#تنخواہوں
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 30 days ago
Text
حکومت نے سرکاری ملازمین کو تنخواہوں سے متعلق بڑی خوشخبری سنا دی
(قیصر کھوکھر)پنجاب حکومت نے مسیحی برادری کی تنخواہیں ایڈوانس ادا کرنے کا حکم دیدیا۔ پنجاب حکومت نے مسیحی برادری کی تنخواہ20 دسمبر تک ادا کرنے کا حکم دے دیا،محکمہ خزانہ پنجاب نے متعلقہ اداروں کو نوٹیفکیشن ارسال کردیا۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ حاضر سروس ملازمین کی دسمبر کی تنخواہ ایڈوانس میں ادا کی جائے ،20 دسمبر 2024 کو تنخواہیں اور پنشن ادا کردی جائیں۔ یہ بھی پڑھیں:عمر قید کی سزا پانے والے…
0 notes
googlynewstv · 4 months ago
Text
ایم این ایز کی تنخواہوں میں اضافےکااختیارقومی اسمبلی کومل گیا
ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافےکیلئےوزارت خزانہ اور حکومت کا اختیار ختم،قومی اسمبلی کوتنخواہوں میں اضافے کااختیارمل گیا۔ کابینہ ذرائع کےمطابق ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں اورمراعات میں اضافے کیلئے قومی اسمبلی خودفیصلہ کرےگی۔اس سےقبل ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہوں، مراعات میں اضافےکیلئےوزارت خزانہ سےمشاورت کی جاتی تھی اب ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہوں،مراعات میں اضافےکیلئے وزارت…
0 notes
emergingpakistan · 12 days ago
Text
معاشی بہتری یا طفل تسلیاں
Tumblr media
موجودہ حکومت کو معرض وجود میں آئے ہوئے تقریباً نو ماہ ہونے کو ہیں اور کوئی شک نہیں کہ اس نے اِن نو مہینوں میں معاشی بہتری کے لیے بہت سے کام کیے ہیں لیکن کیا اُن کے نتیجے میں ہم اس خطرناک صورتحال سے باہر نکل آئے ہیں اور ڈیفالٹ ہو جانے کا خطرہ یقیناً ٹل چکا ہے۔ اس کا جواب یقیناً نہ اور نفی میں ہوگا۔ ابھی ہمارے ڈیفالٹ ہوجانے کا خطرہ صرف دو تین مہینوں کے لیے ٹلا ہے۔ 2021 برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے انتہائی برے وقت میں ہمارا ہاتھ پکڑا اور تین ارب ڈالر ہمارے خزانے میں صرف اس مقصد سے ڈیپازٹ کر دیے کہ ہم کہیں حقیقی طور پر دیوالیہ ظاہر نہ ہو جائیں۔ دنیا کی نظروں میں ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کی خاطر سعودی عرب نے ایک حقیقی دوست اور بھائی کا کردار ادا کیا۔  حالانکہ اسے معلوم تھا کہ یہ تین ارب ڈالر اسے ایک سال میں واپس بھی نہیں ملیں گے اور ہوا بھی ایسا ہی ہم ہر سال ایک درخواست لے کر اُن کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور مزید ادھار مانگنے کے بجائے یہی تین ارب ڈالرزکی واپسی کے لیے مزید مہلت مانگ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سعودی ارب یہ مہلت دینے سے انکار کر دے تو ہم کہاں کھڑے ہونگے؟ معاشی طور پر دیوالیہ ہوجانے سے بچ جانے کے ہمارے دعوے کتنے درست اور حقیقی ثابت ہوں گے۔
کیا ہم دھڑام سے زمین بوس نہیں ہوجائیں گے۔ یہی حال UAE سے لیے تین ارب ڈالروں کا بھی ہے اور چین سے ادھار پیسوں کا بھی۔ ہم کب تک اسی طرح کام چلاتے رہیں گے اور اپنے آپ اور قوم سے جھوٹ بولتے رہیں گے۔ IMF اگر ہمیں نئے قرض کی منظوری نہیں دیتا تو بھی ہمیں ڈیفالٹ ہوجانے سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا تھا۔ پھر یہ ادھار کے ڈالرز بھی کام نہیں آتے۔ IMF کی مہربانی سے ہمیں کچھ دنوں کے لیے سانس لینے کا موقع ضرور مل گیا ہے لیکن دیوالیہ ہوجانے کے خطروں سے ابھی ہم باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی ہمیں IMF کے قرض سے صرف ایک قسط ملی ہے اورہم نے اپنے شاہانہ خرچ یک دم بڑھا دیے ہیں۔ ایک ماہ قبل ججوں کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا اور اب اپنے پیٹی بھائیوں یعنی پارلیمنٹرین کی مشاہر�� میں بڑا اضافہ کر دیا۔ حکومت ایک طرف ٹیکس جمع کرنے کے مطلوبہ ہدف کو پورا بھی نہیں کر پا رہی ہے اور دوسری طرف اپنے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ بھی کر رہی ہے، حالانکہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ نے ایک بار نہیں کئی بار قوم کو یقین دہانیاں کروائی ہیں کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے والی ہے اور آنے والے دنوں میں ہم واضح طور پر اس کمی کو دیکھ پائیں گے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت نے اپنے اس وعدے کی ایک شق پر بھی عمل نہیں کیا۔
Tumblr media
حکمرانوں اور پارلیمنٹرین میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں سامنے آیا جس نے اس غیر ضروری اضافے کو مسترد کیا ہو یا اس کی مخالفت کی ہو۔ عوام سے تو توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے اخراجات کم کر دے اور قربانیوں پر قربانیاں دیتی رہے لیکن اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے یہ تمام کے تمام افراد اپنے اخراجات ایک فیصد بھی کم کرنے کو تیار نہیں، بلکہ وہ اس اضافے کے ثمرات سمیٹ لینے کے لیے مکمل طور پر متفق اور متحد ہیں۔ اپوزیشن میں سے بھی کسی ایک شخص نے اس اضافے کے خلاف ایک آواز بھی بلند نہیں کی۔ ویسے وہ حکومت کے ہر کام پر تنقید اور تنقیص کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر ذاتی مفاد کے اس فیصلے پر وہ بھی خاموشی طاری کیے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کے حوالے سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے دس مہینوں میں بڑھتی مہنگائی کی شرح چھ فیصد تک لے آئی ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ سمجھتی ہے کہ اس نے عام عوام کے لیے مہنگائی بہت کم کر دی ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو سوائے ایک آدھ چیز کے مہنگائی کسی اور شہ میں کم نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس میں کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ مہنگائی میں کمی کے دعوے کرتے ہوئے یہ بھول جاتی ہے کہ مہنگائی کی روز افزوں شرح جو ایک سال پہلے تک تیس فیصد تک پہنچ چکی ہے وہ اب چھ سات فیصد تک آگئی ہے۔
یعنی ��ہنگائی تو پھر بھی ہو رہی ہے۔ بے تحاشہ کے بجائے چھ سات فیصد ماہانہ کی شرح پر۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ عوام کو اس طرح کیا ریلیف ملا۔ اسے تو آج بھی اپنی اسی آمدنی سے چھ فیصد مزید مہنگی چیزیں خریدنی پڑ رہی ہے۔ بات تو جب تھی کہ جن اشیائے ضروریہ کے دام پہلے ہی بڑھ چکے تھے انھیں کم کیا جاتا۔ نہ کہ مزید چھ سات فیصد اضافہ کر کے عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کے دعوے کیے جاتے۔ دنیا کے ہر ملک میں جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں یا بنائی جاتی ہیں وہ وہاں کے عوام کو ہمیشہ سستی اور ارزاں قیمتوں پر ملا کرتی ہیں لیکن ہمارے یہاں کا معاملہ عجیب و غریب ہے۔ یہاں ہر چیز چاہے وہ امپورٹ کی گئی ہو یا خود ہمارے یہاں پیدا ہوتی ہوں، بین الاقوامی قیمتوں کے مطابق دستیاب ہونگی۔ گندم ، چاول اور چینی وافر مقدار میں ہمارے اپنے یہاں پیدا ہوتی ہے لیکن عوام کو وہ بھی ڈالرکی قیمت یا دوسرے ملکوں میں ملنے والی قیمت کے حساب سے مہیا کی جاتی ہیں۔ اس کے لیے بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ اگر سستی ہونگی تو پھر ان اشیاء کی اسمگلنگ شروع ہو جائے گی۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ معاشی حوالے سے حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔
لانگ ٹرم منصوبے کیا ہیں۔ صرف وقتی علاج اور قرض حاصل کر کے خزانے کا وزن بڑھا دیا گیا ہے۔ پی آئی اے اور مالی بحران کے شکار کئی ادارے آج بھی قوم کے خون پسینے کی کمائی کھا رہے ہیں۔ انھیں فروخت کرنے یا پرائیوٹائز کرنے میں سست روی دکھائی جا رہی ہے۔ دو تین برسوں سے سنتے آئے ہیں کہ کئی ادارے نجی تحویل میں دیے جانے کا پروگرام ہے لیکن ایک ادارہ بھی آج تک فروخت نہیں کیا گیا۔ خسارے میں چلنے والے ادارے اب اس حال میں پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بھی انھیں خریدنے والا نہیں۔ ملک میں پائی جانے والی معدنیات کے حوالے سے بھی کوئی ٹھوس پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔ انھیں نکالنے کے منصوبے ابھی تک محض کاغذوں پر موجود ہیں۔ ہمارے پڑوسی ممالک بھی ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور ہم چند مہینوں کے زرمبادلہ کے ذخائر جمع کر لینے پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ذخائر جو دوست ممالک کی مہربانیوں کی وجہ سے قائم ہیں، وہ اگر قائم نہ رہیں تو پھر ہمارا کیا ہو گا؟ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے صرف تسلیاں دینے سے اب کام نہیں چلے گا۔
ڈاکٹر منصور نورانی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingkarachi · 16 days ago
Text
غیرملکی قرض، مال مفت دل بے رحم
Tumblr media
موجودہ حکومت سے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ IMF سے قرضہ منظورہوتے ہی وہ بے دریغ اپنے اخراجات بڑھا دے گی۔ وہ صبح وشام عوام سے ہمدردی اور انھیں ریلیف بہم پہنچانے کے دعوے توبہت کرتی رہتی ہے لیکن عملاً اس نے انھیں کوئی ایسا بڑا ریلیف نہیں پہنچایا ہے جیسا اس نے اپنے وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کو صرف ایک جھٹکے میں پہنچا دیا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ ہر بار عوام کو یہ تسلیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ آپ اگلے چند ماہ میں حکومتی اخراجات کم ہوتے دیکھیں گے۔ اُن کے مطابق حکومت جسے اپنے غریب عوام کا بہت خیال ہے وہ بہت جلد سرکاری ��خراجات کم کرے گی، مگر ہم نے پچھلے چند ماہ میں اخراجات کم ہوتے تو کیا بلکہ بے دریغ بڑھتے ہوئے ہی دیکھے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نام نہاد مسیحا عوام سے تو ہر وقت قربانی دینے کی درخواستیں کرتے ہیں لیکن خود وہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ سارے کے سارے خود ساختہ عوامی غم خوار اللہ کے فضل سے کسی غریب طبقہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔
اِن میں بہت سے بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار لوگ ہیں۔ پشت درپشت اِن کی جاگیریں ان کی اولادوں میں بٹتی رہی ہیں۔ اُن کی زمینوں کا ہی تعین کیا جائے تو تقریباً آدھا پاکستان انھی لوگوں کی ملکیت ہے۔ اِنکے گھروں میں وہ فاقے نہیں ہو رہے جن سے ہمارے بیشتر عوام دوچار ہیں۔ ملک میں جب بھی کوئی بحران آتا ہے تو یہ سب لوگ ترک وطن کر کے دیار غیر میں جا بستے ہیں۔ جن لوگوں سے یہ ووٹ لے کر پارلیمنٹ کے منتخب ارکان بنتے ہیں انھیں ہی برے وقت میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے دن سے لے کر آج تک اس ملک میں جب جب کوئی بحران آیا ہے قربانیاں صرف غریب عوام نے ہی دی ہیں۔مالی مشکلات پیدا کرنے کے اصل ذمے دار یہی لوگ ہیں جب کہ قربانیاں عوام سے مانگی جاتی ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور اشیائے خورونوش کی گرانی عوام کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔ IMF کی کڑی شرطوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے اور عالمی مالی ادارے جب کوئی قرضہ منظور کر دیتے ہیں تو شاہانہ خرچ اِنہی خیر خواہوں کے شروع ہو جاتے ہیں۔ 
Tumblr media
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی اہل کاروں کی تنخواہوں میں یکمشت اتنا بڑا اضافہ کرنے کی بھلا ایسی کیا بڑی ضرورت آن پڑی تھی کہ پچاس فیصد نہیں سو فیصد نہیں چار سو سے لے کر نو سو فیصدی تک ایک ہی چھلانگ میں بڑھا دی گئی ہیں۔ جب کہ ان بھاری تنخواہوں کے علاوہ دیگر مراعات اور بھی دی جارہی ہیں۔ ان کے گھر کے اخراجات بھی حکومت کے خزانوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔ بجلی، گیس اور ٹیلیفون تک کے بلوں کی ادائیگی عوام کے پیسوں سے کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں حاضری لگانے کے الاؤنس بھی اس کے علاوہ ملتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کیفے ٹیریا میں انھیں لنچ اور ڈنر بھی بہت ہی ارزاں داموں میں ملا کرتے ہیں۔ اِنکے سفری اخراجات بھی عوام کے ٹیکسوں سے پورے کیے جاتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ انھیں اتنی بڑی بڑی تنخواہوں سے نوازا گیا ہے۔ IMF نے ابھی صرف ایک ملین ڈالر ہی دیے ہیں اور ہمارے مسیحاؤں نے فوراً ہی اس میں سے اپنا حصہ سمیٹ لیا ہے، مگر جب یہ قرض ادا کرنے کی بات ہو گی تو عوام سے وصول کیا جائے گا۔
حکومت نے تو یہ کام کر کے اپنے ساتھیوں کی دلجوئی کر دی ہے مگر ہمیں یہ توقع نہ تھی کہ اپوزیشن کے ارکان اس کی اس حرکت پر خاموش رہیںگے۔ پاکستان تحریک انصاف جو ہر حکومتی کام پر زبردست تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے اس معاملے میں مکمل خاموشی طاری کیے ہوئے ہے۔ اس بہتی گنگا میں اس نے بھی اشنان کرنے میں بڑی راحت محسوس کی ہے اور مال غنیمت سمجھ کر جو آتا ہے ہنسی خوشی قبول کر لیا ہے۔ یہاں اسے اپنے غریب عوام کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں آیا۔ کوئی منحنی سی آواز بھی پارلیمنٹ میں بلند نہیں کی۔ غریب عوام کو ابھی تک اس حکومت سے کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا ہے۔ مہنگائی کی کمی کے جو دعوے کیے جارہے ہیں تو زمینی حقائق کے بالکل برخلاف ہیں، کسی شئے کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔ جس آٹے کی قیمت کم کیے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ ایک بار پھر پرانی قیمتوں کو پہنچ چکا ہے۔ عوام کی سب بڑی مشکل بجلی اورگیس کے بلز ہیں۔اس مد میں انھیں ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا ہے۔ 
سردیوں میں صرف تین ماہ کے لیے جو رعایتی سیل حکومت نے لگائی ہے۔ وہ بھی حیران کن ہے کہ جتنی زیادہ بجلی خرچ کرو گے اتنا زیادہ ریلیف ملے گا۔ یعنی گزشتہ برس اِن تین سال میں عوام نے جتنی بجلی خرچ کی ہے اس سے زیادہ اگر وہ اس سال اِن تین مہینوں میں خرچ کریں گے تو حکومت اس اضافی بجلی پر کچھ ریلیف فراہم کریگی۔ سبحان اللہ سردیوں میں عام عوام ویسے ہی کم بجلی خرچ کرتے ہیں انھیں زیادہ بجلی خرچ کرنے پر اکسایا جا رہا ہے۔ یہ ریلیف بھی انھی امیروں کو ملے گا جو سردیوں میں الیکٹرک ہیٹر چلاتے ہیں۔ غریب عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس نام نہاد ریلیف کی تشہیراخبارات میں بڑے بڑے اشتہاروں کے ذریعے کی جارہی ہے جنھیں دیکھ کر عوام قطعاً خوش نہیں ہو رہے بلکہ نالاں اور سیخ پا ہو رہے ہیں ۔ خدارا عقل کے ناخن لیں اورصحیح معنوں میں عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کی کوشش کریں۔ غیرملکی قرضوں سے انھیں نجات دیں اور کچھ دنوں کے لیے سکھ کا سانس لینے دیں۔ ابھی معیشت پوری طرح بحال بھی نہیں ہوئی ہے اور قرض کو مال مفت سمجھ کر اپنے ہی لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسے اس بے رحمی سے خرچ کیا جارہا ہے جیسے پھر کبھی موقع نہیں ملے گا۔ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کا سویا ہوا ضمیراس شاہانہ اخراجات پر نہیں جاگا۔
IMF جو حکومتی ہر اقدام پر کڑی نظر رکھتی ہے وہ بھی نجانے کیوں اس غیر ضروری فراخدلی پر خاموش ہے۔ وہ دراصل چاہتی بھی یہی ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام اسی طرح قرض لینے کے لیے ہمیشہ اس کے محتاج بنے رہیں اور وہ چند ملین قرض دینے کے بہانے ان پر پابندیاں لگاتی رہے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتی کہ ہم اس کے چنگل سے آزاد ہو کر خود مختار اور خود کفیل ہو پائیں۔ اس کی ہشت پالی گرفت ہمیں کبھی بھی اپنے شکنجہ سے نکلنے نہیں دے گی۔ یہ سی پیک اور معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر سب فریب نظر ہیں۔ ہم کبھی بھی اِن سے فیضیاب نہیں ہو پائیںگے۔ ہمیں برباد کرنے کے لیے تو اُن کے پاس بہت سے آپشن ہیں۔ کبھی سیاسی افراتفری اور کبھی منتخب حکومت کی اچانک تبدیلی۔ کبھی ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیاں تو کبھی سی پیک رول بیک کرنے کی کوششیں۔ اسی طرح اور ممالک نے بھی ایسے ہی کئی MOU سائن کیے ہیں لیکن وہ بھی صرف کاغذوں پر موجود ہیں ،عملاً کوئی قدم بھی ابھی نہیں بڑھایا ہے۔ حالات جب اتنے شکستہ اور برے ہوں تو ہمیں اپنا ہاتھ بھی ہولہ رکھنا چاہیے۔ پڑوسی ملک بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے کہیں زیادہ ہیں لیکن وہاں کے پارلیمنٹرین کی تنخواہیں اور مراعات ہم سے بہت ہی کم ہیں۔ یہی سوچ کر ہمارے حکمرانوں کو احساس کرنا چاہیے کہ ہم کیونکر اتنے شاہانہ خرچ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر منصور نورانی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
azharniaz · 24 days ago
Link
0 notes
asliahlesunnet · 3 months ago
Photo
Tumblr media
ماہانہ تنخواہوں سے زکوٰۃ نکالنے کاطریقہ سوال ۳۵۵: ماہانہ تنخواہوں سے زکوٰۃ نکالنے کا کیا طریقہ ہے؟ جواب :اس سلسلے میں سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ اس نے سب سے پہلی تنخواہ جو وصول کی تھی، اس کو جب ایک سال ہو جائے، تو وہ اس سارے مال کی زکوٰۃ ادا کرے جو اس کے پاس موجود ہو۔ اس طرح جس مال پر سال پورا ہوگیا، اس کی زکوٰۃ تو اس نے سال پورا ہونے پر ادا کر دی اور جس مال پر ابھی سال پورا نہیں ہوا، اس کی اس نے پیشگی زکوٰۃ ادا کر دی اور پیشگی زکوٰۃ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، یہ صورت حال اس سے زیادہ آسان ہے کہ انسان ہر مہینے کا علیحدہ علیحدہ حساب رکھے۔ یاد رہے کہ اگر دوسرے مہینے کی تنخواہ ملنے سے پہلے، پہلے مہینے کی تنخواہ خرچ ہو جائے تو اس صورت میں زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ مال میں زکوٰۃ کے وجوب کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس پر ایک سال گزر جائے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۴۶، ۳۴۷ ) #FAI00282 ID: FAI00282 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
dpr-lahore-division · 3 months ago
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس ، محکمہ تعلقات عامہ ، حکومت پنجاب ، شیخوپورہ
ہینڈ آﺅٹ نمبر: 10331
30 ستمبر:- ڈپٹی کمشنر شیخوپوره شاہد عمران مارتھ نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی خصوصی ہدایت پر بھٹہ مزدوروں کے حقوق کا مکمل تحفظ اور کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں، مزدوروں کیلئے زیادہ سے زیادہ سوشل سیکورٹی کارڈز کے اجراء اور اور سرکار کی جانب سے طے کردہ مزدور کی کم سے کم تنخواہ کی ادائیگی پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے ، اس سلسلے میں تاخیر ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار ڈسٹرکٹ ویجیلنس کمیٹی کے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا ۔ سی ای او ہیلتھ اتھارٹی ڈاکٹر صدیق بلوچ ، ڈپٹی ڈائریکٹر لیبر ، تحفظ ماحولیات ، سوشل سیکورٹی آفیسر ، فوکل پرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سمیت دیگر ضلعی افسران ، بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے عہدیداران ، بھٹہ ورکرز یونین کے عہدیداران نے اجلاس میں شرکت کی ۔ اجلاس میں بھٹہ جات کے متعلق شکایات ، بھٹہ خشت مزدوروں کی ویکسی نیشن ، کم از کم اجرت پر عملدرآمد ، جبری مشقت ، چائلڈ لیبر ، سوشل سیکورٹی کارڈز کے اجراء سمیت دیگر معاملات کا تفصیلی جائ��ہ لیا گیا۔ محکمہ لیبر کی جانب سے ضلع بھر میں چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں اور کم اجرت دینے والوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے متعدد اینٹوں کے بھٹوں سمیت دوکانوں پر انسپکشن کی گئی ہے ، کم مزدوری دینے والے کاروباری حضرات کے چالان عدالت کو بھجوا دیے گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر شاہد عمران مارتھ نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی اور رائج کردہ مزدوری نہ دینے والوں کے خلاف متعلقہ محکمے یکجا ہو کر کاروائیاں کریں ، چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا جائے اور رائج کردہ تنخواہوں پر سمجھوتہ نہ کیا جائے کیونکہ پوری تنخواہ کی وصولی ورکرز کا حق ہے۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپوره نے ڈپٹی ڈائریکٹر لیبر کو ہدایت کی ہر مزدور کو سوشل سیکورٹی کارڈ کی فراہمی یقینی بنانے کیلۓ موثر اور قابل عمل میکانزم پر مکمل عملدرآمد یقینی بنایا جاۓ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 notes
shiningpakistan · 4 months ago
Text
’عدلیہ وکٹری کے نشان والے ہجوم کے نرغے میں‘
Tumblr media
سنا ہے کوئی زمانہ تھا جب کوئی سینیئر قانون دان جج کی کرسی پر بیٹھتے ہی دنیا تیاگ دیتا تھا۔ اپنا سماجی حقہ پانی خود ہی بند کر لیتا۔ شادی، بیاہ، سالگرہ، برسی، جنازے اور سیمیناروں میں جانا حرام کر لیتا۔ سوائے گھر والوں، قریبی عزیزوں یا دو چار پرانے دوستوں کے کسی دور پرے کے رشتہ دار یا واقف کار سے ملنا گناہ سمجھتا۔ سنا ہے مائی لارڈ کی کسی بھی وکیل سے صرف کمرہِ عدالت میں ہی ملاقات ممکن تھی۔ ججز چیمبرز میں پیش کار، رجسٹرار یا نائب قاصد کے سوا تیسرا شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جسے بھی کچھ کہنا سننا یا درخواست دینا مقصود ہو اس کے لیے عدالتی سیکرٹیریٹ کا نظام آج کی طرح کل بھی تھا۔ جج کا رابطہ اسی نظام کے توسط سے سرکار اور عوام سے رہتا تھا۔ جج کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ خود نہیں بولتا اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ آج جب ہم اس طرح کے قصے سنتے ہیں تو یہ کوئی افسانہ یا سوشل ناول کا کوئی باب معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے ایسے جج ضرور دیکھے ہوں گے۔ ہم نے تو نہیں دیکھے۔
ہم نے تو عزت مآب کو ہر طرح کی تقریبات، کانفرنسوں، صحت افزا مقامات اور سب سے زیادہ ٹی وی چینلز کی پٹیوں میں دی��ھا ہے۔ ��ھلا ہو میڈیائی کیمرے کے سحر کا کہ عدالتی کارروائی لائیو براڈ کاسٹ ہونے لگی۔ وکلا کو آستین چڑھاتے منھ سے تھوک نکالتے مائی لارڈ سے بدتمیزی کی سوشل میڈیا ویڈیوز دیکھی ہیں۔ لیک ہونے والی خفیہ ٹیپس سنی ہیں۔ خفیہ فلمیں افشا ہوتی دیکھی ہیں۔ توہینِ عدالت کو ایک پامال روایت بنتے دیکھا ہے۔ پلاٹوں اور بے نامی کاروبار سے لگنے والی چھوت کی بیماری دیکھی ہے، بے باک اور اصول پسند ججوں کا گھیراؤ اور کردار کشی کی مہم دیکھی ہے۔ اپنی اپنی پسند کے فیصلوں پر موکلوں کی جانب سے قصیدہ خوانی اور ناپسندیدہ فیصلوں پر جج کی ذات پر رکیک اور گھٹیا حملے دیکھے ہیں۔ نامعلوم سایوں کو ججوں، ان کے اہلِ خانہ اور جاننے والوں کو ہراساں کرتے سنا ہے اور ان کی نجی زندگی میں براہ راست مداخلت کی داستانیں خود ان ججوں کی زبانی سنی ہیں۔
Tumblr media
عدالتوں کے اکثر فیصلے یقیناً آج بھی منصفانہ اور معیاری ہوتے ہیں۔ مگر اس مطالبے کا کیا کیا جائے کہ میرا مقدمہ فلاں کے بجائے فلاں جج سنے۔ ان سرگوشیوں سے کیسے کان بند کریں کہ بس اس جج کو ریٹائر ہونے دو۔ اس کے بعد آنے والا معاملات سیدھے کر دے گا۔ کئی وکلا اور پیش کاروں کو پسندیدہ فیصلوں کے لیے دلالی کا دعوی کرتے سنا ہے۔ عمارت ایک دن میں نہیں گرتی۔ نہ ہی ایک ضرب سے گرتی ہے۔ مگر ہر ضرب اسے کمزور ضرور کرتی چلی جاتی ہے۔ بھلا کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے برسراقتدار آ کر ججوں کو طرح طرح کی ترغیبات اور بعد از ریٹائرمنٹ پیش کشوں سے رجھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ عدلیہ کے احترام کی تسبیح پڑھتے پڑھتے ہجوم اکھٹا کر کے انصاف کے ایوان پر چڑھ دوڑنے اور عدلیہ کو ’ساڈے تے پرائے‘ میں تقسیم کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ کون سی سرکار ہے جس نے عدلیہ کے ناپسندیدہ فیصلوں پر بھی بلا چون و چرا مکمل عمل کیا ہو۔ بلکہ ناپسندیدہ فیصلوں کو مسخ کرنے کے لیے آئین کو موم کی ناک بنا کر استعمال نہ کیا ہو۔
آخر ایسا کیا ہوا کہ اس زمین پر انصاف کی مقدس نشست پر بیٹھنے والی جس ہستی کو عام آدمی واقعی خدا کا نائب سمجھتا تھا۔ اب وہی آدمی شاید ہی کسی جج کو رول ماڈل سمجھتا ہو۔ سوچیے ایسے کروڑوں انسانوں کی تنہائی کا کیا عالم ہو گا جنھیں زمین پر انصاف کی آخری امید جج میں نظر آتی تھی اور اب اس کی پتھرائی ہوئی آنکھ صرف آسمان کی جانب ہی مرکوز ہے۔ عمارت ایک ضرب سے منہدم نہیں ہوتی۔ خود ججوں نے انصاف کے مندر کے ساتھ کیا کیا؟ پہلی کاری ضرب اندر سے جسٹس منیر کے نظریہِ ضرورت نے لگائی۔ اس نظریے نے آئینی حرام کو بیک قلم حلال قرار دے دیا۔ یہ نظریہ آج ستر برس بعد بھی شکل بدل بدل کے آئین کو بھوت کی طرح ڈراتا رہتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدلیہ کے حلق میں آج بھی کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ نہ اُگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ کسی آمر کے کرسی پر متمکن ہوتے ہوئے کسی عدالت نے مارشل لا کو بالائے آئین شب خون قرار نہیں دیا گیا۔ یحییٰ خان اور پرویز مشرف کو بھی معزولی کے بعد غاصب ڈکلیئر کیا گیا۔ بلکہ ہر طالع آزما کو آئین سے کھلواڑ کا انعام عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھا کے دیا گیا۔ 
غیر منظورِ نظر سیاسی حکومتوں کا باہم مل کے ہانکا کیا گیا اور منظورِ نظر کے سات گناہ بھی درگذر ہو گئے۔ اب یہ کوئی خبر نہیں کہ عدلیہ نے اپنی پنشنوں اور تنخواہوں میں ازخود کتنا اضافہ کر لیا۔ کتنے جج باقی ہیں جنھیں حاصل سرکاری مراعات و وسائل کا اہلِ خانہ استعمال نہیں کرتے۔ بہت عرصے سے یہ خبر بھی تو نہیں آئی کہ کسی جج نے یہ مراعات لینے سے صاف انکار کر دیا۔ زیریں سے اعلیٰ عدالتوں میں روزانہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے مگر مقدمات کا انبار ہے کہ سال بہ سال بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس انبار کے سبب جنتا کے عدم اعتماد کا بوجھ بھی پہاڑ ہوتا جا رہا ہے۔ جب سب نے ریاستی استحکام کے نام پر عدم استحکام کے ہتھوڑوں سے اپنے ہی اداروں کو ضرب در ضرب کمزور کرنا شروع کر دیا تو پھر ہجوم بھی دلیر ہوتا چلا گیا۔ پارلیمنٹ بانجھ ہوئی تو فیصلے سڑک پر ہونے لگے۔ حتیٰ کہ غضب ناک ہجوم کے دباؤ کی تپش اعلیٰ عدالتوں کے کمروں میں محسوس ہو رہی ہے۔ 
اب تک ججوں کے فیصلوں پر جج ہی نظرثانی کرتے آئے ہیں۔ مگر یہ چلن بھی دیکھنا پڑ گیا ہے کہ اب ہجوم کے سرخیل ابھی اور اسی وقت فیصلے پر نظرِ ثانی کی دھمکی آمیز درخواست کرتے ہیں اور لجلجاتے کمرہِ عدالت میں اندر کے شور سے زیادہ باہر کھڑے ہجوم کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔ مگر عدالت بھی خلا میں تو سماعت نہیں کرتی۔ عدالت کے پیچھے جب ریاست اور سماج کھڑا ہوتا ہے تو اس کے فیصلوں کا معیار ہی کچھ اور ہوتا ہے اور جب ریاست اور سماج بھی عدلیہ کو بے توقیری کی جانب دھکیلنے پر سڑک سے ہاتھ ملانے پر تل جائیں تو پھر عدالت اور جرگے میں تمیز کہاں رہتی ہے۔ ہم نے مسلسل ساڑھے سات دہائیوں تک زوال کو عروج تک پہنچانے کے لیے خوب محنت کی اور اب اس محنت کا ثمر ادارہ جاتی انہدام کی شکل میں اپنے سامنے دیکھ کر خود ہی وکٹری کا نشان بھی بنا رہے ہیں۔
خدا بچائے کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ ابھی تو کچھ نہیں ہوا ابھی تو ابتدا ہے یہ ( حمایت علی شاعر )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
airnews-arngbad · 5 months ago
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 26 August-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ:  ۲۶؍ اگست  ۲۰۲۴ء؁
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
                ٭             ریاستی ملازمین کیلئے تصحیح شدہ قومی پنشن اسکیم ناف�� کرنے کے فیصلے کوریاستی کابینہ کی منظوری۔
                ٭             ملک میں طاقت ِ نسواں کےتحفظ کو اولین ترجیح دینے کا وزیر اعظم کا عزم؛ جلگاؤں میں منعقدہ پروگرام میں بچت گروپوں کیلئےڈھائی ہزار کروڑ روپے کا گشتی فنڈ جاری ۔
                ٭             ناندیڑ کے رکنِ پارلیمان وسنت چوہان کا انتقال؛ کل آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔
اور۔۔۔٭     مر اٹھو اڑہ سمیت ریاست بھر میں بارش کا سلسلہ جاری، جائیکواڑی آبی منصوبے میں 44 فیصدپانی کا ذخیر۔
***** ***** *****
                اب خبریں تفصیل سے:
                مرکزی حکومت کےماتحت افسران اور ملازمین کی طرز پر ریاستی حکومت کے افسران اور ملازمین کیلئے بھی تصحیح شدہ قومی پنشن اسکیم کے نفاذ کوریاستی کابینہ نے کل منظوری دے دی ہے۔ مارچ 2024 سے اس اسکیم پر عمل آوری کی جائے گی اور ریاستی حکومت کے خدمات پر مامور تقریباً18  لاکھ سے زیادہ ملازمین اس سے مستفید ہوں گے۔ اس اسکیم کا انتخاب کرنے والےملازمین کو ان کی آخری تنخواہ کے 50 فیصد کے برابر سبکدوشی وظیفہ اور مہنگائی اضافے کےعلاوہ سبکدوشی وظیفے کے 60 فیصد کے برابر فیملی پنشن ملے گی۔
                ریاستی کابینہ نے کسانوں کو دن میں غیر مسدود بجلی فراہم کرنے کی اسکیم کی مدتِ کار میں توسیع کرنے کے فیصلےکو بھی منظوری دی۔ اسی طرح نار-پار-گرنا ندی جوڑنے کے منصوبے کو بھی حکومت نے کل منظوری دی۔سات ہزار 15 کروڑ روپے کے اس پروجیکٹ سے ناسک، جلگاؤں ضلع کو کافی فائدہ پہنچے گا۔
                اسی طرح محکمہ صحت میں برسرِکار گروپ پروموٹرز کی تنخواہوں میں چار ہزار روپئے کا اضافہ، 30 اگست تک سرکاری ملازمین کے تبادلے کرنے اور بزرگ شہریوں کیلئے فلاحی کارپوریشن قائم کرنے کا فیصلہ بھی کل منعقدہ کابینی اجلاس میں لیا گیا۔
***** ***** *****
                 ملک میں طاقت نسواںکے تحفظ کو اولین ترجیح دینا ہی مرکزی حکومت کا مقصد او ر مؤقف ہے اور اس نسوانی طاقت پر کوئی ظلم کرتا ہے تو یہ ناقابل معافی گناہ ہے۔ اس طرح کا انتباہ وزیر اعظم نریندر مودی نے دیا۔ کل جلگاؤں میں وزیر اعظم نے ملک کے مختلف گوشوں سے آئی ہوئی لکھ پتی دیدی اسکیم کی مستفید خواتین سے بات چیت کی۔ اس موقعے پر وزیر اعظم نے کہا کہ طاقت ِ نسواں نے سماج اور قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس پروگرام میں 11 لاکھ مستفیدین کا اسن��د دیکر اعزاز کیا گیا۔ وزیر اعظم نے خود مدد گروپس کیلئے 2500 کروڑ روپے کا گشتی فنڈ بھی جاری کیا جس سے چار لاکھ تین ہزار بچت گرو پس کے تقریباً   48 لاکھ اراکین مستفید ہوں گے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے ہاتھوں پانچ ہزار کروڑ روپے کا بینک قرض بھی بچت گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ دو لاکھ 35 ہزار بچت گروپس کے 25 لاکھ آٹھ ہزار اراکین کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔
                 گزشتہ 10 سالوں میں ایک کروڑ لکھ پتی دیدی بنائی گئی تھیں اور صرف دو ماہ میں اس ایک کروڑ میں مزید 11 لاکھ دیدی شامل کیے جانے کی بات وزیراعظم نے بتائی۔ انھوں نے کہا:
’’تین کروڑ ایسی بہنیں جو سیلف ہیلپ گرو پس کیلئے کام کرتی ہیں‘ جن کی ایک سال کی کمائی ایک لاکھ ��وپئے سے ادھک ہوگی‘ بیتے دس ورشوں میں ایک کروڑ لکھ پتی دیدی بنیں اور صرف دو مہینے میں گیارہ لاکھ اور لکھ پتی دیدی اُس میں جڑگئیں۔‘‘
                اس تقریب میں لکھ پتی دیدی کی جانب سے تحائف دیکر وزیرِ اعظم کااستقبال کیا گیا۔ قبل ازیں وزیرِ اعظم مودی نے منتخبہ خواتین سے بات چیت کی۔ جلگاؤں میں داخل ہوتے ہی، وزیر اعظم کا روایتی طریقے سے استقبال کیا گیا۔
                ریاستی گورنر سی۔ پی۔ رادھا کرشنن، وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے، نائب وزرائے اعلیٰ اجیت پوار اور دیویندر پھڑنویس، مرکزی وزیرِ زراعت شیوراج سنگھ چوہان، بہبودِ خواتین و اطفال محکمے کی وزیر آدیتی تٹکرے، جلگاؤں ضلعے کے رابطہ وزیر گلاب راؤ پاٹل اس تقریب میں موجود تھے۔
                اس موقعے پر وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے اپنے خطاب میں ملک کو سپر پاور بنانے کیلئے خواتین کی شراکت داری کو ضروری بتاتے ہوئے اس مقصدکیلئے لکھ پتی دیدی اسکیم رہنما ثابت ہونے کا یقین ظاہر کیا۔ انہوں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے حکومت کےمنصوبوں کی وجہ سے دیہی علاقوں میں پچھلے دس سالوں میں دس کروڑ خواتین اپنے پیرو ں پر کھڑے ہونے کا دعو یٰ بھی کیا۔
                 نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے خواتین کو خودکفیل بنانے کیلئے ریاستی حکومت کی طرف سے کیے جا رہے کاموں کی اس موقعے پر جانکاری دی۔ وزیر اعظم نےتین کروڑ خواتین کو لکھ پتی دیدی بنانے کا خواب دیکھا ہے اور اس خواب کو پورا کرنے کیلئے مہاراشٹر میں 50 لاکھ خواتین کو لکھ پتی دیدی بنانے کا عزم نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نےظاہر کیا۔
***** ***** *****
                دھاراشیو ضلعے کے واشی تعلقے کے پارگاؤں، پارا، تیرکھیڑا میں بھی لکھ پتی دیدی کا پروگرام منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں لکھ پتی دیدی اسکیم کی مستفید خواتین کو سرٹیفکیٹس تفویض کیے گئے۔
***** ***** *****
                ناندیڑ کے رکنِ پارلیمان وسنت چوہان کا آج طویل علالت کے باعث انتقال ہوگیا۔ وہ 70 برس کے تھے۔ گذشتہ کئی روز سے حیدرآباد کے کِمس اسپتال میں وہ زیرِ علاج تھے۔ حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں وسنت را ئو چوہان نے بی جے پی کے پرتاپ ر ائو پاٹل چکھلیکر کو بڑے فرق سے شکست دی تھی۔
                وسنت چوہان کا سیاسی سفر 1978 میں شروع ہوا تھا اور وہ نائیگائوں کے سرپنچ منتخب ہوئے تھے‘ جبکہ سال 2002 میں وہ ضلع پریشد کیلئے منتخب ہوئے‘ اور اس کے فور ی بعد ہی قانون ساز کونسل کیلئے ان کا انتخاب عمل میں آیا۔ 2009 میں نائیگائوں اسمبلی حلقہ وجود میں آنے کے بعد وہ اس حلقے کے اوّلین رکنِ اسمبلی بنے۔
                اُن کی آخری رسومات کل صبح گیارہ بجے نائیگا ئوں میں ادا کیے جانے کی اطلاع اُن کے اہلِ خانہ نے دی ہے۔
***** ***** *****
                ملک کی آزادی کیلئے بہت سے مجاہدین نے کوئی سیاسی پس منظر نہ ہونے کے باوجود تحریکِ آزادی کی جدوجہد میں خود کو وقف کر دیا۔ ترقی یافتہ بھارت کے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے آج ایسے ہی جذبے سے سرشار لوگوں کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ بات کہی۔ کل آکاشوانی پر نشر ہونے والے پروگرام ’’من کی بات‘‘ کے توسط سے وزیرِ اعظم مودی نےاہلِ وطن سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج نوجوانوں کی ایک بڑی ��عداد سیاست میں آنے کیلئے تیار ہے اور انہیں صرف رہنمائی اور مناسب موقع دینے کی ضرورت ہے۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں۔
***** ***** *****
                ریلوے کے مرکزی وزیرِ مملکت رَونیت سنگھ نے یقین دلایا ہے کہ گرو گووِند سنگھ جی کے قدموں سےمستفیض ہونے والے ناندیڑ ریلوے اسٹیشن کومستقبلِ قریب میں تمام سہولیات سے مزین کیا جائے گا۔ انہوں نے کل ناندیڑ میں ایک خصوصی ٹرین کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا، اس موقعے پر وہ مخاطب تھے۔ شہید بابا بھجنگ سنگھ جی چیریٹیبل ٹرسٹ کی جانب سے آئندہ 6 ستمبر تک پنچ تخت صاحب کے درشن کیلئےاس خصوصی ٹرین یاترا کا اہتمام کیاگیا ہے۔ اس یاترا کی پہلی ٹرین کل روانہ ہوئی۔
***** ***** *****
                ریاست کے مختلف مقامات پر کل بھی بارش کا سلسلہ جاری رہا‘ جس کی وجہ سے بیشتر آبی منصوبوں سے پانی کا اخراج جاری ہے۔
                مراٹھواڑہ میں گذشتہ دو دِنوں سے اطمینان بخش بارش ہورہی ہے۔ چھترپتی سمبھاجی نگرشہر اور ضلع میں کل دن بھر بارش کا سلسلہ جا ری رہا۔ ضلعے میں اب تک سالانہ اوسط 94 اعشاریہ نو فیصد، جالنہ ضلعے میں 95 اعشاریہ پانچ فیصد، جبکہ بیڑ ضلعے میں 97 فیصد بارش ہوئی ہے۔
                جالنہ ضلعے کی دودھنا ندی کی سطح آب میں اضافہ ہوا ہے اور کئی پشتے لبریز ہوکر بہنے لگے ہیں۔ بیڑ ضلعے کی مانجرا ندی میں آئی طغیانی سے کیج اور کلمب تعلقوں کی سرحد پر فخرآباد پشتہ پھوٹنے سے بیڑ اور دھارا شیو ضلعوں میں ٹریفک نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔
                ناسک شہر سمیت ضلع بھر میں کل موسلادھار بارش ہوئی۔ گنگاپور آبی پشتے سے پانی کا اخراج جاری رہنے سے گوداوری ندی میں طغیانی آئی ہوئی ہے۔ گنگاپور آبی پشتے سے آٹھ ہزار 427‘ د ارنا آبی پشتے سے 14 ہزار 416جبکہ ناندور۔ مدھمیشور سے 52ہزار 308 کیوبک فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے پانی کا اخراج جاری ہے۔ ناسک شہر کے ر ام کُنڈ علاقے کے کئی منادر زیرِ آب آچکے ہیں۔
                چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے کے پیٹھن کے جائیکواڑی آبی پشتے میں 58  ہزار 799 کیوبک فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے پانی کی آمد جاری ہے‘ جبکہ جائیکواڑی کی آبی سطح 44 فیصد تک جاپہنچی ہے۔ نئی ممبئی‘ پال گھر، کولہاپور، ستارا، نندوربار، دھولیہ اضلاع میں بھی کل زوردار بارش ہوئی اور آبی پشتوں سے پانی کا اخراج کیا گیا۔
***** ***** *****
                جالنہ صنعتی بستی کے گج کیسری اسٹیل کارخانہ میں ہوئے دھماکے میں ایک زخمی مزدور کی چھترپتی سمبھاجی نگر کے نجی اسپتال میں دورا نِ علاج کل موت واقع ہوگئی‘ فوت شدہ ملازم کا نام رام شریشٹھ بھٹوریاہے‘ جبکہ اس حادثے میں زخمی ہونے والے دیگر تین مزدوروں کی حالت تشویشناک ہونے کی اطلاع پولس ذرائع نے دی ہے۔
                دریں اثنا‘ اس معاملے میں چندن جھیرا پولس اسٹیشن میں شکایت درج ہونے کے بعد گرفتار شدہ کمپنی مالک سمیت دیگر دو ملزمین کی عد الت نے ضمانت منظور کرلی۔
***** ***** *****
                شیوسینا اُدّھو باڑا صا حب پارٹی کے یووا سینا کے صدر و رکنِ اسمبلی آدتیہ ٹھاکرے چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے کے دورہ پر ہیں اور کل انھوں نے پارٹی کارکنان سے تبادلۂ خیال کیا۔ انھوں نے کارکنان کو ریاست میں اقتدار کی تبدیلی کیلئے متحدہ طور پر کام کرنے کی ترغیب دی۔ بے روزگاری‘ خواتین کے تحفظ جیسے موضوعات پر انھوں نے حکومت پر نکتہ چینی بھی کی۔ آدتیہ ٹھاکرے آج بھی ضلع کے مختلف علاقو ں کا دو رہ کرکے کسانوں سے بات چیت کریں گے۔
***** ***** **
0 notes
risingpakistan · 8 months ago
Text
نجکاری کی راہ میں رکاوٹیں
Tumblr media
نجکاری پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت پاکستان کے نقصان کرنے والے اداروں کی صورتحال یہی ہے کہ نقصان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ جو برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے ان اداروں سے جان چھڑانا لازمی ہو گیا ہے۔ خسارے میں چلنے والے ادارے کئی ہیں لیکن آجکل پی آئی اے کی نجکاری کی بہت بات ہو رہی ہے۔ تا ہم پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر اس کی نجکاری کی مخالفت کر رہی ہے‘ اس طرح نجکاری کو دوبارہ متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے‘ ہمیشہ ہی ایسا ہوا ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے حکومتی تحویل میں موجود ائیر لائنز سے جان چھڑا لی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کافی سال پہلے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں۔ حکومت ریگولیٹر تو ہو سکتی ہے۔ لیکن حکومت خود کامیاب کاروبار نہیں کر سکتی ۔ اسی لیے آج جب لوگ پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کر رہے ہیں تو یہ سوال جائز ہے کہ کیا برطانیہ کی حکومت کوئی ائیر لائن چلا رہی ہے؟ کیا امریکا کی حکومت کوئی ائیر لائن چلا رہی ہے؟ کیا یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کوئی ائیر لائن چلا رہے ہیں؟ جواب یہی ہے کہ ان سب ممالک نے کئی سال پہلے اپنے اپنے ممالک کی ائیر لائنز کی نجکاری کر دی تھی۔ بھارت نے بھی سرکاری ائیر لائن کی نجکاری کر دی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ مسئلہ بن گیا ہے۔
پی آئی اے کا خسارہ ناقابل برداشت ہو چکا ہے‘ ہر حکومت اس مسئلہ سے آگاہ بھی ہے لیکن نجکاری کی سیاسی قیمت سے ڈر جاتی ہیں‘ حکومت نجکاری چاہتی ہے لیکن اپوزیشن نجکاری کی مخالفت کرتی ہے۔ جب اپوزیشن حکومت میں آتی ہے تو اس کے پاس بھی نجکاری کے سوا کوئی حل نہیں نظر آتا ہے۔ ہم نے پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں کو دیکھ لیا ہے۔ کسی کے پاس بھی نقصان میں چلنے والے کسی ادارے کا کوئی حل نظر نہیں آیا۔ تحریک انصاف کے دور میں بھی اداروں میں نقصان بڑھا ہے۔ پی آئی اے کو چھوڑیں آپ اسٹیل مل کی مثال ہی لے لیں۔ جب ن لیگ نے اس کی نجکاری شروع کی تھی تو تحریک انصاف نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ اسد عمر اسٹیل مل پہنچ گئے تھے۔ اعلان کیا تھا کہ ہم اس کو چلائیں گے۔ اس کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن پھر کیا ہوا ۔ چار سال تحریک انصاف کی حکومت رہی۔ اسٹیل مل کے نقصان میں اضافہ ہوتا رہا۔ نجکاری بھی نہیں ہوئی اور نقصان بھی بڑھتا رہا۔ ملازمین گھر بیٹھ کر تنخواہیں لیتے رہے۔ صاف بات ہے کہ اگر تحریک انصاف کے پاس کوئی پلان یا منصوبہ ہوتا تو وہ ضرور استعمال کرتے۔ لیکن شاید انھیں بھی علم تھا کہ نجکاری کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ لیکن سیاسی قیمت کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔
Tumblr media
جب بھی کوئی حکومت اس کی نجکاری کا عمل شروع کرتی ہے تو اسکینڈل شروع ہو جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے کوشش کی لیکن سیاسی اسکینڈل کی وجہ سے ڈر گئی۔ سب ڈر گئے کوئی بھی اپنے ذمے کوئی اسکینڈل نہیں لینا چاہتا۔ اس لیے قدم بڑھانے سے ڈرتا ہے۔ تمام نقصان کرنے والے اداروں کے ساتھ یہی صورتحال ہے۔ آج پی آئی اے کی پھر وہی صورتحال ہے۔ ملازمین کو نکالا نہیں جا سکتا، جہاز خریدے نہیں جا سکتے‘ پھر کیا کیا جائے۔ نجکاری ہی واحد راستہ ہے۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نقصان سے بچنا اصل ہدف ہے۔ لیکن کوئی یہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہر کوئی نیب سے ڈرتا ہے۔ آج پیپلزپارٹی پھر مخالفت کر رہی ہے حالانکہ پی آئی اے کے زوال میں پیپلز پارٹی کا بھی حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں پی آئی اے میں ضرورت سے زائد بھرتیاں کی ہیں۔ یوں ادارے پر تنخواہوں اور مراعات کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ 
اب فالتو ملازمین کو نکالنا بھی ایک عذاب بن گیا ہوا ہے۔ جیسے اسٹیل مل کے ملازمین کو نکالنا بھی ایک عذاب بن گیا ہوا ہے، ان کو نکالنے کی سیاسی قیمت ادا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ جب ن لیگ کے گزشتہ دور میں پی آئی اے کی نجکاری کی بات شروع ہوئی تھی تو کراچی میں احتجاج شروع ہوا جس کی وجہ سے معاملہ رک گیا۔ میں سمجھتا ہوں اب معاملات وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں سے اب کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اب سیاسی قیمت کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ریاست کے پاس اب کوئی گنجائش ہے۔ اب سیاسی قیمت سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔  خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری پہلے ہونی چاہیے۔ حکومتی رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ نجکاری میں کسی کو بھی دے دیں اسکینڈل تو بننا ہے۔ لوگ باتیں تو کریں گے۔ کہانیاں تو بنیں گی۔ لیکن معاملہ معیشت کا ہے۔ اس لیے ذمے داری نبھانا ہو گی۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔
مزمل سہروردی 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوگا، بجلی، گیس کے ریٹ بڑھیں گے، نئے ٹیکسز کا نفاذ، حکومت کے آئی ایم ایف سے وعدے
نگران حکومت کی جانب آئی ایم ایف پروگرام جاری رکھنے کیلئے کیے گئے وعدے سامنے آگئےدستاویز کے مطابق  رواں مالی سال پنشن اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں  کیا جائے گا، توانائی کی قیمتوں کو بروقت بڑھا کر سبسڈی کا بوجھ کم سے کم کرنےکی کوشش کی جائے گی۔ دستاویز کے مطابق وفاقی ترقیاتی بجٹ میں ترجیحات بہتر بناکر اکسٹھ ارب روپے کی بچت کا وعدہ کیا گیا ہے، توانائی کی قیمتوں کو بروقت بڑھا کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
topurdunews · 3 months ago
Text
خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نمائندوں کی تنخواہوں میں 50 ہزار روپے کا اضافہ
(عامر شہزاد)وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت عمران خان کے وژن کے مطابق بلدیاتی حکومتوں کو مالی اور انتظامی طور بااختیار بنانے کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے،تحصیل چیئرمینز کی مالی مراعات 30 ہزار ماہانہ سے بڑھا کر 80 ہزار ماہانہ کردی گئیں ہیں۔  وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیرصدارت بلدیاتی حکومتوں کے متعلق اجلاس ہوا جس میں صوبائی وزیر بلدیات ارشد…
0 notes
googlynewstv · 6 months ago
Text
 سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافےکا آڈرجاری
حکومت پنجاب نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کا آڈر جاری کر دیا ۔ آڈر کے مطابق گریڈ ایک سے سولہ تک  کے ملازمین میں کی تنخواہ میں پچیس فیصد اضافہ کیاجائے گا گریڈ سترہ سے گریڈ بائیس کے افسران کی تنخواہ میں بیس فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ گریڈ ایک سے سولہ تک  کے ملازمین میں کی تنخواہ میں پچیس فیصد اضافہ کیاجائے گا۔گریڈ سترہ سے گریڈ بائیس کے افسران کی تنخواہ میں بیس فیصد اضافہ کیا جائے…
0 notes
emergingpakistan · 10 months ago
Text
قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟
Tumblr media
نئی قومی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے۔ اس کے پہلے اجلاس کا ماحول دیکھا تو کرامزن کے ناول کا وہ چرواہا یاد آ گیا جو آتش فشاں پر بیٹھ کر بانسری بجا رہا تھا۔ میں نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ قومی اسمبلی کے ماحول سے لطف اندوز ہونے والوں کو کیا یہ معلوم ہے کہ قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے؟ کچھ نے حیرت کا اظہار کیا، بعض نے اپنے تئیں تصحیح فرمانے کی کوشش کی کہ شاید یہ رقم آٹھ لاکھ ہے جو غلطی سے آٹھ سو لاکھ لکھ دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی ایک سال میں قریب 135 دن اجلاس منعقد کرتی ہے۔ 2017 کے اسمبلی بجٹ کے مطابق پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچ ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ تھا۔ اس دوران کئی بار تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیے گئے۔ پوچھنے والا تو کوئی تھا نہیں کہ پارلیمان خود ہی فیصلہ ساز تھی اور اپنی مراعات کے فیصلے خود ہی کرتی تھی۔ ساتھ ہی مہنگائی بھی بڑھ رہی تھی اور اوسط اخراجات برھتے ہی جا رہے تھے۔ چند سال تک میں اس مشق سے جڑا رہا اور مراعات و معاوضے میں اضافے اور مہنگائی کی شرح کے حساب سے تخمینہ لگ��تا رہا کہ بات اب کہاں تک پہنچی ہے۔
قریب 2020 میں تنگ آ کر اور تھک کر جب میں نے یہ سلسلہ منقطع کر دیا کیونکہ متعلقہ وزارتوں سے تازہ ترین معلومات اکٹھے کرتے رہنا ایک بلاوجہ کی مشقت تھی اور اس سے بہتر تھا کہ جنگل میں جا کر کسی چرواہے سے بانسری سن لی جائے۔ جس وقت یہ سلسلہ منقطع کیا اس وقت تک محتاط ترین اندازے کے مطابق یہ اخراجات دگنے ہو چکے تھے۔ اس کے بعد مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ الامان۔ اخراجات، مہنگائی اور افراط زر کی شرح کے مطابق اگر جمع تقسیم کی جائے اور انتہائی محتاط جمع تقسیم کی جائے تو اس وقت قومی اسمبلی کا ایک دن کا اجلاس قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے۔ نہ جھکنے والے ، نہ بکنے والے ، عوام کے خیر خواہ ، کردار کے غازیوں اور بے داغ ماضیوں میں سے کوئی ایوان میں سوال کر دے کہ اسمبلی کے آخری مالی سال کے بجٹ کے مطابق تازہ ترین اعدادو شمار کیا ہیں اور مہنگائی کی اس لہر میں قومی اسمبلی کے ایک دن کا اجلاس اوسطا قوم کو کتنے میں پڑتا ہے تو جواب سن کر شاید بہت ساروں کو دن میں وہ تارے بھی نظر آ جائیں جو آج تک ماہرین فلکیات بھی نہیں دیکھ سکے۔
Tumblr media
سوال البتہ اخراجات کا نہیں ہے۔ پارلیمان چلانی ہے تو اخراجات تو اٹھیں گے۔احساس کیا جائے تو اخراجات کم ضرور ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی ہوں گے تو سہی۔ اس لیے سوال اخراجات کا نہیں بلکہ کارکردگی کا ہے۔ چارجڈ ماحول میں ایک آدھ اجلاس تلخی اور اودھم کی نذر ہو جائے تو یہ ایک فطری سی بات ہے۔ لیکن اگر یہ مشق مسلسل جاری رہنے لگے تو پھر یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ عالم یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کی دفعہ 5 کے مطابق صرف ایک چوتھائی اراکین بھی موجود ہوں تو کورم پورا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم اکثر یہ خبر پڑھتے ہیں کہ کورم ٹوٹ گیا اور اجلاس ملتوی ہو گیا۔ گزشتہ سے پیوستہ سابقہ اسمبلی کے 74 فیصد اجلاس کا عالم یہ تھا کہ ان میں حاضری ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔ اس اسمبلی میں پارلیمانی لیڈروں میں سب سے کم حاضریاں عمران خان کی تھیں تو اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا تھا کہ وہ اس اسمبلی کو دھاندلی کی پیداوار سمجھتے ہیں لیکن اب جس اسمبلی نے انہیں وزیر اعظم بنایا تو اس میں ان کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ پہلے 34 اجلاسوں میں وہ صرف چھ اجلاسوں میں موجود تھے۔
اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت ارکان کو باقاعدہ چھٹی کی درخواست دینا ہوتی ہے لیکن ریکارڈ گواہ ہے کہ اس تردد میں اراکین اسمبلی تو کیا، خود سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی نہیں پڑتے۔ ہر محکمے کی چھٹیوں کا کوئی ضابطہ اور تادیب ہے لیکن اراکین پارلیمان سے کوئی سوال نہیں ہو سکتا کہ عالی جاہ آپ کو لوگوں نے منتخب کیا ہے تو اب ایوان میں آ کر اپنی ذمہ داری تو ادا کیجیے۔ یہ خود ہی قانون ساز ہیں اس لیے انہوں نے یہ عظیم الشان قانون بنا رکھا ہے کہ جو رکن اسمبلی مسلسل 40 اجلاسوں میں نہیں آئے گا اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ غور فرمائیے مسلسل چالیس اجلاس کی شرط کیسی سفاک ہنر کاری ہے۔ غریب قوم کا یہ حق تو ہے کہ وہ اپنی پارلیمان سے سنجیدگی کی توقع رکھے۔ بنیادی تنخواہ، اس کے علاوہ اعزازیہ، سمپچوری الاؤنس ، آفس مینٹیننس الاؤنس الگ سے ، ٹیلی فون الاؤنس ، اسکے ساتھ ایک عدد ایڈ ہاک ریلیف الائونس، لاکھوں روپے کے سفری واؤچرز، حلقہ انتخاب کے نزدیک ترین ایئر پورٹ سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کے 25 ریٹرن ٹکٹ، اس کے علاوہ الگ سے کنوینس الاؤنس، ڈیلی الاؤنس کے ہزاروں الگ سے، اور پھر پارلیمانی لاجز کے باوجود ہاؤسنگ الاؤنس۔ 
یہی نہیں بلکہ موجودہ اور سابق تمام ارکان قومی اسمبلی اور ان کے اہل خانہ تاحیات 22 ویں گریڈ کے افسر کے برابر میڈیکل سہولت کے حقدار ہیں۔ تمام موجودہ اور سابق اراکین قومی اسمبلی کی اہلیہ اور شوہر تاحیات بلیو پاسپورٹ رکھنے کے بھی مجاز ہیں۔ سپیکر صاحبان نے جاتے جاتے خود کے لیے جو مراعات منظور کیں وہ داستان ہوش ربا اس سب سے الگ ہے۔ مسئلہ پارلیمان کے اخراجات ہی کا نہیں، مسئلہ کارکردگی کا بھی ہے۔ کارکردگی اگر اطمینان بخش ہو تو یہ اخراجات بھی گوارا کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہماری پارلیمان کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ حتیٰ کہ یہاں اب جو طرز گفتگو اختیار کیا جاتا ہے وہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔ وہ زمانے بیت گئے جب نا مناسب گفتگو کو غیر پارلیمانی کہا جاتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ گالم گلوچ اور غیر معیاری خطابات فرمائے جاتے ہیں اور ��واتین پر جوتے اچھالے جاتے ہیں۔ پارلیمان کو کسی کارپوریٹ میٹنگ جیسا تو یقینا نہیں بنایا جا سکتا اور اس میں عوامی رنگ بہر حال غالب ہی رہتا ہے لیکن رویے اگر ایک معیار سے گر جائیں تو پھر یہ تکلیف دہ صورت حال بن جاتی ہے۔ پارلیمان اسی بحران سے دوچار ہو چکی ہے۔
سوال اٹھایا جائے تو اراکین پارلیمان جواب آں غزل سناتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کے اخراجات بھی تو ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ فلاں اور فلاں کے اخراجات کو بھی ایک حد میں پارلیمان نے ہی رکھنا ہے۔ پارلیمان اگر اپنے اخلاقی وجود کا تحفظ کرے تو پھر وہ اس ذمہ داری کو بھی نبھا سکتی ہے لیکن وہ اگر یہاں بے نیازی کرے تو پھر وہ فلاں اور فلاں کے اخراجات پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ ہمیں اس وقت معاشی مسائل کا حل چاہیے۔ صرف عوام کی رگوں سے بجلی گیس کے بلوں کے نام پر لہو نچوڑ لینا کوئی حکمت نہیں۔ کب تک اور کتنا نچوڑیں گے؟ اصل چیز معاشی بحالی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان کا ماحول بہتر ہو اور یہاں سنگین موضوعات پوری معنویت سے زیر بحث آئیں۔
آصف محمود 
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes
emergingkarachi · 1 year ago
Text
معاشی بحران اور بیوروکریسی کی مراعات
Tumblr media
ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ عوام مہنگائی کے ہمالیہ پہاڑکے نیچے سسک رہے ہیں۔ ہر مہینہ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی مزید ایک روپیہ 25 پیسے مہنگی ہونے کے اعلان ہو رہے ہیں، ادھر یہ حقائق عوام کو ریاست سے دور کیے جا رہے ہیں، ملک کو ڈالرکی قلت کا سامنا ہے۔ دوسری طرف ایسے ریٹائرڈ افسروں کو جوغیر ممالک میں اپنی مرضی سے مقیم ہیں انھیں ڈالر اور یورو میں پنشن ادا کی جارہی ہے۔ وزارت خارجہ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ایسے پنشنرز کی تعداد 164 کے قریب ہے جنھیں غیر ملکی کرنسی میں ہر ماہ پنشن ادا کی جاتی ہے، جس کی مالیت 200 ملین روپے کے قریب ہے۔ یہ حقائق کبھی سامنے نہیں آتے مگر آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کی شق 19-A کے تحت عوام کو یہ حقائق جاننے کا موقع مل گیا۔ سول سوسائٹی کے متحرک اراکین کی کوششوں سے وفاق اور چاروں صوبوں میں اطلاعات کے حصول کے جامع قوانین نافذ ہیں اور وفاق میں عوام کے اس حق کی تسکین کے لیے کمیشن قائم ہے۔ سول سوسائٹی کے کارکن نعیم صادق نے درخواست کی تھی کہ ان ریٹائرڈ افسروں کے نام افشا کیے جائیں جو بیرون ممالک مقیم ہیں اور ان کو ان کی پسند کی غیر ملکی کرنسی میں رقم ادا کی جاتی ہے۔ انھیں یہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
انھوں نے وزارت خارجہ سے رجوع کیا مگر وہاں بھی کچھ نہیں ہوا۔ کسی دانا شخص کے مشورہ پر انھوں نے اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان کو عرضداشت بھیجی مگر یہاں سے بھی معلومات فراہم نہیں ملی۔ انفارمیشن کمیشن سے یہ معلومات نہ ملی۔ نعیم صادق نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے قانون پر عملدرآمد کے لیے درخواست کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس اہم مسئلہ پر فوری توجہ دی اور وزارت خارجہ نے آخرکار معلومات فراہم کرنی پڑی۔ وزارت خارجہ کی تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق ریٹائرڈ سول اور فوجی افسروں میں جو اپنی مرضی سے بیرونِ ممالک میں مقیم ہیں ان کو 200 ملین روپے کی خطیر رقم فراہم کی جاتی ہے۔ نعیم صادق کا مدعا ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کا زیاں آئین کے آرٹیکل 25 کی ��لاف ورزی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25 ریاست کو تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کا پابند کرتا ہے۔ گزشتہ مالیاتی سال سے تمام وفاقی وزارتیں اور صوبائی حکومتیں شدید مالیاتی بحران کا شکار ہیں ۔ گزشتہ ایک سال سے شایع ہونے والی خبروں کے مطابق وزارت خارجہ غیر ممالک میں تعینات سفارتی عملہ کو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہیں ادا نہیں کر پا رہی ہے۔
Tumblr media
کئی ممالک میں تعینات عملہ کوکئی ماہ تک تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔ سفارت خانوں میں دیگر اخراجات کے لیے بجٹ دستیاب نہیں ہے، صرف وزارت خارجہ ہی نہیں دیگر وفاقی وزارتوں میں بھی صورتحال خراب ہے۔ اسلام آباد کے 5 سرکاری اسپتالوں اور لاہور کے شیخ زید اسپتال کو متحرک رکھنے کے لیے 11 بلین روپے کی گرانٹ دینے کے لیے رقم دستیاب نہیں ہے۔ ملک کے سب سے بڑے انگریزی کے اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دیگر عملہ کو تنخواہوں کی ادائیگی تو کئی ماہ سے نہیں ہو سکی مگر اب ان اسپتالوں کی لیب، ایکسرے اور دیگر شعبے بھی عملاً بند ہیں۔ اسلام آباد کے سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کے لیے یہی وفاق کے پانچ اسپتال علاج کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ وفاقی وزارت تعلیم کی نگرانی میں کام کرنے والے اسکولوں اور کالجوں میں بھی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی ایک اہم مسئلہ بن گئی ہے۔ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC گرانٹ کم کر دی۔ایچ ای سی نے پبلک سیکٹر یونیورسٹی کی گرانٹ میں مزید کمی کر دی، یوں صرف وفاق کے زیرِ انتظام یونیورسٹیاں نہیں بلکہ صوبائی یونیورسٹیوں کی گرانٹ کی کمی ہے۔ 
عمارتوں کی مرمت، عمارت کی تعمیر اور ریسرچ کے لیے رقوم موجود نہیں ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی تنخواہوں کی ادائیگی اور ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن اور گریجویٹی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ تنخواہوں کے لیے سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہیں۔ یہی صورتحال بلوچستان اور سندھ کی یونیورسٹیوں میں ہے۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کا مالیاتی بحران اتنا بڑھ گیا ہے کہ حکومت تنخواہوں اور پنشنوں میں کٹوتی پر غور کر رہی ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ میں کمی کی بناء پر برآمدات اور درآمدات سست روی کا شکار ہوتی ہیں۔ زرمبادلہ کا بحران ہی ادویات کی قلت کا باعث ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مارکیٹ میں جان بچانے والی ادویات موجود ہی نہیں اور جو ادویات موجود ہیں ان کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک کیمسٹ کا کہنا ہے کہ جب کراچی میں ہی انسولین دستیاب نہیں ہے تو باقی شہروں میں کیا صورتحال ہو گی۔ خون ٹیسٹ کرنے والی لیباریٹریوں کے افسران کہتے ہیں کہ پیچیدہ ٹیسٹوں میں استعمال ہونے والی کٹ اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ ہر ٹیسٹ کے شرح بڑھ گئے ہیں۔ یہی صورتحال ڈائیلاسز میں استعمال ہونے والے کیمیکل کی ہے۔ یہ بدحالی تو ایک طرف سے دوسری طرف امداد دینے والے مالیاتی ادارہ کے رویے میں سختی کی ایک وجہ ریاستی و سرکاری اداروں کے افسران اوراہلکاروں کی عیاشیاں ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے افسران کا خاصے عرصہ سے یہ بیانیہ ہے کہ ریاستی انفرا اسٹرکچر کم کیا جائے۔ ریاستی ٹیکس امیروں اور بالادست طبقات پر لگائے جائیں۔ غریبوں کو ہر ممکن رعایت دی جائے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال اتنی خراب ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے دوست ممالک سے امداد لینے کے لیے گارنٹی طلب کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے آئی ایم ایف کے اس رویے کو ریاست کی خود مختاری کے خلاف قرار دیا ہے۔ رضا ربانی کا یہ بیانیہ ہے کہ آئی ایم ایف کے اسٹاف کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود مختار ریاستوں کے درمیان وعدوں کی جانچ پڑتال کرے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ ایسا سلوک کر رہا ہے جس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا مگر بقول ایک معاشیات کے ماہر کے آئی ایم ایف کے رویے کی مذمت کرنے سے زیادہ ریاستی پالیسیوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ اس طرح کے حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی اداروں کی بنیادی ترجیح معاشی بحران کا خاتمہ نہیں ہے۔ ان ناجائز مراعات کا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جس کو غیر ملکی زرمبادلہ کے لیے اپنے اداروں کا وقار داؤ پر لگانا پڑ رہا ہے اور ریاست کی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ وہاں اشرافیہ کو خصوصی ادائیگی تمام دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
globalknock · 1 year ago
Text
تنخواہوں پر ٹیکس میں اضافے کے مطالبے کا کوئی ارادہ نہیں، آئی ایم ایف - ایکسپریس اردو
کاروباری آمدنی پرٹیکس اضافی اور پٹرولیم لیوی کی حدبڑھانے کابھی کوئی مطالبہ نہیں کیا، نمائندہ آئی ایم ایف —فائل فوٹو اسلام آباد: آئی ایم ایف نے پاکستان میں تنخواہوں پر ٹیکس بڑھانے کی تردید کر دی۔ نجی ٹی وی کے مطابق آئی ایم ایف کے نمائندے نے کہا ہے کہ تنخواہوں پرٹیکس میں اضافے کے مطالبے کا کوئی ارادہ نہیں۔ یہ بھی پڑھیں: تنخواہ دار، کاروباری طبقے کی آمدنی پر ٹیکس میں مزید اضافے کی تجویز نمائندہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes