#بیماری لیکن پلان
Explore tagged Tumblr posts
Text
کرونز اورکولائٹس کی آگاہی کا ہفتہ: 1 تا 7 دسمبر
New Post has been published on https://drashfaq.com/days/world-days-urdu/529/
کرونز اورکولائٹس کی آگاہی کا ہفتہ: 1 تا 7 دسمبر
کرونز اورکولائٹس کی آگاہی کا ہفتہ: 1 تا 7 دسمبر
کرونز اور کولائٹس کی آگاہی کا ہفتہ ہر سال 1 تا 7 دسمبر منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں ان بیماریوں کے بارے میں شعور بیدار کیا جا سکے اور متاثرہ افراد کی مدد کی جا سکے۔ یہ بیماریاں عام ہیں اور زندگی کو متاثر کر سکتی ہیں، لہذا ان کی آگاہی اور علاج کے لئے معلومات فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ کرونز اور کولائٹس کیا ہیں؟ کرونز بیماری ایک دائمی سوزش کی بیماری ہے جو آنتوں کے مختلف حصوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ بیماری کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے لیکن عام طور پر نوجوان بالغوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ کرونز بیماری کی علامات میں پیٹ میں درد، دست، وزن میں کمی�� اور تھکاوٹ شامل ہیں۔ کولائٹس ایک دائمی سوزش کی بیماری ہے جو بڑی آنت کو متاثر کرتی ہے۔ اس بیماری کی علامات میں دست، پیٹ میں درد، اور خون کے ساتھ پاخانہ شامل ہیں۔ کولائٹس بھی کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے لیکن عام طور پر جوانی میں ظاہر ہوتی ہے۔ کرونز اور کولائٹس کی علامات کرونز اور کولائٹس کی علامات مختلف ہو سکتی ہیں اور یہ وقت کے ساتھ تبدیل بھی ہو سکتی ہیں۔ کچھ عام علامات میں شامل ہیں: پیٹ میں درد: کرونز اور کولائٹس کی ایک عام علامت پیٹ میں درد ہے جو مختلف حصوں میں ہو سکتا ہے۔ دست: کرونز اور کولائٹس کی بیماریوں میں دست کی شکایت بہت عام ہوتی ہے جو عموماً خون کے ساتھ ہوتا ہے۔ وزن میں کمی: کرونز اور کولائٹس کی بیماریوں میں مریضوں کا وزن کم ہو جاتا ہے جو ان کی صحت کو مزید خراب کرتا ہے۔ تھکاوٹ: کرونز اور کولائٹس کی بیماریوں میں مریضوں کو تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے جو ان کی روزمرہ کی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ کرونز اور کولائٹس کی آگاہی کرونز اور کولائٹس کی آگاہی کا مقصد عوام میں ان بیماریوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے تاکہ لوگ ان کے خطرات سے آگاہ ہو سکیں اور بروقت علاج کروا سکیں۔ آگاہی کے لئے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں جیسے سیمینار، ورکشاپ، میڈیا کیمپینز، اور سوشل میڈیا۔ کرونز اور کولائٹس کا علاج کرونز اور کولائٹس کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے لیکن مختلف طریقوں سے ان بیماریوں کی علامات کو کم کیا جا سکتا ہے اور مریضوں کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ علاج میں شامل ہیں: دوائیں: کرونز اور کولائٹس کی بیماریوں کے علاج کے لئے مختلف دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جو سوزش کو کم کرتی ہیں اور علامات کو کم کرتی ہیں۔ خوراک: خوراک کا احتیاطی استعمال بھی ان بیماریوں کی علامات کو کم کر سکتا ہے۔ مریضوں کو خاص خوراک کا پلان دیا جاتا ہے جو ان کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔ سرجری: کچھ مریضوں کو سرجری کی ضرورت ہو سکتی ہے تاکہ ان کی علامات کو کم کیا جا سکے اور ان کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ کرونز اور کولائٹس کی آگاہی کی اہمیت کرونز اور کولائٹس کی آگاہی بہت ضروری ہے تاکہ لوگ ان بیماریوں کے خطرات سے آگاہ ہو سکیں اور بروقت علاج کروا سکیں۔ آگاہی کے لئے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں جیسے سیمینار، ورکشاپ، میڈیا کیمپینز، اور سوشل میڈیا۔ کرونز اور کولائٹس کی بیماریوں سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لئے آگاہی کا کام بہت ضروری ہے تاکہ لوگ ان بیماریوں کے بارے میں جان سکیں اور ان کی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔
#Awareness Campaign#Chronic Illness#Colitis Awareness#Colitis Symptoms#Colitis Treatment#Crohn's and Colitis Week#Crohn's Awareness#Crohn's Symptoms#Crohn's Treatment#Disease Awareness#Disease Information#Fighting Disease#Health Awareness#Health Education#Health Information#Health Protection#Health Support#Patient Support#Public Awareness#Wellness#World Days Urdu
0 notes
Text
آئی ایم ایف سے مذاکرات، منصوبہ کہاں ہے؟
ہم پھر سے آئی ایم ایف سے مذاکرات کی میز پر ہیں، ایک نالائق شاگرد کی طرح جسے پھر سے اس کا بھولا ہوا سبق یاد کرایا جا رہا ہو۔ ترقی پذیر ممالک میں آئی ایم ایف کے پاس جانا اسی طرح کی ایک بری خبر ہے جیسے کسی ڈاکٹر کے پاس جانا جو آپ کو کچھ کڑوی گولیاں دے گا، کچھ کھانے پینے کی بری عادتیں چھوڑنے کا کہے گا اور کاہلی کے بجائے محنت کر کے چربی کم کرنے کا کہے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہر علاج کے کچھ بعد آپ پھر سے ایمرجنسی وارڈ میں کیوں پہنچ جاتے ہیں؟ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ بری عادتیں چھوڑنے پر تیار نہیں اور آپ کی بیماری کا مستقل علاج اس ڈاکٹر کے پاس نہیں۔ جب بھی ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی نوبت آتی ہے ہمیں دو انتہائی رویوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ کچھ آئی ایم ایف کے پاس جانے کو معاشی خودکشی کے مترادف قرار دیتے ہیں اور کچھ اسے ہمارے تمام مسائل کا واحد اور کامل حل سمجھتے ہیں۔ ایک متوازن رویہ کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔
اسی انتہا کے رویوں کا مشاہدہ ہمارے وزرائے خزانہ میں بھی رہا ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اس سوچ کے حامل تھے کہ روپے کی قیمت کو چند بینکوں اور منی چینجرز کی مارکیٹ کے ذریعے بہتر طور پر چلایا جا سکتا ہے۔ بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس طرح بہت سی بدعنوانیاں ہوئیں اور ناجائر منافع کمائے گئے۔ اس کے برعکس موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کئی ماہ تک یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ ڈالر کو واپس دو سو روپے تک لے آئیں گے لیکن ڈالر کے مارکیٹ سے غائب ہو جانے کے بعد انھوں نے اپنے دعوے سے رجوع کر لیا۔ ایک متوازن پالیسی یہ ہوتی کہ ناجائز منافعوں پر کڑی نظر رکھتے ہوئے ڈالر کا مناسب ریٹ مقرر ہونے دیا جاتا۔ اسی قسم کے انتہائی رویوں کا اظہار پچھلی حکومت میں بھی نظر آیا جہاں ڈاکٹر حفیظ شیخ دبئی سے آتے ہی آئی ایم ایف کے معاہدہ پر بغیر کسی بحث کے دستخط کرنے پر تیار تھے۔ ان کے بعد شوکت ترین صاحب اسی معاہدہ کو بدلنے پر مصر تھے جب کہ اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک اس بات کے حامی نہیں تھے۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کسی بھی معیشت کے دائمی مسائل کا حل نہیں ہو سکتے۔ یہ پروگرام معیشت کو ایک وقتی سہارا دیتے ہیں۔ کچھ مزید قرضے، کچھ عرصے کا مانیٹری نظم و ضبط، اخراجات میں جزوقتی کمی اور معیشت کے استحکام کی نوید سناتے ہوئے خوشنما چارٹ۔ آئی ایم ایف کی واپسی کے کچھ ہی سالوں بعد اور بعض اوقات پروگرام کے دوران ہی معیشت واپس انھی یا ان سے بھی زیادہ مشکل حالات کا شکار نظر آتی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرامز کی کسی معیشت کے لیے مستحکم بنیادوں پر افادیت نہ ہونے کا مصر اور ارجنٹینا کی بدحالی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایک ڈوبتی معیشت کی کشتی کو بچانے والا چند سوراخوں کو ہی بھر سکتا ہے۔ اس سے ایک نئی کشتی بنانے کی توقع کرنا غیرحقیقی ہو گا۔ پاکستان جیسی بگڑی ہوئی معیشت کی نئے سرے سے تعمیر کے لیے ایک متفقہ معاشی منصوبے کی اشد ضرورت ہے جو ہمارے طویل مدتی معاشی عزائم اور اہداف کا آیٰینہ دار ہو اور جس کا اطلاق اگلے بیس تیس سالوں کی مالیات، توانائی، تجارت، زراعت، صنعت اور سرمایاکاری کی پالیسیوں پر بلا تعطل و تحریف کرنے کا مشترکہ اور متفقہ عزم ہو۔ کیا ہمارا کوئی سالانہ بجٹ ایسے قومی عزائم کا آئینہ دار ہوتا ہے جو ملک کو معاشی یا توانائی اور خوراک کی خود کفالت کی طرف لے جائے؟
ہمارے معاشی ماہرین کا ایک طبقہ اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ مغربی معاشیات کی مودبانہ تقلید ہماری معیشت کے لیے اکسیر ہو گی۔ 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں اس سوچ نے ہماری معیشت کو درپیش خرابیوں کی بنیاد رکھی جن میں تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ، گردشی قرضے اور صنعتی زوال شامل ہیں۔ البتہ یہ اخذ کرنا بالکل غلط ہو گا کہ قرضہ دینے والے اداروں کے اصلاحات کے نام پر چلنے والے پروگرامز کی وجہ سے ایسا ہوا۔ مسئلہ ہمارے رویوں کا ہے جو ان پروگرامز کو یا تو آسمانی صحیفہ مانتے ہیں یا پھر ہماری معیشت کے خلاف گہری سازش۔ ہماری بنیادی ضرورت ایک ایسا معاشی پلان ہے جو ہمارے معروضی حالات کے مطابق ڈھلا ہوا ہو نہ کہ وہ جو کسی ایسی معیشت کا چربہ ہو جس کے حالات کی ہم سے کوئی مطابقت نہ ہو۔ آسان الفاظ میں یہ ایک ایسا معاشی پلان ہو جو ہمارے وسائل جن میں سرفہرست انسانی وسائل، معدنیات اور زرعی زمین ہیں، کے بہترین استعمال پر مبنی ہو۔ جنھیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ موثر طور پر اور بہتر پیداواری استعداد کے ساتھ اور آسان قرضوں کے حصول کے ساتھ، معاشی ترقی کے لیے کام میں لایا جائے۔
یہ پلان مختصر عرصے میں سرکاری اداروں کے اخراجات، نقصانات اور سبسڈی میں نمایاں کمی لائے اور ہمارے دفاع اور سرکاری اداروں کو کم خرچ مگر موثر بنانے کا ایک جدید منصوبہ دے سکے۔ ایسے معاشی منصوبے کے تحت بننے والی پالیسیوں کا بنیادی مقصد ان کو اشرافیہ کے مفادات سے بچانا، دیانت دار سرمایاکاروں اور چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کی بھرپور اعانت کے لیے موثر بنانا ہو گا۔ موجودہ حالات میں، جب ہمارے پاس ایسا کوئی معاشی منصوبہ نہیں جسے معاشرے کا ہر طبقہ، آئینی پاکستان کی طرح، ملکی مفاد کا مظہر سمجھتا ہو، ہمارے نمایندے کس بنیاد پر آئی ایم ایف یا کسی دوست ملک سے موثر یا مفید مذاکرات کر سکیں گے؟ ان حالات میں کوئی اور راستہ نہیں سوائے اس کے آئی ایم ایف کی دی ہوئی کڑوی گولیاں نگل لیں اور ایسے متفقہ معاشی منصوبے کی تیاری کریں۔ امید کرتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت قوم کے روشن مستقبل کا راستہ متعین کرنے میں کامیاب ہو گی جو ہمیں ان ممالک کی صف میں شامل کر دے جنھوں نے مشکل حالات سے نکل کر معاشی ترقی حاصل کی۔ ایسی کامیابی کے راستے میں ہماری اسٹیبلشمنٹ، ہمارے سرکاری اور کاروباری اداروں کو اپنے مفادات کی قربانیاں بھی دینا ہو گی۔
محمد یونس ڈاگھا (مصنف سابق وفاقی سیکریٹری اور موجودہ چیئرمین پالیسی ایڈوائزری بورڈ، ایف پی سی سی آئی ہیں۔)
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
ناخن های شکننده در افرادی که دچار کم کاری تیروئید، سوء تغذیه، سل و برخی شرایط ریه هستند، دیده می شود. در افراد مبتلا به بیماری های پوستی مانند پسوریازیس، لیکن پلان و آلوپی آرئاتا هستندنیز مشاهده می شود. https://bit.ly/3n2UNY4
1 note
·
View note
Text
علائم و درمان بیماری پوستی لیکن پلان
علائم و درمان بیماری پوستی لیکن پلان
لیکن پلان (Lichen Planus)
یک بیماری ژنتیکی خارش دار مزمن در پوست است که به طور شایع به شکل پاپول (ضایعات کوچک برجسته بنفش رنگ) در نواحی مچ دست
، پا و دیگر نواحی بدن مانند پوست نواحی تنه و اندام تناسلی بروز میکند که در صورت درمان نشدن بزرگتر شده و موجب عوارض جدی میشود.
بیماری لیکن پلان علاوه بر پوست میتواند در موارد نادر در مخاط دهان ، اندام تناسلی ، پوست سر و مو ، ناخن و حتی صورت بدون خارش آشکار…
View On WordPress
#آیا بیماری لوپوس ارثی است#آیا بیماری لوپوس باعث مر�� میشود#آیا پسوریازیس واگیردار است؟#آیا لوپوس درمان قطعی دارد؟#افسردگی سلنا گومز#انواع بیماری لوپوس کدام اند؟#انواع پسوریازیس#ایا بیماری لوپوس کشنده است#ایا سلنا گومز سرطان دارد#بیماری#بیماری پوستی صدف چیست#بیماری پوستی لیکن پلان#بیماری صدفی#بیماری لیکن پلان#بیماری نادر لوپوس#پسوريازيس+درمان قطعي#پسوریازیس تناسلی#پسوریازیس درمان گیاهی#پسوریازیس سر#پسوریازیس ناخن چیست؟#پیوند کلیه سلنا گومز#تصاویر بیماری لوپوس#درمان بیماری#درمان بیماری پوستی پسوریازیس#درمان بیماری لوپوس چیست#درمان روماتیسم لوپوس#درمان لوپوس با طب سنتی#درمان لوپوس پوستی در طب سنتی#درمان لوپوس دکتر خیراندیش#شیمی درمانی سلنا گومز
0 notes
Link
ای میل مارکیٹنگ سروس میں کاپی رائٹنگ یعنی تحریر کا کردار اور معاوضوں کا تعین
ای میل مارکیٹنگ کیسے کریں ، ڈیجیٹیل مارکیٹنگ کی تعلیم اورمعاوضوں کے تعین میں ، کاپی رائٹنگ کی کیا اہمیت ہے
یہ سب پڑھیں اس مضمون میں
کاپی رائٹنگ یعنی مواد لکھنے کا کردار اور کی اہمیت ، آپ کی ای میل مارکیٹنگ سروس/پراجیکٹ میں اتنی زیادہ ہے ، کہ یہ آپ کی ای میل اشہتاری یا مارکٹنگ مہم کو توڑ بھی سکتا ہے اور بنا بھی سکتا ہے اس لیے سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رکھیں کہ
ای میل مارکیٹنگ سروس کے لیے ، ای میل لکھنے والا کوئ بہت ہی عمدہ اور وقف شدہ سرشار قسم کا شخص ہو ، جو لفظوں سے شاہکار تخلیق کرنے کی اہلیت رکھتا ہو،
وہ ای میل اشتہارات میں ایسی سطریں لکھے کہ ، صارفین وہ ای میل کھولنے پر مجبور ہوجائیں ، اسے پڑھنے کا چسکہ لگ جائیے ، اس ای میل کے منتظر رہیں اور ، آخر کار ، جس جس تک ای میل پہنچے وہ یوزر کسٹمر بن جائے ،
یہی مارکیٹنگ کا بنیادی مقصد ہوتا ہے ، یعنی عام صارف کو گاہک بنانا
کاپی رائٹر ، یعنی یہ سب لکھنے والا ، ای میل مینیجر ، اور مارکیٹنگ کے منصوبہ ساز یعنی سٹریٹیجسٹ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے ، اس میں
A/B Test یا Split test
کا استعمال کیا جاتا ہے ، اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ، صارف کے ایک گروپ کو ، ایک پراڈکٹ یا اشہتار سے متعلق ، الگ ای میل کی جاتی ہے ، اور دوسرے گروہ کو ، مختلف الفاظ کے ساتھ ، اسی پراڈکٹ/اشہتار کے ساتھ ای میل بھیجی جاتی ہے ، مختلف طریقے سے تنوع پیدا کیا جاتا ہے ، کبھی ای میل کی سبجیکٹ لائن میں تبدیلی کی جاتی ہے ، کبھی ، اندر کے مواد میں مختلف الفاظ ، اسلوب کا استعمال کیا جاتا ہے ، تاکہ ، بترین نتائج حاصل کیے جا سکیں ، لوگ اکثر ہوچھتے ہیں کہ ، ایک اچھی سبجیکٹ/ہیڈلائن جو ای میل مارکیٹنگ میں استعمال ہوتی ہے ، اور ایک بری سبجیکٹ لائن میں کیا فرق ہے ، ہمارا جواب یہی ہوتا ہے وہی جو ایک ناکام اور کامیاب ترین کاروبار میں ہوتا ہے ، اب بات کرتے ہیں ،
کہ اس عمل کے معاوضے کا تٰعین کیسےہوتا ہے ، پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ ، اس میں لگنے والے وقت اور کام کرنے والے شخص کے تجربے پر منحصر ہے ، اس کے لحاظ سے قیمتیں میں تغیر برپا ہوتا ہے کس لیول اور کوالٹی کا مواد لکھ کر دے رہا ہے ، وغیرہ وغیرہ ،
لیکن ، ایک مناسب معیاری ای میل مارکیٹنگ مینیجر کے وقت کی قیمت ، کم از کم
دوہزار روپے گھنٹہ سے آٹھ ہزار روپے گھںٹہ تک جاتی ہے
اسی طرح ایک مناسب اچھے قسم کے کاپی رائٹر کے فی گھنٹہ ریٹ
ڈیڑھ ہزار روپے فی گھنٹہ سے چھ ہزار روپے فی گھنٹہ تک جا سکتے ہیں
باقی پھر وہی ہے کہ ، آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ، کلائنٹ کون ہے ،پارٹی کیسی ہے ، بجٹ کیا ہے وغیرہ وغیرہ
جیسا کہ گذشتہ مضمون میں
خود کار میپنگ لے آوٹ
Automation Mapping
کا تذکرہ ہوا تھا ، یہ کام ، ایک سے دو دن لیتا ہے
اور اتنا ہی
segmentation management
ای میل ڈائجسٹ جس کا تذکرہ بھی گذشتہ مضمون میں موجود ہے ، اس پر دو سے ڈھائی گھنٹے فی ہفتہ لگتے ہیں
اور ای میل مارکیتنگ کی جو مانیٹرنگ ہے ، وہ دو سے پانچ گھنٹے فی ہفتہ کی جاتی ہے
ایک کاپی رائٹر کی لکھنے کی سپیڈ کوالٹی مواد کے ساتھ اتنی ہونی چاہئے کہ ، وہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں ، دو ای میل ضرور لکھ لے ، یعنی رفتار اور تخلیق ایک ساتھ چاہئے ۔ ہاں کوئی بہت زیادہ مواد ہو تووقت میں ردو بدل کیا جاسکتا ہے
اور ایک بات یاد رکھیں کہ ، کاپی رائٹر ، مواد کی پروف ریڈنگ بہتری اور کوئی مزید بہتری ہو ، تو اس میں بھی ، دو ڈھائی گھنٹے اضافی لیتا ہے تو ان اضافی گھنٹوں کو بھی ذہن میں رکھیں
یہ تو ہوا ، اس بات بیان کہ ، اس کام میں کون کون سے افراد، کتنا کتنا وقت لے سکتے ہیں، اسی سے ہمیں معاوضے کا آئیڈیا ہوگا ، اب آخر میں یہ دیکھتے ہیں کہ کہ ان افراد کی خدمات، تجربے اور وقف شدہ
گھنٹوں کو دیکھتے ہوئے ، ای میل مارکیٹنگ سروس کے مجموعی معاوضے کا تعین کیسے ہوتا ہے
ای میل مارکیٹنگ سروس کے معاوضوں کا تعین کیسے کریں ؟؟
جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ ، ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹنگ کے
پانچ اہم ترین اور بنیادی مراحل یعنی
سوشل میڈیا مارکیٹنگ
ویب سائٹ سروس
ای میل مارکیٹنگ
پے پر کلک ، یعنی PPC
اور سرچ انجن آپٹی مائی زیشن ، آسان الفاظ میں گوگل رینکنگ
میں سے ، تیسرے اہم مرحلے
ای میل مارکیٹںگ سروس کے معاوضوں کا تعین
، گذشتہ دو کی طرح ، سیدھے سے فارمولے سے کیا جاتا ہے ،
وہ فارمولا ہے
معاوضہ = اخراجات + مارک اپ
اب یہ مارک اپ کیا چیز ہے ، یہ بتایا جا چکا
اس کو مزید آسانی کے لیے یہ سمجھ لیں کہ ، یہ منافع کی شرح ہوتی ہے ، جو پرسنٹیج میں نکالی جاتی ہے
اس میں آپ اخراجات کی مد میں وہ چیزیں وہ قیمت رکھتے ہیں جو مذکورہ بالا افراد کی فی گھنٹہ فیس یا دوسرے اخراجات ،
اور اس میں جمع کرتے ہیں وہ پرافٹ ، جو آپ اس کام سے چاہتے ہیں ، یہ آپ کے تجربے اور کام کی کوالٹِی ، آپ کی کتنی بڑی فرم ہے ، آفس ہے ، اکیلے کام کرتے ہیں ، سٹاف رکھا ہوا ہے ، وغیرہ وغیرہ ، یہ سب دیکھتے ہوئے طے ہوتا ہے
اکثر لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ ، اچھا اور میعاری مارک اپ کیا ہوتا ہے
ہم انہیں یہی جواب دیتے ہیں کہ
اس کا کوئی ، بھی خاص فارمولا نہیں
یعنی آئیڈیل مارک اپ کیا اور کیسے ہوتا ہے ، اس کا تعین، باقاعدہ طور پر نہِں کیا جاسکتا
ہاں یہ ضرور ہے کہ ، اکثر کمپنیاں ، اکثر کاروباری ادارے ، جو پروفیشنل طریقے سے کام کرتے ہیں ، مذکورہ بالا فیکٹرز کو سامنے رکھتے ہوئے
وہ مارک اپ - پچاس فیصد تک رکھتے ہیں
اس کا مطلب یہ ہوا کہ
جو سروش یا جو پراڈکٹ، یا جس چیز پر آپ کے سو روپے اخراجات کی مد میں لگے ہیں
اس میں آپ پچاس فیصد اضافہ کرکے آگے بیچتے ہیں
یعنی پچاس فیصد مارک اپ
یعنی سو میں پچاس جمع کریں تو ڈیڑھ سو روپے کی
بہرحال ، ریاضی کے فارمولے کے مطابق چلنا چاہیں تو
مارک اپ کا تعین درج ذیل طریقے سے کیا جاتا ہے
مارک اپ یعنی منافع کا فیصد نکالنے کا فارمولا
قیمت فروخت -قیمت خرید
جو بھی جواب آئے
اسے قیمت خرید سے تقسیم کریں
پھر جو جواب بنے اس کو ،
سو سے ضرب دے دیں
مثلا ایک آئٹم / سروس
کی قیمت خرید
آپ کو پڑی ہے چارسوسینتیس روپے کی
آپ اسے بیچنا چاہ رہے ہیں ، پانچ سوروپے کی
اس صورت میں مارک اپ کیا ہوگا
؟؟
قیمت فروخت = پانچ سو روپے روپے
قیمت خرید = چار سو سینتس روپے
فارمولے کے مطابق آپ ہلے ، قیمت فروخت میں سے ، قیمت خرید مائنس کریں گے
جواب آئے گا ،
تریسٹھ روپے
اس کو یاد رکھنے کا آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ
ظاہر ہے ، قیمت فروخت زیادہ ہی ہوگی ، اور مائنس ، زیادہ میں سے کیا جاتا ہے ، کم میں سے نہیں
ہاں آپ کسی "فی سبیل اللہ سیاسی جماعت" کے چنگل میں پھنسے گئے ہوں تو وہاں سین الٹا ہوتا ہے ، انہیں کام کی بہتری سے کوئی سروکار نہیں ہوتا
کیوں کہ انہوں نے بقول ان کے ، اپنا مقدمہ اللہ کے ہاں ہی پیش کرنا ہوتا ہے ، بیوہ عورتون کی طرح ، یعنی ، سب پروفیشنلز ، کے حقوق مار کر ، خود مظلوم بن جانا
خیر ان پر کیا وقت ضایع کرنا
بہرحال
فارمولے کے مطابق آپ ہلے ، قیمت فروخت میں سے ، قیمت خرید مائنس کریں گے
تو جواب آئے گا ، تریسٹھ روپے
یہ ہوا آپ کا ٹوٹل مارک اپ ، رقم یعنی نمبر میں
اب یہ ، فیصد کتنا ہے
اس کے لیے آپ اس کو تقسیم کریں کاسٹ پرائس یعنی قیمت خرید ، جو کہ ہے کہ چار سو سینتس روپے
63/437 = 0.144
اب چونکہ جواب فیصد میں چاہئے تواس کو
ضرب دیں گے ، سو سے
تو جواب آئے گا
0.144 * 100
14.4 فیصد
گویا ، آپ کی وہ سروس/پراڈکٹ/کام جس کی قیمت آپ کو چار سو سینتس روپے پڑی ہے ، اخراجات کی مد میں آپ اگر کلائنٹ کو ، پانچ سو روپے کی بیچیں تو
آپ اس پر ، تقریبا ساڑھے چودہ فیصد مارک اپ وصول کررہے ہیں
یہ تو ہوا ، ان افراد کے لیے ، جو ، مارک اپ کو ٹھیک سے سمجھنا چاہ رہے تھے ،
عمومی طور پر ،
اکثر پروفیشنل فری لانسر ، اس کو یوں طے کرتے ہیں کہ ،
اور ہم بھی اسی چیز کو ترجیح دیتے ہیں کہ
آپ ای میل مارکیٹنگ سروس کے ، ایک ، باٹا ریٹ یعنی فکس ریٹ طے کردیں آغاز میں ، جس کا اوسط آپ ، اس طرح نکالیں کہ ، کتنے گھنٹے لگنے ہیں اس کام میں ، اور پھر اس ریٹ پہ کوئی ڈسکشن نہ کریں ، کیوں کہ پاکستانیوں کی عادت ہے ، ڈسکشن کی ذلت اٹھا کر ، "ذرا مناسب کرلو" والی بیماری کا شکار ہوتے ہوئے ، پھر یہ آتے اسی ریٹ پر ہیں ، جو سامنے والا چاہئے ، بس نفسیاتی تسلی چاہئے ہوتی ہیں ان کواور جو ، "اسلام" کا نام لے کر ، چھری پھیرنے والا کلائںٹ ہوتا ہے
وہ ان سے بھی زیادہ رسوا ہوتا ہے ، کیوں کہ ، وہ گھٹیا کوالٹی پہ گزارا کرلیتا ہے ،بجائے ریٹ بڑھانے کے - یہ تو طے ہے ، پاکستانی میں مذہبی تنظیمیں جو کارکنوں کا پیٹ کاٹتی ہیں ، ان حال عبداللہ بن ابی سے کم نہیں ، اور یہی وجہ ہوتی ہے ، کہ ان سے سیاسی ڈیلنگ بھی ٹھیک نہں ہوتی ، کہ انہوں نے ، کارپوریٹ لیول پر بھی مثبت کردار ادا کرنے میں کوئی خاص رول پلے نہیں کیا ہوتا ، سوائے چند ایک کے ، لیکن ، یہاں ، چند ایک کا تذکرہ نہیں ، اکثر رسوائے زمانہ کا تذکرہ مقصود ہے بہرحال
نئے فری لانسرز کے لیے ای میل مارکیٹںگ سروس کے معاوضوں کا تعین اور ترجیحات
آپ ای میل مارکیٹنگ سروس کے ، ایک ، باٹا ریٹ یعنی فکس ریٹ طے کردیں آغاز میں ، جس کا اوسط آپ ، اس طرح نکالیں کہ ، کتنے گھنٹے لگنے ہیں اس کام میں ، اور پھر اس ریٹ پہ کوئی ڈسکشن نہ کریں
پھر اس کے بعد، آپ کتنا منافع چاہتے ہیں ، اس میں ایڈ کریں
یعنی کام لینے والے کو پتا ہو کہ ، آپ کے پاس آرہا ہے ، فکسڈ ریٹ اتنا تو دینا پڑے گا ، اور اس میں بک بک چک چک نہیں ہے - باقی ، اوپر جو ہو ، اس میں اونچ نیچ سودے بازی بالکل کریں ، اس کی بھی نفسیاتی تسلی ہو ، اور آپ کی بھی کہ ، مجھے کم از کم کچھ نہ کچھ مل رہا ہے
سوائے
"اللہ کے لیے کام کرنے" کے آسرے کے
اب یہ فلیٹ یعنی فکسڈ ریٹ کا تعین ، ان افراد کے فی گھنٹہ چارجز دیکھ کر کیا جاتا ہے جو آپ کے ساتھ ای میل مارکیٹنگ میں شامل ہوتے ہیں
اس میں ای میل مینیجر
کاپی رائٹر
اعداد شمار پر نظر رکھنے والا
ڈیزائنر ، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں
اب ان کے مارکیٹ ریٹ فی گھنٹۃ کے لحاظ سے کیا ہیں ، یہ ایک مکمل الگ مضمون ہے اس لیے اس پر پھر کبھی بات سہی ، کیوں کہ ، جو مضمون آپ پڑھ رہے ہیں اس میں
"معاوضوں کا تعین کیسے کیا جاتا ہے پر بات کی جارہی ہے "
نئے اور تازہ تازہ جونئیر کاپی رائٹر کے فی گھنٹہ چارجز --
دوہزار فی گھنٹ سے پانچ ہزار فی گھنٹہ تک جاسکتے ہیں
درمیانے درجے کے کاپی رائٹر کے فی گھنٹہ چارجز
پانچ ہزار فی گھنٹہ سے آٹھ ہزار فی گھنٹہ تک جا سکتے ہیں
اور ٹاپ لیول انتہائی تجربہ کار اور ماہر ای امیل کاپی رائٹر کے فی گھنٹہ چارجز
بہت زیادہ تنوع لیے ہوتے ہیں
ان کی رینج
آٹھ نو ہزار فی گھنٹہ سے شروع ہو کر، پندرہ / بیس ہزار فی گھنٹہ تک جاسکتی ہے اور جانی چاہئے
باقی پھر کلائنٹ کیسا ہے اور آپ کا تجربہ کیا ہے پر ڈیپنڈ کرتا ہے
گویا جونئیر ترین دوہزار فی گھنٹہ اور سینئر ترین پندرہ سے بیس ہزار فی گھنٹہ تکہ جا سکتا ہے
یہ صرف ای میل کے کاپی رائٹر کے ریٹ ہیں وہ بھی فی گھنٹہ
باقی کسی وقت ڈیزائنر اور سٹریجسٹ حتی کہ ، ان سب سروسز کے مخصوص / اوسط /میعاری ، معاضوں پر تفصیلی اقساط لکھی جائیں گی
بہرحال
مارک اپ کی جہاں بات ہے کہ ، آپ کے تجربے کے اوپر ہے ، اکثر، سوشل میڈیا مارکیٹنگ ادارے / فری لانسر
بیس سے پچیس فیصد کا مارک اپ وصول کرتے ہیں ۔
اور جو بہت ہی زیادہ کوالٹی سروس دیتے ہیں وہ اس سے بھی اوپر جا سکتے ہیں ، ساٹھ ستر فیصد مارک اپ تک بھی
یہ ضرور یاد رکھیں
کہ جب آپ یہ سیکھ رہے ہوں کہ ، آپ نے ، اپنی ای میل مارکیٹنگ سروس کے معاوضے کا تعین کیسے کرنا ہے ، تو یہ ضرور یاد رکھیں
آپ ، دراصل ان معاوضوں کے بدلے ، آفر کیا کررہے ہیں یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے آپ کومثلا
آپ کو یہ پتا ہونا چاہئے کہ
کیا آپ کی عمومی حکمت علی ، جو بھی پلان آپ نے کرنا ہے ای میل مارکیٹںگ کے لیے ، اس میں ، آٹومیشن والا عمل درکار ہے ؟؟
کیا ضروری ہے ، آپ کا ، کاپی رائٹر سے ریگولر کام لینا
یا ای میل ڈائجسٹ بنانا
یہ سوال خود سے کریں
کیوں کہ اس میں سے بہت سی چیزیں ، کلائنٹ کے کاوبار کی نوعیت دیکھ کر بھی ، کٹوتی یا اضافہ کی جاتی ہیں
ان سوالوں کا جواب اپنے سٹریجسٹ اور پلانر سے لیں
اس کے بعد ، کلائنٹ کی بنیادی ضروریات کو سمجھیں ، پھر ایک بنیادی مرکزی
baseline cost
اس کلائنٹ کے لیے طے کردیں
یہاں ، ای میل مارکیٹںگ سروس کے معاوضوں کا طریقہ کار ختم ہوا ، اگلی قسط میں سمجھیں گے
ڈیجیٹل مارکیٹنگ سروس کے چوتھے اہم مرحلے
پی پی سی سروس یعنی پے پر کلک سروس کے لیے معاوضوں کا تعین کیسے کیا جاتا ہے
اس سے پہلے ، پی پی سی کی بنیادی تعریف سمجھ لیں
آسان ترین زبان میں ، پے پر کلک یعنی
pay per click
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے ، اس بزنس ماڈل یا سروس کو کہتے ہیں جس میں آپ نے ، فیس بک / گوگل یا کسی بھی سائٹ پر اپنا کوئی اشتہار چلایا
اور اس اشتہار کو دیکھ کر ، یوزر نے کلک کیا ، اس اشتہار پر ، تو آپ سے یعنی اشتہار چلانے والے سے ،
فی کلک ، پیسے لیے جاتے ہیں
مزید آسان کروں تو، یہ انٹرنیٹ مارکیٹنگ میں "لائکس، ریچ، ویو، ، وزیٹر/یوزر" کو پیسے سے خریدنے کا نام ہے ، یعنی ان کے کلکس کو
اب وہ کلک ، فیس بک ایڈ پر ہو ، یوٹیوب پر چلنے والے اشتہارات پر ہو ، گوگل ایڈسینس پر ہو ، وغیرہ وغیرہ کہیں بھی نظر آنے والے اشتہار پر یوزر کلک کرے گا ، تو، اس کے ہر کلک پر آپ یعنی اشتہار چلانے والے کو پیسے دینے پڑیں گے ، جس کے نیتجے میں یوزر کلک کر کے آپ کی سروس/سائٹ/پراڈکٹ وغیرہ پر آسکتا ہے
اب اس ماڈل / سروس یعنی پے پر کلک کے معاوضوں کا تعین کیسے ہوتا ہے یہ اگلی قسط میں
0 notes
Text
اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل پر بالآخر شہباز شریف نے حقیقت بتا دی
لاہور (جی سی این رپورٹ) پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ڈیل کرکے باہر گیا نہ ڈیل کے تحت واپس آیا، نیب نیازی گٹھ جوڑ کو کورونا سے نہیں بلکہ اپوزیشن سے لڑنے کی فکر ہے، کورونا وباء پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلانا چاہیے، لیکن حکومت کورونا کیخلاف سنجیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ کورونا وباء پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلانا چاہیے۔میں لندن میں تھا تو ہماری پارٹی نے کورونا پرمربوط پلان دیا۔ ہم نے ملک میں مکمل لاک ڈاون کی تجویز دی۔ جن ممالک میں مکمل لاک ڈاون ہوا، وہاں اموات کی شرح نیچے آئی۔ ہمارے ملک میں غیرسنجیدہ رویے کی وجہ کورونا بڑھ گیا۔ نیب نیازی گٹھ جوڑ کو کورونا سے نہیں،اپوزیشن سے لڑنے کی فکر ہے۔نہ میں ڈیل کے تحت گیا تھا نہ ڈیل کے تحت واپس آیا۔ بیماری کے سبب لندن گیا، کورونا کے سبب پروازیں بند ہوئیں تو واپس آنا پڑا۔میں بھائی کو نہیں بھائی کےعلاج کو چھوڑکر واپس آیا۔ نوازشریف کے پلیٹ لیٹس کے معاملے کی سنگین صورتحال تھی۔ لیکن بیماری پر سیاست کی گئی، ہمیں بیماری پرسیاست نہیں کرنی چاہیے۔ میں ایک جمہوری سوچ کا آدمی ہوں۔ میں نوازشریف کا نامزد کردہ اور پارٹی کا منتخب صدر ہوں۔جمہوریت کیلئے نوازشریف نے بےپناہ قربانیاں دیں۔ 1993میں غلام اسحاق نے مجھے بلایا اورکہا تم وزیراعظم بن جاؤ۔ میں نے کہا یہ ممکن نہیں ہے، میں نے یہ پیشکش رد کردی۔ہم نے صعوبتیں، قیدوبند اورجلاوطنی برداشت کی۔2017 میں نوازشریف کو پاناما کے بجائے اقامہ پر نااہل کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے جس ملک میں کورونا کوغیرسنجیدہ لیا گیا وہاں تباہی مچ گئی۔ ہم نے کورونا کو سنجیدہ نہیں لیا، لاک ڈاون پرغیرضروری بحث چھیڑی گئی۔ شہبازشریف نے کہا کہ چند دن پہلے خبر آئی صدرمملکت وزیراعلیٰ سندھ سے ملیں گے لیکن اگلے دن ملاقات منسوخ ہوگئی۔ اسی طرح وزیراعظم وزیراعلیٰ سے ملنے سے انکار کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں قومی ہم آہنگی کیسے ہوگی۔ Read the full article
0 notes
Text
کرونا وائرس : آپ نے قرنطینہ کیسے ہونا ہے؟
بہت سے لوگ سماجی دوری کی تیاری کے سلسلے میں خوراک اور دیگر سپلائی کو ذخیرہ کر رہے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے سوچا ہے کہ اگر آپ کووڈ19- میں مبتلا ہو گئے ہیں اور آپ نے خود کو قرنطینہ کرنا ہے تو آپ کو کن چیزوں کی ضرورت ہو گی؟ چین میں کووڈ19- کا شکار بننے والے تقریباً 80 فیصد افراد میں کم یا درمیانی شدت کی علامات ظاہر ہوئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ گھر پر ہی ہماری بحالی ہو سکتی ہے۔ صحت عامہ کے ماہر اور محقق جینیفر ولیمز کہتے ہیں ''کووڈ 19- میں مبتلا ہونے کا امکان ہو یا پھر ٹیسٹ مثبت آنے پر کم سے درمیانی شدت کی علامات ہوں تو آپ بعض سہل قدم اٹھا سکتے ہیں۔‘‘
ایکشن پلان بنائیں: ڈاکٹر لیزاڈ کہتی ہیں ''گھر پر ایک خاص مدت کے قرنطینہ کی تیاری کا مطلب گھریلو پلان آف ایکشن کے ساتھ الگ رہنے کے دورانیے کے لیے اشیائے ضروریہ ذخیرہ کرنا ہے۔‘‘ ان کے مطابق اس امر کو یقینی بنائیں کہ آپ کے پاس ایمرجنسی رابطے ہوں تاکہ آپ خاندان، دوستوں اور ساتھیوں سے بات کر سکیں اور ضرورت کی چیزیں آپ تک پہنچ سکیں۔ دو سے چار ہفتوں کی خوراک، صفائی کا سامان جیسا کہ سینی ٹائزر اور صابن، اور چند دیگر ضروری چیزیں جیسا کہ ٹشو کا انتظام ہونا چاہیے۔
ان کے مطابق ''جب آپ خوراک کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو ایسی خوراک جمع کریں جو زیادہ وقت تک خراب نہ ہو اور اس میں غذائیت بھی ہو، مثال کے طور پر چاول، پاستا، دالیں، خشک میوے، ڈبہ بند کھانے کی اشیا اور جمی ہوئی سبزیاں۔‘‘ صحت کے لیے تازہ پھل اور سبزیاں بھی اہم ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں سے بہت سے لازمی ��ذائی اجزا ملتے ہیں۔ انہیں خراب ہونے سے بچانے کے طریقے بھی ہیں۔ مثلاً ان سے سوپ بنا کر اسے جمایا جا سکتا ہے۔ آپ کھانے کی ایسی اشیا کو گھر ہی پر فریز کر سکتے ہیں۔
اشیا کی فہرست کچھ یوں ہونی چاہیے۔ صاف پانی: اگر آپ کووڈ 19- کی لپیٹ میں آ جائیں تو سپلائی کی فہرست میں پانی کو اولیت حاصل ہے۔ ایمورے یونیورسٹی سے منسلک اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رائے بیناروچ کے مطابق ''دیگر کئی وبائی امراض کی طرح کووڈ 19- بھی وبائی ہے، اس کا علاج یہی ہے کہ جب جسم بحالی کی کوشش میں مصروف ہو، اسے سکون ملے اور اس کا خیال رکھا جائے۔‘‘ان کے مطابق ''مطلوبہ مقدار میں پانی پینا اہم ہے، بالخصوص جب بخار زیادہ ہو۔‘‘ ولیمز کا کہنا ہے کہ کووڈ 19- کی علامات میں بخار، کھانسی، اسہال اور قے شامل ہیں۔ ان سے جسم میں پانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور اگر وہ پوری نہ ہو تو جسم میں مائع کم ہو جاتا ہے۔ اگر بحالی کے عمل میں صحت مندانہ غذائیں نہ کھائی جائیں اور مائع نہ پیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
جسم میں پانی کی صحت مندانہ مقدار سے ناک کی بلغمی جھلی ٹھیک اور مستحکم رہے گی۔ اس سے کھانستے، چھینکتے، یہاں تک کہ سانس لیتے ہوئے ناک میں سوزش یا خراش پیدا نہیں ہو گی۔ نمی کے باعث جھلیاں نہیں پھٹتیں، اس لیے جسم میں مزید بیکٹیریا داخل نہیں ہوتے۔ عام صاف پانی بھی ٹھیک رہتا ہے، اگر آپ بوتل والا پیتے ہیں تو وہ بھی مناسب ہے، البتہ ماہرین کم از کم 15 دنوں کی سپلائی کی موجودگی ضروری بتاتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں پینے کا صاف پانی آتا ہے اور دوسروں نے بھی وہیں سے پانی استعمال کرنا ہے تو اپنا پانی الگ بوتلوں میں جمع کر لیں۔
نیشنل اکیڈمیز آف سائنسز، انجینئرنگ اینڈ میڈیسن (امریکا) کے مطابق ساڑھے 15 کپ (3.7 لیٹر) مائع مردوں اور 11.5 کپ (2.7 لیٹر) عورتوں کو روزانہ لینا چاہیے، البتہ بیمار قدرے زیادہ پی سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ خوراک سے ہمیں 20 فیصد کے قریب مائع حاصل ہوتا ہے۔ کبھی کبھار کووڈ 19- کے کیسز میں معدے اور انتڑیوں کا شدید ورم (acute gastroenteritis) ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں پانی کی کمی دور کرنے والے سالوشن ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
درد کی دوا: سب سے مفید وہ دوا ہو گی جس سے سر اور جسم کے درد اور بخار کو کم کیا جا سکے۔
ٹشو: وائرس سے آلودہ قطرے یا چھینٹے جو کھانستے، چھینکتے یا تھوکتے ہوئے نکلتے ہیں کووڈ 19- کے ایک سے دوسرے فرد میں انتقال کی بنیادی وجہ ہیں۔ اس لیے آپ کے پاس ٹشو پیپر ہونے چاہئیں تاکہ آپ انہیں ضرورت کے وقت استعمال کر سکیں۔
کھانسی کی دوا: زیادہ تر افراد کو شدید کھانسی ہوتی ہے۔ اگر آپ کو دمہ ہے یا نظام تنفس کی کوئی دوسری بیماری ہے، تو اس کی ادویات کا ہونا بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سے مشورہ کیجیے۔ کھانسی کی عام ادویات اکثر مؤثر نہیں رہتیں۔ گلے کے لیے شہد مفید ہے۔ اگر آپ کو دمہ ہے یا نظام تنفس کا کوئی م��ض ہے تو اضافی انہیلر اور ادویات آپ کے پاس ہونی چاہئیں۔ دیگر دیرینہ امراض کے لیے بھی یہی بات درست ہے۔ ذیابیطس، دل کے امراض اور نظام مدافعت کی خرابی سے کووڈ19- کے بگڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا ان مسائل کی صورت میں ان کی دوائیں آپ کے پاس ہونی چاہئیں۔ ان ادویات کی، جن کا ڈاکٹر نے مشورہ دیا ہے، چار ہفتوں کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔
زنک: انڈیانا یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر مورٹن ٹاول کے مطابق کورونا وائرس کی علامات کو کم کرنے میں سب سے مقبول مشورہ زنک کا استعمال بن چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس وبا میں زنک کی مقدار کچھ زیادہ لینے سے فائدہ ہونے کے براہ راست شواہد نہیں ملے لیکن اس میں ردِ وائرس خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ایک لیبارٹری ٹیسٹ کے مطابق اس سے خلیوں میں کورونا وائرس کی نقول بننے کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
وٹامن سی: اس سے قوت مدافعت کے خلیوں کی سرگرمی اچھی ہوتی ہے، بالخصوص اس وقت جب وبا میں انہیں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔
ادرک اور ہلدی: یہ دونوں سوزش کے خلاف لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور بہت اچھی اینٹی آکسیڈنٹ ہیں۔ ہلدی میں وہ تمام اہم کیمیکلز ہیں جو زکام سے لڑتے ہیں اور معدے سے متعلق مسائل میں راحت دیتے ہیں۔
تھرمامیٹر: اگر آپ کو کووڈ 19- کا خدشہ ہے اور آپ کو ہلکی پھلکی علامات ہیں، تو آپ کے پاس دن میں دو بار درجہ حرارت چیک کرنے کے لیے تھرمامیٹر ہونا چاہیے۔ نیویارک ڈپارٹمنٹ آف ہیلتھ کا مشورہ ہے کہ علامات ظاہر ہونے کے بعد کم از کم سات دن تک گھر پر الگ رہنا چاہیے اور اس وقت تک جب تک علامات ختم ہوئے اور بخار اترے 72 گھنٹے نہ گزر جائیں۔ اگر علامات شدید ہونے لگیں تو متعلقہ ادارے اور شعبہ طب سے رابطہ کریں۔
صفائی کی اشیا: ان میں دستانے، صابن، ہینڈ سینی ٹائزر، سرفس کلینر، موپس اور سپونج شامل ہیں۔ ان کا مقصد گھر میں کورونا وائرس کے پھیلنے کو روکنا ہے۔
اضافی شیٹس، تولیے اور کپڑے: بیماری کے وقت آپ جس مقام کو چھوتے ہیں، اس پر بھی جراثیم آ جاتے ہیں۔ سخت سطح کو ڈس انفیکٹ کیا جا سکتا ہے لیکن کپڑوں، شیٹس اور تولیوں کے لیے آپ کو انہیں الگ اور طریقے سے رکھنا ہو گا اور گرم پانی سے دھونا ہو گا۔
الگ ہونے کی جگہ: اگر آپ بیمار ہیں تو آپ کو ایک الگ کمرے کی ضرورت ہے تاکہ دوسرے لوگوں سے ہر ممکن حد تک دور رہیں۔ ایسا کمرہ زیادہ بہتر ہے جس کے ساتھ باتھ روم بھی ہو۔
فرسٹ ایڈ کی کٹ: چھوٹے زخموں کے لیے ضروری چیزیں آپ کے پاس ہونی چاہئیں۔
کتابیں اور تفریح: ڈاکٹر جونز کا کہنا ہے کہ سیلف آئسولیشن یا الگ رہنے کے دوران اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنا اہم ہے۔ اس لیے مذکورہ اشیا آپ کے پاس ہونی چاہئیں۔
مقامی طبی عملے یا ادارے اور ایمرجنسی کا نمبر: خیال رہے کہ اس مرض میں بخار اکثر زیادہ رہتا ہے، اس کے علاوہ اگر مریض کی علامات میں شدت ہو یا وہ بے چین ہو تو طب کے ماہر کو طلب کرنا اگلا قدم ہو گا۔ خیال رہے کہ خود کو قرنطینہ کرنے کا اقدام حکومتی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
تحریر : بوب کرلی ترجمہ و تلخیص: وردہ بلوچ
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Text
سه پرسش درباره ریزش موی سکهای
ریزش موی سکهای یا آلوپسی آرآتا نوعی از ریزش موی برگشتپذیر است که علت بروز آن به طور دقیق مشخص نیست. این عارضه با علایم خاص مثل التهاب و خارش و سوزش همراه نیست و اما در سالهای اخیر موارد زیادی از آن مشاهده شده است. شیوع بالای این عارضه، عوامل ایجاد و راههای درمان آن را در گفتگو با متخصصان در ادامه مرور میکنیم:
ریزش موی سکهای، دلایل و درمانهای آن چیست؟
دکتر محمدعلی نیلفروشزاده، متخصص پوست و مو و رئیس انجمن متخصصان پوست و موی ایران در این باره میگوید: ریزش موی سکهای نوعی از ریزش موی وابسته به سیستم ایمنی است که به شکل گرد و پیچ مانند معمولا در سر دیده میشود. در این عارضه پوست نواحیای که دچار ریزش مو میشود طبیعی بوده و حتی گاه اثراتی از مو در آن دیده میشود. این نواحی معمولا توسط موهای دیگر پوشیده میشود و معمولا خود فرد متوجه ریزش موی آن ناحیه نمیشود و بعد از مراجعه به آرایشگر است که از آن مطلع میشود. این نوع ریزش مو در افراد جوان و مخصوصا در افراد زیر ۴۰ سال شایعتر است و زنان و مردان را به یک نسبت درگیر میکند.
ریزش موی سکهای مسالهای تقریبا عادی است که در موی سر، ریش و سبیل یا حتی ابرو و مژه دیده میشود و در موارد نادر میتواند تمام موهای سر یا تن را درگیر کند. مواردی از این نوع ریزش مو هم سبب ریزش موی نواری در اطراف سر یا بالای گردن میشود.
علت بروز این نوع ریزش همانطور که گفته شد درگیر شدن سیستم ایمنی است که در پی آن سلولهای ملانوسیت فولیکولهای مو تحت هجوم سلولهای ایمنی قرار میگیرند. این طور عنوان میشود که سلولهای ایمنی در این عارضه دخیل هستند زیرا نواحی دارای موهای سفید طی این فرآیند دچار ریزش مو نمیشوند. اکثر بیماران ادعا میکنند بعد از یک استرس شدید کاری یا احساسی دچار ریزش موی سکهای شدهاند اما این موضوع هنوز از نظر علمی تایید شده نیست.
اکثر بیماران مبتلا به آلوپسی آرآتا یا ریزش موی سکهای دچار بیماری داخلی خاصی نیستند اما این عارضه ممکن است با برخی دیگر از بیماریها از جمله لوپوس، بیماریهای تیروئیدی، آنمیهای بدخیم، کولیت اولسروز یا درماتیتهای آتوپیک یا ویتیلیگو همراه شود. حتی گاه این عارضه عامل بروز فرورفتگیهای ریز روی ناخن است.
این عارضه گاه خود به خود در عرض سه ماه تا یک سال بدون درمان، رفع میشود که برای تسریع روند بازگشت میتوان از کورتون تزریقی یا تحریک با پمادهای حاوی آنترالین، گل دیفن سیفرون یا ماینوکسیدیل استفاده کرد؛ با این حال مدت زمان دقیق درمان ریزش موی سکهای قابل پیشبینی نیست. این عارضه گاه تنها یک بار رخ میدهد و گاه به طور متوالی تکرارشونده است و به درمان مقاوم میشود. در صورتی که عارضه به درمان مقاوم باشد میتوان از نوردرمانی (فوتوتراپی) یا کورتون خوراکی نیز برای درمان آن کمک گرفت اما در کل این نوع از ریزش مو برگشتپذیر است و معمولا در این مورد جای نگرانی نیست.
آیا استرس ریزش مو میآورد؟
یکی از مواردی که بسیاری از مبتلایان به ��یزش سکهای مو در آن اتفاق نظر دار��د این است که این عارضه بعد از یک فشار عصبی شدید که دامنه آن از استرس تا فشارهای کاری گسترده است رخ میدهد و به این ترتیب موضوع ارتباط سلامت روان و ریزش سکهای مو مطرح میشود.
دکتر پرویز رزاقی، روانشناس و عضو هیات علمی دانشگاه در این خصوص عنوان میکند: در برخی موارد استرس میتواند زمینهساز التهاب و ریزش مو باشد. در بسیاری از افراد مبتلا به لیکنپلان، لوپوس یا ریزش موی سکهای، استرس زمینهساز بروز ریزش موست. این دسته از افراد به دلیل بیماری، گرفتار افسردگی و اضطرابی میشوند که آنها را در سیکل معیو�� میاندازد و باعث میشود مرتبا استرس داشته باشند که این وضعیت، بیماریشان را تشدید میکند. اما در مورد ریزش موی هورمونی وضعیت کاملا متفاوت است و استرس گرچه میتواند سبب تشدید ریزش مو شود اما به تنهایی عامل بروز این مشکل باشد.
بهترین روش برای کاهش ریزش مو در این افراد این است که با درمانهای دارویی وضعیت روانی و محیطی آنها را بهتر کنیم و تا ریزش کاهش پیدا کند. به دنبال کاهش عوامل محرک، استرس فرد نیز کم میشود و با کاهش استرس، ریزش موی سکهای درمان خواهد شد.
آیا شامپوها در کنترل ریزش موی سکهای تاثیر گذارند؟
عدهای معتقدند که استفاده از برخی شویندههای سر در بروز ریزش موی سکهای موثرند و در مقابل برخی از این شویندهها نیز از میزان این نوع ریزش مو میکاهند و روند برگشت به حالت عادی را تسریع میکنند. اما بررسیها و تجربههای علمی در این باره چه میگویند؟ دکتر مجتبی امیری، متخصص پوست و مو و عضو هیات علمی بیمارستان بقیه ا... در این خصوص میگوید: علل ریزش مو در انسان با توجه به سن و جنسیت دامنه وسیعی دارد و بسیار متفاوت است. برای درمان ریزش مو باید ابتدا علت زمینهای توسط متخصص مشخص شود.
همانطور که اشاره شد طیف عوامل موثر در ریزش مو بسیار متنوع و متفاوت است که در اکثر موارد هم برگشتپذیر هستند. استرس، مصرف داروها، بیماریهای التهابی، عوامل تغذیهای، هورمونی، کمکاری تیرویید و... هریک میتواند زمینهساز ریزش مو باشد. ابتدا باید این بیماریها را درمان کرد تا ریزش مو قطع شود. در این موارد مصرف داروهای موضعی متفاوت تا بیماری اصلی درمان نشود بیفایده خواهد بود.
شایعترین علت ریزش مو، عوامل هورمونی ژنتیکی است که عامل اصلی آن هورمونهای مردانه با زمینه ژنتیکی است. در این نوع از ریزش مو مهمترین قدم در وهله نخست تشخیص زود هنگام و شناسایی اختلال هورمونی زمینهای است که میتواند ناشی از وجود کیست تخمدان یا عوامل دیگر باشد. برای درمان این مورد از داروهای هورمونی و محلولهای رویش مو استفاده میشود. البته داروهای قطع ریزش مو قیمتهای بالایی دارند و مدت زمان درمان با آنها هم طولانی است و گاه به برخی افراد نمیسازد به همین دلیل بعضی بیماران درمانهای اساسی را رها میکنند و به روشهای پیشنهادی که از طریق تبلیغات ارائه میشود روی میآورند. شرکتهای تجاری هم از این تمایل بیماران استفاده کرده و محصولات جانبی که تاثیرات ضعیفی در جلوگیری از ریزش مو دارند و در مقابل، بسیار سودآورند را تولید میکنند.
از نظر متخصصان این روشهای جانبی که یکی از مهمترین آنها استفاده از شامپوهای خاص است به هیچ عنوان نمیتواند درمان علمی ریزش موی سکهای یا هر نوع ریزش موی دیگر باشد. البته در این شکی نیست که برای شستشوی مو باید شویندهای مناسب با جنس آن تهیه کنید اما این شوینده باکیفیت تاثیری در رشد مجدد موها ندارد. اگر شما دارای موهای چرب هستید، استفاده از شامپوی نامناسب باعث باقی ماندن چربی روی سر شده که میتواند زمینهساز رشد قارچ و ریزش مو باشد. انواع شامپوهایی که در بازار موجود است مثل شامپو پروتیینه یا انواع شامپوهای گیاهی ضدریزش اثر اثبات شدهای در پیشگیری از ریزش مو ندارند. این شامپوها مشکلی ایجاد نمیکنند اما از نظر متخصصان پوست و مو استفاده از آنها چندان توصیه شده نیست. در واقع از میان تمام این شامپوها تنها تاثیر تونیکهای رزماری و سائوپالمتو در کاهش ریزش مو و رشد مجدد موهای ریخته از نظر علمی مورد تایید قرار گرفته است. البته فراموش نکنید گاه مصرف مکمل آهن و ویتامینهای گروه B و زینک هم جلوی ریزش مو را میگیرد.
1 note
·
View note
Text
کیا آپ خوش رہنا چاہتے ہیں؟
کیا آپ خوش ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو ہر فرد کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔ اگر جواب ہاں ہے پھر تو وہی راستہ اپنائے رکھیے جس پر آپ چل رہے اور خوش ہیں۔ تاہم کیا آپ خوش ہیں کا جواب نہ ہے تو اگلا سوال کچھ یوں ہو گا کہ کیا آپ خوش رہنا چاہتے ہیں؟ اگر جواب نہ ہے پھر وہی کرتے رہیں جس سے آپ ناخوش ہیں۔ لیکن اگر کیا آپ خوش رہنا چاہتے ہیں کا جواب ہاں ہے تو پھر آپ کو ’کچھ‘ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ کچھ تبدیلی کیا ہے؟ یہ تبدیلی باطنی تبدیلی ہے، جس کا تعلق آپ کی ذات اور دماغ سے ہے۔ اپنی ذات کی تبدیلی ہی آپ کو حقیقی معنوں میں مستقل خوشی مہیا کر سکتی ہے۔ اپنی ذات کی تبدیلی کیا ہے؟ یہ تبدیلی آپ کی عادات کی تبدیلی ہے، یہ تبدیلی آپ کی سوچ و افکار کی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی آپ کے رویوں کی تبدیلی ہے۔ اس تبدیلی کا تعلق آپ کے اندر سے ہے، جو آپ کی کلی قدرت میں بھی ہے، مستقل بھی ہے اور سب سے بڑھ کر اس پر ظاہری ناخوشگوار عوامل اثر انداز بھی نہیں ہوتے۔ آپ کے اندر کا موسم خوش گوار ہو تو آپ ظاہری ناخوشگوار حالات کا مقابلہ بھی نہایت آسانی سے کر لیتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اندر کی تبدیلی حاصل کرنے کا ماخذ اور طریقہ کار کیا ہے؟ لوگ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم بھرپور کوشش کے باوجود بھی اپنے اندر مثبت سوچ کو پروان نہیں چڑھا پاتے۔ اور ظاہری عوامل، منفی سوچ، اردگرد موجود سیاسی، معاشی و معاشرتی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ آئیے آج ہم اس ناخوشی اور منفی سوچ کے ماخذ اور طریقہ کار کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں۔ خوشی، ناخوشی اور مثبت و منفی سوچ کا ماخذ ہمارا دماغ ہے۔ جبکہ ہر ان دو صورتوں سے نمٹنے کےلیے طریقہ کار کا تعلق بھی ہمارے دماغ اور اس کو دی جانے والی خوراک ہے۔ جس کے ذمے دار ہم خود ہیں، نہ کہ کوئی بیرونی عوامل کارفرما ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ دماغ کی خوراک ہے کیا ؟ اور اس کا ڈائیٹ پلان کیا ہونا چاہیے؟ دماغ کی خوراک ہے سوچ۔ اب سوچ دو طرح کی ہے، ایک مثبت سوچ، جبکہ اس کے برعکس منفی سوچ۔ اب انتخاب ہمارا ہے کہ آیا ہم مثبت سوچ کو منتخب کرتے یا پھر منفی سوچ کو۔ اب ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ مثبت اور منفی سوچ کن کن عوامل کا مجموعہ ہے۔ منفی سوچ میں ڈر و خوف، فکرمندی، الزام تراشی، جھوٹ، دھوکا، غیبت، حسد، کسی سے اپنا جسمانی و معاشی موازنہ کرنا، کسی کی بات کو دل پر لے کر دکھی ہونا، کسی سے نفرت کرنا وغیرہ۔ جبکہ اس کے برعکس مثبت سوچ معاف کرنا، اپنے آپ کا کسی سے تقابل نہ کرنا، سچ بولنا، ہر وقت فکرمند نہ رہنا، محبت، ��حساس، برداشت اور اچھا گمان کا مجموعہ ہے۔ اب ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ جو سوچ ہم دماغ کو ٹرانسفر کر رہے ہیں کیا یہ مثبت ہے یا منفی، یہ ٹھیک ہے غلط؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس سوچ سے آپ کا سکونِ قلب متاثر ہو وہ منفی سوچ ہے۔ اب ہم اس منفی سوچ کو روک کیسے سکتے ہیں اور مثبت سوچ کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ عموماً ایسا ہوتا کہ ہم بھرپور کوشش کے باوجود بھی منفی سوچ کو نہیں روک پاتے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیوں کہ ہم سوچ کے ماخذ سے لاعلم ہیں۔
سوچ درحقیقت خودبخود پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ہماری اپنی پیدا کی ہوئی انرجی کا نام ہے۔ ہم میں سے ہر کسی نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ کسی کے اندر کم منفی رجحانات ہوتے ہیں، کسی کے اندر زیادہ، جبکہ اس کے برعکس کسی کے اندر کم مثبت رجحانات ہوتے ہیں کسی کے اندر زیادہ، جبکہ کسی کے اندر تو بہت زیادہ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ہم خود ہیں جو اس مثبت یا منفی سوچ کو پیدا کرتے ہیں اور یہ ہمارے کنٹرول میں ہے۔ اور اس کا ماخذ ہماری روزمرہ کی عادات سے پیدا ہونے والی انرجی ہے۔ اب اس انرجی کو پیدا کرنے والا خام مال کیا ہے جس سے یہ پراڈکٹ تیار ہوتی ہے؟ تو وہ را میٹریل ’انفارمیشن‘ ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ہم نے جو کھانا کھایا اس میں موجود غذائیت، اس کا معیار اور مقدار ہمارے جسم میں قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔ مطلب کھانا ہے را میٹریل اور اس سے پیدا ہونے والی انرجی قوت مدافعت ہے۔ ہمارے اندر قوت مدافعت کا انحصار کھائی گئی غذا کے معیار، مقدار اور غذائیت پر منحصر ہے۔ اگر خوراک معیاری ہے تو قوت مدافعت مضبوط، اگر غذا کا معیار بہتر نہیں تو قوت مدافعت کمزور۔ غذا کے معیار سے آپ کے جسم کی صحت مندی اور بیماری جڑی ہے۔ جب آپ بیمار ہوتے ہیں آپ کو ڈاکٹر سب سے پہلے (ڈائیٹ) کو تبدیل اور بہتر کرنے کو کہتا ہے، کیوں کہ غذا سے آپ کا جسم بنتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہمارا دماغ بھی غذا سے بنتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قسم کی غذا؟ تو وہ غذا ہے جذبات‘۔ اب جذبات کا ماخذ (سورس) کیا ہے؟ جذبات کا ماخذ ’انفارمشن‘ ہے۔ جس کے تین ذرائع ہیں، ایک جو ہم دیکھتے ہیں، دو جو ہم سنتے ہیں، تین جو ہم پڑھتے ہیں۔ ان تینوں ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات ہمارے دماغ میں ذخیرہ ہوتی رہتی ہے۔ جب ہم ایک ہی طرح کی معلومات بارہا پڑھتے، سنتے یا دیکھتے ہیں تو یہ ہمارے دماغ کا مستقل حصہ بننا شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً کسی دوست سے ہم نے سنا کہ کل کسی کا روڈ ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ اگلے روز ہم نے اخبار میں بھی پڑھ لیا کہ کوئی لڑکا ٹرک سے ٹکرا کر جاں بحق ہو گیا۔ اس طرح کی معلومات ایک ہفتہ، ایک ماہ یا کئی ماہ تک سنتے اور دیکھتے رہے۔ ��یک شام آپ کا بیٹا گھر نہیں پہنچتا اور اس کا موبائل بھی بند جارہا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی فوراً آپ کے ذہین میں خیال آئے گا کہ ضرور ’کچھ غلط‘ ہو گیا ہوگا۔ ہم کیوں یہ نہیں سوچ پاتے کہ ’کچھ اچھا‘ ہوا ہو گا۔ وہ کسی دوست کو ملنے چلا گیا ہو گا۔ اس کے موبائل کی بیٹری لو ہو گی وغیرہ۔ یہ ’کچھ غلط‘ ہوا والی سوچ کیوں آئی؟ کیوں کہ ہم پچھلے کئی عرصہ سے اپنے دماغ کو منفی سوچ کی غذا کھلا رہے تھے جو اب اس کا مستقل حصہ بن چکی ہے کہ آج کل حالات ٹھیک نہیں، آج کل بہت ایکسیڈینٹس ہو رہے ہیں وغیرہ۔ تو جب ہم اپنے دماغ کو غذا، جو انفارمیشن ہے، وہ پہنچ�� رہے ہوں تو ہمیں بہت احتیاط برتنا ہو گی۔ ہمیں ایک انفارمیشن فلٹر لگانا ہو گا کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں، کیا سن رہے اور کیا پڑھ رہے ہیں۔ چاہے ہم فلم دیکھ رہے ہوں، چاہے موسیقی سن رہے ہوں، چاہے سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہوں، چاہے خبریں سن یا پڑھ رہے ہوں، تو یہ سب انفارمیشن صرف اس مقصد کے لیے حاصل نہیں کر رہے کہ ہم ’ٹائم پاس‘ کر رہے ہیں، بلکہ ایک ایک لفظ، سوشل میڈیا کی ایک ایک پوسٹ، کتاب اور اخبار کا ایک ایک حرف ہماری دماغ کی خوراک ہے اور اس کا حصہ اور لغت کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ اب ہمیں فلٹر کے ذریعے منفی معلومات سے دور جبکہ مثبت معلومات تک رسائی محدود رکھنا ہو گی۔
تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں کرنا یہ ہے کہ ہمیں اپنا سوچنے کا طریقہ بدلنا ہے۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ ہمیں اپنی معلومات کے تینوں ذرائع پر فلٹر لگانا ہے۔ اپنی عادات اور روٹین بدلنی ہے، مثلاً اپنی صبح کا آغاز بجائے ٹی وی پر خبریں دیکھنے کے، جس میں صرف اتنے لوگ مر گئے، مہنگائی، کرپشن، مایوسی سننے کو ملے گی، ہرگز نہ کریں۔ وہ یہ ہرگز نہیں بتائیں گے کہ آج رات اسلام آباد میں لاکھوں لوگ سکون کی نیند سوئے، کیوں کہ یہ خبر نہیں ہے۔ وہ یہ بتائیں گے کہ آج رات اسلام آباد میں کروڑوں کی ڈکیتی ہوئی۔ ہم نے یہ خبر ایک دن سنی، دوسرے دن پڑھ لی، تیسرے دن کسی دوست سے سن لی۔ اب نتیجہ کیا ہو گا کہ ہم نے اپنے دماغ میں ’خوف‘ کی منفی انرجی پیدا کر دی۔ اٹھتے ہی سوشل میڈیا اور موبائل سے مت چپکیے۔ دماغ کی صحت اور منفی سوچ کی رکاوٹ اور خوش رہنے کےلیے یہ ضرورری نہیں ہے کہ ظاہری دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور صبح اٹھتے ہی دماغ کو اس سے بھرنا۔
بلکہ کرنا یہ ہے کہ صبح اٹھتے ہی ہمیں اپنے دماغ کو پاکیزہ، صاف شفاف اور پاورفل انرجی اور معلومات سے بھرنا ہے۔ یہ معلومات روحانیت، علم و دانش، اپنے رب اور اپنی ذات کی طرف دھیان ہیں۔ جب آپ مثبت جذبات کی غذا دماغ میں بھریں گے تو اپنے آپ سوچ بدلے گی اور خودبخود مثبت اور اچھی انرجی پیدا ہوگی۔ تو آج ہی اپنا من منفی سوچ سے صاف کیجئے اور ارادہ باندھ لیں کہ ہم صرف وہ سنیں، دیکھیں اور پڑھیں گے، جو ہم بننا چاہتے ہیں اور جس سے ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔ جب آپ زندگی میں یہ فارمولا اپنا لیں گے تو مثبت سوچ سوچنا نہیں پڑے گی بلکہ خودبخود قدرتی طور پر آنا شروع ہو جائے گی۔
دلاور حسین
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
کورونا وائرس ٹیسٹ کب کیوں اور کیسے؟
پاکستان میں کورونا وائرس شدت اختیار کر رہا ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن سمیت کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں مگر عوام کے لیے اس مہلک وائرس سے بچاؤ کے لیے بنیادی معلومات سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ہر کسی کے لیے یہ جاننا لازمی ہے کہ کورونا کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ کورونا کا ٹیسٹ کہاں سے ہو گا اور اس کے لیے کیا کچھ درکار ہے؟
کورونا ٹیسٹ کب کیوں اور کیسے؟ پاکستان کے قومی ادارہ صحت نے ہیلپ لائن نمبر 1166 جبکہ تمام صوبوں نے صوبائی سطح پر ہیلپ لائنز قائم کی ہیں جن پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی صحت کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے خصوصی ٹیمیں آپ کے گھر بھیجی جائیں گی یا پھر آپ کو آپ کے علاقے میں سرکاری یا نجی لیبارٹری یا ہسپتال کے بارے میں آگاہ کر دیا جائے گا۔ قومی ادارہ صحت کے ڈاکٹر مدثر محمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایسی صورت میں مریض کو قرنطینہ مرکز یا آئسولیشن وارڈ میں بھی منتقل کیا جاتا ہے جہاں اس کے پھیپھڑوں کی آکسیجن اندر لے جانے کی صلاحیت چیک کی جاتی ہے اور ضرورت محسوس کرنے پر وینٹی لیٹر پر منتقل کیا جاتا سکتا ہے۔‘ ڈاکٹر مدثر محمود نے بتایا کہ ’اگر آپ کو ہیلپ لائن پر رائے دی گئی ہے تو فوراً ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس جائیں تاکہ ٹیسٹ کیا جا سکے۔‘
قومی ادارہ صحت کے مطابق مختلف بڑے شہروں میں درج ذیل ہسپتال کورونا وائرس کے ٹیسٹ کر رہے ہیں۔ لاہور: سروسز ہسپتال راولپنڈی: بینظیر بھٹو ہسپتال ملتان: نشتر ہسپتال سیالکوٹ: علامہ اقبال میموریل ہسپتال فیصل آباد: علامہ اقبال میموریل ہسپتال الائیڈ ہسپتال رحیم یار خان: شیخ زید ہسپتال
کراچی: سرکاری ہسپتال سول ہسپتال جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر سندھ انسٹیٹوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) پرائیوٹ ہسپتال آغا خان یونیورسٹی ہسپتال ڈاؤ میڈیکل کالج کوئٹہ: فاطمہ جناح جنرل اینڈ چیسٹ ہسپتال
پشاور: محمد ٹیچنگ ہسپتال جناح ٹیچنگ ہسپتال پرائم ٹیچنگ ہسپتال پین لیس ہسپتال خلیل ہسپتال ضیاء میڈیکل کمپلیکس مرسی ٹیچنگ ہسپتال کویت ٹیچنگ نصیر ٹیچنگ ہسپتال ایم ایس ایف ہسپتال آفریدی میڈیکل کمپلیکس شہاب آرتھوپیڈک ہسپتال رحیم میڈیکل انسٹیٹیوٹ نارتھ ویسٹرن جنرل ہسپتال شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اکبر میڈیکل سینٹر اباسین اسپتال حبیب میڈٰیکل سینٹر ابراہیم ہسپتال اسلام آباد: پاکستان انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ
کورونا کی علامات: ٹیسٹ کے لیے کسی بھی ہسپتال یا لیبارٹری جانے سے پہلے آپ کو اس بیماری کی علامات سے آگاہ ہونا چاہیے تاکہ عام نزلہ زکام کھانسی اور کورونا میں فرق کر سکیں۔ محکمہ صحت پنجاب کے ڈاکٹر محمد جمال نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کورونا وائرس کو پہچاننے کے لیے آپ کو اور آپ کے گھر کے دیگر افراد کو اس کی علامات کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ بروقت تشخیص ہونے پر اس کا علاج کیا جاسکے اور اس موذی مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔‘ ان کے مطابق ’کورونا وائرس کی پہلی علامت یہ ہے کہ اس کے متاثرہ شخص کو بخار ہونا شروع ہوتا ہے جس کے بعد خشک کھانسی آتی ہے اور کچھ دنوں میں سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔‘ ڈاکٹر محمد جمال نے مزید بتایا کہ اس وائرس سے متاثرہ افراد میں مسلسل ناک بہنے اور بہت زیادہ چھینکیں نہیں آتیں تاہم انسان شدید تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔
خطرہ محسوس ہو تو کیا کرنا چاہیے؟ درج بالا علامات محسوس کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کورونا کا شکار ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے اندر اس کی علامات یعنی کھانسی بخار اور سانس لینے میں تکلیف شدت کے ساتھ محسوس ہو رہی ہے تو بھاگ کر ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے. قومی ادارہ صحت کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس حوالے سے نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا ہے جس میں مشتبہ مریضوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ گھر پر رہیں اور اپنے ڈاکٹر سے رابطے میں رہیں اور ان کی ہدایت پر عمل کریں۔ بیماری کی صورت میں عوامی ٹرانسپورٹ اور ٹیکسی وغیرہ پر سفر سے گریز کریں۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ تنہائی اختیار کریں اور گھر پر رہتے ہوئے پالتو جانوروں سے بھی دور رہیں۔ قومی ادارہ صحت کے ترجمان کے مطابق گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال کریں، چھینک آنے پر ناک اورمنہ کو رومال سے ڈھانپیں اور مسلسل ہا��ھ دھوئیں۔
سیلف آئسولیشن: کورونا وائرس کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے اس لیے عالمی ادارہ صحت کے مطابق تنہائی اختیار کر کے اور سماجی میل جول میں کمی لاکر اس جان لیوا مرض سے بچاؤ ممکن ہے. پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر فضل ربی کہتے ہیں کہ 'کورونا کی علامات ظاہر ہونے پر متاثرہ شخص خود کو سیلف آئسولیشن میں رکھے۔ اپنے کھانے پینے کے برتن الگ کر لے اور ہر اس ہدایت پر عمل کرے جو وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بتائی گئی ہیں تو سات دن میں وہ بہتر ہو سکتا ہے۔ اگر پھر بھی علامات برقرار رہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
بشیر چوہدری
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
Text
ترمیم مو برای برای بیماران لیکن پلان
ترمیم مو برای برای بیماران لیکن پلان
ترمیم مو برای برای بیماران لیکن پلان
بهترین درمان ریزش مو برای بیماران لیکن پلان را می توان ترمیم مو دانست. با توجه به اینکه بیماری لیکن پلان نوعی بیماری پوستی که می تواند التهابات شدیدی را در پوست افراد ایجاد کند و از طریق ایجاد زخم های عمیق بر روی پوست عوارض بسیاری را برای بیماران به وجود بیاورد، می توان گفت که یکی از شایعترین عوارضی که ممکن است برای بیمار ایجاد کند را ریزش مو می توان دانست.
با ایجاد خارش های پوستی بر روی سر افراد، ریزش مو می تواند اتفاق بیفتد. فولیکول های مو در این بیماری بسیار ضعیف می شوند و با خاراندن سر ریزش می تواند گسترش پیدا کند. ترمیم مو یکی از روش هایی که است که برای این افراد انجام می شود. در این افراد با توجه به اینکه التهابات پوستی آنان زیاد است کاشت مو ممکن است این التهابات را بیشتر کند و خطرات جبران ناپذیری را برای افراد ایجاد کند. از آنجایی که پیوند مو در مقایسه با ترمیم مو دارای روش هایی است که باید فولیکول های مو از سر افراد جدا شود و در مناطقی که ریزش مو در آنجا بیشتر است کاشته شود، این فرآیند می تواند التهابات را در اثر برداشت مو در این روش در سر بیماران بیشتر کند و نتیجه ای جز درد برای آنان نداشته باشد.
روش های ترمیم مو برای بیماران لیکن پلان
روش های ترمیم مو در بیماران لیکن پلان را می توان در بسیاری از مواقع بهتر از روش های کاشت مو در نظر گرفت. البته نتیجه ترمیم مو در هر فردی ممکن است به عوامل مختلفی بستگی داشته باشد. با توجه به پیشرفت بیماری و نوع پوست افراد می توان درمان های متفاوتی را برای آنان در نظر گرفت. ترمیم مو را می توان یکی از این درمان ها دانست. روش های متفاوتی در ترمیم مو برای افراد استفاده می شود. با توجه به شدت بیماری افراد روش های درمان ممکن است متفاوت باشد و در هر فردی، نوعی از روش مخصوص برای این کار استفاده می شود. روش کاشت نیز در متد های جدید و پیشرفته می تواند یکی از بهترین گزینه های درمانی برای ریزش موی افراد در نظر گرفته شود.
کاشت مو به روش FUE را می توان یکی از جدیدترین روش های کاشت دانست. در این روش نیازی به ایجاد بخیه نیست، زیرا فولیکول هایی که برای پیوند استفاده می شود توسط دستگاه های پیشرفته پانچ به صورت هر تار مو برداشته می شود و نیازی به برش قسمتی از پوست سر افراد برای استخراج فولیکول های مو نیست.
به همین دلیل می توان گفت که روش FUE برای افرادی که دچار بیماری پوستی لیکن پلان هستند می تواند بدون درد و یا ناراحتی انجام شود. با پیوند مو به این روش می توان ریزش های دائمی مو در این بیماران را کاهش داد. با توجه به اینکه پیوند مو دارای عوارضی جدی نیست در صورت رعایت نکات بهداشتی و مصرف آنتی بیوتیک ها می توانید از ایجاد عفونت های احتمالی بعد از این روش جلوگیری کنید.
ترمیم مو در افرادی که به این بیماری دچار هستند در اغلب موارد بدون هیچ گونه عوارضی انجام می شود. در واقع روش های ترمیم می تواند به راحتی انجام شود و دیگر نیازی به نگرانی در ایجاد عوارض احتمالی نیست. ممکن است در پیوند مو افراد عوارضی نظیر سوزش و یا التهابات پوستی را مشاهده کنند.
ولی در ترمیم مو همچنین عوارضی قابل مشاهده نخواهد بود. می توان یکی از بهترین روش های ترمیم مو را HRT دانست. در این روش ترمیم مو می توان گفت که موهای پیوندی بر روی سطحی شبیه به پوست سر افراد توسط چسب های کراتین چسبنده می شوند. نیازی به ایجاد برش و یا برداشتن فولیکول های مو در این روش ترمیم نیست و موهای کاشته شده در پوست شبیه سازی شده چسبانده می شوند و بعد از آن بر روی سر افراد قرار می گیرند. در این روش درد، سوزش، خونریزی و عوارض دیگری مشاهده نمی شود. یکی از مشکلاتی که این روش نسبت به کاشت دارد را می توان رشد نکردن مو به روش طبیعی دانست. همچنین این روش دارای نتایج دائمی نیست و بعد از مدتی موهای چسبانده شده ممکن است خاصیت خود را از دست دهند و باید ترمیم دوباره مو انجام شود.
دوران بهبودی ترمیم مو برای بیماران لیکن پلان
از آنجایی که ترمیم مو روشی غیر دائمی است و در آن موی افراد رشد نمی کند و موها به صورت مصنوعی بر روی سر افراد چسبانده می شوند، در نتیجه دوران نقاهتی برای این نوع روش وجود ندارد. اگر فردی که به بیماری لیکن پلان مبتلاست بخواهد که درمانی دائمی برای ریزش موی خود انجام دهد، پزشک در صورت معاینه و شدت بیماری فرد می تواند روش های پیوند مو را به او پیشنهاد دهد. کاشت مو همانطور که می دانیم روشی دائمی برای رشد مجدد موها به صورت طبیعی است. به همین دلیل نیاز به گذراندن دوران بهبودی تا چند ماه وجود دارد. نتیجه کلی بعد از این روش ��ا 9 ماه نیز ممکن است به طول بیانجامد و موهای جدید فرد در این زمان رشد خود را تکمیل می کنند. به همین دلیل برای اینکه فولیکول های مو دچار عفونت نشوند و بتوانند فرآیند رشد خود را به سرعت طی کنند باید به توصیه ها و مراقبت های بعد از این روش عمل کنید تا این روند سریعتر اتفاق بیفتد.
آیا نتایج ترمیم مو برای بیماران لیکن پلان دائمی است؟
همانطور که گفته شد بیماری لیکن پلاک نوعی بیماری پوستی است که می تواند در پوست افراد التهابات پوستی و زخم ایجاد کند. در صورتی که این بیماری در مراحل شدیدتر خود باشد این عوارض بیشتر از بیش خود را نشان خواهند داد. ممکن است در موارد خیلی حاد از کاشت مو استفاده نشود و فقط ترمیم برای این افراد انجام شود. افرادی که در سطح پوست سر خود دچار زخم و یا التهابات حاد هستند این روش 50 درصد ممکن است نتیجه بخش باشد. در باقی افراد نتیجه تا 90 درصد نیز قابل مشاهده شدن است. با این حال ترمیم مو روشی است موقت که برای ایجاد موهایی به پرپشتی و ضخامت موهای طبیعی برای این افراد انجام می شود تا التهابات و اسکارهای ایجاد شده در پوست این افراد را بیشتر نکند. این روش نیز می تواند دارای نتایج متفاوتی باشد. این نتایج به عوامل مختلفی بستگی دارد.
عوامل موثر در ترمیم مو برای بیماران لینک پلان
در واقع ترمیم مو به روش های مختلف می تواند دارای ماندگاری متفاوتی نیز باشد. در صورت کلی عوامل زیر را می توان در مشاهده نتیجه مورد نظر دخیل دانست.
فردی که ترمیم مو را انجام می دهد می تواند این عمل را به گونه ای انجام دهد که ماندگاری موها طولانی تر باشد.
جنس چسب کراتین یکی از مهمترین عواملی است که این روش را دارای ماندگاری بیشتری می کند.
روش های مراقبت از مو بعد از ترمیم می تواند توسط افراد انجام شود. هر چقدر این مراقبت ها بیشتر باشد این روش می تواند نتیجه ماندگارتری برداشته باشد و به مدت طولانی تری برای افراد باقی بماند.
ترمیم مو به روش های مختلف انجام می شود. روشی دارای اثرات و نتایج ماندگارتری است که به درستی و با استفاده از مواد و متریال مناسب تری انجام گیرد.
بنابراین می توان گفت که Hair repair یکی از بهترین روش ها برای ایجاد مویی طبیعی در افرادی است که مبتلا به لیکن پلاک هستند. شما می توانید با مراجعه به کلینیک تخصصی پوست و مو رز با متخصصین مجرب این کلینیک ترمیم مو مشورت نمایید. جهت مشاوره با شماره ۰۲۱۴۴۰۶۷۰۰۵ تماس بگیرید. همچنین شما عزیزان می توانید از طریق سیستم چت آنلاین وب سایت، از مشاوره آنلاین هم بهره مند بشوید.
0 notes
Photo
لیزر موهای زائد، هزینه، مزایا و عوارضhttps://khoonevadeh.ir/?p=18361
برترین ها: هزینه لیزر موهای زائد برای تمام صورت و بدن از 500 هزار تومان تا یک میلیون تومان برای هرجلسه لیزر بسته به نوع دستگاه لیزر و تعداد شات متفاوت است. در مرکز لیزر پریسان، هزینه هر جلسه لیزر کل بدن ۳۶۸ هزار تومان است. مزایا و عوارض لیزر موهای زائد نسبت به رنگ پوست و ضخامت موها متفات است که از قبل باید بدانید.
در لیزر موهای زائد از دستگاههای لیزر متفاوتی استفاده میشود. این روش برای اولین بار تنها برای موهای تیرهرنگ و پوستهای رنگ روشن معرفی شد. با استفاده از تکنولوژیهای جدید امروزه، به روشی ایمن میتوان لیزر موهای زائد را برای پوستهای تیرهتر و موهای روشنتر نیز به کار برد.
مرکز پوست و زیبایی پریسان
لیزر موهای زائد به قیمت دولتی
نحوه عملکرد لیزر موهای زائد چگونه است؟
نور لیزر هر چیزی که تیرهرنگ باشد را گرم میکند و میسوزاند. با گرم کردن و سوزاندن موی تیرهرنگ داخل فولیکول مو، خود فولیکول نیز آسیب میبیند و از بین میرود. هرکدام از موهای بدن ما دارای یک چرخهی رشد و استراحت هستند. در یک زمان مشخص بیشتر موهای بدن ما در فاز استراحت هستند و تعداد کمی از آنها در فاز رشد هستند.
درصورتی که در هنگام لیزر موهای زائد ، فولیکول مو در فاز استراحت باشد، اشعه لیزر بر آن اثری ندارد. به همین دلیل است که برای از بین بردن تمامی موها به چندین جلسه درمان با لیزر، با فواصل زمانی مشخص نیاز است. با هر جلسه رفع موهای زائد تعدادی از فولیکولهای فعال مو سوزانده میشوند و بالاخره پس از مدتی تمامی موها از بین میروند.
مزایا
FAD این تکنولوژی را برای کاهش دائمی موهای زائد تایید میکند.
نیازی به بستری شدن نیست و بلافاصله می توانید بعد از لیزر موهای زائد حرکت کنید.
در مقایسه با روش های دیگر درد و ناراحتی کمتری دارد.
مناطق بزرگ را را میتوان بسرعت درمان کرد.
احتمال ایجاد زخم و تغییر رنگدانه حداقل است.
لیزر موهای زائد اثر بخشی زیادی دارد.
در این روش پوست درگیر نمی شود.
پروسه ان سریع است ، بسته به منطقه درگیراز بدن از چند دقیقه تا چند ساعت طول میکشد.
متناسب با مناطق حاس بدن قابل تنظیم است.
شما می توانید نتیجه عمل را سریع ببینید.
چه افرادی برای انجام لیزر مناسب نیستند؟
۱-وجود اختلالات هورمونی
از آنجا که اختلالات هورمونی مانند سیکل قاعدگی، ریزش موی سر، جوشهای مکرر صورت و سابقه نازایی در بسیاری از بیماران پرمو دیده می شود حتما بیمار باید از این جهت بررسی شود و گرنه درمان با لیزر تاثیر نداشته و به درازا خواهد کشید.
۲-مصرف دارو های خاص
بعضی داروها مانند کورتونها، هورمونها و مینوکسیدیل باعث رشد موهای زائد می شوند. در این بیماران لیزر اثر مناسب را نخواهد داشت.
۳-وجود بعضی بیماریها
در بعضی بیماری ها مثل پسوریازیس، لیکن پلان، ویتلیگو (برص) احتمال پیدایش ضایعات در محل لیزر وجود دارد.
۴-سابقه گوشت اضافه در محل عمل
انجام لیزر در این بیماران احتمال دارد ،سبب ایجاد اسکار هیپرتروفیک شود و بهتر است انجام نگیرد.
۵-سابقه تبخال مکرر
در این بیماران از ۲۴ ساعت قبل تا یک هفته بعد از لیزر باید داروهای ضدتبخال مثل آسایکلوویر استفاده شود.
۶-سابقه عفونت فعال مثل جوشهای چرکی
در صورتی که بیمار جوش چرکی یا هر کانون عفونی دیگری در محل لیزر مو داشته باشد باید تا زمان درمان آن عفونت لیزر به تعویق بیفتد.
۷-برنز�� بودن
به هر روشی که فرد باعث برنزه شدن پوست خود شده باشد، اعم از آفتاب گرفتن یا سولاریم، احتمال سوختگی پوست و ایجاد لک به دنبال لیزر بسیار زیاد است. در این بیماران بهتر است درمان تا زمان از بین رفتن رنگ به تعویق بیفتد و در این مدت بیمار ��ز ترکیبات ضدلک و ضدآفتاب استفاده کند.
۸-وجود تاتو یا خال یا کک و مک در محل لیزر
از آنجا که انجام لیزر مو می تواند باعث کمرنگ شدن این ضایعات شود باید از قبل به بیمار در مورد این مسئله تذکر داد.
۹-مصرف ایزوترتینویین
ایزوترتینویین نوعی ترکیب vita مثل راکوتان است که برای درمان جوشهای مقاوم به کار میرود. اگر بیمار از این دارو استفاده می کند چون باعث حساس شدن شدید پوست به نور لیزر و افزایش احتمال سوختگی و اسکار و لک میشود حداقل ۶ ماه باید لیزر مو را به تعویق انداخت.
۱۰-مصرف داروهای حاوی طلا
این داروها در بعضی بیماران رماتیسمی به کار می روند و نباید در این بیماران لیزر انجام داد.
۱۱-سابقه بیماریهایی مثل لوپوس
این بیماریها پوست را به نور حساس می کنند و بهتر است لیزر در آنها انجام نشود.
۱۲-افراد باردار
هرچند که هیچ مدرکی دال بر صدمه به جنین در لیزر مو وجود ندارد اما بهتر است در بیماران باردار لیزر را به تعویق بیندازیم.
نکاتی در مورد لیزر موهای زائد بدن و بعد از آن
باید منطقه مورد لیزر را از قبل بتراشید.
از عینک محافظ که ارائه می شود استفاده کنید.
از ژلی که برای تسکین درد داده میشود و رسانا است استعمال کنید.
از شما خواسته می شود نظرات خود را راجب هر ناراحتی بیان کنید تا تنظیمات لیزر برای شما راحت و موثر واقع شود..
تا ۳ روز بعد از لیزر موهای زائد حمام آفتاب (طبیعی یا مصنوعی ) نگیرید.
قبل از رفتن به پیاده روی از یک فیلتر uv(کرم ضد آفتاب حداقل ۳۰) استفاده کنید.
تا ۳ روز اول لیزر مو به سونا و استخر نروید.
جلوگیری از قرارگرفتن در معرض نور آفتاب حداقل یک هفته بعد از انجام لیزر.
انواع دستگاه های لیزر موهای زائد
لیزرهای زیر برای درمان موهای زائد توصیه می شود:
سیستم لیزر الکساندرایت با طول موجه 755 نانومتر
سیستم لیزر دیود با طول موج 800 نانومتر
سیستم لیزر Nd- YAG با طول موج 1056 نانومتر
سیستم نوری IPL نیز با روش کارکردی مشابه لیزرهای در درمان موهای زائد به کار می رود. انواع جدید IPL همان E- LIGHT است که علاوه بر نور از رادیو فرکانس نیز به طور همزمان استفاده می کند و به همین دلیل روی موهای کم رنگ (طلایی، سفید) اثر بهتری دارد.
لیزر الکساندرایت (الکس)
یکی از پیشرفته ترین دستگاه های لیزر دنیا برای از بین بردن موهای زائد می باشد. یکی از خصوصیات منحصر بفرد این دستگاه قابل تنظیم بودن طول موج (Pulse Duration) و میزان انرژی برای از بین بردن هر نوع مو و پوست می باشد. لیزر الکساندرایت از نوع لیزرهای جامد است که دارای طول موج 755 نانومتر و در محدوده نور مرئی می باشد.
با توجه به جذب بالای ملانین در این طول موج کاربرد ویژه آن، از بین بردن موهای زاید است. برخی کارشناس��ن لیزر الکس را قدرتمندترین و پرتاثیرترین لیزر از میان موارد بالا می دانند. این دستگاه مجهز به سیستم خنک کننده مخصوص برای جلوگیری از سوزش می باشد.
البته لازم به ذکر است میزان درد استفاده از این دستگاه به طزر قابل توجهی بیشتر از موارد بالا و بخصوص لیزرهای آی پی ال و ایلایت است.
در نهایت باید از لیزرها انتظار واقعی داشت. تبلیغات نادرست و اغراق آمیز همه را سردرگم می نماید.
واقعیت آن است که جلسات متعدد برای کاهش موها توسط لیزر لازم است. درضمن پاسخ در افراد مختلف نیز متفاوت و لفظ کلمه تضمینی نشانگر ناصحیح بودن تبلیغ در حوزه پزشکی می باشد.
مرکز پوست و زیبایی پریسان
لیزر موهای زائد به قیمت دولتی
لیزر موهای زائد با دستگاه الکساندرایت آپوجی آمریکایی
هایفوتراپی، لیفت و جوانسازی صورت و گردن
تزریق ژل و بوتاکس و چربی، زاویه سازی صورت، لیفتینگ صورت، RF فرکشنال و میکرونیدلینگ
جهت مشاهده نمونه های بیشتر به صفحه ما در اینستاگرام مراجعه نمایید.
منبع : برترینها
0 notes
Text
NYC کے میئر ایرک ایڈمز سب وے سیفٹی پلانز آؤٹ ریچ ورکرز بشمول اسکول کی نرسوں کو طلب کرتے ہیں۔ #اہمخبریں
New Post has been published on https://mediaboxup.com/nyc-%da%a9%db%92-%d9%85%db%8c%d8%a6%d8%b1-%d8%a7%db%8c%d8%b1%da%a9-%d8%a7%db%8c%da%88%d9%85%d8%b2-%d8%b3%d8%a8-%d9%88%db%92-%d8%b3%db%8c%d9%81%d9%b9%db%8c-%d9%be%d9%84%d8%a7%d9%86%d8%b2-%d8%a2%d8%a4/
NYC کے میئر ایرک ایڈمز سب وے سیفٹی پلانز آؤٹ ریچ ورکرز بشمول اسکول کی نرسوں کو طلب کرتے ہیں۔
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
نیویارک شہر کے میئر ایرک ایڈمز نے جمعہ کو بے گھر ہونے اور بڑھتے ہوئے فسادات کا مقابلہ کرنے کے لیے آؤٹ ریچ ورکرز، پولیس اہلکاروں اور دماغی صحت کے ماہرین پر مشتمل ٹیمیں بھیجنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ جرم میں سب ویز.
اس نے ٹرانزٹ سسٹم کو “ہمارے شہر کی زندگی کا خون” کہا اور یاد کیا کہ جب سب ویز 1980 کی دہائی میں سب سے زیادہ خطرناک تھے جب لوگ محفوظ طریقے سے سفر نہیں کر سکتے تھے۔
ایڈمز نے لوئر مین ہ��ن میں سٹی ہال کے قریب فلٹن ٹرانزٹ سنٹر میں گورنر کیتھی ہوچل اور دیگر عہدیداروں کے ہمراہ صحافیوں کو بتایا، “ہم میں سے بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں، اور نمبر کہہ رہے ہیں، ہم دوبارہ واپس آ گئے ہیں، اور یہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس صحیح جواب ہو۔” . “ہم اس بات کو یقینی بنانے جا رہے ہیں کہ خوف نیویارک کی حقیقت نہیں ہے۔”
تھائی ماڈل کی وحشیانہ چوری کے الزام میں NYC کے شخص کی گرفتاری کا وسیع ریکارڈ ہے
ایک پریس ریلیز کے مطابق، ان کی انتظامیہ کا “سب وے سیفٹی پلان” 30 مشترکہ رسپانس ٹیمیں تعینات کرے گا تاکہ سب ویز میں بے گھر افراد اور ذہنی بیماری میں مبتلا افراد تک براہ راست رسائی حاصل کی جا سکے۔
مشیل گو، بائیں، اور سائمن مارشل، دائیں، اس کے قتل کے الزام میں پکڑے جانے کے بعد۔ (LinkedIn, WNYW)
ایڈمز نے کہا کہ پولیس افسران کو ٹرانزٹ قوانین کو نافذ کرنے کی تربیت دی جائے گی جو مسافروں کو متعدد نشستوں پر سونے، جارحانہ رویے کا مظاہرہ کرنے اور غیر صحت مند حالات پیدا کرنے سے روکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب ٹرین لائن کے آخر میں پہنچے گی تو تمام مسافروں کو اسٹیشن سے باہر نکلنا ہوگا۔
اس منصوبے میں بے گھر اور ذہنی بیماری میں مبتلا افراد کے لیے خدمات کی توسیع شامل ہے۔
ماڈل بیو جیراجاریویٹچ کو مبینہ ملزم کیون ڈگلس نے نومبر میں سب وے پر لوٹ لیا اور حملہ کیا۔
ایڈمز نے ایک دن بعد پریس کانفرنس میں کہا، “یہ سب وے پر غیر مقیم لوگوں کو رہنے کی اجازت دینا ظالمانہ اور غیر انسانی ہے، اور مسافروں اور ٹرانزٹ ورکرز کو ادائیگی کرنا ناانصافی ہے جو صاف، منظم اور محفوظ ماحول کے مستحق ہیں۔” آدمی کو وار کیا گیا تھا مین ہٹن میں ایل ٹرین پر بلا اشتعال حملے میں۔ “اس بڑھتے ہوئے مسئلے پر آنکھیں بند کرنے کے دن ختم ہو گئے ہیں۔”
سٹی اور ایم ٹی اے نے محکمہ صحت کی نرسوں کو بھرتی کرنا شروع کیا جو سرکاری سکولوں میں کام کرتی ہیں پروگرام میں شرکت کے لیے۔ نیویارک پوسٹ، جو میئر کے اقدام پر رپورٹ کرنے والا پہلا تھا۔
تھائی ماڈل کی وحشیانہ چوری کے الزام میں NYC کے شخص کی گرفتاری کا وسیع ریکارڈ ہے
آؤٹ ریچ ٹیمیں، جو خصوصی تربیت سے گزرتی ہیں، 2 فروری سے اپنا کام شروع کریں گی۔
یہ اقدام 40 سالہ مشیل گو کو 15 جنوری کو ٹائمز اسکوائر میں ایک آر ٹرین کے سامنے دھکیلنے کے بعد کیا گیا تھا۔ سائمن مارشل، 61، جو بے گھر اور ذہنی طور پر بیمار ہے، پر اس کے بے ہودہ قتل کے لیے سیکنڈ ڈگری قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اگلے دن، ایڈمز نے اصرار کیا کہ سب ویز محفوظ ہیں لیکن بعد میں ان بیانات سے پیچھے ہٹ گئے۔
اس مہینے کے شروع میں، ایک ایک شخص نے مبینہ طور پر زیادتی کی کوشش کی۔ لوئر مین ہٹن میں ایک 21 سالہ خاتون دن کی روشنی میں ٹرین میں۔
ماڈل بیو جیراجاریویٹچ کو مبینہ ملزم کیون ڈگلس نے نومبر میں سب وے پر لوٹ لیا اور حملہ کیا۔
NYPD کے ایک جاسوس نے فاکس نیوز ڈیجیٹل کو بتایا کہ یہ منصوبہ غلط تصور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس یہ کام کرنے کے لیے کافی افرادی قوت نہیں ہے۔ “سب ویز بہت بڑی ہیں اور کافی پولیس نہیں ہیں۔”
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پولیس کو ڈاکٹروں کے لیے سیکورٹی فراہم کرنے کی پوزیشن میں رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا، “اب افسر کو نہ صرف اپنے بارے میں بلکہ ان کے ساتھ آؤٹ ریچ کارکنوں کی حفاظت کی فکر کرنی ہوگی۔”
Source link
0 notes
Text
خاموش قاتل ہائی بلڈ پریشر سے بچنے کا طریقہ
ہائی بلڈ پریشر ایک خاموش قاتل ہے۔ یہ انسان کو دیمک کی طرح کھوکھلا کرتا ہے۔ یہ بیماری کسی بھی فرد کو زندگی کے کسی بھی موڑ پر اپنی گرفت میں لے سکتی ہے لیکن عموماً چالیس برس کے بعد گھیرتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا مریض کو بعض اوقات برسوں معلوم نہیں ہوتا اورکسی وقت اچانک کسی وجہ سے جب وہ اپنا بلڈ پریشر چیک کرواتا ہے تو اس پر یہ راز عیاں ہوتا ہے ۔ وہ پریشانی کے عالم میں کسی دوافروش سے دوائیاں خرید کر اپنے پریشر کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف دوائیاں لینے سے ہائی بلڈ پریشر کو قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ محلے کے بزرگ، نقلی پیر فقیر، دوافروش، لوکل ڈاکٹر، نیم حکیم وغیرہ پرہیز کے نام پر انہیں گمراہ کرتے ہیں اور انہیں صرف ادویات استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لئے صرف ادویات کا استعمال کافی نہیں بلکہ کئی اور باتوں پر بھی عمل کرنا لازمی ہے۔ ان میں مناسب غذائی پلان ہے شامل ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہائی بلڈ پریشر کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر گردوں اور دل کی بیماریوں ، فالج اور دماغی شریان کے پھٹنے کا باعث بن سکتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ غذا اور ہائی بلڈ پریشر کا آپس میں گہرا ربط ہے۔ عام خیال کے برعکس بلڈ پریشر میں معمولی اضافہ (120/80 ملی میٹر مرکری سے 130/90 ملی میٹر مرکری) بھی صحت کے لئے مضر ہے۔ بلڈ پریشر جتنا بڑھتا جائے انسانی جسم کے لئے اتنی پریشانیاں بڑھتی جاتی ہیں۔
ماضی میں محققین اور سائنس دانوں نے ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے کے لئے مریضوں میں جدا جدا نمکیات و معدنیات آزمائے تا کہ یہ دیکھا جائے کہ کون سی اشیائے خوردنی ہائی بلڈ پریشر کو قابو کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ایک ایسی غذا جس میں چکنائی اور کولسٹرول بہت کم، مگر تازہ سبزیاں اور میوہ جات (تازہ اور خشک) زیادہ ہوں، کے استعمال سے ہائی بلڈ پریشر کوبڑی آسانی سے کم کیا جا سکتا ہے۔ تازہ سبزیاں اور میوہ جات سے مریضوں کے ہائی بلڈ پریشر میں نمایاں کمی ہوتی ہے۔ ایک دن میں کتنی بار غذا کھائیں گے اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ کو کتنے حراروں (کیلوریز) ضرورت ہے۔ آپ کا وزن کتنا ہے، آپ کام کیا کرتے ہیں اور آپ کتنی فعال زندگی گزار رہے ہیں۔
آپ کو روزانہ کئی بار سالم اناج (Cereals) سبزیاں، تازہ اور خشک میوہ جات کھانے ہیں، شاید یہ آپ کی عادت نہ ہو لیکن آپ کو بیماری کو بھگانے کے لیے یہ کرنا پڑے گا۔ مندرجہ ذیل مشوروں پر عمل کریں۔
1۔ تمباکو نوشی سے مکمل پرہیز کریں۔
2۔اپنا وزن عمر اور قد کے حساب سے اعتدال میں رکھیں۔ وزن زیادہ ہو تو اسے کم کریں۔
3۔ نمک اور چینی کا کم استعمال کریں۔
4۔ ذہنی دباؤ سے بچنے کی کوشش کریں۔
5۔ خون میں چربی (کولسٹرول اور ٹرائی گلسرایڈ) کی سطح نارمل حدود میں رکھنے کی کوشش کریں۔
6۔ خون میں شکر کی سطح کو اعتدال میں رکھیں۔
7۔ ایک مرتب، منظم، پاکیزہ اور فعال طرزِ زندگی اپنانے کی کوشش کریں۔
محمد اختر
0 notes
Text
پاکستانی احتیاط کریں، وزیراعظم عمران خان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
اسلام آباد(جی سی این رپورٹ)وزیراعظم عمران خان نے قوم کو کورونا وبا کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں سنجیدگی کیساتھ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے ہی اس وبا سے بچا جا سکتا ہے، دیہات میں لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا، زرعی شعبہ کو کام کرنے کی مکمل اجازت ہو گی،آج جمعرات سے احساس پروگرام کے امدادی پروگرام کے تحت 12 ہزار روپے فی خاندان امداد دی جائے گی ، ایک کروڑ 20 لاکھ غریب خاندانوں کو امداد ملے گی ۔ ملک بھر میں 17 ہزار مقامات سے عوام کو رقوم دی جائیں گی۔اب تک ساڑھے 3 کروڑ افراد نے ریلیف فنڈ کیلئےایس ایم ایس کیا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو کورونا وبا جیسے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ہم بہت بڑے مسئلہ سے بچ سکتے ہیں، جتنے زیادہ لوگ جمع ہوں گے بیماری اتنی تیزی سے پھیلے گی،قوم ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے وبا کا مقابلہ سنجیدگی سے کرے۔ ہر ملک میں کورونا کا پھیلاؤ مختلف ہے، پاکستان میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بیماری ان پر اثر نہیں کرے گی کیونکہ پاکستان میں امریکا اور دیگر یورپی ممالک کے مقابلہ میں اموات کی شرح بہت کم ہے، ایسا سمجھنے والوں کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے ، یہ سوچ خطرناک ہے۔ اگر پاکستان میں وبا اسی شدت سے پھیلتی رہی تو اپریل کے آخر تک کورونا متاثرین کی تعداد بڑھ سکتی ہے، ہر 100 میں سے ایک یا دو افراد اس بیماری سے مرسکتے ہیں، ایسے مریضوں کی تعداد چار سے پانچ فیصد تک پہنچ گئی تو ان کی دیکھ بھال مشکل ہو گی، ہمارے پاس اتنے مریضوں کیلئے وینٹی لیٹرز نہیں ہیں کہ ان کا علاج ہوسکے ۔ ہسپتالوں پر دباؤ بڑھے گا،خطرہ ہے کہ کہیں اس مہینے کے آخر میں ہسپتالوں میں جگہ کم نہ پڑ جائے۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس مغربی ممالک جیسے وسائل نہیں لیکن اس کے باجود ہمارے ڈاکٹرز اور طبی عملہ فرنٹ لائن پر کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کر رہا ہے۔ ایمرجنسی اور آئی سی یو میں کام کرنے والے طبی عملہ کو ضروری حفاظتی آلات فراہم کر رہے ہیں کیونکہ فرنٹ لائن پر کام کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کا تحفظ ضروری ہے، ماضی میں صحت کے شعبہ کو نظر انداز کیا گیا، کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں دنیا بھر میں وینٹی لیٹرز اور دیگر ضروری طبی آلات کی قلت پیدا ہو گئی ہے، اس صورتحال کے باوجود ہم وینٹی لیٹرز اور دیگر سامان کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوششیں کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے ابتدائی طور پر لاک ڈاؤن 3 ہفتوں کا پلان کیا تھا، ابھی اس بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے، لیکن ہمیں اس بات کو دھیان میں رکھنا ہو گا کہ کورونا وائرس 2 سے 3 ہفتوں میں ختم نہیں ہو سکتا، اس کیلئے ہمیں وقت چاہیے ہو گا۔ امریکا جیسے ملک میں بھی لاک ڈاؤن کی نوعیت ہر شہر میں مختلف ہے۔ ہم نے دیہات میں لاک ڈاؤن نہیں کیا، صرف شہروں میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے،ہمیں اندازہ تھا کہ لاک ڈاؤن کے غریب طبقہ پر اثرات مرتب ہوں گے، دہاڑی دار اور مزدوروں پر مشکل وقت آئے گا، ہم نے توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے کہ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے لاک ڈاؤن بھی کیا جائے اور دہاڑی دار کو بھی زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، اسلام آباد، خیبرپختونخوا اور پنجاب سمیت صوبوں کا لاک ڈاؤن کے حوالے سے ردعمل مختلف تھا۔ مزدور طبقہ کو روزگار کی فراہمی کیلئے تعمیراتی شعبہ کو اجازت دی جا رہی ہے، 14 اپریل کو تعمیراتی شعبہ کام شروع کر دے گا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر میں روزانہ کی بنیاد پر صورتحال کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کے بعد تازہ ترین صورتحال کو مدنظر رکھ کر مزید فیصلے کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں 5 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، چین نے لاک ڈاؤن کرکے لوگوں کو گھروں پر کھانا پہنچایا، لاک ڈائون اس وقت کامیاب ہوگا جب لوگوں کو گھروں پر کھانا اور بنیادی ضروریات دستیاب ہوں گی۔جرمنی نےایک ہزارارب یوروکاریلیف پیکیج دیا، امریکانےدوہزارارب ڈالرریلیف پیکیج دیا، ہمارے پاس وسائل کم ہیں اور ہمارا ریلیف پیکیج 8ارب ڈالر ہے۔ پاکستان میں غریب طبقےکو ریلیف دینا سب سے بڑا چیلنج ہے، آج جمعرات سے احساس پروگرام کے تحت پہلے مرحلہ میں 23 لاکھ خاندانوں کو امدادی رقوم دی جائیں گی، امدادی رقوم کی فراہمی میں میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا، احساس پروگرام میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں ہے، صرف مستحقین کو پیسے ملیں گے۔اگلے اڑھائی ہفتے تک ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں میں 144 ارب روپے تقسیم کئے جائیں گے، کورونا ریلیف فنڈ کے تحت جمع ہونے والی رقوم بھی کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متاثر ہونے والے افراد میں تقسیم کی جائیں گی۔ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر کام کرے گی اور گلی محلوں میں گھر گھر جا ئے گی ، بعد میں ہمیں فیڈ بیک بھی دے گی۔ قبل ازیں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ جس میں صوبائی وزرائے اعلٰی، عسکری اور سول اداروں کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں کورونا سے متعلق ملک کی مجموعی صورتحال اور حکومتی اقدامات کے اثرات کا جائزہ لیا گیا، نیشنل کمانڈ آپریشن اینڈ کنٹرول سنٹر کی تجاویز پر بریفنگ کے علاوہ کورونا کے اعدادوشمار سے بھی آگاہ کیا گیا۔اجلاس کے دوران وائرس سے متعلق مستقبل کے لائحہ عمل پر غور ہوا، ڈیجیٹل ٹریکنگ اور مختلف علاقوں میں محدود آئسولیشن کے علاوہ کورونا ٹیسٹ کی صلاحیت 6 سے 20 ہزار روزانہ بڑھانے پر بھی غور کیا گیا۔ کورونا ٹائیگر فورس کے معاملات بھی اجلاس کے دوران زیر بحث آئے۔ دریں اثنا وزیراعظم عمران خان سے چین کی زونرجی کمپنی لمیٹڈ کے صدر رچرڈ جے گوو، نائب صدر کیون چیو اور چائنا مشینری انجینئرنگ کارپوریشن کے جنرل منیجر لی کان نے ملاقات کی اور وزیراعظم کے کورونا ریلیف فنڈ کیلئے 50 لاکھ روپے کا عطیہ پیش کیا۔ انہوں نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو 30 لاکھ روپے مالیت کا طبی سامان بھی عطیہ کیا جس میں 30 ہزار ماسک، 100 این 95 ماسک اور 300 حفاظتی سوٹ شامل ہیں ۔ چائنا مشینری انجینئرنگ کارپوریشن کے جنرل منیجر نے وزیراعظم کو چین میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے جدید اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں آگاہ کیا اور پاکستان کو بھی کپاس کی پیداوار میں اضافہ کیلئے ٹیکنالوجی کے لحاظ سے معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ اس موقع پر زونرجی کے صدر نے پاکستان کے قابل تجدید توانائی کے شعبے بالخصوص سولر پینلز کی تیاری کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ Read the full article
0 notes
Text
کیا چین سے پاکستانی شہریوں کو نہ نکالنا ملکی مفاد میں ہے؟
پاکستان کے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ ملک، خطے اور دنیا کے مفاد میں ہے کہ ہم فوری طور پر چین سے اپنے شہریوں کا انخلا نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ چین میں موجود پاکستانیوں کے مطالبے پر جہاز نہ بھیجنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں بلکہ ہم دراصل ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے کہا کہ’عالمی ادارہ صحت نے تجویز کیا ہے کہ ووہان سے لوگوں کا انخلا نہ کیا جائے۔ چین بھی اس بات کی اجازت نہیں دے رہا۔ یہ چین ہی کا کمال ہے کہ انھوں نے اس بیماری کو ووہان تک محدود رکھا ہوا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین کی پالیسیوں اور فیصلوں کی حمایت کریں۔ جو لوگ وہاں موجود ہیں ان کی ذاتی خواہش تو یہی ہو گی کہ ان کو نکالا جائے۔ لیکن ان کے اپنے ملک خطے اور دنیا کے بہترین مفاد میں یہ ہے کہ ہم ان کا انخلا نہ کریں۔‘
معاون خصوصی صحت نے کہا کہ ’کرونا وائرس پھیلنے کے فوری بعد چین نے حفاظتی کٹس تیار کیں۔ اس وقت چین ہی واحد ملک ہے جو اس بیماری کی تشخیص کر سکتا ہے۔ ہمیں عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔‘ ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ ’ہم چین کے سفیر، مرکزی اور صوبے کی حکومت کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں۔ جتنے لوگ ویڈیوز پر انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں میں اتنی ہی ویڈیوز ان لوگوں کی بھی دکھا سکتا ہوں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ چینی حکومت نے ان کا خیال رکھا ہوا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ہم چین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے اقدامات کی تعریف کرتے ہیں اور یہ تعریف پوری دنیا کر رہی ہے۔ جن چار پاکستانی طلبا میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے ان کی صحت بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔ ان کے والدین نہیں چاہتے کہ ان کے بارے میں میڈیا سے بات کی جائے۔ چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد کچھ ممالک کی جانب سے اپنے شہریوں کو نکالنے کے باعث وہاں مقیم پاکستانی طلب علم بھی حکومت سے انخلا کی اپیل کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ’عالمی ادارہ صحت نے انخلا نہ کرنے کی تجویز دی ہے جلد ہی بہتر اور ممکنہ حل نکالا جائے گا۔‘ پاکستان میں چینی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ’چین نے کورونا وائرس کے باعث کسی بھی ملک کے شہریوں کے انخلا پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اگر کوئی ملک اپنے شہریوں کو نکالنا چاہتا ہے تو چینی حکومت متعلقہ ملک کے فیصلے کا احترام کرے گی۔‘ ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں چینی سفارت خانے کی ترجمان مس باو نے کہا کہ ’چینی حکومت کورونا وائرس سے چینی اور غیرملکی شہریوں کے بچاؤ کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ اور ہم پرعزم ہیں کہ جلد ہی اس پر قابو پا لیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’چین کی حکومت نے غیر ملکیوں کے انخلا یا ان کی وطن واپس پر کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اس حوالے سے کوئی سرکاری حکم نامہ جاری کیا گیا ہے نہ ہی ان کے سفر کو کسی ضابطے کا پابند بنایا جا رہا ہے۔‘ پاکستانیوں کے انخلا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان نے ابھی تک چینی حکومت کے ساتھ اپنے شہریوں کے انخلا کی بات نہیں کی۔ یہ پاکستان کا فیصلہ ہو گا کہ وہ اپنے شہریوں کا انخلا چاہتا ہے یا نہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’اب تک امریکہ، فرانس، جاپان اور چند دیگر ممالک اپنے شہریوں کو چین سے نکال چکے ہیں۔ تاہم عالمی ادارہ صحت نے تجویز دی ہے کہ اس وقت شہریوں کا انخلا مناسب نہیں ہو گا۔‘ دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے کہا کہ’ کورونا وائرس کے بعد سے اب تک کسی بھی ملک نے اپنے شہریوں کا باقاعدہ انخلا نہیں کیا۔ تاہم کچھ ممالک اس سلسلے میں چینی حکومت سے بات چیت کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان بھی اپنے شہریوں کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر ممکنہ حل نکالے گا۔ کورونا وائرس کے بعد تمام فریقین کی ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو چینی حکومت کے ساتھ مل کر وہاں مقیم پاکستانیوں کی دیکھ بھال اور انہیں ہر طرح کی امداد کی فراہمی کے حوالے سے اقدامات اٹھا رہی ہے۔’ انہوں نے بتایا کہ ’ یہ کمیٹی پاکستان میں کورونا وائرس کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے حوالے سے بھی تیاریاں کر رہی ہے۔‘ ترجمان نے کہا کہ ’چین میں پاکستانی سفارت خانے میں ہاٹ لائن نمبرز دے دیے گئے ہیں جو پاکستانی ابھی تک وہاں رجسٹرڈ نہیں ہوئے وہ بھی ہو جائیں تاکہ جو بھی حل نکالا جائے وہ بھی اس پلان کا حصہ ہوں۔‘ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا نے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل کا ایک بیان جس میں انخلا نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’وزیر اعظم نے انہں مکمل اختیار دیا ہے۔ چین میں مقیم پاکستانیوں کی حفاظت و سلامتی کے لیے مناسب وقت پر مناسب اقدام اٹھایا جائے گا۔‘
ترجمان دفتر خارجہ اور ڈاکٹر ظفر مرزا کے بیان کے بعد چین میں مقیم پاکستانی طلبہ نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ ’پاکستانی حکام جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔‘ ووہان یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ایم ایس کیمسٹری کے طالب علم فرحان رؤف نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ابھی صرف چار طالب علموں میں وائرس تشخیص ہوا ہے۔ اگر انخلا نہ کیا گیا تو خدانخواستہ پاکستان کے سینکڑوں گھرانوں میں وائرس پھیل جائے گا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ہمارے سامنے فرانس کی حکومت اپنے طالب علموں کو لے کر گئی ہے۔ یہ بے کار کی باتیں ہیں کہ چین کے پاس احتیاطی تدابیر موجود ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو باقی ملک بھی انخلا کی طرف نہ جاتے۔‘ ایک اور طالب علم رضوان شوکت نے کہا کہ ’کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے جس کی وجہ سے مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ ہم اپنے کمروں تک محدود ہیں اور اس وجہ سے کافی خوف و ہراس ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں یہاں سے نکالا جائے۔ ہم نے سیاسی رہنماؤں کے بیانات سنے ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ ہمارے چین کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں اس لیے انخلا نہیں کیا جائے گا۔ ان تعلقات کی بنیاد پر ہمیں یہاں مرنے نہ دیا جائے۔‘
بشیر چوہدری
بشکریہ اردو نیوز
0 notes