#خرچ
Explore tagged Tumblr posts
Text
امریکی تاریخ کی مہنگی ترین انتخابی دوڑ کس نے کتنا خرچ کیا؟
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن )امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا،ٹرمپ کی جیت کے باوجود نتائج کا سلسلہ جاری ہے لیکن یہ جان کر حیرت ہوگی کہ رواں برس کا انتخابی میلہ امریکی تاریخ کا سلسلہ مہنگا الیکشن رہا جس میں امیدواروں نے انتخابی مہم پر مجموعی طور پر تقریباً 16 ارب ڈالر خرچ کرڈالے ہیں۔امریکی میڈیا کے مطابق 2020 میں انتخابی مہم کے دوران 15 ارب ایک کروڑ ڈالر خرچ کئے…
0 notes
Text
فضول خرچ لوگ!
تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ کچھ لوگ عزت دینے میں بہت فضول خرچ ہو��ے ہیں، انہیں دراصل عزت ملی بہت ہوتی ہے، چنانچہ وہ اسے خرچ بھی بےدریغ کرتے ہیں حالانکہ عزت ملنے والوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں عزت سے الرجی ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے کئی لوگوں کو پھولوں کی الرجی ہوتی ہے، چنانچہ اگر انہیں کوئی محبت سے پھول پیش کردے تو وہ چھینک چھینک کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں چنانچہ یہ لوگ…
0 notes
Text
وہ اس وقت صرف ویڈنگ فنکشن کا سوچ رہی ہے۔ شادی کے بارے میں ساری لڑکیاں صرف فنکشن کا سوچتی ہیں۔ اس ایک دن کے لئے اتنا پیسا اور توانائی خرچ کرتی ہیں۔ حالانکہ شادی تو اگلے دن سے شروع ہوتی ہے۔ جب فلیش لائٹ مانند پڑتی ہے اور میک اپ اترتے ہیں ۔ پھر دن کی روشنی میں اصلی چہرے اور نقلی ہیرے صاف دکھائی دیتے ہیں۔
7 notes
·
View notes
Text
رات ھو , چاند ھو , شناسا ھو
کیوں نہ رگ رگ میں پھر نشہ سا ھو
میں نے اک عمر خرچ کی تم پر
تم میرا قیمتی اثاثہ ھو
ایک تو خوف بھی ھو دنیا کا
اور محبت بھی بے تحاشا ھو
ھم نہ ھوں گے تو کس سے روٹھو گے
تم ھی تم ھو تو کیا تماشا ھو
ھم تو پتھر ھی ھو گئے غم سے
کیا تسلی ھو,کیا دلاسہ ھو.....؟؟
3 notes
·
View notes
Text
کتابیں خریدنے کیلئے، ہُنر سیکھنے کیلئے، اور سیاحت پر خرچ کی جانے والی رقم کبھی ضائع نہیں ہوتی
Money spent on buying books, learning skills, and tourism is never wasted
36 notes
·
View notes
Text
عشق میں جیت کے آنے کے لئے کافی ہوں
میں اکیلا ہی زمانے کے لئے کافی ہوں
ہر حقیقت کو میری خواب سمجھنے والے
میں تیری نیند اڑانے کے لئے کافی ہوں
زندگی ڈھونڈتی پھرتی ہے سہارا کس کا
میں تیرا بوجھ اٹھانے کے لئے کافی ہوں
میرے دامن میں ہیں سو چاک مگر اے دنیا
میں تیرے عیب چھپانے کے لئے کافی ہوں
میرے بچوں مجھے دل کھول کے تم خرچ کرو
میں اکیلا ہی کمانے کے لئے کافی ہوں
راحت اندروی
2 notes
·
View notes
Text
مومنوں کو خدا ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
۲۔ ہاں اگر تم دل کو مظبوط رکھو اور خدا سے ڈرتے رہو، تو پروردگار تمھاری مدد کو بھیجے گا۔ اور اس مدد کو خدا نے تمھارے لیے ذریعہ بشارت بنایا، یعنی اس لئے تمھارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ورنہ مدد تو خدا کی ہی ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔
۳۔جو آسودگی اور تنگی میں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے ہیں اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے۔
۴۔جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں۔ اور خدا کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے۔ اور جان بوجھ کر اپنے فعال پہ اڑے نہیں رہتے۔
۵۔ اور ہم شکر گزاروں کو عنقریب بہت اچھا صلہ دیں گے
۶- اور دیکھو بے دل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔
۷۔ اور خدا صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ اور خدا نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے۔
۹-بلکہ خدا تمھارا مددگار ہے اور وہ سب سے بہتر مددگار ہے۔
۱۰۔اور خدا مومنوں پہ بڑا فضل کرنے والا ہے۔
۱۱۔ جو مصیبت تم پر واقع ہوئی ہے اُس سے تم اندوہ ناک نہ ہو۔ خدا تمھارے سب اعمال سے خبردار ہے۔ پھر خدا نے رنج و غم کے بعد تم پر تسلی نازل فرمائی
۱۲۔ جب کسی کام کا عزم ارادہ کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو۔ بےشک خدا بھروسہ رکھنے والوں کودوست رکھتا ہے۔اگر خدا تمھارا مددگار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے جو تمھاری مدد کرے۔ اور مومنوں کو چاہئے کہ خدا پر بھروسہ کریں
2 notes
·
View notes
Text
خرچ تدفین کا بیماری پہ ہو جاتا ہے
صحنِ غربت ��یں قضا دیر سے مت آیا کر
(شوکت رضا شوکت)
10 notes
·
View notes
Text
کتب بینی کے شوقین افراد مفت کتابیں کیسے پڑھ سکتے ہیں؟
ڈیجیٹل دور میں جہاں زندگی کے معمولات میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں وہاں روایتی کتابوں کے حوالے سے بھی بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ تاہم یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ کتب بینی کے عادی افراد تاحال روایتی کتابیں پڑھنے کی اپنی عادت سے مجبور ہیں اور وہ اپنے اس شوق کی تسکین کے لیے جب تک کتاب کا مطالعہ نہ کریں تو ذہنی سکون حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایسے افراد کتب بینی کے حوالے سے ایک قسم کے سحر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ دورحاضر میں جب کوئی کتب بینی کا شوقین اپنے مطالعہ کی عادت سے مجبور ہو کر چند پسندیدہ کتب خریدنے کی خواہش کرتا ہے تو وہ ان کی قیمت دیکھ کر کچھ دیر تو ضرور پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ ان قیمتوں میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے اور ایک کتاب 13.95 سے 18 ڈالر تک دستیاب ہے، اس حساب سے اگر چند اضافی کتب خریدی جائیں تو بل باآسانی 100 ڈالر کا تو بن ہی جاتا ہے۔ سعودی میگزین الرجل نے مطالعے کے شوقین افراد کے لیے چند ایسے طریقے بتائے ہیں جنہیں برائے کار لا کر وہ اضافی رقم خرچ کیے بغیر مفت میں اپنی من پسند کتابیں حاصل کرسکیں گے۔
1 ۔ لائبریری جائیں ہر ملک میں ہزاروں عوامی کتب خانے موجود ہوتے ہیں جہاں انواع و اقسام کی کتابیں خواہ وہ روایتی ہوں یا ڈیجیٹل کاپی کی صورت میں دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ بھی یقینی امر ہے کہ کسی نہ کسی لائبریری میں آپ کی من پسند کتابیں بھی ضرور موجود ہوں گی۔ اب آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ آپ اس لائبریری کے رُکن بن جائیں اور وہاں سے اپنی من پسند کتابیں یا سیریز حاصل کریں اور انہیں پڑھنے کے بعد مقررہ وقت پر واپس کر دیں۔ اس طرح آپ کو کتابیں خریدنے کے لیے اضافی رقم خرچ نہیں کرنا پڑے گی۔
2 ۔ کتب خانوں کی ایپلکیشنز آپ اگر کسی لائبریری میں جانے کے خواہاں نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں، سمارٹ ایپس نے یہ مسئلہ بھی تقریباً حل کر ہی دیا ہے جس کے ذریعے آپ آسانی سے کسی بھی کتب خانے میں موجود کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں، جس کے لیے آپ کو صرف یہ کرنا ہو گا کہ کتب خانے کے ہوم پیچ پر اپنا اکاؤنٹ بنائیں جس کے بعد آپ کوئی رقم ادا کیے بغیر کسی وقت بھی اپنی من پسند کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
3 ۔ مفت ڈیجیٹل کتابیں روایتی کتاب کی طرح ڈیجیٹل کتب کو اگر آپ اپنے ہاتھوں میں نہیں تھام سکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ باقاعدہ کتاب نہیں ہے، ویب سائٹ ’بک بوب‘ آپ کو یہ سہولت بھی فراہم کرتی ہے کہ جس کتاب کا آپ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اس کا عنوان درج کریں اور ویب سائٹ چند لمحوں میں تمام معلومات فراہم کر دے گی کہ مذکورہ کتاب کس لائبریری میں دستیاب ہے، اور اسے مفت میں کیسے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔
4 ۔ بک ٹریڈنگ سائٹس کے رُکن بنیں انٹرنیٹ پر اب شیئرنگ کی سہولت بھی دستیاب ہے جس سے آپ دیگر قارئین کے ساتھ کتابیں شیئر کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے متعدد ویب سائٹس موجود ہیں جن میں ’بک موچ‘ ’پیپربیک سواپ‘ وغیرہ شامل ہیں جن پر آپ اپنی کتاب دوسرے قارئین کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔ شیئرنگ کے لیے جب آپ کسی کو میل کرتے ہیں تو آپ کو اس کے پوائنٹس بھی ملتے ہیں۔
5۔ ریٹنگ کرنا کسی بھی کتاب کے بارے میں رائے دینا بہت اہم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے آپ اگر رائے دیتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ آپ کے مطالعہ اور حاصل مطالعے کا جائزہ لینے کے بعد کتاب کے ب��رے میں معلومات حاصل کرسکیں تو ’نیٹ گیلی‘ جیسی ویب سائٹس کی جانب سے کتاب کی درجہ بندی کرنے یعنی اس کے بارے میں رائے دینے والوں کو پیشگی کاپیاں ارسال کی جاتی ہیں۔ آپ اگر سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہیں اور آپ کے فالوورز کی تعداد بھی زیادہ ہے اور کتابوں پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں تو اس صورت میں کوئی بھی پبلشر آپ کو نئی کتابوں کی کاپیاں ارسال کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لے گا۔
6۔ چھوٹی اور مفت لائبریری تلاش کریں جب بھی آپ اپنے علاقے کی سیر کریں تو کوشش کریں کہ وہاں چھوٹی لائبریری تلاش کریں جہاں آپ کو متعدد کتابیں مفت میں پڑھنے کے لیے مل جائیں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنی پڑھی ہوئی کسی کتاب کے بدلے میں دوسری کتاب حاصل کرسکیں۔
7 ۔ سوشل میڈیا آپ اگر سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور کتب بینی کے شوقین بھی ہیں تو اس صورت میں آپ یقینی طور پر پبلشرز کے ایڈریسز سے بھی واقف ہوں گے۔ عام طور پر پبلشرز ایسے افراد کو جو کتب بینی کا شغف رکھتے ہیں انہیں مفت میں نئی کتابیں تحفے کے طور پر بھی ارسال کرتے ہیں تو کچھ یوں بھی آپ بنا کچھ خرچ کیے اپنے مطالعے کا شوق پورا کر سکتے ہیں۔
بشکریہ اردو نیوز
2 notes
·
View notes
Text
عمر بھر کا زادِ سفر تھے مگر وہ شخص
لمحوں میں خرچ کر کے تہی دست ہو گیا
3 notes
·
View notes
Text
𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑵𝒂𝒂𝒎 𝒔𝒆, 𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑾𝒂𝒔'𝒕𝒆.
🌹🌹 𝗘𝗫𝗧𝗥𝗔𝗩𝗔𝗚𝗔𝗡𝗖𝗘:
♦️"𝘼 𝙟𝙤𝙪𝙧𝙣𝙚𝙮 𝙩𝙤𝙬𝙖𝙧𝙙𝙨 𝙚𝙭𝙘𝙚𝙡𝙡𝙚𝙣𝙘𝙚".♦️
✨ 𝗦𝗲𝘁 𝘆𝗼𝘂𝗿 𝘀𝘁𝗮𝗻𝗱𝗮𝗿𝗱 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗿𝗲𝗮𝗹𝗺 𝗼𝗳
𝗹𝗼𝘃𝗲 ❗
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹𝟭𝟬𝟬 𝗣𝗥𝗜𝗡𝗖𝗜𝗣𝗟𝗘𝗦 𝗙𝗢𝗥
𝗣𝗨𝗥𝗣𝗢𝗦𝗘𝗙𝗨𝗟 𝗟𝗜𝗩𝗜𝗡𝗚. 🔹
(ENGLISH/URDU/HINDI)
7️⃣3️⃣ 𝗢𝗙 1️⃣0️⃣0️⃣
💠 𝗘𝗫𝗧𝗥𝗔𝗩𝗔𝗚𝗔𝗡𝗖𝗘:
𝗧𝗵𝗲 𝗤𝘂𝗿𝗮𝗻 𝗳𝗼𝗿𝗯𝗶𝗱𝘀 𝗲𝘅𝘁𝗿𝗮𝘃𝗮𝗴𝗮𝗻𝗰𝗲, 𝘄𝗵𝗶𝗰𝗵 𝗶𝘀 𝘀𝗽𝗲𝗻𝗱𝗶𝗻𝗴 𝘄𝗶𝘁𝗵𝗼𝘂𝘁 𝗿𝗲𝗮𝗹 𝗻𝗲𝗲𝗱.
(Qur'an 7:31)
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺 𝘀𝗮𝗶𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗶𝘁 𝗶𝘀 𝗮𝗹𝘀𝗼 𝗮𝗻 𝗲𝘅𝘁𝗿𝗮𝘃𝗮𝗴𝗮𝗻𝗰𝗲 𝘁𝗼 𝗲𝗮𝘁 𝘄𝗵𝗮𝘁𝗲𝘃𝗲𝗿 𝘆𝗼𝘂 𝗳𝗲𝗲𝗹 𝗹𝗶𝗸𝗲 𝗲𝗮𝘁𝗶𝗻𝗴.
(Sunan ibn Majah, Hadith No. 3352)
● It is man’s legitimate right to spend on real needs.
● But no one enjoys the right to spend out of desire and pleasure.
● God has given someone surplus wealth, not for spending it only on himself.
● Wealth is God’s trust, and he should spend it only on the things God has ordained for him.
● The man who rejects such a lifestyle is as if he has not fulfilled God’s trust.
🌹🌹And Our ( Apni ) Journey Continues...
-------------------------------------------------------
؏ منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر
3️⃣7️⃣ اسراف (فضل خرچی):
قرآن فضول خرچی سے منع کرتا ہے جو کہ ضرورت کے بغیر خرچ کرنا ہے۔
(قرآن 7:31)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی اسراف ہے کہ جس چیز کو دل کھانا چاہے اسے کھاؤ۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3352)
● حقیقی ضروریات پر خرچ کرنا انسان کا جائز حق ہے۔
● لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خواہش اور خوشی سے خرچ کرے۔
● اللہ تعالیٰ نے کسی کو فاضل دولت دی ہے، صرف اپنے اوپر خرچ کرنے کے لیے نہیں۔
● دولت خدا کی امانت ہے اور اسے صرف ان چیزوں پر خرچ کرنا چاہئے جو خدا نے اس کے لئے مقرر کی ہیں۔
● ایسے طرزِ زندگی کو رد کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے خدا کی امانت کو پورا نہیں کیا۔
🌹🌹اور ہمارا سفر جاری ہے...
-----------------------------------------------------
7️⃣3️⃣ फिजूल��र्ची:
कुरान फिजूलखर्ची से मना करता है, अर्थात बिना किसी वास्तविक आवश्यकता के खर्च करना।
(कुरान 7:31)
पैगम्बरे इस्लामﷺ ने कहा है कि जो कुछ भी खाने का मन करे, उसे खाना भी फिजूलखर्ची है।
(सुनन इब्न माजाह, हदीस नंबर 3352)
● वास्तविक आवश्यकताओं पर खर्च करना मनुष्य का वैध अधिकार है।
● लेकिन किसी को भी इच्छा और आनंद के लिए खर्च करने का अधिकार नहीं है।
● अल्लाह ने किसी को अतिरिक्त धन दिया है, उसे केवल अपने ऊपर खर्च करने के लिए नहीं।
● धन-संपत्ति अल्लाह की अमानत है, और उसे केवल उन्हीं चीज़ों पर खर्च करना चाहिए जो अल्लाह ने उसके लिए निर्धारित की हैं।
● जो मनुष्य ऐसी जीवनशैली को अस्वीकार करता है, वह ऐसा है मानो उसने अल्लाह की अमानत को पूरा नहीं किया है।
🌹🌹और हमारा सफर जारी है...
0 notes
Text
آئندہ سال سرکاری حج پر کتنا خرچ آئے گا؟ اعلان ہو گیا
(اویس کیانی) وفاقی کابینہ نے حج پالیسی 2025 کی منظوری دیدی ،سرکاری حج پیکج10لاکھ 65ہزارسے75ہزارتک ہوگا,جبکہ دوران حج انتقال اور زخمی ہونے والوں کے لئے معاوضہ بڑھادیا گیا ،انتقال کرنے والوں کےلواحقین کو 10 سے 20 لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گادوران حج زخمی ہونے والوں کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا۔ تفصیلا ت کے مطابق وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہو ا جس میں حج پالیسی 2025 کی …
0 notes
Text
کراچی میں نئی بسوں کی آمد؟
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ۔ میں نے اپنی صحافت کا آغاز ہی بلدیاتی رپورٹنگ سے کیا تھا۔ اُس زمانے میں شام کے اخبارات شہری مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے چاہے وہ پانی کا مسئلہ ہو، ٹرانسپورٹ کے مسائل ہوں یا شہر کا ’’ماسٹر پلان‘‘۔ کرائمز کی خبریں اس وقت بھی سُرخیاں بنتی تھیں مگر اُن کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی تھی۔ مجھے میرے پہلے ایڈیٹر نے ’’ٹرانسپورٹ‘‘ کی خبریں لانے کی ذمہ داری سونپی، ساتھ میں کرائمز اور کورٹ رپورٹنگ۔ اب چونکہ خود بھی بسوں اور منی بسوں میں سفر کرتے تھے تو مسائل سے بھی آگاہ تھے۔ یہ غالباً 1984ء کی بات ہے۔ جاپان کی ایک ٹیم شہر میں ان مسائل کا جائزہ لینے آئی اور اُس نے ایک مفصل رپورٹ حکومت سندھ کو دی جس میں شہر میں سرکلر ریلوے کی بہتری کیساتھ کوئی پانچ ہزار بڑے سائز کی بسیں بشمول ڈبل ڈیکر لانے کا مشورہ دیا اور پرانی بسوں اور منی بسوں کو بند کرنے کا کیونکہ ان کی فٹنس ن�� ہونے کی وجہ سے شدید آلودگی پھیل رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غالباً ٹرام یا تو ختم ہو گئی تھی یا اُسے بند کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ اُس وقت کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے سربراہ چوہدری اسماعیل ہوتے تھے جن کے ماتحت کئی پرائیویٹ بسیں چلتی تھیں اور اُن کی گہری نظر تھی۔ اِن مسائل پر وہ اکثر کہتے تھے ’’ شہر جس تیزی سے پھیل رہا ہے ہم نے اس لحاظ سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہ کیا تو بات ہاتھوں سے نکل جائے گی‘‘۔
کوئی چالیس سال بعد مجھے یہ نوید سُنائی جا رہی ہے کہ اب انشا ءالله کئی سو نئی بسیں اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی آرہی ہیں۔ مگر مجھے خدشہ ہے کے اِن ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر یہ بسیں کیسے چلیں گی مگر خیر اب یہ بسیں آ رہی ہیں لہٰذا ان کا ’’خیر مقدم‘‘ کرنا چاہئے۔ میں نے حیدر آباد اور کراچی میں ڈبل ڈیکر بسوں میں سفر کیا ہے پھر نجانے یہ کیوں بند کر دی گئیں۔ ایک مضبوط کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے تحت بڑی بڑی بسیں چلا کرتی تھیں جن کے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹرمینل ہوتے تھے۔ اس کے اندر جس طرح لوٹ مار کی گئی اُس کی کئی خبریں میں نے ہیڈ لائن میں دی ہیں اور اچانک یہ بند ہو گئیں کیوں اور کیسے؟ پھر وہ بسیں کہاں گئیں ٹرمینلز کی زمینوں کا کیا بنا۔ ایسا ہی کچھ حال سرکلر ریلوے کا ہوا ورنہ تو یہ ایک بہترین سروس تھی، اب کوئی دو دہائیوں سے اس کی بحالی کی فائلوں پر ہی نجانے کتنے کروڑ خرچ ہو گئے۔ اس سارے نظام کو بہتر اور مربوط کیا جاتا تو نہ آج کراچی کی سڑکوں پر آئے دن ٹریفک جام ہوتا نہ ہی شہر دنیا میں آلودگی کے حوالے سے پہلے پانچ شہروں میں ہوتا۔
قیام پاکستان کے بعد بننے والا ’’کراچی ماسٹر پلان‘‘ اُٹھا لیں اور دیکھیں شہر کو کیسے بنانا تھا اور کیسا بنا دیا۔ ماسٹر پلان بار بار نہیں بنتے مگر یہاں تو کیونکہ صرف لوٹ مار کرنا تھی تو نئے پلان تیار کئے گئے۔ میں نے دنیا کے کسی شہر میں اتنے بے ڈھنگے فلائی اوور اور انڈر پاس نہیں دیکھے جتنے اس معاشی حب میں ہیں۔ عروس البلاد کراچی کی ایک دکھ بھری کہانی ہے اور یہ شہر ہر لحاظ سے اتنا تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اسکی دوبارہ بحالی ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ تاہم خوشی ہے کہ وزیر اطلاعات نے رنگ برنگی اے سی بسیں لانے کا وعدہ کیا ہے جن کا کرایہ بھی مناسب اور بکنگ آن لائن۔ یہ سب کراچی ماس ٹرانسزٹ کا حصہ تھا جو کوئی 30 سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اُمید ہے یہ کام تیزی سے ہو گا کیونکہ جو حال پچھلے پانچ سال سے کراچی یونیورسٹی روڈ کا ہے اور وہ بھی ایم اے جناح روڈ تک، اللہ کی پناہ۔ شہر کی صرف دو سڑکیں ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل، چلتی رہیں تو شہر چلتا رہتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ چند سال پہلے ہی جیل روڈ سے لے کر صفورہ گوٹھ تک جہاں جامعہ کراچی بھی واقع ہے ایک شاندار سڑک کوئی ایک سال میں مکمل کی گئی، بہترین اسٹریٹ لائٹس لگائی گئیں جس پر ایک ڈیڑھ ارب روپے لاگت آئی اور پھر... یوں ہوا کہ اس سڑک کو توڑ دیا گیا۔ اب اس کا حساب کون دے گا۔
اگر ایک بہتر سڑک بن ہی گئی تھی تو چند سال تو چلنے دیتے۔ ہمیں تو بڑے پروجیکٹ بنانے اور چلانے بھی نہیں آتے صرف ’’تختیاں‘‘ لگوا لو باقی خیر ہے۔ دوسرا بسوں کا جال ہو یا پلوں کی تعمیر یہ کام دہائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں اس شہر کا کھیل ہی نرالا ہے یہاں پلان تین سال کا ہوتا ہے مکمل 13 سال میں ہوتا ہے۔ میں نے کئی بار شرجیل میمن صاحب کو بھی اور خود وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صاحب کو بھی کہا کہ سڑکوں کا کوئی بڑا پروجیکٹ ہو، کوئی فلائی اوور یا انڈر پاس تو سب سے پہلے سائیڈ کی سڑکوں کو اور متبادل راستوں کو بہتر کیا جاتا ہے اور سڑکوں کی تعمیر یا مرمت سے پہلے متعلقہ اداروں سے پوچھا جاتا ہے کہ کوئی لائن و غیرہ تو نہیں ڈالنی؟ یہاں 80 فیصد واقعات میں واٹر بورڈ، سوئی گیس اور کے الیکٹرک والے انتظار کرتے ہیں کہ کب سڑک بنے اور کب ہم توڑ پھوڑ شروع کریں۔ اب دیکھتے ہیں ان نئی بسو ں کا مستقبل کیا ہوتا ہے کیونکہ 70 فیصد سڑکوں کا جو حال ہے ان بسوں میں جلد فٹنس کے مسائل پیدا ہونگے۔ مگر محکمہ ٹرانسپورٹ ذرا اس کی وضاحت تو کرے کہ چند سال پہلے جو نئی سی این جی بسیں آئی تھیں وہ کہاں ہیں کیوں نہیں چل رہیں اور ان پر لاگت کتنی آئی تھی۔
اگر یہ اچھا منصوبہ تھا تو جاری کیوں نہ رکھا گیا اور ناقص تھا تو ذمہ داروں کو سزا کیوں نہ ملی۔’’خدارا‘‘، اس شہر کو سنجیدگی سے لیں۔ ریڈ لائن، اورنج لائن، گرین لائن اور بلیو لائن شروع کرنی ہے تو اس کام میں غیر معمولی تاخیر نہیں ہونی چاہئے مگر اس سب کیلئے ٹریک بنانے ہیں تو پہلے سائیڈ ٹریک بہتر کریں ورنہ ایک عذاب ہو گا، یہاں کے شہریوں کیلئے بدترین ٹریفک جام کی صورت میں۔ سرکلر ریلولے بحال نہیں ہو سکتی اس پر پیسہ ضائع نہ کریں۔ اس کی وجہ سرکار بہتر جانتی ہے۔ جب بھی میں یا کوئی شہر کے مسائل کے حل کے اصل مسئلے پر آتا ہے تو اُسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈیفنس والے بھی خوش نہیں ہوتے ایک ’’میٹرو پولیٹن سٹی‘‘، ایک میئر کے انڈر ہوتی ہے۔ اُس کی اپنی لوکل پولیس اور اتھارٹی ہوتی ہے۔ کیا وقت تھا جب ہم زمانہ طالب علمی میں نارتھ ناظم آباد کے حسین ڈسلوا ٹائون کی پہاڑیوں پر جایا کرتے تھے، ہاکس بے ہو یا سی ویو پانی اتنا آلودہ نہ تھا، بو نہیں مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ جرم و سیاست کا ایسا ملاپ نہ تھا۔ اس شہر نے ہم کو عبدالستار ایدھی بھی دیئے ہیں اور ادیب رضوی بھی۔ اس شہر نے سب کے پیٹ بھرے ہیں اور کچھ نہیں تو اس کو پانی، سڑکیں اور اچھی بسیں ہی دے دو۔ دُعا ہے نئی بسیں آئیں تو پھر غائب نہ ہو جائیں، نا معلوم افراد کے ہاتھوں۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
پاکستان کو قرض و سود سے بچانے کی ایک تجویز
پاکستان کو سود اس تیزی سے کھا رہا ہے کہ اب تو ہمارے بجٹ کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ سود کی مد میں مالی سال 2023-2024 میں 7300 ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن کہا جا رہا ہے کہ سود کی ادائیگی اس سال کوئی 8300 ارب روپے سے بھی زیادہ ہو گی جبکہ آئندہ سال سود کی ادائیگی کیلئے مختص تخمینہ کوئی 9500 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ ہمارے قرضے (جن میں بہت بڑا حصہ اندرونی قرضوں کا ہے) اتنے بڑھ چکے ہیں اور بڑھتے جا رہے ہیں کہ اگر کوئی حل نہ نکالا گیا تو پاکستان اپنا بجٹ بھی نہیں بنا سکے گا کہ سارے کا سارا بجٹ ہی سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جائے تو پھر ملک کیسے چل سکتا ہے؟؟ کچھ عرصہ قبل مجھے ایک صاحب ملنے آئے جن کا نام قانت خلیل اللہ ہے۔ وہ ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں اور کچھ اہم اداروں سے منسلک رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندرونی قرضے فوری طور پر ختم ہو سکتے ہیں جس سے سود کا بوجھ ختم ہو جائے گا۔ قانت صاحب نے دی نیوز میں اس سلسلے میں تین آرٹیکل بھی لکھے جبکہ وہ مختلف فورمز پر جا کر اپنی تجویز بھی سب کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
میں نے وزیراعظم شہباز شریف صاحب سے بھی درخواست کی تھی کہ اپنی معاشی ٹیم کو کہیں کہ قانت صاحب کو سنیں اور اگر اُن کی تجویز میں کوئی وزن ہے تو اُس پر سنجیدگی سے غور کر کے پاکستان کو سود کے اس سنگین خطرے اور گناہ کبیرہ سے بچائیں۔ ابھی تک تو قانت صاحب سے حکومت کی طرف سے تو کوئی رابطہ نہیں کیا گیا لیکن میں نے اُن سے درخواست کی کہ مجھے اردو زبان میں قرضوں اور سود کے اس بوجھ کو ختم کرنے کیلئے اپنی تجویز لکھ کر بھیجیں تاکہ میں اُسے اپنے کالم میں شائع کر سکوں۔ ان کی تجویزدرج ذیل ہے: ’’جدید بینکنگ نظام میں دو قسم کی کرنسی یا پیسے ہوتے ہیں: بینک نوٹ (جو مرکزی بینک جاری کرتا ہے) اور بینک ڈپازٹ، جو کمرشل بینکوں کے قرضے ہوتے ہیں۔ عمومی نقطہ نظر سے، بینک ڈپازٹس نقد رقم رکھنے کے برابر ہیں۔ بینک جب قرضے جاری کرتے ہیں، نئے روپے تخلیق کرتے ہیں، کیونکہ اسی وقت بینک اکاؤنٹس میں نمبر (بینک ڈپازٹس) ظاہر ہوتے ہیں۔
بینک آف انگلینڈ کے الفاظ میں: ’’جب ایک بینک قرض دیتا ہے، اسی لمحے، نیا پیسہ تخلیق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، کسی کو گھر خریدنے کیلئے قرض دینے والے کو بینک ہزاروں پاؤنڈ مالیت کے نوٹ نہیں دیتا۔ اس کے بجائے، وہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں قرض کے برابر بینک ڈپازٹ کریڈٹ کرتا ہے۔‘‘ (بینک آف انگلینڈ سہ ماہی بلیٹن، 2014 Q1) زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلئے، تجارتی بینکس زیادہ قرضے جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فریکشنل ریزرو سسٹم کے تحت صرف 6-5 فیصد مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی کے ساتھ، بینک قرضے جاری کر سکتے ہیں اور تقریباً بیس گنا تک بینک ڈپازٹ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، ان کے پیسہ کی توسیع سے ہونیوالی افراط زر یا مہنگائی کو مرکزی بینک بلند شرح سود کی پالیسی کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قرض لینے کی سرگرمی کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ تاہم جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، پاکستان میں بلند شرح سود پالیسی مؤثر نہیں ہے کیونکہ تجارتی بینکوں کی سب سے بڑی قرض دار حکومت پاکستان خود ہی ہے، جو قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیسے کی تخلیق کے قانونی اختیارات کے باوجود، پاکستان کی ریاست نجی بینکوں سے بڑے پیمانے پہ اور قرضے لے رہی ہے تاکہ پرانے قرضوں پر سود ادا کر سکے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے؛ حکومت سود کی ادائیگی کیلئے قرض لیتی ہے، جس سے حکومت کا قرض بڑھتا ہے، اور سود کی ادائیگی کے نتیجے میں بینک ڈیپازٹس میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم پیسے کی فراہمی میں اضافے کی وجہ سے افراط زر کا سامنا کر رہے ہیں، اور ہمارے بچوں پر حکومتی قرض کا بوجھ مسلسل بڑھتا چلا جائے گا۔ پاکستان کے سنگین معاشی مسائل کا حل مکمل ریزرو بینکنگ کا نفاذ ہے۔ اس نظام کی تائید بیسویں صدی کے بڑے ماہرین معاشیات ، جن میں ملٹن فریڈ مین اور فشر نمایاں ہیں، نے کی ہے اور اس کے نفاذ کو نہایت ہی قابل عمل اور آسان بتایا ہے۔ یہ منظم مالیاتی نظام بھاری سرکاری قرضوں کے بوجھ اور ان پر سود کے اخراجات کو ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے، افراط زر کو کنٹرول کرنے اور اقتصادی خوشحالی کو فروغ دینے کے مقاصد کو حاصل کر سکتا ہے۔ فریکشنل ریزرو سسٹم، جو پیسے کی فراہمی میں اتار چڑھاؤ اور اقتصادی عدم استحکام کا ذمہ دار ہے، اس کو مکمل ریزرو سسٹم سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ نیا تجویز کردہ نظام درج ذیل بنیادی اصولوں پر کام کرے گا:
۱۔ تجارتی بینکس قرض جاری کرنے اور انویسٹمنٹ کرنے کے عمل میں نیا پیسہ /کرنسی تخلیق نہیں کرسکیں گے۔ ۲۔ پیسہ تخلیق کرنے کی صلاحیت ایک خود مختار ادارے جیسے اسٹیٹ بینک کو منتقل کی جائے گی جو جی ڈی پی میں اضافے کے برابر نیا پیسہ تخلیق کر یگا تاکہ مہنگائی یا افراط زر نہ ہو۔ ۳۔ نیا تخلیق کردہ پیسہ غریب طبقے کی بنیادی ضروریات اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے استعمال کیا جائے گا تاکہ اشیا کی طلب کے ساتھ سپلائی میں بھی موثر اضافہ ہو۔
سو فیصد (100%) ریزرو سسٹم میں، بینکوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے تمام ڈپازٹس کیلئے 5 فیصد کی جگہ 100 فیصد تک مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی رکھیں۔ نتیجتاً، بینک کے قرضوں سے نیا پیسہ تخلیق کرنے کا عمل بند ہو جائے گا، اس کے بجائے، بینکوں کو قرضے جاری کرنے کیلئے پہلے سرمایہ حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی، اس سے پیسے کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ کو روکا جاسکے گا۔ مزید یہ کہ بینکوں کو مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی کو حاصل کرنے کیلئے حکومتی بانڈز اور ٹریژری بلز اسٹیٹ بینک کے حوالے کرنا ہوں گے، اور کیونکہ 100 فیصد ریزرو کرنسی کی مقدار بینکوں کے پاس تقریباً 60 فیصد حکومتی بانڈز سے زیادہ ہے اسلئے اس سے بینکوں کے علاوہ دوسرے اداروں اور لوگوں کے ہاتھوں میں حکومتی بانڈز اور قرضہ بھی ادا کر دیئے جائیں گے اور اس طرح پاکستان کا پورا داخلی قرض ختم ہو سکے گا۔ یہ نیا نظام اسلام کے مقاصد اور مالیاتی اصولوں کے عین مطابق ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ نظام کے مقابلے میں جہاں 90 فیصد سے زیادہ کرنسی، تجارتی بینکس قرض دیتے وقت تخلیق کر رہے ہیں اور کرنسی اور قرض ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اس نئے نظام میں پیسہ قرض کے بغیر تخلیق کیا جائیگا اور یہ حقیقی اشیا کی پیداوار کے تناسب سے ہو گا۔ مزید یہ کہ موجودہ بینکنگ سسٹم کے برعکس، ڈیپازٹ ہولڈرز کو انویسٹمنٹ اور نفع نقصان میں شرکت کے بغیر کوئی منافع نہیں ملے گا، ان کو اپنی رقم بینکوں کو ٹرانسفر کرنا ہو گی جو اس رقم کو مختلف کاروباری اداروں میں انویسٹ کر کے منافع کمائیں گے اور تقسیم کریں گے۔ روپے کی قدر اس نظام میں مستحکم رہے گی کیونکہ تجارتی بینک قرض کے ساتھ روپے کی سپلائی نہیں بڑھا رہے ہوں گے۔ اس نئے نظام میں حکومت کا 6 ہزار ارب کا سودی خرچ ختم ہو جائے گا اور اسکے پاس ٹیکس کے علاوہ تقریباً 2 ہزار ارب کی نئی تخلیق کردہ کرنسی ہو گی، اسلئے حکومت کو اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے بینکوں سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، جس سے افراط زر کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی ختم ہو جائے گی۔
حکومت اپنی مالیاتی پالیسیوں کو مؤثر طریقے سے نافذ کر سکے گی، اور سود کی ادائیگی کیلئے رکھی گئی رقم، سماجی اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں استعمال ہو سکے گی۔ مجموعی طور پر، 100%ریزرو بینکنگ ایک جدید اور پائیدار حل پیش کرتی ہے جو پاکستان کے سنگین اقتصادی مسائل کو حل کر سکتی ہے، مالیاتی استحکام کو یقینی بنا سکتی ہے، اور پاکستان اور اس کے عوام کیلئے ایک خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔‘‘
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا
میں اپنے ہاتھ کا تتلی پہ سایہ کرتا تھا
اگر میں پوچھتا بادل کدھر کو جاتے ہیں
جواب میں کوئی آنسو بہایا کرتا تھا
یہ چاند ضعف ہے جس کی زباں نہیں کھلتی
کبھی یہ چاند کہانی سنایا کرتا تھا
میں اپنی ٹوٹتی آواز گانٹھنے کے لئے
کہیں سے لفظ کا پیوند لایا کرتا تھا
عجیب حسرت پرواز مجھ میں ہوتی تھی
میں کاپیوں میں پرندے بنایا کرتا تھا
تلاش رزق میں بھٹکے ہوئے پرندوں کو
میں جیب خرچ سے دانہ کھلایا کرتا تھا
ہمارے گھر کے قریب ایک جھیل ہوتی تھی
اور اس میں شام کو سورج نہایا کرتا تھا
یہ زندگی تو مجھے ترے پاس لے آئی
یہ راستہ تو کہیں اور جایا کرتا تھا
عباس تابش
3 notes
·
View notes
Text
لوگ بچپن سے بیزار ہو جاتے ہیں، بڑے ہونے کی جلدی کرتے ہیں اور پھر دوبارہ بچے بننے کی آرزو کرتے ہیں، پیسے اکٹھے کرنے کے لیے اپنی صحت کو برباد کرتے ہیں اور پھر صحت کو بحال کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ وہ بے چینی سے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں اور حال کو بھول جاتے ہیں، نہ حال میں رہتے ہیں اور نہ مستقبل میں۔ وہ ایسے جیتے ہیں جیسے وہ کبھی نہیں مریں گے اور ایسے مرتے ہیں جیسے کبھی جیے ہی نہیں۔
People grow weary of childhood, rush to grow up and then long to be children again, ruin their health to collect money and then spend it to restore health. They think anxiously about the future and forget the present, living neither in the present nor in the future. They live as if they will never die and die as if they never lived.
gibran khalil
16 notes
·
View notes