#اسکی
Explore tagged Tumblr posts
Text
کسی کو کچھ بھی دینے سے پہلے کوشش کیجئے دوسروں کے ہاں اسکی قیمت معلوم کر لیا کیجئے
Before giving anything to anyone, try to find out its. value from others
35 notes
·
View notes
Text
" And the most, I love her the most when, when she is angry about something and brings furrows between her brows. Then, I rest my fingers against the creases of her brows and ease them. And, and when she tries to hold her smile on something I said but fails to do so, I love her the most even then. "
اور سب زیادہ، سب سے زیادہ مجھے پسند ہیں اسکی آنکیں۔
جب وو اپنی آنکھوں کے بیچ خفگی در لاتی ہے، اور پیشانی پر بل آجاتے ہیں، تب میں اپنے ہاتھ ان پر رکھ کر وو سلوتین درو کر دیتا ہوں۔
اور جب وہ میری کسی بات پر اپنی مسکراہٹ چھپانا چاہتی ہے پر چپہ نہیں پاتی تب بھی وو مجھے سب سے زیاد اچھی لگتی ہے۔
- Excerpt from the book - postcards without an address
#persian#quotes#aestethic#turkish poetry#arabic poetry#love quotes#book quotes#aestheitcs#travel photography#studio ghibli#studyblr#naturecore#movie quotes#urduquotes#urdu poetry
12 notes
·
View notes
Text
عورت سے لذت لینی ہے تو اسکی عزت کریں اور اس عمل کے بعد عورت أپکی گرویدہ ہو جاۓ گئ ۔ ایک شریف ذادی سے بہتر فاحشہ کوئ نہیں ہو سکتی۔۔۔🔥
17 notes
·
View notes
Text
خُدا کا شُکر، سہارے بغیر بیت گئی
ہماری عُمر تمھارے بغیر بیت گئی
ہُوئی نہ شمع فروزاں کوئی اندھیرے میں
شبِ فراق سِتارے بغیر بیت گئی
وہ زندگی جو گُزارے نہیں گُزرتی تھی
تیرے طُفیل گُزارے بغیر بیت گئی
نہ بیتتی تھی کبھی جس کی چاند رات اسکی
سہاگ رات ہمارے بغیر بیت گئی
شعوؔر، تیز رہی زندگی کی دوڑ اِتنی
کہ ہار جیت شُمارے بغیر بیت گئی
- انور شعُورؔ
9 notes
·
View notes
Text
"ابتدائے محبت کا قصہ "
عہدِ بعید میں، زمین و آسمان کی آفرینش کے بعد ،جب ابھی بشر کا عدم سے وجود میں آنا باقی تھا، اس وقت زمین پر اچھائی اور برائی کی قوتیں مل جل کر رہتیں تھیں. یہ تمام اچھائیاں اور برائیاں عالم عالم کی سیر کرتے گھومتے پھرتے یکسانیت سے بے حد اکتا چکیں تھیں.
ایک دن انہوں نے سوچا کہ اکتاہٹ اور بوریت کے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنا چاہیے،
تمام تخلیقی قوتوں نے حل نکالتے ہوئے ایک کھیل تجویز کیا جس کا نام آنکھ مچولی رکھا گیا.
تمام قوتوں کو یہ حل بڑا پسند آیا اور ہر کوئی خوشی سے چیخنے لگا کہ "پہلے میں" "پہلے میں" "پہلے میں" اس کھیل کی شروعات کروں گا..
پاگل پن نے کہا "ایسا کرتے ہیں میں اپنی آنکھیں بند کرکے سو تک گنتی گِنوں گا، اس دوران تم سب فوراً روپوش جانا، پھر میں ایک ایک کر کے سب کو تلاش کروں گا"
جیسے ہی سب نے اتفاق کیا، پاگل پن نے اپنی کہنیاں درخت پر ٹکائیں اور آنکھیں بند کرکے گننے لگا، ایک، دو، تین، اس کے ساتھ ہی تمام اچھائیاں اور برائیاں اِدھر اُدھر چھپنے لگیں،
سب سے پہلے نرماہٹ نے چھلانگ لگائی اور چاند کے پیچھے خود کو چھپا لیا،
دھوکا دہی قریبی کوڑے کے ڈھیر میں چھپ گئی،
جوش و ولولے نے بادلوں میں پناہ لے لی،
آرزو زیرِ زمین چلی گئی،
جھوٹ نے بلند آواز میں میں کہا، "میرے لیے چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہیں بچی اس لیے میں پہاڑ پر پتھروں کے نیچے چھپ رہا ہوں" ، اور یہ کہتے ہوئے وہ گہری جھیل کی تہہ میں جاکر چھپ گیا،
پاگل پن اپنی ہی دُھن میں مگن گنتا رہا، اناسی، اسی، اکیاسی،
تمام برائیاں اور اچھائیاں ایک ایک کرکے محفوظ جگہ پر چھپ گئیں، ماسوائے محبت کے، محبت ہمیشہ سے فیصلہ ساز قوت نہیں رہی ، لہذا اس سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ کہاں غائب ہونا ہے، اپنی اپنی اوٹ سے سب محبت کو حیران و پریشان ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور یہ کسی کے لئے بھی حیرت کی بات نہیں تھی ۔
حتیٰ کہ اب تو ہم بھی جان گئے ہیں کہ محبت کے لیے چھپنا یا اسے چھپانا کتنا جان جوکھم کا کام ہے. اسی اثنا میں پاگل پن کا جوش و خروش عروج پر تھا، وہ زور زور سے گن رہا تھا، پچانوے، چھیانوے، ستانوے، اور جیسے ہی اس نے گنتی پوری کی اور کہا "پورے سو" محبت کو جب کچھ نہ سوجھا تو اس نے قریبی گلابوں کے جھنڈ میں چھلانگ لگائی اور خود کو پھولوں سے ڈھانپ لیا،
محبت کے چھپتے ہی پاگل پن نے آنکھیں کھولیں اور چلاتے ہوئے کہا "میں سب کی طرف آرہا ہوں" "میں سب کی طرف آرہا ہوں" اور انہیں تلاش کرنا شروع کردیا،
سب سے پہلے اس نے سستی کاہلی کو ڈھونڈ لیا، کیوں کہ سستی کاہلی نے چھپنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور وہ اپنی جگہ پر ہی مل گئی،
اس کے بعد اس نے چاند میں پوشیدہ نرماہٹ کو بھی ڈھونڈ لیا،
صاف شفاف جھیل کی تہہ میں جیسے ہی جھوٹ کا دم گُھٹنے لگا تو وہ خود ہی افشاء ہوگیا، پاگل پن کو اس نے اشارہ کیا کہ آرزو بھی تہہ خاک ہے،
اسطرح پاگل پن نے ایک کے بعد ایک کو ڈھونڈ لیا سوائے محبت کے،
وہ محبت کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا حتیٰ کہ ناامید اور مایوس ہونے کے قریب پہنچ گیا،
پاگل پن کی والہانہ تلاش سے حسد کو آگ لگ گئی، اور وہ چھپتے چھپاتے پاگل پن کے نزدیک جانے لگا، جیسے ہی حسد پاگل پن کے قریب ہوا اس نے پاگل پن کے کان میں سرگوشی کی " وہ دیکھو وہاں، گلابوں کے جُھنڈ میں محبت پھولوں سے لپٹی چھپی ہوئی ہے"
پاگل پن نے غصے سے زمین پر پڑی ایک نوکدار لکڑی کی چھڑی اٹھائی اور گلابوں پر دیوانہ وار چھڑیاں برسانے لگا، وہ لکڑی کی نوک گلابوں کے سینے میں اتارتا رہا حتیٰ کہ اسے کسی کے زخمی دل کی آہ پکار سنائی دینے لگی ، اس نے چھڑی پھینک کر دیکھا تو گلابوں کے جھنڈ سے نمودار ہوتی محبت نے اپنی آنکھوں پر لہو سے تربتر انگلیاں رکھی ہوئی تھیں اور وہ تکلیف سے کراہ رہی تھی، پاگل پن نے شیفتگی سے بڑھ کر محبت کے چہرے سے انگلیاں ہٹائیں تو دیکھا کہ اسکی آنکھوں سے لہو پھوٹ رہا تھا، پاگل پن یہ دیکھ کر اپنے کیے پر پچھتانے لگا اور ندامت بھرے لہجے میں کہنے لگا، یا خدا! یہ مجھ سے کیا سرزد ہوگیا، اے محبت! میرے پاگل پن سے تمھاری بینائی جاتی رہی، میں بے حد شرمندہ ہوں مجھے بتاؤ میری کیا سزا ہے؟ میں اپنی غلطی کا ازالہ کس صورت میں کروں؟
محبت نے کراہتے ہوئے کہا " تم دوبارہ میرے چہرے پر نظر ڈالنے سے تو رہے، مگر ایک طریقہ بچا ہے تم میرے راہنما بن جاؤ اور مجھے رستہ دکھاتے رہو"
اور یوں اس دن کے واقعے کے بعد یہ ہوا کہ، محبت اندھی ہوگئی، اور پاگل پن کا ہاتھ تھام کر چلنے لگی ، اب ہم جب محبت کا اظہار کرنا چاہیں تو اپنے محبوب کو یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ "میں تمھیں پاگل پن کی حد تک محبت کرتا ہوں "
8 notes
·
View notes
Text
وہ حادثہ وہ پہلی ملاقات کیا کہوں
کتنی عجب صورتحال کیا کہوں
یوں قہر وہ غضب وہ جفا مجھ کو یاد ہے
وہ اسکی بے رخی کی ادا مجھ کو یاد ہے
مٹتا نہیں ہے ذہن پہ یوں چھا گیا کوئی
یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی
3 notes
·
View notes
Text
چرا سفر به ترکیه در ایران پرطرفدار است؟
ترکیه یکی از محبوبترین مقاصد گردشگری برای ایرانیان است. این کشور با ترکیبی از فرهنگهای متنوع، طبیعت بکر و امکانات تفریحی مدرن، توانسته جایگاه ویژهای برای سفر با تور ترکیه و یا به صورت شخصی در بین گردشگران ایرانی پیدا کند. در این مقاله به بررسی دلایل محبوبیت ترکیه در بین ایرانیان میپردازیم.
نزدیکی جغرافیایی و سهولت سفر
یکی از مهمترین دلایل محبوبیت ترکیه در بین ایرانیان، نزدیکی جغرافیایی این کشور به ایران است. فاصلهی کوتاه بین دو کشور و وجود پروازهای مستقیم و متعدد، سفر به ترکیه را برای ایرانیان آسان و مقرون به صرفه میکند. علاوه بر این، وجود مرزهای زمینی بین ایران و ترکیه، امکان سفر زمینی را نیز فراهم کرده است که گزینهای مناسب برای مسافران با بودجهی محدود است.
فرهنگ و تاریخ مشترک
ترکیه و ایران دارای تاریخ و فرهنگی مشترک و عمیق هستند که به دوران امپراطوریهای باستانی بازمیگردد. این اشتراکات فرهنگی باعث شده تا ایرانیان احساس نزدیکی و راحتی بیشتری در ترکیه داشته باشند. همچنین، وجود آثار تاریخی و معماریهای مشابه، حس آشنایی و جذابیت بیشتری برای گردشگران ایرانی ایجاد میکند.
تنوع جاذبه های گردشگری
ترکیه با تنوع بینظیری از جاذبههای گردشگری، توانسته پاسخگوی سلیقههای مختلف گردشگران باشد. از سواحل زیبای دریای م��یترانه و اژه گرفته تا کوههای سرسبز و مناطق تاریخی، ترکیه همه چیز را برای یک تعطیلات بینظیر فراهم کرده است. شهرهایی مانند استانبول با آثار تاریخی فراوان، آنتالیا با سواحل زیبا و کاپادوکیه با مناظر شگفتانگیز، تنها بخشی از جاذبههای ترکیه هستند که مورد توجه گردشگران ایرانی قرار میگیرند.
قیمت مناسب و تنوع اقامتی
یکی دیگر از دلایل محبوبیت ترکیه در بین ایرانیان، قیمت مناسب خدمات گردشگری و تنوع اقامتی در این کشور است. از هتلهای لوکس پنجستاره گرفته تا اقامتگاههای اقتصادی و مهمانپذیرهای کوچک، ترکیه گزینههای متعددی برای اقامت ارائه میدهد که متناسب با بودجههای مختلف است. این تنوع اقامتی و قیمت مناسب خدمات، ترکیه را به مقصدی محبوب و مقرون به صرفه برای ایرانیان تبدیل کرده است.
خرید و مراکز تجاری
ترکیه به عنوان یکی از مراکز بزرگ تجاری و خرید در منطقه، محبوبیت زیادی در بین ایرانیان دارد. بازارهای بزرگ و مدرن ترکیه با انواع کالاها از جمله لباس، جواهرات، فرش و لوازم الکترونیکی، مقصدی عالی برای خریدهای ارزان و باکیفیت محسوب میشوند. استانبول با داشتن بازار بزرگ و مراکز خرید متعدد، یکی از محبوبترین مقاصد خرید برای گردشگران ایرانی است.
آب و هوای مطلوب
آب و هوای ترکیه، به ویژه در مناطق ساحلی، بسیار مطلوب و دلپذیر است. این کشور با داشتن تابستانهای گرم و زمستانهای معتدل، مقصدی مناسب برای سفر در تمام فصول سال است. سواحل زیبای آنتالیا، بدروم و کوش آداسی در فصل تابستان و پیستهای اسکی در کوههای اولوداغ در فصل زمستان، گزینههای عالی برای لذت بردن از آب و هوای متنوع ترکیه هستند.
غذاهای لذیذ و مشابه با فرهنگ غذایی ایران
غذاهای ترکیه با طعمها و مواد اولیه مشابه غذاهای ایرانی، یکی دیگر از دلایل محبوبیت این کشور در بین ایرانیان است. غذاهایی مانند کباب، دلمه، کوفته و انواع دسرهای خوشمزه مانند باقلوا و کنافه، مورد پسند و ذائقهی ایرانیان قرار میگیرند. رستورانهای ترکیه با ارائهی غذاهای متنوع و لذیذ، تجربهای لذتبخش از سفر را برای گردشگران ایرانی فراهم میکنند.
روابط دوستانه و مهماننوازی
روابط دوستانه بین مردم ترکیه و ایران و مهماننوازی ترکها، یکی دیگر از دلایل محبوبیت این کشور در بین ایرانیان است. مردم ترکیه با برخورد گرم و صمیمانه، احساس راحتی و آرامش را برای گردشگران ایرانی به ارمغان میآورند. این مهماننوازی و روابط دوستانه، تأثیر زیادی در جلب رضایت و افزایش تعداد گردشگران ایرانی به ترکیه دارد.
مراکز درمانی و خدمات پزشکی
ترکیه با داشتن مراکز درمانی پیشرفته و ارائه خدمات پزشکی با کیفیت، به یکی از مقاصد محبوب برای گردشگران سلامت از ایران تبدیل شده است. هزینههای مناسب درمانی و وجود پزشکان متخصص و تجهیزات پزشکی مدرن، انگیزهای قوی برای سفر ایرانیان به ترکیه برای انجام درمانهای پزشکی و زیبایی ایجاد کرده است.
در این مقاله به بررسی دلایل محبوبیت ترکیه در بین ایرانیان پرداختیم. نزدیکی جغرافیایی، فرهنگ و تاریخ مشترک، تنوع جاذبههای گردشگری، قیمت مناسب، مراکز خرید، آب و هوای مطلوب، غذاهای لذیذ، روابط دوستانه و مهماننوازی مردم ترکیه از جمله عواملی هستند که این کشور را به مقصدی پرطرفدار برای گردشگران ایرانی تبدیل کردهاند. برای مشاهده تورهای ارزان ترکیه اینجا کلیک کنید.
2 notes
·
View notes
Text
I remember a friend asking me,
" کیا محبت كے لیے فارغ ہونا ضروری ہے ؟ "
And I had vaguely said,
" نہیں ، بس اک لمحہ کافی ہے "
But I couldn't tell her,
کی محبت كے لیے فارغ ہونے کا مطلب یہ نہیں کی آپ ناکارا ہوں اور اپنے محبوب كے آگے پیچھے گھومتے رہیں . نہیں . محبت میں اس احساس کا ہونا ضروری ہے کی آپ کے لیے فاراگھت حاصل کی گئی ہے ، آپ کے لیے وقت نکالا گیا ہے ، صرف آپ کے لیے . چاہے وہ اک لمحہ ہو ، لیکن اس میں وہ شخص مکمل آپکا ہے . اس لمحے میں اسکی توجہ اسکی ترجیحات صرف آپ ہے . اس لمحے میں وہ ہر کام ہر، فکر كے اوپر صرف آپکو فوقیت دے . بس وہ اک لمحہ جب آپکو لگے کی ہاں ، اسکے وقت کا اک بہترین حصہ اس نے آپ کے نام کیا ہے . وہ وقت جو اسکے اور آپ کے روح کو سکون دے اور دل کو مطمئن کرے . چاہے وہ صرف اک لمحے كے لیے آپکی طرف دیکھ کر مسکرائے ، لیکن وہ مسکراہٹ ایسی ہو کی اس میں زمانے بھر کی خوشگواریان اور چمک ہو . چاہے وہ سارا دن آپ سے دور رہے ، لیکن آپکو ہمیشہ اس بات کا یقین ہو ، کی وہ آپ کے ساتھ ہے ، اسکے شعور یا پھر لاشاور میں ہی سہی ، آپکا چہرہ ہر لمحے حائل ہو . اسکے اس لمحے میں ، جب وہ کسی کو اپنے پاس نا پائے ، آپ تب بھی اسکے پاس ہو . آپ کے اس لمحے میں جب آپ خائف ہو ، تو وہ آپکو تحفظ کا احساس دلائے . وہ محبت سے آپ کے ہاتھ تھامکر ، آپ کے آنكھوں میں خودکا عکس تلاش کیا گیا اک لمحہ . وہ باحیر جاتے جاتے ، رک کر ، دریچے سے موڈکر دی گئی دلکش مسکراہٹ ، وہ آپکی ہنسی دیکھ کر اللہ کی حمد کا کہا گیا اک لفظ . . . . ہاں . بس وہ اک لمحہ . صرف اک . وہ کافی ہے . کیونکہ محبت کو وقت نہیں زندہ رکھتا . محبت کو توجہ اور احساس زندہ رکھتے ہے . اور ، یہ ۔۔۔۔ کافی ہے ۔
©️زینت نذیر 🕊️
- A Page from my diary on 6th June 2020 🩶
(Can't believe now things were still lighter in me back then 🫢😆😂)
12 notes
·
View notes
Text
یہ تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری کہانی ادھوری رہ گئی ہے ایک تسلسل سے اس سے مانگنا یہ بھی اسکی عطا ہی تو ہے بار بار اسکے در پر جانا یہ بھی تو معجزوں کے ہونے کا ذریعہ ہی تو ہے مانگ رہے ہو تو یقین رکھو وہ اپنے وعدوں کا بڑا سچا ہے ❤️
5 notes
·
View notes
Text
آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے
جبر و سفاکی و طغیانی کا باغی ہوں میں نشئہ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں
جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانون ظلم و عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون
تشنگی نفس کے جزبوں کی بجھانے کے لئے نوع انساں کے بنائے ہوئے کالے قانون
ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھے ان سے ہر سانس میں تحریک بغاوت ہے مجھے
تم ہنسو گے کہ یہ کمزور سی آواز ہے کیا جھنجھنایا ہوا، تھرّایا ہوا ساز ہے کیا
جن اسیروں کے لیے وقف ہیں سونے کے قفس ان میں موجود ابھی خواہشِ پرواز ہے کیا
آہ! تم فطرتِ انسان کے ہمراز نہیں میری آواز، یہ تنہا میری آواز نہیں
انگنت روحوں کی فریاد ہے شامل اس میں سسکیاں بن کے دھڑکتے ہیں کئی دل اس میں
تہ نشیں موج یہ طوفان بنے گی اک دن نہ ملے گا کسی تحریک کو ساحل اس میں
اس کی یلغار مری ذات پہ موقوف نہیں اسکی گردش میرے دن رات پہ موقوف نہیں
ہنس تو سکتے ہو، گرفتار تو کر سکتے ہو خوار و رسوا سرِ بازار تو کر سکتے ہو
اپنی قہار خدائی کی نمائش کے لئے مجھے نذرِ رسن و دار تو کر سکتے ہو
تم ہی تم قادرِ مطلق ہو، خدا کچھ بھی نہیں؟ جسمِ انساں میں دماغوں کے سوا کچھ بھی نہیں
آہ یہ سچ ہے کہ ہتھیار کے بل بوتے پر آدمی نادر و چنگیز تو بن سکتا ہے
ظاہری قوت و سطوت کی فراوانی سے لینن و ہٹلر و انگریز تو بن سکتا ہے
سخت دشوار ہے انسان کا مکمّل ہونا حق و انصاف کی بنیاد پے افضل ہونا
مولانا عامرؔ عثمانی
9 notes
·
View notes
Text
ایک انگریز دوست کہنے لگا کہ آپ لوگوں کی بیویاں ، شوہر سے بہت عقیدت رکھنے والی ہوتی ہیں ۔
میں نے پوچھا وہ کیسے؟
وہ کہنے لگا کہ ایک بار میں انگلینڈ میں ایک پاکستانی دوست کے گھر گیا تو دیکھا اسکی اہلیہ اپنے شوہر کی قمیض کے بٹن ٹانک رہی تھی ، جب وہ بٹن ٹانک کےفارغ ہوئی تو اس نے اس بٹن کو چوما ۔ پھر اُس نے دوسرا بٹن ٹانکا اُسے بھی چوما ۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بڑی حسرت ہوئی کہ کاش ہماری بیویاں بھی ہم سے اتنی محبت اور عقیدت رکھنے والی ہوتیں !
پھر میں نے اسے بتایا " انّی دیا ۔۔۔۔۔ وہ بٹن کو چوم نہیں رہی تھی بلکہ دانتوں سے دھاگہ کاٹ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
😂😂
5 notes
·
View notes
Text
ہم چاہے جو کوئی بھی ہیں اور جہاں کہیں ہیں، اپنے اندر کہیں ہم سب خود کو نامکمل محسوس کرتے ہیں یوں جیسے ہم نے کچھ کھو دیا ہے اور اب واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں بس یہ کہ ہم میں سے بیشتر کبھی نہیں جان پاتے کہ وہ کیا شے ہے جو کھو گئی ہے اور وہ جو جان لیتے ہیں ان میں سے بھی بہت کم ہیں جو اسکی تلاش میں نکلتے ہیں……!!“
Whoever we are and wherever we are, somewhere deep inside we all feel incomplete, like we've lost something and want it back, but most of us never know it. What is the thing that is lost, and those who know it are few who seek it….!”
(Elf Shafaq "Forty Lamps of Love")
13 notes
·
View notes
Text
بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی
نہ یہ کہ حسن عام ہو نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سا سفر لگے
کوئی بھی رت ہو اسکی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رہے ، نہ ساتھ صبح و شام رہے
نہ رشتہء وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذن عام ہو
کوئی بھی رت ہو اسکی چھب، فضا کا رنگ و روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی، وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رہے ، نہ ساتھ صبح و شام رہے
نہ رشتہء وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذن عام ہو
نہ ایسی خوش لباسیاں کہ سادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکلفی کہ آئینہ حیا کرے ۔ ۔ ۔
نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن کہ دوستی خراب ہو
کبھی تو بات بھی خفی، کبھی سکوت بھی سخن
کبھی تو کشت زاعفراں، کبھی اداسیوں کا بن
سنا ہے ایک عمر ہے معاملات دل کی بھی
وصال جان فزا تو کیا ،فراق جانگسسل کی بھی
سوایک روز کیا ہوا ، وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں ،وہ میری بات سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر بھر کے ساتھ کو بدتر از ہوس کہے
شجر ہجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گل رہے
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں
میں کوئی پینٹنگ نہیں کی ایک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہو اسی کہ پریم میں رہوں
نہ یس کو مجھ پر مان تھا، نہ مجھ کو اس پہ زعم ہی
جب عہد ہی کوئی نہ ہو، تو کیا غم شکستی
سو اپنا اپنا راستہ خوشی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی ، میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اس کی دوستی
اب اس کی یاد رات دن نہیں مگر کبھی کبھی
احمد فراز
6 notes
·
View notes
Text
👫دوستی👬
لفظ دوست کتنے خوبصورت احساس کا نام ہے، یہ وہ رشتہ ہے کہ جس میں نہ تو کچھ لین ہے اور نہ ہی کچھ دین ہے۔ بس ایک احساس ہے ہونے یا نہ ہونے کا، محبت ہونے کے لیے دوستی کا ہونا بہت ضروری ہے، پہلے دوستی ہوتی ہے اور پھر محبت، محبت کبھی بھی ایک ہی دن میں نہیں ہوتی ہے، لیکن دوستی کے لیے بس دونوں جانب ایک ردھم کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں عورت اور مرد کی دوستی کو شاید اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ مگر میری سوچ میری سمجھ کے مطابق دوست تو دوست ہوتا ہے وہ عورت مرد نہیں ہوتا ہے۔ انسان کی سوچ اصل میں سب کچھ ہوتی ہے، دوستی میں دوست کے دکھ سکھ ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔
جب جب دوست ناراض ہوتے ہیں کچھ ہونے لگتا ہے۔ انکے ناراضگی برداشت نہیں ہوتی، کیونکہ ہم انکے ساتھ کے انکے تعلق کے بنا رہ نہیں پاتے ہیں، میری زندگی کے اصل سرمایہ میرے یہی دوست تو ہیں۔
فیس بک نے مجھے زندگی میں بہت سے ہیرے جیسے دوست عطا کیے، میں اسکا بہت شکر گزار ہوں۔
مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دوستی میں پہلی دراڑ جب پڑتی ہے جب ایک دوسرے کے درمیان وہ لمحہ آئے کہ جب آپ کو اسکو اپنے خلوص اور محبت کا یقین دلانے کے لیے شرائط کا سامنا کرنا پڑے، دوست تو وہ ہوتا کہ جو یقین کی اس منزل پر ہو کہ جب آپ جو کہہ دیں وہ کہے کے ہاں بس صحیح ہے، گمان اور بدگمانی سے ماورا ہو کر خلوص پر یقین ہو۔
ہر انسان چاہے وہ کتنے بھی بڑے دل والا کیوں نا ہو وہ اپنی سوچ کے مطابق کچھ حدود متعین کر کے چل رہا ہوتا ہے۔ اگر جب اسکو ان حدود کو کسی دوست کے ججمنٹ کا سامنا کرتے ہوۓ توڑنا پڑے تو وہ عمل اسکی ذات کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔
کبھی بھی دوست کے خلوص اسکی محبت کا امتحان نہ لیں، سچا دوست اپنی دوستی کو ثابت کرنے کے لیے اپنی سب حدود کو قربان تو کر دے گا مگر پھر کیا وہ وہ رہ سکے گا، اسکا وجود اس طرح آپ کا ساتھ دے سکے گا، یہ بات ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان بنی رہے گی۔
محبتوں کا کبھی بھی امتحان نا لیں، جھک جائیں ضد نا کریں کیونکہ ضد اور جلد بازی ہمیشہ سے انسان کو انسان سے دور لے جاتی ہے۔
دوستی ایک ایسی مظبوط بنیاد کا نام ہے، کہ جس پر محبت کی مضبوط عمارت تعمیر کی جاتی ہے، تو دوست کی دوستی کو کبھی بھی آزمانے کی کوشش نا کریں کیونکہ ہو سکتا ہے وہ اسکو پورا نا کر سکے اور ��ہ آپ کی نظر میں اس مقام سے گر جاۓ۔ یا ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی بات کو پورا تو کر دے مگر پھر آپ اسکی نظر میں اس مقام پر نا رہ سکیں۔
دونوں صورتوں میں نقصان ہمیشہ آپ کا ہی ہو گا۔ تو بس دوست دوست ہوتا ہے اسکو اسکی مَستی میں رہنے دو اور دیکھو وہ کہاں تک جاتا ہے۔ کیونکہ دعوے تو سب ہی کرتے ہیں اس دوستی کو نبھاتا کون ہے اسکا فیصلہ صرف اور صرف وقت کرتا ہے۔ 😎😢😎
سید عدیل ہاشمی
2 notes
·
View notes
Text
رضائے دل تو تھی نہیں تو میں بھی پھر رُکا نہیں
جو ڈر تھا وہ عبث ہی تھا، آ دیکھ کُچھ ہُوا نہیں
انساں گزیدہ ہوں خُدا، یہ آیتیں کریں گی کیا؟
تو جانتا ہے رازداں کہ اسکی کچھ دوا نہیں
کمال کی وہ رات تھی، نہ چاند تھا نہ چارہ گر
بس ایک خواب تھا قریں جوصبح تلک بُجھا نہیں
جو راستہ تیری طرف بڑھا وہ تنگ ہو گیا
تو کہہ رہا ہے آ کے مل، کہاں؟ مجھے پتہُ نہیں
شہزاد-
4 notes
·
View notes
Text
"" تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے""
فیض صاحب نے یہ کچھ سوچ کر کہا ہوگا۔
اور پھر راحت اندوری نے بھی تو کہا۔۔۔
""اسکی کالی آنکھوں میں انتر منتر سب ""
مگر جو جون ایلیا نے کہا وہ تو انداز ہی الگ ہے۔۔۔۔۔
تری آنکھیں بھی کیا مصیبت ہیں
میں کوئی بات کہنے آیا تھا۔
4 notes
·
View notes