#احمد علی ریاض
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 1 year ago
Text
190 ملین پاؤنڈز کیس: ملک ریاض، احمد علی ریاض، زلفی بخاری، فرح گوگی، شہزاد اکبر کے اثاثے منجمد کر دیئے گئے
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں اشتہاری قرار دیے گئے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور ان کے بیٹے سمیت 5 ملزمو ں کی جائیدادیں منجمد کر دی ہیں۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے۔ عدالت نے ساتھ ہی سابق وزیراعظم کے معاونین زلفی بخاری اور شہزاد اکبر، فرحت شہزادی عرف فرح خان گوگی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
topurdunews · 3 months ago
Text
پنجاب پولیس کے 8 ضلعی افسران کے تقررو تبادلے
(علی ساہی) آئی جی پنجاب پولیس نے ضلع کے سطح پر متعدد ضلعی پولیس افسران ( ڈی پی او) کے تقرر و تبادلے کئے ہیں۔   تفصیلات کے مطابق آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے 8 افسران کے تقرر و تبادلے کئے جن میں شامل  احمد محی الدین جس کو  ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی او )چکوال تعینات کردیا گیا،وسیم ریاض کو ڈی پی او منڈی بہاوالدین،علی وسیم کو ڈی پی او لیہ، شہزاد رفیق اعوان کو ڈی پی او بھکر تعینات کردیا…
0 notes
thespellir · 1 year ago
Text
 کتاب تسخیر همزاد
کتاب تسخیر همزاد یکی از چند کتابی هست که در باب آموزش احضار و تسخیر همزاد نوشته شده است این کتاب نیز به شما راه های تسخیر همزاد را آموزش میدهد، چله نشینی ، مندل ، ذکر ها برای تسخیر همزاد و… در بعضی از روایات یاد شده است که همزاد یک نوع جن میباشد که در زمان تولد نوزاد او هم متولد میشود، کاملا شبیه انسان است فقط پیدایشش از آتش می باشد، که میتوان آن را تسخیر و برای انجام امور از او استفاده کرد.
کتاب تسخیر همزاد به زبان اردو نوشته شده است تالیف آن توسط صوفی سعادت علی مراد آبادی و ریاض الدین احمد دهلوی که در پاکستان نوشته شده است که 106 صفحه میباشد.
دانلود کتاب در لینک زیر دانلود کتاب https://spiritual777.ir/downloads/hamzads-conquest-book/
همزاد پنداری,همزاد در جدول,همزاد نی نی سایت,همزاد به انگلیسی,همزاد یاب,همزاد یعنی چی,همزاد بد چه میکند نی نی سایت,همزاد پنداری یعنی چه,همزاد پنداری یا همذات پنداری,همزاد یاب رایگان,همزاد به چه معناست,همزاد چیست نی نی سایت,همزاد پنداری به انگلیسی,همزاد داستایوفسکی,همزاد چیست و چگونه دفع میشود نی نی سایت تسخیر جنات,تسخیر جن نی نی سایت,تسخیر جنات کتاب,تسخير جنود الله احضار روح چارلی,احضار روح ۲,احضار روح ۱,احضار روح سعید والکور,احضار روح ۳,احضار روح ۴,احضار روح به انگلیسی,احضار روح کامرانی,احضار روح در ماین کرافت,احضار روح با سعید والکور,احضار روح فیلم,احضار روح دوبله فارسی,احضار روح در ساکورا اسکول,احضار روح ملیس و مجتبی,احضار روح خنده دار
Tumblr media
1 note · View note
urduclassic · 2 years ago
Text
مکہ سے مدینہ تک : امجد اسلام امجد صاحب کا آخری کالم
Tumblr media
ہمارے قافلے کے تین مسافر یعنی میں، میری بیگم فردوس اور بیٹا علی ذی شان امجد اس سے قبل بھی کم یا زیادہ بار اس سعادت سے بہرہ مند ہو چکے تھے لیکن میری بہو رابعہ اور پوتوں ابراہیم اور موسیٰ کے لیے یہ پہلا موقع تھا۔ مجھے رش دیکھ کر پہلی نظر میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم سب کا ایک ساتھ سارے فرائض کو ادا کرنا میری اس وقتی مگر عملی مجبوری کی وجہ سے بہت مشکل ہو گا کہ میری وجہ سے باقی سب لوگوں کو بھی مختلف طرح کے مسائل سے گزرنا پڑے گا۔ سو، میں نے کوشش کی کہ ویل چیئر کے ذریعے ہی طواف اور سعی کی منازل طے کی جائیں تاکہ بچے ان بابرکت لمحوں سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں لیکن مدینہ روانگی سے ایک رات قبل طریقہ کار میں تبدیلی پیدا کی گئی کہ علی اور رابعہ ایک مزید عمرہ کرنا چاہتے تھے۔ سو، طے ہوا کہ وہ ہم لوگوں کو اس دوسری منزل پر جہاں سے ویل چیئرز کو گزارا جاتا تھا، ایک ایسی جگہ چھوڑ دیں جہاں سے خانہ کعبہ بالکل اور پورے کا پورا سامنے ہو۔ میں ویل چیئر پر اور بچے میرے ساتھ وہاں موجود اسٹولز پر بیٹھ کر عبادت کر سکیں۔
ایسا ہی ہوا اور عبادات اور دعاؤں کے ساتھ مجھے زیادہ تر احباب کے لیے نام بنام اور باقیوں کے لیے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا وقت مل گیا اور اس کے ساتھ ہی رب کریم نے مجھے یہ توفیق بھی عنایت کی کہ میں ان سب لوگوں کے لیے بھی اپنی طرف سے معافی کے اعلان کے ساتھ ساتھ ان کی مغفرت کے لیے بھی دعائیں کر سکوں جنھوں نے زندگی کے اس سفر میں کبھی نہ کبھی میرے ساتھ بدسلوکی کی تھی کہ دل میں بار بار وہ آیت گونج رہی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ بدلہ لینا تمہارا حق ہے لیکن اگر تم معاف کر دو تو یہ بات مجھے زیادہ پسند ہے۔ مجھے یاد آیا کہ سب سے پہلے عمرے کے موقع پر عمرے اور تہجد سے فراغت کے بعد ہم لوگ فجر کی نماز کے انتظار میں تھے اور اس چھوٹے سے وقفے میں قرۃ العین حیدر، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر ہلال نقوی اور میں نے رب کریم کی عظمت اور خانہ کعبہ سے اس کی تمثالی نسبت کے بارے میں ایسی عمدہ اور انوکھی گفتگو کی تھی جس کو کبھی دہرانے کا موقع نہیں ملا۔
Tumblr media
اس بار پہلی مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا کہ حرم کے صحن میں صرف احرام میں ملبوس زائرین عمرہ کو داخل ہونے کی اجازت تھی، باقی سب مقامی یا عام کپڑوں میں ملبوس لوگوں کو نماز کے لیے دوسری منزل پر جانا پڑتا تھا۔ یہ اصول غالباً اس لیے وضع کیا گیا کہ اب سارا سال عمرے والوں کا رش لگا رہتا ہے اور انھیں صحن حرم میں طواف کے لیے جانے کا رستہ بہت مشکل سے ملتا تھا، خواتین البتہ بوجوہ اس شرط سے آزاد تھیں۔ ہمارا ہوٹل Fairmont ہر اعتبار سے اچھا اور حرم سے قریب تر تھا مگر لفٹوں کا نظام اچھے بھلے پڑھے لکھے آدمی کو چکرا دیتا تھا کہ آپ کو اپنے کمرے تک پہنچنے کے لیے دو دو لفٹیں بدلنا پڑتی تھیں اور اس پہلی لفٹ تک رسائی اپنی جگہ ایک مسئلہ تھی کہ وہاں لفٹوں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کم پڑھے لکھے یا فائیو اسٹار ہوٹلوں کے آداب اور طریقوں سے ناواقف لوگ کیسے اس صورت حال سے نباہ کرتے ہیں۔ ’’میزاب‘‘ کے نمائندے عزیزی احمد نے اپنی نوکری سے بھی زیادہ ہمارا خیال رکھا اور آمد کے لمحے سے لے کر وہاں سے رخصت کی گھڑی تک ایک کال پر موجود رہا۔ 31 جنوری کی صبح ساڑھے گیارہ بجے ہم نے اپنی کمپنی کی بھجوائی ہوئی گاڑی پر اپنا سامان رکھا اور احمد کو خداحافظ کہہ کر دیارِ نبی کی طرف روانہ ہوئے۔
ڈرائیور ذوالفقار نے بتایا کہ سفر چار گھنٹے کے لگ بھگ ہو گا۔ سابقہ تجربات کی نسبت اس بار راستے میں کوئی کچاپکا پٹھان ہوٹل نہیں ملا بلکہ ہماری موٹروے کی طرح مختلف طرح کے سروس ایریاز میں تمام مطلوبہ سہولیات مہیا کر دی گئی ہیں البتہ غالباً کرایوں کی زیادتی اور دیگر پابندیوں کی وجہ سے وہ پرانے ہوٹل کہیں نظر نہیں آئے۔ مدینہ منورہ میں ہوٹل Movin Pick کے دروازے پر وہاں کا نمائندہ عزیزی علی عباس ہمارا منتظر تھا۔ بکنگ کے مراحل ایڈوانس میں مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ سب سے اچھا کام اس نے یہ کیا کہ دونوں کمرے ساتھ ساتھ کے لیے جو اندر سے ایک بھی کیے جا سکتے تھے۔ معلوم ہوا کہ مسجد نبوی میں بھی اس بار کچھ قوانین بنا لیے گئے ہیں کہ ’’ریاض الجنہ‘‘ میں داخلے اور مختصر قیام کے لیے آپ کو موبائل App پر بکنگ کرانا پڑتی ہے جو پاکستانیوں کو خاص طور پر اس لیے بہت کم مل پاتی ہے کہ زیادہ تر ملکوں کے زائرین ویزے کے ساتھ ہی یہ بکنگ کرا لیتے ہیں اور کئی ہفتے ایڈوانس ہونے کی وجہ سے یہ انھیں مل بھی جاتی ہے جب کہ ہم سفر سے ایک دو دن قبل اس کے لیے کوشش کرتے ہیں اور چونکہ ہمارے زیادہ تر زائرین موبائل App سے آشنا بھی نہیں ہوتے اس لیے بمشکل پانچ فیصد لوگ اس میں کامیاب ہو پاتے ہیں جب کہ خواتین کا تناسب تقریبا�� صفر ہے۔
سو، میں اور علی تو ہو آئے مگر فردوس اور رابعہ کو داخلہ نہ مل سکا۔ فردوس تو چار پانچ دفعہ اس سعادت سے بہرہ ور ہو چکی ہے اس لیے اس کے لیے تو صبر کرنا ممکن تھا مگر رابعہ بے چاری تو پہلی بار آئی تھی اور وہ بھی یوں کہ پتہ نہیں دوبارہ موقع ملے یا نہ ملے۔ ظاہر ہے یہ المیہ اور بھی بہت سی خواتین کا ہو گا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ اگر عورتوں کو مردوں کے برابر بھی موقع دیا جائے تب بھی ایک دن میں زیادہ سے زیادہ دو ہزار خواتین ’’ریاض الجنہ‘‘ کی زیارت کر سکتی ہیں۔ جب ایک محتاط اندازے کے مطابق عام دنوں میں روزانہ تقریباً بیس ہزار خواتین ایک طرح کے روحانی صدمے سے گزرتی ہیں۔ اس مسئلے کا کوئی حل فی الحال سمجھ میں نہیں آ رہا مگر ہونا ضرور چاہیے کہ ہزاروں میل دور سے آئے ہوئے زائرین کے لیے یہ محرومی بہت ہی دل شکن ہے۔ مدینہ منورہ میں حسب معمول برادرم ڈاکٹر خالد عباس اسدی سے خوب ملاقات رہی۔ ان کی فیملی کے ساتھ ہم سب نے لنچ بھی کیا اور ریاض الجنہ کی زیارت کے موقع پر بھی وہ میرے اور علی کے ساتھ تھے۔ ان سے مل کر ہمیشہ دلی خوشی ہوتی ہے کہ وہ 40 برس سے اس بابرکت شہر کے مکین ہیں اور دل وجان سے اپنی اور اپنے اہل وطن کی خدمت کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد اسلام امجد صاحب کا یہ آخری کالم روزنامہ ایکسپریس کی پانچ فروری کی اشاعت میں شامل تھا جو انہوں نے مکہ اور مدینہ کے سفر کے بارے میں لکھا تھا، حق مغفرت کرے۔
امجد اسلام امجد
بشکریہ العربیہ اردو
1 note · View note
bazmeurdu · 3 years ago
Text
اردو دنیا میں آج تک سب سے زیادہ فروخت ہونیوالی سوانح عمری شہاب نامہ
''شہاب نامہ ‘‘ایسی کتاب ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں اردو دنیا میں آج تک سب سے زیادہ فروخت ہونیوالی سوانح عمری ''شہاب نامہ‘‘ ہے، قیام پاکستان کے بعد قدرت اللہ شہاب اہم عہدوں پر فائز رہے انہوں نے اپنی خودنوشت کے کئی ابواب کو اسی دور کے حالات و واقعات سے مزین کیا ، قدرت اللہ شہاب نے کتاب میں لکھا کہ میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی جس رنگ میں وہ مجھے نظرآئے۔ کتاب کے پہلے حصے میں شہاب نے بہت سے زند ہ کردار تخلیق کئے ۔ ان کرداروں میں مولوی صاحب کی بیوی ، چوہدری مہتاب دین ، ملازم کریم بخش اورچندرواتی وغیرہ ۔ چندراوتی کا سراپا یوں لکھتے ہیں۔ رنگت میں وہ سونے کی ڈلی تھی اور جلد اس کی باریک مومی کاغذ کی تھی ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں، ایک روز وہ چھابڑی والے کے پاس تاز ہ گنڈیریاں کٹوانے کھڑی ہوئی تو میرے دل میں آیا ایک موٹے گنے سے چندرا وتی کو مار مار کر ادھ موا کر دوں اور گنڈیریوں والے کی درانتی سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے دانتوں سے کچر کچر چبا ڈالوں۔‘‘
چندراوتی شہاب نامہ کا بے مثال کردار ہے جس کے اندر محبت کا الائو دہک رہا تھا، لیکن وہ زبان پر نہ لا سکی اور مر گئی ۔ کتاب کا دوسرا حصہ ''آئی سی ایس میں داخلہ اور دور ملازمت‘‘پر مشتمل ہے ۔ کانگرس ہائی کمان کا خفیہ منصوبہ جو شہاب صاحب نے جوش جنوں میں قائداعظم تک پہنچایا یہ واقعہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ کتاب کے تیسرے حصے میں پاکستان کے بارے میں تاثرات ہیں ، اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اسلامی فلاحی ریاست کیسے بن سکتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں ''ہمیں حب الوطنی کا جذبہ نہیں بلکہ جنون درکار ہے ۔‘‘ کتاب کا سب سے اہم حصہ چوتھا حصہ ہے جس میں ''دینی و روحانی تجربات و مشاہدات‘‘ بیان کیے گئے ہیں ۔ یہاں ہم ان کی کتاب کے مختصر 3 پیرا گراف پیش کر رہے ہیں ۔'' میں نے دنیا بھر کے درجنوں سربراہان مملکت ، وزرائے اعظم اور بادشاہوں کو کئی کئی مرتبہ کافی قریب سے دیکھا ہے لیکن میں کسی سے مرعوب نہیں ہوا اور نہ ہی کسی میں مجھے اس عظمت کا نشان نظر آیا جو جھنگ شہر میں شہید روڈ کے فٹ پاتھ پر پھٹے پرانے جوتے گانٹھنے والے موچی میں دکھائی دیا تھا ۔‘‘ 
''جمہوریت کا سکہ اسی وقت چلتا ہے ،جب تک وہ خالص ہو ۔ جوں ہی اس میں کھوٹ مل جائے، اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی‘‘۔۔۔۔ ''صاحب اقتدار اگر اپنی ذات کے گرد خود حفاظتی کا حصار کھینچ کر بیٹھ جائے تو اس کی اختراعی ، اجتہادی اور تجدیدی قوت سلب ہو کر اسے لیکر کا فقیر بنا دیتی ہے ۔‘‘ قدرت اللہ شہاب گلگت میں 26 فروری 1917ء کو محمد عبداللہ کے ہاں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم پنجاب کے گائوں چمکویہ، ضلع انبالہ مشرقی پنجاب سے حاصل کی، اس وقت پنجاب تقسیم نہیں ہوا تھا ۔ بی ایس سی کی ڈگری 1937ء میں پرنس آف ویلز کالج جموں و کشمیر سے حاصل کی اور ماسٹر ان انگلش لٹریچر گورنمنٹ کالج لاہور سے 1939ء میں کیا۔ اور 1941ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہو گئے، ابتداء میں بہار اور اڑیسہ میں خدمات سرانجام دیں۔ 1943ء میں بنگال میں متعین ہو گئے قیام پاکستان تک وہیں رہائش پذیر رہے ۔ 1947ء میں پاکستان آئے آزاد کشمیر کی نوزائیدہ حکومت کے سیکرٹری جنرل بھی بنے جھنگ کے ڈپٹی کمشنر رہے ، 3 سربراہان ِ مملکت کے پرسنل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیئے یہ ہی نہیں ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر جیسے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
جس وقت جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا انہوں نے استعفیٰ دیدیا ۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہو گئے اب کچھ بات ہو جائے شہرہ آفاق کتاب'' شہاب نامہ‘‘ کی، ملک میں یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے ۔ ان کی کتاب کے چار حصے کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا حصہ قدرت اللہ کا بچپن اور تعلیم وغیرہ پر مشتمل ہے۔ قدرت اللہ شہاب اپنی خود نوشت ''شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ 9 جون 1938ء سے میں نے باقاعدہ ایک ڈائری لکھنے کی طرح ڈالی ۔اس میں ہر واقعہ کو ایک خود ساختہ شارٹ ہینڈ میں لکھا ۔ ایک روز یہ کاغذات ابن انشا ء کو دکھائے ۔ ابن انشاء کے کہنے پر کافی مدت بعد قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب کو لکھا ۔ کتاب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں ''خوش قسمتی سے مجھے ایسے دوستوں کی رفاقت نصیب ہوئی جن کا اپنا ایک الگ رنگ اور اپنی شخصیت میں ایک نام رکھتے ہیں۔
مثلاََ ابن انشاء ،ممتاز مفتی، بانو قدسیہ ،اشفاق احمد واصف علی واصف ،جمیل الدین عالی ،ریاض انور ،ایثار علی ، مسعود کھدر پوش ابن الحسن برنی ،اعجاز بنالوی اورابو بخش اعوان ۔ قدرت اللہ شہاب کی وفات کے بعد ان کے بارے میں جو کتابیں شائع ہوئیں ان میں ''ذکر شہاب‘‘ اور''مراد بریشم‘‘خاص طور پر مقبول ہوئیں جبکہ ان کے خطوط کے مجموعے بھی چھاپے گئے ۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل انہی کی کوششوں سے عمل میں آئی۔ حکومت کی جانب سے انہیں ستارہ ٔ قائداعظم اور ستارۂ پاکستان بھی دیا گیا۔ انکی تصانیف میں'' یاخدا، نفسانے ، سرخ فیتہ، ماں جی اور ''شہاب نامہ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے 24 جولائی 1986ء کو اسلام آباد میں 69 برس کی عمر میں وفات پائی۔
اختر سردار چودھری
بشکریہ دنیا نیوز
3 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 5 years ago
Text
Tumblr media
مستنصر حسین تارڑ کی باتیں
انتظار حسین نے کبھی سیکس کے بارے میں نہیں لکھا، کیونکہ اسے اس کا تجربہ نہیں تھا. ایک جگہ اس نے کیا ہے بس یونہی.
محمد خالد اختر بڑے ادیب ہیں. آپ ان کو تسلسل کے ساتھ دو تین دن پڑھیں تو آپ اردو ادب میں کسی کی تحریر پڑھنے کے قابل ہی نہیں رہتے، سب پھوکی لگتی ہیں.
بیگم ریاض الدین نے تو لکھا ہی نہیں. وہ تو اردو کا ایک لفظ نہیں لکھ سکتیں. وہ انگریزی میں لکھتی تھیں،مولانا صلاح الدین احمد نے ترجمہ کیا. ان کی تیسری کتاب کیوں نہیں آئی، اس لئے کہ مولانا فوت ہو گئے ہیں.
میں مصوروں کو ادیبوں سے زیادہ بہتر تصور کرتا ہوں. مصور میں" میں" بہت کم ہوتا ہے. ادیب دوچار غزلیں یا ایک دو ناول لکھ لیتا ہے توکہتا ہے میں بہت بڑا ہوگیا ہوں.
میں نے Blindness پڑھنے کے بعد بیوی سے کہا میرا جی کرتا ہے اپنی تمام کتابیں صحن میں رکھوں اور آگ لگادوں، لٹریچر تو یار یہ ہے، ناول تو یہ ہوتا ہے.
"بہاؤ" کے کرداروں کے ناموں اور زبان کے سلسلے سید علی عباس جلالپوری، عین الحق فرید کوٹی اور ابن حنیف میرے بہت کام آئے.
مہناز نئی نئی آئی تھی، اس کا انٹرویو کررہا تھا. پوچھا آپ کا موسیقی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ ہکی بکی رہ گئی ناں، ایسا جواب دیا کہ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں دفن ہوجاؤں. کہنے لگی،جو آپ نے پوچھا ہے یہ تو مجھے پتہ نہیں، لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ میں گاسکتی ہوں، مجھ سے گانا سن لیں.
ابن انشا کو فکشن میں بھی بڑا مانتا ہوں اور شاعری میں بھی.
انتظار حسین نے نانیوں سے سیکھا، میں نے اپنی ماسیوں(خالاؤں) سے سیکھا.
میرزا ادیب بیچارے بھاٹی سے باہر کبھی گئے ہی نہیں، انہوں نےصحرا دیکھا ہی نہیں لیکن اپنے تخئیل سے جو بھی بیان کیا، لوگ اس سے لطف اندوز ہوئے، کیونکہ انہوں نے بھی صحرا نہیں دیکھا تھا.
اسماعیل قادرے کو میں فی الحال سب سے بڑا ناولٹ مانتا ہوں. اس کو نوبیل انعام اس لئے نہیں ملا کہ وہ البانیہ کا ہے لائم لائٹ میں نہیں آیا. اس کے سات آٹھ ناول سب البانیہ اور ترانہ شہر کے حوالے سے ہیں.
طاہرہ اقبال کے" نیلی بار" کا پہلا آدھا حصہ کلاسیک ہے، خالد فتح محمد کا "ٹبہ" اور "خلیج" ، اختر رضا سلیمی کا" جندر" ، عاصم بٹ کا "دائرہ"، مرزا اطہر بیگ کے ناول بڑے ناول ہیں.یہ نہیں کہ ان کے لکھنے والے جونئیر ہیں تو ہم انہیں بڑا نہ کہیں.
سینئر ہونے کا ہرگز مطلب نہیں کہ آپ ایک بڑے ادیب ہیں. اگر آپ پہلے بیوقوف ہیں تو سینئر ہوکر بھی وہی رہیں گے.
میں نے مشہور بہت کیا ہوا ہے کہ میں شاعروں کے خلاف ہوں،دراصل میں برے شاعروں کے خلاف ہوں. حسرت موہانی میرا بڑا فیورٹ شاعر ہے. حسرت کی ایک غزل عابدہ پروین نے گائی ہے.
عابدہ پروین انتہائی برا گانے والی ہے. میں اسے ایک منٹ نہیں سن سکتا. وہ بس ایک ٹون میں چلی جاتی ہے. گھوم چرخڑا گھوم، گھوم چرخڑا گھوم.. نہ کوئی سوز، بس ڈھاں ڈھاں ڈاں.
ممتاز مفتی بابا تھا فراڈ بابا. 80 سال کی عمر میں عشق میں مبتلا ہوگیا.
جس زمانے میں روز صبح ہر گھر میں سکرین پر بیٹھا ہوتا تھا، اس وقت سو میں سے سو لوگ مجھے پہچانتے تھے. اب سو میں سے پانچ پہچانتے ہیں. مجھے فکر نہیں ہوتی.
اس زمانے میں ملٹری انٹیلیجنس کے ایک بندے نے مجھے کہا ہم آپ کے بڑے شکرگزار ہیں. جب کوئی انڈین جاسوس پکڑتے ہیں تو وہ نمازیں، کلمے، قرآن سب جانتا ہوتا ہے. اچانک ہم اس سے پوچھتے ہیں، تمہیں مستنصر حسین تارڑ کا پتہ ہے، وہ کہتا ہے نہیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ یہ انڈین جاسوس ہے، پاکستانی ہوتا تو پتہ ہوتا.
میں کبھی آپ بیتی نہیں لکھوں گا، یہ ساری آپ بیتیاں ہی ہیں جو میں لکھ رہا ہوں.
30 notes · View notes
risingpakistan · 6 years ago
Text
کب تک بھٹو بیچو گے؟
پیپلز پارٹی اپنے بانی چیئرمین اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی چالیسویں برسی منا رہی ہے۔ انہیں چار اپریل 1979ء کو قتل کی سازش کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ تاہم وقت گزرنےکے بعد یہ ثابت ہوا کہ عدالت نے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دباؤ میں بھٹو کے خلاف فیصلہ دیا اور یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھٹو کی موت کو عدالتی قتل قرار دیتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے طرز سیاست سے اختلاف رکھنے والے بھی ان کی سیاسی قابلیت کے معترف ہیں۔ بھٹو کے قلیل دور اقتدار میں کیے گئے فیصلوں کو ملک کی مختصر جمہوری تاریخ کے اہم فیصلوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ملکی آئین کی تیاری ہو یا سقوط ڈھاکا کے بعد 90 ہزار جنگی قیدیوں کی غیر مشروط واپسی، یہ فیصلے اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ 
احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر بھٹو نے عوام، مذہبی اور عسکری قوتوں کے دل جیتنے کی بھرپور کوشش کی مگر ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ بھٹو ایک نہیں دو تھے، ایک جو اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کا بھٹو تھا، دوسرا وہ جو وزیراعظم بن کر اسٹیبلشمنٹ کا دوست بن گیا تھا۔ بھٹو کی موت کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت بے نظیر بھٹو کو ملی، جنہوں نے والد کے ساتھیوں کے ساتھ ہی سیاست کی مگر اپنے نئے رفیق بھی بنائے۔ امین فہیم، جہانگیر بدر، ناہید خان، صفدر عباسی، قائم شاہ، آفتاب شعبان میرانی جیسے باوفا ساتھیوں نے بے نظیر بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو کےسایے سے نکل کر بذات خود ایک سیاست دان بننے میں مدد فراہم کی۔ مگر بے نظیر کی پیپلز پارٹی میں جنرل ضیاء کی شورٰی سے یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی بھی شامل ہو گئے۔
بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی مزید تین مرتبہ برسر اقتدار آ چکی ہے۔ دو مرتبہ بے نظیر بھٹو کی حکومت اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔ پہلی مرتبہ بدعنوانی پر حکومت کو فارغ کیا گیا تو دوسری مرتبہ 1995ء کے کراچی آپریشن پر پیپلز پارٹی کے صدر فاروق لغاری نے ہی ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام عائد کر کےحکومت کو چلتا کیا۔ بھٹو پر بطور حکمران کئی الزام لگے لیکن کرپشن کا الزام نہ ان کی زندگی میں کوئی لگا سکا اور نہ ہی ان کی موت کے بعد مگر آج کی پیپلز پارٹی کا دوسرا نام کرپشن بن چکا ہے۔ پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزامات بے نظیر بھٹو کی آصف علی زرداری سے شادی کے بعد سامنے آنا شروع ہوئے۔ 
بے نظیر بھٹوکے پہلے دور حکومت میں آصف علی زرداری کو ’’مسٹر ٹین پرسینٹ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے پیپلز پارٹی بدعنوانی کے حوالے سے مشہور ہو گئی ۔ ہر وزیر ہر مشیر کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہونے لگے۔ موقع غنیمت جان کر آصف زرداری کے زمانہ طالب علمی کے دوست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سمیت کئی دوسرے بھی پیپلز پارٹی کے رہنما بن کر ابھرے۔ ان لوگوں نے حکومت کی برطرفی کے بعد بھی آصف زرداری یا پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد بننے والی حکومت آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی نے بنائی، جس میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بنایا گیا اور آصف زرداری صدر پاکستان بن گئے۔ اسی دور میں ملکی تاریخ کے بڑے کرپشن اسکینڈلز بھی سامنے آئے۔
ایوب خان کابینہ سے کرپشن کی وجہ سے نکالے گئے ملکی تاریخ کے پہلے وزیر حامد فاروقی کی پوتی شرمیلا فاروقی اور سپریم کورٹ سے گرفتار ہونے والے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے احمد ریاض شیخ بھی اسی دور میں پیپلز پارٹی کو ملے۔ حج اسکینڈل میں براہ راست وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور کرائے کے بجلی پلانٹ اسکینڈل میں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا نام سامنے آیا۔ بھٹو اور بے نظیر کے ادوار تو پیپلز پارٹی میں اچانک ختم ہوئے لیکن زرداری دور کا خاتمہ ہونے میں وقت لگے گا۔ منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے ساتھی بیرون ملک سے پکڑ پکڑ کر پاکستان لائے جا رہے ہیں اور نوبت سندھ حکومت اور اس کے وزیر اعلیٰ تک آن پہنچی ہے۔
دوسری جانب نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آہستہ آہستہ قدم جما رہے ہیں۔ ابتداء میں معروف صحافی عروسہ عالم کے صاحبزادے فخر عالم اور احمد ریاض شیخ کے صاحبزادوں کے نرغے میں رہنے والے بلاول نے اب نانا اور والدہ کے ساتھیوں قائم علی شاہ، رضا ربانی، فرحت اللہ بابر اور شیری رحمان جیسے زیرک سیاسی کارکنوں کی رفاقت اختیار کر لی ہے اور ان کی سیاست میں ان رہنماؤں کے ساتھ کے اثرات بھی نظر آنے لگے ہیں۔ بلاول اپنے والد کی جوڑ توڑ اور مختصر دورانیے کی سیاست کے برخلاف بھٹو اور بےنظیر کی اصولی اور طویل دور کی سیاست کے طرف چل پڑے ہیں۔ بلاول کا دامن بدعنوانی سے پاک ہے مگر پیپلز پارٹی کی ساکھ بحال کرنے کا کام بہت مشکل ہے، راستہ بہت طویل ہے اور منزل بہت دور ہے۔ بلاول کو مرتضٰی وہاب اور مصطفٰی نواز کھوکھر جیسے کئی اور مخلص ساتھی درکار ہیں تاکہ بلاول نانا اور والدہ کے علاوہ اپنی بھی کوئی شناخت بنا سکیں۔
رفعت سعید
بشکریہ ڈی ڈبلیو اُردو 
1 note · View note
breakpoints · 3 years ago
Text
پشاور زلمی بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز: زلمی کی 'ناقص، قابل رحم' فیلڈنگ پر تنقید
پشاور زلمی بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز: زلمی کی ‘ناقص، قابل رحم’ فیلڈنگ پر تنقید
– ٹویٹر کراچی: پشاور زلمی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف میچ کے پہلے ہاف کے دوران وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی اور سرفراز احمد کی قیادت والی ٹیم انہیں سزا دیتی رہی۔ 10 اوورز کے اختتام تک گلیڈی ایٹرز نے 90 رنز بنائے، احسن علی 27 گیندوں پر 40 رنز بنا کر اسکور بورڈ میں 46 رنز بنانے میں کامیاب رہے۔ تاہم، یہ ممکن نہ ہوتا اگر زلمی کے فیلڈرز کیچ نہ چھوڑتے اور باؤنڈریز نہ بچاتے۔ مزید پڑھ: وہاب ریاض کا…
View On WordPress
0 notes
umeednews · 3 years ago
Text
مظفرگڑھ : ناجائز قابضین کیخلاف کاروائی 396کنال سرکاری اراضی واگزار
مظفرگڑھ : ناجائز قابضین کیخلاف کاروائی 396کنال سرکاری اراضی واگزار
موضع رکھ علی پور جنوبی میں ناجائز قابضین کیخلاف کاروائی کے دوسرے روز396کنال سرکاری اراضی واگزار کروالی گئی۔ڈپٹی کمشنر مظفرگڑھ کی خصوصی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے نائب تحصیلدار ریاض خان قیصرانی نے قانونگو میاں عبدالجبار اور پٹواری رائے حسن محمود کیساتھ موضع رکھ علی پور جنوبی میں ناجائز قابضین مختار احمد سے 100 کنال۔راشد سے 100کنال۔ظہور احمد سے 48کنال۔محمد اسماعیل سے 48کنال اور محمد اکرم ولد جمال…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
190 ملین پاؤنڈز ریفرنس، ملک ریاض، شہزاد اکبر ، فرح گوگی سمیت 6 شریک ملزموں کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع
احتساب عدالت اسلام آباد نے 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں شریک ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کا آغاز کردیا۔ جج محمد بشیر کے جاری کردہ حکمنامے کے مطابق ریفرنس کے تفتیشی افسر میاں عمر ندیم عدالت میں پیش ہوئے، رپورٹ جمع کرائی، ریفرنس میں شریک 6 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی تعمیل نہ ہو سکی،ملزم ملک ریاض، مرزا شہزاد اکبر، ضیاء المصطفی نسیم کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل نہ ہو سکی، ملزم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduclassic · 5 years ago
Text
پروین شاکر، خوشبوؤں کی شاعرہ
آپ نے کسی شاعرہ کے بارے میں سنا ہے کہ انہوں نے کوئی تحریری امتحان دیا ہو اور اس امتحان میں ان کے اپنے بارے میں ہی سوال پوچھا گیا ہو؟ جی ہاں، ایسا پاکستان کی ایک مشہور شاعرہ پروین شاکر کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے انیس سو بیاسی میں سینٹرل سُپیریئر سروسز یعنی سی ایس ایس کا امتحان دیا تھا۔ نو برسوں تک استاد رہنے کے بعد پروین شاکر سول سروسز میں منتخب ہو گئیں اور انہیں محکمہ کسٹم میں نوکری دی گئی۔ پروین شاکر کی شاعری میں ایک نسل کی نمائندگی ہوتی ہے اور ان کی شاعری کا مرکزی نقطہ عورت رہی ہے۔ فہمیدہ ریاض کہتی ہیں، پروین شاکر کے اشعار میں لوک گیت کی سادگی اور کلاسیکی موسیقی کی نزاکت بھی ہے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں بھولے پن اور نفاست کا دل آویز سنگم ہیں۔
انیس سو ستتر میں ان کا پہلا شاعری مجموعہ ’خوشبو‘ شائع ہوا جس کے دیباچے میں انہوں نے لکھا تھا ’جب ہولے سے چلتی ہوئی ہوا نے پھول کو چُوما تھا تو خوشبو پیدا ہوئی تھی۔‘ ان کے اشعار کو غور سے پڑھنے پر احساس ہوتا ہے کہ اس میں سے اکثر آب بیتی ہے۔ زندگی کے مختلف موڑوں کو انہوں نے ایک ربط دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اشعار میں ایک لڑکی کو بیوی، ماں اور آخر میں ایک عورت تک کے سفر کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایک بیوی کے ساتھ ساتھ ماں بھی تھیں، شاعرہ بھی اور روزی روٹی کمانے کی ذمہ دار بھی۔
انہوں نے ازدواجی محبت کو جتنے مختلف پہلوؤں سے چھوا اتنا کوئی مرد شاعر اگر چاہے بھی تو نہیں چھو سکتا۔ ماں بننے کے تجربے پر تو خواتین شاعروں نے لکھا ہے لیکن باپ بننے کے احساس پر کسی مرد شاعر کی نظر نہیں پڑی ہے۔ ایک نظم میں پروین شاکر نے اپنے جوان بیٹے سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا کہ انہیں اس بات پر شرم نہیں آنی چاہیے کہ آپ ایک شاعرہ کے بیٹے کے طور پر معروف ہیں نہ کہ ایک والد کے بیٹے کے طور پر۔ اکیسویں صدی کے بچوں کے شعور پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں۔
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے شعروں میں ان کی زبان سادہ ہو یا ادبی لیکن ان کی شاعری میں صبر و تحمل کو کافی ترجیح دی گئی ہے۔ ان کے اشعار سے فیض اور فراز کی جھلک ضرور ملتی ہے لیکن انہوں نے ان کی نقل نہیں کی۔ انہوں نے پہلے انگریزی اور پھر بینک مینیجمنٹ میں ایم اے کیا اور اس کے بعد انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے نصیر علی نامی شخص سے شادی کی لیکن وہ شادی زیادہ عرصے تک نہیں چل پائی۔
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
پروین شاکر نے شروع میں ’بنی‘ کے نام سے لکھا کرتی تھیں۔ احمد ندیم قاسمی ان کے استاد تھے اور انہیں وہ ’اموجان‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔ پروین شاکر اس دنیا میں صرف بیالیس سال تک رہ سکیں۔ چھبیس دسمبر انیس سو چوراسی کو جب وہ اپنی کار میں دفتر جا رہی تھیں تو ایک بس نے انہیں ٹکر مار دی۔ اسلام آباد کی جس سڑک پر ان کا حادثہ ہوا، اس سڑک کو انہیں کا نام دیا گیا ہے۔
ریحان فضل
بشکریہ بی بی سی ہندی، دلی  
34 notes · View notes
omega-news · 3 years ago
Text
سری لنکا میں پاکستانی کھلاڑیوں اور کوچز کی سیکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ
سری لنکا میں پاکستانی کھلاڑیوں اور کوچز کی سیکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ
سری لنکن کرکٹ بورڈ نے سری لنکا میں موجود پاکستانی کھلاڑیوں اور کوچز کی سیکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ کرلیا. یہ فیصلہ سیالکوٹ واقعے کے بعد کیا گیا۔ پاکستان کے 9 کرکٹرز اور کوچنگ اسٹاف لنکا پریمیئر لیگ (ایل پی ایل) میں شریک ہے۔ پاکستانی کرکٹرز محمد حفیظ، محمد عامر، شعیب ملک، وہاب ریاض، صہیب مقصود لنکا پریمیئر لیگ میں شرکت کریں گے۔کرکٹر انور علی، محمد عرفان، عثمان شنواری اور احمد شہزاد کا بھی ایل پی ایل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
koorosh2800 · 3 years ago
Photo
Tumblr media
‏‎✅طبق ماده ۲۹۵ قانون مجازات اسلامی: «هرگاه کسی فعلی که انجام آن را برعهده گرفته یا وظیفه خاصی را که قانون برعهده اوگذاشته است، ترک کند و به سبب آن، جنایتی واقع شود، چنانچه توانایی انجام آن فعل راداشته باشد جنایت حاصل به او مستند می‌شود و حسب موردعمدی، شبه عمدی، یا خطای محض است، مانند این‌که مادر یا دایه‌ای که شیردادن را برعهده گرفته است، کودک را شیر ندهد یا پزشک یا پرستار وظیفه قانونی خود را ترک کند.» ✅اسامی ۱۸۰ نفر از پزشکانی را که طی نامه‌ای به رئیس جمهور، خواستار ممنوعیت واردات واکسن آمریکایی، انگلیسی و فرانسوی شده بودند در زیر می‌آورم تا هم مردم این افراد را بشناسند هم خانواده‌هایی که عزیزان خود را از دست داده‌اند تعدادی از مسببان این فاجعه انسانی را بشناسند. شاید روزی در دادگاهی عادلانه به کار آید. ✅نام دکتر را از کنار اسامی حذف کرده‌ام : ۱-سیدعلیرضامرندی-علیرضازاکانی- زهره الهیان-حسینعلی شهریاری-حسین قناعتی -بهزادعین اللهی-بهرام عین‌اللهی-حسن ابوالقاسمی-ناصر سیم‌فروش-شهرام علمداری-علی‌اکبر زینالو-محمدرضا کلانترمعتمدی-محمد رئیس‌زاده-زهرا شیخی مبارکه-فاطمه محمدبیگی-محمداسماعیل اکبری-علیرضا منافی-عباس مسجدی-سیدعلی ریاض-محمد میرزابیگی -شکیبا محبی‌تبار-محمدتقی حلی‌ساز-جلالی-نفیسه حسینی یکتا-محمدودود حیدری-محمدجواد کبیر-حسینعلی غفاری-جعفر اصلانی-فروردین ایمانیه- جمال اخوان مقدم-احمد شجاع-مصطفی نادری-شهرام صیادی-داریوش ابطحی -علی‌اصغرباقرزاده-سهراب سلیمی حمیدرضا خانکه-سیدمحمد پاک‌مهر-احمد جوانمرد-مسعود مسلمی-حسن براتی- مجتبی باروت کوب-مجید احمدی-محمدرضا رزاقی-حسین کولیوند-علی دباغ- عصمت باروت-محمدمهدی امیدیان-خلیل کملاخ-جلیل کلانترهرمزی-اصغر اخوان- شعبان مهرورز-عباس عبادی-محمدسعید غیاثی-حامد طهماسبی-اردشیر تاج‌بخش- سیدمسعود داود-سیدهاشم دریاباری- حسین صمدی نیا-حسن گودرزی-ابراهیم متولیان-حسین لشکردوست-نعمت‌اله جنیدی -سلیمان احمدی-زهره سادات میرمقتدایی-سعید بینات-احمد اسفندیاری-سلیمان حیدری-حمیدرضا جوادزاده-علی طاهرنژاد-علی محمدزادگان -هادی خوش محبت-حسین جعفری-سعید قاضی پور-افشین پاکجو-حسین زارع زاده-امین سهرابی-سعیدسقاحضرتی-بهزاد تدین-محمود صمدپور-علی رمضانخانی -عباس هنردوست -نرجس قربانی-طاهره زائری-صفیه محبی تبار-مریم عباسی- علی نصیری-ابوالفضل خوشی-مریم فرخ آشتیانی-سیدمحمدحسن صادقی-فخری اللهیاری-طاهره مریدی سرخانی-اکرم عاشوری-نیره پارچه باف-فاطمه اقبالیان-کاظم فروتن-سحر صفتی-مجید اصغری-محمدمحقق-رسول چوپانی-غلامرضا کردافشاری-حمیدرضا فضلی-محبوبه اعلمی-مرضیه امی‎‏ https://www.instagram.com/p/CSi6ELHN-BH/?utm_medium=tumblr
0 notes
googlynewstv · 3 years ago
Text
قومی ٹیم کے نئے سینٹرل کنٹریکٹ کا اعلان،عامر آؤٹ، نسیم شاہ اِن
قومی ٹیم کے نئے سینٹرل کنٹریکٹ کا اعلان،عامر آؤٹ، نسیم شاہ اِن
پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) نے قومی کرکٹ ٹیم کے نئے سینٹرل کنٹریکٹ کا اعلان کردیا ہے جس میں سابق کپتان سرفراز احمد کی تنزلی ہوئی ہے جبکہ حسن علی، محمد عامر اور وہاب ریاض سینٹرل کنٹریکٹ میں جگہ نہ بنا سکے۔ پی سی بی کی جانب سے 21-2020 کے لیے اعلان کردہ نئے سینٹرل کنٹریکٹ میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی گئی ہے اور کئی نامی گرامی کھلاڑی کنٹریکٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جبکہ چند نئے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ
بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ
سول سیکرٹریٹ (قیصر کھوکھر، علی ساہی) بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ، صائمہ سعید کو سیکرٹری سپیشل ایجوکیشن، محمد شہریارسلطان کوسیکرٹری سروسز تعینات کردیا گیا، محکمہ خوراک، زکوٰة، لیبر اور محکمہ ماحولیات کے سیکرٹریز بھی تبدیل کر دیئے گئے، سٹی42 نے چند روز پہلے ہی بیوروکریسی میں تبادلوں سے آگاہ کر چکا ہے۔
چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل نے اپنی ٹیم بنانے پر توجہ مرکوز کر لی، بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تقررو تبادلے کر دیئے گئے، نوٹیفکیشن کے مطابق صائمہ سعید کوسیکرٹری سپیشل ایجوکیشن تعینات کر دیا گیا، محمد شہر یار سلطان کو سیکرٹری سروسز اور سلمان اعجازکو سیکرٹری ��کوٰ ة لگا دیا گیا، علی سرفراز حسین کو سیکرٹری خوراک تعینات کر دیا گیا، کمشنرفیصل آباد ثاقب منان کا تبادلہ کر کے سیکرٹری آرکائیو لگا دیا گیا، زاہد حسین کو کمشنر فیصل آباد کا عہدہ دیدیا گیا، لیاقت علی چٹھہ سیکرٹری لیبر اورسید مبشرحسین کوسیکرٹری ماحولیات تعینات کردیا گیا، سپیشل سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیومظفر خان کو او ایس ڈی بنا دیا گیا، سلمان غنی کوسپیشل سیکرٹری بجٹ محکمہ خزانہ تعینات کیا گیا۔ 
صالحہ سعید کو سپیشل سیکرٹری محکمہ پرائمری ہیلتھ لگا دیا گیا، عنبرین ساجد کو ڈی جی ماحولیات کی پوسٹ پر تعینات کیا گیا، ایڈیشنل سیکرٹری پرائمری ہیلتھ کیئرفرید احمد کو او ایس ڈی بنا دیا گیا، رضوان اکرم شیروانی کو ڈی جی ایکسائز کا اضافی چارج دے دیا گیا، ایڈیشنل آئی جی اکرم نعیم بھروکہ کواو ایس ڈی بنا دیا گیا، ریاض نذیر گاڑھا کو ڈی آئی جی پٹرولنگ تعینات کر دیا گیا، شاہد جاوید کو ڈی آئی جی ایلیٹ فورس لگا دیا گیا، ساجد کیانی کوڈی آئی جی آپریشنز پنجاب اور سرفراز فلکی کوڈی آئی جی آر این ڈی تعینات کر دیا گیا، سید حماد عابد کو سی پی او گوجرانوالہ تعینات کر دیا گیا۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 313648615783074, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
azharniaz · 3 years ago
Text
ریاضؔ خیر آبادی یومِ وفات 28؍جولائی
ریاضؔ خیر آبادی یومِ وفات 28؍جولائی
*آج – 28؍جولائی 1934* *خمریات کے لئے مشہور جب کہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا، امامِ خمریات اور ممتاز شاعر” ریاضؔ خیر آبادی صاحب“ کا یومِ وفات…* نام *ریاض احمد* تخلص *ریاضؔ*۔ *’’لسان الملک‘‘* خطاب۔ *۱۸۵۳ء* میں *خیرآباد ضلع سیتا پور(اودھ)* میں پیدا ہوئے۔ ریاض نے فارسی اپنے والد سے پڑھی۔ ابتدا ئے عمر سے ہی انھیں شاعری کا شوق تھا۔ ریاض نے پہلے *مظفر علی اسیرؔ* کی شاگردی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes