#تھپڑ
Explore tagged Tumblr posts
Text
بھارتی کرکٹر گوتم گھمبیر کا مودی سرکار کو زناٹے دار تھپڑ
یقین تو نا آپ کو آئے گا نا ابھی تک مودی سرکار کو آرہا ہے کہ بھارتی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان گوتم گھمبیر نے بھارت کی مودی سرکار کے منہ پر ایسا تھپڑ رسید کیا ہے کہ جس کی گونج سرحد پار پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں جہاں جہاں کرکٹ کھیلی اور دیکھی جاتی ہے میں سنی گئی ہے۔ یہ واقعہ ہے کیا؟ اور کہاں یہ تھپڑ مودی سرکار کی فاشسٹ کرکٹ دشمنی کے منہ پر رسید کیا گیا ہے، یہ بتانے سے پہلے اگر پاک، بھارت…
0 notes
Text
"ہاں، پہلے تھپڑ پر ہم لڑکھڑاتے ہیں، دوسرے پر ہم مزاحمت کر سکتے ہیں، اور تیسرے پر ہم چیخ سکتے ہیں۔ لیکن دس بجے ہم گیارہ کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔"
"Yes, at the first slap we stagger, at the second we may resist, and at the third we may scream. But at ten o'clock we do nothing but wait for eleven."
Noor Abdul Majeed
19 notes
·
View notes
Text
اب کے بیگم مری میکے سے جو واپس آئیں
ایک مرغی بھی بصد شوق وہاں سے لائیں
میں نے پوچھا کہ مری جان ارادہ کیا ہے
تن کے بولیں کہ مجھے آپ نے سمجھا کیا ہے
ذہن نے میرے بنائی ہے اک ایسی سکیم
دنگ ہوں سن کے جسے علم معیشت کے حکیم
آپ بازار سے انڈے تو ذرا دوڑ کے لائیں
تاکہ ہم جلد سے جلد آج ہی مرغی کو بٹھائیں
تین ہفتوں میں نکل آئیں گے چوزے سارے
تو سہی آپ کو پیار آئے وہ پیارے پیارے
چھ مہینے میں جواں ہو کے وہی مرغ بچے
نسل پھیلاتے چلے جائیں گے دھیرے دھیرے
دیکھ لیجے گا بہ تائید خدائے دانا
پولٹری بنے گا مرا مرغی خانہ
پولٹری فارم میں انڈوں کی تجارت ہوگی
دور عسرت اسی مرغی کی بدولت ہوگی
میں وہ عورت ہوں کہ حکمت مری مردوں کو چرائے
انہیں پیسوں سے خریدوں گی میں کچھ بھینسیں اور گائے
ڈیری فارم بنے گا وہ ترقی ہوگی
جوئے شیر آپ ہی انگنائی میں بہتی ہوگی
عقل کی بات بتاتی ہوں اچنبھا کیا ہے
دودھ سے آپ کو نہلاؤں گی سمجھا کیا ہے
بچے ترسیں گے نہ مکھن کے لئے گھی کے لئے
آپ دفتر میں نہ سر ماریں گے دفتر کے لئے
میرے خوابوں کے تصدق میں بشرط تعمیل
چند ہی سال میں ہو جائے گی دنیا تبدیل
سحر تدبیر کا تقدیر پہ چل جائے گا
جھونپڑا آپ کا کوٹھی میں بدل جائے گا
الغرض ہوتی رہی بات یہی تا سر شام
نو بجے رات کو سونے کا جو آیا ہنگام
سو گئیں رکھ کے حفاظت سے اسے زیر پلنگ
خواب میں آتی رہی نشۂ دولت کی ترنگ
سن رہی تھی کوئی بلی بھی ہماری باتیں
پیاری بیگم کی وہ دلچسپ وہ پیاری باتیں
رات آدھی بھی نہیں گزری تھی کہ اک شور مچا
چیخ مرغی کی سنی نیند سے میں چونک پڑا
آنکھ ملتا ہوا اٹھا تو یہ نقشہ پایا
اس بچاری کو صحنچی میں تڑپتا پایا
دانت بلی نے گڑائے تھے جو گردن کے قریب
مر گئی چند ہی لمحوں میں پھڑک کر وہ غریب
صبح کے وقت غرض گھر کا یہ نقشہ دیکھا
چہرہ بیگم کا کسی سوچ میں لٹکا دیکھا
روٹی بچوں نے جو مانگی تو دو ہتھڑ مارا
اسے گھونسہ اسے چانٹا اسے تھپڑ مارا
2 notes
·
View notes
Text
زندگی کے ہاتھ بہت بھاری ہیں، جب یہ تھپڑ لگاتی ہے تو
گالوں پہ دِیے ماں کے بوسوں سے بھی خون رسنے لگتا ہے 🥀
3 notes
·
View notes
Text
بھارتی اداکارہ کنگنا کو اپنی نئی فلم سے قبل ہی قتل کی دھمکیاں ملنے لگی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق بھارتی اداکارہ کنگنا فلم ایمرجنسی میں سابق وزیراعظم اندراگاندھی کاکردار نبھارہی ہیں۔فلم 6ستمبر کوریلیزکیجائے گی۔ وائرل ویڈیو میں ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اس نے کنگنا کو مخاطب کیا اور کہا کہ فلم ریلیز کرتی ہو تو سرداروں نے آپ کو چپل مارنی ہے،تھپڑ تو آپ پہلے ہی کھا چکی۔ ویڈیو میں کہاگیا کہ…
0 notes
Text
پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے پر فردوس عاشق اعوان سے تحریری جواب طلب
فردوس عاشق اعوان نے معافی مانگ لی ،الیکشن کمیشن نے پولیس اہلکاروکوتھپڑمارنے پرفردوس عاشق اعوان سے تحریری جواب طلب کرلیا ، کمیشن نے پوچھا اگرکوئی بات نہیں سن رہا تو تھپڑ ماریں گی ؟ فردوس عاشق اعوان بولیں میں نے تھپڑ نہیں مارا۔ ممبرکے پی اکرم اللہ کی سربراہی میں دو رکنی کمیشن نےپولیس اہلکارکوتھپڑمارنے کے کیس کی سماعت کی، فردوس عاشق اعوان نے الیکشن کمیشن سے معافی مانگ مانگتے ہوئےموقف اپنایاکہ جب…
View On WordPress
0 notes
Text
فلاحی، فاشسٹ، ہائبرڈ اور چھچھوری ریاست کا فرق
فلاحی ریاست کا مطلب ہے وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد ہر طبقے کو نسل و رنگ و علاقے و عقیدے و جنس کی تمیز کے بغیر بنیادی حقوق اور مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی اہلیت کے مطابق بلا جبر و خوف و خطر مادی و ذہنی ترقی کر سکے۔ فلاحی ریاست کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد پہلے سے مراعات یافتہ طبقات اپنے سے کمزوروں کے بنیادی حقوق اور مساوی مواقع فراہم کرنے والے راستے پامال کرتے ہوئے محض اپنے تحفظ اور فلاح پر دھیان دیں اور نہ صرف اپنا حال بلکہ اپنی نسلوں کا سیاسی، سماجی و معاشی مستقبل ریاستی و سائل و مشینری کو استعمال میں لاتے ہوئے محفوظ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست وہ ہوتی ہے جہاں ایک گروہ، ادارہ یا تنظیم اندھی قوم پرستی کا جھنڈا بلند کر کے اقلیتی گروہوں، نسلوں اور تنظیموں کو اکثریت کے بوجھ تلے دبا کے اس اکثریت کو بھی اپنا نظریاتی، معاشی و سماجی غلام بنانے کے باوجود یہ تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب ہو کہ ہم سب سے برتر مخلوق ہیں لہذا ہمیں کم تروں پر آسمانوں کی جانب سے حاکم مقرر کیا گیا ہے۔ وقت کی امامت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ جہاں ہم کھڑے ہوں گے لائن وہیں سے شروع ہو گی۔ ہمارا حکم ہی قانون ہے۔ جو نہ مانے وہ غدار ہے۔
فاشسٹ ریاست کے قیام کے لیے جو لیڈر شپ درکار ہے اسے مکمل سفاکی کے ساتھ سماج کو اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے فطین دماغوں کی ضرورت ہے جو تاریخ اور جغرافیے کی سچائیوں اور سماجی حقائق کو جھوٹ کے سنہری قالب میں ڈھال کے بطور سچ بیچ سکیں۔ فاشسٹ ریاست قائم رکھنا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے ضروری ڈسپلن، یکسوئی اور نظریے سے غیر مشروط وفادار کارکنوں و فدائین کی ضرورت ہوتی ہے جو اس مشن کو مقدس مشن کی طرح پورا کر سکیں اور اپنی انفرادی زندگیوں کو اجتماعی ہدف کے حصول کی راہ میں قربان کرنے کا حوصلہ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست محض فاشسٹ بننے کے شوق سے یا موقع پرستوں کے ہاتھوں تشکیل نہیں پا سکتی۔ اس کے لیے مسلسل مستعد رہنے کے ساتھ ساتھ انتھک محنت اور لومڑ و گرگٹ کی صفات سے مالامال مرکزی و زیلی قیادت درکار ہے۔ دلال ریاست وہ کہلاتی ہے جو اپنے جغرافیے اور افرادی قوت و صلاحیت کو بطور جنس دیکھے اور انا و غیرت و ثابت قدمی و اصول پسندی جیسی فضول اقدار بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے رویے میں اتنی لچک دار اور اس رویے کی پیکیجنگ اور مارکیٹنگ میں اتنی ماہر ہو کہ ہر کوئی اسے اپنی ضرورت سمجھ کے خریدنا یا حسبِ ضرورت دہاڑی، ماہانہ، سالانہ کرائے پر لینا یا کسی خاص اسائنمنٹ کا کنٹریکٹ کر کے استعمال کرنا چاہے۔
لیفٹ رائٹ کے سب ممالک اور بین الاقوامی ادارے اور اتحاد دلال ریاست کو اپنے کام کی شے سمجھیں اور وہ اپنے متمول گاہکوں کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت بھی خوش اسلوبی سے پوری کرنے کی کوشش کرے اور اس کے عوض اپنے تحفظ کی ضمانت، داد و تحسین اور ’ویل‘ سے جھولی بھرتی رہے۔ خود بھی ہر طرح کے حالات میں خوش اور مست رہے اور گاہکوں کو بھی خوش رکھے۔ ہائبرڈ ریاست دراصل ریاست کے روپ میں ایک ایسی لیبارٹری ہوتی ہے جہاں ہر طرح کے سیاسی ، سماجی، معاشی و سٹرٹیجک تجربات کی سہولت میسر ہو۔ یہ تجربات جانوروں پر ہوں یا انسانوں پر۔ اس سے ریاست کے پروپرائٹرز کو کوئی مطلب نہیں۔ بس انھیں اس لیبارٹری سے اتنی آمدن ہونی چاہیے کہ خرچہ پانی چلتا رہے۔ صرف اتنی پابندی ہوتی ہے کہ کوئی ایسا خطرناک تجربہ نہ کر لے کہ لیب ہی بھک سے اڑ جائے۔ باقی سب جائز اور مباح ہے۔ ایک چھچوری ریاست بھی ہوتی ہے۔ جو تھوڑی سی فاشسٹ زرا سی جمہوری، قدرے دلال صفت، کچھ کچھ نرم خو، غیرت و حمیت کو خاطر میں لانے والی چھٹانک بھر صفات کا ملغوبہ ہوتی ہے۔
تن و توش ایک بالغ ریاست جتنا ہی ہوتا ہے۔ مگر حرکتیں بچگانہ ہوتی ہیں۔ مثلاً چلتے چلتے اڑنگا لگا دینا، اچھے خاصے رواں میچ کے دوران کھیلتے کھیلتے وکٹیں اکھاڑ کے بھاگ جانا، راہ چلتے سے بلاوجہ یا کسی معمولی وجہ کے سبب بھڑ جانا، چھوٹے سے واقعہ کو واویلا مچا کے غیر معمولی دکھانے کوشش کرنا اور کسی غیر معمولی واقعہ کو بالکل عام سا سمجھ کے نظر انداز کر دینا، کسی طاقت ور کا غصہ کسی کمزور پر نکال دینا۔ لاغر کو ایویں ای ٹھڈا مار دینا اور پہلوان کو تھپڑ ٹکا کے معافی مانگ لینا۔ اچانک سے یا بے وقت بڑھکیں مارنے لگنا اور جوابی بڑھک سن کر چپ ہو جانا یا یہ کہہ کے پنڈ چھڑانے کی کوشش کرنا کہ ’پائی جان میں تے مذاق کر رہیا سی۔ تسی تے سدھے ہی ہو گئے ہو۔‘ جب کسی فرد، نسل ، قومیت ، گروہ یا ادارے کو مدد اور ہمدردی کی اشد ضرورت ہو تو اس سے بیگانہ ہو جانا اور جب ضرورت نہ ہو تو مہربان ہونے کی اداکاری کرنا۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی بدمعاشی کا شوق رکھنا مگر تگڑا سامنے آ جائے تو اس سے نپٹنے کے لیے اپنے بچوں یا شاگردوں کو آگے کر دینا یا آس پاس کے معززین کو بیچ میں ڈال کے معاملہ رفع دفع کروا لینا۔
اپنے ہی بچوں کا کھانا چرا لینا اور گالیاں کھانے کے بعد بچا کچھا واپس کر دینا۔ سو جوتے کھانا ہیں یا سو پیاز اسی شش و پنج میں مبتلا رہنا۔ اکثر عالمِ جذب میں اپنے ہی سر پر اپنا ہی ڈنڈہ بجا دینا اور گومڑ پڑنے کی صورت میں تیرے میرے سے پوچھتے پھرنا کہ میرے سر پے ڈنڈہ کس نے مارا۔ جہاں دلیل سے مسئلہ حل ہو سکتا ہو وہاں سوٹا گھما دینا اور جہاں سوٹے کی ضرورت ہو وہاں تاویلات کو ڈھال بنا لینا۔ ان سب کے باوجود اپنے تئیں خود کو ذہین ترین اور چالاک سمجھتے رہنا۔چھچھوری ریاست خود بھی نہیں جانتی کہ اگلے لمحے اس سے کیا سرزد ہونے والا ہے۔ چنانچہ ایسی ریاست پر نہ رعایا کو اعتبار ہوتا ہے اور نہ گلوبل ولیج سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہو جاتی ہے جو مادے کی ہوتی ہے۔ یعنی سائنسی تعریف کے اعتبار سے مادہ اس عنصر کو کہتے ہیں جو بس جگہ گھیرتا ہو اور وزن رکھتا ہو۔ ہم ان مندرجہ بالا ریاستوں میں سے کس طرح کی ریاست کے مکین ہیں۔ یہ آپ جانیں اور آپ کو ہنکانے اور چلانے والے یا پھر الیکٹڈ و سلیکٹڈ جانیں۔ میرے جیسا ہومیو پیتھک آدمی کیا جانے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
ہم سب ڈرٹی ہیری ہیں
یہ فلم ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور یہ فلم اتنی پرانی اور اس کا پلاٹ اتنا جانا پہچانا ہے کہ بنانے والے بھی سوچتے ہیں کہ لوگوں کو پتا چل ہی جائے گا کہ ہم کتنی قدیم چیز ہیں۔ وہی فلم جو آج کل بہت رش لے رہی ہے یعنی ایک بڑھکیں لگاتا، انقلاب لاتا، چھین کے آزادی لینے کی دھمکی کرتا سیاسی لیڈر دو چار دن کے لیے جیل جاتا ہے۔ باہر آ کر ایک پریس کانفرنس کرتا ہے اور کہتا ہے میں راستے سے بھٹک گیا تھا۔ اب میں عہدہ چھوڑ رہا ہوں، راہیں جدا کر رہا ہوں، یا سیاست سے ہی تائب ہو رہا ہوں اور باقی زندگی اللہ اللہ کرتے گزاروں گا۔ آج سے تیس سال پہلے کا کراچی تھا۔ 1992۔ آبادی اس سے آدھی ہو گی۔ ایم کیو ایم اپنے عروج پر تھی۔ الطاف ایک دو تین کہتے تو کراچی بند ہو جاتا۔ پھر تین دو ایک کہتے تو کراچی کھل جاتا تھا۔ فوجی آپریشن شروع ہوا۔ بظاہر مقصد تھا کہ امن و امان کو بحال کیا جائے بھتہ خوروں اور اغوا برائے تاوان والوں کو پکڑا جائے۔ لیکن اصلی مقصد یہ تھا کہ ایم کیو ایم کو لگام ڈالی جائے۔ آپریشن کے شروع میں ہی ادارے کی بے ادبی ہو گئی (جس طرح نو مئی کو حقیقی آزادی کی تحریک کے پہلے ہی دن ادارے کی بے ادبی ہوئی)۔
فوج کے ایک افسر میجر کلیم تھے۔ وہ کراچی کی کسی تنگ گلی میں پھنس گئے۔ لونڈوں نے گھیر لیا۔ میں نے سنا تھا ان کو صرف ایک تھپڑ مارا گیا تھا۔ ادارے نے دعویٰ کیا کہ میجر صاحب پر تشدد کیا گیا ہے۔ اس کے بعد آپریشن کلین اپ ’آپریشن ایم کیو ایم کی تو ایسی کی تیسی‘ میں تبدیل ہو گیا۔ اور وہی فلم چلنے لگی جو آج کل پی ٹی آئی کے ساتھ چل رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے انڈر گراؤنڈ رہنما پکڑے جاتے، دو چار دن کسی لاک اپ میں گزارتے اور پھر کہتے کہ میری پریس کانفرنس کراؤ اور گھر جانے دو، ہم راستے سے بھٹک گئے تھے۔ ایم کیو ایم جو اس وقت تک ہلکی پھلکی بدمعاش پارٹی سمجھی جاتی تھی، راتوں رات غداروں کی جماعت قرار پائی۔ آئی ایس پی آر والے جو ابھی تک میوزک ویڈیو اور فلمیں بنانے کا فن نہیں سیکھے تھے صحافیوں کو جناح پور کے نقشے بانٹتے کہ دیکھو یہ آپ کی ایم کیو ایم تو ملک توڑنا چاہتی تھی، آؤ تمھیں ان کے ٹارچر سیل دکھاتے ہیں۔ ��جھے اشتیاق تھا یہ جاننے کا کہ الطاف حسین کے ہاتھ پر بیت کیے ہوئے اور انھیں پیر و مرشد ماننے والے دو چار دن ہی قید میں گزار کر بھائی کے مشن سے کیسے منکر ہو جاتے ہیں۔
مجھے کہا گیا کہ آپ کو ایک کرنل صاحب سے ملواتے ہیں جو ایم کیو ایم مکاؤ آپریشن کا سیاسی ونگ چلا رہے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے بھائیوں سے معذرت کیونکہ کچھ کہیں گے کہ کہاں ہمارا ہینڈسم حقیقی آزادی والا اور کہاں الطاف حسین۔ اور دوسرے یہ کہیں گے کہ کہاں ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے والے الطاف بھائی اور کہاں یہ پپو بچوں اور بچیوں کا لیڈر خان۔ تسلی رکھیں کردار بدلے ہیں فلم پرانی ہے چاہے پوسٹر کے اوپر شرطیہ نیا پرنٹ لکھا ہو۔ کرنل صاحب خوش مزاج تھے۔ کراچی نئے نئے آئے تھے۔ میں نے پوچھا کیسا لگا کراچی تو پہلے انھوں نے پنجابی کا ایک پرانا گانا سنایا ’بُرے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا۔‘ پھر کہنے لگے ’راتوں کو نیند نہیں آتی کیونکہ آپ کے بوٹ بیسن پر لڑکیاں بغیر آستین کی ٹی شرٹ اور جینز پہن کر گھومتی ہیں۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ میرے جوان چھوٹے دیہاتوں سے آئے ہیں، وہاں مشین گن کے ساتھ ڈیوٹی پر کھڑے ہوتے ہیں، کسی دن کوئی غیرت میں آ کر فائر ہی نہ کھول دے۔ ‘
میں نے کہا ’سر میں بھی چھوٹے گاؤں سے آیا تھا، آہستہ آہستہ عادت ہو جاتی ہے اور بعض کو تو اتنی ہو جاتی ہے کہ وہ واپس گاؤں ہی نہیں جاتے۔ ‘ میں نے ’کرنل صاحب سے پوچھا کہ ان کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ ایم کیو ایم کے جید رہنما دو چار دن ہی ان کے ساتھ گزار کر توبہ تائب ہو جاتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا ’آپ بھی یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں کوئی ان کی ٹھکائی کرتا ہوں، یا دھمکیاں دیتا ہوں یا رات کو الٹا لٹکا دیتا ہوں۔ مجھے قرآن کی قسم اگر کسی کو ہاتھ بھی لگایا ہو۔ میں رات کو ان کے ساتھ عشا کی نماز پڑھتا ہوں اور پھر ساری رات بیٹھ کر ان کے ساتھ بحث کرتا ہوں۔ وہ صبح تک خود ہی کہہ دیتے ہیں کہ بتائیں پریس کانفرنس کب کرنی ہے۔ مجھے امید ہے کہ پی ٹی آئی کے پریس کانفرنس کر کے چھوڑنے والے رہنماؤں کے ساتھ بھی کوئی ذہنی یا جسمانی تشدد نہیں ہوا۔ میرے کرنل جیسا کوئی نرم دل شخص ساری رات ان کے ساتھ علمی اور سیاسی بحث ہی کرتا ہو گا۔ عمران خان اور ان کے حامی اکثر کسی ڈرٹی ہیری کا ذکر کرتے تھے۔ میں بھی سوچتا تھا بڑے جرات والے ہیں کسی خفیہ ادارے کے بڑے افسر کا نام دھڑلے سے لے رہے ہیں۔ میں جانتا نہیں تھا کہ یہ افسر کون اور اس نے کیا کِ��ا ہے۔
اب پاکستان کے بڑے شہروں کی شاہراہوں پر اس کی تصویریں بھی سجی ہیں۔ ادارے نے کہا ہے کہ تم ایک ڈرٹی ہیری پر الزام لگاتے تھے ہم سب ڈرٹی ہیری ہیں۔ تم جنرل باجوہ کو میر جعفر کہتے تھے، یہ دیکھو یوم شہدا کے دن ہمارے سپہ سالار کے دائیں ہاتھ پر بیٹھا ہے اور آپ کا خیال ہے صرف آپ کے پاس ہی کالا چشمہ ہے۔ پی ٹی آئی کے زیادہ تر سپورٹر 1992 میں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے لیکن وہ جان لیں کہ 30 سال پہلے کراچی کی کسی تنگ گلی میں میجر کلیم کو پڑنے والے تھپڑ کی گونج آج کے کراچی میں بھی سنی جاسکتی ہے۔ کراچی کی ایک قدیم شاندار عمارت ہے جس کا نام جناح کورٹس ہے۔ وہاں پر رینجرز کا ہیڈکوارٹر بن گیا اور آج تک ہے۔ لیکن کراچی میں آج بھی الطاف حسین بھائی کے عاشق موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے دوست حوصلہ رکھیں، اگر ان کی جماعت کو بنتے بنتے 25 سال لگ گئے تو ختم ہوتے ہوتے بھی اتنے ہی لگیں گے۔ ویس بھی جیسا کہ اسد عمر نے ایک دفعہ کہا تھا یہ سیاست معیشت وغیرہ کی بات نہیں ہے، یہ عشق کی بات ہے۔ ویسے فلسفۂ عشق کے نام سے الطاف بھائی کی ایک کتاب بھی ہے۔ غم کے دنوں میں وہ پڑھ لیا کریں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
ڈی ایس پی کو تھپڑ مارنے والی خاتون کو پولیس تفتیش میں شامل ہونے کا حکم
کراچی : عدالت نے ڈی ایس پی کو تھپڑ مارنے کے کیس ملزمہ ڈاکٹرانعم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس تفتیش میں شامل ہونے کی حکم دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن کورٹ جنوبی میں ڈی ایس پی کو تھپڑ مارنے کے کیس میں ملزمہ ڈاکٹر انعم کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے ملزمہ ڈاکٹرانعم کی آٹھ فروری تک ضمانت منظورکرلی ، خاتون کی ضمانت 1لاکھ روپے مچلکے کے عوض منظور کی گئی۔ عدالت نے ڈاکٹر انعم کو پولیس…
View On WordPress
0 notes
Text
کراچی میں پولیس افسر کو تھپڑ مارنے والی خاتون کی ضمانت منظور
کراچی میں پی آئی ڈی سی پر ڈی ایس پی کو تھپڑ مارنے اور بدتمیزی کیس میں نامزد ملزمہ ڈاکٹر انعم کی ضمانت منظور کر لی گئی۔ تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج جنوبی کی عدالت میں ٹریفک پولیس کے ڈی ایس پی کو تھپڑ مارنےکے کیس کی سماعت ہوئی تو ملزمہ ڈاکٹر انعم نے عدالت سے 8 فروری تک عبوری ضمانت حاصل کر لی۔ View this post on Instagram A post shared by ARY News (@arynewstv) خاتون کی ضمانت 4 فروری کو 1…
View On WordPress
0 notes
Text
چچا نے اپنی تین سالہ بھتیجی کی جان لے لی تفتیش میں افسوسناک انکشاف
نئی دہلی (ویب ڈیسک) بھارت میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں چچا کے تھپڑ مارنے سے 3 سالہ معصوم بھیتجی جان کی بازی ہار گئی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 3 سالہ بچی ریاست مہاراشٹرا کے شہر تھانے کے علاقے الہاس نگر میں 3 سالہ بچی کے گھر کے پاس سے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور بچی کی لاش 21 نومبر کو برآمد ہوئی۔پولیس نے شک کی بنیاد پر بچی کے 30 سالہ چچا کو حراست میں لیکر تفتیش کی تو…
0 notes
Text
ہاں، پہلے تھپڑ پر ہم لڑکھڑاتے ہیں، دوسرے پر ہم مزاحمت کر سکتے ہیں، اور تیسرے پر ہم چیخ سکتے ہیں۔ لیکن دس بجے ہم گیارہ کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔
Yes, on the first slap we stutter, on the second we can resist, and on the third we can scream. But at ten o'clock we do nothing but wait for eleven.
The light of Abdul Majeed
21 notes
·
View notes
Text
گاڑی روکنے پرخاتون کی ڈی ایس پی ٹریفک سے بدتمیزی، تھپڑ مار دیا
(تصویر: اسکرین گریب) کراچی: پی آئی ڈی سی ٹریفک سگنل پرخاتون نے گاڑی روکے جانے پر ڈی ایس پی ٹریفک پی آئی ڈی سی کو تھپڑ مار دیا۔خاتون مشتعل ہو کر باریش ڈی ایس پی کو دھکے دیتی رہی۔ ٹریفک پولیس کے مطابق خاتون پی آئی ڈی سی سے سلطان آباد کی جانب جانا چاہتی تھی سامنے سڑک سے ٹریفک کا فلو گزررہا تھا خاتون کی گاڑی نے زبردستی ٹریفک میں داخل ہونے کی کوشش کی ڈی ایس پی ٹریفک نے خاتون کی گاڑی کو روکا تو…
View On WordPress
0 notes
Text
جب سنی دیول کو سوہا علی خان نے تھپڑ رسید کیا۔
جب سنی دیول کو س��ہا علی خان نے تھپڑ رسید کیا۔
تھرو بیک: بالی ووڈ اسٹار سنی دیول کو فلموں میں ان کے انتہائی موثر کرداروں کے لیے سمجھا جاتا ہے۔ وہ عام طور پر فلموں میں ہیرو کے فنکشن میں ہر ایک کی خدمت کرتے اور انہیں بچاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ فلموں میں اس کا کردار موقعوں پر ناراض ہوسکتا ہے، جس کے ذریعے وہ دشمنوں کو بھی مارتے ہوئے دیکھتا ہے۔ متبادل کے طور پر، اگر ہم بالی ووڈ اداکارہ سوہا علی خان کے بارے میں بات کریں تو وہ بہت پرسکون ہو سکتی ہیں۔…
View On WordPress
0 notes
Text
عمران خان کا وزیراطلاعات صحافیوں کو تھپڑ مارتا تھا، ملک میں 4 سال میڈیا سنسرشپ رہی، مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عمران خان کا وزیراطلاعات صحافیوں کو تھپڑ مارتا تھا، پیمرا کی ایک جنبش سے چینل بند ہو جاتے تھے، ملک پر 4 سال میڈیا سنسر شپ نافذ رہی۔ اسلام آباد میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ترمیمی بل سے متعلق پریس بریفنگ میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت پیمرا لائسنس یافتہ 140 چینلز ہیں، سوشل میڈیا کا نیا دور ہے جس سے ہم سب گزر رہے ہیں، ملک میں 4 سال میڈیا…
View On WordPress
0 notes
Text
افغان جنگ سے لوٹنے والے امریکی فوجی کس کرب سے گزر رہے ہیں؟
طالبان سنائپر کی جانب سے داغی گئی گولی میری کھوپڑی سے محض کچھ انچ کے فاصلے سے گزر گئی اور چند سیکنڈوں کے لیے میری دنیا تاریکی میں ڈوب گئی اور سب کچھ خاموش ہو گیا۔ موت کا اتنے قریب سے مشاہدہ کرنے کے 15 سال بعد میں ان ہزاروں امریکی میرینز میں سے ایک ہوں جنہوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر بھی افغانستان کے حوالے سے پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے اسی خاموشی کا سامنا کیا۔ ہر روز میں اپنے ان دوستوں کو یاد کرتا ہوں جن کو میں نے اپنی آنکھوں سے لڑائی میں مرتے دیکھا تھا ان میں وہ دو لوگ بھی شامل تھے جو مجھ سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک جھونپڑی میں نصب آئی ای ڈیز کے دھماکے میں مارے گئے۔ اکثر مجھے کالز آتی ہیں کہ ایک میرین نے اپنی جان لے لی ہے کیوں کہ ان کے گہری نفسیاتی زخم کبھی بھرے ہی نہیں۔ اس سب کے باوجود بھی حکمران احتساب کیے بغیر ایک دوسرے پر الزام لگانے میں مصروف ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ٹرمپ کی غلطی تھی کہ طالبان کے خلاف 20 سالہ جنگ تباہی کے ساتھ ختم ہوئی۔ جس کے جواب میں ریپبلکنز نے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو افغانستان سے انخلا کے حوالے سے خفیہ دستاویزات حوالے نہ کرنے کی صورت میں توہین عدالت کے الزامات کی دھمکیاں دی ہیں۔
امریکی ٹیکس دہندگان کے دو کھرب ڈالر سے لڑی گئی اس جنگ میں کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کر رہا۔ دوسری جانب سرکاری تنخواہیں لینے والے سہل پسند ملازمین کے لیے یہ تباہی کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن میں ابھی تک طبی طور پر صحت یاب نہیں ہوا ہوں۔ میں مکمل مالی فوائد حاصل نہیں کر سکتا حالانکہ میرینز نے مجھے افغان گاؤں مارجہ کی جھونپڑی میں ہونے والے دھماکے میں تین تکلیف دہ دماغی چوٹوں کی وجہ سے سو فیصد معذور قرار دیا تھا۔ میرے گھر میں لٹکا ہوا ’پرپل ہارٹ‘ (فوجی تمغہ) ایک چھوٹی سی پہچان ہے جس سے فوج نے زخمی ہونے پر مجھے نوازا تھا۔ یہ منہ پر ایک تھپڑ مارنے جیسا ہے جس کی تکلیف اس زخم سے بھی زیادہ ہے جب 2008 کے وقت صوبہ ہلمند میں ایک زبردست فائر فائٹ کے دوران فرش پر گرنے کی وجہ سے مجھے لگی تھی۔ جب جنگجو کی ڈراگنوو رائفل کے زور دار وار نے مجھے پیچھے دھکیل دیا تھا تو اس وقت بھی میں صرف اپنی رائفل پکڑنا چاہتا تھا، واپس اٹھنا اور لڑنا چاہتا تھا۔ میرے ارد گرد موجود میرینز حیران تھے کہ میں بغیر کسی خراش کے کیسے بچ گیا، وہ مجھے سٹریچر پر ڈال کر لے جا رہے تھے۔
جب میں نے خود کے حواس پر قابو پایا تو میں اپنے ساتھ بیٹھے ہنستے ہوئے روئٹرز کے فوٹوگرافر کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے مجھے وہ تصاویر دکھائیں جس سے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں میرا نام امر ہو گیا۔ اس وقت میں صرف نائن الیون کے ذمہ داروں کو مارنا چاہتا تھا۔ لیکن بعد میں اکثر میں خود سے پوچھتا ہوں کہ میں اور میرے بھائی آخر میں کس کے لیے لڑ رہے تھے۔ ہم نے جس کرپٹ افغان حکومت کو سہارا دینے کی کوشش کی تھی وہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ ہم نے جن مقامی افغان فوجیوں کو تربیت دی تھی انہوں نے طالبان کی جانب سے کابل کے محاصرے کے دوران لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیے۔ 20 سالوں میں دو ہزار 378 امریکیوں کی اموات کے باوجود ہتھیاروں کا ایک ایسا ذخیرہ ان لوگوں کے لیے چھوڑ دیا گیا جو دو دہائیوں سے ہمیں مارنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ اس وقت میری موت کے منہ والی تصاویر مشہور ہو گئی تھیں۔ انہیں ٹی وی سکرینوں پر دکھایا گیا اور ملک بھر کے اخبارات میں شائع کیا گیا تاکہ نائن الیون کے مجرموں کو ختم کرنے کے لیے بھیجے گئے مرد اور خواتین فوجیوں کی بہادری کو دکھایا جا سکے۔ اب جب ہم افغانستان کے بارے میں سوچتے ہیں تو سب سے پہلے جو تصاویر ذہن میں آتی ہیں وہ ان مایوس مردوں، عورتوں اور بچوں کی ہیں جو اس ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جس کو 20 سال پہلے کی جابرانہ حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔
وہ اگست 2021 میں خودکش دھماکے کے بعد کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ارد گرد سڑکوں پر قطاروں میں پڑی لاشوں کی تصاویر ہیں اور کابل میں ہلاک ہونے والے 13 فوجیوں کے امریکی پرچم میں لپٹے تابوت کی تصاویر ہیں۔ یہ تصاویر اب ڈوور ایئر فورس بیس کے ہینگر میں آویزاں ہیں۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ جس ملک میں میں نے چار بار خدمات انجام دیں، وہاں صورت حال آخری فوجیوں کے انخلا کے بعد کتنی تیزی سے بگڑ گئی، تو مجھے شدید غصہ آتا ہے۔ جب مجھے کال آتی ہے کہ جس میرینز کے ساتھ میں لڑا تھا ان میں سے ایک نے خود کشی کر لی کیوں کہ وہ پی ٹی ایس ڈی سے معذور تھے اور انہیں وہ دیکھ بھال نہیں ملی جس کی انہیں ضرورت تھی، تو اس سے میرا پارہ سوا نیزے پر پہنچ جاتا ہے۔ پندرہ سال بعد میں اپنے آتش دان کو روشن کر کے، سگار نکال کر اور جام میں سکاچ بھرتے ہوئے اس لمحے کے بارے میں سوچتا ہوں جب کہ میری بیوی بوبی مجھے گھر کے آنگن میں تھوڑی دیر اکیلا چھوڑ گئی۔ میں اس تصویر کے بارے میں سوچتا ہوں جس میں میں نے ایک 19 سالہ میرین کا ہاتھ تھاما ہوا ہے اور جس کے کھینچنے کے چند گھنٹے بعد اس میرین نے سر میں گولی لگنے کے بعد اپنی آخری سانسیں لی تھیں۔
مجھے ان دو افراد کے بارے میں خیال آتا ہے جو دو سال بعد افغان گاؤں مارجہ میں آئی ای ڈی دھماکے میں مارے گئے تھے اور پی ٹی ایس ڈی جس نے میرے اس جنگی کیریئر کو ختم کر دیا تھا جو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز گرنے کے مہینوں بعد شروع ہوا تھا۔ ہر سال میں پینسلیوانیا کے ایک پرسکون قبرستان میں ان کی قبروں کو دیکھنے جاتا ہوں۔ اقتدار میں موجود زیادہ تر لوگ افغانستان کو بھلا دینا اور کسی بھی احتساب سے بچنا چاہتے ہیں۔ سابق فوجیوں کی مناسب دیکھ بھال کیپیٹل ہل میں موجود ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے لیے محض گفت و شنید کا سیشن کا موضوع بن گیا ہے۔ میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہوں کہ اس جنگ کی وراثتیں زندہ رہیں۔ اور میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہوں کہ وہ سابق فوجی، جو ابھی تک جدوجہد کر رہے ہیں، جانتے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ میرا پی ٹی ایس ڈی پہلے سے بہتر ہے اور ڈراؤنے فلیش بیکس اور پرتشدد غصہ، جس نے میری بیوی بوبی کو خوفزدہ کر دیا تھا، پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ لیکن تہذیب یافتہ زندگی کو اپنانے کا راستہ تلاش کرنا میرے وجود کے بدترین مقام سے گزرے بغیر نہیں آیا۔
وہ لمحات جب میں نے سوچا کہ آگے بڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے جب بوبی نے مجھ سے کہا: ’اگر آپ ہر وقت دکھی رہنا چاہتے ہو تو آپ خود بھی ہی اس کا دکھ اٹھاؤ۔‘ وہ چلی گئی اور میں نے سوچا کہ وہ کبھی واپس نہیں آئے گی۔ اس وقت جب میں نے اسے ایک خط لکھنے کا فیصلہ کیا جس میں میں نے اس سے معذرت کی، اپنے دوستوں کو یہ کہنے کے لیے ٹیکسٹ بھیجے کہ میری شادی ختم ہو گئی ہے اور ملاگرو کی دو بوتلیں تلاش کرنے کے لیے شراب کی کیبینٹ کھنگالنے لگا۔ میں نے میرینز کو شراب کے زہر سے مرتے دیکھا تھا اس لیے میں نے سوچا کہ یہ مرنے کا ایک آسان طریقہ ہو گا۔ میں نے ہر بوتل کو اتنی تیزی سے پیا جب تک کہ میں مدہوش نہیں ہو گیا۔ جب میں بیدار ہوتا تو اپنے سر کو ڈکٹ ٹیپ کے ساتھ فریج کے ساتھ بندھا ہوا پاتا اور ایک پڑوسی میرے بازو میں آئی وی ڈرپ کو ایڈجسٹ کر رہا ہوتا۔ اس پڑوسی نے اور بوبی نے مجھے میری جان بچانے کے لیے عین وقت پر مجھے ڈھونڈ لیا تھا۔ ویٹرنز ایڈمنسٹریشن میری طرح کی دماغی چوٹوں کی سکریننگ میں ناکام تھی جس کی وجہ سے مجھے کہیں اور سے مدد لینی پڑی۔
یہ ان وجوہات میں سے ایک ہے جو میرینز کی خودکشی کے واقعات سے فوج کو پریشان کرتی ہے۔ میں نے اپنے بھائیوں کو لڑائی میں مرتے دیکھا، اب مجھے ان کالوں سے ڈر لگتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ ایک اور میرین نے اپنی جان لے لی ہے کیوں کہ وہ مزید ایسے نہیں جی سکتے تھے۔ تقریباً پانچ لاکھ سابق فوجیوں کو دماغی مسائل کا سامنا ہیں لیکن حال ہی میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ دفاع کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ کتنوں کا علاج کیا جا رہا ہے یا ان کی حالت کیسی ہے۔ وہ جنگ کی پوشیدہ چوٹیں ہیں جن کے نشانات اتنے گہرے ہیں کہ شاید کبھی بھر ہی نہ سکیں۔ جون 2020 میں ��ارجہ چھوڑنے کے ایک دہائی بعد ایک میرین، جو اس مشکل دن میرے شانہ بشانہ لڑا اور کئی سال تک غم سے نبرد آزما رہا، نے بالآخر اپنی جان لے لی۔ ان کی عمر 37 سال تھی ان کی ایک بیوی اور ایک سات سالہ بیٹا تھا۔ وہ پہلا میرین نہیں تھا جس نے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ آخری بھی نہیں ہو گا۔ میں 2008 میں اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کی میراث کا حصہ بن گیا۔ یہ ایک ایسی میراث ہے جو لاکھوں زندگیوں کو برباد کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔
بل بی
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note
·
View note