Tumgik
#تھپڑ
urdu-e24bollywood · 2 years
Text
جب سنی دیول کو سوہا علی خان نے تھپڑ رسید کیا۔
جب سنی دیول کو سوہا علی خان نے تھپڑ رسید کیا۔
تھرو بیک: بالی ووڈ اسٹار سنی دیول کو فلموں میں ان کے انتہائی موثر کرداروں کے لیے سمجھا جاتا ہے۔ وہ عام طور پر فلموں میں ہیرو کے فنکشن میں ہر ایک کی خدمت کرتے اور انہیں بچاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ فلموں میں اس کا کردار موقعوں پر ناراض ہوسکتا ہے، جس کے ذریعے وہ دشمنوں کو بھی مارتے ہوئے دیکھتا ہے۔ متبادل کے طور پر، اگر ہم بالی ووڈ اداکارہ سوہا علی خان کے بارے میں بات کریں تو وہ بہت پرسکون ہو سکتی ہیں۔…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
bunnyneedsmore · 3 months
Text
♡عید قرباں♡
افروز نے اوپری تازہ فرنش شدہ منزل میں قدم رکھتے ہی پلٹ کر سنی سے غصے سے ہوچھا: " تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟" سنی نے شرارت سے کہا: " رنڈی۔۔"افروز کے تیور اور چڑھ گئے لیکن اس ایک لفظ نے اسے پانی پانی کر دیا۔ سنی اسے جتنا بے عزت کرتا، وہ اور اس کی اور کھچی چلی آتی۔ چھوٹی عید کے بعد بڑی عید آ گئی تھی اور اس نے اسے اتنے دنوں میں ایک بار بھول کر بھی ایک میسج تک نہ کیا تھا۔ رات کو جب وہ اپنے شوہر کے عید کے کپڑے استری کررہی تھی تو اسے سنی کے طرف سے ایک ساتھ دو میسج موصول ہوئے۔ ایک میں "hi" لکھا تھا اور دوسرا میسج تصویری تھا۔ افروز نے سوچا کہ عید مبارک کا تصویری میسج ہوگا۔ لہذا اس نے سست نیٹ ورک کی وجہ سے فون بند کرکے کپڑے استری کرنا شروع کر دئیے۔ کام کاج سے فارغ ہوئی تو رات کے تین بج رہے تھے۔ اچانک اسے یاد آیا کہ تصویری میسج تو دیکھنے سے رہ گیا تھا۔ جونہی اس نے فون کا ڈیٹا کھولا تو وہ تصویر ڈاؤنلوڈ ہونا شروع ہوئی۔ تصویر کا دیکھنا تھا کہ افروز کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ سنی نے اپنے سرخ ٹوپے اور سبز ابھری ہوئی رگوں والے لن کی تصویر بھیجی تھی۔
افروز نے اسے دیکھتے ہی بے اختیار چوم لیا۔ اسے اچانک احساس ہوا کہ وہ یہ کیا کررہی ہے۔ وہ تو شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہے۔ لیکن اس سے رہا نہیں جا رہا تھا۔ اگلا دن عید کا تھا۔ اور وہ تین دن آگ میں جلتی رہی۔ تیسرے دن جونہی اس کا شوہر اسے سنی(اپنے بچپن کے دوست ) کے گھر لے گیا۔ اس نے بچوں کو بہلا پھسلا کر اپنے شوہر کے ساتھ قریب ہی پارک بھجوا دیا۔ اور گھر کی اس انداز سے سنی کی بیوی کے سامنے تعریف کی کہ اس نے سنی سے کہا کہ جب تک وہ چائے وغیرہ بنا لے وہ ( سنی) اسے ( افروز) کو گھر دکھا دے۔افروز سنی کے جواب پر چپ سی ہو گئی۔ سنی نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر جڑ دیئے۔ ساتھ ہی افروز کی گانڈ پر زور کی تھپڑ ٹکا دی۔ نئی تعمیر شدہ عمارت میں افروز کی گانڈ کا پٹاخہ بج گیا۔ افروز: " چھوڑو۔۔ یہ کیا طریقہ ہے!"سنی: " چھوڑ کیسے دوں۔ مشکل سے تو ہاتھ آئی ہو۔ "
افروز نے اسے دھکا دے کر خود سے دور کردیا اور کہا کہ خومخواہ اس کی بیوی نے دیکھ لیا تو مصیبت آجائے گی۔اس کے بعد سنی نے اسے ساری منزل دکھائی اور پھر اس سے اوپری منزل اور آخر میں آخری منزل ۔۔ وہ آخری منزل کے واش روم میں کھڑے تھے۔ افروز نے اس سے کہا کہ ہر منزل کے واش روم اتنے کشادہ کیوں بنائے ہیں تو سنی نے آنکھ مار کر کہا: " ان میں تمھیں ننگی دیکھنے کے لیے۔۔"افروز سے بھی برداشت نہ ہو پا رہا تھا۔ اس نے اسے کہا کہ پھر کر دو نہ مجھے ننگی۔۔سنی نے آگے بڑھ کر افروز کی قمیض اتارنے میں مدد کی۔ اس کے تھن سوج کر پھٹے جا رہے تھے۔ افروز اپنی شلوار اتارتے ہوئے جھکی تو اس کی پھدی سے رال شیرے کی دھار کی طرح ٹپک رہی تھی۔ اس نے شلوار اتار کر جونہی سر اٹھایا سنی الف ننگا اپنا ہتھوڑے جیسا موٹا لن لیے کھڑا تھا۔ افروز نے او دیکھا نہ تاو اور بڑھ کے سنی کا لن ہاتھ میں لیا اور چوم کر چوپا لگانا شروع کر دیا۔ شوہر نے کتنی بار چوپے کی فرامائش کی لیکن افروز سے صاف انکار کر دیا۔ حقیقتا" اسے sucking سے الٹی آتی تھی۔ لیکن وہ حیران تھی کہ سنی میں ایسا کیا تھا کہ اس کی ہر خواہش اس کے کہے بنا وہ پوری کرتی چلی جاتی تھی!
جب وہ سنی کے لن کو چوپا لگ رہی تھی۔ اچانک اس کی نظر کھڑکی سے باہر پڑی۔ اس کا شوہر اور بچے پارک میں آئس کریم تھامے چلتے جا رہے تھے۔ وہ آئس کریم چاٹ رہے تھے اور ان کی ماں لن چاٹ رہی تھی۔ اپنے یار سے پیار اور کھڑکی کے ذریعے اپنی فیملی کو انجوائے کرتا دیکھنے نے افروز میں عجیب سے جنسی احساس کو بیدار کر دیا تھا۔ اس نے سنی کے لن کو چوپتے چوپتے پورے کا پورا اپنے حلق میں لے لیا۔ حلق تک پہنچتے ہی اسے الٹی آگئ۔ اس نے الٹی کے لیے لن منہ سے نکالا اور الٹی کرتے ہی پھر سنی کا لن منہ میں لے کر جی جان سے چوپے مارنے لگی۔ سنی: " اف افروز۔۔۔رنڈی۔۔۔تمھاری ماں کو چودوں ۔۔ کیا بس لن کو چوپتی رہو گی؟" یہ کہہ کر اس نے افروز کو بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور اس کے منہ پر تھوکتے ہوئے اس کے گالوں پر دو تین تھپڑ رسید کیے۔
(جاری ہے۔۔۔)
Tumblr media
7 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
Tumblr media
"ہاں، پہلے تھپڑ پر ہم لڑکھڑاتے ہیں، دوسرے پر ہم مزاحمت کر سکتے ہیں، اور تیسرے پر ہم چیخ سکتے ہیں۔ لیکن دس بجے ہم گیارہ کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔"
"Yes, at the first slap we stagger, at the second we may resist, and at the third we may scream. But at ten o'clock we do nothing but wait for eleven."
Noor Abdul Majeed
18 notes · View notes
safdarrizvi · 8 months
Text
اب کے بیگم مری میکے سے جو واپس آئیں
ایک مرغی بھی بصد شوق وہاں سے لائیں
میں نے پوچھا کہ مری جان ارادہ کیا ہے
تن کے بولیں کہ مجھے آپ نے سمجھا کیا ہے
ذہن نے میرے بنائی ہے اک ایسی سکیم
دنگ ہوں سن کے جسے علم معیشت کے حکیم
آپ بازار سے انڈے تو ذرا دوڑ کے لائیں
تاکہ ہم جلد سے جلد آج ہی مرغی کو بٹھائیں
تین ہفتوں میں نکل آئیں گے چوزے سارے
تو سہی آپ کو پیار آئے وہ پیارے پیارے
چھ مہینے میں جواں ہو کے وہی مرغ بچے
نسل پھیلاتے چلے جائیں گے دھیرے دھیرے
دیکھ لیجے گا بہ تائید خدائے دانا
پولٹری بنے گا مرا مرغی خانہ
پولٹری فارم میں انڈوں کی تجارت ہوگی
دور عسرت اسی مرغی کی بدولت ہوگی
میں وہ عورت ہوں کہ حکمت مری مردوں کو چرائے
انہیں پیسوں سے خریدوں گی میں کچھ بھینسیں اور گائے
ڈیری فارم بنے گا وہ ترقی ہوگی
جوئے شیر آپ ہی انگنائی میں بہتی ہوگی
عقل کی بات بتاتی ہوں اچنبھا کیا ہے
دودھ سے آپ کو نہلاؤں گی سمجھا کیا ہے
بچے ترسیں گے نہ مکھن کے لئے گھی کے لئے
آپ دفتر میں نہ سر ماریں گے دفتر کے لئے
میرے خوابوں کے تصدق میں بشرط تعمیل
چند ہی سال میں ہو جائے گی دنیا تبدیل
سحر تدبیر کا تقدیر پہ چل جائے گا
جھونپڑا آپ کا کوٹھی میں بدل جائے گا
الغرض ہوتی رہی بات یہی تا سر شام
نو بجے رات کو سونے کا جو آیا ہنگام
سو گئیں رکھ کے حفاظت سے اسے زیر پلنگ
خواب میں آتی رہی نشۂ دولت کی ترنگ
سن رہی تھی کوئی بلی بھی ہماری باتیں
پیاری بیگم کی وہ دلچسپ وہ پیاری باتیں
رات آدھی بھی نہیں گزری تھی کہ اک شور مچا
چیخ مرغی کی سنی نیند سے میں چونک پڑا
آنکھ ملتا ہوا اٹھا تو یہ نقشہ پایا
اس بچاری کو صحنچی میں تڑپتا پایا
دانت بلی نے گڑائے تھے جو گردن کے قریب
مر گئی چند ہی لمحوں میں پھڑک کر وہ غریب
صبح کے وقت غرض گھر کا یہ نقشہ دیکھا
چہرہ بیگم کا کسی سوچ میں لٹکا دیکھا
روٹی بچوں نے جو مانگی تو دو ہتھڑ مارا
اسے گھونسہ اسے چانٹا اسے تھپڑ مارا
2 notes · View notes
hasnain-90 · 9 months
Text
‏زندگی کے ہاتھ بہت بھاری ہیں، جب یہ تھپڑ لگاتی ہے تو
گالوں پہ دِیے ماں کے بوسوں سے بھی خون رسنے لگتا ہے 🥀
3 notes · View notes
googlynewstv · 29 days
Text
بھارتی اداکارہ کنگنا کو اپنی نئی فلم سے قبل ہی قتل کی دھمکیاں ملنے لگی ہیں۔  تفصیلات کے مطابق بھارتی اداکارہ کنگنا فلم ایمرجنسی میں سابق وزیراعظم اندراگاندھی کاکردار نبھارہی ہیں۔فلم 6ستمبر کوریلیزکیجائے گی۔   وائرل ویڈیو میں ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اس نے کنگنا کو مخاطب کیا اور کہا کہ  فلم ریلیز کرتی ہو تو سرداروں نے آپ کو چپل مارنی ہے،تھپڑ تو آپ پہلے ہی کھا چکی۔ ویڈیو میں کہاگیا کہ…
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے پر فردوس عاشق اعوان سے تحریری جواب طلب
فردوس عاشق اعوان نے معافی مانگ لی ،الیکشن کمیشن نے پولیس اہلکاروکوتھپڑمارنے پرفردوس عاشق اعوان سے تحریری جواب طلب کرلیا ، کمیشن نے پوچھا اگرکوئی بات نہیں سن رہا تو تھپڑ ماریں گی ؟ فردوس عاشق اعوان بولیں میں نے تھپڑ نہیں مارا۔ ممبرکے پی اکرم اللہ  کی سربراہی میں دو رکنی کمیشن نےپولیس اہلکارکوتھپڑمارنے کے کیس کی سماعت کی، فردوس عاشق اعوان نے الیکشن کمیشن سے معافی مانگ مانگتے ہوئےموقف اپنایاکہ جب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
فلاحی، فاشسٹ، ہائبرڈ اور چھچھوری ریاست کا فرق
Tumblr media
فلاحی ریاست کا مطلب ہے وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد ہر طبقے کو نسل و رنگ و علاقے و عقیدے و جنس کی تمیز کے بغیر بنیادی حقوق اور مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی اہلیت کے مطابق بلا جبر و خوف و خطر مادی و ذہنی ترقی کر سکے۔ فلاحی ریاست کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد پہلے سے مراعات یافتہ طبقات اپنے سے کمزوروں کے بنیادی حقوق اور مساوی مواقع فراہم کرنے والے راستے پامال کرتے ہوئے محض اپنے تحفظ اور فلاح پر دھیان دیں اور نہ صرف اپنا حال بلکہ اپنی نسلوں کا سیاسی، سماجی و معاشی مستقبل ریاستی و سائل و مشینری کو استعمال میں لاتے ہوئے محفوظ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست وہ ہوتی ہے جہاں ایک گروہ، ادارہ یا تنظیم اندھی قوم پرستی کا جھنڈا بلند کر کے اقلیتی گروہوں، نسلوں اور تنظیموں کو اکثریت کے بوجھ تلے دبا کے اس اکثریت کو بھی اپنا نظریاتی، معاشی و سماجی غلام بنانے کے باوجود یہ تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب ہو کہ ہم سب سے برتر مخلوق ہیں لہذا ہمیں کم تروں پر آسمانوں کی جانب سے حاکم مقرر کیا گیا ہے۔ وقت کی امامت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ جہاں ہم کھڑے ہوں گے لائن وہیں سے شروع ہو گی۔ ہمارا حکم ہی قانون ہے۔ جو نہ مانے وہ غدار ہے۔
فاشسٹ ریاست کے قیام کے لیے جو لیڈر شپ درکار ہے اسے مکمل سفاکی کے ساتھ سماج کو اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے فطین دماغوں کی ضرورت ہے جو تاریخ اور جغرافیے کی سچائیوں اور سماجی حقائق کو جھوٹ کے سنہری قالب میں ڈھال کے بطور سچ بیچ سکیں۔ فاشسٹ ریاست قائم رکھنا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے ضروری ڈسپلن، یکسوئی اور نظریے سے غیر مشروط وفادار کارکنوں و فدائین کی ضرورت ہوتی ہے جو اس مشن کو مقدس مشن کی طرح پورا کر سکیں اور اپنی انفرادی زندگیوں کو اجتماعی ہدف کے حصول کی راہ میں قربان کرنے کا حوصلہ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست محض فاشسٹ بننے کے شوق سے یا موقع پرستوں کے ہاتھوں تشکیل نہیں پا سکتی۔ اس کے لیے مسلسل مستعد رہنے کے ساتھ ساتھ انتھک محنت اور لومڑ و گرگٹ کی صفات سے مالامال مرکزی و زیلی قیادت درکار ہے۔ دلال ریاست وہ کہلاتی ہے جو اپنے جغرافیے اور افرادی قوت و صلاحیت کو بطور جنس دیکھے اور انا و غیرت و ثابت قدمی و اصول پسندی جیسی فضول اقدار بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے رویے میں اتنی لچک دار اور اس رویے کی پیکیجنگ اور مارکیٹنگ میں اتنی ماہر ہو کہ ہر کوئی اسے اپنی ضرورت سمجھ کے خریدنا یا حسبِ ضرورت دہاڑی، ماہانہ، سالانہ کرائے پر لینا یا کسی خاص اسائنمنٹ کا کنٹریکٹ کر کے استعمال کرنا چاہے۔
Tumblr media
لیفٹ رائٹ کے سب ممالک اور بین الاقوامی ادارے اور اتحاد دلال ریاست کو اپنے کام کی شے سمجھیں اور وہ اپنے متمول گاہکوں کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت بھی خوش اسلوبی سے پوری کرنے کی کوشش کرے اور اس کے عوض اپنے تحفظ کی ضمانت، داد و تحسین اور ’ویل‘ سے جھولی بھرتی رہے۔ خود بھی ہر طرح کے حالات میں خوش اور مست رہے اور گاہکوں کو بھی خوش رکھے۔ ہائبرڈ ریاست دراصل ریاست کے روپ میں ایک ایسی لیبارٹری ہوتی ہے جہاں ہر طرح کے سیاسی ، سماجی، معاشی و سٹرٹیجک تجربات کی سہولت میسر ہو۔ یہ تجربات جانوروں پر ہوں یا انسانوں پر۔ اس سے ریاست کے پروپرائٹرز کو کوئی مطلب نہیں۔ بس انھیں اس لیبارٹری سے اتنی آمدن ہونی چاہیے کہ خرچہ پانی چلتا رہے۔ صرف اتنی پابندی ہوتی ہے کہ کوئی ایسا خطرناک تجربہ نہ کر لے کہ لیب ہی بھک سے اڑ جائے۔ باقی سب جائز اور مباح ہے۔ ایک چھچوری ریاست بھی ہوتی ہے۔ جو تھوڑی سی فاشسٹ زرا سی جمہوری، قدرے دلال صفت، کچھ کچھ نرم خو، غیرت و حمیت کو خاطر میں لانے والی چھٹانک بھر صفات کا ملغوبہ ہوتی ہے۔ 
تن و توش ایک بالغ ریاست جتنا ہی ہوتا ہے۔ مگر حرکتیں بچگانہ ہوتی ہیں۔ مثلاً چلتے چلتے اڑنگا لگا دینا، اچھے خاصے رواں میچ کے دوران کھیلتے کھیلتے وکٹیں اکھاڑ کے بھاگ جانا، راہ چلتے سے بلاوجہ یا کسی معمولی وجہ کے سبب بھڑ جانا، چھوٹے سے واقعہ کو واویلا مچا کے غیر معمولی دکھانے کوشش کرنا اور کسی غیر معمولی واقعہ کو بالکل عام سا سمجھ کے نظر انداز کر دینا، کسی طاقت ور کا غصہ کسی کمزور پر نکال دینا۔ لاغر کو ایویں ای ٹھڈا مار دینا اور پہلوان کو تھپڑ ٹکا کے معافی مانگ لینا۔ اچانک سے یا بے وقت بڑھکیں مارنے لگنا اور جوابی بڑھک سن کر چپ ہو جانا یا یہ کہہ کے پنڈ چھڑانے کی کوشش کرنا کہ ’پائی جان میں تے مذاق کر رہیا سی۔ تسی تے سدھے ہی ہو گئے ہو۔‘ جب کسی فرد، نسل ، قومیت ، گروہ یا ادارے کو مدد اور ہمدردی کی اشد ضرورت ہو تو اس سے بیگانہ ہو جانا اور جب ضرورت نہ ہو تو مہربان ہونے کی اداکاری کرنا۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی بدمعاشی کا شوق رکھنا مگر تگڑا سامنے آ جائے تو اس سے نپٹنے کے لیے اپنے بچوں یا شاگردوں کو آگے کر دینا یا آس پاس کے معززین کو بیچ میں ڈال کے معاملہ رفع دفع کروا لینا۔
اپنے ہی بچوں کا کھانا چرا لینا اور گالیاں کھانے کے بعد بچا کچھا واپس کر دینا۔ سو جوتے کھانا ہیں یا سو پیاز اسی شش و پنج میں مبتلا رہنا۔ اکثر عالمِ جذب میں اپنے ہی سر پر اپنا ہی ڈنڈہ بجا دینا اور گومڑ پڑنے کی صورت میں تیرے میرے سے پوچھتے پھرنا کہ میرے سر پے ڈنڈہ کس نے مارا۔ جہاں دلیل سے مسئلہ حل ہو سکتا ہو وہاں سوٹا گھما دینا اور جہاں سوٹے کی ضرورت ہو وہاں تاویلات کو ڈھال بنا لینا۔ ان سب کے باوجود اپنے تئیں خود کو ذہین ترین اور چالاک سمجھتے رہنا۔چھچھوری ریاست خود بھی نہیں جانتی کہ اگلے لمحے اس سے کیا سرزد ہونے والا ہے۔ چنانچہ ایسی ریاست پر نہ رعایا کو اعتبار ہوتا ہے اور نہ گلوبل ولیج سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہو جاتی ہے جو مادے کی ہوتی ہے۔ یعنی سائنسی تعریف کے اعتبار سے مادہ اس عنصر کو کہتے ہیں جو بس جگہ گھیرتا ہو اور وزن رکھتا ہو۔ ہم ان مندرجہ بالا ریاستوں میں سے کس طرح کی ریاست کے مکین ہیں۔ یہ آپ جانیں اور آپ کو ہنکانے اور چلانے والے یا پھر الیکٹڈ و سلیکٹڈ جانیں۔ میرے جیسا ہومیو پیتھک آدمی کیا جانے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
ہم سب ڈرٹی ہیری ہیں
Tumblr media
یہ فلم ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور یہ فلم اتنی پرانی اور اس کا پلاٹ اتنا جانا پہچانا ہے کہ بنانے والے بھی سوچتے ہیں کہ لوگوں کو پتا چل ہی جائے گا کہ ہم کتنی قدیم چیز ہیں۔ وہی فلم جو آج کل بہت رش لے رہی ہے یعنی ایک بڑھکیں لگاتا، انقلاب لاتا، چھین کے آزادی لینے کی دھمکی کرتا سیاسی لیڈر دو چار دن کے لیے جیل جاتا ہے۔ باہر آ کر ایک پریس کانفرنس کرتا ہے اور کہتا ہے میں راستے سے بھٹک گیا تھا۔ اب میں عہدہ چھوڑ رہا ہوں، راہیں جدا کر رہا ہوں، یا سیاست سے ہی تائب ہو رہا ہوں اور باقی زندگی اللہ اللہ کرتے گزاروں گا۔ آج سے تیس سال پہلے کا کراچی تھا۔ 1992۔ آبادی اس سے آدھی ہو گی۔ ایم کیو ایم اپنے عروج پر تھی۔ الطاف ایک دو تین کہتے تو کراچی بند ہو جاتا۔ پھر تین دو ایک کہتے تو کراچی کھل جاتا تھا۔ فوجی آپریشن شروع ہوا۔ بظاہر مقصد تھا کہ امن و امان کو بحال کیا جائے بھتہ خوروں اور اغوا برائے تاوان والوں کو پکڑا جائے۔ لیکن اصلی مقصد یہ تھا کہ ایم کیو ایم کو لگام ڈالی جائے۔ آپریشن کے شروع میں ہی ادارے کی بے ادبی ہو گئی (جس طرح نو مئی کو حقیقی آزادی کی تحریک کے پہلے ہی دن ادارے کی بے ادبی ہوئی)۔
فوج کے ایک افسر میجر کلیم تھے۔ وہ کراچی کی کسی تنگ گلی میں پھنس گئے۔ لونڈوں نے گھیر لیا۔ میں نے سنا تھا ان کو صرف ایک تھپڑ مارا گیا تھا۔ ادارے نے دعویٰ کیا کہ میجر صاحب پر تشدد کیا گیا ہے۔ اس کے بعد آپریشن کلین اپ ’آپریشن ایم کیو ایم کی تو ایسی کی تیسی‘ میں تبدیل ہو گیا۔ اور وہی فلم چلنے لگی جو آج کل پی ٹی آئی کے ساتھ چل رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے انڈر گراؤنڈ رہنما پکڑے جاتے، دو چار دن کسی لاک اپ میں گزارتے اور پھر کہتے کہ میری پریس کانفرنس کراؤ اور گھر جانے دو، ہم راستے سے بھٹک گئے تھے۔ ایم کیو ایم جو اس وقت تک ہلکی پھلکی بدمعاش پارٹی سمجھی جاتی تھی، راتوں رات غداروں کی جماعت قرار پائی۔ آئی ایس پی آر والے جو ابھی تک میوزک ویڈیو اور فلمیں بنانے کا فن نہیں سیکھے تھے صحافیوں کو جناح پور کے نقشے بانٹتے کہ دیکھو یہ آپ کی ایم کیو ایم تو ملک توڑنا چاہتی تھی، آؤ تمھیں ان کے ٹارچر سیل دکھاتے ہیں۔  مجھے اشتیاق تھا یہ جاننے کا کہ الطاف حسین کے ہاتھ پر بیت کیے ہوئے اور انھیں پیر و مرشد ماننے والے دو چار دن ہی قید میں گزار کر بھائی کے مشن سے کیسے منکر ہو جاتے ہیں۔
Tumblr media
مجھے کہا گیا کہ آپ کو ایک کرنل صاحب سے ملواتے ہیں جو ایم کیو ایم مکاؤ آپریشن کا سیاسی ونگ چلا رہے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے بھائیوں سے معذرت کیونکہ کچھ کہیں گے کہ کہاں ہمارا ہینڈسم حقیقی آزادی والا اور کہاں الطاف حسین۔ اور دوسرے یہ کہیں گے کہ کہاں ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے والے الطاف بھائی اور کہاں یہ پپو بچوں اور بچیوں کا لیڈر خان۔ تسلی رکھیں کردار بدلے ہیں فلم پرانی ہے چاہے پوسٹر کے اوپر شرطیہ نیا پرنٹ لکھا ہو۔ کرنل صاحب خوش مزاج تھے۔ کراچی نئے نئے آئے تھے۔ میں نے پوچھا کیسا لگا کراچی تو پہلے انھوں نے پنجابی کا ایک پرانا گانا سنایا ’بُرے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا۔‘  پھر کہنے لگے ’راتوں کو نیند نہیں آتی کیونکہ آپ کے بوٹ بیسن پر لڑکیاں بغیر آستین کی ٹی شرٹ اور جینز پہن کر گھومتی ہیں۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ میرے جوان چھوٹے دیہاتوں سے آئے ہیں، وہاں مشین گن کے ساتھ ڈیوٹی پر کھڑے ہوتے ہیں، کسی دن کوئی غیرت میں آ کر فائر ہی نہ کھول دے۔ ‘
میں نے کہا ’سر میں بھی چھوٹے گاؤں سے آیا تھا، آہستہ آہستہ عادت ہو جاتی ہے اور بعض کو تو اتنی ہو جاتی ہے کہ وہ واپس گاؤں ہی نہیں جاتے۔ ‘ میں نے ’کرنل صاحب سے پوچھا کہ ان کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ ایم کیو ایم کے جید رہنما دو چار دن ہی ان کے ساتھ گزار کر توبہ تائب ہو جاتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا ’آپ بھی یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں کوئی ان کی ٹھکائی کرتا ہوں، یا دھمکیاں دیتا ہوں یا رات کو الٹا لٹکا دیتا ہوں۔ مجھے قرآن کی قسم اگر کسی کو ہاتھ بھی لگایا ہو۔ میں رات کو ان کے ساتھ عشا کی نماز پڑھتا ہوں اور پھر ساری رات بیٹھ کر ان کے ساتھ بحث کرتا ہوں۔ وہ صبح تک خود ہی کہہ دیتے ہیں کہ بتائیں پریس کانفرنس کب کرنی ہے۔ مجھے امید ہے کہ پی ٹی آئی کے پریس کانفرنس کر کے چھوڑنے والے رہنماؤں کے ساتھ بھی کوئی ذہنی یا جسمانی تشدد نہیں ہوا۔ میرے کرنل جیسا کوئی نرم دل شخص ساری رات ان کے ساتھ علمی اور سیاسی بحث ہی کرتا ہو گا۔ عمران خان اور ان کے حامی اکثر کسی ڈرٹی ہیری کا ذکر کرتے تھے۔ میں بھی سوچتا تھا بڑے جرات والے ہیں کسی خفیہ ادارے کے بڑے افسر کا نام دھڑلے سے لے رہے ہیں۔ میں جانتا نہیں تھا کہ یہ افسر کون اور اس نے کیا کِیا ہے۔
اب پاکستان کے بڑے شہروں کی شاہراہوں پر اس کی تصویریں بھی سجی ہیں۔ ادارے نے کہا ہے کہ تم ایک ڈرٹی ہیری پر الزام لگاتے تھے ہم سب ڈرٹی ہیری ہیں۔ تم جنرل باجوہ کو میر جعفر کہتے تھے، یہ دیکھو یوم شہدا کے دن ہمارے سپہ سالار کے دائیں ہاتھ پر بیٹھا ہے اور آپ کا خیال ہے صرف آپ کے پاس ہی کالا چشمہ ہے۔ پی ٹی آئی کے زیادہ تر سپورٹر 1992 میں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے لیکن وہ جان لیں کہ 30 سال پہلے کراچی کی کسی تنگ گلی میں میجر کلیم کو پڑنے والے تھپڑ کی گونج آج کے کراچی میں بھی سنی جاسکتی ہے۔ کراچی کی ایک قدیم شاندار عمارت ہے جس کا نام جناح کورٹس ہے۔ وہاں پر رینجرز کا ہیڈکوارٹر بن گیا اور آج تک ہے۔ لیکن کراچی میں آج بھی الطاف حسین بھائی کے عاشق موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے دوست حوصلہ رکھیں، اگر ان کی جماعت کو بنتے بنتے 25 سال لگ گئے تو ختم ہوتے ہوتے بھی اتنے ہی لگیں گے۔ ویس بھی جیسا کہ اسد عمر نے ایک دفعہ کہا تھا یہ سیاست معیشت وغیرہ کی بات نہیں ہے، یہ عشق کی بات ہے۔ ویسے فلسفۂ عشق کے نام سے الطاف بھائی کی ایک کتاب بھی ہے۔ غم کے دنوں میں وہ پڑھ لیا کریں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
ڈی ایس پی کو تھپڑ مارنے والی خاتون کو پولیس تفتیش میں شامل ہونے کا حکم
کراچی : عدالت نے ڈی ایس پی کو تھپڑ مارنے کے کیس ملزمہ ڈاکٹرانعم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس تفتیش میں شامل ہونے کی حکم دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن کورٹ جنوبی میں ڈی ایس پی کو تھپڑ مارنے کے کیس میں ملزمہ ڈاکٹر انعم کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے ملزمہ ڈاکٹرانعم کی آٹھ فروری تک ضمانت منظورکرلی ، خاتون کی ضمانت 1لاکھ روپے مچلکے کے عوض منظور کی گئی۔ عدالت نے ڈاکٹر انعم کو پولیس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
کراچی میں پولیس افسر کو تھپڑ مارنے والی خاتون کی ضمانت منظور
کراچی میں پی آئی ڈی سی پر ڈی ایس پی کو تھپڑ مارنے اور بدتمیزی کیس میں نامزد ملزمہ ڈاکٹر انعم کی ضمانت منظور کر لی گئی۔ تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج جنوبی کی عدالت میں ٹریفک پولیس کے ڈی ایس پی کو تھپڑ مارنےکے کیس کی سماعت ہوئی تو ملزمہ ڈاکٹر انعم نے عدالت سے 8 فروری تک عبوری ضمانت حاصل کر لی۔ View this post on Instagram A post shared by ARY News (@arynewstv) خاتون کی ضمانت 4 فروری کو 1…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
گاڑی روکنے پرخاتون کی ڈی ایس پی ٹریفک سے بدتمیزی، تھپڑ مار دیا
(تصویر: اسکرین گریب) کراچی: پی آئی ڈی سی ٹریفک سگنل پرخاتون نے گاڑی روکے جانے پر ڈی ایس پی ٹریفک پی آئی ڈی سی کو تھپڑ مار دیا۔خاتون مشتعل ہو کر باریش ڈی ایس پی کو دھکے دیتی رہی۔ ٹریفک پولیس کے مطابق خاتون پی آئی ڈی سی سے سلطان آباد کی جانب جانا چاہتی تھی سامنے سڑک سے ٹریفک کا فلو گزررہا تھا خاتون کی گاڑی نے زبردستی ٹریفک میں داخل ہونے کی کوشش کی ڈی ایس پی ٹریفک نے خاتون کی گاڑی کو روکا تو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
Tumblr media
ہاں، پہلے تھپڑ پر ہم لڑکھڑاتے ہیں، دوسرے پر ہم مزاحمت کر سکتے ہیں، اور تیسرے پر ہم چیخ سکتے ہیں۔ لیکن دس بجے ہم گیارہ کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔
Yes, on the first slap we stutter, on the second we can resist, and on the third we can scream. But at ten o'clock we do nothing but wait for eleven.
The light of Abdul Majeed
21 notes · View notes
mubashirnews · 2 years
Text
شادی کے دوران دلہا دلہن میں ہاتھا پائی, تقریب اکھاڑا بن گئی
شادی کے دوران دلہا دلہن میں ہاتھا پائی, تقریب اکھاڑا بن گئی
نئی دہلی: بھارت میں شادی کے عین موقع پر دلہا دلہن نے ایک دوسرے پر تھپڑ اور گھوسے برسا شروع کردئیے، دلچسپ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ شادی کے دوران دلہا اور دلہن میں لڑائی نوشہ کی جانب سے دلہن کو زبردستی مٹھائی کھلانے کے باعث شروع ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے تھپڑوں اور گھوسوں میں تبدیل ہوگئی۔ شادی کے دوران دلہا دلہن میں تصادم کی ویڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیئر کی گئی جسے اب تک 76…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
moazdijkot · 2 years
Text
نیلم مہاجن سنگھ: صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی جرأت کو سلام
نیلم مہاجن سنگھ: صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی جرأت کو سلام
نیلم مہاجن سنگھ یوم آئین کے موقع پر عدلیہ کو آئینہ دکھایا گیا۔ سو سنار کی ایک لوہار کی۔ صدر جمہوریہ دروپدی مرموجی مجھے آپ پر بہت فخر ہے جو لوگ صدردروپدی مرمو کو ربڑ اسٹامپ اور محض پسماندہ ذات کی آدی باسی کے زمرے میں رکھ رہے تھے، صدر جمہوریہ نے ان کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہے۔ ہندوستان کی آئین کے دن کے موقع پر سپریم کورٹ میں خطا ب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا دھننجے جسونت چندرچوڑ ،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
altoheed · 2 years
Text
اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا
اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا
اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا، اور اگر بتاتا تھا تو باپ اُسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا ….!!یہ وہ دور تھا جب ”اکیڈمی“ کا کوئی تصور نہ تھا، ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے …..!!بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی…….!!۔لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا…
View On WordPress
0 notes