#Shahab Nama
Explore tagged Tumblr posts
Text
Dangdut is The Music of My Country
JUNI 2010
“Neng, ikut abang dangdutan, yuk!” ajak seorang lelaki dewasa kepada seorang perempuan yang berjalan di depannya.
“Najis lo!” seru perempuan yang diajak itu dengan ketus.
Hahaha, pasti Sob-X tau kan potongan dialog di atas berasal dari film apa? Yup, Mendadak Dangdut yang dibintangi si cantik Titi Kamal. Tapi, kita nggak bakal ngomongin film itu kok. Kita bakal ngebahas dangdut sebagai musik itu sendiri. Hayo, siapa di antara Sob-X yang suka lagu dangdut? Nggak usah malu! Atau, masih ada yang menganggap dangdut musik nggak mutu? Wah, jangan berpikir sesempit itu atuh!
Walaupun orang Indonesia terdiri dari banyak suku dan etnis yang beraneka ragam, tapi salah satu akar budaya bahasa kita adalah bahasa Melayu. Nah, dari bahasa atau budaya Melayu ini, berkaitan erat loh dengan musik dangdut itu sendiri.
Dangdut merupakan salah satu genre musik yang berkembang di negara kita dan berakar dari musik Melayu pada 1940-an. Dalam perkembangannya, banyak terpengaruh musik India (tabla atau gendang) dan Arab (cengkok dan harmonisasi). Tahun 1970-an, dangdut telah matang dalam bentuk kontemporer. Sebagai musik populer, dangdut sangat terbuka terhadap musik lain, mulai keroncong, langgam, degung, gambus, rock, pop, bahkan house music.
Penyebutan "dangdut" sendiri merupakan tiruan dari suara permainan gendang yang khas dan didominasi bunyi dang dan ndut. Dalam sebuah artikel majalah awal 1970-an, nama "dangdut" sebetulnya sebutan sinis sebagai bentuk musik Melayu yang sangat populer di kalangan masyarakat kelas pekerja saat itu. Tapi, coba lihat dangdut saat ini. Semua kalangan menyukainya karena bisa buat goyang. Hehehe.
Itulah kenapa musik dangdut masih disukai dan tetap bertahan sampai saat ini. Karena dangdut adalah musik yang asyik buat dinyanyikan dan tentu saja… cocok untuk dibawa goyang. Ngaku deh, siapa sih yang nggak tergoda untuk menggoyangkan pinggul saat "Kopi Dangdut"-nya Fahmi Shahab melantun dari radio? Atau, siapa yang nggak tahan untuk menggerakkan tangan ketika Evie Tamala mendendangkan "Selamat Malam"? Wah wah wah, rasanya pengin goyang sampai pagi dah!
So, dangdut memang bukan musik bawahan. Buktinya, banyak yang suka dan penggemar fanatiknya juga banyak di penjuru Nusantara. Tiap resepsi pernikahan, bahkan kampanye pun, dangdut kerap disuguhkan sebagai hiburan. Jadi, nggak ada alasan buat nggak suka dangdut. Selain bisa menghilangkan penat kita karena musik dan goyangannya. Dangdut juga musik asli Indonesia. Sudah jadi kewajiban kita untuk melestarikannya.
Ifqhi Chal Bisri, mahasiswa Ilmu Administrasi Negara beropini, dia demen banget sama dangdut. Tapi, dangdut yang lama alias zaman Bang Oma. “Gue suka dangdut. Tapi, gue nggak demen kalau dangdut dibuat koplo. Gue paling demen sama lagu-lagunya Rhoma Irama. Lagu-lagu kayak "Begadang", "Mandul", dan "Judi" itu enak-enak tuh,” ungkap cowok yang biasa disapa Ichal ini.
Ichal mengaku suka dangdut sudah dari SMA karena sering mendengarkan ibunya menyetel lagu-lagu dangdut. See, dangdut emang asyik, kan? Dangdut emang is The Music of My Country dah! (naufal/xpresi)
0 notes
Text
اردو دنیا میں آج تک سب سے زیادہ فروخت ہونیوالی سوانح عمری شہاب نامہ
''شہاب نامہ ‘‘ایسی کتاب ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں اردو دنیا میں آج تک سب سے زیادہ فروخت ہونیوالی سوانح عمری ''شہاب نامہ‘‘ ہے، قیام پاکستان کے بعد قدرت اللہ شہاب اہم عہدوں پر فائز رہے انہوں نے اپنی خودنوشت کے کئی ابواب کو اسی دور کے حالات و واقعات سے مزین کیا ، قدرت اللہ شہاب نے کتاب میں لکھا کہ میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی جس رنگ میں وہ مجھے نظرآئے۔ کتاب کے پہلے حصے میں شہاب نے بہت سے زند ہ کردار تخلیق کئے ۔ ان کرداروں میں مولوی صاحب کی بیوی ، چوہدری مہتاب دین ، ملازم کریم بخش اورچندرواتی وغیرہ ۔ چندراوتی کا سراپا یوں لکھتے ہیں۔ رنگت میں وہ سونے کی ڈلی تھی اور جلد اس کی باریک مومی کاغذ کی تھی ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں، ایک روز وہ چھابڑی والے کے پاس تاز ہ گنڈیریاں کٹوانے کھڑی ہوئی تو میرے دل میں آیا ایک موٹے گنے سے چندرا وتی کو مار مار کر ادھ موا کر دوں اور گنڈیریوں والے کی درانتی سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے دانتوں سے کچر کچر چبا ڈالوں۔‘‘
چندراوتی شہاب نامہ کا بے مثال کردار ہے جس کے اندر محبت کا الائو دہک رہا تھا، لیکن وہ زبان پر نہ لا سکی اور مر گئی ۔ کتاب کا دوسرا حصہ ''آئی سی ایس میں داخلہ اور دور ملازمت‘‘پر مشتمل ہے ۔ کانگرس ہائی کمان کا خفیہ منصوبہ جو شہاب صاحب نے جوش جنوں میں قائداعظم تک پہنچایا یہ واقعہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ کتاب کے تیسرے حصے میں پاکستان کے بارے میں تاثرات ہیں ، اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اسلامی فلاحی ریاست کیسے بن سکتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں ''ہمیں حب الوطنی کا جذبہ نہیں بلکہ جنون درکار ہے ۔‘‘ کتاب کا سب سے اہم حصہ چوتھا حصہ ہے جس میں ''دینی و روحانی تجربات و مشاہدات‘‘ بیان کیے گئے ہیں ۔ یہاں ہم ان کی کتاب کے مختصر 3 پیرا گراف پیش کر رہے ہیں ۔'' میں نے دنیا بھر کے درجنوں سربراہان مملکت ، وزرائے اعظم اور بادشاہوں کو کئی کئی مرتبہ کافی قریب سے دیکھا ہے لیکن میں کسی سے مرعوب نہیں ہوا اور نہ ہی کسی میں مجھے اس عظمت کا نشان نظر آیا جو جھنگ شہر میں شہید روڈ کے فٹ پاتھ پر پھٹے پرانے جوتے گانٹھنے والے موچی میں دکھائی دیا تھا ۔‘‘
''جمہوریت کا سکہ اسی وقت چلتا ہے ،جب تک وہ خالص ہو ۔ جوں ہی اس میں کھوٹ مل جائے، اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی‘‘۔۔۔۔ ''صاحب اقتدار اگر اپنی ذات کے گرد خود حفاظتی کا حصار کھینچ کر بیٹھ جائے تو اس کی اختراعی ، اجتہادی اور تجدیدی قوت سلب ہو کر اسے لیکر کا فقیر بنا دیتی ہے ۔‘‘ قدرت اللہ شہاب گلگت میں 26 فروری 1917ء کو محمد عبداللہ کے ہاں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم پنجاب کے گائوں چمکویہ، ضلع انبالہ مشرقی پنجاب سے حاصل کی، اس وقت پنجاب تقسیم نہیں ہوا ��ھا ۔ بی ایس سی کی ڈگری 1937ء میں پرنس آف ویلز کالج جموں و کشمیر سے حاصل کی اور ماسٹر ان انگلش لٹریچر گورنمنٹ کالج لاہور سے 1939ء میں کیا۔ اور 1941ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہو گئے، ابتداء میں بہار اور اڑیسہ میں خدمات سرانجام دیں۔ 1943ء میں بنگال میں متعین ہو گئے قیام پاکستان تک وہیں رہائش پذیر رہے ۔ 1947ء میں پاکستان آئے آزاد کشمیر کی نوزائیدہ حکومت کے سیکرٹری جنرل بھی بنے جھنگ کے ڈپٹی کمشنر رہے ، 3 سربراہان ِ مملکت کے پرسنل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیئے یہ ہی نہیں ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر جیسے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
جس وقت جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا انہوں نے استعفیٰ دیدیا ۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہو گئے اب کچھ بات ہو جائے شہرہ آفاق کتاب'' شہاب نامہ‘‘ کی، ملک میں یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے ۔ ان کی کتاب کے چار حصے کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا حصہ قدرت اللہ کا بچپن اور تعلیم وغیرہ پر مشتمل ہے۔ قدرت اللہ شہاب اپنی خود نوشت ''شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ 9 جون 1938ء سے میں نے باقاعدہ ایک ڈائری لکھنے کی طرح ڈالی ۔اس میں ہر واقعہ کو ایک خود ساختہ شارٹ ہینڈ میں لکھا ۔ ایک روز یہ کاغذات ابن انشا ء کو دکھائے ۔ ابن انشاء کے کہنے پر کافی مدت بعد قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب کو لکھا ۔ کتاب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں ''خوش قسمتی سے مجھے ایسے دوستوں کی رفاقت نصیب ہوئی جن کا اپنا ایک الگ رنگ اور اپنی شخصیت میں ایک نام رکھتے ہیں۔
مثلاََ ابن انشاء ،ممتاز مفتی، بانو قدسیہ ،اشفاق احمد واصف علی واصف ،جمیل الدین عالی ،ریاض انور ،ایثار علی ، مسعود کھدر پوش ابن الحسن برنی ،اعجاز بنالوی اورابو بخش اعوان ۔ قدرت اللہ شہاب کی وفات کے بعد ان کے بارے میں جو کتابیں شائع ہوئیں ان میں ''ذکر شہاب‘‘ اور''مراد بریشم‘‘خاص طور پر مقبول ہوئیں جبکہ ان کے خطوط کے مجموعے بھی چھاپے گئے ۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل انہی کی کوششوں سے عمل میں آئی۔ حکومت کی جانب سے انہیں ستارہ ٔ قائداعظم اور ستارۂ پاکستان بھی دیا گیا۔ انکی تصانیف میں'' یاخدا، نفسانے ، سرخ فیتہ، ماں جی اور ''شہاب نامہ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے 24 جولائی 1986ء کو اسلام آباد میں 69 برس کی عمر میں وفات پائی۔
اختر سردار چودھری
بشکریہ دنیا نیوز
3 notes
·
View notes
Text
قائد اعظم نے قدرت اللّٰہ شہاب کو کیوں ٹوکا تھا ؟
شہاب نامہ کے خالق قدرت اللّٰہ شہاب نے اپنی خود نوشت میں قائداعظم سے پہلی ملاقات کا واقعہ تحریر کیا ہے جس میں وہ ایک خفیہ دستاویز کے ساتھ قائداعظم کی خدمت میں پہنچے تو قائد اعظم نے مدعا سننے کے بعد دوبارہ ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ شہاب نامہ میں مصنف نے اہم شخصیات کی اس طرح تصویر کشی کی ہے کہ چھوٹے سے واقعے یا وقوعے سے قاری کردار کے باطن تک جھانک لیتا ہے۔ شہاب نامے میں مصنف نے قائداعظم سے دو مختصر ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک بار جب وہ ایک خفیہ دستاویز حاصل کر کے ان تک پہنچاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ دستاویز نہایت مفید خیال کی جاتیں، قائد اعظم کی اصول پرستی اور عظیم شخصیت کی جھلک چند جملوں میں سامنے آجاتی ہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ یہ اپریل 1947 کی بات ہے کہ جب ہندوستان کی بساط سیاست پر مسلمانوں کے خلاف چالیں چلی جارہی تھیں، ایسے میں اُن کے ہاتھ خفیہ دستاویز لگی جس میں مسلمان افسران کو غیر قانونی طور پر عہدوں سے تبدیلی کا حکم دیا گیا تھا، اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ہوم، فنانس اور پریس ڈپارٹمنٹ میں ہندو افسران کو بھرتی کیا جائے۔ قدرت اللّٰہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’یہ حکم نامہ یا سرکلر پڑھ کر شدید دھچکا لگا، اور دل میں عجیب سی کشمکش ہوتی رہی، تاہم جلد ہی قائداعظم سے ملاقات کی نیت سے دہلی کے سفر پر روانہ ہو گیا۔‘ انہوں نے لکھا کہ قائد اعظم کے پرائیوٹ سیکرٹری کے- ایچ خورشید سے منت سماجت کرنے کے بعد بڑی مشکل سے دو روز بعد قائداعظم تک رسائی حاصل کی، وہ اپنے کمرے میں کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’قائداعظم نے فارغ ہو کر ایک نگاہ مجھ پر ڈالی اور کہا کہ کیا بات ہے؟ قدرت اللّٰہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’قائد کے سوال پر ایک ہی سانس میں مَیں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ میں قدرت اللّٰہ شہاب ہوں اور اس وقت اڑیسہ میں ڈپٹی ہوم سیکرٹری کے عہدے پر تعینات ہوں۔‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے کانگریس کا سرکلر قائداعظم کی خدمت میں پیش کیا وہ بڑے سکون سے پڑھتے رہے یہاں تک کہ ان کے جذبات میں ذرا سا بھی ارتعاش پیدا نہ ہوا۔‘ قائد اعظم سرکلر پڑھ کر فارغ ہوئے تو قدرت اللّٰہ شہاب کو سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا کہا، اور پوچھا کہ یہ تم نے کہاں سے حاصل کی؟
جواباً میں نے تمام روداد سنائی جس پر قائداعظم نے کہا، ویل ویل ، تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، یہ اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس خفیہ دستاویز کی ہر کاپی پر نمبر درج ہے، تمہیں اس حرکت کے کیا نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں کیا تم اس سب کے لیے تیار ہو؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جی سر میں اس کے لیے تیار ہوں‘ آخر میں انہوں نے جانے کی اجازت دی اور شفقت بھرے لہجے میں کہا کہ ’بوائے دوبارہ ایسا نہ کرنا۔‘
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
Qudrat Ullah Shahab
Qudrat Ullah Shahab (or Qudratullah Shahab; 26 February 1917 – 24 July 1986) (Urdu: قدرت الله شهاب) was an eminent Urdu writer and civil servant from Pakistan. He is best known for his autobiography, Shahab Nama.
After coming to Pakistan he was first posted in the Ministry of Commerce as a Deputy Secretary and then as Chief Secretary of the new state of Azad Kashmir at Muzaffarabad. Thereafter, he became Deputy Commissioner of Jhang, Punjab. He also served as Director of Industries of Punjab and dealt mostly with settlement issues concerning migration. He was appointed by Governor General Ghulam Muhammad his Principal Secretary and remained on this post during Iskander Mirza’s and Ayub Khan’s regimes. He served as Ambassador of Pakistan to Netherlands in 1962 and later as Secretary of Information and Education. He resigned after a clash with the new regime of Yahya Khan and opted for a self-imposed exile at UK. Shahab was elected a member of the executive board of UNESCO in 1968.
Literary works
Shahab had published in English and Urdu languages for contemporary newspapers and magazines of Pakistan Writers' Guild, founded at Karachi in January 1959.[3]
He is best known for his autobiography Shahab Nama.[4] In the first chapter, Shahab mentioned how the idea of writing a memoir occurred to him when he paid a visit to Ibn-e-Insha in London.[citation needed] While they were discussing the philosophy of life, it inspired him to pen his own experiences. The complete work was published after his death in 1986, and then soon became a favorite among the Urdu knowing circles of the Indian sub-continent.[citation needed]
Spiritualism
There has been much debate on the spiritual side of his personality. Mumtaz Mufti, Shahab's close friend and a well-known writer, wrote about it. Also in Shahab Nama, Shahab shared some of his spiritual experiences, especially the bewitched bungalow of 18 civil lines (Cuttuck) that contributed to his understanding of Parapsychology.[citation needed]
The real disclosure came in the final chapter of Shahab Nama that alluded to an out-of-world personality whom he used to call Ninety[5] as his spiritual guide. After Shahab Nama published, which was actually after Shahab's death, Mufti wrote his autobiography, Alakh Nagri, and openly discussed the hidden traits of Shahab's life. Mufti wrote in the foreword of the book:
"Since Shahab has opened his own secrets in the last chapter of Shahab Nama, I find no reason not to share experiences which I witnessed about the mysticism of Shahab"[6] – (English translation of the original text in Urdu).
Legacy
From the early days of Pakistan, Shahab worked with the national leadership country until the regime of Yahya Khan. Shahab revealed in Shahab Nama, as Mumtaz Mufti did in Alakh Nagri, that the idea of giving Pakistan the name "Islamic Republic of Pakistan" was actually proposed by him to Ayub Khan. Shahab argued in the parliament in favor of this idea, which was unanimously accepted by the leaders.[citation needed]
The last chapter of Shahab Nama about his exposure to spiritualism has been controversial.[7] Though throughout his lifetime, Shahab had enjoyed a respectful image among his colleagues and friends. Many of them paid him tributes in their essays and short stories. Notably, Mumtaz Mufti made him the subject of his autobiography Alakh Nagri and later dedicated another book Labbaik. Bano Qudsia, a veteran Urdu writer, wrote a book Mard-e-Abresham on Shahab's personality. A collection of essays about Qudrutullah Shahab has been compiled in a book, Zikr-e-Shahab.[8]
Death
Shahab died on 24 July 1986 in Islamabad and is buried in H-8 Graveyard Islamabad Pakistan.[
2 notes
·
View notes
Photo
قدرت اللہ شہاب کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں تھی اسی لئے انہوں نے ان صدور کے بڑے بڑے بت نہیں بنائے، انہیں کسی دوسری دنیا کی ناقابل خطا مخلوق کے طور پہ پیش نہیں کیا، بلکہ انہیں ایک عام انسان کی طرح ہی میرٹ پہ پرکھا ہے کورونا وائرس ایک عالمی وبا کے طور پہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ آئیے مل کے دعا کریں کہ اللہ پاک تمام انسانوں بلا تخصیص مذہب، بلا تخصیص قومیت ، بلا تخصیص رنگ و نسل اس وبائی مرض سے محفوظ رکھے۔ جو لوگ اس مرض کا شکار ہو گئے ہیں ان کو اس مرض سے مکمل شفا عطا فرمائے۔ آمین۔ اس مشکل وقت میں تمام انسانیت کو ایک ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم ان ڈاکٹروں، نرسوں اور میڈیکل اسٹاف کے شکر گزار ہیں جو اس مشکل وقت میں اپنی پروا کئے بغیر مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ اللہ پاک انہیں ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی کاوشوں کو کامیابی سے دوچار کرے۔
#Auto biography#Pakistan#Qudrat Ullah Shahab#Shahab Nama#Spirituality#قدرت اللہ شہاب#سونح حیات#شہاب نامہ
0 notes
Link
Nonton Film Mahasiswi Baru 2019 Full
Film Mahasiswi Baru 2019 Full Tak akan lekang oleh waktu, nama Widyawati sebagai aktris senior Indonesia sudah tak diragukan lagi kemampuannya. Widyawati yang malang melintang tampil di berbagai film pada periode ’70-an dan ’80-an tentu saja sudah tak muda lagi.
Namun, semangatnya untuk tetap berkarya dan menjadi muda bisa akan terlihat dalam film garapan MNC Pictures, yang berjudul Mahasiswi Baru. Berperan sebagai Lastri, Widyawati akan tampil bersama aktor dan aktris muda Indonesia lainnya.
Bergenre drama-komedi, seperti apa sinopsis film Mahasiswi Baru?
Sinopsis Mahasiswi Baru
Tuntunlah ilmu hingga tua. Setidaknya, ini yang dibenamkan di dalam pikiran Lastri (Widyawati) Ia kembali ke kampus untuk menjadi mahasiswi. Tentu saja, bukan mahasiswi yang datang dari generasi milenial, namun generasi yang sudah berusia 70 tahun.
Ingin ikut terlibat lebih muda, Lasti bergabung bersama sebuah geng yang diisi anak-anak muda seperti Danny (Morgan Oey), Sarah (Mikha Tambayong), Erfan (Umay Shahab), dan Reva (Sonia Alyssa). Geng ini sering membuat heboh di kampus.
" Nonton Juga : Ring Ring 2019 Full "
Gaya hidup anak muda pun menjadi bagian dari gaya hidup Lastri yang sudah berusia 70 tahun. ‘Bandel’ adalah konotasi yang pas ditempatkan bagi kehidupan Lasti. Anak-anaknya yang sudah dewasa sampai dibuat kerepotan.
Tak hanya itu, Lastri pun mampu membuat salah satu dosen senior sekaligus Dekan di kampus terpesona. Ujug-ujug ternyata, sang Dekan, Chaerul (Slamet Rahardjo) menyebutkan Lastri tidak layak menjadi mahasiswi karena kerap membuat heboh di luar aktifitas akademik.
" Nonton Juga : Polaroid 2019 "
Lalu, bagaimana kehidupan Lastri setelah menjadi Mahasiswi Baru? Film garapan sutradara Monty Tiwa ini akan tayang pada tanggal 8 Agustus di seluruh bioskop Indonesia. Buat kamu yang penasaran bagaimana cara Lasti tetap menjadi muda di usia senja, Langsung Nonton Aja Film Full nya di atas klik Play
lihat Cuplikan di bawah
youtube
#Mahasiswi Baru 2019#MahasiswiBaru2019#Film Mahasiswi Baru 2019#FilmMahasiswiBaru2019#FilmMahasiswiBaru#NontonMahasiswiBaru2019#Nonton Mahasiswi Baru 2019#Nonton Mahasiswi Baru#Nonton Film Mahasiswi Baru 2019#Nonton Film Mahasiswi Baru#FIlm Mahasiswi Baru Full#Nonton Mahasiswi Baru 2019 Full
1 note
·
View note
Text
H. Bokir dan Mpok Nori, Dua Tokoh Betawi Yang Namanya Diabadikan Menjadi Nama Jalan di Jakarta
H. Bokir dan Mpok Nori, Dua Tokoh Betawi Yang Namanya Diabadikan Menjadi Nama Jalan di Jakarta
Jalan H. Bokir bin Dji’un H. Bokir dan Mpok Nori, dua nama tokoh Betawi yang melegenda melalui karya-karyanya di industri hiburan tanah air. Keduanya dikenal oleh masyarakat luas saat bermain dalam serial pepesan kosong bersama Malih dan Bolot yang disutradarai oleh Ali Shahab. H. Bokir yang memulai karier sebagai seniman Betawi sejak usia 13 tahun kemudian semakin populer saat membintangi…
View On WordPress
#betawi#jakarta#jalan#lenong#namajalan#nori#perubahannamajalandijakarta#sanggar#Tokoh#tokohbetawi#topeng
0 notes
Text
Hana Hasanah Shahab Profile | Celebrities Biodata Tertangkap
Hana Hasanah Shahab Profile | Celebrities Biodata Tertangkap
Biodata Hana Hasanah Shahab Nama: Hana Hasanah Fadel MuhammadPolitician dan SocialiteKelahiran: 01 Sep 1969 (usia 52 tahun), Jakarta, IndonesiaWarganegara : IndonesiaTinggi: 1,71 mPasangan: Salim Reza Alatas (Cerai)Pekerjaan: Politisi, sosialita, senator, pebisnisPerumahan: Kota GorontaloPartai: Partai Persatuan PembangunanAnak: Fatimah Tania NadiraPendidikan: Sekolah Menengah Atas Negeri 34…
View On WordPress
0 notes
Text
Tag game🍃
I was tagged by @ladyvanserra 💕
rules: answer the 20 questions so your followers can get to know you better.
1. name: Sabah
2. nickname: Chikli
3. zodiac sign: Leo
4. height: 5’2
5. languages spoken: English, urdu, sindhi, kathiawari and hindhi (Does it count that i can read and write arabic and persian? If so then Yes)
6. nationality: Pakistani
7. favorite fruit: Apple
8. favorite season: Winter
9. favorite scent: nail paint, jasmine and smell of soil after rain⛈
10. favorite color: white and black
11. favorite animal: cats
12. favorite fictional character: Nesta FUCKING Archeron
13. coffee, tea, or hot chocolate: Tea🍵
14. number of blankets you sleep with: 2
15. when was your blog created: January, 2013
16. favorite subject: History
17. Currently watching: Watching Pakistan Election 2018 transmission rn
18. favorite band: Vital signs and Junoon
19. instruments played: Flute
20. favorite book: The winner's trilogy, Peer Kamil, Shahab Nama, Addicted series and many more.
Tagging: @howeverlongs and @accidental-rambler
5 notes
·
View notes
Text
قدرت اللّٰہ شہاب کون ہیں؟
پاکستان کے نامور بیورو کریٹ اور ادیب قدرت اللّٰہ شہاب 26 فروری 1917 کو متحدہ ہندوستان کے علاقے گلگت میں پیدا ہوئے تھے، ابتدائی تعلیم انہوں نے ریاست جموں و کشمیر اور چمکور صاحب ضلع انبالہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم -اے انگلش کیا اور 1941ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔ ابتداء میں شہاب صاحب نے بہار اوراڑیسہ میں خدمات سرانجام دیں۔ 1943ء میں بنگال میں متعین ہو گئے۔ آزادی کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل ہوئے۔ بعد ��زاں پہلے گورنر جنرل پاکستان غلام محمد، پھر اسکندر مرزا اور بعد ازاں صدر ایوب خان کے سیکریٹری مقرر ہوئے، پاکستان میں جنرل یحیی خان کے برسرِاقتدار آنے کے بعد انہوں نے سول سروس سے استعفیٰ دے دیا اور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہو گئے۔
انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شرانگیزیوں کا جائزہ لینے کے لیے ان علاقوں کا خفیہ دورہ کیا اور اسرائیل کی زیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ ان کی اس خدمت کی بدولت مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب رائج ہو گیا جو ان کی فلسطینی مسلمانوں کے لئے ایک عظیم خدمت تھی۔ شہاب صاحب ایک بہت عمدہ نثر نگار اور ادیب بھی تھے۔ ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور ان کی خود نوشتہ سوانح حیات “شہاب نامہ“ قابل ذکر ہیں۔
کچھ شہاب نامہ کے بارے میں شہاب نامہ مسلمانان برصغیرکی تحریک آزادی کے پس منظر، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔ شہاب نامہ دیکھنے میں ضخیم اور پڑھنے میں مختصر کتاب ہے۔ شہاب نامہ امکانی حد تک سچی کتاب ہے۔ قدرت اللّٰہ شہاب نے کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ، میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس رنگ میں وہ مجھے نظر آئے شہاب نامہ ایک تاریخی دستاویز ہونے کے ساتھ اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے ، کسی بھی پاکستانی بیوروکریٹ کی یاداشتوں پرمبنی یہ مشہور ترین تصنیف ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
Ini 3 Ulama Indonesia yang Pernah Menjadi 'Imam Besar' Masjidil Haram Makkah
KONTENISLAM.COM - 3 ULAMA Indonesia pernah menjadi Imam Besar Masjidil Haram, Kota Makkah, salah satunya yakni Syaikh Junaid Al Batawi ulama asal Betawi. Budayawan Betawi, Alwi Shahab dalam tulisannya menyebut bahwa sejak abad ke-18 orang Betawi memang banyak yang pergi ke Makkah. Mereka menjalankan ibadah haji dan karena perjalanan yang begitu sulit, setelah menunaikan rukun Islam ke-5, banyak yang tidak kembali ke tanah air dan bermukim di Makkah. Mereka yang bermukim di sana menggunakan Al Batawi sebagai nama keluarga. Menjadi kebiasaan para pemukim ketika itu menjadikan nama kota asalnya sebagai nama keluarga. Misalnya, Syech Abdul Somad al Falimbani dari Palembang, Syech Arsyad Albanjari dari Banjarmasin, Syech Basuni Imran al Sambasi dari Sambas, dan Syech Nawawi al Bantani dari Banten. Pada pertengahan abad ke-19 (1834), Syaikh Junaid, seorang ulama Betawi, mulai bermukim di Makkah. Ia pun memakai nama al-Betawi. Ia amat termashur karena menjadi imam di Masjidil Haram. Syaikh Junaid Al Batawi, yang diakui sebagai syaikhul masyaikh para ulama mashab Syafi’ie, juga mengajar agama di serambi Masjidil Haram. Nah berikut ini adalah ulama-ulama Indonesia yang pernah menjabat sebagai imam besar di Masjidil Haram: 1. Syaikh Junaid Al Batawi
Ini 3 Ulama Indonesia yang Pernah Menjadi 'Imam Besar' Masjidil Haram Makkah Syaikh Junaid Al Batawi lahir di Pekojan, Jakarta Barat. Ia adalah ulama asal Betawi yang pernah menjadi imam besar di Masjidil Haram. Ia wafat pada usia yang ke 100 tahun di Makah pada 1840. 2. Syaikh Muhammad Nawawi Al-Jawi Al-Bantani
Syaikh Muhammad Nawawi Al-Jawi Al-Bantani Selanjutnya adalah Syaikh Muhammad Nawawi Al-Jawi Al-Bantani yang lahir pada 1815 di Kampung Tanara, Serang, Banten. Di Makkah ia memperdalam ilmu agamanya kurang lebih selama 30 tahun. Ia merupakan ulama tersohor hingga akhirnya banyak orang yang berdatangan kepadanya untuk berguru. Kemudian tercatat pernah jadi Imam Masjidil Haram. Syekh Nawawi sendiri wafat di Makkah pada 1897. 3. Syaikh Ahmad Khatib Al Minangkabawi
Syaikh Ahmad Khatib Al Minangkabawi Syekh Ahmad Khatib bin Abdul Latif al-Minangkabawi adalah ulama yang lahir di Koto Tuo, Kabupaten Agam, Sumatera Barat, pada 26 Juni 1860. Sejak kecil ia dikenal memiliki kecerdasan yang luar biasa. Saat itu ayahnya, Syeikh Abdul Latif mengajaknya pergi ke Makkah, tepatnya saat ia berusia 11 tahun 1871 untuk menjalankan ibadah Haji. Namun sesampainya di Makkah, kala itu Ahmad (panggilannya) ingin menetap di sana guna menuntaskan hafalan Alqurannya. Selama di Makkah pun ia dikenal sebagai sosok yang alim dan hingga akhirnya ditunjuk sebagai imam dan khatib, sekaligus staff pengajar di Masjidil Haram.
from Konten Islam https://ift.tt/3mLKvOl via IFTTT source https://www.ayojalanterus.com/2021/09/ini-3-ulama-indonesia-yang-pernah.html
0 notes
Text
Ben Ali, Nadiyah Shahab Amal Hidup Sederhana
Ben Ali, Nadiyah Shahab Amal Hidup Sederhana
Umum mengetahui, pelakon Ben Ali dan isterinya, pelakon Nadiyah Shahab mempunyai perniagaan kek diberi nama Absolut Brands. Ben mendedahkan dia dan isteri mengambil bayaran gaji selepas syarikat itu ditubuhkan. Memilih gaya hidup sederhana dan tidak bermewah-mewah, Ben berkata gaji bulanan mereka tidak tinggi, cukup sekadar untuk perbelanjaan tetap. BACA:Ben Ali, Nadiyah Shahab Diiktiraf Individu…
View On WordPress
0 notes
Photo
Review Danur 3: Gagal Jadi Trilogi Penutup Berkat Ending Nanggung
ZETIZEN.ID – Sorry to say, tapi satu-satunya after-taste dari film ketiga dalam semesta Danur ini adalah penipuan. Gimana enggak? Dalam after credit Danur 2, diceritakan kalau bakal ada sosok hantu baru yang bakal meneror Risa. Menggunakan kebaya hijau, sosok tersebut diceritakan adalah seorang penari. Lengkap dengan konde dan berbagai hiasan kepala ala penari tradisional. Otomatis, Zetizen kebayang teror dengan berbagai aspek tradisional yang nggak cuma horror, tapi juga kaya plot twist. Ternyata, enggak ada penari apapun di Danur 3: Sunyaruri.
Sosok sentral dalam trilogi Danur terakhir (foto: IMDB)
Terus, sejak sebulan ini, teaser Danur 3: Sunyaruri ini wara-wiri diputar di bioskop. Risa yang masih diperankan oleh Prilly Latuconsina ini ditampilkan penuh luka di bawah derasnya hujan. Ia merangkak pilu sambil menangis dan memanggil-manggil kawan-kawan hantu kecilnya, Peter, Hendrick, William, Jansen dan Hans. Sementara sosok hantu jahat bukan cuma ditampilkan penuh darah, tapi juga berkuasa.
Sementara di Danur 3: Sunyaruri, kamu nggak akan menemukan hal itu. Dengan durasi sepanjang 1 jam 30 menit, film dibuka dengan kehidupan baru Risa dan Riri (Sandrinna Michelle) yang masih hidup berdua. Risa sedang menjalin kasih dengan Dimasta (Rizky Nazar), seorang penyiar radio yang dikelilingi kawan-kawan penuh keceriaan di tempat kerjanya. Ada Clara (Steffi Zamora), Raina (Syifa Hadju), dan Anton (Umay Shahab). Berbeda dengan dua film sebelumnya yang menceritakan hubungan Risa dengan Peter cs, kali ini Risa malah bermaksud untuk menutup mata batinnya dan memutus hubungan persahabatannya. Alasannya, Peter cs terus merengek pada Risa untuk menemani mereka bermain. Tipikal anak kecil banget, deh. Tapi karena Risa lagi puber dan labil, Risa pengen punya teman-teman manusia dan jadi orang yang normal.
Scene menyanyikan lagu penolak hujan yang exciting sekaligus bikin sedih (foto: Instagram/@danurmovie)
Finally, Risa terus menggumamkan niatnya untuk menutup gerbang dialog, begitu dia menyebut mata ketiganya. akhirnya, dia didatangi Kartika, sesosok hantu berpenampilan perempuan berambut panjang yang mengajak Risa mengatakan mantra dalam bahasa Sunda. Berikutnya, Risa malah merasa sunyi dan normal. Kondisi itu yang dinamakan sebagai ‘Sunyaruri’. Sayangnya, mata batin Risa bukannya menutup, malah mendatangkan sosok baru yang nggak cuma meneror Risa, tapi juga Peter cs. Ditambah dengan kondisi hujan yang terus turun, serta mata Risa yang tiba-tiba bengkak, membuatnya harus menghadapi hantu berwajah hancur tersebut.
Overall, Danur 3: Sunyaruri adalah film terburuk di antara semesta Danur lainnya. Alasan pertama, ending yang super nanggung! Zetizen nggak tahu apa perasaan kalian seusai nonton film mengecewakan. Kalau Zetizen sendiri, rasa kecewa, menyesal dan geregetan bercampur jadi satu. Selama 1 jam lebih beberapa menit, kita disuguhi teror yang sedemikian epiknya, dan ditutup dengan hal sederhana. Rasanya Awi Suryadi yang duduk di kursi sutradara ini nggak mau mengeksplor lebih jauh. Padahal bisa, tuh dibikin harus ada mantra penghapus kutukan atau menghadirkan sosok baru, atau apapun dibandingkan cuma membanting artefak, terus udah deh selesai.
Alasan kedua, plot twist yang sebenarnya bisa ditebak. Dear Awi, masih ada jutaan cara untuk menghadirkan wow-effect selain menghadirkan sosok kawan yang ternyata jadi lawan. Atau bahkan mengganti nama tokoh biar nggak kelihatan spoiler yang terang-terangan. Alasan ketiga, ada banyak hal yang luput dari pandangan Awi. Misalnya, mengklasifikasikan gender setan dan menentukan pakaian yang mampu mendeskripsikan setan tersebut. Nggak paham, ya? Contohnya gini, nih. Kenapa hantu Valak bisa dikenal sepanjang masa? Karena Valak adalah suster. Dan suster identik dengan penutup kepala plus baju panjang. Disini, sejak awal kita ditunjukkan kalau hantunya adalah Kartika si pembisik, tapi di bagian akhir, ternyata setannya cowok dan bapak-bapak. Masih bingung? Silahkan nonton sendiri. Kalau nemu pencerahan, silakan isi kolom komentar di bawah ya.
Alasan keempat, banyak tokoh yang nggak penting. Jangan marah kalau Zetizen bilang sosok Clara dkk cuma jadi pemanis. Kontribusinya enggak ada sama sekali. Alasan terakhir, Awi benar-benar butuh menyewa stylist dan make-up artist yang tahu cara mendandani setan jadi terlihat menakutkan, bukan jadi anak kecil yang bedaknya nggak rata. Selain itu, Prilly yang cantik jadi keliatan kaya orang abis gagal thrifting berkat pemilihan baju yang enggak banget, deh. Dear Awi, Zetizen punya banyak fashion stylist yang siap membantu, kok ?
But, di film Danur kali ini, Zetizen suka banget sama teknik pengambilan gambarnya yang bisa mengeksplor segala sisi. Misalnya angle dari luar atap waktu Risa dan Riri menggantung boneka pengusir hujan. Dan yang paling Zetizen suka adalah angle ala game yang menampilkan ponsel Risa. Selain angle-nya yang relatable, suara derai hujan dan guntur yang menggelegar benar-benar dekat dengan kita. Jadi jangan kaget kalau suatu hari nanti, tiba-tiba kamu jadi parno sendiri berkat scene ini. Good job!
Rating Zetizen: 6/10
Source : https://malangtoday.net/flash/nasional/review-danur-3-gagal-jadi-trilogi-penutup-berkat-ending-nanggung/
MalangTODAY
0 notes
Text
Shahab Nama By Qudrat Ullah Shahab PDF Download
Qudrat Ullah Shahab, was an eminent Urdu writer and civil servant from Pakistan۔ شہاب نامہ، مصنف : قدرت اللہ شہاب Book Name : Shahab Nama Author : Qudrat Ullah Shahab Category : Biography Books Language : Urdu
Download
Read the full article
0 notes
Text
Ini Arti Nama Anak Kedua Zee Zee Shahab - Prabu Revolusi
Aruma Manis Ini Arti Nama Anak Kedua Zee Zee Shahab - Prabu Revolusi Baru Nih Artikel Tentang Ini Arti Nama Anak Kedua Zee Zee Shahab - Prabu Revolusi Pencarian Artikel Tentang Berita Ini Arti Nama Anak Kedua Zee Zee Shahab - Prabu Revolusi Silahkan Cari Dalam Database Kami, Pada Kolom Pencarian Tersedia. Jika Tidak Menemukan Apa Yang Anda Cari, Kemungkinan Artikel Sudah Tidak Dalam Database Kami. Judul Informasi Artikel : Ini Arti Nama Anak Kedua Zee Zee Shahab - Prabu Revolusi
Zee Zee Shahab dan Prabu Revolusi ungkap arti nama anak kedua mereka yang baru lahir.
http://www.unikbaca.com
0 notes
Text
Cerita untuk Aron Ashab
Ehm, sejujurnya, saya tidak kenal sama sampeyan karena saya nggak pernah lagi nonton sinetron sejak era Bawang Merah Bawang Putih. Nia Ramadhani saja masih sekolah waktu itu, pun Revalina agaknya belum kenal Ringgo. Agnes Monica belum kekar karena masih bergelut dengan pernikahan dini.
Saya beneran baru tahu sampeyan dari keramaian netizen di linimasa perihal kalimat ini:
kena tilang operasi Zebra/Lilin. semua bisa damai karna doi tau gw “kamu kan Aron Ashab” trus gw blg “nahh tuh bapak tau. gimana saya mau pake helm pak rusak jambul saya gajadi Aron Ashab lagi ntar!” Akhirnya damai. Tanpa ngasi uang. :p #kemudianselfie
Saya juga tidak pernah nonton infotainment, jadi saya ketinggalan informasi mengenai sampeyan yang mengalami problema salah sebut dan penulisan nama: Aron jadi Aaron dan Ashab jadi Shahab. Dan waktu tulisan ini saya ketik, follower twitter sampeyan sudah 150 ribu, di instagram malah sudah 430 ribuan, plus situ jadi TTWW.
Untuk satuan publik figur, follower sebanyak itu dan status TTWW adalah berkah. Tidak banyak lho, orang Indonesia yang namanya bisa jadi TTWW selain peserta Indonesian Idol dan X-Factor. Sampeyan bisa bangga soal itu. Oh, dan kenapa TTWW, mungkin karena selfie jambul itu. Soalnya, sejauh hasil search, kebanyakan mengomentari itu, sih.
Jadi, mari kita dudukkan dulu masalahnya. Memang, di Jakarta Raya ini helm terasa tidak wajib. Mau di perempatan Matraman yang durasi lampu merahnya sama dengan durasi menanak nasi, sampai jalan Cakung-Cilincing yang penuh kawan-kawannya Optimus Prime, pasti ada saja yang nggak pakai helm. Memang, kepala ya kepala sendiri, sama dengan jambul—ya jambul sampeyan kok. Nggak masalah. Toh yang nggak pakai helm itu kadang-kadang pakai masker. Sepertinya dia hanya punya 1 paru tapi punya simpanan 9 kepala di rumah.
Terus kenapa saya bikin tulisan ini segala? Begini. Saya cuma mau cerita pengalaman saya tentang helm dan kepala.
Syahdan, di sebuah kawasan industri, seorang manajer buru-buru pulang karena istrinya mau melahirkan. Sore hari di kawasan industri itu macet. Jadi dia naik ojek, tanpa helm, persis seperti yang sampeyan lakukan. Dia mengejar lahiran istri, sampeyan menyelamatkan jambul. Yang terjadi kemudian adalah ojek itu jatuh, dan si manajer meninggal tanpa sempat menemani istrinya lahiran.
Itu pengalaman orang. Saya juga cuma diceritain sama tukang ojek, kok. Nah, sekarang saya mau cerita pengalaman sendiri.
Suatu malam saya menjemput pacar dari tempat kerjanya. Kebetulan sekarang dia sudah mantan—anggap saja informasi ini penting. Nah, di sebuah perempatan saya melihat sepeda motor melaju kencang dari arah saya dan dari sisi kanan. Tidak sampai dua detik, terdengarlah bunyi benturan. Saya kemudian berhenti dengan maksud memungut benda yang tersisa di jalan sehingga jalanan bisa dilewati lagi, lalu saya bisa memulangkan pacar dan mendapat kecupan malam.
Naasnya, yang saya lihat, bukan cuma benda yang tergeletak di aspal, tapi juga orang. Dia terkapar kejang di dekat trotoar, helmnya pecah berkeping-keping karena benturan. Tidak ada orang yang punya inisiatif langsung mengangkat, jadilah saya membantu seorang Bapak yang dari tadi memanggil-manggil lelaki-lelaki lain yang cuma berdiri memandang tubuh kejang. Kebetulan saya floorwarden di pabrik, jadi ada ilmu penanganan kecelakaan ini. Ketika saya angkat—dan pas jatah saya adalah kepala bagian belakang–darah mengucur deras. Dan ketika pelayanan medis hampir tiba, dia kejang hebat dan lantas diam. Mati. Iya, mati. Dia pakai helm, dan dia mati. Melihat helm saja begitu hancurnya, kalau dia nggak pakai helm, kiranya kepalanya sudah tidak berbentuk lagi.
Iya, saya cuma cerita doang kok, karena saya yakin orang-orang yang naik motor—baik sebagai pengemudi maupun penumpang—tanpa helm itu pasti belum pernah ketetesan darah dari kepala yang pecah akibat kecelakaan. Mungkin sampeyan juga, jadi jambul masih jadi perhatian utama. Nggak apa-apa, itu hak asasi jambulnya sampeyan. Kan saya juga cuma cerita.
Saya nggak mau ikut-ikutan netizen lain yang sampai ngetwit macam-macam soal sampeyan. Baiklah kita damai saja, toh sampeyan sudah nulis juga di IG, “kalau saya harus jadi korban karena ingin menunjukkan ketidak-benaran hukum di Indonesia (dalam hal ini hukum jalanan), saya rela. #darkknight – tolong dibenahi ya bapak @irjokowidodo @ahok_btp”.
Kebetulan sih sampeyan mengedit tulisan aslinya yang sudah kadung di-skrinsyut sama khalayak ramai. Mungkin memang ini seperti kata sampeyan, ketidakbenaran. Lebih tepatnya mungkin ketidakbenaran yang dipopulerkan. Saya jadi mikir, nih, sebenarnya maksud awal sampeyan adalah hendak berbagi ketidakbenaran atau apa?
Ya, sudah. Sekarang kan sudah tambah terkenal. Walau berkorban tapi kan nambah populer. Besok-besok lagi mau pakai helm atau nggak juga terserah situ. Saya cuma mau cerita, karena sekali lagi saya yakin nggak semua orang bakal dikasih jatah untuk ketetesan darah dari kepala yang bocor akibat kecelakaan lalu lintas.
Oh, iya, saya terlalu kudet sampai-sampai baru tahu sambil browsing: ternyata sampeyan pegiat video YouTube. Baiklah, semoga Kevin Anggara, si videomaker yang saya kenal, tidak ikut-ikutan bikin heboh model begini, deh. Lagipula Kevin naiknya TransJakarta dan nggak punya jambul. Jadi pasti aman.
Terakhir, salam buat Teteh Kimberly ya!
0 notes