#احتساب عدالتیں
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 10 months ago
Text
توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی طبیعت خراب، ہسپتال منتقل
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر کی طبیعت خراب  ہوگئی۔ جیل کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔ سماعت کے دوران بانی چیئرمین پی ٹی ائی کی اہلیہ بشری بی بی کا دفعہ 342 کے تحت بیان قلم بند کیا گیا۔ دوران سماعت جج محمد بشیر کی طبیعت خراب ہو گئی،جس کے باعث سماعت روک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 6 months ago
Text
تمام ججوں کو ہیرو مان لیتے ہیں مگر
Tumblr media
چیف جسٹس آف پاکستان، ہائی کورٹس کے تمام چیف جسٹس صاحبان، اعلیٰ عدلیہ کے تمام جج حضرات جب ہائی پروفائل سیاسی کیسوں کا فیصلہ کر لیں، جب ایجنسیوں کی طرف سے عدالتی معاملات میں پہلے مداخلت کا ذریعہ بننے اور پھر اُس کو روکنے کے کسی فارمولے پر اتفاق رائے پیدا کر لیں۔ جب نواز شریف، عمران خان اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو اپنی ہی ناانصافیوں کے بعد انصاف دینے میں کامیاب ہو جائیں، جب اپنے ججوں کے کردار کو یکسر بھولتے ہوئے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید سمیت سیاسی اور عدالتی معاملات میں مداخلت کرنے والے جرنیلوں کے احتساب سے فارغ ہو جائیں، جب مارشل لا کو بار بار قانونی قرار دیکر اب اُس کو روکنے کے قابل ہو جائیں تو پھر تھوڑی سی توجہ عوام کو جلد اور سستا انصاف دینے پر بھی دے دیں۔ اس کام میں اتنی واہ واہ تو نہیں ہو گی، ٹی وی ٹکرز بھی نہیں چلیں گے، لائیو ٹیلی کاسٹ بھی نہیں ہو گی لیکن یہ وہ بنیادی فریضہ ہے جو ہماری عدلیہ ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ 
ہم بغیر چوںو چرا تمام اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ہیرو تسلیم کرتے ہیں، مان لیتے ہیں کہ سب بڑے کمال کے جج ہیں لیکن مہربانی فرما کر عام آدمی کو انصاف دیں۔ تھوڑی سی توجہ ذرا اُن لاکھوں پاکستانیوں پر بھی مرکوز کر لیں جو ہر روز کورٹ کچہریوں میں انصاف کیلئے دھکے کھاتے ہیں، برسوں، بلکہ دہائیوں عام کیسوں کے فیصلے کا انتظار کرتے رہتے ہیں، یہاں تو کیس کے فیصلوں کے انتظار میں نسلوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں کیس عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور ان کیسوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ نہ یہاں جلد انصاف ملتا ہے نہ سستے انصاف کا کوئی تصور اب باقی بچا ہے۔ پیسہ ہے تو عدالت جائو ورنہ گھر زمین سب کچھ بیچ کر بھی انصاف نہیں ملتا۔ غریب اور عام آدمی کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ عدالتیں انصاف کی بجائے ناانصافی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ اسی وجہ سے عدالت کا نام سن کر ڈر لگتا ہے کہ عدالت گئے تو پھر برسوں دہائیوں کیلئے پھنس جائینگے۔ 
Tumblr media
اعلیٰ عدلیہ کے تمام جج حضرات سے سوال ہے کہ اُنہوں نے عام عدالتوں میں جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے کیا کیا؟ کتنی اصلاحات تجویز کیں؟ کتنے خط لکھے؟ گذشتہ برسوں میں چیف جسٹس حضرات نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں کتنی بار اس اہم ترین مسئلہ کے حل کیلئے فل کورٹ میٹنگز بلائیں؟ سپریم جوڈیشل کونسل نے انصاف کی جلد فراہمی میں ناکامی پر ججوں کے احتساب کے بارے میں کتنی بار سوچا اور کیا فیصلے کیے؟جب موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنا عہدہ سنبھالا تو میں نے جنگ میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس ماضی کی تمام خرابیوں کے ہر ذمہ دار کو کٹہرے میں لا کھڑا کریں، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ میں نے لکھا کہ جو ایسے مشورے چیف جسٹس کو دے رہے ہیں دراصل وہ جن کرداروں کو پسند نہیں کرتے اُن کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ احتساب جسٹس فائز کریں اور سب سے پہلے کریں۔ 
میں چاہتا تھا کہ پاکستان اور عوام کے مستقبل کیلئے چیف جسٹس کی اولین توجہ عدلیہ کی سمت درست کرنے اور اسے اس قابل بنا نے پر ہونی چاہئے کہ وہ لوگوں کو انصاف دے، عوام کا عدالتوں پر اعتماد بحال ہو، مقدمات برسوں دہائیوں تک چلنے کی بجائے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ میری رائے میں اگر چیف جسٹس پاکستان کے عدالتی نظام میں ایسی اصلاحات لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ عدالتیں فوری اور سستا انصاف دینے ��گیں تو یہ وہ کارنامہ ہو گا جو نہ صرف جسٹس فائز عیسیٰ کو امر کر دے گا بلکہ اس کا فائدہ پاکستان اور عوام کو بھی ہو گا۔ اصل توجہ اُس عدالتی نظام کی اصلاح پر ہونی چاہئے جو عوام کو انصاف دینے میں ناکام ہو چکا ہے، جس پر کسی کو کوئی اعتماد نہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں آخری نمبروں پر گنا جاتا ہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
risingpakistan · 10 months ago
Text
اچھا جج بشیر، بُرا جج بشیر
Tumblr media
احتساب عدالت کے جج بشیر نے نیب کے مقدمہ میں سال 2018 میں نواز شریف اور اُنکی بیٹی مریم نواز کو ایون فیلڈ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوے دس سال اور سات سال کی قید بامشقت کی سزا دی۔ اُس موقع پر عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماوں اور ووٹروں، سپوٹروں نے خوشیاں منائیں، مٹھائیاں تقسیم کیں اور اسے انصاف اور احتساب کے نام پر سراہا اور اس فیصلہ کا ہر جگہ دفاع کیا۔ آج تقریباً کوئی پانچ چھ سال کے بعد اُسی احتساب عدالت کے اُسی جج بشیر نے اُسی نیب کے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور اُنکی اہلیہ کو 14,14 سال کی قید بامشقت اور کوئی ڈیڑھ ارب کے جرمانے کی سزا سنا دی۔ آج تحریک انصاف جج بشیر کے فیصلہ کو انصاف کا قتل قرار دے رہی ہے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مٹھائیاں تو نہیں بانٹیں لیکن دونوں سیاسی جماعتیں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ کو انصاف کی عملداری کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ انہی جج بشیر کی اسی عدالت کے سامنے اسی نیب کا توشہ خانہ ریفرنس کا مقدمہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف درج ہے۔ 
نواز، زرداری اور گیلانی کے خلاف نیب نے توشہ خانہ ریفرنس چند سال پہلے دائر کیا تھا۔ عمران خان اور اُنکی اہلیہ کے خلاف توشہ خانہ کا کیس چند ماہ پہلے جج بشیر کی عدالت کے سامنے دائر کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا کیس چند ماہ پہلے دائر ہوا، اُس کا نیب نے خوب پیچھا کیا اور آج جج بشیر کی عدالت نےاس مقدمہ میں فیصلہ بھی سنا دیا۔ جو توشہ خانہ کیس جج بشیر کی عدالت کے سامنے بہت پہلے دائر کیا گیا تھا وہ کہاں گم ہے، اُسکے حوالے سے نیب کیوں سویا ہوا ہے اور اُس کیس میں جج بشیر کیوں روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ نہیں چلا رہے۔ جج بشیر کو ایک فرد کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسے نظام کا نام ہے جس نے احتساب کے نام پر گزشتہ 25 سال کے دوران ہماری سیاست، ہماری ریاست، ہمارے نظام احتساب اور عدالتی سسٹم کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا لیکن اسکے باوجود جاری و ساری ہے۔ جج بشیر نے ماضی میں جو فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف دیا اُس میں اُنکی بریت ہو چکی۔ 
Tumblr media
نیب اور عدلیہ کی آنکھیں نواز شریف کے حوالے سے بالکل بدل چکیں اور اب عمران خان جس نظام احتساب کو ماضی میں احتساب کے نام پر انصاف کا نام دیتے تھے، خوشی مناتے تھے، دوسروں کو مٹھائیاں کھلاتے تھے اُن کو آج سود سمیت وہی نظام 14 سال قید بامشقت واپس لوٹا رہا ہے اور آج وہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ نانصافی ہو گئی اور احتساب کے نام پر اُن کو سیاسی وجہ پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ن لیگ کی طرف سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے بعد پریس کانفرنس کی گئی اوراس فیصلے کو Justify کیا گیا۔ یاد رہے کہ جج بشیر کی طرف سے نیب کے توشہ خانہ کیس میں فیصلہ کو سراہنے والی ن لیگ نے اپنے حالیہ الیکشن منشور میں اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نیب کے ادارہ کو ختم کر دے گی، جس سے نیب کی عدالتیں بھی ختم ہو جائیں گی کیوں کہ ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ نیب کے ادارے نے کبھی احتساب کیا ہی نہیں بلکہ احتساب کے نام پر سیاسی انجینئرنگ کی، غلط طریقہ سے سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو جیلوں میں ڈالا، اُن کو خلاف جھوٹے سچے مقدمات میں سزائیں دیں۔ 
وہ نیب جو بُرا تھا اور جسے ختم کیا جانا چاہیے اُس کے عمران خان کے خلاف فیصلے پر ن لیگ مطمئن کیوں ہے؟ دوسری طرف اس فیصلہ کے بعد عمران خان کی بہن علیمہ خان نے پاکستان کے عدالتی نظام پر سوالاٹ اُٹھا دیے۔ علیمہ خان اور ان کے بھائی نے یہی سوالات ماضی میں کیوں نہیں اُٹھائے جب اُن کے سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایسا نہیں کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان کرپشن ، بدعنوانی یا غیر قانونی عمل میں شریک نہیں ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام احتساب اور نظام عدل ایک آنکھ سے دیکھنے کا عادی بن چکا ہے۔ اُن کو ایک آنکھ سے جو دکھایا جاتا ہے وہ وہی کچھ دیکھتے ہیں اور جب اُن کی ایک آنکھ بند کر کے دوسری آنکھ کھولنے کو کہا جاتا ہے تو وہ دوسری آنکھ سے بالکل اُس کے برعکس دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جو کچھ اُنہیں پہلے دکھایا جاتا ہے۔ ہماری سیاست، نواز شریف اورعمران خان کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اس ناقص نظام کے ہاتھوں ڈسے جانے پر خوشی مناتے ہیں اور جب خود ڈسے جاتے ہیں تو ناانصافی کا رونا روتے ہیں۔ سیاستدانوں کی یہ ناکامی رہی کہ وہ اس ملک کو ایک با اعتبار، آزاد اور انصاف پسند احتساب کا نظام دینے میں ناکام رہے۔ وہ کبھی اقتدار اور کبھی سزا اور جیل کی قید کاٹنے کے دائرہ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ نیب اورجج بشیر والا نظام احتساب اپنی جگہ قائم ہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistantime · 2 years ago
Text
وہ ریاست مدینہ اور یہ
Tumblr media
حضرت عمر منبر پرکھڑے خطاب کررہے تھے کہ مجمع میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا، پہلے یہ بتائیں کہ مال غنیمت میں جو چادریں آئی تھیں اور ہر شخص کو ایک ایک چادر ملی ہے جس سے لباس نہیں بن سکتا اورآپ نے جو لباس پہنا ہوا ہے وہ ایک سے زیادہ چادروں سے بنا ہے، گویا آپ نے دو چادریں لی ہیں۔  حضرت عمر نے بڑے تحمل سے فرمایا، اس کا جواب میرا بیٹا دے تو بہتر ہوگا۔ بیٹا کھڑا ہوکر بولا ، بے شک میرے والد کا لباس دو چادروں سے بنا ہے اور ان میں ایک چادر میں نے اپنے حصے کی دی ہوئی ہے۔ ایک اور موقع پر ملکہ روم کی طرف سے خوشبو کی ایک شیشی آئی تو ان کی زوجہ کو وہ بہت پسند آئی اور لینا چاہی لیکن حضرت عمر نے ان کے ہاتھ سے شیشی چھین کر بیت المال میں داخل کی حالانکہ وہ شیشی ایک طرح سے ملکہ روم نے مسلمانوں کے خلفیہ کی اہلیہ محترمہ کے لیے بھیجی تھی لیکن حضرت عمر کا فیصلہ بھی درست تھا کہ اگر خلیفہ اسلام کی بیوی نہ ہوتی تو ملکہ روم انھیں تحفہ کیوں بھیجتی۔ اس سے پہلے کہ ہم ’’توشہ خانہ‘‘ پر بحث کریں، یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایسے تحائف افراد کو نہیں دیے جاتے ہیں بلکہ اقوام کو دیے جاتے ہیں۔
عمرثانی عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ تھے تو کسی علاقے کا حاکم حساب دینے آیا تھا ، حساب کتاب ختم ہو گیا تو حاکم نے خلیفہ سے ان کا اوران کے خاندان کا حال پوچھنا شروع کیا، عمر بن عبدالعزیز نے پہلے چراغ بجھایا اور پھر جواب دیا، حاکم نے چراغ بجھانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا، اس چراغ میں بیت المال کا تیل جل رہا ہے جب تک سرکاری بات چل رہی تھی، جائز تھا، لیکن ذاتی بات چیت میں سرکاری تیل اور چراغ جائز نہیں۔ ایک وہ ریاست مدینہ تھی اور ایک یہ ریاست مدینہ اور یہ ہم نہیں کہتے، اتنی زیادہ گستاخی اور ان پاک ناموں کی اتنی بے حرمتی اور تضحیک کی جرات ہمارے اندر کہاں۔ یہ تو کچھ خاص الخاص لوگ ہوتے ہیں جو سب کچھ کہہ بھی سکتے ہیں اور کر بھی سکتے ہیں۔ ایک وہ بھی بیت المال تھا اور ایک یہ بھی بیت المال ہے جس کے ایک حصے کو ’’توشہ خانہ‘‘ کہتے ہیں ، وہ بھی حکمران تھے جو تو شہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے اور یہ بھی حکمران ہیں جو توشہ خانہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اوراگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اسے کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ شکوہ کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے یہ بھی مت کہہ کہ جو کہتے تو گلہ ہوتا ہے
Tumblr media
بیت المال کی تو بات ہی نہیں کریں گے کہ جدی پشتی چور اس کا مال تو پہلے بانٹ چکے ہیں اوراب صرف ’’بیت ‘‘ہی رہ گیا ہے۔ اس کے صرف ایک چھوٹے سے حصے توشہ خانہ کا ذکر کرتے ہیں جو یوں ہے کہ جب ہمارا کوئی سربراہ کسی ملک کے دورے پر جاتا ہے، میزبان ملک اسے تحفے تحائف دیتا ہے، قانونی طور پر اسے وہ تحائف توشہ خانے کے سپرد کرنا ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ تحائف اس فرد کو ذاتی طور پر نہیں دیے جاتے بلکہ ایک دوسرے ملک کو دیتا ہے لیکن یہاں اس کے لیے یہ نرالا دستور نکالا گیا ہے کہ اگر وہ سربراہ ��اہے کہ کسی پسند کی چیز کو اپنا لے تو قانون تو اس کی جیب میں پڑا ہوتا ہے، اسے لیے توشہ خانے کے ذمے داران سے کہتا ہے اور وہ ذمے داران ان تحائف کی قیمت چوری کے مال سے بھی کم لگا کر ان کے حضور پیش کر دیتے ہیں کہ وہ بادشاہ کے نوکر ہوتے ہیں بینگن کے نہیں۔ اس سلسلے میں یوں تو صرف ایک حکمران ایوب خان کے علاوہ باقی سب نے اپنا اپنا کام دکھایا ہے، ایوب خان کو اپنے طویل دور حکومت میں تیس تحائف ملے تھے اور اس نے ان میں سے ایک بھی تحفہ نہیں رکھا تھا، سب کے سب توشہ خانہ کے حوالے کر دیے تھے۔ 
باقی سب نے اس بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ اشنان کیے ہیں ، اس کھیل میں سب سے ٹاپ اسکورر شوکت عزیز تھا جسے اس ملک کو سنوارنے کے لیے امپورٹ کیا گیا تھا اور جب وہ ملک کو خوب خوب ’’سنوار‘‘ کر واپس جا رہا تھا تو جہازمیں اس کے ساتھ گیارہ سو چھبیس لوٹے گئے تھے، ’’لوٹے‘‘ اس لیے کہ اس نے تحائف اپنے نام کرانے کے لیے چار مرتبہ توشہ خانے کے قوانین میں تبدیلیاں کی تھیں۔ ان قیمتی تحائف کے لیے اس نے صرف انتیس لاکھ روپے ادا کیے تھے، وہ بھی یہیں کہیں کسی اورسرکاری جیب سے جب کہ ان تحائف کی قیمت دو کروڑ ساٹھ لاکھ روپے سے زیادہ تھی، ان تحائف میں گلے کے ہار، جواہرات ، سونا، ہیرے کی گھڑیاں اور قالین شامل تھے، نیپال سے ملے ہوئے دو رومالوں کی قیمت صرف پچاس روپے ادا کی گئی تھی۔ اس سے باقیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور شوکت عزیز اس فہرست میں اول کھڑا ہے، اس کے پیچھے باقی سارے حکمرانوں کی ایک لمبی قطار کھڑی ہے اور سب کے نیفے پھولے ہوئے ہیں۔ اب بعد از خرابی بیسار احتساب بیورو جاگا ہے،عدالتیں بھی انگڑائی لے کر بیدار ہوئی ہیں لیکن چور اتنے عادی، اتنے دلیر اور اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ باقاعدہ سینہ زوری پر اترآئے ہیں۔
سعد اللہ جان برق  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpolitics · 2 years ago
Text
نظریہ ضرورت اور ہمارا سیاسی مستقبل
پاکستان کی سیاست میں جب تک ’’ نظریۂ ضرورت‘ رہے گا تب تک این آر او بھی رہے گا۔ دوبار امید ہوئی کہ شاید یہ ضرورت کا نظریہ دفن ہو جائے مگر حالات نے ثابت کیا کہ یہ کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہتا ہے۔ اس ’ نظریے‘ نے نہ صرف اعلیٰ عدلیہ پر منفی اثرات مرتب کیے بلکہ سب سے زیادہ نقصان جمہوریت کو پہنچایا جب آئین کے محافظوں نے خود آئین کو روند ڈالا۔ ایک بار 1970 میں عاصمہ جیلانی کیس کے فیصلے سے یہ امید پیدا ہوئی کہ اب کبھی مارشل لا نہیں لگے گا مگر 5 جولائی،1977 اور پھر 12 اکتوبر 1999 کے غیر آئینی اقدامات کو جس طرح آئینی تحفظ حاصل ہوا اس نے ایسے منفی رجحانات کو جنم دیا جس سے ہم آج تک نہیں نکل پائے۔ پاکستان میں جسٹس منیر کے لگائے ہوئے اسی پودے نے آگے چل کر ’ این آر او ‘ کو جنم دیا۔ آمروں کو اگر نظریہ ضرورت نے طاقتو�� بنایا تو انہوں نے اس کو اپنا ہتھیار بنا کر سیاست میں غیر جماعتی کاروباری سیاست اور این آر او جیسے نظریات کو جنم دیا ۔
ہماری 75 سالہ تاریخ کا بدترین ’’ این آر او ‘ دراصل یہی ایک نظریہ ہے جس نے ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک تمام فوجی ایڈونچرز کو جائز اور درست قرار دیا۔ لہٰذا ہماری موجودہ سیاسی نسل یا یوں سمجھیں کہ آئندہ آنے والی سیاسی قیادت کو بھی انہی مراحل سے گزرنا پڑے گا ورنہ اگر ہماری عدالتیں 5 جولائی،77 اور 12 اکتوبر کی رات بھی کھل جاتیں تو شاید ہمیں کوئی سیاسی سمت مل جاتی۔ آج ہماری سیاسی بحث کا موضوع وزیراعظم (سابقہ یا موجودہ) کی مبینہ’ آڈیو لیک‘ ہیں جس سے بقول بہت سے مبصرین خود وزیراعظم ہائوس کی سیکورٹی پر سوالات اٹھ گئے ہیں مگر آج سے 17 سال پہلے آج ہی کے دن تقریباً شام کے وقت چند اعلیٰ فوجی افسران آئے اور ایک منتخب وزیر اعظم کو ’’ کان سے پکڑ کر‘ بے دخل کر دیا اس وقت نہ ملک میں مارشل لا لگا تھا نہ اسمبلی ٹوٹی تھی۔ بعد میں دو سال بعد اس اقدام کو اعلیٰ عدلیہ کی مہر تصدیق ثبت کر کے ’جائز و آئینی‘ قرار دے دیا گیا اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو پہلے ملزم، پھر مجرم اور پھر این آر او دے کر ملک سے باہر بھیج دیا گیا تاکہ اقتدار چلتا رہے آمروں کا، ایسا ہی کچھ 1981 میں بیگم نصرت بھٹو کیس میں ہوا۔
ان فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان میں نظریاتی سیاست دفن کر دی گئی اور ضرورت کے نظریے کو فروغ ملا۔ بدقسمتی سے جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے اقدامات کواس وقت کی حکومت کے سیاسی مخالفین نے نہ صرف ویلکم کیا بلکہ مٹھائیاں بھی بانٹیں۔ میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو، عمران خان، آصف علی زرداری، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی، بلاول بھٹو اور مریم نواز سیاسی طور پر انہی 45 برسوں میں سامنے آئے۔ ان میں کچھ دوسرے سیاسی اکابر کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے مگر کم وبیش آج کی سیاست انہی کرداروں کے گرد گھومتی نظر آرہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پی زرداری صاحب کے سپرد ہوئی اور اب پچھلے دنوں میاں نواز شریف کی لندن میں اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ پریس کانفرنس سے اس تاثر نے زور پکڑا کہ مسلم لیگ (ن) کی آئندہ قیادت کس کے سپرد ہونے جارہی ہے جبکہ پی پی پی میں اب بلاول بھٹو ہی آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔
ان دو خاندانوں کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج ایک 70 سالہ مگر انتہائی فٹ عمران خان کا ہے۔ مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ اگر خاندان سیاست میں نہیں تو پاکستان تحریک انصاف میں بہرحال عمران کے بعد ’ کون‘ کا سوال جنم لے رہا ہے کیونکہ دوسرے چیئرمین کی رونمائی نہیں ہوئی۔ سیاسی طور پر عمران آئندہ ہونے والے انتخابات چاہے وہ اپنے مقررہ وقت پر ہوں یا کچھ پہلے سب سے زیادہ مضبوط امیدوار وزرات عظمیٰ کے نظر آتے ہیں مگر یہ صورتحال آج سے ایک سال پہلے نہیں تھی جب مسلم لیگ (ن) پنجاب اور پی پی پی سندھ میں واضح طور پر آگے نظر آرہی تھی۔عدم اعتماد کی تحریک نے گویا عمران کو پانچ سال اور دے دیے ہیں۔ اب اگر کوئی غیر معمولی حالات ہو جائیں تو الگ بات ہے مگر مسلم لیگ کو اپنے مضبوط قلعہ پنجاب میں تخت پنجاب اور مرکز میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خود پارٹی کے اندر بھی ابھی ’ رسہ کشی ‘ نے تیز ہونا ہے۔
میاں نواز شریف نے ��ال ہی میں ہونے والی میڈیا ٹاک میں کچھ بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں جن کا گہرا تعلق 2016 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس انداز میں ’’ پانامہ پیپرز‘ کیس آگے بڑھا اور پہلے سپریم کورٹ سے تاحیات نااہلی ہوئی اور پھر احتساب عدالت سے سزا اس نے کئی سوالات کو جنم دیا مگر ’ پانامہ پیپرز ‘ میں اپنے بچوں کے نام آنے کے سوال کا جواب تو بہرحال ان کو ہی دینا تھا۔ میرے سوال کا تعلق 2016 کے بعد کی سیاست سے نہیں کیونکہ عدالتی فیصلوں اور نااہلی کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا سیاسی قلعہ مضبوط رہا۔ میاں صاحب سے میرے سوال کا تعلق 12 اکتوبر 1999 کے بعد ہونے والے اس ’’ معاہدے ‘ سے ہے جس کے تحت وہ اپنے اہل خانہ سمیت 10 سال سیاست کو خیر باد کہہ کر سعودی عرب چلے گئے اور سزا کے لیے جاوید ہاشمی کو چھوڑ گئے۔
 شاید اس وقت اگر وہ سیاسی طور پر تھوڑے سے بھٹو بن جاتے تو آج کی سیاست مختلف ہوتی۔ مطلب یہ نہیں کہ اللہ نہ کرے آپ پھانسی چڑھ جاتے مگر کم ازکم ایسے NRO سے تو بہتر تھا یہاں جیل میں وقت گزارتے، کلثوم نواز صاحبہ مرحومہ نے جو ایک غیر سیاسی خاتون تھیں جدوجہد کی بنیاد رکھ دی تھی۔ وہ بے شک ایک بہادر خاتون تھیں ان سے چند ملاقاتیں مجھے آج بھی یاد ہیں۔ میاں صاحب سے دوسرا سوال یہ کہ آپ نے تین سال پہلے کیا کیا؟ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے مگر آپ ’علاج ‘ کی غرض سے باہر گئے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اگر آپ چند ماہ بعد ہی واپس آجاتے اور عدالتوں کا سامنا کرتے تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی، اب اس کو میں اور کیا کہوں سوائے این آر او کے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ نے بہت نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ اگر ’نظریہ ضرورت‘ نے PCO کو جنم دیا اور یوں بہت سے اعلیٰ ترین جج جو چیف جسٹس بن سکتے تھے حلف لینے سے انکار پر نہ بنے مگر تاریخ آج بھی جسٹس دراب پٹیل کو یاد رکھتی ہے۔ ’نظریہ ضرورت‘ اور این آر او ہی اگر ہمارا سیاسی مستقبل ہیں تو دراصل ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔ باقی ضرورت کے نظریہ کی سیاست تو چلتی رہے گی اور نئے نئے کردارسامنے آتے رہیں گے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کہ پار اترا تو میں نے دیکھا
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 2 years ago
Text
نظامِ انصاف کا نوحہ
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستانی قوم عدلیہ کی کارکردگی سےمطمئن ہے تو انہوں نے یہ سوال سامعین کی طرف اچھال دیا۔ اس اجلاس کے سامعین بھی عدلیہ سے ہی تعلق رکھتے تھے لیکن یہ سوال سننے کے بعد کوئی شخص بھی یہ نہ کہہ سکا کہ پاکستانی عدلیہ عوامی توقعات پر پورا اتر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی ہیں۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کبھی قابلِ رشک نہیں رہی۔ جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت کی سیاہی اس کے دامن پر انڈیل دی۔ یحییٰ خان کے مارشل لا کو سند جواز بھی پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے عطا کی اور جسٹس ارشاد حسن خان نے پرویز مشرف کو وہ سب کچھ عطا کر دیا جو اس نے مانگا بھی نہیں تھا۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کے نتیجے میں بحال ہونے والے چیف جسٹس کی داستانیں آج افسانوی کہانیوں کی طرح معلوم ہوتی ہے۔
انہوں نے ریکوڈک سے لے کر افسران کی تقرری تک کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی ان کے اس تسلسل کو جسٹس ثاقب نثار نے بھی خوب نبھایا عدالت عظمیٰ سے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہونے لگی۔ کبھی اسکولوں کی چیکنگ کے لیے جج صاحبان کی ڈیوٹیاں لگ گئیں۔ سابق چیف جسٹس معززین کو بے عزت کرنے کے علاوہ شاید کوئی کام جانتے ہی نہیں تھے۔ موصوف نے انصاف فراہم کرنے کے علاوہ ہر وہ کام کیا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مذکورہ اصحاب نے پاکستانی عدلیہ کو تماشا بنا کے رکھ دیا۔ اگر عدالتی تاریخ میں جسٹس کارنیلیس، جسٹس وجیہ الدین احمد، جسٹس شفیع الرحمٰن جیسے جج صاحبان کا نام نہ ہو تویہ تاریخ ناقابلِ بیان دستاویز بن کر رہ جاے؟ پھر پاکستان کی تاریخ نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔ یوسف رضا گیلانی عدالتی انا کی بھینٹ چڑھتے ہوئے نااہل ہوئے۔
میاں نواز شریف نہ صرف نااہل ہوئے بلکہ انہیں بار بار نااہل قرار دیا گیا، مریم نواز اور ان کا خاوند اسی عدالت عظمیٰ سے نہ صرف سزا یافتہ ہوئے بلکہ نااہل بھی ٹھہرے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی عدالتی پیشیاں کیسے فراموش کی جا سکتی ہیں پاکستان کے ایک اور مقبول ترین لیڈر عمران خان کو سبق سکھانے کے لئے رات 12 بجے یہی عدالتیں کھلیں۔ کبھی شاہراہ دستور پر واقع عدالت عظمیٰ نے رات گئے انگڑائی لی تو کبھی اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے رات کو انصاف کا بول بالا کرنے کی کہانی تحریر کی۔ وہی عمران خان عدالتی وقار کی خاطر معافی مانگنے جج صاحبہ کی عدالت میں پیش ہوا تو جج صاحبہ نے عدالت میں بیٹھنے کے بجائے رخصت پر جانا زیادہ مناسب سمجھا۔ کیا اس رویہ کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے عدلیہ کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جس کے تمام کردار غم و اندوہ کی تصویر بنے ہوئے ہیں، اس کی دہلیز پر سیاستدانوں کی کردار کشی کے چھینٹے ہیں اور عوامی مینڈیٹ کا خون بھی۔
انہیں جس کام کی تنخواہ ملتی ہے اس میں کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان عالمی رینکنگ میں 130 ویں نمبر پر ہے اور ہمارے بعد کمبوڈیا اور افغانستان جیسے ممالک ہیں جہاں پر نظام انصاف سرے سے موجود ہی نہیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام پر نہ عوام کو اعتماد ہے اور نہ خود عدلیہ کے ارکان کو۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے محترمہ مریم نواز کو بری کرنے کا فیصلہ کیا جس پر تمام قانون پسند حلقوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ یہ کیسا چمتکار ہو گیا۔ اگر سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کا فیصلہ درست مان لیا جائے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ماتحت عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔ اور اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ درست مانا جائے تو کیا سپریم کورٹ کے جج صاحبان اس فیصلے کے نتیجے میں مریم نواز کی قیدو بند اور کردار کشی کا حساب دیں گے؟ جےآئی ٹی کی تفتیش کے بعد سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کی کیا حیثیت رہ گئی ہے،؟
کبھی یہی عدالت عظمی اور عالیہ تھیں جن کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا اب ایسی کیا تبدیلی آگئی ہے کہ معزز جج صاحبان یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ ملزمان کے خلاف صفحہ مثل پر ایک بھی ثبوت موجود نہیں۔ جے آئی ٹی کے دس والیم پر مشتمل ثبوت اگر ناکافی تھے تو سپریم کورٹ نے سزا کس بنیاد پر دی تھی؟ اور اگر وہ ثبوت کافی تھے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں ناکافی قرار کیوں دیا؟ یہ محض ایک مثال ہے ورنہ عدلیہ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اس زوال کی سب سے بڑی وجہ عدالتوں میں احتساب کا فقدان ہے، تحریک انصاف کے دور حکومت میں ایک معزز جج کے اثاثوں کے متعلق ریفرنس دائر کیا گیا تو گویا قیامت سی آ گئی۔حکومت کو وہ ریفرنس واپس لینا پڑا۔ قوم سراپا سوال ہے کہ اگر سیاستدان اپنے خاندان کے اثاثوں کا جواب دہ ہے تو عدلیہ کے جج صاحبان کیوں نہیں؟حالیہ برسوں میں ماتحت عدالتوں کے لکھے گئے فیصلوں کے معیار پر سینئر وکلا کی گفتگو سن کر بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
عدلیہ کی حالیہ کارکردگی سے عوام شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں، لیکن اشرافیہ کے مقدمے فاسٹ ٹریک پر سنے جا رہے ہیں۔ معزز جج صاحبان اور وکلا حضرات کو مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ ''معاشرہ کفر کے ساتھ چل سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں،‘‘ اب عدالتوں کو اشرافیہ کے بجائے عوام کے مقدمات پر توجہ دینا ہو گی ورنہ عوامی عدالت انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
mwhwajahat · 3 years ago
Text
وفاقی حکومت نے ایک اور نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا
وفاقی حکومت نے ایک اور نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا
وفاقی حکومت نے ایک اور نیب ترمیمی آرڈیننس جاری ،وفاقی حکومت نے ایک اور نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے نیب کے تیسرے ترمیمی آرڈیننس 2021 کی منظوری کے بعد نیا آرڈیننس جاری کردیا گیا ہے۔ نئے نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت دائر ریفرنس نیب کے دائرہ اختیار میں رہیں گے اور اس حوالے سے دائر ریفرنسز پر احتساب عدالتیں ہی سماعت کریں گی۔ زر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
وفاقی حکومت نے ایک اور نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا - اردو نیوز پیڈیا
وفاقی حکومت نے ایک اور نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ایک اور نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق  صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے نیب کے تیسرے ترمیمی آرڈیننس 2021 کی منظوری کے بعد نیا آرڈیننس جاری کردیا گیا ہے۔ نئے نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت دائر ریفرنس نیب کے دائرہ اختیار میں رہیں گے اور اس حوالے سے دائر ریفرنسز پر احتساب عدالتیں ہی سماعت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 10 months ago
Text
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر ریٹائرمنٹ تک رخصت پر چلے گئے
احتساب عدالت راولپنڈی کے جج محمد بشیر طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے ریٹائرمنٹ تک چھٹیوں پر چلے گئے۔ ذرائع کے مطابق جج محمد بشیرنے اسلام آباد ہائی کورٹ اور وزارت قانون وانصاف کو خط لکھ دیا،نیب عدالت کے جج محمد بشیر  14 مارچ 2024  کو ریٹائر ہورہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق جج محمد بشیر نے 24 جنوری سے 14 مارچ تک چھٹیوں کیلئے خط لکھا،جج محمد بشیر کی جانب سے لکھا گیا خط ہائیکورٹ اور وازرت قانون انصاف کو موصول…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 4 years ago
Text
پاکستان میں احتساب کے نظام کی ناکامی
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہاں احتساب کا عمل ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ عمومی طور پر حکمرانی کے نظام میں موجود لوگوں نے اس احتساب کے نظام کو شفاف بنانے کے بجائے اسے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں احتساب کا نظام اپنی شفافیت اور ساکھ کو قائم کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوا۔ لگتا ہے کہ ان  طاقتور حکمرانوں کا مسئلہ احتساب نہیں بلکہ اس کو بنیاد بنا کر اپنی حکمرانی کے نظام کو مضبوط بنانا مقصود تھا ۔ اس وقت بھی ملک میں احتساب کی جنگ جاری ہے۔ نیب کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے ایجنڈے میں ایک بنیادی اور بڑا نکتہ احتساب کا عمل ��ھا۔ وزیر اعظم عمران خان کے بقول وہ احتساب کے عمل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، لیکن عمران خان کی حکومت بھی اس عمل میں کافی کمزور نظر آتی ہے اور وہ اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود احتساب کے عمل میں وہ نتائج نہیں دے سکی جس کا وہ عملی طور پر دعوی کیا کرتی ہے ۔
اس وقت پانچ بڑے الزامات سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہیں ۔ اول احتساب کو حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور سیاسی انجینرنگ کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔ دوئم یہ ایک باہمی گٹھ جوڑ ہے ۔ سوئم حکومت میں موجود لوگوں کو نہیں پکڑا جارہا اور سارا زور حکومتی مخالفین پر ہی ہے۔ چہارم تفتیش کے نظام پر بھی کڑی تنقید کی جارہی ہے کہ کئی کئی ماہ تک لوگوں کو زیر حراست رکھنا اور عدالتوں میں مقدمہ یا جرائم کے شواہد نہ پیش کرنا اور عدالتوں سے ان کی ضمانتوں کا ہونا تفتیش کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ پنجم ہماری عدالتیں بھی نیب کی کارروائیوں پر کڑی تنقید کر چکی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں کرپشن، بدعنوانی اور اقربا پروری سمیت ریاستی وسائل کی لوٹ مار کی کہانی اپنے اندر کئی سیاسی حقائق رکھتی ہے۔ کرپشن کسی ایک فریق نے نہیں کی بلکہ طاقت کے مراکز میں موجود تمام فریقین کسی نہ کسی شکل میں کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کا شکار رہے ہیں ۔ آج بھی کرپشن کا عمل کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور حکومت اس کے خلاف کوئی بڑا بندھ نہیں باندھ سکی۔
سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ان لوگوں نے کوئی کرپشن نہیں کی تو یہ سالانہ بنیادوں پر ہونے والی کرپشن کی کہانی کے حقائق کا ذمے دار کون ہے اور کون لوگ کرپشن کرنے کے ذمے دار ہیں ۔ اسی طرح یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ ماضی یا حال کی جو بھی سیاسی اور فوجی حکومتیں تھیں یا ہیں وہ کیونکر ایک منصفانہ ، شفاف اور خود مختار احتساب کا نظام قائم نہیں کر سکیں۔ کیا وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے پانچ پانچ برس کے اقتدار کے باوجود کوئی متبادل احتساب کا نظام قائم کیوں نہ کر سکیں جو ان کی سیاسی بدنیتی کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہماری سیاسی قیادتوں نے عملا کرپشن کے خاتمہ کے بجائے اس پر سیاسی سمجھوتے کیے اور سیاست و جمہوریت کو کرپشن کے حق میں استعمال کر کے ہماری قومی سیاست کو کرپٹ کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ملک میں کرپشن کے خلاف احتساب نہ ہونے کی وجہ محض کوئی ایک ادارہ نہیں بلکہ مجموعی طور پر تمام سیاسی، انتظامی ، قانونی اور پس پردہ طاقتیں سب ہی اس کی ذمے دار ہیں۔ 
ایک مسئلہ طبقاتی انصاف کا بھی ہے۔ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ احتساب کے عمل میں ایک طبقاتی طرز کی سوچ بھی غالب ہے ۔ طاقت ور اور کمزور کے درمیان ہمارا پورا احتساب کا نظام دہرا معیار رکھتا ہے اور اس تناظر میں جو ہمیں تضادات اور دوہر ے معیار کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم احتساب کے عمل میں کہاں کھڑے ہیں۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وائٹ کالر کرائم کو پکڑنا آسان نہیں ہوتا ، یہ درست ہے لیکن حکمرانی کے نظام کی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں اور قانون سازی کو یقینی بناتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ وائٹ کالر کرائم کے خلاف شکنجہ سخت کیا جاتا ہے ۔ دراصل جو بھی احتساب کا نظام ہو گا اس کی سیاسی و قانونی ساکھ اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے جب وہ نہ صرف بے لاگ ہو بلکہ وہ بے لاگ یا شفاف عمل سب کو نظر بھی آنا چاہیے ۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک ہم اداروں کو سیاسی ، انتظامی اور قانونی طور پر خود مختار نہیں بناتے تو شفاف احتساب کیسے ممکن ہو گا یہ ہماری سیاست ، پارلیمنٹ اور نام نہاد جمہوری نظام کی ناکامی ہے کہ ہم احتساب کا موثر نظام قائم نہیں کر سکے یا یہ ہماری ترجیحات میں کسی بھی طور پر بالادست نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سمجھتے تھے کہ یہ کام وہ اقتدار میں آکر آسانی سے کر لیں گے لیکن اب انھیں اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ ممکن نہیں۔ خود ان کی اپنی حکومت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو وزیر اعظم کو مشورہ دیتے ہیں کہ احتساب کے نظام کو پس پشت ڈالیں اور حکومت کریں، وگرنہ ان کے لیے حکومت کرنا مشکل ہو گا۔ بہرحال موجودہ صورتحال میں ہمیں احتساب کا عمل ناکام نظر آتا ہے ۔
سلمان عابد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
googlynewstv · 3 years ago
Text
نیب ترمیمی آرڈیننس کے بعد عدالتیں اور نیب مکمل کنفیوژڈ
نیب ترمیمی آرڈیننس کے بعد عدالتیں اور نیب مکمل کنفیوژڈ
حکومت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنے والے نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے عہدے میں توسیع کی خاطر نیب ترمیمی آرڈیننس کے اجرا کے بعد سے نیب اس وقت مکمل کنفیوژن کا شکار ہے۔ احتساب عدالتوں نے بھی آرڈیننس میں ترمیم کے بعد اپنے دائرہ کار سے نکل جانے والے کیسز از خود واپس نیب کو بھجوانا شروع کر دیئے ہیں جس سے نیب اور عدلیہ میں رسہ کشی کا تاثر پیدا ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف حکومت کی جانب سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
htvpakistan · 3 years ago
Text
صدر عارف علوی کے قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط
صدر عارف علوی کے قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط
صدر مملکت عارف علوی نے قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کر دیئے۔ آرڈیننس کو نیب ترمیمی آرڈیننس 2021ء کا نام دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے دوسراقومی احتساب ترمیمی آرڈیننس 2021ء جاری کردیا، صدرمملکت جتنی چاہیں گے ملک میں احتساب عدالتیں قائم کریں گے۔ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق احتساب عدالتوں میں ججز کا تقرر 3 سال کیلئے ہو گا، صدرمملکت متعلقہ چیف جسٹس ہائیکورٹ کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
نواز شریف کا ویزا اور اہل دربار کا جشن مسرت!
نواز شریف کا ویزا اور اہل دربار کا جشن مسرت!
اہل سرکار و دربار کے چہروں پر آسودگی اور بشاشت کی شفق بکھری ہوئی ہے۔ اونچے ایوانوں سے مبارک سلامت کی صدائیں اٹھ رہی ہیں۔ احساس کامرانی سے پیشانیاں دمک اٹھی ہیں۔ فتح مبین کے اعلانات کی گونج تھمنے میں نہیں آ رہی۔ اس فاتحانہ تفاخر اور چکا چوند کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ حکومت نے پاکستان یا عوام کے لئے کوئی تاریخی کارنامہ سرانجام دے ڈالا ہے۔ پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ منزل مراد تک آن پہنچا ہے۔ عوام کا لہو چوستی مہنگائی پر قابو پا لیا گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی بے ہنگم بے روزگاری کو لگام ڈال دی گئی ہے۔ اب ہمیں کشکول اٹھا کر گلی گلی صدا لگانے اور تماشائے اہل کرم دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ آئی۔ ایم۔ ایف کی زنجیریں کٹ گئی ہیں۔ پاکستان اب دوسرے ممالک کو اربوں ڈالر کے قرضے دینے لگا ہے۔ نگر نگر سے اعلی تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد نوکریاں تلاش کرنے پاکستان آرہے ہیں۔ہمارا روپیہ، ڈالر کو پٹخنی دے کر بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان کی کرنسی کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ہماری معیشت استحکام و عروج کی نئی بلندیوں کو چھونے لگی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی فلک بوس رفعتوں سے ہم کنار ہو گئی ہے۔ اب امریکی صدر جو بائیڈن، ہمارے وزیراعظم سے شرف ہم کلامی حاصل کرنے کے جتن کر رہا ہے۔ نریندر مودی صبح شام ”مس کالیں“ دے رہا ہے لیکن وزیراعظم کا اے۔ ڈی۔ سی بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔ کشمیر کے بارے میں امت مسلمہ سمیت ساری دنیا ہماری ہم نوا ہو گئی ہے۔ بھارت کسی آن مقبوضہ کشمیر سے دستبردار ہو کر، رائے شماری کے مطالبے کے سامنے سرنگوں ہونے والا ہے، افغانستان ہمارے اہداف و مقاصد کے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔ عالمی برادری کے تمام شکوک و شبہات دور ہو گئے ہیں۔ ہمیں گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں ڈالنے کے لئے، فاٹف کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
ان میں سے کوئی بات بھی حکومت کے چہروں پر کھیلتی ست رنگی قوس قزح کا سبب نہیں۔ اس جشن مسرت کی وجہ یہ دل کشاٰ خبر ہے کہ حکومت برطانیہ نے توسیع قیام کے لئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی درخواست مسترد کردی ہے۔ اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ برطانوی قانون کے تحت اپیل در اپیل کے مراحل طے ہونے اور نواز شریف کو پابہ جولاں، وطن عزیز لانے میں کتنے ماہ و سال لگیں گے۔ اس تمنائے بے تاب کو بھی ابھی لمبا انتظار کرنا ہو گا کہ کب ایک بار پھر نواز شریف کو کوٹ لکھپت یا اڈیالہ جیل کی کسی کال کوٹھڑی میں ڈال کر راحت قلب و جاں کا اہتمام کیا جائے۔یہ امر بذات خود بے پایاں خوشی اور بے کراں آسودگی کا حامل ہے کہ نواز شریف کی درخواست مسترد ہو گئی ہے بلاشبہ یہ حکومت وقت کی بہت بڑی کامیابی ہے اور اس پر جتنے بھی شادیانے بجائے جائیں، کم ہیں۔ کالم کی ابتدا میں خلق خدا کی کسمپرسی سے لے کر خارجہ پالیسی کی کم مائیگی تک بیان کیے گئے تمام مسائل فروعی اور سرسری نوعیت کے ہیں۔ نواز شریف کی درخواست کا مسترد ہوجانا، ایسی بے مثال تاریخی کامیابی ہے جس کے سامنے یہ تمام مسائل ہیچ دکھائی دیتے ہیں۔ اس پس منظر میں اہل سرکار و دربار کا جشن مسرت ٹھوس جواز رکھتا ہے۔نواز شریف نامی شخص ایک مدت سے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اسے راہ راست پر لانے کی کوئی کوشش اب تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کے دماغ میں یہ خناس سمایا ہوا ہے کہ پاکستان کا نظام اس آئین کے مطابق چلنا چاہیے جو سقوط ڈھاکہ کے سانحہ عظیم کے بعد اس سوختہ بخت قوم کو نصیب ہوا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر ادارے کو اس کی معینہ آئینی حدود کے اندر رہنا چاہیے جن کا ہمارے آئین سازوں نے بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ ذکر کر دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق، افواج پاکستان، سختی سے اپنے حلف کی پاسداری کریں۔
اس کے نزدیک پاکستان کی غربت، پسماندگی، اقوام عالم میں بے توقیری اور عدم استحکام کا سب سے بڑا سبب، عوام کے ووٹ کی توہین ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر 1970 ء میں، پہلے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیا جاتا تو نہ ملک ٹوٹتا نہ پاکستان کے ماتھے پر بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت کا داغ لگتا۔ ”اپنی گستاخانہ سوچ“ کو وہ ”ووٹ کو عزت دو“ کے چار لفظی نعرے میں سموتا ہے۔ مفہوم اس نعرے کا یہ ہے کہ کوئی طاقت کسی بھی مرحلے میں انتخابی عمل پر اثرانداز نہ ہو اور عوام کی حقیقی رائے کو سامنے آنے دیا جائے۔ ”عوام کی رائے“ کو ہر مصلحت اور ہر طاقت سے قوی اور بالاتر قرار دینا، ہر اعتبار سے ”اینٹی اسٹیبلشمنٹ“ بیانیہ ہے جسے باغیانہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اگر چہ قائداعظم نے 14 اگست 1947 ء کو اور بعد میں سٹاف کالج کوئٹہ میں یہی بات کہی تھی۔ مسلح افواج کا حلف لفظاً لفظاً پڑھ کر تلقین کی تھی کہ اس کی پاسداری کرو۔ لیکن نواز شریف کوئی قائداعظم تھوڑا ہی ہے کہ اس کا یہ بیانیہ قبول کر لیا جائے؟ اس کی یہ بیماری خاصی پرانی ہے۔ پندرہ سال پہلے اس نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے مل کر ”میثاق جمہوریت“ پر دستخط کیے تھے۔ محترمہ کے ساتھ مل کر ہی تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے آمریت شعار آٹھویں ترمیم کا خاتمہ کیا تھا۔اس کے جرائم کی طویل فہرست کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی وملکی مفاد کے نگہبانوں نے حتمی فیصلہ کیا کہ اس شخص کو جمہوریت کی گاڑی سے دھکا دے کر گرائے بغیر، جمہوریت کے نقش و نگار میں نکھار نہیں آ سکتا۔ سو ایک طویل المیعاد اور جامع منصوبہ تیار ہوا۔ اس کا آغاز اگست 2014 کے تہلکہ خیز دھرنوں سے ہوا۔ چار ماہ پر محیط یلغار اس کا قلعہ فتح نہ کر سکی تو نصف شب، گہری نیند سے جگا کر اسے پیغام دیا گیا کہ سلامتی چاہتے ہو تو استعفےٰ دے کر گھر چلے جاؤ۔ اس نے انکار کر دیا۔حکمت عملی، ہنرمندی کے ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ ڈان لیکس، پانامہ، فضول اور لایعنی قرار دی جانے والی پٹیشن اچانک معتبر قرار پانا، عجوبہ روزگار جے۔ آئی۔ ٹی، منفرد قسم کا بینچ، اور بے نظیر قسم کے فیصلوں سے گزرتی حکمت عملی نے ’اقامہ‘ کے پڑاؤ پر دم لیا اور وزیراعظم ”خائن“ ٹھہرا کر گھر بھیج دیا گیا۔ سپریم کورٹ سے ��نفرد حکم جاری ہوا کہ نیب اس کے خلاف ریفرنس دائر کرے، منفرد حکم جاری ہوا کہ احتساب عدالت تین ماہ کے اندر اندر (انتخابات سے پہلے) فیصلہ کرے، منفرد حکم جاری ہوا کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے والا ایک جج، احتساب عدالت کی نگرانی کرے گا تاکہ جج ”انصاف“ کے تقاضے پورے کرسکے۔ تقاضے پورے کرنے کے لئے اور بھی بہت کچھ کرنا پڑا۔ اس کی ایک جھلک نواز شریف کو سزا دینے والے جج ارشد ملک نے دکھائی۔ خود رائے ونڈ جاکر روتے ہوئے معافی کا طالب ہوا اور پھر اپنے اللہ کے پاس چلا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ”دو سال کی محنت ضائع ہو“ جانے والی داستان بیان کر کے عروسہ انصاف کے خوش جمال چہرے سے نقاب سرکایا اور خود عبرت کا نمونہ ہو گیا۔
نواز شریف کا واحد جرم یہی ہے۔ اسے جمہوریت کی گاڑی سے دھکا دینے کی حکمت عملی بظاہر کامیاب ہے۔ ستم یہ ہے کہ اسے عوام کے دلوں سے کھرچ نکالنے کا کوئی حربہ کارگر نہیں ہو رہا۔ ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ کی طرح بچے بچے کی زبان پر آ گیا ہے۔ اگر پاکستان میں کسی دن سلطانی جمہور کا سورج طلوع ہوا تو نواز شریف کی سزا اور ابتلا کے یہ دن اس کے تینوں عہد ہائے اقتدار پر بھاری پڑیں گے۔ قیدیں، جلاوطنیاں، ویزا کی مسترد شدہ درخواستیں اور ایک بے چہرہ بندوبست کا فاتحانہ رقص، اس کے نامہ اعمال کا حسن بن جائیں گے۔”ریاست مدینہ“ کے ”انصاف پرور“ حکمرانوں کو شاید یاد نہیں کہ نواز شریف نامی شخص کے علاوہ، پرویز مشرف نامی، ایک فرد بھی بیرون پاکستان بیٹھا ہے جو نو برس تک آئین پاکستان کو بھاری بوٹوں تلے روندتا، ججوں کو قید کرتا، من مانی عدالتیں بناتا اور من پسند فیصلے لیتا رہا۔ کوئی نامہ بر ادھر بھی تو بھجوا دو کہ یہ شخص ہمیں مطلوب ہے۔ نواز شریف پر سنگ الزام اور تیر دشنام برسانے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لئے کوشاں درباریوں کے چہروں پر مشرف کا نام لیتے ہوئے خوف کی پرچھائیاں کیوں تیرنے لگتی ہیں؟ نواز شریف گناہوں کی پوٹ ہے تو کیا مشرف کی قبائے داغ داغ سے فرشتوں کے پروں کی مہک آتی ہے؟ اگر اہل دربار کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تو ان کے چہروں پر مجرمانہ ندامت کے بجائے فاتحانہ تمکنت کیوں ہے؟
Source link
1 note · View note
informationtv · 4 years ago
Text
وزیراعظم نے ملک میں 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری دے دی
وزیراعظم نے ملک میں 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری دے دی
Tumblr media
ترجمان وزارت قانون کے مطابق نئی عدالتوں کا مرحلہ وار قیام مالی مشکلات کے ��اعث کیاجا رہا ہے وزیراعظم نے فنانس اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو مکمل تعاون کی ہدایت کی ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے پہلے مرحلے میں 30 احتساب عدالتیں قائم کی جائیں گی۔
خیال رہے کہ 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کا فیصلہ سپریم کورٹ کے حکم پر کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے مقدمے کی 21 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے 120 نئی…
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
حکومت 76سال کے چیئرمین نیب کو خلاف قانون توسیع دینا چاہتی ہے ، شاہد خاقان عباسی - اردو نیوز پیڈیا
حکومت 76سال کے چیئرمین نیب کو خلاف قانون توسیع دینا چاہتی ہے ، شاہد خاقان عباسی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  اسلام آباد: سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ حکومت 76 سال کے چیئرمین نیب کوخلاف قانون توسیع دینا چاہتی ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ سیاست میں نامناسب روش اختیار کی جا��ہی ہے، تین سال سے احتساب عدالتیں چل رہی ہیں لیکن انصاف نہیں ملا، جس پر الزام لگانا ہےاس کے خلاف مقدمہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 10 months ago
Text
احتساب عدالت نے فواد چوہدری کا مزید 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا
احتساب عدالت نے نیب کی مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فواد چوہدری کا مزید 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔ جہلم میں تعمیراتی منصوبوں میں خرد برد کیس میں فواد چوہدری کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا۔ فواد چوہدری کو احتساب عدالت اسلام آباد میں ڈیوٹی جج شاہ رخ ارجمند کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ دو افراد کو طلبی کے نوٹس جاری کئے تھے وہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes