#تحریک انصاف پارلیمنٹیرین
Explore tagged Tumblr posts
Text
عمران خان جنرل ( ر) فیض کو سپورٹ کرتے تھے، پرویز خٹک
تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز (پی ٹی آئی پی) کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ جنرل فیض (سابق ڈی جی آئی ایس آئی) کے ساتھ عمران خان کے اچھے تعلقات تھے، وہ جنرل فیض کو سپورٹ کرتے اور ان کی مدد کرتے تھے۔ جیو ٹی وی سے بات کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ کوئی آپ کو لے کر آئے اور آپ اس کی نہ سنیں تو نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ سارا وقت کسی سے اپنی خدمت نہیں کرا سکتے، کچھ سننا بھی پڑتا ہے۔ پرویز…
View On WordPress
0 notes
Text
کےپی اسمبلی میدان جنگ بند گئی،اراکین گتھم گتھا
خیبرپختونخوااسمبلی کےاجلاس میں ہنگامہ آرائی ہوگئی۔ارکان کےدرمیان سخت تلخ کلامی ہوئی۔لاتوں اورمُکوں کاآزادانہ استعمال کیا گیا۔ رپورٹ کےمطابق اپوزیشن ارکان نےاسپیکر سےبات کرنےکا وقت مانگا تھا۔اپوزیشن ارکان کوبات کرنےکاموقع نہ ملنےپرتلخ کلامی ہوئی جو ہاتھاپائی تک جاپہنچی۔ارکان اسمبلی نےلاتوں اورمُکوں کاآزادانہ استعمال کیا۔ اس دوران تحریک انصاف کےنیک محمد اورتحریک انصاف پارلیمنٹیرین کےاقبال وزیر…
0 notes
Text
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کیسے ہوتی ہے؟
8 فروری اب صرف دو ماہ کی دوری پر ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے فنڈز کی لین دین عروج پر ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابات کے قریب سب سے زیادہ رقم خرچ کرتی ہیں۔ تو لازمی طور پر جماعتیں انتخابات سے قبل زیادہ سے زیادہ ذرائع سے رقم وصول کرنے کی کوششوں میں بھی رہتی ہیں۔ فنڈز کا مقبول ذریعہ پارٹی ٹکٹ کی درخواست کے ساتھ ��ی جانے والی فیس ہوتی ہے جوکہ پارٹی ٹکٹس حاصل کرنے والے امیدواروں سے وصول کی جاتی ہے۔ آنے والے انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کے پارٹی ٹکٹوں کے لیے 2 لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلی کے ٹکٹوں کی درخواست لیے ایک لاکھ روپے کی ناقابلِ واپسی فیس مقرر کی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ کم از کم ملک کی 3 بڑی سیاسی جماعتیں جیسے مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، ٹکٹ درخواستوں کی فیس سے خاطر خواہ رقم حاصل کریں گی۔ ہر سال الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سیاسی جماعتوں کے گوشواروں کی تفصیلات میں سیاسی جماعتوں کی مجموعی آمدنی میں بڑا حصہ ٹکٹ درخواستوں کا دیکھا گیا ہے۔
مثال کے طور پر پی ٹی آئی نے 2018ء کے عام انتخابات اور بعدازاں ضمنی انتخابات میں ٹکٹ درخواستوں کی مد میں 47 کروڑ 80 لاکھ روپے جمع کیے۔ مالی سال 18-2017ء اور 19-2018ء میں یہ رقم پی ٹی آئی کی کُل آمدنی کا 45 فیصد تھی۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے مقابلے میں صرف 14 کروڑ روپے جمع کیے لیکن پارٹی نے انتخابی فیس پر بظاہر زیادہ انحصار کیا کیونکہ یہ انتخابی سال 18-2017ء میں پارٹی کی مجموعی آمدنی کا 95 فیصد تھے۔ پی پی پی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے مل کر ٹکٹ درخواستوں سے 9 کروڑ 50 لاکھ روپے جمع کیے جو کہ 18-2017ء میں ان کی کُل آمدنی کا 89 فیصد تھے۔ طویل مدتی نقطہ نظر سے بھی ٹکٹ درخواستوں کی فیس سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کیے گئے فنڈز کا ایک اہم حصہ ہے۔ گزشتہ 13 سالوں میں سیاسی جماعتوں کی کُل آمدنی میں اس فیس کا حصہ پی ٹی آئی کے لیے 19 فیصد، مسلم لیگ (ن) کے لیے 33 فیصد جبکہ پی پی پی کے لیے 64 فیصد ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے درخواستوں کی مد میں 59 کروڑ 60 لاکھ روپے حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں 12 کروڑ 40 لاکھ روپے حاصل کیے۔
2018ء کے عام انتخابات میں یہ حساب الٹ گیا اور پی ٹی آئی نے 33 کروڑ 50 لاکھ روپے جمع کیے جبکہ مسلم لیگ (ن) صرف 12 کروڑ 50 لاکھ روپے ہی جمع کر سکی۔ اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی مانگ زیادہ تھی۔ یہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو رپورٹ کیے گئے اعداد و شمار ہیں۔ یہ اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈران ’عطیات‘ اور ٹکٹ دینے کی مد میں امیدواروں سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ اس سے یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ کہ تقریباً تمام جماعتوں میں امیر اور امیر ترین امیدواروں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہورہا ہے۔ ٹکٹ درخواستوں کی فیس پر سیاسی جماعتوں کے انحصار سے یہ بھی وضاحت ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں نوجوان امیدواروں کی تعداد کم کیوں ہے۔ اگر نوجوان زمیندا��، اشرافیہ یا صنعتی طبقے سے تعلق نہ رکھتے ہوں تو وہ پارٹی کو عطیات کی مد میں خطیر رقم دینے کی حالت میں نہیں ہوتے۔ اگرچہ مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کا 45 فیصد نوجوان (35 سال یا اس سے کم) ووٹرز ہیں لیکن ملک کی 10 بڑی سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں کی نمائندگی صرف 19 فیصد کے قریب ہے۔
پی ٹی آئی جسے نوجوانوں کی جماعت کہا جاتا ہے، اس نے پچھلے انتخابات میں صرف 129 یعنی 16 فیصد نوجوان امیدواروں کو پارٹی کی نمائندگی کرنے کا موقع دیا۔ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری جوکہ متعدد سیاسی جماعتوں کے زائدالعمر رہنماؤں پر تنقید کرتے ہیں اور نوجوانوں کو موقع دینے کا مطالبہ کرتے ہیں، ان کی جماعت نے خود 2018ء کے انتخابات میں 727 امیدواروں میں سے صرف 122 یعنی 17 فیصد سے بھی کم نوجوانوں کو نمائندگی کرنے کا موقع دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی اس سے بھی خراب رہی، 2018ء کے عام انتخابات میں اس کے 646 امیدواروں میں سے صرف 86 امیدوار یعنی 13 فیصد نوجوان تھے۔ پارٹی ممبرشپ پر سیاسی جماعتوں کا انحصار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ پی ٹی آئی نے بتایا کہ گزشتہ 13 سالوں میں پارٹی ممبرشپ کی مد میں 2 کروڑ 10 لاکھ روپے جمع ہوئے جوکہ مجموعی آمدنی کا صفر اشاریہ 6 فیصد ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ 10 لاکھ روپے کی رقم ظاہر کی جوکہ ان کی مجموعی آمدنی کا صفر اشاریہ 9 فیصد ہے جبکہ پی پی پی 4 کروڑ 10 لاکھ روپے جمع کر کے ان دونوں جماعتوں سے قدرے بہتر رہی، یہ رقم پیپلز پارٹی کی مجموعی آمدنی کا 9 فیصد ہے۔
تاہم غیر اراکین کی جانب سے چندہ سیاسی جماعتوں کے لیے آمدنی کا ایک اور اہم ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی گزشتہ 13 سالوں میں ڈھائی ارب روپے کے عطیات وصول کر کے سرفہرست رہی۔ مسلم لیگ (ن) نےاس مد میں 64 کروڑ 10 لاکھ روپے یا کُل آمدنی کا 33 فیصد جمع کیا جبکہ پی پی پی نے ایک کروڑ 80 لاکھ روپے یعنی مجموعی آمدنی کا 4 فیصد جمع کیا۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 17 کی شق 3 سیاسی جماعتوں سے اپنے فنڈنگ کے ذرائع کا محاسبہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کروائے گئے گوشوارے عام طور پر عطیہ دہندگان کی شناخت ظاہر نہیں کرتے اور ان کا ’عطیہ دہندگان‘ کے طور پر حوالہ دیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر پی پی پی اپنے بینک ڈپازٹ پر تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ روپے کا سود کماتی ہے جوکہ 14-2013ء میں اس کی مجموعی آمدنی کا 90 فیصد تھا۔ پی پی پی کا گزشتہ 13 سالوں کا مجموعی بینک سود 10 کروڑ 60 لاکھ روپے بنتا ہے جوکہ اس کی مجموعی آمدنی کا 23 فیصد ہے۔
پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) دونوں اس مد میں پی پی پی کے مقابلے میں کم کماتے ہیں کیونکہ ان کے بیانات کے مطابق بظاہر انہوں نے گزشتہ 13 سالوں میں سود کی مد میں جو رقم کمائی وہ بالترتیب ان کی مجموعی آمدنی کا صفر اشاریہ 49 فیصد اور ایک اشاریہ 33 فیصد ہے۔ تقریباً ہر ترقی یافتہ معاشرے میں سیاسی فنڈنگ ایک حساس موضوع تصور کیا جاتا ہے۔ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بہت احتیاط سے مالی دستاویزات مرتب کر کے جمع کرواتی ہیں جبکہ نگرانی کرنے والے ادارے جیسے پاکستان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اتنی ہی سنجیدگی سے ان دستاویزات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ ماضی میں الیکشن کمیشن کے پاس اس ذمہ داری کو سنجیدگی سے ادا کرنے کی نہ ہی صلاحیت تھی اور شاید الیکشن کمیشن یہ کرنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ تاہم گزشتہ دو سالوں میں اس نے پولیٹیکل فنانس ونگ کی تنظیم نو کی ہے، عملہ بھرتی کیا ہے اور ایف بی آر جیسے ادارے کے ساتھ روابط بھی قائم کیے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ انتخابی سال 2024ء میں سیاسی مالیات کو کس سطح کی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
احمد بلال محبوب یہ مضمون 4 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
ہم الیکشن کمیشن کے سامنے پرامن احتجاج کریں گے.عمران خان
ہم الیکشن کمیشن کے سامنے پرامن احتجاج کریں گے.عمران خان
تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے کہا ہےکہ ہم الیکشن کمشنر اور فیصلےکے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ��ائیں گے، چیف الیکشن کمشنر نے ہماری توہین کی ہے، اس نے لکھا ہے کہ پی ٹی آئی فارن فنڈ�� ہے۔کل ہم الیکشن کمیشن کے سامنے پرامن احتجاج کریں گے، یہ بھول رہے ہیں الیکشن کمیشن کے سامنے یہ لوگ بھی احتجاج کر چکے ہیں، ہمارے پارلیمنٹیرین الیکشن کمیشن جائیں گے، پارلیمنٹیرین بتائیں گے کہ ہمیں الیکشن کمشنر پر…
View On WordPress
0 notes
Text
شراب کی حمایتی ہماری پارلیمنٹ
پارلیمنٹ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی۔ شراب کی فروخت اور اس کے پینے پر پابندی لگانے کے لیے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے اقلیتی ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار ایک آئینی ترمیم بل پیش کرتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ اسلام ہو یا کوئی دوسرا مذہب شراب پینے کی کوئی مذہب اجازت نہیں دیتا لیکن اس کے باوجود پاکستان میں شراب کو اقلیتوں کےنام پر فروخت کیا جاتا ہے جبکہ پینے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران وہ دوسرے مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا بھی حوالہ دیتے رہے، اُنہوں نے پاکستان کی بنیادی اساس کا بھی حوالہ دیا، وہ یہ بھی کہتے رہے کہ کسی بھی مذہب کے نام پر اگر شراب کا کاروبار پاکستان میں ہوتا ہے تو یہ سراسر غلط اور زیادتی ہے۔
رمیش کمار نے یہ بھی کہا کہ پاک سرزمین میں شراب پورا سال بیچی جاتی ہے حتیٰ کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں بھی اس کی فروخت جاری رہتی ہے۔ اس اقلیتی ممبر قومی اسمبلی نے یہ بھی دہائی دی کہ وہ پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا وہاں اسلامی تعلیمات کے برعکس شراب کے دھندے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ رمیش کمار نے یہ بھی کہا کہ اس پاک زمین کو پاک رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نہ صرف وہ پاکستان کی تاریخ سے واقف ہیں بلکہ قرآن پاک کو بھی پڑھ رکھا ہے۔ رمیش کمار نے ریاست مدینہ کی بھی بات کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ کے بات کی جائے تو پھر شراب کی فروخت اور پینے کا کوئی تصور نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب رمیش کمار کی آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی کی رائے لی گئی تو وہاں موجود اکثریت نے اس بل کو پیش کرنے کی مخالفت کر دی۔
شراب پر پابندی کے خلاف رائے دینے والوں میں حکومت و اپوزیشن کی اکثریت نے باآواز بلند ـ’’NO‘‘ کہا۔ ایسا کرنے والوں میں حکومتی بنچوں پر بیٹھنے والی تحریک انصاف اور اپوزیشن میں موجود ن لیگ اور پی پی پی بھی شامل تھیں۔ ریاست مدینہ کی مثالیں دینے والی تحریک انصاف حکومت کے چند ایک وزرا تو ڈاکٹر رمیش کمار پر جیسے پھٹ پڑے اور اُنہیں یہ تک مشورہ دے دیا کہ وہ افغانستان چلے جائیں یا بھارت۔ قومی اسمبلی میں اسلام کا نام لینے والوں کی اکثریت نے ایک ہندو ایم این اے کی طرف سے شراب کی فروخت پر پابندی لگانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ افسوس صد افسوس۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور یہ اسمبلیا ں کسے دھوکہ دے رہی ہیں۔
اسلام کے نام پر بننے والے ملک اور یہاں کی عوام سے کتنا بڑا فراڈ ہو رہا ہے۔ جنہوں نے حلف اٹھایا اُس آئین کا جوپاکستان میں قرآن و سنت کے نفاذ کا وعدہ کرتا ہے وہی اسلامی نظام کے رستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آ چکے۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے رد شدہ آئینی ترمیمی بل دوبارہ اسمبلی سیکریٹریٹ میں آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کےلیے جمع کرا دیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بل پر باقاعدہ ووٹنگ ہو تاکہ عوام کو کم از کم یہ پتا تو چل جائے کہ اسمبلی ممبران میں سے کون کون شراب کی فروخت اور پابندی کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار کافی عرصہ سے شراب پر پابندی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ تک بھی اپنی اس تحریک کی کامیابی کے لیے جاچکے ہیں لیکن وہاں سے بھی اُنہیں کوئی مثبت جواب نہ ملا۔
امید کی جا سکتی ہے میڈیا پر تشہیر سے اس مسئلہ سے اب وزیر اعظم عمران خان بھی واقف ہوںگے اس لیے اُن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ رمیش کمار کی اس آئینی ترمیم کی حمایت کےلیے حکومتی بنچوں کو فعال بنائیں تاکہ اس شراب کی فروخت کو روکا جا سکے۔ اپوزیشن خاص طور پر ن لیگ اور اس کے قائد میاں نواز شریف کو بھی چاہیے کہ وہ اس بل کی حمایت کریں۔ ویسے تو ہر ممبر اسمبلی کے لیے یہ ایک ایسے امتحان کا وقت ہے جس کا بدلہ اُسے یومِ حشر ہی ملے گا لیکن یہ بڑی شرم اور حیا کی بات ہے کہ شراب پر پابندی کےلیے اقلیتی ممبر کوشش کرے اور اکثریتی مسلمان پارلیمنٹیرین اس کی مخالفت کریں۔
انصار عباسی
1 note
·
View note
Text
وزیراعلیٰ نے سروسز ، جناح ہسپتالوں میں ایمرجنسی ٹاورز کی تعمیر کی منظوری دی۔
وزیراعلیٰ نے سروسز ، جناح ہسپتالوں میں ایمرجنسی ٹاورز کی تعمیر کی منظوری دی۔
لاہور – وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے مریضوں کو جدید سہولیات کی فراہمی کے لیے سروسز اور جناح ہسپتالوں میں ایمرجنسی ٹاورز کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔
اپنے دفتر میں ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ، جس میں وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد ، سیکرٹری صحت ، سی ای او آئی ڈی اے پی اور دیگر نے شرکت کی ، وزیراعلیٰ نے دونوں منصوبوں کو کم سے کم مدت میں مکمل کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ یہ اجلاس تونسہ میں کینسر ہسپتال بنانے کی تجویز پر بھی خستہ ہوا۔ وزیراعلیٰ نے یونیورسل ہیلتھ کوریج پروگرام کو سب کے لیے مفت صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے ایک اختراعی اقدام قرار دیا۔ ماضی کی حکومت نے دور دراز علاقوں کو نظرانداز ک��ا جبکہ پی ٹی آئی کی قیادت والی حکومت عوام کو ان کی دہلیز پر بہترین طبی سہولیات فراہم کر رہی تھی ، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ماں اور بچے کے ہسپتالوں پر کام تیز کیا جائے۔
ارکان پارلیمنٹ نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کی۔
صوبائی وزراء اسد کھوکھر ، محمد آصف نقائی ، شوکت لالیکا ، ایم این اے راجہ ریاض احمد اور رائے مرتضیٰ اقبال ، مامون تارڑ ایم پی اے اور سابق ضلع ناظم ساہیوال رائے حسن نواز نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے ان کے دفتر میں ملاقات کی تاکہ انہیں مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ ان کے حلقے
حلقہ سے متعلقہ مسائل کے حل کے لیے ہدایات جاری کرتے ہوئے ، وزیراعلیٰ نے دوبارہ کہا کہ ان کے دروازے لوگوں اور پارلیمنٹیرینز کے لیے کھلے ہیں۔ جامع ترقی کو یقینی بنانے کی پالیسی صوبے میں متوازن ترقی کی راہ ہموار کرے گی ، انہوں نے مزید کہا کہ ضلعی ترقیاتی پیکج وضع کرنے کے لیے پارلیمنٹیرین سے مکمل مشاورت کی گئی۔
حکومت دور دراز علاقوں کو ترقی کا حق واپس دے رہی ہے کیونکہ یہ ہر ضلع کا حق ہے ، انہوں نے برقرار رکھا اور اس بات کی تصدیق کی کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ہر ضلع کی ترقی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
نمائشی منصوبوں اور کھوکھلے نعروں کا دور اب ختم ہوچکا ہے ، وزیراعلیٰ نے جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ماضی کے حکمرانوں نے ، جنہوں نے مسائل کو لب لباب دینے کے سوا کچھ نہیں کیا ، تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ موجودہ حکومت گزشتہ تین سالوں کے دوران کام میں مصروف رہی۔ اسی طرح انتقام کی سیاست پی ٹی آئی حکومت کا ایجنڈا نہیں ہے کیونکہ وہ اس پر یقین نہیں رکھتی۔
انہوں نے دہرایا کہ حکومت نے انصاف ، قانون اور میرٹ کے اصولوں کے مطابق عوام کی خدمت کی ہے۔ پارلیمنٹیرینز نے جامع ترقی کی پالیسی کو سراہا کیونکہ اس سے محرومیاں دور ہوں گی۔
پی ٹی آئی حکومت کا تعلیمی ترجیحی ایجنڈے کا فروغ: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ اسلام نے انسانوں پر زور دیا ہے کہ وہ علم حاصل کریں جبکہ اسے وفادار کی گمشدہ میراث قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ تعلیم کا فروغ تحریک انصاف کا منشور ہے۔
گورنر ہاؤس میں پنجاب ایجوکیشن کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں 66 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم اور سکول ایجوکیشن کے بجٹ میں بالترتیب 286 فیصد اور 29 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ تقریب کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ہر بچے کی تعلیم کے لیے کوشاں ہے اور ایس ای ڈی ہر بچے کی معیاری تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہے اور اس سلسلے میں تاریخی اقدامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب سکول ایجوکیشن پالیسی 2020 بھی متعارف کرائی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ محکمہ تعلیم کے لیے ای ٹرانسفر پالیسی متعارف کرانے والا پنجاب ایک اہم صوبہ ہے اور 86000 سے زائد اساتذہ نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔
“ای ریٹائرمنٹ ، ای پروموشن ، ای پنشن اور ای چھٹی کی سہولیات بھی دستیاب ہیں ، اور اساتذہ کو اس سلسلے میں کسی کنکشن کی ضرورت نہیں ہے۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو دور کرنے کے لیے مختلف مراحل میں 31000 سے زائد STI بھرتی کیے جائیں گے اور مختلف زمروں میں 33000 سے زائد معلمین کی بھرتی بھی جلد شروع کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ 10 پسماندہ اضلاع میں اساتذہ کی کمی کو دور کرنے کے لیے بھرتی کے قوانین میں نرمی کی گئی ہے اور مقامی لوگوں کو ہارڈ شپ پالیسی کے تحت بھرتی کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے پانچ سالوں میں 1330 سکولوں کو اپ گریڈ کیا جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے صرف تین سالوں میں 1533 سکولوں کو اپ گریڈ کیا۔ کل 27000 سکول جن میں 40 فیصد جنوبی پنجاب اور 53 فیصد گرلز سکول شامل ہیں ، کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں 7000 سکولوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ سکول کی خستہ حال عمارتوں کی بحالی کے لیے 600 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ اسی طرح ایک پروگرام کے تحت سکولوں میں ضروری سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جس کا مقصد طلباء کے لیے غائب سہولیات کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایف آئی ڈی کی مدد سے 2000 سے زائد کلاس روم بنائے گئے ہیں اور 1000 سائنس اور آئی ٹی لیبز کی بحالی کے منصوبے بھی مکمل ہو چکے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 17 اضلاع میں 400 سکول لائبریریاں فراہم کی گئیں اور 110 ماڈل سکول 11 اضلاع میں تکمیل کے قریب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 11000 سے زائد سکولوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کر دیا ہے جو زیادہ تر جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں کام کرتے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ 577 پرائمری سکولوں میں ابتدائی سہ پہر کی کلاسیں شروع کی گئی ہیں تاکہ انصاف دوپہر پروگرام کے تحت 22000 طلباء کو تعلیم دی جا سکے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ کورونا میں نجی اسکولوں کی فیس کم کرکے والدین کو ریلیف دیا گیا ہے اور انصاف اکیڈمی کے تحت آن لائن ریکارڈ شدہ لائیو لیکچرز اور کورسز کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔
دریں اثنا ، 100 مختلف سکولوں کے 23000 طلباء کو لاہور میں ایک این جی او کے تعاون سے معیاری خوراک فراہم کی جا رہی تھی جبکہ 12 پسماندہ اضلاع کے بے سہارا بچوں کو متوازن خوراک فراہم کرنے کے لیے ایک پروگرام زیر غور تھا۔ انہوں نے کہا کہ 6 ماہ سے کم اندراج مہم میں 10 لاکھ بچوں کو داخلہ دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ خواجہ سراؤں کی تعلیم اور تربیت پر توجہ دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملتان میں پہلا ٹرانسجینڈر سکول قائم کیا گیا ہے اور پرائمری اور آٹھویں کلاس کے روایتی امتحان کو ختم کر کے سرکاری سکولوں میں سکول پر مبنی تشخیص کا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ دانش سکولوں کے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے اور ٹبہ سلطان پور وہاڑی میں لڑکوں اور لڑکیوں کے نامکمل پراجیکٹس اور ننکانہ صاحب میں سینٹر آف ایکسی لینس کو فعال بنایا گیا ہے۔ اسی طرح ٹنڈلیانوالہ ، تونسہ اور مانکیرہ کے چکوال اور دانش سکولوں میں سینٹر آف ایکسی لینس بھی جلد مکمل ہو جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت تعلیم کے فروغ کے لیے اقدامات جاری رکھے گی۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : '106170627023', xfbml : true, version : 'v2.9' ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/en_US/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src="https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v2.12"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); . Source link
0 notes
Photo
بی اے پی اور اتحادیوں کے بعض وزراء جام کمال کیخلاف ہو گئے کوئٹہ: بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں یہ بات بڑے وثوق سے وائرل ہوئی ہے کہ بلوچستان میں جام کمال کی مخلوط حکومت کے خلاف اُن کی جماعت بی اے پی اور اتحادی جماعتوں کے بعض وزراء و ارکان اسمبلی نے سر جوڑ لئے ہیں جبکہ اس بات کو تقویت اس لئے بھی ملی کہ بی اے پی کے سینئر رکن اسمبلی اور سابق وزیرا��لیٰ میر جان محمد جمالی نے بھی ایک بیان ایسا داغا جس میں اُنہوں نے اپنی جماعت کے وزیراعلیٰ جام کمال کی حکومت کو ناکام قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ صوبائی مخلوط حکومت صرف اخباری بیانات کی حد تک ٹھیک چل رہی ہے جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ صوبائی کابینہ کے اجلاسوں میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے لیکن اس میں وہ ناکام ہو چکی ہے۔ سینئر پارلیمنٹیرین جان محمد جمالی کے اس بیان کو سیاسی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی تاہم ردعمل کے طور پر وزیراعلیٰ بلوچستان کے ترجمان کی طرف سے جواب تیار کیا گیا لیکن اسے مشتہر نہیں کیا گیا کیونکہ یہ جواب آخری وقت پر واپس لے لیا گیا جو کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی جانب سے ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا کیونکہ جواب آنے کے بعد بیانات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکتا تھا؟ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اندرون خانہ کچھ چل تو ضرور رہا ہے کیونکہ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ مخلوط حکومت کی اتحادی جماعتوں کے بعض ارکان اسمبلی اور کابینہ کے ارکان کی اس دوران ایک ’’بیٹھک‘‘ ایک ایم پی اے کی جانب سے دیئے گئے نجی ظہرانے پر بھی ہوئی۔ جس میں موجودہ مخلوط حکومت کے حوالے سے بعض معاملات پر بحث و مباحثہ ہوا اس ’’بیٹھک‘‘ میں بھی گلے شکوے ہوئے اور بعض ارکان نے کھل کر کچھ حکومتی اقدامات پر تنقید کی، بعض حلقے اس سیاسی ’’بیٹھک‘‘ کو صرف کھانے تک محدود قرار دیتے ہوئے اس بات کی تردید کر رہے ہیں کہ اس میں کسی قسم کی کوئی سیاسی گفت و شنید ہوئی اور نہ ہی حکومتی اقدامات پر کوئی رائے دی گئی۔ جان جمالی کے سیاسی بیان اور سیاسی بیٹھک کے تناظر میں بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن بھی پیچھے نہیں رہی اور بی این پی کے پارلیمانی لیڈر رکن اسمبلی ملک نصیر شاہوانی نے موقع جانتے ہوئے یہ بیان دیا کہ نمبر گیم پورا ہوا تو بلوچستان میں حکومت بنانے میں دیر نہیں کریں گے۔ موجودہ مخلوط صوبائی حکومت نا اہل ہے ابھی تک پی ایس ڈی پی پر ایک روپیہ ��رچ نہیں کرسکی، حکومت ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے ترقیاتی فنڈز لیپس کرنے کے درپے ہے۔ تاہم صوبے کی سیاست کیا رُخ اختیار کرتی ہے یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے مختلف صوبائی محکموں میں ہزاروں کی تعداد میں بھرتیوں کے عمل کو صاف اور شفاف بنانے کیلئے ڈویژنل کمشنرز کے ذریعے اس عمل کو مکمل کرنے کے فیصلے پر بھی انکی کابینہ کے بعض وزراء اور اراکین اسمبلی کو تحفظات ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ATP رولز کے تحت پہلے ہی سلیکشن کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں اب یہ نیا پنڈورا بکس کھولنے سے نئی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں، بھرتیوں کیلئے ڈویژنل کمشنرز کو چیئرمین بنانے سے تمام کنٹرول وزراء اور محکموں کے سیکرٹریز سے ختم ہو جائے گا کیونکہ کمشنرز کسی بھی وزیر یا محکمے کے ماتحت نہیں ہیں۔ بھرتیوں کے حوالے سے وزیراعلیٰ کے اس فیصلے کو آئندہ صوبائی کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے پر رکھا جارہا ہے جس میں اس حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جائے گا توقع اس بات کی ہے کہ اس اجلاس میں اکثریت رائے کو فوقیت دی جائے گی اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزیراعلیٰ اپنے اس فیصلے کوکابینہ سے منوانے میں کامیاب نہ ہو پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بھی تمام صورتحال کو بھانپتے ہوئے اپنی حکومت کے مثبت اقدامات کو اُجاگر کرتے ہوئے تیزی سے اُن پر عملدرآمد شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ اس حوالے سے اُن کے اقدامات پر جو تنقید کی جا رہی ہے۔ اُس کا تدارک کیا جا سکے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا ہے کہ حکومت چلانا آسان کام نہیں باہر کے ممالک میں ہم سے زیادہ سیاست کی جاتی ہے لیکن جب وہاں لوگ گورنمنٹ میں آتے ہیں تو وہ سیاست کو الگ رکھتے ہیں اور ملک کیلئے بہتر منصوبہ بندی کرتے ہیں اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت صوبے کی آمدنی 15 ارب روپے ہے اگر15 سال پہلے بہتر طریقہ کار اپنایا جاتا منصوبہ بندی کی جاتی تو آج15 ارب روپے کے بجائے60 ارب روپے کے قریب آمدنی ہوتی جہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہو وہاں رزلٹ کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمیں اداروں کے استحکام کی بنیاد پرروزگار دینا ہوگا نہ کہ سیاسی بنیادوں پر۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں تحریک انصاف بھی اپنے پارلیمانی گروپ میں بعض اُلجھے ہوئے معاملات کو درست سمت میں لے جانے کیلئے ہوم ورک کر رہی ہے اور پارلیمانی گروپ میں حکومت سازی سے لے کر اب تک جو رابطوں کا فقدان ہے اُسے دور کرکے مشاورت کے ذریعے تمام معاملات کو ہینڈل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف بلوچستان کے ایک اہم عہدیدارکا کہنا ہے کہ پارٹی کی مرکزی و صوبائی قیادت مکمل رابطے میں ہے اور جلد ہی اچھے اور مثبت فیصلے بلوچستان کے حوالے سے سامنے آئیں گے۔ بلوچستان میں حکومت سازی سے لے کر اب تک جو مس انڈر اسٹینڈنگ تھی وہ بھی دور ہوگئی ہے، سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ کچھ عرصے میں تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی گروپ کے حوالے سے بھی بعض اہم نوعیت کے فیصلے اور تبدیلیاں سامنے آنے کی توقع کی جا رہی ہے جس کا اشارہ پارٹی کے عہدیداران اور پارلیمانی گروپ کے بعض ارکان دے رہے ہیں۔
0 notes
Photo
پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 5 ماہ میں قانون سازی نہ ہونے کے برابر اسلام آباد: پی ٹی آئی حکومت کے پہلے پانچ ماہ ایوان میں کورم اور لڑائیوں کی نذر تو ہوئے لیکن خاطر خواہ قانون سازی بھی نہ کی جاسکی۔ شراب ممانعت بل بھی منظور نہ ہوسکا، پہلے پانچ ماہ میں حکومت کو پی اے سی سمیت قائمہ کمیٹیوں کے قیام میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم جہاں وزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان کی تائید کرتے نظر آئے تو دوسری طرف وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے اسکو سیاسی بیان قرار دے دیا۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ابھی تک جہاں ایوان بالا کے 6 اجلاس ہوئے وہاں ایوان زیریں کے وسط اگست سے جنوری تک سات اجلاس ہوئے جبکہ 1 مشترکہ اجلاس بھی ہوا، لیکن دونوں ایوانوں میں قانون سازی کی شرح نہ ہونے کے برابر رہی۔ اسپیکراسد قیصر کی کوششوں سے پی اے سی اور قانون انصاف کی قائمہ کمیٹیاں تو بن گئیں لیکن بقیہ کمیٹیاں تاحال التواء کا شکار ہیں،موجودہ پارلیمنٹ میں جہاں حکومت کو ایک مضبوط اپوزیشن کے شدید احتجاج کا سامنا رہا وہیں ایوان میں شائستگی برقرار رکھنے کیلئے قومی اسمبلی میں اخلاقیات کمیٹی کے قیا م کی تحریک بھی متفقہ منظور ہوئی۔جب حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں سے جب پوچھا گیا کہ پارلیمان کا بنیادی کام قانون سازی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ حکومت پہلے پانچ ماہ میں سینیٹ سے صرف تین اور قومی اسمبلی سے پانچ بل منظور کیے تو سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ حکومت کی پالیسی واضح نہیں ہے ،5 ماہ کی تاخیر کے بعد قائمہ کمیٹیز کا وجود آیا،جب تک قائمہ کمیٹیاں نہیں بنتیں تب تک قانون سازی نہیں ہو سکتی،اپوزیشن قانون سازی اور تعاون کرنے کے لیے تیار ہے لیکن حکومت خود ہی سنجیدہ نہیں ہے، موجودہ حکومت کا نہ تو حکومت پر کنٹرول ہے اور نہ ہی پارلیمان پر یقین رکھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر پارلیمنٹیرین نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کو ایکسپوز کرنے کی باتیں کرنے والی حکومت خود ایکسپوز ہو رہی ہے،حکومت بتائے کون سا ایسا قانونی مسودہ لے کر آئی ہے جسے اپوزیشن نے ردکیا ہو، وزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان پر رضا ربانی نے کہا کہ وزیراعظم آئین سے ناواقف نظر آتے ہیں،آرٹیکل 89 کے مطابق ایک بل سے زائد آڑڈیننس کے ذریعے پاس نہیں کر سکتے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمان ملک بولے کہ قانون سازی کسی بھی حکومت کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ ہے، جس رفتار سے حکومت چل رہی ہے بمشکل پندرہ سے بیس قانون ہی بنا سکے گی،سابق وزیر داخلہ نہ یہ بھی کہا کہ حکومت کو پارلیمنٹ کے قوائد و ضوابط کے مطابق قانون سازی کرنا ہوگی۔ سابق وزیر اطلاعات پرویز ر شید نے کا کہنا تھاکہ موجودہ حکومت کا کوئی ہوم ورک نہیں ہے،قانون سازی کے لیے ضروری ہوتا ہے حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں جو پی ٹی آئی کے نہیں ہیں،حکومت کے اپوزیشن کے ساتھ بھی ورکنگ ریلیشن شپ ہونے چاہیے،اس حکومت کا اپوزیشن سے گفتگو کا آغاز ہی گالی دینے سے ہوتا ہے، وزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان پر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما نےکہا کہ پھر اس پارلیمنٹ کو تالہ لگا دیں، ابھی تک حکومت کیجانب سے کوئی اچھا بل نہیں دیکھا، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے چیئرمین جاوید عباسی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بولے کہ رولز آف بزنس کے مطابق ��زیر اعظم کو حلف لینے کے ایک ماہ کے اندر قائمہ کمیٹیوں کو بنانا تھا، اس وقت پارلیمان کا مکمل نہ ہونا بدقسمتی ہے، پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے کا کہنے ہوالے وزیر اعظم صرف ایک دفعہ سینیٹ تشریف لائے ہیں، اجلاس میں وزرا کے نہ آنے پر اکثر واک آؤ ٹ کیا جاتا ہے،وزیر خزانہ کو فنانس بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں پیش کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا پی ٹی آئی حکومت نہ آئین سے واقف ہے اور نہ سیکھنا چاہتی ہے،یہ حکومت چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کاوزیر اعظم عمران خان کے آرڈیننس کے ذریعہ قانو ن سازی کے بیان کی تائیدپر ۔ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے کہا کہ وزیر قانون کیخلاف تحریک استحقاق آنی چاہیے،آرڈیننس کے ذریعہ قانون سازی مضحکہ خیز اور جمہوری روایات کیخلاف ہے،وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے حکومتی موقف دیتے ہوئے اس شعر سے آغاز کیا، ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا، بولے کہ پی اے سی کی وجہ سے کام 100 دن سے زائدرکا رہا، ایک ہفتے میں قومی اسمبلی کی تمام کمیٹیز بن جائیں گی ، وزیر اعظم عمران خان پارلیمنٹ میں آئیں گے اور قانون سازی بھی ہو گی، ہر اجلاس میں قانون سازی کے لیے بل لائے جائیں گے، وزیر پارلیمانی امور نے حکومت کو آفر کی کہ عوامی مفاد کے لیے اپوزیشن بھی کوئی اچھا بل لاناچاہے تو لائے ،حکومت عوامی مفاد کے لیے اپوزیشن کے بل کو ویلکم کرے گی، حکومت کی نیت بالکل ٹھیک ہے۔ The post پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 5 ماہ میں قانون سازی نہ ہونے کے برابر appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes
Photo
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کا دورہ سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے پارلیمنٹیرین و دیگر سے ڈی سی آفس میں میٹنگ کی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کا دورہ سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے وزیر اعلیٰ نے دوران وزٹ پارلیمنٹیرین و دیگر سے ڈی سی آفس میں میٹنگ کی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کادورہ کیا وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے وزٹ کے دوران ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ٹوبہ ٹیک سنگھ صادق علی ڈوگر کی طرف سے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے وزیر اعلیٰ نے دوران وزٹ پارلیمنٹیرین و دیگر سے ڈی سی آفس میں میٹنگ کی ، میٹنگ کے بعد مقامی میڈیا، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ اور فیصل آباد سے آنے والے میڈیا نمائندگان کو پریس بریفنگ دی اس دوران انہوں نے فرمایا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تعلیمی ،صحت ،پانی اورسیوریج کے مسائل حل کیے جائیں گے۔عثمان بزدار میں نے اس من میں متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کردی ہیں ۔ سرکاری اراضی پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔عثمان بزدار ماضی کے دور میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا گیا۔عثمان بزدار وسائل کی لوٹ مار کے باعث یہ ضلع ترقی کے سفر میں پیچھے رہ گیا ہے ۔عثمان بزدار تحریک انصاف کی حکومت ٹوبہ ٹیک سنگھ کو اس کا جائز حق دے گی۔عثمان بزدار میڈیا سے گفتگو کےبعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے سٹی ھسپتال جھنگ روڈ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا وزٹ کیا
0 notes
Text
کس سیاسی جماعت کے اثاثے سب سے زیادہ، شیخ رشید کے اکائونٹ میں کتنے پیسے؟
کس سیاسی جماعت کے اثاثے سب سے زیادہ،شیخ رشید کے اکائونٹ میں کتنے پیسے؟ اسلام آباد( گلوبل کرنٹ نیوز) الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے اثاثوں کی تفصیلات جاری کردیں، پی ٹی آئی 22کروڑ 53 لاکھ روپے کے اثاثوں کیساتھ امیر ترین جماعت بن گئی ،شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کے اثاثوں کی مالیت ڈھائی لاکھ روپے ہے ، 125 سے زائد رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے صرف 82 نے گوشواروں کی تفصیلات جمع کرائیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پیر کو جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے اثاثہ جات کی مالیت 22 کروڑ 53 لاکھ روپے ہے۔ تحریک انصاف کے اثاثوں میں گزشتہ 1 سال کے دوران 9 کروڑ روپے کی کمی ہوئی ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کمیشن کو بیان حلفی دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کو ممنوعہ ذرائع سے کوئی فنڈنگ نہیں ہوئی، تحریک انصاف کے اخراجات آمدن سے زائد رہے۔ تحریک انصاف کے ایک سال میں 50 کروڑ 87 سے زائد اخراجات ہوئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے پاس 16 کروڑ روپے کا بینک بیلنس ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کو ایک کروڑ 35 لاکھ روپے کا چندہ حاصل ہوا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے اثاثوں کی مالیت 70 لاکھ 16 ہزار روپے ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی نے 2 کروڑ سے زائد کے اخراجات کئے اور آمدن 57 لاکھ ہوئی۔ کمیشن کے مطابق مسلم لیگ ن کی آمدن 1 کروڑ 55 لاکھ روپے ہے اور اس کے آمدن سے زائد اخراجات ہوئے جو کہ 20 کروڑ روپے تھے۔مسلم لیگ ن کے اثاثہ جات کی مالیت 8 کروڑ 17 لاکھ روپے ہے۔ تحریک انصاف کے اتحادی شیخ رشید احمد کی عوامی مسلم لیگ غریب ترین سیاسی جماعتوں میں ��امل ہے۔ شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کے پارٹی اکاؤنٹ میں صرف ڈھائی لاکھ روپے موجود ہیں۔ گزشتہ الیکشن سے تھوڑا عرصہ پہلے بننے والی بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس 2 لاکھ 31 ہزار روپے کا بینک بیلنس ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم )پاکستان کے پاس 4 کروڑ 19 لاکھ کے اثاثے ہیں۔ایم کیو ایم نے چندے کی مد میں 4 کروڑ 79 لاکھ روپے اکٹھے کئے۔ جماعت اسلامی پاکستان 90 لاکھ 18 ہزار روپے کے اثاثوں کی مالک ہے۔پاکستان مسلم لیگ ق کے پاس 4 کروڑ 99 لاکھ روپے مالیت کے اثاثے ہیں۔ Read the full article
0 notes
Text
عمران خان نے عوام کو چورچور کے نعرے پر لگایا اور خود سارا مال ہڑپ کر گیا، پرویز خٹک
پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرینز (پی ٹی آئی پی) کے چیئرمین پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ عمران خان نے عوام کو چور چور کے ترانے میں لگایا اور خود سارا مال ہڑپ کرگیا۔ نوشہرہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ تبدیلی خان نے ہمیشہ تکبر اور انا کی سیاست کی، غرور اور تکبر کا سر ہمیشہ نیچے رہتا ہے۔ پرویز خٹک نے کہا کہ پی ٹی آئی کا نوشہرہ کا جلسہ میرے نزدیک ایک فلاپ شو تھا۔ دوسرے اضلاع سے گاڑیاں…
View On WordPress
0 notes
Text
سیاسی جماعتیں ٹکڑوں میں تقسیم، مسلم لیگ سرفہرست
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/139469/
سیاسی جماعتیں ٹکڑوں میں تقسیم، مسلم لیگ سرفہرست
الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد107تک پہنچ گئی ہے جنھیں انتخابی نشانات الاٹ کے جاچکے ہیں جب کہ سب زیادہ مسلم لیگ کے نام سے جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔
الیکشن کمیشن کی فہرست کے مطابق مختلف گروپوں میں تقسیم مسلم لیگ سر فہرست ہے جس کے12ٹکڑے ہوچکے ہیں، اب تک ن لیگ کے علاوہ پاکستان نیشنل مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ شیر بنگال فضل حق، پاکستان مسلم لیگ لیگ آرگنائزیشن، پاکستان مسلم لیگ ضیا الحق شہید، پاکستان مسلم لیگ جونیجو، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، پاکستان مسلم لیگ کونسل، پاکستان مسلم لیگ، عوامی مسلم لیگ پاکستان، آل پاکستان مسلم لیگ اور آل پاکستان مسلم لیگ جناح شامل ہے۔اسی طرح حکمراں جماعت تحریک انصاف کا شیرازہ بھی3حصوں میں بکھر چکاہے تحریک انصاف کے علاوہ، پاکستان تحریک انصاف نظریاتی اور پاکستان تحریک انصاف گلالئی شامل ہے۔پیپلزپارٹی کے علاوہ، پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین، پیپلزپارٹی ورکرز اور پیپلزپارٹی شہید بھٹو کے نام سے رجسٹرڈ ہیں ، متحدہ قومی مومومنٹ کے بھی2 حصے ہوچکے ہیں الیکشن کمیشن کے پاس متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور مہاجر قومی موومنٹ پاکستان شامل ہے۔ جے یوآئی 4حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔
الیکشن کمیشن کی فہرست کے مطابق جے یوآئی ف کے علاوہ، جے یوآئی نورانی، جے یوآئی س، اور جے یوآئی نظریاتی رجسٹرڈ ہیں۔
0 notes
Text
بجٹ آ گیا : حزب اختلاف کہاں تھی؟
قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف اور قائد حزب اختلاف کہاں تھے؟ روایت تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں ایک عدد قائد حزب اختلاف تشریف فرما ہوتے ہیں، جنہیں تفنن طبع میں ساتھی پارلیمنٹیرین وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف کہتے ہیں۔ کیا ہم جان سکتے ہیں اس بجٹ پر ان کا موقف کیا ہے؟ راجہ ریاض صاحب کے پاس اس بجٹ پر تنقید کرنے کے لیے یا اصلاح احوال کے لیے کچھ تجاویز ہیں؟ یا وہ بھی وزیر خزانہ کو دیکھ کر دل ہی دل میں ��نگنا لیتے ہیں: ’ڈار تیرے جانثار بے شمار بے شمار۔‘ نیز یہ کہ ڈار صاحب جواب میں التفات فرماتے ہیں یا وہ اردو کے مسکین اور عزت نفس سے محروم شاعروں کے سنگدل محبوب کی طرح ہیں، جو اپنے چاہنے والوں کو ’پشانتے‘ ہی نہیں۔پارلیمانی جمہوریت صرف حزب اقتدار کا نام نہیں، حزب اختلاف کی بھی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے جو بجٹ جیسے مواقع پر دوچند ہو جاتی ہے۔ ایسے موقع پر اگر حزب اختلاف نام کی کوئی چیز ہی موجود نہ ہو تو یہ نیک شگون نہیں ہوتا۔ بجٹ صرف حکومت کی جانب سے پیش کردہ الفاظ کا گورکھ دھندا نہیں ہوتا، اس میں حزب اختلاف کی مشاورت بھی شامل ہوتی ہے، اس مشاورت کو حکومت سنجیدگی سے نہ لے تو پھر وہ تنقید کر کے عوام کو بتاتی ہے کہ بجٹ میں کیا خامی ہے اور اسے کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔
میں کسی اَن دیکھی دنیا کی بات نہیں کر رہا۔ خود سندھ اسمبلی میں حکومت کی حالیہ بجٹ کے حوالے سے یہ قرارداد منظور ہو چکی ہے کہ حزب اختلاف کی سفارشات کا جائزہ لے کر بجٹ بنایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ وفاقی بجٹ میں حزب اختلاف کہاں ہے؟ اس کی مشاورت کیا ہوئی؟ اس کا بنایا ہوا متبادل یعنی شیڈو بجٹ کدھر ہے؟ یہ سوالات اصل میں پاکستان تحریک انصاف کے فکری بحران کا اعلانِ عام ہیں۔ کیسی مقبولیت تھی، کاش تھوڑی سی بصیرت بھی منی بس کے روٹ کی طرح ہمراہ ہوتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ تحریک عدم اعتماد آتی رہتی ہے، پارلیمانی سیاست کا یہ لازمی جزو ہے۔ عمران پارلیمان میں رہتے تو دھوپ چھاؤں کا آنا جانا لگا رہتا، لیکن یہ سیاسی جماعت تھی ہی کب۔ یہ تو ایک ’کلٹ‘ تھا، جہاں ریڈ لائن ہی نہیں، عقل کا گھنٹہ گھر بھی فرد واحد تھا۔ اس جماعت میں مشاورت کا عالم وہی تھا جو انور مسعود اپنی نظم میں بیان کر چکے۔ کپتان خان انور مسعود کے چوہدری کی طرح پوچھتے تھے: ’اج کیہہ پکائیے؟‘ جواب میں ڈھیر سارے رحمے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور پھر پکار اٹھتے: ’بجھ لیا کپتان جی چھولیاں دی دال اے۔‘ چھولیاں دی دال یوں کھائی گئی کہ اب بد ہضمی کا شکار انقلابی نون��ال پریس کانفرنسوں کے لیے قطاروں میں لگے ہیں۔
یکے بعد دیگرے غلط فیصلے کیے گئے، جیسے کہیں طے کر لیا کہ عقل و شعور کو تو میں نے چھوڑنا نہیں۔ عقل اور سنجیدگی کو دلیپ دوشی سمجھ کر باؤنسر مارے گئے۔ اب ساری پارٹی کا ’مسل پُل‘ ہوا پڑا ہے۔ طنطنے سے استعفے دے کر ایوان کے جو دروازے خود پر بند کیے گئے وہ منتوں ترلوں سے بھی نہیں کھل سکے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت تھی اپنے ہاتھوں ختم کر دی۔ باقی پارٹی بچی تھی، جو غیر سیاسی اور غیر دانشمندانہ افتاد طبع کی نذر ہو گئی۔ خیر خواہانہ تنقید کرنے والوں کو جن کے اشاروں پر گالیوں سے نوازا جاتا تھا وہ خود اب ترین فارم کے آم کھا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس سارے عمل میں جمہوریت کو کیا ملا؟ سونامی نے آتے وقت بھی جمہوریت اور اہل سیاست کے لیے گنجائش کو محدود سے محدود تر کیا اور اپنی بے بصیرتی سے جاتے ہوئے بھی یہی کام کیا۔ اب ایسا خلا ہے کہ بجٹ دستاویز ایوان میں رکھے ہیں اور حزب اختلاف کا کہیں وجود ہی نہیں کہ اس ڈاکیومنٹ پر کوئی با مقصد گفتگو ہو سکے اور اس میں اصلاح احوال کی کوئی تجویز سامنے آ سکے۔ اور نہیں تو کم از کم اتنا تو ہوتا کہ بجٹ کے دوران تھوڑی رونق ہی لگ جاتی۔
پارلیمان میں کوئی نعرہ بازی ہوتی، کوئی شور مچایا جاتا، پلے کارڈ لے کر وزیر خزانہ کا گھیراؤ ہوتا، ان کی تقریر کے دوران ڈیسک بجائے جاتے۔ کچھ تو ہوتا۔ ایسا ہومیوپیتھک بجٹ بھی بھلا کوئی بجٹ ہوتا ہے۔ پارلیمان سے باہر نکلا تو سامنے ٹریل فائیو تھی۔ ایک دوست ملے۔ ہم نے اکٹھے چائے پی۔ پھر میں نے یہی دکھڑا ان کے سامنے رکھا کہ کہ بجٹ تو آ گیا ہے حزب اختلاف نظر نہیں آ رہی۔ وہ کہاں ہے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: ’کیا تمہیں حزب اقتدار کہیں نظر آ رہی ہے؟ کیا تم بتا سکتے ہو وہ کہاں ہے؟‘ میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ سامنے مارگلہ کا جنگل تھا۔ جنگل میں ہُو کا عالم تھا۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
پاکستانی سیاست دان کتنے پڑھے لکھے ہیں ؟
نامور سیاست دانوں میں کون کتنا پڑھا لکھا ہے اس حوالے سے کاغذات نامزدگی میں دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔ عام انتخابات 2018ء کے لیے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں سیاست دانوں کے اثاثوں کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمی قابلیت اور پیشہ بھی سامنے آگیا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بی اے پاس ہیں۔ انہوں نے اپنا پیشہ سیاست اور کاروبار ظاہر کیا ہے جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی گریجویٹ ہیں۔ انہوں نے اپنا پیشہ فلنتھراپسٹ (فلاحی/سماجی خدمات انجام دینے والا)، موٹیویشنل اسپیکر اور پارلیمنٹیرین بتایا ہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنی تعلیمی قابلیت ڈپلومہ بتائی ہے، مگر اس ڈپلومے کی کوئی تفصیل نہیں بتائی، ان کا پیشہ زراعت اور کاروبار ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 2010ء میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے تاریخ اور سیاست میں ماسٹرز کیا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز انگریزی میں ایم اے پاس ہیں۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مش��ف نے اپنی تعلیمی قابلیت ایم ایس سی بتائی ہے اور ان کا پیشہ فری لانس لیکچررز ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان میٹرک پاس ہیں اور ان کا پیشہ مذہبی درس و تدریس ہے جب کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایم اے کر رکھا ہے۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ گریجویٹ اور لینڈ لارڈ ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اے کے سربراہ اسفند یار ولی نے بی کام کر رکھا ہے۔ انہوں نے اپنا پیشہ لینڈ لارڈ اور سیاست بتایا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک میٹرک پاس اور بزنس مین ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کی تعلیمی قابلیت ایم بی اے ہے جب کہ ان کا پیشہ بزنس کنسلٹنٹ ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد ایم اے ایل ایل بی ہیں اور ان کا پیشہ بزنس ہے جب کہ مولانا فضل الرحمان میٹرک پاس ہیں۔
0 notes
Text
ارباب غلام رحیم پی ٹی آئی کیلئے بڑا بریک تھرو کرسکیں گے؟
ارباب غلام رحیم پی ٹی آئی کیلئے بڑا بریک تھرو کرسکیں گے؟
آثار بتا رہے ہیں کہ محرم الحرام کے بعد سندھ کے سیاسی میدان میں سیاسی ہلچل برپا کرنےکی کوشش کی جائیگی اب یہ کوشیش کس قدر کامیاب ہوتی ہیں یہ ستمبر کے آخر تک واضح ہو جائے گا وفاقی وزرا طویل عرصے سے یہ دعوی کر رہے ہے کہ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی سندھ میں بھی حکومت بنائے گی انکی اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا تھا اور اسے محض سیاسی بیان سے تعبیر کیا جاتا تھا تاہم دو ہفتے قبل وزیر اعظم نے اس جانب سنجیدہ پیش رفت کی اور اس ضمن میں اپنے صلاح کاروں سے مشاورت کی اور اگست میں سندھ کے دورے پر اتفاق ہوا کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کے دورہ سندھ کے دوران کئی ایسے سیاسی رہنما پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرینگے جو پی پی پی کے امی��وار کے مقابلے میں انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
اس ضمن میں وزیر خارجہ اور پی ٹی آئی کے اہم رہنما شاہ محمود قریشی یہ کہہ چکے ہیں کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی نظریں سندھ پر ہیں سندھ کی عوام تبدیلی چاہتے ہیں کہا جا رہا ہے کہ سندھ میں بھر پور سیاسی کامیابی حاصل کرنے کی حکمت عملی کے طور پر ایم کیو ایم کو سیاسی دفاتر کھولنے اور عوام سے رابطوں کا موقع نہیں دیا گیااور ایم کیو ایم کے بار بار مطالبے کے باوجود ایم کیو ایم کی بلدیاتی حکومت کے ذریعے کراچی کے لیے بار بار اعلان کردہ ترقیاتی فنڈ کا اجر نہیں کیا گیاتاکہ شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی سیاسی گرفت مضبوط نہ ہو سکے اور فنڈ پی ٹی آئی کے نمائندوں کے ذریعے کراچی کو ملے اور پی ٹی آئی سندھ کے شہری علاقوں میں مضبوطی سے قدم جما سکے اور مطلوبہ کامیابی سمیٹ سکے اس ضمن میں پی ٹی آئی نے سیاسی رہنمائوں سے رابطوں کے لیے سابق وزیر اعلی سندھ ارباب غلام رحیم کو ٹاسک دے دیا ہے۔
جس کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امورسابق وزیراعلی سندھ ڈاکٹرارباب غلام رحیم نے سندھ میں تحریک انصاف کومتحرک کرنے کے لیے سیاسی رابطے شروع کردیے ہیں، انہوں نے سندھ ایکشن کمیٹی کے کنوینراورسندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ جلال محمود شاہ سے سندھ میں تبدیلی کے لیے اہم ملاقات کی ہے،ارباب غلام رحیم کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم جب چاہیں سندھ آئیں گے،سندھ میں تبدیلی کے لئے ہم خیال جماعتوں سے رابطہ کروں گا،تحریک انصاف کوسندھ میں آرگنائز کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہےاورسندھ میں جو وفاقی ادارے بات نہیں سنتے ان کو بھی ٹھیک کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے، جلد پیرصاحب پگارا سے ملاقات کروں گا۔
ہم سندھ کی قوم پرست جماعتوں کو ساتھ لیکر چلیں گے،کراچی میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ایک مافیابن گئی ہے،اس کے معاملے پر کمیشن قائم کرنے پر بات ہوئی ہے، اٹھارویں ترمیم کا یہ مطلب نہیں کہ صوبے مادر پدر آزاد ہوں،محب وطن قوم پرست جماعتوں کے مسائل کا وزیر اعظم سے ذکر کروں گا۔پاکستان تحریک انصاف اس معاملے پر لیڈنگ رول ادا کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت جب چاہے لاک ڈاؤن لگا دیتی ہے۔ارباب غلام رحیم نے کہاکہ جنرل الیکشن میں دو سال ہیں ،بلاول کو شاید لگ رہا ہوگا کہ جلد انتخابات ہونگے ،ہوسکتا ہے کہ سندھ میں انتخابات کرادیں۔ارباب غلام رحیم کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریسی نے کراچی کا مختصر دورہ کیا انہوں نے پیر پگارا سے انکی والدہ جبکہ امیر بخش بھٹو سے انکے والد ممتاز بھٹو کی وفات پر تعزیت کی انکے فوری بعد پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین گروپ کے سربراہ نے بھی ان دونوں رہنمائوں سے ملاقات کر کے تعزیت کی جہانگیر ترین بھی سندھ میں سیاسی اثر رسوخ اور قربت داری بڑھانا چاہتے ہیں۔
ان دونوں رہنمائوں کی الگ الگ تعزیت پی ٹی ائی میں سب اچھا ہے کی نفی کرتی ہے اور آئندہ انتخاب میں پی ٹی آئی میں ایک بڑا دھڑا بننے کی جانب اشارہ کر رہی ہے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سندھ میں پی ٹی آئی کے پاس کوئی قد آور سیاسی شخصیت موجود نہ��ں تھی جو پی ٹی آئی کو کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہری و دیہی بھی مقبولیت دلوا سکیں اس لیے ارباب غلام رحیم کا انتخاب کیا گیا تاہم دوسرا موقف یہ ہے کہ ارباب غلام رحیم باربار سیاسی جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور انکا سیاسی قد اتنا نہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے لیے کوئی بڑا بریک تھرو کر سکیں وہ اپنی جماعت تک کو سندھ کے دو اضلاع تک بھی منظم نہیں کر سکے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم کے دورے سے قبل وہ سندھ کے کتنے اہم رہنمائوں کو پی ٹی آئی میں شمولیت پر آمادہ کر سکیں گے دوسری جانب پی پی پی بھی اس صورت حال کا جائزہ لے رہی ہے اور وہ کراچی میں سیاسی خلا کا فائدہ اٹھا کر کراچی سے تعلق رکھنے والے افراد کو پارٹی میں شامل کر رہی ہے اس ضمن میں ایم کیو ایم کے سابق پارلیمنٹیرین طاہر مشہدی نے پی پی پی میں شمویت اختیار کر لی ہے، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت اگلی حکومت بنانے سے نہیں روک سکتی کارکن انتخاب کی تیاری کریں جو کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں کارکن آٹھ ماہ میں اختلافات ختم کریں۔
پی ٹی آئی اور پی پی پی کے درمیان سیاسی تلخی بڑھتی جا رہی ہے جو محرم الحرم کے بعد عروج پر ہو گی ادھر سندھ حکومت کے مکمل اور سخت لاک ڈائون پر تاجر برادری سراپا احتجاج ہے جبکہ سیاسی جماعتوں نے لاک ڈائون پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے لاک ڈائون کو کمائی کا دھندا بنا دیا ہے جبکہ پولیس نے رشوت کا بازار گرم کر رکھا ہے مہاجر قومی مومنٹ کے چیئر مین آفاق احمدنے کہا کہ جس طرح بزرگوں پر تشدد اور سڑکوں پر گھسیٹا گیا اس پر شدید غصہ ہے، مہاجر ہونے کے ناطے سے میں تاجروں سے کہتا ہوں میری کسی بھی فورم پر کہیں بھی کوئی ضرورت پڑے میں انکے ساتھ کھڑا ہوں۔پی ٹی آئی اور پی ایس پی نے بھی لاک ڈائون کی شدید مخالفت کی ہے جبکہ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ صوبے میں کورونا کیسز تیزی سے بڑھ رہے تھے اس لیے سخت فیصلہ کرنا پڑا۔
setTimeout(function() !function(f,b,e,v,n,t,s) if(f.fbq)return;n=f.fbq=function()n.callMethod? n.callMethod.apply(n,arguments):n.queue.push(arguments); if(!f._fbq)f._fbq=n;n.push=n;n.loaded=!0;n.version='2.0'; n.queue=[];t=b.createElement(e);t.async=!0; t.src=v;s=b.getElementsByTagName(e)[0]; s.parentNode.insertBefore(t,s)(window,document,'script', 'https://connect.facebook.net/en_US/fbevents.js'); fbq('init', '836181349842357'); fbq('track', 'PageView'); , 6000); /*setTimeout(function() (function (d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "//connect.facebook.net/en_US/sdk.js#xfbml=1&version=v2.11&appId=580305968816694"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); , 4000);*/ Source link
0 notes
Photo
صدر پاکستان: غیر جانبداری پہلا آئینی تقاضا… اداریہ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی 353 ووٹوں کی واضح اکثریت سے 13 ویں صدر مملکت منتخب ہو گئے۔ ان کے مدِمقابل مسلم لیگ نواز اور متحدہ مجلس عمل سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے امیدوار مولانا فضل الرحمان 185 ووٹ لیکر دوسرے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن 124 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ صدر مملکت کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوا۔ عارف علوی 9 ستمبر کو عہدے کا حلف اٹھا��یں گے۔ 2018ء کے عام انتخابات کا آخری مرحلہ نئے صدر مملکت کے انتخاب کے ساتھ بخیر و خوبی مکمل ہو گیا۔ موجودہ صدر ممنون حسین کے عُہدے کی میعاد 8 ستمبر کو ختم ہونے والی ہے اس لیے توقع ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی 9 ستمبر کو ملک کے 13 ویں صدر کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ منتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کراچی سے دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ وہ ایک تجربہ کار پارلیمنٹیرین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاست دان ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف میں شروع ہی سے وہ وزیراعظم عمران خان کے بااعتماد ساتھی رہے اور کراچی میں پارٹی کو مقبول بنانے میں انہوں نے نہایت فعال کردار ادا کیا۔ وہ واضح کر چکے ہیں کہ صدر منتخب ہونے کے بعد تحریک انصاف سے استعفیٰ دے دیں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ وہ کسی ایک پارٹی کے نہیں پورے پاکستان کے صدر ہوں گے اور غیر جانبدار رہ کر ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔ یہ پاکستان کا وہ اعلیٰ منصب ہے جس پر زیادہ عرصہ فوجی صدر متمکن رہے۔ آئین کی رو سے صدر کا انتخاب بھی پانچ سال کے لیے ہوتا ہے مگر اکثر وزرائے اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکے یا ان کو وزارت عظمیٰ کی میعاد پوری نہیں کرنے دی گئی۔ منتخب صدور کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا تاہم مشرف کی آمریت کے بعد جمہوریت کے پٹڑی پر چڑھنے سے آصف علی زرداری اور ممنون حسین نے صدر پاکستان کے طور پر آئینی مدت مکمل کی۔ اگرچہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد اور آئین کی دفعہ 58 ٹو بی کے خاتمے سے صدر مملکت کے عہدے کی حیثیت بڑی حد تک محض نمائشی رہ گئی ہے۔ نو منتخب صدر کے پاس وہی اختیارات رہیں گے جو ان کے پیشرو صدر کے پاس تھے کسی کی خواہش پر نہ تو آئینی اختیارات بڑھائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کم کیے جا سکتے ہیں۔ البتہ وقتاً فوقتاً ہمارے ہاں ایسے صدور بھی آتے رہتے ہیں جن کا دِل زیادہ اختیارات کے لیے مچلتا رہتا تھا۔ ایسے آخری صدر جنرل پرویز مشرف تھے لیکن انہیں استعفیٰ دے کر جانا پڑا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنائی لیکن وہ عمر بھر کے لیے الیکشن لڑنے کے نااہل ہو چکے ہیں۔ جس کے خلاف انہوں نے اپیل کی ہوئی ہے جو زیر سماعت ہے۔ اب وہ اپنے خلاف غداری کے مقدمے کے خوف کی وجہ سے وطن واپس بھی نہیں آتے۔ دیکھنا یہی ہو گا کہ عارف علوی اپنے دورِ صدارت میں کیا کارنامے انجام دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ کہہ چکے ہیں کہ ممنون حسین کی طرح کے صدر نہیں بنیں گے۔ وہ وفاق کے نمائندے کے طور پر چاروں صوبوں میں یکجہتی کی علامت ہوں گے۔ عمران خان نے جس طرح صوبائی گورنروں کو عوامی مسائل کے حل میں سرگرم رہنے کا اختیار دیا ہے اسی طرح صدر مملکت کو بھی فعال بنائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عارف علوی نے پانی سمیت ملک کے کئی بڑے مسائل کی نشاندہی کر کے ان کے حل میں عملی کردار ادا کرنے کی بات کی ہے۔ ان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور عام آدمی کے مسائل کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ جمہوری مزاج کے حامل ہیں۔ توقع ہے کہ منتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی حکومت اور اپوزیشن میں توازن قائم رکھنے کے لیے جماعتی سیاست کی بجائے اجتماعی مفاد کے لیے اپ��ا کردار ادا کریں گے۔ آج ہماری سیاسی قیادتیں جمہوریت میں گرم و سرد دیکھنے کے بعد کافی میچور ہوچکی ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہ جمہوریت کو مزید مستحکم بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گی جس سے حکومت اور صدر دونوں اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہونگے۔
0 notes