#بکھرنے
Explore tagged Tumblr posts
ariesvibe · 1 year ago
Text
.
7 notes · View notes
bazm-e-ishq · 2 years ago
Text
ایک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں
(Ek taluq ko bikharne se bachane k liye/Din Raat mere guzarte hain ada kari main)
To save a relationship from falling apart, my days and nights are spent in acting.
—Ahmad Ali
203 notes · View notes
starlightshadowsworld · 10 months ago
Text
Desi Chuuya Nakahara (Bungou stray dogs)
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڈکھڈانے لگیں آیواں میںخوابدہ چراغ
تو گیا راستہ تک تک کے ہر ایک رہگزار
اجنبی کھاک نہ دھونڈلا دیے قدموں کے سورگ
گل کرو شامین بڈھا دو مائی-او-مینا-او-آگ
اپنے بارے میں سوچوں کو موفق کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
The night has passed, waiting, the star-dust is settling
Sleepy candle-flames are flickering in distant palaces
Every pathway has passed into sleep, tired of waiting
Alien dust has smudged all traces of footsteps
Blow out the candles, let the wine and cup flow
Close and lock your sleepless doors
No one, no one will come here now
(Tanhaa’i/Loneliness by Fiaz Ahmed Faiz
Also made an Atsushi one)
31 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 months ago
Text
اکیلا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں۔۔
میں ویراں ہوں مگر صحرا نہیں ہوں۔۔
کوئی تو خاص نسبت ہے مجھے بھی،
فرشتو۔۔! میں اگر تم سا نہیں ہوں۔۔
ابھی سے چاند تارے چھپ رہے ہیں،
ابھی تو ٹھیک سے ابھرا نہیں ہوں۔۔
ہوا نفرت کی جتنی تیز آئے،
چراغِ مہر ہوں بجھتا نہیں ہوں۔۔
خزاں نے مجھکو مرجھایا ہے لیکن،
میں اب تک شاخ سے ٹوٹا نہیں ہوں۔۔
خموشی سے میں سہہ لوں ظلم سارے،
اے دنیا میں تیرے جیسا نہیں ہوں۔۔
بکھرنے کی اذیت جانتا ہوں،
میں پتوں پہ قدم رکھتا نہیں ہوں۔۔
میرے دل میں کئی باتیں چھپی ہیں،
مگر میں تم سے کچھ کہتا نہیں ہوں۔۔
کنارے پر یہ میرا دم نہ نکلے،
سمندر میں ابھی اترا نہیں ہوں۔۔
مرا تو حافظہ کچھ کم ہے لیکن،
تیری یادوں کو میں بھولا نہیں ہوں۔۔
میں آبِ عشق پی کر جی رہا ہوں،
میں مردہ ہو کے بھی مرتا نہیں ہوں۔۔
فیض محمد شیخ
8 notes · View notes
emergingpakistan · 27 days ago
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
Tumblr media
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے ت��زہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔  دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
Tumblr media
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11  سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ای��، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند ک�� لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان  خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes · View notes
wordofheart3 · 1 year ago
Text
ماں میرے بال بکھرنے بھی نہیں دیتی تھی
زندگی تو نے میرا حال ہی بگاڑ دیا
माँ मेरे बाल बिखरने भी नहीं देती थी
ज़िंदगी तूने मेरा हाल ही बिगाड़ दिया
7 notes · View notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار !
The night has passed, the dust of stars started to scatter!
Faiz
10 notes · View notes
googlynewstv · 4 months ago
Text
عمران خان کے منصوبہ ساز فیض کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی بکھرنے لگی
سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے گرفت میں آنے کے بعد تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ جہاں ایک طرف پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر سی اینڈ ڈبلیو شکیل خان اپنی وزارت سے مستعفی ہو گئے ہیں وہیں دوسری جانب پنجاب میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے تنظیمی عہدیدار اپنے عہدوں سے استعفےٰ دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی پنجاب کے صدر حماد اظہر نے ایکس پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا…
0 notes
sufiblackmamba · 1 year ago
Text
بکھرنے کا مجھ کو شوق ہے بڑا
سمیٹے گا مجھ کو تو ذرا بتا
1 note · View note
rabiabilalsblog · 1 year ago
Text
دُکھ یہ ہے میرے یوسف ویعقوب کے خالق
وہ لوگ بھی بچھڑے جو بچھڑنے کے نہیں تھے
اے باد ستم خیزتیری خیر کہ تونے
پنچھی وہ اڑائے جو اڑنے کہ نہیں تھے
یہ سوچ کے اس شوخ نے غیروں سےنبھائی
ہم لوگ فقط ہجر سے مرنے کے نہیں تھے
تیرا بھی گلہ اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن
ہم عشق کہ سوا کچھ بھی تو کرنے کے نہیں تھے
اک وصل کی امید پہ فرقت میں تمہاری
وہ دن بھی گزارے جو گز��نے کے نہیں تھے
اے گردشِ حالات "تری خیر کہ تو نے"
وہ زخم بھرے ہیں کہ جو بھرنے کے نہیں تھے
تم سے تو کوئی شکوہ نہیں چارہ گری کا
چھوڑو یہ مرے زخم ہی بھرنے کے نہیں تھے
بھر ڈالا انہیں بھی مری بے دار نظر نے
جو زخم کسی طور بھی بھرنے کے نہیں تھے
اے زیست ادھر دیکھ کہ ہم نے تری خاطر
وہ دن بھی گزارے جو گزرنے کے نہیں تھے
کل رات تری یاد نے طوفاں وہ اٹھایا
آنسو تھے کہ پلکوں پہ ٹھہرنے کے نہیں تھے
ان کو بھی اتارا ہے بڑے شوق سے ہم نے
جو نقش ابھی دل میں اترنے کے نہیں تھے
اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے
کچھ خواب تھے ایسے کہ بکھرنے کے نہیں تھے
Tumblr media
1 note · View note
waqasyousaf · 1 year ago
Text
ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ و بو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
جون ایلیاء
ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ و بو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
ہر متاع نفس نذر آہنگ کی ہم کو یاراں ہوس تھی بہت رنگ کی گل زمیں سے ابلنے کو ہے اب لہو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
اول شب کا مہتاب بھی جا چکا صحن مے خانہ سے اب افق میں کہیں آخر شب ہے خالی ہیں جام و سبو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں وقت کی اس مسافت میں بے آرزو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
کس قدر دور سے لوٹ کر آئے ہیں یوں کہو عمر برباد کر آئے ہیں تھا سراب اپنا سرمایۂ جستجو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
اک جنوں تھا کہ آباد ہو شہر جاں اور آباد جب شہر جاں ہو گیا ہیں یہ سرگوشیاں در بہ در کو بہ کو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
دشت میں رقص شوق بہار اب کہاں باد پیمائی دیوانہ وار اب کہاں بس گزرنے کو ہے موسم ہاؤ ہو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
ں رسوا کن دلی و لکھنؤ اپنی کیا زندگی اپنی کیا آبرو میرؔ دلی سے نکلے گئے لکھنؤ تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
0 notes
ispeakmyhrart · 1 year ago
Text
اِک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لئے
میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں
0 notes
762175 · 2 years ago
Text
غبارہ تنازع: امریکہ-چین پھر آمنے سامنے
محمد عباس دھالیوال تین دہائی قبل جو سرد جنگ امریکہ اورسوویت یونین کے بیچ ہوا کرتی تھی،سوویت یونین کے بکھرنے کے بعدختم سی ہو گئی تھی لیکن گزشتہ ایک دہائی میں روس نے اپنی کھوئی ہوئی طاقت کسی حد تک حاصل کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروری 2022سے یوکرین جنگ جاری ہے مگر روس پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ جنگ ختم کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے حواریوں نے روس کو الگ تھلگ کرنے کی بڑی کوشش کی ہے مگر اب تک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years ago
Text
غبارہ تنازع: امریکہ-چین پھر آمنے سامنے
محمد عباس دھالیوال تین دہائی قبل جو سرد جنگ امریکہ اورسوویت یونین کے بیچ ہوا کرتی تھی،سوویت یونین کے بکھرنے کے بعدختم سی ہو گئی تھی لیکن گزشتہ ایک دہائی میں روس نے اپنی کھوئی ہوئی طاقت کسی حد تک حاصل کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروری 2022سے یوکرین جنگ جاری ہے مگر روس پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ جنگ ختم کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے حواریوں نے روس کو الگ تھلگ کرنے کی بڑی کوشش کی ہے مگر اب تک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 2 months ago
Text
تنہائی
پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا!
- فیض احمد فیض
3 notes · View notes
cryptoking009 · 2 years ago
Text
غبارہ تنازع: امریکہ-چین پھر آمنے سامنے
محمد عباس دھالیوال تین دہائی قبل جو سرد جنگ امریکہ اورسوویت یونین کے بیچ ہوا کرتی تھی،سوویت یونین کے بکھرنے کے بعدختم سی ہو گئی تھی لیکن گزشتہ ایک دہائی میں روس نے اپنی کھوئی ہوئی طاقت کسی حد تک حاصل کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروری 2022سے یوکرین جنگ جاری ہے مگر روس پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ جنگ ختم کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے حواریوں نے روس کو الگ تھلگ کرنے کی بڑی کوشش کی ہے مگر اب تک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes