#اوسلو
Explore tagged Tumblr posts
ahmed-mahoud · 5 months ago
Text
Tumblr media
في نكبة 1948 لجأ اللاجئون إلى البلدان المجاورة كترتيب مؤقّت. تركوا طبيخهم على النار آملين العودة بعد ساعات. انتشروا في الخيام ومخيمات الزنك والصفيح والقشّ مؤقتًا. حمل الفدائيون السلا�� وحاربوا من عمّان مؤقتًا، ثم من بيروت مؤقتًا، ثم أقاموا في تونس والشام مؤقتًا. وضعنا برامج مرحليةً للتحرير مؤقتًا. وقالوا لنا أنهم قبلوا اتفاقية أوسلو مؤقتًا. قال كل منا لنفسه، ولغيره: إلى أن تتضح الأمور.
[مريد البرغوثي، رأيت رام الله].
30 notes · View notes
paliwalls · 1 year ago
Text
عاشت غزة
اوسلو، النروج
Tumblr media
"Long live Gaza"
Seen in Oslo, Norway
341 notes · View notes
lotfy20 · 5 months ago
Text
سنة ٢٨٥ قبل الميلاد قرر بطليموس التانى يؤسس مكتبة الإسكندرية، فى الوقت دا و لمدة ٣٩ سنة ازدهرت دولة البطالمة بالعلوم و الأبحاث و قرر كل علماء الإغريق يعيشوا و يستقروا فى اسكندرية و أصبحت مكتبة الإسكندرية النموذج اللى ماشى على خطاه كل مكتبات البحر المتوسط لحد ما قرر بطليموس آلصغير اخو كليوباترا محاصرة يوليوس قيصر لأنه حس انه بيناصر كيلوباترا عليه سنة ٤٨ق.م فحرق ١٠٠ سفينة كانت موجودة على الشط قصاد المكتبة و اتحرقت معاها المكتبة
من بعدها بقت مكتبة معبد السيرابيوم هى اكبر مكتبة.
مكتبة الإسكندرية زمان كانت طرازها فريد و كانت مكسية كلها بالرخام على عكس كل المبانى اللى وقتها كانت حجرية و كانت بتطل على شوارع واسعة جداً بتزينها الآثار و المسلات و التماثيل، المكتبة كانت بتتكون من ٣ مبانى:
المكتبة الأم و هى المتحف
السيرابيوم و دا كان المكان المخصص للعبادة
الملحق الاضافي و دا كان جوا الميناء و كان مكان حفظ الكتب.
أواخر التمانينات بالتحديد سنة ١٨٨٩ م قررت من��مة اليونيسكو الدعوة لإحياء تراث المكتبة و أطلقت مسابقة للتصميم المعمارى للمكتبة
و هنا هنقف شوية لأنه دا موضوع البوست اصلاً. :"
محدش وقتها كان يعرف مين سنوهيتا محدش اصلاً قبل ما يكسبوا مسابقة الديزاينينج للمكتبة كان يعرفهم و كان ممكن ميبقاش ليهم وجود زى بالظبط يورن اوتزن لما كسب جايزة تصميم اوبرا سيدنى سنة ١٩٥٧ م
زى بالظبط مكناش هنعرف "زها حديد" إلا لما كسبت جايزة ال peak سنة ١٩٨٢ م
المهم انه مكتب سنوهيتا كانوا ٣ شباب لسا متخرجين أسّسوا المكتب على سطح دكانة بيرة فى اوسلو فى النرويج اسمها دوڤرى هولين أسوة بجبال دوفرى و سنوهيتا -معناها القمة الثلجية- و هى اعلى نقطة فى سلسلة جبال دوفرى.
تصميم المكتبة الجديد عمره الافتراضى بعد افتتاحه سنة ٢٠٠٢ مُقدر ب ٢٠٠ سنة لكن فى مخاوف انه دا ممكن ميتحققش بسبب انه المسافة بين المكتبة و البحر قريبة جداً ٤٠ متر بس!
المكتبة بتتكون من ١٠ ادوار من اعلى نقطة على المستوى الدائرى منها ٦ مستويات فوق الارض و ٤ تحت الارض.
هحط لينك بيشرح باستفاضة تصميم و تاريخ المكتبة للى مهتم، دى اكتر حاجة مبهرة ليها علاقة بمجالنا قريتها فى حياتى!
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
2 notes · View notes
m-o-ustafa92 · 1 year ago
Text
Tumblr media
رسمت النرويجية كيتي كيلاند بحيرة ستوكافاتنت بُعيد غروب الشمس. في صيف ١٨٨٦ انضمت لتجمع الفنانين في مزرعة فلاسكوم في باروم قرب اوسلو. حضر التجمع فنانون معروفون مثل كريستيان سكريدسفيغ، وإريك فيرينسكيولد، وإيليف بيترسين، وجيرهارد مونتي، و هارييت باكر. كان ذلك الصيف بمثابة البداية لصفحة جديدة في تاريخ الفن النرويجي، وكان للفنون التي أُنتجت عقب تلك الفترة تأثيراً كبيراً على المجتمع الفني. تخلى فنانو فلاسكوم عن مثاليات الحركة الواقعية وركزوا على الرسم في الهواء الطلق ونقل مشاعر الطبيعة المختلفة.
منذ ذلك الصيف، سادت بين أعمالها لوحات دقيقة للبحيرة، وتُعتبر اللوحة التي أقدمها اليوم تحفة فنية ضمن ذلك النوع. على الرغم من أن معاصريها انتقدوها للوحاتها الكئيبة والحزينة، فإن اللوحة تصور بدقة تأثير تغير ضوء المساء على البحيرة.
Evening Landscape at Stokkavatnet
Kitty Kielland
1890
3 notes · View notes
googlynewstv · 6 months ago
Text
پاکستانی سٹریٹ چلڈرن فٹبال ٹیم ناروے کپ کیلئے  تیار
پاکستانی سٹریٹ چلڈرن فٹبال ٹیم اوسلو میں ہونیوالے ناروے کپ میں حصہ لے گی۔ تفصیلات کے مطابق مسلم ہینڈز کے تعاون سے ملک کے ہونہار اسٹریٹ چلڈرن فٹبال ٹیم ایک مرتبہ پھر عالمی سطح پر ملک اور قوم کا سر فخر سے بلند کرنے کے لیے تیار 27 جولائی سے 3 اگست تک جاری رہنے والے ناروے اسٹریٹ چلڈرن فٹبال کپ میں حصہ لے گی۔  قومی ٹیم کے کپتان اور کوچ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین وزیر اعظم یوتھ پروگرام…
0 notes
alawalpress · 6 months ago
Text
جو 24 : عاجل - مصطفى البرغوثي عن قرار الكنيست: دفن رسمي لاتفاق ونهج اوسلو
0 notes
my-trip-in-sapanca · 8 months ago
Text
لماذا تختار سائق عربي في النرويج في رحلتك إلى اوسلو؟
هل تخطط لرحلة سياحية لا تُنسى إلى النرويج؟ هل تبحث عن سائق عربي في النرويج ليرافقك في رحلتك ويُسهّل عليك استكشاف جمالها الخلاب؟ لا تبحث أكثر! سواء كنت ترغب في زيارة أوسلو، العاصمة النابضة بالحياة، أو بيرغن بمنازلها الخشبية الجميلة، فإن وجود سائق يتحدث لغتك يضمن لك تجربة سفر سلسة ومريحة. واتساب الآن 004792310236عبر اتصال هاتفي مباشر 004792310236 تواصل سهل تخطي حاجز اللغة واستمتع بالتواصل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
aaaalsafar · 9 months ago
Text
Tumblr media
اللي قدامك دي صورة حقيقية للمرأة القرد وهي محنطة وجمبها ابنها ف المتحف
جوليا باسترانا من المكسيك ولدت ف 1834 .. كانت مصابة بطفرة جينية نادرة جدا خلت شعر كثيف ينمو ف جميع جسدها حتى الجمجمة تكونت بشكل غريب ؛ و بروز كبير ف منطقة الفم
اصيبت بالفقر الشديد بسبب ان الجميع رفض يشغلها
وف يوم ؛ شافها احد مقدمين عروض السيرك ف الشارع ف
اوهمها بالفلوس وبالثراء السريع لو قبلت تشتغل معاه ف السيرك .. وفعلا وافقت وبقت الجماهير تحضر من كل مكان عشان يتفرجوا ع جوليا و اطلقوا عليها اسم المرأة القرد ، وانسان الغاب ، واقبح امرأة ف التاريخ ، وقرد البابون !
بعض الاطباء وقتها لقوها فرصة للشهرة عن طريق الحديث عن جوليا وخرج طبيب قال ان قبيلة جوليا كانت قبيلة مريضة نفسيا ، فالرجال كانوا يتزوجون القرود وان جوليا هي هجين بين ذكر الانسان وانثى القرد
جوليا تزوجت من رجل أوهمها بإنه متعاطف معاها وإنه بيقدرها ؛ فوافقت وتزوجت منه وتوفت وهي ب تولد طفلها الاول ؛ كان عندها 26 سنة
بعد وفاتها زوجها فكر إزاي يستفيد منها
فباع جثتها وجثة ابنها ل طبيب قام بتحنيطها وباعها لل السيرك واصبح يقدم العروض بجثتها لمدة 100 سنة بعد وفاتها !
ف 1979 قررت حكومة النرويج توقف عرض الجثة ق المسارح فقرر اشخاص سرقة الجث،ة ونجحوا.
وفضلت الجثة مختفية لحد سنة 2005 ولقوها ملقاة ف القمامة وتم استعادتها ووضعها ف كلية الطب الشرعي ف اوسلو
ف عام 2013 وبعد اكثر من 150 سنه من وفاة جوليا تم اعادتها لل المكسيك وتم دفنها بكرامة ووضع فوق قبرها المئات من الورود البيضاء
0 notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
آخر جنوبی افریقہ ہی کیوں؟
Tumblr media
جنوبی افریقہ ہی کیوں؟ دنیا کے 195 ممالک میں سے صرف جنوبی افریقہ ہی کیوں ہے جو مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے پر اسرائیل کو عالمی عدالت میں لے کر گیا ہے؟ مسلم اور عرب ممالک کے برعکس جنوبی افریقہ کی فلسطین کے ساتھ کوئی اخلاقی، ثقافتی یا مذہبی وابستگی نہیں ہے۔ وہ عرب ممالک کے مقابلے میں فلسطین سے تقریباً 7 ہزار کلومیٹر دور واقع ہے۔ تو پھر جنوبی افریقہ نے ہی کیوں صہیونی ریاست کے خلاف آواز اٹھائی حالانکہ دیگر ممالک جوکہ فلسطین سے ہر لحاظ سے زیادہ قریب ہیں، ان کے قتلِ عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب ہمیں تاریخ سے ملتا ہے کیونکہ فلسطین کی طرح جنوبی افریقی باشندے بھی سفید فام آبادکاروں کی بربریت کا شکار ہو چکے ہیں جوکہ اپنے خونی جبر اور نسل پرستی پر فخر کیا کرتے تھے۔ اسرائیل 1948ء میں بنا، اسی سال ہی جنوبی افریقہ میں نسل پرست نوآبادیاتی دور نے اپنے قدم جمائے۔ اس اتفاق سے قطع نظر دونوں ریاستوں کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ مقامی آبادی کی قیمت پر ان کی سفید فام آبادکاروں کی نوآبادی کی حیثیت ان میں ایک تعلق پیدا کرتی ہے۔ یوں ان دونوں ریاستوں کے ناپاک اتحاد کا باقاعدہ آغاز 1953ء میں تب ہوا جب جنوبی افریقہ کے وزیر اعظم ڈینیئل ملان نے جنوبی افریقہ کا سرکاری دورہ کیا۔ یوں ان دونوں آبادکار حکومتوں کے درمیان ایک قریبی اتحاد کی ابتدا ہوئی۔
آنے والے برسوں میں ان دونوں آبادکار قوتوں کا اتحاد مضبوط ہوتا گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے سیکھا اور اپنے اپنے زیرِ قبضہ ریاستوں میں مظلوم عوام کو دبا کر رکھنے میں ایک دوسرے کی حمایت بھی کی۔ فلسطینی آبادی کا بھی مرکز سے تعلق منقطع کر دیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فام آبادی کے لیے ’بنتوستان‘ بنائے گئے تاکہ انہیں ملک کے سیاسی نظام سے دور رکھا جا سکے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان مماثلت کو حکومتی سطح پر بھی مانا گیا جیسے جنوبی افریقہ کے وزیراعظم ہینڈرک ویرورڈ جو بنتوستان پروجیکٹ کے معمار کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے خود کہا ’یہودیوں نے عربوں کے ہاتھ سے اسرائیل لے لیا حالانکہ وہ اس زمین پر ہزاروں سالوں سے رہ رہے تھے۔ جنوبی افریقہ کی طرح اسرائیل بھی ایک نسل پرست ریاست ہے‘۔ اور جہاں اسرائیل بین الاقوامی فورمز پر نسل پرستی کی مذمت کرتا تھا، حقیقت یہ تھی کہ وہ جنوبی افریقہ کو اپنا قریبی سمجھنے لگا جبکہ اسرائیل کے جنرل رافائل ایتان نے جنوبی افریقی سیاہ فاموں کے بارے میں کہا کہ ’وہ سفید فام اقلیت پر قابض ہونا چاہتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے عرب ہمیں اپنے زیرِ کنٹرول لانا چاہتے ہیں۔ ہم جنوبی افریقہ میں موجود سفید فام اقلیت کی طرح ہیں اور ہمیں ان لوگوں کو روکنا ہے جو ہمیں اپنے قابو میں کرنا چاہتے ہیں‘۔
Tumblr media
ان دونوں زیرِ تسلط آبادیوں کو اپنے قابو میں رکھنا دونوں آباد کار حکومتوں نے اپنی ترجیح بنا لیا۔ اسی مقصد کے تحت اسرائیل نے جنوبی افریقی سفیدفاموں کو مظاہرین کو کنٹرول کرن�� والی گاڑیاں اور ہتھیار فراہم کیے اور ان کی افواج کو تربیت دی۔ 1980ء کی دہائی میں سیکڑوں اسرائیلی فوجی مشیر جنوبی افریقہ میں تعینات کیے جبکہ جنوبی افریقہ کے فوجی اسرائیل میں تربیت حاصل کررہے تھے۔ اسرائیل نے جوہری پروگرام میں بھی اپنے نظریاتی ساتھیوں کی مدد کی۔ ان کی مدد سے جنوبی افریقہ نے 6 جوہری بم تیار کیے لیکن ان تمام بموں کو اس وقت تلف کر دیا گیا جب جنوبی افریقہ کے صدر ایف ڈبلیو ڈی کلرک نے اپنے ملک کی عالمی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش میں جوہری پروگرام کو ترک کر دیا تھا۔ ساکھ کی بات کی جائے تو اسرائیل نے اپنے اتحادی کو عالمی دباؤ سے محفوظ رکھنے کے لیے اکثر مداخلت کی پھر چاہے وہ 1975ء میں ’پروپیگنڈا اور نفسیاتی جنگ‘ کے لیے ’جوائنٹ سیکریٹریٹ فار پولیٹیکل اینڈ سائکالوجیکل وارفیئر‘ کا قیام ہی کیوں نہ ہو جو جنوبی افریقہ کی عالمی ساکھ کو بحال رکھنے کے لیے مالی امداد کے ساتھ ہونے والی دوطرفہ مہم کا حصہ تھا۔
لیکن ہر عمل کا ردِعمل ہوتا ہے، جہاں ایک جانب اسرائیل اور نسل پرست جنوبی افریقی حکومت ایک دوسرے کا ساتھ دے رہی تھیں وہیں دوسری جانب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او)، نیلسن منڈیلا کی افریقی نیشنل کانگریس سے اپنے تعلقات استوار کررہی تھی۔ جس وقت سفید فام برتری پر یقین رکھنے والے جنوبی افریقہ کے وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا وہیں جنوبی افریقہ کے رہنماؤں میں سے ایک نیلسن منڈیلا نے 1990ء میں جیل سے اپنی رہائی کے بعد یاسر عرفات سے ملاقات کی جنہوں نے اوسلو معاہدے سے قبل منڈیلا سے اس معاملے پر مشورہ طلب کیا۔ نیلسن منڈیلا بذاتِ خود قضیہِ فلسطین کے بہت بڑے حمایتی تھے جن کا اس حوالے سے مذکورہ قول بھی کافی مقبول ہے ’ہماری آزادی، فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے‘۔ یہ صرف کوئی نعرہ نہیں تھا بلکہ اپنی پوری زندگی میں نیلسن منڈیلا نے اخلاقی اور مادی بنیادوں پر ان کی حمایت کی بات کی بالکل اسی طرح، جس طرح پی ایل او اور فلسطینیوں نے ہر موقع پر سیاہ فام جنوبی افریقی لوگوں کی آزادی کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا۔
نتیجتاً جب بات نیلسن منڈیلا اور افریقی نیشنل کانگریس کو پسپا کرنے کی آ��ی تو اسرائیلی لابی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسرائیل کی حمایت یافتہ اینٹی ڈیفیمیشن لیگ نے افریقی نیشنل کانگریس کو ’جابر، انسانیت مخالف، جمہوریت مخالف، اسرائیل مخالف اور امریکا مخالف‘ قرار دے کر اس کی مذمت کی۔ اسرائیل کے سب سے بڑے حمایتی امریکا نے بھی اس معاملے میں مکروہ کردار ادا کیا۔ شواہد سے ثابت ہوا کہ سی آئی اے نے نیلسن منڈیلا کی نقل وحرکت پر نظر رکھی اور معلومات جنوبی افریقہ کی نوآبادیاتی حکومت تک پہنچائی جس کے نتیجے میں انہیں گرفتاری کے بعد 27 سال قید میں گزارنے پڑے۔ نیلسن منڈیلا 2008ء تک امریکا کے مطلوب دہشتگردوں کی فہرست میں شامل تھے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ جنوبی افریقی قوم جس نے تسلط اور ناانصافی کا سامنا کیا اب وہ اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کو قاتل اور قابض قوت کے شکنجے سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔
ضرار کھوڑو   یہ مضمون 15 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
melensa · 1 year ago
Text
Tumblr media Tumblr media
جميع مفارش اوسلو القطن صارت بـ 297 ريال فقط في عروض الجمعة البنفسجية 🤑💜
الحقواااا 🏃‍♀️
1 note · View note
risingpakistan · 1 year ago
Text
’فلسطینیوں کے لیے تو مزاحمت فرض بن چکی ہے‘
Tumblr media
ماہرین تعلیم اور سیاست دان یکساں طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ حماس کی 7 اکتوبر کی کارروائی نے نہ صرف اسرائیل کو فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے پر اکسایا بلکہ اس سے امن عمل کو بھی نقصان پہنچا۔ اسرائیل کے حالیہ حملوں میں جتنے فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں اتنے پہلے کبھی نہیں ہوئے حتیٰ کہ انتفاضہ میں بھی نہیں۔ تاہم حماس کے حملے کو ایک الگ تھلگ کارروائی کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا، یہ اس منظم ریاستی دہشت گردی کے خلاف مزاحمتی کارروائی تھی جس کا ارتکاب اسرائیل کئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کے خلاف کر رہا ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو دبانے کے لیے وحشیانہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔ فلسطینیوں کو حق خود ارادیت کی ضمانت اقوام متحدہ کی 1947ء کی قرارداد نمبر 181 میں دی گئی ہے جس نے فلسطین کو دو ریاستوں یعنی ایک عرب ریاست اور ایک یہودی ریاست میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب 1947ء میں نو تشکیل شدہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اس قرارداد کے مسودے پر بحث کر رہی تھی تو پاکستان کے نمائندے سر ظفر اللہ خان نے فلسطینیوں کے اس حق کے لیے ایک مضبوط مقدمہ پیش کیا تاکہ وہ ان سرزمینوں پر ایک آزاد جدید ریاست کی تشکیل کر سکیں جہاں وہ صدیوں سے رہ رہے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مرکزی حیثیت برطانوی حکومت کے اعلان بالفور کی تھی جس نے 2 نومبر 1917ء کو فلسطین میں ’یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست‘ قائم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا تھا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ ’۔۔۔ کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جس سے فلسطین میں موجودہ غیر یہودیوں کے شہری اور مذہبی حقوق کو نقصان پہنچے۔۔۔‘ تاہم اس وعدے کو کبھی پورا نہیں کیا گیا۔ کشمیریوں کی طرح فلسطینی بھی آج تک اپنی سرزمین پر عزت اور وقار کے ساتھ جینے کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں جبکہ یہ حق زیادہ تر لوگوں کو آسانی سے مل جاتا ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے قضیے کو علاقائی، نظریاتی اور جغرافیائی و سیاسی جہتوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ علاقائی طور پر دیکھا جائے تو عرب فلسطینیوں کا ماننا ہے کہ وہ اس سرزمین میں ہزاروں سال سے رہتے آئے ہیں اور یہ اس وقت بھی یہاں رہتے تھے جب فلسطین کو کنعان کہا جاتا تھا، یا جب داؤدؑ اور ان سے پہلے یعقوبؑ جن کو بعد میں اسرائیل کہا گیا، ان علاقوں میں رہتے تھے۔ حالیہ تاریخ میں دیکھا جائے تو یہ علاقہ دیگر کے علاوہ رومیوں، عربوں، عثمانیوں اور پھر انگریزوں کے زیر تسلط رہا ہے۔
Tumblr media
یہ صہیونی (وہ یہودی جنہوں نے ایک آزاد وطن کے لیے جدوجہد کی تھی) تحریک تھی جو یورپ سے یہودیوں کو عرب سرزمین پر قبضہ کرنے کے لیے لائی، جس نے 7 لاکھ مقامی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کیا جس کو نکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ وہ تباہی تھی جس کے بعد 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی ریاست وجود میں آئی۔ نظریاتی طور پر یہ سرزمین یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے مذہبی اہمیت رکھتی ہے۔ مسلمان مسجد اقصیٰ کا احترام کرتے ہیں جب کہ یہودیوں کے لیے یہ سرزمین ان کے روایتی آباؤ اجداد کا گھر تھی۔ جغرافیائی طور پر دیکھا جائے تو یہ برطانیہ ہی تھا جس نے فلسطین میں یہودی ریاست بنانے، یورپ سے یہودیوں کو نکال کر یہاں بسانے اور مقامی آبادی کو بے گھر کرنے کا عمل شروع کیا۔ پچھلے 70 سالوں میں امریکا اور برطانیہ نے اسرائیل کو اپنی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کا محور رکھا ہے۔ یہ مندرجہ بالا علاقائی، نظریاتی، اور جغرافیائی و سیاسی عوامل ہیں جن کے باعث ارض فلسطین سے امن جاتا رہا۔ 1948ء، 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگیں اورنہ ہی فلسطینیوں کی اسرائیل کے خلاف مقامی مزاحمت جو پہلی انتفاضہ (1987-1992) اور پھر دوسری انتفاضہ (2000-2005) کے طور پر سامنے آئیں دونوں ہی تنازع کے حل میں معاون ثابت نہیں ہوئیں۔ پھر فلسطینی صفوں یعنی الفتح اور حماس کے درمیان اختلاف نے بھی ان کے مقصد کو نقصان پہنچایا ہے۔
قیام امن کی کوشش کی گئی لیکن اس کے نتیجے میں دو ریاستی حل پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ مصر نے اسرائیل کو 1979ء میں اور اردن نے 1994ء میں تسلیم کر لیا تھا۔ 1990ء کی دہائی کے اوسلو معاہدے سے فلسطینیوں کو معمولی خودمختاری ہی مل سکی۔ ابھی حال ہی میں، معاہدات ابراہیمی کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب بھی ایک معاہدے پر امریکا کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا جس سے فلسطینیوں کو اپنی ریاست میں رہنے کے حق کو یقینی بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن اب یہ بات واضح ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حالیہ حملے نے عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر آنے سے روک دیا ہے۔ تمام مسلم ممالک، یورپ اور یہاں تک کہ امریکا میں ہونے والے مظاہروں سے لگتا ہے کہ حماس کے حملے پر اسرائیل کا غیر متناسب ردعمل اور غزہ میں شہریوں پر بے دریغ بمباری نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں روس، چین اور دیگر نے جنگ بندی اور غزہ تک امداد پہچانے کے انتظام کی کوشش کی تاہم امریکی ویٹو نے اقوام متحدہ کے کسی بھی اقدام کو عملی طور پر روک دیا۔
اسرائیل کو امریکا کی طرف سے ملنے والی کھلی حمایت نے اسے تمام انسانی حقوق کو نظر انداز کرنے کی شہ دی ہے۔ غزہ کو خوراک، پانی، ایندھن یا ادویات کے بغیر ہفتوں تک محاصرے میں رکھنا، معصوم شہریوں کو ہلاک کرنا، جن میں بچے بھی شامل ہیں، اسپتالوں اور عبادت گاہوں پر بمباری کرنا اور محصورینِ غزہ کے لیے انسانی امداد کو روکنا جنگی جرائم کے مترادف ہے۔ فلسطینیوں کے لیے ��و مزاحمت فرض بن چکی ہے۔
عزاز احمد چوہدری  
یہ مضمون 29 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
1 note · View note
batteryblogger · 1 year ago
Text
بررسی و خرید باتری آلکالاین ایمپالس
باتری آلکالاین ایمپالس IMPULSE | بسته 4 عددی | قلمی و نیم قلمی
(برای مشاهده قیمت ها به انتهای مطلب نگاه کنید 🤗👇👇)
ارزیابی باتری قلمی آلکالاین ایمپالس (IMPULSE ) کیفیت و کارایی: با نگاهی اجمالی به اطلاعات ثبت شده بر محصول و پرسش از فروشندگان بازخورد خوبی گرفتم که جز باتری های آلکالاین قابل اطمينان است و کارایی مورد انتظار از ان از نظر ماندگاری و کارایی 3 برابر بیشتر از باتری های معمولی دارد.باتری های آلکالاین ایمپالس جز باتری های قوی هستند که انرژی لازم برای دستگاه های پر مصرفی مصل کنترل ریموت و فشار سنج ها و موس کامپیوتر و دیگر فرستنده های قوی را دارد 🎯. اسباب بازی هایی که قدرت و ماندگاری باتری به سرعت تمام می کنند با این مدل از باتری ها زمان خیلی بیشتری شارژ می مانند و کار می کنند،می توانم به جرعت گفت 3 تا 6 برابر بیشتر از باتری های سوپرمارکت و ارزان کارایی دارند.
بسته بندی و محافظت: بسته بندی محکم و بسیار جذابی دارد و از نظر محافظت توسط پک توجه خوبی شده است . به راحتی می توان باز کرد و یکی یکی باتری خارج کرد. بسته های 4 تایی باتری آلکالاین ایمپالس (IMPULSE) جز بسته های شکیل و مناسب آویز کردن در استند و ��مایش به مشتری است،جلوه خوبی به ویترین می دهند.تعداد در کارتون این مدل باتری ها 144 پک است و هر 12 پک در یک بسته 📦 قرار دارد.
مقایسه قیمت با دیگر برند ها : جز باتری های آلکالاین ارزان و قیمت مناسب قرار دارد و به دلیل وجود تعداد زیاد باتری نیم قلم آلکالاین به قیمت سال قبل و با اختلاف 15 درصدی از قیمت روز باتری ایمپالس آلکالاین به فروش می رسد . از برند های معروف بازار مثل باتری آلکالاین 4 تایی کملیون ،باتری آلکالاین 4 تایی سونی ،آلکالاین اوسلو … قیمت خرید 30 تا40 درصد پایین تر است. جایگاه در بازار : باتری با کیفیت و برندی نو در بازار است که بین 2 تا 3 سال در حال توزیع است . جایگاه در بازار : باتری با کیفیت و برندی نو در بازار است که بین 2 تا 3 سال در حال توزیع است . شرایط خرید : برای خرید این محصول می توانید با شماره من 09197925446 درتماس باشید،در شبکه های اجتماعى ایتا ،روبیکا ،تلگرام و واتساپ فعال هستم . شرایط فروش به صورت نقد و یا چکی یک ماه داریم . شرایط پرداخت چکی تلفنی توضیح میدهم. ادرس انبار من : تهران بازار بزرگ تهران خ مولوی خ مصطفى خمينی ،جنب امام زاده سید اسماعیل دالون جنوبی .پخش ستاری . خرید عمده :(تاریخ10مرداد 1402)
قیمت : 30،000 تومان نیم قلم4 عددی
قیمت : 32،000 تومان قلم 4 عددی
0 notes
alwatanskynews · 1 year ago
Photo
Tumblr media
هيئة التشاور والمصالحة تدعو في اجتماعها الى اجراء معالجات استثنائية وعاجلة في الجانب الاقتصادي سماء الوطن/متابعات عقدت هيئة التشاور والمصالحة، اليوم، اجتماعاً مرئياً برئاسة رئيس الهيئة محمد الغيثي، وبحضور نوابه الدكتور عبدالملك المخلافي، وصخر الوجيه، وجميلة علي رجاء، والقاضي أكرم العامري، واعضاء الهيئة. وفي مستهل الاجتماع، قدمت رئاسة الهيئة عدد من الاحاطات عن المشاركات الخارجية التي تمت خلال الشهر المنصرم، في اوسلو، ولاهاي، ولندن، وكذا تفاصيل مرافقة فخامة الرئيس في زيارته الى المكلا بمحافظة حضرموت، ومستجدات الاحداث التي وقعت في محافظة تعز. وناقشت الهيئة، المسودة التي قدمتها رئاسة الهيئة والتي تضمنت اهداف واستراتيجية هيئة التشاور والمصالحة والتي شملت العمل على مسارات عديدة وفق ما جاء في إعلان نقل السلطة، لضمان دعم ومساندة مجلس القيادة، وتقارب القوى السياسية، واستعادة وتفعيل مؤسسات الدولة، وبحث فرص السلام، وتعزيز العلاقة مع دول التحالف وانتماء اليمن لحاضنته العربية، كما احتوت المسودة على مسار خاص يعنى بآلية التعامل مع القضايا والملفات الطارئة في بلادنا. وأقرت الهيئة البدء في تنفيذ آلية تشكيل اللجان الدائمة التي وضعتها اللائحة الداخلية للهيئة وفق المعايير المنصوص عليها، وهي اللجنة السياسية، واللجنة الثقافية والإعلامية، ولجنة المصالحة والعدالة الانتقالية، واللجنة الاجتماعية، ولجنة الحقوق والحريات، حيث تجري رئاسة الهيئة اتصالاتها مع المكونات السياسية واعضاء الهيئة لضمان المشاركة العادلة والفاعلية للجميع، وصولاً الى عمل تكاملي منظّم داخل الهيئة. كما تابعت الهيئة في اجتماعها استمرار عمل اللجان المؤقتة المعنية باجراء مزيداً من النقاشات والحوارات داخل الهيئة حول الاطار المشترك للعملية السياسية، ومبادئ المصالحة بين القوى السياسية، واللائحة الداخلية للهيئة، بهدف توسيع مساحة التوافق، والمقاربة، وتمتين صف الشرعية. وعن المستجدات السياسية، أشار رئيس الهيئة الى ان جهود السلام التي يبذلها الاقليم قد وصلت الى طريق مسدود بسبب تعنت الميليشيات الحوثية، وان التصعيد العسكري الخطير والحشد الذي تنفذه الميليشيات في مختلف الجبهات وخطوط التماس، وخطورة ما يجري بالتزامن مع ذلك من تدهور اقتصادي وانساني غير مسبوق ينبئ بكارثة حقيقية تستدعي معالجات استثنائية وعاجلة جدا.
0 notes
wihdaparty · 2 years ago
Text
اعتقد أن ما قاله سموتريش في باريس لا يعكس رأيا شخصيا فحسب أو مجرد زلة لسان، بل هي تعبير حقيقي عن هذه الحكومة وأيدولوجية مكوناتها. ولنبدأ أولا بتحديد من يقود إسرائيل الآن؟  إنهم تيار الصهيونية الدينية، حيث ينتمي أغلبية ذلك التيار الى ما يعرف بشباب التلال، وهم مجموعات استيطانيه تسكن في مزارع ومبان منفردة ضمن مناطق مفتوحة خارج المستوطنات. واتباع هذه المجموعة يؤمنون (بأرض إسرائيل الكبرى)، ومن برنامجهم تحويل البؤر الاستيطانية العشوائية الى مستوطنات شرعية. وسموتريش كان واحدا من شباب التلال، وشارون رغم أنه أول من شجعهم على احتلال التلال في سبيل عرقلة الاتفاقيات الموقعة مع الدول العربية، إلا أنه سجن سموتريش لبضعة أيام لرفض الأخير الانسحاب من غزة من طرف واحد. هذه هي الصورة الحقيقية لهذه الحكومة والذين تفاجأوا إنما تعكس جهلا واضحا بالحركة الصهيونية وأهدافها الفعلية. إن الصورة المضللة التي حاول المطبعين إشاعتها عن الكيان الصهيوني والرهان على مصداقية الكيان واحترامه للمعاملات، للمعاهدات تكشفت بأجلي صورها من خلال حكومة نتنياهو وفرسانها سموتريش وبن غفير ومن على شاكلتهم. أعتقد أن الصورة الحقيقية لهذا الكيان هو ما تجلى في الانتخابات الأخيرة والانزياح المجتمعي نحو اليمين بشكل شبه تام وتضاؤل أي صوت يمكن حسبانه على اليسار، لكن السؤال الذي يبحث عن الإجابة هو أسباب هذا الانزياح شبه الكامل، ومآ هي الأجواء الخصبة التي وفرت البيئة الملائمة للانزياح وبقوة؟ لكن السؤال الذي يبدو أكثر راهنيه وإلحاحا لماذا هذا الازدهار والنمو للصهيونية الدينية؟ بلا شك ان هناك اسبابا عمقت هذه النظرة العنصرية وهي مرتبطة بشكل وثيق برؤية اليهود لأنفسهم كشعب الله المختار والذي حصل على وعد من الرب بالأرض، وذاد على ذلك نظرتهم للأخرين باعتبارهم اقل منهم. هذه الرؤية سمحت للعنصرية ان تنمو في قلب الصهيونية بل تحولت الى مكون أساسي لها، ومن الضروري الإشارة الى ان الداروينية الاجتماعية بان البقاء للأرقى والاقوى عززت الجانب العنصري. كان لحرب حزيران عام ١٩67 واحتلال إسرائيل للضفة الغربية كان بالنسبة لهم انجاز تطابق فيه الواقع مع الرؤية التوراتيه، بل ان ذلك عزز العامل البشري على الوعد الإلاهي كعامل مهم في تخليص اليهود. لم يكن صعود اليمين الديني معزولا عن التحولات الاقتصادية التي شهدها الكيان بعد عام ٧٧ عام وصول الليكود الى الحكم وما أحدثه من تحول في النهج الاقتصادي القائم على القطاع العام الى اتجاه الانفتاح والخصخصة وتراجع دور الدولة في تقديم الخدمات الامر الذي افسح المجال للجمعيات الدينية من العمل على سد الفراغ واستقطاب الفئات المتدينة. كان لتنامى الاستيطان بعد عام ٦٧ وبعد اوسلو ٩٣ بشكل كبير بحد ذاته قاد الى تنامى ظاهرة الصهيونية الدينية. لم تقف الامور عند تلك الحدود بل زاد الامر الى تعاظم نفوذهم في القضاء والجيش والتعليم الامر الذي يمهد لتحولها الى كيان ديني وشديد العنصرية. اعتقد ان فهم هذا التحول مهم جدا بأن ما نشهده ليس مجرد حكومة طارئه قد تتغير في أي انتخابات قادمة بقدر ما تعكسه انزياحا مجتمعيا شبه كامل نحو اليمين والعنصرية الأمر الذي بدد الأوهام على ما روجته دول التطبيع بإمكانية التعايش مع هذا الكيان   ان الاطلالة البسيطة على فكر سموتريش وبن غفير وهذه المجموعات يدلل على طبيعة المستقبل. يقول ليس هناك شعب فلسطين، الهيكل الثالث سيتم بناؤه خلال سنوات على أنقاض المسجد الاقصى، التوسع نحو الاردن حتى دمشق. هل هناك من ناقوس خطر يدق اوضح من كلامهم. ان حسم هذه الامور واعادتها الى اساسها باعتبار تناقضنا الأساس معهم وهو تناقض وجودي لا يحتمل أي نوع من المناورة. ان الهروب الى الامام الذي مارسته السلطة والاردن ومصر بالذهاب الى مؤتمري العقبة وشرم الشيخ سعيا للتهدئة لم يكن الا اذعانا وسلوكا يعكس حالة الاستجداء، الامر الذي شجع سموتريش وغيره الى التمادي المفضوح في تحدينا جميعا. اعلان الاسرى الاضراب المفتوح غدا يجب ان يشكل لنا جميعا انظمة وشعوبا عنصر التفجير الذي يفتح الافاق نحو مواجهة شاملة تبدأ بوقف التطبيع والغاء كل الاتفاقات وتعزيز قدراتنا للاشتباك المفتوح. لقد بلغ السيل الزبى، الاردن في خطر وفلسطين في عين العاصفة بل الوطن العربي كله في دائرة الخطر. هل من صحوة؟!
0 notes
nurulquran · 2 years ago
Text
┅•✪🌴 *نورالقرآن رمضان پروگرام 2023* 🌴 ┅•✪
📢 *يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ*
*السلام عليكم و رحمة الله و بركاته*
💐 عزیز طالباتِ علم
الحمد لله رب العالمين اللہ نے ہمیں ایک اور سال کی مہلت دی کہ ہم رمضان کی بابرکت ساعتوں سے مسفید ہونے کے منتظر ہیں۔
امتِ محمدﷺ پر اللہ سبحانه وتعالى کا فضلِ عظیم
آئیے نبیﷺ کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے دورۀ قرآن کے ذریعے اللہ کے پیغام کو اسی طرح اپنے دلوں پر لیں جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس کو سمجھا۔
*نورالقرآن انٹرنیشنل کی جانب سے دورۂ قرآن 2023 ( براہِ راست پاکستان کراچی) کی دعوت*
*┄┅•✪❂✵▩▩▩✵❂✪•┅┄*
*1️⃣ تیارئ رمضان 2023* *زاد الخير*
🗓 *پیر 13 تا 16 مارچ* ( 4 روزہ مختصر کورس)
*2️⃣ استقبالِ رمضان پروگرام*
🗓 *جمعہ 17 مارچ*
*3️⃣ دورۃ القرآن 2023*
🗓 *پیر 20 مارچ تا بدھ 19 اپریل*
(ہفتے کے سات دن)
⏰ *2 تا 4:30 شام پاکستان*
*2:30 تا 5 شام انڈیا*
*12 تا 2:30 شام مکہ*
*10 بجے صبح تا 12:30 شام اوسلو*
*9 تا 11:30 صبح یو-کے*
*5 تا 7:30 شام یو-ایس-اے*
💠 *رجسٹریشن جاری ہے* 💠
تفصیلات کے لیے کلک کریں👇
*رمضان پورٹل* :
https://nurulquran.com/ramadan
*┄┅•✪❂✵▩▩▩✵❂✪•┅┄*
*کسی بھی میڈیم سے آن لائن رابطہ کے لیے*
*Zoom*
(صرف رجسٹرڈ سٹوڈنٹس کے لیے)
*Youtube Live* : https://www.youtube.com/nurulqurantv
*Facebook* : https://www.facebook.com/mynurulquran
*Mixlr* : http://mixlr.com/nqlive/
✨ *آئیے قرآن کے نور سے اپنی زندگیوں کو منور کریں* ✨
*جزاكم الله خيرا كثيرا* 🌸
✪🌴 *ٹیم نورالقرآن*🌴✪
Tumblr media Tumblr media
0 notes
mohammadhamdan · 2 years ago
Text
مسيرة المفاوضات الفلسطينية مع الاحتلال الاسرائيلي
الخبر الرئيس لجريدة القدس قبل ٣١ عاماً في شباط عام ١٩٩٣“الوفد الفلسطيني يصرّ على وقف الاستيطان قبل الدخول في المناقشات الجوهرية”. في الوقت الذي فتحت فيه منظمة التحرير قناة اوسلو بوفد فلسطيني اخر برئاسة أحمد قريع وفي الاتفاق تم تأجيل وقف الاستيطان وبحث القضايا الجوهرية إلى وقت اخر
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note