#اردو تنقید
Explore tagged Tumblr posts
emergingpakistan · 1 year ago
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
Tumblr media
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔ 
Tumblr media
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار ��ار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد ��دالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
urduintl · 9 months ago
Text
سعودی عرب میں ڈریگن بال پر مبنی پہلا تھیم پارک کا اعلان
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ وہ مشہور جاپانی اینی میٹڈ سیریز ڈریگن بال پر مبنی تھیم پارک بنائے گا، جس پر اس سیریز کے مداحوں کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے. اس تھیم پارک کو بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس پارک کے وسط میں 70 میٹر طویل ڈریگن بنایا جائے گا اور اس میں کم از کم 30 جھولے ہوں گے۔ یہ دنیا میں اینی میٹڈ سیریز ڈریگن بال پر مبنی پہلا تھیم پارک ہو گا. تاہم اس اعلان کو چند حلقوں کی جانب سے سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے.سعودی عرب میں ڈریگن بال پر مبنی پہلا تھیم پارک کا اعلان
سعودی عرب اور ڈریگن بال تھیم پارک منصوبے پر تنقید
سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال اور خصوصاً ہم جنس پرست افراد کے حقوق کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا بھی ہے. تھیم پارک کی تعمیم سے تعلق رکھنے والی قدیہ انویسٹمنٹ کمپنی (کیو آئی سی) کے مطابق یہ پارک پانچ لاکھ مربع میٹر سے زیادہ رقبے پر محیط ہوگا جو کہ مکمل طور پر سعودی حکومت کے انویسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت ہے. اس پروجیکٹ پر کام کرنے والی قدیہ انویسٹمنٹ کمپنی اور ڈریگن بال کو بنانے والی جاپانی کمپنی توئی اینیمیشن کی ’طویل مدتی سٹریٹیجک شراکت داری‘ کا حصہ ہیں. اس تھیم پارک کی تعمیر سے منسوب سوالات پیدا ہوئے ہیں جو کہ عوام کی ذہنوں میں خلاف ورزی کا سبب بنسکتے ہیں.
تھیم پارک کی تعمیر سے منسوب سوالات
تھیم پارک کی تعمیر سے منسوب سوالات کا مرکزی حصہ انسانی حقوق کی صورتحال اور ہم جنس پرستی کے حقوق کو لے کر ہوئے ہیں. سوشل میڈیا پر اس منصوبے کی تنقید اس حقیقت کی وجہ سے بڑھی ہے کہ سعودی عرب میں ہم جنس پرستی سزا بخش نہیں مانی جاتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی رپورٹس بھی آتی رہتی ہیں. منصوبے تکنیکی جانب سے تو منظم ہو رہا ہے لیکن سیاسی اور اجتماعی جوانمریاں اس کی تعمیر سے منسوب سوالات کا باعث بن رہی ہیں.
انسانی حقوق کی صورتحال اور خصوصاً ہم جنس پرست افراد کے حقوق کی تسلیم نہ کرنے والی کارروائیوں کے بعد سعودی عرب کا ایک بڑا تفریحی اور سیاحتی منصوبہ قائم کرنے پر سوالات اٹھے ہیں. اسپاتالیٹی اور حقوقی رواسازی کا سیاسی مقصد اس پرکشش پارک کے تعمیر کا حصہ ہونے سے روک رہا ہے. سوشل میڈیا پر موجود غیر مسلم تقاضوں کا متناقص ہونا بھی اسپتالیٹی اور محلوں کی معماری پر سوالات کھڑے کر کے خارج ہو رہا ہے.
یہ تھیم پارک سعودی عرب کا ایک بڑا تفریحی اور سیاحتی منصوبہ ہے جو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قریب تعمیر کیا جا رہا ہے. یہ تفریحی منصوبہ سعودی عرب کی معیشت کو تیل کے علاوہ دیگر ذرائع پر انحصار کرنے کے منصوبوں کا حصہ بن سکتا ہے. اس کے قلم و کاغذ پر تشریعی، اقتصادی اور تجاری ٹیکنالوجی پر پابندیاں پائی جائیں گی جس سے عوام کی تشریعی اور معیاری صلاحیتوں کو بچایا جائے گا. سعودی عرب میں ڈریگن بال کے چند مداحوں نے تھیم پارک کے منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے.
سعودی عرب کی القدیہ انویسٹمنٹ کمپنی کے مطابق یہ تھیم پارک پانچ لاکھ مربع میٹر سے زیادہ رقبے پر محیط ہوگا جو کہ مکمل طور پر سعودی حکومت کے انویسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت ہے. مستقبل میں یہ پارک سعودی عرب کے دیگر شہروں میں بھی فراہم کیا جاسکتا ہے. سعودی عربی حکومت کیلئے اس پارک کو تشیعقلاسی عوام کی آمدنی کا ایک میدان بنانے کا مقصد بنایا گیا ہے. اس پارک کا استعمال سعودی عرب کی ریاست میں موجود اراضی کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے رکھا جا رہا ہے.
سعودی عربی حکومت میں طویل الامدادی منصوبہ بنانے کی اسلامی عوام کی خواہش اور تجارتی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے. سعودی عرب میں سونم مرمت کے حصوں کی معیشت کے دیگر زریعوں پر نشوو کاری کی جاتی ہے. سعودی عرب کا یہ رکھ رھا استعمال پوری دنیا پر عکس اند‍از ہوو رھا ہے چونکہ تھیم پارک جہاں پریوو ਹو سکتا ہیو بلاکائٹ عوام کو مورروسم کے زیر اورکرنے کے راستے پروتکشش کرتا ہے چونکہ یہ منصوبوہ برآمد کرنے سے پہلے سعودی عرب اور جاپانی سیاحوں کی زیاده آمدنی دھندن کا سامنا کر رہی ہوتی تھی۔ سعودی عرب کے وزیر الاقتصاد کا یہ کہنا ہے کہ یہ منصوبہ سعودی آرب کی پیسٹیکسوئوز معیشتی پانی کی آمدنی میں ثانوی تجدید کھادیا گئی ہیں.
جہاں ڈریگن بال کے چند مداحوں نے تھیم پارک کے منصوبے کا خیرمقدم کیا ہوا ہے، وہیں سوشل میڈیا پر دیگر افراد نے سعودی عرب میں اس پرکشش پارک کی تعمیر کے فیصلے پر سوال اٹھایا ہے. ان لوگوں نے اس پروجیکٹ کی بابت وزارت کی جانب سے واضع کردہ معیشتی، راجنیتی اورمسافرتی چیزوں کی پابندیوں پر سوالات کھڑے کردیے ہیں. سعودی عرب کے میر منصور بن سلمان کے کہنے پر تھیم پارک تعمیر سے کیمیونٹی کا استعمال مسافرتی چیزوں کو تیل سے متروک کرتا ہے. ڈریگن بال کے چند مداحوں نے بڑے خوشی سے سعودی عرب میں منصوبے کو خیرمقدم کیا ہے.
سعودی عرب کی حکومت کو ایسے خیالات کا خیال کرنا پڑتا ہے کہ ڈریگن بال میٹڈ سیریز کے خالق اکیرا توریاما کی موت کے چند ہفتے بعد سعودی عرب میں اس منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ توریاما کی وفات یکم مارچ کو 68 سال کی عمر میں ہوئی. ڈریگن بال کے ویب سائٹ پر ایک بیان کے مطابق، صرف ان کے خاندان اور بہت کم دوست ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئے. دنیا بھر کے مداحوں نے توریاما کو ایسے کردار تخلیق کرنے پر خراج تحسین پیش کیا جو ان کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں. ڈریگن بال کامک سیریز کا آغاز 1984 میں ہوا. یہ سون گوکو نامی لڑکے کی کہانی ہے جو جادوئی ڈریگن بالز کو اکٹھا کرنے کی جستجو کرتا ہے کیونکہ وہ اسے سپر پاور دے سکتے ہیں. یہ اب تک کی سب سے زیادہ بااثر اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی جاپانی کامکس میں سے ایک ہے.
اس تھیم پارک کی تعمیم سے متعلق یہ اعلان ڈریگن بال کے خالق اکیرا توریاما کی موت کے چند ہفتے بعد سامنے آیا ہے. توریاما کی وفات یکم مارچ کو 68 سال کی عمر میں ہوئی. ڈریگن بال ویب سائٹ پر ایک بیان کے مطابق، صرف ان کے خاندان اور بہت کم دوست ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئے. دنیا بھر کے مداحوں نے توریاما کو ایسے کردار تخلیق کرنے پر خراج تحسین پیش کیا جو ان کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں. ڈریگن بال کامک سیریز کا آغاز 1984 میں ہوا۔ یہ سون گوکو نامی لڑکے کی کہانی ہے جو جادوئی ڈریگن بالز کو اکٹھا کرنے کی جستجو کرتا ہے کیونکہ وہ اسے سپر پاور دے سکتے ہیں.
0 notes
globalknock · 1 year ago
Text
’’بھائی! ٹرافی کا کچھ احترام کریں‘‘ اروشی کا مارش پر طنز - ایکسپریس اردو
ورلڈکپ 2023 کے آغاز سے قبل نقاب کشائی کی تقریب کے دوران اداکارہ نے ٹرافی کو چومتی نظر آئیں تھی (فوٹو: ایکسپریس ویب) بالی ووڈ اداکارہ اروشی روٹیلا نے آئی سی سی ورلڈکپ ٹرافی پر پاؤں رکھنے پر آسٹریلوی آل راؤنڈر مچل مارش پر تنقید کردی۔ 19 نومبر کو آئی سی سی ورلڈکپ فائنل میں بھارت کو ہوم گراؤنڈ پر شکست دینے کے بعد آسٹریلیا نے چھٹی مرتبہ ٹرافی اپنے نام کی، بعدازاں آسٹریلوی آل راؤنڈر مچل مارش…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hassanriyazzsblog · 1 year ago
Text
🌹🌹 🅼🆄🆃🆄🅰🅻 🆁🅴🆂🅿🅴🅲🆃
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
6️⃣5️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *MUTUAL RESPECT*
*Addressing the Prophet of Islam ﷺ, the Quran states: “O people, your religion is for you, and my religion is for me.”*
(Quran 109:6)
*This verse explains how to create a harmonious environment in a society where people of diverse religious traditions coexist.*
*The simple formula which applies to such situations is ‘to follow one and respect all.’*
*This is the only valid principle of maintaining peace in a multi-religious society.*
*In this world of differences, it is not possible to eliminate differences.*
*In such a situation there is only one viable solution, and that is tolerance.*
*That is, give everyone the right to choose the religion or culture of their choice.*
*We can hold a peaceful dialogue with each other on the issue of differences, but trying to eliminate the differences will only create more differences.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *باہمی احترام :*
*اللہ سبحانہ و تعالی نے دیگر مذاہب و عقائد کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا ایک سنہرا اصول بتایا ہے کہ : "اے لوگو تمہارا دین تمہارے لیے ہے اور میرا دین میرے لیے ہے۔"*
(قرآن 109:6)
*اس آیات کے ذریعے ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں متنوع مذہبی روایات کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہوں وہاں ہم آہنگی کا ماحول کیسے بنایا جائے۔*
*اس کا سادہ سا اصول یہ ہے کہ ہم اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزاریں اور دوسرے لوگوں کے مذہب اور عقیدے کا احترام کریں۔*
*ایک کثیر مذہبی معاشرے میں امن کو برقرار رکھنے کا یہی ایک واحد درست اصول ہے۔*
*اختلافات کی اس دنیا میں اختلافات کو ختم کرنا ناممکن ہے۔*
*ایسی صورت حال میں ایک ہی قابل عمل حل ہے اور وہ ہے "رواداری"۔*
*یعنی ہر کسی کو اپنی پسند کا مذہب یا ثقافت چننے کا حق دیں۔*
*ہم اختلافات کے معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ پرامن مذاکرات تو کر سکتے ہیں، لیکن ��ختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کرنے سے مزید اختلافات پیدا ہونے کی گنجائش رہتی ہے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
🍁 *"اختلافات" زندگی کا حُسن ہوتے ہیں :*
▪️ *دنیا اختلافات سے بھری پڑی ہے۔ ہر کسی کو اختلاف ہوتا ہے، کسی کو کم اور کسی کو شدید۔ اختلافات کئی طرح کے ہوتے ہیں کچھ ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں، کچھ سرکاری، قومی اور بین الاقوامی سطح کے، کچھ اختلافات خوامخواہ کے ہوتے ہیں۔*
▪️ *اختلافات زندگی کا حُسن ہوتے ہیں۔ یہ اتنے حُسین ہوتے ہیں کہ یکسر کسی کی زندگی کا رُخ بدل دیتے ہیں۔ اس کی سوچ اور فکر کو ایک نئی راہ پر ڈال کر اس کے لیے کامیابی کے راستے کھول دیتے ہیں۔ یہ اتنے پاور فُل ہوتے ہیں کہ بعض اوقات مجموعی زندگیوں میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی لے آتے ہیں۔*
🍃 *سرکار ﷺ نے فرمایا: "میری اُمت کا اختلاف رحمت ہے۔"*
▪️ *تنقید اختلاف کا حصہ ہے، تنقید ذہنی افق کو وسیع کرتی ہے۔ تنقید علمی تحفہ ہے۔ تنقید اور اختلاف سے انسان خود کو دریافت کر سکتا ہے۔ تنقید سے ایک گفتگو کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں اور انسان کے اندر تخلیقی سوچ کو پیدا کرتی ہے۔ تنقید اور اختلاف کو اگر تحمل سے برداشت کیا جائے تو خود اعتمادی کی دولت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔*
▪️ *مشاورت کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا کہ جب مشورہ کیا جاتا ہے تو اس میں بہت سے لوگ اختلاف بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعد میں کسی اچھے نتیجہ پر بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اختلاف کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ہم تذلیل کو بھی اختلاف رائے کا نام دے دیتے ہیں۔ ہم سر عام بے عزتی کر کے کہتے ہیں یہ تنقید ہے۔*
▪️ *اختلاف رائے تو نعمت ہے اور تنقید ایک علمی تحفہ ہے۔*
▪️ *لیکن مجموعی طور پر ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اختلاف ہماری زندگیوں میں کیسے تبدیلی لا سکتا ہے۔ اختلاف کیسے کیا جائے۔ تنقید کو کیوں کر برداشت کیا جائے۔ تنقید اور تذلیل میں کیا فرق ہے ۔ اس لیے کہ یہ تمام چیزیں ہماری تربیت اور معیار کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں تخلیق میں جمود ہے اس لیے کہ علمی موضوعات ہوں یا دوسرے معاملات ہم اس پر اختلاف رائے کرتے ہیں اور پھر کرتے ہی چلے جاتے جس کا مقصد دوسرے کو زچ کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔*
▪️ *تعمیری اختلاف کا حُسن یہ ہے کہ اس کا انجام کسی ایک نقطے پر اتفاق پر ہوتا ہے۔*
▪️ *اگر اتفاق نہیں بھی ہوتا تو وہ سوچ کے کئی نئے اُفق سامنے لے کر آتا ہے۔*
▪️ *لیکن ہمارے ہاں اول تو تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ خود اختلاف کے حق کو انجوائے کیا جاتا ہے لیکن دوسرے کو یہ حق نہیں دیا جاتا۔*
▪️ *ہمارے ہاں ایک اور طریقہ بھی رائج ہے۔ ہم اختلاف کر کے پھر اس کو دوسرے پر مسلط بھی کرنے لگتے ہیں۔*
▪️ *اختلافات نظریات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مقلدانہ ذہنیت بھی ہے۔ جو جس نقطے پر کھڑا ہے وہ اس پر ڈٹ جاتا ہے۔ عموماً شخصیت پرستی بھی اس کی وجہ ہے۔*
▪️ *اکثر دوست احباب کے درمیان کسی موضوع پر اختلاف ہو جاتا ہے۔ وہ اس اختلاف کو شخصیات سے منسوب کر اس کے تمام دوسرے پہلوں پر سوچ کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی ��لیل کوئی معنی نہیں رکھتی۔*
▪️ *لیکن ایک صاحب علم کے لیے سب سے اہم چیز تبادلہ خیال ہوتی ہے، تنقید ایک موضوع ہوتا ہے یہ دو شخصیات کے درمیان صرف ڈسکشن ہی تو ہے۔*
▪️ *جب شخصیات کے اثر اور اپنے مخصوص نظریات سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو انسان کتنا آزاد ہے۔ وہ آزادانہ غور و فکر کر سکتا ہے۔ اور اس فکر سے ترقی کے تمام راستے کھلتے ہیں۔*
▪️ *یہ آزادانہ فکر تنقید مانگتی ہے۔ یہ چاہتی ہے اس کے ساتھ ہر کوئی اختلاف کرے۔ اور پھر یہ سوچ ایک رہنما سوچ بن جاتی ہے۔*
▪️ *بصورت دیگر انسان وہی سوچتا ہے جو اس پر مسلط ایک شخصیت سوچتی ہے اور وہ تمام عمر وہی سوچتا چلا جاتا ہے۔*
▪️ *وہ کسی دلیل اور اختلاف کو نہیں مانتا۔ اس کی بنیاد پر وہ خوامخواہ کے اختلافات سے نہ صرف اپنا وقت برباد کرتا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔*
▪️ *تنقید اور اختلاف کو ایک اصول کی نظر سے دیکھنا چاہیے نہ کہ اس کو ذاتی سمجھا جائے یا شخصی۔*
▪️ *تنقید کا موضوع اتنا دلچسپ ہے کہ اسے نصاب کا حصہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔*
▪️ *جو لوگ تنقید برداشت نہیں کرتے وہ اپنے اندر چھپی صلاحیتیوں سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتے۔*
▪️ *تنقید اجتہاد کے راستوں کو بھی کھولتی ہے۔ جہاں اجتہاد رُک جاتا ہے وہاں ترقی رُک جاتی ہے۔*
▪️ *لیکن اس کے لیے تنقید کا تنقید ہونا ضروری ہے نہ کہ تنقیص۔*
▪️ *تنقید علمی اور منظقی تجزیہ ہے جبکہ تنقیص جسے خوامخواہ کا اختلاف بھی کہا جا سکتا ہے، کا سارا انحصار عیب جوئی اور الزامات تراشی اور دوسرے کی تذلیل پر ہوتا ہے جس کا حاصل باہمی بغض و عناد اور منافرت ہے جس سے معاشرے میں فتنہ و فساد اور انارکی کا راستہ کھلتا ہے۔*
▪️ *ہماری تربیت جو خوامخواہ اختلافات پر مبنی ہے اس کو آنے والی نسلوں میں منتقل نہیں ہونے دینا چاہیے۔*
▪️ *اس وقت ہمارے معاشرے کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام سکھانے کی ضرورت ہے۔ اختلاف کے لیے بلند کی جانے والی آواز دلیل ہو نہ کہ گالی۔*
▪️ *تنقید کو مسکرا کر ویلکم کرنے سے ہمارے اندر برداشت کے رویوں کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔*
▪️ *اختلافات کے ساتھ دوسروں کو قبول کرنا سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔*
▪️ *یہ سب ممکن ہے جب ہم اپنے اپنے خول سے باہر نکلیں گے۔ یہ خول مخصوص نظریات اور شخصیات کا خول ہے جو ہم پر قابض ہو چکا ہے۔*
▪️ *اس کے بعد جو اختلافات اٹھیں گے وہ ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ ورنہ خوامخواہ کی تنقید اور اختلافات تخریب کو جنم دیتے رہیں گے۔*
▪️ *یہ ایک عالم گیر سچائی ہے کہ آخری کامیابی حق ہی کو حاصل ہوتی ہے۔*
▪️ *چنانچہ، اگر حق سے گریز کی جائے گی تو آدمی کامیابی سے یقیناًمحروم ہی رہے گا، خواہ یہ حق کسی ایسے آدمی کے پاس ہو جو ہمارے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے اور خواہ ہماری آرا برسوں کی سوچ بچار کا نتیجہ ہی کیوں نہ ہوں۔*
▪️ *فکر و نظر کی دنیا میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔یہ غو رو فکر کا مسلسل عمل ہے جو کسی سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔*
▪️ *تنقید کے آداب:* ● *جس شخص پر تنقید کی جارہی ہو اس کا نقطہ نظر پوری دیانت داری سے سمجھا جائے۔* ● *اگر اسے کہیں بیان کرنا مقصود ہو تو بے کم و کاست (یعنی بغیر کسی کمی یا اضاف�� کے) بیان کیا جائے۔* ● *جس دائرے میں تنقید کی جارہی ہے، اپنی بات اسی دائرے تک محدود رکھی جائے۔* ● *اگر کوئی الزام یا مقدمہ قائم کیا جائے تو وہ ہر لحاظ سے ثابت اور موکد ہو۔* ● *مخاطب کی نیت پر حملہ نہ کیا جائے ، بلکہ استدلال تک محدود رہا جائے۔* ● *بات کو اتفاق سے اختلاف کی طرف لے جایا جائے نہ کہ اختلاف سے اتفاق کی طرف۔* ● *پیش نظر ابطال نہیں بلکہ اصلاح ہو۔* ● *اسلوب بیان شائستہ ہو۔*
▪️ *اختلاف کے آداب:* ● *اختلاف کو تلاشِ حق اور اتفاقِ امت کا ذریعہ بنائیں* ● *اختلاف برائے اختلاف نہ ہو بلکہ اختلاف برائے اصلاح ہو* ● *اختلاف کی بنیاد قرآن و سنت پر ہو* ● *اگر اپنے موقف کے برعکس کوئی دلیل مل جائے تو پیچھے ہٹ جائیں* ● *ہمیشہ اپنے موقف میں لچک رکھیں اور خندہ پیشانی سے دوسرے کا موقف سنیں* ● *حتی الوسع اختلاف رائے سے اجتناب کریں* ● *اپنی اصل طاقت بھائی چارہ اور اخوت کو بنائیں* ● *اختلاف کا مقصد کسی کی دل آزاری ، عیب جوئی ، شخصیت کی تنقیص نہ ہو* ● *آختلاف برائے اختلاف سے بچنا بے حد ضروری ہے کیونکہ بگاڑ کا باعث ہے* ● *تنقید برائے اصلاح کو رواج دینا ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔* ●
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
winyourlife · 1 year ago
Text
وہ آسان طریقے جنہیں اپنا کر آپ ہر دل عزیز شخصیت بن سکتے ہیں
Tumblr media
ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عزت والا ہو، لوگ اسے محبوب جانیں۔ شخصیات کو بہتر بنانے اور خوبیوں کے لیے لوگ تگ و دو بھی کرتے ہیں۔ اسے حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو قبول کرنا پڑتا ہے، جب آپ اپنی شخصیت کو قبول کر لیتے ہیں اس کے بعد اس کی اس خواہش کی تکمیل ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیں کوئی انسان مکمل نہیں ہو سکتا، ہر کسی میں کوئی کمزوری یا عیب ہوتا ہے۔ قدرت نے ہرانسان کو دوسرے سے مختلف بنایا ہے، لوگ ایک دوسرے سے اسی وجہ سے ممتاز ہوتے ہیں۔ جب انسان اپنا احترام کرنے لگتا ہے تو وہ دوسروں کا احترام کرنا بھی سیکھتا ہے۔ یوں انسان اپنے آپ پر اعتماد کرنے لگتا ہے اور اپنے کام میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ شخصیت سنوارنے کے ماہر ڈاکٹر جمال عبدالحمید حسن نے لوگوں کے درمیان محبوب ہونے کے گُر بتائے ہیں۔
مدد کی پیش کش کرنا جب آپ دوسروں کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو لوگ آپ کے قریب ہو جاتے ہیں، آپ ان کی مشکلات پر دھیان دیں، اور ان کے مسئلے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے مناسب حل تلاش کرنے میں ان کی مدد کریں۔ اگر وہ آپ سے کوئی بات پوچھتے ہیں تو آپ ہچکچائے بغیر ان کی مدد کریں۔
دوسروں کا احترام: ہمیشہ دوسروں سے احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے، ان کے ساتھ نرم سلوک کرنا چاہیے، ان کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ سلوک کیا جائے۔ کوئی عمل کرنے سے قبل اچھی طرح سوچنا چاہیے کہ اگر ایسا ہی عمل اس کی طرف آیا تو آپ کو قابل قبول ہو گا۔
غور سے بات سننا: دوسروں سے بات کرتے وقت توجہ اور احترام کا مظاہرہ کریں، ان کی باتوں کو دھیان سے سنیں، بات میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ دوسروں کی بات غور سے سننا آپ کو ان کے قریب کر دے گا۔ لوگ آپ سے بات چیت کرنے کے خواہشمند ہوں گے۔
Tumblr media
  محفل میں مثبت باتیں کرنا لوگوں کے سامنے شکوہ و شکایات کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ بار بار شکایت کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ شخص منفی سوچ کا حامل ہے۔ اس سے لوگ گھلنے ملنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ لوگ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتے جو ہر وقت غصہ والا مزاج رکھے۔ ہر شخص کے اپنے مسائل کافی ہوتے ہیں وہ ایسی باتیں نہیں سننا چاہتا جو اسے مزید پریشان کر دیں۔ اس لیے آپ کو زندگی میں اچھی چیزوں پر توجہ دینی چاہیے، جب لوگوں کے درمیان ہوں تو ان کے ساتھ مثبت گفتگو کریں۔
باڈی لینگویج کا مثبت استعمال دوسروں کی محبت اور پیار حاصل کرنے کا ایک سب سے اہم عامل جسمانی زبان یا باڈی لینگویج ہے۔ دوسروں کے ساتھ معاملات کرتے وقت باڈی لینگویج کو مناسب اور شائستہ رکھیے۔ گفتگو کرتے وقت مخاطب کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر بات کیجیے۔
مخلصانہ تعریف: دوسروں کی تعریف کرنا ا آپس کے تعلقات بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے دوسروں میں ہمیشہ مثبت پہلو تلاش کریں، ان کے اچھے کاموں کی تعریف کریں، اس سے آپ ان کے نزدیک قابل قبول رہیں گے۔ کسی کی تعریف کرتے ہوئے جھوٹ کا سہارا مت لیں، اسی طرح حقائق سے ہٹ کر کوئی بات مت کریں۔   دوسروں کو اہمیت دینا لوگوں کے درمیان عزت اور پیار حاصل کرنے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کے اہم مواقع کو یاد رکھا جائے جیسے اپنے ذاتی مواقع کو یاد رکھا جاتا ہے، برسی کے موقع پر انہیں تحائف پیش کرنا۔ ان کی سالگرہ کو یاد رکھنا، اور جب ضرورت ہو تو ان کی مدد کرنا۔ ان امور سے آپ اردگرد کے لوگوں سے اچھے تعلقات بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 
دوسروں کو ویسے قبول کریں جیسے وہ ہیں: لوگوں سے معاملات کرتے وقت تنقید سے گریز کرنا چاہیے۔ ہر فرد کی اپنی اپنی رائے اور خصوصیت ہوتی ہے، ہر کسی کو احترام کے ساتھ قبول کرنا چاہیے، انہیں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے۔ آپ کو دوسروں پر بھی اپنی مرضی چلانے سے گریز کرنا چاہیے۔
محبت حاصل کرنے کے عام طریقے 1- اچھے اخلاق والا انسان بنیں، اپنی خوشی کی تلاش کرنے سے پہلے ہمیشہ دوسروں کی خوشی کی تلاش کیجیے۔ دوسروں کو خوش کرنے میں اکثر اوقات آپ کو خوشی ملتی ہے۔ 2- آپ کو ہمیشہ روشن اور مثبت پہلو کی طرف دیکھنا چاہیے، جلد بازی سے بچنا چاہیے، اور مایوس ہوئے بغیر ہر مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ 3- ہر ایک کے دوست بنیں، عمر، جنس، مذہب، یا ثقافت پر دھیان نہ دیں۔
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
gamekai · 2 years ago
Text
اردو تنقید کو مغربی دانش سے روشناس کرانے والے محمد حسن عسکری کا تذکرہ -
اردو تنقید نگاری میں محمد حسن عسکری صاحب کی حیثیت ایک معمار کی ہے جن کی تحریریں غیرمعمولی اور منفرد ہیں۔ افسانہ نگاری اور تراجم کے علاوہ وہ اسلامی ادب کی نظریہ سازی میں بھی مشغول رہے۔ یہ ان کی زندگی کے آخری برسوں کی بات ہے۔ آج اردو زبان کے صفِ‌ اوّل کے اس نق��اد کی برسی ہے۔ اردو زبان و ادب نے محمد حسن عسکری کی فکر اور تنقید کی بدولت کئی محاذ سَر کیے جس نے ان کے ہم عصروں کو بھی متأثر کیا۔ ان کا…
View On WordPress
0 notes
nadiaumberlodhi · 3 years ago
Text
مشرف عالم ذوقی کے فکشن میں تانیثی اور ثقافتی ڈسکورس کے تناظر میں
مشرف عالم ذوقی کا فکشن تانیثی اور ثقافتی ڈسکورس کے تناظر میں —————مشرف عالم ذوقی مابعد جدید فکشن نگار تھے –مشرف عالم ذوقی ایسے لکھاری تھے جن کے 14 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہیں – وہ کالم نگار بھی تھے –مابعد جدید معاشرتی صورت حال میں آپ کا قلم نئے مسائل کو اجاگر کرتا نظر آتا ہے –ہندوستانی معاشرے میں ایک مسلمان کی حیثیت ،مقام اور مجبوریوں کو بے باکی سے آپ نے بیان کیا –مشرف عالم ذوقی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
bazmeurdu · 3 years ago
Text
ڈاکٹر صفدر محمود : پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ
آپ ذہنی طور پر کتنے ہی تیار کیوں نہ ہوں کسی عزیز دوست یا پرانے رفیق کی رحلت کی خبر آپ کو ایک دفعہ ہلا ضرور دیتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ڈاکٹر صفدر محمود کے ضمن میں ہوا کہ اگرچہ مرحوم اور اُن کی تحریروں کے ساتھ تعارف کی عمر تو نصف صدی سے بھی کچھ زیادہ تھی مگر گزشتہ تین دہائیوں میں یہ رشتہ دوستی کی شکل میں ڈھل چکا تھا۔ اُن کا مضمون پولیٹیکل سائنس اور پیشہ تدریس اور بیوروکریسی رہا لیکن ادب سے تعلق اور تاریخِ پاکستان سے گہرا شغف ہمارے درمیان ایک ایسے پُل کی شکل اختیار کر گیا کہ صورتِ حال کچھ کچھ ’’خبر تحیّر عشق سن‘‘ والی ہو گئی اور اُن سے محبت اور اپنائیت کا رشتہ ایک اہم اثاثے کی شکل اختیار کرتا چلا گیا ۔ اُن کا آبائی تعلق کھاریاں کے ایک نواحی قصبے ’’ڈنگہ‘‘ سے تھا۔ پنجابی میں ڈنگا کا لفظ ٹیڑھے کی معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے‘ اس لیے تفننِ طبع کے طور پر احباب اُن سے اکثر یہ سوال بھی کرتے تھے کہ آپ جیسے شریف اور سیدھے آدمی کا ’’ڈنگہ‘‘ میں پیدا کیا جانا اپنی جگہ پر صنعتِ تضاد کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے وہ ا��ن منتخب لوگوں میں سے تھے جنہیں اپنی علمیت جھاڑنے کا سرے سے کوئی شوق نہیں ہوتا مگر وہ اُن کی تحریر و تقریر سے ہمہ وقت اپنی وسعت اور گہرائی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔
انھیں بجا طور پر یہ گِلہ تھا کہ شعر و ادب کی درمیانے درجے کی کتابوں کو اول نمبر کے علم و تحقیق کی حامل کتابوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور سنجیدگی سے تنقید و تحقیق کرنے والوں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ صحیح معنوں میں حقدار ہوتے ہیں اور دیگر ممالک کے برعکس قومی اعزازات کی تقسیم کے وقت بھی انھیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، پاکستان کی تاریخ اور تحریک پر مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے دیکھا جائے تو یقیناً ان کا کام اعلیٰ ترین اعزازات کا مستحق تھا ، میں نے انھیں زندگی بھر بہت کم بولتے اور بحث کرتے سنا ہے مگر اُن کی ہر کتاب اس بات کی شاہد ہے کہ خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے تب نظر آتی ہے اک مصرعہٗ تر کی صُورت تاریخ تو ان کا مضمون تھا ہی مگر وہ ادب کے بہت سنجیدہ اور عمدہ قاری تھے اُن کی اپنی نثر بھی بہت رواں دواں اور ہموار ہوا کرتی تھی اور وہ اُن چند محققین میں سے تھے جن کے اخباری کالم بھی بہت شوق اورتوجہ سے پڑھے جاتے تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد چند سال قبل وہ بھی ڈیفنس کے اُسی سیکٹر میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوئے جہاں میں پہلے سے مقیم تھا لیکن اُن سے زیادہ تر ملاقات جمعے کی نماز کے وقت مسجد میں ہی ہوا کرتی تھی۔
ایک دن اچانک خبر ملی کہ وہ اپنی بیگم کے ہمراہ امریکا اپنے بچوں کے پاس جا رہے ہیں کچھ عرصہ بعد میری بیگم نے جو اُن کی بیگم کی سہیلی بھی ہیں بتایا کہ وہ بغرضِ علاج امریکا ہی میں رک گئے ہیں جب کہ ان کی بیگم واپس آگئی ہیں، اس دوران میں یہی سمجھتا رہا کہ ان کی اس علالت کا تعلق عمر سے ہے اور جلد اُن سے ملاقات ہو جائے گی پھر امریکا سے کسی دوست نے بتایا کہ نہ صرف وہ بہت زیادہ بیمار ہیں بلکہ ان کی یادداشت بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے جس سے رنج میں مزید اضافہ ہوا، چند ماہ قبل اِسی حالت میں اُن کو واپس وطن لایا گیا جہاں وہ اسی ذہنی گمشدگی کے دوران خاموشی سے رخصت ہو گئے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ جس شخص کی یادداشت اپنی جگہ تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہو اُسے اپنا نام تک یاد نہ رہے۔ میرے نزدیک ڈاکٹر صفدر محمود ہمارے دور کے ایک بہت نامور تاریخ دان، مصنف اور تجزیہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت مہذب، قابلِ فخر اور قیمتی انسان بھی تھے جن کی رحلت ہمارے معاشرے کو غریب تر اور مجھے ایک پیارے دوست سے محروم کر گئی ہے ۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران صحافی عبدالرحیم یوسف زئی، چلڈرن کمپلیکس کے ملازمت کے زمانے کی رفیق ڈاکٹر فائزہ اصغر اور اردو اور پشتو کی مشہور ادیبہ زیتون بانو کے علاوہ اور ایک اور بہت اچھے ہم عصر لکھاری طارق اسماعیل ساگر بھی داغِ مفارقت دے گئے ہیں، رب کریم ان سب کی روحوں کو اپنی امان میں رکھے اور انھیں بلند درجات عطا فرمائے۔ طارق بھائی سے میری ذاتی اور براہ راست ملاقات تو زیادہ نہیں تھی مگر نہ صرف میں اُن کے کام سے ہمیشہ آگاہ رہنے کی کوشش کرتا تھا بلکہ برادرم شہزاد رفیق کی فلم ’’سلاخیں‘‘ کے مکالمے لکھنے کے دوران اُن سے ایک غائبانہ سی قربت بھی رہی، اُن کی رحلت پر بہت سے احباب نے فیس بک وغیرہ پر تعزیت کے پھول بھیجے ہیں مگر مجھے سب سے زیادہ شہزاد رفیق ہی کی ایک مختصر تحریر نے متاثر کیا ہے جس کا عنوان انھوں نے ’’خشک پتوں کی طرح لوگ اُڑتے جاتے ہیں‘‘ رکھا ہے وہ لکھتے ہیں۔
الوداع طارق اسماعیل ساگر صاحب الوداع، آپ کا ناول ’’میں ایک جاسوس تھا‘‘ ایف ایس سی میں تھا جب میں نے پڑھا آپ سے تعارف و تعلق کا سبب یہ ناول تھا اور محبت شفقت اور احترام کا رشتہ قائم ہوا جس پر مجھے ناز ہے آپ ایک خاموش مجاہد تھے، آپ کے جسم پر پڑے ہوئے زخموں کے نشانات کی پوری قوم مقروض ہے اور رہے گی۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کر جنرل تک سب نے کاکول اکیڈمی جانے سے پہلے آپ کے ناول ضرور پڑھے ہوں گے مرحوم کی خدمات حساّس اداروں سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میری فلم ’’سلاخیں‘‘ کی کہانی اسکرین پلے طارق صاحب کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے اور ’’سلیوٹ ‘‘ کے ریسرچ ورک کا کریڈٹ بھی آپ کا ہے۔ بیماری سے پہلے ایک اسکرپٹ پر کام کر رہے تھے شائد قدرت کو منظور نہ تھا۔ سر آپ کو سلیوٹ۔‘‘ آخر میں ایک سلیوٹ ڈاکٹرصفدر محمود کے لیے بھی کہ میرے نزدیک تحریک و تاریخ پاکستان کا کوئی مطالعہ اُن کی کتابوں کو پڑھے بغیر ممکن اور مکمل نہیں ہو سکتا ایک شعر جو ان کی زندگی میں انھیں سنانے کا موقع نہ مل سکا اُسی پر اسی تعزیتی کالم کا اختتام کرتا ہوں یقیناً وہ اسے سن کر اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے کہ اُن کے داد دینے کا طریقہ یہی تھا۔
سرِ عام کھول کے رکھ دیے جو بھی واقعے تھے چُھپے ہوئے نہیں وقت سا کوئی صاف گو بڑی بدلحاظ ہے ہسٹری
امجد اسلام امجد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 years ago
Text
ہم سب کتابوں کی طرح ہیں۔۔۔ اکثریت محض ہمارا سرورق دیکھنے پر اکتفا کرتی ہے۔۔۔۔اقلیت ہمارا تعارف پڑھ لیتی ہے، کچھ لوگ ہم پر کئ گئ تنقید پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔۔ اور محض دو چار لوگ ہی وہ ہوتے ہیں جو ہمارے اندر کے مشمولات سے واقف ہوتے ہیں۔
–ایمیلے زولا
(فرانسیسی ناول نگار)
‎#اردو ‎ #urdu
3 notes · View notes
alibabactl · 4 years ago
Text
💜معلومات اردو ادب💜
س۔1۔
*آورد* ۔ جب شاعر ارادی طور پر فکر سخن میں بیٹھے اور شعر کہنے کے بعد اس کے لفظ و بیان اور ترتیب و تنظیم پر غور و غوض کرے اور بہتر پیرایہ میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔
س2۔
*ابتذال*۔ کلام میں غیر مہذب سوقیانہ اور بازاری الفاظ لانا یا ایسا کلام کہنا جس کا مضمون شائستگی سے بعید ابتذال کہلاتا ہے ۔
س۔3۔
*استعارہ*۔ استعارہ علم بیان کی اصطلاح ہے جس کا معنی ادھار لینا ہے کسی شے کے لوازمات اور خصوصیت کو کسی دوسری شے سے منسوب کرنا ۔
س۔4۔
*اشتراکیت* ۔ شخصی ملکیت کے تصور اور اجتماعی ملکیت کا فلسفہ جس میں معاشرے کے افراد میں ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم و اشتراکیت کہلاتا ہے۔
س5۔
*المیہ*۔ المیہ اس ڈرامے کو کہتے ہیں جس کو پڑھنے یا دیکھنے سے قاری یا ناظر میں رحم یا خوف دونوں جزبات پیدا ہوں یعنی وہ ڈرامہ جس کے واقعات میں حزنیہ فضا ہو اور وہ اپنے اختتام پر قاری یا ناظر کو حزیں افسردہ ہمدرد اور اندوہ گیر چھوڑ دے ۔
س۔6۔
*انشا پرداز*۔ کسی نثر پارے میں دو چیزیں قابل توجہ ہوتی ہیں اول مواد دوم اسلوب اگر کسی نثر پارے ک�� اسلوب نہایت نرالا شعرانہ اور متخیلہ کی کرشمہ سازی کا حامل ہے تو وہ نثر پارہ اپنے اسلوب کی بدولت زندہ رہتا ہے اردو میں رجب علی بیگ سرور محمد حسین آذاد ملا وجہی اور غالب ایسے صاحب طرز انشا پرداز ہیں جن کی نثر شاندار اسلوب کی بنا پر ہمیشہ سے مقبول ہے ۔
س۔7۔
*ایجاز* ۔ کسی موضوع کو کم سے کم ممکنہ حرفوں میں ادا کرنا ایجاز کہلاتا ہے۔
س۔8۔
*علم بدیع* ۔ یہ شعری تنقید کی ایک اصطلاح ہے چنانچہ علم بدیع وہ علم ہے جس میں کلام کی خوبیوں سے بحث کی جاتی ہے۔
س۔9۔
*بحر* ۔ یہ علم عروض کی اصطلاح ہے شعر جس وزن پر کہے جاتے ہیں اس کا اصطلاحی نام بحر ہے ۔
س۔10۔
*بلاغت* ۔ اس سے مراد پہنچنا اثر آفرینی اور کلام کا سریع الفہم ہونا ہے بلاغت ہر وہ زریعہ ہے جس سے ہم اپنے معنی کو خوبصورت انداز میں فصاحت کے ساتھ سامع تک پہنچاتے ہیں اور سامع کے دل میں وہی اثر پیدا کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے دل میں ہوتا ہے۔
س۔11۔
*تاثر* ۔ وہ جزباتی اثر جو قاری سامع یا ناظر کسی فن پارے کو پڑھ س یا دیکھ کر فوری طور پر قبول کرتا ہے تاثر کہلاتا ہے۔
س۔12۔
*تجسیم* ۔ غیر مرئی حقائق جبلات یا عادات وغیرہ کو حرکی مادی جسم میں ڈھال کر پیش کرنا تجسیم کہلاتا ہے ۔
س۔13۔
*تجنیس* ۔ یہ ایک صنعت شاعری ہے اس سے مراد ہم جنس ہونا اور ہم صوتیت ہے کلام میں دو ایسے الفاظ استعمال کرنا جو تلفظ یا املا یا دونوں میں مشابہت رکھتے ہوں لیکن معنوں میں اختلاف ہو تجنیس کہلاتا ہے۔
س۔14۔
*تحریف* ۔ پیروڈی کا لفظ یونانی الاصل ہے اردو می اس کے لیے تحریف کی اصطلاح رائج ہوئی کسی شاعر کے سنجیدہ کلام کو معمولی رد وبدل سے مضحکہ خیز بنا دینا یا کسی سنجیدہ کلام کی اس طرح نکل اتارنا کہ وہ مضحک بن جاے ۔
س۔15۔
*تخلص* ۔ شاعر اپنے ذاتی اور خاندانی نام کے علاوہ جو نام شعرانہ شناخت کے طور پر اپناتا ہے اسے اصطلاحاً تخلص کہلاتا ہے ۔
س۔15۔
*خطاب* ۔ جو بادشاہ یا سرکار سے اعزازی طور پر ملتا ہے جیسے علامہ الدولہ وغیرہ۔
س۔16۔
*لقب* ۔ ایک وصفی نام جو کسی خصوصیت یا وصف کی وجہ سے پڑ گیا ہو جیسے مرزا نوشہ لقب ہے اسد اللہ خان غالب کا ۔
س۔17۔
*ترفع*۔ تنقید کی عظیم اور قدیم اصطلاح ہے جو دوسری صدی عیسوی سے رائج ہے ترفع کسی فن پارے کی وہ خوبی ہے جس کے باعث اس کا اسلوب عام سطح سے بلند ہو کر خاص امتیاز کا حامل ہو جاتا ہے ۔
س۔18۔
*تصرف* ۔ یہ عمومی طور پر شعری اصطلاح ہے جس سے دخل دینا اختیار قبضہ وغیرہ مراد ہے کسی شاعر یا نثر نگار کے کلام میں کچھ ردوبدل کرکے ایک نئی معنوی کیفیت پیدا کرنا تصرف کہلاتا ہے۔
س۔19۔
*تصوّف* ۔ یہ روحانیت کی اصطلاح ہے فرد کے روحانی تجربے کو تصوف کہتے ہیں تصوف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صاحبِ حال کے تجربے میں آتا ہے یہ فرد کی مکمل تنہائی کا تجربہ ہے جو ناقابل بیان ہے یعنی اس تجربے کا ابلاغ نہیں ہو سکتا کیونکہ ابلاغ عمرانی ہے۔
س۔20
*تضاد* ۔ یہ ایک شعری صنعت ہے جب کلام میں ایسے الفاظ لاے جائیں جو معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہوں صنعت تضاد کہلاتی ہے
س۔21۔
*تقریظ*۔ کسی ادب پارے کے بارے میں تبصرہ کرنا عکاظ کے مقام پر ایک میلہ لگتا تھا جہاں ایک شعری نشست منعقد کی جاتی تھی صدر محفل ک��ی ایک قصیدے کو دوسرے پر برتری دے کر اس کی خوبیوں اور محاسن پر ایک بلیغ تقریر کرتا تھا اسے تقریظ کہتے تھے۔
س۔22۔
*تلمیح* ۔ تلمیح کی اصطلاح علم بدیع کے حصے میں آئی ہے کلام میں کوئی ایسا لفظ یا مرکب استعمال کرنا جو کسی تاریخی مذہبی یا معاشرے واقعے یا کہانی کی طرف اشارہ کرے تلمیح ہے ۔
س۔23۔
*تنقید* ۔ کسی فن پارے کے محاسن کو معیاراتِ فن کے مطابق پرکھنا جانچ پڑتال کرنا اور اندرونی حاسبہ جمال کی مدد سے اس کی قدر وقیمت کا تعین کرنا "تنقید" کہلاتا ہے۔
س۔24۔
*جزئیات نگاری* ۔ کسی واقعے یا امیج کو شاعری یا افسانے میں بیان کرتے وقت اس کے نہایت معمولی حصے کو بھی مدِ نظر رکھنا جزئیات نگاری کہا جاتا ہے۔
س۔25۔
*خارجیت* ۔ یہ تنقید شعر کی اصطلاح ہے جو خارجی واردات لوازمات اور متعلقات میں راہ کر شاعری کرے وہ خارجیت پسند ہوتا ہے خارجیت پسند شاعر زندگی کی بیرونی سطح دیکھتا ہے
س۔26۔
*مقفیٰ نثر* ۔ ایسی نثری عبارت جس کے فقروں میں وزن نہ ہو لیکن قافیہ کا استعمال کیا گیا ہو ۔
س27۔
*مسجع نثر* ۔ ایسی عبارت جس کے ایک فقرے کے الفاظ دوسرے فقرے کے الفاظ میں ہم وزن اورہم قافیہ ہوں ۔
28۔
*صنعت حسن تعلیل* ۔ حسن تعلیل ایسی شعری صنف ہے جس میں شاعر کسی واقعے کی اصل منطقی جغرافیائی یا سائنسی وجہ نظر انداز کر کے ایک تخیلاتی جزباتی اور عین شاعرانہ وجہ بیان کرے
؎پیاسی جو تھی سپاہِ خدا تین رات کی
ساحل سے سر ٹپکتی تھیں موجیں فرات کی۔
س۔29۔
*راجائیت*۔ ادبی اصطلاح کے طور پر آرزو مندی زندگی سے محبت اور پر امید لہجہ اختیار کرنا ۔
س۔30۔
*ریختی*۔ ایسی نظم جو عورتوں کے بارے میں عورتوں کی طرف سے لکھی جاے ۔
س31۔
*شہر آشوب* ۔ وہ نظم جس میں کسی ملک شہر یا معاشرے کے اقتصادی سیاسی یا معاشرتی دیولیہ پن مجلسی زندگی کے پہلوؤں کا نقشہ طنزیہ انداز میں پیش کیا جاے ۔
س۔32۔
*واسوخت*۔ ایسی نظم جس میں شاعر اپنے محبوب کی بےوفائی تفافل اور رقیب کے ساتھ اس کے تعلق کی شکایت کرتا ہے اور ساتھ ہی کسی اور محبوب کے ساتھ واسطہ ظاہر کر کے اسے دھمکاتا ہے ۔
س33۔
*رمزوایمائیت*۔ رمزوایمائیت سے مراد کسی پوشیدہ بات کو اشاروں میں بیان کرنا ۔
س34۔
*تغزل*۔ یہ ایک شعری اصطلاح ہے تغزل اس کیفیت کا نام ہے جو شاعری میں لطیف و اثر اور حسن و درد پیدا کرتی ہے۔
؎چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ۔
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے ۔
س35۔
*سہل ممتنع* ۔ ایسا شعر جو اس قدر آسان لفظوں میں ادا ہو جاے کہ اس کے آگے مزید سلاست کی گنجائش باقی نہ رہے ۔
؎ تم میرے پاس ہوتے ہو گویا ۔
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ۔
س۔36۔
*امیجری* ۔ کسی امیج کو زبان دینا شاعر یا ادیب الفاظ کے زریعے سے وہ تصویریں پیش کرتا ہے جو تہ درتہ کیفیات کی شکل میں اس کے زہنی تجربوں میں آتی ہیں اور خارجی دنیا میں اس کا وجود نہیں ہوتا۔
س۔37۔
*خمریات*۔ یہ بنیادی طور پر شاعری کی اصطلاح ہے ایسی شاعری جس میں شراب اور متعلقات شراب کا بکثرت زکر ہو اسے خمریات کہتے ہیں ۔
س۔38۔
*داخلیت*۔ ادب میں داخلیت سے مراد یہ ہے کہ شاعر اپنی قلبی واردات اپنے نجی جزبات و احساسات میں ہی اپنی تخلیقی زندگی گزارتا ہے ۔
س۔39۔
*دبستان* ۔ جب بہت سے ادیب اور شعرا ایک مخصوص علاقے اور زمانے کی طرز بود و باش اور سماجی اقدار سے متاثر ہو کر ادب میں ایک ہی طرز فکر اور انداز نظر اپناتے ہیں تو اسے دبستان کہا جاتا ہے۔ جیس دبستان لکھنو دبستان دہلی
س۔40۔
*رعایت لفظی* ۔ رعایت لفظی شاعری و نثری اصطلاح ہے لفظوں کی مناسبت سے ایک ایسی دلچسپ اور مضحکہ خیز صورت حال کو سطح پر لانا جو پہلے نظروں سے غائب تھی مثلاً اے بی اور بی اے میں تجنیسی
ربط ہے
Copied
17 notes · View notes
urduclassic · 4 years ago
Text
راحت اندوری کے پانچ شعر جو ہمیشہ زندہ رہیں گے
بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر راحت اندوری کرونا کی شاعری کی سب سے بڑی خاصیت عوام سے جڑ کر رہنا تھا۔ ایک قسم کے شاعر وہ ہوتے ہیں جن کی کوشش ہوتی ہے کہ شعر کسی کی سمجھ میں مشکل سے آئے اور لوگ چراغ لے کر اس میں معنی ڈھونڈتے رہیں۔ کئی بڑی محنت کر کے اپنی شاعری کو حالاتِ حاضرہ سے کوسوں پرے رکھتے ہیں تاکہ کسی کو یہ گمان نہ گزرے کہ شاعر پر موجودہ سیاسی، سماجی یا معاشرتی صورتِ حال کا کوئی اثر پڑ رہا ہے۔  دوسری قسم کے شاعر وہ ہوتے ہیں جنہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ پانچ سو سال بعد کا ادب انہیں کس طرح یاد رکھے گا۔ وہ لمحۂ موجود میں جیتے ہیں اور اپنی شاعری کے موضوعات آس پاس کے واقعات سے اٹھاتے ہیں۔
راحت اندوری دوسرے قبیلے سے تعلق رکھنے والے شاعر تھے۔ حالات حاضرہ پہ کہنا ہو یا مزاحیہ شاعری کے ذریعے لوگوں کو محظوظ کرنا ہو، ان کے الفاظ پر پورا مجمع ایک دم واہ واہ کی صداؤں سے گونج اٹھتا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’آج کل دو ٹکے کے لوگ بھی خود کو بڑا شاعر بنا کے پیش کرتے ہیں لیکن میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں بڑا شاعر ہوں، کوشش ہے کہ زندگی میں کوئی ایک شعر اچھا کہہ لوں۔‘ یہ بات وہ ہر مشاعرے میں دہراتے تھے۔  یہی بات راحت اندوری کی بھی تھی۔ بے شک اندوری صاحب نے بھی کروڑوں لوگوں کے دل جیتے ہیں۔ ویسے تو ان کے سینکڑوں شعر ایسے ہیں جو لوگوں کے دلوں اور زبانوں پر زندہ ہیں، میری نظر میں راحت اندوری کے مندرجہ ذیل پانچ اشعار کا نقش آسانی سے نہیں مٹے گا۔
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟
پلوامہ حملے کے بعد اور بالخصوص پارلیمانی انتخابات برائے 2019 کے دوران یہ شعر بہت ہٹ رہا گو کہ راحت اندوری نے یہ شعر اس سے بہت پہلے کہا تھا۔ بدقسمتی سے ہندوستان و پاکستان دونوں کی اندرونی سیاست ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے پر مبنی ہے۔ مذہبی اقلیتیں دونوں ممالک میں محفوظ نہیں لیکن مزے کی بات ہے کہ دونوں اپنے ملکوں میں انہیں حقوق و تحفظ دینے کے بجائے ان کے استحصال پر ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔ چناؤ کے دوران ایک دوسرے کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ راحت اندوری کا یہ شعر بہت دیر تک ہندوستان و پاکستان کی سیاسی منظر کشی پیش کرتا رہے گا-
دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے اے موت تو نے مجھے زمیندار کر دیا
شعر کے لفظ سادہ ہیں لیکن مطلب رونگٹے کھڑے کر دینے ��الا ہے۔ یہ شعر سامراجیت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ کس طرح سے سامراجی نظام مزدوروں و محنت کشوں کا لہو پیتا ہے یہ اس کی بھر پور ترجمانی کر رہا ہے۔ یہ شعر پڑھنے کے بعد میرا ذہن ہمیشہ پریم چند کے شہرہ آفاق ناول گئودان پر چلا جاتا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار ہوری کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کے گھر میں ایک گائے آئے لیکن عمر بھر شب وروز کی مشقت کے باوجود اس کی یہ تمنا پوری نہیں ہوتی۔ وہ مزدور جس سے خوب کام لیا جاتا ہے اور اس کی محنت کا سر پلس سیدھا زمیندار و سرمایہ دار کی جیب میں جاتا ہے - کرائے کے گھر یا جونپڑی میں رہ کر مشقت کرنے والا مزدور جس کو زندگی بھر اپنا گھر بھی میسر نہیں آتا، مرنے کے بعد دو گز کا مستقل مالک بن جاتا ہے۔ اب مرنے کے بعد اس مکان سے کوئی اسے بےدخل نہیں کر سکتا۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
ویسے یہ پوری غزل ہی کمال کی ہے اور اس کا ایک ایک شعر اپنے اندر ایک معنویت رکھتا ہے لیکن یہ شعر اپنی مثال آپ ہے۔ 73 سالہ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور دلتوں کی کھلے عام تضحیک کے اوپر اس شعر سے بڑا جواب ہو نہیں سکتا۔ اس شعر کو ایک طرح سے آئین ہند کے دیباچے کا شعری روپ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
اس شعر کا پہلا حصہ تو ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی پر مرثیہ ہے جبکہ دوسرے حصے میں مسلمانوں کی عظیم تاریخ پر قصیدہ خوانی کی ہے۔
سب کی پگڑی کو ہواؤں میں اچھالا جائے سوچتا ہوں کوئی اخبار نکالا جائے
موجودہ دور کے میڈیا پر کارپوریٹ مافیا کا کنٹرول اور میڈیا سنسر شپ پر یہ شعر سو فی صد صادق آتا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر بھی آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح مخصوص لوگوں کو بلا کر دوسروں پر بے بنیاد الزام لگائے جاتے ہیں اور پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ میڈیا جس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کرتا نظر آتا ہے - ڈاکٹر راحت اندوری یکم جنوری 1950 کو پیدا ہوئے اور عالمی شہرت یافتہ اردو شاعر تھے۔ آپ سات کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ 40 سے 45 سالوں تک اردو مشاعروں کی دنیا پر راج کرنے والا اندوری کل دنیا کو الوداع کہہ گیا۔
محمد ارشد چوہان (کالم نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں ریسرچ سکالر ہیں)
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
5 notes · View notes
emergingpakistan · 4 months ago
Text
مقبول میسجنگ ایپ ٹیلی گرام کے بانی پاول دروف کون ہیں؟
Tumblr media
39 سالہ پاول دروف روس میں پیدا ہوئے تھے مگر اب وہ دبئی میں رہتے ہیں۔ ٹیلی گرام ایپ کو بھی دبئی سے چلایا جا رہا ہے۔ فوربز میگزین کے مطابق دروف کے پاس 15.5 ارب ڈالر کے اثاثے ہیں۔ دروف نے 2013 کے دوران ٹیلی گرام کی بنیاد رکھی تھی۔ انھوں نے 2014 میں روس چھوڑ دیا تھا جب حکومت نے ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’وی کے‘ پر حزب اختلاف کی سرگرمیوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی وہ کمپنی فروخت کر دی تھی۔ دروف کی جانب سے صارفین کا ڈیٹا دینے سے انکار پر روس میں 2018 کے دوران ٹیلی گرام پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مگر 2021 میں یہ پابندی ہٹا دی گئی تھی۔ فیس بک، یوٹیوب، واٹس ایپ، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور وی چیٹ کی طرح ٹیلی گرام کو بھی بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر روس، یوکرین اور سابقہ سوویت یونین ریاستوں میں ایک مقبول میسجنگ ایپ ہے۔
Tumblr media
دروف کے پاس فرانس اور متحدہ عرب امارات دونوں کی شہریت ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ روس اب بھی انھیں ایک روسی شہری تصور کرتا ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ فرانس میں روسی سفارتخانے نے اس گرفتاری کے بعد فوری اقدامات کیے ہیں، اس کے باوجود کہ انھیں دروف کے نمائندوں کی طرف سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی تھی۔ سفارتخانے کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس گرفتاری پر وضاحت طلب کی ہے اور دروف کو قونصلر رسائی اور تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکام روس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ٹیلی گرام پر یہ سوال پوچھا ہے کہ کیا انسانی حقوق کی مغربی تنظیمیں دروف کی گرفتاری پر خاموش رہیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے دوران روس میں ٹیلی گرام کی بندش پر انھی تنظیموں نے تنقید کی تھی۔
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urduintl · 10 months ago
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے میثاق مفاہمت کی حمایت کرتے ہوئے عدالتی اور الیکشن اصلاحات کا مطالبہ کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ میں محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپے کی مذمت کرتا ہوں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی وجہ سے صدارتی الیکشن کو بلاوجہ متنازع کیا جارہا ہے، بلاول بھٹو نے محمود اچکزئی کے گھر پر مبینہ چھاپے کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل بھی کردی۔
بعد ازاں سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اپنے خاندان کی تیسری نسل کا نمائندہ ہوں جو اس ایوان میں دوسری بار منتخب ہوا ہوں، اس عمارت کا جو بنیادی پتھر ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا تھا، یہ قومی اسمبلی کسی ایک کی نہیں سب کی ہے، قومی اسمبلی کا ایوان ہم سب کا ہے، قومی اسمبلی کو مضبوط بنانا عوام کو مضبوط بنانا ہے، جب ہم قومی اسمبلی کو کمزور کرتے سہیں تو وفاق، جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں، ہمیں اس نظام کو کمزور نہیں مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہے، تمام ارکان سے درخواست ہے کہ ایسےفیصلے کریں جس سےقومی اسمبلی مضبوط ہو۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم اس جمہوری ادارے کو طاقتور بنائیں گے، ایسے فیصلے لیں گے جس سے نوجوانوں کا مستقبل بہتر ہو، آئندہ آنے والے ہمیں دعائیں دیں کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے لیے اچھے فیصلے کیے، ایسا نہ ہو آئندہ آنے والے ہمیں گالیاں دیں کہ قومی اسمبلی کےساتھ کیا کیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ ایوان تمام اداروں کی ماں ہے، عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ ہم انہیں مشکلات سے نکالیں گے۔
بلاول بھٹو نے درخواست کی کہ احتجاج کے نام پر ایک دوسرے کو گالیاں نہ دی جائیں اور قومی اسمبلی میں تمام تقریریں سرکاری ٹی وی پر لائیو دکھائی جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے کارکنوں اور امیدواروں پر حملے کیے گئے ہیں، ہمیں ایسا نظام بنانا چاہیے کہ کارکنوں کو جان قربان نہ کرنی پڑے۔
بلاول بھٹو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایوان میں کہا کہ اس ایوان میں کسی ایک جماعت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، عوام نےایسا مینڈیٹ دیا کہ تمام جماعتوں کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنے ہوں گے، عوام نے الیکشن مین بتایا کہ وہ ہماری آپس کی لڑائی سے تنگ آگئے ہیں، اب ہمیں آپس میں بات کرنی ہوگی، عوام نے ہمیں گالیاں دینے نہیں بلکہ مسائل کے حل کے لیے ووٹ دیا ہے۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیاست کا ضابطہ اخلاق بنالیں گے تو 90 فیصد مسائل ختم ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ شہباز شریف کو وزیراعظم نہیں مانتے تو ان کی پالیسی پر آپ تنقید نہیں کرسکتے ہیں، وزیراعظم نے جو نکات کل اٹھائے ان پر عمل کرکے بحران سےنکل سکتے ہیں، ہم آپ کو دعوت دے رہے ہیں کہ پاکستان اور عوام کو معاشی مشکل سے نکالیں۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے مگر آمدن میں اضافہ نہیں ہورہا ہے، ،ملک میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا سونامی ہے، ہم سالانہ ایک ہزار 500 ارب امیروں کو سبسڈی میں دے دیتے ہیں، غیر ضروری وزارتیں اور امیروں کو سبسڈی دینا بند کرنا ہوگی، امیروں سے سبسڈی کو ختم کرکے غریب عوام کو ریلیف دینا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میثاق معیشت پر کوئی ایک جماعت فیصلے نہیں کرسکتی ہے، شہباز شریف موقع دے رہے ہیں کہ آئیں مل کر عوام کو معاشی بحران سے نکالیں، وزیراعظم کی پالیسی میں آپ کا مؤقف شامل ہوگا تو بہتر پالیسی بن سکے گی۔
سابق وزیر خارجہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں عدالتی اور الیکشن سے متعلق اصلاحات کرنے ہوں گے، عدالتی، الیکشن ریفارمز پر اپوزیشن بھی ہمارا ساتھ دے، اگر ہم نے مل کر یہ اصلاحات کرلیں گے تو کوئی جمہوریت کو کمزور نہیں کرسکتا، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا الیکشن ہو جہاں وزیراعظم کے مینڈیٹ پر کوئی شکوک نہ ہو، ہم چاہتے ہیں شہباز شریف جیتیں یا قیدی نمبر 804 الیکشن جیتے لیکن کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ میں ملک کا وزیرخارجہ ہوں، جانتا ہوں سائفر کیا ہوتا ہے، اس سائفر کی ہر کاپی کاؤنٹ ہوتی ہے صرف ایک کاپی ہم گن نہیں سکے وہ وزیر اعظم کے آفس میں تھی، خان صاحب نے خود مانا کہ انہوں نے ایک خفیہ دستاویز کھو دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جلسے میں ایسے لہرانے کی بات نہیں تھی، یہ آڈیو لیک کی بھی بات نہیں ہے، میرے نزدیک مسئلہ یہاں شروع ہوتا کہ جب خان صاحب کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اگلے دن گرفتاری کے بعد وہ سائفر ایک غیر ملکی جریدے میں چھپ جاتا ہے تو اگر آپ عوام کو بے وقوف سجھتے ہیں تو آپ غلط ہیں، ہم جانتے ہیں کہ جان بوجھ کے کسی نے اس سائفر کو سیاست کے لیے انٹرنیشنل جریدے میں چھپوایا تاکہ کیسز کو متنازع بنایا جائے، جب آپ خفیہ دستاویز کو پبلک کرتے ہیں تو قومی سلامتی داؤ پر لگتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی آئین کی خلاف وزری کرتا ہے تو اس کے سزا دلوانی چاہیے، اگر یہ ہم سے جمہوریت کی بات کریں گے تو میں کہوں گا کہ آپ ہوتے کون ہیں یہ بات کرنے والے، میں اس شخص کا نواسا ہوں جس نے تختہ دار پر ہوتے ہوئے بھی اصولوں کا سودا نہیں کیا، یہ جو لوگ یہاں ہیں جو احتجاج کر رہے ہیں، جن کو 6 مہینے سے جمہوریت یاد آرہی ہے تو اگر انہیں لیکچر دینا ہے تو ایک دوسرے کو دیں ہمیں نا دیں، یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب پر جھوٹا الزام لگائیں اور ہم جواب نا دیں، لیکن میں ان کے جھوٹ کاپردہ فاش کروں گا۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ میں اس قسم کی حرکتوں سے خود مایوس نہیں ہوتا مگر پاکستانی عوام اس قسم کی حرکتوں کو پسند نہیں کرتے، اگر یہ کوئی غیر جمہوری کام کریں گے تو میں ان کے خلاف کھڑا ہوجاؤں گا، یہ ہمارا فرض ہے کہ سب سے پہلے اپنا فرض ادا کریں نا کہ دوسروں پر تنقید شروع کردیں۔
سابق وزیر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے علی امین گنڈاپور نے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے کہ اس انکوائری کے مطابق ملزمان کو سزا اور بے قصور کو رہا کردینا چاہیے، تو یہ مجھے یقین دہانی کروائیں کہ ہم جو جوڈیشل کمیشن بنوائیں گے تو اس کا فیصلہ ماننا پڑے گا، یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شہدا کے میموریل پر حملہ کرے اور ہم اسے بھول جائیں،ہم وزیر اعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنائیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے آپ درخواست کریں کے وہ اس کمیشن کے سربراہ بن کے مئی 9 کے بارے میں تحقیقات کروائیں اور ملزمان کو سزا دلوائیں۔
اس دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے بلاول کی تقریر پر احتجاج اور شورشرابہ شروع کردیا، بلاول بھٹو نے کہا کہ میری باتیں حذف کردیں، مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔
اِس پر اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ یہ بلاول بھٹو زرداری کا بڑا پن ہے، بعدازاں نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایوان سے روانہ ہوگئے۔
0 notes
urduu · 5 years ago
Text
اردو بچوں کا کھیل نہیں۔۔😴
اردو ادب کی اصطلاحات
اردو ادب کے دامن میں ان گنت تراکیب و اصطلاحات موجود ہیں۔ ہم اردو ادب کی اصطلاحات سے بہت حد تک شناسا ہونے کے باوجود ان سے کلی طور پر کم ہی واقف ہو پاتے ہیں۔ گرچہ یہ موضوع بہت وسیع ہے تاہم ان سے کسی حد تک واقف ہونے کے لیے ذیل میں فقط ان اصطلاحات کی فہرست درج ہے۔
علوم قواعد
1۔علمِ صرف 2۔ علمِ نحو 3۔ علمِ عروض 4۔علمِ شعر 5۔ علمِ قافیہ 6۔ علم معانی / علم بدیع 7۔علم بیان 8۔ علمِ لغت 9۔ علمِ اشتقاق 10 ۔ علمِ انشا 11 ۔ علمِ خط 12 ۔ علمِ تاریخ
علم بیان کی چار اقسام میں تشبیہ ، استعارہ، کنایہ ، مجاز مرسل شامل ہیں۔
تخلیقی ادب
تخلیقی ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب۔
افسانوی ادب غیر افسانوی ادب
داستان ۔ ناول ۔ افسانہ ۔ ڈراما مقالہ ۔ مضمون ۔ تاریخ ۔ (سوانح/ سوانح حیات / آپ بیتی /خود نوشت سوانح )۔ خود نوشت ۔ (خاکہ/خاکہ نگاری) – سفر نامہ ۔ طنز و مزاح ۔ (مکتوب/خط)
(ڈائری/روزنامچہ) ۔ انشائیہ ۔ (تذکرہ / تذکرہ نگاری) ۔ دیباچہ، مراسلہ ۔ روزنامچہ ۔ تبصرہ ۔ لغت نویسی ۔ رپورتاژ
نظم و نثر
نثر شاعری
(کہانی /مختصر کہانی )
ڈراما ۔ ناول ۔ ناولیٹ
افسانہ ۔ افسانچہ ۔
( خاکہ/ خاکہ نگاری ) ۔
انشائیہ ۔ سفرنامہ ۔
(سوانح /سوانح حیات ) ۔
(داستان / قصہ )
فلم ۔ پیروڈی ۔تنقید ۔
(کالم/ بیانیہ / مقالہ /مضمون)
( حمد ۔ نعت/نعتیہ قصیدہ ۔ مدح ۔ قصیدہ ۔ منقبت ۔ مناجات ۔ سلام ۔ مرثیہ۔شخصی مرثیہ ۔ شاہنامہ ۔ رزمیہ/رزم نامہ )
( غزل ۔ مثنوی ۔جدید مثنوی ۔ نظم ۔ پابند نظم ۔ شہرآشوب ۔ واسوخت ۔ ریختی ۔ہجو ۔ تلمیح )
(ثلاثی ۔ رباعی ۔قطعہ ۔ مخمس ۔مسدس )
( ماہیا ۔ سہرا ۔ دوہا ۔ گیت ۔)
بیرونی زبانوں کی ہئیتیں
(معریٰ نظم ۔ آزاد نظم ۔ سانیٹ ۔ ترائیلے ۔ ہائیکو ۔ نثری شاعری ۔)
نظم کی اقسام :
موضوعاتی نظم ، نیچرل نظم ، وطنی نظم ، قومی نظم ، رومانی نظم ، انقلابی نظم ، علامتی نظم ، آزاد نظم ، معری نظم ، جدید نظم )
غزل کی اقسام :
( مردف غزل ، غیرمردف غزل )
غزل کے اجزائے ترکیبی : ( 1۔ ردیف 2۔ قافیہ 3۔ مطلع 4۔ مقطع)
نظم کو موضوعات کے حوالے سے مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں واسوخت۔قصیدہ۔ شہرآشوب۔مرثیہ۔ شامل ہیں
صنعتی شاعری اور صنعتوں کی اقسام ترميم
علم میں مختلف قسم کی صنعتیں بیان کی جاتی ہیں۔اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ا۔صنائع لفظی :۔
ب۔ صنائع معنوی:۔
صنائع لفظی صنائع معنوی
صنعتِ تجنیس ۔ صنعتِ تثلیث ۔ صنعتِ اشتقاق ۔ صنعتِ شبہِ اشتقاق ۔ (صنعتِ تکریر/صنعتِ تکرار )۔ صنعتِ تصحیف ۔
صنعتِ توسیم ۔ صنعتِ ایداع ۔(صنعتِ متتابع /استتباع) ۔(صنعتِ تزلزل /متزلزل) ۔(صنعتِ قلب /مقلوب ) ۔
صنعتِ ردا لعجز علی الصدر ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الارض ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الابتدا ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الحشو ۔صنعتِ مجنح
صنعتِ محاذ ۔ صنعتِ قطار العبیر ۔ صنعتِ تفریح ۔ صنعتِ قلب ۔ صنعتِ مقلوب ۔ صنعتِ مثلث ۔
صنعتِ ترصیع ۔صنعتِ ایہام۔صنعتِ مبادلہ الراسین ۔ صنعتِ تضمین المزدوج ۔ صنعتِ ترافق۔( صنعتِ نظم والنثر / سہل ممتنع)
(صنعتِ مربع/چہار در چہار) ۔صنعتِ مدور ۔ صنعتِ اقسام الثلثہ ۔ صنعتِ سیاق الاعداد ۔صنعتِ مسمط ۔ صنعتِ توشیح ۔
صنعتِ ترصیح ۔صنعتِ متلون ۔ صنعتِ مخذف ۔ (صنعتِ ذوالقوافی/ ذوالقافتین)۔ صنعتِ مشجر ۔(صنعتِ لزوم ما لا یلزم )۔
(صنعتِ حذف / قطع الحروف) ۔(صنعتِ عاطلہ / مہملہ / غیر منقوطہ) ۔ صنعتِ منقوطہ ۔ صنعتِ خیفا ۔ صنعتِ رقطا ۔
صنعتِ فوق النقاط ۔ صنعتِ تحت النقاط ۔ صنعتِ واصل الشفتین۔صنعتِ واسع الشفتین ۔ صنعتِ جامع الحروف ۔
صنعتِ مخلوط ۔ صنعتِ منشاری ۔ صنعتِ مقطع یا غیر موصل ۔صنعتِ مقابلہ ۔ صنعتِ اربعہ الحروف ۔ صنعتِ معجزہ الاستہ والشفا ۔
صنعتِ متحمل المعانی ۔ صنعتِ معرب ۔صنعتِ افراد ۔ صنعتِ موصل ۔ صنعتِ اظہارِ مضمر ۔ صنعتِ معما ۔ ( صنعتِ نغز / چیستاں / پہیلی )
صنعتِ تابع مہمل ۔ صنعتِ اشارہ ۔ صنعتِ تلمیح ۔
(صنعتِ تضاد/ طباق ) ۔ صنعتِ تذبیح ۔ (صنعتِ ایہام / تضاد )۔ ( صنعتِ ایہام / توریہ ) ۔ (صنعتِ استباح / مدح الموجہ )
(صنعتِ مراۃ النظیر /تناسب) ۔ ( صنعتِ تنسیق الصفات )۔ صنعتِ براعت الاستہلال ۔ صنعتِ تشابہ الاطراف ۔
صنعتِ سوال و جواب ۔ صنعتِ اطراد ۔ صنعتِ ارصاد ۔ صنعتِ تاکید المدح بما یشبہ الذم ۔ صنعتِ تاکید الذم بما یشبہ المدح ۔
صنعتِ الحاق النجزی بالکلی ۔ صنعتِ تجرید ۔صنعتِ مقابلہ ۔ صنعتِ متحمل الضدین ۔ صنعتِ ہجوِ ملیح ۔ صنعتِ استدراک ۔
صنعتِ تجاھلِ عارفانہ ۔ صنعتِ لف و نشر ۔ صنعتِ جمع ۔صنعتِ تفریق ۔ صنعتِ تقسیم ۔ صنعتِ جمع و تفریق ۔
صنعتِ جمع و تفریق و تقسیم ۔ صنعتِ رجوع ۔ صنعتِ حسنِ تعلیل ۔ صنعتِ مشاکلہ ۔ صنعتِ عکس ۔
صنعتِ قول بالموجب ۔ صنعتِ مذہبِ کلامی ۔ صنعتِ مذہبِ فقہی ۔ صنعتِ ادماج ۔ صنعتِ مبالغہ ۔ صنعتِ تعجب ۔
صنعتِ جامع اللسانین ۔ صنعتِ ذو رویتین ۔ صنعتِ ذو ثلثہ ۔ صنعتِ ترجمہ اللفظ ۔ صنعتِ ابداع ۔ صنعتِ تصلیف
صنعتِ صلب و ایجاد ۔ صنعتِ کلامِ جامع ۔ صنعتِ ایرادالمثل / ارسال المثل ۔ صنعتِ استخدام ۔
صنعتِ الہزال الذی یراد بہ الجد / ہزل ۔ صنعتِ تلمیح ۔ صنعتِ نسبت ۔ صنعتِ اتفاق / حسنِ مقطع ۔ صنعتِ اتساع
صنعتِ تضاد ۔صنعتِ سوال و جواب ۔ صنعتِ تجنیس ۔
1۔صنعتِ اہمال 2۔ صنعتِ لزوم مالایلزم 3۔صنعتِ ہما 4۔ صنعتِ ابہام
5۔ صنعتِ مُبالغہ 6۔صنعتِ حُسن التعلیل 7۔صنعتِ طباق 8۔صنعتِ مراعات النظیر
9۔ صنعتِ لف و نشر 10۔صنعتِ مہملہ 11۔صنعتِ تلمیح 12۔صنعتِ معاد
13۔صنعت رجوع 14۔صنعتِ ترصیح 15۔صنعتِ تنسق الصفات 16۔صنعتِ سیاق اعداد
17۔صنعتِ ذو قافیتین و ذو القوافی 18۔صنعتِ جمعیت الفاظ 19۔صنعتِ تضاد 20۔صنعتِ ضرب المَثَل
صنعت توشیع
اردوتنقید میں مستعمل دیگر اصطلاحات ترميم
آزاد تلازمہِ خیال ۔ آفاقیت ۔ آہنگ ۔ (آزاد نظم / فری ورس )ابتذال ۔ ابدیت ۔ اجتماعیت ۔ اجتماعی لاشعور ۔(اجمال / اختصار / ایجاز ) ۔ ادب برائے ادب ۔ ادب برائے زندگی ۔ ادب لطیف ۔ ( ارتفاع / عروج / بلندی ) ۔ استعارہ۔
اشتراکیت ۔اشتقاق ۔اشکال ۔ اصلیت /واقعیت ) ۔ انفرادیت ۔ (ایہام/ توریہ) ۔ ایہام تناسب ۔ ایہام گوئ ۔
بدیع ۔ (برجستہ /برجستگی) ۔ (بلینک ورس / نظم معری) ۔ بیت الغزل۔ (بورژوا / پرولتاریہ) ۔ بورژوازی۔ پرولتاریہ ۔بیان(علم) ۔ پلاٹ ۔ ( پیکر/ پیکر تراشی ) ۔ (تجاہل عارفانہ / تجنیس) ۔ تحلیلِ نفسی ۔ تخیل ۔ ترقی پسند ادبی تحریک
ترقی پسندی ۔ تخلص ۔ تلمیح۔ تشبیب ۔ تحت اللفظ ۔تشبیہ۔ تزکیہ Catharsis ۔ تشبیہ ۔ (تضاد / طباق ) ۔ تضمین۔تعقید ۔ تغزل ۔ تفحص الفاظ ۔ تقریظ ۔ تکنیک۔تلمیح ۔تمثیل ۔ تنافر ۔توالی اضافات ۔ توجیہ ۔ ٹکسالی زبان
جدت ادا ۔ جدلیاتی مادیت ۔ جمالیات ۔ (جوش/جوش بیان) ۔ (چیستان / معما) ۔ حسن تعلیل ۔ (حشو/ زوائد) ۔ (حقیقت پسندی / حقیقت نگاری) ۔ (فطرت پسندی / فطرت نگاری) ۔ خارجیت ۔
داخلیت۔ دبستان ۔ ربط ۔ رجعت پسندی ۔ رزمیہ ۔(رعایت لفظی / مناسبت لفظی) ۔ روایت ۔ رومانویت ۔ردیف ۔ روزمرہ ۔ ریختی ۔ زٹل ۔ زمین
سادگی ۔ سراپا ۔ماورائے حقیقت پسندی ۔ سرقہ ۔سلاست۔ سلام ۔ سوز و گداز۔ سوقیانہ ۔ سہلِ ممتنع ۔ شاعری ۔ شعر ۔ شعور کی رو ۔ ( شکوہِ الفاظ / شوکتِ الفاظ ) ۔ شہر آشوب ۔
صنعت ۔ ( صنمیات / اساطیر/ دیومالا) ۔ ضرب المثل ۔ ضرب‌المثل ۔ضعفِ تالیف ۔ضلع جگت ۔ طبقاتی کشمکش ۔ ظرافت ۔ بذلہ ۔ پند ۔طنز ۔ مزاح ۔ ہزل ۔
عقلیت ۔ علامت ۔علامتیت ۔ عملیت ۔ ( عینیت / تصوریت / مثالیت ) ۔ ( غرابت / غریب ) ۔ (فاشزم / فسطائیت ) ۔ فحاشی۔ فرد ۔ فصاحت ۔ بلاغت ۔ قافیہ ۔قولِ محال ۔ قافیہ ۔
کردار ۔ (کلاسک/کلاسیک)۔کلاسیکیت ۔ کنایہ ۔ کنایہ ۔ گرہ ۔ گلدستہ۔ گریز۔لاشعور ۔لف و نشر ۔ لہجہ ۔مادیت ۔ مبالغہ ۔ مجاز ۔ مجازِ مرسل ۔مطلع ۔مقطع ۔مصرع ۔محاکات ۔ محاورہ ۔ مراعات النظیر ۔ مزاح ۔ (مضمون / مضمون آفزینی)
معاملہ بندی ۔ علمِ معانی ۔ ( معنی / معنی آفزینی ) ۔ ( مہملہ / مہملا) ۔ مجاز مرسل ۔ محاورہ ۔( موضوع )
نازک خیالی ۔ نثرِ عا ری ۔ نثرِ مرجز ۔ نثرِ مسجع ۔ نثرِ مقفی ۔نشاۃ الثانیہ ۔ نعت ۔( نقطہِ عروج / منتہی ) ۔ نوٹنکی ۔ نوحہ ۔ نیچرل شاعری ۔ واسوخت ۔ واقعہ نگاری ۔ وجدان ۔ وحدتِ تاثر ۔ وحدتِ ثلاثہ ۔ ہزل ۔ہیرو-
13 notes · View notes
hassanriyazzsblog · 2 years ago
Text
🌹🌹 🅼🆄🆃🆄🅰🅻 🆁🅴🆂🅿🅴🅲🆃
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
6️⃣5️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *MUTUAL RESPECT*
*Addressing the Prophet of Islam ﷺ, the Quran states: “O people, your religion is for you, and my religion is for me.”*
(Quran 109:6)
*This verse explains how to create a harmonious environment in a society where people of diverse religious traditions coexist.*
*The simple formula which applies to such situations is ‘to follow one and respect all.’*
*This is the only valid principle of maintaining peace in a multi-religious society.*
*In this world of differences, it is not possible to eliminate differences.*
*In such a situation there is only one viable solution, and that is tolerance.*
*That is, give everyone the right to choose the religion or culture of their choice.*
*We can hold a peaceful dialogue with each other on the issue of differences, but trying to eliminate the differences will only create more differences.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *باہمی احترام :*
*اللہ سبحانہ و تعالی نے دیگر مذاہب و عقائد کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا ایک سنہرا اصول بتایا ہے کہ : "اے لوگو تمہارا دین تمہارے لیے ہے اور میرا دین میرے لیے ہے۔"*
(قرآن 109:6)
*اس آیات کے ذریعے ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں متنوع مذہبی روایات کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہوں وہاں ہم آہنگی کا ماحول کیسے بنایا جائے۔*
*اس کا سادہ سا اصول یہ ہے کہ ہم اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزاریں اور دوسرے لوگوں کے مذہب اور عقیدے کا احترام کریں۔*
*ایک کثیر مذہبی معاشرے میں امن کو برقرار رکھنے کا یہی ایک واحد درست اصول ہے۔*
*اختلافات کی اس دنیا میں اختلافات کو ختم کرنا ناممکن ہے۔*
*ایسی صورت حال میں ایک ہی قابل عمل حل ہے اور وہ ہے "رواداری"۔*
*یعنی ہر کسی کو اپنی پسند کا مذہب یا ثقافت چننے کا حق دیں۔*
*ہم اختلافات کے معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ پرامن مذاکرات تو کر سکتے ہیں، لیکن اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کرنے سے مزید اختلافات پیدا ہونے کی گنجائش رہتی ہے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
🍁 *"اختلافات" زندگی کا حُسن ہوتے ہیں :*
▪️ *دنیا اختلافات سے بھری پڑی ہے۔ ہر کسی کو اختلاف ہوتا ہے، کسی کو کم اور کسی کو شدید۔ اختلافات کئی طرح کے ہوتے ہیں کچھ ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں، کچھ سرکاری، قومی اور بین الاقوامی سطح کے، کچھ اختلافات خوامخواہ کے ہوتے ہیں۔*
▪️ *اختلافات زندگی کا حُسن ہوتے ہیں۔ یہ اتنے حُسین ہوتے ہیں کہ یکسر کسی کی زندگی کا رُخ بدل دیتے ہیں۔ اس کی سوچ اور فکر کو ایک نئی راہ پر ڈال کر اس کے لیے کامیابی کے راستے کھول دیتے ہیں۔ یہ اتنے پاور فُل ہوتے ہیں کہ بعض اوقات مجموعی زندگیوں میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی لے آتے ہیں۔*
🍃 *سرکار ﷺ نے فرمایا: "میری اُمت کا اختلاف رحمت ہے۔"*
▪️ *تنقید اختلاف کا حصہ ہے، تنقید ذہنی افق کو وسیع کرتی ہے۔ تنقید علمی تحفہ ہے۔ تنقید اور اختلاف سے انسان خود کو دریافت کر سکتا ہے۔ تنقید سے ایک گفتگو کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں اور انسان کے اندر تخلیقی سوچ کو پیدا کرتی ہے۔ تنقید اور اختلاف کو اگر تحمل سے برداشت کیا جائے تو خود اعتمادی کی دولت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔*
▪️ *مشاورت کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا کہ جب مشورہ کیا جاتا ہے تو اس میں بہت سے لوگ اختلاف بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعد میں کسی اچھے نتیجہ پر بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اختلاف کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ہم تذلیل کو بھی اختلاف رائے کا نام دے دیتے ہیں۔ ہم سر عام بے عزتی کر کے کہتے ہیں یہ تنقید ہے۔*
▪️ *اختلاف رائے تو نعمت ہے اور تنقید ایک علمی تحفہ ہے۔*
▪️ *لیکن مجموعی طور پر ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اختلاف ہماری زندگیوں میں کیسے تبدیلی لا سکتا ہے۔ اختلاف کیسے کیا جائے۔ تنقید کو کیوں کر برداشت کیا جائے۔ تنقید اور تذلیل میں کیا فرق ہے ۔ اس لیے کہ یہ تمام چیزیں ہماری تربیت اور معیار کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں تخلیق میں جمود ہے اس لیے کہ علمی موضوعات ہوں یا دوسرے معاملات ہم اس پر اختلاف رائے کرتے ہیں اور پھر کرتے ہی چلے جاتے جس کا مقصد دوسرے کو زچ کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔*
▪️ *تعمیری اختلاف کا حُسن یہ ہے کہ اس کا انجام کسی ایک نقطے پر اتفاق پر ہوتا ہے۔*
▪️ *اگر اتفاق نہیں بھی ہوتا تو وہ سوچ کے کئی نئے اُفق سامنے لے کر آتا ہے۔*
▪️ *لیکن ہمارے ہاں اول تو تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ خود اختلاف کے حق کو انجوائے کیا جاتا ہے لیکن دوسرے کو یہ حق نہیں دیا جاتا۔*
▪️ *ہمارے ہاں ایک اور طریقہ بھی رائج ہے۔ ہم اختلاف کر کے پھر اس کو دوسرے پر مسلط بھی کرنے لگتے ہیں۔*
▪️ *اختلافات نظریات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مقلدانہ ذہنیت بھی ہے۔ جو جس نقطے پر کھڑا ہے وہ اس پر ڈٹ جاتا ہے۔ عموماً شخصیت پرستی بھی اس کی وجہ ہے۔*
▪️ *اکثر دوست احباب کے درمیان کسی موضوع پر اختلاف ہو جاتا ہے۔ وہ اس اختلاف کو شخصیات سے منسوب کر اس کے تمام دوسرے پہلوں پر سوچ کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی دلیل کوئی معنی نہیں رکھتی۔*
▪️ *لیکن ایک صاحب علم کے لیے سب سے اہم چیز تبادلہ خیال ہوتی ہے، تنقید ایک موضوع ہوتا ہے یہ دو شخصیات کے درمیان صرف ڈسکشن ہی تو ہے۔*
▪️ *جب شخصیات کے اثر اور اپنے مخصوص نظریات سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو انسان کتنا آزاد ہے۔ وہ آزادانہ غور و فکر کر سکتا ہے۔ اور اس فکر سے ترقی کے تمام راستے کھلتے ہیں۔*
▪️ *یہ آزادانہ فکر تنقید مانگتی ہے۔ یہ چاہتی ہے اس کے ساتھ ہر کوئی اختلاف کرے۔ اور پھر یہ سوچ ایک رہنما سوچ بن جاتی ہے۔*
▪️ *بصورت دیگر انسان وہی سوچتا ہے جو اس پر مسلط ایک شخصیت سوچتی ہے اور وہ تمام عمر وہی سوچتا چلا جاتا ہے۔*
▪️ *وہ کسی دلیل اور اختلاف کو نہیں مانتا۔ اس کی بنیاد پر وہ خوامخواہ کے اختلافات سے نہ صرف اپنا وقت برباد کرتا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔*
▪️ *تنقید اور اختلاف کو ایک اصول کی نظر سے دیکھنا چاہیے نہ کہ اس کو ذاتی سمجھا جائے یا شخصی۔*
▪️ *تنقید کا موضوع اتنا دلچسپ ہے کہ اسے نصاب کا حصہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔*
▪️ *جو لوگ تنقید برداشت نہیں کرتے وہ اپنے اندر چھپی صلاحیتیوں سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتے۔*
▪️ *تنقید اجتہاد کے راستوں کو بھی کھولتی ہے۔ جہاں اجتہاد رُک جاتا ہے وہاں ترقی رُک جاتی ہے۔*
▪️ *لیکن اس کے لیے تنقید کا تنقید ہونا ضروری ہے نہ کہ تنقیص۔*
▪️ *تنقید علمی اور منظقی تجزیہ ہے جبکہ تنقیص جسے خوامخواہ کا اختلاف بھی کہا جا سکتا ہے، کا سارا انحصار عیب جوئی اور الزامات تراشی اور دوسرے کی تذلیل پر ہوتا ہے جس کا حاصل باہمی بغض و عناد اور منافرت ہے جس سے معاشرے میں فتنہ و فساد اور انارکی کا راستہ کھلتا ہے۔*
▪️ *ہماری تربیت جو خوامخواہ اختلافات پر مبنی ہے اس کو آنے والی نسلوں میں منتقل نہیں ہونے دینا چاہیے۔*
▪️ *اس وقت ہمارے معاشرے کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام سکھانے کی ضرورت ہے۔ اختلاف کے لیے بلند کی جانے والی آواز دلیل ہو نہ کہ گالی۔*
▪️ *تنقید کو مسکرا کر ویلکم کرنے سے ہمار�� اندر برداشت کے رویوں کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔*
▪️ *اختلافات کے ساتھ دوسروں کو قبول کرنا سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔*
▪️ *یہ سب ممکن ہے جب ہم اپنے اپنے خول سے باہر نکلیں گے۔ یہ خول مخصوص نظریات اور شخصیات کا خول ہے جو ہم پر قابض ہو چکا ہے۔*
▪️ *اس کے بعد جو اختلافات اٹھیں گے وہ ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ ورنہ خوامخواہ کی تنقید اور اختلافات تخریب کو جنم دیتے رہیں گے۔*
▪️ *یہ ایک عالم گیر سچائی ہے کہ آخری کامیابی حق ہی کو حاصل ہوتی ہے۔*
▪️ *چنانچہ، اگر حق سے گریز کی جائے گی تو آدمی کامیابی سے یقیناًمحروم ہی رہے گا، خواہ یہ حق کسی ایسے آدمی کے پاس ہو جو ہمارے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے اور خواہ ہماری آرا برسوں کی سوچ بچار کا نتیجہ ہی کیوں نہ ہوں۔*
▪️ *فکر و نظر کی دنیا میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔یہ غو رو فکر کا مسلسل عمل ہے جو کسی سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔*
▪️ *تنقید کے آداب:* ● *جس شخص پر تنقید کی جارہی ہو اس کا نقطہ نظر پوری دیانت داری سے سمجھا جائے۔* ● *اگر اسے کہیں بیان کرنا مقصود ہو تو بے کم و کاست (یعنی بغیر کسی کمی یا اضافے کے) بیان کیا جائے۔* ● *جس دائرے میں تنقید کی جارہی ہے، اپنی بات اسی دائرے تک محدود رکھی جائے۔* ● *اگر کوئی الزام یا مقدمہ قائم کیا جائے تو وہ ہر لحاظ سے ثابت اور موکد ہو۔* ● *مخاطب کی نیت پر حملہ نہ کیا جائے ، بلکہ استدلال تک محدود رہا جائے۔* ● *بات کو اتفاق سے اختلاف کی طرف لے جایا جائے نہ کہ اختلاف سے اتفاق کی طرف۔* ● *پیش نظر ابطال نہیں بلکہ اصلاح ہو۔* ● *اسلوب بیان شائستہ ہو۔*
▪️ *اختلاف کے آداب:* ● *اختلاف کو تلاشِ حق اور اتفاقِ امت کا ذریعہ بنائیں* ● *اختلاف برائے اختلاف نہ ہو بلکہ اختلاف برائے اصلاح ہو* ● *اختلاف کی بنیاد قرآن و سنت پر ہو* ● *اگر اپنے موقف کے برعکس کوئی دلیل مل جائے تو پیچھے ہٹ جائیں* ● *ہمیشہ اپنے موقف میں لچک رکھیں اور خندہ پیشانی سے دوسرے کا موقف سنیں* ● *حتی الوسع اختلاف رائے سے اجتناب کریں* ● *اپنی اصل طاقت بھائی چارہ اور اخوت کو بنائیں* ● *اختلاف کا مقصد کسی کی دل آزاری ، عیب جوئی ، شخصیت کی تنقیص نہ ہو* ● *آختلاف برائے اختلاف سے بچنا بے حد ضروری ہے کیونکہ بگاڑ کا باعث ہے* ● *تنقید برائے اصلاح کو رواج دینا ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔* ●
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
pakistantime · 5 years ago
Text
عورت مارچ کے نتائج خطرناک ہوں گے
عورت مارچ پوری ملک میں زیر بحث ہیں، تنقید بھی ہو رہی ہیں اور تائید کرنے والے بھی میدان میں ہیں، اس بحث میں شدت اس وقت آئی جب ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان صاحب اور ماروی سرمد صاحبہ کے درمیان اس موضوع پر تلخ اور نامناسب جملوں کا تبادلہ ہوا. عورتوں کا عالمی دن منانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ دن اس لیے بھی منانا انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین ان حقوق سے محروم ہیں جو چودہ سو سال پہلے اسلام نے انہیں عطا کیے تھے۔ 
خواتین کے عالمی دن پر خواتین کے حقوق کی بات ہونی چاہیے۔ ان پر ہونے والے ظلم و ستم پر بات ہونی چاہیے، وراثت میں ان کے حصہ پر بات ہونی چاہیے، کم عمری میں ہونے والے شادیوں پر بات ہونی چاہیے، ان کے مرضی کیخلاف ہونے والے ان کی شادیوں پر بات ہونی چاہیے، ان کی دینی و دنیاوی تعلیم کو فروغ دینے پر بات ہونی چاہیے، اور ایسے دیگر بے شمار بنیادی مسائل جن سے آج کل کی خواتین دوچار ہیں موضوع بحث لانا چاہیے، حقائق کو معاشرے کے باشعور عوام اور ملک کی حکمرانوں کے آگے رکھنا چاہیے، ان کو دلائل اور حقائق کی بنیاد پر اس بات کو مجبور کرنا ضروری ہیں کہ وہ معاشرے میں عورت کا وہ مقام اور عظمت تسلیم کر لیں جو ان اسلام نے بطور تحفہ دیا ہے۔
لیکن خواتین کے عالمی دن کے مناسبت سے آج خواتین کے حقوق کو جس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے میں ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہوں۔ ’میرا جسم میری مرضی‘ کے علاوہ بے شمار ایسے سلوگنز اور نعرے لگائے جا رہے ہیں جن کی نہ تو اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی وہ اخلاقی طور پر ٹھیک ہیں۔ ان متنازعہ نعروں کی وجہ سے عورتوں کے حقوق کے کے لیے چلنے والی تحریک کو نہ صرف نقصان پہنچا بلکہ ان خواتین کی کوششوں پر بھی پانی پھرنے کی کوشش کی گئی جو عرصہ دراز سے تمام تر مفادات سے بالاتر ہو کر خواتین کے جاری استحصال کے خلاف مصروف عمل تھیں۔
متنازعہ عورت مارچ کی منتظمین خواتین اصل مسائل اور ان کے حقوق پر بات کرنے کی بجائے غیر ضروری نعروں اور مغربی کلچر کے فروغ پر بات کرتی ہیں جس سے عام لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہیں کہ وہ کسی مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں جس کی وجہ سے لوگ خواتین کا عالمی دن منانے سے متنفر ہو رہے ہیں، اور ان کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا احترام کیا جاتا ہیں، اس کو عزت دی جاتی ہیں، وہ محروم ہیں تو اپنے حقوق سے محروم ہیں، ان کے حقوق پر بات ہونی چاہیے۔ خواتین کے حقوق کے نام نہاد علم بردار جو نعرے لگا رہے ہیں وہ اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں جس سے خواتین کے حقوق کے لیے اٹھنے والی اصل آوازوں پر منفی اثر پڑے گا۔
اس سے انتشار پھیلے گا، اور مستقبل قریب میں اس کے بہت خطرناک نتائج نکلیں گے۔ اس سے خواتین کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ مغربی معاشروں میں بے شک عورتوں کو ان کے حقوق حاصل ہیں لیکن ان کو آج وہ مقام اور عزت نصیب نہیں ہے جو ہمارے ہاں خواتین کو حاصل ہیں۔ میں مانتی ہوں یہاں بھی کچھ لوگ خواتین کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جن کی اصلاح پر کام کرنا چاہیے،اور ان کو سمجھنا چاہیے کہ عورت صرف جنس مخالف ہی بلکہ انسان بھی ہے۔ وہ صرف ماں، بہن، بیٹی، بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان بھی ہے۔ 
آٹھ مارچ خواتین کے عالمی دن کو نامناسب اور غیر ضروری نعروں کے ذریعے متنازعہ بنانے سے بہتر ہے کہ ہم ان کے اصل مسائل کو سامنے لائیں، ان کے جائز حقوق پر اسلام اور قانون کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے بات کریں، ان لاچار اور بے بس خواتین کے لیے بات ہونی چاہیے بو مظالم کے شکار ہیں۔ ہمیں مزید لگن، خلوص اور جذبے سے کام کرنا ہو گا اور عورت کو انسان سمجھنا ہو گا۔
بشریٰ محسود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note · View note