف جلد تیار ہو جائیں بلکہ ان کو کھانا اور تیار کرنا آسان بھی ہو- یہی وجہ ہے کہ صبح کے ناشتے میں پراٹھے کے نعم البدل کے طور پر ڈبل روٹی یا وائٹ بریڈ سامنے آئی جو کہ چکنائی کی کمی کے باعث ہلکی پھلکی ہوتی ہے اور جلد تیار بھی…
View On WordPress
0 notes
Text
وہ جو تاریک کانوں میں مارے گئے
خیبر پختون خوا کے ضلع شانگلہ بالخصوص غور بند کے علاقے میں پیدا ہونے والے مرد بھی باقی انسانوں کی طرح فانی ہیں مگر ان میں سے کم ہی ایسے ہیں جو بوڑھے ہو کر مرتے ہیں اور مرتے بھی ہیں تو اپنی زمین پر نہیں بلکہ کم ازکم گیارہ سو کلو میٹر پرے، بلکہ یوں کہئے کہ جاتے تو روزگار کے لیے ہیں مگر آتے تابوت میں بند۔ ان تابوتی لاشوں میں سے شائد ہی کوئی ایسی ہو جو پچاس برس کی عمر کا ہندسہ پار کر سکی ہو۔ اکثر اٹھارہ سے پتنتیس چالیس تک کے ہی مر جاتے ہیں۔ اب آپ کو ثبوت بھی چاہیے ہو گا، تو اس کے لیے یہ چار روز پرانی خبر حاضر ہے کہ بلوچستان میں دو روز میں کوئلے کی کانیں بیٹھنے کے یکے بعد دیگرے دو حادثات میں تئیس کان مزدور جاں بحق اور گیارہ زخمی ہو گئے۔ ان تئیس مرنے والوں میں سے اکیس کا تعلق ضلع شانگلہ سے ہے۔
کوئٹہ سے ساٹھ کلو میٹر پرے سر کے علاقے میں مٹی کا تودہ گرنے سے پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی ایک کان بیٹھ جانے سے سات مزدور دب کر جاں بحق ہوئے جب کہ ماروار کے علاقے میں ایک کان میں میتھین گیس بھر جانے سے دھماکے میں سولہ کانکن مارے گئے۔ سن دو ہزار گیارہ میں سر کے علاقے میں ہی ایک کان میں گیس بھر جانے سے تینتالیس مزدور جاں بحق ہوئے تھے۔ پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کا اندازہ ہے کہ سالانہ ڈیڑھ سو سے دو سو کانکن مختلف حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں۔ مگر یہ اموات معمول کی بات ہیں۔ ان کی جگہ اور مزدور زیرِ زمین چودہ سو سے لے کر تین ہزار فٹ تک کے اندھیروں میں جانے اور قسمت کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
یہ جو کوئلہ نکالتے ہیں اس کی قیمت بہرحال ان مزدوروں کی جان سے زیادہ ہے۔کان مالکان اور سرکاری ادارے اسی کوئلے کی فروخت اور محصولات کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے کما رہے ہوں تو مزدوروں کی بہبود پر لگانے کی کیا ضرورت۔ سر ، لورالائی کی تحصیل دکی ، ہرنائی ، مچھ ، سندھ میں جھمپیر اور پنجاب و خیبر پختون خوا تک زندگی اور موت کی ایک ہی کہانی تسلسل سے جاری ہے۔ جو کانکن دب کے یا گیس سے نہیں مرتے وہ کوئلے کی خاک پھیپڑوں میں اتار کے ، دمے ، ٹی بی ، جلدی امراض کے سبب مر جاتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یورپ میں کانکنوں کی جیسی زندگی پانچ سو برس قبل تھی۔ آج پاکستان میں کان مزدوروں کی زندگی ویسی ہی ہے۔ اور یہ سارا جوا بارہ سو سے پندرہ سو روپے ہفتہ دھاڑی کے لیے کھیلا جاتا ہے۔
کہنے کو پاکستان میں برطانوی نوآبادیاتی دور کا مائنز ایکٹ مجریہ انیس سو تئیس لاگو ہے۔ جس میں کانکنوں کے اوقات ، جسمانی صحت ، جان کے تحفظ اور رہائش وغیرہ کے معیار کی بابت تمام بنیادی معاملات پر شق وار وضاحت ہے۔ مگر اس ایکٹ میں ایک شق ایسی ہے جو سارے دیگر قوانین کو نگل لیتی ہے۔ یعنی کانوں کے معائنے پر مامور چیف انسپکٹر حالاتِ کار و حادثات سے متعلق جو بھی رپور�� تیار کرے گا، وہ چند متعلقہ افسران کے علم میں لانے کا مجاز ہے، اس رپورٹ کو عام کرنے کا مجاز نہیں۔ چنانچہ بیشتر اموات اور حادثات کا یا تو ریکارڈ نہیں رکھا جاتا اور اگر رکھا بھی جاتا ہے تو ایٹمی راز کی طرح الماری میں ��ند ہوتا ہے۔ لہذا بہت کم حادثات ایسے ہیں جن میں ذمے داری یا غفلت کا تعین ہو سکا۔ یوں موت کے کھیل سے دولت پیدا کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔
خود قانون کتنے موثر انداز میں حرکت میں آتا ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ مچھ میں انسپکٹر آف مائنز کے دفتر سے اب سے دو برس پہلے جو تفصیلات میسر آئیں ان کے مطابق کئی برس کے دوران بیس کانکن کمپنیوں کے خلاف مجرمانہ غفلت کی فردِ جرم ٹریبونل میں پیش کی گئی۔ ان سب کمپنیوں کو صرف دس سے بیس ہزار روپے جرمانہ دینا پڑا۔ انھیں ایک عدد اضافی تنبیہہ تھمائی گئی اور کلین چٹ دے دی گئی۔ نظام ہی کچھ اس طرح کا ہے کہ کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ صوبائی حکومت چھوٹے چھوٹے علاقوں میں نجی مالکان کو کانیں لیز پر دیتی ہے۔ ان مالکان کو مزدوروں کے اوقاتِ کار ، ہیلتھ اور سیفٹی کے معیارات سے زیادہ اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ کس طرح کانکنی کے انفرا اسٹرکچر پر کم سے کم پیسہ لگائے بغیر زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹا جا سکے۔
صوبائی محکمہ لیبر کے پاس اگرچہ کانوں کی انسپکشن اور انھیں بہتر بنانے کے سلسلے میں وسیع اختیارات ہیں مگر اس کا عملی کام بس اتنا ہے کہ جب بھی کوئی حادثہ ہو جائے تو ایک رسمی رپورٹ تیار کر کے داخلِ دفتر کر دے۔ ویسے بھی کوئی کان مالک ایسا نہیں جس کے اوپر تک کنکشن نہ ہوں۔ ان کے آگے ایک معمولی انسپکٹر کی حیثیت ہی کیا ہے۔ دو ہزار تیرہ میں جو سرکاری منرل پالیسی سامنے آئی، ان میں کان مالکان اور ان کی سرمایہ کاری کے تحفظ کا تو ذکر ہے مگر مزدوروں کے تحفظ کا کوئی ذکر نہیں۔ چونکہ زیادہ تر کان مزدور ان پڑھ اور پردیسی ہیں لہذا انھیں سودے بازی کا بھی تجربہ نہیں ہوتا۔ بنیادی طبی سہولتیں ان کا قانونی حق ہے مگر کبھی اگر کسی نے کانکنوں کے لیے مختص کسی فعال اسپتال کا تذکرہ سنا ہو تو مجھے بھی مطلع کرے۔ ان کانکنوں کا وجود سوشل سیکیورٹی کے رجسٹر پر بھی نہیں ہے۔ چنانچہ جب کوئی کانکن حادثے میں زخمی ہوتا ہے یا مر جاتا ہے تو یہ مالک کی صوابدید ہے کہ وہ کتنا معاوضہِ ازالا دیتا ہے۔ خدا ترس ہے تو پچاس ہزار تک دے دے گا۔ نہیں ہے تو پچیس میں بھی ٹرخا دے گا اور کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں۔
یہ کانکن مزدوری کی جگہ کے قریب خود ہی پلاسٹک شیٹس ، گھانس پھونس یا کچی پکی اینٹیں جوڑ کر جھونپڑی یا کمرہ بنا کر مشترکہ طور پر رہتے ہیں ، ایک نل سے نہاتے ہیں اور آٹھ دس مل کے کھانا پکا لیتے ہیں ، کپڑے دھو لیتے ہیں۔ اورذرا ہی فاصلے پر کان مالک یا مینیجر کا شاندار ریسٹ ہاؤس ، اوطاق یا گھر ان کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ حالات اتنے دگرگوں ہیں کہ کانکنوں کے بچوں کے نام پر جو تعلیمی اسکالرشپس جاری ہوتی ہے وہ بھی راستے میں غتربود ہو جاتی ہیں۔ کہنے کو پاکستان کوئلے کی کانکنی ، پیداوار اور ذخائر کے اعتبار سے عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہے۔ کل قومی پیداوار ��یں کانکنی کا حصہ تین فیصد کے لگ بھگ ہے۔ مگر کانکنوں کے لیے سہولتوں ، حفاظتی آلات کے اعتبار سے جس نمبر پر چاہیں رکھ لیں۔ ان بے چاروں کو تو یہ تک نہیں معلوم کہ دنیا کے سب سے مشکل اور خطرناک پیشوں میں سے ایک ہونے کے سبب باقی دنیا میں کان مزدوروں کو کیا سہولیات میسر ہیں۔
شائد اسی لیے ریاستِ پاکستان نے بین الاقوامی لیبر فیڈریشن کے سیفٹی اینڈ ہیلتھ ان مائنز کنونشن مجریہ انیس سو پچانوے کی آج تک توثیق نہیں کی۔ تاکہ مزدوروں کو یہ نہ پتہ چل جائے کہ امریکا ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسے معدنی دولت سے مالا مال ممالک میں بہت جدوجہد کے بعد کانکنوں کی تنخواہ مراعات ان کے پیشے کی خطرناکی کے اعتبار سے اوسط قومی اجرت سے کم ازکم ڈیڑھ گنا زائد ہیں۔ اس وقت اس خطرناک پیشے میں کام کرنے والے ستر فیصد مزدوروں کا تعلق شانگلہ سے اور تیس فیصد کا تعلق افغان ہزارہ قبائل سے ہے۔غربت اتنی ہے کہ ایک مرتا ہے تو اس کی جگہ دو لینے کے لیے آ جاتے ہیں۔ ایک آدھ مر جائے تو پتہ بھی نہیں چلتا۔ سنگل کالم اخباری خبر یا چینل کی پٹی بننے کے لیے ضروری ہے کہ کم ازکم پانچ سات کانکن ایک ساتھ مریں۔ میں بھی کہاں یہ مضمون لکھتا اگر ایک ساتھ تئیس کے مرنے کی خبر نہ آتی۔
وسعت اللہ خان
1 note
·
View note