#برادرانہ تعلقات
Explore tagged Tumblr posts
Text
چین کیساتھ برادرانہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،آرمی چیف
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کاکہناہے کہ چین کیساتھ برادرانہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف سے چین کی بری فوج کے سربراہ کی ملاقات، باہمی دلچسپی اورعلاقائی سلامتی کے امور پر گفتگوکی گئی ۔فوجی تربیت اور دوطرفہ دفاعی تعاون بڑھانے کے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیاگیا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم مینر نے کہا کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے برادرانہ تعلقات کو دل کی…
0 notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر13
وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف سے سعودی عرب کے صوبہ حفر الباطن کے سابق گورنر شہزادہ منصور کی ملاقات
وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم اور مذہبی سیاحت کے شعبوں میں سعودی سرمایہ کاری کی دعوت
دو طرفہ تعلقات، باہمی تعاون پر تفصیلی تبادلہ خیال
کاروباری ماحول کیلئے سکیورٹی کو یقینی بنایا ہے،سعودی سرمایہ کاروں کومراعات دی جائیں گی: مریم نواز
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات نہایت اہم ہیں، سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا:شہزادہ منصور
لاہور6جنوری:……وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے سعودی عرب کے صوبہ حفر الباطن کے سابق گورنر شہزادہ منصورنے ملاقات کی،جس میں دو طرفہ تعلقات،باہمی تعاون پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا-ملاقات میں پنجاب میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بھی گفتگو ہوئی- وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم اور مذہبی سیاحت کے شعبوں میں سعودی سرمایہ کاری کی دعوت دی-وزیر اعلیٰ مریم نواز نے سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے لیے ہمیشہ برادرانہ تعاون کو سراہا -وزیراعلی مریم نوازشریف نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سعودی عرب بڑا بھائی ہے، دونوں ممالک کے عوام کے دل یکساں دھڑکتے ہیں۔پنجاب حکومت نے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے سکیورٹی اور میرٹ کو یقینی بنایا ہے۔سعودی سرمایہ کاروں کو سپیشل پیکج کے تحت مراعات دی جائیں گی - سعودی عرب کے صوبہ حفر الباطن کے سابق گورنرشہزادہ منصورنے کہاکہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات خطے کے استحکام اور ترقی کے لیے نہایت اہم ہیں۔ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
٭٭٭٭
0 notes
Text
پاکستانی معیشت اور چائنہ کا کردار
یوں تو چائنہ دنیا بھر میں بہت سے ممالک کے ساتھ معاشی منصوبوں پر کام کررہا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ چائنہ کے برادرانہ تعلقات ہیں، چائنہ پاکستان میں انرجی، کنسٹرکشن، ہوٹلز اینڈ ٹورازم، ٹیکسٹائل اور انفراسٹرکچر کے بہت سے منصوبوں پر بیک وقت کام کررہا ہے۔ چائنہ پاکستان میں حکومت کے تعاون سے عوامی دلچسپی کے منصوبے شروع کرتا ہے اور نہ صرف جدید ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کھڑا کرتا ہے بلکہ مہارت اور روزگار…
0 notes
Text
پاک ترک مشترکہ اسٹیلتھ جنگی طیارے
دنیا میں ترکیہ اور پاکستان دو ایسے ممالک ہیں جن کے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کی مثال دی جاتی ہے اور ان کو یک جان دو قالب یا پھر ایک قوم دو ممالک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ان دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم جو 75 سالوں میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر تک پہنچا ہے، دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ، گہرے مثالی برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کی ہرگز عکاسی نہیں کرتا۔ پاکستان ماضی میں ترکیہ کے لئے ایک رول ماڈل ملک کی حیثیت رکھتا تھا لیکن پاکستان اپنے جغرافیائی اور اندرونی حالات کی وجہ سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے تاہم اس دوران ترکیہ نے صدر رجب طیب ایردوان کے دورِ اقتدار میں حیرت انگیز طور پر بڑی سرعت سے ترقی کی ہے، خاص طور پر ترکیہ کی دفاعی صنعت جس میں ڈرونز اور مقامی طور پر تیار کردہ جنگی طیارے دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ترکیہ اگرچہ ڈرونز کی تیاری میں دنیا پر اپنی دھاک بٹھا چکا ہے، اب اس نے بڑے پیمانے پر مقامی وسائل سے اسٹیلتھ جنگی طیارے بنانے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ترکیہ کو ایف ۔35 طیارے کے پروجیکٹ کو روکنے کی وجہ سے ترکیہ کے صدر ایردوان نے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ترکیہ ہی میں ایف-35 طرز کا اسٹیلتھ جنگی طیارہ بنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ ترک انجینئرز امریکہ میں ایف.35 پروجیکٹ میں کام کر چکے تھے، صدر ایردوان نے ان انجینئرز کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے ترکیہ میں اسی طرز کا اسٹیلتھ جنگی طیارہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
صدر ایردوان نے امریکہ کے اس رویے پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نے ترکیہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے، ترکیہ کو اپنے طیارے خود تیار کرنے کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ اس طرح ترکیہ ایرو اسپیس انڈسٹریز نے ملک میں پہلے اسٹیلتھ جنگی طیارے’قاآن‘ تیار کرنے کی پلاننگ شروع کر دی اور دن رات کی محنت اور طویل جدوجہد کے بعد مقامی وسائل استعمال کر کے اپنا پہلا اسٹیلتھ جنگی طیارہ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ترکیہ عالمِ اسلام کا واحد ملک ہے جس کے جنگی طیارے نے دنیا بھر میں ہل چل پیدا کر دی ہے۔ ایک سیٹ پر مشتمل اس طیارے کی طوالت 21 میٹر (69 فٹ) بلندی 6 میٹر (20 فٹ) ہے جبکہ اس کی رفتار 2,210 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس سپر سانک طیارے کی اہم خصوصیت ایک یہ ہے کہ اس میں بم اور میزائل باہر لٹکے ہوئے ہونے کی بجائے اندر کور کے پیچھے رکھے جاتے ہیں تاکہ دشمن کے طیارے ریڈار یا ریڈیو ویوز کے ذریعے اس تک رسائی حاصل نہ کر سکیں، میزائل اور بم گرانے کے وقت اس کور کو کھول دیا جاتا ہے اور استعمال کے بعد بند کر دیا جاتا ہے۔ اس طیارے کے ونگ ایف سولہ طیارے کے ونگ کے برابر ہیں۔ اس میں ایف سولہ طیارے ہی کے انجن کو استعمال کیا گیا ہے یعنی F110 انجن، ایف سولہ میں صرف ایک انجن ہے جبکہ اس میں دو انجن نصب کئے گئے ہیں۔
نیشنل کمبیٹ ایئر کرافٹ کو ترکیہ ایرو اسپیس انڈسٹریز ہی نے ڈیزائن اور تیار کیا ہے۔ قاآن (عثمانی ترکی زبان میں استعمال کیا جانے والا لفظ ہے) کے معنی ’’حکمران‘‘ یا ’’بادشاہوں کا بادشاہ‘‘ ہے۔ یہ نام دراصل صدر ایردوان کے اقتدار میں شامل جماعت MHP کے چیئرمین دولت باہچے جو بڑے قوم پرست ہیں کی طرف سے دیا گیا ہے۔ اس سال دسمبر میں قاآن کی پہلی پرواز کا منصوبہ بنایا گیا ہے جبکہ 2026 میں 3 عدد پروٹو ٹائپ تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور پھر 2028 میں بڑے پیمانے پر اس کی پیداوار شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ یہ طیارہ، ایف سولہ کی جگہ ترک فضائیہ کی انونٹری میں فائٹر طیارے کے طور پر شامل کیا جائے گا۔ ابتدا میں سالانہ، ان طیاروں کی فروخت سے ایک بلین ڈالر کی آمدنی کا پلان تیار کیا گیا ہے، یہ طیارہ ماہ دسمبر میں اپنی تجرباتی پرواز کا آغاز کر دے گا۔ ترکیہ ایرو اسپیس انڈسٹریز کے سربراہ تیمل کوتل نے کہا ہے کہ اس وقت قاآن نامی دو عدد جنگی طیارے پرواز کے لئے تیار ہیں۔ گزشتہ ہفتے پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل احمد بابر سدھو نے ترک ایوان صدر کی خصوصی دعوت پر ترکیہ کا دورہ کیا اور ترک ایئر فورس اکیڈمی میں گریجویشن اور پرچم کشائی کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
سربراہ پاک فضائیہ کی تقریب میں شرکت دونوں فضائی افواج کے مابین دیرینہ دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ترکیہ ڈیفنس یونیورسٹی کی تقریب میں مدعو کرنے پر ائیر چیف مارشل سدھو نے صدر ایردوان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے ترک فضائیہ کے ساتھ ٹھوس شراکت داری کو جاری رکھنے کا اظہار کیا۔ پاک فضائیہ کےسربراہ ایئر چیف نے کہا کہ ہم ترکیہ کے مقامی طور پر تیار کردہ 5ویں نسل کے قومی جنگی لڑاکا جیٹ قاآن کو مشترکہ طور پر تیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ترکیہ کے ساتھ 5ویں نسل کے جنگی طیاروں کی مشترکہ تیاری کے منصوبے پر ترک حکام سے بات چیت جا ری ہے۔ انہوں نے اپنے دورہ ترکیہ کے دوران دو طرفہ ٹیکنالوجی کے اشتراک اور، 5ویں نسل کے جنگی طیاروں کی مشترکہ تیاری اور ترقی کے منصوبوں میں ترکیہ کے ساتھ تعاون کو عزم کے ساتھ جاری رکھنے کا اظہار کیا، پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل سدھو کا ترکیہ کا تاریخی دورہ نہ صرف دونوں برادر ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا بلکہ دونوں ممالک کے اسٹیلتھ جنگی طیارے قاآن کی مشترکہ تیاری کی راہ بھی ہموار کرے گا۔ اس سے قبل ترکیہ کے وزیر قومی دفاع یشار گیولرکے پاکستان کو بھی اس پروجیکٹ میں شامل کیے جانے کے بارے میں مذاکرات جاری ہیں اور جلد ہی پاکستان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Pakistan#Pakistan Air Force#Recep Tayyip Erdogan#Stealth aircraft#Stealth Fighter#Turkey#Turkish Air Force#World
0 notes
Text
پاکستان نے ایرانی وزیر خارجہ کو دورہ اسلام آباد کی دعوت دے دی
پاکستان کے وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کا جمعہ کو ایرانی ہم منصب سے فون پر ہوا، جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت مختلف شعبوں میں قریبی تعاون پر زور دیا گیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو اپنی نیبرز فرسٹ کی پالیسی کے مطابق اہمیت دیتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ “سیکیورٹی اور فوجی تعاون کی سنجیدگی سے پیروی کرنا…
View On WordPress
0 notes
Text
ترک عوام تنہا نہیں
ترکیہ میں آنے والے صدی کے قیامت خیز زلزلے کے دلخراش مناظر نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو سوگوار کر دیا ہے۔ زلزلے کے نتیجے میں کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے، 3 ہزار سے زیادہ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں اور 32 ہزار سے زیادہ شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ سانحہ کے باعث ترکیہ میں سوگ کا سماں ہے اور ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے جب کہ صدر طیب اردوان ریسکیو اور ریلیف آپریشن کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔ ترکیہ میں 1939ء کے بعد یہ سب سے بڑی قدرتی آفت ہے جس نے 2005ء کے پاکستان میں آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں آنے والے ہولناک زلزلے کی یاد تازہ کر دی ہے۔ پاکستان میں آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.6 ریکارڈ کی گئی تھی جس میں مجموعی طور پر 74 ہزار سے زائد شہری جاں بحق ہوئے تھے جب کہ ترکیہ کے حالیہ زلزلے کی شدت 7.8 ہے اور خدشہ ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد تجاوز کر سکتی ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں آنے والے زلزلے میں ترکیہ کے بھائیوں نے اپنے پاکستانی بھائیوں کی جو مدد کی، اس بے پناہ محبت کے اظہار کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہےکہ جب ترکیہ میں قائم پاکستانی سفارتخانے کو ایک ترک لڑکے کا خط موصول ہوا جس میں 2 ڈالر کے مساوی ترکیہ کی کرنسی موجود تھی۔
خط میں تحریر تھا کہ ’’میں یتیم لڑکا ہوں، والد کے انتقال کے بعد گھر کی معاشی کفالت کی ذمہ داری مجھ پر آن پڑی ہے، میں محنت مزدوری کر کے یومیہ 2 ڈالر کماتا ہوں جس سے میرے گھر کا چولہا جلتا ہے مگر پاکستان میں آنے والے زلزلے کی تباہ کاریاں دیکھ کر میں اور میری ماں نے فیصلہ کیا کہ ایک دن کی کمائی پاکستان کے زلزلہ متاثرین کو بھجوائیں ۔‘‘ مجھے یہ واقعہ اس وقت پاکستانی سفارتخانے میں ملٹری اتاشی کے عہدے پر فائز بریگیڈیئر (ر) خالد مسعود ترمذی نے سنایا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ لفافے پر پتہ درج نہ ہونے کے باعث پاکستانی سفارتخانے کو یتیم بچے کا سراغ نہ مل سکا اور ہم اپنے محسن کی سخاوت کا شکریہ ادا نہ کر سکے۔ اسی طرح 2010ء میں جب پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے سینکڑوں افراد جا ںبحق اور لاکھوں بے گھر ہوئے تو اس وقت ترکیہ کے وزیراعظم اور موجودہ صدر رجب طیب اردوان کی اہلیہ ایمان اردوان پاکستان تشریف لائیں اور مظفر گڑھ کے سیلاب متاثرین کی حالت زار دیکھ کر اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے قیمتی ہیروں کا ہار اپنے گلے سے اتار کر پاکستانی حکام کو یہ کہتے ہوئے عطیہ کر دیا کہ اسے فروخت کر کے سیلاب زدگان کی مدد کی جائے مگر افسوس کہ یہ قیمتی ہار بعد ازاں غائب ہو گیا۔
کراچی میں ترکیہ کے قونصل جنرل جمال سانگی سے میرے قریبی برادرانہ تعلقات ہیں، حالیہ سانحہ کے بعد کراچی میں ترکش قونصلیٹ جنرل میں تعزیتی کتاب رکھی گئی اور مختلف ممالک کے قونصل جنرلز اور معزز شخصیات کو اپنے تاثرات درج کرنے کیلئے مدعو کیا گیا جس میں، میں بھی شامل تھا۔ میں جب کلفٹن میں واقع ترکش قونصلیٹ کی خوبصورت اور دلکش عمارت میں پہنچا تو وہاں کی فضا سوگوار تھی اور قونصلیٹ کی عمارت پر نصب ترکیہ کا قومی پرچم سرنگوں تھا۔ اس موقع پر ترکیہ کے قونصل جنرل اور اُن کے عملے کے چہرے پر شدت غم کے آثار نمایاں تھے۔ میں نے تعزیتی کتاب میں تحریر کیا کہ ’’پاکستانی عوام اپنے ترک بہن بھائیوں کے غم کو محسوس کر سکتے ہیں اور مشکل کی اس گھڑی میں وہ تنہا نہیں۔‘‘ اس موقع پر ترکیہ کے قونصل جنرل جمال سانگی نے مجھے بتایا کہ 500 سال قبل بھی اسی مقام پر زلزلہ آیا تھا اور حالیہ آنے والے دو زلزلوں کی مجموعی قوت کا اندازہ لگایا جائے تو یہ 500 ایٹم بموں کی قوت کے برابر بنتے ہیں جب کہ زلزلے کی گہرائی 17.9 کلومیٹر تھی جس کی وجہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ یہ بات قابل ستائش ہے کہ پاکستان سے مسلم ہینڈز انٹرنیشنل، المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ اور الخدمت جیسے فلاحی اداروں کے رضا کار زلزلے کے فوراً بعد ہی ترکیہ پہنچ گئے اور ریسکیو آپریشن میں مصروف عمل ہیں۔
ترک بھائیوں کی پاکستان کیلئے محبت کے واقعات بیان کرنے کا مقصد قارئین کو یہ بتانا ہے کہ ترکیہ کے عوام نے قدرتی آفات اور مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور آج ترک عوام سے اظہار محبت اور ان کی مدد پاکستان پر قرض ہے جس کا اندازہ امریکہ میں پیش آنے والے ایک حالیہ واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں مقیم ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری نے ترک سفارتخانے جاکر اپنی زندگی کا پورا سرمای�� 30 ملین ڈالرز (8 ارب روپے سے زائد) نام بتائے بغیر خاموشی سے ترکیہ کے زلزلہ متاثرین کی امداد کے لئے دے کر پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کر دیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کا امیر طبقہ بھی اسی طرح کی سخاوت کا مظاہرہ کرے تاکہ ہم اپنے ترک بھائیوں کو یہ پیغام دے سکیں کہ پاکستانی عوام احسان فراموش نہیں اور مشکل کی گھڑی میں اپنے محسنوں کو یاد رکھتے ہیں۔
مرزا اشتیاق بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
بیرونی سرمایہ کاری اور معاشی استحکام
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان شاہی وفد کے ہمراہ نجی دورے پر پاکستان پہنچے ہیں۔ ایئر پورٹ پر ملاقات کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور یو ای اے کے صدر نے دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی، عالمی صورتحال، معیشت، تجارت اور ترقی کے شعبوں میں تعاون کے مختلف راستوں پر تبادلہ خیال کیا۔ صدر یو ای اے…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستان اور سعودی عرب کے مملکت کے درمیان 'گہرے ، تاریخی اور برادرانہ تعلقات' ہیں
پاکستان اور سعودی عرب کے مملکت کے درمیان ‘گہرے ، تاریخی اور برادرانہ تعلقات’ ہیں
شاہ محمود قریشی کی اے ایف پی فائل کی تصویر۔ اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے منگل کو اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور سعودی عرب مملکت “گہرے ، تاریخی اور برادرانہ تعلقات” سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ A رپورٹ میں ریڈیو پاکستان وزیر خارجہ کے اشتراک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی سعودی وفد جلد ہی اسلام آباد کا دورہ کرنے والا…
View On WordPress
0 notes
Text
پاک سعودی تعلقات
عرب نیوز ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے بعد بعض حلقے پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات کے بارے میں تاثر پھیلا رہے ہیں کہ سعودی عرب نے او آئی سی پر تنقید کے بعد پاکستان کو قرض اور تیل کی سپلائی ختم کر دی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات شبلی فراز نے پریس بریفنگ میں اس منفی تاثر کو رد کر دیا اور کہا کہ سعودی عرب ہمارا قریبی برادر ملک ہے ہمیشہ مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا ہوا ہے، ہمارے لوگ وہاں کام کرتے ہیں اور دونوں ملکوں میں پیسوں کا لین دین لگا رہتا ہے۔ وزیر اطلاعات کی وضاحت کے بعد اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں رہنا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور او آئی سی نے ہمیشہ کشمیری عوام کی جدوجہد کی حمایت کی ہے۔
بھارت نے بین الاقوامی ضابطوں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کے غیرقانونی ادغام کے حوالے سے جو اقدامات کئے او آئی سی اپنی قراردادوں میں ان کی واشگاف الفاظ میں مذمت اور انہیں واپس لینے کا مطالبہ کر چکا ہے یہ قرارداد اگر پاکستانی توقعات سے کم تھی تو اسے قومی مفاد میں سفارتی اور سیاسی تقاضوں کے تحت یہ کہنے کا حق ہے کہ پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت کے لئے او آئی سی کی قیادت کی اجازت دی جائے اس سے او آئی سی کے کردار یا سعودی عرب کی نیک نیتی پر حرف زنی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جہاں اقوام متحدہ کی بے عملی کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں او آئی سی پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔ او آئی سی کے 57 ارکان ہیں جبکہ عرب نیوز نے ان میں سے صرف سعودی عرب کا ذکر کر کے پاک سعودی تعلقات پر سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اطلاعات کی وضاحت کے بعد اس حوالے سے شکوک و شبہات ختم ہو جانے چاہئیں۔ مسئلہ کشمیر، فلسطین کی طرح عالم اسلام کا مشترکہ مسئلہ ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس مسئلہ پر ایک ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1018
وزیر اعلی مریم نواز کی چین کے 75 ویں قومی دن کی تقریب میں شرکت، قونصل جنرل ژاؤ شیریں سے ملاقات،قومی دن پر مبارکباد
پاک چین دوستی کا بانڈ محض اسٹریٹجک مفادات پر مبنی نہیں، یہ دل اور روح کارشتہ ہے:وزیراعلی مریم نوازشریف
پاک چین تعلقات باہمی احترام، اعتماد اور ایک دوسرے کی خوشحالی کے لیے غیر متزلزل عزم پر قائم ہیں
سی پیک محض ایک منصوبہ نہیں، دو قوموں کے لیے امید، ترقی اور خوشحالی کی علامت ہے
مضبوط صنعتی بنیاد اور متحرک افرادی قوت کے ساتھ، پنجاب چینی سرمایہ کاری کے لیے منفرد مقام رکھتا ہے
چین سے شراکت داری کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، پنجاب حکومت چینی سرمایہ کاروں کیلئے خصوصی پیکیج دے رہی ہے
چین کی کامیابیاں ہمارے لیے بھی حوصلہ افزائی اور قابل تقلید ہیں،ضرورت کی ہر گھڑی میں چین پاکستان کیساتھ کھڑا ہے:وزیراعلیٰ پنجاب
ژاؤ شیریں نے خطاب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز کے عوام دوست اقدامات کو سراہا، نواز شریف آئی ٹی سٹی،کینسر ہسپتال، ائیر ایمبولینس، اپنی چھت،اپنا گھر پروگرام کا خصوصی ذکر
سولر پینل پروگرام سے عوام کو حقیقی ریلیف ملے گا،حکومت پنجاب عوام کے لیے بہترین خدمات سر انجام دے رہی ہے:چینی قونصل جنرل
یہ میرا نہیں ہمارا دن ہے،تقریب میں مہمانوں کی شرکت پاک چین تعلقات کے استحکام کی دلیل ہے:ژاؤ شیریں
وزیر اعلیٰ مریم نواز، چینی قونصل جنرل اور دیگر نے ملکر عوامی جمہوریہ چین کی 75 ویں سالگرہ کا کیک کاٹا،کلچرل پرفارمنس،پاکستان اورچین کے قومی ترانے پیش کئے گئے
لاہور23ستمبر: وزیر اعلی پنجاب مریم نوازشریف نے عوامی جمہوریہ چین کے 75 ویں قومی دن کی تقریب میں شرکت کی-وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے چینی قونصل جنرل ژاؤ شیریں سے ملاقات کی اورچین کے قومی دن پر مبارکباد دی-تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہاکہ پاک چین دوستی کا بانڈ محض اسٹریٹجک مفادات پر مبنی نہیں، یہ دل اور روح کارشتہ ہے- پاک چین تعلقات باہمی احترام، اعتماد اور ایک دوسرے کی خوشحالی کے لیے غیر متزلزل عزم پر قائم ہیں۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ چین کے 75ویں قومی دن پر پاکستانی عوام کی طرف سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ پنجاب کے لوگ چینی بھائیوں اور بہنوں کو نیک خواہشات اور دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کے 75 ویں قومی دن کی تقریب میں شرکت باعث فخرہے۔انہوں نے کہا کہ چینی قوم نے نہ صرف ترقی اور اختراع کی بلندیوں کو چھو لیا بلکہ عالمی برادری کی طرف دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا ہے۔پاور کوریڈور سے لے کر عام شہریوں کے دلوں تک چین نے گھر کرلیا ہے۔ مریم نوازشریف نے کہاکہ چین کی عظمت امن، تعاون اور انسانیت کی بھلائی کے غیر متزلزل عزم میں مضمر ہے۔ ہم عظیم چینی قوم کا احترام کرتے ہیں - پاکستان اور چین کے درمیان گہری دوستی اعتماد، احترام اور روشن مستقبل کے مشترکہ ویژن سے منسلک ہے۔ چین سے ہمارا رشتہ برادرانہ محبت، باہمی احترام اور غیر متزلزل اعتماد کا ہے۔پاک چین تعلقات وقت کی کسوٹی پر جانچے اور پرکھے ہے۔ برادر ملک چین کی شاندار کامیابیوں کو فخر کے ساتھ مناتے ہیں - وزیر علیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ چین کی کامیابیاں ہمارے لیے بھی حوصلہ افزائی اور قابل تقلید ہیں۔ضرورت کی ہر گھڑی میں چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے-دونوں ممالک خوشحالی اور پر امن مستقبل کی طرف ہاتھ تھام کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ دعا ہے کہ پاک چین دوستی ہر
(جاری۔۔۔صفحہ2)
(بقیہ ہینڈ آؤٹ نمبر1018) (2)
گزرتے دن کے ساتھ مزید مضبوط ہوتی رہے۔وزیراعلی مریم نوازنے کہاکہ چین نے قابل ذکر معاشی تبدیلی لاکر کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالا- ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور انڈسٹری کے شعبے میں چین دنیا کے لیے مثال بن چکا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ہر عالمی بحران میں چین کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ کووڈ جیسی وبائی بیماری ہو یا قدرتی آفات چین نے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ضرورت مند ممالک کے لیے وسائل مہیا کئے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن کے طور پر، چین نے مستقل طور پر امن و ترقی کو فروع دیا۔ بیلٹ اینڈ روڈ ��نیشیٹو عالمی خوشحالی کے لیے چین کے عزم کا اظہارکرتا ہے۔ چین کی اقتصادی ترقی کے ثمرات سے دنیا بھر کے لوگوں مستفید ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چین ایک ایسے رہنما کے طور پر ابھرا ہے جس کا وژن سرحدوں سے ماورا ہے-چین سب کے لیے بہتر اور مساوی دنیا کی تعمیر کے علمبردار کے طور پر ابھر رہا ہے۔پاکستان اور چین کی دوستی سمندروں جیسی گہری اور پہاڑوں جیسی مضبوط ہے۔وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ محمد نواز شریف نے پاک چین دوستی کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دیا۔ محمد نواز شریف چینی عوام کے ساتھ برادرانہ دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انہو ں نے کہاکہ ہر عالمی فورم پر چین ایک سچے اور وفادار دوست کے طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہاکہ معاشی مدد ہو، سفارتی حمایت ہو یا بحران کے وقت مدد، چین نے ہمیشہ حقیقی معنوں بھائی ثابت کیا ہے۔ انہو ں نے کہاکہ ہمارے مشترکہ مستقبل کا ایک اہم ترین ثبوت چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) ہے۔ سی پیک محض ایک منصوبہ نہیں، دو قوموں کے لیے امید، ترقی اور خوشحالی کی علامت ہے۔ چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے اقتصادی ترقی تک رسائی کا قابل قدر اقدام سر انجام دے رہا ہے۔ سی پیک پاکستان کے معاشی منظر نامے کو تبدیل کر رہا ہے- وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہاکہ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر ہے کہ پنجاب مثبت معاشی تبدیلی میں سب سے آگے ہے۔ مضبوط صنعتی بنیاد اور متحرک افرادی قوت کے ساتھ، پنجاب چینی سرمایہ کاری کے لیے منفرد مقام رکھتا ہے۔ چین سے شراکت داری کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، پنجاب حکومت چینی سرمایہ کاروں کیلئے خصوصی پیکج دے رہی ہے-پنجاب کو چینی کاروبار کے لیے ایک پسندیدہ مقام بنانے کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ چین کے قونصل جنرل ژاؤ شیریں نے خطاب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کے عوام دوست اقدامات کو خراج تحسین پیش کیا اورنواز شریف آئی ٹی سٹی،کینسر ہسپتال، ائیر ایمبولینس، اپنی چھت... اپنا گھر پروگرام کا خصوصی ذکر کیا-چینی قونصل جنرل ژاؤ شیریں نے اپنے خطاب میں کہاکہ سولر پینل پروگرام سے عوام کو حقیقی ریلیف ملے گا - حکومت پنجاب عوام کے لیے بہترین خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ژاؤ شیریں نے پاک چین دوست زندہ باد کا نعرہ بھی لگایا- چینی قونصل جنرل نے کہاکہ یہ میرا نہیں ہمارا دن ہے،تقریب میں مہمانوں کی شرکت پاک چین تعلقات کے استحکام کی دلیل ہے- تقریب میں عوامی جمہوریہ چین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قومی ترانے بجائے گئے- چینی فنکاروں نے روایتی چینی ثقافتی فن کا مظاہرہ کیا -وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف، چینی قونصل جنرل اور دیگر نے ملکر عوامی جمہوریہ چین کی 75 ویں سالگرہ کا کیک کاٹا - چینی موسیقی، دھرتی سے محبت کے گیت اور ڈریگن شو بھی پیش کئے گئے- گورنرپنجاب سردار سلیم حیدر، سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے بھی تقریب سے خطاب کیا-سینئر منسٹر مریم اورنگزیب، صوبائی وزیرصنعت چوہدری شافع حسین،چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان، آئی جی عثمان انور اور دیگر حکام بھی موجود تھے-
٭٭٭٭
0 notes
Text
پاکستان کی افغان سرحد پر ہونے والی فائرنگ کی کی شدید مذمت
پاکستان کی افغان سرحد پر ہونے والی فائرنگ کی کی شدید مذمت
اسلام آباد: دفتر خارجہ نے افغان حکام سے چمن کی شہری آبادی پر افغان بارڈر فورسز کی بلااشتعال اور اندھا دھند فائرنگ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کردیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق دفتر خارجہ کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقے چمن میں شہری آبادی پر افغان بارڈر فورسز کی اندھا دھند فائرنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے افسوس ناک واقعات دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کے مطابق نہیں…
View On WordPress
0 notes
Text
نگران وزیراعظم کاکڑ اور آذربائیجان صدر کے درمیان دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں اقتصادی تعاون تنظیم کے 16ویں سربراہی اجلاس کے موقع پر جمہوریہ آذربائیجان کے صدر الہام علیئیوف سے ملاقات کی۔ دونوں رہنمائوں نے دوطرفہ تعلقات خصوصا دو طرفہ تجارت، دفاع اور توانائی کے شعبے میں حالیہ پیش رفت کا جائزہ لیا۔ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے آذربائیجان ایئر لائن (AZAL) کے پاکستان کے…
View On WordPress
0 notes
Text
ترک پاکستان یکجہتی اور مسلم دنیا
دونوں ملکوں کے لیے آزمائش کی گھڑی میں ترک صدر رجب طیب اردوان کا دورہ پاکستان ان کے (دونوں ممالک) آپس میں خصوصی برادرانہ تعلقات کا حقیقی مظہر تھا۔ پاکستان اور ترکی کے مابین رشتوں کی جڑیں ان کی تہذیب اور کلچر میں پیوست ہیں، اور یہ جڑیں صدیوں تک انڈیا میں قائم رہنے والے مسلم اقتدار تک پھیلی ہوئی ہیں‘ لیکن ان تعلقات میں ایک منفرد جذباتی پہلو اس وقت شامل ہوا جب تقریباً ایک صدی پہلے، 1920ء کی دہائی میں، انڈیا اور بعد ازاں پاکستان بن جانے والے علاقے کے لوگوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے حق میں تحریک خلافت چلائی۔ بر صغیر میں مسلم اکثریتی ریاست کے قیام کی نظریاتی اساس کا ایک عنصر یہ تحریک خلافت بھی تھی۔
سرد جنگ کے دوران بھی ترکی اور پاکستان اہم مغربی بلاکس کا حصہ رہے‘ حتیٰ کہ آج بھی یہ دونوں ممالک کثیر جہتی باہمی سیاسی، معاشی اور تزویراتی مفادات کے لیے ایک دوسرے سے قریبی اور مبنی بر تعاون تعلقات اُستوار رکھے ہوئے ہیں۔ جغرافیائی طور پر یقینا یہ دو الگ ملک ہیں لیکن ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان کے مابین گہری تاریخی، مذہبی اور تہذیبی سانجھ ہے۔ آج کے تناظر میں جو چیز اور بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ ترکی اور پاکستان کا منفرد محل وقوع ہے۔ دونوں ملک دنیا کے چند اہم ترین خطوں کے سنگم پر واقع ہیں۔ ان خطوں میں غربت اور تنائو سے گھرا جنوبی ایشیا، تنازعات سے دوچار مغربی ایشیا، وسائل سے بھرپور اہم تزویراتی محل وقوع کا حامل وسطی ایشیا، معاشی طور پر تیزی سے ابھرتا مشرقی ایشیا، طوفانی و تند خو مشرقِ وسطیٰ اور تیل کی دولت سے مالامال خلیج فارس شامل ہیں۔
ترکی اور پاکستان‘ دونوں ہی عملاً وہ بین البراعظمی پُل ہیں، جو اپنی اپنی جگہ پر ایشیا اور یورپ کو آپس میں ملاتے ہیں۔ اپنے منفرد جیو پولیٹیکل محل وقوع اور وسیع مادی و انسانی وسائل کی بدولت مختلف معاملات میں ان دونوں ملکوں کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے اور ان کے محل وقوع نے متعلقہ خِطوں میں امن و استحکام برقرار رکھنے کی ذمہ داری بھی ان پر ڈال رکھی ہے۔ اپنی اسی جیو پولیٹیکل اہمیت کے پیش نظر دونوں ملک اس خطے کے بارے اور عالمی معاملات میں ایک سانجھا موقف رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک ایسے مضطر و متحرک علاقوں کا حصہ ہیں جہاں طاقتور ہمسائے موجود ہیں اور جہاں پہلے سے موجود تنازعات کی وجہ سے ہر وقت ان کی سرحدوں پر کسی نہ کسی آویزش کے پیدا ہونے اور اس آویزش کے ان کی سرحدوں کے اندر تک در آنے کا اندیشہ موجود رہتا ہے اور کچھ معاملات میں تو ایسا ہو بھی چکا ہے۔
دونوں ملکوں کو دوسری قوتوں کی جانب سے اثر و رسوخ کم کرنے کی کوششوں کا سامنا بھی رہتا ہے۔ ان دونوں ملکوں کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ایسی کوششیں غیر فطری نہیں ہیں۔ دونوں ملکوں کو جن کھولتے ہوئے علاقائی تنازعات کا سامنا ہے‘ ان کے پیچھے ایک کلونیل طاقت کا ہاتھ رہا تھا اور یہ چیز اب ان کی متعلقہ قومی نفسیات کا حصہ بن چکی ہے۔ مزید برآں دونوں ملکوں کو اپنے تہذیبی تناظر میں اپنی مسلم شناخت برقرار رکھنے کے لئے کوششیں کرنا پڑیں۔ ان کی تاریخ اور جغرافیے کی یہ سانجھی خصوصیات ان اسباق کا ایک حصہ ہیں، اگر اس کی وجہ نہیں، جو ان دونوں ملکوں نے سیکھے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ صدر رجب طیب اردوان کے تازہ ترین دورہ پاکستان نے ان اسباق کی ایک بار پھر کھوج اور پرکھ کا موقع فراہم کر دیا ہے اور ہم بارِ دگر جائزہ لے سکتے ہیں کہ دونوں ممالک مل کر کیسے مسلم دنیا میں قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ دونوں ملک پہلے ہی ایک ایسا منفرد اور دائمی تعلق رکھتے ہیں جس کی خصوصیات باہمی تعاون، غیر معمولی اعتماد اور افہام و تفہیم ہیں۔ دونوں برادر ملک ہمیشہ ایک دوسرے کے ثابت قدم شراکت دار رہے ہیں۔ ترکی بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کی بھرپور حمایت کرتا ہے‘ اسی طرح پاکستان سائپرس کے معاملے پر ترکوں کے ساتھ پُر عزم کھڑا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور صدر رجب طیب اردوان کی قیادت میں پاکستان و ترکی کے تعلقات پائیدار تعاون کے بندھن میں ڈھل چکے ہیں۔ دونوں پُر عزم ہیں کہ یہ اپنے تاریخی تعلقات کو متنوع شعبوں مثلاً اسلاموفوبیا کے مقابلے، اسلامی یکجہتی کے فروغ اور علاقائی امن، سلامتی اور استحکام کے مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے متحرک تعاون کی شکل دیں گے۔
صدر اردوان کا دورہ دونوں ممالک کے مابین روایتی یکجہتی اور وابستگی کو نمایاں کرتا ہے اور یہ پاکستان اور ترکی کے مابین تزویراتی شراکت داری کو مزید وُسعت دینے میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ فریقین نے اس موقع کو معاشی تعلقات مزید مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ایک تزویراتی معاشی فریم ورک پر اتفاق کے علاوہ‘ جس میں تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں، دونوں ملکوں نے تیرہ معاہدوں پر دستخط کیے جن کی وجہ سے باہمی مفاد پر مبنی تعاون کے نئے دریچے وا ہوئے۔ ان شعبوں میں تجارت، سرمایہ کاری، بینکنگ، فنانس، توانائی، سیاحت، کلچر، سائنس، ابلاغ، تعلیم، دفاع اور ریلوے وغیرہ شامل ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور صدر اردوان ایسی ہم آہنگی قائم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں جو ایسی نئی اجتماعی قوت محرکہ کو بیدار کرنے میں معاون ثابت ہو گی، جو ان دونوں کا مشترکہ وژن ہے، کہ مسلم دنیا کی عظمت رفتہ کو بحال کیا جائے اور عالمی سطح پر اس کا کھویا ہوا مقام اسے واپس دلایا جائے۔
یقینا یہ کوئی آسان ہدف نہیں ہے۔ امن اسلام کا جوہر ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ہی اس کا سب سے زیادہ فقدان ہے، خصوصاً دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہونے والی اکثر جنگیں مسلم سرزمین پر ہی لڑی گئی ہیں۔ مشرق وسطیٰ، عراق، ایران، خلیجی ریاستیں، افغانستان اور پاکستان، تنازعات اور تشدد مسلم دنیا میں سرایت کر چکے ہیں۔ فلسطین، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، عراق اور افغانستان میں ہونے والے المیے مسلمان دنیا کی مستقل بے چارگی کا اظہار ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے اسلام کو اس کے بد خواہوں کی جانب سے قبیح ترین شکل میں پیش کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے جن افراد اور گروہوں پر دہشت گردی کی ساز باز یا اس میں شمولی�� کا الزام ہے، جنونی انداز میں ان کے عزائم کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔
دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی خرابی ہو‘ ذمہ داری اسلام کے سر تھوپ دی جاتی ہے۔ چونکہ دنیا کے بڑوں اور طاقتوروں کے نزدیک تشدد اور انتہا پسندی اب مطعون شے بن چکے ہیں اس لیے کل کی مسلم تحاریکِ آزادی آج ''عسکریت پسندی اور دہشت گردی‘‘ کا بنیادی منبع قرار دی جاتی ہیں۔ دنیا کی آبادی کے ایک بٹا پانچ حصے کی نمائندگی اور ستاون ممالک میں پھیلائو، دنیا کی توانائی کے ستر فیصد اور خام مال کے تقریباً پچاس فیصد کے مالک، مسلمانوں کو تو معاشی اور سیاسی طور پر دنیا کی بڑی قوت ہونا چاہیے تھا‘ لیکن صورتحال یہ کہ دنیا کی کل GDP میں ان کا حصہ صرف پانچ فیصد ہے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ دنیا میں تیل و گیس کے سب سے بڑے ذخائر پر بیٹھے ہیں، لیکن مسلم ممالک کی اکثریت دنیا میں پسماندہ ترین ہے۔
اکثر غریب اور لاچار ممالک نوآبادیاتی تسلط بھگت کر آزاد ہوئے ہیں لیکن اب بھی انہیں حقیقی سیاسی و معاشی آزادی نصیب نہیں ہوئی۔ مغرب اب بھی ان کے علاقوں اور ان کے وسائل کا استحصال کر رہا ہے۔ مسلم دنیا بطور ایک بلاک اپنے مسائل حل کرنے یا اپنی کمزوریوں پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ اس کے حکمران نہ صرف اپنی سلامتی اور خود مختاری مغرب کے پاس گروی رکھ چکے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے ملکوں کا معاشی و سیاسی مستبقل بھی بیچ کھایا ہے۔ لیکن اب صورتحال نقطہ کھولائو تک پہنچ چکی ہے۔ طویل عرصے سے عذاب سہتے عرب ملکوں میں پہلے ہی تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ مغرب سے لے کر جزیرہ نما عرب تک خطرے کی گھنٹیاں واضح طور پر سنائی دے رہی ہیں۔ اکیسویں صدی اسی کی ہو گی جو ان چیلنجز اور مواقع کو بہترین انداز میں استعمال کرے گا۔
مشکلات پر قابو پانے کے لیے فرشتوں کی نصرت نہیں آنے والی۔ مسلم ملکوں کو فوری ضرورت ہے کہ وہ خود کو سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے لیے وقف کر دیں۔ انہیں اپنے وسائل کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھوں میں لینا پڑے گا۔ یہ اُس چیلنج کا بنیادی عقدہ ہے جس کا سامنا نہ صرف پاکستان اور ترکی کو ہے بلکہ دنیا میں با رسوخ دیگر مسلم ممالک مثلاً ایران، سعودی عرب، قطر، ملائیشیا، انڈونیشیا اور مصر کو بھی ہے۔ یہ ممالک مسلم دنیا میں تبدیلی کے عمل کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ لیکن اس کے لیے غیر معمولی، استثنائی نوعیت کی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو مفاد اور فرقہ پرستی سے بلند ہو کر ایک نئے اجتماعی وژن کو بڑھاوا دے‘ جو مسلم دنیا کو اتحاد اور قوت کے ایک نئے دور سے روشناس کر کے انہیں طاقتور بنائے اور یہ عالمی سطح پر سیاسی، معاشی اور سکیورٹی امور پر ایک متحد قوت کی صورت سامنے آئے۔ وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعظم مہاتیر محمد اور صدر رجب طیب اردوان ہی ایسی مطلوب سیاست کا ڈول ڈال سکتے ہیں جو مسلم دنیا کو یکجان کر دے۔ انہیں مل کر ساری مسلم دنیا کے مابین تعاون کے ایسے فریم ورک پر کام کرنا ہو گا جو تعلیم، معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی اور انسدادِ دہشت گردی جیسے معاملات کا احاطہ کرے۔
شمشاد احمد
بشکریہ دنیا نیوز
1 note
·
View note
Text
سعودی عرب کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کے خواہاں ہیں، وزیراعظم
اسلام آباد: وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ولی عہدشہزادہ محمدبن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب ترقی کےمنازل طےکررہا ہے، سعودی عرب کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کے خواہاں ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے العربیہ نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات صدیوں پرانے ہیں۔ شہبازشریف کا کہنا تھا کہ ہم اسلام کو سلامتی کا مذہب ثابت کرنے کے لئے خلیجی ممالک سے…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستان سعودی عرب کے ساتھ تاریخی برادرانہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے.
پاکستان سعودی عرب کے ساتھ تاریخی برادرانہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے.
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہےچیف آف آرمی اسٹاف نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ تاریخی اور برادرانہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور اسلامی دنیا میں اپنے منفرد مقام کا اعتراف کرتا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سعودی وزارت دفاع کے ٹرانسفارمیشن مینجمنٹ آفس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر،ڈاکٹر سمیر…
View On WordPress
0 notes
Text
تلخی ٔایام اور بڑھے گی
برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے حالیہ دورے میں 20؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہونے کو پاک سعودی تعلقات میں تزویراتی اقتصادی شراکت کے ایک نئے دور کا نقطہ آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو بڑے اقتصادی پیکیجز دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے باوجود موجودہ حکومت بڑے پیمانے پر بیرونی قرضے اور بیرونی مالی وسائل حاصل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بیرونی مالی وسائل پر بے تحاشہ انحصار بڑھاتے چلے جانے کے سیاسی مضمرات اور سلامتی کے تقاضوں سے قطع نظر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ پائیدار معاشی ترقی کے لئے ملکی و بیرونی وسائل میں توازن رکھنا ضروری ہوتا ہے جو کہ نہیں رکھا جا رہا۔
پاکستان جی ڈی پی کے تناسب سے اپنے جیسے کچھ ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچتوں اور ملکی سرمایہ کاری کی مد میں تقریباً گیارہ ہزار ارب روپے سالانہ (تقریباً 80؍ارب ڈالر سالانہ) کم وصول کر رہا ہے۔ دوست ممالک، عالمی مالیاتی اداروں اور انٹرنیشنل بانڈز وغیرہ کے اجراء سے پاکستان موجودہ مالی سال میں 80؍ ارب ڈالر کا صرف ایک حصہ ہی حاصل کر پائے گا جو کہ معیشت کی پائیدار بحالی کے لئے ناکافی ہو گا۔ وطن عزیز میں جو حالیہ معاشی بحران لایا گیا تھا وہ بڑھتے ہوئے بجٹ اور تجارتی خسارے کا مرہون منت تھا۔ ان خرابیوں کی وجوہات دور کرنے کے لئے موجودہ حکومت نے اپنے منشور کی روشنی میں وفاق اور صوبوں کی سطح پر ضروری اقدامات اٹھانے کے بجائے ایسی معاشی پالیسیاں اپنائیں جن کے نتیجے میں بجٹ اور تجارتی خسارہ مزید بڑھ گیا۔
چند حقائق اور اعداد و شمار نذر قارئین ہیں. (1) موجودہ مالی سال کے پہلے 6؍ ماہ میں جی ڈی پی کے تناسب سے بجٹ خسارہ 2.7 فیصد رہا جو گزشتہ 8؍ برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ (2) موجودہ مالی سال کے پہلے 7؍ ماہ میں تجارتی خسارہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں زیادہ رہا حالانکہ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے متعدد ایسے اقدامات کئے جن کا بوجھ عام آدمی پر ہی پڑا۔ توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں صورت حال بہتر ہو گی۔ (3) گزشتہ مالی سال میں افراط زر کی شرح 3.9 فیصد رہی تھی جبکہ جنوری 2019ء میں یہ شرح 7.2 فیصد رہی۔ (4) موجودہ مالی سال کے پہلے 7؍ ماہ میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 17 فیصد کمی ہوئی۔ (5) گزشتہ مالی سال میں معیشت کی شرح نمو 5.8 فیصد رہی تھی جبکہ موجودہ مالی سال میں یہ تقریباً 4 فیصد رہ سکتی ہے۔
عالمی بینک کے کمیشن کی 2008ء کی رپورٹ کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں جاری کردہ ’’وژن 2025ء‘‘ میں کہا گیا تھا کہ 2018ء سے پاکستانی معیشت کی شرح نمو 8 فیصد سے زائد رہے گی۔ موجودہ حکومت نے جو پالیسیاں اپنائی ہیں ان کے نتیجے میں عالمی ادارے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ مالی برسوں 2019ء، 2020ء اور 2021ء میں بھی پاکستانی معیشت کی شرح نمو بھارت اور بنگلہ دیش سے کم رہے گی۔ یہ امر باعت تشویش ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے 12؍ ویں پانچ سالہ منصوبے میں معیشت کی اوسط شرح نمو صرف 5.4 فیصد رکھی ہے۔
پاکستان کی کمزور معیشت، بیرونی قرضوں و امداد پر بے تحاشہ انحصار اور ملک میں سیاسی افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی مندرجہ ذیل صورت حال تشویش کا جواز فراہم کرتی ہے: (1) متحدہ عرب امارات میں یکم مارچ سے ہونے والی مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو نہ صرف اعزازی مہمان کی حیثیت سے شرکت کرنے بلکہ اس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرنے کی دعوت بھی دینا۔ (2) برادر اسلامی ملک ایران نے 2016ء میں بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان ایرانی بندرگاہ چا بہار کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور تجارتی راہداری کے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس سے پاکستان کو نظرانداز کر کے بھارت کو بھی افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں سمیت متعدد منڈیوں تک رسائی مل گئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کشمیر کا مسئلہ حل ہوئے بغیر بھارت کو یہ راہداری دینے کے لئے آمادہ نہیں تھا۔ (3) 2017-18ء میں پاکستان نے سعودی عرب کو صرف 303 ملین ڈالر کا سامان برآمد کیا جبکہ اسی مالی سال میں بھارت کی سعودی عرب کو برآمدات کا حجم 5400؍ ملین ڈالر رہا۔ اب سعودیہ اگلے دو برسوں میں بھارت میں 100؍ارب ڈلر سے زائد کی سرمایہ کاری کے مواقع دیکھ رہا ہے۔ (4) 2017-18ء میں پاکستان اور برادر اسلامی ملک ایران کی آپس میں تجارت کا مجموعی حجم صرف 400؍ ملین ڈالر تھا جبکہ بھارت اور ایران کی آپس میں تجارت کا مجموعی حجم 13760؍ ملین ڈالر تھا۔
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات روز اول سے ہی برادرانہ رہے ہیں اور سعودی عرب نے مشکل وقت میں پاکستان کی متعدد مرتبہ مدد کی ہے۔ نائن الیون کے بعد صورت حال میں یقیناً کچھ تبدیلی آئی ہے۔ فرینڈز آف پاکستان گروپ کے 26؍ ستمبر 2008ء کے اجلاس میں امریکہ کی ایماء پر دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو اپنا پارٹنر بنانے کے لئے پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسانے کی حکمت عملی وضع کی گئی تھی۔ اس کے بعد 11؍ نومبر 2008ء کو حکومت پاکستان نے کہا تھا کہ تمام دوست ممالک امداد دینے سے قبل یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان پہلے آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر اپنی معاشی پالیسیوں کی توثیق کرائے۔ حالیہ مہینوں میں امریکہ نے خطے میں اپنے استعماری مقاصد تبدیل کئے بغیر حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے۔
امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کرنے کے لئے پاکستان سے مدد کرنے کی درخواست کی ہے چنانچہ دوست مسلمان ملکوں کا رویہ بھی ہمدردانہ اور مثبت ہو گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا 13؍ فروری 2019ء کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ پاکستان کو یمن سعودی تنازع میں جھونکنے کی سازش نہیں ہو رہی لیکن یہ خدشہ اپنی جگہ برقرار ہے کہ اگر پاکستان نے خود انحصاری پر مبنی معاشی پالیسیاں نہ اپنائیں تو اول پاکستان نہ چاہتے ہوئے بھی آگے چل کر کسی تنازع میں ملوث ہو سکتا ہے اور دوم، بلوچستان میں (جہاں کئی بیرونی طاقتیں مداخلت کرتی رہی ہیں) احساس محرومی کو دور کرنے کے لئے مناسب رقوم مختص نہیں کی جا سکیں گی چنانچہ پاکستانی معیشت اور سلامتی کے لئے خطرات بڑھتے چلے جائیں گے۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
2 notes
·
View notes