Tumgik
#حمید علی دوستی
bazmeurdu · 4 years
Text
اردو کے شاہکار خاکے
خلیل احمد نے ’’ اردو کے شاہکار خاکے‘‘ کے عنوان سے جو کتاب مرتب کی ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جن مشہور شخصیتوں کے خاکے ہیں وہ تمام تر مشہور شخصیتوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ خلیل احمد نے جن کی تعریف بشریٰ رحمن نے یہ کہہ کر کی ہے کہ وہ ایک انتہائی محنتی اور مشفق نوجوان ہیں ان شخصی خاکوں کے انتخاب میں یہ کوشش کی ہے کہ ہر شعبہ زندگی کا خاکہ اس کتاب میں شامل ہو۔ احمد فراز کا خاکہ اسلم فرخی نے لکھا ہے۔ لکھتے ہیں کہ فراز بڑا ہر دل عزیز شاعر تھا، بڑا مقبول مشاعر تھا۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ مجھے ڈاکٹروں کی ایک محفل میں ہوا۔ معروف شاعر عرفان ستار نے یہ تقریب منعقد کی تھی۔ بہت بڑا مجمع تھا، بے شمار ڈاکٹر محفل میں موجود تھے، فراز نے پڑھنا شروع کیا تو سماں بندھ گیا۔ کسی کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
فراز پڑھتا رہا۔ غزل پر غزل، نظم پر نظم۔ محفل تھی کہ جھوم رہی تھی۔ دل نہیں چاہتا تھا کہ محفل ختم ہو۔ گوہر تاج انیتا غلام علی کے بارے میں لکھتی ہیں ’’میرے نزدیک ایک انسان دوست انیتا آپا کی شخصیت ایک ایسے خوبصورت پھول کی مانند ہے جس میں تمام تر تازگی اور مہکار کے ساتھ ساتھ آہستگی سے بتدریج مسلسل کھلتے رہنے کا عمل جاری ہے یعنی ہر اگلی ملاقات پر ان کی پہلو دار شخصیت کے کچھ اور رموز منکشف ہوتے ہیں۔ اس طرح ہر دفعہ ان کو اس طرح کھوجنا ان سے دوستی کا انعام سا لگتا ہے۔ انیتا غلام علی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس فیروز نانا کی بیٹی تھیں ، وہ بتاتی تھیں کہ ان کے ابا کے پاس ایک چھوٹی سی ڈبیا میں قرآن مجید تھا جس کو انھوں نے پوری زندگی اپنے عدالتی کوٹ کی بائیں طرف جیب میں رکھا۔ ان کے ہر بچے کو اپنی سوچ اور رجحان کیمطابق چلنے کی آزادی تھی۔
البتہ یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ صحیح ہے اور وہ غلط، بیچ کا کوئی راستہ نہیں اور نتائج کی ذمے داری تمہاری اپنی ہے۔ عطا الحق قاسمی نے احسان دانش کا خاکہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ احسان دانش کی شخصیت کے جس پہلو نے مجھے بے حد پریشان کیا ہے وہ ان کا بڑا شاعر اور بڑا انسان ہونے کے علاوہ ایک نہایت خوبصورت نثر نگار ہونا بھی ہے۔ میں نے ان کی آپ بیتی ’’جہانِ دانش‘‘ کا مطالعہ شروع کیا تو ایک ایک صفحے پر حیرتوں کے در کھلتے گئے۔ اس کی نثر آج کی نثر ہے جس میں کلاسیکی حسن پوری ہمہ گیری کے ساتھ رچا بسا ہے اور کردار نگاری اس کمال کی ہے کہ قاری اس کے طلسم میں گم ہو جاتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کا خاکہ اے حمید نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خلوص، دیانت اور محنت، یہ تین عناصر قاسمی صاحب کی شخصیت کے اجزائے اعظم ہیں۔
ان کی شرافت ان کی شاعری اور افسانوں سے زیادہ مشہور ہے۔ کوئی کافر ہی ان کی شرافت سے انکار کر سکتا ہے۔ ایک بنیادی بات اور بھی ہے۔ قاسمی صاحب انسان سے پیار کرتے ہیں۔ یہ انسان خواہ کسی مذہب، ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ کبھی ان کو دکھی نہیں دیکھ سکتے۔ انسانیت سے ان کے پیار نے ان کے فن کو نکھار بخشا ہے اور ان کی شخصیت کو ہر دل عزیز اور دلکشی عطا کی ہے۔برصغیر کے مشہور شہنائی نواز بسم اللہ خاں کا خاکہ رضا علی عابدی نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بسم اللہ خاں کے ماموں شہنائی کے استاد تھے۔ انھوں نے کم عمری میں ان کی تربیت شروع کی اور انھیں کمال فن پر پہنچایا۔ موسیقی اور شہنائی کی تاثیر کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ موسیقی سے دیا جل گیا یا پانی برسنے لگا، یہ صحیح ہے۔ خود بسم اللہ خاں کے تاثیر کا جو واقعہ پیش آیا اس کا انھوں نے ذکر کیا ہے۔ 
وہ کہتے ہیں کہ جب ان کی شہنائی میں تاثیر پیدا ہونے لگی تو ان کے ماموں نے ان سے کہا کہ اگر کوئی ملے تو کسی کو بتانا نہیں۔ پھر یہ ہوا کہ ایک روز بسم اللہ خاں بالائی منزل کی کوٹھریوں میں تنہا بیٹھے شہنائی بجا رہے تھے۔ اچانک کہیں سے عطر کی تیز خوشبو آئی۔ یہ آنکھیں موندے شہنائی بجاتے رہے۔ ایک بار جو آنکھ کھولی تو کیا دیکھتے ہیں ایک باریش بزرگ چھڑی ٹیکے سامنے کھڑے غور سے شہنائی سن رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں۔ خاں صاحب کہتے ہیں ’’میرے حواس بحال نہ رہے، شہنائی منہ سے نکل گئی اور میں خوف و حیرت سے بزرگوار کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ مسکرا کر بولے، بجاؤ۔۔۔بجاؤ۔ اور جب میں بجا نہ سکا تو وہ پلٹے اور سیڑھیاں اترنے لگے۔ میں نے لپک کر نیچے دیکھا، وہاں کوئی نہ تھا۔ میرا عجیب حال ہوا اور شام کو جب میں نے ماموں کو یہ واقعہ سنانا چاہا تو انھوں نے ٹال دیا۔ 
جب میں نے بات شروع کی تو انھوں نے کہا، بس ہو گئی تمہاری ملاقات۔ بس اس کے بعد ہو تو کسی سے ذکر نہ کرنا۔ خلیل احمد کی کتاب میں ایک مختصر سا خاکہ پروین شاکر کا ہے جو پروین قادر آغا نے لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’’وہ ایک پھول شہزادی تھی۔ ایک ترنم ، ایک خوشبو اور حقیقت میں بذات خود شاعری تھی۔ مجھے اس کی شاعری پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ وہ میرے لیے خود ایک نظم تھی۔ پروین ایک بے حد حساس روح تھی۔ وہ کوئی بات کہے یا پوچھے بغیر سب کچھ سمجھ جایا کرتی تھی۔ وہ اپنے شعری وجدان کی بدولت انسانوں کی اندرونی کیفیات کو محسوس کر لیا کرتی تھی۔‘‘ مظہر محمود شیرانی نے حکیم نیر واسطی کا خاکہ لکھا ہے اور طباعت کے شعبے میں ان کے حیران کن کارناموں کا ذکر کیا ہے۔ 
وہ لکھتے ہیں کہ ایک بے نظیر نباض ، بے بدل طبیب اور بلند پایہ انسان کی حیثیت سے ان کا مقابلہ کوئی مشکل سے کر سکتا ہے۔ وہ حکیم صاحب کی حکمت ودانائی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک خاتون کی نبض دیکھ کر انھوں نے اس کے شوہر سے کہا کہ آپ کی بیوی کے پتے میں پتھریاں ہیں، آپریشن کروانا پڑے گا۔ اس شخص نے ایکسرے رپورٹ پیش کی جس سے حکیم صاحب کی بات کی تصدیق ہوتی تھی۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں کوئی نسخہ لکھنے کا سوال نہ تھا لیکن وہ شخص جم کر بیٹھ گیا۔ اس کا اصرار تھا کہ آپ خود علاج کریں۔ ہم آپریشن نہیں کروائیں گے۔ حکیم صاحب وقفے وقفے سے اسے آپریشن کرانے کی تلقین کرتے رہے۔ آخر وہ روہانسا ہو گیا اور کہنے لگا ’’حکیم صاحب! آپ اس دور کے حکیم بو علی سینا ہیں۔
اس پر میرا ایمان کی طرح یقین ہے۔ اگر آپ کے پاس اس کا علاج نہیں ہے تو کسی کے پاس نہیں۔‘‘ اس شخص نے یہ بات نہایت متاثر کن انداز میں کہی جسے سن کر حکیم صاحب نے سر جھکا لیا جیسے مراقبے میں چلے گئے ہوں۔ ذرا دیر بعد سر اٹھا کر کہا ’’آپ نے بہت بڑی بات کہہ دی۔ آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔‘‘ آخر وہ شخص جیتا اور حکیم صاحب ہارے۔ چنانچہ نسخہ لکھ کر دے دیا گیا۔ ڈیڑھ ماہ بعد وہ شخص پھر حکیم صاحب کے پاس آیا۔ تازہ ایکسرے رپورٹ پیش کی۔ اب پتے میں پتھریوں کا نشان نہ تھا۔ خدیجہ مستور کا خاکہ احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’خدیجہ اور ہاجرہ بہنیں ہیں۔ خدیجہ بڑی اور ہاجرہ چھوٹی، مگر صرف ایک سال چھوٹی۔ دونوں کی پرورش و تربیت ایک ہی گھر کے ماحول میں ہوئی۔
دونوں نے اکٹھا افسانے لکھنے شروع کیے۔ یہ افسانے ایک سے رسالوں میں چھپے۔ دونوں ہجرت کر کے لکھنو سے لاہور آئیں۔ دونوں کی ایک ہی دن شادی ہوئی۔ دونوں کے شوہر معروف اخبار نویس تھے۔ دونوں کے دو دو بچے تھے اور دونوں کے افسانوں کے چار چار مجموعے تھے۔ دونوں کے ڈراموں کا ایک ایک مجموعہ ہے۔ دونوں کے ادبی نظریات ایک تھے۔ اس کے باوجود دونوں کے فن میں، دونوں کے مشاہدے میں، کرداروں کے انتخاب میں، پلاٹ کی تعمیر میں حتیٰ کہ زبان و بیان تک میں اتنا واضح فرق کیوں ہے؟ یہ دونوں شخصیتوں کا فرق ہے۔ ان دونوں کے اسلوب میں معمولی فرق نہیں، وہ فرق ہے جس کو آسمان و زمین کا فرق کہتے ہیں۔ 
خدیجہ کی زندگی میں سادگی، پیار اور اپنائیت تھی اور یہی ان کے فن میں بھی تھی لیکن ان کی شخصیت کی ایک خصوصیت ایسی تھی جسے اپنے فن میں منتقل ہونے سے شاید انھوں نے شعوری طور پر روک رکھا تھا اور وہ ان کی پھبتی تھی، طنز سے بھرا ہوا ان کا کٹیل فقرہ تھا اور ساتھ ہی ان کے غیر مختنم قہقہے تھے۔‘‘ خلیل احمد کی اس کتاب میں بہت سے شخصی خاکے ہیں سبھی پڑھنے کے قابل ہیں، فن کاروں کے لکھے، فنکاروں کے خاکے۔ خود خلیل احمد کے فن کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ شاعر، ادیب اور محقق کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان کی یہ کتاب فکشن ہاؤس کی پیشکش ہے۔
رفیع الزمان زبیری    
بشکریہ ایکسپریس نیوز
5 notes · View notes
newsvillageir-blog · 7 years
Text
علیدوستی: فوتبال برای من رنج‌نامه بود/ یک بار دور کره زمین دویده‌ام!
[ad_1]
به نقل از دهکده خبر از پایگاه خبری ایسنا :
با حوصله و آرام، بدون هیچ حرف اضافی صحبت می‌کند؛ صحبت‌هایش تکراری نیست و به دل مخاطب می‌نشیند. فراز و نشیب‌های زیادی در زندگی داشته اما هیچ‌گاه پایش از مسیری که به آن اعتقاد داشته، نلغزیده و محکم و استوارتر از همیشه به سوی باور خود حرکت کرده است.
به گزارش ایسنا، حمید علیدوستی کم‌حاشیه‌ترین و در عین حال یکی از مستعدترین فوتبالیست‌های ایران…
View On WordPress
0 notes
urduclassic · 7 years
Text
کتاب دوستی کم ہونے کا تاثر درست نہیں
کتاب میری پہلی محبت ہے، میرے بیشتر دوستوں کی بھی اور میرے اکثر شاگردوں کی بھی ، دوستیاں بھی انہی سے ہوئیں جو کتاب پڑھتے تھے اور کتاب کا تحفہ دیتے تھے ، یونیورسٹی کے دنوں میں ماہنامہ ہمقدم کی ادارت کے بعد میری زندگی کا پہلا شاندار کام بھی کتابوں کی اشاعت کے ایک ادارے کا انچارج بننا ہی تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ڈگری مکمل ہوئی اور پہلی سرکاری نوکری کے لئے یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہورمیں افسر تعلقات عامہ کے لئے انتخاب ہوا تو میں اس کی بجائے کتابوں کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے فیروز سنز میں مدیر بن گیا۔
میری زندگی کی سب سے زیادہ خوشی دینے والی دوستیاں اور تعلق یہیں سے بننے کا آغاز ہوا۔ جناب اشفاق احمد ، بانو آپا، مستنصر حسین تارڑ، یونس جاوید ، سید ضمیرجعفری ، ممتاز مفتی، امجد اسلام امجد ، اے حمید، میرزاادیب، طارق اسماعیل ساگر، بشری ٰرحمان ،رضیہ بٹ، سائرہ ہاشمی ،الطاف فاطمہ ، جناب مختار مسعود، جناب مجیب الرحمن شامی ، ڈاکٹر انور سدید، تنویر قیصر شاہد، عطاالحق قاسمی ، پروفیسر عنایت علی خان ، انور مسعود، مظفر محمد علی ، وصی شاہ اورڈاکٹر عبدالغنی فاروق کیسے کیسے قیمتی اور نایاب لوگ ان کتابوں نے ملوائے، بلکہ عطا کئے۔ ٹرینر بننے سے قبل میری پہچان ایک افسانہ نگار ،کہانی کار اور مدیر کی ہی تھی، پھول کے تیرہ برس ہوں یا قومی ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ کی ادارت کے قیمتی سال، سبھی کا تعلق لکھنے سے ہی تھا۔ میرے بیشتر اعزازات چاہے یونیسیف ایوارڈز ہوں یا دعوۃ اکیڈیمی اور نیشنل بک فاونڈیشن ایوارڈ زسبھی لکھنے سے ہی متعلق رہے ۔
حالیہ یوبی ایل ایکسیلینس ایوارڈ بھی ایک کتاب کا ہی مرہون منت تھا۔ کتاب نے ہی خرم مراد صاحب سے ملوایا اور اسی نے جیلانی بی اے سے متعارف کروایا۔ کتاب نے ہی زندگی کی بڑی حیرتوں سے دوچار کیا خصوصاَ اس روز جب ایک دوست کے ہاں مصطفیٰ ٹاؤن اس کے بچے کی پیدائش کی مبارک باد دینے گئے ،وہ اور اس کی بیوی بچہ سنبھالنے لگے اور میں ان کے ڈرائنگ روم میں الماری میں سجی کتابیں دیکھنے لگا تو گیارہ کتابیں ایسی ملیں جو میری جانی پہچانی تھیں اور ان پر میرے دستخط موجود تھے۔ یونیورسٹی کے زمانے سے میری عادت ہے کہ کتاب خرید کر پہلا کام یہی کرتا ہوں ،وہاں سے واپسی پر ان گیارہ کتابوں کے بوجھ کے ساتھ سیڑھیاں اترتے د یکھ کر میری اہلیہ نے کھلکھلا کربس اتنا ہی کہا یوں لگ رہا ہے جیسے آپ نے اپنی گود میں تازہ پھول اٹھا رکھے ہوں ۔
ویسے اپنی دوست اور کولیگ آمنہ کی شادی پر اس کے گھر جاکر بھی ایسی ہی کیفیت ہوئی تھی اور مروت میں ان کتابوں کو وہاں چھوڑنا ایسے ہی لگ رہا تھا جیسے اپنے گھر سے آئی ڈولی وہاں چھوڑ دی ہو۔ گذشتہ برس کتاب کے دن اسلام آباد میں نیشل بک فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہونے والے پروگرام میں اتنی دیر کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی ایسے نہیں لگا کہ میں اپنی ذاتی محبتوں کے قصے سنا رہا ہوں حالانکہ معاملہ اس سے بھی سوا تھا جبھی تو آفاق کے نئے سربراہ جناب محمد خلیق نے کہا ’’ میرے دل میں آیا تھا کہ تمہارا ماتھا چوم لوں ۔ ‘‘ممتاز ٹرینرجناب شاہد وارثی نے اپنی باری پر یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ میں اپنا وقت بھی انہی کو دیتا ہوں کہ یہ کتاب دوستی کی باتیں اسی طرح کرتے رہیں۔
کیا میں اس لمحے کتاب سے دوستی کی باتوں کے سحرمیں تھا اور عملاََ شہد کا چھتہ بنا برسوں سے جمع قطرہ قطرہ اس کتابی محبت کو اس مجمعے کے ساتھ بانٹ رہا تھا جو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی وجہ سے پاک چائنہ سنٹر کے اس یخ بستہ ہال میں جمع تھا۔ ایک زمانہ تھا کالم اس لئے پڑھے اور پسند کئے جاتے تھے کہ کالم نگار دنیا کی بہترین کتابوں کا خزانہ اپنے قارئین کے ساتھ بانٹنا پسند کرتے تھے ، پھر رواج بدلا، صرف وہ باتیں اور واقعات سامنے لائے جانے لگے جو لکھنے والے کی بات کی تائید کرتے، اب کم ہی کوئی اس تکلف میں پڑتا ہے کہ کسی نئی کتاب سے ملوائے، اس کے مصنف کی باتیں اور نقطہ نگاہ بتائے ، قاری کی تربیت اور تسکین دونوں ایک ساتھ ہو جاتی تھی ۔
کہیں بیٹھے ہوں تو عام خیال یہی ہوتا ہے کہ کتاب سے لوگوں کی محبت کم ہوئی ہے ۔ تین روز جوہر ٹاؤن میں واقع ایکسپو سنٹر میں لگے بک فیئر میں لوگوں کی آمد ورفت دیکھ کر تو ایسا بالکل نہیں لگا۔ بڑے سے ہال میں لگے چھوٹے بڑے سٹالز میں سجی کتابوں کو دیکھنے اور لینے جوق در جوق آرہے تھے ، یہ اس بات کی گواہی تھی کہ لوگوں کی کتاب سے محبت اسی طرح قائم ہے اور اُس میں کمی نہیں ہوئی۔ کچھ بچے اپنے والدین کو لے کر آئے تھے اور کچھ والدین اپنے بچوں کو لے کر آئے تھے۔ کتاب سے محبت کا یہ سفر ایسا ہی چلتا ہے، کیونکہ یہی وہ محبت ہے جو دل ہی نہیں دن بھی بدل ڈالتی ہے ۔ اس بار ایک نیا کام یہ ہوا کہ ہر روز نئی کتابوں کی تقریبات رونمائی کے لئے ایک ہال بھی دستیاب تھا ، تین تقریبات تو میں نے بھگتائیں، ایک راحت عائشہ کی کتاب تھی ،آ م کا بھوت ،جس میں نذیر انبالوی کے علاوہ ابن صفی کے بڑے صاحبزادے سے بھی ملاقات ہوئی جو ایک بڑی کمپنی میں اکاوئنٹس دیکھتے ہیں، کیا عمدہ بولے ، دوسری کتاب راکعہ رضا کی کہانیوں کا مجموعہ تھا آخری سیڑھی، اس میں علامہ اقبال کے پوتے منیب اقبال بھی آئے اور اردوکتب کی اشاعت اور پذیرائی پر خوشی کا اظہار کیا۔ تیسری کتاب رابعہ بک پبلشرز کے ابوالحسن طارق کی تھی جو انہوں نے حج کے فریضہ کی ادائیگی کے لئے ایک راہنما کتاب کے طور پر تیار کی ہے، اس میں مہمان مقررین بھی کافی تھے ۔
مانا جاتا ہے کہ کتاب زندگی کو آپ کے لیے کھول دیتی ہے۔ کتا ب آپ کے لیے دانش اور محبت کے راستے اور علم ، مرتبے اور عزت کے سارے دروازے کھول دیتی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہماری موجودہ سیاسی قیادت پر کتاب شناسی اور صاحب مطالعہ ہونے کی کوئی تہمت مشکل سے ہی لگائی جا سکتی ہے، چھوٹے میاں صاحب البتہ اشعار بروقت استعمال کرتے رہتے ہیں ، اپنے خان صاحب کتاب اور شعر دونوں ہی پڑھنے پر یقین نہیں رکھتے ، زرداری صاحب پر بھی یہ الزام مشکل سے ہی لگایا جا سکتا ہے ، سراج الحق صاحب کا شوق نہ بھی ہو انہیں جماعتی ڈسپلن اور ضرورت کے مطابق پڑھنا پڑتا ہے اسی لیے وہ دوران سفر بھی کتاب کے ساتھ دیکھے گئے ہیں ، فاروق ستار صاحب کی گفتگو سے تو کبھی نہیں لگا کہ کتاب سے کوئی دور پار کا تعلق رہا ہو گا، لیاقت بلوچ صاحب کو کتاب پڑھنے کا بہت عمدہ ذوق ہے ، مولانا فضل الرحمن اپنے تعلیمی دنوں کے بعد کسی کتاب کا ذکر کرتے نہیں دیکھے ، ہاں کئی برس قبل عرفان صدیقی صاحب کے کالموں کے مجموعے کی تقریب رونمائی میں پی سی میں وہ تشریف لائے، اپنی پارٹی میں زرداری صاحب نے تو شائد ہی کتاب پڑھنے کی خواہش پنپنے دی ہو ، ایک زمانے میں جب یوسف رضا گیلانی صاحب کی چاہ یوسف سے صدا آئی تھی تو مرحوم فہیم الزمان کی گفتگو ایک صاحب مطالعہ شخص کی نشاندہی کرتی رہی ، سیاسی قیادت درجہ اول کی ہو یا درجہ اول میں جانے اور شامل ہونے کی آرزو رکھنے والوں کی، ادب و کتاب سے دوستی اور تعلق کے بنا قابل تقلید فہم اور دانش تک رسائی آسان نہیں ہو تی، کتاب ان ساری غلطیوں اور کوتاہیوں کی بھی آگاہی دیتی ہے جو تاریخ کے سفر میں جگہ جگہ ہوئی نظر آتی ہیں، اہل علم اور صاحبان مطالعہ کو ہم نے ہمیشہ نرم مزاج اور اعتدال کو اپنی شخصیت کا حصہ بناتے دیکھا ، وہ ایشوز میں رائے ضرور دیتے، مگر پارٹی بننے سے احتراز کرتے ، یہ الگ بات ہے کہ آج کے وہ چند کالم نگار جنہیں کتابوں سے علاقہ ہے، وہ اس شوق اور ہنر کو ننگی تلوار بنائے ہر موضوع اور مخالف پر یوں استعمال کرتے ہیں ۔ جیسے کالم نگار نہ ہوں کسی پارٹی کے تلوار بازوں کے ہراول دستے کا حصہ ہوں ۔ کتاب دوستی اہل علم میں ہو اہل سیاست میں یا اہل ثقافت میں، توازن اور بے تعصبی سے سوچنے اور سمجھنے کے باعث ان کا ایک درجہ ہمیشہ بلند ہی رہتا دیکھا ہے ۔
اختر عباس  
0 notes
mamfat12345-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
پای درس رفتار مسئولانه حکیم انقلاب – اخبار تسنیم به گزارش گروه رسانه های خبرگزاری تسنیم، تاجر و کاسب بازار بود. مال‌التجاره‌ای داشت که خوب فروش می‌رفت. وسوسه شد گران بفروشد. رفت پیش امام جماعت مسجد سیدعزیزالله بازار تهران که فقه و اخلاق تدریس می‌کرد. گفت جنسم را اگر ۱۰۰ تومان هم بفروشم، سود می‌کنم ولی چون بازار کشش دارد، اگر ۲۰۰ تومان بفروشم،‌ اشکال دارد؟ آن عالم پاسخ داد این مال متعلق به توست و می‌توانی به هر قیمتی که می‌خواهی بفروشی؛ البته ‌انصاف نیست. مرد کاسب گفت حرام نباشد؛‌ اشکال ندارد! برخاست برود اما شنید: «البته شمر هم انصاف نداشت که آن جنایت بزرگ را در حق امام حسین علیه‌السلام در کربلا مرتکب شد».۲- از لوازم انصاف، همراهی و حمایت و اطاعت از ولیّ خداست و آنکه استنکاف کند، به مصیبت گرفتار می‌شود. عبدالله ابن عمر بعد از مرگ عثمان، با وجود بیان فضیلت‌های بسیار برای علی علیه‌السلام، از بیعت با حضرت سر باز زد. منابع تاریخی روایت می‌کنند اواخر عمر از اینکه از علی(ع) حمایت نکرد، ناراحت بود و می‌گفت بر هیچ‌یک از کارهای خود پشیمان نیستم، مگر این‌که در کنار علی نایستادم. امام حسین علیه‌السلام هنگام عزیمت به عراق، به ابن عمر فرمود «اتق الله یا ابا عبدالرحمن و لاتدعن نصرتی. از خدا بترس و از یاری‌ام دست برندار». اما او همراهی نکرد. گردش روزگار و غلبه حاکمان جور، کار را به جایی رساند که ابن عمر پس از ورود حجاج بن یوسف به مدینه مجبور شد شبانه نزد حجّاج برود و به وسیله او با عبدالملک بیعت کند. حجاج در رختخواب بود و برای تحقیر، پایش را بیرون آورد و گفت پیش بیا و بیعت کن! عبدالله مدتی بعد توسط عوامل حجاج مضروب شد و با همان جراحت از دنیا رفت. شاید این سرنوشت، مصداق حکمت جاری بر زبان امیر مومنان (ع) باشد که فرمود «من نام عن نصرهًْ ولیه، انتبه بوطأهًْ عدوّه. هر کس از یاری مولای خود غفلت کند و خواب بماند، با لگد دشمن بیدار می‌شود».۳- رهبر انقلاب در انتخابات ۸۸ ، ۹۲ و ۹۶ از برخی بداخلاقی‌ها و بی‌انصافی‌ها در تبلیغات انتخاباتی انتقاد کردند اما مخاطبان آن اعتراض، ماجرا را به سکوت برگزار کردند. نه تنها عذرخواهی نکردند بلکه به برخی بداخلاقی‌ها و بی‌انصافی‌ها ادامه دادند. این حکمت درباره انصاف از امیر مومنان علیه‌السلام است که فرمود «یُرفَع الخلاف و یوجب الایتلاف. انصاف، اختلاف‌ها را از میان برمی‌دارد و موجب الفت می‌شود». برعکس، بی‌انصافی و بی‌مروتی، موجب اختلاف و استهلاک فرصت‌ها می‌شود و طبیعتا مطلوب دشمنان کمین کرده است. جوهره اخلاق و انصاف در میان برخی سیاسیون مضمحل شده بود که سال ۸۸ در سرمایه حماسه ۴۰ میلیونی ملت ایران، آتش انداختند و آن فرصت بزرگ ملی را تبدیل به تهدید و مایه طمع دشمن کردند. مشابه این بداخلاقی و بی‌انصافی توسط برخی دولتمردان مدعی عدالت و اعتدال تکرار شد.۴- سوءمدیریت و رویکردهای غیرمسئولانه با نتایج خسارت‌بار، کار را به جایی رسانده که برخی مدعیان حمایت نظیر حزب ‌اشرافی کارگزاران و رئیس‌ دولت اصلاحات-با وجود بیشترین نقش و تقصیرها در فرصت‌سوزی دولت- پشت دولت را خالی کرده‌اند و با عرض پوزش، می‌گویند اگر چوب خشک جای ��وحانی بود تا به حال کاری برای اقتصاد کرده بود. یا دولت را سرگشته و مجمع تکنوکرات‌های بی‌انگیزه معرفی می‌کنند. آنها به تصریح خودشان، نگاه ساندیسی و رحم اجاره‌ای داشتند. با نردبان دولت، دنبال مطامع خود رفتند و به وقتش فاصله‌گذاری کردند. در اوج پایکوبی‌های خرد‌سوز همین طیف درباره توافق با شیطان بزرگ، مقتدای حکیم انقلاب یقین داشت این بار کج به مقصد نمی‌رسد؛ مکرراً نصیحت کرد و دلسوزانه هشدار داد. با این وجود، حالا که خیلی‌ها پشت آقای روحانی را خالی کرده‌اند، از سر تقوا و حکمت و مصلحت، از دولت و رئیس‌جمهور حمایت می‌کند، برای سرپا شدن و روحیه گرفتن و جبران مافات.۵- اخیرا «علی- الف» (اصلاح‌طلب نفوذی در دفتر تحکیم وحدت و متواری) در وبسایت رادیو فردا نوشت «به موازات تشدید التهابات ارزی و بحران اقتصادی، تحولات در درون بلوک قدرت، سمت و سوی متفاوتی به خود گرفته است. رهبر جمهوری اسلامی در دیدار با اعضای مجلس خبرگان تصریح کرد «راه‌حل مشکلات کشور از خالی کردن پشت دولت و ابراز برائت از دستگاه‌های مسئول نیست». او نسبت به موازی‌سازی با کارهای دولت نیز هشدار داد و از همه خواست دولتی‌ها را به سمت استفاده از دیدگاه‌های کارشناسان و حل مشکلات و خوش‌بین کردن مردم نسبت به تلاش‌های آنها هدایت کنند. تقریباً با اطمینان بالا می‌توان گفت با توجه به اینکه روحانی و جریان اعتدالی، زمینه‌های مساعد داخلی و خارجی را از دست داده و نارضایتی چشمگیری از عملکرد دولت در سطح جامعه وجود دارد، حمایت رهبری، او را از پایان زودهنگام ریاست جمهوری حفظ کرده است... (آیت‌الله) خامنه‌ای در حالی تقویت دولت را توصیه می‌کند که به لحاظ برخی مواضع و به‌خصوص دیدگاه‌های کلان، قرابتی با آن ندارد. او بارها امید به حل مشکلات از طریق مذاکره با آمریکا و چشم داشتن به دست دشمن را نکوهش کرده است. او توضیح نمی‌دهد دولتی که خطوط قرمز ادعایی در مذاکرات هسته‌ای را نقض کرده و توافقی به نام برجام را امضا کرده که به زعم او‌ اشتباه بوده و امروز نیز در مهار و حل مشکلات ناتوان است، چرا سزاوار حمایت است؟... گفتاردرمانی، دادن وعده‌های نسیه و غیرقابل اجرا و دوگانگی مزمن بین حرف و عمل، اعتماد بخش مهمی از جامعه را از روحانی سلب کرده است».۶- هیچ کس به اندازه مقتدای انقلاب، مُحقّ و سزاوار نیست در قبال سوءمدیریت دولت، زبان به سرزنش و توبیخ و محاکمه بگشاید. این مظنه رایج میان سیاستمداران عادی است. اما عیار بی‌بدیل ولایت، در همین فراز و نشیب‌ها آشکار می‌شود. رهبر انقلاب، مشفقانه نقد و نصیحت می‌کند و راه نشان می‌دهد، اما پراکندن ویروس ناامیدی و با خاک یکسان کردن طرف مورد نقد، هرگز. این، تراز رفتار منصفانه و مسئولانه است. آنچه ولایت را از دکانداری‌های سکولار و متعارف سیاست ممتاز می‌کند، همین رفتار مسئولانه در مقاطعی است که روند تحولات، مجال مواخذه و عتاب و تسویه حساب را فراهم می‌کند. سیاسیون معمولی اینجا بی‌دریغ، خشاب خشم را خالی می‌کنند اما پهلوانان پیرو امیر مومنان، هرگز! امیر مومنان (ع) در نامه ۶۶ خطاب به ابن عباس فرمود: «فلا یکن أفضل ما نلت فی نفسک من دنیاک بلوغ لذه أو شفاء غیظ، ولکن إطفاء باطل أو إحیاء حق. برترین چیز نزد تو نباید رسیدن به لذت (مراد دل) و یا خالی کردن خشم (خنک کردن دل)، بلکه باید خاموش کردن باطل و یا زنده کردن حق باشد». ۷- آیا دولتمردان، فرصت بزرگ جبران و اصلاح را که رهبر حکیم انقلاب - با وجود نارضایتی مردم و توده‌های انقلابی- برای دولت فراهم کرده است، قدر خواهند دانست و برای بازگشت به مسیر بن‌بست‌شکن انقلاب اسلامی که ذاتا در تناقض با خوش‌بینی به دشمن است، اهتمام خواهند ورزید یا خدای ناکرده، گرفتار در حلقه مشاورین ناسالم، خط فرصت‌سوزی، حاشیه‌پردازی و خواب کردن افکار عمومی در مقابل عملیات دشمن را ادامه خواهند داد؟ دغدغه این است که مدیرانی با عمل خود به افکار عمومی بگویند «همین است که هست»! و هیچ تغییری در ساختار و رویکرد و تدبیر ناکارآمد فعلی ندهند؛ رویکردی که موجب ضربه سنگین به برنامه هسته‌ای، رکود تورمی سنگین، کاهش ارزش پول ملی و ضربه به تولید و ‌اشتغال شده است.۸- یک نقطه ثقل در ارزیابی راهبردی فعلی، قضاوت درباره آمریکا، و دوست و شریک یا معتدل و منعطف انگاشتن بخشی از هیئت حاکمه آن است. مطالبی که بعضا درباره انتخابات کنگره و امید به بازگشت دموکرات‌ها با پرچمداری اوباما و کری منتشر می‌شود، این دغدغه را ایجاد می‌کند که هنوز هم وسوسه خناسان ادامه دارد. آمریکا ۱۸ سال پس از قرنی که آن را قرن جدید آمریکایی خواندند، دچار سرگشتگی و سرشکستگی نمایان است؛ شکست‌هایی که جامعه آمریکا را به انتخاب ترامپ کشاند. انتخاب ترامپ، نشانه سقوط و افول تمدنی آمریکاست.۹- اولا دشمن برخلاف یک دهه قبل که سودای آقایی بی‌دردسر منطقه و جهان را در سر می‌پروراند، در سرازیری افتاده است. آمریکا امروز به افعی‌هایی می‌ماند که از سر گرسنگی و طمع، لقمه بزرگ‌تر از قد و هیکل خود می‌گیرند و می‌ترکند! تمدن آمریکاست از شدت آشفتگی، به انتخاب ترامپ رسید و حالا به واسطه او، در جنگ ارزی و اقتصادی با چین، روسیه، اروپا، برزیل، ترکیه و... افتاده است. ثانیا طرح خاورمیانه جدید را -که به مفهوم ویرانی و تجزیه کشورهای منطقه است- آن قدر که دولت دموکرات اوباما با جنگ هوشمند (ترکیب جنگ سخت و نرم) پیش برد، دولت نومحافظه‌کار بوش پیش نبرد. این دروغی بزرگ است که بگویند دولت اوباما ، میانه‌روهای قائل به معامله بودند و ترامپ، زیر میز زد یا تهدید را روی میز گذاشت. تهدید در دوره اوباما به مراتب جدی‌تر از امروز بود.۱۰- دولت اوباما در همین دوره سرگرمی ما با خیال دوستی و معامله، زرادخانه و لجستیک مالی و اطلاعاتی خود و متحدانش را در اختیار افعی چندسر داعش گذاشت و تهدید بزرگ را تا لب مرزهای ما گسترش داد. عملیات راهبردی در جریان بود و قصه کشدار مذاکره و معامله بنا داشت مدیران ما را از دشمنی بزرگ (در غلاف دستکش مخملین) غافل کند. بنابراین دست روی دست گذاشتن و منتظر بازگشت دوباره دموکرات‌ها شدن، اقدامی پرخسارت است. دشمنی تیم اوباما به مراتب موثرتر و پوشیده‌تر بود و بدتر اینکه، دوست وانمود شدند. خرابکاری نرم‌افزاری، ترور دانشمندان هسته‌ای، اعمال شدید‌ترین تحریم‌ها موسوم به فلج‌کننده، و رفتار تحقیرآمیز در حد ویزا ندادن به نماینده دولت در سازمان ملل (حمید ابوطالبی منتخب ویژه آقای روحانی) آن هم در دوران مذاکره و اعتمادسازی و توافق، جزو هنجارهای همین دوره است.۱۱- ماموریت کشمیری و کلاهی‌هایی که تا عمق نخست‌وزیری و حزب جمهوری اسلامی نفوذ کرده بودند و بمب کار گذاشتند، تغییر کرده است. نفوذی‌ها، بر اساس تغییر نقشه و تاکتیک دشمن، تغییر کارکرد می‌دهند. دادن اطلاعات و تحلیل‌ها و آدرس‌های گمراه‌کننده به مدیران یا افکار عمومی، از هر تروری خطرناک‌تر است. این تهدید را باید باز شناخت. همچنین است حمله تبلیغاتی سازمان یافته و پرحجم به دستگاه‌ها و نهادهایی مانند شورای نگهبان، سپاه پاسداران، مجلس خبرگان و نیروهای حزب‌اللهی و انقلابی. این حملات با هدف خراب کردن پل میان دولت و دیگر بخش‌های حاکمیتی و عدم امکان هم افزایی و انسجام و هم‌پوشانی در مقابل دشمن انجام می‌شود. دولت و شخص رئیس‌جمهور نیازمند مشورت با صاحب‌نظران اقتصادی، سیاسی و فرهنگی امین و دعوت از نیروهای توانمند برای افزایش اقتدار و کارایی دولت جمهوری اسلامی است. ظرفیت‌های فراوان فکری و اجرایی میان نیروها و نهادهای انقلابی وجود دارد که متاسفانه بدخواهان با شانتاژ، پرونده‌سازی، بدگویی، ترور شخصیت و پمپاژ سوء ظن نمی‌گذارند دولت و رئیس‌جمهور از آنها بهره‌مند شوند. کسانی که این خط را دنبال می‌کنند، با واسطه یا بی‌واسطه، در خدمت خط نفوذ و اختلال عمل می‌کنند. یادداشت: محمد ایمانی منبع:کیهان انتهای پیام/ بازگشت به صفحه رسانه‌ها
0 notes
thebestmealintown · 6 years
Text
پاکستان فلم انڈسٹری کی ساکھ بحال ہورہی ہے، میکال ذوالفقار
پاکستان میں شوبزنس کے حوالے سے تربیتی اداروں کا ہمیشہ ہی سے کمی کا سامنا رہا ،بلکہ یُوں کہہ لیجیے کہ فنونِ لطیفہ کی اکیڈمیز کے بغیر ہی ہمارے فن کاروں نے دُنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ پاکستان فلم انڈسٹری نے ترقی کا سفر شروع کیا تو بعض لوگوں نے اعتراضات شروع کردیے کہ ٹیلی ویژن ڈراموں کے اداکار فلموں میں کام کررہے ہیں،حالاں کہ ان فن کاروں نے فلم انڈسٹری کو نیا جنم دیا، نئی زندگی عطا کی اور اپنا چلتا ہوا کام چھوڑ کر فلموں کے احیاء کے لیے سرگرمی سے کام کرنے لگے۔ اس طرح فلم انڈسٹری کو ٹیلی ویژن ڈراموں کے سپر اسٹار میسر آگئے اور تمام صورتِ حال تبدیل ہوگئی۔ فلم بینوں نے اعلٰی تعلیم یافتہ، خُوب صورت اور فن کی دولت سے مالا مال فن کاروں کو فلموں میں پسند کیا۔ لندن میں پیدا ہونے والے ذہین، باصلاحیت ، باکمال اور اعلٰی تعلیم یافتہ فن کار میکال ذوالفقار کو ابتدا میں شہرت اور مقبولیت پاکستانی ڈراموں سے حاصل ہوئی۔ اُن کا شمار ٹیلی ویژن ڈراموں کے صفِ اول کے فن کاروں میں ہوتا ہے۔ اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی فلموں میں کام کریں گے۔ اسی وجہ سے 2018ء میں ان کی ایک دو نہیں پُوری چار فلمیں سینما گھروں کی زینت بنیں گی۔ اب تک دو فلمیں ’’کیک’’ اور ’’نہ بینڈ نہ باراتی‘‘ ریلیز ہوچکی ہے اور ابھی دو فلمیں ریلیز ہونا باقی ہے۔ دس برس قبل انہوں نے بالی وڈ میں بھی کام کیا تھا، مگر ان کو بھارت میں کام کرنا زیادہ اچھا نہیں لگا، حالاں کہ انہوں نے 2007ء میں بھارت کے منجھے ہوئے اداکار نصیر الدین شاہ اور اوم پوری کے ساتھ فلم شوٹ اون سائٹ (SHOOT ON SIGHT) میں اداکاری کے جوہر دکھائے، بعدازاں اسی برس ونود کھنہ کے ساتھ گاڈ فادر (God Father) نامی فلم میں بھی کام کیا اور 2015ء میں بالی وڈ کے سپر اسٹار اکشے کمار کے ساتھ فلم ’’بے بی‘‘ میں بھی پرفارمنس دی۔ تین چار بھارتی فلموں میں کام کرنے کے باوجود بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ دنوں وہ شوٹنگ کے سلسلے میں کراچی آئے تو ہم نے اُن سے ہلکی پھلکی بات چیت کی۔ ہمارے سوالات اور میکال کے جوابات ملاحظہ کریں۔ بھارتی فلموں میں کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟ ’’میں نے دس برس قبل بالی وڈ فلموں میں کام کرنا شروع کیا، لیکن اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں بالی وڈ فلموں کے لیے بھارت کیوں جاؤں۔ بالی وڈ بہت بڑی فلم انڈسٹری ہے، سب فن کاروں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ وہاں کی فلموں میں کام کریں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستانی فن کار بالی وڈ میں شہرت اور کام یابی حاصل کرے۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جیسے ہی کوئی پاکستانی فن کار بھارتیوں کے دلوں پر راج کرنے لگتا ہے، تو وہاں منفی پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی جاتی ہے، وہاں راحت فتح علی خان، فواد خان وغیرہ کے خلاف کیا کچھ نہیں ہوا۔ میں تو چاہتا ہوں کہ پاکستانی فن کاروں کو برابری کی بنیاد پر کام ملنا چاہیے۔ ہمارے سینما گھروں میں بھارتی فلموں کی نمائش زور و شور سے جاری ہے،لیکن ہماری سپرہٹ فلموں کو بھی بھارتی سنیما گھروں کی زینت بننے کیوں نہیں دیا جاتا؟ ۔ وہاں ہمارے ٹی وی چینلز بھی نہیں دکھائے جاتے۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہماری پاکستان فلم انڈسٹری برق رفتاری سے ترقی کر رہی ہے۔ میں بہت پُرامید ہوں کہ بہت جلد ہم بالی وڈ فلموں کے مقابلے کی موویز بنانا شروع کر دیں گے۔ پچھلے چند برسوں میں ہماری کئی پاکستانی فلموں نے پاکستانی سنیما گھروں میں بھارتی فلموں کا ڈَٹ کر مقابلہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں ملکوں کے فن کار ایک دوسرے سے بےپناہ محبت کرتے ہیں۔ بالی وڈ کے فن کاروں کو ہم نے اپنی فلموں میں کتنی عزت دی۔ ’’خدا کے لیے‘‘ میں نصیر الدین شاہ اور ’’ایکٹر اِن لاء‘‘ میں اوم پوری نے عمدہ کام کیا۔ ہمارے پاکستانی فن کاروں کو بھی فلموں میں عزت کے ساتھ کام دیا جائے، تو وہاں کام کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ سب فن کار دونوں ملکوں کی دوستی چاہتے ہیں۔‘‘
میکال ذوالفقار نے جیو ترنگ کی فلم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ میں عائشہ خان، بشری ٰ انصاری ،صبا حمید اور عتیقہ اوڈھو کے مدِمقابل عمدہ پر فارمنس کا مظاہرہ کیا ، فلم میں میکال اور عائشہ خان کی جوڑی بے حد پسند کی گئی۔ اسی طرح جیو کی ٹی وی ڈراما سیریل میں’’جل پری، مَن جلی، سات پردوں میں، آدھا دن اور پوری رات ‘‘ وغیرہ میں پسند کیا گیا۔ ان کے دیگر قابل ذکر ڈراموں میں صائقہ ،دل ہے چھوٹا سا، کیسے کہوں، پانی جیسا پیار، کچھ پیار کا پاگل پن، شہرِ ذات ،تلافی ، نیویارک سے نیو کراچی ،کیوں ہے تو، مجھے خدا پر یقین ہے، اک کسک رہ گئی، محبت صبح کا ستارہ ہے۔ اضطراب ،تم میرے ہی رہنا، دیار دل ، میرے ارمان سنگت، مان، تم میرے کیا ہو، انتظار ، میں ستارہ، سنگ مرمر ،من پیاسا ،الف اللہ اور انسان، آخری اسٹیشن اور خسارہ شامل ہیں۔ نامور اداکارہ ماہرہ خان صبا قمر ، کبریٰ خان، ثانیہ سعید کے ساتھ ان کو ڈراموں میں زیادہ پسند کیا گیا۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ لندن سے پاکستان میں مستقل رہنے کا خیال کیسے ذہن میں آیا؟ اس سوال کے جواب میں میکال نے بتایا کہ ’’میرا بچپن اورلڑکپن سب لندن میں گزرا ہے، 14برس کی عمر میں فیصلہ کیا کہ پاکستان جائوں گا، اور میں نے لاہور آکر ڈیرے ڈال دیے۔ ابتدا میں معروف گلوکار ابرار الحق کے گانوں کی وڈیوز میں ماڈلنگ کی، جسے پسند کیا گیا۔ مجھے شروع ہی سے گلوکاری کا شوق رہا ہے، میں شو بزنس میں گلوکار بننے ہی آیا تھا اور اداکار بن گیا۔ اب بھی میری توجہ موسیقی کی جانب ہے، گٹار بجاتا ہوں، ایک دن موسیقی میں بھی اداکاری کی طرح پہچان بن کر دکھائوں گا۔ موسیقی میری روح میں شامل ہے، لیکن رقص کرنا سیکھ رہا ہوں اور پھر آہستہ آہستہ شو بزنس انڈسٹری میں قدم جمادیے، یہاں مجھے پہچان ملنے لگی۔ میں لندن میں پیدا ہوا ہوں، لیکن اندر سے مکمل طور پر دیسی ہوں، اکثر میرے فین مجھے انگریز سمجھتے ہیں۔‘‘ آپ کی رواں برس چار فلمیں ریلیز ہوں گی، کیسا لگ رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’میں اکثر سوچتا تھا کہ کوئی منفرد اسکرپٹ اور بڑا ڈائریکٹر ہوگا تو فلم انڈسٹری کی طرف جائوں گا۔ اس طرح میں نے کئی برس ٹیلی ویژن ڈراموں میں لگا دیے اور خُوب کام کیا اپنی ایک پہچان بنائی۔ اب میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے درجنوں فلموں میں کام کرنا ہے، یہ ضد ہوگئی ہے، میری اپنے آپ سے۔ اب بڑی اسکرین پر زیادہ نظر آنا ہے۔ دو فلمیں تو ریلیز ہوگئیں۔ عید الفطر پر ’’نہ بینڈ نہ باراتی‘‘ میں میرا کام پسند کیا گیا، میں نے اس فلم میں بیرون ممالک رہنے والے پروڈیوسر کی مدد کے لیے کام کیا۔ رواں برس دو فلموں کی ریلیز ابھی باقی ہے۔ یہ فلمیں مکمل ہوچکی ہیں۔ ایک ISPR کی بڑی فلم ہے اور دوسری ائیر فورس کی ہے، جس کا نام ’’شیر دل‘‘ ہے۔ میں اپنے مداحوں سے کہوں گا کہ جس طرح آپ نے مجھے ڈراموں میں پسند کیا، اسی طرح میری فلموں کو بھی دیکھیں۔ پُوری ٹیلی ویژن کی دل چسپی اب فلم انڈسٹری کی جانب ہے۔ ابھی ہماری فلم انڈسٹری صرف 90اسکرینر پر کام کررہی ہے، اس کے باوجود بھی ہم معیاری اور بین الاقوامی سطح کی فلمیں پروڈیوس کررہے ہیں۔ ہماری فلموں کی ساکھ آہستہ آہستہ بحال ہورہی ہے۔ بہت جلد ایک بڑا پلیٹ فارم بننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ہماری فلمیں سپرہٹ ہورہی ہے ، کچھ ناکام بھی ہورہی ہیں۔ یہ سب بزنس کا حصہ ہے۔ بھارت میں ہزاروں فلمیں بنتی ہیں، لیکن 10، 12فلمیں ہی سپرہٹ ثابت ہوتی ہیں۔ پانچ دس برس بعد دنیا بھر میں ہماری فلموں کے چرچے ہوں گے۔ مجھے میرے مداح صف اول کی ہیروئن کے مدمقابل دیکھیں گے۔ میں آئندہ چند برسوں میں بڑے پروجیکٹ کا حصہ بنوں گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاید میں پانچ برس بعد شوبزنس انڈسٹری کو چھوڑ دوں، لیکن ابھی یہ باتیں قبل از وقت ہیں‘‘۔
’’پہلی شادی کام یاب نہیں ہوئی،اب دوسری شادی کا کب ارادہ ہے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں میکال ذوالفقار نے کہا کہ ’’میں عام طور پر اپنے انٹرویوز میں ذاتی نوعیت کی باتیں نہیں کرتا۔ صرف اتنا عرض کردوں کہ ابھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میری اولین ترجیح میرے بچے ہیں اور وہ ہی میری سب سے بڑی خوشی ہیں۔ میں شوٹنگز سے فارغ ہوکر ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارتا ہوں۔ بچوں میں گھل مل جاتا ہوں۔ دونوں بیٹیاں ماشاء اللہ سے اب اسکول جانے لگی ہیں۔ میری زندگی اب میرے بچے ہیں۔ جب نیند نہیں آتی ہے تو ان کو ’’لوری‘‘ بھی سناتا ہوں۔ میں دو شہروں میں رہتا ہوں، مہینے میں چار بار لاہور جاتا ہوں۔ دونوں بیٹیاں ابھی چھوٹی ہیں۔ ان پر بھرپور توجہ دینی ہے۔ ان کی اچھی تربیت کرنی ہے‘‘۔ عام طور پر شوبزنس میں کام کرنے والوں کی شادیاں کام یاب ثابت نہیں ہوتیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں میکال نے بتایا کہ ’’شو بزنس بہت زیادہ ڈیمانڈنگ کیرئیر ہے، شوبزنس میں نہ صرف اپنی فیملی کو بلکہ دوست احباب، رشتے داروں کے ساتھ بھی کمپرومائز ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک ڈیمانڈنگ پروفیشن ہے۔ اس میں مختلف شہروں اور بیرون ملک بہت زیادہ جانا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار آپ فیملی سے دو تین ماہ بھی دور رہتے ہیں، مسلسل شوٹنگز کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ 24گھنٹے کی جاب ہے۔ ویسے سب شادیاں ناکام نہیں ہوتیں، کئی جوڑے خوش گوار زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کو سمجھنے کی باتیں ہیں‘‘۔ سُنا ہے آپ بچپن میں گول مٹول تھے، خود کو فٹ کس طرح رکھتے ہیں ؟ اس بارے میں میکال نے بتایا کہ ’’ میں بچپن میں بہت موٹا تھا، جب شو بزنس میں آیا تو خود کو فٹ رکھنے کے لیے کھانے پینے میں احتیاط کی ، جم جوائن کیا، شو بزنس میں جو فٹ ہے ،وہی ہٹ ہے۔ ‘‘
اڈاری ڈرامے میں پہلے آپ کو کاسٹ کرنے کے لیے بات کی گئی تھی، مگر آپ نے منع کر دیا تھا، اس کی وجہ کیا تھی؟ انہوں نے بتایا کہ اڈاری کے احسن خان والے کردار کی پہلے مجھے پیش کش ہوئی تھی، مگر میں نے منع کر دیا تھا،کیوں کہ اس طرح کے کردار مجھے بالکل اچھے نہیں لگتے۔ کل کو ہمارے بچے بڑے ہوں گے، تو وہ کیا دیکھیں گے، اس لیے میں نے صاف منع کر دیا تھا ۔‘‘آپ کے پسندیدہ فن کار کون سے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں میکال نے بتایا کہ صبا قمر ،مہوش حیات ،سجل علی اور ماہرہ خان بہت اچھا کام کر رہی ہیں، جب کہ فواد خان ،فہد مصطفیٰ ،احسن خان، شہریار منور، اور اَحد رضا میر وغیرہ خوب صورت بھی ہیں اور عمدہ اور جان دار اداکاری کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے سینئر اداکاروں میں عابد علی، عظمیٰ گیلانی ،بشریٰ انصاری ،صبا حمید نے طویل عرصہ شو بزنس میں گزارا، یہ سب بہت اہم فن کار ہیں۔ ‘‘ فلم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ کے ری میک میں کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا تھا؟ جیو ترنگ کی اس فلم میں کام کرتے ہوئے بہت انجوائے کیا۔ عائشہ خان، صبا حمید ،بشریٰ انصاری ، عتیقہ اوڈھو، سب نے اچھا کام کیا تھا۔ اس طرح کی فلمیں اب اور بنائی جائیں تو وہ کام یاب ثابت ہوں گی۔
The post پاکستان فلم انڈسٹری کی ساکھ بحال ہورہی ہے، میکال ذوالفقار appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2PkjUDY via India Pakistan News
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
پاکستان فلم انڈسٹری کی ساکھ بحال ہورہی ہے، میکال ذوالفقار
پاکستان میں شوبزنس کے حوالے سے تربیتی اداروں کا ہمیشہ ہی سے کمی کا سامنا رہا ،بلکہ یُوں کہہ لیجیے کہ فنونِ لطیفہ کی اکیڈمیز کے بغیر ہی ہمارے فن کاروں نے دُنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ پاکستان فلم انڈسٹری نے ترقی کا سفر شروع کیا تو بعض لوگوں نے اعتراضات شروع کردیے کہ ٹیلی ویژن ڈراموں کے اداکار فلموں میں کام کررہے ہیں،حالاں کہ ان فن کاروں نے فلم انڈسٹری کو نیا جنم دیا، نئی زندگی عطا کی اور اپنا چلتا ہوا کام چھوڑ کر فلموں کے احیاء کے لیے سرگرمی سے کام کرنے لگے۔ اس طرح فلم انڈسٹری کو ٹیلی ویژن ڈراموں کے سپر اسٹار میسر آگئے اور تمام صورتِ حال تبدیل ہوگئی۔ فلم ب��نوں نے اعلٰی تعلیم یافتہ، خُوب صورت اور فن کی دولت سے مالا مال فن کاروں کو فلموں میں پسند کیا۔ لندن میں پیدا ہونے والے ذہین، باصلاحیت ، باکمال اور اعلٰی تعلیم یافتہ فن کار میکال ذوالفقار کو ابتدا میں شہرت اور مقبولیت پاکستانی ڈراموں سے حاصل ہوئی۔ اُن کا شمار ٹیلی ویژن ڈراموں کے صفِ اول کے فن کاروں میں ہوتا ہے۔ اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی فلموں میں کام کریں گے۔ اسی وجہ سے 2018ء میں ان کی ایک دو نہیں پُوری چار فلمیں سینما گھروں کی زینت بنیں گی۔ اب تک دو فلمیں ’’کیک’’ اور ’’نہ بینڈ نہ باراتی‘‘ ریلیز ہوچکی ہے اور ابھی دو فلمیں ریلیز ہونا باقی ہے۔ دس برس قبل انہوں نے بالی وڈ میں بھی کام کیا تھا، مگر ان کو بھارت میں کام کرنا زیادہ اچھا نہیں لگا، حالاں کہ انہوں نے 2007ء میں بھارت کے منجھے ہوئے اداکار نصیر الدین شاہ اور اوم پوری کے ساتھ فلم شوٹ اون سائٹ (SHOOT ON SIGHT) میں اداکاری کے جوہر دکھائے، بعدازاں اسی برس ونود کھنہ کے ساتھ گاڈ فادر (God Father) نامی فلم میں بھی کام کیا اور 2015ء میں بالی وڈ کے سپر اسٹار اکشے کمار کے ساتھ فلم ’’بے بی‘‘ میں بھی پرفارمنس دی۔ تین چار بھارتی فلموں میں کام کرنے کے باوجود بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ دنوں وہ شوٹنگ کے سلسلے میں کراچی آئے تو ہم نے اُن سے ہلکی پھلکی بات چیت کی۔ ہمارے سوالات اور میکال کے جوابات ملاحظہ کریں۔ بھارتی فلموں میں کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟ ’’میں نے دس برس قبل بالی وڈ فلموں میں کام کرنا شروع کیا، لیکن اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں بالی وڈ فلموں کے لیے بھارت کیوں جاؤں۔ بالی وڈ بہت بڑی فلم انڈسٹری ہے، سب فن کاروں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ وہاں کی فلموں میں کام کریں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستانی فن کار بالی وڈ میں شہرت اور کام یابی حاصل کرے۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جیسے ہی کوئی پاکستانی فن کار بھارتیوں کے دلوں پر راج کرنے لگتا ہے، تو وہاں منفی پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی جاتی ہے، وہاں راحت فتح علی خان، فواد خان وغیرہ کے خلاف کیا کچھ نہیں ہوا۔ میں تو چاہتا ہوں کہ پاکستانی فن کاروں کو برابری کی بنیاد پر کام ملنا چاہیے۔ ہمارے سینما گھروں میں بھارتی فلموں کی نمائش زور و شور سے جاری ہے،لیکن ہماری سپرہٹ فلموں کو بھی بھارتی سنیما گھروں کی زینت بننے کیوں نہیں دیا جاتا؟ ۔ وہاں ہمارے ٹی وی چینلز بھی نہیں دکھائے جاتے۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہماری پاکستان فلم انڈسٹری برق رفتاری سے ترقی کر رہی ہے۔ میں بہت پُرامید ہوں کہ بہت جلد ہم بالی وڈ فلموں کے مقابلے کی موویز بنانا شروع کر دیں گے۔ پچھلے چند برسوں میں ہماری کئی پاکستانی فلموں نے پاکستانی سنیما گھروں میں بھارتی فلموں کا ڈَٹ کر مقابلہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں ملکوں کے فن کار ایک دوسرے سے بےپناہ محبت کرتے ہیں۔ بالی وڈ کے فن کاروں کو ہم نے اپنی فلموں میں کتنی عزت دی۔ ’’خدا کے لیے‘‘ میں نصیر الدین شاہ اور ’’ایکٹر اِن لاء‘‘ میں اوم پوری نے عمدہ کام کیا۔ ہمارے پاکستانی فن کاروں کو بھی فلموں میں عزت کے ساتھ کام دیا جائے، تو وہاں کام کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ سب فن کار دونوں ملکوں کی دوستی چاہتے ہیں۔‘‘
میکال ذوالفقار نے جیو ترنگ کی فلم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ میں عائشہ خان، بشری ٰ انصاری ،صبا حمید اور عتیقہ اوڈھو کے مدِمقابل عمدہ پر فارمنس کا مظاہرہ کیا ، فلم میں میکال اور عائشہ خان کی جوڑی بے حد پسند کی گئی۔ اسی طرح جیو کی ٹی وی ڈراما سیریل میں’’جل پری، مَن جلی، سات پردوں میں، آدھا دن اور پوری رات ‘‘ وغیرہ میں پسند کیا گیا۔ ان کے دیگر قابل ذکر ڈراموں میں صائقہ ،دل ہے چھوٹا سا، کیسے کہوں، پانی جیسا پیار، کچھ پیار کا پاگل پن، شہرِ ذات ،تلافی ، نیویارک سے نیو کراچی ،کیوں ہے تو، مجھے خدا پر یقین ہے، اک کسک رہ گئی، محبت صبح کا ستارہ ہے۔ اضطراب ،تم میرے ہی رہنا، دیار دل ، میرے ارمان سنگت، مان، تم میرے کیا ہو، انتظار ، میں ستارہ، سنگ مرمر ،من پیاسا ،الف اللہ اور انسان، آخری اسٹیشن اور خسارہ شامل ہیں۔ نامور اداکارہ ماہرہ خان صبا قمر ، کبریٰ خان، ثانیہ سعید کے ساتھ ان کو ڈراموں میں زیادہ پسند کیا گیا۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ لندن سے پاکستان میں مستقل رہنے کا خیال کیسے ذہن میں آیا؟ اس سوال کے جواب میں میکال نے بتایا کہ ’’میرا بچپن اورلڑکپن سب لندن میں گزرا ہے، 14برس کی عمر میں فیصلہ کیا کہ پاکستان جائوں گا، اور میں نے لاہور آکر ڈیرے ڈال دیے۔ ابتدا میں معروف گلوکار ابرار الحق کے گانوں کی وڈیوز میں ماڈلنگ کی، جسے پسند کیا گیا۔ مجھے شروع ہی سے گلوکاری کا شوق رہا ہے، میں شو بزنس میں گلوکار بننے ہی آیا تھا اور اداکار بن گیا۔ اب بھی میری توجہ موسیقی کی جانب ہے، گٹار بجاتا ہوں، ایک دن موسیقی میں بھی اداکاری کی طرح پہچان بن کر دکھائوں گا۔ موسیقی میری روح میں شامل ہے، لیکن رقص کرنا سیکھ رہا ہوں اور پھر آہستہ آہستہ شو بزنس انڈسٹری میں قدم جمادیے، یہاں مجھے پہچان ملنے لگی۔ میں لندن میں پیدا ہوا ہوں، لیکن اندر سے مکمل طور پر دیسی ہوں، اکثر میرے فین مجھے انگریز سمجھتے ہیں۔‘‘ آپ کی رواں برس چار فلمیں ریلیز ہوں گی، کیسا لگ رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’میں اکثر سوچتا تھا کہ کوئی منفرد اسکرپٹ اور بڑا ڈائریکٹر ہوگا تو فلم انڈسٹری کی طرف جائوں گا۔ اس طرح میں نے کئی برس ٹیلی ویژن ڈراموں میں لگا دیے اور خُوب کام کیا اپنی ایک پہچان بنائی۔ اب میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے درجنوں فلموں میں کام کرنا ہے، یہ ضد ہوگئی ہے، میری اپنے آپ سے۔ اب بڑی اسکرین پر زیادہ نظر آنا ہے۔ دو فلمیں تو ریلیز ہوگئیں۔ عید الفطر پر ’’نہ بینڈ نہ باراتی‘‘ میں میرا کام پسند کیا گیا، میں نے اس فلم میں بیرون ممالک رہنے والے پروڈیوسر کی مدد کے لیے کام کیا۔ رواں برس دو فلموں کی ریلیز ابھی باقی ہے۔ یہ فلمیں مکمل ہوچکی ہیں۔ ایک ISPR کی بڑی فلم ہے اور دوسری ائیر فورس کی ہے، جس کا نام ’’شیر دل‘‘ ہے۔ میں اپنے مداحوں سے کہوں گا کہ جس طرح آپ نے مجھے ڈراموں میں پسند کیا، اسی طرح میری فلموں کو بھی دیکھیں۔ پُوری ٹیلی ویژن کی دل چسپی اب فلم انڈسٹری کی جانب ہے۔ ابھی ہماری فلم انڈسٹری صرف 90اسکرینر پر کام کررہی ہے، اس کے باوجود بھی ہم معیاری اور بین الاقوامی سطح کی فلمیں پروڈیوس کررہے ہیں۔ ہماری فلموں کی ساکھ آہستہ آہستہ بحال ہورہی ہے۔ بہت جلد ایک بڑا پلیٹ فارم بننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ہماری فلمیں سپرہٹ ہورہی ہے ، کچھ ناکام بھی ہورہی ہیں۔ یہ سب بزنس کا حصہ ہے۔ بھارت میں ہزاروں فلمیں بنتی ہیں، لیکن 10، 12فلمیں ہی سپرہٹ ثابت ہوتی ہیں۔ پانچ دس برس بعد دنیا بھر میں ہماری فلموں کے چرچے ہوں گے۔ مجھے میرے مداح صف اول کی ہیروئن کے مدمقابل دیکھیں گے۔ میں آئندہ چند برسوں میں بڑے پروجیکٹ کا حصہ بنوں گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاید میں پانچ برس بعد شوبزنس انڈسٹری کو چھوڑ دوں، لیکن ابھی یہ باتیں قبل از وقت ہیں‘‘۔
’’پہلی شادی کام یاب نہیں ہوئی،اب دوسری شادی کا کب ارادہ ہے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں میکال ذوالفقار نے کہا کہ ’’میں عام طور پر اپنے انٹرویوز میں ذاتی نوعیت کی باتیں نہیں کرتا۔ صرف اتنا عرض کردوں کہ ابھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میری اولین ترجیح میرے بچے ہیں اور وہ ہی میری سب سے بڑی خوشی ہیں۔ میں شوٹنگز سے فارغ ہوکر ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارتا ہوں۔ بچوں میں گھل مل جاتا ہوں۔ دونوں بیٹیاں ماشاء اللہ سے اب اسکول جانے لگی ہیں۔ میری زندگی اب میرے بچے ہیں۔ جب نیند نہیں آتی ہے تو ان کو ’’لوری‘‘ بھی سناتا ہوں۔ میں دو شہروں میں رہتا ہوں، مہینے میں چار بار لاہور جاتا ہوں۔ دونوں بیٹیاں ابھی چھوٹی ہیں۔ ان پر بھرپور توجہ دینی ہے۔ ان کی اچھی تربیت کرنی ہے‘‘۔ عام طور پر شوبزنس میں کام کرنے والوں کی شادیاں کام یاب ثابت نہیں ہوتیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں میکال نے بتایا کہ ’’شو بزنس بہت زیادہ ڈیمانڈنگ کیرئیر ہے، شوبزنس میں نہ صرف اپنی فیملی کو بلکہ دوست احباب، رشتے داروں کے ساتھ بھی کمپرومائز ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک ڈیمانڈنگ پروفیشن ہے۔ اس میں مختلف شہروں اور بیرون ملک بہت زیادہ جانا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار آپ فیملی سے دو تین ماہ بھی دور رہتے ہیں، مسلسل شوٹنگز کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ 24گھنٹے کی جاب ہے۔ ویسے سب شادیاں ناکام نہیں ہوتیں، کئی جوڑے خوش گوار زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کو سمجھنے کی باتیں ہیں‘‘۔ سُنا ہے آپ بچپن میں گول مٹول تھے، خود کو فٹ کس طرح رکھتے ہیں ؟ اس بارے میں میکال نے بتایا کہ ’’ میں بچپن میں بہت موٹا تھا، جب شو بزنس میں آیا تو خود کو فٹ رکھنے کے لیے کھانے پینے میں احتیاط کی ، جم جوائن کیا، شو بزنس میں جو فٹ ہے ،وہی ہٹ ہے۔ ‘‘
اڈاری ڈرامے میں پہلے آپ کو کاسٹ کرنے کے لیے بات کی گئی تھی، مگر آپ نے منع کر دیا تھا، اس کی وجہ کیا تھی؟ انہوں نے بتایا کہ اڈاری کے احسن خان والے کردار کی پہلے مجھے پیش کش ہوئی تھی، مگر میں نے منع کر دیا تھا،کیوں کہ اس طرح کے کردار مجھے بالکل اچھے نہیں لگتے۔ کل کو ہمارے بچے بڑے ہوں گے، تو وہ کیا دیکھیں گے، اس لیے میں نے صاف منع کر دیا تھا ۔‘‘آپ کے پسندیدہ فن کار کون سے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں میکال نے بتایا کہ صبا قمر ،مہوش حیات ،سجل علی اور ماہرہ خان بہت اچھا کام کر رہی ہیں، جب کہ فواد خان ،فہد مصطفیٰ ،احسن خان، شہریار منور، اور اَحد رضا میر وغیرہ خوب صورت بھی ہیں اور عمدہ اور جان دار اداکاری کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے سینئر اداکاروں میں عابد علی، عظمیٰ گیلانی ،بشریٰ انصاری ،صبا حمید نے طویل عرصہ شو بزنس میں گزارا، یہ سب بہت اہم فن کار ہیں۔ ‘‘ فلم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ کے ری میک میں کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا تھا؟ جیو ترنگ کی اس فلم میں کام کرتے ہوئے بہت انجوائے کیا۔ عائشہ خان، صبا حمید ،بشریٰ انصاری ، عتیقہ اوڈھو، سب نے اچھا کام کیا تھا۔ اس طرح کی فلمیں اب اور بنائی جائیں تو وہ کام یاب ثابت ہوں گی۔
The post پاکستان فلم انڈسٹری کی ساکھ بحال ہورہی ہے، میکال ذوالفقار appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2PkjUDY via Daily Khabrain
0 notes
party-hard-or-die · 6 years
Text
عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں
آج ہم ’’ عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئیں ماضی کی سپر ہٹ فلموں کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔
بوبی-:سو ہفتوں سے زائد چلنے والی یہ بلاک بسٹرفلم جمعہ 7ستمبر1984 کو عیدالاضحٰی پر کراچی کے لیرک اور لاہور کے پرنس سینما میں ریلیز ہوئی۔ فلم بوبی کے ساتھ 5فلمیں اور بھی ریلیز ہوئیں۔ اُن میں بوبی کا بزنس سب سے ٹاپ رہا۔ کراچی کے لیرک سینما پر18ہفتے بڑی کام یابی سے چلنے کے بعد یہ اسکالا سینما میں شفٹ ہوگئی، جہاں اس نے سولو سلور جوبلی مناکر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مجموعی طور پر اِس فلم نے 140 ہفتے مکمل کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ایور ریڈی اس فلم کے تقسیم کار تھے۔ نذر شباب کی ڈائریکشن میں بننے والی اس بلاک بسٹر فلم میں سبیتا، جاوید شیخ، فردوس جمال، سکندر شاہین، تمنا، ننھا اور محمد علی نے اہم کردار ادا کیے۔ موسیقار امجد بوبی کے میوزک نے ہر طرف دھوم مچادی اِس فلم کے چند مقبول نغمال میں اِک بار ملو ہم سے سو بار ملیں گےؔاور ؔ جہاں آج ہم ملے ہیں وہ مقام یاد رکھنا وغیرہؔ شامل تھے۔
بیوی ہو تو ایسی-: کراچی میں بننے والی ہدایت کار زاہد شاہ کی یہ خوب صورت فیملی ڈراما میوزیکل فلم منگل 28ستمبر1982عیدالاضحٰی پر ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس فلم کا مین سینما، پلازہ تھا، جب کہ لاہور میں مبارک، اس کا مرکزی سینما تھا۔ اس ساتھ ریلیز ہونے والی دیگر تمام فلموں میں اس فلم کا بزنس باکس آفس پر کھڑکی توڑ قرار پایا۔ کراچی میں یہ فلم 114ہفتے ڈائمنڈ جوبلی کرنے میں کام یاب رہی۔ شبنم، شفیؑع محمد، آرزو، فیصل، لہری اور تمنا اِس فلم کےنماں اداکار تھے۔ اِس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے، یہ زمانہ اور ہے-:شباب پروڈکشن کی تفریحی سے بھرپور خُوب صورت سپرہٹ فلم یہ زمانہ اور ہے جمعہ9 اکتوبر1981 عیدالاضحٰی کے پاکستان بھر میں کام یابی سے دیکھی گئی۔ بابرہ شریف، فیصل، ایاز نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے۔ شباب کیرانوی اس فلم کے مصنف فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔ یہ یادگار فلم آج بھی لوگ نہیں بھلاپائیں ہوں گے۔ جب قربانی سے فارغ ہوکر شام چھ بجے اور نو بجے والے شوز میں فیملیز کی بڑی تعداد فلم دیکھ کر اپنی عید کو انجوائے کرتے تھے۔اس فلم نے کراچی کے بمبینو سینما میں شان دار ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مس ہانگ کانگ-:ھدایت کارہ شمیم آرا کی یہ بلاک بسٹر فلم یادگار ثابت ہوئی۔ عیدالاضحٰی کے دن پاکستان کے سینما ہائوسز کے اسکرین کی زینت بنی ۔ جمعرات یکم نومبر1979کو منائی گئی عیدالاضحٰی پر ایک ساتھ8فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اُن میں مس ہانگ کانگ، نے باکس آفس پر شان دار بزنس کرتے ہوئے نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ وراسٹائل اور خُوب صورت اداکارہ بابرہ شریف کو پہلی بار ایکشن کردار میں دیکھ کر ہر عام و خاص ان کا دیوانہ ہوگیا۔ کراچی، لاہور، حیدر آباد، پشاور اور سکھر کے سینما ہائوسز پر خواتین کا جم غفیر اس فلم کو دیکھنے کے لیے ہر شو پر موجود ہوتا ۔
خواتین کے رش کو دیکھتے ہوئے کراچی کے بمبینو سینما میں ہر بدھ کو خواتین کے لیے خصوصی شو کا اہتمام کیا جاتا۔ اس فلم نے اپنے مرکزی سینما بمبینو پر مسلسل29ہفتے ہائوس فل کے ساتھ مکمل کیے۔ سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کرنے والی اِس بلاک بسٹر فلم نے مجموعی طور پر ایک سو گیارہ ہفتے کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز اپنے نام کیا۔
نوکر-: شباب پروڈکشن کی یہ یادگار رومانی گھریلو نغماتی فلم اتوار14دسمبر1975 کو عیدالاضحٰی کے روز کراچی کے پیراڈائز اور لاہور کے رتن سینما میں کئی ہفتوں تک عوام کی مرکزی نگاہ بنی رہی۔ ہدایت کار نذر شباب کی اس فلم میں زیبا، محمد علی، بابرہ شریف نے اہم اور مرکزی کردار ادا کیے ، جب کہ تمنا، ننھا، صاعقہ، خالد سلیم موٹا، شاہنواز، حنیف نامرہ، سیما کے نام بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
موسیقار ایم اشرف کی سپر ہٹ دُھنوں سے ترتیب دیے ہوئے نغمات نے اس فلم کے حُسن کو چار چاند لگادیئے تھے۔ اس فلم کے کچھ گیت آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کے بول یہ ہیںؔ، اپنا جیون شیشے کا کھلونا ہی تو ہے۔ؔ دل وہ لڑکی کا جس پر آئے آجائے۔ؔ یہ آج مجھے کیا ہوا ۔ؔ لاکھ کروں ان کا سسرجی۔ ؔ چاہے دنیا ہو خفا سنگ۔ؔ جیسے مقبول نغمات آج بھی اس فلم کی یاد دلاتے ہیں۔
شمع-: یہ کام یاب نغماتی فلم بدھ عیدالاضحٰی 25دسمبر1974کو پورے پاکستان میں ریلیز ہوکر شان دار کام یاب رہی۔ ہدایت کار نذر شباب نے پہلی بار محمد علی، ندیم، اور وحید مراد جیسے سپر اسٹار کو اِس فلم میں اہم کرداروں میں یکجا کیا تھا۔ اس فلم کا میوزک ریلیز سے کئی روز قبل مقبولیت حاصل کرچکا تھا ۔ ایم اشرف کی بنائی ہوئی دُھنیں بے حد مقبول ہوئیں، خاص طور پر ناہید اختر کے گائے ہوئے فلم کے یہ دو نغمےؔ ، کسی مہرباں نے آکر میری زندگی سجادی اور ؔ ایسے موسم میں چپ کیوں ہو۔ؔ اُس دور کے اسٹریٹ سونگ بن کر ہر جگہ سنائی دیے ۔ دیبا، بابرہ شریف، زیبا، تمنا، خالد سلیم موٹا، علائوالدین اور ساقی بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔ یہ فلم کراچی کے پلازہ اور لاہور کے محفل سینما میں کئی ماہ تک زبردست رش کے ساتھ زیر نمائش رہی، جب کہ حیدر آباد، پشاور، کوئٹہ،سکھر، راولپنڈی، ملتان میں اس کے تمام شو تین ماہ تک ہائوس فل جاتے رہے۔
خان چاچا-: یہ نغماتی پنجابی فلم عیدالاضحٰی، جمعرات 27جنوری 1972کے دن پنجاب سرکٹ میں ریلیز ہوئی۔ لاہور میں اپنے مین تھیٹر نگینہ پر یہ20ہفتے مکمل کرنے کے بعد دیگر مین سینما میں شفٹ ہوتی رہی مجموعی طور پر اس فلم نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پہلی پنجاب فلم تھی جو100ہفتے چلی۔ اس کے فلم ساز و ہدایت کار ایم اکرم تھے۔ نذر علی نے اس فلم کے لیے سپر ہٹ میوزک بنایا۔ اس فلم کے سبھی گانے نہ صرف اپنے دور میں مقبول ہوئے بلکہ آج میں ان کی مقبولیت برقرار رہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے گلے سے نکلا ہوا ترنم آج بھی اپنی مٹھاس لیے ان گیتوں میں محسوس ہوتا ہے۔ؔ اس فلم کے تمام گانےمزیں قادری نے لکھے تھے۔ ساون نے خان چاچا کا کردار کرکے بڑی شہرت پائی تھی، جب کہ نغمہ، اعجاز، عالیہ، اقبال حسن، نگو، ساحرہ، صبا، ناصرہ، جگی، شیخ اقبال، منور ظریف اور سلمان راہی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
دوستی-:ملکہ ترنم نور جہاں کی رسیلی اور مترنم آواز میں ریکارڈ کروائے ہوئے گانوں سے آراستہ نغماتی اور اصلاحی فلم ’’دوستی‘‘ کا شمار عیدالاضحٰی کی کام یاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ نغماتی خوب صورت فلم 7 فروری1971کو کراچی کے پلازہ، لاہور کے میٹرو پول اور حیدر آباد کے وینس سینما میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان کی چند سپر ہٹ نغماتی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ موسیقار اے حمید کی تمام دھنیں سدا بہار ہیں۔ آج بھی اس فلم کے نغمات ماضی کی طرح مقبول ہیں۔ؔ یہ وادیاں پربتوں کی شہزادیاں۔ؔ چِٹی جرا سیاں جی کے نام۔ؔ روٹھے سیاں کو میں تو۔ؔ سجناں بھول نہ جانا۔ؔ آرے آرے دل کے سہارے۔ؔ
یہ تمام نغمات آج بھی اپنی تازگی برار رکھے ہوئے ہیں۔اس فلم کے پروڈیوسر اعجاز تھے، جو اس فلم میں ہیرو کے کردار میں بھی بے حد پسند کیے گئے۔ ممتاز اداکارہ شبنم اس فلم کی ہیروئن تھیں، جب کہ اداکار رحمن نے اس فلم میں یادگار کردار نگاری کی تھی۔ دیگر اداکاروں میں رنگیلا، حسن، تانی، ساقی، آغا طالش کے نام شامل تھے۔ اس فلم نے کراچی کے پلازہ سینما پر32ہفتے کا ریکارڈ بزنس کیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل ہوا۔ حیدر آباد کے وینس سینما پر یہ سولو سلور جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
نئی لیلیٰ نیا مجنوں-: یہ سپر ہٹ نغماتی مزاحیہ فلم عیدالاضحٰی، جمعرات27فروری 1969کو کراچی کے جوبلی سینما میں ریلیز ہوکر شان دار پلاٹینم جوبلی کے اعزاز سے ہم کنار ہوئی۔ ہدایت کار منور رشید کی اس سپر ہٹ فلم میں نسیمہ خان، کمال، عالیہ، لہری، مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کے تمام گانے بے حد سپر ہٹ ہوئے، جن میں ؔ او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا ۔ ؔ حسینہ دلربا ذرا سامنے۔ؔ میرے ہمسفر تم بڑے۔ؔ ندیا کے بیچ گوری۔ؔ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے۔
The post عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MzYwxq via Daily Khabrain
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years
Text
عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں
آج ہم ’’ عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئیں ماضی کی سپر ہٹ فلموں کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔
بوبی-:سو ہفتوں سے زائد چلنے والی یہ بلاک بسٹرفلم جمعہ 7ستمبر1984 کو عیدالاضحٰی پر کراچی کے لیرک اور لاہور کے پرنس سینما میں ریلیز ہوئی۔ فلم بوبی کے ساتھ 5فلمیں اور بھی ریلیز ہوئیں۔ اُن میں بوبی کا بزنس سب سے ٹاپ رہا۔ کراچی کے لیرک سینما پر18ہفتے بڑی کام یابی سے چلنے کے بعد یہ اسکالا سینما میں شفٹ ہوگئی، جہاں اس نے سولو سلور جوبلی مناکر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مجموعی طور پر اِس فلم نے 140 ہفتے مکمل کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ایور ریڈی اس فلم کے تقسیم کار تھے۔ نذر شباب کی ڈائریکشن میں بننے والی اس بلاک بسٹر فلم میں سبیتا، جاوید شیخ، فردوس جمال، سکندر شاہین، تمنا، ننھا اور محمد علی نے اہم کردار ادا کیے۔ موسیقار امجد بوبی کے میوزک نے ہر طرف دھوم مچادی اِس فلم کے چند مقبول نغمال میں اِک بار ملو ہم سے سو بار ملیں گےؔاور ؔ جہاں آج ہم ملے ہیں وہ مقام یاد رکھنا وغیرہؔ شامل تھے۔
بیوی ہو تو ایسی-: کراچی میں بننے والی ہدایت کار زاہد شاہ کی یہ خوب صورت فیملی ڈراما میوزیکل فلم منگل 28ستمبر1982عیدالاضحٰی پر ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس فلم کا مین سینما، پلازہ تھا، جب کہ لاہور میں مبارک، اس کا مرکزی سینما تھا۔ اس ساتھ ریلیز ہونے والی دیگر تمام فلموں میں اس فلم کا بزنس باکس آفس پر کھڑکی توڑ قرار پایا۔ کراچی میں یہ فلم 114ہفتے ڈائمنڈ جوبلی کرنے میں کام یاب رہی۔ شبنم، شفیؑع محمد، آرزو، فیصل، لہری اور تمنا اِس فلم کےنماں اداکار تھے۔ اِس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے، یہ زمانہ اور ہے-:شباب پروڈکشن کی تفریحی سے بھرپور خُوب صورت سپرہٹ فلم یہ زمانہ اور ہے جمعہ9 اکتوبر1981 عیدالاضحٰی کے پاکستان بھر میں کام یابی سے دیکھی گئی۔ بابرہ شریف، فیصل، ایاز نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے۔ شباب کیرانوی اس فلم کے مصنف فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔ یہ یادگار فلم آج بھی لوگ نہیں بھلاپائیں ہوں گے۔ جب قربانی سے فارغ ہوکر شام چھ بجے اور نو بجے والے شوز میں فیملیز کی بڑی تعداد فلم دیکھ کر اپنی عید کو انجوائے کرتے تھے۔اس فلم نے کراچی کے بمبینو سینما میں شان دار ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مس ہانگ کانگ-:ھدایت کارہ شمیم آرا کی یہ بلاک بسٹر فلم یادگار ثابت ہوئی۔ عیدالاضحٰی کے دن پاکستان کے سینما ہائوسز کے اسکرین کی زینت بنی ۔ جمعرات یکم نومبر1979کو منائی گئی عیدالاضحٰی پر ایک ساتھ8فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اُن میں مس ہانگ کانگ، نے باکس آفس پر شان دار بزنس کرتے ہوئے نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ وراسٹائل اور خُوب صورت اداکارہ بابرہ شریف کو پہلی بار ایکشن کردار میں دیکھ کر ہر عام و خاص ان کا دیوانہ ہوگیا۔ کراچی، لاہور، حیدر آباد، پشاور اور سکھر کے سینما ہائوسز پر خواتین کا جم غفیر اس فلم کو دیکھنے کے لیے ہر شو پر موجود ہوتا ۔
خواتین کے رش کو دیکھتے ہوئے کراچی کے بمبینو سینما میں ہر بدھ کو خواتین کے لیے خصوصی شو کا اہتمام کیا جاتا۔ اس فلم نے اپنے مرکزی سینما بمبینو پر مسلسل29ہفتے ہائوس فل کے ساتھ مکمل کیے۔ سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کرنے والی اِس بلاک بسٹر فلم نے مجموعی طور پر ایک سو گیارہ ہفتے کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز اپنے نام کیا۔
نوکر-: شباب پروڈکشن کی یہ یادگار رومانی گھریلو نغماتی فلم اتوار14دسمبر1975 کو عیدالاضحٰی کے روز کراچی کے پیراڈائز اور لاہور کے رتن سینما میں کئی ہفتوں تک عوام کی مرکزی نگاہ بنی رہی۔ ہدایت کار نذر شباب کی اس فلم میں زیبا، محمد علی، بابرہ شریف نے اہم اور مرکزی کردار ادا کیے ، جب کہ تمنا، ننھا، صاعقہ، خالد سلیم موٹا، شاہنواز، حنیف نامرہ، سیما کے نام بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
موسیقار ایم اشرف کی سپر ہٹ دُھنوں سے ترتیب دیے ہوئے نغمات نے اس فلم کے حُسن کو چار چاند لگادیئے تھے۔ اس فلم کے کچھ گیت آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کے بول یہ ہیںؔ، اپنا جیون شیشے کا کھلونا ہی تو ہے۔ؔ دل وہ لڑکی کا جس پر آئے آجائے۔ؔ یہ آج مجھے کیا ہوا ۔ؔ لاکھ کروں ان کا سسرجی۔ ؔ چاہے دنیا ہو خفا سنگ۔ؔ جیسے مقبول نغمات آج بھی اس فلم کی یاد دلاتے ہیں۔
شمع-: یہ کام یاب نغماتی فلم بدھ عیدالاضحٰی 25دسمبر1974کو پورے پاکستان میں ریلیز ہوکر شان دار کام یاب رہی۔ ہدایت کار نذر شباب نے پہلی بار محمد علی، ندیم، اور وحید مراد جیسے سپر اسٹار کو اِس فلم میں اہم کرداروں میں یکجا کیا تھا۔ اس فلم کا میوزک ریلیز سے کئی روز قبل مقبولیت حاصل کرچکا تھا ۔ ایم اشرف کی بنائی ہوئی دُھنیں بے حد مقبول ہوئیں، خاص طور پر ناہید اختر کے گائے ہوئے فلم کے یہ دو نغمےؔ ، کسی مہرباں نے آکر میری زندگی سجادی اور ؔ ایسے موسم میں چپ کیوں ہو۔ؔ اُس دور کے اسٹریٹ سونگ بن کر ہر جگہ سنائی دیے ۔ دیبا، بابرہ شریف، زیبا، تمنا، خالد سلیم موٹا، علائوالدین اور ساقی بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔ یہ فلم کراچی کے پلازہ اور لاہور کے محفل سینما میں کئی ماہ تک زبردست رش کے ساتھ زیر نمائش رہی، جب کہ حیدر آباد، پشاور، کوئٹہ،سکھر، راولپنڈی، ملتان میں اس کے تمام شو تین ماہ تک ہائوس فل جاتے رہے۔
خان چاچا-: یہ نغماتی پنجابی فلم عیدالاضحٰی، جمعرات 27جنوری 1972کے دن پنجاب سرکٹ میں ریلیز ہوئی۔ لاہور میں اپنے مین تھیٹر نگینہ پر یہ20ہفتے مکمل کرنے کے بعد دیگر مین سینما میں شفٹ ہوتی رہی مجموعی طور پر اس فلم نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پہلی پنجاب فلم تھی جو100ہفتے چلی۔ اس کے فلم ساز و ہدایت کار ایم اکرم تھے۔ نذر علی نے اس فلم کے لیے سپر ہٹ میوزک بنایا۔ اس فلم کے سبھی گانے نہ صرف اپنے دور میں مقبول ہوئے بلکہ آج میں ان کی مقبولیت برقرار رہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے گلے سے نکلا ہوا ترنم آج بھی اپنی مٹھاس لیے ان گیتوں میں محسوس ہوتا ہے۔ؔ اس فلم کے تمام گانےمزیں قادری نے لکھے تھے۔ ساون نے خان چاچا کا کردار کرکے بڑی شہرت پائی تھی، جب کہ نغمہ، اعجاز، عالیہ، اقبال حسن، نگو، ساحرہ، صبا، ناصرہ، جگی، شیخ اقبال، منور ظریف اور سلمان راہی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
دوستی-:ملکہ ترنم نور جہاں کی رسیلی اور مترنم آواز میں ریکارڈ کروائے ہوئے گانوں سے آراستہ نغماتی اور اصلاحی فلم ’’دوستی‘‘ کا شمار عیدالاضحٰی کی کام یاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ نغماتی خوب صورت فلم 7 فروری1971کو کراچی کے پلازہ، لاہور کے میٹرو پول اور حیدر آباد کے وینس سینما میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان کی چند سپر ہٹ نغماتی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ موسیقار اے حمید کی تمام دھنیں سدا بہار ہیں۔ آج بھی اس فلم کے نغمات ماضی کی طرح مقبول ہیں۔ؔ یہ وادیاں پربتوں کی شہزادیاں۔ؔ چِٹی جرا سیاں جی کے نام۔ؔ روٹھے سیاں کو میں تو۔ؔ سجناں بھول نہ جانا۔ؔ آرے آرے دل کے سہارے۔ؔ
یہ تمام نغمات آج بھی اپنی تازگی برار رکھے ہوئے ہیں۔اس فلم کے پروڈیوسر اعجاز تھے، جو اس فلم میں ہیرو کے کردار میں بھی بے حد پسند کیے گئے۔ ممتاز اداکارہ شبنم اس فلم کی ہیروئن تھیں، جب کہ اداکار رحمن نے اس فلم میں یادگار کردار نگاری کی تھی۔ دیگر اداکاروں میں رنگیلا، حسن، تانی، ساقی، آغا طالش کے نام شامل تھے۔ اس فلم نے کراچی کے پلازہ سینما پر32ہفتے کا ریکارڈ بزنس کیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل ہوا۔ حیدر آباد کے وینس سینما پر یہ سولو سلور جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
نئی لیلیٰ نیا مجنوں-: یہ سپر ہٹ نغماتی مزاحیہ فلم عیدالاضحٰی، جمعرات27فروری 1969کو کراچی کے جوبلی سینما میں ریلیز ہوکر شان دار پلاٹینم جوبلی کے اعزاز سے ہم کنار ہوئی۔ ہدایت کار منور رشید کی اس سپر ہٹ فلم میں نسیمہ خان، کمال، عالیہ، لہری، مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کے تمام گانے بے حد سپر ہٹ ہوئے، جن میں ؔ او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا ۔ ؔ حسینہ دلربا ذرا سامنے۔ؔ میرے ہمسفر تم بڑے۔ؔ ندیا کے بیچ گوری۔ؔ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے۔
The post عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MzYwxq via Urdu News
0 notes
Text
عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں
آج ہم ’’ عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئیں ماضی کی سپر ہٹ فلموں کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔
بوبی-:سو ہفتوں سے زائد چلنے والی یہ بلاک بسٹرفلم جمعہ 7ستمبر1984 کو عیدالاضحٰی پر کراچی کے لیرک اور لاہور کے پرنس سینما میں ریلیز ہوئی۔ فلم بوبی کے ساتھ 5فلمیں اور بھی ریلیز ہوئیں۔ اُن میں بوبی کا بزنس سب سے ٹاپ رہا۔ کراچی کے لیرک سینما پر18ہفتے بڑی کام یابی سے چلنے کے بعد یہ اسکالا سینما میں شفٹ ہوگئی، جہاں اس نے سولو سلور جوبلی مناکر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مجموعی طور پر اِس فلم نے 140 ہفتے مکمل کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ایور ریڈی اس فلم کے تقسیم کار تھے۔ نذر شباب کی ڈائریکشن میں بننے والی اس بلاک بسٹر فلم میں سبیتا، جاوید شیخ، فردوس جمال، سکندر شاہین، تمنا، ننھا اور محمد علی نے اہم کردار ادا کیے۔ موسیقار امجد بوبی کے میوزک نے ہر طرف دھوم مچادی اِس فلم کے چند مقبول نغمال میں اِک بار ملو ہم سے سو بار ملیں گےؔاور ؔ جہاں آج ہم ملے ہیں وہ مقام یاد رکھنا وغیرہؔ شامل تھے۔
بیوی ہو تو ایسی-: کراچی میں بننے والی ہدایت کار زاہد شاہ کی یہ خوب صورت فیملی ڈراما میوزیکل فلم منگل 28ستمبر1982عیدالاضحٰی پر ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس فلم کا مین سینما، پلازہ تھا، جب کہ لاہور میں مبارک، اس کا مرکزی سینما تھا۔ اس ساتھ ریلیز ہونے والی دیگر تمام فلموں میں اس فلم کا بزنس باکس آفس پر کھڑکی توڑ قرار پایا۔ کراچی میں یہ فلم 114ہفتے ڈائمنڈ جوبلی کرنے میں کام یاب رہی۔ شبنم، شفیؑع محمد، آرزو، فیصل، لہری اور تمنا اِس فلم کےنماں اداکار تھے۔ اِس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے، یہ زمانہ اور ہے-:شباب پروڈکشن کی تفریحی سے بھرپور خُوب صورت سپرہٹ فلم یہ زمانہ اور ہے جمعہ9 اکتوبر1981 عیدالاضحٰی کے پاکستان بھر میں کام یابی سے دیکھی گئی۔ بابرہ شریف، فیصل، ایاز نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے۔ شباب کیرانوی اس فلم کے مصنف فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔ یہ یادگار فلم آج بھی لوگ نہیں بھلاپائیں ہوں گے۔ جب قربانی سے فارغ ہوکر شام چھ بجے اور نو بجے والے شوز میں فیملیز کی بڑی تعداد فلم دیکھ کر اپنی عید کو انجوائے کرتے تھے۔اس فلم نے کراچی کے بمبینو سینما میں شان دار ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مس ہانگ کانگ-:ھدایت کارہ شمیم آرا کی یہ بلاک بسٹر فلم یادگار ثابت ہوئی۔ عیدالاضحٰی کے دن پاکستان کے سینما ہائوسز کے اسکرین کی زینت بنی ۔ جمعرات یکم نومبر1979کو منائی گئی عیدالاضحٰی پر ایک ساتھ8فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اُن میں مس ہانگ کانگ، نے باکس آفس پر شان دار بزنس کرتے ہوئے نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ وراسٹائل اور خُوب صورت اداکارہ بابرہ شریف کو پہلی بار ایکشن کردار میں دیکھ کر ہر عام و خاص ان کا دیوانہ ہوگیا۔ کراچی، لاہور، حیدر آباد، پشاور اور سکھر کے سینما ہائوسز پر خواتین کا جم غفیر اس فلم کو دیکھنے کے لیے ہر شو پر موجود ہوتا ۔
خواتین کے رش کو دیکھتے ہوئے کراچی کے بمبینو سینما میں ہر بدھ کو خواتین کے لیے خصوصی شو کا اہتمام کیا جاتا۔ اس فلم نے اپنے مرکزی سینما بمبینو پر مسلسل29ہفتے ہائوس فل کے ساتھ مکمل کیے۔ سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کرنے والی اِس بلاک بسٹر فلم نے مجموعی طور پر ایک سو گیارہ ہفتے کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز اپنے نام کیا۔
نوکر-: شباب پروڈکشن کی یہ یادگار رومانی گھریلو نغماتی فلم اتوار14دسمبر1975 کو عیدالاضحٰی کے روز کراچی کے پیراڈائز اور لاہور کے رتن سینما میں کئی ہفتوں تک عوام کی مرکزی نگاہ بنی رہی۔ ہدایت کار نذر شباب کی اس فلم میں زیبا، محمد علی، بابرہ شریف نے اہم اور مرکزی کردار ادا کیے ، جب کہ تمنا، ننھا، صاعقہ، خالد سلیم موٹا، شاہنواز، حنیف نامرہ، سیما کے نام بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
موسیقار ایم اشرف کی سپر ہٹ دُھنوں سے ترتیب دیے ہوئے نغمات نے اس فلم کے حُسن کو چار چاند لگادیئے تھے۔ اس فلم کے کچھ گیت آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کے بول یہ ہیںؔ، اپنا جیون شیشے کا کھلونا ہی تو ہے۔ؔ دل وہ لڑکی کا جس پر آئے آجائے۔ؔ یہ آج مجھے کیا ہوا ۔ؔ لاکھ کروں ان کا سسرجی۔ ؔ چاہے دنیا ہو خفا سنگ۔ؔ جیسے مقبول نغمات آج بھی اس فلم کی یاد دلاتے ہیں۔
شمع-: یہ کام یاب نغماتی فلم بدھ عیدالاضحٰی 25دسمبر1974کو پورے پاکستان میں ریلیز ہوکر شان دار کام یاب رہی۔ ہدایت کار نذر شباب نے پہلی بار محمد علی، ندیم، اور وحید مراد جیسے سپر اسٹار کو اِس فلم میں اہم کرداروں میں یکجا کیا تھا۔ اس فلم کا میوزک ریلیز سے کئی روز قبل مقبولیت حاصل کرچکا تھا ۔ ایم اشرف کی بنائی ہوئی دُھنیں بے حد مقبول ہوئیں، خاص طور پر ناہید اختر کے گائے ہوئے فلم کے یہ دو نغمےؔ ، کسی مہرباں نے آکر میری زندگی سجادی اور ؔ ایسے موسم میں چپ کیوں ہو۔ؔ اُس دور کے اسٹریٹ سونگ بن کر ہر جگہ سنائی دیے ۔ دیبا، بابرہ شریف، زیبا، تمنا، خالد سلیم موٹا، علائوالدین اور ساقی بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔ یہ فلم کراچی کے پلازہ اور لاہور کے محفل سینما میں کئی ماہ تک زبردست رش کے ساتھ زیر نمائش رہی، جب کہ حیدر آباد، پشاور، کوئٹہ،سکھر، راولپنڈی، ملتان میں اس کے تمام شو تین ماہ تک ہائوس فل جاتے رہے۔
خان چاچا-: یہ نغماتی پنجابی فلم عیدالاضحٰی، جمعرات 27جنوری 1972کے دن پنجاب سرکٹ میں ریلیز ہوئی۔ لاہور میں اپنے مین تھیٹر نگینہ پر یہ20ہفتے مکمل کرنے کے بعد دیگر مین سینما میں شفٹ ہوتی رہی مجموعی طور پر اس فلم نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پہلی پنجاب فلم تھی جو100ہفتے چلی۔ اس کے فلم ساز و ہدایت کار ایم اکرم تھے۔ نذر علی نے اس فلم کے لیے سپر ہٹ میوزک بنایا۔ اس فلم کے سبھی گانے نہ صرف اپنے دور میں مقبول ہوئے بلکہ آج میں ان کی مقبولیت برقرار رہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے گلے سے نکلا ہوا ترنم آج بھی اپنی مٹھاس لیے ان گیتوں میں محسوس ہوتا ہے۔ؔ اس فلم کے تمام گانےمزیں قادری نے لکھے تھے۔ ساون نے خان چاچا کا کردار کرکے بڑی شہرت پائی تھی، جب کہ نغمہ، اعجاز، عالیہ، اقبال حسن، نگو، ساحرہ، صبا، ناصرہ، جگی، شیخ اقبال، منور ظریف اور سلمان راہی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
دوستی-:ملکہ ترنم نور جہاں کی رسیلی اور مترنم آواز میں ریکارڈ کروائے ہوئے گانوں سے آراستہ نغماتی اور اصلاحی فلم ’’دوستی‘‘ کا شمار عیدالاضحٰی کی کام یاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ نغماتی خوب صورت فلم 7 فروری1971کو کراچی کے پلازہ، لاہور کے میٹرو پول اور حیدر آباد کے وینس سینما میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان کی چند سپر ہٹ نغماتی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ موسیقار اے حمید کی تمام دھنیں سدا بہار ہیں۔ آج بھی اس فلم کے نغمات ماضی کی طرح مقبول ہیں۔ؔ یہ وادیاں پربتوں کی شہزادیاں۔ؔ چِٹی جرا سیاں جی کے نام۔ؔ روٹھے سیاں کو میں تو۔ؔ سجناں بھول نہ جانا۔ؔ آرے آرے دل کے سہارے۔ؔ
یہ تمام نغمات آج بھی اپنی تازگی برار رکھے ہوئے ہیں۔اس فلم کے پروڈیوسر اعجاز تھے، جو اس فلم میں ہیرو کے کردار میں بھی بے حد پسند کیے گئے۔ ممتاز اداکارہ شبنم اس فلم کی ہیروئن تھیں، جب کہ اداکار رحمن نے اس فلم میں یادگار کردار نگاری کی تھی۔ دیگر اداکاروں میں رنگیلا، حسن، تانی، ساقی، آغا طالش کے نام شامل تھے۔ اس فلم نے کراچی کے پلازہ سینما پر32ہفتے کا ریکارڈ بزنس کیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل ہوا۔ حیدر آباد کے وینس سینما پر یہ سولو سلور جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
نئی لیلیٰ نیا مجنوں-: یہ سپر ہٹ نغماتی مزاحیہ فلم عیدالاضحٰی، جمعرات27فروری 1969کو کراچی کے جوبلی سینما میں ریلیز ہوکر شان دار پلاٹینم جوبلی کے اعزاز سے ہم کنار ہوئی۔ ہدایت کار منور رشید کی اس سپر ہٹ فلم میں نسیمہ خان، کمال، عالیہ، لہری، مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کے تمام گانے بے حد سپر ہٹ ہوئے، جن میں ؔ او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا ۔ ؔ حسینہ دلربا ذرا سامنے۔ؔ میرے ہمسفر تم بڑے۔ؔ ندیا کے بیچ گوری۔ؔ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے۔
The post عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MzYwxq via
0 notes
Text
عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں
آج ہم ’’ عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئیں ماضی کی سپر ہٹ فلموں کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔
بوبی-:سو ہفتوں سے زائد چلنے والی یہ بلاک بسٹرفلم جمعہ 7ستمبر1984 کو عیدالاضحٰی پر کراچی کے لیرک اور لاہور کے پرنس سینما میں ریلیز ہوئی۔ فلم بوبی کے ساتھ 5فلمیں اور بھی ریلیز ہوئیں۔ اُن میں بوبی کا بزنس سب سے ٹاپ رہا۔ کراچی کے لیرک سینما پر18ہفتے بڑی کام یابی سے چلنے کے بعد یہ اسکالا سینما میں شفٹ ہوگئی، جہاں اس نے سولو سلور جوبلی مناکر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مجموعی طور پر اِس فلم نے 140 ہفتے مکمل کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ایور ریڈی اس فلم کے تقسیم کار تھے۔ نذر شباب کی ڈائریکشن میں بننے والی اس بلاک بسٹر فلم میں سبیتا، جاوید شیخ، فردوس جمال، سکندر شاہین، تمنا، ننھا اور محمد علی نے اہم کردار ادا کیے۔ موسیقار امجد بوبی کے میوزک نے ہر طرف دھوم مچادی اِس فلم کے چند مقبول نغمال میں اِک بار ملو ہم سے سو بار ملیں گےؔاور ؔ جہاں آج ہم ملے ہیں وہ مقام یاد رکھنا وغیرہؔ شامل تھے۔
بیوی ہو تو ایسی-: کراچی میں بننے والی ہدایت کار زاہد شاہ کی یہ خوب صورت فیملی ڈراما میوزیکل فلم منگل 28ستمبر1982عیدالاضحٰی پر ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس فلم کا مین سینما، پلازہ تھا، جب کہ لاہور میں مبارک، اس کا مرکزی سینما تھا۔ اس ساتھ ریلیز ہونے والی دیگر تمام فلموں میں اس فلم کا بزنس باکس آفس پر کھڑکی توڑ قرار پایا۔ کراچی میں یہ فلم 114ہفتے ڈائمنڈ جوبلی کرنے میں کام یاب رہی۔ شبنم، شفیؑع محمد، آرزو، فیصل، لہری اور تمنا اِس فلم کےنماں اداکار تھے۔ اِس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے، یہ زمانہ اور ہے-:شباب پروڈکشن کی تفریحی سے بھرپور خُوب صورت سپرہٹ فلم یہ زمانہ اور ہے جمعہ9 اکتوبر1981 عیدالاضحٰی کے پاکستان بھر میں کام یابی سے دیکھی گئی۔ بابرہ شریف، فیصل، ایاز نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے۔ شباب کیرانوی اس فلم کے مصنف فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔ یہ یادگار فلم آج بھی لوگ نہیں بھلاپائیں ہوں گے۔ جب قربانی سے فارغ ہوکر شام چھ بجے اور نو بجے والے شوز میں فیملیز کی بڑی تعداد فلم دیکھ کر اپنی عید کو انجوائے کرتے تھے۔اس فلم نے کراچی کے بمبینو سینما میں شان دار ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مس ہانگ کانگ-:ھدایت کارہ شمیم آرا کی یہ بلاک بسٹر فلم یادگار ثابت ہوئی۔ عیدالاضحٰی کے دن پاکستان کے سینما ہائوسز کے اسکرین کی زینت بنی ۔ جمعرات یکم نومبر1979کو منائی گئی عیدالاضحٰی پر ایک ساتھ8فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اُن میں مس ہانگ کانگ، نے باکس آفس پر شان دار بزنس کرتے ہوئے نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ وراسٹائل اور خُوب صورت اداکارہ بابرہ شریف کو پہلی بار ایکشن کردار میں دیکھ کر ہر عام و خاص ان کا دیوانہ ہوگیا۔ کراچی، لاہور، حیدر آباد، پشاور اور سکھر کے سینما ہائوسز پر خواتین کا جم غفیر اس فلم کو دیکھنے کے لیے ہر شو پر موجود ہوتا ۔
خواتین کے رش کو دیکھتے ہوئے کراچی کے بمبینو سینما میں ہر بدھ کو خواتین کے لیے خصوصی شو کا اہتمام کیا جاتا۔ اس فلم نے اپنے مرکزی سینما بمبینو پر مسلسل29ہفتے ہائوس فل کے ساتھ مکمل کیے۔ سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کرنے والی اِس بلاک بسٹر فلم نے مجموعی طور پر ایک سو گیارہ ہفتے کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز اپنے نام کیا۔
نوکر-: شباب پروڈکشن کی یہ یادگار رومانی گھریلو نغماتی فلم اتوار14دسمبر1975 کو عیدالاضحٰی کے روز کراچی کے پیراڈائز اور لاہور کے رتن سینما میں کئی ہفتوں تک عوام کی مرکزی نگاہ بنی رہی۔ ہدایت کار نذر شباب کی اس فلم میں زیبا، محمد علی، بابرہ شریف نے اہم اور مرکزی کردار ادا کیے ، جب کہ تمنا، ننھا، صاعقہ، خالد سلیم موٹا، شاہنواز، حنیف نامرہ، سیما کے نام بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
موسیقار ایم اشرف کی سپر ہٹ دُھنوں سے ترتیب دیے ہوئے نغمات نے اس فلم کے حُسن کو چار چاند لگادیئے تھے۔ اس فلم کے کچھ گیت آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کے بول یہ ہیںؔ، اپنا جیون شیشے کا کھلونا ہی تو ہے۔ؔ دل وہ لڑکی کا جس پر آئے آجائے۔ؔ یہ آج مجھے کیا ہوا ۔ؔ لاکھ کروں ان کا سسرجی۔ ؔ چاہے دنیا ہو خفا سنگ۔ؔ جیسے مقبول نغمات آج بھی اس فلم کی یاد دلاتے ہیں۔
شمع-: یہ کام یاب نغماتی فلم بدھ عیدالاضحٰی 25دسمبر1974کو پورے پاکستان میں ریلیز ہوکر شان دار کام یاب رہی۔ ہدایت کار نذر شباب نے پہلی بار محمد علی، ندیم، اور وحید مراد جیسے سپر اسٹار کو اِس فلم میں اہم کرداروں میں یکجا کیا تھا۔ اس فلم کا میوزک ریلیز سے کئی روز قبل مقبولیت حاصل کرچکا تھا ۔ ایم اشرف کی بنائی ہوئی دُھنیں بے حد مقبول ہوئیں، خاص طور پر ناہید اختر کے گائے ہوئے فلم کے یہ دو نغمےؔ ، کسی مہرباں نے آکر میری زندگی سجادی اور ؔ ایسے موسم میں چپ کیوں ہو۔ؔ اُس دور کے اسٹریٹ سونگ بن کر ہر جگہ سنائی دیے ۔ دیبا، بابرہ شریف، زیبا، تمنا، خالد سلیم موٹا، علائوالدین اور ساقی بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔ یہ فلم کراچی کے پلازہ اور لاہور کے محفل سینما میں کئی ماہ تک زبردست رش کے ساتھ زیر نمائش رہی، جب کہ حیدر آباد، پشاور، کوئٹہ،سکھر، راولپنڈی، ملتان میں اس کے تمام شو تین ماہ تک ہائوس فل جاتے رہے۔
خان چاچا-: یہ نغماتی پنجابی فلم عیدالاضحٰی، جمعرات 27جنوری 1972کے دن پنجاب سرکٹ میں ریلیز ہوئی۔ لاہور میں اپنے مین تھیٹر نگینہ پر یہ20ہفتے مکمل کرنے کے بعد دیگر مین سینما میں شفٹ ہوتی رہی مجموعی طور پر اس فلم نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پہلی پنجاب فلم تھی جو100ہفتے چلی۔ اس کے فلم ساز و ہدایت کار ایم اکرم تھے۔ نذر علی نے اس فلم کے لیے سپر ہٹ میوزک بنایا۔ اس فلم کے سبھی گانے نہ صرف اپنے دور میں مقبول ہوئے بلکہ آج میں ان کی مقبولیت برقرار رہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے گلے سے نکلا ہوا ترنم آج بھی اپنی مٹھاس لیے ان گیتوں میں محسوس ہوتا ہے۔ؔ اس فلم کے تمام گانےمزیں قادری نے لکھے تھے۔ ساون نے خان چاچا کا کردار کرکے بڑی شہرت پائی تھی، جب کہ نغمہ، اعجاز، عالیہ، اقبال حسن، نگو، ساحرہ، صبا، ناصرہ، جگی، شیخ اقبال، منور ظریف اور سلمان راہی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
دوستی-:ملکہ ترنم نور جہاں کی رسیلی اور مترنم آواز میں ریکارڈ کروائے ہوئے گانوں سے آراستہ نغماتی اور اصلاحی فلم ’’دوستی‘‘ کا شمار عیدالاضحٰی کی کام یاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ نغماتی خوب صورت فلم 7 فروری1971کو کراچی کے پلازہ، لاہور کے میٹرو پول اور حیدر آباد کے وینس سینما میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان کی چند سپر ہٹ نغماتی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ موسیقار اے حمید کی تمام دھنیں سدا بہار ہیں۔ آج بھی اس فلم کے نغمات ماضی کی طرح مقبول ہیں۔ؔ یہ وادیاں پربتوں کی شہزادیاں۔ؔ چِٹی جرا سیاں جی کے نام۔ؔ روٹھے سیاں کو میں تو۔ؔ سجناں بھول نہ جانا۔ؔ آرے آرے دل کے سہارے۔ؔ
یہ تمام نغمات آج بھی اپنی تازگی برار رکھے ہوئے ہیں۔اس فلم کے پروڈیوسر اعجاز تھے، جو اس فلم میں ہیرو کے کردار میں بھی بے حد پسند کیے گئے۔ ممتاز اداکارہ شبنم اس فلم کی ہیروئن تھیں، جب کہ اداکار رحمن نے اس فلم میں یادگار کردار نگاری کی تھی۔ دیگر اداکاروں میں رنگیلا، حسن، تانی، ساقی، آغا طالش کے نام شامل تھے۔ اس فلم نے کراچی کے پلازہ سینما پر32ہفتے کا ریکارڈ بزنس کیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل ہوا۔ حیدر آباد کے وینس سینما پر یہ سولو سلور جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
نئی لیلیٰ نیا مجنوں-: یہ سپر ہٹ نغماتی مزاحیہ فلم عیدالاضحٰی، جمعرات27فروری 1969کو کراچی کے جوبلی سینما میں ریلیز ہوکر شان دار پلاٹینم جوبلی کے اعزاز سے ہم کنار ہوئی۔ ہدایت کار منور رشید کی اس سپر ہٹ فلم میں نسیمہ خان، کمال، عالیہ، لہری، مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کے تمام گانے بے حد سپر ہٹ ہوئے، جن میں ؔ او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا ۔ ؔ حسینہ دلربا ذرا سامنے۔ؔ میرے ہمسفر تم بڑے۔ؔ ندیا کے بیچ گوری۔ؔ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے۔
The post عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MzYwxq via Urdu News
0 notes
newestbalance · 6 years
Text
عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں
آج ہم ’’ عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئیں ماضی کی سپر ہٹ فلموں کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔
بوبی-:سو ہفتوں سے زائد چلنے والی یہ بلاک بسٹرفلم جمعہ 7ستمبر1984 کو عیدالاضحٰی پر کراچی کے لیرک اور لاہور کے پرنس سینما میں ریلیز ہوئی۔ فلم بوبی کے ساتھ 5فلمیں اور بھی ریلیز ہوئیں۔ اُن میں بوبی کا بزنس سب سے ٹاپ رہا۔ کراچی کے لیرک سینما پر18ہفتے بڑی کام یابی سے چلنے کے بعد یہ اس��الا سینما میں شفٹ ہوگئی، جہاں اس نے سولو سلور جوبلی مناکر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مجموعی طور پر اِس فلم نے 140 ہفتے مکمل کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ایور ریڈی اس فلم کے تقسیم کار تھے۔ نذر شباب کی ڈائریکشن میں بننے والی اس بلاک بسٹر فلم میں سبیتا، جاوید شیخ، فردوس جمال، سکندر شاہین، تمنا، ننھا اور محمد علی نے اہم کردار ادا کیے۔ موسیقار امجد بوبی کے میوزک نے ہر طرف دھوم مچادی اِس فلم کے چند مقبول نغمال میں اِک بار ملو ہم سے سو بار ملیں گےؔاور ؔ جہاں آج ہم ملے ہیں وہ مقام یاد رکھنا وغیرہؔ شامل تھے۔
بیوی ہو تو ایسی-: کراچی میں بننے والی ہدایت کار زاہد شاہ کی یہ خوب صورت فیملی ڈراما میوزیکل فلم منگل 28ستمبر1982عیدالاضحٰی پر ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس فلم کا مین سینما، پلازہ تھا، جب کہ لاہور میں مبارک، اس کا مرکزی سینما تھا۔ اس ساتھ ریلیز ہونے والی دیگر تمام فلموں میں اس فلم کا بزنس باکس آفس پر کھڑکی توڑ قرار پایا۔ کراچی میں یہ فلم 114ہفتے ڈائمنڈ جوبلی کرنے میں کام یاب رہی۔ شبنم، شفیؑع محمد، آرزو، فیصل، لہری اور تمنا اِس فلم کےنماں اداکار تھے۔ اِس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے، یہ زمانہ اور ہے-:شباب پروڈکشن کی تفریحی سے بھرپور خُوب صورت سپرہٹ فلم یہ زمانہ اور ہے جمعہ9 اکتوبر1981 عیدالاضحٰی کے پاکستان بھر میں کام یابی سے دیکھی گئی۔ بابرہ شریف، فیصل، ایاز نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے۔ شباب کیرانوی اس فلم کے مصنف فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔ یہ یادگار فلم آج بھی لوگ نہیں بھلاپائیں ہوں گے۔ جب قربانی سے فارغ ہوکر شام چھ بجے اور نو بجے والے شوز میں فیملیز کی بڑی تعداد فلم دیکھ کر اپنی عید کو انجوائے کرتے تھے۔اس فلم نے کراچی کے بمبینو سینما میں شان دار ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مس ہانگ کانگ-:ھدایت کارہ شمیم آرا کی یہ بلاک بسٹر فلم یادگار ثابت ہوئی۔ عیدالاضحٰی کے دن پاکستان کے سینما ہائوسز کے اسکرین کی زینت بنی ۔ جمعرات یکم نومبر1979کو منائی گئی عیدالاضحٰی پر ایک ساتھ8فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اُن میں مس ہانگ کانگ، نے باکس آفس پر شان دار بزنس کرتے ہوئے نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ وراسٹائل اور خُوب صورت اداکارہ بابرہ شریف کو پہلی بار ایکشن کردار میں دیکھ کر ہر عام و خاص ان کا دیوانہ ہوگیا۔ کراچی، لاہور، حیدر آباد، پشاور اور سکھر کے سینما ہائوسز پر خواتین کا جم غفیر اس فلم کو دیکھنے کے لیے ہر شو پر موجود ہوتا ۔
خواتین کے رش کو دیکھتے ہوئے کراچی کے بمبینو سینما میں ہر بدھ کو خواتین کے لیے خصوصی شو کا اہتمام کیا جاتا۔ اس فلم نے اپنے مرکزی سینما بمبینو پر مسلسل29ہفتے ہائوس فل کے ساتھ مکمل کیے۔ سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کرنے والی اِس بلاک بسٹر فلم نے مجموعی طور پر ایک سو گیارہ ہفتے کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز اپنے نام کیا۔
نوکر-: شباب پروڈکشن کی یہ یادگار رومانی گھریلو نغماتی فلم اتوار14دسمبر1975 کو عیدالاضحٰی کے روز کراچی کے پیراڈائز اور لاہور کے رتن سینما میں کئی ہفتوں تک عوام کی مرکزی نگاہ بنی رہی۔ ہدایت کار نذر شباب کی اس فلم میں زیبا، محمد علی، بابرہ شریف نے اہم اور مرکزی کردار ادا کیے ، جب کہ تمنا، ننھا، صاعقہ، خالد سلیم موٹا، شاہنواز، حنیف نامرہ، سیما کے نام بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
موسیقار ایم اشرف کی سپر ہٹ دُھنوں سے ترتیب دیے ہوئے نغمات نے اس فلم کے حُسن کو چار چاند لگادیئے تھے۔ اس فلم کے کچھ گیت آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کے بول یہ ہیںؔ، اپنا جیون شیشے کا کھلونا ہی تو ہے۔ؔ دل وہ لڑکی کا جس پر آئے آجائے۔ؔ یہ آج مجھے کیا ہوا ۔ؔ لاکھ کروں ان کا سسرجی۔ ؔ چاہے دنیا ہو خفا سنگ۔ؔ جیسے مقبول نغمات آج بھی اس فلم کی یاد دلاتے ہیں۔
شمع-: یہ کام یاب نغماتی فلم بدھ عیدالاضحٰی 25دسمبر1974کو پورے پاکستان میں ریلیز ہوکر شان دار کام یاب رہی۔ ہدایت کار نذر شباب نے پہلی بار محمد علی، ندیم، اور وحید مراد جیسے سپر اسٹار کو اِس فلم میں اہم کرداروں میں یکجا کیا تھا۔ اس فلم کا میوزک ریلیز سے کئی روز قبل مقبولیت حاصل کرچکا تھا ۔ ایم اشرف کی بنائی ہوئی دُھنیں بے حد مقبول ہوئیں، خاص طور پر ناہید اختر کے گائے ہوئے فلم کے یہ دو نغمےؔ ، کسی مہرباں نے آکر میری زندگی سجادی اور ؔ ایسے موسم میں چپ کیوں ہو۔ؔ اُس دور کے اسٹریٹ سونگ بن کر ہر جگہ سنائی دیے ۔ دیبا، بابرہ شریف، زیبا، تمنا، خالد سلیم موٹا، علائوالدین اور ساقی بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔ یہ فلم کراچی کے پلازہ اور لاہور کے محفل سینما میں کئی ماہ تک زبردست رش کے ساتھ زیر نمائش رہی، جب کہ حیدر آباد، پشاور، کوئٹہ،سکھر، راولپنڈی، ملتان میں اس کے تمام شو تین ماہ تک ہائوس فل جاتے رہے۔
خان چاچا-: یہ نغماتی پنجابی فلم عیدالاضحٰی، جمعرات 27جنوری 1972کے دن پنجاب سرکٹ میں ریلیز ہوئی۔ لاہور میں اپنے مین تھیٹر نگینہ پر یہ20ہفتے مکمل کرنے کے بعد دیگر مین سینما میں شفٹ ہوتی رہی مجموعی طور پر اس فلم نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پہلی پنجاب فلم تھی جو100ہفتے چلی۔ اس کے فلم ساز و ہدایت کار ایم اکرم تھے۔ نذر علی نے اس فلم کے لیے سپر ہٹ میوزک بنایا۔ اس فلم کے سبھی گانے نہ صرف اپنے دور میں مقبول ہوئے بلکہ آج میں ان کی مقبولیت برقرار رہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے گلے سے نکلا ہوا ترنم آج بھی اپنی مٹھاس لیے ان گیتوں میں محسوس ہوتا ہے۔ؔ اس فلم کے تمام گانےمزیں قادری نے لکھے تھے۔ ساون نے خان چاچا کا کردار کرکے بڑی شہرت پائی تھی، جب کہ نغمہ، اعجاز، عالیہ، اقبال حسن، نگو، ساحرہ، صبا، ناصرہ، جگی، شیخ اقبال، منور ظریف اور سلمان راہی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
دوستی-:ملکہ ترنم نور جہاں کی رسیلی اور مترنم آواز میں ریکارڈ کروائے ہوئے گانوں سے آراستہ نغماتی اور اصلاحی فلم ’’دوستی‘‘ کا شمار عیدالاضحٰی کی کام یاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ نغماتی خوب صورت فلم 7 فروری1971کو کراچی کے پلازہ، لاہور کے میٹرو پول اور حیدر آباد کے وینس سینما میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان کی چند سپر ہٹ نغماتی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ موسیقار اے حمید کی تمام دھنیں سدا بہار ہیں۔ آج بھی اس فلم کے نغمات ماضی کی طرح مقبول ہیں۔ؔ یہ وادیاں پربتوں کی شہزادیاں۔ؔ چِٹی جرا سیاں جی کے نام۔ؔ روٹھے سیاں کو میں تو۔ؔ سجناں بھول نہ جانا۔ؔ آرے آرے دل کے سہارے۔ؔ
یہ تمام نغمات آج بھی اپنی تازگی برار رکھے ہوئے ہیں۔اس فلم کے پروڈیوسر اعجاز تھے، جو اس فلم میں ہیرو کے کردار میں بھی بے حد پسند کیے گئے۔ ممتاز اداکارہ شبنم اس فلم کی ہیروئن تھیں، جب کہ اداکار رحمن نے اس فلم میں یادگار کردار نگاری کی تھی۔ دیگر اداکاروں میں رنگیلا، حسن، تانی، ساقی، آغا طالش کے نام شامل تھے۔ اس فلم نے کراچی کے پلازہ سینما پر32ہفتے کا ریکارڈ بزنس کیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل ہوا۔ حیدر آباد کے وینس سینما پر یہ سولو سلور جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
نئی لیلیٰ نیا مجنوں-: یہ سپر ہٹ نغماتی مزاحیہ فلم عیدالاضحٰی، جمعرات27فروری 1969کو کراچی کے جوبلی سینما میں ریلیز ہوکر شان دار پلاٹینم جوبلی کے اعزاز سے ہم کنار ہوئی۔ ہدایت کار منور رشید کی اس سپر ہٹ فلم میں نسیمہ خان، کمال، عالیہ، لہری، مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کے تمام گانے بے حد سپر ہٹ ہوئے، جن میں ؔ او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا ۔ ؔ حسینہ دلربا ذرا سامنے۔ؔ میرے ہمسفر تم بڑے۔ؔ ندیا کے بیچ گوری۔ؔ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے۔
The post عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MzYwxq via Urdu News
0 notes
dani-qrt · 6 years
Text
صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے باوجود 16 بارمنی اولمپکس
وطن عزیز پاکستان نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ایسے ایسے گوہر نایاب پیدا کئے جنہوں نے نہ صرف اندرون ملک بلکہ ملک سے باہر عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد میں تو کھیلوں کے بڑے بڑے مرکز ہیں جہاں باسانی کھلاڑیوں کو ہر قسم کی تربیت فراہم کی جاتی ہیں لیکن ملک کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان جہاں گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی نے اپنا راج قائم کیا ہوا ہے وہاں بابائے اسپورٹس عطا محمد کاکڑ نے کھیلوں کی سرگرمیوں کو دوام بخشا ہوا ہے۔ بلوچستان میں خصوصی طور پر کھیلوں کے حوالے سے ان کے کارناموں پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ بابائے اسپورٹس عطا محمد کاکڑ ان کے تخلیقی سلسلۂ اسپورٹس میں کمال حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا درجہ بہت بلند ہے۔ انہیں ایک اچھے کوچ، استاد، بہترین اسپورٹس آرگنائزر پر جو قدرت نے ان کو دی ��ے اس کی اگر کوئی مثال دی جائے تو اس کی زندہ مثالیں موجود ہیں۔ بابائے اسپورٹس عطا محمد کاکڑ کو ان کی صلاحیتوں، کارکردگی اور اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں تمغۂ امتیاز، پرائیڈ آف پرفارمنس، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، آئی اوسی ایوارڈ، نیشنل اسپورٹس ایوارڈز ملے۔ عطا محمد کاکڑ ایسے گوہر نایاب ہیں جنہیں پاکستان کی پرخلوص مٹّی نے جنم دیا۔
بلوچستان کے کھیلوں کے سب سے بڑے ایونٹ بلوچستان منی اولمپکس گیمز کا مسلسل 16مرتبہ کامیابی کے ساتھ انعقاد کے حوالے سے بابائے اسپورٹس عطا محمد کاکڑ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ 14ویں بلوچستان منی اولمپکس گیمز 15ویں بلوچستان گیمز اور 16ویں بلوچستان منی اولمپکس گیمز کا سلسلہ وار کامیاب ترین ایونٹس کیلئے اپنے گھر کی قیمتی اشیاء جن میں بیوی اور بچیوں کے زیورات، گھر کا قیمتی فرنیچر تک اپنے صوبے میں کھیلوں کے انعقاد کی خاطر فروخت کیں۔ قرض لے کر گیمز کرائے، کسی سے فنڈز، مالی امداد تک نہیں لی۔ معذور افراد کیلئے بلوچستان اسپیشل پرسن اولمپکس گیمز، چلڈرن اسپورٹس فیسٹول کے ساتھ ساتھ صوبائی اسپورٹس ایوارڈ تقاریب کی بنیاد بھی عطا محمد کاکڑ نے رکھی ہے۔
عرصہ 42سالوں سے خود کھلاڑیوں کی کوچنگ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بلوچستان کے کھیلوں کی جان اور بلوچستان کا سب سے پہلا صف اوّل کلب جس کا نام یوتھ کلب کوئٹہ ہے، یہاں سے اسپورٹس کا آغاز کیا۔ ورلڈ الیول کے کھلاڑیوں کی انہوں نے کوچنگ اور سرپرستی کے علاوہ باکسنگ کی قومی ٹیموں کو شعیب علی، محمد وسیم، رشید بلوچ، شریف محبوب، احمد عبدالمنان، عبداللہ رند شفاعت، محمد ارشد کاسی، فیض کاکڑ، عبدالقدوس، صلاح الدین، لعل شاہ، غنی مینگل جیسے کھلاڑی دیئے۔ اس کے بدلے میں حکومت بلوچستان کے اسپورٹس ڈپارٹمنٹ نے انہیں مسلسل نظرانداز کئے رکھا۔ ان کے شاگرد اس بات پر حیران ہیں کہ ایک ایسی شخصیت جنہوں نے تراش تراش کر قومی ہیروز دیئے۔ کبھی زندگی میں ایک روپیہ تنخواہ مراعات یا سہولیات حاصل نہیں کی۔ کسی صوبے میں کھیلوں اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ کیلئے عملی طور پر کوشاں ہیں اور متحرک کردار ادا کر رہے ہیں مگر افسوس ناک طور پر انہیں جس طرح کی پذیرائی اور داد ملنی چاہئے تھی وہ نہیں ملی۔ عام عوام کی سطح پر تو لوگ ان کی بہت زیادہ عزت و احترام کرتے ہیں۔ عطا محمد کاکڑ پنجاب پختونخواہ یا سندھ میں ہوتے تو ضرور صوبے کی اہم شخصیات ان کو یاد کرتیں مگر یہاں ایسی روایت قائم نہیں۔ جس شخص نے پاکستان کی اسپورٹس کی تاریخ میں ایسی مثال قائم کی جو 70سال میں کوئی بھی نہیں کر سکتا، وہ عطا محمد کاکڑ نے کر دیا ہے۔
ان کے عالمی لیول کے شاگردوں نے پوری دنیا دیکھ لی ہے۔ عطا محمد کاکڑ نے کبھی غیر ملکی دورے نہیں کئے، نہ کبھی ٹیم کے ساتھ بہ حیثیت کوچ یا منیجر گئے۔ کبھی اپنی ذات کیلئے نہیں کہا ہے۔ آج ان کے 80ہزار سے زائد شاگرد ہیں۔ بہت سے شاگرد پاکستان آرمی، ریلوے، واپڈا، پولیس، انتظامیہ، افسران ممبران اسمبلی، سیاسی لیڈر وزیر بن چکے، کسی کے پاس نہیں گئے اور نہ کسی کو کہا کہ کھیلوں کے انعقاد کیلئے ان کی مدد کریں۔ ان کو کھیلوں کے مثالی فروغ، کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے طور پر دیا گیا۔ بلوچستان کی پہچان وطن عزیز پاکستان کی جان ہے۔
پوری قوم ان پر فخر اور ناز کرتی ہے۔ ملک اور صوبے کے سابق حکمرانوں سردار فاروق لغاری، غلام اسحاق خان، مرزا اسلم بیگ، آصف علی زرداری، نواب ذوالفقار مگسی، رفیق احمد تارڑ، نواب اکبر خان بگٹی، سردار گل محمد جوگیزئی، جنرل موسیٰ خان، سردار رحیم درانی، نواب اسلم رئیسانی، نواب ثناء اللہ زہری، راحیلہ حمید خان درانی، ڈاکٹر مالک بلوچ، امیرالملک مینگل، امان اللہ یاسین زئی، زمرک خان اچکزئی سب نے ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ ان کی حقیقت اسپورٹس دوستی کو تسلیم کیا۔
عطا محمد کاکڑ اس وقت بھی اپنے کلب میں نوجوانوں کو خود اپنی نگرانی میں تربیت دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کی حیثیت ایک ادارے کی شکل میں عملی طور پر نظر آ رہی ہے۔ کبھی قومیت، مذہب، نسل کو سامنے نہیں رکھا بلکہ انسانیت کے ناطے انسان دوستی کی فضاء قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پورے ملک میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ بچّے، بوڑھے، نوجوان سب ہی ان کے کلب آتے ہیں۔ انتخابات کے دنوں میں سیاسی لوگ ان کے پاس جاتے ہیں اور اپنی حمایت کی یقین دہانی کراتے ہیں مگر عطا محمد کاکڑ ایسی کسی بھی قسم کی سرگرمیوں کو اسپورٹس سے دور رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ وطن پرستی پاکستان سے پیار کرنے کو اوّلیت دی۔ ملک کے تمام سیاسی رہنما ان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
عطا محمد کاکڑ کے بارے میں پاکستان باکسنگ کی تاریخ رقم کرنے والے مرحوم پروفیسر انور چوہدری کے یہ فقرے بہت موزوں لگے کہ عطا محمد کاکڑ بڑی پہلودار شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ عہد حاضر کے نہ صرف بہت بڑے اسپورٹس مین ہیں بلکہ اس خطّے کے عظیم رہنما ہیں۔ ان کا درجہ بہت بلند ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے کمالات سے نوازا ہے کہ کھلاڑیوں کی تربیت، عالمی لیول پر مقام دلانا پھر کھیلوں کے فروغ کیلئے بلوچستان اولمپکس گیمز کا انعقاد پھر معذور افراد کیلئے بچّوں کیلئے چلڈرن اسپورٹس جیسی تقاریب قابل اعتراف ہے۔
The post صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے باوجود 16 بارمنی اولمپکس appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MXMeLP via Urdu News
0 notes
thebestmealintown · 6 years
Text
عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں
آج ہم ’’ عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئیں ماضی کی سپر ہٹ فلموں کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔
بوبی-:سو ہفتوں سے زائد چلنے والی یہ بلاک بسٹرفلم جمعہ 7ستمبر1984 کو عیدالاضحٰی پر کراچی کے لیرک اور لاہور کے پرنس سینما میں ریلیز ہوئی۔ فلم بوبی کے ساتھ 5فلمیں اور بھی ریلیز ہوئیں۔ اُن میں بوبی کا بزنس سب سے ٹاپ رہا۔ کراچی کے لیرک سینما پر18ہفتے بڑی کام یابی سے چلنے کے بعد یہ اسکالا سینما میں شفٹ ہوگئی، جہاں اس نے سولو سلور جوبلی مناکر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مجموعی طور پر اِس فلم نے 140 ہفتے مکمل کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ایور ریڈی اس فلم کے تقسیم کار تھے۔ نذر شباب کی ڈائریکشن میں بننے والی اس بلاک بسٹر فلم میں سبیتا، جاوید شیخ، فردوس جمال، سکندر شاہین، تمنا، ننھا اور محمد علی نے اہم کردار ادا کیے۔ موسیقار امجد بوبی کے میوزک نے ہر طرف دھوم مچادی اِس فلم کے چند مقبول نغمال میں اِک بار ملو ہم سے سو بار ملیں گےؔاور ؔ جہاں آج ہم ملے ہیں وہ مقام یاد رکھنا وغیرہؔ شامل تھے۔
بیوی ہو تو ایسی-: کراچی میں بننے والی ہدایت کار زاہد شاہ کی یہ خوب صورت فیملی ڈراما میوزیکل فلم منگل 28ستمبر1982عیدالاضحٰی پر ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس فلم کا مین سینما، پلازہ تھا، جب کہ لاہور میں مبارک، اس کا مرکزی سینما تھا۔ اس ساتھ ریلیز ہونے والی دیگر تمام فلموں میں اس فلم کا بزنس باکس آفس پر کھڑکی توڑ قرار پایا۔ کراچی میں یہ فلم 114ہفتے ڈائمنڈ جوبلی کرنے میں کام یاب رہی۔ شبنم، شفیؑع محمد، آرزو، فیصل، لہری اور تمنا اِس فلم کےنماں اداکار تھے۔ اِس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے، یہ زمانہ اور ہے-:شباب پروڈکشن کی تفریحی سے بھرپور خُوب صورت سپرہٹ فلم یہ زمانہ اور ہے جمعہ9 اکتوبر1981 عیدالاضحٰی کے پاکستان بھر میں کام یابی سے دیکھی گئی۔ بابرہ شریف، فیصل، ایاز نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے۔ شباب کیرانوی اس فلم کے مصنف فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔ یہ یادگار فلم آج بھی لوگ نہیں بھلاپائیں ہوں گے۔ جب قربانی سے فارغ ہوکر شام چھ بجے اور نو بجے والے شوز میں فیملیز کی بڑی تعداد فلم دیکھ کر اپنی عید کو انجوائے کرتے تھے۔اس فلم نے کراچی کے بمبینو سینما میں شان دار ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مس ہانگ کانگ-:ھدایت کارہ شمیم آرا کی یہ بلاک بسٹر فلم یادگار ثابت ہوئی۔ عیدالاضحٰی کے دن پاکستان کے سینما ہائوسز کے اسکرین کی زینت بنی ۔ جمعرات یکم نومبر1979کو منائی گئی عیدالاضحٰی پر ایک ساتھ8فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اُن میں مس ہانگ کانگ، نے باکس آفس پر شان دار بزنس کرتے ہوئے نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ وراسٹائل اور خُوب صورت اداکارہ بابرہ شریف کو پہلی بار ایکشن کردار میں دیکھ کر ہر عام و خاص ان کا دیوانہ ہوگیا۔ کراچی، لاہور، حیدر آباد، پشاور اور سکھر کے سینما ہائوسز پر خواتین کا جم غفیر اس فلم کو دیکھنے کے لیے ہر شو پر موجود ہوتا ۔
خواتین کے رش کو دیکھتے ہوئے کراچی کے بمبینو سینما میں ہر بدھ کو خواتین کے لیے خصوصی شو کا اہتمام کیا جاتا۔ اس فلم نے اپنے مرکزی سینما بمبینو پر مسلسل29ہفتے ہائوس فل کے ساتھ مکمل کیے۔ سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کرنے والی اِس بلاک بسٹر فلم نے مجموعی طور پ�� ایک سو گیارہ ہفتے کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز اپنے نام کیا۔
نوکر-: شباب پروڈکشن کی یہ یادگار رومانی گھریلو نغماتی فلم اتوار14دسمبر1975 کو عیدالاضحٰی کے روز کراچی کے پیراڈائز اور لاہور کے رتن سینما میں کئی ہفتوں تک عوام کی مرکزی نگاہ بنی رہی۔ ہدایت کار نذر شباب کی اس فلم میں زیبا، محمد علی، بابرہ شریف نے اہم اور مرکزی کردار ادا کیے ، جب کہ تمنا، ننھا، صاعقہ، خالد سلیم موٹا، شاہنواز، حنیف نامرہ، سیما کے نام بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
موسیقار ایم اشرف کی سپر ہٹ دُھنوں سے ترتیب دیے ہوئے نغمات نے اس فلم کے حُسن کو چار چاند لگادیئے تھے۔ اس فلم کے کچھ گیت آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کے بول یہ ہیںؔ، اپنا جیون شیشے کا کھلونا ہی تو ہے۔ؔ دل وہ لڑکی کا جس پر آئے آجائے۔ؔ یہ آج مجھے کیا ہوا ۔ؔ لاکھ کروں ان کا سسرجی۔ ؔ چاہے دنیا ہو خفا سنگ۔ؔ جیسے مقبول نغمات آج بھی اس فلم کی یاد دلاتے ہیں۔
شمع-: یہ کام یاب نغماتی فلم بدھ عیدالاضحٰی 25دسمبر1974کو پورے پاکستان میں ریلیز ہوکر شان دار کام یاب رہی۔ ہدایت کار نذر شباب نے پہلی بار محمد علی، ندیم، اور وحید مراد جیسے سپر اسٹار کو اِس فلم میں اہم کرداروں میں یکجا کیا تھا۔ اس فلم کا میوزک ریلیز سے کئی روز قبل مقبولیت حاصل کرچکا تھا ۔ ایم اشرف کی بنائی ہوئی دُھنیں بے حد مقبول ہوئیں، خاص طور پر ناہید اختر کے گائے ہوئے فلم کے یہ دو نغمےؔ ، کسی مہرباں نے آکر میری زندگی سجادی اور ؔ ایسے موسم میں چپ کیوں ہو۔ؔ اُس دور کے اسٹریٹ سونگ بن کر ہر جگہ سنائی دیے ۔ دیبا، بابرہ شریف، زیبا، تمنا، خالد سلیم موٹا، علائوالدین اور ساقی بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔ یہ فلم کراچی کے پلازہ اور لاہور کے محفل سینما میں کئی ماہ تک زبردست رش کے ساتھ زیر نمائش رہی، جب کہ حیدر آباد، پشاور، کوئٹہ،سکھر، راولپنڈی، ملتان میں اس کے تمام شو تین ماہ تک ہائوس فل جاتے رہے۔
خان چاچا-: یہ نغماتی پنجابی فلم عیدالاضحٰی، جمعرات 27جنوری 1972کے دن پنجاب سرکٹ میں ریلیز ہوئی۔ لاہور میں اپنے مین تھیٹر نگینہ پر یہ20ہفتے مکمل کرنے کے بعد دیگر مین سینما میں شفٹ ہوتی رہی مجموعی طور پر اس فلم نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پہلی پنجاب فلم تھی جو100ہفتے چلی۔ اس کے فلم ساز و ہدایت کار ایم اکرم تھے۔ نذر علی نے اس فلم کے لیے سپر ہٹ میوزک بنایا۔ اس فلم کے سبھی گانے نہ صرف اپنے دور میں مقبول ہوئے بلکہ آج میں ان کی مقبولیت برقرار رہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے گلے سے نکلا ہوا ترنم آج بھی اپنی مٹھاس لیے ان گیتوں میں محسوس ہوتا ہے۔ؔ اس فلم کے تمام گانےمزیں قادری نے لکھے تھے۔ ساون نے خان چاچا کا کردار کرکے بڑی شہرت پائی تھی، جب کہ نغمہ، اعجاز، عالیہ، اقبال حسن، نگو، ساحرہ، صبا، ناصرہ، جگی، شیخ اقبال، منور ظریف اور سلمان راہی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
دوستی-:ملکہ ترنم نور جہاں کی رسیلی اور مترنم آواز میں ریکارڈ کروائے ہوئے گانوں سے آراستہ نغماتی اور اصلاحی فلم ’’دوستی‘‘ کا شمار عیدالاضحٰی کی کام یاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ نغماتی خوب صورت فلم 7 فروری1971کو کراچی کے پلازہ، لاہور کے میٹرو پول اور حیدر آباد کے وینس سینما میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان کی چند سپر ہٹ نغماتی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ موسیقار اے حمید کی تمام دھنیں سدا بہار ہیں۔ آج بھی اس فلم کے نغمات ماضی کی طرح مقبول ہیں۔ؔ یہ وادیاں پربتوں کی شہزادیاں۔ؔ چِٹی جرا سیاں جی کے نام۔ؔ روٹھے سیاں کو میں تو۔ؔ سجناں بھول نہ جانا۔ؔ آرے آرے دل کے سہارے۔ؔ
یہ تمام نغمات آج بھی اپنی تازگی برار رکھے ہوئے ہیں۔اس فلم کے پروڈیوسر اعجاز تھے، جو اس فلم میں ہیرو کے کردار میں بھی بے حد پسند کیے گئے۔ ممتاز اداکارہ شبنم اس فلم کی ہیروئن تھیں، جب کہ اداکار رحمن نے اس فلم میں یادگار کردار نگاری کی تھی۔ دیگر اداکاروں میں رنگیلا، حسن، تانی، ساقی، آغا طالش کے نام شامل تھے۔ اس فلم نے کراچی کے پلازہ سینما پر32ہفتے کا ریکارڈ بزنس کیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل ہوا۔ حیدر آباد کے وینس سینما پر یہ سولو سلور جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
نئی لیلیٰ نیا مجنوں-: یہ سپر ہٹ نغماتی مزاحیہ فلم عیدالاضحٰی، جمعرات27فروری 1969کو کراچی کے جوبلی سینما میں ریلیز ہوکر شان دار پلاٹینم جوبلی کے اعزاز سے ہم کنار ہوئی۔ ہدایت کار منور رشید کی اس سپر ہٹ فلم میں نسیمہ خان، کمال، عالیہ، لہری، مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کے تمام گانے بے حد سپر ہٹ ہوئے، جن میں ؔ او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا ۔ ؔ حسینہ دلربا ذرا سامنے۔ؔ میرے ہمسفر تم بڑے۔ؔ ندیا کے بیچ گوری۔ؔ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے۔
The post عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MzYwxq via India Pakistan News
0 notes
dragnews · 6 years
Text
عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں
آج ہم ’’ عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئیں ماضی کی سپر ہٹ فلموں کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔
بوبی-:سو ہفتوں سے زائد چلنے والی یہ بلاک بسٹرفلم جمعہ 7ستمبر1984 کو عیدالاضحٰی پر کراچی کے لیرک اور لاہور کے پرنس سینما میں ریلیز ہوئی۔ فلم بوبی کے ساتھ 5فلمیں اور بھی ریلیز ہوئیں۔ اُن میں بوبی کا بزنس سب سے ٹاپ رہا۔ کراچی کے لیرک سینما پر18ہفتے بڑی کام یابی سے چلنے کے بعد یہ اسکالا سینما میں شفٹ ہوگئی، جہاں اس نے سولو سلور جوبلی مناکر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مجموعی طور پر اِس فلم نے 140 ہفتے مکمل کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ایور ریڈی اس فلم کے تقسیم کار تھے۔ نذر شباب کی ڈائریکشن میں بننے والی اس بلاک بسٹر فلم میں سبیتا، جاوید شیخ، فردوس جمال، سکندر شاہین، تمنا، ننھا اور محمد علی نے اہم کردار ادا کیے۔ موسیقار امجد بوبی کے میوزک نے ہر طرف دھوم مچادی اِس فلم کے چند مقبول نغمال میں اِک بار ملو ہم سے سو بار ملیں گےؔاور ؔ جہاں آج ہم ملے ہیں وہ مقام یاد رکھنا وغیرہؔ شامل تھے۔
بیوی ہو تو ایسی-: کراچی میں بننے والی ہدایت کار زاہد شاہ کی یہ خوب صورت فیملی ڈراما میوزیکل فلم منگل 28ستمبر1982عیدالاضحٰی پر ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس فلم کا مین سینما، پلازہ تھا، جب کہ لاہور میں مبارک، اس کا مرکزی سینما تھا۔ اس ساتھ ریلیز ہونے والی دیگر تمام فلموں میں اس فلم کا بزنس باکس آفس پر کھڑکی توڑ قرار پایا۔ کراچی میں یہ فلم 114ہفتے ڈائمنڈ جوبلی کرنے میں کام یاب رہی۔ شبنم، شفیؑع محمد، آرزو، فیصل، لہری اور تمنا اِس فلم کےنماں اداکار تھے۔ اِس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے، یہ زمانہ اور ہے-:شباب پروڈکشن کی تفریحی سے بھرپور خُوب صورت سپرہٹ فلم یہ زمانہ اور ہے جمعہ9 اکتوبر1981 عیدالاضحٰی کے پاکستان بھر میں کام یابی سے دیکھی گئی۔ بابرہ شریف، فیصل، ایاز نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے۔ شباب کیرانوی اس فلم کے مصنف فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔ یہ یادگار فلم آج بھی لوگ نہیں بھلاپائیں ہوں گے۔ جب قربانی سے فارغ ہوکر شام چھ بجے اور نو بجے والے شوز میں فیملیز کی بڑی تعداد فلم دیکھ کر اپنی عید کو انجوائے کرتے تھے۔اس فلم نے کراچی کے بمبینو سینما میں شان دار ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مس ہانگ کانگ-:ھدایت کارہ شمیم آرا کی یہ بلاک بسٹر فلم یادگار ثابت ہوئی۔ عیدالاضحٰی کے دن پاکستان کے سینما ہائوسز کے اسکرین کی زینت بنی ۔ جمعرات یکم نومبر1979کو منائی گئی عیدالاضحٰی پر ایک ساتھ8فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اُن میں مس ہانگ کانگ، نے باکس آفس پر شان دار بزنس کرتے ہوئے نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ وراسٹائل اور خُوب صورت اداکارہ بابرہ شریف کو پہلی بار ایکشن کردار میں دیکھ کر ہر عام و خاص ان کا دیوانہ ہوگیا۔ کراچی، لاہور، حیدر آباد، پشاور اور سکھر کے سینما ہائوسز پر خواتین کا جم غفیر اس فلم کو دیکھنے کے لیے ہر شو پر موجود ہوتا ۔
خواتین کے رش کو دیکھتے ہوئے کراچی کے بمبینو سینما میں ہر بدھ کو خواتین کے لیے خصوصی شو کا اہتمام کیا جاتا۔ اس فلم نے اپنے مرکزی سینما بمبینو پر مسلسل29ہفتے ہائوس فل کے ساتھ مکمل کیے۔ سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کرنے والی اِس بلاک بسٹر فلم نے مجموعی طور پر ایک سو گیارہ ہفتے کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز اپنے نام کیا۔
نوکر-: شباب پروڈکشن کی یہ یادگار رومانی گھریلو نغماتی فلم اتوار14دسمبر1975 کو عیدالاضحٰی کے روز کراچی کے پیراڈائز اور لاہور کے رتن سینما میں کئی ہفتوں تک عوام کی مرکزی نگاہ بنی رہی۔ ہدایت کار نذر شباب کی اس فلم میں زیبا، محمد علی، بابرہ شریف نے اہم اور مرکزی کردار ادا کیے ، جب کہ تمنا، ننھا، صاعقہ، خالد سلیم موٹا، شاہنواز، حنیف نامرہ، سیما کے نام بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
موسیقار ایم اشرف کی سپر ہٹ دُھنوں سے ترتیب دیے ہوئے نغمات نے اس فلم کے حُسن کو چار چاند لگادیئے تھے۔ اس فلم کے کچھ گیت آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کے بول یہ ہیںؔ، اپنا جیون شیشے کا کھلونا ہی تو ہے۔ؔ دل وہ لڑکی کا جس پر آئے آجائے۔ؔ یہ آج مجھے کیا ہوا ۔ؔ لاکھ کروں ان کا سسرجی۔ ؔ چاہے دنیا ہو خفا سنگ۔ؔ جیسے مقبول نغمات آج بھی اس فلم کی یاد دلاتے ہیں۔
شمع-: یہ کام یاب نغماتی فلم بدھ عیدالاضحٰی 25دسمبر1974کو پورے پاکستان میں ریلیز ہوکر شان دار کام یاب رہی۔ ہدایت کار نذر شباب نے پہلی بار محمد علی، ندیم، اور وحید مراد جیسے سپر اسٹار کو اِس فلم میں اہم کرداروں میں یکجا کیا تھا۔ اس فلم کا میوزک ریلیز سے کئی روز قبل مقبولیت حاصل کرچکا تھا ۔ ایم اشرف کی بنائی ہوئی دُھنیں بے حد مقبول ہوئیں، خاص طور پر ناہید اختر کے گائے ہوئے فلم کے یہ دو نغمےؔ ، کسی مہرباں نے آکر میری زندگی سجادی اور ؔ ایسے موسم میں چپ کیوں ہو۔ؔ اُس دور کے اسٹریٹ سونگ بن کر ہر جگہ سنائی دیے ۔ دیبا، بابرہ شریف، زیبا، تمنا، خالد سلیم موٹا، علائوالدین اور ساقی بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔ یہ فلم کراچی کے پلازہ اور لاہور کے محفل سینما میں کئی ماہ تک زبردست رش کے ساتھ زیر نمائش رہی، جب کہ حیدر آباد، پشاور، کوئٹہ،سکھر، راولپنڈی، ملتان میں اس کے تمام شو تین ماہ تک ہائوس فل جاتے رہے۔
خان چاچا-: یہ نغماتی پنجابی فلم عیدالاضحٰی، جمعرات 27جنوری 1972کے دن پنجاب سرکٹ میں ریلیز ہوئی۔ لاہور میں اپنے مین تھیٹر نگینہ پر یہ20ہفتے مکمل کرنے کے بعد دیگر مین سینما میں شفٹ ہوتی رہی مجموعی طور پر اس فلم نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پہلی پنجاب فلم تھی جو100ہفتے چلی۔ اس کے فلم ساز و ہدایت کار ایم اکرم تھے۔ نذر علی نے اس فلم کے لیے سپر ہٹ میوزک بنایا۔ اس فلم کے سبھی گانے نہ صرف اپنے دور میں مقبول ہوئے بلکہ آج میں ان کی مقبولیت برقرار رہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے گلے سے نکلا ہوا ترنم آج بھی اپنی مٹھاس لیے ان گیتوں میں محسوس ہوتا ہے۔ؔ اس فلم کے تمام گانےمزیں قادری نے لکھے تھے۔ ساون نے خان چاچا کا کردار کرکے بڑی شہرت پائی تھی، جب کہ نغمہ، اعجاز، عالیہ، اقبال حسن، نگو، ساحرہ، صبا، ناصرہ، جگی، شیخ اقبال، منور ظریف اور سلمان راہی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
دوستی-:ملکہ ترنم نور جہاں کی رسیلی اور مترنم آواز میں ریکارڈ کروائے ہوئے گانوں سے آراستہ نغماتی اور اصلاحی فلم ’’دوستی‘‘ کا شمار عیدالاضحٰی کی کام یاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ نغماتی خوب صورت فلم 7 فروری1971کو کراچی کے پلازہ، لاہور کے میٹرو پول اور حیدر آباد کے وینس سینما میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان کی چند سپر ہٹ نغماتی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ موسیقار اے حمید کی تمام دھنیں سدا بہار ہیں۔ آج بھی اس فلم کے نغمات ماضی کی طرح مقبول ہیں۔ؔ یہ وادیاں پربتوں کی شہزادیاں۔ؔ چِٹی جرا سیاں جی کے نام۔ؔ روٹھے سیاں کو میں تو۔ؔ سجناں بھول نہ جانا۔ؔ آرے آرے دل کے سہارے۔ؔ
یہ تمام نغمات آج بھی اپنی تازگی برار رکھے ہوئے ہیں۔اس فلم کے پروڈیوسر اعجاز تھے، جو اس فلم میں ہیرو کے کردار میں بھی بے حد پسند کیے گئے۔ ممتاز اداکارہ شبنم اس فلم کی ہیروئن تھیں، جب کہ اداکار رحمن نے اس فلم میں یادگار کردار نگاری کی تھی۔ دیگر اداکاروں میں رنگیلا، حسن، تانی، ساقی، آغا طالش کے نام شامل تھے۔ اس فلم نے کراچی کے پلازہ سینما پر32ہفتے کا ریکارڈ بزنس کیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل ہوا۔ حیدر آباد کے وینس سینما پر یہ سولو سلور جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
نئی لیلیٰ نیا مجنوں-: یہ سپر ہٹ نغماتی مزاحیہ فلم عیدالاضحٰی، جمعرات27فروری 1969کو کراچی کے جوبلی سینما میں ریلیز ہوکر شان دار پلاٹینم جوبلی کے اعزاز سے ہم کنار ہوئی۔ ہدایت کار منور رشید کی اس سپر ہٹ فلم میں نسیمہ خان، کمال، عالیہ، لہری، مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کے تمام گانے بے حد سپر ہٹ ہوئے، جن میں ؔ او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا ۔ ؔ حسینہ دلربا ذرا سامنے۔ؔ میرے ہمسفر تم بڑے۔ؔ ندیا کے بیچ گوری۔ؔ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے۔
The post عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MzYwxq via Today Pakistan
0 notes
rebranddaniel · 6 years
Text
عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں
آج ہم ’’ عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئیں ماضی کی سپر ہٹ فلموں کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔
بوبی-:سو ہفتوں سے زائد چلنے والی یہ بلاک بسٹرفلم جمعہ 7ستمبر1984 کو عیدالاضحٰی پر کراچی کے لیرک اور لاہور کے پرنس سینما میں ریلیز ہوئی۔ فلم بوبی کے ساتھ 5فلمیں اور بھی ریلیز ہوئیں۔ اُن میں بوبی کا بزنس سب سے ٹاپ رہا۔ کراچی کے لیرک سینما پر18ہفتے بڑی کام یابی سے چلنے کے بعد یہ اسکالا سینما میں شفٹ ہوگئی، جہاں اس نے سولو سلور جوبلی مناکر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مجموعی طور پر اِس فلم نے 140 ہفتے مکمل کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ایور ریڈی اس فلم کے تقسیم کار تھے۔ نذر شباب کی ڈائریکشن میں بننے والی اس بلاک بسٹر فلم میں سبیتا، جاوید شیخ، فردوس جمال، سکندر شاہین، تمنا، ننھا اور محمد علی نے اہم کردار ادا کیے۔ موسیقار امجد بوبی کے میوزک نے ہر طرف دھوم مچادی اِس فلم کے چند مقبول نغمال میں اِک بار ملو ہم سے سو بار ملیں گےؔاور ؔ جہاں آج ہم ملے ہیں وہ مقام یاد رکھنا وغیرہؔ شامل تھے۔
بیوی ہو تو ایسی-: کراچی میں بننے والی ہدایت کار زاہد شاہ کی یہ خوب صورت فیملی ڈراما میوزیکل فلم منگل 28ستمبر1982عیدالاضحٰی پر ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس فلم کا مین سینما، پلازہ تھا، جب کہ لاہور میں مبارک، اس کا مرکزی سینما تھا۔ اس ساتھ ریلیز ہونے والی دیگر تمام فلموں میں اس فلم کا بزنس باکس آفس پر کھڑکی توڑ قرار پایا۔ کراچی میں یہ فلم 114ہفتے ڈائمنڈ جوبلی کرنے میں کام یاب رہی۔ شبنم، شفیؑع محمد، آرزو، فیصل، لہری اور تمنا اِس فلم کےنماں اداکار تھے۔ اِس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے، یہ زمانہ اور ہے-:شباب پروڈکشن کی تفریحی سے بھرپور خُوب صورت سپرہٹ فلم یہ زمانہ اور ہے جمعہ9 اکتوبر1981 عیدالاضحٰی کے پاکستان بھر میں کام یابی سے دیکھی گئی۔ بابرہ شریف، فیصل، ایاز نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے۔ شباب کیرانوی اس فلم کے مصنف فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔ یہ یادگار فلم آج بھی لوگ نہیں بھلاپائیں ہوں گے۔ جب قربانی سے فارغ ہوکر شام چھ بجے اور نو بجے والے شوز میں فیملیز کی بڑی تعداد فلم دیکھ کر اپنی عید کو انجوائے کرتے تھے۔اس فلم نے کراچی کے بمبینو سینما میں شان دار ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مس ہانگ کانگ-:ھدایت کارہ شمیم آرا کی یہ بلاک بسٹر فلم یادگار ثابت ہوئی۔ عیدالاضحٰی کے دن پاکستان کے سینما ہائوسز کے اسکرین کی زینت بنی ۔ جمعرات یکم نومبر1979کو منائی گئی عیدالاضحٰی پر ایک ساتھ8فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اُن میں مس ہانگ کانگ، نے باکس آفس پر شان دار بزنس کرتے ہوئے نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ وراسٹائل اور خُوب صورت اداکارہ بابرہ شریف کو پہلی بار ایکشن کردار میں دیکھ کر ہر عام و خاص ان کا دیوانہ ہوگیا۔ کراچی، لاہور، حیدر آباد، پشاور اور سکھر کے سینما ہائوسز پر خواتین کا جم غفیر اس فلم کو دیکھنے کے لیے ہر شو پر موجود ہوتا ۔
خواتین کے رش کو دیکھتے ہوئے کراچی کے بمبینو سینما میں ہر بدھ کو خواتین کے لیے خصوصی شو کا اہتمام کیا جاتا۔ اس فلم نے اپنے مرکزی سینما بمبینو پر مسلسل29ہفتے ہائوس فل کے ساتھ مکمل کیے۔ سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کرنے والی اِس بلاک بسٹر فلم نے مجموعی طور پر ایک سو گیارہ ہفتے کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز اپنے نام کیا۔
نوکر-: شباب پروڈکشن کی یہ یادگار رومانی گھریلو نغماتی فلم اتوار14دسمبر1975 کو عیدالاضحٰی کے روز کراچی کے پیراڈائز اور لاہور کے رتن سینما میں کئی ہفتوں تک عوام کی مرکزی نگاہ بنی رہی۔ ہدایت کار نذر شباب کی اس فلم میں زیبا، محمد علی، بابرہ شریف نے اہم اور مرکزی کردار ادا کیے ، جب کہ تمنا، ننھا، صاعقہ، خالد سلیم موٹا، شاہنواز، حنیف نامرہ، سیما کے نام بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
موسیقار ایم اشرف کی سپر ہٹ دُھنوں سے ترتیب دیے ہوئے نغمات نے اس فلم کے حُسن کو چار چاند لگادیئے تھے۔ اس فلم کے کچھ گیت آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کے بول یہ ہیںؔ، اپنا جیون شیشے کا کھلونا ہی تو ہے۔ؔ دل وہ لڑکی کا جس پر آئے آجائے۔ؔ یہ آج مجھے کیا ہوا ۔ؔ لاکھ کروں ان کا سسرجی۔ ؔ چاہے دنیا ہو خفا سنگ۔ؔ جیسے مقبول نغمات آج بھی اس فلم کی یاد دلاتے ہیں۔
شمع-: یہ کام یاب نغماتی فلم بدھ عیدالاضحٰی 25دسمبر1974کو پورے پاکستان میں ریلیز ہوکر شان دار کام یاب رہی۔ ہدایت کار نذر شباب نے پہلی بار محمد علی، ندیم، اور وحید مراد جیسے سپر اسٹار کو اِس فلم میں اہم کرداروں میں یکجا کیا تھا۔ اس فلم کا میوزک ریلیز سے کئی روز قبل مقبولیت حاصل کرچکا تھا ۔ ایم اشرف کی بنائی ہوئی دُھنیں بے حد مقبول ہوئیں، خاص طور پر ناہید اختر کے گائے ہوئے فلم کے یہ دو نغمےؔ ، کسی مہرباں نے آکر میری زندگی سجادی اور ؔ ایسے موسم میں چپ کیوں ہو۔ؔ اُس دور کے اسٹریٹ سونگ بن کر ہر جگہ سنائی دیے ۔ دیبا، بابرہ شریف، زیبا، تمنا، خالد سلیم موٹا، علائوالدین اور ساقی بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔ یہ فلم کراچی کے پلازہ اور لاہور کے محفل سینما میں کئی ماہ تک زبردست رش کے ساتھ زیر نمائش رہی، جب کہ حیدر آباد، پشاور، کوئٹہ،سکھر، راولپنڈی، ملتان میں اس کے تمام شو تین ماہ تک ہائوس فل جاتے رہے۔
خان چاچا-: یہ نغماتی پنجابی فلم عیدالاضحٰی، جمعرات 27جنوری 1972کے دن پنجاب سرکٹ میں ریلیز ہوئی۔ لاہور میں اپنے مین تھیٹر نگینہ پر یہ20ہفتے مکمل کرنے کے بعد دیگر مین سینما میں شفٹ ہوتی رہی مجموعی طور پر اس فلم نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پہلی پنجاب فلم تھی جو100ہفتے چلی۔ اس کے فلم ساز و ہدایت کار ایم اکرم تھے۔ نذر علی نے اس فلم کے لیے سپر ہٹ میوزک بنایا۔ اس فلم کے سبھی گانے نہ صرف اپنے دور میں مقبول ہوئے بلکہ آج میں ان کی مقبولیت برقرار رہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے گلے سے نکلا ہوا ترنم آج بھی اپنی مٹھاس لیے ان گیتوں میں محسوس ہوتا ہے۔ؔ اس فلم کے تمام گانےمزیں قادری نے لکھے تھے۔ ساون نے خان چاچا کا کردار کرکے بڑی شہرت پائی تھی، جب کہ نغمہ، اعجاز، عالیہ، اقبال حسن، نگو، ساحرہ، صبا، ناصرہ، جگی، شیخ اقبال، منور ظریف اور سلمان راہی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
دوستی-:ملکہ ترنم نور جہاں کی رسیلی اور مترنم آواز میں ریکارڈ کروائے ہوئے گانوں سے آراستہ نغماتی اور اصلاحی فلم ’’دوستی‘‘ کا شمار عیدالاضحٰی کی کام یاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ نغماتی خوب صورت فلم 7 فروری1971کو کراچی کے پلازہ، لاہور کے میٹرو پول اور حیدر آباد کے وینس سینما میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان کی چند سپر ہٹ نغماتی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ موسیقار اے حمید کی تمام دھنیں سدا بہار ہیں۔ آج بھی اس فلم کے نغمات ماضی کی طرح مقبول ہیں۔ؔ یہ وادیاں پربتوں کی شہزادیاں۔ؔ چِٹی جرا سیاں جی کے نام۔ؔ روٹھے سیاں کو میں تو۔ؔ سجناں بھول نہ جانا۔ؔ آرے آرے دل کے سہارے۔ؔ
یہ تمام نغمات آج بھی اپنی تازگی برار رکھے ہوئے ہیں۔اس فلم کے پروڈیوسر اعجاز تھے، جو اس فلم میں ہیرو کے کردار میں بھی بے حد پسند کیے گئے۔ ممتاز اداکارہ شبنم اس فلم کی ہیروئن تھیں، جب کہ اداکار رحمن نے اس فلم میں یادگار کردار نگاری کی تھی۔ دیگر اداکاروں میں رنگیلا، حسن، تانی، ساقی، آغا طالش کے نام شامل تھے۔ اس فلم نے کراچی کے پلازہ سینما پر32ہفتے کا ریکارڈ بزنس کیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل ہوا۔ حیدر آباد کے وینس سینما پر یہ سولو سلور جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
نئی لیلیٰ نیا مجنوں-: یہ سپر ہٹ نغماتی مزاحیہ فلم عیدالاضحٰی، جمعرات27فروری 1969کو کراچی کے جوبلی سینما میں ریلیز ہوکر شان دار پلاٹینم جوبلی کے اعزاز سے ہم کنار ہوئی۔ ہدایت کار منور رشید کی اس سپر ہٹ فلم میں نسیمہ خان، کمال، عالیہ، لہری، مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کے تمام گانے بے حد سپر ہٹ ہوئے، جن میں ؔ او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا ۔ ؔ حسینہ دلربا ذرا سامنے۔ؔ میرے ہمسفر تم بڑے۔ؔ ندیا کے بیچ گوری۔ؔ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے۔
The post عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MzYwxq via Urdu News Paper
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں
آج ہم ’’ عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئیں ماضی کی سپر ہٹ فلموں کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔
بوبی-:سو ہفتوں سے زائد چلنے والی یہ بلاک بسٹرفلم جمعہ 7ستمبر1984 کو عیدالاضحٰی پر کراچی کے لیرک اور لاہور کے پرنس سینما میں ریلیز ہوئی۔ فلم بوبی کے ساتھ 5فلمیں اور بھی ریلیز ہوئیں۔ اُن میں بوبی کا بزنس سب سے ٹاپ رہا۔ کراچی کے لیرک سینما پر18ہفتے بڑی کام یابی سے چلنے کے بعد یہ اسکالا سینما میں شفٹ ہوگئی، جہاں اس نے سولو سلور جوبلی مناکر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مجموعی طور پر اِس فلم نے 140 ہفتے مکمل کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ایور ریڈی اس فلم کے تقسیم کار تھے۔ نذر شباب کی ڈائریکشن میں بننے والی اس بلاک بسٹر فلم میں سبیتا، جاوید شیخ، فردوس جمال، سکندر شاہین، تمنا، ننھا اور محمد علی نے اہم کردار ادا کیے۔ موسیقار امجد بوبی کے میوزک نے ہر طرف دھوم مچادی اِس فلم کے چند مقبول نغمال میں اِک بار ملو ہم سے سو بار ملیں گےؔاور ؔ جہاں آج ہم ملے ہیں وہ مقام یاد رکھنا وغیرہؔ شامل تھے۔
بیوی ہو تو ایسی-: کراچی میں بننے والی ہدایت کار زاہد شاہ کی یہ خوب صورت فیملی ڈراما میوزیکل فلم منگل 28ستمبر1982عیدالاضحٰی پر ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس فلم کا مین سینما، پلازہ تھا، جب کہ لاہور میں مبارک، اس کا مرکزی سینما تھا۔ اس ساتھ ریلیز ہونے والی دیگر تمام فلموں میں اس فلم کا بزنس باکس آفس پر کھڑکی توڑ قرار پایا۔ کراچی میں یہ فلم 114ہفتے ڈائمنڈ جوبلی کرنے میں کام یاب رہی۔ شبنم، شفیؑع محمد، آرزو، فیصل، لہری اور تمنا اِس فلم کےنماں اداکار تھے۔ اِس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے، یہ زمانہ اور ہے-:شباب پروڈکشن کی تفریحی سے بھرپور خُوب صورت سپرہٹ فلم یہ زمانہ اور ہے جمعہ9 اکتوبر1981 عیدالاضحٰی کے پاکستان بھر میں کام یابی سے دیکھی گئی۔ بابرہ شریف، فیصل، ایاز نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے۔ شباب کیرانوی اس فلم کے مصنف فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔ یہ یادگار فلم آج بھی لوگ نہیں بھلاپائیں ہوں گے۔ جب قربانی سے فارغ ہوکر شام چھ بجے اور نو بجے والے شوز میں فیملیز کی بڑی تعداد فلم دیکھ کر اپنی عید کو انجوائے کرتے تھے۔اس فلم نے کراچی کے بمبینو سینما میں شان دار ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مس ہانگ کانگ-:ھدایت کارہ شمیم آرا کی یہ بلاک بسٹر فلم یادگار ثابت ہوئی۔ عیدالاضحٰی کے دن پاکستان کے سینما ہائوسز کے اسکرین کی زینت بنی ۔ جمعرات یکم نومبر1979کو منائی گئی عیدالاضحٰی پر ایک ساتھ8فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اُن میں مس ہانگ کانگ، نے باکس آفس پر شان دار بزنس کرتے ہوئے نمبر ون پوزیشن حاصل کی۔ وراسٹائل اور خُوب صورت اداکارہ بابرہ شریف کو پہلی بار ایکشن کردار میں دیکھ کر ہر عام و خاص ان کا دیوانہ ہوگیا۔ کراچی، لاہور، حیدر آباد، پشاور اور سکھر کے سینما ہائوسز پر خواتین کا جم غفیر اس فلم کو دیکھنے کے لیے ہر شو پر موجود ہوتا ۔
خواتین کے رش کو دیکھتے ہوئے کراچی کے بمبینو سینما میں ہر بدھ کو خواتین کے لیے خصوصی شو کا اہتمام کیا جاتا۔ اس فلم نے اپنے مرکزی سینما بمبینو پر مسلسل29ہفتے ہائوس فل کے ساتھ مکمل کیے۔ سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کرنے والی اِس بلاک بسٹر فلم نے مجموعی طور پر ایک سو گیارہ ہفتے کرکے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز اپنے نام کیا۔
نوکر-: شباب پروڈکشن کی یہ یادگار رومانی گھریلو نغماتی فلم اتوار14دسمبر1975 کو عیدالاضحٰی کے روز کراچی کے پیراڈائز اور لاہور کے رتن سینما میں کئی ہفتوں تک عوام کی مرکزی نگاہ بنی رہی۔ ہدایت کار نذر شباب کی اس فلم میں زیبا، محمد علی، بابرہ شریف نے اہم اور مرکزی کردار ادا کیے ، جب کہ تمنا، ننھا، صاعقہ، خالد سلیم موٹا، شاہنواز، حنیف نامرہ، سیما کے نام بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
موسیقار ایم اشرف کی سپر ہٹ دُھنوں سے ترتیب دیے ہوئے نغمات نے اس فلم کے حُسن کو چار چاند لگادیئے تھے۔ اس فلم کے کچھ گیت آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کے بول یہ ہیںؔ، اپنا جیون شیشے کا کھلونا ہی تو ہے۔ؔ دل وہ لڑکی کا جس پر آئے آجائے۔ؔ یہ آج مجھے کیا ہوا ۔ؔ لاکھ کروں ان کا سسرجی۔ ؔ چاہے دنیا ہو خفا سنگ۔ؔ جیسے مقبول نغمات آج بھی اس فلم کی یاد دلاتے ہیں۔
شمع-: یہ کام یاب نغماتی فلم بدھ عیدالاضحٰی 25دسمبر1974کو پورے پاکستان میں ریلیز ہوکر شان دار کام یاب رہی۔ ہدایت کار نذر شباب نے پہلی بار محمد علی، ندیم، اور وحید مراد جیسے سپر اسٹار کو اِس فلم میں اہم کرداروں میں یکجا کیا تھا۔ اس فلم کا میوزک ریلیز سے کئی روز قبل مقبولیت حاصل کرچکا تھا ۔ ایم اشرف کی بنائی ہوئی دُھنیں بے حد مقبول ہوئیں، خاص طور پر ناہید اختر کے گائے ہوئے فلم کے یہ دو نغمےؔ ، کسی مہرباں نے آکر میری زندگی سجادی اور ؔ ایسے موس�� میں چپ کیوں ہو۔ؔ اُس دور کے اسٹریٹ سونگ بن کر ہر جگہ سنائی دیے ۔ دیبا، بابرہ شریف، زیبا، تمنا، خالد سلیم موٹا، علائوالدین اور ساقی بھی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔ یہ فلم کراچی کے پلازہ اور لاہور کے محفل سینما میں کئی ماہ تک زبردست رش کے ساتھ زیر نمائش رہی، جب کہ حیدر آباد، پشاور، کوئٹہ،سکھر، راولپنڈی، ملتان میں اس کے تمام شو تین ماہ تک ہائوس فل جاتے رہے۔
خان چاچا-: یہ نغماتی پنجابی فلم عیدالاضحٰی، جمعرات 27جنوری 1972کے دن پنجاب سرکٹ میں ریلیز ہوئی۔ لاہور میں اپنے مین تھیٹر نگینہ پر یہ20ہفتے مکمل کرنے کے بعد دیگر مین سینما میں شفٹ ہوتی رہی مجموعی طور پر اس فلم نے ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پہلی پنجاب فلم تھی جو100ہفتے چلی۔ اس کے فلم ساز و ہدایت کار ایم اکرم تھے۔ نذر علی نے اس فلم کے لیے سپر ہٹ میوزک بنایا۔ اس فلم کے سبھی گانے نہ صرف اپنے دور میں مقبول ہوئے بلکہ آج میں ان کی مقبولیت برقرار رہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے گلے سے نکلا ہوا ترنم آج بھی اپنی مٹھاس لیے ان گیتوں میں محسوس ہوتا ہے۔ؔ اس فلم کے تمام گانےمزیں قادری نے لکھے تھے۔ ساون نے خان چاچا کا کردار کرکے بڑی شہرت پائی تھی، جب کہ نغمہ، اعجاز، عالیہ، اقبال حسن، نگو، ساحرہ، صبا، ناصرہ، جگی، شیخ اقبال، منور ظریف اور سلمان راہی اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھے۔
دوستی-:ملکہ ترنم نور جہاں کی رسیلی اور مترنم آواز میں ریکارڈ کروائے ہوئے گانوں سے آراستہ نغماتی اور اصلاحی فلم ’’دوستی‘‘ کا شمار عیدالاضحٰی کی کام یاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ نغماتی خوب صورت فلم 7 فروری1971کو کراچی کے پلازہ، لاہور کے میٹرو پول اور حیدر آباد کے وینس سینما میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان کی چند سپر ہٹ نغماتی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ موسیقار اے حمید کی تمام دھنیں سدا بہار ہیں۔ آج بھی اس فلم کے نغمات ماضی کی طرح مقبول ہیں۔ؔ یہ وادیاں پربتوں کی شہزادیاں۔ؔ چِٹی جرا سیاں جی کے نام۔ؔ روٹھے سیاں کو میں تو۔ؔ سجناں بھول نہ جانا۔ؔ آرے آرے دل کے سہارے۔ؔ
یہ تمام نغمات آج بھی اپنی تازگی برار رکھے ہوئے ہیں۔اس فلم کے پروڈیوسر اعجاز تھے، جو اس فلم میں ہیرو کے کردار میں بھی بے حد پسند کیے گئے۔ ممتاز اداکارہ شبنم اس فلم کی ہیروئن تھیں، جب کہ اداکار رحمن نے اس فلم میں یادگار کردار نگاری کی تھی۔ دیگر اداکاروں میں رنگیلا، حسن، تانی، ساقی، آغا طالش کے نام شامل تھے۔ اس فلم نے کراچی کے پلازہ سینما پر32ہفتے کا ریکارڈ بزنس کیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل ہوا۔ حیدر آباد کے وینس سینما پر یہ سولو سلور جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
نئی لیلیٰ نیا مجنوں-: یہ سپر ہٹ نغماتی مزاحیہ فلم عیدالاضحٰی، جمعرات27فروری 1969کو کراچی کے جوبلی سینما میں ریلیز ہوکر شان دار پلاٹینم جوبلی کے اعزاز سے ہم کنار ہوئی۔ ہدایت کار منور رشید کی اس سپر ہٹ فلم میں نسیمہ خان، کمال، عالیہ، لہری، مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کے تمام گانے بے حد سپر ہٹ ہوئے، جن میں ؔ او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا ۔ ؔ حسینہ دلربا ذرا سامنے۔ؔ میرے ہمسفر تم بڑے۔ؔ ندیا کے بیچ گوری۔ؔ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے۔
The post عیدالاضحٰی پر ریلیز کی گئی ماضی کی سپر ہٹ فلمیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2MzYwxq via Daily Khabrain
0 notes