#جنازے
Explore tagged Tumblr posts
Text
اُس رات ہمارے گھر کے صحن میں 5 جنازے پڑے تھے!
بالاکوٹ، 8 اکتوبر 2005ء کا قیامت خیز دن ذہن میں موجود یہ یاداشت بالکل ایسے زخم کی طرح ہے جس میں سے ہر وقت خون رستا ہے ، کوئی تصویر یا تاریخ کسی بھی صورت میں یہ یاداشت ذہن میں ہتھوڑے چلانے لگتی ہے ، تکلیف ایسی ہے کہ چیخنے پر بھی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی بلکہ اپنی ہی قوت سماعت کو چیڑنا شروع کر دے ، جسمانی حالت ایسی ہے کہ جیسے غشی کے دورے پڑ رہے ہیں لیکن طبیب علاج سے قاصر ہے ۔ میں محمد احمد…
0 notes
Text
مرد کو جنازے سے پہلے بھی ایک کندھے کی ضرورت ہوتی ہے
A man needs a shoulder even before a funeral.
102 notes
·
View notes
Text
تم نے دیکھے ہوں گے پھول جنازوں پر،
ہم نے پھولوں کے جنازے دیکھے ہیں💔
3 notes
·
View notes
Text
خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے
غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے
ہم نہ مجنوں ہیں، نہ فرہاد کے کچھ لگتے ہیں
ہم کسی دشت تماشے میں نہیں آئیں گے
مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہو سکتی
درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے
اُس کی کچھ خیر خبر ��و تو بتاؤ یارو
ہم کسی اور دلاسے میں نہیں آئیں گے
جس طرح آپ نے بیمار سے رخصت لی ہے
صاف لگتا ہے جنازے میں نہیں آئیں گے 🥀
4 notes
·
View notes
Text
تم سے دو حرف کا خط بھی نہیں لکھا جاتا
جاؤ اب یوں بھی تعلق نہیں توڑا جاتا
دل کا احوال نہ پوچھو کہ بہت روز ہوئے
اس خرابے کی طرف میں نہیں آتا جاتا
تشنگی نے کبھی دریاؤں سے ملنے نہ دیا
ہم جدھر جاتے اسی راہ میں صحرا جاتا
زندگی! رہنے بھی دے سوچ کی حد ہوتی ہے
اتنا سوچا ہے کہ صدیوں میں نہ سوچا جاتا
اس کو اندازِ تغافل بھی نہ آیا اب تک
بھولنے ہی کو سہی یاد تو رکھا جاتا
ہائے وہ دَور کہ آنسو بھی نہ تھے آنکھوں میں
اور چہرا تھا کہ بے روئے بھی بھیگا جاتا
بھولتا ہی نہیں وہ مرحلۂ راز و نیاز
ہم مناتے تو کوئی اور بھی روٹھا جاتا
پسِ دیوار کا منظر بھی گیا اپنے ساتھ
صحنِ ویران سے پتھر کہاں پھینکا جاتا
شام ہوتے ہی کوئی شمع جلا رکھنی تھی
جب دریچے سے ہوا آتی تو دیکھا جاتا
روشنی اپنے گھروندوں میں چھپی تھی ورنہ
شہر کے شہر پہ شب خون نہ مارا جاتا
اتنے آنسو مری آنکھوں میں کہاں تھے قیصرؔ
عمر بھر دل کے جنازے پہ جو رویا جاتا
- قیصر الجعفری
5 notes
·
View notes
Text
اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا
یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانا دل کا
تم بھی منہ چوم لو بے ساختہ پیار آجائے
میں سناؤں جو کبھی دل سےفسانا دل کا
ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ
ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا
میری آغوش سے کیا ہی وہ تڑپ کر نکلے
ان کا جانا تھا الہٰی کہ یہ جانا دل کا
حور کی شکل ہو تم نور کے پتلے ہو تم
اور اس پر تمہیں آتا ہے جلانا دل کا
چھوڑ کر اس کو تیری بزم سے کیوںکر جاؤں
اک جنازے کا اٹھانا ہے اٹھانا دل کا
بے دلی کا جو کہا حال تو فرماتے ہیں
کر لیا تو نے کہیں اور ٹھکانا دل کا
بعد مدت کے یہ اے “داغ“ سمجھ میںآیا
وہی دانا ہے کہا جس نے نہ مانا دل کا
داغ دہلوی
6 notes
·
View notes
Text
آپکا موبائل پھٹ جائے گا اور آپ مرجائیں گے
وہ آج پریشان تھا اور بہت ذیادہ پریشان تھا، میں نے پوچھا تو غصے سے پھٹ پڑا، بولا کہ ایک دن یہ موبائل پھٹے گا اور ہم سب، میں آپ سب مرجائیں گے، میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کیوں؟ تو وہ بولا لبنان میں کیا ہوا پہلے پیجر پھٹے سینکڑوں لوگ مرئے، ہزاروں شدید زخمی ہوکر ہسپتال پہنچے، جب مرنے والوں کے جنازے پڑھائے جارہے تھے تو سیکیورٹی گارڈز کے واکی ٹاکی پھٹ گئے، لیپ ٹاپ پھٹے اور اب اسرائیل کی جانب سے کہا جا رہا…
0 notes
Text
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان آمد اور لیکچرز کی ٹائمنگ درست کیوں نہیں؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ معروف اسلامی م��لغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان آمد اور لیکچرز کی ٹائمنگ درست نہیں، بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنازے کے وقت عید کی نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ ان کے مطابق اس وقت سب سے بڑا ایشو یہ ہے کہ امت مسلمہ کو خود پر مسلط کردہ جنگ سے کس طرح نکالا جائے اور جدید ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے لیس اسرائیل جیسے دشمن کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ لہٰذا اس…
0 notes
Photo
نماز جنازہ کا طریقہ سوال ۳۴۶: نماز جنازہ کا کیا طریقہ ہے؟ جواب :میت اگر مرد ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو امام کے سامنے رکھا جائے، امام اس کے سر کے قریب کھڑا ہو، مرنے والا خواہ بڑی عمر کا ہو یا چھوٹی عمر کا، امام پہلے تکبیر اولیٰ کہے اور سورۃ الفاتحہ پڑھے[1] اور اگر اس کے ساتھ کوئی دوسری چھوٹی سورت بھی پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں بلکہ بعض اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ یہ سنت ہے، پھر دوسری تکبیر کہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ درود پڑھے: ((اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ)) (احکام الجنائز:۱۵۵۔) ’’اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرما،ٹھیک اس طرح جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائی ہے۔ بے شک تو ہی لائق حمد وثنا، بڑائی اور بزرگی کا مالک ہے۔ اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر برکتیں نازل فرما جیسے کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائی ہیں۔ بے شک تو ہی تعریف کے لائق، بڑائی اور بزرگی کا مالک ہے۔‘‘ پھر امام تیسری تکبیر کہے اور وہ دعائیں پڑھے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعہ سے ثابت ہیں: ((أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا۔ أَللّٰہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَأَحْیِیْہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ،أَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ وَعَافِہٖ وَاعْفُ عَنْہُ وَأَکْرِمْ نُزُلَہُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَہُ وَاغْسِلْہُ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ، وَنَقِّہٖ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ۔))[1]أَللّٰہُمَّ لَا تُحْرِمْنَا أَجْرَہٗ وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَہٗ واغفرلنا ولہ۔))( سنن النسائی، الجنائز، باب الدعاء، ح:۱۹۸۵۔) ’’اے اللہ! تو ہمارے زندہ اور مردہ کو، حاضر اور غائب کو، چھوٹے اور بڑے کو، مرد اور عورت کو بخش دے۔ اے اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھنا چاہے تواسے اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو فوت کرنے کا ارادہ ہو اسے ایمان پر فوت کر، اے اللہ! تو اسے معاف فرمادے، اس پر رحم وکرم کا معاملہ فرما، اس کو عافیت عطاء فرما دے، اس سے عفوو درگزر فرما اور اس کے ساتھ اچھی مہمان نوازی کا معالہ فرما اور اس کا ٹھکانا یعنی اس کی (قبر) کو کشادہ فرمادے اور اس کی خطاؤں (اور گناہوں) کو پانی، برف اور اولوں کے ذریعہ دھوکر اسے ایسا پاک صاف کردے جیسے سفید کپڑے کو دھل دھلاکر میل کچیل سے پاک صاف کردیا جاتا ہے۔‘‘ اے اللہ تو ہمیں اس (پر صبر کرنے) کے اجر سے محروم نہ کرنا اور اس (کی وفات) کے بعد ہمیں گمراہ نہ کرنا ہماری اور اس کی مغفرت فرمادے۔‘‘ علاوہ ازیں دوسری دعائیں بھی پڑھی جاسکتی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں ثابت ہوں، پھر امام چوتھی تکبیر کہے گا اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس بعد یہ دعا پڑھے: ﴿رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ، ﴾ (البقرہ:۲۰۱) ’’پروردگار ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔‘‘ اور اگر پانچویں تکبیر کہہ دے تو کوئی حرج نہیں بلکہ کبھی کبھی پانچویں تکبیر ضرور کہنی چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچویں تکبیر بھی ثابت ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اسے اسی طرح کرنا چاہیے، جیسے آپ سے ثابت ہے، بہتر یہی ہے کہ دونوں طرح کی روایتوں کے پیش نظر کبھی اس عمل نبوی پر عمل کیا جائے اور کبھی دوسری روایت کے بموجب عمل کیا جائے اگرچہ نماز جنازہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ ترتو چار تکبیریں کہنے ہی کا معمول تھا۔ چوتھی تکبیر کے بعد دائیں طرف ایک سلام کہہ کر نمازختم کرے۔ میّت اگر عورت ہو تو پھر امام کو اس کے (جنازے) کے درمیان کھڑا ہونا چاہیے اور اس کی نماز جنازہ کا طریقہ اسی طرح ہے جس طرح مرد کی نماز جنازہ کا طریقہ ہے۔ اگر بہت سے جنازے ہوں تو انھیں ترتیب کے ساتھ رکھا جائے اور اس طرح کہ امام کے قریب بالغ مردوں کے جنازے ہوں، پھر لڑکوں کے، پھر بالغ عورتوں کے اور پھر چھوٹی لڑکیوں کے، الغرض انھیں اس طرح ترتیب کے ساتھ رکھا جائے اور ان کے سروں کے حساب سے ترتیب اس طرح رکھی جائے کہ مرد کا سر عورت کے (جنازے کے) درمیان ہو تاکہ امام شرعی طور پر صحیح جگہ کھڑا ہوسکے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ بہت سے عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ افضل یہ ہے کہ جنازہ پیش کرنے والے لوگ امام کے ساتھ کھڑے ہوں بلکہ اس بارے میں بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ ایسا کرنا نہایت ضروری ہے کہ ایک یا دو آدمی امام کے ساتھ کھڑے ہوں حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ امام کے حق میں سنت یہ ہے کہ وہ اکیلا ہی کھڑا ہو، اگر جنازہ پیش کرنے والوں کے لیے پہلی صف میں جگہ نہ ہو تو وہ امام اور پہلی صف کے درمیان میں صف بنالیں۔[1] فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۳۴، ۳۳۵، ۳۳۶ ) #FAI00273 ID: FAI00273 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
’عدلیہ وکٹری کے نشان والے ہجوم کے نرغے میں‘
سنا ہے کوئی زمانہ تھا جب کوئی سینیئر قانون دان جج کی کرسی پر بیٹھتے ہی دنیا تیاگ دیتا تھا۔ اپنا سماجی حقہ پانی خود ہی بند کر لیتا۔ شادی، بیاہ، سالگرہ، برسی، جنازے اور سیمیناروں میں جانا حرام کر لیتا۔ سوائے گھر والوں، قریبی عزیزوں یا دو چار پرانے دوستوں کے کسی دور پرے کے رشتہ دار یا واقف کار سے ملنا گناہ سمجھتا۔ سنا ہے مائی لارڈ کی کسی بھی وکیل سے صرف کمرہِ عدالت میں ہی ملاقات ممکن تھی۔ ججز چیمبرز میں پیش کار، رجسٹرار یا نائب قاصد کے سوا تیسرا شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جسے بھی کچھ کہنا سننا یا درخواست دینا مقصود ہو اس کے لیے عدالتی سیکرٹیریٹ کا نظام آج کی طرح کل بھی تھا۔ جج کا رابطہ اسی نظام کے توسط سے سرکار اور عوام سے رہتا تھا۔ جج کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ خود نہیں بولتا اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ آج جب ہم اس طرح کے قصے سنتے ہیں تو یہ کوئی افسانہ یا سوشل ناول کا کوئی باب معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے ایسے جج ضرور دیکھے ہوں گے۔ ہم نے تو نہیں دیکھے۔
ہم نے تو عزت مآب کو ہر طرح کی تقریبات، کانفرنسوں، صحت افزا مقامات اور سب سے زیادہ ٹی وی چینلز کی پٹیوں میں دیکھا ہے۔ بھلا ہو میڈیائی کیمرے کے سحر کا کہ عدالتی کارروائی لائیو براڈ کاسٹ ہونے لگی۔ وکلا کو آستین چڑھاتے منھ سے تھوک نکالتے مائی لارڈ سے بدتمیزی کی سوشل میڈیا ویڈیوز دیکھی ہیں۔ لیک ہونے والی خفیہ ٹیپس سنی ہیں۔ خفیہ فلمیں افشا ہوتی دیکھی ہیں۔ توہینِ عدالت کو ایک پامال روایت بنتے دیکھا ہے۔ پلاٹوں اور بے نامی کاروبار سے لگنے والی چھوت کی بیماری دیکھی ہے، بے باک اور اصول پسند ججوں کا گھیراؤ اور کردار کشی کی مہم دیکھی ہے۔ اپنی اپنی پسند کے فیصلوں پر موکلوں کی جانب سے قصیدہ خوانی اور ناپسندیدہ فیصلوں پر جج کی ذات پر رکیک اور گھٹیا حملے دیکھے ہیں۔ نامعلوم سایوں کو ججوں، ان کے اہلِ خانہ اور جاننے والوں کو ہراساں کرتے سنا ہے اور ان کی نجی زندگی میں براہ راست مداخلت کی داستانیں خود ان ججوں کی زبانی سنی ہیں۔
عدالتوں کے اکثر فیصلے یقیناً آج بھی منصفانہ اور معیاری ہوتے ہیں۔ مگر اس مطالبے کا کیا کیا جائے کہ میرا مقدمہ فلاں کے بجائے فلاں جج سنے۔ ان سرگوشیوں سے کیسے کان بند کریں کہ بس اس جج کو ریٹائر ہونے دو۔ اس کے بعد آنے والا معاملات سیدھے کر دے گا۔ کئی وکلا اور پیش کاروں کو پسندیدہ فیصلوں کے لیے دلالی کا دعوی کرتے سنا ہے۔ عمارت ایک دن میں نہیں گرتی۔ نہ ہی ایک ضرب سے گرتی ہے۔ مگر ہر ضرب اسے کمزور ضرور کرتی چلی جاتی ہے۔ بھلا کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے برسراقتدار آ کر ججوں کو طرح طرح کی ترغیبات اور بعد از ریٹائرمنٹ پیش کشوں سے رجھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ عدلیہ کے احترام کی تسبیح پڑھتے پڑھتے ہجوم اکھٹا کر کے انصاف کے ایوان پر چڑھ دوڑنے ��ور عدلیہ کو ’ساڈے تے پرائے‘ میں تقسیم کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ کون سی سرکار ہے جس نے عدلیہ کے ناپسندیدہ فیصلوں پر بھی بلا چون و چرا مکمل عمل کیا ہو۔ بلکہ ناپسندیدہ فیصلوں کو مسخ کرنے کے لیے آئین کو موم کی ناک بنا کر استعمال نہ کیا ہو۔
آخر ایسا کیا ہوا کہ اس زمین پر انصاف کی مقدس نشست پر بیٹھنے والی جس ہستی کو عام آدمی واقعی خدا کا نائب سمجھتا تھا۔ اب وہی آدمی شاید ہی کسی جج کو رول ماڈل سمجھتا ہو۔ سوچیے ایسے کروڑوں انسانوں کی تنہائی کا کیا عالم ہو گا جنھیں زمین پر انصاف کی آخری امید جج میں نظر آتی تھی اور اب اس کی پتھرائی ہوئی آنکھ صرف آسمان کی جانب ہی مرکوز ہے۔ عمارت ایک ضرب سے منہدم نہیں ہوتی۔ خود ججوں نے انصاف کے مندر کے ساتھ کیا کیا؟ پہلی کاری ضرب اندر سے جسٹس منیر کے نظریہِ ضرورت نے لگائی۔ اس نظریے نے آئینی حرام کو بیک قلم حلال قرار دے دیا۔ یہ نظریہ آج ستر برس بعد بھی شکل بدل بدل کے آئین کو بھوت کی طرح ڈراتا رہتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدلیہ کے حلق میں آج بھی کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ نہ اُگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ کسی آمر کے کرسی پر متمکن ہوتے ہوئے کسی عدالت نے مارشل لا کو بالائے آئین شب خون قرار نہیں دیا گیا۔ یحییٰ خان اور پرویز مشرف کو بھی معزولی کے بعد غاصب ڈکلیئر کیا گیا۔ بلکہ ہر طالع آزما کو آئین سے کھلواڑ کا انعام عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھا کے دیا گیا۔
غیر منظورِ نظر سیاسی حکومتوں کا باہم مل کے ہانکا کیا گیا اور منظورِ نظر کے سات گناہ بھی درگذر ہ�� گئے۔ اب یہ کوئی خبر نہیں کہ عدلیہ نے اپنی پنشنوں اور تنخواہوں میں ازخود کتنا اضافہ کر لیا۔ کتنے جج باقی ہیں جنھیں حاصل سرکاری مراعات و وسائل کا اہلِ خانہ استعمال نہیں کرتے۔ بہت عرصے سے یہ خبر بھی تو نہیں آئی کہ کسی جج نے یہ مراعات لینے سے صاف انکار کر دیا۔ زیریں سے اعلیٰ عدالتوں میں روزانہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے مگر مقدمات کا انبار ہے کہ سال بہ سال بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس انبار کے سبب جنتا کے عدم اعتماد کا بوجھ بھی پہاڑ ہوتا جا رہا ہے۔ جب سب نے ریاستی استحکام کے نام پر عدم استحکام کے ہتھوڑوں سے اپنے ہی اداروں کو ضرب در ضرب کمزور کرنا شروع کر دیا تو پھر ہجوم بھی دلیر ہوتا چلا گیا۔ پارلیمنٹ بانجھ ہوئی تو فیصلے سڑک پر ہونے لگے۔ حتیٰ کہ غضب ناک ہجوم کے دباؤ کی تپش اعلیٰ عدالتوں کے کمروں میں محسوس ہو رہی ہے۔
اب تک ججوں کے فیصلوں پر جج ہی نظرثانی کرتے آئے ہیں۔ مگر یہ چلن بھی دیکھنا پڑ گیا ہے کہ ��ب ہجوم کے سرخیل ابھی اور اسی وقت فیصلے پر نظرِ ثانی کی دھمکی آمیز درخواست کرتے ہیں اور لجلجاتے کمرہِ عدالت میں اندر کے شور سے زیادہ باہر کھڑے ہجوم کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔ مگر عدالت بھی خلا میں تو سماعت نہیں کرتی۔ عدالت کے پیچھے جب ریاست اور سماج کھڑا ہوتا ہے تو اس کے فیصلوں کا معیار ہی کچھ اور ہوتا ہے اور جب ریاست اور سماج بھی عدلیہ کو بے توقیری کی جانب دھکیلنے پر سڑک سے ہاتھ ملانے پر تل جائیں تو پھر عدالت اور جرگے میں تمیز کہاں رہتی ہے۔ ہم نے مسلسل ساڑھے سات دہائیوں تک زوال کو عروج تک پہنچانے کے لیے خوب محنت کی اور اب اس محنت کا ثمر ادارہ جاتی انہدام کی شکل میں اپنے سامنے دیکھ کر خود ہی وکٹری کا نشان بھی بنا رہے ہیں۔
خدا بچائے کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ ابھی تو کچھ نہیں ہوا ابھی تو ابتدا ہے یہ ( حمایت علی شاعر )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
#Chief Justice of Pakistan.#Judges#Lawyers#Pakistan#Pakistan judiciary#Pakistan Politics#Supreme court of Pakistan#World
0 notes
Text
The Funeral of a Woman
At the funeral of a woman, the family members say to cover the face of the deceased so that non-maḥram men do not look. By Allah, the same ruling is for the living too.
عورت کا جنازہ
عورت کے جنازے میں گھر کے افراد کہتے ہیں میت کا منہ ڈھانپ دیں غیر محرم نہ دیکھیں۔ اللہ کی قسم زندہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
#Funeral #Woman #Family #Members #Cover #Face #Deceased #NonMahram #Men #Look #Allah #Same #Ruling #Living
0 notes
Text
آپکا موبائل پھٹ جائے گا اور آپ مرجائیں گے
وہ آج پریشان تھا اور بہت ذیادہ پریشان تھا، میں نے پوچھا تو غصے سے پھٹ پڑا، بولا کہ ایک دن یہ موبائل پھٹے گا اور ہم سب، میں آپ سب مرجائیں گے، میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کیوں؟ تو وہ بولا لبنان میں کیا ہوا پہلے پیجر پھٹے سینکڑوں لوگ مرئے، ہزاروں شدید زخمی ہوکر ہسپتال پہنچے، جب مرنے والوں کے جنازے پڑھائے جارہے تھے تو سیکیورٹی گارڈز کے واکی ٹاکی پھٹ گئے، لیپ ٹاپ پھٹے اور اب اسرائیل کی جانب سے کہا جا رہا…
0 notes
Text
" ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں جنازے زندہ آدمی سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، جہاں زبردستی کی شادی محبت سے زیادہ اور جسامت عقل سے زیادہ اہم ہے، ہم ایک ایسے بند خول ثقافت میں رہتے ہیں جسے ہر مواد سے نفرت ہے "
"We live in a world where funerals are more important than a living man, where forced marriage is more important than love and physicality over common sense, we live in a closed shell culture that hates every substance"
Edward Gallano
11 notes
·
View notes
Text
ایک دوسرے کے رفیق بنیں
ایک دوسرے کے رفیق بنیں لیسٹر برطانیہ میں علماء کرام کی محفل میں ایک دفعہ شیخ شاہ ابرار الحق ہردوئی صاحب رح نے فرمایا کہ فرض کرو انڈیا کے کسی گاؤں میں کسی بھاری جسم والے شخص کا انتقال ہوگیا جون جولائی کی گرمی ہو قبرستان کئی کلومیٹر کے فاصلے پر ہو اور جنازہ اٹھانے والے صرف چار آدمی ہوں راستے میں ایک مسافر شخص ملا اس نے اپنا سامان ایک جانب رکھا اور جنازے کو کندھوں پر اٹھانے والوں کے ساتھ شامل…
View On WordPress
0 notes
Text
جس طرح آپ نے بیمار سے رخصت لی ہے
صاف لگتا ہے جنازے میں نہیں آئیں گے 🥀
2 notes
·
View notes