#خاور مانیکا
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 9 months ago
Text
نکاح کیس کی آج پھر سماعت، پچھلی سماعت پر عمران خان، بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا میں توتکار
غیر شرعی نکاح کیس کی سماعت آج پھر اڈیالہ جیل میں ہوگی۔۔سینئر سول جج اسلام آباد قدرت اللہ سماعت  کریں  گے۔ گزشتہ روز سماعت کے دوران عمران خان، بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا کے درمیان عدالت میں جھگڑا ہوگیا۔ عمران خان  کے وکیل نے  خاور مانیکا کو مُکا مارنے کی کوشش کی۔ عمران خان نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے بشریٰ کو پہلی بار نکاح کے دن دیکھا، وہ اور بشریٰ بی بی قرآن پاک پر حلف لینے کو تیار ہیں، خاور مانیکا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
meta-bloggerz · 4 months ago
Text
خاور مانیکا کا بیان جھوٹ پر مبنی تھا خاور مانیکا نے جھوٹا الزام لگایا ہے جو ثابت نہیں کرسکا قرآن میں لکھا ہے ایسے شخص کو 80کوڑے مارے جائیں، اعتزاز احسن
https://www.siasat.pk/threads/900422
0 notes
shoukatali · 7 years ago
Text
بشریٰ کے ہاتھوں عمران خان کی بیعت کے بعد گھریلو ناچاقیوں میں اضافہ ہوا، سابق شوہر
Tumblr media
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی مبینہ تیسری اہلیہ بشریٰ مانیکا سابق شوہر خاور مانیکا کا کہنا ہے کہ 3 سال قبل عمران خان نے میری سابق اہلیہ کے ہاتھ پر بیعت کی جس کے بعد گھریلو ناچاقیوں میں اضافہ ہوا۔
عمران خان کی تیسری شادی کی خبریں میڈیا پر گردش کرنے کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے شروع میں اس کی تردید کی جاتی رہی تاہم اب باضابطہ طور پر تحریک انصاف کی جانب سے بیان جاری کردیا گیا ہے۔
تحری…
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 3 years ago
Text
کیا خاور مانیکا عمران کے جہاز میں سعودی عرب گئے؟
کیا خاور مانیکا عمران کے جہاز میں سعودی عرب گئے؟
وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ سعودی ختم ہوئے کافی دن گزر گئے لیکن سوشل میڈیا پر اس کی بازگشت ابھی تک جاری ہے جس کی بنیادی وجہ وزیرِ اعظم کے ساتھ جانے والے پرائیویٹ لوگوں کی بڑی تعداد ہے جن میں عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا اور ان کے بیٹے بھی شامل ہیں۔ انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق خاتونِ اول بشری بی بی کی پہلی شادی سے بیٹی ماشا مانیکا کا نکاح 12…
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years ago
Text
خاور مانیکا کی فائرنگ کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل
خاور مانیکا کی فائرنگ کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل
پاکپتن میں خاور مانیکا کے بیٹے ابراہیم مانیکا کی منگنی کی تقریب کے دوران قانون کی دھجیاں اُڑ گئیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکپتن میں ابراہیم مانیکا کی منگنی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں خاور مانیکا سمیت دیگر افراد نے کُھلم کُھلا قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہوائی فائرنگ کی جس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئی۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح سرعام قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور اس کو دیکھتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 6 years ago
Text
عمران بشریٰ تنازع سے نکلنے والی خیر
عمران خان نے اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ہمراہ پاکپتن میں صوفی بزرگ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے مزار پر حاضری دی۔ دونوں میاں بیوی مزار کی دہلیز پر جھکے اور ماتھا ٹیکا۔ خان صاحب کا یہ عمل مختصر جبکہ بشریٰ بی بی کا طویل تھا۔ اس واقعہ کی ویڈیو کو ٹی وی چینلز نے خوب چلایا جبکہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس ویڈیو کو دیکھتے ہی میڈٖیا اور سوشل میڈیا پر ایک بحث شروع ہو گئی کہ عمران خان نے مزار کی دہلیز پر سجدہ کیوں کیا۔ کسی نے اس پر اعتراض کیا تو کچھ نے کہا کہ یہ اُن دونوں کا انفرادی عمل ہے جس پر کسی دوسرے کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اخبارات نے بھی دونوں میاں بیوی کے جھکنے اور ماتھا ٹیکنے کی تصاویر بھی شائع کیں۔ 
اس تنازعہ پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے ایک ٹی انٹرویو میں کہا انہوں نے مزار پر سجدہ نہیں کیا بلکہ عقیدت کی وجہ سے مزار کی چوکھٹ پر بوسہ دیا۔ عمران خان نے وضاحت کی کہ سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے اور کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں۔ تحریک انصاف کے قائد کا کہنا تھا کہ بابا فرید ایک عظیم بزرگ تھے جن کی عظمت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اُن کی چوکھٹ پر بوسہ دیا۔ اس کے بعد پہلے سوشل میڈیا اور پھر ٹی وی چینلز نے بشریٰ بی بی کے سابق شوہر کے خاور مانیکا کی پاکپتن میں مزار کی طرف جاتے سڑک پر وقفہ وقفہ سے سجدے کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ ویڈیو بھی سوشل میڈیا میں وائرل ہو گئی۔ 
کس نے سجدہ کیا، کس نے بوسہ دیا، کون تعظیماً سجدہ کر رہا تھا اس پر بہت بحث ہوئی لیکن اس سارے عمل میں جو خیر برآمد ہوئی وہ اس تنازعہ کے نتیجے میں سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی تعدار میں شیئر کیے جانے والے مختلف علمائے کرام کے وہ ویڈیو و آڈیو بیان تھے جن میں مزاروں میں کیے جانے والے سجدوں کے متعلق شرعی حیثیت واضح کی گئی تھی۔ مثلاً مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کی ایک ویڈیو بہت شیئر کی گئی جس میں وہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ مزاروں پر سجدہ کرنا، جھکنا اور چومنا مکمل حرام ہے، سجدہ اگر اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے سامنے عبادت کی غرض سے کیا جائے تو وہ شرک ہے، اللہ کے ولیوں اور بزرگان دین کے مزارات پر جانا ضرور چاہیے، وہاں فاتحہ پڑھنا جائز ہے۔ 
کئی دوسرے اسلامی اسکالرز اور علماء کرام کے بیان کو بھی شیئر کیا گیا اور سب اس ��ات پر متفق تھے کہ سجدہ اللہ کے سوا کسی کےلیے نہیں۔ حتیٰ کہ سجدہ تعظیم بھی کسی کو نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کے مطابق اگر سجدہ تعظیم ہی کسی کے لیے جائز ہوتا تو وہ بیوی کا شوہر کے لیے لیکن اس کی بھی ہمارا دین اجازت نہیں دیتا۔ گویا عمران خان اور اُن کی اہلیہ نے جو کیا اور اُس سے جو تنازعہ پیدا ہوا اُس کی وجہ سے ہمارے لوگوں کو اس مسئلہ کا کم از کم پتا چل گیا کہ سجدہ خالص اللہ کے لیے ہے اور کسی بھی صورت میں کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں۔ ہمارے ہاں بزرگان دین کے مزاروں پر سجدوں کا عام رواج ہے۔ آئے دن ایسی بھی ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں مختلف اشخاص کے سامنے عام لوگوں کو سجدہ کرتے دکھایا جاتا ہے۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کے واقعہ سے امید کی جا سکتی ہے کہ بہت سوں کو اپنے عقائد کی درستگی کا موقع ملا ہو گا۔ اس موقع پر حکومت، محکمہ اوقاف اور علماء کرام کو بھی چاہیے کہ مزاروں پر سجدہ کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ کوئی اپنی لاعلمی کی وجہ سے شرک جیسے ظلم کا مرتکب نہ ہواور تعلیم و تربیت کا ایسا نظام وضع کیا جائے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان کے مسلمان قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کر سکیں ۔ ایک اسلامی ریاست میں علماء کرام کے ساتھ ساتھ حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے اور اس بارے میں آئین پاکستان بہت واضح ہے۔
انصار عباسی  
0 notes
gcn-news · 5 years ago
Text
یہاں طاقتور پنکی پیرنی کے بیٹے کے لیے قانون مختلف ہے
اسلام آباد ( جی سی این رپورٹ)‌ وزیراعظم عمران خان کے اس وعدے کی نفی کرتے ہوئے کہ ملک میں طاقتور اور کمزور کے لیے ایک ہی قانون ہوگا، پنجاب پولیس نے طاقتور خاتون اول بشریٰ بی بی کے اغوا برائے تاوان کیس میں مطلوب بیٹے کو بچانے کے لیے دونوں اغوا شدہ افراد کی گرفتاری ظاہر کر دی حالانکہ پچھلی پیشی پر پولیس عدالت کو صاف بتا چکی تھی کہ اسے دونوں گمشدہ افراد کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہے۔ یاد رہے کہ 20 فروری کے روز لاہور ہائی کورٹ نے ایک سائل کی درخواست پر بشری بی بی اور خاور مانیکا کے بیٹے ابراہیم مانیکا کو اغوا برائے تاوان کے ایک مقدمے میں 24 فروری کو طلب کیا تھا۔ تاہم پچھلی پیشی پر عدالت میں دونوں گمشدہ شہریوں کی عدم گرفتاری اور عدم مقدمے کا بیان دینے والی پنجاب پولیس نے 24 فروری کے روز لاہور ہائیکورٹ میں ابراہیم مانیکا کی ذاتی حیثیت میں طلبی کے موقع پر نہ صرف مغوی شہریوں کی پولیس حراست میں ہونے کا بیان دے دیا بلکہ یہ انکشاف بھی کیا کہ مغوی اعجاز احمد اور ان کے بھائی احمد حسن تھانہ ہئیر میں 18 فروری کو ایک فراڈ کا کیس درج ہونے کی وجہ سے گرفتار کیے گئے تھے۔ تاہم جج صاحب نے بھی کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس کو پچھلی پیشی پر جھوٹا بیان دینے پر باز پرس کرنے کی بجائے خاتون اول کے بیٹے ابراہیم مانیکا کے خلاف دو شہریوں کے اغوا کا پرچہ کرنے کی درخواست خارج کر دی۔ اب کوئی پوچھے کہ پنجاب پولیس کا 20 فروری کو عدالت کے سامنے دیا گیا بیان درست تھا یا 24 فروری کو لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ حقائق پر مبنی ہے۔ 24 فروری کو لاہور ہائیکورٹ کےجسٹس انوارالحق پنوں نے محمد حسن کی درخواست پر سماعت کی، خاتون اول بشریٰ بیگم کے بیٹے ابراہیم مانیکا عدالتی طلبی پر پیش ہوئے۔ درخواست میں شہری حسن نے ابراہیم مانیکا سمیت دیگر کو فریق بنا کر الزام لگایا کہ ان کے دو بھائیوں کو پولیس کی مدد سے اغوا کروایا گیا ہے۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایاکہ پولیس نے اس کے ایک بھائی پراپرٹی ڈیلراعجاز احمد کو 11 دسمبر 2019ءکو، جبکہ دوسرے بھائی احمد حسن کو 3 فروری کو گھر سے اٹھایا۔ اس پر عدالت نےاستفسار کیاکہ اس میں ابراہیم مانیکا کا کیا کردار ہے؟ درخواست گزار حسن نے بتایا کہ ابراہیم مانیکا نے انہیں 10 لاکھ روپے سرمایہ کاری کے لیے دیئے تھے، سرمایہ کاری کی رقم سے خریدی گئی جائیداد ابھی بِکی نہیں تھی کہ ابراہیم مانیکا نے رقم کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیا، ��براہیم مانیکا کے والد اور بشریٰ بی بی کے خاوند خاور مانیکا نے ان سے رقم لینے کے لیے ایک گاڑی پر بندے ان کے گھر بھیجے مگر وہ گاڑی راستے میں اُلٹ گئی، لہذا اسکے دونوں بھائیوں نے گاڑی کی مرمت بھی ڈھائی لاکھ روپے میں کروا کر دی اور ان کے ڈرائیور کو واپس بھجوانے کے لیے کرائے پر ایک گاڑی بھی لے کر دی جو اب بھی ابرہیم مانیکا کے قبضے میں ہے۔ تاہم جب حسن نے پولیس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تو درخواست گزار کے بھائیوں کے خلاف 20 فروری کو امانت میں خیانت کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ 24 فروری کو کیس کی سماعت کے دوران عدالت نےریمارکس دیئےکہ حسن نے تو اپنی درخواست میں متعلقہ پولیس کو فریق بنایا ہی نہیں، اس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ انہیں تو علم ہی نہیں تھا کہ اس کے بھائی کس پولیس کی تحویل میں ہیں۔ حسن نے الزام لگایا کہ ابراہیم مانیکا کو پیشی کے لیے عدالتی نوٹس ملاتو اسے اس کے بھائیوں کے ٹکڑے کرنے کی دھمکیاں دی گئیں، حسن نے کہا کہ اس کے بھائی 10 لاکھ کے بدلے ابراہیم مانیکا کو 15 لاکھ روپےدے چکے ہیں، وہ اب مزید ڈیڑھ کروڑ روپے کا تقاضا کر رہا ہے اور اسی وجہ سے اس کے بھائیوں کو اغوا بھی کروایا گیا ہے۔ 24 فروری کو تھانہ ہئیر پولیس نے عدالت کے روبرو جواب جمع کرواتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ دونوں نامزد ملزمان کیخلاف امانت میں خیانت کا مقدمہ درج ہے۔ عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ ملزمان کیخلاف کب مقدمہ درج ہوا جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ بیس فروری کومقدمہ درج کیا گیا ہے۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے درخواست خارج کرتےہوئے حسن کو کہا کہ دونوں مغوی افراد پر مقدمہ درج ہو چکا ہے، آپ جاکر ضمانت کرائیں۔ عدالت نے مغوی احمد حسن اور اعجاز کیخلاف امانت میں خیانت کا مقدمہ درج ہونے کی بنیاد پر ابراہیم مانیکا کے خلاف درخواست بھی خارج کر دی۔ یاد رہے کہ خاتون اول بشریٰ بی بی کے پہلے شوہر خاور فرید مانیکا سے ان کے بیٹے ابراہیم مانیکا نے مغوی اعجاز احمد کے پراپرٹی کے کاروبار میں دس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی لیکن صرف ایک ماہ بعد ہی زور زبردستی کے ذریعے سے دس لاکھ اصل زر کیساتھ پانچ لاکھ روپے منافع بھی وصول کیا تھا۔ مغوی اعجاز احمد نے یہ رقم بشری بی بی کے پہلے خاوند خاور فرید مانیکا کے حوالے کی تھی۔ تاہم کچھ دن بعد ابراہیم مانیکا نے پراپرٹی ڈیلر اعجاز احمد سے ڈیڑھ کروڑ روپے دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ جب اعجاز احمد نے یہ ناجائز مطالبہ پورا کرنے سے انکار کیا تو ابراہیم نے اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ بعد ازاں 3 فروری 2020 کو ابراہیم نے پولیس کے ذریعے اعجاز کے بھائی احمد حسن کو گرفتار کروا دیا۔ بعد ازاں 12 فروری کی رات کاہنہ کے علاقے سے پولیس نے اعجاز احمد کو بھی گرفتار کر لیا۔ تاہم 20 فروری کے روز لاہور ہائیکورٹ نے متعلقہ پولیس حکام سے پوچھا کہ ان کے خلاف کیا مقدمہ درج ہے اور وہ کہاں ہیں اور انہیں رہا کب کیا جائے گا تو پولیس حکام نے ان کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ جس پر لاہور ہائی کورٹ نے کاروباری لین دین پر دونوں بھائیوں کو مبینہ طور پر پولیس کے ذریعے لاپتہ کرانے پر خاتون اول بشریٰ بی بی کے بیٹے ابراہیم مانیکا کو ذاتی حیثیت میں 24 فروری کو طلب کیا تھا۔ Read the full article
0 notes
urduchronicle · 11 months ago
Text
نکاح کیس کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جج نے وکیل درخواستگزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جج نے کہا کہ خاور مانیکا کا بیان آپ دیکھ لیں،کچھ بھی نہیں بیان میں، قانون کے مطابق شکایت کنندہ کے ساتھ دو گواہان لازم ہیں۔ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس کے جج قدرت اللہ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اوربشریٰ بی بی کے خلاف غیر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
meta-bloggerz · 4 months ago
Text
عدت میں نکاح کیس، انٹرویو میں خاور مانیکا نے بشریٰ بی بی کو پاک باز، بانیٔ پی ٹی آئی سے روحانی تعلق بتایا: وکیل کے دلائل
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں دورانِ عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں کی سماعت کے دوران بشریٰ بی بی کے وکیل نے بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل اپنا لیے۔ بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی دورانِ عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا کر رہے ہیں۔ سماعت کے دوران بانیٔ پی ٹی آئی کے وکلاء سلمان اکرم راجہ اور خالد یوسف چوہدری عدالت میں پیش…
0 notes
jawadhaider · 6 years ago
Text
سی آئی اے نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے میڈیا وار لانچ کردی
عمران خان کو ختم کرنے کے لیے حکمت عملی تیار، بڑے بڑے میڈیا چینلز خاموش کیوں؟
عمران خان کی حکومت کو بہت مشکل حالات اور بڑے چیلنجز کا سامنا ہے. پاکستان پر بری طرح (5th Generation War) مسلط کر دی گئی ہے. اس جنگ میں عمران خان کے خلاف یہ مہم بہت تیزی سے شروع کر دی گئی ہے. اس مہم کا مقصد ہے کہ عمران خان کی حکومت کو جلد از جلد گرایا جائے. اسکا طریقہ کار کچھ یوں ہوگا کہ پہلے مرحلے میں بد ترین پروپیگنڈا کیا جائیگا. اس پروپیگنڈا میں سوشل میڈیا پوری طرح شامل ہوگا. مارننگ شوز پر فحاشی عام ہوجائیگی.
فوج اور پاکستان کی سالمیت پر حملے ہوں گیں جس پر عمران خان کی حکومت ایکشن میں آئیگی لیکن انکے خلاف میڈیا وار اس حد تک شروع ہوجائیگی کہ پہلے یہ بات صرف میڈیا تک رہے گی اور پھر اسکے بعد سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر بڑے بڑے پیجز اور چینل بناۓ جائیں گیں. عمران خان اور پاکستان خلاف یہ پیجز اور چینلز سی آئی اے اور بھارت کے خفیہ ایجنٹ چلا رہے ہیں.
ن لیگ ہو، پیپلز پارٹی ہو، یا بے شک فضل الرحمان کی پارٹی ہو، تمام اپوزیشن پارٹیز عمران خان اور پاکستان کو گرانے کی مہم کا حصّہ ہیں. آپ خود اندازہ کریں کہ آج کل عمران خان کی حکومت کے خلاف میڈیا کس قدر خبریں شائع کر رہا ہے. شیروانی، عمران خان کے چاۓ بسکٹ کا خرچہ، وزیراعظم کے فوٹوشوٹ کا خرچہ، بشریٰ بی بی، اور خاور مانیکا آج کل میڈیا کی زینت بنے هوئے ہیں. جبکہ اہم ترین مسلے جیسے زرداری کی کرپشن و منی لانڈرنگ، عزیر بلوچ کا معاملہ، بے نظیر کا قتل، شہباز شریف کا ماڈل ٹاؤن کیس، 56 کمپنیوں کا کرپشن اسکینڈل، اور ملک کا سب سے بڑا سکینڈل ملک ریاض کے فراڈ کے بارے میں نہ ہونے کے برابر بات کی جارہی ہے. یعنی میڈیا اہم مسائل کو چھوڑ کر صرف عمران خان اور مانیکا خاندان کے پیچھے پڑ گیا ہے.
اب عمران خان خلاف ہونے والی سازش کے پیچھے اصل وجہ بھی سن لیں.
میڈیا کا خرچہ 100 روپے ہے اور کمائی صرف 50 روپے ہے. تو بتائیں پھر یہ میڈیا چلتا کیسے ہے؟ یہ میڈیا ملک ریاض جیسے لوگوں، سیاسی لوگوں، ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پھر خفیہ ایجنسیاں جیسے سی آئی اے، را، مساد وغیرہ کی بدولت چل رہا ہے اور کمائی کر رہا ہے. تمام میڈیا ہاؤسز منی لانڈر کیے هوئے پیسے باہر سے وصول کرتے ہیں. یہ عمران خان کو منی لانڈرنگ پر قانون بنا رہے ہیں اس پر ان تمام میڈیا چینلز کی چیخیں نکل رہی ہیں. راؤف کلاسرا ہو یا جیو کوئی بھی چینل ان کرپٹ لوگوں اور پاکستان خلاف خفیہ ایجنسیوں کی م��د کے بغیر نہیں چل سکتا. علاوہ ازیں جو ماڈلز اور اداکارائیں ایان علی کی طرح منی لانڈرنگ کرتی رہی ہیں اور جو اینکرز ملک ریاض جیسے کرپٹ بندوں سے پلاٹ اور گاڑیاں لیتے رہے ہیں، یہ سب پھنسنے والے ہیں.
میڈیا کا کام یہ ہے کہ عوام کو عمران خان کے خلاف کرنا ہے، جھوٹا پروپیگنڈا کرنا ہے، سوشل میڈیا پر جعلی ناموں کے ساتھ اکاؤنٹ بنا کر بدترین سازش کرنی ہے، عوام کے دلوں میں عمران خان کے خلاف نفرت پیدا کرنی ہے. میڈیا وار کے ذریعے لوگوں کو منتشر کرنا ہے. یہ بلکل وہی طریقہ کار ہے جو عراق، شام، اور مصر میں کروایا گیا تھا.ہٹ مین اور واۓ دا نیشن فیل جیسی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے آپکو پتا چلے گا کہ کس طرح امریکا میڈیا وار کرتا ہے، کیسے پروپیگنڈا کرکے ملک کو توڑا جاتا ہے، کیسے حالات خراب کرواۓ جاتے ہیں، اور کیسے جھوٹی سازشیں کر کے لوگوں کو سڑکوں پر نکالا جاتا ہے. کتابیں پڑھنے سے آپکو یہ بھی پتا چلے گا کہ مساد، را، اور سی آئی اے کا مقصد پاکستانی عوام کو فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف کرنا ہے. عمران خان کی حکومت کمزور کرنے کے لیے پختونخوا میں بھی حملے کرواۓ جائیں گیں اور کہا جائیگا کہ پختونوں پر حملے ہو رہے ہیں اور پختونوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے.
روشن پاکستان کے لیے متحد ہو جائیں
اب ہم سب کو مل کر کرنا کیا ہے؟ پاکستان کی سالمیت کے لیے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے ہمیں اس قسم کی کسی نیوز کا اثر نہیں لینا. نہ ہم نے اس بکاؤ میڈیا کی جھوٹی سازش پر پریشان ہونا ہے اور نہ ہی ہم نے افراتفری پھیلانی ہے. ہم نے لڑنا نہیں ہے، سچ بات کے آنے کا انتظار کرنا ہے، اور کسی بات کا بغیر کوئی ثبوت یقین نہیں کرنا. منظور پشتین ہو یا کوئی اور، یہ سب سی آئی اے کے پالتو کتے ہیں، اس لیے آپ نے ڈٹ کر انکا مقابلہ کرنا ہے.
اگر آپ محب وطن پاکستانی ہیں تو اس پوسٹ کو جہاں تک ہو سکے شئیر کریں اور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیں ۔ صرف دو سال کے بعد ایک نیا پاکستان کرپشن سے پاک اپکے سامنے ہو گا ۔
میں ہوں آپکا آنے والا کل
میں ابھی زندہ ہوں
مگر بہت کمزور ہوں
مجھے مرنے ناں دینا
میں پاکستان ہوں ۔
0 notes
urdubbcus-blog · 6 years ago
Photo
Tumblr media
بشیر احمد، اعظم سواتی کیسے بنا ؟سابق وفاقی وزیر کا ملازم فارم ہائوس کے پاس مقیم باجوڑ کے خاندان سے رشتہ مانگ رہا تھا ، انکار پر گائے اٹھا کر لے آیا، پھر کیا ہوا؟ ارشاد بھٹی نے سنسنی خیز انکشافات کر دئیے اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)بشیر احمد، اعظم سواتی کیسے بنا، امریکی شہریت اسکینڈل کیا، امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے کون سے فراڈ کئے اور ون ملین ڈالر نوٹ کی جھوٹ کہانی کیا، باتیں تو یہ بھی بڑی دلچسپ کہ اعظم سواتی کے اکاؤنٹس میں ایک ارب 53کروڑ کیوں، 80جائیدادیں کونسی، بیرون ملک 15کون سے کاروبار، ان کے پاس ایک نہیں کئی اقامے، کیوں؟ گزرے 15سالوںمیں 207غیر ملکی دورے کہاں کے اور 15سالوں کا ��یکس صرف 14لاکھ 97ہزار،معروف صحافی ارشاد بھٹی نے سنسنی خیز انکشافات کرنے کا اعلان کر دیا، اعظم سواتی کے ملازم جہانزیب نے فارم ہائوس کیساتھ قیام پذیر باجوڑ کےخاندان سے اپنے بیٹے کیلئے رشتہ مانگا، انکار پر باجوڑ فیملی کی گائے کو سی ڈی اے کی زمین جو کہ اعظم سواتی کے زیر قبضہ تھی پر باجوڑ فیملی کی گائے کو چرتے دیکھ کر ملازم جہانزیب و دیگر گائے پکڑ لائے ، گائے فارم ہائوس میں کبھی گئی ہی نہیں ، اعظم سواتی نے جھوٹ بولتے ہوئے باجوڑ فیملی کو دہشتگرد قرار دیتے ہوئے پولیس کو اپنے گھر پر حملے کی اطلاع دی، آئی جی تبدیل کر وا دیا، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے انصاف سے کام نہ لیا، ارشاد بھٹی سپریم کورٹ میں پیش جے آئی ٹی رپورٹ کے حوالے سے بھی ایسے حقائق سامنے لے آئے جو پہلے کبھی سامنے نہیں آسکے۔ تفصیلات کے مطابق معروف صحافی ، تجزیہ کار و کالم نگار ارشاد بھٹی نےاپنے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ بشیر احمد، اعظم سواتی کیسے بنا، امریکی شہریت اسکینڈل کیا، امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے کون سے فراڈ کئے اور ون ملین ڈالر نوٹ کی جھوٹ کہانی کیا، باتیں تو یہ بھی بڑی دلچسپ کہ اعظم سواتی کے اکاؤنٹس میں ایک ارب 53کروڑ کیوں، 80جائیدادیں کونسی، بیرون ملک 15کون سے کاروبار، ان کے پاس ایک نہیں کئی اقامے، کیوں؟گزرے 15سالوں میں 207غیر ملکی دورے کہاں کے اور 15سالوں کا ٹیکس صرف 14لاکھ 97ہزارمگر یہ سب پھر کبھی سہی آج ’گائے کہانی‘ کا خلاصہ، لہٰذا خیبر پختونخوا کے ایک گاؤں سے اُٹھ کر امریکہ میں امریکیوں کو تگنی کا ناچ نچا چکے سواتی صاحب کی ’’گائے کہانی‘‘ کا خلاصہ حاضرِخدمت۔جے آئی ٹی رپورٹ بتائے، ’گائے کہانی‘ کا آغاز تب ہوا جب اعظم سواتی کے ملازم جہانزیبنے فارم ہاؤس کے ساتھ رہتے باجوڑ کے نیاز خان خاندان سے اپنے بیٹے کیلئے رشتہ مانگا، باجوڑ خاندان نے انکار کر دیا، اب وزیر کے ملازمِ خاص کو انکار، وہ بھی باجوڑ کے غریب پناہ گزینوں کا، جہانزیب کو یہ انکار اپنی بے عزتی لگا، غصہ انتہا پر پہنچا، چند دن گزرے، جہانزیب نے باجوڑ فیملی کی گائے کو اُس زمین پر چرتے دیکھا جو مبینہ طور پر سی ڈی اے کی مگر سواتی صاحبکے قبضہ میں، بس پھر کیا، جہانزیب و دیگر ملازم گئے، گائے کو پکڑا، لا کر اپنے فارم ہاؤس پر باندھ دیا، باجوڑ فیملی کو پتا چلا، وہ سب اکٹھے ہوئے، آئے اور سواتی صاحب کے فارم ہاؤس سے اپنا بچھڑا کھول کر لے گئے، اب سواتی صاحب کے تمام ملازمین اکٹھے ہوئے، دونوں پارٹیاں آمنے سامنے، پہلے تُو تُو میں میں، پھر لڑائی، دونوں نے ایک دوسرے کو مارا۔ جے آئی ٹی رپورٹ بتائےکہ یہ تاثر غلط کہ صرف اعظم سواتی کے ملازمین نے ہی مارا، اپنی حیثیت کے مطابق باجوڑ فیملی نے بھی ٹھکائی کی، خیر دونوں طرف سے لوگ زخمی ہوئے، سواتی صاحب کے بیٹے نے باپ کو فون کیا اور یہاں سے سواتی صاحب ’ان ایکشن‘ ہوئے، اِدھر بیٹے کا فون آیا، اُدھر سواتی صاحب نے فون کھڑکانا شروع کر دیئے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ، سیکرٹری داخلہ، آئی جی، ڈی آئی جی،سب سے کہا ’’دس بارہ دہشت گردوں نے میرے گھر پر حملہ کر دیا ہے، فوراً پہنچیں‘‘، ایس ایس پی اسلام آباد نے جے آئی ٹی ٹیم کو بتایا کہ ’’یہ سن کر میرے تو ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے کہ وفاقی وزیر کے گھر دہشت گردوں کا حملہ ہو گیا‘‘، ایس ایس پی نے متعلقہ تھانے کو احکامات دیئے، منٹوں سکنٹوں میں شہزاد ٹاؤن کا ایس ایچ او بھاری نفری کے ساتھ پہنچا، خواتین، بچوں سمیت تمام باجوڑ فیملیکو اٹھایا، تھانے لایا، دہشت گردی کے پرچے کاٹے اور یوں یہ پورا خاندان اگلے دن اڈیالہ جیل میں۔لیکن ��اجوڑ خاندان کی خواتین، بچوں تک کو گرفتار کروا کر، مرضی کے پرچے کٹوا کر اور جیل بھجوا کر بھی اعظم سواتی کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کو فون کرکے بولے ’’یار تمہاری پولیس تو بڑی ہی بیکار، نکمی، دھیلے کا کام نہیں کیا، دکھ یہ بھی کہتم نے بھی کچھ نہ کیا‘‘، شہریار آفریدی نے یہ سن کر ڈی آئی جی آپریشنز کو ساتھ لیا اور موقع واردات پر جا پہنچے۔ شہریار آفریدی نے وہاں جو کچھ دیکھا اور سواتی صاحب کے ملازمین سے جو کہانی سنی، خود جے آئی ٹی کو بتایا ’’مجھے تو وہاں جاکر پتا چلا کہ اعظم سواتی کی کہانی، دہشت گردوں نے حملہ کر دیا، میرا گھر بم سے اڑانے والے، یہ سب جھوٹ تھا، یہ تو گھر کے ملازمین کیلڑائی، دکھ کی بات کہ سواتی صاحب میرے ساتھ بھی غلط بیانی کر گئے‘‘۔ آگے سنیے! سپریم کورٹ کے حکم پر بنی جے آئی ٹی نے سواتی صاحب کے فارم ہاؤس پر جاکر جب ملازمین سے کہا ’’ذرا وہ جگہ دکھائیں جہاں سے گائے داخل ہوئی، وہ پودے، درخت یا فصل جو گائے تباہ کر چکی‘‘ تو ملازمین نہ یہ دکھا سکے کہ گائے کہاں سے فارم ہاؤس میں داخل ہوئی اور نہ ہی ایک پودا، درخت دکھا پائےجو گائے کی وجہ سے تباہ و برباد ہوا، دکھاتے بھی کیا، گائے فارم ہاؤس میں آتی، نقصان کرتی تو کچھ ہوتا دکھانے کیلئے۔اب جے آئی ٹی رپورٹ پڑھ کر جہاں یہ پتا چلے کہ ’گائے اسیکنڈل‘ کے ذمہ دار اعظم سواتی، انہوں نے اپنے عہدے، اختیارات کا غلط استعمال کیا، شہریار آفریدی نے انصاف سے کام نہ لیا، سواتی کہانیاں سن کر یکطرفہ احکامات دیئے، اسلام آباد پولیس نے دباؤ میں سواتی صاحبکی من مرضی کی کارروائی کی، وہاں معلوم یہ بھی ہوا کہ اعظم سواتی کے بیٹے کے پاس اسلحہ بغیر لائسنس کا، گائے اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہی نہ ہوئی اور شہریار آفریدی سے ایس ایچ او تک کسی نے باجوڑ خاندان کو سننے کی زحمت ہی نہ کی۔ جہاں جے آئی ٹی رپورٹ پڑھ کر یہ پتا چلے کہ سواتی صاحب نے یہ جھوٹ بول کر کہ آئی جی میرا فون نہیں سن رہے،آئی جی بدلوا دیا، وہاں جے آئی ٹی رپورٹ پڑھ کر بندہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آئی جی اسلام آباد جان محمد کو پہلے نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد واقعی تبدیل کر دینا چاہئے تھا کیونکہ جس فرمانبرداری سے انہوں نے اعظم سواتی کے احکامات پر اندھا دھند عمل کیا، حقائق جاننے کی کوشش نہ کی، ایک گھریلو جھگڑے کو دہشت گردی کی واردات بنا ڈالا اور جس طرح ان کی زیر قیادتپوری اسلام آباد پولیس سواتی صاحب کے سامنے لیٹ گئی، اس پر تو کارروائی بنتی تھی، جہاں خیال یہ بھی آئے کہ اگر یہ خبر میڈیا میں نہ آتی، چیف جسٹس از خود نوٹس نہ لیتے، جے آئی ٹی حقائق سامنے نہ لاتی تو باجوڑ خاندان پر تو ایسے پرچے کٹ چکے تھے کہ سالہا سال جیلوں میں ہی سڑنا پڑتا بلکہ ہو سکتا ہے کہ انہیں سواتی صاحب کے ملازم جہانزیب کے بیٹے کو رشتہ بھی دینا پڑ جاتا،وہاں دکھ یہ بھی کہ پاکستان نیا اور حرکتیں پرانی۔ کہیں خاور مانیکا ڈی پی او بدلوا لے، کہیں ڈی سی گوجرانوالہ احسن جمیل گجر کا پٹرول پمپ گرانے کا سوچے اور تبدیل ہو جائے اور کہیں اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں نہ گھس کر بھی گائے مالکوں سمیت دہشت گرد ٹھہرے۔ ہم تو سمجھے تھے کہ نظام بدلے، یہ تو فقط نام ہی بدلے۔ The post بشیر احمد، اعظم سواتی کیسے بنا ؟سابق وفاقی وزیر کا ملازم فارم ہائوس کے پاس مقیم باجوڑ کے خاندان سے رشتہ مانگ رہا تھا ، انکار پر گائے اٹھا کر لے آیا، پھر کیا ہوا؟ ارشاد بھٹی نے سنسنی خیز انکشافات کر دئیے appeared first on Zeropoint.
0 notes
trustedmatters-blog · 6 years ago
Video
Who is Pankey Peerni and Khawar Maneka | بشری عرف پنکی اور خاور مانیکا ک...
0 notes
urduweb · 6 years ago
Photo
Tumblr media
سپریم کورٹ کا ‘نئے پاکستان’ پر اظہارِ برہمی؛ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا معافی نامہ قبول چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعظم کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہیں گے۔ اگر یہ وزیرِ اعلیٰ رہیں گے تو عدالت کے فیصلوں کے تابع رہیں گے۔ اسلام آباد — عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کیس میں حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان تک ان کی ناراضگی پہنچا دی جائے۔ پیر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا، "کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ آگئے ہیں سارے مل کر نیا پاکستان بنانے۔" عدالتِ عظمیٰ نے برہمی کے اظہار کے بعد ڈی پی او پاک پتن تبادلہ کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور احسن جمیل گجر کے معافی نامے قبول کرتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹا دیا۔ اس سے قبل پیر کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے معاملے کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر مہر خالق داد لک کی رپورٹ پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے جواب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب اس معاملے کو ہلکا لے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعظم کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہیں گے۔ اگر یہ وزیرِ اعلیٰ رہیں گے تو عدالت کے فیصلوں کے تابع رہیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو خیال نہیں عدالت میں آ کر غلطی تسلیم کرے، معافی مانگے، شرمساری دکھائے۔ وزیراعلیٰ نے اپنے جواب میں بہترین افسر پر ذاتی حملہ کیا۔ وزیراعلیٰ کون ہوتے ہیں ایسا جواب بھیجنے والے؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ وزیرِ اعلٰی معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ معاملہ حساس تھا، اس لیے وزیراعلی نے ڈی پی او کو بلایا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ نے غیر متعلقہ شخص کے سامنے پولیس افسروں کو بلایا۔ کیا ڈی پی او رضوان گوندل پلید ہو گئے تھے جو اتنی جلدی تبدیل کر دیا؟ کیا وزیرِ اعلیٰ صادق اور امین ہیں؟ کل کو 62 ون ایف کے کیس میں یہ سوال بھی اٹھیں گے۔ چیف جسٹس نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے قریبی دوست احسن جمیل گجر کے بارے میں کہا کہ کیا پولیس افسران کے بارے میں احسن جمیل ایسی زبان استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا یہ حکومت ہے جو نیا پاکستان بنا رہی ہے؟ جسٹس ثاقب نثار نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو مخاطب کرکے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان سے میری ناپسندیدگی کا اظہار کر دیں۔ کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ جب ہم 62 ون ایف کی انکوائری کرائیں گے تو نیا پاکستان بنے گا۔ کرامت کھوکھر کا معاملہ پی ٹی آئی ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجا مگر کچھ نہیں ہوا۔ وکیل احسن بھون نے کہا کہ احسن جمیل کی طرف سے غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ احسن جمیل گجر ہے کون؟ یہ کس کا خاندانی دوست ہے؟ وکیل احسن بھون نے کہا کہ یہ مانیکا خاندان کا دوست ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا خاور مانیکا خود جا کر بات نہیں کر سکتے تھے؟ ہم انکوائری کراتے ہیں، جو ریکارڈ لانا ہے لے آئیں۔ ہم قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کو قانون کے سامنے جھکنا ہو گا۔ اس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کی تحریری معافی جمع کرا دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انکوائری کرائیں گے اور جرح بھی ہو گی۔ کیا ہمیں جھوٹ نظر نہیں آتا؟ اس معاملہ کو ایسے نہیں چھوڑوں گا۔ یہ قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔ اس کے بعد عدالت نے تمام افراد کو معافی نامے دوبارہ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے تمام افراد کے معافی نامے قبول کرتے ہوئے کیس نبٹادیا۔ واضح رہے کہ خاتونِ اول بشریٰ بی بی اور ان کے سابق شوہر خاور مانیکا کے بچوں کے ساتھ مبینہ بد سلوکی پر پنجاب حکومت نے ضلع پاک پتن کے اس وقت کے پولیس سربراہ رضوان گوندل کا تبادلہ کیا تھا۔ تبادلے کے لیے سیاسی دباؤ ڈالے جانے کی اطلاعات کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کی تھی۔ لیکن اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اس وقت کے آئی جی پولیس پنجاب کلیم امام نے معاملے کے تمام کرداروں کو کلین چٹ دیتے ہوئے کسی پر بھی ذمہ داری عائد نہیں کی تھی۔ سپریم کورٹ نے رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا اور پنجاب پولیس کے ایک اور افسر مہر خالق داد لک کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ مہر خالق داد لک نے اپنی رپورٹ گزشتہ ہفتے عدالت میں جمع کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے میں سیاسی اثر و ر��وخ استعمال کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈی پی او کو سبق سکھانے کے لیے آئی جی پنجاب پر دباؤ تھا جب کہ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں ہونے والی ملاقات میں پولیس افسران کے ساتھ احسن جمیل گجر کا رویہ بھی تضحیک آمیز تھا۔
0 notes
newestbalance · 6 years ago
Text
سپریم کورٹ کا 'نئے پاکستان' پر اظہارِ برہمی؛ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا معافی نامہ قبول
اسلام آباد — 
عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کیس میں حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان تک ان کی ناراضگی پہنچا دی جائے۔
پیر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا، "کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ آگئے ہیں سارے مل کر نیا پاکستان بنانے۔”
عدالتِ عظمیٰ نے برہمی کے اظہار کے بعد ڈی پی او پاک پتن تبادلہ کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور احسن جمیل گجر کے معافی نامے قبول کرتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹا دیا۔
اس سے قبل پیر کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے معاملے کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر مہر خالق داد لک کی رپورٹ پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے جواب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب اس معاملے کو ہلکا لے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعظم کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہیں گے۔ اگر یہ وزیرِ اعلیٰ رہیں گے تو عدالت کے فیصلوں کے تابع رہیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو خیال نہیں عدالت میں آ کر غلطی تسلیم کرے، معافی مانگے، شرمساری دکھائے۔ وزیراعلیٰ نے اپنے جواب میں بہترین افسر پر ذاتی حملہ کیا۔ وزیراعلیٰ کون ہوتے ہیں ایسا جواب بھیجنے والے؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ وزیرِ اعلٰی معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ معاملہ حساس تھا، اس لیے وزیراعلی نے ڈی پی او کو بلایا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ نے غیر متعلقہ شخص کے سامنے پولیس افسروں کو بلایا۔ کیا ڈی پی او رضوان گوندل پلید ہو گئے تھے جو اتنی جلدی تبدیل کر دیا؟ کیا وزیرِ اعلیٰ صادق اور امین ہیں؟ کل کو 62 ون ایف کے کیس میں یہ سوال بھی اٹھیں گے۔
چیف جسٹس نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے قریبی دوست احسن جمیل گجر کے بارے میں کہا کہ کیا پولیس افسران کے بارے میں احسن جمیل ایسی زبان استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا یہ حکومت ہے جو نیا پاکستان بنا رہی ہے؟
جسٹس ثاقب نثار نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو مخاطب کرکے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان سے میری ناپسندیدگی کا اظہار کر دیں۔ کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ جب ہم 62 ون ایف کی انکوائری کرائیں گے تو نیا پاکستان بنے گا۔ کرامت کھوکھر کا معاملہ پی ٹی آئی ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجا مگر کچھ نہیں ہوا۔
وکیل احسن بھون نے کہا کہ احسن جمیل کی طرف سے غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ احسن جمیل گجر ہے کون؟ یہ کس کا خاندانی دوست ہے؟
وکیل احسن بھون نے کہا کہ یہ مانیکا خاندان کا دوست ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا خاور مانیکا خود جا کر بات نہیں کر سکتے تھے؟ ہم انکوائری کراتے ہیں، جو ریکارڈ لانا ہے لے آئیں۔ ہم قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کو قانون کے سامنے جھکنا ہو گا۔ اس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کی تحریری معافی جمع کرا دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انکوائری کرائیں گے اور جرح بھی ہو گی۔ کیا ہمیں جھوٹ نظر نہیں آتا؟ اس معاملہ کو ایسے نہیں چھوڑوں گا۔ یہ قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔
اس کے بعد عدالت نے تمام افراد کو معافی نامے دوبارہ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے تمام افراد کے معافی نامے قبول کرتے ہوئے کیس نبٹادیا۔
واضح رہے کہ خاتونِ اول بشریٰ بی بی اور ان کے سابق شوہر خاور مانیکا کے بچوں کے ساتھ مبینہ بد سلوکی پر پنجاب حکومت نے ضلع پاک پتن کے اس وقت کے پولیس سربراہ رضوان گوندل کا تبادلہ کیا تھا۔
تبادلے کے لیے سیاسی دباؤ ڈالے جانے کی اطلاعات کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کی تھی۔
لیکن اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اس وقت کے آئی جی پولیس پنجاب کلیم امام نے معاملے کے تمام کرداروں کو کلین چٹ دیتے ہوئے کسی پر بھی ذمہ داری عائد نہیں کی تھی۔
سپریم کورٹ نے رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا اور پنجاب پولیس کے ایک اور افسر مہر خالق داد لک کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
مہر خالق داد لک نے اپنی رپورٹ گزشتہ ہفتے عدالت میں جمع کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے میں سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ڈی پی او کو سبق سکھانے کے لیے آئی جی پنجاب پر دباؤ تھا جب کہ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں ہونے والی ملاقات میں پولیس افسران کے ساتھ احسن جمیل گجر کا رویہ بھی تضحیک آمیز تھا۔
The post سپریم کورٹ کا 'نئے پاکستان' پر اظہارِ برہمی؛ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا معافی نامہ قبول appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yl3d4j via Urdu News
0 notes
cleopatrarps · 6 years ago
Text
سپریم کورٹ کا 'نئے پاکستان' پر اظہارِ برہمی؛ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا معافی نامہ قبول
اسلام آباد — 
عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کیس میں حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان تک ان کی ناراضگی پہنچا دی جائے۔
پیر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا، "کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ آگئے ہیں سارے مل کر نیا پاکستان بنانے۔”
عدالتِ عظمیٰ نے برہمی کے اظہار کے بعد ڈی پی او پاک پتن تبادلہ کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور احسن جمیل گجر کے معافی نامے قبول کرتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹا دیا۔
اس سے قبل پیر کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے معاملے کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر مہر خالق داد لک کی رپورٹ پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے جواب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب اس معاملے کو ہلکا لے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعظم کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہیں گے۔ اگر یہ وزیرِ اعلیٰ رہیں گے تو عدالت کے فیصلوں کے تابع رہیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو خیال نہیں عدالت میں آ کر غلطی تسلیم کرے، معافی مانگے، شرمساری دکھائے۔ وزیراعلیٰ نے اپنے جواب میں بہترین افسر پر ذاتی حملہ کیا۔ وزیراعلیٰ کون ہوتے ہیں ایسا جواب بھیجنے والے؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ وزیرِ اعلٰی معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ معاملہ حساس تھا، اس لیے وزیراعلی نے ڈی پی او کو بلایا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ نے غیر متعلقہ شخص کے سامنے پولیس افسروں کو بلایا۔ کیا ڈی پی او رضوان گوندل پلید ہو گئے تھے جو اتنی جلدی تبدیل کر دیا؟ کیا وزیرِ اعلیٰ صادق اور امین ہیں؟ کل کو 62 ون ایف کے کیس میں یہ سوال بھی اٹھیں گے۔
چیف جسٹس نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے قریبی دوست احسن جمیل گجر کے بارے میں کہا کہ کیا پولیس افسران کے بارے میں احسن جمیل ایسی زبان استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا یہ حکومت ہے جو نیا پاکستان بنا رہی ہے؟
جسٹس ثاقب نثار نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو مخاطب کرکے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان سے میری ناپسندیدگی کا اظہار کر دیں۔ کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ جب ہم 62 ون ایف کی انکوائری کرائیں گے تو نیا پاکستان بنے گا۔ کرامت کھوکھر کا معاملہ پی ٹی آئی ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجا مگر کچھ نہیں ہوا۔
وکیل احسن بھون نے کہا کہ احسن جمیل کی طرف سے غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ احسن جمیل گجر ہے کون؟ یہ کس کا خاندانی دوست ہے؟
وکیل احسن بھون نے کہا کہ یہ مانیکا خاندان کا دوست ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا خاور مانیکا خود جا کر بات نہیں کر سکتے تھے؟ ہم انکوائری کراتے ہیں، جو ریکارڈ لانا ہے لے آئیں۔ ہم قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کو قانون کے سامنے جھکنا ہو گا۔ اس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کی تحریری معافی جمع کرا دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انکوائری کرائیں گے اور جرح بھی ہو گی۔ کیا ہمیں جھوٹ نظر نہیں آتا؟ اس معاملہ کو ایسے نہیں چھوڑوں گا۔ یہ قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔
اس کے بعد عدالت نے تمام افراد کو معافی نامے دوبارہ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے تمام افراد کے معافی نامے قبول کرتے ہوئے کیس نبٹادیا۔
واضح رہے کہ خاتونِ اول بشریٰ بی بی اور ان کے سابق شوہر خاور مانیکا کے بچوں کے ساتھ مبینہ بد سلوکی پر پنجاب حکومت نے ضلع پاک پتن کے اس وقت کے پولیس سربراہ رضوان گوندل کا تبادلہ کیا تھا۔
تبادلے کے لیے سیاسی دباؤ ڈالے جانے کی اطلاعات کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کی تھی۔
لیکن اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اس وقت کے آئی جی پولیس پنجاب کلیم امام نے معاملے کے تمام کرداروں کو کلین چٹ دیتے ہوئے کسی پر بھی ذمہ داری عائد نہیں کی تھی۔
سپریم کورٹ نے رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا اور پنجاب پولیس کے ایک اور افسر مہر خالق داد لک کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
مہر خالق داد لک نے اپنی رپورٹ گزشتہ ہفتے عدالت میں جمع کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے میں سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ڈی پی او کو سبق سکھانے کے لیے آئی جی پنجاب پر دباؤ تھا جب کہ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں ہونے والی ملاقات میں پولیس افسران کے ساتھ احسن جمیل گجر کا رویہ بھی تضحیک آمیز تھا۔
The post سپریم کورٹ کا 'نئے پاکستان' پر اظہارِ برہمی؛ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا معافی نامہ قبول appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2yl3d4j via Today Urdu News
0 notes
gcn-news · 5 years ago
Text
خاتون اول بشریٰ بی بی کے بیٹے کیخلاف عدالت میں کیا درخواست دائر کردی گئی؟
لاہور(جی سی این رپورٹ)لاہور ہائیکورٹ نے خاتون اول بشریٰ بی بی کے بیٹے ابراہیم مانیکا اور پولیس کو شہری کی درخواست پر نوٹس جاری کردیے۔شہری محمد حسن نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا کے بیٹے ابراہیم مانیکا نے میرے بھائیوں کو پولیس کے ذریعے اٹھوا لیا ہے۔درخواست کے مطابق احمد حسن اور اعجاز احمد کو گاڑی کے تنازعے پر پولیس کے ذریعے اٹھوایا گیا، ابراہیم مانیکا کو 10 لاکھ دے چکے لیکن وہ مزید ڈیڑھ کروڑ روپے کا تقاضہ کررہا ہے اور پولیس بااثر افراد کے خلاف کارروائی نہیں کررہی ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس انورالحق پنوں نے محمد حسن کی درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت پولیس نے جواب جمع کرایا کہ متعلقہ افراد کو کسی بھی کیس میں حراست میں نہیں لیا گیا۔عدالت نے درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 24 فروری تک ملتوی کردی۔ Read the full article
0 notes